جاوید اقبال-

١٨٦٠ء تا ١٩٢٠ء تک کے پورے دور میں احیائے جہاد کے لیے علمائے کرام نے بے مثال قربانیاں دیں۔ اس دور میں بنیادی مقصد انگریز کے نظام کو تہس نہس کرنا تھا اور اسلامی ریاست کے مقام کو ممکن بنانا تھا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ایک طرف مدارس کا جال پھیلایا گیا تاکہ ایک طرف اسلامی علمیت اور اسلام کے علمی سرمائے کا تحفظ کیا جاسکے اور دوسری طرف اسلامی ریاست کے قیام کے لیے برصغیر کے مختلف حصوں میں کئی تحاریک برپا کی جاسکیں۔ لیکن پے درپے ظاہری ناکامیوں کے بعد خصوصاً ١٩٢٤ء میں تحریک خلافت کی ناکامی کے بعد اسلامی ریاست کے قیام کو ایک ناقابل حصول ہدف کے طور پر علماء نے قبول کرلیا۔ اس کے بعد سیکولر جماعتوں مسلم لیگ اور کانگریس سے اشتراک عمل، دستوری وجمہوری ذرائع کا استعمال ہماری دینی جماعتوں کا عام طریقہ بن گیا۔ ان کے خیال میں غلبہ کافر اقتدار میں تحفظ اسلام کی یہی واحد حکمت عملی تھی قیام پاکستان کے بعد بھی اس لائحہ عمل کے تسلسل کو برقرار رکھا گیا۔

وہ جماعتیں جن کی فکر کا بنیادی محور احیائے جہاد تھا، انہوںنے بھی قیام پاکستان کے بعد ریاستی جدوجہد کے لیے جو نظریہ تشکیل دیا وہ یہی تھا کہ ہم دستورِ پاکستان کے اندر رہتے ہوئے جمہوری نظام کو اسلامیانے کی کوشش کریںگ ے اور چونکہ پاکستانی عوام اصولی طور پر غلبہ اسلام ہی چاہتے ہیں، اس کے لیے ہم تطہیر افکار کریں گے اور لوگوں کو یہ باور کرا دیں گے کہ پاکستان کے لیے دیانت دار قیادت ناگزیر ہے اور پیہم جدوجہد کی بنیاد ہم خیانت کار قیادت کو اکھاڑ پھینکیں گے اس کے لیے ہم نے ایک طرف رائے عامہ کی ہمواری کے لیے تن من دھن سے کام کیا اور دوسری طرف علماء کرام کے ستھ مل کر دستورِ پاکستان میں اسلامی شقیں شامل کرانے کی بھرپور جدوجہد کی۔

اس نظریاتی ماڈل پر کام کرنے کا ثمر یہ ہے کہ ہم نے دستور میں چند اسلامی شقیں شامل کروا دیں جو فی العمل معطل رہتی ہیں۔ تمام قوانین غیرشرعی نہ صرف برقرار ہیں بلکہ ان میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور دوسری طرف اپنی انتھک کوششوں اور جدوجہد کے باوجود ہم رائے عامہ کو غلبہ اسلام کے لیے ہموار کر سکے اور اس بات پر تیار نہیں کہ وہ سیکولر حکمرانوں سے چھٹکارا پائیں اور منصب اقتدار دین دار قیادت کو سونپ دیں۔ ساٹھ سال کا تجربہ ہمیں بتا تا ہے کہ لوگوں کی دبی وابستگیاں اب بھی سیکولرپارٹیوں کے ساتھ ہی ہیں۔ اور وہ اپنا راہنما اب بھی سیکولر پارٹیوں میں ہی تلاش کرتے ہیں۔ اور اس محاذ پر ہمیں پے درپے ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

اس ناکامی کے اسباب کا جب بھی تجزیہ کیا جاتا ہے تو ایک ہی نتیمہ نکالا جاتا ہے کہ جدوجہد کے مومینٹم کو اور تیز کرنے کی ضرورت ہے اور تحاریک اسلامی کے کارکنان کو اور متحرک ہونے کی ضرورت ہے، لیکن ہم نے کبھی اس بات کی ضرورت محسوس نہیں کی پاکستان کے مخصوص حالات میں ہم نے جو انقلاب اسلامی کا لائحہ عمل اور نظری ماڈل تیار کر رکھا ہے اس کا عمیق تجزیہ کیا جائے، اس کی ازسرنو تشکیل اور تبدیلی عمل میں لائی جائے۔ یہ بات اچھی طرح جاننے کے باوجود کہ نظریات کی وہ حیثیت بین ہوتی جو کہ عقائد کی ہوتی ہے عقائد تغیر پذیر نہیں ہوتے لیکن مخصوص حالات کے تناظر میں جو نظریے تشکیل پاتے ہیں۔ ان میں تبدیلی کی گنجائش یا انہیں بالکل بدل ڈالنے کی گنجائش موجود رہتی ہے اور اصولاً رہنی بھی چاہیے ورنہ جمود طاری ہوجاتای ہے اور جمود کا مطلب ”ایک جگہ ٹھہرے” رہنا ہیں بلکہ پیچھے جانا ہوتا ہے۔

ہمارے ناقص خیال کے مطابق انقلاب اسلامی کے لیے جس نظریاتی ماڈل کا تذکرہ کیا گیا ہے اس کی بنیاد پر ہونے والی کاوشیں اور جدوجہد کا مومینٹم نقطہ عروج پر ہے اور اس ماڈل کی بنیاد پر دینی جماعتوں کے لیے اس سے زیادہ تحرک ممکن نہیں ہے، اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ اس نظری ماڈل کا گہرا تجزیہ کیا جائے اور آیندہ لائحہ عمل کو مرتب کرتے ہوئے جہادی سیاست کو اولین حیثیت دی جائے، جہادی سیاست ہماری مراد یہاں یہ ہے کہ غالب نظام یعنی سرمایہ داری کے جزوی اصلاح کی بجائے اس کی مکمل تباہی کے لیے صف بندی عمل میں لائی جائے۔ کیونکہ اب حالات بدل چکے ہیں اور سرمایہ دارانہ نظام کی مکمل شکست وریخت ممکن ہے۔

اس مضمون کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ یہ شکست وریخت کچھ ممکن ہوتی ہے اور اسلامی نظام کا غلبہ کیونکر ممکن ہے۔ یہ انتہائی خام، ناقص کوشش کی جارہی ہے۔ اس کے لیے ہم پہلے چند نظری مسائل کو بیان کریں گے۔

١۔ نظام کی تعریف کرتے ہوئے بتایا جائے گا کہ اسلامی نظام اور سرمایہ دارانہ نظام کیا ہے اور ان میں کیا اصولی فرق ہے۔

٢۔ یہ واضح کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ سرمایہ دارانہ نظام میں جزوی اصلاح کی کوشش کیوں ناکافی ہے اور مکمل انقلاب کیوں ناگزیر ہے۔

اسلامی انقلاب کے حوالے سے مندرجہ ذیل چار مباحث پر بھی روشنی ڈالی جائے گی۔

١۔ اسلامی انقلاب کیا ہے اور کیا نہیں ہے۔

٢۔ اسلامی انقلاب کس کے خلاف آئے گا۔

٣۔ اسلامی انقلاب کون لاسکتا ہے۔

٤۔ اسلامی انقلاب کیسے آسکتا ہے۔

نظام کی تعریف، اسلامی نظام اور سرمایہ دارانہ نظام میں اصولی فرق:

انسان جس طرح کے احساسات جنم لیتے ہیں، ان احساسات کو وہ خاص طرح کی ترتیب دیتا ہے اور ترجیحات متعین کرتا ہے ان ترجیحات کی بنیاد پر وہ مخصوص طرز عمل اختیار کرتا ہے اور اس کے تعلقات مخصوص رخ اختیار کر لیتے ہیں، گویا انسان کی سوچ، عمل اور تعلقاتت میں گہرا ربط ہے۔ ہر شخص اپنے اعمال کا لامحاملہ ذمہ دار ان ہی معنوں میں ہے کہ دراصل وہی فیصلہ کرتا ہے کہ اس دنیا کے اندر اس کا مقام کیا ہے؟ اس کی زندگی کا مقصد کیا ہے، خیر اور شر کیا ہے اور وہ ان دونوں میں سے کس کو اختیار کرے اور جن مقاصد زندگی کا اس نے تعین کیا ہے۔ ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے اس کو کیسے اعمال وافعال اختیار کرنے چاہیں اور کیسے تعلقات استوار کرنے چاہیں، انسان کے ان تعلقات کا اظہار دو سطحوں پر ہوتا ہے۔

١۔ معاشرہ کی سطح پر

٢۔ ریاست کی سطح پر

معاشرہ اور ریاست دراصل ایک فرد کے دوسرے افراد سے مخصوص تعلقات کے دو اخبارات ہیں۔ معاشرہ ایسے اجتماع کو کہاجاتا ہے جو افراد بغیر کسی جبر واکراہ اپنی انفرادیت کے لیے قائم کرتے ہیں۔ گویا معاشرہ رضاکارانہ (Voluntary) صف بندی سے تشکیل پاتا ہے۔ مثلاً خاندان، قبیلہ، برادریاں، محلہ، عبادت گاہ، بازار ان سب جگہوں پر تعلقات رضاکارانہ ہوتے ہیں۔ گویا معاشرہ بہت سارے افراد کی مشترکہ سوچ اور اقدار کا عکاس ہوتا ہے اور جب ان اقتدار میں تبدیلی رونما ہوتی ہے تو وہ مخصوص معاشرتی ادارتی تنظیم بھی تغیر پذیر ہوجاتی ہے اور وہ نئے اقداری نظام کی غماز بن جاتی ہے۔ اس معاشرتی تنظیم کو ایک نطام جبر کی بھی ضرورت ہوتی ہے ۔ اس نظام جبر ریاست کہتے ہیں۔ ریاست مشترکہ معاشرتی اقدار کی بنیاد پر جائزوناجائز، حلال وحرام کے ان تصورات کو نافذالعمل بتاتی ہے جنہیں معاشرتی سطح پر مقبولیت حاصل ہو یا معاشرہ کے افراد اس کو برداشت کرنے پر آمادہ ہوجائیں۔ گویا ریاست محض نظام جبر نہیں بلکہ اقتدار کا وہ نظام جبر ہے جس کو عام مقبولیت یا عام برداشت حاصل ہو یعنی ریاست عوام الناس میں مقبول معاشرتی اقدار کو نافذالعمل بنانے کے لیے جبری صف بندی عمل میں لاتی ہے۔ مثلاً دورحاضر میں ان اداروں کی مثال عدلیہ، انتظامیہ یعنی فوج، پولیس وبیورکریسی اور محصولات وصولی کا نظام وغیرہ ہے۔

ہم نے اب تک انفرادیت، معاشرت اور ریاست کے تصورات کے بنیادی خدوخال بیان کیے ہیں ان تینوں کے باہمی ارتباط کا نام ”نظام” ہے۔ اس کو تہذیب بھی کہا جاتا ہے۔ ان تینوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ یہ تینوں تصورات ایک دوسرے پر اثرانداز بھی ہوتے ہیں اور ایک دوسرے سے اثرپذیر بھی ہوتے ہیں۔ ایک خاص انفرادیت کا ایک مخصوص معاشرت اور ریاست میں پنپنا آسان ہوتا ہے اسی طرح ایک مخصوص انفرادیت کے تعلقات کے تانے بانے سے مخصوص معاشرتی نظام اور ریاستی نظام تشکیل پاتا رہتا ہے اور پروان چڑھتا رہتا ہے۔

ایک اسلامی انفرادیت کا بنیادی کلمہ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے وہ اپنے ایمان ومعرفت کی وجہ سے اللہ کی عبدیت پر راضی ہوتا ہے اور اللہ بغاوت کو رد کرتا ہے۔ سا طرح اسلام میں اس دنیا کے لیے بھی اور اخروی دنیا کے لیے بھی ہدایت کا پورا نظام موجود ہے جو ہم تک انبیاء علیہم السلام، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین، تبع تابعین علمائے اسلام اور صوفیائے علام کے ذریعے پہنچنا ہے۔ اس لیے ایک مسلمان جس طرح عبدیت پر اصرار کرتا ہے اس طرح ایک نظام ہدایت پر بھی اصرار کرتا ہے۔ وہ دنیا کو اس رنگ ڈھنگ سے صبر کرتا ہے کہ اس کا خالق ومالک اس سے راضی ہوجائے، وہ اپنی زندگی کے ہر دائرۂ کار میں سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل اتباع کو ترجیح دیتا ہے۔

اس کے برخلاف ہم مغربی تہذیب کو دیکھیں جوکہ جاہلیت خالصہ ہے۔ اس کا یک عام باشندہ عقائد کے فساد کے شکار ہے۔ پہلی صدی عیسوی کے آخرتک بیشتر عیسائیوں نے ان عقائد کے ایک حصے کو رد کردیا جو حضرت مسیح علیہ السلام لے کر آئے اور جن کو حضرات جواریون  نے قبول کیا تھا۔ دوسری صدی سے چودھویں صدی تک عیسائیت حضرت مسیح علیہ السلام اور یونانی عقائد کا ایک مرکب بن گئی تھی۔ تحریک نشاة ثانیہ اور تحریک اصلاح مذہب نے مسیحی عقائد کو تقریباً رد کردیا اور یونانی عقائد اور افکار کی ایک مسیحی تشریح پیش کی ہے۔ انقلاب فرانس نے اس ظاہری نمائشی عیسائی ملمع کاری کو بھی ترک کردیا۔ اٹھارویں صدی کے آخرتک ہیوم اور کانٹ کے فلسفوں نے عبدیت کو عیسائیت سے کلیتاً بے دخل کرکے خدا سے بغاوت یعنی ”آزادی” کو یورپی عوام کا اساس عقیدہ بنا دیا۔ اور اس عقیدے کے بطن سے سرمایہ دارانہ نظام برآمد ہوا۔ سرمایہ دارانہ انفرادیت آزادی (خدا سے بغاوت) مساوات (ہر انسان کی مساوی آزادی) اور ترقی (دنیا کی ابدیت) کی اقدار پر ایمان لاکر قائم ہوتی ہے، جو شخص ان اقدار پر ایمان لاتا ہے وہ لازماً عبدیت، نظام ہدایت اور نظام خلافت کو ترک کر دیتا ہے۔ سرمایہ دارانہ معاشرہ اور ریاست کا قیام آزادی مساوات اور ترقی کا ذریعہ (Tool) ہے۔ دراصل اس ذریعہ سے انسان اپنی الوہیت کا اظہار کرنے کی کوشش کرتا ہے اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ کہ مغرب میں انسان کا بنیادی کلمہ لاالہ الا انسان ہے۔

اس بنیادی اور اصولی اختلاف کی وجہ سے اسلامی انفرادیت معاشرتی سطح پر جو تعلقات استوار کرتی ہے۔ اس سے ایک ”مذہبی سوسائٹی” وجود میں آتی ہے۔ جبکہ مغرب میں چونکہ آزادی کی جو ٹھوس شکل سامنے آئی وہ سرمایہ تھی اور سرمایہ دارانہ معاشرے میں ہر معاشرتی عمل بنیادی طور پر سرمایہ کی بڑھوتری کے عمل کے تابع ہوجاتا ہے۔ بڑھوتری برائے بڑھوتری کا یہ عمل اس وقت ممکن ہے جب حرص وحسد اور دنیا پرستی کسی انسان کا بنیادی وصف ہوجائے۔ ایسا فرد ”اغراض کا بندہ” بن جاتا ہے اور ایسی سوسائٹی جہاں سارے تعلقات اغراض ہی کی بنیاد پر ترتیب پانے لگیں اس کو ”سول سوسائٹی” کا نام دیا جاتا ہے۔ اسلامی انفرادیت کا وصف چونکہ اللہ کی عبدیت ہے اس لیے ایک اسلامی ریاست اس عبدیت کی توسیع اور استحکام کے لیے کاوشیں کرتی ہے اور اس نظام خلافت ونیابت کہا جاتا ہے۔ جبکہ مغرب میں تین طرح کی ریاستیں وجود میں آئیں۔ قوم پرستانہ ریاست، لبرل ریاست اور اشتراکی ریاست اور اس کی مختلف شکلیں۔ یہ دراصل سرمایہ دارانہ ریاست کے تین مختلف نام ہیں، کیونکہ اساسی اقدار میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اسی ریاست کا ایک ہی وظیفہ ہے کہ وہ ایک ایسی شخصیت کی تعمیر اور اس کی مستقل تخلیق کو ممکن بنائے جو آزادی یعنی خدا سے بغاوت کی قدر کو اپنے اوپر خیرمطلق کے طور پر مسلط کرسکے۔

سرمایہ دارانہ معاشرت کی پشت پناہ سرمایہ دارانہ ریاست ہوتی ہے کہ ”ری پبلک” کہتے ہیں۔ اس میں اقتدار عوام کے ان نمایندگان کے ہاتھوں میں ہوتا ہے، جن کو آزادی، مساوات اور ترقی کے فروغ کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے اس لیے ری پبلک کی اساس دستور فراہم کرتا ہے۔ جو حکمرانی کے وہ اصول متعین کرتا ہے جن کی بنیا دپر آزادی، مساوات اور ترقی کے علاوہ کسی اور چیز کی جدوجہد ناممکن ہوجائے۔ اس لیے دستور کی بنیاد پر حقوق العباد کو رد کردیا جاتا اور ”حقوق انسانی” کی فوقیت تسلیم کرلی جاتی ہے۔ گویا اس کے ذریعے سے عملاً کسی بھی فرد، گروہ یا اکثریت سے یہ حق چھین لیا جاتا ہے کہ وہ آزادی، مساوات اور ترقی کو رد کردے، یعنی دستور میںجمہوریت کو سرمایہ دارانہ زندگی تک محدود اور اس سے نھتی کردیا جاتا ہے۔

اس تمام بحث سے ہم مندرجہ ذیل خلاصہ اخذ کرسکتے ہیں۔

١۔ اسلامی نظام اور سرمایہ دارانہ نظام میں اختلاف کی نوعیت جزوی نہیں بلکہ اصولی اور بنیادی ہے۔

٢۔ اسلام ایک مکمل اور آفاقی نظام زندگی ہے جو کسی دوسرے نظام زندگی کا حصہ نہیں بن سکتا۔

٣۔ مغربی تہذیب جس نے سرمایہ دارانہ نظام کی شکل اختیار کرلی ہے ایک مکمل نظام زندگی جو کسی بھی دوسرے نظام زندگی کا حصہ نہیں بن سکتا۔

٤۔ گر کسی بھی ایک نظام زندگی کا غلبہ ہوگا تولازماً دوسرے نظام زندگی کے اقدار اور ادارے (معاشرتی وریاستی) تباہ تے چلے جائیں گے۔

٥۔ غلبہ اسلام کے لیے سرمایہ دارانہ نظام کو کلیتاً تباہ کرنا اشدضروری ہے۔

جزوی اصلاح یا مکمل انقلاب؟

جیسا کہ اوپر خلاصہ بیان کیا گیا کہ ہم اسلام کو ایک مکمل نظام حیات کے طور پر تسلیم کرتے ہیں اور سرمایہ دارانہ کو بھی ایک مکمل نظام حیات تصور کرتے ہیں اور اس بات کے قائل ہے کہ غلبہ اسلام کے لیے سرمایہ دارانہ نظام میں جزوی اصلاح ناکافی ہے اور اس نظام کی کلیتاً تباہی ناگزیر اور ضروری ہے۔ چونکہ مغربی تہذیب کی بنیاد وحی سے کامل انکار ہے اس لیے ہم مغربی تہذیب اور اس کے تمام مظاہر لبرل ازم نیشنل ازم، سوشلزم اور کمیونزم اور سوشل ڈیموکریسی وغیرہ کے نظریات کو جاہلیت خالصہ سمجھتے ہیں۔

انقلاب کا مقصد اس انفرادیت، معاشرت اور ریاست کی جانب مراجعت ہے جو سرکاری دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں یعنی خیرالقرون میں تعمیر کی گئی ہے۔ یعنی ہم سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کے تمام سنتوں کا مکمل احیاء چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ انفرادیت، معاشرت وریاست کلیتاً تباہ ہو اور اس کی جگہ ایک ایسی انفرادیت، معاشرت وریاست قائم ہو جہاں سارے فیصلے اسلامی علمیت کی بنیاد پر مرتب ہوں۔

اصولی طور پر ان تمام باتوں کو ہماری جماعتیں درست تسلیم کرتی ہیں۔

لیکن عملاً پاکستان کے اندر جوکہ استعمار کی ایک باج گزار ریاست ہے ہماری جدوجہد جمہوری نظام کو اسلامی خطوط پر مرتب کرنے کی جدوجہد رہی ہے۔ یا پھر کچھ جماعتوں نے نظام اقتدار کے مسئلے پر دانستہ صرف نظر کیا اور سرمایہ دارانہ نظام کے اندر ہی تحفظ اسلام کے لیے انہی تمام کاوشوں کو مرکوز کردیا۔ ہماری پچھلی ساٹھ سالہ تاریخ نے ثابت کردیا کہ یہ رائے درت نہیں ہے جمہوری نظام کو اسلامیانے کی جدوجہد شاید کچھ ضمنی اور محدود فوائد تو حاصل کیے جاسکتے ہیں، لیکن اس طریقے سے پاکستان کے مخصوص حالات میں غلبہ اسلام ناممکن ہے۔ غلبہ اسلام کے لیے ہمیں انہدامی اور جہادی ریاست کے احیاء اور نظریاتی بنیادیں مستحکم کرنا ہوںگی اور کسی بھی جزوی اصلاح ی بنیاد پر سرمایہ دارانہ نظام کو شکست نہیں دی جاسکتی۔ اس کے لیے ہمیں اسلامی انقلاب کی طرف پیش رفت کرنا ہوگی۔

اسلامی انقلاب کے حوالے سے ہم اپنے چارسوالات کی جانب اٹھتے ہیں اور ان کے کچھ متعین جوابات تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

١۔ اسلامی انقلاب کیا ہے اور کیا نہیں ہے:

”غالب سرمایہ دارانہ نظام کو کلیتاً منہدم کرکے اس کی جگہ اسلامی نظام کا قیام اسلامی انقلاب ہے اس انہدام میں سرمایہ دارانہ شخصیت، انفرادیت، اس شخصیت کو استحکام اور پروان چڑھانے والی معاشرت اور تمام معاشرتی ادارے اور ان کوتحفظ دینے والی سرمایہ دارانہ ریاست کا مکمل انہدام ضروری ہے۔”

سوچ وبچار کے لیے یہ نکات بھی بہت اہم ہیں کہ اسلامی انقلاب کیا نہیں ہے، خصوصاً پاکستانی سیاست کے تناظر میں ان پر ضرور غور وفکر ہونا چاہیے۔ ویلفیئراسٹیٹ ایک یورپی تصور ہے جو سرمایہ دارانہ ریاست کے اندر ہی کچھ سوشل حقوق کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ ہماری خلافت وامارت ان معنوں میں ماڈل ویلفیئر ریست ہرگز نہیں تھی۔ اس لیے ایک ویلفیئر اسٹیٹ جو سوشل حقوق کے تحفظ محض کے لیے وجود میں آئے اسلامی خلافت امارت کے مماثل نہیں ہوسکتی۔

اسلامی انقلاب طبقاتی کشمکش پید اکرکے نہیں لایا جاسکتا اس لیے ظلم کو بنیاد بنا کر اور نفرت کو جذبات پروان چڑھا کر سوشلسٹ انقلاب کی راہ تو ہموار کی جاسکتی ہے۔ اسلامی انقلاب اس سے پس پشت جلا جاتا ہے۔

انسانی حقوق کی بنیاد پر جدوجہد استوار کرکے لبرل اسٹیٹ کی راہ ہموار کی جاسکتی ہے۔

اجتماعی حقوق کی تحریک چلا کر سوشل ڈیموکریسی ہی کو مقبول عام بتایا جاسکتا ہے۔

پاکستانی قوم پرست یا مسلم قوم پرست آدرشوں کو سند جواز عطا کرکے ایک قوم پرست ریاست میں وجود میں آسکتی ہے ایک آفاقی اسلامی انقلابی جہادی ریاست کے قیام کی بنیادیں منہدم ہوجاتی ہیں۔ لہٰذا قوم پرستی کو بنیاد بنا کر بھی اسلامی خلافت وامارات کا قیام ناممکن ہے۔

٢۔ اسلامی انقلاب کون لاسکتا ہے:

اسلامی انقلاب وہی لوگ لاسکتے ہیں جو اسلامی علمیت اور علوم کا گہرا شعور وادراک رکھتے ہوں اور وہ اسلامی علمیت کی برتری کے قائل ہوں۔ ایسے لوگ ظاہر علمائے کرام کی صفوں میں موجود ہیں۔ جنہوںنے اسلامی علمیت کو سبقاً سبقاً پڑھا اور یہی قال اللہ قال الرسول کو سب سے بہتر جانتے ہیں۔ یہی اس بنیاد پر فیصلہ کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں کہ اللہ کی مرضی کیا ہے۔ سرکار ددعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے علماء ہی کو اپنا وارث قرار دیا ہے اور وہی امامت کے لائق ہیں۔ اسلامی انقلاب پڑھے لکھے باعمل مسلمان نہیں لاسکتے وہ انقلاب میں مدد دے سکتے ہیں۔ لیکن اسلامی انقلاب کے لیے فیصلہ کن حیثیت علمائے کرام ہی کی ہوگی۔ جب باطل نظام سے قوت ٹرانسفر ہوگی تو وہ ظاہر ہے کہ خلاف میں تو بڑا ٹرانسفر نہیں ہوسکتی وہ قوت فطری اسلامی اداروں میں ہی مشتمل ہوگی یعنی مسجد اور مدرسہ ہی پبلک یونٹ اور بنیادی گورننگ یونٹ بن سکتے ہیں۔ اور یہاں صف بندی علماء نے ہی ممکن بنا رکھی ہے۔ اس لیے بھی لامحالہ قیادت مذہب علماء کرام ہی کے حصے میں آئے گا۔

٣۔ اسلامی انقلاب کس کے خلاف آئے گا؟

اس وقت پاکستان استعمار کی ایک باجگزار ریاست ہے ان معنوں میں کہ پاکستان کی معاشی، خارجہ، سیاسی اور حتیٰ کہ معاشرتی پالیسیاں بھی استعمار کے زیراثر تشکیل پاتی ہیں۔ اس نظام کے مرافقین اسلامی انقلاب کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ یہ لوگ سیکولر اور لبرل سیاسی پارٹیوں کے علاوہ سول اور فوجی بیوروکریسی میں بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ اسلامی انقلاب ان کی سیادت وقیادت کا خاتمہ کر دے گا۔ اسلامی انقلاب اس سول سوسائٹی (این جی اوز، سیکولر وغیرہ) کے خلاف بھی ہوگا، جو اسلامی نظام کے قیام کی راہ میں رکاوٹ ہے۔

٤۔ اسلامی انقلاب کس طرح آئے گا:

ہماری جدوجہد پاکستان میں جمہوری نظام کو اسلامی خطوط پر مرتب کرنے کی جدوجہد رہی ہے۔ پچھلی ساٹھ سالہ ساریخ نے ثابت کردیا ہے کہ یہ رائے درست نہیں ہے۔ ایک دیندار، مخلص اسلامی جماعت کی جمہوریت اور جمہوری عمل میں شمولیت کا نتیجہ پیہم شکستوں کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے۔ سیکولر جماعتوں سے علامتی اسلامی بنیادوں پر اتحاد بھی ہم بارہا کر چکے ہیں کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ سیکولر جماعتیں کامیاب ہوجاتی ہیں اور ہم اپنے آپ کو یہ دعویٰ کرنے میں حق بجانب سمجھتے ہیں کہ یہ کامیابی ہماری تایید کی بناء پر حاصل ہوئی ہے لیکن جب سیکولر حکومتیں کاروبار سلطنت مرتب کرتی ہیں تو ہمارے کارکنان تحاریک اسلامی اس میں اسلام کی رمق تک نہیں پاتے۔ اور ہماری اسلامی جماعتیں اس سیکولر جماعت کی ناقد بن جاتی ہیں اور اس سے ایسے مطالبات شروع کردیتی ہیں جن کو پورا کرنا حکومت کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ یوں پھر ہم اس حکومت کے خلاف تحریک چلاتے ہیں جو کبھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوتی کیونکہ ہمیں اس ملک میں عوامی تایید حاصل ہیں اس طرح ایک سیکولر حکومت کی جگہ دوسری سیکوکر حکومت لیتی رہتی ہے۔

انقلاب ہمیشہ ایک اقلیت ہی لے کر آتی ہے اور عوام الناس محض اسے برداشت کرتے یا اسد کا ساتھ دیتے ہیں۔ لوگوں کو یہ تایید حاصل کرنے کے لیے محض تطہیر افکار کا عمل ناکافی ہے۔ لوگوں کے قلب میںمکمل تبدیلی تطہیر وتزکیہ نفس سے ممکن ہوتی ہے جس قلب میں جذبہ عشق ومحبت موجزن ہوجات ہے وہ فرد اسلام کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے پر راضی ہوجاتا ہے اور یہ کام محض وعظ تلقین اور عوامی اجتماعات سے نہیں ہوسکتا۔ ان اجتماعات سے افراد میں مستقل اسلامی تشخص اجاگر نہیں۔ اس کے لیے ہمیں حضور سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ہمیں جوسبق ملتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عوام الناس کے قلوب کو تبدیل فرما کر انہیں اللہ کا عبد بنا دیا۔ اس طرح غلبہ اسلام کی راہ ہموار ہوئی۔ اسلامی جماعتوں کے سامنے بھی بنیادی چیلنج یہی ہے کہ وہ لوگں کی خواہشات اور میلانات کو تبدیل کرکے غلبہ اسلام کو ممکن بنائیں۔ جمہوریت اور انتخابی سیاست تشخص اسلامی کو کمزور کرنے کا باعث بنتی ہے کیونکہ اس جدوجہد میں لوگوں کو مادی اغراض پورا کرنے کے نام سے اکٹھا کیا جاتا ہے۔ اگر اسلامی تحریکیں مادی مفادات کے حصول کی بنیاد پر لوگوں کے جمع کرنے کا کام مصلحتاً کرتی ہیں کہ اس طرح پہلے اپنے حلقہ اثر کو وسیع کرلیں تو ان کو سوچنا چاہیے کہ اس طرح ان کا حلقہ اثر وسیع ہونے کی بجائے اور سکڑنا شرو ع ہوجاتا ہے کیونکہ لوگ لالچ، حرص وحسد میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور اسلامی انقلاب کا کام ایثار قربانی کا متقاضی ہے۔

٭ ہم نے اسلامی نظام اور سرمایہ دارانہ نظام کے موازنہ کی جو بحث کی ہے اس گفتگو کا خلاصہ یہ نکلتا ہے کہ انقلاب ایک پیچیدہ عمل ہے۔ یہ محض الیکشن میں اکثریت حاصل کرکے سرمایہ دارانہ انتظامیہ کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرلینا نہیں ہے ، سرمایہ دارریاست کے موجود اداروں سے اسلام کے نفاذ کی کوشش عبث ہے اس کے لیے ایسے نئے متوازی ادارے بنانے کی ضرورت ہے جو اسلامی جدوجہد کا اظہار ہوں۔ اس کو ممکن بنائیں اور اس کی توسیع کریں تاکہ اس کے نتیجے میں سرمایہ دارانہ اداروں سے عام لوگوں کا اعتبار اٹھ جائے۔

٭ معاشرتی ادارتی صف بندی سے اس کا م کا آغاز کیا جاسکتا ہے اور اس سے نئی طرح کے سیاسی کام کی بنیادیں بھی کھڑی کی جاسکتی ہیں۔ ان کاموں میں دو کام بہت اہم ہیں۔

١۔ حلال رزق کی فراہمی کا بندوبست اولاً تحریک اسلامی کے اپنے کارکنان کے لیے اور ثانیاً عوام الناس تک اس کی توسیع کا انتظام۔

٢۔ لوگوں کے معاملات کے شرعی فیصلے کرنا۔ تاکہ لوگ چھوٹے سے چھوٹے معاملے میں بھی اسلامی علمیت کی برتری کو تسلیم کرلیں۔ معاشرتی صف بندی کے ان کاموں کی طویل فہرست مرتب کی جاسکتی ہے۔ جن سے حقیقتاً قوت اور اقتدار ہماری طرف ٹرانسفر ہوسکتا ہے۔ ان معاشرتی کاموں کے لیے مساجد اور مدارس کو محور ومرکز بنانا چاہیے اور تحفظ اسلامی کی جماعتوں (تبلیغی جماعت اور دعوت اسلامی اور سلاسل طریقت، مدارس) کے ساتھ مل کر یہ عظیم کام انجام دیا جاسکتا ہے۔

٭ پاکستان پر حکمرانی کرنے والے سب سیکولر لوگوں کی یہ شدید خواہش ہے کہ پاکستان کے اندر سرمایہ دارانہ ادارے مضبوط ہوں اور استعمار بھی اس کام کے لیے تیکنیکی اور مالی سپورٹ فراہم کرتا ہے اور کوشش کی جاتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ ان اداروں کے اندر سمو دئیے جائیں۔ اس نظام میں ہماری شمولیت سرمایہ داری کو مزید سندجواز عطا کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ تمام انقلابات (ایران، فرانس، روس) کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ غالب نظام کا انہدام اس ریاست کے متوازی نئے اداروں کے قیام کی وجہ سے ہی ممکن ہوتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہر جگہ ایسے ادارے ماقبل انقلاب وجود میں آچکے ہوتے ہیں جنہیں ہم ریاست کے اندر ریاست سے تعبیر کرسکتے ہیں۔

٭ الیکشن میں ہماری شمولیت نے ہمیں پیہم شکستوں سے دوچار کیا ہے۔ فیصلہ ہم نے کرنا ہے کہ اب بھی ہم نے پے درپے شکستیں کھانی ہیں یا پھر اپنی جدوجہد اسلامی خطوط پر مرتب کرنے کا کام کرنا ہے۔ اگرہم آیندہ کی حکمت عملی میں معاشرتی اداروں کی صف بندی کے کام کو اولیت دیں تو ان شاء اللہ تعالیٰ ہمارے لیے نئی راہیں کھول دے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *