سیکولرازم(Secularism) کے تصور کا بانی ایک عیسائی مفکر سینٹ آگسٹین(Saint Augestene) ہے۔ سینٹ آگسٹین نے چوتھی صدی عیسوی میں ایک کتاب ”سٹی آف گاڈ (City of God) لاطینی زبان میں لکھی۔ اس کتاب میں کہا گیا ہے کہ دنیا میں عملاً دو سلطنتیں ، یعنی دو نظامِ اقتدار قائم ہیں ایک نظام ہے، ”سٹی آف گاڈ” جس میں خدا کی حکمرانی ہے۔ اس نظام کو چرچ مرتب اور نافذ کرتا ہے، اور یہ نظام خدا اور انسان کے رشتہ کو قائم رکھنے اور مضبوط بنانے کا ذمہ دار ہے۔ یہ نظام عیسائیت کی تشریح اور تنفیذ کرتا ہے، اس نظام کا حاکمِ مطلق ”پوپ” ہے، پوپ عیسائیت کی جو تشریح چاہے کرے کیوں کہ روح القدس (Holy ghost) ہر پوپ میں حلول کرجاتی ہے۔ ہر عیسائی پوپ کا بندہ ہے۔

دوسرا نظام ”سٹی آف مین” (City of man) ہے۔ اس نظام کا مقصدِ وجود… انسانوں کے آپس کے تعلقات کی ترتیب اور تدوین ہے اور ان کے دنیوی اغراض و مقاصد کا فروغ ہے۔ اس نظام کو چلانے کے لیے اقتدار رومن شاہنشاہ Roman emperor کو پوپ سونپ دیتا ہے۔ اور رومن شہنشاہ رومن قانون (Roman Law) جس کا ماخذ روم کی روایات ہیں۔ رومن شہنشاہ اسی رومن لاء کے ذریعے ”سٹی آف مین” پر حکومت کرتا ہے۔ City of man میں رومن شہنشاہ انہی معنوں میں حاکمِ مطلق ہوتا ہے جن معنوں میں پوپ City of God میں حاکم ِمطلق ہوتا ہے۔ رومن شہنشاہ کو حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ رومن لاء کی جو تشریح چاہے کرے۔

چوتھی صدی عیسوی میں رومن شہنشاہ Constantine نے عیسائیت قبول کرلی۔ اور سینٹ آگسٹین کا وضع کردہ سیکولرازم (Secularism) کا یہ تصوراتی نظام تقریباً ہزار سال تک یورپ میں نافذ العمل رہا۔ اس نظام کے خلاف منظم بغاوتیں چودہویں اور پندرہویں صدی میں شروع ہوئیں، یہ سبھی مذہبی بغاوتیں تھیں، اور ان کے برپا کرنے والے پروٹسٹنٹ عیسائی فرقے تھے۔ ان فرقوں نے پوپ کے City of God کے اقتدار کے خلاف بغاوت کی۔ ان بغاوتوںکو مقامی سیاسی مقتدر خاندانوںکا شمالی یورپ میں بھر پور تعاون حاصل تھا۔ جہاں جہاںیہ تحریکیں کامیاب ہوئیں وہاںمطلق العنان بادشاہت Absolute Monarchy قائم ہوئی۔ اور ایک قومی چرچ (National Church) وجود میں آیا، جس کا سربراہ قومی بادشاہ قرار پایا۔ اس دور کے آخر میں ایک کلیدی معاہدہ Treaty of west phalia کے ذریعے سیکولرنظام کی ایک نئی تشریح کی گئی۔ متصادم ریاستیں Catholic اور Protestant اس بات پر متفق ہوگئیں کہ ہر مطلق العنان بادشاہ اپنے راعی کا یہ حق تسلیم کرے گا کہ وہ جو مذہب چاہے اختیار کرے۔ گو کہ ریاست کا ریاستی مذہبی نظام وہی ہوگا جو مطلق العنان فرماں رواں اختیار کرے گا۔ اس نظریہ کو Doctrine of Toleration کہتے ہیں۔

تنویری سیکولرازم(Tanvir Secularism):

سترہویں اور اٹھارہویں صدی عیسائیت کے خلاف اہم ترین فکری بغاوتوںکا دور ہے۔ ان بغاوتوں کو Enlightenment (تنویریت) کہتے ہیں۔ اس کے کلیدی مفکر Newton، Locle، Kant، Hegel، Deaurtes اور Marx ہیں۔ ان مفکرین کے نظریات جدا ہونے کے باوجود اس بات پر یہ متفق ہیں کہ انسان Human Being ہے۔ Human being سے مراد ایک ایسانوعی وجود ہے جو احد و صمد ہے۔ وہ جو اپنی ذات اور اپنی کائنات خود تخلیق کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔  وہ قائم باالذات ہے، اور کسی کا عبد نہیں ہے۔ اس کی انفرادی نوعی جستجو کا مقصد تسخیر< کائنات ہے، اس کو حق ہے کہ خیر او رشر کا تعین خود کرے اور اپنی تمام خواہشات کی تکمیل میں جو عمل معاون ہورہا ہو وہ خیر ہے۔

یہ  تنویری عقائد ہیں، تنویری عقلیت ان عقائد کو ثابت نہیں کرتی۔ یہ اس کی مفروضات presumptions ہیں۔ ان عقائد پر ایمان لائے بغیر انسان Human being نہیںبن سکتا۔ جو انسان Human being نہیں وہ enlightenment کے نظامِ اجتماعی کا رکن نہیں بن سکتا اور اسے کوئی بھی Human Right حاصل نہیں۔ Locke نے یہ بات واضح طور پر کہی ہے کہ اسّی ملین Red Indians (امریکا کے قدیم باشندوں) کا قتل اتنا ہی جائز تھا جتنا بھینسوں(Bison) کا شکار، کیوں کہ نہ بھینسے Human being تھے نہ امریکا کے قدیم باشندے۔

Human being جو نظامِ اقتدار قائم کرتا ہے اس کو دستورِی جمہوریت (Constitutional republic) کہتے ہیں۔ اس نظام اقتدار میں (اصولاً) مطلق العنان فرمانروا سٹیزن (Citizen) ہوتا ہے۔ Citizen کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ تنویری عقائد کی بنیاد پر نظامِ اجتماعی چلانے کے لیے جو قوانین اوراصول چاہے وضع کرے۔ شرط صرف یہ ہے کہ یہ اصول و قوانین فروغِ آزادی، تسخیرِ کائنات اور خود تخلیقیت (Self determination) کے حصول کا ذریعہ ہوں۔

اس نظامِ اجتماعی میں سیکولرازم کے لیے دو گنجائشیں موجود ہیں:

الف  :  جمہوری دستور  Treaty of Westphalia کے اصول کو قبول کرنا کہ مذہب ایک انفرادی معاملہ ہے جس کا نظامِ اجتماعی کی ترتیب اور تنفیذ سے کوئی تعلق نہیں۔ ہر شخص جو مذہبی عقائد اختیار کرنا چاہے کرسکتا ہے، لیکن یہ عقائد مابعدالطبیعاتی (Metaphysical) ہوں۔ اخلاقی (Ethical) نہ ہوں۔ مثلاً یہاں ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ زنا سے اجتناب کرے اور زنا کو برا سمجھے، لیکن اس کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنی بیٹی کو زنا سے اجتناب کرنے پر مجبور کرے۔کیونکہ زنا کرنا بیٹی کا Human Rights ، ہے۔ ہر شخص مذہبی روایت اپنی پسند کی بنیاد پر اس طرح قبول کرنے کا حق رکھتا ہے کہ یہ مذہبی عمل تنویری اجتماعیت (Constitutional republic) کے مقاصد کے حصول کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے، بحیثیت Citizen وہ فروغِ آزادی اور حصولِ تسخیر کے کائنات کے مقاصد کی معاشرتی اور ریاستی بالادستی کو تسلیم کرنے پر مجبور ہے۔ یہی چیز اس کو Human being بناتی ہے اور اسی کی بنیاد پر اس کو Human Rights کا حق دار تصور کیا جاتا ہے۔

ب:   ہر فرد اور گروہ کو اس بات کا حق بھی حاصل ہے کہ وہ اپنے مذہب کو تنویری مقاصد آزادی، تسخیرِ کائنات، اور خود تخلقیت کے حصول کا ذریعہ ہونے کی تبلیغ کرے اور ان مقاصد کے حصول کی جدوجہد کی ایک مذہبی تشریح پیش کرے یہ کام Newton، Kant، Locke اور Hegal نے شروع کیا اور وہ سب اپنے آپ کو پکا اور مخلص عیسائی تصور کرتے تھے۔

آج دو تحریکیں یہ عمل کامیابی سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ایک Evangelism اور دوسری Zionism   ان گروہوں کا دعویٰ ہے کہ مذہب کی جو تشریح وہ پیش کرتے ہیں وہ تنویری اقدار کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے۔ Evanglists کہتے ہیں کہ امریکی دستور جس کی بنیاد پر دنیا کی کامیاب ترین ریاست قائم ہے عیسائی تعلیمات سے محفوظ ہے۔

برصغیر میں سیکولرازم:

برصغیر کی کامیاب ترین مذہبی سیکولر تحریک سِنگھ پریوار اور بی جے پی ہے۔ جس نے ہندو مذہب کی خالص سیکولر تشریح پیش کی ہے اور اس کی بنا پر بڑے پیمانے پر عوامی پذیرائی حاصل کی ہے اور کانگریس نے بھی عملاً ان تشریحات کو قبول کیا ہے۔ برصغیر میں جو سیکولر ازم فروغ پایا ہے وہ مذہب کو سراہنے والی سیکولرازم ہے۔ یہ سیکولرازم ہندوستان کے تمام مذاہب کو عزت کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور ان کو ہندوستان کے لوک ورثہ کا اہم جزو سمجھتی ہے۔ یورپی سیکولرازم کی طرح ہندوستانی سیکولرازم بھی مذہب کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ رائج شدہ سرمایہ دارانہ جمہوری نظامِ اقتدار کا جائز ہونے یا نہ ہونے کا سوال اٹھائے یا اس کی Legitimacy کو چیلنج کرے۔ مذہبی ترجیحات، رسومات اور تشخص لازماً دستوری ریاستی نظامِ اقتدار کی فیصل حاکمیت (Sovereignty) کو تسلیم کرتی ہیں اور اسی وجہ سے ان کو سیکولر ریاستی نظامِ کا تحفظ حاصل ہے۔ جمعیتِ علماء ہند اور جماعتِ اسلامی ہند ان معنوں میں سیکولر جماعتیں ہیں کہ انہوں نے دستوری نظامِ اقتدار کی بالادستی اُصولاً اور عملاً قبول کرلی ہے اور ان کی دعوتی اور علمی جدوجہد بھی اس سیکولر نظامِ اقتدار سے متصادم نہیں۔ یہ دونوں جماعتیں کانگریس کی سیکولرازم کو بی جے پی کی سیکولرازم پر ترجیح دیتی ہیں، اور ان کا دعویٰ ہے کہ ہندوستانی انفرادیت اور معاشرت کو صرف ہندومت سے منسلک کرنا درست نہیں اور اگر تمام مذاہب کی تکریم (Respect) برقرار رکھنا ہے تو ہر مذہبی تشخص کو سیکولر نظام میں سموجانے اور یکساں فروغ دینے کے مواقع فراہم کیے جانے چاہئیں۔ چوں کہ کانگریس اس دلیل کواصولاً نہرو کی تحریرات بالخصوص (Discovery of India) کی بنیاد پر قبول کرتی ہے لہٰذا عملاً جمعیتِ علماء ہند، جماعتِ اسلامی ہند اور یو پی کی مسلم مجلس عملاً کانگریس کی حلیف سیاستی جماعتیں بن گئیں ہیں اور یہ تینوں جماعتیں ہندوستانی سیکولرازم کے استحکام کو اسلام کے تحفظ کے لیے ضروری سمجھتی ہیں۔

پاکستانی سیکولرازم اور اسلامی جدوجہد:

حاجی صاحب ترنگ زئی کی شہادت اور تحریکِ ریشمی رومال کی ناکامی کے بعد علماء ہند نے اپنی سیاسی جدوجہد کو سیکولر خطوط پر مرتب کیا۔ ١٩١٨ء / ١٩١٩ء میں تحریکِ خلافت وجود میں آئی اور ١٩٢٠ء میں جمعیتِ علماء ہند قائم کی گئی۔ یہ دونوں تنظیمیں تحریکِ استخلاصِ وطن کا حصہ تھیں۔ جس کی عملی قیادت گاندھی کررہا تھا، گاندھی کا طریقۂ کار عدمِ تشدّد (ستیہ گِرہ) (Non Violent Boycott) پر مبنی تھا۔ عدمِ تشدد پر مبنی تحریک ایک قانونی، احتجاجی اور مفاہمتی مطالباتی تحریک تھی جس کا مقصد برصغیر کے باشندوں کے لیے سرمایہ دارانہ جمہوری دستوری حقوق کا حصول تھا۔ کانگریس اور مسلم لیگ دونوں سیکولر قوم پرست جماعتیں تھیں، علماء دیو بند اور علماء بریلی نے ان جماعتوں کی ماتحتی قبول کرلی اور ہندوستان میں احیاء ریاستِ اسلامی کو ناممکن سمجھ لیا۔

قیامِ پاکستان کے بعد لبرل سیکولر دستوریت کی اسلام کاری کا عمل بروئے کار لایا گیا۔ (Basic Principles Resolution) منظوری کے بعد پاکستان کے دستور کو اسلامی گردانا گیا اور اسلامی جماعتوں کی جدوجہد اسی دستور کے تناظر میں مرتب کی گئی چوں کہ یہ دستور خالصتاً سیکولر اور لبرل ہے، شریعت کی بالادستی کو تسلیم نہیں کرتا اور نہ ہی علومِ اسلامیہ کی بالادستی قبول کرتا ہے لہٰذا اس کے تناظر میں جدوجہد کرنے والی اسلامی جماعتوں کی جدوجہد پیہم ناکامی کا شکار ہے۔ یہ تحریکیں مطالبات اور احتجاج سے کبھی آگے نہیں بڑھ سکیں، سیکو لرنظام میں اسلامی جماعتوں کے سموجانے کا سب سے واضح ثبوت MMA کا دو ہزار دو سے دو ہزار سات تک دورِ حکومت فراہم کرتا ہے۔ MMA اپنے دورِ اقتدار میں اسلامی علامتی اقدام تک میں ناکام رہی۔ حسبہ بل کو افتخار محمد چودھری (جس کو آج جماعتِ اسلامی قوم کا نجات دہندہ تصور کرتی ہے) بیک جنبشِ قلم مسترد کردیا تھا۔ فوج کے مجاہدینِ اسلام کے خلاف مظالم جاری رہے، حکومتی سودی کاروبار اپنے عروج کو پہنچ گیا۔ یہ سب اس لیے ہوا کہ ایم ایم اے میں شامل جماعتیں دستورِ پاکستان کو احکاماتِ شریعتِ مطہرہ پر بالادست تسلیم کرتی ہیں اور صرف وہی جدوجہد (مطالباتی، احتجاجی، Non Violent، ستیہ گری) کرنے کی قائل ہیں جس کی اجازت پاکستان کا دستور ان کو دیتا ہے؛

اور تم سوائے شور کے کچھ بھی نہ کرسکو

کیا خوب لڑ رہے ہو کہ مارو نہ مرسکو

سیکولر دستوری نظام میں ماتحتی قبول کرکے اسلامی جماعتیں جمعیتِ علماء اسلام، جمعیت علمائے پاکستان اور جماعتِ اسلامی اپنی اسلامی سیاسی شناخت کھوتی جارہی ہیں۔ جمعیتِ علماء اسلام پیپلزپارٹی کی حلیف تھی، اب جماعتِ اسلامی عمران خان کی ساتھی بننے کی متمنی ہے۔ کیا یہی اسلامی سیاست ہے؟

سیکولرازم (Secularism) کو قبول کرنے کا طریقہ صرف سیاستی نہیں معاشرتی بھی ہے، اس معاشرتی طریقہ کو اختیارکرنے والے غلبۂ اسلام کی ضرورت کا انکار کرتے ہیں۔ وہ اقتدارِ اسلامی کے قیام کی جدوجہد سے عملاً لاتعلق رہتے ہیں۔ یہ رویہ صوفیائے چشتیہ اور قادریہ نے تیرہویں صدی سے اپنایا ہوا ہے۔ جب تک برصغیر  میں اسلامی سلطنت قائم رہی اس رویہ کے جواز میں یہ کہا جاسکتا تھا کہ چوں کہ سلطان ظل اللہ ہے لہٰذا صوفیاء یکسو ہوکر ہندوستان کے باشندوں کو مسلمان بنانے کا کام کریں اور معاملات اقتدارِ سلطان ظل اللہ کے سپرد کردیں۔ سلسلہ نقشبندیہ نے اکبر اور جہانگیر کو عسکری شکست دے کر ریاستِ اسلامی کو محفوظ رکھا (اور اس ضمن میں حضرت مجدد الف ثانی، شاہ عبدالحق محدث دہلوی اور شاہ ولی اللہ کی جدوجہد نہایت اہم ہے) لیکن جب امام عالمگیر رحمة اللہ علیہ اور داراشکوہ کے درمیان معرکہ برپا ہوا تو یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ بیشتر اہلِ تصوف دارا کے حامی بنے بالخصوص پنجاب میں۔ اور امام عالمگیر اپنے نصف صدی کے دورِ اقتدار میں بہت کم صوفیا کو مغل انتظامیہ کا پیہم جستجو کے باوجود حصہ بنانے میں کامیاب ہوسکے۔

اس سے واضح ہوا کہ سلطنت سے لاتعلقی کے نتیجہ میں اہلِ تصوف کا سیاسی شعور ختم ہوتا چلا گیا۔ سترہویں صدی میں صوفیاء کرام نے عالمگیر جیسے ولی اللہ سے پہلو تہی کی اور بیسویں صدی میں درویشِ خدا مست سید عطاء اللہ شاہ بخاری کو بالکل تنہا چھوڑ دیا۔ پنجاب اور سندھ کے بیشتر پیرو ںکے خانوادے انگریز کے باج گزار بنے۔ آج ڈاکٹر غلام مصطفی خان اور محمد موسیٰ بھٹو جیسے صوفی اسلامی جماعتوں کو سیاست سے پہلو تہی کا درس دیتے ہیں اور امریکی استعمار کے ہم نوا یوسف قرضاوی اور وحید الدین خان کے ہم نوا ہیں۔ اس نوعیت کا تصوف روحانی عیاشی کے علاوہ اور کچھ نہیں۔

نظامِ اقتدار کے قیام کی جدوجہد سے پہلو تہی اسلامی عوامی جماعتوں مثلاً دعوتِ اسلامی اور تبلیغی جماعت نے بھی اختیار کی ہے۔ یہ جماعتیں سیاسی عمل کو گندا کہتی ہیں اور عملاً یہ جماعتیںسیکولر نظام کا حصہ بن گئی ہیں اور سیکولر اقتدار کو کوئی چیلنج پیش نہیں کرتیں۔ یہ اس رائے کا اظہار کرتی ہیںکہ انفرادی اصلاح کے نتیجہ میں نظام اقتدار خود بخود تبدیل ہوجائے گا، ظاہر ہے یہ رائے صرف وہی شخص رکھ سکتا ہے جو انقلابات عالم کی تاریخ سے ناواقف ہے۔

اختتامیہ:

سیکولرازم سے مراد یہ ہے کہ نظام اقتدار اس طرح مرتب ہو کہ Human being کی مطلق حاکمیت (Absolute Sovereignty) کارِ فرما رہے۔ اور اس کے نتیجہ میں مکمل آزادی اور تسخیر کائنات کو ممکن بنایا جاسکے۔ سیکولرازم  (Secularism)کے ذریعے ہیومن بینگ کی الوہیت اور صمدیت قائم کی جاتی ہے۔

ہم سیکولرنظام کو کلیتاً، اصولا اور عملاً رد کرتے ہیں۔ سیکولرازم (Secularism) میں کسی مذہبی پیوند کاری کے قائل نہیں۔ ہماری جدوجہد سیکولر نظام اقتدار کو جڑ بنیاد سے اُکھاڑ پھینکنا ہے۔ سیکولر نظام اقتدار کو ہم جائز (Legitimate)

نہیں سمجھتے اور اس کی قانونی اور دستوری جکڑبندیوں سے اپنی جدوجہد کو آزاد کرنا چاہتے ہیں۔ ہم اسلامی نظام اقتدار کے قیام کے لیے وہ تمام طریقہ اختیار کرنے کا حق رکھتے ہیں جن کا شریعت مطہرہ ہمیں اجازت دیتی ہے۔ اسلامی حکومت کا قیام اسلامی نظام اقتدار کے قیام کے جدوجہد کا آخری مرحلہ ہے یہ بات دورِ حاضر میں غزا، صومالیہ، یمن، افغانستان اور چیچنیا میں جاری اسلامی تحریکوں نے ثابت کردی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *