ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری-

 

                اس باب کا موضوع جمہوریت ہے۔ میں یہ کوشش کروں گا کہ جمہوریت کی اصلیت، اس کی ماہیت اور اس کی حیثیت و حقیقت اور مو جودہ زمانے میں اس کے کردار کے حوالے سے چند گزارشا ت آپ کی خدمت میں پیش کروں اور اس ضمن میں اس حکمتِ عملی کا بھی تذکرہ کروں جس کو اپنا کر عالمی سطح پر بھی اور ملکی سطح پر بھی ایک جمہوری معاشرہ اور جمہوری ریاست قائم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔

                بنیادی طور پر جو فکر، عمل، عقیدہ اور نظریہ آج پوری دنیا میں غالب ہے اسے ہم سرمایہ داری کہہ سکتے ہیں ۔ یہ فکر اور نظام انسان کو خدا کے بندے کی بجائے حرص اور حسد کا بندہ بناتا ہے اسی کو ہم کہتے ہیں(Transforming the subject of God into subject of Capital.) (خدا کے بندے کو سرمایہ کے بندے میں تبدیل کر دینا) جو نظام اس وقت غالب ہے وہ سرمائے کا نظام ہے اور سرمائے سے مراد محض حرص و حسد ہے اس کے سوا کچھ نہیں۔ سرمائے کی حیثیت صرف یہ ہے کہ قلوب کو حرص اور حسد مسخر کر لیں۔ یہ کیفیت صرف امیر آدمی پر طاری نہیں ہوتی۔ کوئی وجہ نہیں ہے کہ تاجر اور صنعتکار کو صرف حرص و حسد مسخر کریں مزدور کو بھی مسخر کرسکتے ہیں۔ ایک یونیورسٹی میںپڑھانے والے کو بھی حرص و حسد مسخر کر سکتے ہیں۔ لہٰذا حرص و حسد کی یہ کیفیت جس شخص اور جس معاشرے پر غالب ہو وہ شخصیت سرمایہ دارانہ شخصیت اور وہ معاشرہ سرمایہ دارانہ معاشرہ ہے خواہ نظریاتی طور پر وہ معاشرہ کتنے ہی دعوے کرے لہٰذا سرمایہ داری دراصل کسی بھی معاشرے میں حرص و حسد کے جذبات خبیثہ کے عام ہوجانے کی کیفیت کا نام ہے۔ ان معنوں میں سرمایہ داری ایک عمومی تصور ہے۔ جس میں ہر وہ شخص شامل ہوتا ہے جس کے قلب پر حرص و حسد کا قبضہ ہو جائے تو ان معنوں میں سرمایہ دارانہ نظام سے ہماری مراد وہ نظام ہے کہ جہاں کا تعقل اور جہاں کی ترتیبِ اعمال اس بنیاد پر ہوتی ہے کہ حرص و حسد کو ایک منظم اندا ز (Systematically)میں فروغ حاصل ہو۔

جمہوریت سرمایہ داری کے غلبے کی تنظیم:

اس سرمایہ دارانہ نظام کی سیاسی اور معاشرتی تنظیم کو ہم جمہوریت کہتے ہیں۔ جمہوریت سرمایہ داروں کے غلبے کا آلہ کار ہے۔ جمہوریت کا آپ کوئی دوسرا نام رکھنا چاہیں تو رکھ لیں لیکن تاریخی طور پر جس چیز کو جمہوریت کہا گیا اور جو بحیثیت جمہوریت کے غالب آئی ہے یہی چیز ہے جو میں عرض کر رہا ہوں۔ معاشرے اور ریاست کی وہ صف بندی جس کے نتیجے میں سرمایے کا غلبہ ممکن ہوسکے، سرمایے کا غلبہ عام ہو سکے تاریخی طور پر ہم اس کو جمہوریت کہتے ہیں۔ اور مغربی تناظر میں اگر ہم جمہوریت کے فروغ اور ارتقاء کی کوئی تاریخ لکھیں اورکوئی ہم سے پوچھے کہ جمہوریت کیا چیز ہے ؟ تو ہم یہی عرض کریں  گے کہ جمہوریت و ہ معاشرتی اور ریاستی صف بندی ہے جس کے نتیجے میں سرمائے کی بالا دستی اور سرمائے کا غلبہ انفرادی زندگی پر بھی اور معاشرے اور ریاست پر بھی مسلط ہو جاتا ہے اور مستحکم کیا جاتا ہے ۔ جمہوریت کا مقصد سرمائے کے غلبے کو مستحکم کرنا ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں۔ جمہوریت کی تعریف اگر تاریخی طور پر کی جائے تو اس طریقے سے کی جا سکتی ہے کہ جمہوریت وہ نظام، وہ معاشرتی و سیاسی حکمتِ عملی ہے جس کے نتیجے میں سرمائے کے غلبے کو بحیثیت مجموعی انفرادی سطح پر ، منظم و مربوط طریقے سے معاشرے کی سطح پر اور ریاست کی سطح پر قائم کیا جاتا ہے۔

جمہوریت میں فرد کی اخلاقی حیثیت سے کوئی بحث نہیں :

                 جمہوریت جس بنیاد ی مفروضے کے اوپر قائم ہے وہ یہ ہے کہ تمام افرا د برابر ہیں۔ ہر فرد دوسرے فرد کے برابر ہے ان معنوں میں کہ اس نے جس طریقے سے بھی اپنے نفس میں خواہشات کا پیمانہ مرتب کیا ہے۔ وہ اس کی اس حیثیت پر اثر انداز نہیں ہوتی کہ وہ معاشرے میں کیا مقام رکھتا ہے یا ریاست میں کیا مقام رکھتا ہے ۔ وہ شخص جو عابد و زاہد ہے جس کی زندگی اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق ،اور خواہشات کے مطابق مرتب ہوتی ہے اور وہ شخٍص کہ جس نے اپنے نفس کو شیطان کے سپر د کردیا ہے اور جس کے نزدیک زیادہ سے زیادہ لذت حاصل کرنا زندگی کا مقصد ہے ۔ ریاست اور معاشرے کی سطح میں دونوں برابر ہیں یکساں اہمیت کے حامل ہیں۔ آزادی کے اسی تصور(Equal Freedom) پر جمہوریت کی بنیاد ہے۔ ایک فر دکے اپنے نفس کے اندر جو بھی خواہشات ، میلانا ت اور جذبات ہیں۔ ان کی ترتیب کس نوعیت کی ہو اس سے معاشرتی عدل اور ریاستی عمل کے تعین کا کوئی تعلق نہیں ۔ اور معاشرتی عدل و تنظیم اور ریاستی تنظیم میں اس کو دوسرے فرد کے برابر سمجھا جائے گا اس چیز سے آنکھیں بند کر کے کہ اس کی اپنی اخلاقی زندگی(Moral Life)، اس کی اپنی تعین اقدار کیا ہے ؟ ان معنوں میںآپ ہر دوسرے شخص کے برابر ہیں۔ ایک زانی اور شرابی ، ایک نمازی اور پرہیز گار کے برابر ہے ۔ اسی طریقے سے ان کا ایک ووٹ ہے اسی طریقے سے وہ سرمایہ دارانہ معاھدے (Contract) کا شریک حصہ دار ہو سکتا ہے جس طریقے سے دوسرا شخص۔ تو جمہوریت کی بنیاد یہ ہے ہم اس بات کو نظر انداز کرتے ہیں کہ لوگوں کی اخلاقی اورروحانی حالت اور کیفیت کیا ہے ؟ ان کی روحانی اور اخلاقی کیفیت اور حالت کچھ بھی ہو معاشرے اور ریاستی نظام میں ان کا مقام یکساں ہے اسے ہم کہتے ہیں مساوی آزادی(Equal Freedom)۔ ان معنوں میں مساوات(Equality)  اور آزادی(Freedom) بالکل  لازم و ملزوم ہیں۔

اسلامی  معاشرتی درجہ بندی کیا ہے؟

            نا ممکن ہے کہ ہم ایک ایسا نظام تعمیر کریں جو عبادتِ الٰہی کی بنیاد پر قائم ہو اور اس کے اندر ہم مساوات کو شامل کر لیں ۔ لازماً اگر ہم نے ایک ایسا نظام قائم کیا کہ جس کے اندر عبادت مقصود ہے اور عبادت کو متشکل کر نے کے لیے ہم اپنے معاشرے اور ریاست کی صف بندی کررہے ہیں تو لازماً ہمیں اسلامی درجہ بندی کو قبول کرنا ہوگا۔ اسلامی معاشرتی درجہ بندی کو قبول کرنا ہوگا۔ میں چونکہ ایک جاہل آدمی ہوں اس لیے اس کی تفصیل نہیں بیان کر سکتا لیکن اسلامی معاشرہ وہ ہو گا جہاں اہلِ تقویٰ ، اہلِ رائے اور اللہ والے قیادت کا منصب اختیار کریں گے اور باقی ان کے تابع ہوں گے وہ مزکّی اور مربی ّہوں گے اور باقی حضرات کی تربیت فرمائیں گے ۔ اسلامی صف بندی جو ہوتی ہے وہ اسی درجہ بندی کی بنیاد پر ہوتی ہے ۔ جہاں ہم لوگوں کے نفس کی کیفیت کی بنیاد پر ان کو ذمہ داریاں سپرد کرتے ہیں ۔ معاشرتی سطح پر بھی اور ریاستی سطح پر بھی ۔ جمہوریت اس معاشرتی درجہ بندی کی نفی ہے ۔ اس درجہ بندی کی نفی ہے معاشرتی سطح پر بھی اور ریاستی سطح پر بھی ۔ وہ کہتی ہے نہیں سب برابر ہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ایک شخص کی نفسی کیفیت کیا ہے اس کا حال کیا ہے اس کا مقام کیا ہے اس کی روحانی وسعت کیا ہے ؟ اس کی علوم لدنی تک کتنی رسائی ہے ۔ اللہ کی مرضی کا کتنا تابع ہے ۔ یہ سب بے کار باتیں ہیں ۔ اس کا معاشرتی اور ریاستی عمل سے کوئی تعلق نہیں اسی لیے ہر جمہوری نظام میں جو بنیادی چیز ہوتی ہے وہ ہوتی ہے دستور ۔

جمہوری ریاست میں دستور کتاب اللہ کا متبادل بن جاتا ہے:

 دستور ہی کے ارد گرد یہ مساوی آزادی مرتب کی جاتی ہے اور دستور اصل میں کتاب اللہ کی جگہ لیتا ہے ۔ سب سے پہلا دستور جو بنا وہ امریکہ ہی کا دستور تھا۔ 1780ء کے دورانیہ میں فیڈ ر لسٹ پیپر(Federalist Paper) اور اس کے بعد دستور بنا اس نے فی الواقع صریحاً انجیل کی جگہ لی دنیا بھر میں جہاں جہاں جمہوریت قائم ہوئی خواہ وہ مذہبی ریاستیں تھیں یا اسلامی حکومتیں ان سب نے دستور کی بالادستی قبول کی اور عملاً ان تمام اسلامی و نظریاتی ریاستوں میں دستور نے کتاب اللہ کی جگہ لے لی۔ اصل میں دستور کی اہمیت کیوں ہے اس لیے کہ دستور ہی کے ذریعے یہ مساوی آزادی (Equal Freedom) ممکن بنائی جاتی ہے ۔ لیکن مساوی آزادی کے تصور کو سمجھنا نہایت اہم ہے اور مساوی آزادی کے تصور کو رد کیے بغیر احیاء اسلامی کا کام معاشرتی اورریاستی سطح پر منظم کرنا نا ممکن ہے ۔

جمہوری معاشرے میں تعلقات کی بنیاد غرض ہے:

                 اب میں جمہوری معاشرے اور جمہوری ریاست کے بارے میں چند باتیں عرض کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ جمہوری معاشرہ ہم اس معاشرے کو کہہ سکتے ہیں جہاں وہ صفات عام ہوں جن کے نتیجے میں سرمائے کے ارتکاز کو اور سرمائے کی بڑھوتری کو تقویت ملے جمہوری معاشرہ و ہ معاشرہ ہے جہاں تما م تعلقات کی بنیاد غرض پر ہو تی ہے۔ ان معنوں میں جمہوری معاشرے کو سول سوسائٹی کہتے ہیں او ر سول سوسائٹی مذہبی معاشرہ کی نفی ہے۔ سول سوسائٹی جب یورپ میں وجود پذیر ہوئی تو اس نے مذہبی معاشرہ کو ختم کیا ۔ عیسائی معاشرت کو ختم کیا اور عیسائی معاشرت اور سول سو سائٹی میں کیا بنیادی فرق تھا یہ بنیادی فرق تھا کہ عیسائی سوسائٹی محبت اور صلہ رحمی پہ قائم تھی۔ جب کہ سول سوسائٹی معاہدے، فائدے، حرص و حسد اور غرض کی بنیاد پر قائم ہوئی تھی۔

سول سوسائٹی اور مذہبی معاشرے کا فرق:

                lineageجسے ہم صلہ رحمی کہتے ہیں عیسائی معاشرت صلہ رحمی اور محبت پہ قائم تھی اور عیسائی معاشرے یا مذہبی معاشرے کی جو بنیاد ی صف بندی ہوتی ہے وہ صلہ رحمی ہی کی بنیاد پر ہوتی ہے ۔ محبت کی بنیاد پر ہوتی ہے انفاق کی بنیاد پر ہوتی ہے قربانی دینے کی بنیاد پر ہوتی ہے اس کے بر عکس جمہوری سو سائٹی یا سو ل سو سائٹی کی بنیاد کنٹریکٹ ہوتی ہے ۔ کنٹریکٹ سے مراد یہ ہے کہ آپ اپنے خاص مقاصد کو جو کچھ بھی آپ نے مقاصد اپنے لیے متعین کیے ہیں ان کو حاصل کرنے کے لیے دوسرے کے ساتھ ایک ایسا معاہدہ کریں جس کے نتیجے میںوہ آپ کو ان مقاصد کے حصول میں مدد دے۔ چناں چہ آپ اس سے محبت نہیں کرتے بلکہ آپ کی ایک باہمی غرض ہوتی ہے   ایک غرض آپ کی ہوتی ہے اس کی بھی ایک غرض ہوتی ہے اور ان دونوں اغراض کو حاصل کرنے کے لیے آپ ایک محدود تعاون کرتے ہیں اس تعاون کے نتیجے میں آپ ایک دوسرے کو استعمال کر کے اپنی ذاتی اغراض کو حاصل کرتے ہیں۔ پورا معاشرہ اسی خودغرضانہ تعاون کی بنیاد پر استوار ہوتا ہے۔ مارکیٹ ایک استعماری مظہر ہے ۔ کیونکہ وہ ہر تعلق کو اپنے اندر سمو لیتا ہے اور بنیادی طور پر سو ل سوسائٹی مارکیٹ سوسائٹی ہی ہوتی ہے اور سول سو سائٹی کے اندر خود غرضانہ تعاون و معاہدے اوراغراض کی جستجو کے سوا کوئی دوسرا کام کرنے کی وقعت نہیں رہتی۔ اضافی قدر (relative value)کا تعین اسی بنیاد پر ہوتا ہے کہ آپ اپنے معاہدے کو کتنا پور ا کرنے کے قابل ہوتے ہیں اور کتنا پورا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ریاست کا بھی یہی ایک بنیادی فریضہ ہوتا ہے کہ معاہدوں کا نفاذ (Enforcement of Contracts) کرے۔ ریاست بھی ظاہرہے ایک جمہوری ریاست ہوتی ہے ۔ جمہوری ریاست کا جمہوری معاشرے سے گہر ا تعلق ہے ۔

جمہوری معاشرے اور مذہبی معاشرے کا فرق:

جمہوری معاشرہ جمہوری ریاست کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا ۔ یہاں جو سمجھنے کی بات ہے جو میں گزارش کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ جمہوری معاشرے اور مذہبی معاشرے میں بنیادی فرق یہ ہے کہ جمہوری معاشرے میں تعلقات کی بنیاد غرض اور اس کی تکمیل ہوتی ہے ۔ مذہبی معاشرے میں تعلقات کی بنیاد صلہ رحمی اور محبت پر ہوتی ہے ۔ مذہبی معاشرے کی خصوصیت یہ ہے کہ غیر کو اپنایا جاتا ہے ۔ یہی محبت ہے ۔ صلہ رحمی ہے غیر کو اپنانا ۔ سول سو سائٹی میں بقول سارتر کے Hell is other people، غیر غیر ہی رہتا ہے۔ اپنے کچھ خاص مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے ۔

 

سرمایہ دارانہ معاشرے نے کیا اقدار دیں:

جب یورپ میں اس قسم کا معاشرہ قائم ہوا اٹھارویں صدی سے یہ عمل شروع ہوا ۔ اس وقت جو معاشرہ تھا جس کا میں تذکرہ کر رہا ہوں غرض کی بنیاد پر قائم شدہ معاشرہ ، یہ صرف چند شہروں میں تھا۔ نیپلز میں ، فلارنس میں اور اٹلی کے کچھ شہروں میں ۔ سو ئٹزر لینڈ میں کہیں کہیں بحیثیت مجموعی جو یورپین معاشرہ تھا وہ عیسائیت کے زیر اثر تھا۔ سرمایہ دارانہ معاشرہ (سول سوسائٹی) بہت دھیرے دھیرے پھیلا۔ اس کے نتیجے میں بڑے بڑے شہر بنے اور پھر اس کے بعد ملک بنے اور پھر اس کے بعد یورپ میںبحیثیت مجموعی اور پھر اس کے بعد یورپ کی نو آبادیات میں یہ معاشرہ پھیل گیا تو ہم یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں کو ن سے اخلاق نے فروغ پایا۔ کن اوصاف نے فروغ پایاہے ؟ یہ معاشرہ ، جب آپ نے مذہبی معاشرے کو تبدیل کر کے ایک سول معاشرہ بنا دیاتو اس کے نتیجے میں کن اخلاق نے فروغ پایا ؟ تو کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ جس اخلاق نے فروغ پایا وہ حرص و حسد اور شہوت و غضب کے جذبات تھے کوئی اس کا انکار نہیں کرسکتا ہے کہ عملاً جن اقدار نے فروغ پایا اس تبدیلی کے بعد وہ اقدارِ رذیلہ تھے ، اور وہ حرص و حسد اور طمع اور شہوت و غضب اور فرعونیت اور خود غرضی ہی تھے او ر کچھ اور نہیں تھے یہی یورپ کی تاریخ ہے اور آپ کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ اگر ان بنیادوں پر آپ نے دوسرے ممالک میں معاشرہ قائم کرنے کی کوشش کی تو اس جنسی بے راہ روی ، اس اخلاقی پس ماندگی اس زبوں حالی اس نفس کی غلاظت و کثافت کے سوا کوئی دوسرا نتیجہ آپ برآمد کر پائیںگے۔اس کی کیا کوئی دلیل ہے، کوئی منطق ہے جو یہ کہہ سکے کہ یورپ میں جو ہوا وہ ہمارے ہاں نہیں ہوگا۔ ہم اپنے ہاں ایک سول سوسائٹی قائم کر دیں گے لیکن اس سول سو سائٹی کے قیام کے نتیجے میں اولیاء اللہ کی بہتا ت ہوگی ۔اس کی نہ کوئی تاریخی حیثیت ہے اور نہ منطقی۔ ظاہر ہے کہ وہی اخلاق پیدا ہوئے جن اخلاق کا پیدا ہونا اور غالب آنا سرمائے کی بڑھوتری کے لیے ضروری تھا سرمائے کی بڑھوتری اور حرص و حسد کا فروغ پانا ایک چیز کے دو نام ہیں کوئی الگ چیز نہیں ہے۔ سرمایہ نام ہی اس کا ہے کہ حرص و حسد فروغ پائیں اور سرمایہ قلب کو مسخر کرے ۔ سرمایہ یہی چیز ہے اس کے علاوہ سرمایہ کچھ نہیں اس کی کوئی حقیقت اور حیثیت نہیں ہے۔

سرمائے کی اصل حیثیت۔ اخلاقی گراوٹ:

آپ جانتے ہیں کہ اس وقت سرمائے کی جو شکل ہے وہ Financeہے اور Financeکی کوئی حیثیت نہیں محض کمپیوٹر کی Memoryکے اندر کچھ نکات (Dots)ہیں اس کی اصلی حقیقت وہی ہے کہ وہ حرص و حسد ہے ظاہر ہے کہ جس وقت آپ اپنی مجموعی کاوش کا مقصد حرص و حسد کی عمومیت قرار دیں تو معاشرے میں جو اخلاق فروغ پائیں گے وہ یہی اخلاق فروغ پائیں گے ۔ اور آپ جانتے ہیں او ر دیکھتے ہیں یہ کوئی قیاسی بات نہیں ہے ۔ ایسی چیز ہے کہ جن معاشروں نے اپنے آپ کو سرمایہ داری اور اور سرمایہ داروں اور استعمار کے سپر د کر دیاوہاں وہ تمام اخلاق رذیلہ اور وہاں وہ تمام خباثتیں پیدا ہو گئیں ۔ جنسی بے راہ روی ، حرص و حسد اور طمع خود غرضی وغیرہ وغیرہ کہ جو یورپ میں اٹھارویں، انیسویں اور بیسویں صدی میں پیدا ہوئیں تما م نو آبادیات میں پیدا ہوئیں آج آپ دیکھیں تھائی لینڈ ، فلپائن اور ہندوستان میں ایڈز کی وبا ہے یہ کس وجہ سے آئی ؟ اس وجہ سے آئی کہ انہوں نے اپنے آپ کو سرمایہ داری اور استعمار کے سپر دکر دیا۔ جوبھی ملک اور معاشرہ اپنے آپ کو  سرمائے کے سپرد کرے گا اس کے اندر معاشرتی سطح پر اخلاقی گراوٹ آنا لازم ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ اس کے سوا کوئی دوسرا نتیجہ برآمد ہو۔ لہٰذا سول سو سائٹی کوجواز فراہم کرنے کی کوشش کرنا اور بڑی سادگی سے یہ کہنا کہ نہیں سو ل سوسائٹی کے اندرانسان کو بہت سے حقوق ملتے ہیں وغیرہ وغیرہ اور اس کی اسلام میں اجا زت ہے۔ مغربی فکر، فلسفے، تاریخ معاشروں سے ناواقفیت پر مبنی نقطہ نظر ہے۔ ایسا نقطہ نظر اختیار کرنا فی الواقع سول سو سائٹی کے قیام کے نتیجے میں معاشرے پر اور افراد کی ذاتی زندگی پر جو اثرات ہوتے ہیں ان سے سہوِ نظر کرنا ہے اور اپنے آپ کو دھوکہ دینا ہے ۔ ہم سو ل سو سائٹی کے قیام کے قائل نہیں ہیں بلکہ یقینا ہم   سول سوسائٹی کو تاریخی گمراہی اور طاغوت سمجھتے ہیں اور کوشش کریں گے اس بات کی کہ اسلامی معاشرتی اور ریاستی صف بندی ہو جس میں اہلِ تقویٰ اوراہل اللہ کی سیادت کو مستحکم کیا جائے اور اہل اللہ اور اہلِ تقویٰ کی سیاد ت کو معاشرے اور ریاست کی ہر سطح پر تسلیم کیا جائے اس کو قائم کرنا اخلاقِ حمیدہ کے فروغ کے لیے لازم ہے ۔ اگر سیادت اور قیادت علمائے کرام اور صوفیائے عظام کے ہاتھ سے نکل کرکسی دوسرے طبقے کے ہاتھ میں چلی گئی تو یہ ظلم ہوگا، معاشرے کے ساتھ، ریاست کے ساتھ، فردکے ساتھ ظلم ہو گا ۔ اس لیے کہ حضور ۖ نے فرما یا علماء انبیاء کے وارث ہیں ۔ معاشرے اور ریاست کی ہر سطح پر قیادت کا منصب صرف علماء کا منصب ہے اس لیے کہ جب علماء کو اس سیادت و قیادت سے محروم کیا گیا اور سیادت و قیادت دوسرے افراد کے ہاتھ میں دی گئی تو اس کے نتیجے میں معاشرے میں جو چیز پھیلی وہ اخلاقِ رذیلہ اورمنکرات تھے۔ لہٰذا سول سو سائٹی کو رد کرنا اور اس معاشرتی صف بند ی کو رد کرنا جو جمہوری نظام کا خاصہ ہے۔آج سو ل سو سائٹی کو قائم کرنے کے لیے جو کوشش نظر آتی ہیں ان کا بھی میں اختصار کے ساتھ تذکرہ کردوں۔

سول سوسائٹی اور این جی اوز:

سو ل سو سائٹی کو قائم کرنے کے لیے جو بنیادی ایجنسی آج کی دنیا میں موجود ہے اسے NGOsکہتے ہیں اس NGOکی تحریک کے پیچھے استعمار کا ہاتھ ہے NGOsکے مقاصد بنیادی طور پر معاشرے کو غرض (Interest) کی بنیاد پر تقسیم کرنا ہے ۔ صلہ رحمی کی بنیاد پر جو فطری صف بندی معاشرے میں مو جود ہے اس کو ختم کر کے غرض کی بنیاد پر سو سائٹی کو دوبارہ منظم کرنا تاکہ انسان بنیادی طور پر کسی خاص غرض کے حصول کو اپنی زندگی کا مقصد سمجھے ۔ اور اس کے نتیجے میں معاشرتی سطح پرجو تحریکات یا Movementsاٹھتی ہیں انہیں ہم کہتے ہیں Foucauldian Movements۔

Foucauldian تحریکیں یا سنگل ایشو مومنٹس:

                Foucauldian Movementsکیوں؟ اسلیے کہ فوکالٹ کہتا تھا کہ سرمایہ دارانہ شخصیت (Subjectivity)آزادی کے حصول کا ذریعہ ہے لیکن سرمایہ دارانہ شخصیت (Subjectivity)کا اپنے آپ کو سرمایہ کے سپر د کردینے کا عمل اس چیز کا متقاضی ہے کہ آپ متعین غلبہ (Specific dominations)کو رد (resist)کرتے رہیں۔ آپ خالص کسی ایک معاملے (Issue)کو لے کر اپنی آزادی کے حصول کے لیے جد و جہد (Struggle)کرتے رہیں کسی ایک مسئلہ پر مثلاً پانی نہیں آرہا تمام لوگوں کو اس بات پر متحد کیا جائے کہ پانی لائو تعلیم نہیں مل رہی تمام افراد کو اس چیز پر متحد کیا جائے کہ تعلیم حاصل کی جائے کوئی بھی single Issue Movementبغیر اس پورے خاکے کو چیلنج کیے بغیر، کہ تعلیم حاصل کر کے اور پانی کا حصول ممکن بنا کے تم بحیثیت مجموعی کس نظام کا غلبہ چاہتے ہو ؟ اس بڑے سوال کو اٹھا ئے بغیر ان  Single Issue Movementsکے ذریعے حصولِ عدل کو سرمایہ دارانہ نظام سے ہم آہنگ کیا جا سکے کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام میں وہ وسعت مو جود ہے جس کے نتیجے میں ہم ان سنگل اشوز کا حل اس طریقے سے حاصل کر سکتے ہیں جس کے نتیجے میں سرمایہ دارانہ حکمتِ عملی بحیثیت مجموعی مستحکم ہو ۔ اسے ہم کہتے ہیں Foucauldianتحریک۔ اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں لیکن جو بات اچھے طریقے سے سمجھ لینے کی ہے وہ یہ ہے کہ غیر حکومتی تنظیمیں (NGO’s)استعمار کی وہ ایجنسیاں ہیں جس کے نتیجے میں لوگوں کی خود غرضیوں کو بنیاد بنا کر سرمایہ دارانہ نظام کو قبول کرنے کی صلاحیت ان میں پیدا کی جارہی ہے ۔ ان خود غرضیوں کی جد و جہد اور ان خود غرضیوں کے حصول کے لیے جو تگ و دو وہ کرتے ہیں اس کا حصول عد ل کے ذریعے کے طور پر معاشرتی سطح پر جواز(Legitimize) پیش کیا جاتاہے۔ اس کو قبول کیا جائے کہ بنیادی طور پر سنگل اشو Movements پانی لانے کی تحریک یا تعلیم کو عام کرنے کی تحریک یا عورتوں کو آزاد کرنے کی تحریک ،یہ وہ تحریکات ہیں جن کے نتیجے میں فی الواقع لوگ آزاد ہو جاتے ہیں ان کو اپنی خواہشات کو پورا کرنے کا زیادہ موقع ملتا ہے۔ اس کے نتیجے میں جو بنیادی معاشرتی گراوٹ اور بنیادی معاشرتی اخلاقی رذائل کا پھیلائو ہے اس سے سہوِ نظر کر کے عوام کو اس سے مانوس کر کے ان کو اس بات کی طرف ترغیب دی جاتی ہے ان کو اس بات کی طرف دعوت دی جاتی ہے کہ وہ ان سنگل اشوز کو حل کرنے کے لیے اپنی تمام تر روحانی اور جذباتی وابستگیاں اس عمل کے ساتھ لگائیں اور سمجھیں کہ سرمایہ دارانہ معاشرہ عدل قائم کرتا ہے انہی معنوں میں کہ وہ ان کو ان کے جو کچھ بھی جائز مسائل ہیں ان کے حل کے لیے منظم ہونے کی اجازت دیتا ہے۔ اس طرح فرد کی توجہ اہم مسائل اور سوالات سے ہٹ کر صرف ایک چھوٹے سے مسئلے پر مرکوز ہوجاتی ہے اور یہی مسئلہ فرد کی اور کسی تحریک کی زندگی اور موت کا مسئلہ بن جاتا ہے۔

مغربی اور مذہبی معاشرت کا فرق:

                 سرمایہ دارانہ معاشرتی صف بندی کو چیلنج کرنے کی خاطر ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم سرمایہ دارانہ معاشرت کی روح کو اور سرمایہ دارانہ معاشرت کی کلیت کو متنازع فیہ بتائیں ۔ سرمایہ دارانہ عقلیت کو بحیثیت ایک عقلیت کے متنازع فیہ بتائیں اور ہماری تحریکات سنگلIssueمو ومننٹس نہ ہوں اورسنگل اشو موو منٹس کا جواز نہ پیش کریں۔ بلکہ سنگل اشو مو و منٹس کو معاشرتی صف بندی کے عمل میں کلیدی کردار اداکرنے سے روکیں اور ان کو یہ بات باور کرائیں کہ سرمایہ دارانہ نظام کو بحیثیت ایک نظام کے رد کیے بغیر وہ ظلم اور وہ اخلاقی رزائل جو اس نظام کو قائم کرنے کے نتیجے میں معاشرے پر اپنی گرفت مضبوط کرتے ہیں ان کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا تحریکاتِ اسلامی اور غلبہئِ دین کی تحریکیں معاشرتی صف بندی کی جو حکمتِ عملی اختیار کرتی ہیں اس حکمتِ عملی کی دو خصوصیات ہیں نمبر ایک یہ کہ وہ اس معاشرتی صف بندی کا احیاء کرنا چاہتی ہیں کہ جس کے نتیجے میں معاشرے میں ہر سطح پر محلے کی سطح پر، بازار کی سطح پر ، شہر کی سطح پر، صوبے کی سطح پر، ملک کی سطح پر اور غرضیکہ ہر سطح پر قیادت کی ذمہ داری علماء کرام اورصوفیائے عظام سنبھالیں۔ یہ انہی کی ذمہ داری ہے قیادت کا منصب ان کا منصب ہے اور معاشرتی صف بندی کی تشکیل ان کی ذمہ داری ہے ۔ نمبر دو ہماری تحریکات Single Issue Movementsنہیں ہوتی۔ ہم سوشل ورک نہیں کرتے ہماری تحریکات بنیادی طور پر اس عقلیت کو اکھاڑ پھینکنے کی تحریکیں ہیں جو دنیوی زندگی میں لذت کے حصول کو زندگی کا مقصد قرار دیتی ہے اور جس کے نتیجے میں وہ اخلاقِ رذیلہ پھیلتے ہیں یورپ اور امریکہ میں جہاں بھی مغربی تہذیب نے غلبہ حاصل کیا وہی اخلاق رذیلہ پھیلے۔ انہی معنوں میں ہم اپنی معاشرت کو مغربی معاشرت کا ایک متبادل سمجھتے ہیں۔ مغربی معاشرت کے اندر ہماری معاشرت نہیں پنپ سکتی ۔ مغربی معاشرت کے اندر اسلام کے لیے کوئی جگہ نہیں اور یہ بات عیسائیت کے المیے سے ہم پہ واضح ہے ۔ عیسائیت کے بارے میں عرض کروں گا بالخصوص علماء کی خدمت میں کہ اس وقت غیراسلامی تحریکوں کے بارے میں علماء کی جو کچھ توجہ ہے و ہ توجہ عیسائیت اور یہودیت پر مرکوز ہو کے رہ گئی ہے زیادہ تر علماء اور صوفیا جب غیر اسلامی تحریکات پر غور فرماتے ہیں تو ان کا مطمح نظر عیسائیت یا یہودیت ہوتا ہے ۔

امت مسلمہ کا عیسائیت سے کوئی مقابلہ نہیں:

                عیسائیت کے بارے میں یہ بات تقریباً مکمل یقین سے عرض کر سکتے ہیں کہ عیسائیت تو فنا  ہو چکی ہے۔ عیسائیت سے  ہمارا اس وقت کوئی مقابلہ نہیں ، مقابلہ مغرب سے ہے ۔ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ عیسائی فکر نے اور عیسائی روحانیت نے مغربی تہذیب کی نشوو نما میں ایک خاص کردار ادا کیا ہے لیکن اس وقت جو مد مقابل ہے وہ تہذیب مغرب ہے ۔ تحریکِ تنویر (Enlighnment)اور تحریکِ رومانویت (Romanticism)سے ہمارا مقابلہ ہے۔ عیسائیت سے ہمارا مقابلہ نہیں ہے ۔ اس لیے ہمارے علماء اور اہلِ علم کے لیے ضروری ہے کہ وہ عیسائیت کے مباحث سے صرف نظر فرمائیں اور بلاواسطہ تحریکِ تنویر اور تحریکِ رومانویت نے معاشرتی ،علمی اور ریاستی سطح پر جو خطرات پیش کیے ہیں ان کا محاکمہ فرمائیں اور ان کے اسلامی رد کے لیے وہ علمیاتی حکمت عملی تیار کریں جس کے نتیجے میں مغربی فکر تہذیب اور فلسفے کا وقیع تنقیدی محاکمہ پیش کیا جاسکے۔

سرمایہ دارانہ ریاست:

                 سرمایہ دارانہ ریاست یا لبرل ریاست کے قیام کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ وہ ایک ایسی شخصیت پیدا کرے جو اپنے آپ کو آزادی کے سپر د کر دے ۔ سرمایہ دارانہ ریاست کا بنیادی کام یہ ہے کہ وہ ایک ایسی شخضیت کی تعمیر اور اسکی مستقل تخلیق کو ممکن بنائے جس کے اندر دو خصوصیات ہوں ایک تو یہ کہ وہ اپنی انفرادی زندگی میں بھی اس نظم و ضبط کو قبول کرے جس کو قبول کیے بغیر آزادی ، آزادی کے زیادہ سے زیادہ اضافہ کو ، آزادی کو زیادہ سے زیادہ ممکن بنانے کا عمل  نا ممکن ہے ۔ یعنی ایک ایسی شخصیت کا وجود اور ایک ایسی شخصیت کی Reproduction،ایک ایسی شخصیت کی مستقل تخلیق جو اس بات کو قبول کرے کہ زندگی میں میرے وجود کی ضامن یہی بات ہے کہ میں کتنا زیادہ اس بات کے قابل ہو سکتا ہوں کہ میں جو چاہوں وہ کروں ۔ اس قسم کی شخصیت  خود بخود پیدا نہیں ہوتی جو اپنے اوپر آزادی کو خیرِ مطلق کے طور پر مسلط کرے ۔ اس شخصیت کو قبول کرنے کے لیے ایک قانون کی ضرورت ہوتی ہے ایک جبر کی ضرورت ہوتی ہے وہ قانون اوروہ جبر جمہوری ریاست فراہم کرتی ہے ۔

جبر کے بغیر انسان آزادی کا طلب گار نہیں ہوتا:

                پہلی ضرورت جمہوری ریاست کے وجود کی یہ ہے کہ انسان جبر کے بغیر خود بخود فطرتاً آزادی کی بڑھوتری کو مقصدِ زندگی کے طور پر قبول نہیں کرتا چنانچہ ہر دستور میں بالخصوص امریکی دستور میں جس چیز کو مقدس گائے کے طور پر رکھا گیا ہے اور جس کو جمہوری عمل سے ما وراء کی حیثیت دی گئی ہے وہ ہیں حقوقِ انسانی(Human Rights) ۔ حقوقِ انسانی کیا ہیں ؟ حقوقِ انسانی در اصل وہ ذرائع ہیں جن کے بغیر سرمائے کی بڑھوتری کے فرض کو فرد ادا نہیں کر سکتا۔

حقوق انسانی کو جمہوری عمل کے اگر ماتحت کر دیں تو اس کا امکان بھی مو جود ہے کہ حقوق انسانی کو رد کر دیا جائے۔ امریکی دستور جس وقت بننے لگا تو بالخصوص و ہ مفکرین جنہوں نے فیڈرلسٹ پیپر ز لکھے تھے ، ھمیلٹن اور میڈے سن وغیرہ انہوں نے کہا کہ بنیادی مسئلہ یہی مسئلہ ہے کہ ایک اقلیت کے اوپر ایک اکثریت ایسے قانون مسلط نہ کردے جو حقوق انسانی کے فروغ کو ملک میں ممکن نہ بنائیں ۔ چنانچہ امریکی دستور کے اندر اور اس کے بعد جتنے دساتیر لکھے گئے ہیں سب کے اندر جو بنیادی اعتقاد ہے وہ بنیادی اعتقاد حقوق انسانی کا ہے۔ گویا حقوق انسانی ایک ایسا عقیدہ ہے جس پر ایمان لانا ضروری ہے اور اکثریت کو بھی اس بات کا حق حاصل نہیں کہ وہ حقوق انسانی کو رد کرے۔ ان حقوق کو ماننا، تسلیم کرنا اور اس کے لیے سہولتیں مہیا کرنا ہر ایک کا فرض ہے اور جو اس فرض کی راہ میں حائل ہوا کسی قیمت پر برداشت نہ کیا جائے۔

حقوق انسانی، پختہ مذہبی عقیدہ:

 حقوق انسانی کے منشور کو سرمایہ دارانہ نظام کے تحت پختہ مذہبی عقیدے کی حیثیت حاصل ہے جس کا انکار ممکن نہیں۔ حقوقِ انسانی دستور کا دیباچہ ہیں جس کے نتیجے میں فر د کو اس بات کا مکلف بنایا جاتا ہے کہ وہ چند چیزوں کے معاملے میں خود مختار ہے مثلاً یہ کہ وہ اپنی زندگی کیسے گزارے گا کیا رائے رکھے گا؟ وہ رائے کا اظہار کس طریقے سے کرے گااور سب سے اہم یہ کہ وہ سرمایہ دارانہ ملکیت کا تابع بنا دیا جاتا ہے ۔ سرمایہ دارانہ ملکیت (Capitalist Property)اور اس کے جتنے بھی مضمرات ہیں حقوق انسانی کی تفصیل کے ضمن میں بیان کیے جاتے ہیں لہٰذا شخصیت کو اس طریقے سے تعمیر کرناکہ وہ آزادی کو زندگی کا مقصدِ اولیٰ تصور کرے اور آزادی کو حاصل کرنے کے لیے اس جبر کو قبول کرے جو حقوق انسانی کو ادارتی شکل(Institutionalize) دینے کے لیے کسی معاشرے میں ضروری ہوتے ہیں یہ سرمایہ دارانہ جمہوری ریاست کا فرض اولین ہے اور اس فرض اولین کو ادا کرنے کے لیے فلسفہ حقوق انسانی کو سرمایہ دارانہ اور لبر ل دستور کے دل کی حیثیت دے دی گئی ہے ۔ چنانچہ ہر جمہوری نظام کے اندر ریاست کا اولین فریضہ یہ کہ وہ بنیادی حقوق کو دیگر تمام حقوق سے بالا تر تصور کرے۔ اس لیے آج آپ جانتے ہیں استعمار اس بات کا داعی ہے کہ ہراس ملک میں جہاں اس کے مرتب کردہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے ہر اس ملک میں جہاں اس کے مروج کردہ بنیادی حقوق کی نفی ہو رہی ہے وہاں وہ عسکری مداخلت کرے اور اقوام متحدہ کی امن فورسز اوراقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اب تقریباً اپنا یہ کردار امریکہ سے اور دیگر قوتوں سے منوا لیا ہے کہ فی الواقع بنیادی حقوق جو ہیں وہ عالمگیر قانون ہیں(Universal Law) اور بنیادی حقوق کیا ہیں ؟جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ سرمایے کی بڑھوتری کی فرضیت کو ادا کرنے کے لیے جن وسائل کی ضرورت انفرادی طور پر ہوتی ہے وہ بنیادی حقوق ہیں ان کو عالمی قانون کے طور پر نافذ کرنا اور عالمی قانون کی حیثیت سے تسلیم کرانا جمہوری ریاست کا اولین فرض ہے۔

حقوق انسانی سے بالاتر کوئی شے نہیں:

                اگر جمہوری عمل کے نتیجے میں اس چیز کا خطرہ پیدا ہو کہ بنیادی حقوق سے بالا تر کسی قانون کو بحیثیت ایک نافذ قانون کے مان لیا جائے تو جمہوری عمل کو معطل کر دیا جاتا ہے ۔مثلاً ہمارے سامنے سب سے اہم مثال الجیریا کی ہے الجیریا میںفی الواقع ایسی صورت پیدا ہو گئی تھی جس کے نتیجے میں انتخابات کے ذریعے اس بات کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا کہ ایک ایسی حکومت قائم ہو گی جو شریعت کو بنیادی حقوق اور دیگر قوانین سے بالا تر حیثیت دے گی۔ لہٰذا فرانس اور امریکہ کی مدد سے ان انتخابات کو کالعد م قرار دے دیا گیا۔ تو یہ کوئی حادثاتی بات نہیں خود مغربی مفکرین کے ہاں بالخصوص اس وقت مغرب کا سب سے بڑا  سیاسی مفکر جان رالس ہے اس کی کئی کتابیں ہیں اس کی مشہور کتاب ہے جو1995ء میں چھپی جس کا نام ہے سیاسی لبرل ازم (Political Liberalism)۔ وہ اس کتاب میں کہتا ہے کہ اگرحقوق انسانی کو معطل کرنے کی تحریکیں اٹھیں تو آپ ان کو ایسے ہی تصور کریں جیسے وبا ہوتی ہے ، طاعون یا جیسے کوئی اور وبا ہوتی ہے ۔  اسے ایک وبا کے طور پر تصور کریں اور بالکل جس طریقے سے وبا کو ختم کرنے کے لیے ہر عمل جائز ہے اسی طریقے سے ان تحریکوں کو بھی ختم کرنا جائز ہے۔ (دیکھیے پولیٹیکل لبرلزم،ص٦٤۔ شائع کردہ بلیک ول پبلشرز آکسفورڈ) تو الجیریا میں جو کچھ ہوا وہ کوئی حادثاتی نہیں تھا ۔ سرمایہ دارانہ عقلیت اسی عمل کی متقاضی ہے ۔افغانستان کو بھی اسی لیے تباہ کیا گیا کہ اس نے دستوری اور جمہوری ریاست کا ڈھانچہ قبول نہیں کیا اور ایک متوازی ریاست بننے کی کوشش کی۔

جمہوریت آزادی کے حصول کا ذریعہ ہے:

 اس لیے کہ جمہوریت یا انتخابات تو ایک ذریعہ ہیں آزادی کی بڑھوتری کے لیے ، یہی تو انتخابات اور جمہوریت کا مقصد ہے اور اگر اس کے ذریعے وہ نتیجہ نہ نکلے تو ظاہر ہے کہ بنیادی حقوق کے نفاذ کا عمل معطل ہو جائے گا جو مقصود ہے جو مقدم ہے اور جو طریقہ ہے اس مقصود کو حاصل کرنے کا وہ حادثاتی ہے طریقہ دوسرا بھی ہو سکتا ہے۔ اس کی توجیہہ متعد د حضرات نے امریکہ اورفرانس میں بیان کی کہ یہ کوئی حادثاتی بات نہیں، تو اگر انتخابی عمل کے ذریعہ کبھی یہ امکان پیدا ہوا کہ بنیادی حقوق کو منسوخ کیا جائے یا بنیادی حقوق کے اوپر اور بالا تر کوئی قانون نافذ ہونے کا احتمال ہوا تو ان انتخابات اور اس جمہوری عمل کو فی الفور کالعدم کر دیا جائے۔ یہ سرمایہ داری کے عالمی غلبے کا ایک لازمی نتیجہ ہے ۔ ہو نہیں سکتا کہ انتخابات کے ذریعے بنیادی حقوق سے بالاتر کوئی دوسرا قانون نافذ کیا جائے اور استعما ر اسے قبول کرے، استعمار اس پہ مجبور ہے کہ اسے ختم کرے۔ استعمار منطقی طور پر اس پہ مجبور ہے کہ اسے ختم کرے اس کے سوا اس کے پاس کوئی دوسرا حل نہیں ہے۔ جو لوگ اس سے سہوِ نظر کرتے ہیں یا تو وہ استعمار اور سرمایہ داری کی حقیقت سے واقف نہیں یا پھر فی الواقع مغربی تہذیب کے اندر اسلام کو ضم کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے مسلم مفکرین کی یہ تمام تعبیرات کہ اسلام میں بھی انسانی حقوق کا تصور مو جو د ہے اور اسلام میں بھی سرمایہ داری کا ایک تصور مو جو د ہے ۔ اسلامی معیشت یہی کہتی ہے وغیرہ یہ تمام تصورات یا تو کسی غلط فہمی کا نتیجہ ہیں سرمایہ داری کی اصلیت کے بارے میںناواقفیت کا ثمر۔ یا پھر فی الواقع اسلام کو مغربی تہذیب کا ایک حصہ تصور کرنے کا نتیجہ ہیں یہ وہی دلیل ہے جو ہمارے معذرت خواہ (Apologysts)۔ بیسویں صدی کے شروع میں اور انیسویں صدی کے آخر میں امیر علی ، چراغ علی اور سر سید احمد خان دیا کرتے تھے کہ اصل میں تو مغربی تہذیب اسلام ہی سے نکلی ہے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اس بات کو اچھے طریقے سے سمجھ لینا چاہیے کہ سرمایہ دارانہ ریاست اور جمہوری ریاست ایک ہی چیز ہے دو چیزیں نہیں ہیں ۔ جمہوری ریاست کا مقصد سرمائے کی بالا دستی کو قائم کرنے کے سوا کچھ نہیں، باقی تو طریقہ کار ہے ۔ انتخابات ایک طریقہ کار ہے جمہوریت یا جمہوری پارلیمنٹ عدلیہ اور انتظامیہ یہ طریقہ کار ہیں ۔ مقصد صرف آزادی کی بڑھوتری ہے سرمائے کی بڑھوتری ہے ۔ اور آزادی اورسرمائے کی بڑھوتری میں اگر جمہوری عمل، انتخابات کا عمل ، پارلیمنٹ کا عمل عدلیہ کا عمل مانع ہو تو ظاہر ہے کہ وہ معطل کر دیا جائے گا۔ اوراصل مقصود یعنی سرمایہ داری بذریعہ بنیادی حقوق کے حصول کے لیے عالمی سرمائے کی بالا دستی مسلط کر دی جائے گی تاکہ نظام کو بحیثیت نظام کے خطرہ نہ ہو۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *