امین اشعر-

عرب دنیا میں اُٹھنے والی تبدیلی کی لہر جو کہ عالم اسلام کے لئے ایک نشاة  ثانیہ کی نوید بھی سمجھی جارہی ہے اسی لئے اس تبدیلی کی لہر میں زبردست خدشات بھی موجود ہیں۔اس مضمون میں ہم عرب دنیا میں اُٹھنے والی اس لہر کو اُنہی چار سوالات کے تناظر میںسمجھنے کی کوشش کریں گے جن کے ذریعے ہم نے دیگر انقلابات کو سمجھنے کی کوشش کی :

1) تبدیلی اور انقلابات کے مقاصد کیا تھے؟

2) تبدیلی اور انقلاب کون لے کرآیا؟

3) تبدیلی اور انقلاب کیسے اور کس طرح منظم ہوئے؟

4) تبدیلی اور انقلاب کے نتیجے میں کیا ہوا؟ کسی قسم کی انفرادیت ، معاشرت اورریاست قائم ہوئی ؟

اس سے پہلے کہ ہم مندرجہ بالا سوالات کے تناظر میں مشرقِ وسطیٰ کے انقلاب کا جائزہ لیں، وہاں کی سیاسی معاشرتی معاشی اور ریاستی صورتحال کا تذکرہ پیش کرنا ضروری ہوگا ۔خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد پورے مشرق وسطیٰ میں عرب نیشنلزم کی حکمرانی قائم ہوئی اور مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک میں استعمار کے ایجنٹ آمروں کی حکومتیں پچھلی نصف صدی سے قائم تھیں اور تمام ممالک کے آمر حکمران اپنے اپنے استعماری آقائوں کی مرضی سے اُن کے ایجنڈے کی تکمیل میں عمل پیرا تھے۔ استعمار نے کمال ہوشیاری اوردور اندیشی سے ان حکمرانوں کے ذریعے پورے مشرق وسطیٰ میں اسلامی شعائر کو ختم کرنے اور وہاں سے علوم اسلامی کی بیخ کنی کرنے کی بھرپور کوشش کی اور تمام ممالک میں سیکولر اور ماڈرن نظام تعلیم اورنظام زندگی رائج کردیا اورتمام ممالک میں اسلامی جماعتوں پر پابندی عائد کردی ۔مختلف دینی جماعتوں کے کارکنان کو اذیتیں دیں،قتل کروادیا ، جیلوں میں بند کردیا اور بے پناہ مظالم کے پہاڑ توڑے ۔  ان ممالک کی زیادہ تر آبادی مسلمانوں ہی کی ہے جو جدید تعلیم یافتہ اور سیکولر نظام زندگی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے ہوئے ہے۔اسلام ان کی زندگیوں میں بس اتنا ہے کہ ان میں اکثر لوگ نماز پڑھتے ہیں، قرآن پڑھتے ہیں، پیدائش، شادی بیاہ اور کفن دفن کے تمام معاملات اسلامی اصولوں کے مطابق ادا کرتے ہیں۔مگر معاشرتی ،سیاسی اور معاشی اصولِ زندگی عملاً سائنس اور سوشل سائنس کے سیکولر اور لا دین اصولوں کے مطابق قائم ہیں۔ کیونکہ ان تمام ممالک کا نظام تعلیم خالص استعماری لا دین ہے۔ اور ان ممالک کے بیشتر طالب علم استعماری ممالک میںاپنی پیشہ ورانہ مہارت حاصل کرنے کے لئے جاتے ہیں اور اپنے روشن مستقبل انہی ممالک میں رہ کر حاصل کرتے ہیں۔  اسی وجہ سے تمام مشرق وسطٰی کے ممالک جدید دنیا سے انتہائی قریب نظر آتے ہیں اور مغربی ممالک کی ترقی کا عکس ان تمام ممالک میں بھی نظر آتا ہے۔ جدید تعلیمی نظام اور ترقی یافتہ معاشرے کے باوجود عرب دنیا میں اسلامی روایتی ادارے قبیلہ ، مدارس، زاویہ اور صوفیۂ کرام کے سلاسل کا عمل دخل بھی معاشرتی سطح پر کافی مضبوط ہیں اسی وجہ سے اشتراکیت عرب دنیا میں کامیاب نہ ہو سکی اور معاشرتی طور پر شکست کھا گئی ۔ کرد تحریک کی جڑیں بھی عرب معاشرے اور ممالک میں موجود ہیں مگر اس تحریک میں اسلامی عصبیت اور اسلامی روایات کار فرما نہیں ہیں۔

دیکھا جائے تو سعودی عرب اور خلیجی ممالک میں فرق ہے جہاں بادشاہتیں بھی قائم ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اسلامی شناخت بھی موجود ہے مگر افسوس کی بات ہے کہ سعودی عرب کا عالم ِ اسلام میں کردار امریکی استعماری ایجنٹ کا ہے۔ مسلم دنیا میں جو کام امریکہ خود نہیں کروا سکتاوہ سعودی عرب کے ذریعے کرواتا ہے۔سعودی بادشاہت خدمتِ حرمینِ شریفین کی وجہ سے پوری مسلم دنیا میں ا حترام کی نگاہ سے دیکھی جا تی ہے،مگر نفاذشریعت کے لبادے میں امر یکی مفادات کی تکمیل کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔

پوری مسلم دنیا کی اسلامی تحریکوں خاص کر عرب دنیا کی اسلامی تحریکوں میں سعودی نفوذ بہت زیادہ ہے جس کے ذریعہ امریکی ایجنڈے کے مطابق ان تحریکاتِ اسلامی کی جدوجہد کی سمت کا تعین کر دیا جاتا ہے۔  سعودی فنڈز تمام تحریکات اسلامی میں انہی مقاصد کے حصول کے لئے دیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دنیا کی دیگر اسلامی تحریکات کے کارکنان کو سعودی عرب کے تعلیمی اداروں میں تدریس کے مواقع بھی اسی مقصد کی تکمیل کے لئے دئیے جاتے ہیں۔

جماعت اسلامی پاکستان کے بے شمار کارکنان بھی سعودی عرب میں ملازمتوں سے وابستہ ہیں اور وہ جماعت کے کام کو وہاں صرف دعوتی پروگرامات تک محدود رکھتے ہیں اور کسی انقلابی ایجنڈے اور پروگرام سے نا بلد ہوتے ہیں۔  اور جب ملازمت ختم کر کے واپس پاکستان آکے جماعت کے کام سے منسلک ہوتے ہیں تو صرف دعوتی کام ہی پر توجہ مرکوز کر سکتے ہیں اور کوئی بھی انقلابی یا سیاسی حکمت عملی سے نالاں ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں جماعت اسلامی کا وجہ الوجود انقلاب اسلامی کا کام کسی اور سمت چلا جاتا ہے کیونکہ سیاسی کام انقلاب اسلامی کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

عرب دنیا کی اسلامی تحریکوں نے بھی سعودی عرب میں امریکی ایجنڈے کو پایا تکمیل تک پہنچانے میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ اخوان المسلمون میں دراڑیں ڈالنے اورٹکڑے کرنے میں بھی سعودی عرب کا کردار بہت واضح ہے۔ اخوان المسلمون سے وسطانیہ جماعت کا نکلنا بھی امریکی ایجنڈا تھا جو سعودی استعمار کے ذریعے پورا کیاگیا۔ اسی طرح ترکی میں اربکان کی اسلامی تحریک سے طیب اردگان کی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کا نکلنا بھی امریکی ایجنڈا تھا جس کو سعودی استعمارنے پورا کروایا ۔

عراق پر امریکی حملے کے وقت امریکہ کا ایجنڈامشرق وسطیٰ کے ممالک میں جمہوری حکومتیں قائم کرنا تھا۔ اس ایجنڈے کے مطابق مشرق وسطیٰ میں امریکہ نے خالص لبرل بنیادوں پر وہاں کے قابض آمروں سے چھٹکارا حاصل کیا اور جمہوری حکومتیں قائم کیں۔ اس بات کی کوئی تحقیق ہمارے پاس موجود نہیں ہے کہ امریکہ نے کس طرح اپنے مقاصد حاصل کئے اور جو کردار سعودی عرب کے بادشاہوں نے امریکی ایجنڈے کو پورا کرنے میں ادا کیا وہ بھی ہمارے سامنے واضح نہیں ہے مگر تمام آمرو ں کو سعودی عرب نے پناہ کی پیشکش کی تھی اوران کے لئے آسانی سے نکلنے کے لئے راہ فراہم کی تھی اور اُن ممالک کی فوج نے سعودی عرب کے اس ایجنڈے کوپایہ تکمیل تک باحسن و خوبی انجام دیا۔

سب سے پہلے جس ملک میں یہ تبدیلی کی لہر اٹھی وہ تیونس تھا وہاں پر زین العابدین بن علی کی آمریت قائم تھی جس نے پورے ملک کو پولیس اسٹیٹ بنادیا تھا۔ بن علی اپنے پیش رو حبیب بورقیبہ کے نقش قدم پر پچھلے بیس سال سے چل رہا تھا اور پورے ملک کو سیکولر عرب نیشنل ازم کے نظریات کی بنیاد پر چلارہا تھا۔حبیب بور قیبہ نے تیونس پر قبضہ کر کے اسلامی عدالتی نظام ختم کر دیا تھا اور سیکولر عدلیہ قائم کردی تھی۔ ترکی کے مصطفی کمال اتا ترک کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تمام اسلامی اداروں اور تمام اسلامی جماعتوں پر پابندی لگا دی تھی ،پردے پر پابندی لگا دی تھی۔

اسلامی جماعتوں کو سیاست میں حصہ لینے کا حق حاصل نہیں تھا اور یہی صورتحال تمام ممالک کی تھی، اور ان تمام ممالک کے صدور ملک کی دولت سمیٹنے اور اپنی ذاتی ملکیت بڑھانے میں مشغول تھے۔ مگر افسوس ناک صورتحال یہ ہے کہ ان تمام آمروں کو کسی منظم اور اسلامی تحریک کے لوگوں نے نہیں ہٹایا بلکہ تبدیلی یا انقلاب کی وجہ ایک ایسا واقعہ بنا جو آج تک کبھی بھی اتنی بڑی تبدیلی کا ذریعہ نہیں ہوا تھا۔ وہ واقعہ یہ تھا کہ ایک تعلیم یافتہ انجینئر جو اپنے پیشے کے مطابق ملازمت نہ ہونے کی وجہ سے ایک ٹھیلا لگاتا تھا اتفاق سے کسی وجہ سے تیونس کی پولیس نے اس انجینئر کا ٹھیلا قبضے میں لے لیا جس کے نتیجے میں انجینئرجوکہ پہلے ہی اپنی اعلیٰ تعلیم کے باوجود ملازمت سے محروم تھا اس ذہنی تنائو کی وجہ سے خودکشی کرگزرا اور حرام موت کو اختیار کرکے اس دنیا سے رخصت ہوا۔ اس کے نتیجے میں تیونس کے عوام جو پہلے ہی بن علی کے خلاف تھے، ہجوم (Mob)کی صورت میں اس کے خلاف سڑکوں اور بازاروں میں نکل آئے۔ انہوں نے پورے ملک میں گلی کوچے اوربازاروں میں حکومت کے خلاف ایک نہ ختم ہونے والا احتجاج شروع کردیا جس کے نتیجے میں فوج نے بھی بن علی کو اس بات پر مجبور کردیا کہ وہ اقتدار سے علیحدہ ہوجائے اور اس تمام احتجاجی مہم میں استعمار نے بھرپورانداز میں عوام الناس کا ساتھ دیا جنہیں کوئی بھی منظم جماعت لیڈ نہیں کررہی تھی۔غور کیا جائے تو یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ سرمایہ دارانہ ریاست کی فوج اصل میں اپنے ملک کے سربراہ کی اطاعت گزارنہیں ہوتی بلکہ وہ سرمایہ دارانہ اہداف یعنی آزادی، مساوات اور ترقی کے حصول میں مددگار ہوتی ہے۔تیونس، مراکش، لیبیا اور مصرکی فوج کے کردار میں ایک اہم بات یہ ہی تھی جس کی وجہ سے فوج نے اس تبدیلی کی لہر میں ایک مددگار کا کردار ادا کیا تاکہ ریاست کا سرمایہ دارانہ ڈھانچہ محفوظ رہے اور کوئی بھی نئی حکومت آئے اس ہی ڈھانچہ کے مطابق ریاست کو چلائے۔ تمام جگہوں پرآمروں کے انخلاء کے بعد فوراً انتخابات کا اعلان کردیا گیا جس میں اس خدشے کی بھرپور نگرانی بھی کی گئی کہ کسی طرح اسلامی بنیادی فکر رکھنے والی پارٹیاں انتخابات بنیادی اسلامی اصولوں کی بنیاد پر نہ لڑیں بلکہ تمام اسلامی جماعتیں اسی سیکولر اورلادین نعرے آزادی، مساوات اورترقی ہی کو اپنے انتخابی منشور کا حصہ بنائیں اورانہی اہداف کو حاصل کرنے کے لئے وہ اقتدار حاصل کریں۔ اسلامی نظام زندگی کے قیام کا نعرہ، شریعت اسلامی کی نفاذ کی بات ان ممالک کی فوج کے لئے بھی قابل قبول نہیں تھی اور مغربی اور استعماری طاقتوں نے بھی اس تمام جدوجہد کی بھرپور نگرانی کی اور اپنے ایجنٹوں اور بیوروکریٹس کے ذریعے تمام اسلامی پارٹیوں کو اپنے مقصد وجود سے رجوع کرنے پر مجبور کردیا جس کی زبردست مثال مصر کی اخوان المسلمون نے پیش کی اور اس نے انتخابات میں ایک خالص سیکولرونگ جس کا نام جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی رکھا کے ذریعے انتخابی عمل میں حصہ لیا۔ مصر میں اخوان المسلمون نے تبدیلی کی اس لہر میں عوام الناس کے ساتھ مل کر وہاں کے آمر حسنی مبارک کو اقتدار سے بے دخل کرنے پرمجبور کردیا۔ لیبیا میں کرنل قذافی کو بذریعہ مسلح جدوجہد استعماری طاقتوں کی عسکری مدد کے ذریعے قتل کیا گیا جبکہ کرنل لیبیا کے عوام کا معیار زندگی دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی طرح تھا اور ریاست کا کوئی فرد معاشی تنگ دستی اور پریشانی کا شکار نہ تھا کیونکہ لیبیا کی ریاست ملک کے ہر شہری کو ضروریات زندگی بہم پہنچانے میں کامیاب رہی مگر وہاں دیگر ترقی پسند ممالک کی طرح آزاد مارکیٹ اکانومی اور جمہوری ادارے اس طرح مؤثر طریقے سے عمل پیرا نہیں تھے جس طرح مغربی ممالک میں ہیں حالانکہ لیبیا میں اسلامی نظام کا شائبہ بھی نہیں تھا۔ نیٹو نے لیبیا کو اس طرح آزد کروایا جس طرح بوسنیا اور کوسو کو آزاد کروایا۔اسی طرح یمن میں بھی وہاں کے آمر عبداﷲ بن صالح کو اقتدار چھوڑنا پڑا اور اقتداراس سرمایہ دارانہ ریاستی نظام کے سپرد کرکے ملک سے فرار ہونا پڑا۔ اب ہم اپنے ان سوالات کی روشنی میں عرب انقلابات کا نظری بنیادوں پر جائزہ لیں گے۔

انقلاب کے مقاصد کیا تھے؟

مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک کی جدوجہد کو اگر ہم ایک انقلابی جدوجہد کہیں اور تبدیلی کی ان تمام لہروں کے مقاصد کو سمجھنے کی کوشش کریں تو یہ بات بہت واضح ہو کر سامنے آتی ہے کہ ان تمام ممالک میں اس تبدیلی کی لہر کے پیچھے جو حکمت عملی کار فرما تھی وہ یہ تھی کہ ریاست کو معاشی ،معاشرتی، ریاستی اور سیاسی طورپر ایک لبرل ڈیمو کریٹک مملکت کے طورپر چلایا جائے تا کہ لوگوں کی خواہشا ت نفس کے مطابق معاشرتی اور ریاستی صف بندی کی جاسکے، اور اسلامی نظام زندگی کی قیام کی جدوجہد اور اُمید اس معاشی استحکام اور سرمایہ دارانہ عدل و انصاف کے حصول میں تبدیل ہوجائے۔ اس وقت پوری دنیا جس سرمایہ دارانہ نظام زندگی میںجکڑی ہوئی ہے اس کو سب سے بڑا خطرہ اسلامی تحریکوں سے ہی ہے جو اسلامی نظام کے احیاء کے لئے معرض وجود میں آئی ہیں جنہوں نے مسلمانوں کو اپنے پلیٹ فارم پر مجتمع ہی اس لئے کیا ہے کہ وہ اپنی جدوجہد کے ذریعے اس نظام زندگی کا احیاء چاہتی ہیں مگر ان جماعتوں کو اپنے اصل مقصد وجودسے ہٹا کرسرمایہ دارانہ اہداف کے حصول میں لگا دینا بھی ان انقلابات کامقصد رہا ہے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ تمام ممالک کی تبدیلی کی لہر میں یہ بات کہیں نظر نہ آئی کہ کسی بھی جگہ امریکہ اور اسرائیل کے خلاف نعرے بازی کی گئی ہو حالانکہ تمام ممالک کے آمر اپنے استعماری آقائوں کی مرضی سے حکمرانی قائم کئے ہوئے تھے اورانہی استعماری آقائوں کی مرضی سے مسند اقتدار پر قبضہ جمائے ہوئے تھے اور مستقل انہی مقاصد کے حصول میں مصروف اور مشغول رہا کرتے تھے اور امریکی اوراستعماری پالیسیوں کا نفاذکرتے نظرآئے۔ اس تمام وفاداریوں کے باوجود امریکی پالیسی سازوںاور عسکری ماہرین نے مشرق وسطیٰ کیلئے اب جس نظام زندگی اورترتیب معاشرت کی پلاننگ کی وہ یہ ہی تھی کہ ایک آزادمارکیٹ کی معیشت کے ذریعے ان ممالک کی ریاستی تنظیم ازسرنو ترتیب دی جائے اور ان تمام ممالک کے آئین اور قوانین اس عالمی نظام کے جدید اصولوں کے مطابق تریب دیئے جائیں جس کے نتیجے میں معاشرتی حکمرانی لبرل اور سیکولر اصولوں کے مطابق ہو اورمعاشرے پر اصل میں الوہیت انسانی اورالوہیت سرمائے کی حکمرانی قائم کی جاسکے۔ کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام زندگی اپنے آپ کو لبرل نظام زندگی میں ہی محفوظ سمجھتی ہے۔ سرمایہ داریت ایک ایسا کفر ہے جو مکمل نظام زندگی رکھتا ہے، جس کی انفرادیت بھی ہے، جس کی معاشرت بھی ہے، جس کی اپنی معیشت بھی ہے جو زندگی کہ ہر ہر جز اور شعبے کو اپنے کفر کی گرفت میں جکڑے ہوئے ہے۔ اور لبرل نظام زندگی ہراس تصور خیر کی نفی کرتی ہے جو الوہیت انسانی اور الوہیت سرمائے کی نفی کرے۔ لبرل نظام زندگی میں صرف وہ طرز زندگی فروغ پاتا ہے جس کے ذریعے حرص و حسد کی عمومی عبدیت قبول کر لی جاتی ہے۔ مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک میں خالص لبرل نظام زندگی کے مطابق آئین سازی کا عمل جاری ہے اور یہ آئین سازی وہ دینی جماعتیں سرانجام دے رہی ہیں جن کا اصل مقصد عبدیت الٰہی اور شریعت کے نفاذ کے ذریعے مسلمانوں کو آخرت کی کامیابی سے ہمکنار کرنا تھا۔ عبدیت الٰہی تو اصل میں آزادی یعنی لبرل ازم کی نفی ہے۔ مگر اس تبدیلی اورانقلابی جدوجہدوں کے نتیجے میں تمام بڑی اسلامی تحریکیں لبرل نظام زندگی کے نفاذ کے عمل میں مصروف عمل ہوگئیں اور اپنے کارکنان اور ہمدردوں کو ان سرمایہ دارانہ اہداف کے حصول میں لگا دیا جن کا اسلام کے احیاء اور فروغ سے دور کا واسطہ بھی نہیں تھا۔ عرب انقلابات کی سب سے اہم بات ان کے نتیجے میں آزادی یعنی معصیت کا فروغ ہے اور اس طرح ایک خالص لبرل نظام زندگی کا حصول ممکن ہوا۔

انقلاب کون لایا اورانقلاب کیسے منظم ہوا؟

بظاہر اگر دیکھا جائے تو نظر یہ آتا ہے کہ تمام تبدیلی کی لہر اور انقلابات کے پیچھے کوئی منظم گروہ اور جماعت نظر نہیں آتی مگر اس تمام منظر کے باوجودغور سے دیکھا جائے توواضح طورپر یہ نظر آتا ہے کہ مشرق وسطیٰ کی تبدیلی اور انقلاب کے اصل محرک لادین دانشور (Secular Intellectuals) سیکولرعدالتوں کے وکلاء اور ان کی تنظیمیں (Trade Unions) اور سیکولر اورلادین ویلفئیر آرگنائزیشن کے ساتھ ساتھ سول سوسائٹی کے تمام لوگ ان تمام تبدیلیوں کے آلہ کار اور کارکن تھے۔ مصروغیرہ میں اخوان المسلمین نے بھی اس تمام صورتحال میں اپنا کردار اداکیا مگر اس کا ایجنڈا اسلامی نظام کا احیاء نہیں تھا بلکہ اخوان المسلمین نے بھی آزادی، ترقی اور مساوات کے نعرے تلے ان تمام احتجاجی تحاریک میں کردار ادا کیا۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر اخوان المسلمون نے اپنا ایک سیاسی ونگ کچھ اس طرح ترتیب دیا جس میں ہر مذہب اور لادین شخص کو آنے کی اور اس کا کارکن بننے کی اجازت تھی کیونکہ اس سیاسی ونگ کا ایجنڈا کوئی اسلامی نظام زندگی کا احیاء اور غلبہ اسلام نہیں بلکہ وہی مغربی اور لادین نعرہ ٔآزادی، مساوات اورترقی ہے۔اور اس کے نتیجے میں اس سیاسی ونگ کا نام بھی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی رکھا گیا۔ یہ کیوں اور کیسے ہوا؟ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ اخوان المسلمون میں ان مسلمانوں کی شمولیت زیادہ ہو گئی ہے جو پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹراورانجینئر اور وکالت کے پیشے سے تعلق رکھتے ہیں اوراخوان المسلموں کے وہ تمام ارکان اور کارکنان جنہوں نے ابتدائی دور میں آزمائشیں اور ابتلا برداشت کی تھیں اور اسلام کے غلبہ اور احیاء اسلام کے لئے اپنی جانیں نچھاور کردیں، ان کی اولادیں ڈاکٹر، انجینئر اوروکالت کے پیشے سے منسلک ہوگئے جس کے نتیجے میں حسنی مبارک کے اقتدار میں تمام کارکنان اپنی پیشہ وارانہ اجتماعیتوں کے ساتھ بہت زیادہ منسلک رہے اور خالص پیشہ وارانہ مفادات کے لئے اپنی جدوجہد جاری رکھی اورساتھ ساتھ جتنا ممکن ہو سکا اخوان المسلمون سے بھی اپنا تعلق قائم رکھا اور جیسے ہی اخوان کو موقع ملا یہ تمام افرادجن کا تعلق اخوان سے بھی تھا بھرپور انداز میں متحرک ہو گئے۔ مگر افسوس کہ یہ جدوجہد اسلامی نظام کے احیاء کے لئے نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ انصاف کے قیام کی جدوجہد ثابت ہوئی کیونکہ جب ایک شخص اپنی پیشہ وارانہ اجتماعیت سے منسلک ہوتا ہے تو اس کو اجتماعیت کے ان تمام افراد کوبرادشت کرنا پڑتا ہے جو کوئی اور مذہبی تعلق رکھتا ہو یا بالکل ہی لادین اور مذاہب سے نفرت کرنے والا ہی کیوں نہ ہو کیونکہ پیشہ وارانہ اجتماعیت کا مقصد تو اصل میں اس پیشے سے وابستہ تمام افراد کے مفادات کا حصول اور تحفظ ہوتا ہے ۔ مصر میں ڈاکٹروں کی میڈیکل کونسل (نقابة الاطبائ) اور انجینئر کونسل (نقابة المھندسین) پر اخوان المسلمون کے افراد کا کنٹرول تھا جس نے تمام افراد کو حسنی مبارک کے خلاف مجتمع اور متحرک کیا اور یہ بات باور کرائی کہ حسنی مبارک سے آزادی حاصل کرنے کے بعد ہم اپنے زیادہ مفادات حاصل کر سکیں گے کیونکہ حسنی مبارک نے معاشرے میں جبر کے ذریعے ہمارے حقوق غصب کئے ہوئے ہیں۔ تمام ممالک کی جدوجہد کو ہم انہی تناظر میں رکھتے ہیں مگر امت مسلمہ کے لئے سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ عرب دنیا کی اسلامی تحریکیں اپنے بنیادی ایجنڈے یعنی غلبہ اسلام کو پس پشت ڈال کر مفادات کی جدوجہد میں اپنی توانائیاں خرچ کررہی ہیں جس کے نتیجے میں ان تمام تحریکوں کو معاشرتی اور سیاسی استحکام حاصل ہورہا ہے۔جن ممالک میں انتخابات ہو چکے ہیں اور وہاں اسلامی جماعتیں واضح اکثریت کے ساتھ حکومت کررہی ہیں اور مختلف آئینی ترامیم بھی کررہی ہیں مگر افسوس صد افسوس ان تمام امور میں اسلامی علمیت کی کہیں بھی رمق نظر نہیں آتی خالص سیکولر اور لادین ایجنڈے پر تمام تحاریک اسلامی عمل پیرانظر آرہی ہیں۔ بعد کے مطالبات یہ ہی بتاتے  ہیں کہ سیکولر نظام مصطفیٰ کی تحریک پرجماعت اسلامی نے قبضہ اخوان کا نظام تربیت سب سے بہتر تھا مگر جن ۔۔۔لئے قائم تھی مگر سعودی تعلقات اور نظام کا الہٰ کار کا ۔

تبدیلی اور انقلاب کے بعد کیا ہوا ؟ کس قسم کی معاشرت، انفرادیت اور ریاست قائم ہوئی؟

تمام عرب ممالک میں انقلاب کے نتیجے میں کسی قسم کا ریاستی تغیر سامنے نہیں آیا بلکہ تمام ریاستیں خالص سرمایہ دارانہ ڈھانچے پر مستحکم ہوگئیں اور تمام سرمایہ دارادارے اپنی اصل حیثیت میں بحال ہوگئے۔ خواتین کو بھی تمام جگہوں پر بھرپور نمائندگی دی گئی عوام الناس کی خواہشات کے مطابق آئین سازی کی جارہی ہے اور اس بات کی کوششیں بھی کی جارہی ہیں کہ آئندہ کسی آمر کو یہ موقع نہ مل سکے کہ وہ ایک بڑے عرصے تک ان ریاستوں پر حکمران رہ سکے۔ لوگوں کے معاشی مفادات اور ریاست کو جدید ترقی یافتہ بنانے کے لئے حکمت عملی بنائی جارہی ہے۔ اخوان المسلمون نے الیکشن لڑنے کے لئے الگ سیاسی پلیٹ فارم قائم کیا تھا اور عالم عرب کے اندر اور باہر کی دنیا کے ہر طبقے کے ساتھ اچھے روابط قائم کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں جو دنیا کو اپنے سیکولر ایجنڈے کے ساتھ یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہم بھی ترقی اور جدیدت کی راہ کے مسافر ہیں اور ترکی کے معاشرے اور نظام ریاست کو اپنانے کی جدوجہد میں مصروف عمل ہیں۔ راشد الغنوشی تیونس کی اسلامی پارٹی نیضہ کے سربراہ ہیں جن سے بی بی سی کے ایک نمائندے نے انٹر ویو لیا جو تیونس کی اسلامی پارٹی کی سمت واضح کرتا ہے۔ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے راشدالغنوشی نے فرمایا

“The state should not have any thing to do with telling people what to wear, what to eat and drink, what they should believe in”

”ریاست کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہئے کہ عوام کیا کھائیں، کیا پییں کیاپہنیں، اور کیا عقیدہ رکھیں۔” ایک اور سوال کے جواب میں فرمایا

“He has no plans to ban bikinis on the beach or the sale of alcohol, for example, I would prefer it if people didn’t do this, but it is up to them “He says”

”ساحل سمندر پر مختصر لباس پہننے یا شراب کی فروخت پر پابندی لگانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم اس بات کوترجیح دیں گے کہ لوگ خود ایسے کام نہ کریں مگریہ ان کی مرضی پر منحصر ہے۔”

یہ تمام جوابات مستقبل کی اسلامی پارٹی کی سمت واضح کرتے ہیں اور اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ تحریک اسلامی  امربالمعروف ونہی عن المنکرکا فریضہ کس طرح انجام دے گی۔

آخری بات:

مشرق وسطیٰ کے انقلاب کے تمام خدشات اپنی جگہ مگر ان تبدیلیوں کے نتیجے میں امیدوں کا ایک سمندر بھی موجود ہے اور وہ یہ کہ اخوان المسلمون جنہوں نے پچھلے چالیس پچاس سال تک آزمائشی دور کا سامنا کیا کیا وہ اتنی آسانی سے اپنے دشمن اور اسلامی نظام زندگی کے دشمن کا آلہ کار بن جائیں گے یہ بہت مشکل ہو گا ۔وہ بیش بہا اسلامی لٹریچر، وہ تفاسیر قرآن، وہ علوم اسلامی کا ذخیرہ جس نے اخوان المسلمون کے ہزاروںلاکھوں کارکنان کو ثابت قدم رکھا اور اسلامی نشاةِ ثانیہ کے قیام کی جدوجہد سے وابستہ رکھا وہ کس طرح ایک لادین اور لبرل نظام زندگی گزارنے پرآمادہ ہوجائیں گے ؟اور اپنی آنے والی نسلوں کے لئے کس طرح اسلامی نظام زندگی سے ہٹ کر ایک آزاد اور جدید نظام زندگی پررضامندی قبول کرلیں گے ۔؟

ہماری اسلامی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ امت مسلمہ کی قیادت ایک سخت ترین آزمائش اور امتحان ہوتی ہے، نہ کہ عیاشی اورعالیشان زندگی گزارنے کا ذریعہ، کیونکہ اسلامی اجتماعیت کی قیادت کی اصل ذمہ داری علوم اسلامی کی بنیاد پر تمام معاملات کو ڈھال دینا ہے اور اس بات کو مستقل اپنے سامنے رکھنا کہ ہماری ذمہ داری کی اصل جوابدہی اﷲ رب العزت کے سامنے دینی ہے جو ہر چیز سے آگاہ اور واقف ہے۔اﷲ تعالیٰ اخوان المسلمون کو اپنی جوابدہی کی تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور پوری دنیا کے مسلمانوں کے لئے ایک ایسی مثال قائم کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے جو امت مسلمہ کے لئے ایک سنگ میل ثابت ہو۔اور اپنے اسلاف کی قربانیوں کے نتیجے میں آنے والی نسلوں کے لئے ایک ایسا نظام زندگی مرتب کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو اُنہیں اسلام کے اصل مقصد حیات یعنی تمام انسانوں کو اﷲ رب العزت کی بندگی کی طرف مائل کردیناہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *