تحریکات اسلامی کے کارکنان کے لیے کیوں ضروری ہے؟

تحریکات اسلامی کے کارکنان کے لیے سرمایہ دارانہ انقلابات کا مطالعہ کیوں ضروری ہے؟… اس سوال کا جواب معلوم کرنے سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ ”انقلاب” کیا ہے؟

انقلاب کا لفظی معنیٰ ومطلب تو صرف ”قلب ماہیت” ہے… ایک چیز کا دوسری چیز میں بدل جانا، لیکن جب ہم انقلاب کے حوالے سے علمی اور فکری سطح پر گفتگو کرتے ہیں تو اس کا معنیٰ ومفہوم نہایت وسیع معلوم ہوتا ہے۔ انقلاب کا مطلب ایک نظامِ ز ندگی کا دوسرے نظامِ زندگی میں بدل جانا ہے، یا دوسرے لفظوں میں قوتِ نافذہ کو موجودہ افراد اور اداروں سے چھین کر متبادل افراد اور ادارتی صف بندی کے تحت مجتمع کرنا ہے۔ اس سلسلے میں یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ محض طرز بودوباش تبدیل نہیں ہوتا بلکہ عقائد وافکار، نظریات اور ترجیحات اور نظامِ اقتدار بھی تبدیل ہو جاتی ہیں۔ انقلابی عمل محض دو چار دن کی بات نہیں ہوتی بلکہ یہ صدیوں کا عمل ہوتا ہے تاآں کہ ایک خاص سطح پر پہنچ کر انقلابی عمل رک جاتا ہے اور اس کے بعد وہی انقلاب پس پا ہونے لگتا ہے۔ یہ تاریخی عمل ہے جسے قرآن مجید نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے… وتلک الایام ندا ولھا بین الناس۔

جب رومن ایمپائر زوال پذیر تھا اور عیسائی تہذیب عروج پکڑ رہی تھی تو اس عمل میں تین صدیوں کاعرصہ لگا ۔ سترہویں اور اٹھاویوں صدیاں سرمایہ دارانہ انقلابات کی صدیا ں ہیں۔

اٹھارویں صدی کے آغاز تک عیسائی نظام زندگی معطل ہو چکاتھا اور اس کی جگہ ایک نیا نظام لے رہا تھا جسے ہم سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی سے تصور کرتے ہیں۔ سرمایہ داری ان معنوں میں ایک مکمل نظامِ زندگی ہے کہ اس کا مخصوص تصور انفرادیت، تصور معاشرت اور ایک مخصوص تصور ریاست ہے… اور تینوں تصورات باہم مربوط ہیں، جب کہ آزادی، مساوات اور ترقی سرمایہ داری کے کلیدی نظریات ہیں جن کی کوکھ سے خالص سرمایہ دارانہ عقلیت جنم پزیر ہوتی ہے۔

سرمایہ دارانہ انقلاب اس معنی میں بہت مختلف تھا کہ اس نے قدیم مذاہب، اخلاق واقدار اور معاشرتوں کو تہہ وبالا کر کے رکھ دیا۔ نتیجے میں جس قسم کی معاشرت پروان چڑھی اس کا واحد کلمہ’ لاالٰہ الا الانسان’… تھا۔

انسانی معاشروں کو بنیادی طور پر جن انقلابات نے متاثر کیا وہ انقلاب فرانس اور انقلاب امریکا ہیں۔ ان کے علاوہ انقلاب انگلستان، انقلاب روس اور انقلاب چین بھی قابل ذکر ہیںْ

آج ہم جس دور میں سانس لے رہے ہیں یہ سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کے زوال کا ابتدائی دور ہے لیکن اسلامی تصور انفرادیت اورا قتدار اسلامی نظروں سے اوجھل ہے۔ یہ صورت حال بعینہ مماثل ہے رومن ایمپائر کے زوال کے ابتدائی دور سے جب عیسائیت کا تصور انفرادیت اور تصور معاشرت واضح نہیں تھے۔

مسلم معاشروں میں تحریکات اسلامی انقلاب اسلامی برپاکرنے کی جدوجہد کر رہی ہیں۔ اسلامی انقلاب کا مطلب حاضرو موجود نظام کو بیخ وبن سے اکھاڑ پھینکنا اور اس کی جگہ اسلامی اقتدار قائم کرنا ہے، مگر زیادہ تر تحریکاتِ اسلامی موجودہ مسلط نظام کو کماحقہ سمجھے بغیر اس کے کلیدی نظریات کو اسلامی جواز فراہم کر رہی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کا تمام تر دائرہ عمل سرمایہ دارانہ ریاستی اداروں کے گرد گھومتا ہے۔ چناں چہ اس بات کا جاننا نہایت ضروری ہے کہ :

٭سرمایہ داری کیا ہے؟

٭سرمایہ داری کے تصور انفرادیت ، تصور معاشرت اور تصور ریاست کیا ہیں؟

٭سرمایہ دارانہ نظام زندگی کس طرح قائم ہوتا ہے اور اس کے ریاستی ادارے کون کون سے ہیں؟

اس سلسلے میں ہماری پہلی کتاب ”سرمایہ دارانہ نظام، ایک تنقیدی مطالعہ” وہ تمام مواد فراہم کرتی ہے جس سے سرمایہ دارانہ نظام کو سمجھنا کافی حد تک آسان ہو جاتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ تحریکات اسلامی کے کارکنان کے سرمایہ دارانہ انقلابات کا طائرانہ مطالعہ بھی نہایت ضروری ہے تا کہ معلوم ہو سکے کہ دنیا بھر میں جہاں جہاں سرمایہ دارانہ انقلاب آئے:

ان کے مقاصد کیا تھے؟

(١)انقلاب کون لایا؟

(٢)انقلابی عمل کس طرح وقوع پذیر ہوا؟

(٣)انقلاب کے نتیجے میں کس طرح کی معاشرت تشکیل پائی؟

اس کتاب میں انہی سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کی گئی ہے۔

تحریکاتِ اسلامی کے کارکنان کے لیے سرمایہ دارانہ انقلابات کا مطالعہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ سرمایہ داری زوال پذیر ہے، مگر تحریکات اسلامی کے کارکنان شعوری یا لاشعوری طور پر (اسلامی بینکاری، اسلامی جمہوریت وغیرہ کے ضمن میں) سرمایہ داری کو مستحکم کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ اس کی وجہ ان کا سرمایہ داری کو کماحقہ نہ پہچاننا اور سرمایہ داری کے نظریات، اقدار اور اقتدار کو علیحدہ علیحدہ اجزاء میں دیکھنا ہے۔ حالاں کہ ان تمام اجزاء کو جب مرتب اور باہم مربوط کیا جائے تو سرمایہ داری ہی متشکل ہو تی ہے اور ایک ایسی معاشرت اور انفرادیت وجود میں آتی ہے جو مقاصد شرع کے خلاف اور شرعی احکام کو معطل و منسوخ کرنے والی ہوتی ہے۔

کارکنان تحریکات اسلامی کا فرض ہے کہ وہ سرمایہ داری جو کہ جاہلیت خالصہ ہے’ کو خوب اچھی طرح پہچان لیں اور شہادت حق کے فریضہ کی ادائیگی کے لیے کمر بستہ ہو جائیں۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *