ٹرمپ کی کامیابی میں اسلامی تحریک کیلے سبق – What can Islamic movement learn from Trump’s Success

 

ٹرمپ کی غیر متوقع کامیابی(Trump’s Success) اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ اسلامی جماعتیں انقلابی جمہوری عمل کی نوعیت اور سرمایہ دارانہ نظام میں اس کی حیثیت اور فعلیت پر از سرنو غورکریں اس مضمون میں چند سوالات اٹھا کر میں ان امور کی نشاندہی کروں گا جن پر ہمیں غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ابتداً انقلاب سرمایہ داری اور جمہوریت کا جو مفہوم میں سمجھا ہوں وہ بیان کرونگا ۔ اس کے بعد ٹرمپ کی کامیابی کے اسباب پر غور کرکے اس بات کا جواز پیش کرنے کی کوشش کرونگا کہ ٹرمپ کی کامیابی کو کیوں کرایک انقلاب کا پیش خیمہ سمجھتا ہوں ۔اس بحث کے تناظر میں اسلامی انقلابی جماعتوں کی جمہوری جدوجہد کے ضمن میں چند گزارشات پیش کرکے اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کرونگا کہ جمہوری عمل سے ہمیں کیا توقعات رکھنی چاہئیں ؟

  :سرمایہ داری، جمہوریت اور انقلاب

سرمایہ داری وہ طرز اور نظام زندگی ہے جو آزادی ،مساوات اور ترقی کے حصول کو انسانیت کا نوعی حق (Human)سمجھتا ہے اور انفرادیت ،معاشرت اور ریاست کی ترتیب  اور تعمیر ان مقاصد کے حصول کا ذریعہ گردانتا ہے ۔

جمہوریت وہ نظمِ ریاست ہے جس میں اجتماعی فیصلے فرد کی آزادی ،مساوات اور ترقی کے حصول کی خواہش  کے اظہار کے طور پر اپنا جواز پیش کرتے ہیں ۔اسی نے ہر سرمایہ دارانہ ریاست خواہ لبرل ،خواہ قوم پرست ، خواہ اشتراکی ،خواہ سوشل ڈیموکریٹ ہو ایک” ریپبلک ”عوام کی حکومت ہوتی ہے ۔لبرل جمہوریتیں اور ( People Democracy) دونوں عوام کی حاکمیت کی دعویدار ہیں اور دونوں ہی ریاستی مقتدرہ ( State Elite) اپنے تفوق (Hegemany) کا جواز عوام کی نمائندگی کی بنیاد پر پیش کرتی ہیں ۔سرمایہ دارنہ طرز اور نظام زندگی میں ریاستی تحکیم کا یہ جواز ناگزیر ہے کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام اور طرز زندگی اصولاً دہریت کا غماز ہے ۔اس طرز اور نظام زندگی  میں انسانیت خدا کی موت کا اعلان اور اپنی خود مختاریت اور خود تخلیقیت کا اعلان کرتی ہے ۔سرمایہ دارانہ طرز اور نظامِ زندگی کا کلمہ خبیثہ  لا الٰہ الا انسان ہے۔  عوام کی حکومت ( Republic) لبرل بھی ہوسکتی ہے اشترکی بھی ،قوم پرست اور سوشل ڈیموکریٹ بھی ،تاریخی طور پر انقلاب سے مراد وہ عمل ہے جس کے ذریعہ رائیج شدہ طرز اور نظم ریاست کو تسخیر کرکے ایک دوسرے طرز اور نظم ریاست کو قائم کیا جاتا ہے ۔سرمایہ دارانہ تاریخ کے تناظر میں انقلابات بیرونی بھی ہوسکتے ہیں اور اندرونی بھی۔١٧ ویں اور ١٨ ویں صدی تک یورپ امریکہ اورایشیاء میں مذہبی ریاستوں(جوRepublic نہ تھیں)کومسخر کرکے سرمایہ دارانہ طرز اورنظم  ریاست قائم کیاگیا یہ بیرونی انقلاب تھا ۔١٩ویں صدی کے بعد سے ایک سرمایہ دارانہ ریاستی نظام کو مسخر کرکے متبادل سرمایہ دارانہ ریپبلک کی تعمیر کی جاتی رہی ہے ،کبھی لبرل ریپبلکس کی جگہ اشتراکی ریپبلکس نے لے لی کبھی اشتراکی ریپبلکس کو مسخر کرکے لبرل قوم پرست ریاستیںبنائی گئیں یہ سرمایہ دارانہ اندرونی انقلابات ہیں۔

   :ٹرمپ کا متوقع انقلاب

١٩٨٠ کے بعد سرمایہ دارانہ نظام معاشی طور پر پر گلوبل ہوگیا سود،سٹہ اور اشیا ء کی مارکیٹ ( Financial,Stock and Commodity market ) گلوبل ہوگئے اور بہت بڑی حد تک ترسیل زر اور اشیا ء پرملکی پابندیاں اٹھائی گئیںکسی نہ کسی حدتک سرمایہ دارانہ معاشرتی اور ریاستی مقتدرہ بھی گلوبل (multinational Cosmopolitan ) ہوگئیں لیکن سرمایہ دارانہ ریاستی نظم قومی ہی رہا اور امریکی قو می ر یاست نے گلوبل سرمایہ کے تحفظ کی ذمہ داری قبول کی ۔عالمی دفاعی اخراجات کا تقریباً ٤٥ فی صد امریکہ ہی صرف کرتا ہے اور اس کی افواج ١٨٣ ممالک میں اڈہ جمائے ہوئے قتل عام میں مصروف ہیں۔

   گلوبل اور ملکی ریاستی تنظیم نے معاشرتی عدم توازن کو جنم دیا ۔گلوبل معاشی عمل سے مستفید سرمایہ دارانہ معاشرتی اور ریاستی مقتدرہ ہی ہوئی ۔ترقی یافتہ ممالک کے عوام بالخصوص امریکی اپنے آپ کوگلوبلائزیشن کا شکار ( Victim ) گردانے لگے کیوں کہ امریکہ میں معاشی نامساویت ( inequality ) ہوشربا انداز سے مسلسل بڑھ رہی ہے اور ایک عام امریکی گلوبلائزیشن کو اپنے لئے مضر گرداننے لگا ہے ۔ٹرمپ کو کامیاب بنا کر ایک عام امریکی جو اپنے آپ کو محروم سمجھ رہا ہے گلوبل اشرافیہ اس کے غیر ملکی حلیفوں  اور اس اشرافیہ کے لائے ہوئے غیر ملکی مزدوروں اور محنت کاروں سے بدلہ لے رہاہے ۔ایک عام امریکی اس بات سے نالاں ہے کہ امریکی ریاست عسکری اور معاشی وسائل  عالمی سرمایہ کی بڑھوتری کے لئے صرف کئے جائیں ۔اس کی خواہش ہے کہ سرمایہ کاری کے عمل کو امریکی ریاست اس طرح منظم کرے تو سرمایہ کے ارتکاز کے فوائد صرف امریکہ میں ظہور پذیر ہوں۔امریکی ریاست عالمی سرمایہ دارانہ نظم اور طرز زندگی کی پشت پناہی ہی سے دست کش ہوجائے۔

  جمہوری عمل نے اس عام محروم امریکی کو یہ موقع فراہم کردیا کہ وہ ایک نسبتاً سوشل ڈیموکریٹک ریاستی طرز کو ایک قوم پرست ( fascist) ریاست میں تبدیل کرنے کی راہ ہموار کردے ۔ٹرمپ نے اس عام ”محروم” امریکی کا گلوبلائزیشن مخالف ایجنڈہ اپنا لیا لیکن اس کا امکان کہ وہ امریکی ریاست کو از سرنو قوم پرستانہ بنیادوں پر منظم کر سکیں گے  فی الحال محدود نظرآتے ہیں۔ ایک ساتھ تین بہت بڑی رکاوٹیں ہیں  ایک میڈیا جو تقریباً پورے کا پورا گلوبل مقتدرہ  اور یہودیوں کی گرفت میں ہے ،دوسرے امریکی سودی اورسٹہ کاری کی مارکیٹ ( financial market) جن کا انحصار بہت بڑی حد تک بیرونی قرضوں اور ترسیلات سے ہے ،تیسری امریکی فوج جو بیرونی محاذوں سے واپس اور اپنے بجٹ میں کٹوتی بہت مشکل سے قبول کریگی ۔ان میںسب سے اہم کمزوری یہ ہے کہ ٹرمپ نے موجودہ امریکی ریاستی ڈھانچہ کو تبدیل کرنے کے لئے کوئی ایسی تیاری نہیں کی جیسے ہٹلرنے نازی پارٹی کو منظم کرنے کے لئے کی تھی ان کے پا س نہ کوئی قوم پرست فوج موجود ہے نہ حکومتی بیوروکریسی نہ لوکل ایڈمنسٹریشن ان کو اپنی قوم پرستانہ پالیسیوں کی تشکیل اورتنفیذ کے لئے اسی فوج اور نوکر شاہی پولیس اور ماہرین پر انحصار کرنا پڑے گا۔ جو پچھلے  چالیس سال سے گلوب میں رہی ہیں اور جس کے ضوابط عمل اس مقتدرہ نے نہایت عرق ریزی اور تدبّر سے مرتّب کئے ہیں۔

ٹرمپ برسراقتدار آکر امریکی ریاستی ڈھانچہ کو کمزور ضرور کردیں گے، لیکن کیا وہ اس کی قوم پرستانہ   ترتیب نومیں کامیاب ہونگے ؟اس کے بارے میں تیقّن سے کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔ اگر موجودہ ریاستی مقتدرہ نے ان کو اپنے کئے وعدوں سے انحراف پر مجبور کردیا تو ان کے حمایتی خاموش نہ بیٹھیں گے اور جمہوری جدوجہد عوامی مزاحمتی اور عسکری جدوجہد میں تبدیل ہونے کے امکانات ہیں ۔اگر انہوںنے قوم پرستانہ ایجنڈہ زور شور سے نافذ کیا تو ریاستی اور معاشی مقتدرہ کا رد عمل شدید ہوگا۔ ابھی سے مغربی ساحلی صوبوں میں وفاق سے علیحدگی اور کینیڈا سے ادغام کی تحریکیں ابھرنے لگی ہیں ۔یہ بھی ممکن ہے کہ ٹرمپ قتل کردیئے جائیں اور ان کے نائب  Mike Pence جوایک عام معتدل روایتیrepublican سیاست دان ہی ہیں،کو آگے لے آیا جائے۔

     :اسلامی انقلابی جماعتیں اور جمہوری عمل کا استعمال

 ٹرمپ کی فتح سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جمہوری عمل کو استعما ل کرکے ریاستی مقتدرہ کے خلاف بغاوت کی جاسکتی ہے ،لہٰذا اسلامی انقلابی جماعتوں کو انتخابات میں ضرور حصہ لینا چاہئے ۔جمہوری عمل کے درست ہونے پر (فرض ہونے پر نہیں) عصری علما ء کا اجماع ہے  دورحاضر میں جمہوری عمل عوام کو متحرک اور منظم کرنے کا جائز اور مفید ذریعہ ہے ۔

          لیکن ہمیں اس بات کا احسا س ہونا چاہئے کہ ہم سرمایہ دارانہ طرز اور نظم ریاست کے خلاف ایک بیرونی انقلاب برپا کرنے کی جدوجہد کررہے ہیں کسی اندرونی سرمایہ دارانہ انقلاب کو برپا کرنے کی کوشش نہیں کررہے ۔ہم سرمایہ دارانہ ریاستی نظام کا انہدام چاہتے ہیں لبرل ریاستی نظام کو سوشل ڈیموکریٹ  سے یا اشتراکی نظام کو قوم پرست نظام سے تبدیل نہیں کرنا چاہتے اس لئے ہمارا کام سرمایہ دارانہ اندرونی انقلاب برپا کرنے والوں سے زیادہ کٹھن ہے سرمایہ دارانہ اندرونی انقلاب برپا کرنے والے عوام سے تبدیلی اقتدار اور تزکیہ نفس کا مطالبہ نہیں کرتے ۔ٹرمپ کے حامی اور مخالفین دونوں ہی سرمایہ دارانہ اقدار ،آزادی ،مساوات اور ترقی کے پرستار ہیں  دونوں کے کردار یکساں ہیں ان میں فرق صرف مفادات کے تعین کا ہے ۔ٹرمپ نے نفسی تبدیلی لانے کی کوئی ضرورت محسو س نہ کی انہوں نے عوام اور متقدرہ کے مفادات کے تضادات اجاگر کرکے قوم پرستانہ انقلاب لانے کی کوشش کی لیکن اسلامی انقلابی جدوجہد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز اور نظام ریاست کی طرف مراجعت ہے ۔ اگر ہمارا جمہوری انقلابی ایجنڈالبرل یا سوشل ڈیموکریٹ یا قوم پرستانہ ہو تو ہم کبھی عوام میں اسلامی تحرک اور اسلامی انقلابی تنظیم نہ پیدا کرسکیں گے ۔بلکہ ہماری انتخابی جدوجہد محض سرمایہ دارانہ عدل کے قیام کی جدوجہد ہوگی اور اس جدوجہد میں ہم جتنا کامیاب ہوں گے اتنا زیادہ ہماری جماعتیں سیکولر( Secular ) ہوتی چلی جائیںگی ۔ اگر ہمارا انتخابی ایجنڈہ سوشل ڈیموکریٹ یا قوم پرستانہ ہوا تو ہم عوامی اسلامی عصبیت کو ابھارنے کی بنیاد کیسے رکھ سکیں گے ۔

عوامی اسلامی عصبیت کو ابھارنے کے لئے اسلامی انقلابی جماعتوں ،مصلحین کی جماعتوں ،مدارس ،خانقاہوں اور روایتی برادریوں کا اشتراک عمل لازم ہے ۔اسلامی انقلابی عمل کی کامیابی کا دارومدار سب سے زیادہ تطہیر نفس اور اصلاح معاشرہ کے کام کے فروغ پانے پر منحصر ہے لیکن اسلامی انقلابی جماعتیں عوامی تطہیر نفس او ر اصلاح نفس کا کام نہیں کرسکتیں  یہ ان کا کام ہی نہیں یہ تو علماء کرام ،صوفیا ء اور مصلحین کی جماعتوں کا دائرہ کار ہے ہمیں اس بات کا ادراک ہونا چاہئے کہ انقلابی اسلامی جدوجہد اقامت دین کا محض ایک شعبہ ہے اس سے کہیں زیادہ اہم تزکیہ نفس اور اصلاح معاشرہ کا کام ہے کیونکہ اسلامی انفرادیت غیر اسلامی ریاست میں بھی پنپ سکتی ہے اس کے برعکس اسلامی انفرادیت کی عدم موجودگی میں اسلامی ریاست کا قیام نا ممکن ہے ۔

اس لئے اسلامی انتخابی جدوجہد کو کامیاب بنانے کے لئے ضروری ہے کہ وہ تزکیہ نفس تطہیر معاشرہ کے کام سے پیوست ہو ۔کسی اسلامی جماعت یا گروہ ،تبلیغی جماعت ،دعوة اسلامی ،مدارس کے وفاق کے لئے یہ ممکن نہ رہے کہ وہ اسلامی انتخابی ایجنڈہ کی پشت پناہی ہے برا ء ت اختیار کریں۔ یہی اسلامی انقلابی جماعتوں کی اصل ( constituency )ہے اور ہمیں ان کو قائل کرنا ہے کہ

اے بھائی اگر تم ساتھ نہ دو

تو ہم سے اکیلے کیا ہوگا

ماںجائے اگر تم ساتھ نہ دو

تو ہم سے اکیلے کیا ہوگا

ٹرمپ کی کامیابی یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ انتخابات کے انقلابی استعمال کے لئے عوام کو جذباتی بنیادوں پر متحرک کرنا ضروری ہے۔ عقلی دلائل اس ضمن میں بالکل ہی بے کار ہیں ۔ٹرمپ کامیاب اس لئے ہوئے کہ وہ ایک عام امریکی کے غصہ، غضب ،حسد اور جذبہ انتقام کو مہمیز دے سکے، لہذااسلامی انقلابی جماعتوں کو ٢٠١٨ کے انتخابات میں ضرور حصہ لینا چاہئے ۔انتخابی ایجنڈا خالصتاً اسلامی ہو عوام کے حقوق فراہم کرنے کے وعدوں کے ذریعہ ان کے حرص اور طمع کو مہمیز نہ دی جائے یہ اپنے پیروں پر خود کلہاڑی مارنے کے مترادف ہوگا۔کسی سیکولر جماعت سے کسی سطح پر کوئی    understanding  یا   Adjustment نہ کیا جائے زیادہ سے زیادہ اسلامی جماعتوں کو متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم پر جمع کرکے ایک ہی ایجنڈئے پر الیکشن لڑا جائے ۔

ہمارا بنیادی نعرہ ”اسلام خطرہ میں ہے” ہونا چاہئے اور ہماری مہمات خالصتاً جذباتی مثلاًحب رسول صلی اللہ علیہ وسلم توہین شعار اسلام ،تحفظ مساجد ومدارس وغیرہ پرمرکوز ہونی چاہئے، اسی طریقے سے ہم جذباتی بنیادوں میں غیر سیاسی اسلامی گروہوںکے لئے ناممکن بنا دیں گے کہ وہ ہماری انتخابی جدوجہد سے لاتعلق رہیں۔

انتخابی مہمات میں اس بات کی خصوصی کوشش کی جائے کہ قیادت پیروں اور وسیع حلقہ رکھنے والے شیوخ علماء کی ہو ۔کم از کم پختونخواہ میں ایک متبادل سول انتظامیہ ،اسلامی عدلیہ اور دفاعی ادارتی صف بندی کی جائے تاکہ کامیابی کے نتیجہ میں ریاستی اقتدارسیکولر ریاست کے منتظمین سے اسلامی انقلابی کارکنوں کے ہاتھوں میں منتقل کرنے کا عمل شروع کردیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *