عرض مرتب

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اس وقت عالم اسلام کی جو مجموعی صورت حال ہے کسی بھی صاحب فکر ونظر سے مخفی نہیں، ایک زبردست کشمکش ہے جو اسلامیت اور مغربیت، اسلامی معاشرت اور مغربی تہذیب کے درمیان چل رہی ہے۔ امریکی استعمار اور سرمایہ داری کا تسلط اسلامی ممالک پر روز بروز بڑھتا جارہا ہے۔ افغانستان اور عراق کے بعد پاکستان واحد ملک ہے جس پر امریکی استعمار کی بھرپور توجہ مرکو زہے۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ ٢٠٠١ء کے بعد پاکستان کی آزاد حیثیت ختم ہوچکی ہے اور پاکستان امریکی کالونی میںتبدیل ہوچکا ہے، مگر ٢٠٠٨ء کے انتخابات کے دوران اور بعد میں امریکا نے براہِ راست پاکستانی اداروں میں جس طرح دھمکی، دھونس ، مراعات اور پرکشش پیکیج پیش کرکے پاکستانی سیاست کو اپنے ڈھب پر لانے کی کوشش کی ہے وہ ہماری آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے۔

امریکا ایک طرف جہاں پاکستانی معاشرے کو تیزی کے ساتھ مکمل طو رپر سیکولرائز کرنے کی طرف گامزن ہے وہیں اس کی خصوصی توجہ استعمار کے خلاف کسی بھی سطح پر مزاحمتی کردار ادا کرنے والی تحفظ وغلبۂ دین کی تحریکات بھی ہیں کیونکہ امریکا سمجھتا ہے کہ:

٭ مسلم دنیا میں امریکا کا اصل حریف غلبۂ دین اور تحفظ دین کی تحریکات ہیں۔

٭ تحفظ وغلبۂ دین کی تحریکات کو فیصلہ کن شکست دینے کے لیے ضروری ہے کہ عام لوگوں کو ان تحریکات سے یکسر لاتعلق کیا جائے۔ جمہوریت، انسانی فلاحی حقوق، آزادی اور ترقی کا ایک ایسا مقبول عام قومی ایجنڈا مرتب کیا جائے جس پر تمام مذہبی اور سیاسی جماعتیں جمع ہوجائیں، مذہبی جماعتیں بھی جمہوریت کے فروغ، استحکام اور انسانی حقوق کی جدوجہد کو مقدم رکھیں اور اس جدوجہد کو اسلامی جواز فراہم کریں، اسلام کے ریاستی اور سیاسی تشخص کو منہدم کردیا جائے۔ امارت وخلافت اسلامیہ کے قیام کا نظریہ اور اس حوالے سے جدوجہد قصۂ پارینہ بن جائے۔ عوام مجاہدین اسلام کو جاہل، ناسمجھ، نااہل اور اپنا دشمن سمجھنے لگیں۔ اسلامی انقلاب کا تصور سیاسی مباحث سے قطعاً محو ہوجائے۔ غلبہ وتحفظ دین کی تحریکات کو دستوری شکنجہ میں اس طرح کسا جائے کہ ان کا دم نکل جائے۔

یہ حکمت عملی ترکی میں بہت کامیاب رہی اور اب طیب اردگان کی پارٹی فلسطین اور لبنان میں مسلمانوں کے قتل عام کے لیے اپنی ترک افواج کو بھیجنا معیوب خیال نہیں کرتی۔

امریکی پالیسی ساز پاکستان میں بھی اسی حکمت عملی کو آزمانے کے لیے اسٹیج بنا چکے ہیں۔ا س حکمت عملی کے تین اجزاء تھے:

(١) جمہوری عمل کے احیا کے نتیجے میں ایک ایسی امریکا نواز حکومت قائم کی جائے جس کا اصل ایجنڈا امریکا کی جنگ سرحد، بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں لڑکر مجاہدین اسلام کو پاکستانی معاشرے سے مکمل طور پر بے دخل کرنا ہے۔

(٢) حکمران اتحاد سے باہر مذہبی اور سیاسی جماعتوں کو دستور سے وفادار ایک ایسے اتحاد میں ضم کیا جائے جو حقیقتاً امریکا کا باج گزار ہو۔ اس دستور سے وفادار، سرمایہ داری سے Layal حزب اختلاف اپنی پوری توجہ عوام کے جمہوری اور فلاحی حقوق کے تحفظ اور فروغ پر مرکوز رکھے۔ اور اس کو اقتدار میں شرکت کی اجازت ہی اس وقت دی جائے جب وہ اپنی صلاحیت کو ثابت کردے کہ وہ عوامی قوت کو جمہوری فلاحی حقوق کی بحالی کے مطالبات کے عنوان پر متحرک کرسکتے ہیں۔

(٣) اسلامی سیاسی جماعتوں کو مجاہدین اسلام اور ٹھیٹھ اسلامی جماعتوں سے دور کیا جائے۔ مجاہدین اسلام مکمل طور پر سیاسی، ثقافتی اور معاشرتی علیحدگی کا شکار ہوجائیں۔ تحفظ وغلبۂ دین کی جماعتیں تبلیغی جماعت، دعوت اسلامی، دینی مدارس اور خانقاہیں سیاسی اور اسلامی عسکری جدوجہد سے قطعاً لاتعلق ہوجائیں اور دستوری نظام کے وفادارو حلیف بن جائیں، مذہبی ادارے اسلامی انقلاب کو ناممکن سمجھنے لگیں اور اسلامی انقلابی اقدامات کو اسی طرح نظرانداز کردیں جس طرح انہوںنے عظیم انقلابی تحریک لال مسجد کو کچلنے کے عمل کو برداشت کیا۔

یہ ہے امریکی استعمار کی حکمت عملی۔ یہ حکمت عملی اگر کامیاب ہوجاتی ہے تو مستقبل کا پاکستان جو بھیانک تصویر پیش کرے گا، اس کا تصور ہی رونگٹے کھڑے کر دینے کے لیے کافی ہے۔ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اس حکمت عملی کو ناکام بنانے کے لیے نظریاتی تیاری کریں تاکہ ایک ایسی اقدامی اسٹریٹیجی تیار اور نافذ کی جاسکے جو امریکا کو اس خطے سے نکال باہر کرے اور ہم پاکستان میں اسلامی انقلاب برپا کرکے عالمی انقلابِ اسلامی کی جدوجہد میں اپنا حصہ ادا کرسکیں۔

اس کے ساتھ ساتھ دینی جماعتوں کو باور کرانے کی کوشش کی جائے کہ انقلابی جدوجہدنہ صرف ناگزیر ہے بلکہ موجودہ حالات میں عملاً ممکن بھی ہے، اس کی مندرجہ ذیل وجوہ ہیں:

الف: مغربی تہذیب ایک دم توڑتی ہوئی تہذیب ہے اور وہ اپنی ہی جائے پیدائش میں اپنا علمی اور عملی جواز کھو رہی ہے۔

ب: استعماریت کا محافظ امریکا داخلی طور پر کمزوری کا شکار ہوچکا ہے۔ قرضوں کے بوجھ نے اس کی معیشت کو کھوکھلا کردیا ہے جبکہ یورپ سمیت امریکا زبردست افرادی قوت کی کمی کا بھی شکار ہے۔

ج:مجاہدین کی پے درپے کامیابیوں اور پیہم قربانیوں نے استعمار کے غرور ونخوت کو خاک میں ملا دیا ہے اس کے ساز وسامان حرب کا خوف دلوںسے نکل چکا ہے۔ اس کی ٹیکنالوجی مجاہدین اسلام کو کچلنے میں مکمل ناکام رہی ہے۔

د: پاکستان کی سیاسی معاشی اور معاشرتی ابتری اور اسلام دشمن عناصر کا تسلط بھی اس بات کا متقاضی ہے کہ فی الفور جہادی انقلابی حکمت عملی اختیار کی جائے تاکہ خطے سے استعمار کی بے دخلی اور اسلامی انقلاب کی راہ ہموار کی جاسکے۔

زیرنظر کتاب اسی سلسلے کی ایک صدائے بازگشت ہے۔ یہ دراصل چند لیکچرز کا مجموعہ ہے جو اہل فکر ونظر نے تیار کیے اور اب انہیں مقالات کی صورت میں پیش کیا جارہا ہے۔ اس کتاب کی تیاری جناب ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری صاحب (زادہ اللہ علمہ وعملہ) کی زیرنگرانی ہوئی۔

یہ کتاب اپنے ان اہل ایمان بھائیوں کی خدمت میں ایک عرض داشت ہے جو کسی بھی سطح پر اور کسی بھی حوالے سے فکر ونظر کے میدان میں یا جہاد کے کارزار میں سرگرمِ عمل ہیں… یوں سمجھئے کہ یہ کتاب بعض حوالوں سے انقلابی مجاہدین کے لیے علمی ہتھیار ہے جس سے لیس ہوکر وہ دور جدید کے لبرل دانش وروں اور مذہب کا لبادہ اوڑھ کر امریکی استعمار کی چاکری کرنے والے مفکروں کے پھیلائے ہوئے بے سروپا پروپیگنڈے کا موثر جواب دے سکیں گے اور اس کے ساتھ ساتھ اسلامی انقلابی جہادی جدوجہد کو تیز کرسکیں گے۔ ہمیں امید ہے کہ ہمارے اہل ایمان بھائی اپنے ادنیٰ کفش برداروں کی ان معروضات پر ضرور توجہ دیں گیا ور اس پیغام کو اپنی ہی متاع تصور کرتے ہوئے حرزجان بنائیں گے۔

 

 

 

 

جمہوریت کے تناظر میں برپا

اسلامی جدوجہد کا تنقیدی جا ئزہ

مولانامحمد زاہد صدیق مغل

وضاحت:  مضمون میں جہاں کہیں لفظ  ‘آزادی ‘  اور  ‘مساوات ‘  عمومی طور پر استعمال ہوئے ہیں وہاں ان سے مراد مغربی تصورات  autonomy  اور equality  ہیں۔

                ١٨٨٧ کے جہاد میں ناکامی اور خلافت عثمانیہ کے سقوط کے بعد سے لیکر اب تک سرمایہ دارانہ استعمار کے جواب میں احیائے اسلام کیلئے بے شمار تحاریک برپا ہوئیں۔ ان تحاریک کو تین عمومی رویوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، پہلی تحریک علمائے اسلام کی تھی جسکا اظہار بر صغیر میں بریلوی اور دیوبندی مکتبہ فکر کی شکل میں ہوا اور جن کی برکت سے استعمار ی غلبے کے باوجود اسلامی علمیت آج ایک زندہ حقیقت کے طور پر موجود ہے اور مسلمان پورے اعتماد کے ساتھ یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے پاس وہ علمیت اپنی اصل شکل میں موجود ہے جسکی بناء پر فیصلے شارع کی مرضی کے مطابق ہوتے ہیں۔  دوسرا رویہ متجددین اسلام کا تھا جسکا آغاز تحریک علی گڑھ سے ہوتا ہے۔ اس تحریک سے وابستہ لوگوں کے خلوص پر تو ہمیں شک نہیں البتہ ان کی دعوت اور طریقہ کا رسے اصولی اختلاف ہے کیونکہ اسکی دعوت کا لازمی نتیجہ یا تو اسلام کی مغرب کاری (Westernization of Islam)  ہوتا ہے یا پھر مغرب کی اسلام کاری  (Islamization of west)۔ اس تحریک کا بنیادی مقصد اسلام کو مغربی تہذیب میں سمو دینے یا ان میں تطبیق پیدا کرنے کی شعوری یا غیر شعوری کوشش کرنا ہے کیونکہ یہ تحریک مغربی اقدار کو اصولاً اسلام ہی کا احیاء سمجھتی ہے۔ اس تحریک کے ہمنواوں کے خیال میں مسلمانوں کے زوال کی اصل وجہ ان کی عملی کوتاہیاں نہیں بلکہ اس اسلامی علمی (epistemological) تعبیر کی خرابی ہے جو انہیں اسلاف سے ورثے میں ملی ہے، لہذا کرنے کا اصل کام مسلمانوں کی اصلاح و ارشاد نہیں بلکہ اسلامی علمیت کی تشکیل نوع (Reconstruction)و اصلاح (Reformation) ہے تاکہ اسلام موجودہ دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو جائے، ما ورائے اس سے کہ وہ تقاضے بذات خود اسلام میں جائز ہیں یا نا جائز۔ تیسری تحریک انقلابیوں کی تھی جسکا آغاز برصغیر میں مولانا مودودی اور عرب دنیا میں سید قطب شہید سے ہوتا ہے۔ یہ تحریک غلبہ اسلام کی تحریک تھی جو اصولاً اس بات کی داعی ہے کہ اسلام اور سرمایہ داری دو مکمل اور متبادل نظام زندگی ہیں اور غلبہ اسلام کیلئے سرمایہ دارانہ نظام زندگی کی جزوی اصلاح نہیں بلکہ مکمل انہدام ضروری ہے۔ اس فکر کو عملی جامہ پہنانے کیلئے اس تحریک نے انقلاب اسلامی کی دعوت تو دی مگر اس انقلاب کو برپا کرنے کیلئے جمہوری سیاست بطور آئیڈیل ترین طریقہ سمجھ کر اختیار کیا ۔

                اس مضمون کا مقصد تمام تحریکات اسلامی کا عمومی مطالعہ نہیں بلکہ اس مخصوص جمہوری رویے کا جائزہ لینا ہے جسکے نتیجے میں غلبہ اسلام کی جدوجہد کرنے والی انقلابی دینی جماعتیں اپنے اصل مقصد سے دور سے دور تر ہوتی چلی جارہی ہیں لیکن اس کے با وجود انکی یہ غلط فہمی گہری سے گہری ہوتی چلی جا رہی ہے کہ جمہوری جدوجہد ہی غلبہ اسلام کا واحد اور اصلی طریقہ کار ہے۔ اس مضمون میں ہم درج ذیل دو باتوں کے جائزے کی روشنی میں یہ بتانے کی کوشش کریں گے کہ کیونکر جمہوری جدوجہد غلبہ اسلامی کی بیخ کنی کرتی ہے۔

                ا)    سیکولرازم کی اصل علمی بنیاد یں اور انسانیت پرستی کا مفہوم

                ٢)  جمہوری سیاست کی نوعیت اور اسکے تناظر میں برپا کی جانے والی جدوجہد اسلامی کی نوعیت

مضمون کے آخری حصے میں ہم جدوجہد اسلامی کی جمہوری تعبیر پر دئیے جانے والے چند اہم دلائل کا جائزہ بھی پیش کریں گے ۔ اس مضمون کا مقصود کسی کی دل آزاری کرنا نہیں بلکہ ان خامیوں کی نشاندہی کرنا ہے جو غلبہ حق کے مسافروں کی راہ میں رکاوٹ بن چکی ہیں۔

 

١ )   سیکولرازم اور انسانیت پرستی کا تعلق باہمی

                 سیکولرازم کی اصل انسا نیت پرستی (Humanism) یعنی انسان کو عبد نہیں بلکہ آزاد (Autonomous) اور قائم بالذات (الصمد (Self-determined گرداننا ہے، دوسرے لفظوں میں انسان کو اصلاً عبد کی بجا ئے Human  سمجھنا ہے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ سیکولرزم اس بات پر نہایت شدومد سے زور دیتی ہے کہ ایک عادلانہ معاشرتی تشکیل کے لئے ہمیں انسانیت کی سطح پر سوچنے کی ضرورت ہے نہ کہ کسی خاص مذہب، رنگ یا نسل وغیرہ کی بنیاد پر، یعنی معاشروں کی بنیاد ایسی قدر پر استوار ہونی چاہئے جو ہم سب میں مشترک ہے اور وہ اعلی ترین اور بنیادی قدر مشترک شے اس کے نزدیک  ‘انسانیت ‘  کے سواء کچھ نہیں ہوسکتی۔ سیکولرحضرات اپنے دعوے کی معقولیت ثابت کرنے کے لئے یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ  ‘آیا پہلے اور اصلاً ہم انسان ہیں یا مسلمان؟’۔ عام طور پر اسکا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ اصلاً تو ہم انسان ہیں اور مسلمان بعد میں، یعنی مسلمان ہونے کیلئے پہلے انسان ہونا ضروری ہے جس سے ثابت ہوا کہ ہماری اصل انسانیت ہے نہ کہ مسلمانیت۔ یہی وہ تصور ہے جسکے ذریعے سیکولرزم مذہب کو فرد کا نجی مسئلہ بنا ڈالتی ہے کیونکہ انسانیت کو اصل قرار دینے کے بعد زیادہ معقول بات یہی دکھائی دیتی ہے کہ اجتماعی نظام کی بنیاد ایسی شے پر قائم کی جائے جو سب کی اصل اور سب میں مشترک ہو تاکہ زیادہ وسیع النظر معاشرہ وجود میں آسکے نیز اگر مذہب کی بنیاد پر معاشرہ تشکیل دینے کو روا رکھا جائے گا تو پھر ہمیں رنگ ، نسل اور زبان وغیرہ کی بنیاد پر قائم ہونے والے معاشروں کو بھی معقول ماننا پڑے گا۔ انسان کی اصل انسانیت قراد دینے کے بعد مذہب کا نجی مسئلہ بن جانا ایک لازمی منطقی نتیجہ ہے اور یہی نقطہ تمام سیکولر نظامہائے زندگی (چاہے وہ لبرلزم ہو یا اشتراکیت ) کی اصل بنیاد ہے (سیکولرزم سے ہماری مراد ایسا نظام زندگی ہے جو وحی کے علی الرغم انسانی کلیات یعنی حواس و عقل وغیرہ کی مدد سے تشکیل دیا گیا ہو)۔ اسی فکر کے تحت ہم اس قسم کے جملے سنتے ہیں کہ ‘ ہمیں انسانیت کے پیمانے پر سوچنے کی ضرورت ہے’، ‘سب کے نظریات و خیالات کو عزت کی نگاہ سے دیکھنا چاہئے کیونکہ سب لوگ انسان ہیں’ ۔ حیرت انگیز اور افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہمارے دینی مفکرین ٹی وی مباحثوں میں جب سیکولر حضرات سے گفتگو فرماتے ہیں تو انسانیت کی بنیاد پر اپنے دلائل قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں جسکی وجہ سے یا تو انہیں دوران گفتگو پے درپے شکست ہوتی چلی جاتی ہے اور یا وہ کمزور دلائل اور تاویلات کا سہارا لیتے دکھائی دیتے ہیں ۔ در حقیقت انسانیت پرستی کو رد کئے بغیر مذہب کو اجتماعی زندگی میں شامل کرنے کی کوئی معقول علمی دلیل فراہم کرنا ممکن ہے ہی نہیں۔

اصل انسانیت یا مسلمانیت ؟

                آئیے ایک مرتبہ پھر اس سوال پر غور کریں کہ ‘آیا پہلے اور اصلاً میں انسان ہوں یا مسلمان؟’۔ اس سوال کا واضح اور قطعی جواب یہ ہے کہ ‘میری حقیقت اور اصل مسلمان (بمعنی عبد ) ہونا ہے جبکہ انسان ہونا محض ایک حادثہ اور میری مسلمانیت (عبدیت) کے اظہار کا ذریعہ ہے’ ۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ میری اصل عبد یعنی اللہ تعالی کی مخلوق ہونا ہے جبکہ میری انسانیت ایک حادثہ اور اتفاقی امر ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے یوں سوچیں کہ اگر میں انسان نہ ہوتا تو کیا ہوتا؟ ایک صورت یہ ہے کہ میں جن یا فرشتہ ہوتا، دوسری صورت یہ ہے کہ میں حیوانات، جمادات یا نباتات کی اجناس سے تعلق رکھتا۔ مگر میں کچھ بھی ہوتا ہر حال میں مخلوق ہوتا، یعنی اپنے وجود کی ہر ممکنہ صورت میں میری اصل مخلوق (عبد) ہونا ہی ہوتی ، یہ اور بات ہے کہ میری عبدیت کا اظہار مختلف صورتوں میں ہوتا۔ مثلاً اگر میں پودا ہوتا تو میری عبدیت کا اظہار پودا ہونے میں ہوتی ، اگر میں فرشتہ ہوتا تو یہ ملکوتیت میری عبدیت کے اظہار کا ذریعہ بنتی اور جب میں انسان ہوں تو میری انسانیت میری عبدیت کے اظہار کا ذریعہ ہے۔ الغرض میرا حال تو تبدیل ہو سکتا ہے لیکن میرا مقام بہر حال مخلوق (عبد) ہونا ہی رہیگا اور یہ بہر صورت ناقبل تبدیل ہے۔ میرے وجود کی ہر حالت میرے لئے ان معنوں میں اتفاقی (contingent) ہے کہ میں اپنی کسی حالت کا خود خالق نہیں بلکہ اللہ تعالی نے جس حالت میں چا ہا مجھے میری مرضی کے بغیر تخلیق کر دیا نیزوہ اس بات پر مجبور نہ تھا کہ مجھے انسان ہی بناتا۔ پس ثابت ہوا کہ میری اصل مسلمانیت (بمعنی عبدیت) اور انسانیت میری مسلمانیت کے اظہار کا ذریعہ ہے اور اسکے علاوہ میری انسانیت اور کچھ بھی نہیں۔ ہم نے عبدیت کو مسلمانیت سے اسلئے تعبیر کیا کیونکہ اصلاً تو ہر عبد مسلمان ہی ہو تا ہے چاہے وہ اسکا اقرار کرے یا انکار، اگر وہ اسکا اقرار زبان اور دل سے کر لیتا ہے تو مومن و مسلم (اپنی حقیقت اور اصل کا اقراد کرنے والا اور تابعدار ) کہلاتا ہے اور اگر ماننے سے انکار کرے تو کافر (یعنی اپنی حقیقت کا انکار کرنے والا) ٹھرتا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں کافر کوئی نئی حقیقت تخلیق یا دریافت نہیں کرتا بلکہ اصل حقیقت (مسلمانیت، یعنی اللہ تعالی کا بندہ ہونے ) کا انکار کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب میں غیر مسلم سے مخاطب ہوتا ہوں تو انہیں اسلام کی دعوت دے سکتا ہوں لیکن کسی  ‘ما ورائے اسلام انسانی مفاد’  کے تناظر میں ان سے مکالمہ نہیں کرسکتا۔

                جب یہ ثابت ہو گیا کہ میری حقیقت عبد ہونا ہے اور انسانیت محض میری عبدیت کے اظہار کا ذریعہ ہے تو یہ سمجھنا بالکل آسان ہو گیا کہ میری انسانیت کا وہی اظہار معتبر ہوگا جس میں عبدیت جھلکتی ہو نہ کہ میری خود کی مرضی اور نفس پرستی۔ چونکہ اللہ تعالی کے نزدیک میری عبدیت کے اظہار کا واحد معتبر ذریعہ صرف اور صرف اسلام ہے، لہذا میری انسانیت معتبر تب ہی ہوگی جب میری زندگی کاہر گوشہ اسلام کے مطابق ہو۔ اسی لئے اس نے فرمایا  ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ  (یعنی جو کوئی اسلام کے علاوہ کسی دوسرے طریقے سے اپنی عبدیت کا اظہار کرے گا تو اللہ کے ہاں قابل قبول نہیں ہوگا) اور ان الدین عند اللہ الاسلام (یعنی اظہار عبدیت کا واحد معتبر طریقہ اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہے)۔ اس تفصیل کے بعد یہ سمجھنا بھی آسان ہو گیا کہ جب ہماری انسانیت محض اظہار عبدیت (اسلام) کا ذریعہ ہے تو اسکا اظہار زندگی کے ہر گوشے میں ہونا ضروری ہے چاہے اسکا تعلق میری نجی زندگی سے ہو یا اجتماعی زندگی سے۔

انسانیت پرستی کی مختلف تعبیرات

                سیکولر حضرات جب انسانیت پرستی کا دعوی کرتے ہیں تو درحقیقت انسان کی عبدیت کا انکار کرکے اسے آزاد اور قائم بالذات تصور کرتے ہیں۔  یعنی اگر میں انسان کو عبد نہیں مانتا تو لامحالہ اسے آزاد مانوں گا کیونکہ اس دنیا میں انسان کے دو ہی مقامات ممکنہ طور پر تصور کئے جا سکتے ہیں ، یا تو اسے عبد سمجھا جائے گا اور بصورت دیگر آزاد مانا جائے گا۔ ہر صورت میں اسکی حقیقت کے بارے میں ایک ایمان لانا لازم ہے اور اس ایمان کے بغیر کسی نظام زندگی کی ابتدا متصور نہیں ہو سکتی۔ جب انسان کو آزاد مانا جاتا ہے تو اسکا معنی یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے نفس کے علاوہ کسی کا تابع نہیں اور یہی وہ شے ہے جسے قرآن نے من اتخذ الہہ ہواہ سے تعبیر کیا ہے۔ انسانیت پرستی کی تمام تعبیرات کا کلمہ مشترکہ لاالہ الا الانسان ہے یعنی یہ تصور کہ انسان اصلا ً آزاد (autonomous ) اور قائم بالذات (self-determined) ہستی ہے نیز یہ صفت آزادی تمام انسانوں کا مساوی حق ہے۔ اس مخصوص تصور انسان کو ہیومن بینگ (Human Being) کہتے ہیں جو اٹھارویں اور انیسویں صدی میں پیدا ہوا اور اس سے پہلے کسی تہذیب اور نظام زندگی میں ہیومن کا تصور موجود نہیں تھا۔  ہیومن در حقیقت انسان نہیں بلکہ شیطان ہوتا ہے جو آزادی کا طالب ہوتا ہے۔ آزادی کس سے؟ خدا سے آزادی۔ ہیومن یہ دعوی کرتا ہے کہ اس کی خواہش خدا کی مرضی کے ہم معنی ہے اور وحی پر مبنی مذہبی علمیت کوئی چیز نہیں، حقیقی علمیت ارادہ انسانی ہی سے ماخوذ ہوتی ہے۔ تمام سیکولر نظامہائے زندگی مساوی آزادی (equal-freedom) کو اعلی ترین خیر اور قدر تصور کرتے ہیں۔ انسانیت پرستی کی تعبیرات کو دو بڑے گروپوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: (ا)  انفرادی (individualistic)تعبیرات  (٢)  اجتماعی (communitarian)تعبیرات۔ پھر ان دونوں توجیہات کی متعدد شکلیں (shades) ہیں جن میں سے اہم ترین درج ذیل ہیں:

 سیکولرازم یاانسانیت پرستی کی انفرادی تعبیرات:              (الف)  انارکسٹ تعبیر،   (ب)  لبرل جمہوری تعبیر ، (ج)  سوشل ڈیموکریٹ تعبیر 

سیکولرازم یاانسانیت پرستی کی اجتماعی تعبیرات:

(الف) نیشنلسٹ تعبیر ،  (ب)  اشتراکی یا مارکسٹ تعبیر ، (ج)  فاشسٹ تعبیر

خوف طوالت کی بناء پر اس مضمون میں ان تمام تعبیرات پر فرداً فرداً کلام کرنا اور انکے ضمن میں برپا کی جانے والی جدوجہد اسلامی کا محاسبہ کرنا ممکن نہیں لہذا اس مضمون میں ہم صرف لبرل جمہوریت اور اسکے تناظر میں کی جانے والی اسلامی جدوجہد پر کلام کریں گے۔ لبرل دستوری جمہوریت کا انتخاب اس لئے کیا گیا ہے کیونکہ انسانیت پرستی کی یہی وہ شکل ہے جس نے انقلابی اسلامی تحریکوں کی فکر اور عمل کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے نیز موجودہ تناظر میں اسی فکر کا دنیاپر غلبہ ہے اور اسی طور پر یہ عالم اسلام کیلئے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ یوں بھی دیکھا جائے تو سیکولرازم کے ان مختلف نظریوں میں کئی امور مشترک ہیں نیز ان سب کو ریاستی اظہار کے مواقع بھی میسر نہیں آسکے جیسے انارکسزم وغیرہ۔

٢)  انسانیت یا سرمایہ داری کی لبرل جمہوری تعبیر:

حق اور خیر کی ترتیب باہمی :

                آزادی کے انفرادی اظہار کے جواز کی بحث فرد ، معاشرے اور ریاست تینوں کے تناظر میں کی جاسکتی ہے۔ فرد (individual self)کی سطح پر آزادی کا وجہ جواز ڈیکارٹ ، کانٹ اور جان مل وغیرہ کے ہاں ملتا ہے، جبکہ معاشرے یا مارکیٹ کی سطح پر اسکی توجیہ آدم سمتھ، والراز اور میکس ویبر وغیرہ نے بیان کی اور اسی طرح سیاسی سطح پر لبرل جمہوری نظام حکومت کی علمی بنیادیں فراہم کرنے کے سلسلے میںتھامس ہابس ،جان لاک اور جاک روسو کلیدی وکیل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ چونکہ اس مضمون کا سیاق سیاسی تناظر لئے ہوئے ہے، لہذا ہم اسی پیرائے میں لبرل جمہوریت پر بحث کریں گے۔ جیسا کہ اوپر بتایا گیا کہ سیکولرازم کی تمام تر تعبیرات میں مشترک فیہ چیزآزادی بطور اعلی ترین خیر کا اقرار ہے۔ گو کہ آزادی کے مفہوم میں منفی اور مثبت آزادی (negative and positive freedom) کی تفصیلات شامل ہیں لیکن آسان لفظوں میں آزادی کا مطلب ہے انسان کے  ‘حق ‘  کا   ‘خیر و شر’   پر فوقیت رکھنا، یعنی خیرو شر طے کرنے کا حق انسان کو حا صل ہونا۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ خیر وشر کی تعبیر کرنے کا انسانی حق بذات خود خیروشر کے سوال پر فوقیت رکھتا ہے، یعنی اصل مسئلہ یہ نہیں کہ خیر وشر کیا ہے بلکہ اصل بات تو یہ ہے کہ خیروشر کا تعین کرنے کا مساوی حق ہر انسان کو ہونا چاہئے۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ انسان اس حق کو استعمال کرکے اپنے لئے خیر وشر کا کونسا پیمانہ طے کرتا ہے، بلکہ اصل خیر یہی ہے کہ انسان خود خیر وشر طے کرنے کا مجاز ہو ۔ جب یہ طے ہوگیا کہ انسان کا حق خیر پر فوقیت رکھتا ہے تو وہ اپنی ترجیحات کی جو بھی ترتیب مرتب کرے گا وہی اسکے لئے خیر ہوگا۔ اگر ہنری پتے گننے کو اپنی زندگی کا مقصد بنالے تو یہی اسکے لئے خیر ہوگا، اگر ابرار گلوکار بننا چاہتا ہے تو یہی اسکا خیر ہوگا اور اگر عبداللہ مسجد کا امام بننا چاہتا ہے تو یہ اسکا خیر ہوگا۔ الغرض اصل بات یہ نہیں کہ وہ اپنی آزادی کو کس طرح استعمال کرتا ہے بلکہ اصل خیر یہ ہے کہ وہ اپنے لئے خیر وشر طے کرنے کا حق استعمال کرنے میں آزاد ہو۔ اسکی ایک اور آسان مثال ٹی وی چینلز سے سمجھی جا سکتی ہے کہ اصل بات یہ نہیں کہ آپ کھیلوں یا فلموں کا چینل دیکھتے ہیں یا مذہبی پروگراموں کا، بلکہ اصل بات تو یہ ہے کہ آپ کو یہ حق حاصل ہو کہ جو چینل دیکھنا چاہیں دیکھ سکیں۔ دوسرے لفظوں میں آزادی کا مطلب ہے choice of choice  (جو چاہنا چاہوں چاہ سکنے کی آزادی)، یعنی کوئی عمل فی نفسہ اچھا یا برا نہیں اور نہ ہی ہیومن کے ارادے کے علاوہ کوئی ایسا پیمانہ ہے جسکے ذریعے کسی عمل یا شے کی قدر (value)متعین کی جاسکے۔ لہذا سرمایہ دارانہ سیکولرزم کی دوسری مگر ذیلی قدر مساوات ہے ۔ ایسا اس لئے کہ آزادی کے اس تصور کے مطابق چونکہ ہر فرد کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے لئے قدر کا جو پیمانہ چاہے طے کرلے، لہذا ہر شخص کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ دوسروں کے اس مساوی حق کو تسلیم کرے کہ وہ بھی اپنی زندگی میں خیر اور شر کا جو پیمانہ چاہیں طے کرلیں اور اس با ت کو مانے کہ خیر و شر کے تمام معیارات مساوی (Equal)ہیں جس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر شخص کے تعین قدر کی ترتیب کو یکساں اہمیت دی جائے اور کسی بھی فرد کے معیار خیر وشر اور اقداری ترجیحات کی ترتیب کو کسی دوسرے کی ترتیب پر فوقیت نہیں دی جانی چاہئے۔ مثلاً فرض کریں عبد اللہ اور ہنری ایک جمہوری ریاست کے دو افراد ہیں جن کے چند اعمال کی فہرست درج ذیل ہے:

عبد اللہ:   پانچ وقت نماز ادا کرنا،  رات کوتلاوت اور ذکر و تسبیح کرنا،  جائز طریقے سے جائز شے کا کاروبار کرنا،  ماں باپ کی خدمت کرنا

ہنری:       کرکٹ اورفلمیںدیکھنا،  رات گئے تک ناچ گانے اور شراب کے کلب میں رہنا ،  حرام طریقے سے حرام شے کا کاروبار کرنا،  جمناسٹک کلب جانا

            اب آزادی کی قدر کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ ریاست ان دونوں افراد کے اس حق کو تسلیم کرے کہ]الف[ وہ ان میں سے جو اعمال اختیار کرنا چاہیں اختیار کرلیں ]ب[اپنی خواہشات کے مطابق جو بھی اعمال وہ اختیار کریں گے وہی ان کے لیے خیر ہیں ]یعنی فی نفسہ دونوں قسم کے اعمال نہ تو اچھے ہیں اور نہ ہی برے [۔ اسی طرح مساوات کی قدر کا تقاضا یہ ہے کہ  (الف) ریاست اس بات کو بھی تسلیم کرے کہ ان دونوں افراد کی خواہشات اصولاً برابر ہیں یعنی یکساں اہمیت کی حامل ہیں اور معاشرے میں پنپنے کے مساوی مواقع کی حقدار ہیں،  (ب)  لہذا یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ تمام افراد کے تصورات خیر کے معاملے میں غیر جانبدار (neutral)رہے اور ایسی صف بندی وجود میں لائے کہ سب تصورات خیر کے فروغ کیلئے مساوی مواقع فراہم ہوں۔

            گو کہ اصولاً ہر شخص کی خواہشات کی ترتیب مساوی اہمیت کی حامل ہے، البتہ جس شے کی خواہش ہیومن نہیں کرسکتا وہ خود اظہار آزادی کا انکار ہے، یعنی کسی فرد اور معاشرے کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنے لئے کوئی ایسا خیر یا اپنی خواہشات کی کوئی ایسی ترتیب متعین کرے جسکے نتیجے میں آزادی (choice of choice) کا اصل الاصول معطل ہوتا ہو۔ فرد اپنی آزادی سے اپنی ترجیحات کی صرف وہی ترتیب متعین کرسکتا ہے جس سے دوسروں کی ویسی ہی آزادی محددود نہ ہوتی ہو ۔ چنانچہ یہ طے کرنے کیلئے کہ افراد کو کیا چاہنے اور کرنے کی اجازت ہے اس سوال کا جواب دینا چاہئے کہ کیا تمام افراد کو اس عمل کی اجازت دینے کے بعد بھی اس عمل کو کرنا ممکن ہے یا نہیں؟ مثلاً فرض کریں کہ ایک شخص چاہتا ہے کہ وہ شراب پئے،اب سوال یہ ہے کہ اگر تمام افراد ایسا کریں تو کیا ایسا کرنا ممکن ہے؟ چونکہ تمام افراد کو اس فعل کی اجازت دینے سے افراد کی خواہشات میں کوئی تصادم لازم نہیں آتا، لہذا شراب پینا بالکل درست عمل ہے ۔لیکن اگر کوئی شخص یہ چاہتا ہے کہ وہ شراب پی کر کار چلائے تو یہ ٹھیک نہیں کیونکہ اگر تمام افرادکو ایسا کرنے کی اجازت دی جائے تو کوئی بھی شخص گاڑی نہیں چلا سکتاجس سے واضح ہوا کہ شراب پینا توٹھیک عمل ہے مگر شراب پی کر گاڑی چلانا غلط ہے۔اس اصول کے مطابق نہ صرف یہ کہ زنا کرنا قانونا اور اخلاقاً جائز فعل ٹھرتا ہے بلکہ ایک بھائی کا اپنی بہن سے ، باپ کا بیٹی سے اور بیٹے کا ماں سے بدکاری کرنا بھی عین درست عمل ہے کیو نکہ اگر تمام افراد ایسا کرنے لگیں تو بھی ایسا کرنے میں افراد کی خواہشات میں ٹکراؤ کی صورت پیدا نہیں ہوتی۔اخلاقیت کے اسی اصول کو کانٹ (Kant)کا آفاقی اصول (Principle of universalisability)کہا جاتا ہے۔ اس اصول کے مطابق ایک فرد کا ہر وہ فعل اور خواہش قانوناًجائز ہے جسے وہ خواہشات میں ٹکراؤ پیدا کیے بغیر تمام انسانوں کو کرنے کی اجازت دینے پر تیار ہوسکتا ہے۔ چنانچہ اس اصول کے مطابق فرد کی ہر وہ خواہش قانوناً اور اخلاقاً ناجائز اور قابل تنسیخ ہے جو اصول اظہار آزادی کے خلاف ہویعنی جسکے نتیجے میں دوسروں کی آزادی چاہنے کی خواہش میں تحدید ہوتی ہو۔ اخلاقیات اور قانون وضع کرنے کے اس اصول کی دو خصوصیات قابل غور ہیں:  اولاً یہ محض ایک ایسا مجرد اصول (structure) ہے جس کا مافیہ (content) خواہشات کے سواء کچھ بھی نہیں یعنی یہ اصول یہ نہیں بتاتا کہ کیا چیز خیر ہے اور کیا نہیں، بلکہ اسکے مطابق خیر کا معیار خواہشات کا آفاقیت کی صفت سے متصف ہونا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں جو شے اس اصول سے گزر کر خیرکہلاتی ہے وہ انسانی خواہشات ہیں جسکا مطلب یہ ہوا کہ اخلاقیات کا مافیہ انسانی خواہشات ہیں۔ دوئم یہ اصول خواہشات کی ترتیب متعین کرنے کا کوئی پیمانہ سرے فراہم نہیں کرتا یعنی یہ اصول اس بارے میں یکسر خاموش ہے کہ مختلف تصورات خیر میں سے کونسا تصور زیادہ اہمیت کا حامل ہے ۔ مثلاً اگر ایک شخص یہ فیصلہ کرنا چاہتا ہے کہ آیا وہ نماز ادا کرے یا کرکٹ میچ دیکھنے جائے تو اس اصول اخلاق میں اس فیصلہ کرنے کی کوئی بنیاد موجود نہیں بلکہ حتمی فیصلہ اس بنیاد پر ہوگا کہ فرد اپنے لئے کس شے کو خیر اعلی سمجھتا ہے۔ قانون اخلاق کا یہ فلسفہ نفس پرستی کے تمام ذلیل ترین مظاہر کو عام کرنے نیز معاشرے میں انکی اشاعت کی اجازت دینے کا دوسرا نام ہے۔

            اس تفصیل سے واضح ہوجانا چاہئے کہ آزادی کا ما فیہ (content)کچھ نہیں یہ تو عدم محض (empty space OR nothingness) ہے، یعنی یہ صرف اس  ‘صلاحیت ‘  کا نام ہے جو مجھے میری  ‘ہر چاہت’   حاصل کرسکنے کا مکلف بنا دے، ماورائے اس سے کہ وہ چاہت کیا ہے۔ ہیومن یا سرمایہ دارانہ انفرادیت کیا چاہتی ہے؟ یہ کہ  ‘میں جو چاہنا چاہوں چاہ سکوں ‘  (preference for preference itself) نہ کہ کوئی مخصوص چاہت ، کیونکہ جونہی میں کسی مخصوص چاہت کو اپنی ذات کا محور وہ مقصد بناتا ہوں آزادی ختم ہوجاتی ہے جسے ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری خوبصورت پیرائے میں یوں بیان کرتے ہیںکہ  “his self can possess ends but cannot be constituted by them” ۔ اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ مغرب کے پاس خیر کا کوئی substantive  (مثبت،منجمدیا حقیقی ) تصور سرے سے موجود ہی نہیں، کیونکہ جس آزادی کو وہ خیر اعلی گردانتے ہیں اسکا مافیہ کچھ نہیں بلکہ وہ عدم محض ہے۔ یہاں خیر ‘کوئی مخصوص چاہت ‘ نہیں بلکہ ‘کسی بھی چاہت کو اختیار کرسکنے کا حق’ ہے۔ دوسرے لفظوں میں مغربی تصور خیر درحقیقت عدم خیر (absence of any good) ، یعنی ہر خیر کی نفی کا نام ہے اور یہ عدم خیر ہی انکے خیال میں خیر اعلی ہے۔ انہی معنی میں مغربی تصور خیر اصلاً شر محض (absolute evil)ہے کیونکہ شر درحقیقت عدم خیر ہی کا نام ہے اسکااپنا علیحدہ کوئی وجود نہیں۔ یہ مقام ان مسلم مفکرین کے لئے لمحہ فکریہ ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ مغربی تہذیب کی اصل(Inner core)خیر پر مبنی ہے اور اسکے ظاہر میں کچھ برائیاں اسلئے در آئی ہیں کہ اس خیر کو برتنے میں انسانی کو تا ہیاں ہو گئیں۔ اسی طرح معاملہ یہ بھی نہیں کہ اسلام کا ایک تصور خیر ہے اور مغرب کے پاس کوئی دوسرا، بلکہ مغربی تہذیب میں کسی  ‘بلند اور راست’  مقصد کا وجود ہی سرے سے نا ممکن ہے کیونکہ جس شے کو وہ خیر سمجھتے ہیں وہی اصل شر ہے، جسے وہ عدل سمجھتے ہیں وہی اصلاً ظلم ہے اور اسی لئے مارماڈیوک پکتھال فرمایا کرتے تھے کہ مغربی تہذیب در حقیقت تہذیب نہیں  ‘بربریت’  (savegery) یعنی تہذیب کی ضد ہے، کیونکہ اصلاً تو تہذیب صرف اسلام ہی ہے ۔ جو شے سرمایہ داری کی تمام تعبیرات میں اصل خیر کے طور پر غالب آتی ہے وہ  ‘ارادہ انسانی کی بالادستی ‘  یعنی وہ صلاحیت ہے جو میری ہر چاہت کوممکن بنا سکے اور اس صلاحیت کی عملی شکل (embodiment)سرمایہ ہے۔ سرمائے کی بڑھوتری آزادی کے فروغ کی ان معنی میں عملی شکل ہے کہ جب ایک شخص ہیومن ہونے کو تسلیم کرتا ہے تو وہ لازماً سرمائے کی بڑھوتری کو اپنی زندگی کے اولین مقصد کے طور پر قبول کرتا ہے۔ بقول ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری:  ”آزادی کا مطلب ہی سرمائے کی بڑہوتری ہے اس کا کوئی دوسرا مطلب نہیں، جو شخص آزادی کا خواہاں ہے وہ لازماً اپنے ارادے سے اقدار کی وہی ترتیب متعین کرے گا جس کے نتیجے میں اس کی آزادی میںاضافہ ہو۔ سرمایہ ہی وہ شے ہے جو ممکن بناتا ہے کہ انسان جو کچھ بھی چاہے حاصل کر سکے۔ مسجد بنانا چاہے تو مسجد بنائے، شراب خانہ بنانا چاہے توشراب خانہ بنائے، چاند پر جانا چاہے تو چاند پرجائے۔کسی چیز کی کوئی اصلی قدر نہیں،ہر چیز اپنی قدر صرف اور صرف ہیومن کی خواہش اور ارادے سے حاصل کرتی ہے ۔لہذا قدر اصل (Intrinsic value) صرف ارادہ انسانی کی ہے ۔ سرمایہ ہی ارادہ محض کے اظہار کا واحد ذریعہ ہے۔ لہذا سرمایہ دارانہ عقلیت (آزادی )کا تقاضا ہے کہ ہر ہیومن اپنی خواہشات کو اس طرح مرتب کرے کہ ان کے حصول کی جدوجہد قدر اصل یعنی سرمائے کی بڑھوتری کے فروغ میں ممد اور معاون ہو۔خواہشات کی ہر وہ ترتیب جو ہیومن کو سرمائے کی بڑھوتری کے عمل کا آلہ کار نہیں بناتی (سر مایہ دارانہ) عقلیت کے خلاف ہے۔۔۔سرمائے کی بڑھوتری وہ کسوٹی ہے جس پر ہیومنز کی ہر خواہش اور خواہشات کی تمام ترتیبوں کو جانچا جاتا ہے اور انکی تقابلی قدر (Exchange value)اسی قدر محض کے مطابق متعین ہوتی ہے۔ ہر وہ خواہش جو سرمائے میں اضافے کا ذریعے نہیں بنتی اسکی تقابلی قدر (سرمایہ دارانہ معاشرے میں ) صفر یا منفی ہوتی ہے’ ‘ (مزید تفصیل کیلئے دیکھئے :  ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری ، ساحل اگست ٢٠٠٦:  ص  ٣٨) ۔ چنانچہ معاشیات کا مضمون اس بات کو باور کراتا ہے کہ ایک فرد اپنی انفرادیت ]یاآزادی[ کا اظہار عمل صرف (Consumption)کے ذریعے کرتا ہے یعنی وہ جتنی اشیاء صرف (Consume)کرتا ہے اتنی ہی زیاد ہ خواہشات کی تسکین کر سکتا ہے اورایک صارف (Consumer) زیادہ سے زیادہ خواہشات کی تسکین تبھی کر سکتا ہے جب اس کے پاس زیادہ سے زیاد ہ اشیاء خریدنے کے لیے آمدنی (Income) ہو۔اسی طرح معاشیات کا مضمون یہ بھی کہتا ہے کہ انسان کی خواہشات لامحدود (Infinite)ہونی چاہئے ،مگر چونکہ ان خواہشات کو پورا کرنے کے ذرائع لامحدود نہیں ہیں، لہذا زیادہ سے زیادہ خواہشات کی تکمیل کے لیے ضروری ہے کہ فرد اپنے ذرائع کو اپنے وجود کی ممکنہ حد تک بڑھانے کی کوشش میں لگارہے اور ذرائع میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کرنے کی اس خواہش ہی کو ماہرین معاشیات عقلیت (Rationality) کا معیار کہتے ہیں ، یعنی عقلمند شخص (Rational agent)وہی ہے جو سرمائے میں لامحدود اضافے کی خواہش رکھتا ہو   (نفس مضمون کی وضاحت کیلئے اس مقام پر آزادی اور سرمائے کے تعلق کی اسی قدر تفصیل کافی ہے)۔

            ہیومن رائٹس درحقیقت آزادی کے اسی مجرد تصور کا قانونی اظہار ہیں جو آزادی ، مساوات اور ترقی کے اصولوں پر تشکیل اقتدار کو ممکن بناتے ہیں۔ اس فلسفے کے مطابق ہر ہیومن کوچند ایسے ناقا بل رد(unchallengeable)حقوق حاصل ہیں جو اس کی فطرت میں شامل ہیں اور جنہیں کسی بھی قانون یا مذہب کے نام پر غصب نہیں کیا جا سکتا۔ ان میں سے تین سر فہرست حقوق یہ ہیں :  ]١[  زندگی کا حق  (یعنی یہ تصور کہ یہ بدن اور زندگی انسان کی اپنی ہے )،  ]٢[  اپنی مرضی کے مطابق خواہشات پورا کرنے کا حق، جسے اظہار آزادی ضمیر بھی کہا جاتا ہے،  ]٣[  ملکیت کا حق۔ چنانچہ ہیومن رائٹس وہ قانونی ڈھانچہ فراہم کرتے ہیں جو ایک طرف ہر فرد کے اس حق کو ممکن بناتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ آزادی حاصل کرسکے ]یعنی زیادہ سے زیادہ خواہشات پوری کرسکے[ یہاں تک کہ وہ کسی دوسرے کی عین ویسی ہی آزادی میں رکارٹ نہ بنے ، اور دوسری طرف ہر فرد کے اس مساوی حق کو ممکن بناتا ہے کہ وہ دوسروں کو اپنی آزادی اس طرح استعمال کرنے پر مجبور کرسکے کہ جس سے وہ دوسرا شخص اس فرد کی آزادی میں مداخلت نہ کر سکے ۔ مثلاً اگر ایک باپ اپنی بیٹی کو یونیورسٹی میں رات کے کسی فنکشن میں جانے سے منع کرے تو اس بیٹی کو اس بات کا حق حاصل ہونا چاہئے کہ و ہ پولیس کو بلواکر اپنے باپ کو جیل بھجوا دے اور خود یونیورسٹی جا سکے۔ اسی طرح اگر ایک باپ اپنی اولاد کو نماز نہ ادا کرنے پر سرزنش کرے تو اولاد کو یہ حق حاصل ہو کہ وہ باپ کو اپنی آزادی میں مداخلت کرنے سے روک سکیں۔ ذاتی زندگی صرف اور صرف فرد سے متعلق ہے اگر اس زندگی کا تعلق بیٹے، بیوی، بہن، باپ سے ہو تو یہ زندگی ذاتی نہیں رہے گی بلکہ اجتماعی زندگی (Public Life) کہلائے گی، اس دائرہ کار کے شروع ہوتے ہی فرد کی آزادی ختم ہوجائے گی اور ہیومن رائٹس کے قانون کا اطلاق شروع ہوجائے گا جس کے مطابق وہ اپنے بچوں اور بیوی کے معاملات میں بھی کسی قسم کی مداخلت کا حق نہیں رکھتا ۔ اسی لیے مغرب میں اگر باپ بچے کو ڈانٹ دے یا باہر جانے کی اجازت نہ دے تو بچہ پولیس کو طلب کرلیتا ہے کہ باپ میری ذاتی زندگی میں مداخلت کر رہا ہے اور بیویاں ہر سال عدالتوں سے شوہر کے خراٹوں پر طلاق لیتی ہیں کہ شوہر کے خراٹوں سے ان کی پرسکون نیند کی آزادی مجروح ہوئی ہے۔ دوسرے لفظوں میں سیکولرازم میں ذاتی زندگی صرف  I تک محدود ہے اس کے سوا تمام زندگی اجتماعی یعنی پبلک لائف ہے۔ اس میں ریاست کے قوانین کے سوا کسی کو مداخلت کا حق نہیں، ایسی مداخلت بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے اوراسی کا نام بنیادی حقوق ہے جس کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے۔ جمہوری ریاست درحقیقت جس قانون کو بالاتر تسلیم کرتی ہیں وہ یہی ہیومن رائٹس ہی ہیں نیز اسکا مقصد وجود ہی ہرفرد کو اپنی اپنی خواہشات کے مطابق زندگی گزارنے کے مساوی مواقع فراہم کرنا ہوتا ہے۔

            وہ اصول حکمرانی جو قانون سازی کے ان مقاصد پر پورا اترتا ہے اسے  ‘اکثریت کی حاکمیت (Democracy)یا اکثریت کی مطلق العنانی’  (majority-dictatorship)کہتے ہیں۔ جان لاک اس اصول کاجواز کچھ اسطرح پیش کرتا ہے کہ چونکہ افراد خود اپنی مرضی سے معاشرہ قائم کرتے ہیں اور قانون سازی محض ان کی زیادہ سے زیادہ خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ ہے ،لہذا یہ ان افراد ہی کاحق ہے کہ وہ اپنے لئے جو قانون چاہیں بنائیں ۔ ایک ایسا فرد جو آزادی کا طلب گار ہو اور جو زندگی کو اپنی ملکیت سمجھتا ہو اس بات کا خواہاں ہوتا ہے کہ وہ اپنا حاکم بذات خود ہو۔ انسان کے خود اپنا حاکم ہونے دوسرے لفظوں میں حق خود ارادیت کا مطلب ہے افراد کے اپنی خواہشات کے مطا بق قانون سازی کرنے کا حق مان لینا۔ اس حق کا مطلب یہ ہے کہ افراد کی خواہشات ہی وہ واحد اساس ہیں جو ایک جمہوری معاشرے میں قانون سازی کی واحد بنیاد بن سکتی ہیں، نیز یہ کہ افراداپنے اس حق کو اس طرح استعمال کریں کہ جس کے نتیجے میں افراد کی خواہشات میں اس طرح تحدید ہو کہ افراد کی آزادی میں بحیثیت مجموعی زیادہ سے زیادہ اضافہ ہوسکے ۔ چنانچہ ووٹ وہ عمل ہے جسکے ذریعے فرد اپنے  ‘حق’  کے  ‘خیر’  پر برتر ہونے کی الوہیت کااظہار کرکے ایک ایسا نمائندہ چنتا ہے جو اسکے مقاصد و اغراض کی بہترین حفاظت اور فروغ کا باعث بن سکے۔ البتہ اہم ترین بات یہ ہے کہ ان عوامی نمائندوں کو قانون سازی کا حق ملنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ اپنی من مانی کریں یاجو قانون چاہیں بنا ڈالیں۔ بلکہ عوامی نمائندے درحقیقت جس ‘اعلی ترین اور اصل خیر’ کے پابند ہوتے ہیں و ہ ہیومن رائٹس ہیںکیونکہ ہیومن رائٹس ہی در حقیقت افراد کے ‘حق’ کی ‘ خیر’  پر بالادستی کے قانون کو ممکن بناکر حاکمیت انسانی کی اصل بنیاد فراہم کرتے ہیں جس کا اظہار وہ بذریعہ ووٹ کرتے ہیں۔ چونکہ ہیومن رائٹس تمام تصورات خیر کے اظہار کے حق کو خیر اعلی گرادنتے ہیں لہذا جمہوری ریاست ایک pluralistic (کثیر الانواع تصوارت خیر کو برابر ماننے اورانکی محافظ ) ریاست ہوتی ہے ، یعنی یہ ایک ایسا ریاستی ڈھانچہ (framework)ہے جس میں ایسے تمام تصورات خیر کو پنپنے کے برابر مواقع فراہم کئے جاتے ہیں جو آزادی (یعنی انسانی حق کی خیر پربالادستی ) کے اصل الاصول کا رد نہ کرتے ہوں۔

١.٢:  جمہوری اسلامی جدوجہد کے منفی نتائج

            لبرل جمہوری سرمایہ داری کی اس مختصر تشریح کے بعد اب ہم ان تحریکات اسلامی کی جدوجہد پر کچھ کلام کرنا چاہتے ہیں جو جمہوریت کو اسلامیت کے فروغ کا نہ صرف یہ کہ ذریعہ سمجھتی ہیں بلکہ اسکا ثمر تک گردانتی ہیں۔ لیکن اس سے قبل یہ بات نہایت اچھے طریقے سے سمجھ لینے کی ہے کہ جیسے اصلاً میں انسان نہیں بلکہ مسلمان ہوں بالکل اسی طرح اسلامی نقطہ نگاہ سے ‘خیر ‘ انسان کے ‘حق’  پر برتری رکھتا ہے یعنی اسلام اس ارادہ خداوندی کی فوقیت کو ناقابل چیلنج خیر کے طور پر تسلیم کرتا ہے جو آنحضرتۖ پر قرآن و سنت کی صورت میں نازل ہوا اور آئمہ امت و صوفیاء عظام نے جسے عوام تک منتقل کیا۔ چونکہ اسلام میں حقوق و فرائض کا تمام تر نظام اسی ارادہ خداوندی سے ماخوذ ہے، لہذا ان حقوق کی تفسیر اور تنسیخ بھی قرآن و سنت کی روشنی میں ہی ہوتی ہے۔ ایک مسلمان اس بات کا مجاز نہیں کہ وہ ما ورائے اسلام کسی مجرد حقوق کے نظام (جیسے ہیومن رائٹس ) کو نہ صرف یہ کہ قبول کرلے بلکہ انہیں حقوق کے اندر اپنے مذہبی اور سیاسی تشخص کے بقا کی کوشش کرے۔ دعوت اسلامی ہرگز حقوق کی نہیں بلکہ خیر کی طرف بلانے کی دعوت ہوتی ہے اور تحریکات اسلامی اسی خیر سے اخذ کردہ اقداری ترتیب کے مطابق معاشرتی صف بندی کی تنظیم نو اور اس تصور خیر کے تحفظ اور ادارتی صف بندی کی خاطر نظام اقتدار کو اس خیر کے تابع کرنے کیلئے میدان عمل میں آتی ہیں۔ اس اصولی بات کے بعد ہم ان خرابیوں کا ذکر کرتے ہیں جو جمہوری تناظر میں احیائے اسلام کی جدوجہد برپا کرنے کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہیں۔

خیر کے بجائے حقوق کی سیاست:

            جمہوری عمل کے اندر جس جدوجہد کی گنجائش ممکن ہے وہ ‘حقوق’ کی جدوجہد ہے نہ کہ خیر کی اور یہی وجہ ہے کہ اسلامی انقلابی جماعتیں جب جمہوری عمل میں شامل ہوتی ہیں تو انکی سیاست بھی دیگر لادینی جماعتوں کی مانند تدریجاً ‘حقوق کی سیاست ‘ پر منتج ہوجاتی ہے ۔ اس اجمال کی تفصیل ذرا وضاحت طلب اور پیچیدہ ہے لہذا ہم ایک ایک کرکے تمام عقدوں کو کھولنے کی کوشش کریں گے اور ساتھ ہی ساتھ انکا اسلامی محاکمہ بھی کرتے رہیں گے۔ جمہوری سیاست کی فضا میںکسی خیر کی دعوت ایک مہمل شے بن کر رہ جاتی ہے کیونکہ جیسا کہ بتایا گیا جمہوری سیاست بنیادی طور پر ہر فرد کا یہ حق تسلیم کرتی ہے کہ اسے اپنے تصور خیر کے تعین کا مساوی حق حاصل ہے نیز کسی ایک تصور خیر کو کسی دوسرے تصور خیر پر کوئی اقداری برتری حاصل نہیں۔ اسلامی تعلیمات و تصورات زندگی کو مغربی تناظر میں پہچاننا مسلم مفکرین کی سب سے سخت غلطی ہے۔ ان غلطیوں میںسے ایک بنیادی اور اہم ترین غلطی حقوق العباد کو ہیومن رائٹس کے تناظر میں سمجھنا ہے۔ عام طور پر ہیومن رائٹس کا ترجمہ غلط طور پر  ‘انسانی حقوق’  کر کے نہ صرف انہیں حقوق العباد کے ہم معنی تصور کرلیا جاتا ہے بلکہ یہ ثابت کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے کہ ہیومن رائٹس سب سے پہلے اسلام نے دنیا کو عطا کیے نیز خطبہ حجة الوداع میں حضور پر نور ۖ نے انہیں حقوق کی تعلیمات دی تھیں ]العیاذ باللہ [۔ ان دونوں کا فرق ایک آسان مثال سے سمجھا جا سکتا ہے ۔ فرض کریں ایک دستوری جمہوری ریاست کے دو مرد آپس میں میاں بیوی بن کر رہنا چاہتے ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا انہیں ایسا کرنے کا  ‘حق’  ہے یا نہیں۔ اگر اس سوال کا جواب کسی مذہب ]اسلام،عیسائیت وغیرہ[کے عالم سے پوچھا جائے تو وہ اس کا جواب ارادہ خداوندی میں ظاہر ہونے والے خیر یعنی اللہ کی کتاب کی روشنی میں دے گا ۔ مثلاً ایک مسلمان عالم یہ کہے گا کہ چونکہ قرآن یاسنت میں اس کی ممانعت ہے لہذا کسی بھی فرد کو ایسا کرنے کا  ‘حق’   حاصل نہیںہے ۔ اس کے مقابلے میں وہ شخص جو  ‘ہیومن رائٹس ‘  کو اعلی ترین قانون مانتا ہو اس فعل کو اس دلیل کی بنا پر جائز قرار دے گا کہ چونکہ ہر شخص کا یہ بنیادی حق ہے کہ وہ اپنی خوشی کا سامان اپنی مرضی کے مطابق جیسے چاہے مہیا کرلے،لہذا اگر دو مرد آپس میں شادی کرکے اپنی خواہش پوری کرنا چاہتے ہیں تو انہیں ایسا کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔ یہی وہ دلیل ہے جسکی بنیاد پر مغربی دنیا میں دو مردوں کی شادی ، زنابالرضا ، اغلام بازی وغیر ہ کو قانونی جواز عطا کر دیا گیا ہے۔ ایک دستوری جمہوری ریاست میں افراد کے پاس ہمیشہ یہ حق محفوظ ہوتا ہے کہ وہ ارادہ خداوندی کو پس پشت ڈال کر ہیومن رائٹس کی آڑ میں عمل لواطت کا جواز حاصل کرلیں۔ اس مثال سے واضح ہو جانا چاہئے کہ  ‘حقوق العباد ‘  کا جواز اور اس کی ترتیب ارادہ خداوندی سے طے ہوتی ہے یعنی ایک انسان (عبد) کو کسی عمل کا حق ہونے یا نہ ہونے فیصلہ اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت سے ہوتا ہے ،اس کے مقابلے میں ہیومن رائٹس کا جواز آزادی یاانسانی خواہشات ہوتی ہیں۔ چنانچہ بحیثیت مسلمان نہ تو ہم یہ مانتے ہیں کہ انسان آزاد ہے ]بلکہ وہ عبد ہے[اور نہ ہی اس کے کسی ایسے ماورائے اسلام حق کو مانتے ہیں جس کا جواز ارادہ خداوندی سے باہر ہو اور جسکے مطابق اسے اپنی خواہشات کی ترجیحات طے کرنے اور انہیں حاصل کرنے کا اخلاقی اور قانونی حق حاصل ہو، بلکہ اسکا حق بس اتنا ہی ہے جو اس کے خالق نے اسے اپنے نبی کے ذریعے بتادیا اس کے علاوہ وہ جو بھی فعل سر انجام دے گا نافرمانی اورظلم کے زمرے میں شمار ہوگا اور جسے ختم کردینا ہی  ‘عدل’  کا تقاضا ہے۔ انسان کا کوئی ایسا ذاتی حق ہے ہی نہیں کہ جسکا جواز از خود اسکی اپنی ذات ہو چے جائیکہ وہ حق ناقابل تنسیخ بھی ہو۔ ہیومن رائٹس کی بالا دستی ماننے کا مطلب ہی انسان کے  ‘حق’  کو  ‘خیر’  پر فوقیت دینا اور اس بات کا اقرا ر کرنا ہے کہ انسان اپنا حاکم خود ہے نیز  ‘خیر و شر’  کامعیار خواہشات انسانی ہیںنہ کہ ارادہ خداوندی۔

            اس بحث سے تحریکات اسلامی اور علماء کرام کی اس حکمت عملی کی غلطی خوب واضح ہو جانی چاہئے جسے انہوں نے دستوری حقوق کے تناظرمیں تحفظ اسلام کے لئے اپنا رکھا ہے۔ جب کبھی حکومتی مشینری یا بیرون ملک ریاستیں و ادارے تعلیمات و اظہار اسلام کے خلاف کوئی حکمت عملی اپناتے ہیں تو اسکی مخالفت ‘مسلمانوں کے حق’ کے نام پر کی جاتی ہے، مثلاً فرض کریں اگر ترک حکومت مسلم عورتوں کے اسکارف پہننے پر پابندی لگا دے توکہا جاتا ہے کہ ایسا کرنا تو مسلمان عورتوں کا حق ہے اور ہیومن رائٹس اس کی اجازت دیتے ہیں۔ اگر یہ حکمت عملی حالت مغلوبی کے بجائے کسی علمی دلیل کی بناء پر اپنائی گئی ہے تو پھر یاد رہے کہ اظہار اسلام کو  ‘خیر مطلق ‘  (absolute good) کے بجائے ہیومن رائٹس کی پناہ میں بطور  ‘ایک حق ‘  کے پیش کرنا در حقیقت نہ صرف یہ کہ اسلام کے نظام زندگی ہونے بلکہ اسکے خیر مطلق ہونے کا انکار بھی ہے کیونکہ اگر اظہار اسلام محض ایک فرد کا حق ہے تو پھر دوسرے افراد کے اپنے اظہار خیر کے حق کو بھی لازماً ماننا پڑے گا۔ اسلامیت بطور حق ماننے کے بعد امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا سرے سے جواز باقی ہی نہیں رہتا کیونکہ تعین خیر کو فرد کا حق سمجھنا اظہار ذات کے تمام طریقوں کو برابر ماننے کے مترادف ہے۔ اس حکمت عملی کے نتیجے میں ہم اسلام کو ایک غالب خیر مطلق کے بجائے کثیر الانواع تصورات خیر میں سے ایک تصور خیر کے طور پر محفوظ کرنے میں کامیاب ہوپاتے ہیں اور بالآخر اسلام کو سرمایہ داری کے اندر سمو دینے کا باعث بنتے ہیں۔ ‘اسلامیت ایک حق’  کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اسلام بہت سے نظامہائے زندگی میں سے ایک ہے اور یہ تمام نظام ایک مشترکہ عالمی نظام کا حصہ ہیں اور یہ عالمی نظام سرمایہ داری کے سواء کچھ بھی نہیں۔ یہ تضاد ہماری سمجھ سے بالا تر ہے کہ ایک طرف تو اسلامی تحریکات ریاست اسلام کے غلبے کیلئے حاصل کرنا چاہتی ہیں لیکن ساتھ ہی وہ ہیومن رائٹس کو بھی مانتی ہیں جس کا اولین تقاضا ہی یہ ہے کہ ریاست خیر کے معاملے میں غیر جانبدار رہے، فیا للعجب۔

            یہ بات بہت اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ ہیومن رائٹس در حقیقت حقوق العباد کی عین ضد ہیں کیونکہ موخر الذکر رویہ انسان کو عبد اور اول الذکر اسے الہ گردانتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہیومن رائٹس پر مبنی دستوری جدوجہد خیر کو فرد کا نجی مسئلہ بنادیتی ہے جو سرے سے اسلامی دعوت ہی کی نفی ہے ۔ ہیومن رائٹس فلسفے کے مطابق تمام تصورات خیر و شر اور زندگی گزارنے کے تمام طریقے برابر حیثیت رکھتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اسکا معنی ہے  ‘نظام ہدایت’  کا رد ، یعنی اس بات کا انکار کرنا کہ اللہ تعالی نے انسان کو خیر و شر بتانے کیلئے ہدایت کا کوئی سلسلہ انبیاء کرام کے ذریعے قائم کیا ہے، نیز انبیاء کرام کی تعلیمات خیر و شر طے کرنے کا کوئی حتمی معیار ہیں ۔ یہ اسلئے کہ نظام ہدایت کا معنی ہی یہ ہے کہ تمام انسانوں کی خواہشات کی ترتیب ہرگز مساوی معاشرتی حیثیت نہیں رکھتیں بلکہ وہ شخص جسکی خواہشات کی ترتیب تعلیمات انبیاء کا مظہر ہیں تمام دوسری ترتیبوں پر فوقیت رکھتی ہے، دوسرے لفظوں میں نظام ہدایت مساوات کا نہیں بلکہ حفظ مراتب کا متقاضی ہے جس میں افراد کی درجہ بندی کا معیار (differentiating factor)تقوی ہوتا ہے نیز اسلامی معاشرے و ریاست کا مقصد جمہوری معاشرے کی طرح ہرفرد کو اپنی اپنی خواہشات کے مطابق زندگی گزارنے کے مساوی مواقع فراہم کرنا نہیں بلکہ انکی خواہشات کو نظام ہدایت کے تابع کرنے کا ماحول پیدا کرنا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی نظریہ ریاست میں citizen (ایسی عوام جو اصولاً حاکم اور فیصلہ کرنے والی ہوتی ہے) اور عوامی نمائندگی(Representation of citizens) کا کوئی تصور ہے ہی نہیں کیونکہ یہاں عوام citizen  نہیں بلکہ رعایا ہوتی ہے اور خلیفہ عوام کا نمائندہ نہیں ہوتا کہ جسکا مقصد عوام کی خواہشات کے مطابق فیصلے کرنا ہو بلکہ وہ تو رسول اللہۖ کا نائب ہوتا ہے جسکا مقصد رعایا کی خواہشات کو شریعت کے تابع کرنے کیلئے نظام ہدایت کا نفاذ ہوتا ہے۔ اس کے برعکس جمہوری سیاست کا تقاضا یہ مان لینا ہے کہ خیر و شراور اپنی منزل کا تعین انسان خود طے کرے گا اور ہر شخص کا تصور خیرو زندگی گزارنے کا طریقہ مساوی معاشرتی حیثیت رکھتا ہے اور ریاست کا مقصد ایسی معاشرتی صف بندی وجود میں لانا ہونا چاہئے جہاں ہر فرد اپنی خواہشات کو ترتیب دینے اورانہیں حاصل کرنے کا زیادہ سے زیادہ مکلف ہوتا چلا جائے۔ انہیں معنی میں جو ریاست جتنی زیادہ جمہوری ہوتی ہے اتنی ہی غیر اسلامی ہوتی ہے کیونکہ جمہوریت میں پیری مریدی کا تعلق ہی الٹ جاتا ہے ، یہاں عوام بجائے مرید کے پیر (فیصلہ کرنے اور ہدایت دینے والے ) بن جاتے ہیں اور حاکم جسکا کام لوگو ں کی رشدوہدایت کا انتظام کرنا ہوتا ہے ان معنی میں مرید ہوجاتا ہے کہ ہر کام سے پہلے عوام الناس کی خواہشات کی طرف دیکھتا ہے۔ لوگوں نے ووٹ کو بیعت کا متبادل سمجھ لیا ہے حالانکہ ووٹ توبیعت کی عین ضد ہے۔ بیعت کا مطلب حصول ہدایت کیلئے عوام کا اپنے نفس کو کسی بلند تر ہستی کے سپرد کردینا ہے جبکہ ووٹ کا معنی عوام کی حکمرانی قبول کرکے حاکم کا خود کو انکے نفس کے سپرد کردینا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں بیعت عوام کی اطاعت (submission)کا مظہر ہوتا ہے جبکہ ووٹ انکی حکمرانی (sovereignty) کا۔

            جیسا کہ اوپر بتایا گیا کہ چونکہ ہیومن رائٹس اور جمہوری نظریات  (framework)  تمام تصورات خیر کو اخلاقاً و قانوناً مساوی گردانتے ہیں لہذا  جمہوری جدوجہدکا مقصد ایسی ادارتی صف بندی کا انتظام کرنا ہوتا ہے جسکے ذریعے plurality of goods  (مختلف الانواع تصورات خیر) کاحصول ممکن ہو سکے اور ایسی فضا میں تحریکات اسلامی کیلئے اصولاً یہ ممکن نہیں رہ جاتا کہ معاشرے میں پنپنے والے کسی بھی ایسے تصور خیر کی مخالفت کرسکیں جسے ہیومن رائٹس سے تو تحفظ حاصل ہو لیکن اسکے اظہار سے اسلامی تشخص کی نفی ہو۔ ہیومن رائٹس اور جمہوری فلسفے کے تناظر میں یہ بات ہی مہمل ہوتی ہے کہ میں کسی شخص کے عمل پر اس بنیاد پر تنقید کروں کہ وہ میرے تصور خیر سے متصادم ہے۔ مثلاً شہر لاہور میں ہونے والی عورتوں کی حیاء باختہ میرتھن ریس کے خلاف جب دینی تحریکوں اور علماء کرام نے احتجاج کیا تو جدیدیت کے دلدادہ صدر مشرف صاحب نے ہیومن رائٹس کی درست ترجمانی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جو میرتھن نہیں دیکھنا چاہتے وہ اپنا ٹی وی بند کرلیں، مگر انہیں دوسروں پر تنقید کرنے کا حق حاصل نہیں۔ اس رویے کا خوبصورت نام ٹولرنس (tolerance) ہے (جسکا ترجمہ غلط طور پر  ‘رواداری’ کر لیا گیا ہے) جسکا مطلب یہ ہے کہ جب تمام افراد کی ذاتی خواہشات کی ترتیب اور زندگی گزارنے کے طریقے مساوی ہیں، تو ہر شخص کیلئے لازم ہے کہ وہ دوسرے کی خواہشات کا احترام کرے اور اسے برداشت کرے۔ آزادی کے اصول پر معاشرتی تشکیل تبھی ممکن ہے جب افراد اظہار ذات  (freedom of expression) کے تمام طریقوں کو یکساں اہمیت دیں اور انہیں برداشت کرنے کا مادہ پیدا کریں، یعنی ٹولرنس کا مظاہرہ کریں ( ٹولرنس کے فلسفے کے تحت قائم ہونے والے معاشروں میں کس کس قسم کے اعمال اور اظہار ذات کے کن کن ممکنہ طریقوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے اسکا اندازہ چند روز قبل ہونے والے ان دو واقعات سے لگائیں۔ امریکہ میں ایک عورت کو چوبیس گھنٹے میں درجنوں مردوں کے ساتھ ‘بدکاری کا عالمی ریکارڈ ‘  بنانے کے  ‘اعزاز’  میں انعام سے نوازا گیا ۔ اسی طرح چند ماہ قبل امریکہ میں پانچ ہزار سے زیادہ مردوں اور عورتوں نے مکمل برہنہ حالت میں سڑکوں پر احتجاجی جلوس نکالا، یہ ہے ٹولرنس کا اصل مفہوم اور اسپرٹ، العیاذ باللہ من ذالک)۔ فلسفہ ٹولرنس درحقیقت ایمان کی نفی کے مترادف ہے کیونکہ ٹولرنس کا مطلب ہے کہ میں یہ مان لوں کہ اول تو برائی کوئی شے ہی نہیں اور اگر مجھے کوئی عمل اپنے تصور خیر کے مطابق برائی نظر آتا بھی ہے تو میں اسے برداشت کروں، نہ یہ کہ اسے روکنے کی فکر اور تدبیرکرنے لگوں۔ بلکہ جمہوری قدر plurality of goods  کا تقاضا تو یہ ہے کہ میں دوسرے شخص کے ہر عمل کو قابل قدر نگاہ سے دیکھوں، اگر وہ اپنی ساری زندگی بندروں کے حالات جمع کرنے پر صرف کردے تو نہ صرف یہ مانوں کہ ایسا کرنا اسکا  ‘حق ‘  تھا بلکہ دل کی گہرائیوں سے کہوں کہ  ‘واہ جناب کیا ہی عمدہ تحقیقی کام کیا ہے’ ، اسی طرح اس عالمی ریکارڈ یافتہ زانیہ کے  ‘حق’  اور اس کی صلاحیتوں کا معترف ہوجاؤں وغیرہ۔ Plurality of goods   پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ میں اسلام کے واحد حق ہونے نیز حدیث مبارکہ من رای منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ فالم یستطع فبلسانہ فالم یستطع فبقلبہ فذالک اضعف الایمان  ]تم میں سے جو کوئی بھی برائی دیکھے تو اسے چاہئے کہ اسے اپنے ہاتھ (یعنی طاقت) سے روک دے، اگر اسکی استطاعت نہیں رکھتا تو اپنی زبان سے ایسا کردے، اگر اسکی استطاعت بھی نہیں رکھتا تو اپنے دل سے ایسا کردے (یعنی تہہ دل سے اسے برا جانے اور اس بات کا پختہ تہیہ رکھے کہ جب کبھی زبان اور ہاتھ سے اسے روکنے کی استطاعت آجائے گی تو روک دوں گا)، اور یہ (یعنی دل سے اسے ایسا کرنا) تو ایمان کا سب کمزور ترین درجہ ہے :  مسلم[  کا انکار کردوں۔

چنانچہ جمہوری ریاستی تناظر میں اہم شے یہ ہوتی ہے کہ ہر شخص اپنے اپنے تصورات خیر کو ممکن (realize) بنا نے کا حق حاصل کرنے کا مکلف ہوتا چلا جائے۔ جمہوری عمل صرف ریاستی سطح پر ہی نہیں بلکہ معاشرتی سطح پر بھی اغراض پر مبنی معاشرہ وجود میں لاتا ہے جسے سول سوسائٹی کہا جاتا ہے۔ حق کی خیر پر فوقیت یا plurality of goodsکے اس ڈھانچے میں ہر فرد اپنے آپ اور دوسروں کو  ‘مجرد فرد ‘ (ahistorical and asocial anonymous individual ) کے طور پر پہچانتا ہے نہ کہ ماںپاب، بھائی بہن،استاد شاگرد، میاں بیوی، پڑوسی وغیرہ کے ۔ اس فرد مجرد کے پاس پہچان (identity) کی اصل بنیاد ذاتی اغراض ہوتی ہیں، یعنی وہ یہ تصور کرتا ہے کہ میری طرح ہر فرد کے کچھ ذاتی مفادات ہیں اور ہمارے تعلقات کی بنیاد اور مقصد اپنے اپنے مفادات (self-interests)کا حصول ہوتا ہے اور ہونا بھی چاہئے۔ ایسا فرد جس بنیاد پر تعلقات استوار کرتا ہے وہ اسکی اپنی اغراض (interests)ہوتی ہیں اور انہیں اغراض اور حقوق کے تحفظ کی خاطر وہ جدوجہد کرتا ہے۔ چنانچہ اس معاشرت میں ہر شخص اپنے مفادات کے تحفظ و حصول کیلئے اپنی اغراض کی بنیاد پر interest-groups   (اغراض پر مبنی گروہ) بناتا ہے، مثلاً محلہ و مارکیٹ کمیٹیاں، مزدور تنظیمیں، اساتذہ و طلبہ تنظیمیں، صارفین و تاجروں کی یونین، عورتوں اور بچوں کے حقوق کی تنظیمیں و دیگر این جی اوز وغیرہ اسکے اظہار کے مختلف طریقے ہیں جہاں تعلقات کی بنیاد صلہ رحمی یا محبت نہیں بلکہ انکی اغراض ہوتی ہیں۔ ذاتی اغراض کی ذہنیت (rationality) در حقیقت محبت کی نفی ہے۔ سرمایہ دارانہ معاشروں میں افراد ایک دوسرے سے صرف اسی وقت اور اتناہی تعلق قائم کرتے ہیں جن سے انکی اپنی اغراض پوری ہوتی ہوں۔ مثلاً ایک مذہبی معاشرے میں استاد کا تعلق اپنے شاگرد سے باپ اور مربی کا ہوتا ہے،اس کے مقابلے میں مارکیٹ ]یا سرمایہ دارانہ[سوسائٹی میں یہ تعلق ڈیمانڈر اور سپلائیر (Demander and Supplier) کا ہوتا ہے یعنی استاد محض ایک خاص قسم کی خدمت مہیا کرنے والا جبکہ طالب علم زر کی ایک مقررہ مقدار کے عوض اس خدمت کا طلب گار ہوتا ہے اور بس۔ شاگرد سے فیس لینے کے علاوہ استاد کو اسکی زندگی میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی اور یہی حال شاگرد کا ہوتا ہے۔ ہر وہ تعلق جس کی بنیاد طلب ورسد (demand and supply)اور زر (money and finance)کی روح پر استوار نہ ہو سرمایہ دارانہ معاشرے میں لایعنی، مہمل، بے قدرو قیمت اور غیر عقلی (irrational)ہوتا ہے۔ سرمایہ دارانہ معیار عقلیت کے مطابق عقل مندی (Rationality)اسی کا نام ہے کہ آپ ذاتی غرض کی بنیاد پر تعلق قائم کریں۔ تمام سوشل سائنسز اس بات پر زور دیتی ہیں کہ ایک ایسا معاشرہ جس میں ہر فرد کو دوسرے فرد سے بس اتنی ہی دلچسپی ہو کہ جتنی اس کی اپنی غرض پوری کرنے کے لیے ضروری ہے وہی ایک مہذب،معقول اور سب سے مناسب ترین معاشرہ ہوتا ہے۔ ایسا اس لیے کہ ایک آزادی پسند شخص محض غرض ہی کی بنیاد پر کسی دوسرے فرد سے تعلق قائم کرسکتا ہے نیز کسی شخص میں اپنی ذاتی غرض سے ذیادہ دلچسپی کا لازمی نتیجہ دوسرے شخص کی آزادی میں مداخلت کا باعث بنتی ہے (اسکی مثال خاندان کے ادارے سے سمجھی جا سکتی ہے)۔ جتنے زیادہ افراد ان اداروں پر منحصر ہوتے چلے جاتے ہیں سول سوسائٹی اتنی ہی مضبوط ہوتی چلی جاتی ہے ۔ نتیجتاً ذاتی اغراض و حقوق کی ذہنیت و سیاست پختہ ہوتی چلی جاتی ہے جو لبرل سرمایہ دارانہ نظام کا اصل مقصد ہے ۔ افراد کی اغراض و حقوق ہی جمہوری سیاسی عمل یعنی عوامی نمائندگی کی اصل بنیاد ہیں ، یہی وہ پیمانہ ہیں جس پر ریاست و جمہور کے تعلق کو پرکھا جاتا ہے، حاکم و محکوم کے درمیان یہی رشتہ ہے، قیادت اور عوام کے مابین یہی میثاق وفا ہے۔ جو اسے پورا کرے اسکی حمایت کی جا تی ہے اور جو عوام کی جھولی کو مراعات و سہولیات سے نہ بھر سکے اس کا عمل قابل اتباع نہیں ہوتا۔ تحریکات اسلامی جب جمہوری جدوجہدکو اپنا شعار بناتی ہیں تو بالآخر اغراض اور حقوق ہی کی سیاست کرتی دکھائی دیتی ہیں اور ہر ایسا ہتھکنڈا استعمال کرتی ہیں جسکے نتیجے میں انہیں عوامی مقبولیت حاصل ہوجائے چاہے اسکی قیمت انہیں اپنے اصولی موقف کی قربانی اور دیگر دینی تحریکات سے اجنبیت کی صورت ہی میں کیوں نہ دینی پڑے۔ چنانچہ ایک طرف تو جمہوری اسلامی تحریکیں غلبہ دین کا نعرہ لگاتی ہیں جو اس بات کا متقاضی ہے کہ افراد کا تزکیہ نفس اس حد تک ہوجائے کہ وہ راہ خداوندی میں دیوانہ وار ہر قسم کی قربانیاں دینے پر آمادہ ہوجائیں، لیکن دوسری طرف جس بنیاد پر لوگوں سے ووٹ مانگتی ہیں وہ انکی اغراض اور حقوق کا تحفظ ہے یعنی وہ ان سے کہتی ہیں کہ ہمیں اس لئے ووٹ دو کیونکہ ہم تمہارے مسائل حل کردیں گے، فیا للعجب۔ کیا حضورۖ نے بلال  کو اس بنیاد پر اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تھی کہ اسلام لانے کے بعد تمہیں خوب مزے آئیں گے نیز اسلام تمہارے مسئلے حل کردے گا؟ یہ بات ہماری سمجھ سے بالاتر ہے کہ آخر مسائل حل کرنے کے وعدے پر ووٹ لیکر تحریکات اسلامی کس طرح لوگوں سے قربانی دینے کی توقع رکھ سکتی ہیں؟ جمہوری سیاست کبھی جہاد کیلئے برپا کی ہی نہیں جا سکتی کیونکہ اسکا تو مقصد ہی ایسی معاشرت کا قیام ہوتا ہے جس میں آسائشوں کا فروغ اور دنیاوی ترقی و مفادات کا حصول ایک ہدف کے طور پر قبول کرلئے جائیں۔ کون نہیں جانتا کہ انقلاب اسلامی کا برپا ہونا دنیا کی تمام طاقتوں کو کھلا چیلنج ہے اور دور حاضر میں اسلامی ریاست جہاں بھی قائم ہو گی تو اسپر ابتلاء اور مصائب کا ایک سیلاب امڈ آئے گا جیسا کہ طالبان عالیشان کی حکومت سے واضح ہے۔ اب اگر ہم لوگوں سے دنیا طلبی کی بنیاد پر تعلقات استوار کرتے رہے، ان سے یہ وعدے کرتے رہے کہ اسلامی حکومت قائم ہوتے ہی مادی برکات من و سلوی کی طرح نازل ہونا شروع ہوجائیں گی، غربت کا نام و نشان مٹ جائے گا، آسائشوں کی فراوانی ہوگی اور جب اسلامی ریاست کو خطروں سے دو چار ہونا پڑے گا تو آخر لوگ کس بنیاد پر قربانی اور جہاد کیلئے تیار ہوں گے؟ اگر حضورۖ نے بھی لوگوں کو انکے اغراض اور حقوق کی طرف دعوت دی ہوتی پھر نہ تو ہجرت حبشہ و مدینہ ہوتی ، نہ ہی شعب ابی طالب کے فاقوں کی نوبت آتی اور نہ ہی بدر ، احد اور احزاب کی سختیاں برداشت کرنے کی ضرورت پڑتی کیونکہ حقوق کے تحفظ کی ضمانت پر جمع کیا گیا ہجوم کبھی یہ منازل طے نہیں کرپاتا۔ کہاں اسوہ رسولۖ جسکی پیروی دنیا کی محبت کو دل سے نکال کر شوق شہادت کے جذبے سے سرشار کرتی ہے اور کہاں مسلم معاشروں میں معیار زندگی کو بلند کرنے کی خاطر چلائی جانے والی یہ جمہوری جدوجہد جس میں مادی  ‘مفادات ‘  اصل زندگی ہے۔ کون نہیں جانتا کہ عوام الیکشن میں انہیں افراد کو ووٹ دیتے ہیں جن سے انہیں یہ امید ہو کہ وہ انکے  ‘کام نکال سکیںگے’۔ عوام تو ہمیشہ اغراض و مفادات ہی کی بنیاد پر فیصلے کرتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ شریعت اسلامی میں احکامات اخذ کرتے وقت مجتہد کیلئے  ‘عوامی رائے ‘  کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ یہ  ‘حقوق کی بالادستی’  کا ہی نتیجہ ہم دیکھتے ہیں کہ عملاً دینی جماعتیں ووٹ لینے کے عمل کے دوران اور اسکے بعد ویسی ہی سیاست کرنے پر مجبور ہوتی ہیں جو دیگر لادینی جماعتوں کا شعار ہے جیسا کہ کراچی کی شہری حکومت اور سرحد کی صوبائی حکومت کے تجربات سے عین واضح ہے۔ جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں آج دینی جماعتوں کے پاس سیکولر عدلیہ اور فحاشی پھیلانے والے میڈیا کی آزادی، مہنگائی و بے روز گاری کے خاتمے، بجلی و آٹے کے بحران پر قابو پانے اور فوجی آمریت سے چھٹکارے کے علاوہ کوئی سیاسی ایجنڈہ سرے سے باقی ہی نہیں رہا اور احیائے اسلام محض ایک کھوکھلا نعرہ بن کررہ گیا ہے۔ جمہوری دینی قوتوں کے ممبران ٹی وی مباحثوں میں جن باتوں کو اپنی سیاسی فتح کے طور پر بیان کرتے ہیں ان میں سے ایک بھی کام ایسا نہیں ہوتا جس کا غلبہ اسلام سے دور دور تک کوئی تعلق ہو۔ ہر سیاسی شکست کے بعد دینی تحریکات اپنی ساری قوت اس بات پر صرف کرنا شروع کردیتی ہیں کہ ایسا کیا کیا جائے جس سے اگلے الیکشن میں لوگ ہمیں زیادہ ووٹ دیں۔ جمہوری اسلامی مفکرین کے خیال میں پاکستان کے اصل مسائل فوج کی بے جا مداخلت، شخصی حکمرانی، انصاف کا فقدان، معاشی ناانصافی، غربت، مہنگائی اور بے روزگاری وغیرہ ہیں نہ کہ ترک جہاد، عدم نفاذ شریعت، شعار اسلامی سے عوامی اور حکومتی رو گرادنی، عریانی و فحاشی کا فروغ، سودی کاروبار کا لین دین ، عوام الناس میں دنیا داری اور موت سے غفلت کے رجحانات کا بڑھ جانا وغیرہ۔

            خوب یاد رہے کہ جمہوریت کے حصار میں حقوق کی سیاست کے علاوہ ہر دوسری دعوت ایک مہمل بات بن کر رہ جاتی ہے، مثلاً آج اگر میں جلسہ عام میں لوگو ں سے کہوں کہ مجھے ووٹ دو کیونکہ میں اسلامی انقلاب برپا کرکے دکھاؤں گا ہاں اسکے بعد خود کو فاقوں اور اپنے بچوں اور کاروبار کی قربانی دینے کیلئے تیار رکھنا اور پھر انہیں یہ آیت سناؤں  ولنبلونکم بشیء من الخوف و الجوع و نقص من الاموات والانفس والثمرات (بقرة:  ١٥٥:  ‘یعنی ہم تمہیں ضرور خوف و خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصان اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کرکے آزمائیں گے)  تو یقین مانئے پاکستانی عوام تو کجا میرے اپنے گھر والے بھی مجھے ووٹ نہیں دیں گے۔ اسلامی نظریہ ریاست عوامی نمائندگی نہیں بلکہ تزکیہ عوام کے تصور پر قائم ہے، یعنی جب تک لوگ تزکیے کے عمل سے نہیں گزریں گے وہ احیاء و غلبہ اسلام کی جدوجہد میں شریک نہیں ہوسکتے۔ اس کے مقابلے میں  ‘انسانی حق کی خیرپر فوقیت ‘  کا جمہوری فلسفہ تزکیہ نفس کے رد پر مبنی ہے کیونکہ اس میں یہ بات مفروضے کے طور مان لی جاتی ہے کہ لوگوں کی خواہشات جیسی بھی ہیں حق اور خیر کا اظہار ہیں اور ظاہر ہے اسکے بعد تزکیہ نفس کا سوال اٹھانا ہی بے کار ہے کیونکہ تزکیے کا تو مطلب ہی یہ ہے کہ مجھے وہ نہیں چاہنا چاہئے جو میں چاہنا چاہتا ہوں اور  ‘میری چاہت ‘  اس شے کے مطابق ہونی چاہئے جو  ‘مجھے چاہنا چاہئے ‘ ، دوسرے لفظوں میں میری چاہتوں کی ترتیب شارع کی مرضی کا مظہر ہونا چاہئے ۔ اسلامی مفکرین کی ایک غلط فہمی یہ مفروضہ بھی ہے کہ تزکیہ نفس کیلئے کسی علیحدہ عمل اور جدوجہد کی ضرورت نہیں بلکہ یہ سیاسی و انقلابی جدوجہد کے نتیجے میں خود بخود (automatically)وقوع پزیر ہوجاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ تمام انقلابی دینی جماعتوں کے ہاں سیاسی بھاگ دوڑ (political activism)، پروگراموں کی تفصیلات اور فکری لٹریچر وغیرہ تو خوب موجود ہے مگر تزکیہ نفس کا علیحدہ سے لائحہ عمل سرے سے مفقود ہے۔ ظاہر بات ہے انکا یہ مفروضہ غلط ہے کیونکہ چاہتوں کی ترتیب میں یہ تبدیلی اور نفس عمارہ سے نفس مطمئنہ کا یہ سفر سیاسی باگ دوڑ(مثلاً پوسٹر لگانے، ریلیاں نکالنے، دھرنے دینے )، اسلامی علمی استعداد بڑھانے (مثلاً مدرسے میں تعلیم حاصل کرلینے یا دینی فکری لٹریچر پڑھ لینے ) یا تقریریں سن لینے کے نتیجے میں طلسماتی طور پر خود بخود نہیں بلکہ اسی علمیت اور عمل سے گزر کر وقوع پزیر ہوتا ہے جسے صوفیا ء کرام علم باطن، علم لدنی یا علم الاحسان کہتے ہیں اور جسے انہوں نے عملاً کامیابی کے ساتھ برت کر دکھایا۔ اسلامی ریاست کے احیاء و انقلاب اسلامی کی جدوجہد در حقیقت علم فقہ کی بنیاد پر ہوتی ہے اور اہل علم خوب جانتے ہیں کہ علم فقہ کا مقصد تزکیہ نفس نہیںہے ۔ تو آخر علم فقہ کی بنیاد پر مرتب کردہ سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں وہ تزکیہ نفس کیسے حاصل ہوسکتا ہے جو اس علم کا موضوع ہی نہیں؟آخر اللہ تعالی نے اپنے حبیب کریم ۖ کو فاذا فرغت فانصب والی ربک فارغب (جب آپ (فرائض نبوت سے ) فارغ ہوجائیں تو عبادت میں لگ جائیں اور (ہر طرف سے توجہ ہٹا کر) اپنے رب کی طرف لو لگالیں،  انشراح ٩٤:  ٨-٧)  نیز  ان ناشئة اللیل ہی اشد وطا و اقوم قیلا (بے شک رات کا قیام نفس پر قابو پانے اور بات کو درست کرنے کیلئے بہت موزوں ہے،  مزمل٧٣:  ٦) وغیرہ کا حکم کیوں دیا؟

            اگر اب بھی ہم خواب غفلت سے بیدار نہ ہوئے اور جمہوری عمل کو غلبہ اسلام کا اصل الاصول سمجھتے رہے تو وہ دن دور نہیں جب سیکولرازم ہی اسلام کا دوسرا نام پڑجائے کیونکہ plurality of goods ایسا سراب پیدا کردیتی ہے جس میں سیکولر خیالات تحریکات اسلامی کیلئے قابل پرداشت ہوتے چلے جاتے ہیں اور دینی قوتیں اپنے اصولی موقف سے پیچھے ہٹتے ہٹتے اقتدار اسلامی سے متصادم تصورات خیر کو انسانی حقوق کی چھتری تلے برداشت کرتی چلی جاتی ہیں جسکے نتیجے میں وہ اپنی اصولی جدوجہد سے دور ہوتی چلی جاتی ہیں جیسا کہ پاکستان اور ترکی کے پچاس سال سے زائد عرصے پر محیط تجربات سے واضح ہے۔ تحریکات اسلامی اور علماء کرام کا یہ مفروضہ سراسر غلط ہے کہ جمہوری ادارے (مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ) کوئی غیر اقداری تنظیمی ڈھانچہ فراہم کرتے ہیں جن میں اسلامی انفرادیت، معاشرت اور ریاست کا قیام ممکن ہے۔ اس طریقے کار سے سرمایہ داری کا انہدام تو رہا کجا ہم اس نظام کا اسلامی جواز فراہم کرنے اور اسلام کو اس جاہلیت خالصہ میں سمونے کی غیر شعوری کوشش کرتے ہیں (اسکی تفصیل آگے آرہی ہے)۔ سب دیکھ سکتے ہیں کہ نام نہاد اسلامی جمہوریت کے ذریعے ہم اسلامی انقلاب تو نہ لاسکے البتہ اس جدوجہد کے نتیجے میں معاشرے میں سیکولرازم اور سرمایہ داری کے عمل کو بہر حال تقویت پہنچی۔ اسی طرح اسلامی بینکاری اور معاشیات کے ذریعے ہم غیر سرمایہ دارانہ معاشی نظام تو برپا نہ کرسکے (اور نہ ہی کرسکتے ہیں) البتہ اس نظام میں شرکت سے لبرل سرمایہ داری کا اسلامی جواز ضرور فراہم کرتے چلے گئے۔ تحریکات اسلامی کی ناکامیوں کی اصل وجہ غلط فہمی پر مبنی یہ رویہ ہے کہ جمہوری سیاسی عمل احیائے اسلام کے حصول کا محض ایک ذریعہ نہیں بلکہ اسلامی نظام اقتدار کا لازمی نتیجہ ہے۔ جمہوریت کو آئیڈیل بنانے کا نقصان صرف اتنا ہی نہیں کہ اسلامی دعوت خیر کے بجائے حقوق میں ضم ہو کر انتشار و اضمحلال کا شکار ہوجاتی ہے بلکہ ہم اپنی پوری سیاسی تاریخ سے اپنا تعلق منقطع کرلیتے ہیں اور اپنے اسلاف کی سیاسی بصیرت کے بارے میں بھی مشکوک ہوجاتے ہیں۔ پوری اسلامی علمیت میں کسی ایک بھی معتبر فقیہ و مجتہد کا نام نہیں بتایا جاسکتا جس نے اسلامی نظریہ ریاست کو عوامی نمائندگی اور جمہوریت کے پیرائے میں بیان کیا ہو اور نہ ہی کسی اسلامی ریاست بشمول خلافت راشد ہ میں اسکا وجود ملتا ہے جسکی وجہ صرف یہ ہے کہ  ‘خدائی جمہوریت’ (Theo-democracy)  اور  ‘اسلامی جمہوریت’  جیسے تصورات مسلم مفکرین نے فارابی، جان لاک اور روسو وغیرہ سے مستعار لئے ہیں۔ تاریخی طور پر یہ تصور بھی سراسر غلط ہے کہ ہمارے اسلاف خلافت کی جمہوری تعبیر اسلئے نہ کرسکے کیونکہ جمہوریت تو ایک نیا تصور ریاست ہے اور انسانیت اس وقت قبائلی نظام سے گزر رہی تھی۔ جمہوریت (Republic) ہرگز بھی کوئی نئی ریاستی صف بندی نہیں بلکہ اسکا وجود قبل از مسیح یونانی فلسفے تک میں پایا جاتا ہے اور کون نہیں جانتا کہ مسلمان علماء یونانی فلسفے میں مہارت تامہ رکھتے تھے۔ باوجود علم کے مسلم مفکرین نے جمہوریت کی اسلامی حیثیت پر اسلئے کلام نہ کیا کیونکہ وہ جمہوریت کی غیر اسلامیت سے خوب واقف تھے اور اسی لئے اسے اس لائق ہی نہیں سمجھا کہ اسے اسلامیانے کی کوئی دلیل تلاش کرتے ۔ کیا امام ماوردی، ابو یعلی، ابن خلدونیا شاہ ولی اللہ  میں سے کسی سیاسی مفکر نے یہ بات لکھی کہ خلافت اسلامی کا مقصد اللہ اور اسکے رسولۖ کی اطاعت کے علاوہ مخلوق خدا کی رضا جوئی کو مطمع نظر بنانا بھی ہے؟ کیا کسی کا ذہن اس حقیقت تک پہنچا کہ اقتدار اعلیٰ عوام کا حق ہے؟ کیا کسی نے یہ حکمت عملی بتائی کہ خلیفہ بننے کیلئے دوڑ دوڑ کر عوام الناس سے اپنے حق میں ووٹ حاصل کیجئے؟ کیا خلفائے راشدین کے دور میں کسی منتخب پارلیمنٹ کا وجود نظر آتا ہے؟ آخر ابو بکر و عمر میں سے کس کی خلافت جمہوری اصولوں کے مطابق طے پائی تھی؟

سرمائے کی بالادستی:         گو کہ حقوق کی سیاست ریاست سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ خیر کے معاملے میں غیر جانبدار رہے اور تمام افراد کے تصورات خیر اور انکے حقوق کے تحفظ کے لئے پوری ریاستی مشینری کو استعمال کرے تاکہ آزادی کے اظہار کا جو بھی طریقہ افراد اختیار کرنا چاہیں کرسکیں، مگر ہیومن رائٹس کی بالادستی کے نتیجے میں جو واحد خیر دوسرے تمام انفرادی تصورات خیر پر غالب آجاتا ہے وہ آزادی یعنی سرمائے میں لامحدود اضافے (عمل تکاثر) کی خواہش ہوتی ہے کیونکہ یہی وہ واحد خیر (جو در حقیقت شر ) ہے جسے آزادی کا خواہاں شخص اور معاشرہ اپنا تا ہے۔ ہمارایہ دعوی محض نظریاتی خام خیالی نہیں ہے بلکہ عملاً دیکھا جا سکتا ہے کہ دنیا کی ہر جمہوری ریاست کا مقصد آزادی یعنی سرمائے میںاضافے کی جدوجہد کرنا ہی ہے اور سرمائے میں اضافہ ہی تمام ریاستی پالیسیوں کی اصل بنیاد ہوتی ہے ۔ چنانچہ ہیومن رائٹس کی عملی تعبیر ہر جمہوری حکومت میں ہمیشہ معاشی نوعیت کی پالیسیوں ہی کے ذریعے متشکل ہوتی ہے ۔ جمہوری حکومتیں اسی وقت تک اپنا وجہ جواز برقرار رکھتی ہیں جب تک کہ وہ ایسی پالیسیاں بناتی رہیں جس سے آزادی یعنی سرمائے میں اضافہ ممکن ہو ۔یہی وجہ ہے کہ ہر جمہوری حکومت کی اصل کار کردگی کو معاشی پیمانوںپر ہی جانچا جاتا ہے، مثلاً یہ کہ جی ڈی پی (GDP)میں کس رفتار سے اضافہ ہوا، افراط زر کتنا تھا، بے روزگار ی کتنی رہی ، غیر ملکی کرنسی (Foreign currency) کے اثاثہ جات کتنے ہیں ، غیر ملکی سرمایہ کاری کتنی رہی ، درآمدات و برآمدات کا حساب کتاب کیسا ہے وغیرہ وغیرہ ۔ جمہوری ریاست میں قانوناً صرف ایسی ہی پالیسیاں بنائی جاسکتی ہیں جنکے ذریعے سرمائے میں اضافہ ممکن ہوسکے ۔ اسی چیز کا مظہر اس طرح بھی دکھائی دیتا ہے کہ ایک جمہوری حکومت کا مقصد ایسی پالیسیاں بنانا ہوتا ہے جس کے نتیجے میں لوگوں کا معیار زندگی بلند سے بلند تر ہوتا چلا جائے اور اسی چیز کے وعدے پر وہ لوگوں سے ووٹ مانگتی ہے۔ جمہوری سیاست میں یہ سوال ہی لایعنی ہوتا ہے کہ سرمائے میں اضافے کے عمل کے نتیجے میں طلاق، زنا و بدکاری، حرامی بچوں کی پیدائش، حب دنیا ، نمازویوں کی تعداد میں کمی وغیرہ میں تیز رفتاری سے کیوں اضافہ ہورہا ہے کیونکہ در حقیقت یہ تمام اعمال تو سرمایہ دارانہ معاشرت کی عمدہ کارکردگی کے مظاہر ہیں۔ افراد جس قدر نفس پرستی کے خواہاں ہوتے چلے جاتے ہیں سرمایہ دارانہ ترقی اتنی ہی تیزی سے وقوع پزیر ہوتی ہے۔ چنانچہ سرمائے میں لامحدود اضافے کے علاوہ اور کوئی ایسا مقصد ہے ہی نہیں جسے جمہوری سیاست کے اندر تحفظ فراہم کیا جا سکتا ہو۔ جمہوری حکومتوں کے اس عمل کی نظریاتی بنیاد یہی نقطہ ہے کہ سرمائے کی بڑھوتری وہ واحد شے ہے جو ہر تصور خیر کے پنپنے کے امکانات ممکن بنا تی ہے لہذا اصل خیر جس سے ہر ہیومن منسلک (committed)  ہوتا ہے وہ سرمائے میں لامحدود اضافے کی خواہش ہے اور اسی کیلئے وہ اپنا تن من دھن سب کچھ وار دیتا ہے۔ ہر تصور خیر کے پنپنے کے مواقع میں اضافہ (maximization of opportunities)جمہوری ریاست کااصل مقصد (end in itself)ہوتا ہے ما ورائے اس سے کہ وہ مواقع کس شے کے اظہار کیلئے استعمال ہو رہے ہیں۔ مواقع کے بدستور اضافے کے اس عمل کا اظہار ہمیشہ معاشی اعدادوشمار (economic indicators) کی کارکردگی کی صورت میں ناپا جاتا ہے جو یہ بتاتے ہیں کہ سرمائے میں اضافے کا مجموعی عمل کس رفتار سے بڑھ رہا ہے۔ مواقع اور سرمائے کا اضافہ ہی ارادہ محض کے اظہار کا واحد ممکن اور جائز طریقہ ہے۔

            ہم دیکھتے ہیں کہ جمہوری دینی تحریکات بھی جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں اس بات پر مجبور ہو جاتی ہیں کہ وہ سرمائے میں اضافے کے جبر کو قبول کریں۔ جب یہ جماعتیں زمام اقتدار سنبھالتی ہیں تو جس چیز کی فکر انہیں دامن گیر رہتی ہے وہ یہی مقصد ہے اور یہ اسی چیز کا اظہار ہے کہ کراچی کی شہری اور سرحد کی صوبائی حکومتیں اسی سرمائے کی خدمت کو اپنا اصل کارنامہ سمجھتی ہیں۔ جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں تحریکات اسلامی کی دعوت بھی دیگر لادینی جماعتوں کے سرمایہ دارانہ منشور پر مرکوز ہوکر رہ گئی ہے، مثلاً یہ کہ لوگوں کی آمدنی محفوظ ہو، ان کو ملازمت کا حق حاصل ہو، ان کو زیادہ سے زیادہ ترقی کے عمل میں برابر کی شرکت کے مواقع حاصل ہوں وغیرہ وغیرہ۔ سب نے دیکھا کہ ایم ایم اے کی حکومت سرحد میں استعمار کے ایک غیر شعوری آلہ کار کے طور پر کام کرتی رہی جس نے سرحد کی معاشی پالیسی ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے سپرد کر رکھی تھی اور جو سود پر قرضے لیتی اور دیتی بھی رہی۔ کچھ ایسی ہی داستان کراچی کی شہری انتظامی حکومت بھی سناتی ہے جسکے اعلی کارناموں کی فہرست میں سڑکوں اور پلوں کی تعمیر، نالوں اور گٹروں کی عمدہ صفائی اور مخلوط اجتماعات کیلئے پارکوں کے جال کے علاوہ کچھ بھی شامل نہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان تمام  ‘فلاحی ‘  کاموں کا احیاء و غلبہ اسلام سے کیا لینا دینا؟ گویا اسلامی تحریکیں اب جس بنیاد پر انتخابی مہم میں حصہ لیتی ہیں وہ انکی اسلامیت نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظام میں مخلص اور دیانتدارانہ کارکردگی ہے۔ سرمائے کی اس خدمت کو سر انجام دینے کیلئے ایک تاویل یہ بھی تراش لی گئی ہے کہ جب تک لوگوں کے مادی مسائل حل نہیں ہونگے انہیں اسلام کے بارے میں سوچنے کی فرصت نہیں ملے گی اور وہ اسلام کی طرف راغب ہی نہیں ہونگے لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ پہلے ہم انکے مسائل حل کردیں اور پھر اسلام کی طرف دعوت دیں جسکے بعد وہ خود بہ خود اسلام کی طرف دوڑے چلے آئیں گے۔ اس دلیل کی بے ڈھنگی پر وہ محاورہ صادق آتا ہے جسے الٹی گنگا بہنا اور اپنے پیر پر کلہاڑی مارنا کہتے ہیں۔ گویا جو شے دعوت اسلامی کے پھیلاؤ میں اصل رکاوٹ ہے پہلے ہم اسکے فروغ کا انتظام کریں اور جب لو گ خوب اچھی طرح اپنی خواہشات اور اغراض کے اسیر ہوجائیں تب ان کے سامنے یہ دعوت رکھیں کہ اسلام کی خاطر قربانیاں دو، فیاللعجب۔ آخر دنیا کے کس ملک میں مادی ترقی کرنے کے نتیجے میں اسلامی انقلاب ممکن ہو سکا ہے؟ کیا تحریکات اسلامی نے اسلامی انقلاب کا مطلب محض  ‘حکومت کی تبدیلی ‘  ہی سمجھ رکھا ہے؟ یہ بات اچھی طرح سے سمجھ لینے کی ضرورت ہے کہ جمہوری عمل اور ووٹوں کی گنتی کے نتیجے میں جمہوری اقتدار کی بنیاد نہیں بلکہ محض اس نظام اقتدار کو چلانے اور اسکی حفاظت کرنے والی حکومت بدل جایا کرتی ہے کیونکہ اقتدار کی بنیاد تو بہر حال عوامی نمائندگی اور اسکا مقصد آزادی یعنی سرمائے کی بڑہوتری ہی رہتا ہے۔ کیا ہم نہیں دیکھتے کہ پاکستان میں چاہے فوجی حکومت ہو یا عوامی مقبول حکومت، سب کا مقصد اولین سرمائے کی بڑہوتری کے علاوہ کچھ اور نہیں ہوتا اور یہ بات دنیا کی ہر جمہوری ریاست کے بارے میں صد فیصددرست ہے۔ یاد رہے کہ اسلامی انقلاب کا مطلب محض حکومت کی تبدیلی نہیں بلکہ ہمہ جہت تبدیلی ہوا کرتی ہے جس کے نتیجے میں انفرادیت، معاشرت اور اقتدار ہر سطح پر تبدیلی کی کوشش کی جاتی ہے۔ حکومت کو ریاست کے ہم معنی سمجھنا بھی تحریکات اسلامی کی غلط فہمیوں کا باعث ہے کیونکہ حکومت تو ریاست  (نظام اقتدار)  کا محض ایک جز ہے نہ کہ کل ریاست ۔ نظام اقتدار کا دائرہ تو خاندان سے لیکر حکومت تک پھیلا ہوتا ہے جس میں نظام تعلیم، معاشرتی تعلقات کی حد بندیاں ، نظام تعزیر ، قضا ، حسبہ اور انہیں نافذ کرنے والے ادارے وغیرہ سب شامل ہوتے ہیں جن میں سے ایک اہم مگر جز وی ادارہ حکومت بھی ہوتا ہے۔ حکومت کا مقصد معاشرتی مقبول یا عام طور پر برداشت کی جانے والی اقدار پر مبنی نظام جبر (اقتدار) کی تشکیل، حفاظت و فروغ ہوتا ہے ۔ افراد کسی مخصوص نظام جبر کو جس قدر جائز سمجھتے ہیں حکومت اتنی ہی مضبوط ہوا کرتی ہے۔ مثلاً سرمایہ دارانہ معاشروں میں عورتیں ارادہ خداوندی کی بنیاد پر خاندانی معاملات میں مرد کی قوامیت اور اقتدار ماننے کیلئے تیار نہیں ہوتیں البتہ سرمائے کی بڑھوتی کی بنیاد پر آفسوں میں مردوں کی ماتحتی اور انکے جبر کو بخوشی قبول کرلیتی ہیں۔ اسی طرح لوگ اپنے ماں باپ کی خدمت اور جبر کرنے کا اختیار ماننے کو تیار نہیں ہوتے لیکن سرمایہ دارانہ پیداواری عمل کے جبر (مثلاً یہ کہ کڑی نگرانی اور کام کے مقررہ اوقات کا سخت ہونا، رات گئے تک آفسوں میں رہنا ، باس کی خوشنودی کیلئے اوورٹائم لگانا اور اسکے سخت رویے کو برداشت کرنا وغیرہ) کو برضاورغبت اختیارکرلیتے ہیں ۔ پس جب تک اقتدار کی بنیاد تبدیل نہ ہوجائے کوئی معنی خیز انقلاب برپا نہیں کیا جاسکتا۔ ریاستی سطح پر اسلامی انقلاب کا مطلب نظام اقتدار کی بنیاد تبدیل کردینا ہے نہ کہ محض حکومت۔ ریاست و حکومت کے اس فرق کو نہ پہچاننے کی وجہ سے اسلامی تحریکات نظام اقتدار میں آنے والی جزوی تبدیلی کو بذات خود نظام اقتدار کی تبدیلی پر محمول کر لیتی ہیں ۔

اہم رجال کار کا ضیاع :       جمہوری جدوجہد کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ایسے ذہین کارکنان جو غلبہ و انقلاب اسلامی کے جذبے سے سر شار ہوتے ہیں تحریکات اسلامی کو حقو ق کی لا یعنی جمہوری سیاست کرتے دیکھ کر یا تو انتشار ذہنی کا شکار ہوجاتے ہیں اور یا پھر دل برداشتہ ہو کر تحریک سے علیحدگی اختیار کرلیتے ہیں اور یوں دینی تحریکیں اپنے مخلص کارکنان سے محروم ہوجاتی ہیں۔

٢.٢:  اسلامی جمہوریت کے اہم دلائل کا تجزیہ

            ہیومن رائٹس اور جمہوریت کے تناظر میں اسلامی جدوجہد مرتب کرنے کیلئے کئی ایسی دلیلیں وضع کرلی گئی ہیں جو درحقیقت دلیل سے زیادہ غلط فہمیوں اور تاویلات فاسدہ کا پلندہ ہیں۔ ذیل میں ایسے چند دلائل کا مختصر تجزیہ پیش کیا جاتا ہے۔

دائرہ شریعت کی پابند جمہوریت

            اسلامی جمہوری عمل کے جواز کیلئے ایک اہم دلیل یہ دی جاتی ہے کہ جمہوری عمل کو پابندی شریعت کے ساتھ مشروط کر دیا جائے تو نہ صرف یہ کہ اسمیں کوئی حرج نہیں بلکہ یہی اسلام کا اصل مطلوب سیاسی نظام ہے۔ چنانچہ مسلم مفکرین کے مطابق جمہوریت کی اس اسلامی تعبیر کے اندر افراد کو عمل لواطت کا حق حاصل نہیں ہوگا کیونکہ یہ عمل شرع کے خلاف ہے۔ عوامی رائے اور ہیومن رائٹس کی عمل داری کو دائرہ شریعت کے اندر محصور کردینے کو اسلامی جمہوریت وغیرہ کا نام دے دیا گیا ہے۔ دائرہ شریعت کی پابند جمہوریت ایک مبہم اصطلاح ہے جسکے متعدد معنی ہوسکتے ہیں۔ اسکی ایک تشریح یہ ہو سکتی ہے کہ عوامی نمائندے عوامی رائے کی روشنی میں نصوص شریعہ کی تعبیر کریں گے۔ ظاہر ہے یہ ایک مضحکہ خیز بات ہے کیونکہ نصوص شریعہ کی تشریح و تعبیر مجتہدین و علمائے کرام کا کام ہے اور علماء عوامی نمائندے نہیں بلکہ انبیاء کے ورثاء ہوتے ہیں۔ فقہ اسلامی کی تاریخ میں ایک بھی مثال ایسی نہیں دی جاسکتی جس میں اجتہاد کی ذمہ داری عوامی نمائندوں کے سپرد کردی گئی ہو۔ عوامی نمائندگی کے بجائے اسلامی نظریہ ریاست ‘ تقلید’ کے اصول پر قائم ہے یعنی عوام الناس کا کام یہ نہیں کہ وہ اپنی خواہشات پر عمل پیرا ہونے کیلئے قانون سازی کریں بلکہ ان پر لازم ہے کہ اپنے نفس کو تعلیمات شریعت کے تابع کرنے کیلئے کسی مجتہد کی رائے پر عمل کریں۔ عوامی رائے کی روشنی میں نصوص شریعہ کی تعبیر کا مطلب نہ صرف اصول تقلید کو بلکہ اصول اجتہاد و فقہ کو بھی کالعدم قرار دینا ہے کیونکہ اگر شریعت کی تعبیر عوامی رائے کے مطابق ہونی ہے تو پھر شارع کی رضا معلوم کرنے کیلئے اصول وضع کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ حیرت کی بات ہے کہ ہمارے فقہاء تو تلہی و ہوائے نفس (کسی فقہی رائے کو قوت دلیل کے بجائے ذاتی اغراض پورا کرنے کیلئے اپنانے) اور تلفیق (مختلف فقہی آراء کو ملا کر ایسی شکل بنانا جو سب کے نزدیک ناجائز ہو) کے خطرات کی بناء پر عوام الناس کو مختلف فقہی مکاتب فکر کی آراء اپنانے کا حق دینے پر تیار نہیں جبکہ اسکے برعکس اسلامی جمہوریت کی یہ تعبیر عوام کو نصوص شریعت کی تعبیر کرنے کا حق دینے کی بات کرتی ہے، فیا للعجب ۔ جمہوریت کی اس اسلامی تعبیر کا مطلب عوام پرستی کے سواء اور کچھ نہیں، یعنی عوام شرع کی جو بھی تعبیر کرنا چاہیں کرلیں اور وہ تعبیر لازماً حق ہوگی نیز نام کے مسلمانوں کی اجتماعی خواہشات اور احکام شریعت ایک ہی چیز ہیں ۔ ظاہر بات ہے ارادہ انسانی کو خدا کی مرضی کا مظہر قرار دینے کی اسلامی علمیت میں کوئی گنجائش موجود نہیں۔

            اسلامی جمہوریت کی دوسری ممکنہ تشریح یہ کی جا سکتی (اوراکثر کی جاتی ) ہے کہ عوام کی مرضی کے مطابق قانون سازی صرف ان معاملات میں کی جائے گی جہاں شریعت خاموش ہے۔ یہ اصول اس مفروضے پر قائم ہے کہ اسلامی ریاست صرف قرآن و سنت کے خلاف فیصلہ ‘نہ’  کرنے کی پابند ہوتی ہے جبکہ اصل معاملہ یہ ہے کہ اسلامی ریاست ہر فیصلہ قرآن وسنت اور اسلامی علمیت کی روشنی میں ‘کرنے’ کی پابند ہوتی ہے۔ شرع کے دائرے کو تشکیل قانون میں صرف اس حد تک محدود کرنا کہ قانون کا کوئی فیصلہ شرع کے خلاف نہ ہو اس مفروضے پر مبنی ہے کہ انسانی زندگی کا کوئی دائرہ عمل ایسا بھی ہے جہاں شارع نے انسان کو اپنی خواہشات پر چلنے کیلئے آزاد چھوڑ دیا ہے نیز قانون کا دائرہ شرع کے دائرے سے وسیع تر ہے۔ حقیقت حال اسکے عین برعکس ہے کہ شریعت ہمیں ہر معاملے کا حکم قرآن و سنت کی روشنی میں طے کرنے کا طریقہ بتاتی ہے اور اسلامی ریاست کا یہ وظیفہ ہوتا ہے کہ وہ قرآن و سنت پر مبنی اہل الرائے کے مشورے سے تمام معاملات پر حکم لگائے ۔ شرع محض فرائض ، واجبات اور محرمات کا ہی نام نہیں بلکہ اس کا دائرہ سنن، مندوب، مستحب، مکروہ ، اساء ت و خلاف اولی کے درجات تک اسطرح پھیلا ہوا ہے کہ پیدائش سے لیکر موت تک کوئی ادنی سے ادنی انسانی فعل بھی اسکی گرفت سے باہر نہیں۔ اسلامی جمہوریت کی یہ تعبیر کرنے والے حضرات فقہ اسلامی کا ناقص تصور قائم کرکے یہ بھول جاتے ہیں کہ اسلام محض چند گنے چنے مخصوص اعمال و افعال (Fixed Do’s and Don’ts) کے مجموعے کا نام نہیں، بلکہ اسلام ایک علمیت  (epistemology) ہے اور علمیت محض مخصوص اعمال نہیں بلکہ تمام انسانی اعمال کو مخصوص مقاصد کے ما تحت کردینے کا طریقہ بتاتی ہے۔ کسی معاملے میں واضح نص کے نہ ہونے کا مطلب یہ کہاں سے نکل آیا کہ ان ان معاملات میں  ‘عوامی خواہشات’ کے مطابق فیصلے کئے جائیں گے؟ آخر کس فقیہہ نے ‘عوامی رائے و خواہشات’  یا  ‘انسانی فطرت’ وغیرہ کو مصادر شریعت قرار دیا ہے؟ اگر شریعت چند گنے چنے اعمال کا نام ہے تو آج بھی مدارس میں اصول فقہ کیوں پڑھائے جاتے ہیں؟ آخر انہیں پڑھانے کا مقصد اسکے سواء اور کیا ہے کہ علماء کرام نئے پیش آنے والے مسائل کو مقاصد الشریعہ کی روشنی میں حل کرسکیں؟

            یہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر انسانی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا ہے جہاں شریعت خاموش ہے تو وہاں فیصلے کس علمیت کی بنیاد پر ہونگے؟ ظاہر بات ہے اگر اس دائرے میں اسلامی علمیت کوئی راہنمائی فراہم نہیں کرتی تو لازماً فیصلے کسی غیر اسلامی علمیت کی بناء پر ہونگے اور دور حاضر میں وہ علمیت سائنس (بشمول فزیکل اور سوشل سائنسز) کے علاوہ کچھ بھی نہیں جس کا مطلب یہ ہوا کہ فیصلے سائنسی علمیت کی بنیاد پر ہونگے۔ معاشرتی و ریاستی فیصلوں کو سائنسی علمیت کے سپرد کرنے کا مطلب یہ مان لینا ہے کہ  (الف)   اصل علمیت تو سائنس ہے کیونکہ یہی تمام معاملات میں حکم لگانے کی بنیاد فراہم کرتی ہے،  (ب)  ریاستی فیصلوں کا مقصد سرمایہ دارانہ مقاصد کا حصول ہے کیونکہ سائنس ہر گز بھی کوئی غیر اقداری علمیت نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ مقاصد زندگی کے حصول کو ممکن بنانے کی علمیت ہے (سائنسی علمیت پر راقم الحروف کے مضمون کیلئے دیکھئے   ماہنامہ الشریعہ، مئی ٢٠٠٨)۔ خوب یاد رہے کہ اسلامی جمہوریت کی اس تعبیر کو مان لینے کا مطلب یہ ہے کہ ہم مان لیں کہ اسلام سرے سے کوئی علمیت ہے ہی نہیں بلکہ محض ایک رویہ (attitude) ہے جس کا اظہار کسی بھی نظام زندگی اور علمیت کے اندر ممکن ہے۔ اگر اسلام علمیت نہیں تو (الف) اسلامی نظام زندگی کی فوقیت پر اصرار کرنا ایک لغو دعوی ہے، (ب) اسلامی ریاست ہرگز بھی کوئی مذہبی ریاست نہیں ہو سکتی اور (ج) ریاستی عمل کی شرع مطہرہ کے تناظر میں تحدید ایک لایعنی اصول بن کر رہ جاتاہے۔ اسلام کو علمیت مانے بغیر وہ بنیاد ہی فراہم نہیں کی جاسکتی جس کی روشنی میں فیصلے شارع کی مرضی کے مطابق کئے جاتے ہیں۔ پس طے کرنے کی بات یہ نہیں کہ کوئی فیصلہ شرع کے خلاف نہ ہو بلکہ یہ ہے کہ ہر فیصلہ شرع کے تقاضوں کے مطابق ہو کیونکہ اول الذکر رویہ شرع کو فرائض اور محرمات کی چند مخصوص تفصیلات تک محدود کردیتا ہے ۔ یہیں سے یہ بات واضح ہوجانی چاہئے کہ ہر حالت میں اسلامی ریاست کے اقتدار کے اصل حقدار علماء کرام ہی ہیں کیونکہ وہی اس علمیت کے وارث ہیں جو فیصلوں کو شارع کی مرضی کے تابع کرتی ہے۔ ہمیں یہ بات ماننے اور کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرنی چاہئے کہ اسلام میں  ‘ملائیت’ (Theocracy) ہے، ان معنی میں نہیں کہ اسلام میں پاپائیت کی طرح علماء کی کوئی تنظیمی ہئیت (organizational hirarchy) ہے بلکہ ان معنی میں کہ اسلامی ریاست میں فیصلے وہی لوگ کرتے ہیں جو اسلامی علمیت کے ماہرین ہیں اور جنہیں  ‘مولوی’  کہا جاتا ہے۔ ریاستی فیصلوں پر کسی ایک گروہ کی اجارہ داری صرف مذہبی معاشروں میں ہی نہیں ہوتی بلکہ جمہوری ریاستوں میں بھی ہوتی ہے کیونکہ عملاً وہاں بھی فیصلے وہی لوگ کرتے ہیں جو سرمایہ دارانہ یا سائنسی علمیت کے ماہرین ہوتے ہیں اور جو آزادی یعنی سرمائے میں لامحدود اضافہ کرنے کا علم رکھتے ہیں ، مثلاً سوشل سائنسز اور بزنس ایڈمنسٹریشن کے ماہرین، قانون دان وغیرہ ۔ ہاں ! یہ فرق ضرور ہے کہ جمہوریت میں ان فیصلوں کی توثیق بالآخر عوام ہی کرتے ہیں کیونکہ فیصلوں کا اصل مقصد تو عوامی خواہشات و اغراض کی تکمیل ہی ہوتا ہے اور وہی یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ آیاانہیں فیصلوں سے  ‘مزہ آیا ‘  یا نہیں۔ اسلامی نظریہ ریاست کو جمہوری تناظر میں بیان کرنے والے مفکرین یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ جمہوریت جس بنیاد پر حکمرانوں کے چناؤ کا حق افراد سے مختص کرتی ہے وہ یہ مفروضہ ہے کہ  ‘ہر فرد اپنا حاکم خود ہے (citizen is sovereign)’  لہذا  ‘حکمرانی کی بنیاد عوامی نمائندگی ہے’، اور اسی وجہ سے یہ ہر فرد کا حق ہے کہ ایسا حاکم چنے جو اسکے مفادات کا تحفظ کرسکے۔ ظاہر بات ہے اس مفروضے کی اسلامی علمیت میں کوئی دلیل موجود نہیں کیونکہ شرع کے فیصلوں کی عوامی توثیق کوئی معنی نہیں رکھتی۔ اسلامی نظریہ ریاست میں حکمرانی کی بنیاد یہ ہے ہی نہیں کہ  ‘عوام کیا چاہتے ہیں  ‘ بلکہ یہاں تو حکمرانی اس لئے کی جاتی ہے کہ عوام کی چاہتوں کو شارع کی رضا کے تابع کرنے کی کوشش کی جائے کیونکہ عوام تو بالعموم اغراض اور مفادات ہی کی بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں نہ کہ شارع کی مرضی کے تقاضوں کے مطابق۔ گو کہ اس اتفاقی امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ کسی معاشرے کے عوام اتنے نیک ہوں یا کسی مخصوص حالات میں اچانک وہ اظہار و غلبہ اسلام ہی کو اپنی اول چاہت (first order desire) سمجھیں لیکن جمہوریت وہ طریقہ نہیں ہے جو افراد کو اپنی چاہت  ‘خدا کے سپرد ‘  کردینے کیلئے تیار کرتی ہو بلکہ یہ تو وہ طریقہ ہے جو افراد کو  ‘اپنی خواہشات پر عمل ‘  کرنے پر اکساتی ہے۔ نفس لوامة کے تقاضے پورے کرنے کا طریقہ جمہوریت نہیں بلکہ پیری مریدی ہے کیونکہ عوامی نمائندگی (representation) نفس امارة یعنی عوام کو معصیت اور اسکی توجیہہ سجھانے کا طریقہ ہے۔ مدرسے کے کسی نالائق استاد کو درست کرنے کیلئے طلباء کو اساتذہ کے خلاف تنظیم سازی کر کے سیاست کرنے کی اجازت دینا تعلیمی مقاصد کے حصول و فروغ کا ذریعہ نہیں بلکہ اسکی راہ میں رکاوٹ ہی بنتا ہے ۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ جمہوریت مقاصد الشریعہ کے حصول کا ذریعہ بن سکتی ہے تو ان ممالک کا حال دیکھ لے جہاں جمہوری قدریں مضبوط ہیں۔ اس سے بھی واضح مثال ایران کی دیکھ لیجئے جہاں باوجود اسکے کہ جمہوری عمل محدودہے آج امام خمینی جیسی ہیئت کے بجائے پینٹ کوٹ میں ملبوس  صدر بر سر اقتدار ہے۔ جہاں حال یہ تھا کہ امام خمینی کے نامزد کردہ نمائندے کے خلاف تو ایک بھی امیدوار سامنے نہ آیا مگر آج وہاں اسّی سے زیادہ عوامی نمائندے سامنے آگئے ہیں اور اگر ایران اس جمہوریت سے چمٹا رہا تو وہ دن دور نہیں جب دنیا لادینی طاقتوں کو ایران میں برسر اقتدار دیکھے گی۔

یہ بات بھی سمجھ لینی چاہئے کہ دائرہ شریعت کے اندر رہتے ہوئے عوامی حاکمیت کا تصور سرمایہ دارانہ اہداف (آزادی، مساوات و ترقی) کا رد نہیںبلکہ دائرہ اسلام کے اندر رہتے ہوئے ان کے حصول کی حکمت عملی طے کرنا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں اس حکمت عملی کے تحت انسانی آزادی یعنی سرمائے کی بڑھوتری کا جواز پابندی شریعت کی شرط کے ساتھ فراہم کیا جاتا ہے۔ اس اصول کے مطابق ہم اسلام کو بطور مستقل نظام زندگی نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کے اندر بطور چند حدود (limiting constraints) کے شامل (treat)کرتے ہیں جسکا لازمی نتیجہ سرمایہ داری کا اسلام پر غلبہ ہوتا ہے اور نام نہاد اسلامی تحدیدات آہستہ آہستہ سکڑتی چلی جاتی ہیں۔ اس عمل کی تفصیل نام نہاد اسلامی معاشیات کی مثال سے واضح ہوجاتی ہے جسکے پیچھے  ‘دائرہ شریعت کی پابند معاشیات یا سرمایہ داری’  کا فلسفہ ہی مار فرما ہے۔ اسلامی معاشیات کے ماہرین معاشیات کے اس مفروضے کو قبول کرتے ہیں کہ فرد کی خواہشات لامحدود ہونی چاہئیں اور اسے عمل صرف مزے لینے (utility maximization) کیلئے ہی کرنا چاہئے (دیکھئے مولانا تقی عثمانی صاحب کی کتاب  ‘اسلام اور جدید معیشت و تجارت’) لیکن اسے یہ لامحدود خواہشات پوری کرنے کیلئے ایسا طرز عمل اختیار کرنا چاہئے جس سے معاشرے کی مجموعی لذت (aggregate utility OR social welfare)میں کمی نہ ہو ۔ لذت پرستی کے اس فریم ورک کو اسلامی ماہرین معاشیات فطری مان کر اس میں چند اسلامی تحدیدات تجویز کرتے ہیں (مثلاً یہ کہ صارف حرام اشیاء استعمال نہ کرے) جنکے بعد انکے خیال میں معاشرے میں حقیقی لذت پرستی ممکن ہوسکے گی۔ اسی طرح اسلامی معاشیات یہ مفروضہ مانتی ہے کہ کاروبار کا اصل مقصد تو نفع خوری (profit maximization) ہی ہونا چاہئے البتہ یہ نفع خوری معاشرے کے مجموعی مفاد اور نفع کی قیمت پر نہیں ہونی چاہئے لہذا ضروری ہے کہ نفع خوری کے جذبات کو چند ضروری اسلامی تحدیدات کا پابند بنایا جائے جسکے بعد ہی معاشرے میں صحیح معنی میں سرمائے میں اضافے اور ترقی کا عمل تیز ہوسکتا ہے۔ چنانچہ اسلامی معاشیات ہر شخص کا یہ حق فطری تصور کرتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ سرمائے میں اضافے کی جدوجہد کرے البتہ وہ سرمائے میں اس طرح اضافہ نہ کرے جس کی شرع اجازت نہ دیتی ہو۔ مثلاً وہ چاہے تو زر کا بازار یعنی بینک تو بنائے البتہ سودی کاروبار کرنے کے بجائے شرعی حیلے استعمال کرکے جائز طریقے سے سرمایہ دارانہ معاشرت کو فروغ دے، ایسے ہی سٹے کے بازار یعنی اسٹاک ایکسچینج میں شرعی اصولوں کے مطابق سٹے بازی کو فروغ دے۔ اسی طرح فرد کو چاہئے کہ وہ زہد و فقر کی اقدار اپنانے کے بجائے دنیا سے زیادہ سے زیادہ متمتع ہونے کیلئے خوب عمل صرف (consumption)کرے ہاں حرام اشیاء استعمال نہ کرے نیز وہ کاروبار کو اللہ تعالی کی رضا یا آخرت کا گھر کمانے کا ذریعہ نہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ نفع کمانے کیلئے کرے البتہ حرام اشیاء کی پیداوار کا باعث نہ بنے وغیرہ۔ اس تفصیل سے عین واضح ہے کہ اسلامی تحدیدات (constraints) لگانے کا مقصد سرمایہ دارانہ اہداف (لذت پرستی ، نفع خوری و سرمائے میں اضافے ) کا رد نہیں بلکہ اسکے حصول کا درست طریقہ کا رہے جو ان مفکرین کے خیال میں اسلام فراہم کرتا ہے۔ یعنی جو چیز اسلامی معاشیات کے ایجنٹ (economic agent (کو موجودہ معاشیات کے ایجنٹ سے ممیز کرتی ہے وہ انکی زندگی کے اہداف کا فرق نہیں بلکہ یہ ہے کہ اسلامی صارف طویل المدت (Long term) لذت پرستی کیلئے قلیل المدت (Short term) لذت پرستی کے رویے کو ترک کردیتا ہے، گویا وہ ایک عمدہ لذت پرست ہوتا ہے (اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ اسلامی ماہرین معاشیات دراصل Rule utilitarianism  فلسفے پر عمل پیرا ہیں)۔ اسلامی معاشیات کے خیال میں اسلامی تعلیمات (مثلاً سود کی ممانعت و نظام زکوة کے اجراء وغیرہ) پر صحیح معنی میں عمل کرنے کا ثمر یہ ہوگا کہ معاشرے میں زیادہ سے زیادہ لذت پرستی کے مواقع فراہم ہو جائیں گے اور ‘ا صل ترقی’ تب ہی ممکن ہوگی جب اسلامی تحدیدات کے اندر رہتے ہوئے لذت پرستی اور نفع خوری کے مجموعی عمل کو فروغ دیا جائے گا۔ گویا لبرل مفکر کانٹ کی Kingdom of Ends  اور اشتراکی مفکر مارکس کیMarxist Utopia  کا خواب صحیح معنی میں اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کے بعد شرمندہ تعبیر ہو گا جہاں ہر فرد کو جو وہ چاہے گا میسر ہوسکے گا ۔ دوسرے لفظوں میں اسلامی ماہرین معاشیات یہ کہتے ہیں کہ سرمایہ داری اپنے لئے جو ہدف (عمل تکاثر) مقرر کرتی ہے وہ تو عین حق ہے البتہ اسکے حصول کا درست طریقہ وہ نہیں جو معاشیات کا مضمون بتاتا ہے بلکہ اسکا اصل طریقہ تو اسلام کے پاس چودہ سو سال سے محفوظ ہے ۔ اس حکمت عملی کو اپناتے وقت وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اس کے ذریعے وہ سرمایہ دارانہ اخلاقیات مثلاً لذت پرستی، حرص وحسد، شہوت، مادی مفادات کی فوقیت وغیرہ کا اسلامی جواز فراہم کررہے ہیں کیونکہ اگر اسلام کا ہدف بھی ترقی اور سرمائے کی بڑھوتری ہی ہے نیز انسان کی خواہشات لا محدود ہونی چاہئیں توماننا پڑے گا کہ اسلام بھی لذت پرستی اور حرص و حسد جیسے رزائل نفس کے فروغ کی تعلیم دیتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس حکمت عملی کا خوبصورت نام’Shariah compliance’   (اصول شریعہ سے ہم آہنگی) رکھ لیا گیا ہے جسکا مطلب  ‘دائرہ شریعت کی پابند سرمایہ داری ‘ ہے۔ اسلامی ماہرین معاشیات پر امید ہیں کہ اس حکمت عملی کے نتیجے میں ‘اسلام ‘ کا فروغ ہوگا۔ اپنے آپ کودھوکہ دینے کی اس سے بہترین مثال شاید ہی کوئی دی جا سکے کیونکہ اس لائحہ عمل کا مقصد سرمایہ دارانہ نظم اجتماعی کا انہدام (Destruction)نہیں بلکہ اسکی اسلامی تطہیر (Reconstruction)اور سرمایہ داری کی اسلامی توجیہہ (Islamic version of capitalism) تیار کرنا ہے۔ یہ حکمت عملی اپنانے والے مفکرین کبھی اس سوال کا جواب نہیں دیتے کہ اس نام نہاد Shariah complianceکے نتیجے میں جو انفرادیت و معاشرت عام ہو رہی ہے وہ اسلامی ہے یاسرمایہ دارانہ؟ آخر کیا وجہ ہے کہ حکمت عملی تو استعمال ہو اسلامی، مگر فروغ ہو سرمایہ داری کا؟ اس حکمت عملی کو اپنانے والے ماہرین یا تو سرمایہ داری سے ناواقف ہیں اور یا پھر اسلام سے۔ خوب یاد رہے کہ اسلام کے اندر رہتے ہوئے جمہوریت کا فروغ مقاصد الشریعہ، تزکیے، امر بالمعروف ونہی عن المنکروغیرہ کا نہیں بلکہ حقوق ، اغراض و بڑھوتری سرمائے کے فروغ کا ہم معنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ اسلامی بینکاری اور سودی بینکار ی کے کاروبار میں مماثلت بڑھتی چلی جارہی ہے اور ہر آنے والے دن کے ساتھ حرام قرار دی جانے والی زری (financial) پراڈکٹس کی فہرست شرعی حیلے استعمال کرکے سکڑتی چلی جارہی ہے۔

حکم مشاورت سے جمہوریت کا اثبات

            اسلامی جمہوریت کے اثبات کیلئے  وامرہم شوری بینہم (مسلمان اپنے معاملات باہمی مشورے سے چلاتے ہیں،  شوری٤٢:  ٣٨) قرآنی آیت کا استعمال بے دریغ کیا جاتا ہے ۔ اس آیت سے اسلامی جمہوریت کا اثبات ان مفروضات پر مبنی ہے کہ (الف)  فیصلہ کرنے کا اصل حق عوام الناس کا ہے،  (ب)  جمہوری عمل مشورے ہی کی ایک شکل ہے،  (ج)   قرآنی آیت میں جس مشورے کا حکم دیا گیا ہے اسکا تقاضا پورا کرنے کا مناسب ترین طریقہ عوامی نمائندگی کی بنیاد پر مبنی جمہوری عمل ہے،  (د) مشورہ کرنے والے تمام افراد اصولاً برابر حیثیت رکھتے ہیں،  (ہ)  مشورہ دینے والوں کیلئے کسی مخصوص علمی لیاقت اور صلاحیت سے متصف ہونا لازم نہیں۔ ظاہر بات ہے جب یہ تمام مفروضات ہی سرے سے غلط ہیں تو ان پر قائم شدہ استدلال کی حیثیت کیا ہوگی؟ ان مفروضات کے علاوہ اس آیت سے اسلامی جمہوریت کا اثبات کئی لحاظ سے مبہم اور کمزور استدلال ہے۔ اولاً اس آیت سے جمہوریت کا اثبات اسکے لفظی عمومی مفہوم پر مبنی ہے جبکہ آیت کو اسکے لفظی عموم پر محمول کرناممکن ہی نہیں کیونکہ اس صورت میں آیت کا معنی یہ ہوگا کہ  ‘مسلمانوں کے تمام معاملات سب مسلمانوں کے مشورے سے طے ہوتے ہیں’۔ ظاہر ہے یہ معنی لینا محال ہے کیونکہ اگر سارے معاملات ہی مشورے سے طے ہونا مقصود تھے تو نزول شریعت عبث ہوئی اور اللہ تعالی بے شمار احکامات نازل کرنے کے بجائے صرف ایک ہی سنہرا اصول نازل کر دیتا کہ  ‘مسلمانوں تمہیں جب بھی کوئی مسئلہ درپیش ہو آپس میں مشورہ کرکے اسے حل کرلیا کرو’۔ پھر عوامی نمائندگی کی بنیاد پر فیصلے کرنے کا اصول کسی بھی طرح آیت کے لفظی عموم پر پورا نہیں اترتا وہ ایسے کہ یہاں لفظ  بینہم میں  ہمکا تقاضا یہ ہے کہ  ‘تمام مسلمان’  ‘ہر فیصلے ‘  میں شریک ہوں جبکہ عوامی نمائندگی پر مبنی جمہوریت میں ہر گز بھی تمام مسلمان ہر فیصلے میں عملاً شامل نہیں کئے جاتے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس آیت کا معنی عمومی نہیں بلکہ اسکا مقصود صرف یہ ہے کہ حکمرانوں کے چناؤ نیز صرف ان اجتماعی معاملات میں مشورہ کیا جائے جہاں نصوص شریعت خاموش ہیں تو یہ بتایا جائے کہ اس تخصیص کی دلیل کیا ہے؟ نیز آیت کے اس مقید مفہوم سے یہ کیسے ثابت ہوا کہ ہر ہر کس وناکس اس مشورے میں شامل ہوجائے؟ اگر آیت کے معنی عمومی نہیں بلکہ مقید ہی مطلوب ہیں تو پھر یہ معنی کیوں نہ سمجھے جائیں کہ اس آیت کا مقصد یہ ہے کہ اہل الرائے افراد خلیفہ کا تقرر باہمی مشورے سے کریں نیز خلیفہ کو چاہئے کہ انتظامی و انطباقی معاملات (administrative and implimentative issues) اہل الرائے وغیرہ کے مشورے سے طے کرے۔ آیت کی یہ تشریح نہ صرف یہ کہ متقدمین مفسرین کرام کے اقوال کے عین مطابق ہے (مثلاً دیکھئے تفسیرروح المعانی، جلد ٢٥) بلکہ قرین قیاس بھی کیونکہ دنیا کا ہر ذی شعور انسان مشورہ مخصوص صلاحیت کے حامل افراد سے ہی لیا کرتا ہے۔ کیا کسی یونیورسٹی کے ڈین کا تعین کرتے وقت یونیورسٹی کے کلرک یا چپڑاسیوں سے مشورہ طلب کیا جاتا ہے؟ ہر گز نہیں ، جسکی وجہ یہ ہے کہ یونیورسٹی کا ڈین متعین کرنے کا مقصد مخصوص مقاصد کا حصول ہوا کرتا ہے لہذا اسکا تعین وہی افراد کرتے ہیں جو ان مقاصد اور اسکے حصول کیلئے مطلوبہ صلاحیتوں کا ادراک رکھتے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ مدرسے اور یونیورسٹی کا استاد مقرر کرتے وقت تو  ‘طلباء کی رائے ‘  کی فکر نہیں کی جاتی کہ وہ ابھی نادان و ناسمجھ ہیں اور اپنے اچھے برے کو نہیں سمجھتے لیکن خلیفہ کی تقرری کے وقت نہ صرف انہیں  ‘نادان و ناسمجھ’  طلباء بلکہ ان سے بھی گئے گزرے افراد کو  ‘ملت کے معمار’   تصور کرلینا کہاں کی عقل مندی ہے؟ کیا خلیفہ کی تقرری کوئی ایسا ہی فضول کام ہے کہ ہر ہر کس وناکس اس کا اہل ہو سکتا ہے؟ کیا خلیفہ کی تقرری کوئی حق ہے یا فرض؟ اگر یہ فرض ہے تو کیا ہر فرض کی ادائیگی کیلئے کسی صلاحیت کا ہونا لازم نہیں ہوتا؟ جیسا کہ اوپر بتایا گیا کہ مسلم مفکرین کی غلطی جمہوریت کا یہ بنیادی مفروضے مان لینا ہے کہ  ‘ہر فرد اپنا حاکم خود ہے ‘  لہذا  ‘حکمرانی کی بنیاد عوامی نمائندگی ہے’ اور یہ ایک غلط مفروضہ ہے۔

            جدید مفکرین کا مسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے یہ فرض کر رکھا ہے کہ ملوکیت لازماً بری اور غیر اسلامی شے ہے اور اسلام کا  ‘اصلی’  سیاسی نظام جمہوری اقدار کے ہم معنی ہے ۔ اس مفروضے کی صداقت پر انہیں اتنا یقین ہے کہ اسکے حق میں کوئی قطعی شرعی نص پیش کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتے اور محض قیاس آرائیوں کے زور پر بڑے بڑے نتیجے اخذ کرلیتے ہیں ۔ حالانکہ قرآن مجید کی کسی ایک آیت یا رسول اللہ ۖ کی کسی ایک بھی حدیث میں یہ نہیں کہا گیا کہ ملوکیت حرام ہے اور اس سے بچو۔ حیرت ہے جو قرآن مسلمانوں کی معاشی و معاشرتی تنظیم میں سود و زنا کو علی الاعلان حرام قرار دیتا ہے وہی قرآن سیاسی تنظیم کے سب سے بڑے مزعومہ شر یعنی ملوکیت کی حرمت بیان کرنے پر مکمل طور پر خاموش ہے۔ قرآن سے ملوکیت کی حرمت ثابت کرنا تو رہا درکنار خود قرآن مجید سے اسکا ثبوت ملتا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں کئی انبیاء کرام کا طلب ملوکیت کیلئے دعا فرمانا ذکر ہے اور اللہ تعالی نے انہیں اس دعا کرنے سے منع نہیں فرمایا۔ اس سے بھی بڑھ کر قرآن ملوک کی تعریف کرتا ہے جیسا کہ حضرت داؤد اور سلیمان علیہما السلام کے ذکر خیر سے واضح ہے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ ایسے تمام مفکرین تضاد بیانی کرتے ہوئے حضرت عمر بن عبد العزیز  کے دور حکومت کو خلافت راشدہ کے مثل مانتے ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ آپ  بھی تو ایک ملک ہی تھے پھر انکی تعریف کے کیا معنی؟

Plurality of goods  بطور ایک اسلامی قدر

            جمہوری مسلم مفکرین کا ایک مسئلہ اسلام کو plurality of goods اور ملٹی کلچرلزم جیسے ابلیسی تصورات کا محافظ سمجھنا بھی ہے۔  یہ بات تو ہر معمولی ذہن رکھنے والا شخص بھی سمجھتا ہے کہ دنیا کا کوئی صحیح الدماغ شخص جس شے کو حق اور جسے باطل گردانتا ہے ان دونوں کو کبھی اپنی زندگی میں مساوی حیثیت نہیں دیتا اور نہ ہی انہیں پنپنے کے برابر مواقع فراہم کرتا ہے۔ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص مکان تعمیر کرے اور اسمیں بجلی کے دو طرح کے کنکشن اور تاریں لگوائے، ایک تو وہ جنکے کے آگے سوئچ بورڈ اور بٹن لگے ہوں، اور دوسرے اسی دیوار میں کئی مقامات پر بجلی کی تاریں کھلی چھوڑ کر یہ کہتا پھرے کہ میں نے اپنے بچوں کو پوری آزادی دے دی ہے، چاہیں تو سوئچ بورڈ سے پنکھا چلائیں اور اگر چاہیں تو ننگی تاروں کو ہاتھ لگا کر کرنٹ سے مر جائیں۔ ایسے ہی ایک منزل سے نیچے دوسری میں جانے کیلئے ایک سیڑھی بنا دے، اور اسکے ساتھ بلندی سے گرکر مرنے کیلئے تین راستے بھی کھلے چھوڑ کر یہ کہے کہ میں نے سب راستوں کو برابر حیثیت دے دی ہے۔ ظاہر بات ہے کہ اپنے بچوں کیلئے ایسا مکان بنانے کی ترکیب صرف کسی ذہنی مریض ہی کو سوجھ سکتی ہے ورنہ دنیا کا کوئی بھی شخص چاہے کتنا ہی آزادی کا دلدادہ کیوں نہ ہو ایسی حرکت نہیں کرتا بلکہ مکان بناتے وقت تمام احتیاطی تدابیر (safety-measures) اختیار کرتا ہے تاکہ جس شے (یعنی زندگی کے ہلاک ہو جانے) کو وہ برا سمجھتا ہے اس کی روک تھام کی جا سکے اور لوگوں کو اس بات کا زیادہ سے زیادہ پابند بنایا جا سکے کہ وہ ایسا طرز عمل اختیار کریں جسکے نتیجے میں انکے ہلاکت میں پڑنے کے امکانات کم از کم اور حصول خیر کے مواقع زیادہ سے زیادہ ہو سکیں۔ پس اس اصول پر اس دعوے کی مضحکہ خیزی بھی جانچی جا سکتی ہے کہ اسلام plurality of goods کا حامی ہے۔ وہ ایسے کہ ایک طرف تو اسلام پوری قوت کے ساتھ اپنے لئے یہ دعوی کرے کہ صرف میں ہی حق ہوں باقی سب باطل ہیں نیز صرف میرا ہی راستہ حقیقی کامیابی اور نجات کا ضامن ہے باقی سب جہنم و بربادی کے راستے ہیں (من یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ وھو فی الاخرة من الخاسرین : آل عمران٣:  ٨٥)، لیکن اس کے بعد اس اصولی دعوے کی مخالفت کرتے ہوئے اپنے معاشرے میں جہنم اور بربادی کی طرف لے جانے والی باقی تمام باطل قوتوں کا راستہ نہ صرف یہ کہ کھلا چھوڑ دے بلکہ ان کے فروغ کے لئے ہر قسم کی سہولتیں بھی فراہم کرے ۔ آخر دنیا میں وہ کون شخص ہے جو جس شے کو شر سمجھتا ہے پھر اسے پھیلنے کی مکمل آزادی اور حق بھی دے دے؟ ایسی بے وقوفی کی امید تو ایک عام انسان سے بھی نہیں کی جاسکتی چہ جائیکہ اسکی نسبت اللہ اور اسکے رسول کی طرف کرنے کی جسارت کی جائے۔ اسلام کے نزدیک انسان کا اصل مسئلہ بیماری یا غربت نہیں بلکہ اپنے رب کا انکار اور اس سے بغاوت ہے، یہ تو بڑی عجیب ہے کہ اسلام اپنی سرحدوں میں چوری وڈاکے، افیون نوشی و زہر خوری اور قحبہ گری کا  ‘حق’  دینے پر تو تیار نہ ہو لیکن ان سب سے کئی گنا زیادہ مہلک چیز یعنی کفر وشرک کی حفاظت اور اسکے فروغ کا نہ صرف یہ کہ  ‘حق ‘  دے ڈالے بلکہ plurality of goods  کے سائے تلے انہیں  ‘خیر’   بھی مان لے، فیا للعجب۔ اسلام کے نزدیک کفر اور فسق اختیار کرنا کسی شخص کا  ‘حق’  نہیں بلکہ اپنے رب سے بغاوت ہے اور بغاوت کا فروغ کبھی بطور پالیسی اختیار نہیں کیا جاتا۔ اس رویے کی وضاحت اس مثال سے کی جاسکتی ہے کہ جب کبھی یہ کہا جائے کہ ٹی وی بے حیائی اور فحاشی کو فروغ دے رہا ہے تو یہ عجیب و غریب فلسفہ سننے کو ملتا ہے کہ  ‘بھائی ٹی وی پر تو مذہبی چینلز بھی آتے ہیں، تو جو چاہے فلموں اور گانوں کے بجائے ان چینلز کو دیکھ لے’۔ اس فلسفے کا بودا پن اوپر بیان کی گئیں تفصیلات سے واضح ہو جانا چاہئے۔ اس مثال میں اصل سوال یہ نہیں کہ آیا ٹی وی پر مذہبی پروگرام آتے ہیں یا نہیں، بلکہ یہ ہے کہ اگر فحاشی و عریانی پھیلانا برائی اور جرم ہے تو اسکے فروغ کو بطور ایک ‘حق’ اور ‘پالیسی’ کیسے اختیار کرلیا جائے ؟ اس دلیل کا تقاضا تو یہ ہے کہ ہم افیون اور چرس بیچنے والے کو بھی اپنے کاروبار کے فروغ کی کھلی چھٹی دے دیں کیونکہ وہ بھی یہ کہہ سکتا ہے کہ بھائی بازار میں کھانے کی بے شمار اشیاء موجود ہیں ، لوگ چاہیں تو میری چرس کے بجائے انہیں استعمال کرلیں ۔

آزادی کی مذہبی توجیہات

            اکثر مسلم مفکرین قرآنی آیت  فمن شاء فلیؤمن ومن شاء فلیکفر (تو جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے ، کہف ١٨:  ٢٩ ) سے ماخوذ شدہ جبر و قدر کی بحث پر مبنی مذہبی تصور آزادی کو مغربی تصور آزادی سے خلط ملط کرکے اسلام میں آزادی و جمہوریت بطور ایک مستقل قدر کا اثبات کرتے ہیں۔ اس آیت میں جس آزادی کاذکر ہے اسکا مطلب ہے ارادہ خداوندی کے مظہر تصوارت خیرو شر کو اپنانے کی آزادی ، یعنی اللہ تعالی نے انسان کی ہدایت کا انتظام کردینے کے بعد اسے اس بات پر مجبور نہیں کردیا کہ وہ لازماً خیر ہی کو اپنائے بلکہ اسے یہ اختیار دیا گیا ہے کہ چاہے تو اپنے رب کا فرمانبردار بنے یا باغی۔ البتہ اس آزادی کا مطلب یہ نہیں کہ اگر وہ اپنے ارادے سے کفر اختیار کرے گا تو وہی خیر بن جائے گا بلکہ اسے اسکی سزا بھگتنا ہوگی جیسا کہ پوری آیت سے واضح ہے جو یوں ہے  قل الحق من ربکم  فمن شاء فلیؤمن ومن شاء فلیکفر انا اعتدنا للظٰلمین نارا (فرما دیجئے کہ حق تو وہی ہے جو تمہارے رب کی طرف سے آیا ہے، تو جو چاہے اس حق کو مان لے اور جو چاہے انکار کردے ، ہاں ہم نے (انکار کرنے والے) ظالموں کیلئے آگ تیار کررکھی ہے )۔ اسکے مقابلے میں مغربی تصور آزادی کا مطلب ہے خیر و شر کی تعیین کا حق۔ آسان لفظوں میں مذہبی جبروقدر کی بحث میں آزادی کا مطلب ہے پہلے سے طے شدہ خیریا شر میں سے کسی ایک کو اپنانے کا اختیار (choice between good and bad) ، جبکہ مغربی تصور آزادی کا مفہوم ہے تعیین خیر کا حق  (right to define good and bad OR choice of choice) ۔ اوپر بیان کردہ آیت کی طرح قرآنی آیت  لا اکراہ فی الدین (‘دین میں کوئی زبردستی نہیں ‘  بقرة٢: ٢٥٦ )  کا مفہوم بھی قریب قریب وہی ہے جیسا کہ مکمل آیت سے عین واضح ہے۔ اس آیت کو یہ عمومی معنی پہنانا کہ دین کے کسی معاملے میں کوئی جبر ہے ہی نہیں انتہائی غلط معنی ہیں کیونکہ اس تشریح کے بعد اسلام کے تمام معاشرتی و سیاسی احکامات کالعدم ہو جائیں گے۔ مثلا اسلامی ریاست میں کوئی شخص چوری کرے اور جب ہاتھ کٹنے کی باری آئے تو کہہ دے  لا اکراہ فی الدین۔ اسی طرح اس آیت سے تمام تصورات زندگی کی اخلاقی و معاشرتی مساوات (plurality of goods)کا اصول نکالنا بھی غلط ہے کیونکہ اگر صرف اسی آیت کو پورا پڑھ لیا جائے تو اس نظرئیے کی تردید ہوجاتی ہے۔ مکمل آیت کا ترجمہ یہ ہے:

 ”دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں ، بے شک ہدایت گمراہی سے خوب واضح ہوگئی ہے، پس جو کوئی طاغوت (بندگی کا انکار کرنے والے) کا انکار کرکے اللہ پر ایمان لے آیا تو اسنے ایسا مضبوط سہار تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں اور اللہ تعالی سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے، اللہ مددگا رہے ایمان والوں کا وہ انہیں (جہالت کی) تاریکیوں سے (ہدایت کی ) روشنی کی طرف نکال لے جاتا ہے۔ اور جنہوں نے (ہدایت کا ) انکار کیا انکے ساتھی طاغوت ہیں جو انہیں روشنی سے تاریکیوں کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں، یہی لوگ آگ میں جانے والے ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے”   (بقرة٢:  ٢٥٦ )

 قرآن نے ہدایت و خیر کیلئے لفظ ‘نور’ مفرد اور گمراہی کیلئے ‘ظلمات’ جمع استعمال کرکے یہ بتا دیا کہ حق اور خیر اصلا ً صرف ایک ہیں جبکہ جہالت کی کئی شکلیں ہیں۔ خوب یاد رہے کہ ارادہ خداوندی سے باہر یا اس سے ماوراء کسی حق اور خیر کا کوئی وجود ہے ہی نہیں، خیر اور حق وہی ہے جسے اسلام خیر اور حق کہتا ہے نیز اسلامی نظام زندگی میں ارادہ خداوندی سے متصادم تصورات ہر گز بھی مساوی معاشرتی حیثیت نہیں رکھتے بلکہ انہیں لازماً وہی پوزیشن اختیار کرنا ہوتی ہے جس کیلئے قرآن  صاغرون (حالت مغلوبیت،  توبة ٩:  ٢٩) کی اصطلاح استعمال کرتا ہے۔

            یہی وجہ ہے کہ اسلامی تصورات زندگی میں آزادی (اور اسی لئے مساوات) کوئی بنیادی قدر نہیں بلکہ یہاں اصل قدر عبدیت ہے کیونکہ اہم بات یہ نہیں کہ میں جو چاہنا چاہوں چاہ سکنے پر قادر ہوں یا نہیں بلکہ یہ ہے کہ میں وہ چاہتا ہوں یا نہیں جو خدا چاہتا ہے کہ میں چاہوں۔ اسلام آزادی (اور اسی لئے مساوات) کو بطور کسی ایسی معاشرتی قدر قبول نہیں کرتا جو ریاست سے اس بات کا تقاضا کرے کہ وہ خیر کے معاملے  ‘غیر جانبدار ‘  ہو کر تمام تصورات خیر کے  ‘حقوق’  کا  ‘مساوی’  تحفظ کرے، بلکہ اسلامی ریاست کا تو مقصد ہی اس خیر کو جو ارادہ خداوندی کی صورت میں نازل ہوا تمام دیگر تصورات خیر (جو در حقیقت شر ہیں) پر غالب کردینا ہے نہ کہ انکے ساتھ مفاہمت کرنا اور خیر سگالی کے جذبات کا اظہار کرکے انہیں مساوی حیثیت عطا کردینا (ہو الذی ارسل رسولہ بالہدی ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ ، فتح٤٨:  ٢٨)۔ اسکے مقابلے میں مغرب میں آزادی اعلی ترین خیر ہے کیونکہ انکے مطابق اصل حیثیت اس چیز کی نہیں کہ آپ کیا چاہتے ہیں بلکہ اس کی ہے کہ آپ جو چاہنا چاہیں چاہ سکیں۔ اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ یہ دعوی کہ سیکولر ریاست خیر کے معاملے میں غیر جانبدار ہوتی ہے ایک جھوٹا دعوی ہے کیونکہ خیر کے معاملے میں غیر جانبداری کا رویہ ممکن ہی نہیں۔ سیکولر ریاست بھی ایک مخصوص تصور خیر کو تمام دیگر تصورات خیر پر بالاتر کرنے کی ہی کوشش کرتی ہے اور وہ تصور خیر آزادی ہے، یعنی یہ تصور کہ تمام تصورات خیر مساوی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہنا کہ تمام تصورات خیر مساوی ہیں غیر جانبداری کا رویہ نہیںبلکہ بذات خود خیر کا ایک مستقل ما بعد الطبعیاتی تصور ہے کہ  ‘اصل خیر تمام تصورات خیر کا مساوی ہونا ہے’، اور اسی تصور خیر کے تحفظ اور فروغ کی لبرل جمہوری دستوری ریاست پابند ہوتی ہے۔ یہ اسی کا مظہر ہے کہ پختہ (matured) جمہوری ریاستوں میں ارادہ انسانی یعنی اسکے حق کی بالادستی تمام تصور ات خیر پر غالب آجاتی ہے اور کسی مخصوص خیر کی دعوت دینا ایک لایعنی اور مہمل دعوت بن کر رہ جاتی ہے۔ ایسی ریاستوں میں آپ کسی مخصوص خیر (مثلاً مذہبیت) کے اظہار کو  ‘بطور ایک حق ‘  کے پریکٹس (Practice) تو کرسکتے ہیں مگر اسے دیگر تمام تصورات خیر اور زندگی گزارنے کے دوسرے طریقوں پر غالب کرنے کی بات نہیں کرسکتے کہ ایسا کرنا ہیومن رائٹس کی خلاف ورزی ہے۔ آزادی بطور ایک مستقل اسلامی قدر ماننے کا مطلب یہ ہے کہ اسلام بھی تمام تصورات خیر کو مساوی حیثیت دیتا ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اسلام کوئی برتر اور مکمل نظام زندگی نہیں بلکہ ایک ایسے اعلی نظامہائے زندگی کا حصہ ہے جس میں تمام تصورات خیر برابر ہوتے ہیں اور وہ نظام لبرل سرمایہ داری ہے۔ خوب یاد رہے کہ اسلام آزادی کو بطور ذریعہ (freedom as resource) تو مانتا ہے کہ دیگر مخلوقات کے مقابلے میں انسان کو یہ ذریعہ حاصل ہے کیونکہ اسکے بغیر جنت و جہنم کا سوال لایعنی ٹھرتا ، لیکن اسے بطور ایک قدر (freedom as value) نہیں مانتا کیونکہ اصل قدر آزادی استعمال کرنے کا حق نہیں بلکہ اسے اپنے رب کے سپرد (surrender)کردینا یعنی اظہار عبدیت ہے۔ پس ہمیں چاہئے کہ ہم چیزوں کی حقیقت کا علم حاصل کریں تاکہ آزادی، plurality of goods  اور ملٹی کلچرلزم جیسے گمراہ کن تصورات کی نسبت اللہ اور اسکے رسول کی طرف کرنے سے بچ سکیں۔

اسلامی معاشرے میں غیر مسلمین کے حقوق

اسلام میں ذمیوں کے حقوق کا تحفظ بھی اسلامی جمہوریت کے اثبات میں دئیے جانے والے دلائل میں سے ایک اہم دلیل ہے۔ جدید مفکرین کے خیال میں اسلام میں آزادی اور ملٹی کلچرلزم کا ثبوت یہ حقیقت ہے کہ اسلام اپنی سرحدوں میں غیر مسلمین کو ذمی بن کر رہنے کی نہ صرف یہ کہ اجازت دیتا ہے بلکہ انہیں اپنے ذاتی معاملات میں اپنی اپنی مذہبی تعلیمات کے مطابق رسوم عبودیت ادا کرنے نیزکئی دیگر حقوق بھی عطا کرتا ہے جسکی تفاصیل کتب فقہ میں دیکھی جا سکتی ہے ۔ سیکولر طبقہ لوگوں کو دھوکہ دینے کیلئے اس بات کو بار بار دھراتا ہے نیز ہمارا معذرت خواں جدیدیت پسند طبقہ بھی اس جال میں پھنس کر ذمیوں کے حقوق سے جمہوریت کا اثبات کرنے لگتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی جزوی حکم کی مصلحت کو سمجھنے کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ اسے اس اجتماعیت کے جز کے طور پر دیکھا جائے جسکا وہ حصہ ہے، اگر آپ اس جز کو اسکے اصل مقام سے اٹھا کر کہیں اور رکھ کراسکے معنی تلاش کرنے لگیں تو آپ لازماً غلطی کریں گے۔ انسانی آنکھ کا صحیح معنی اور مصلحت انسانی جسم ہی میں تصور کی جا سکتی ہے نہ یہ کہ اسے کسی دیوار پر ٹانگ کراس کا معنی سمجھا جائے۔ ایسے ہی ذمیوں کے احکامات کو بھی اسلام ہی کی تعلیمات میں سمجھنا ممکن ہے نہ کہ انہیں جمہوریت میں فٹ کرنے کی غرض سے سمجھا جائے۔ اب دیکھئے اسلام اس بات کا مدعی ہے کہ میرے علاوہ سب راستے جہنم کے راستے ہیں ، لیکن سوال یہ ہے کہ دنیا کے جس خطے میں اللہ تعالی مسلمانوں کو دارالاسلام قائم کرنے کا موقع نصیب فرما دے اگر وہاں ایسے لوگ بھی آباد ہوں جو ابھی تک اسلام کی سچائی سے محروم ہیں تو ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟ ظاہر ہے اسکے چار جوابات ممکن ہیں:

            ١)    انہیں ہر لحاظ سے برابر تسلیم کرکے یکساں مواقع فراہم کر دئیے جائیں

            ٢)   انہیں قتل کر دیا جائے

            ٣)   انہیں دارالاسلام کی سرحدں سے نکال باہر کیا جائے

            ٤)   انہیں دارالاسلام میں اس لئے بسنے کا موقع دیا جائے کہ انہیں تبلیغ کے ذریعے آسانی سے دائرہ اسلام میں لایا جاسکے

            ظاہر ہے پہلا جواب اسلام کے لئے قابل قبول نہیں کیونکہ اسکا مطلب تو اپنے اس دعوے ہی سے دستبردار ہوجا نا ہے کہ اسلام ہی حق ہے۔ دوسرا جواب بھی اس لئے درست نہیں کہ اللہ تعالی نے یہ دنیا امتحان کے اصول پر قائم کی ہے، نیز اسلام انسانی فطرت سے مایوس نہیں ہے بلکہ وہ اس بات کا قائل ہے کہ جب کفر و الحاد کی اتھا ہ گہرائیوں میں بھی ایک انسان کو قبول حق کی توفیق نصیب ہو سکتی ہے تو اس بات کی پوری امید کی جاسکتی ہے کہ درست تربیت اور صالح ماحول میسر آجانے پر انسان کسی بھی وقت اس حق کی طرف پلٹ سکتا ہے جو اسے ابدی ہلاکت سے بچانے والا ہے۔ پس یہی وجہ ہے کہ اسلام ایسے شخص کو اپنی سرحدوں سے باہر دارالکفر کی طرف نہیں دھکیلتا کہ یہ اسے جہنم کی طرف دھکیلنے کے مترادف ہے کیونکہ دارالکفر میں تو ایمان لانے کے مواقع دار الاسلام کے مقابلے میں کم ہو جائیں گے۔ لہذا اسلام اس بات پر تیار ہے کہ ایسے شخص کو دارالاسلام کی سرحدوں میں رہنے کی اجازت دے د ی جائے تاکہ اسے حتی یسمع کلام اللہ کے مترادف اللہ کا پیغام سننے کا موقع مل جائے اور تبلیغ کے ذریعے دائرہ اسلام میں داخل کرلیا جائے۔ غیر مسلمین کو اپنی سرحدوں میں بسنے کی اجازت دینے کا مطلب یہ نہیں کہ اسلام انہیں اپنے مساوی خیر سمجھتا ہے اور نہ ہی اسکا مقصد یہ ہے کہ انہیں اپنے کفر پر جمے رہنے نیز اپنی آنے والی نسلوں تک اسے منتقل کرنے کا لائسنس دے دیا جائے ۔ اسلام کی اصولی تعلیمات کے مطابق بھی دیکھا جائے تو ہر غیر مسلم کو اسلام کی دعوت و تبلیغ کرنا ضروری ہے، اب اپنی سرحدوں سے باہر نکالنا در حقیقت خود اپنے اس کام کو مشکل بنانے کے ہم معنی ہے۔ پس معاشرے میں زندگی گزارنے کیلئے عرف کے مطابق جو حقوق ہونے چاہئیں اسلام ذمیوں کو ایسے تمام حقوق دیتا ہے اور یہی ان حقوق کا اصل پس منظر ہے۔

حکومت کیلئے عوامی تائید کی شرط

            اثبات جمہوریت کیلئے ایک دلیل یہ بھی پیش کی جاتی ہے کہ اسلام میں حکمرانوں کیلئے یہ لازم ہے کہ انہیں عوامی تائید حاصل ہو اور ووٹنگ اسی تائید کے حصول کا ایک طریقہ ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اسلام میں حکومت کیلئے  ‘عوامی تائید کی شرط’  کس دلیل شرعی کی بنیاد پر اخذ کی گئی ہے۔ اصولیین جس شے کو  ‘شرط ‘  کہتے ہیں اس کیلئے جس درجے کی قطعی دلیل (خصوصاً علمائے احناف کے ہاں)  کی ضرورت ہوتی ہے اگر ایسی کوئی دلیل ہے تو پیش کی جائے، ورنہ محض قیاسات اور تاویلات کی بنیاد پر کسی بات کو شرط قرار دینے کی اسلامی علمیت میں کوئی گنجائش موجود نہیں۔ اگر  ‘عوامی تائید’  ‘حق حکمرانی کی لازمی شرط ‘  ہے تو معاذاللہ سب سے پہلے حضرت ابوبکر  و عمر ہی کی حکومت ناجائز قرار پائے گی۔ بتایا جائے کہ ان میں سے کس کو عوامی تائید کے سنہرے اصول پر ‘منتخب ‘ کیا گیا تھا؟ سب جانتے ہیں کہ حضرت ابوبکر کی خلافت کا اعلان پہلے کیا گیا بیعت بعد میں ہوئی۔ انکی اس تقرری کا فیصلہ عوام یا انکے منتخب کردہ نمائندوں میں سے کس نے کیا تھا؟ پھر دیکھئے حضرت ابوبکر نے اپنی زندگی میں ہی حضرت عمر کو خلیفہ نامزد کر دیا تھا۔ اس مقام پر بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ آپ نے صحابہ سے ‘مشورے کے بعد ‘ کیا تھا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آپ نے ‘مشورے سے پہلے’  فیصلہ کرکے اکابر صحابہ کو اپنی رائے پر اعتماد میں لیا تھا۔ اگر صحابہ سے بات کرنے کامقصد منصب خلافت کیلئے موزوں شخص کا مشورہ (اور وہ بھی ایسا کہ جس پر عمل کرنا خلیفہ پر لازم ہوتا ہے ) لینا ہوتا تو یقینا حضرت عمر خلیفہ مقرر نہ ہوتے کیونکہ مشورہ دینے والوں کی رائے تو یہی تھی کہ اس منصب کیلئے عمر موزوں نہیں کہ آپ بہت سخت مزاج ہیں لیکن اس رائے کے باوجود حضرت ابوبکر نے صحابہ کو سمجھا لیا کہ نہیں میرا فیصلہ ٹھیک ہے۔ پھر دیکھئے لوگوں کو منصب خلافت کیلئے حضرت عمر کا چھ افراد کی مشاورتی کمیٹی بنانا تو یاد ہے مگر یہ یاد نہیں رہتا کہ یہ عمر ہی ہیں جنہوں نے وہ کمیٹی بنانے سے پہلے فرمایا تھا کہ اگر فلاں فلاں صحابی آج زندہ ہو تے تو میں انہیں تمہار امیر مقرر کرکے جاتا۔ اگر خلافت عام آدمی کا مسئلہ ہے اور عوامی تائید اسکی لازمی شرط ہے تو نعوذ باللہ ابوبکر وعمر سے بڑے آمر اسلامی تاریخ میں پیدا نہیں ہوئے ۔ پھر ایک لمحے کیلئے مان لیجئے کہ حضرت عمر  کی تقرری مشورے ہی سے عمل میں آئی تھی، لیکن کن کے مشورے سے؟ کبار صحابہ کرام کے یا عوام کے؟ اگر عوامی تائید اور وہ بھی  ‘پچاس فیصد سے زیادہ اکثریتی تائید’  خلافت اسلامی کے جائز قیام کی شرط لازم ہے توریاست مدینہ شاید قائم ہی نہ ہوپاتی کیونکہ گنتی کے اعتبار سے رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی ہی بادشاہ بنتا۔ اگر محمد بن قاسم بھی ‘عوامی تائید’ کی اس غلط فہمی کا شکار ہوتا تو کبھی ہندوستان میں اسلامی ریاست کی بنیاد نہ ڈالتا۔ پھر ‘عوامی تائیدکی شرط’ کے اس فلسفے کے مطابق ہندوستان اور اندلس کی اسلامی ریاستیں یقینا غیر اسلامی ٹھریں گی کیونکہ ان علاقوں میں مسلمانوں کو کبھی عوامی اکثریت حاصل نہیں ہوئی۔ کیا آج تک کسی عالم نے یہ کہا ہے کہ مدرسے کا  ‘مہتمم ‘  بننے کیلئے مدرسے میں کام کرنے والے تمام افراد (بشمول اساتذہ، انتظامی آفسر، چپڑاسی) ، طلباء اور اردگرد کے علاقے کے افراد کی تائید شرط لازم ہے؟ کیا کسی یونیورسٹی کے ڈین کا تعین اس بنیاد پر کیا جاتا ہے کہ اسے سب لوگوں کی تائید حاصل ہو؟ کیا مسجد کے امام صاحب کا استحقاق امامت عوامی رائے اور تائید کے ساتھ مشروط سمجھا گیا ہے؟ اگر امامت صغری کیلئے عوامی تائید کوئی شرط نہیں تو امامت کبری (جو اس سے بھی بڑی اور نازک ذمہ داری ہے) کیلئے عوامی رائے اور مرضی کی شرط کہاں سے آگئی؟ اور تائید بھی اس عوام کی جسکی حالت یہ ہے کہ وہ مقلدین محض ہیں، جنہیں خبر ہی نہیں کہ مقاصد الشریعہ کیا ہیں اور شارع کی رضا حاصل کرنے کا طریقہ کیا ہے، فیا للعجب۔ عوامی نمائندگی کا مطلب  ‘پچاس فیصد سے زیادہ آبادی کی اکثریت’  بذات خود جمہوری مفکرین بھی نہیں لیتے کیونکہ اس صورت میں تو امریکہ میں بھی کوئی حاکم نہیں بن سکے گا جسکی وجہ یہ ہے کہ الیکشن کا turn over   (آبادی کا وہ حصہ جو ووٹ ڈال کر جمہوری عمل میں حصہ لیتا ہے)  بڑی مشکل سے چالیس فیصد ہوتا ہے جسکا مطلب یہ ہوا کہ اس جمہوری نظام ہی کو ساٹھ فیصد عوام کی تائید حاصل نہیں لہذا اسے بند کردیا جاناچاہئے۔ ہمیں یہ بات ماننے میں کوئی اعتراض نہیں کہ حکمرانوں کو عوامی تائید حاصل ہونا اچھی بات ہے، آخر اس سے اچھی بات اور کیا ہوگی کہ سارے عوام متقی اور صالح ہوں اور انکی تائید حاصل ہو ، مگراسلامی نظریہ ریاست میں یہ ایک اضافی (extra) صفت تو ہوسکتی ہے لیکن کوئی لازمی شرط نہیں کیونکہ اسلامی علمیت میں اس مفروضے کی کوئی دلیل موجود نہیں کہ خلافت کی بنیاد ہی عوامی تائید ہے نیز یہی اسلام کا اصل طریقہ حکمرانی ہے ۔

            اسلامی نظریہ ریاست کی جمہوری تعبیرکی کئی دیگر شکلیں  (shades) بھی ہیں جن سب کا احاطہ کرنا یہاں مقصود و ممکن نہیں۔ جو مسلم مفکرین جمہوریت کے اندر اسلامی روح تلاش کرنے کے خواہاں ہیں وہ درحقیقت جمہوریت کو سمجھے ہی نہیں کیونکہ جمہوریت محض ووٹ ڈالنے یا رفع اختلاف کے کسی ادارے وغیرہ کا نام نہیں ، بلکہ انسان کے  ‘حق’  کو  ‘خیر ‘  پر فوقیت دینے، یعنی ارادہ انسانی کی بالادستی کو اصل خیر سمجھنے کا نام ہے۔ ان مفکرین کی غلطی جمہوریت کو غیر اقداری (value-neutral) اور ٹیکنیکل شے سمجھنا ہے جو ہر قسم کے مقاصد اور خیر کے حصول میں مدد گار ہوسکتی ہے، یعنی انکے خیال میں جمہوریت گویا ایک ایسا خالی صفحہ ہے جس پر آپ جس چیز سے جو چاہیں لکھ لیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت ایک ایسی سلیٹ ہے جس پرایک مخصوص شے سے ہی تحریر کندہ کی جاسکتی ہے جو بھی اسے استعمال کرنے کی کوشش کرے گا یہ اسے مجبور کردے گی کہ اسپر اسی شے سے لکھے جس سے لکھنے کیلئے یہ کارآمد ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم جمہوریت اور جمہوری جدوجہد کی حقیقت پہچانیں اور اس بات کا شرح صدر کے ساتھ ادراک حاصل کریں کہ جمہوریت ہر گز بھی کوئی ایسا ریاستی ڈھانچہ فراہم نہیں کرتی جس کے ذریعے کسی بھی نظام زندگی اور مقصد کا حصول ممکن ہے کیونکہ جس چیز کو یہ ممکن بناتی ہے وہ ا رادہ خداوندی پر مبنی خیر کی نہیں بلکہ  ‘انسانی حق کی ہر خیر پر بالادستی ‘  ہے اور کفر و شرک کی یہ وہ شکل ہے جسے plurality of goods  کے خوبصورت نام سے پیش کیا جاتا ہے نیز اس کے نتیجے میں جو نظام زندگی تشکیل پاتا ہے وہ سرمایہ داری کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ پس ہمیں چاہئے کہ ہم انسانیت پرستی کو اسکی تمام تر شکلوں میں کلیتاً رد کریں کیونکہ انسانیت کا غلبہ درحقیقت سرمایہ داری کی بالا دستی کا دوسرا نام ہے جسکا لازمی نتیجہ عبدیت اور مذہب کا زوال ہے۔ ہمارا یہ دعوی محض نظریاتی یا خیالی دعوی نہیں، بلکہ مغربی دنیا میں جہاں جہاں بھی انسانیت پرستی کے مظاہر عام ہوئے (مثلاً سائنس و ٹیکنالوجی ، نیشنلزم، لبرلزم، اشتراکیت وغیرہ کی شکل میں) وہاں مذہب ایک بالادست معاشرتی حقیقت نہیں بلکہ دیگر کھیل تماشوں کی مانند محض نفسیاتی سکون حاصل کرنے کا ایک ذاتی حربہ بن کر رہ گیا ہے جسے مغرب میں Spritual luxury  کہا جانے لگا ہے۔ یاد رکھنا چاہئے کہ :

٭   آزادی ردہے عبدیت کا

٭   مساوات رد ہے نظام ہدایت و تزکیہ نفس کا

٭   ترقی رد ہے دنیا کے دارلامتحان ہونے اور معرفت خداوندی کے امکان کا

٭   ہیومن رائٹس رد ہے حقوق العباد کا

٭   Plurality of goods رد ہے اسلام کے الحق ہونے کا

٭   Tolerance  رد ہے ایمان اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا

٭   جمہوریت رد ہے خلافت کا

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں حقیقت حال سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

مباحث مضمون سے متعلق مطالعے کیلئے درج ذیل حوالہ جات دیکھئے

١۔  آزادی اور اسکا منفی اور مثبت مفہوم سمجھنے کیلئے دیکھیں

Berlin, I. (1973), “Two concepts of liberty” in Political Philosophy, edited by Anthony Quinton, Oxford University Press, UK

Mill J. S. (1865), On Liberty, Longmans Green and Co., London

٢۔  لبرل جمہوری نظام میں خیر و حق کی ترتیب باہمی نیز انسانیت پرستی کی انفرادی و اجتماعی تعبیرات سمجھنے کیلئے دیکھیں

Rawls J. (1971), A Theory of Justice, Harvard University Press

Mulhall S. and Adam Swift (1992), Liberals and Communitarians, Blackwell publishers, Oxford

Sandel M. (1982), Liberalism and the Limits of Justice, Cambridge University Press

٣۔  لبرل جمہوری نظام کے جواز کیلئے دیکھیں

Locke, John (1956), The Second Treatise of Government, ed. J. W. Gough, New York

Rousseau J. (1987), The Social Contract, tr. by Maurice Cranston, Penguin

Baradat, Leon (2000), Political Ideologies, 7th Ed., Prentice Hall, New Jersey

٤۔  جمہوری اقدار کی اسلام کاری کا تازہ ترین نمونہ اور دینی قیادتوں کے سیکولر سیاسی لائحہ عمل کے جواز کی نوعیت سمجھنے کیلئے دیکھئے :  ماہنامہ ترجمان القرآن (فروری، مارچ اور اپریل ٢٠٠٨) میں پروفیسر خورشید احمد صاحب کے مضامین  ‘اسلام اور جمہوریت’  ،  ‘قیادت کا امتحان’   اور حال ہی میں چھپنے والی کتاب  Islam and Secular Mind میں پروفیسر صاحب کا تحریر کردہ مقدمہ

٥۔  اسلامی معاشیات کا عمومی خاکہ سمجھنے کیلئے دیکھئے:  مولانا تقی عثمانی (١٩٩٣) ،  اسلام اور جدید معیشت و تجارت، دارالاشاعت کراچی

سرمایہ دارانہ جمہوری نظام کی شرعی حیثیت

مولانا محمد احمد حافظ

آج جب کوئی شخص شعور کی دنیا میں قدم رکھتا ہے اور چیزوں کو سوچنے اور ان کو پرکھنے لگتا ہے تو اس کے سامنے سوالات کا ایک ہجوم ہوتا ہے… انہی سوالات میں سے کچھ سوال حیاتِ اجتماعی کے نظم ونسق، اخلاقی اقدار اور مابعدالطبیعات سے متعلق ہوتے ہیں۔

بحیثیت مسلمان اگر دیکھا جائے تو جس دین کے ہم پیروکار اور ماننے والے ہیں اس کے بارے میں ہمارا عقیدہ ہے کہ یہ دین کامل اور مکمل ہے اور یہی دین تاقیامِ قیامت باقی رہے گا، مگر جب ہم فکر وعقیدہ کی دنیا سے باہر قدم رکھ کر عملی سطح پر دیکھتے ہیں تو عقیدہ اور عمل میں گہرا تضاد نظر آتاہے۔ مثلاً ہم دیکھتے ہیں کہ تاریخی طور پر تقریباً تیرہ سو سال تک مسلم دنیا میں خلافت قائم رہی، شریعت کا نفاذ رہا۔ لوگوں کے معاملات قرآن وسنت کے مطابق حل ہوتے رہے مگر یکایک ہم دیکھتے ہیں کہ منظر بدل گیا ہے اور ہم نے دین کو صرف فرد کی سطح تک محدود کرکے اجتماعی سطح پر ایک ایسے نظام کو قبول کرلیا ہے جو فی الواقع ہمارا اپنا نہیں بلکہ مغرب سے درآمد شدہ ہے۔ اس نظام کی اپنی کونیات، تعلیمات اور مابعد الطبیعات ہیں… مجموعی طور پر ہم اس نظام کو سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی سے تعبیر کرتے ہیں اس کا سیاسی نظام جمہوریت کہلاتا ہے(جوکہ ڈیما کریسی کا اردو ترجمہ ہے) اس نظام کو ہم نے 1920ء سے گلے لگایا اور تمام تر قباحتوں کے باوجود اِسے اپنائے ہوئے ہیں… ہمارے خیال میں گزشتہ ایک صدی (تقریباً) کے تجربات ہمارے لیے بہت سے بنیادی فیصلوں کے متقاضی ہیں مگر ہم پھر بھی اس نظام کو اپنانے پر مُصِرْ ہیں۔

سردست جو اہم سوال ہے وہ یہ ہے کہ کیا جمہوریت ہی وہ واحد نظام ہے جو بنی نوعِ انسان کی فوز وفلاح کا ضامن ہے؟… کیا یہ واحد اور آخری حق ہے جسے اپنائے رکھنے پر ہم مجبور ہیں؟… کیا جمہوری نظام میں باربار کی شمولیت، کئی مرتبہ کی شکستوں، تقسیم درتقسیم کا خمیازہ بھگتنے اور بھاری اکثریت کے ساتھ فتح کے باوجود منزل سے ہمکنار نہ ہوسکنے کے بعد بھی ہم اسے گلے لگائے رکھیں گے؟… اس نظام میں شمولیت کی شرعی حیثیت کیا ہے؟… کیا شریعت کو معطل کرکے ہم اس نظام کا حصہ بن سکتے ہیں؟… کیا شریعت پر کافرانہ نظام کی بالادستی قبول کی جاسکتی ہے؟…یہ وہ سوالات ہیں جو آج ہر اہل علم کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آج وقت آگیا ہے کہ ہم 1920ء کے بعد اپنائی گئی سیاسی حکمت عملی پر ازسرنو غور کریں اور قرآن وسنت کی طرف مراجعت کے لیے اپنے آپ کو آمادہ وتیار کریں۔

گوکہ یہ مضمون بہت تفصیل طلب اور گہری تنقید کا متقاضی ہے مگر سردست ہم چند بنیادی اُمُور پرتوجہ مرکوز رکھیں گے۔ ہماری نظر میں جمہوری سسٹم کوئی غیراقداری نظام نہیں۔ اس کی اپنی علمیات، کونیات اور مابعدالطبیعات ہیں۔ جمہوری نظام کا سرمایہ داری، انسانی حقوق، لبرل قوانین، لبرل عدلیہ اور انتظامیہ سے گہرا اور مربوط تعلق ہے۔ آیندہ سطور میں ہم اسی ربط وتعلق کو واضح کرنے اور اس پر اسلامی نکتہ نگاہ سے حکم لگانے کی طالب علمانہ کوشش کریں گے اگرچہ یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ وفوق کل ذی علم علیم!!

فرد، معاشرہ اور ریاست کا باہمی تعلق:

معاشرہ ہو یا ریاست اس کا وجود فرد کے گرد گھومتا ہے۔ فرد کو نفی کردیں تو معاشرہ کوئی وجود نہیں رکھتا۔ اسی طرح محض ریاست کوئی حسّی چیز نہیں۔ انسانی دنیا کے تمام معاملات فرد کے گرد گھومتے ہیں، مثلاً صہیب ایک فرد ہے، اس کا جو تعلق عمر، طلحہ اور عبدالرزاق کے ساتھ ہے وہ معاشرت ہے اور صہیب کا وہ تعلق جو حکمران کے ساتھ ہے ریاست کہلاتی ہے، یہ نہیں کہ فرد نہ ہو اور معاشرہ بھی قائم ہو اور ریاست بھی!… چناںچہ فرد اگر صالح ہے، شریعت کا پابند اور دینی اقدار کا احترام کرتا ہے تو معاشرہ مذہبی ہوگا اور ریاست بھی مذہبی ہوگی۔ فرد اگر کسی مذہب کا پابند نہیں ہے بلکہ فری (FREE) یعنی ”آزاد” ہے تو معاشرہ لبرل اور سیکولر ہوگا، اسی طرح ریاست بھی سیکولر ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ مذہبی انفرادیت اور سرمایہ دارانہ انفرادیت میں شرق وغرب کا فرق ہے۔

مذہبی انفرادیت کیا ہے؟:

مذہبی انفرادیت میں بنیادی چیز عبدیت ہوتی ہے، عبدیت کا مطلب ہے کہ انسان ایک خارجی اور اَن دیکھے وجود کو اپنا الٰہ ومعبود مان لے، اُس کی خواہش، منشاء اور رضامندی کے لیے اپنی ساری خواہشوں کو فنا کردے، اس کے کہے پر چلے اور منع کرنے پر رک جائے۔

سرمایہ دارانہ انفرادیت:

سرمایہ دارانہ انفرادیت یہ ہے کہ انسان کسی کا عبد نہیں بلکہ وہ آزاد (FREE) ہے۔ آزاد ان معنوں میں ہے کہ وہ جو چاہنا چاہے چاہ سکے اور جس چیز کی خواہش اس کا نفس کرے اسے حاصل کرسکے۔ خواہشات بے پناہ ہیں اور انسان کو خواہشات کی تکمیل کے لیے بنیادی طور پر جس چیز کی ضرورت ہے وہ ”سرمایہ” ہے۔ سرمایہ ہی وہ بنیادی عنصر ہے جس کے ذریعے تمتع فی الارض اور تمتع فی الدنیا کے امکانات وقوع پذیر ہوسکتے ہیں۔ ایک بات جو یاد رکھنے کی ہے کہ سرمایہ دارانہ عقلیت مابعد الموت سے بحث نہیں کرتی ہے بلکہ اس کے نزدیک موت ہی اختتامِ زندگی ہے۔ چنانچہ سرمایہ دارانہ عقلیت میں زیادہ سے زیادہ سرمائے کا حصول اسی دنیا کو جنت بنانے کے سوا کچھ نہیں، اسی لیے ایک سرمایہ دار انسان کی ساری تگ ودو اور کدوکاوش کا محور محض سرمائے کا حصول ہوتا ہے۔

سرمایہ دارانہ انفرادیت کیونکر وجود میں آئی؟

سرمایہ دارانہ انفرادیت کیوں کر وجود میں آئی؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے ہمیں پندرھویں سولہویں اور سترھویں صدی کے ادوار میں عیسائیت کی شکست وریخت کا مطالعہ کرنا ہوگا یہ وہ تمام عرصہ ہے جب عیسائیت یورپ میں اپنے آپ سے نبردآزما تھی پادریوں کی من مانی تفسیر انجیل، غیرمنطقی عقائد ونظریات اور متضاد افکار وخیالات نے عام عیسائی فرد کو اپنے عقیدے سے متزلزل کردیا تھا۔ مثلاً:

پوپ خدا کا نمایندہ سمجھا جاتا، اور وہ جسے چاہتا جہنم کی وعید سنانا اور جسے چاہتا جنت کی بشارت سے سرفراز کردیتا، دوسرے لفظوں میں پوپ کو الوہیت کا درجہ حاصل تھا۔ عیسائی پادریوں کے ہاں عام افراد اور خواص کے لیے یکساں احکام نہیں تھے بلکہ وہ مذہبی احکام میں امیر اور غریب کا فرق کرتے تھے، سود جو عیسائی معاشرے میں حرام خیال کیا جاتا تھا مختلف حیلوں کے ذریعے اسے حلال کر لیا جاتا۔ (جس کی ایک شکل ہمارے ہاں اسلامی بینکاری کے نام سے وجود میں آنے والی سودی بینکاری ہے) شادی نہ کرنا، عبادات میں غلو وغیرہ اس غیرفطری درجہ بندی جس کا یقینا اصل دین عیسوی سے کوئی متعلق نہ تھا، عیسائی معاشرے میں طبقاتی کشمکش کا آغاز ہوا۔ اسی ماحول میں مارٹن نوتھر جو خود بھی عیسائی پادری تھا اس نے عیسائیت کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا اور تحریک اصلاح کی بنیاد رکھی۔ جِسے بعد میں اس کے شاگرد کیلو نے مزید تقویت بخشی۔ آگے چل کر یہ تحریک اصلاح پروٹسٹنٹ ازم کے نام سے متعارف ہوئی۔ پروٹسٹنٹ ازم کے بنیادی نکات درج ذیل تھے:

١۔ ہر عیسائی کو بائبل کی تفسیر کرنے کا مکمل اور مساوی حق ہے۔

٢۔ خدا اور بندے کا باہمی تعلق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دوبارہ آمد تک موقوف ہوگیا ہے۔

٣۔ کسی شخص کو کسی دوسرے کے معاشرتی درجے کے تعین کا کوئی مذہبی حق حاصل نہیں۔

٤۔ دنیوی کامیابی اخروی کامیابی کا پیش خیمہ ہے۔ جو شخص دنیا میں مادی طور پر کامیاب ہے وہی آخرت میں بھی کامیاب ہے۔

مارٹن لوتھر اور کیلون کی یہ تحریک عیسائی معاشروں میں نہایت تیزی سے مقبول ہوئی۔ اس لیے کہ لوگوں کو مجہول الفکر عیسائی پادریوں کے چنگل سے نکلنے کی راہ دکھائی دی تھی مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اگلا راستہ بھی خوش کن نہ تھا۔ مارٹن لوتھر نے وہ بنیادیں فراہم کر دی تھیں جن کے ذریعے لوگوں کو مذہب سے راہ فرار ڈھونڈنے میں آسانی ہوگئی۔ جب پروٹسٹنٹ ازم لوگوں میں مقبولیت حاصل کرنے لگا تو کیتھولک چرچ نے ایک خاص محکمہ تفتیش قائم کیا جس نے چند سالوں کے عرصے میں اسپین، اٹلی اور جرمنی وغیرہ میں لاکھوں انسانوں کو تعذیب وعقوبت میں مبتلا کیا، ہزاروں افراد کو ہلاک کیا گیا۔

اسی زمانے میں یورپ کے مشہور فلسفی ڈیکارٹ (١٥٩٦ئ۔١٦٥٠ئ) نے جدید فلسفہ وفکر کی حدود کا نہ صرف تعین کیا بلکہ عیسائیت کو بھی علمی بنیادوں پر رد کردیا۔

”ڈیکارٹ نے انسانی ادراکات میں کسی بھی خارجی عامل کو رد کردیا اور سیلف نالج (Self knowledeg) کی خالص عقلی دلیل دی۔ اس کے پیش کردہ فلسفے کے مطابق:

”علمی اور عقلی بنیادوں پر کوئی بھی انسان اپنے سوا کسی بھی چیز خواہ وہ خیالات ہوں یا اقدار، معیارات خیر وشرہوں یا وحی اور چاہے خدا کا وجود، غرض کسی بھی چیز کا انکار کرسکتا ہے۔ اکیلی میری (عقل) ذات میرا وجود ہے۔ جس کا ہونا کسی بھی قسم کے شک وشبہ سے بالاتر ہے۔ ڈیکارٹ کے نزدیک واحد قائم بالذات سچ ”میں سوچتا ہوں اس لیے میں ہوں” ]I think there for i m[یعنی میں اپنے اسی دنیا میں ہونے کا جواز اپنے اندر رکھتا ہوں، میرا وجود کسی خارجی ذریعے حقیقت مطلق یا خالق کائنات کا مرہون منت نہیں ہے۔ ڈیکارٹ کے مطابق میری عقل کی استطاعت نہیں کہ میرے اپنے وجود کے سوا کسی بھی دوسری ذات کے وجود کا ماورائے شک جواز پیش کرسکوں، اس طرح ڈیکارٹ نے ایک ایسی علمیت کی بنیاد رکھی جوکہ اوّلاً مابعدالطبیعات ]وحی[ سے ماوراء تھی اور دوم ریب ]Doubt[ پر قائم تھی۔” (ساحل، مارچ ٢٠٠٧ئ)

ڈیکارٹ کے پیش کردہ تصور انسان کو بعد کے مغربی مفکرین نے آگے بڑھایا اور انسان کے حق آزادی کو تسلیم کرتے ہوئے اسے ایک ایسے شخص کے طور پر پیش کیا جو خیر وشر کے تعین اور تحدید میں بذات خود ایک پیمانہ ہے۔ یہ شخص ہر طرح کے شک وشبہے سے عاری قرار پایا اور مغربی فلسفیوں (ڈیکارٹ، کانٹ، میکس ویبر، جیفرسن،نطشے، روسو وغیرہ) کے نزدیک کائنات کو صرف اور صرف انسانی پیمانوں پر پرکھنا ہی علمیت کی میراث قرار پایا۔ یوں انسان پرستی (ہیومنزم) کو اقداری ڈھانچے میں کلیدی اور قطعی حیثیت حاصل ہوئی۔

ہیومن ازم کیا ہے؟

انسان کو کائنات کا محور ومرکز قرار دینا ہی ہیومن ازم ہے انسائیکلو پیڈیا آف فلاسفی کے مطابق :

Humanism is that philosophical and literary movement originated in Italy in th second half of the fourteenth century and diffused into other countries of Europe, coming to constitute one of the factors of modrn culture.

ترجمہ: ہیومنزم وہ فلسفیانہ اور ادبی تحریک ہے جو چودہویں صدی عیسوی کے نصف ثانی تک میں اٹلی میں پیدا ہوئی اور وہاں سے یورپ کے دوسرے ملکوں میں پھیل گئی جو بالآخر جدید ثقافت کی تشکیل کے اسباب میں سے ایک سبب بنی۔

اس کی حقیقتوں سے بحث کرتے ہوئے درج کیا گیا:

Humanism is also any philosophy which recognizes the value or dignity of man and makes him the measure of all things of some how takes human nature, its limits, or its interest as its theme.”

ترجمہ: ہیومنزم ہر اس فلاسفی کو بھی کہتے ہیں جو انسانی قدر یا عزت کو تسلیم کرے اور اسے تمام چیزوں کا میزان قرار دے یا جو صرف انسانی طبیعت کو اپنی فکر کی حد یا دائرۂ کار کی حیثیت سے لے۔

[Encyclopaedia of philosophy The Macmillion Company and the Free Press N.York]

ہیومن ازم کی تحریک اپنی اصل کے اعتبار سے وحی الٰہی اور ہدایت ربانی کی ضد تھی۔ اس تحریک کا مقصد عیسائی معاشرے میں تصورِالٰہ، تصور رسول اور تصور آخرت کو ختم کر دینا تھا، چناںچہ اس تحریک نے عیسائیوں کو ہر اس ہدایت کے انکار کی طرف ابھارا جو ربانی یا آسمانی ہو، اور ہر اس ضابطے سے بغاوت پر آمادہ کیا جس کی بنیاد ہدایت الٰہی تھی۔ اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انسائیکلوپیڈیا آف ریلیجین اینڈ ایتھکس میں بیان کیا گیا:

”Humanism in philosophy is opposed to Naturalism and Absolutism; it designates the philosophical attitude which regards the interpretation of human experience as the primary concern of human knowledge for this purpose”

ترجمہ: فلسفہ میں ہیومن ازم ہر طرح کی فطریت (ربانیت) اور کلیت کی ضد ہے۔ یہ ایک ایسا فلسفیانہ رجحان دیتا ہے جو انسانی تجربوں کی تشریحات کو ہر طرح کے فلسفہ کا اولین مرکز توجہ قرار دے اور اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ اس کام کے لیے انسانی علم کافی ہے۔

[Encyclopeadia of Religion and Ethics Edinbery, T&T Clarh, 1937]

ریشنلزم یا عقلیت پرستی:

جب انسان ہی کو کائنات کا میزان ٹھہرایا گیا تو لازم ہوا کہ انسان محض اپنی عقل پر بھروسہ کرے اور وہ کسی بھی خارجی قدر، وحی اور ہدایت کا انکار کردے۔ وہ کائنات میں کار فرما عقائد، نظریات اور افکار وخیالات کو اپنی عقل کی میزان میں پرکھ کر فیصلہ کرے کہ وہ یزن ایبل (Reasan able) ہیں کہ نہیں؟

ریشنلزم لاطینی لفظ Ratio سے مشتق ہے جس کا معنی ہے عقل یا Reason انسائیکلوپیڈیا آف فلاسفی کے مطابق ریشنلزم کی روح ان فلاسفروں سے مربوط ہے جو سترہویں اور اٹھارویں صدی میں یورپ میں پیدا ہوئے جن میں ڈیکارٹ (1650ئ۔ 1495ئ) اسپنوزا (1677ئ۔ 1632ئ) اور لیبنزا (1716ئ۔ 1646ئ) شامل ہیں۔

ان مغربی فلاسفروں کے مطابق عقل کی بنیاد پر قطعی اور آفاقی سچ کا حصول ممکن ہے، چناں چہ جب انسان کو ہی تمام خیر وشر کے تعین کا حق حاصل ہے تو ایسی صورت میں خداپرستی کا کیا سوال؟ حقیقتاً اگر دیکھا جائے تو جدید فکر نے خدا کی جگہ ایک عقل پرست شخص کو بٹھا دیا، ڈیکارٹ کا کہنا تھا کہ ”وہ ایک ایسی چیز کو حق کیوں کہے جو محض تصوراتی معلوم ہوتی ہے”۔

ریشنلزم کی یہ فکرتمام یورپ میں سرایت کر گئی اور اس نے زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا۔ اس فکر جدید کے پیغامبر ڈیکارٹ کے علاوہ والٹیئر، کانٹ، نطشے، شوپن ہار، ہیگل، فیورباخ، مارکس اور اینگلز وغیرہ تھے ان تمام فلسفیوں کی مجموعی فکر کا خلاصہ یہ تھا:

١۔ انسان کائنات کا محور ومرکز [Anthropocentricity]

٢۔ آزادی بنیادی آئیڈیل ہے [Freedom is ideal]

٣۔ مساوات بنیادی قدر ہے [Equality is value]

٤۔ عقلیت معیار ہے [Reason is the criterion]

جب انسان کائنات کا محور ومرکز ہے اور آزادی بنیادی آئیڈیل ہے نیز عقل ہی معیار خیر وشر ہے تو پھر لازم ہے کہ انسان اپنے آپ کی یا اپنی خواہش نفس کی پرستش کرے۔ خواہش نفس کی تکمیل اسی دنیا کو جنت بنائے بغیر ممکن نہیں جس کے لیے سرمایہ بنیادی ضرورت ہے۔ چونکہ مغربی مفکرین کے نزدیک کائنات کے دائمی ہونے کی نفی نہیں اس لیے انسان چاہتا ہے کہ وہ اس دنیا میں اپنے قیام کو طویل اور پرتکلف بنانے کی تگ ودو کرے۔جدیدعلمیت(Modren Epistemology) لوگوں کو جس کلمے پر جمع کر رہی ہے وہ لاالہ الا الانسان یعنی ”کوئی معبود نہیں سوائے انسان کے”کے سوا کچھ نہیں۔ چناںچہ انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی الوہیت کے اظہار کے لیے زیادہ سے زیادہ سرمایہ اکٹھا کرے۔

انسانی حقوق کا ماخذ:

انسانی حقوق کے تمام تر تصورات اسی سرمایہ دارانہ عقلیت سے نکلے ہیں اور مغربی فلاسفروں کی اسی جاہلانہ فکر کی روشنی میں انسانی حقوق کا ٹیکسٹ تیار کیا گیا ہے۔ تہذیبِ جدید کے نزدیک ”حقوق انسانی کا چارٹر” جسے یواین او نے اپنے ممبر ممالک پر لاگو کیا ہے یہ دورِ حاضر کا واحد اور آخری ”حق” ہے اور ناقابلِ چیلنج ہے، اسی بنیاد پر یواین او کے تمام ممبر ممالک اس چارٹر پر دستخط کرنے کے پابند ہیں۔ یواین او کے کسی ممبر ملک میں ایسی کوئی سی بھی قانون سازی یا اجتماعی سرگرمی بروئے کار نہیں آسکتی جو حقوقِ انسانی کے چارٹر کے خلاف ہو۔ یہی وجہ ہے کہ حقوق انسانی چارٹر کو سرمایہ دارانہ مذہب کا نصابی صحیفہ ہونے کا درجہ حاصل ہے۔

انسانی حقوق کے تین بنیادی ارکان:

انسانی حقوق کے چارٹر کا بغور مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے تین بنیادی ارکان ہیں: (١) آزادی (٢)مساوات (٣) ترقی۔

انسانی حقوق کے چارٹر کے مطابق:

(١) آزادی سے مراد یہ ہے کہ انسان آسمانی وحی کا محتاج نہیں اور نہ ہی انسان کو کسی مذہب کی ضرورت ہے، اس لیے کہ انسان اب ڈارک ایج (دورِظلمت سے نکل آیا ہے۔ اب وہ اپنی عقل کی بنیاد پر اپنے لیے خیروشر کے پیمانے خود وضع کرسکتا ہے، وہ جو چاہنا چاہے چاہ سکتا ہے اور جو کرنا چاہے کر سکتا ہے، کوئی مذہب، عقیدہ اور اخلاقی ضابطہ اس کی چاہت میں حائل نہیں ہوسکتا۔ دوسرے لفظوں میں اس کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ انسان خود خدا ہے اور وہ اپنی ہی پرستش کرتا ہے۔

(٢) مساوات سے مراد یہ ہے کہ ہر انسان دوسرے انسان کے برابر ہے، علم، بزرگی، مرد ہونا، استاذ یا باپ ہونا فضیلت کو کوئی درجہ نہیں رکھتا۔ اسی طرح کوئی شخص کسی دوسرے سے مال کو ناحق نہیںکھاتا اور ایک دوسرا آدمی ناحق مال کھانے کو اپنے لیے روا رکھتا ہے تو سرمایہ دارانہ عقلیت میں دونوں کی حیثیت برابر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب الیکشن ہوتے ہیں تو تمام ووٹروں کا ووٹ یکساں ہوتا ہے، عالم وزاہد اور زانی شرابی کا ووٹ برابر تصور کیا جاتا ہے۔

(٣) تیسری چیز ترقی ہے، جس کا مطلب ہے کہ انسان کو اس دنیا میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کمانے اور تمتع فی الدنیا کا حق حاصل ہے، چوں کہ انسانی حقوق کے مطابق ہر انسان آزاد ہے کہ وہ جو بھی فکر وعقیدہ رکھے (ریاست اس پر قدغن نہیں لگا سکتی) اس لیے ترقی کی اس دوڑ میں سود، سٹہ، جوا، دھوکہ، فریب، جبر وظلم سب روا ہے، حتیٰ کہ اگر ایک عورت اپنا جسم بیچ کر زیادہ سے زیادہ سرمایہ جمع کرنا چاہے تو اسے اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ ایسا کرے۔

جمہوریت کیا ہے؟

اب ہم آتے ہیں جمہوریت کی طرف! … جمہوریت سرمایہ دارانہ نظام کی سیاسی اور معاشرتی تنظیم… اور حقوقِ انسانی کے نفاذ کا آلہ کار ڈھانچہ ہے۔ جمہوریت ایسا تنظیمی ڈھانچہ ہے جو جبر کا ایک ایسا ماحول وضع کرتا ہے کہ فرد اللہ تعالیٰ کی مرضی ومنشاء کو ترک کرکے صرف اپنی خواہش اور سرمائے کی بندگی کرے۔

جمہوریت کی علمی اساس:

ہم گزشتہ سطور میں واضح کرچکے ہیں کہ مغرب کا ایک خاص تصور انسان ہے جس کے مطابق قائم بالذات ہے اور وہ ان معنوں میں آزاد ہے کہ اپنے لیے خیر وشر کے پیمانے خود وضع کرسکتا ہے۔

۔ یہی جمہوریت کی علمی بنیاد ہے۔

تاریخی طور پر جمہوریت کا تصور کئی سو سال قبل از مسیح بھی موجود تھا۔ افلاطون کی ”ریپبلک” جمہوریت ہی کی ایک شرح ہے۔ یونان اور سلطنت روما کے مختلف ادوار میں بھی جمہوریت رائج رہی۔ پھر ایک عرصے تک یورپی ممالک میں بادشاہت قائم رہی… مگر ایک بات جو نوٹ کرنے کی ہے وہ یہ کہ جمہوریت کبھی بھی کسی مذہبی معاشرے سے وابستہ نہیں رہی۔ اس لیے کہ جمہوریت کا ڈھانچہ ایسا ہے کہ یہ صرف مذہب مخالف معاشروں سے ہی وابستہ ہوسکتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں جمہوریت منکر الٰہ ورسول معاشروں کی حکومتی اور ریاستی صف بندی کا ایک خاص طریقہ ہے۔ جدید دور کی جمہوریت کا ایک خاص پس منظر اور اس کا ایک خاص تصور انسان ہے۔ یہ وہی تصور انسان ہے جس پر ہم پچھلی سطور میں بحث کر آئے ہیں۔

جناب زاہد صدیق مغل کے بقول:

”جمہوریت کو علمی بنیادیں فراہم کرنے کے سلسلے میں تھامس ہابس (Thomas Hobbas, 1588-1679)، جان لا (John luch, 1632-1704) اور جاک روسو (Jacques Rousseau, 1712-1778) کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس نظام حکومت کی بنیاد ایک خودمختار (Autonomouy)، آزاد (Free) اور قائم بالذات (Self-oletermined) تصور فرد پر قائم ہے۔ اس تصور انسان کو ہیومن کہتے ہیں۔ یعنی یہ ایک ایسا ریاستی نظام ہے جس میں حکومت کا مقصد افراد کی زیادہ سے زیادہ آزادی کو ممکن بنانا ہوتا ہے تاکہ وہ اپنی زیادہ سے زیادہ خواہشات کو جیسے وہ چاہیں پورا کرسکیں۔ (جریدہ نمبر٣٧ صفحہ نمبر ١١٧٤۔ شعبہ تصنیف وتالیف، جامعہ کراچی)

اب ہم جائزہ لیتے ہیں کہ جمہوری سسٹم کی ماہیت کیا ہے؟

جمہوری سسٹم کی پہلی بنیاد انتخابات ہیں، جن میں مختلف لوگ امیدوار بنتے ہیں کہ وہ پارلیمنٹ کے ممبر بنیں گے۔ ریاست کے افراد انہیں مساوی بنیادوں پر ووٹ دیتے ہیں، یعنی مرد وعورت، عالم وجاہل زاہد ومتقی اور چور ڈاکو زانی، شرابی سب مساوی بنیادوں پر اپنے اپنے امیدوار کو ووٹ دیتے ہیں۔ امیدوار بھی انتخابات میں مساوی حیثیت میں حصہ لیتے ہیں اس لیے کہ پارلیمنٹ کا رکن ایک شیخ الحدیث بھی بن سکتا ہے اور چور اچکا، منافع خور، اسمگلر اور قاتلوں کا سرغنہ بھی رکن بن سکتا ہے… الیکشن کے بعد جو لوگ پارلیمنٹ میں جاتے ہیں وہ پہلے ایک دستور وضع کرتے ہیں ( یا پہلے سے ایک وضع شدہ دستور ہوتا ہے جو اصلاً انسانی حقوق کے تابع ہوتا ہے) پھر اسی دستور کی روشنی میں قانون سازی کی جاتی ہے۔ اس سارے عمل میں کتاب اللہ کا کوئی رول نہیں ہوتا۔

]گوکہ پاکستان کے دستور میں ایک قراردادِ مقاصد کے ذریعے پارلیمنٹ کتاب وسنت کی روشنی میں قانون سازی کی پابند ہے مگر اس حقیقت سے جائے فرار نہیں کہ قرار دادِ مقاصد کی حیثیت محض ایک ”علامت” کی ہے۔ پھر اس میں بھی آزادیٔ فرد کے تمام تصورات کو اس طرح سمو دیا گیا ہے کہ بالآخر حقوق انسانی کا کافرانہ ومشرکانہ چارٹرہی بالادست ٹھہرتا ہے۔[

جمہوری سسٹم میں بیوروکریسی یا انتظامیہ (محکمہ جاتی افراد، پولیس، فوج) اور عدلیہ، یہ تمام حکومتی طبقے سرمایہ دارانہ تصورات اور سرمایہ دارانہ عدل کے قیام ونفاذ کے ضامن ہوتے ہیں… یوں جمہوری سسٹم کے ذریعے سرمایہ دارانہ جبر کا ماحول پروان چڑھتا ہے جہاں ہر انسان اس بات پر مجبور ہوتا ہے کہ:

٭ مذہب کو اپنی اجتماعی زندگی سے نکال کر انفرادی زندگی تک محدود کردے۔

٭ عبادت الٰہی کو حتی الامکان کم وقت دے اور سرمائے کی بڑھوتری کے لیے زیادہ وقت صرف کرے۔

٭ اپنے معاشرتی تعلقات کو محدود کردے۔

٭ دینی تعلیمات کو سیکھنے کی بجائے سوشل سائنسز کو زیادہ وقت دے تاکہ وہ سرمائے کی بڑھوتری میں زیادہ بہتر انداز

میں شمولیت کرسکے۔ ]دینی مدارس میں اصلاحات کے لیے مغربی ممالک کا دباؤ اور مدارس میں سوشل سائنسز اور کمپیوٹر سائنسزکو داخل کرنے کا مطالبہ اسی لیے ہے کہ وہ علماء کو اور طلبہ کو بے کارِمحض سمجھتے ہیں اور انہیں ”کارآمد” بنانے کے لیے اس قسم کی اصلاحات پرزور دیتے ہیں ایک طرف تو بات ہے دوسری طرف یہ مقصد بھی ہے مدارس کے نظام میں دخل اندازی کرکے وارثانِ محراب ومنبر کو توکل، قناعت اور زہد وتقویٰ کی راہ سے ہٹا کر مادیت کا پرستار بنا دیا جائے[

اس تفصیل کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ جمہوریت اپنے ماخذات کی بنیاد پر اسلام سے مکمل طور پر متصادم اور باطل نظریہ ونظام ہے، اس نظام میں حصہ لینا، ووٹ دینا اور لینا مندرجہ ذیل وجوہ کی بناء پر حرام ہے:

جمہوریت عبدیت کا انکار ہے:

جمہوری حکومت کی پہلی بنیاد حاکمیتِ عوام ہے، جمہوریت کی تعریف ہی یہ ہے: Goverment of the people by the people for the people. یعنی ”عوام کی حکومت عوام کے ذریعے عوام پر”… یہ جمہوریت کا پہلا بنیادی اصول ہے۔ جو کھلا کلمۂ کفر ہے اس لیے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اور اقتدار کے انکار کے علاوہ انسان کی بندگی کا بھی انکار ہے۔ دوسرے لفظوں میں حاکمیتِ انسان کا مطلب انسان کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرانا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:

اَلَالَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْر (الاعراف)

لَہُ الْحُکْمُ وَاِلَےْہِ تُرْجَعُوْن (القصص)

وَلَاےُشْرِکُ فِی حُکْمِہ احداً (الکہف)

اِنِ الْحُکْمُ اِلّاﷲِ اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْا اِلّا اِےّّاہ (الیوسف)

ان آیات کے علاوہ بھی متعدد آیات ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس ہی حکم وحکومت کے سزاوار ہے۔ قانونِ شریعت میں انسان اللہ کا بندہ اور خلیفہ ہے، اسے یہ حق نہیں کہ خودخدا بن بیٹھے۔ بہرحال ان آیات کی روشنی میں جب ہم جمہوری عمل کا جائزہ لیتے ہیں تو مندرجہ ذیل قباحتیں سامنے آتی ہیں:

جمہوریت شرک فی الحکم ہے:

 مقنن اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، انسان عبد ہونے کے ناطے اس بات کا پابند ہے کہ وہ قوانینِ شریعت کو بلاچوں وچرا تسلیم کرے اور ان پر عمل درآمد کرے۔ انسان کو حق حاصل نہیں کہ وہ خودقانون ساز بن کر بیٹھ جائے اور حاکمیتِ الہٰ میں شریک ہو جائے۔ ایسا کرنا شرک فی الحکم ہے۔ (یہ بات یاد رہے کہ یہ بات شرک جب ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کو اپنا معبود والہٰ بھی مانتا ہو، اگر وہ حاکمیتِ انسان کا یہ مطلب لے کہ ذات باری تعالیٰ کا کوئی وجود نہیں وہ خود ہی حاکم ہے تو یہ دہرےّت ہے جیسا کہ اکثر مغربی ممالک میں اسی بات کا تصور پایا جاتا ہے)

قرآن مجید میں شرک کے بارے میں فیصلہ ہے کہ:

اِنَّ الشِّّرْکَ لَظُلْم عَظِےْم (لقمان۔ ١٣)

”بے شک شرک ظلمِ عظیم ہے”۔

دوسری جگہ ارشاد ہے:

اِنَّ اﷲَ لَاےَغْفِرُ اَن ےُّشْرَکَ بِہ وَےَغْفِرُ مَادُوْنَ ذٰلِکَ لِمَن ےَّشاء (النسائ۔١١٦)

”بے شک اللہ اس چیز کو نہیں بخشے گا کہ اس کا شریک ٹھہرایا جائے، اس کے علاوہ جس کے لیے چاہے گا بخش دے گا اور جو اللہ کا شریک ٹھہرائے گا وہ بہت دور کی گمراہی میں جا پڑا۔”

جمہوریت انسانوں کو یہ حق فراہم کرتی ہے کہ وہ ووٹ کے ذریعے اپنی حاکمیت کو قائم کریں، پارلیمنٹ میں اپنے نمایندے بھیجیں جو مفادعامہ کے مطابق قانون سازی کریں، چناںچہ یہ عمل شرک ہونے کے سبب باطل ہے۔

الٰہی نظام سے بغاوت کا سرچشمہ:

الف: جمہوری قوانین کے ماخذ انسانی حقوق کے چارٹر میں انسانوں کا پہلا حق آزادی (Freedom) کو تسلیم کیا گیا ہے۔ آزادی کا یہ حق انسانی حقوق کا بہت خاص حق ہے اور ہرممکن کوشش کی گئی ہے کہ آزادی (اللہ تعالیٰ سے بغاوت، راہِ بندگی سے فرار) کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ رہے۔ آزادیٔ رائے، آزادیٔ اظہار، آزادیٔ مذہب وعقیدہ، آزادیٔ نسواں اور کئی دیگر قسم کی آزادیوں کو اس ایک فارم میں سمو دیا گیا ہے۔ چناںچہ جمہوری پارلیمنٹ میں جو بھی قانون سازی کی جاتی ہے وہ آزادی کی تمام اقسام کو مدنظر رکھتے ہوئے کی جاتی ہے، ہم یہ بتا آئے ہیں کہ انسانی حقوق کے چارٹر میں انسانوں کو دی گئی آزادی کا مطلب انکارِ بندگی کے سوا کچھ نہیں۔

قرآنی فکر کے مطابق انسان آزاد نہیں ہے، وہ بندہ ہے اللہ وحدہ لاشریک کا، چنانچہ اسے حکم ہے کہ وہ اسی کی بندگی کرے، بندگی بھی ایسی جس میں غیراللہ کی بندگی کا شائبہ بھی نہ ہو۔

وَمَااُمِرُوْا اِلَّا لِےَعْبُدُوْآ اِلھٰاً وَّاحِداًلَااِلٰہَ اِلَّا ھُوَسُبْحَانَہ عُمَّاےُشْرِکُوْن (

”انہیں صرف ایک ہی معبود کی عبادت کا حکم دیا گیا، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ پاک ہے ان چیزوں سے جن کو یہ شریک ٹھہراتے ہیں۔”

وَمَااُمِرُوْا اِلَّالِےَعْبُدُوا اﷲَ مُخْلِصِےْنَ لَہُ الدِّےْنَ حُنَفَائَ (البےّنہ:٥)

”اور نہیں حکم دئیے گئے مگر یہ کہ وہ اللہ ہی کی بندگی کریں اس کی خالص طاقت کے ساتھ بالکل یکسوہوکر”۔

اسی طرح قرآن مجید میں دیگر کئی مقامات پر اپنی بندگی کو خالص اللہ تعالیٰ کے لیے وقف کرنے کی ہدایت دی گئی ہے، قرآنی احکام کے بعد کہیں اس بات کی گنجائش نہیں کہ اسلام کے دائرے سے ہٹ کر کسی دوسرے نظام کی طرف اور کسی قسم کے ”ازم” کی طرف نگاہِ التفات بھی کی جائے۔ انسان کو اگر آزاد اور تصور کیا جائے تو اس کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ رب کا بندہ نہیں رہا تو شیطان کا بندہ ہے، اس لیے کہ ہستیٔ موجود میں دو ہی صورتیں ہیں انسان اللہ کا بندہ ہو یاشیطان کا!

ب: انسانی حقوق کا دوسرا رکن مساوات (EQUALITY) ہے۔ مساوات کا مطلب یہ ہے کہ تمام انسان برابر ہیں۔ مرد وعورت، عالم وجاہل، بدکار ونیکوکار ایک ڈاکو اور متقی انسان سب برابر ہیں۔ کسی کو کسی پر فوقیت حاصل نہیں۔ اسی معنی میں ہر انسان کا ووٹ برابر ہے، ہر انسان پارلیمنٹ کا ممبر بننے کا اہل ہے اور ہر انسان ترقی کے عمل میں شریک ہوسکتا ہے۔ انسانی حقوق کے عالمی چارٹر کے مطابق تمام انسان قانون کی نظر میں برابر ہیں، جبکہ اسلام میں مساوات کا ایسا کوئی تصور نہیں۔ اسلام مرد اور عورت میں فرق کرتا ہے۔ وہ ذمّی اور معاہد میں فرق کرتا ہے وہ عالم اور جاہل میں فرق کرتا ہے، اسلام ہر شخص کے ہر موضوع پر رائے دینے کا قائل نہیں۔ مرد بیک وقت چار شادیاں کرسکتا ہے عورت نہیں۔ مرد طلاق دیتا ہے عورت نہیں۔ جمہوریت کا نصابی صحیفہ ”انسانی حقوق کا چارٹر” ہر انسان کو حق دیتا ہے کہ وہ اپنے لیے جیسا چاہیں خیر وشر کا پیمانہ تجویز کرسکتے ہیں۔ قرآن ان تمام تصوراتِ مساوات کو رد کرتا ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں ہے… ورفعنا بعضم فوق بعض

درجات (الآےة)… لایستوی منکم من انفق من قبل الفتح وقاتل (الآےة) … لایستوی اصحاب النار واصحاب الجنة (الآےة)… ھل یستوی الذین یعلمون والذین لایعلمون (الآےة) … چنانچہ مساوات کی مندرجہ بالا فکر اسلام سے مکمل طور پر متصادم اور باطل ہے۔

(٣) انسانی حقوق کے چارٹر کا تیسرا بنیادی رکن ترقی (PROGRESS) ہے۔ چوںکہ سرمایہ دارانہ علمیت کے پاس موت کے بعد زندگی کا کوئی تصور نہیں اس لیے انسان کی تمام تگ ودو کا محور یہی دنیوی زندگی ہے۔ چناںچہ انسانی حقوق کے چارٹر کے مطابق ہر انسان کو زیادہ سے زیادہ سرمایہ جمع کرنے اور سامانِ تعیش حاصل کرنے کا حق حاصل ہے۔ اس معنیٰ میں ترقی کا مطلب سرمائے کی بڑھوتری بڑے بڑھوتری کے عمل کو تیز تر کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ بینک، اسٹاک ایکسچینج اسی بڑھوتری اور حرص وحسد کے فروغ کے ادارے ہیں تکاثر کا عمل دہرایا جاتا ہے ، سود، سٹہ، جوا، دھوکہ فریب اور ٹیکسزسرمایہ دارانہ معیشت کا خاص ہتھیار ہیں۔ ان اداروں سے وابستہ افراد کی زندگی کا محور ومقصد محض پیسہ ہوتا ہے اور وہ ہر اس طریقے کو اختیار کرتے ہیں جس کے ذریعے سرمایہ اکٹھا ہوسکے۔

اسلام اس طرز فکر کو مکمل ردکرتا ہے۔ قرآن مجید دنیوی زندگی کو اس معنی میں اہمیت نہیں دیتا کہ انسان لذات کے حصول اور خواہشات نفس کی تکمیل میں لگ کر اپنے مقصدِ اصلی کو بھول جائے۔ اور زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرنے کی ہوس میں مبتلا ہوجائے، بلکہ وہ دنیوی زندگی کو لہوولعب، دھوکہ وفریب قرار دیتا ہے۔ چناںچہ قران مجید میں ارشاد ہے:

اِعْلَمُوْا اَنَّما الْحَےٰوةَ الدُّنْےَا لَعِب وَلَھْو وَزِےْنَة وَتَفَاخُر بَےْنَکُمْ وَتَکَاثُر فِی الاِمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ۔کَمَثَلِ غَےْثٍ اَعْجَبَ الْکُفَّارَ نَبَاتُہُ ثُمَّ ےَھِےْجُ فَتَرَاہُ مُصْفَرّاً ثُمَّ ےَکُوْنُ حُطَاماً وَفِی الآخِرَةِ عَذَاب شَدِےْد وَمَغْفِرَة مِنَ اﷲِ وَرِضْوَانَ وَمَا الْحَےٰوةُ الدُّنْےَا اِلَّامَتَاعُ الْغُرُوْر۔ (الحدید:٢٠)

”جان رکھو! دنیا کی زندگی… لہو ولعب، زینت اور مال اولاد کے معاملے میں باہمی تفاخر وتکاثر ہے (اس کی) مثال بارش کی ہے جس کی اپجائی ہوئی فصل کافروں کے دل موہ لے پھر وہ بھڑک اٹھے اور تم اسے زرد دیکھو اور پھر وہ ریزہ ریزہ ہوجائے۔ اور آخرت میں ایک عذاب شدید بھی ہے اور اللہ کی طرف سے مغفرت اور خوشنودی بھی اور دنیا کی زندگی تو بس دھوکے کی ٹٹی کے سوا کچھ نہیں۔”

تکمیل دین کا انکار:

قرآن مجید میں فرمادیا گیا ہے: الیوم اکملت لکم دینکم، اتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا… اکمالِ دین اور اتمام نعمت کے بعد کافرانہ نظام حکومت کو اپنی اجتماعی زندگی کا حصہ بنانا اور اس پر مداومت اختیار کیے رکھنا تکمیل دین اور اتمام نعمت کا انکار ہے۔ تکمیل دین واتمام نعمت کا مطلب ہی یہ ہے کہ سیدنا آدم علیہ الصلوٰة والسلام سے آغا زہونے والے دینِ اسلام کا سلسلہ تدریجی مراحل طے کرتا ہوا نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس پر اپنے اوج کمال کو پہنچ گیا، اللہ تعالیٰ نے اپنی آخرت کتاب ہدایت نازل کردی اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچا دیا۔ ہمارے نزدیک عمل کے اعتبار سے سب سے بہتر زمانہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ تھا جو حضور علیہ الصلوٰة والسلام کی حدیث مبارکہ خیرالقرون قرنی ثم الذین یلونھم ثم الذین یلونہم کا عین مصداق تھا۔

تمام مسلمانو ں کے لیے دین اسلام کی صورت میں ایک خاص طریقہ اور ضابطۂ حیات متعین کردیا گیا ہے۔ اب اس ضابطے سے باہر نکلنا کسی مسلمان کے لیے روا نہیں۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:

شَرَعَ لَکُمْ مِنَ الدِّےْنِ مَاوَصَّیٰ بِہ نُوْحاً وَّالَّذِیْ اَوْحَےْنَا اِلَےْکَ وَمَا وَصَّےْنَا بِہ اِبْرَاہِےْمَ وَمُوْسیٰ وَعِےْسیٰ اَنْ اَقِےْمُوْا الدِّےْنَ وَلَاتَتَفَرَّقُوْا فِےْہِ، کَبُرَ عَلَی الْمُشْرِکِےْنَ مَاتَدْعُوْھُمْ اِلَےْہِ۔ (الشوریٰ۔١٣)

” اس نے تمہارے لیے وہی دین مقرر کیا ہے جس کی ہدایت اس نے نوح کو فرمائی اور جس کی وحی ہم نے تمہاری طرف کی اور جس کا حکم ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا کہ اس دین کو قائم رکھو اور اس میں تفرقہ پید انہ کرو۔ مشرکین پر وہ چیز شاق گزر رہی ہے جس کی طر ف تم نے ان کو دعوت دے رہے ہو۔”

دوسری جگہ ارشاد ہے:

ثُمَّ جَعَلْنَاکَ عَلیٰ شَرِےْعَةٍ مِّنَ الاَمْرِ فَاتَّبِعْھَا وَلَا تَتَّبِعْ اَھْوَائَ الَّذِےْنَ لَاےَعْلَمُوْن (الجاثیہ۔ ١٨)

”پھر ہم نے تم کو ایک واضح شریعت پر قائم کیا تو تم اسی کی پیروی کرو اور ان لوگوں کی خواہشات کی پیروینہ کرو جو علم نہیں رکھتے۔”

قرآن مجید کی ان آیات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایک مسلمان کے لیے طریقۂ زندگی، ضابطۂ حیات، دائرۂ کار خواہ انفرادی معاملات ہوں یا اجتماعی معاملات قانون شریعت ہی ہے، اس سے انحراف کی راہیں تلاش کرنا اور کسی دوسرے طریقۂ زندگی کو پسند کرنا جائز نہیں ، ایسا کرنا بہت بڑا خسارہ ہے۔

ہمارے خیال میں سرمایہ دارانہ نظام میں شمولیت اختیار کرنے اور اس پورے نظام کو اس طرح اپنے اوپر حاوی کرلینا کہ شریعت معطل ہوجائے، احکام دین کھلم کھلا پامال ہونے لگیں اور شعائر اسلام کا مذاق اڑایا جانے لگے تو یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص ہندو ہوجائے عیسائیت قبول کرلے یا بدھ مت اختیار کرلے، اس لیے کہ جمہوری نظام کو قبول کرنے اس پر مداومت اختیار کرنے کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ شریعت اب چند اجزاء مثلاً عبادات کے علاوہ قابل عمل نہیں رہی اور خلافت کا ادارہ بحالتِ موجودہ ناقابلِ قیام ہے۔ ظاہر ہے یہ فکر اور طرزعمل اللہ تعالیٰ کے ہاں سند قبولیت حاصل نہیں کرسکتا، بلکہ ایسے لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ کا اعلان ہے:

وَمَنْ ےَبْتَغِ غَےْرَالاِسْلَامِ دِےْناً فَلَنْ ےُّقْبِلْ مِنْہُ وَھُوَ فِی الآخِرَةِ مَنَ الْخَاسِرِےْن (آل عمران:٨٥)

”اور جو کوئی اسلام کے سوا کسی اور دین کا طالب بنے گا تو وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ آخرت میںنامرادوں میں سے ہوگا۔”

آخرت کی نامرادی اور خسارہ کیا ہے؟ اس کی وضاحت بھی ایک دوسری جگہ ارشاد فرمادی گئی ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:

وَمَنْ ےُّشَاقِّقِ الرَّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَاتَبَےَّنَ لَہُ الْھُدیٰ وَےَتَّبِعْ غَےْرَسَبِےْلِ الْمُؤْمَنِےْنِ نُوَلِّہ مَاتَوَلّٰی وَنُصْلِہ جَہَنَّمَ وَسَائَ تْ مَصِےْراً (النسائ: ١١٥)

”اور جو کوئی راہِ ہدایت واضح ہوچلنے کے بعد رسول کی مخالفت کرے گا اور مسلمانوں کے راستے کے سوا کسی اور راستے کی پیروی کرے گا تو ہم اس کے بعد اس کو اسی راہ پر ڈالیں گے جس پر وہ پڑا اور اس کو جہنم میں داخل کریں گے اور وہ براٹھکانا ہے۔”

جمہوری نظام کفار کا طرز حکومت وسیاست ہے چناںچہ غیرسبیل المؤمنین ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ہدایت آچکنے کے بعد کوئی دوسری راہ اختیار کرنا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتے ہوئے مؤمنین کے راستے سے الگ راہ نکالنا اپنی حقیقت کے اعتبار سے شرک ہے اور شرک ہر طرح کی برائیوں کا منبع ہے کیونکہ مشرک اللہ سے کٹ کر اپنی باگ شیطان کے ہاتھ میں پکڑا دیتا ہے اور جو شخص اپنی باگ شیطان کے ہاتھوں میں تھما دے وہ معاشرے کا بدترین انسان ہوتا ہے۔ غیرسبیل المؤمنین کے شرک ہونے کا قرینہ اگلی آیت ہے جس میں مذکورہ آیت (ومن یشاقق الرسول الخ) کے فوراً بعد فرمایا گیا ہے۔

اِنَ اﷲَ لَاےَغْفِرُ اَنْ ےُّشْرَکْ بِہ وَیغفر مادون ذالک لمن یشاء ومن یشرک باﷲ فقد ضل ضلالاً بعیداً (النسائ: ١١٦)

”بے شک اللہ اس چیز کو نہیں بخشے گا کہ اس کا شریک ٹھہرایا جائے، اس کے نیچے جس چیز کے لیے چاہے گا بخش دے گا اور جو اللہ کا شریک ٹھہرائے گا وہ بہت دور کی گمراہی میں جا پڑا۔”

 اکثریتی بنیادوں پر فیصلوں کا باطل فلسفہ:

جمہوری سسٹم میں فیصلوں کی بنیاد کتاب اللہ، علم وحکمت نہیں بلکہ اکثریت جس چیز کو چاہے اس چاہت اور خواہش کی بنیاد پر فیصلے کیے جاتے ہیں۔ جس امیدوار کو زیادہ ووٹ مل جائیں خواہ کس قدر کرپٹ آدمی ہو مگر دوسری طرف کوئی شریف امیدوار تھا اور اہل آدمی بھی ہے تب بھی مقابلے میں چوں کہ پہلاشخص زیادہ ووٹ لے چکا ہے اس لیے وہی کامیاب کہلائے گا۔ اسی طرح پارلیمنٹ میں بھی قوانین اکثریت کی بنیاد پر مرتب کیے جاتے ہیں۔ اکثریت کی بنیاد پر فیصلوں کا انعقاد بہت بڑی گمراہی اور ضلالت ہے، پھر اکثریت بڑی جہلِ مرکب ہو اس کی گمراہی ضلالت میں کیا شک وشبہ ہوسکتا ہے۔ یہ اکثریت جب پارلیمنٹ میں مفاد عامہ کے لیے قوانین مرتب کرے گی تو اپنی افتادِ طبع، نفسانی خواہشات اور جہالت کی بنیاد پر کرے گی۔ چناںچہ زنا کا فروغ، سودی کاروباری کا استحکام اس پارلیمنٹ کا خاص وظیفہ ٹھہرتا ہے ( جیسا کہ ہم حقوقِ نسواںبل دیکھتے ہیں) یہی وجہ ہے کہ اسلام نے محض اکثریت کی بنیاد پر فیصلوں کو رد کیا ہے اور اکثریت کی پیروی کو ضلالت وگمراہی قرار دیا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:

وَاِنْ تُطِعْ اَکْثَرَ مَنْ فِی الاَرْضِ ےُضِلُّوْکَ عَنْ سَبِیلِ اﷲِ اِنْ ےَّتَّبِعُوْنَ اِلَا الظَّنَّ وَاِنْ ھُمْ اِلَّا ےَخْرُصُوْن (الانعام:١١٦)

”اور اس زمین والوں میں سے اکثر ایسے ہیں کہ اگر تم نے ان کی بات مانی تو وہ تمہیں اللہ کے راستے سے گمراہ کر دیں گے۔ یہ محض گمان کی پیروی کرتے ہیں اور اٹکل کے تیر چلاتے ہیں۔”

آیت کریمہ میں صرف اکثریت کو رد نہیں کیا گیا بلکہ اس کے بارے میں یہ حقیقت بھی بیان کردی گئی کہ ان کے فیصلے محکم بنیادوں پر استوار نہیں ہوتے بلکہ وہ ظن وتخمین سے کام لیتے اورہوا میں تیر چلاتے ہیں… بھلا ایسے لوگ بھی ملت کی قیادت وسیادت کے لیے اہل ہوسکتے ہیں؟… پھر اکثریت کو کسی ایک جگہ قرار نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنے ہی عہد کو باربار بدلتے رہتے ہیں اور یہ فساق وفجار کی خاص نشانی ہے۔ دیکھئے قرآن مجید میں کس خوبی سے اس بات کو بیان فرمایا گیا ہے۔ ارشاد ہے:

وَمَا وَجَدْنَا لِاَکْثَرِھِمْ مِنْ عَہْدٍ، وَاِنْ وَجَدْنَا اَکْثَرَھُمْ لَفَاسِقِےْن (الاعراف:١٠٢)

”اور ہم نے ان میں سے اکثر میں عہد کی استواری نہیں پائی، ان میں سے اکثر بدعہد ہی نکلے”۔

دورنبوت اور دور صحابہ وتابعین میں بھی کبھی اکثریت کی بنیاد پر فیصلے نہیں کیے گئے۔ ذخیرۂ احادیث میں بھی ہمیں کوئی ایک حدیث نہیںملتی جس میں اکثریت کے فکر ونظر اور فیصلوں کو سراہا گیا ہو اور اکثریت کو بطورِ اصول قبول کیا گیا ہو۔ سچ تو یہ ہے کہ اکثریت کا فلسفہ باطل، گمراہی اور فسق وفجور کے سوا کچھ نہیں۔

تقسیم اور پارٹی بازی:

اسلام دین توحید ہے، وہ امت کو وحدت کا عقیدہ ونظریہ دیتا ہے، اسلام کے نزدیک تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں وہ ایک جسم کی مانند ہیں، قرآن مجید نے مسلمانوں کو، خواہ عرب کے ہوں یا عجم کے، شرق میں رہتے ہوں یا غرب میں سب کو ”امت واحدہ” کا عقیدہ دیا۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:

اِنَّ ھٰذِہ اُمَّتُکُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّاَنَا رَبُّکُمْ فَاتَّقُوْنِ (المؤمنون:٥٢)

”بے شک تمہاری امت ہی ایک امت ہے اور میں ہی تمہارا رب ہوں، پس تم مجھ سے ڈرتے رہو۔”

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

مثل المؤمنین فی توادھم وتراحمہم وتعاطفہم مثل الجسد اذا اشتکیٰ عضو تداعی لہ سائرا الجسد بالسطر والحسنیٰ (مسلم)

”مسلمانوں کی مثال باہمی مودت ومرحمت اور محبت اور ہمدردی میں ایسی ہے جسے ایک جسم کی، اگر اس کے ایک عضو میں کوئی شکایت پید اہوتی ہے تو سارا جسم اس تکلیف میں شریک ہوجاتا ہے۔”

اسی کے ہم معنی صحیحین کی حدیث ہے:

المؤمن للمؤمن کالبنیان یشد بعضہ بعضا

”ایک مؤمن دوسرے مؤمن کے لیے ایسا ہے جیسے کسی دیوار کی ایک اینٹ دوسری اینٹ کو سہارا دیتی ہے۔”

ان آیات واحادیث سے واضح ہوتا ہے کہ وحدت امت، اتحاد واتفاقِ امت اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک کتنااہم ہے۔ وحدتِ امت گویا مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کا بنیادی مصدر ہے۔ اور جوشخص اس وحدت کو ختم کرنے کے درپے ہو اس کے لیے شدید وعیدیں ہیں۔

ایک طرف دین اسلام کا یہ حکم ہے دوسری طرف تقسیم، پارٹی بازی اور گروہ بندی جمہوری نظام کا بنیادی عنصر ہے۔ کامیاب جمہوریت وہی تصور کی جاتی ہے جہاں حزب اقتدار کے مقابلے میں ایک مضبوط حزب اختلاف بھی ہو۔ یہ حزب اختلاف ایک پارٹی پر مشتمل ہوسکتی ہے اور کئی پارٹیوں کا مجموعہ بھی۔ بعینہ یہی صورت اقتدار کی ہوسکتی ہے، ہر پارٹی کے اپنے نظریات اور اپنے اہداف ہوتے ہیں۔ جمہوری سسٹم میںحصہ لینے والی تمام جماعتیں حقوق کی سیاست کر رہی ہوتی ہیں۔ حقوق کی سیاست کا مطلب اغراض کی سیاست ہے مثلاً ایک قوم پرست جماعت محض اپنی قوم کے مفادات کی سیاست کرتی ہے وہ اپنے دائرۂ کار میں دوسری قوم کوشامل نہیں کرتی، لسانی بنیادوں پر قائم کوئی بھی جماعت دوسرے فرقہ یا جماعت کے لیے کام نہیں کرتی۔ مذہبی بنیادوں پر قائم کوئی بھی جماعت دوسرے فرقہ یا جماعت کے مفاد کے لیے ہرگز کام نہیں کرتی۔ چوںکہ اغراض سب کی جداجدا ہوتی ہے اس لیے ہر چند افراد کا گروہ اپنی ایک جماعت بنا کر سرگرم ہوجاتا ہے، یوں تقسیم درتقسیم کا یہ عمل بڑھتا چلا جاتا ہے، آج ہم اس کے بھیانک نتائج کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کر رہے ہیں، سیکولر اور قوم پرست جماعتوں کی ہم بات نہیں کرتے ہاں علماء کی جماعتیں ہی کئی کئی گرہوں میںبٹ گئیں۔ جمہوری سسٹم میںمسلسل شمولیت کی وجہ سے اہل دین کی قوت بکھر گئی، ان کا رعب اٹھ گیا، وہ اجتماعی موقف نہ ہونے کی وجہ سے کوئی آواز اٹھاتے ہیں تو صدابصحرا ثابت ہوتی ہے، ان کے جائز مطالبات کو بھی درخوراعتنانہیںسمجھا جاتا، فاسق وجابر حکمران اتنے جری ہوچکے ہیں کہ مسجدیں میں شہید کردیں۔ معصوم طلبہ اور حیاء وعفت کی پیکر طالبات کا قتل عام کریں مجاہدین کو تہ تیغ کریں، جہاد کو دہشت گردی قرار دیں… مجاہدین اسلام کو پکڑ پکڑ کر بگرام، گوانتاناموبے اور ملک کے کونے کونے میں قائم عقوبت خانوں اور اذیت گاہوں کو آباد کریں… انہیں کھلی چھوٹ ہے۔

جمہوری ریاست میں پارلیمنٹ کا کردار:

پارلیمنٹ جمہوری ریاست کا وہ ادارہ ہے جہاں عوام ووٹ کے ذریعے اپنے نمایندوں کو بھیجتے ہیں تاکہ وہ ان کی نمایندگی کرتے ہوئے ان کے مفاد میں قانون سازی کریں۔ بادی النظر میں یہی سمجھا جاتا ہے کہ مگر اصلاً پارلیمنٹ سرمایہ داری کے نفاذ کا ادارہ ہے۔ سر مایہ دارانہ اداروں کی اسی کے ذریعے نموہوتی ہے۔ پارلیمنٹ میں وہی قانون سازی کی جاتی ہے جو سرمایہ دارانہ مذہب وعقیدہ سے مطابقت رکھتی ہو، اگر عوامی خواہش اس کے برعکس ہوتو اس کی مزاحمت کی جاتی ہے بصورت دیگر اس پورے نظام کی بساط ہی لپیٹ دی جاتی ہے۔ جیسا کہ ہم صوبہ سرحد کی گزشتہ حکومت کے حسبہ بل کے ضمن میں دیکھتے ہیں یا جیسے الجزائر میں اسلامک فرنٹ کی کامیابی کے باوجود پورے نظام کی بساط لپیٹ دی گئی ۔ ارکان پارلیمنٹ مقنن یا قانون ساز ہوتے ہیں اور یہ قانون سازی مذہب سرمایہ داری کے نصابی صحیفے انسانی حقوق کے چارٹر کے دئیے گئے دائرے میں رہتے ہوئے ہوتی ہے۔ قرآن وسنت اور اجماع امت کو حوالہ نہیں بنایا جاتا، بلکہ قرآن وسنت کے علی الرغم قانون سازی ہوتی ہے۔

یوں دیکھا جائے تو حکم اور حکومت کے وہ تمام اختیارات جو اللہ رب العزت کو سز اوار ہیں وہ ارکارن پارلیمنٹ اپنے لیے خاص کرلیتے ہیں اور خود خدا بن بیٹھتے ہیں۔ حقوقِ نسواں بل، سود کے حق میں گزشتہ حکومت کے فیصلے، عائلی قوانین، اور کئی دیگر ظالمانہ استبدادی قوانین ارکانِ پارلیمنٹ کی اسی الوہیت کے مظہر ہیں۔ قرآن کریم اور سنت میں اس قسم کی قانون سازی کی کوئی گنجائش نہیں خصوصاً جو شخص اپنے آپ کو مسلمان بھی کہلائے اور پھر مقنن بھی بن بیٹھے، یہ ایمان واسلام کے ساتھ بدترین مذاق ہے، قرآن مجید میں واضح ارشاد ہے:

١۔ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ اَمَرَ اَن لَّا تَعْبُدُوْا اِلّّا اِےَّاہ (یوسف:٤٠)

”اختیار واقتدار صرف اللہ ہی کا ہے۔ اس نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی پرستش نہ کرو”۔

٢۔ اِنَّ الْاَمْرَ کُلَّہُ لِلّٰہ (آل عمران۔١٥٤)

”تحقیق سارا معاملہ اللہ کے اختیار میں ہے”

٣۔ مَاکَانَ لِبَشَرٍ اَن ےُّؤْتِےَہُ اﷲُ الْکِتَابَ وَالْحُکْمَ وَالنُّبُوّة (آل عمران۔٧٩)

”کسی بشر کی شان نہیںکہ اللہ اس کو کتاب، قوتِ فیصلہ، اور منصب نبوت عطا فرمائے”۔

ایک طرف قرآن حکیم کی آیات محکمات ہیں دوسری طرف ارکان پارلیمنٹ کا اختیار ہے کہ وہ جو چاہیں قانون بنا دیں خواہ وہ کتاب اللہ کی مخالفت میں ہی کیوں نہ ہو… یہی وجہ ہے کہ پارلیمنٹ ہماری نظر میں:

٭کتاب اللہ کے استرداد کا مرکز ہے۔

٭ انسانوں کی حاکمیتِ اعلیٰ اور اقتدار اعلیٰ کا مظہر ہے۔

٭ کافرانہ ومشرکانہ اقتدار کا منبع ہے۔

٭ فحاشی وعریانی، زناوشراب اور اباحیت زدہ معاشرے کے تحفظ اور فروغ کا ادارہ ہے۔

٭ سرمایہ دارانہ لوٹ کھسوٹ کی ادارتی صف بندی کرنے کا مرکز ہے۔

یہ ہم نے جمہوریت کے بارے میں چند اصولی باتیں ذکر کی ہیں اور سرمایہ دارانہ مذہب کے چند اساسی نظریات کا تجزیہ کیا ہے، ابھی ہم نے بہت سی تفصیلات کو چھوڑ دیا ہے۔ ابھی جمہوری ریاست کی عدلیہ کا کردار بھی زیربحث نہیں لایا جاسکا جو سرمایہ دارانہ عدل کے قیام کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ یہ بات مخفی نہیں رہنی چاہیے کہ جب سرمایہ دارانہ عدل کی بات کی جاتی ہے تو اس سے مراد ظلم ہی ہوتا ہے، اس لیے کہ سرمایہ دارانہ مذہب جس چیز کو عدل تصور کرتا ہے اسلام کے نزدیک وہ عین ظلم ہے جیسے نظریۂ آزادی اور جس چیز کو اسلام عدل قرار دیتا ہے سرمایہ دارانہ مذہب اسے ظلم قرار دیتا ہے عبدیت، بندگیٔ الہٰ مثلاً اسلامی احکام جیسے چور کا ہاتھ کاٹنا، زانی کو سنگسار کرنا، شراب پینے پر کوڑے لگانا وغیرہ… اسی طرح فوج، پولیس، بیوروکریسی، اسٹاک ایکسچینج اور بینکنگ سسٹم کو بھی زیربحث نہیں لایا جاسکا۔

 دراصل یہ پورا سسٹم تفصیلی تجزیے اور محاسبے کا متقاضی ہے اور یہ کام طویل دورانیے کا ہے۔ ان شاء اللہ بہ توفیق الٰہی آیندہ کبھی اس کی تکمیل کا بیڑا اٹھایا جائے گا۔ سردست جو تفصیل ہمارے سامنے آئی ہے اس کے مطابق سرمایہ داری جمہوریت، انسانی حقوق کا چارٹر:

کفر مطلق، شرک، ضلالت وگمراہی، بغاوت الٰہی اور بدترین ظلم وتعدی کا مجموعہ ہے۔ ہم نے اس نظام کو اسی طرح کفر مطلق کہا ہے جس طرح یہودیت، عیسائیت، ہندومت، بدھ مت، اور سکھ مت کفر مطلق ہیں۔ اس نتیجے پر پہنچنے کے بعد اب ہمارے لیے آسان ہوگیا ہے کہ ووٹ کی شرعی حیثیت کے بارے میں بھی خامہ فرمائی کرسکیں۔

ووٹ کیا ہے؟:

ووٹ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ایک رائے، شہادت اور مشورہ ہے… اوّلاً ہمیں یہ رائے تسلیم کرنے میںتامّل ہے، ووٹ نہ رائے ہے نہ شہادت اور نہ ہی مشورہ… ثانیاً اگر یہ سب مان بھی لیا جائے تو پچھلی تفصیل کو تسلیم کرنے کے بعد ووٹ دینے کا مطلب یہ ہوگا کہ ووٹ دینے والا اپنی طرف سے ایک نمایندہ بھیج رہا ہے جو کفر مطلق جمہوری نظام میں شرکت کرے، پارلیمنٹ کا ممبر بن کر شرک، بغاوتِ الٰہی اور ظلم وتعدی کا مرتکب ہو۔ کیا اسلام میں اس بات کی گنجائش ہے کہ کوئی شخص مذکورہ منکرات کے ارتکاب کے لیے رائے اور گواہی دے اور کیا ایسی گواہی اور ایسا مشورہ جائزامر کے ضمن میں آئے گا؟… ظاہر ہے شریعت اسلامیہ میں ایسی کسی گواہی اور مشورے کی گنجائش نہیں… ایسی رائے، گواہی اور مشورہ سب باطل ہیں… اس کا ارتکاب کرنے والا عنداللہ مجرم ہے۔

دوسری بات یہ کہ اگر کہا جائے کہ اہل اور دیانت دار شخص کو ووٹ دیا جائے تو بھی وہ دیانت دار شخص جائے گا تواسی کافرانہ جمہوری سسٹم میں!… اس کی مثال یوں سمجھئے کہ اگر بالفرض ہمارے ہاں ہندومت غالب آجائے اور مندر کو پارلیمنٹ کی حیثیت دے دی جائے اور اعلان کیا جائے کہ مندر ہی آیندہ تما م سیاسی ومعاشرتی سرگرمیوں کا مرکز ہوگا اور مسلمان بھی اس مند ر کے ممبر بننے لگیں، اپنی عبادات کے علاوہ پوجا پاٹ کے نظام کو قبول کرلیں اور پروہت بننے میں فخر محسوس کریں تو جس طرح اسلام میں اس کی قطعاً گنجائش نہیں اسی طرح پارلیمنٹ کا ممبر بننے کی بھی گنجائش نہیں۔ مندر میں بتوں کی پوجا کی جاتی ہے جبکہ پارلیمنٹ میں انسان اپنی بندگی کرتاہے یا سرمائے کی بندگی، جیسے مندر ہندومت کے عملی اظہار کی جگہ ہے اسی طرح پارلیمنٹ مذہبِ سرمایہ داری (جو کفر مطلق ہے) کے اظہار کی جگہ ہے۔ تو جس طرح پنڈت پروہت بننے کی اسلام میں قطعی گنجائش نہیں اسی طرح پارلیمنٹ کا ممبر بننے کی گنجائش کیوں کر نکالی جاسکتی ہے؟

ووٹ مشورہ ہے نہ شہادت:

ہماری نظر میں ووٹ نہ مشورہ کی حیثیت رکھتا ہے نہ گواہی کی بلکہ سرمایہ دارانہ نظم میں جس طرح انسان اپنی آزادی کا اظہار سرمائے کے ذریعے کرتا ہے اسی طرح وہ اپنی آزادی کا اظہار ووٹ کے ذریعے بھی کرتا ہے۔ ووٹ کے بارے میں وہ اپنے سرچشمۂ قوت، منبعِ اقتدار واختیار ہونے یعنی اپنا خدا خود ہونے کا اعلان کرتاہے۔

٭پھر اگر ووٹ کو بالفرض مشورہ تسلیم کر بھی لیا جائے تو کیا مشورہ سے متعلق جتنی بھی اسلامی تعلیمات ہیں وہ یہاںپائی جاتی ہیں؟ ووٹنگ میں بلاقیدِجنس ومذہب ہر شخص حصہ لے سکتا ہے، کیا اسلامی نکتۂ نگاہ سے مشورہ ورائے ہر شخص سے لیا جاسکتا ہے؟ مثلاً کہیں اسلامی ریاست میں کسی جگہ قاضی مقرر کرنا ہوتوکیا اس کام کے لیے صرف علماء وصلحاء اور اتقیاء سے مشورہ لیا جائے گایا ان کے ساتھ بھنگی چرسی، زانی، شرابی، ڈاکو کو بھی مشورے میں شامل کیا جائے گا؟… یا مثلاً کہیں بیماریوں کی آفت آگئی ہے اور وہاں ماہر ڈاکٹروں کی اشد ضرورت ہے تو اس کے لیے ماہر ڈاکٹروں سے ہی مشورہ لیا جائے گا یا قصائیوں، نائیوں اور طبلہ سارنگی بجانے والوں کو بھی مشورے میں شامل کیاجائے گا؟

اسلام نے تو مشورے کے بارے میں خاص تعلیمات دی ہیں، حدیث شریف میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ کے بعد ہمیں کوئی ایسا معاملہ پیش آجائے جس میں قرآن نے کوئی فیصلہ نہیں کیا اور آپ سے بھی اس کا کوئی حکم ہمیں نہیں ملا تو ہم کس طرح عمل کریں؟

تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

اجمعوا لہ العابدین من امتی واجعلوہ بینکم شوریٰ ولاتقضوا برأی واحد (روح المعانی)

”اس کے لیے میری امت کے عبادت گزاروں کو جمع کرلو اورآپس میں مشورہ طے کرلو، کسی کی تنہا رائے سے فیصلہ نہ کرو۔”

اس روایت کے بعض الفاظ میں فقہاء وعابدین کا لفظ آیا ہے، جس سے معلوم ہوا کہ مشورہ ان لوگوں سے لینا چاہیے جو فقہاء یعنی دین کی سمجھ بوجھ رکھنے والے اور عبادت گزار ہوں۔ صاحبِ روح المعانی نے لکھا ہے کہ جو مشورہ اس طریق پر نہیں ہے بلکہ بے علم، بے دین (یعنی فسّاق وفجّار) لوگوں میں دائر ہوگا اس کا فساد اس کی صلاح پر غالب رہے گا۔

٭اگر ووٹ کو گواہی تسلیم کیا جائے تو کیا یہاں گواہی کی شرائط اور حدودوقیود موجود ہیں؟ مثلاً گواہ عادل ہو، بالغ ہو، شریف ہو، بایں معنی کہ پنج وقتہ نمازی ہو، حلال وحرام کو جانتا ہو، یہاں بیش تر اکثریت ایسی ہے، جو طہارت اور نماز کے بنیادی مسائل سے بھی واقف نہیں۔ فقہاء نے درج ذیل اشخاص کی گواہی ناقابل قبول قرار دی ہے:

(١) نماز روزے کا عمداً تارک ہو، (٢) یتیم کا مال کھانے والا (٣) زانی اور زانیہ (٤) لواط کا مرتکب  (٥) جس پر حد قذف لگ چکی ہو (٦) چور ڈاکو (٧) ماں باپ کی حق تلفی کرنے والا (٨) خائن اور خائنہ…

٭اگر کہا جائے کہ ووٹ ایک امانت ہے سوال ہوگا کہ یہ امانت بندوں کو کس نے تفویض کی؟ آیا اللہ تعالیٰ کی طرف سے تفویض ہوئی یا جمہوریت نے تفویض کی؟ یقینا اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں کہا گیا کہ جب تمہیں امیر مقرر کرنا ہوتو سب لوگ مل کر ووٹ ڈالا کرو، نہ ہی سنت سے اور تعاملِ امت سے اس عمل کی کوئی توثیق ملتی ہے۔ہاں! جمہوریت کی تفویض کردہ امانت ہوسکتی ہے مگر باطل امانت ہے، یہ ایسی ہی امانت ہے کہ جیسے کوئی شخص شراب کی بوتل آپ کے پاس بطور امانت رکھنے آئے تو کیا آپ اس بوتل کو دیکھتے ہی توڑنے کے درپے ہوں گے یا حفاظت سے رکھنے کی کوشش کریں گے؟

٭بعض لوگ بہت دور کی کوڑی لاتے ہیں اور ووٹ کو بیعت کا قائم مقام قرار دیتے ہیں ووٹ بھلا بیعت کے قائم مقام کیسے ہوسکتا ہے؟ بیعت سمع وطاعت کی بنیاد پر ہوتی ہے، وہاں تسلیم کرنے کے سوا دوسرا راستہ نہیں جبکہ ووٹ آزادی کے اظہار کا ذریعہ ہے یہاں آپ آزاد ہیں کہ چاہیں تو مسلم لیگ کو ووٹ دیں چاہیں تو پی پی پی کو چاہیں تو کسی دیانت دار شخص کو ووٹ دے دیں۔

ووٹ کے حوالے سے چند دیگر عملی مسائل بھی ہیں مثلاً:

ووٹروں کی اکثریت اپنے ضمیر کی آزادی کے مطابق ووٹ نہیں دے پاتی، وہ اگر کسی امیدوار کو غلط اور نااہل سمجھتا ہے تو وہ اپنی پارٹی کی رائے، قبیلے کے فیصلے یا برادری کی حمایت کی وجہ سے مجبور ہوتا ہے کہ اسی نااہل شخص کو ووٹ دے (یہ جبر سرمایہ دارنہ نظام کا اندرونی تضاد ہے)

مختلف سیاسی جماعتیں آپس میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ بھی کرتی ہیں اس صورت میں ووٹر آپس میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے پاسدار ہوتے ہیں۔ مثلاً ایک مذہبی جماعت نے مسلم لیگ ق کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی ، ق لیگ بلاشبہ علماء خصوصاًلال مسجد کے معصوم طلبہ وطالبات کی قاتل جماعت ہے مگر جہاں اس مذہبی جماعت کے ووٹر موجود ہیں او رق لیگ کا امیدوار کھڑ اہے تو اس کے ووٹر ق لیگ کو ووٹ دینے کے پابند ہوتے ہیں۔

٭ ووٹوں کی خرید وفروخت بھی ہوتی ہے، بھاری رقوم خرچ کرکے لوگوں سے ووٹ خریدے جاتے ہیں۔

٭ ووٹوں کے حصول کے لیے بھاری اخراجات کرکے باقاعدہ مہم چلائی جاتی ہے، اس مہم پر لاکھوں کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں جو اسراف وتبذیر کے زمرے میں آتے ہیں۔

٭ ووٹوں کے حصول کے لیے مخالفین پر بدترین اور شرمناک الزامات لگائے جاتے ہیں، اس سلسلے میں تمام اخلاقی قدروں اور معاشرتی تقاضوں کو یکسر پامال کر دیا جاتا ہے۔

٭ الیکشن کے دوران خفیہ اداروں کی مداخلت اب کوئی مخفی بات نہیں ہے، حکمران ٹولہ آیندہ اپنی مرضی کا سیٹ اپ لانے کے لیے خفیہ اداروں کے ذریعے ایسا جال بچھاتا ہے کہ نتائج میں بس انیس بیس کا ہی فرق ہوتا ہے۔

٭ یہ بات بھی اہل نظر سے مخفی نہیں کہ بالادست قوتیں اپنے من پسند امیدواروں کو جتوانے کے لیے دھمکی، دھونس سے کام لینے کے علاوہ خفیہ طور پر بیلٹ بکس میں اضافی ووٹ ڈلوا دیتی ہیں، بہت سے فوت شدہ لوگوں کے شناختی کارڈ استعمال کیے جاتے ہیں۔

ان تمام امور کے ہوتے ہوئے ووٹ کو شہادت، امانت اور مشورہ قرار دینا بہت بڑی خطا ہے، جن علماء نے ووٹ کی شرعی حیثیت بیان کرتے ہوئے اسے مشورہ، امانت اور شہادت ہونے کے فتاویٰ جاری فرمائے ہیں غالباً انہوںنے اس پورے نظام کا گہری نگاہ سے مطالعہ نہیں فرمایا ورنہ وہ ضرور اس قسم کے فتاویٰ صادر کرنے سے اجتناب کرتے۔

ووٹ استبدادی نظام کی توثیق وتایید کا ذریعہ ہے:

ہماری نظر میں ووٹ دینا مشرکانہ نظام ریاست وسیاست کے قیام واستحکام کا ذریعہ ہے، یہ شرک کے ارتکاب اور کفر کی تایید کے علاوہ ظلم واستبداد کی حکومت کی حمایت کرنا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:

ولاتعاونوا علی الاثم والعدوان واتقوا اﷲ(الآیہ)

قرآن مجید میں انہی لوگوں کو ہدایت یافتہ قرار دیا ہے گیاجو اپنے ایمان کو شرک وظلم سے آلودہ نہیں کرتے۔ چناںچہ ارشاد ہے:

اَلَّذِےْنَ اٰمنُوْا وَلَمْ ےَلْبِسُوْا اِےْمَانَہُمْ بِظُلْمٍ اولٰئِکَ لَھُمُ الْاَمْنُ وَھُمْ مُھْتَدُوْنَ (الانعام:٨٢)

”جولوگ ایمان لائے اور انہوںنے اپنے ایمان کو شرک سے آلودہ نہیں کیا وہی لوگ ہیں جن کے لیے امن وچین ہے اور وہی ہدایت یافتہ ہیں۔”

کیا ”اسلامی جمہوریت” کوئی چیز ہے؟

اس سوال کا سیدھا سا جواب تو یہ ہے کہ … ”کیا اسلامی کفر بھی کوئی چیز ہوسکتی ہے؟”… ظاہر ہے کہ کوئی بھی ذی ہوش انسان اس کا قائل نہیں ہوگا۔

دراصل غور کرنے کی بات یہ ہے کہ ہمیں کسی اصطلاح کے ساتھ اسلامی لگانے کی ضرورت کیوں پڑتی ہے؟ اس لیے کہ وہ اپنی اصل میں اسلامی نہیں ہوتی… اکثر وبیشتر اصطلاحات جن کے ساتھ اسلامی کا لفظ ہو مشتبہ ہوتی ہیں جیسے ”اسلامی بینکاری”، ”اسلامی ٹی وی چینلز”… آپ اسلامی بینکاری کی اصطلاح استعمال کریں اور سمجھیں کہ اب یہ چیز جائز ہوگئی… یہ ممکن نہیں، اس لیے کہ بینکاری کا تمام تر نظم سود، سٹے اور جوئے پر مشتمل ہے۔ پھر آپ یہ بھی سوچئے کہ کبھی آپ سے کسی نے کہا”اسلامی نماز” … ”اسلامی جہاد” یا ”اسلامی حج” یہاں اسلامی کا لفظ لگانے کی ضرورت اس لیے نہیں کہ یہ تمام اصطلاحات اسلام کے اندر فطری ہیں کبھی کسی کو اشتباہ نہیں ہوتا کہ ”حج” بولا جائے اور اور اس سے کوئی شخص گنگا کا اشنان سمجھے یا بیساکھی کی طرف ذہن جائے!… یہی وجہ ہے کہ جہاں کہیں اس طرح کی اصطلاح نظر آئے لازمی ہے کہ وہاں توقف کیا جائے اور خوب غور فکر کے بعد اس کے اسلامی یا غیراسلامی ہونے کا فیصلہ کیا جائے۔

”اسلامی جمہوریت” بھی ایسی ہی ایک اصطلاح ہے جس کے بارے میں غوروفکر کی ضرورت ہے، بہت سے دانش وروں کا کہنا ہے کہ مغربی جمہوریت اور اسلامی جمہوریت دو مختلف چیزیں ہیں]بعض کا کہنا ہے کہ اسلام اور جمہوریت ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں(نعوذباللہ من ذالک) [ یہ مغالطہ آمیز بات ہے ۔ا سلام نے ہمیں خلافت کا عقیدہ دیا ہے(قال انی جاعل فی الارض خلیفة۔ الآےة)۔ خلافت اور جمہوریت کے اصول وفروع میں زمین آسمان کا فرق ہے، پھر کیا وجہ ہے کہ ہم خواہی نخواہی اسلام کے نظام خلافت کو جمہوریت ہی باور کرانے کی کوشش کریںیا جمہوریت کو عین اسلام قرار دینے کا ناٹک رچائیں۔

جمہوریت DEMOCRAY کا اردو ترجمہ ہے۔ ڈیموکریسی کا مولد ومنشاء مغرب ہے۔ تاریخی طور پر ثابت ہے کہ ڈیموکریسی جسے جمہوریت کہا جاتا ہے پانچ چھ سو سال قبل از مسیح بھی موجود تھی۔ یونان میں جمہوریت رائج رہی۔ پھر مغرب میں ایک عرصے بعد ڈیموکریسی کااحیاء ہوا۔ ایک بات تاریخی تناظر میں طے ہے کہ جمہوریت کبھی کسی مذہبی معاشرے میں رائج نہیں رہی بلکہ اللہ کے باغی معاشروں میں رائج رہی ہے۔ اس نظام کو انہی معاشروں نے قبول کیا جو اللہ تعالیٰ اور انبیاء علیہم السلام کے منکر معاشرے تھے… لہٰذا جب ڈیموکریسی کے بارے میں معلوم ہوا کہ اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی یہ کوئی اسلامی اصطلاح ہے بلکہ کافرانہ اصطلاح ہے تو اس کا استعمال کیونکر جائز ہوا؟… علماء نے لکھا ہے کہ وہ جواپنے اندر کسی پہلو سے کفر کا معنی رکھتا ہو اگرچہ فی الاصل مباح ہی ہو تو بھی اس کا استعمال کرنا حرام ہے۔

موجودہ صورت حال میں کیا کیاجائے؟:

حدیث شریف میں آتا ہے کہ لایلدغ المؤمن من جُحْرٍ واحد مرتین… کہ مؤمن ایک ہی سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جاتا… الیکشن ایسا سوراخ ہے کہ پوری قوم بارہا مرتبہ جمہوری سانپ سے ڈسی گئی ہے، متعدد بار کے تجربات سے واضح ہوچکا ہے کہ اب من حیث الامت ہمیں اس تماشے سے اجتناب برتنا ہوگا، ہمیں اس طریق کار کی طرف پلٹنا ہوگا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعین فرمایا، جس پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اسلاف امت نے جس پر تعامل فرمایا یہ راستہ دعوت وتبلیغ اور جہاد وانقلاب کا راستہ ہے اور یہی سبیل المؤمنین ہے۔

اللھم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلاً وارزقنا اجتنابہ

وصل اللّٰھم وسلم وبارک علی محمد النبی الامی وعلیٰ اٰلِہ وصحبہ اجمعین

جمہوریت ، سرمایہ داری اور امریکی استعمار

جاویداقبال

            امریکی استعمار پر گفتگو سے پہلے یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ امریکہ کے خلاف ہماری جدوجہد رقابت ، نفرت یا کسی چیز کا بدلہ وانتقام نہیں ہے بلکہ ہم چونکہ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام ایک مکمل آفاقی نظام ہے اور ہم نظام اسلامی کا فرد، معاشرہ اور ریاست پر مکمل غلبہ چاہتے ہیں۔ جبکہ امریکہ اس وقت وہ قوت ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کے عالمی غلبہ کو ممکن بنانے میں کفر کی سرخیل ہے۔ اس لئے ہم جو جدو جہد مرتب کر رہے ہیں وہ بنیادی طور پر امریکہ کی بے دخلی کی جدوجہد ہے۔ امریکہ سے ہماری مراد محض کوئی ملک نہیں بلکہ ایک نظام حیات ہے اور اس نظام حیات کے پیچھے جو قوت کارفرما ہے اسے ہم امریکا کہتے ہیں ۔ امریکہ ایک نظام حیات کا علمبردار ہے اور یہ نظام حیات سرمایہ داری ہے ۔ سرمایہ داری محض کوئی رویہ نہیں ہے بلکہ ایک تصور ما بعد الطبیعات بھی ہے ، ایک مربوط تصور علمیت بھی ہے اور ایک حکمت عملی بھی اور اس کی ایک خاص ادارتی صف بندی بھی ہے گویا اسلامی نظام اور سرمایہ دارانہ نظام میں اختلاف کی نوعیت جزوی اور فروعی نہیں بلکہ اصولی اور بنیادی ہے اور اگر کسی ایک نظام کا غلبہ ہوگا تو لازماً دوسرے نظام زندگی کے اقدار اور ادارے تباہ ہوتے چلے جائیں گے ۔ اس لئے غلبہ نظام اسلامی کے لئے سرمایہ دارانہ نظام کو کلیتاً تباہ کرنا اشد ضروری ہے۔ غلبہ نظام اسلامی کا تقاضہ ہے کہ امریکی ریاست کی قوت نافذہ کو جہادی سیاست کے ذریعے تہس نہس کر دیا جائے۔ کیونکہ امریکی ریاست کی وجہ سے ہمارے نظام معیشت معاشرت ، سیاست و ریاست کو شدید خطرات لاحق ہیں۔

            ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ جو بھی اس نظام سرمایہ داری کا علمبردار ہے ہماری جدوجہد اور لڑائی اس کے خلاف ہے اس خاص وقت میں وہ امریکہ کی ریاست ہے کل یہ طاقت یورپی یونین ، چین یا ہندوستان بھی ہو سکتی ہے اور اس کے علاوہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ جو بھی اس نظام سرمایہ داری کے استحکام کا باعث بن رہا ہے وہ امریکہ کا حلیف ہے اور جو بھی اس کو کمزور کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہے وہ اس کا حریف ہے ۔ اسی طرح جب ہم امریکہ کی مخالفت کرتے ہیں تو محض امریکی حکومت کی مخالفت نہیں کرتے بلکہ اس میں ہر امریکی شامل ہے۔ کیونکہ امریکی قوت نافذہ کے پس پشت اس کے عوام ہی ہیں۔ عوام نے ہی امریکی دستور پر صادکر رکھا ہے۔ اس قبیح ترین نظام کو جواز امریکی عوام نے مہیا کیا ہے۔اور بقول ایک سابق امریکی سفیر کے کہ وہ وقت گزر گیا جب چند لوگ امریکہ کی خارجہ پالیسی کی تشکیل کیا کرتے تھے اب تو ہر امریکی اس پالیسی سازی میں شریک ہے۔

امریکی تاریخ اور لبرل تہذیب کی اساسی اقدار

براعظم شمالی امریکا کو یورپی مہم جوؤں نے پندرھویں صدی کے اواخر میں دریافت کیا ١٤٩٢ء میں کولمبس کی آمد کے وقت امریکہ میں جو لوگ آباد تھے۔ ان کے بارے میں عام خیال ہے کہ وہ ٢٨٠٠٠ ہزار قبل مسیح میں ایشیاء سے امریکا آئے تھے۔ یہ مختلف قبائل کی شکل میں رہتے تھے ان کی اپنی مخصوص تہذیب تھی ان میں Aztec, Maya , Olmec اور Inca قا بل ذکر تھے۔ ان کو عام طور پر ریڈ انڈینز کہا جاتا ہے ۔ کولمبس انڈیا کی تلاش مین نکلا تھا جب امریکہ کے ساحل پر لنگر انداز ہوا تو لوگوں کو انڈینز سمجھا اور یہ بعد میں ریڈ انڈینزکے نام سے معروف ہوگئے ۔کولمبس کی آمد کے وقت براعظم شمالی امریکہ میں ایک اندازے کے مطابق تقریباً ایک کروڑ ریڈا نڈینز آباد تھے۔

            یورپی آباد کاروں نے جس وقت اپنی بستیاں بسانا شروع کیں اس وقت یورپ کے اندر لوگ کھتو لک عیسائیت سے دامن چھڑا چکے تھے۔ دنیا پرستی عام ہو چکی تھی اور کتھو لک عیسائیت دنیا طلبی پر جو تحدیدات عائد کرتی تھی لوگ اسے ماننے کو ہر گز تیار نہیں تھے ۔ انگلش

کا لونیاں(immigration )کی وجہ سے پھیل رہی تھیں۔ اس کے پھیلاؤ کا اندازہ ان اعداد و شمار سے لگایا جاسکتا ہے کہ ١٧٠٠ء میں ڈھائی لاکھ یورپی ان علاقوں میں آباد تھے جبکہ ١٧٧٥ء تک انکی تعداد بڑھ کر ٢٥ لاکھ ہوگئی اور اس عرصے میں امریکی غلاموں کی تعداد میں اضافہ اس سے بھی ہوشربا تھا کہ صرف ٢٨٠٠٠ غلاموں کی تعداد ١٧٧٥ء میں پانچ لاکھ تک پہنچ گئی۔ یہ یورپی آباد کار زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے کا ہدف اور مقصد لے کر آئے تھے۔ ان حملہ آوروں کے ہاتھوں ریڈ انڈینز کی پوری آبادی کی نسل کشی ان کی جائیداد اور زمینوں پر زبردستی قبضہ تھا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق یورپی آبادکاروں نے اٹھارویں اور انیسویں صدی کے دوران شمالی امریکا میں تقریباً ستر لاکھ ریڈ انڈینز کو قتل کیا  اور یہ قتل عام انہوں نے تہذیب اور سولائزیشن کے نام پر کیا۔ جارج واشنگٹن کے مطابق یہ سرخ ہندی انسانی لباس میں بھیڑیے ہیں اور یہ تہذیب کے قیام میں بہت بڑی رکاؤٹ ہیں اور انسانی نہذیب کی بقا اور قیام کی خاطران کا قتل ضروری ہے اور اس وقت کے پروٹسٹنٹ عیسائی پادریوں نے بھی اس قتل عام کا بالعموم جواز فراہم کیا ، یوں امریکہ کی تاریخ کی ابتداء ظلم و ستم سے شروع ہوتی ہے۔ اور یہ قتل وغارت گری اور ظلم و ستم صرف اپنی دولت میں اضافے کے لئے کیا گیا ۔ ١٧٦٠ء تک برطانیہ کا تقریباً تمام براعظم امریکا پرقبضہ ہو چکا تھا ۔ اس وقت تک براعظم شمالی امریکا برطانیہ آبادکاروں کی مختلف ریاستوں کا مجموعہ تھی   ٭   یہ ریاستیں تین اقسام کی تھیں ۔   (١)   چارٹر کالونیز Charter Colonies   (٢)  پروپرائیٹری کالونیزProprietary Colonies    (٣)   Royal Colonies  (رائل کالونیز)۔ اوررائل کالونیز کو چھوڑ کر تقریباً تمام ریاستوں کی اپنی پارلیمنٹ تھی جن کو اپنی ریاستی حدود میں وسیع اختیارات حاصل تھے۔یعنی ریاستیں کم و بیش خودمختار تھیں اور برطانیہ کی جانب سے مداخلت کم ہی کی جاتی تھی۔ صرف چند ٹیکس خصوصاً فوجی ٹیکس ان مستعمرات یا کالونیز کو ادا کرنے پڑتے تھے۔ ٹیکس کے تنازعہ پر اور اپنی آزادی اور خودمختاری کو مزید بڑھانے کے لئے ١٧٧٦ء میں کالونیز نے برطانیہ سے آزادی کا اعلان کردیا۔

یوں امریکا وہ پہلی ریاست بنی جس کا وجہ وجود بڑھوتری سرمایہ تھا۔ عیسائیت سے دامن چھڑا ئے ہوئے آزاد لوگ یعنی خدا کے باغی جن کے اندر سب اوصاف خبیثہ خصوصاً ظلم و ستم کا وصف موجود تھا۔ جنہوں نے وسیع پیمانے پر ریڈ انڈینز کی قتل و غارت گری کی  ہزاروں لوگوں کو محض بڑھوتری سرمایہ کے لئے اپنا غلام بنایا  بالآخر ایک ایسی ریاست کی بنیاد رکھی جو خالص سرمائے کے تحفظ کے لئے وجود میں آئی۔ اعلان آزادی کے اختتامیہ میں متحدہ امریکا کی بنیاد فطری حقوق اور آزادی کے تصور کو قرار دیا گیا ۔

“We hold these truth to be self evident that all men are created equal that they are endowed by their creation with certain unalienable rights, that among those are life. Liberty and the persuit of happiness”.

یہ خیال رہے کہ جو یورپی آباد کار امریکہ میں آکر بسے تھے وہ زیادہ تر پروٹسٹنٹ تھے اور عیسائی علمیت پر سے ان کا اعتبار اُٹھ چکا تھا  اور ان کی زندگی کی ترتیب و تنظیم ان کی عقلیت کی مرہون منت تھی ۔ اعلان آزادی کے بعد آزادی (freedom) اور مساوی آزادی (Equality) پر ان کا ایمان مستحکم ہو گیا  اور ساتھ ہیں ساتھ دنیاوی زندگی میں زیادہ سے زیادہ لذات (Pleasure) کی جستجو مقصد زندگی قرار پایا۔اور اعلان آزادی میں ان کو یہ حق بھی دے دیاگیا کہ وہ اگر دیکھیںکہ کوئی حکومت ان بنیادی اصولوں سے روگردانی کر رہی ہے تو اس کو بدل دیں ۔ آزادی کی جو ٹھوس شکل سامنے آئی وہ سرمایہ  تھی اور اس کے بعد دو سو سال کی تاریخ امریکہ میں سرمایہ دارانہ نظم کے استحکام کی کہانی ہے جس میں مغربی امریکا کی آبادی کو شمولیت کے ذریعے اور جنوبی امریکا کو خون آشام سول وار کے ذریعے وہاں پری سرمایہ دارانہ نظام کی اقدار کو بالکل ختم کردیا گیا اور تیرھوی، چودھویں اور پندرھویں ترمیم کے ذریعے آزادی کے علاوہ مساوات کو ہر امریکی کی اساسی قدریں بنا دیا گیا۔ اور اعلان آزادی میں جس Pursuit of happiness کی بات کی گئی تھی۔ اس کے لئے نت نئے سائنسی علوم دریافت کئے گئے جو تصرف فی الکائنات کو زیادہ سے زیادہ ممکن بناتے ہوں، دریافت کیے گئے، عورتوں کی آزادی کے نام پر حیاء کا جنازہ نکل گیا  اور جو تہذیب ابھر کر سامنے آئی اس میں ہر قسم کے رذائل ، فواحشی اور خصوصاًزنا عام ہوگیا۔

ہم نے دیکھا کہ اس تین سو سالہ دور میں لبرل تہزیب کی اساسی اقدار ”آزادی” مساوات اور ترقی ابھر کر سامنے آئیں ۔ یہ قدریں کوئی آفاقی قدریں نہیں ہیں بلکہ حادثاتی قدریں ہیں۔ امریکی تاریخ کے ایک دور میں ان کا وجود نا پید تھا۔ ریڈ انڈینز کی تہذیب کی قدریں اس سے بالکل مختلف تھیں۔ تاریخ کے ایک خاص دور میں یہ قدریں چند لوگوں میں پیدا ہوئیں اور انہوں نے ایک قوت نافذہ سے ان کو مقبول عام بنا دیا ۔ جب ان قدروں پر ایمان مستحکم ہوا تو امریکہ اور یورپ میں سول سوسائٹی نے جنم لیا ۔ امریکی ریاست ایک ریپبلک بن گئی اور نظم معیشت خالص سرمایہ دارانہ ہو گیا۔

            اب امریکی استعمار کی کوشش ہے کہ ہر جگہ مذہبی سوسائٹی کی جگہ سول سوسائٹی تشکیل پائے، ریاست کے تمام فیصلے عوام کی مرضی کے تابع ہوں اور عوام کی مرضی سرمائے کی بڑھوتری کے تابع ہو یعنی جمہوریت مستحکم ہو جو محض اکثریت کی خواہش کی نمائندہ نہ ہو بلکہ حقیقی جمہوریت ہو۔ حقیقی جمہوریت وہ جمہوریت ہوتی ہے جس میں روح جمہوریت جھلکے۔ روح جمہوریت آزادی مساوات اور ترقی کی اقدار پر ایمان سے پیدا ہوتی ہے اور سرمایہ دارانہ نظم معیشت ہرجگہ جنم لے۔ سول سوسائٹی ، ریپبلک اور سرمایہ دارانہ معیشت اہم  تصورات ہیں  اس لئے انکی مزید وضاحت ضروری ہے۔

سول سوسائٹی، ریپبلک اور سرمایہ دارانہ معیشت:

            ١۔         امریکی معاشرہ میں ہر فرد اپنے تصورات خیر پر مبنی مقاصد کو حاصل کرنے کی تگ و دو میں لگا رہتا ہے اس کے لئے وہ مختلف معاہدے (Contract) کرتا ہے۔ کنٹریکٹ ظاہرہے کہ مارکیٹ میں ہی ہو سکتا ہے۔ اسلئے سرمایہ دارانہ سو سائٹی مارکیٹ سوسائٹی کے علاوہ کوئی دوسری چیز نہیں اس کو آج سول سوسائٹی بھی کہا جاتا ہے اس سوسائٹی میں تمام تعلقات کی بنیاد مفادات اور اغراض ہوتی ہیں اور کسی فرد کو دوسرا فرد اپنے غرض کے لئے کیسے اور کس قدر استعمال کر سکتا ہے اس کے لئے کنٹریکٹ ہوتا ہے کنٹریکٹ کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ طرفین کی نفسی ، روحانی کیفیات اخلاقی کیفیات کچھ ہی کیوں نہ ہوں انکو ایک دوسرے کے برابر تصورکیا جائے گا۔ مذہبی سوسائٹی اس کے برعکس صلہ رحمی، محبت ، انفاق، ایثار و قربانی کی بنیاد پر تشکیل پاتی ہے۔ سول سوسائٹی میں ہر معاشرتی عمل اور تمام نعلقات بنیادی طور پر بڑھوتری سرمایہ کے عمل کے تابع ہو جاتے ہیں ۔ ہر شخص سرمایہ کا ایجنٹ اورسبجکٹ (Subject)   بن جاتا ہے۔ ایسے معاشرے میں کسی نظام ہدایت کا تصور کرنا بھی محال ہے۔

            ٢۔         ریپبلک وہ ریاست ہوتی ہے جس میں تمام فیصلے خصوصا ً عدل کے فیصلے انسانی عقل کی بنیاد پر کئے جاتے ہیں۔ یہ قوم پرست ، اشتراکی یا ویلفئیر ریاست ہو سکتی ہے۔ ان ریاستوں کا بنیادی کام یہ ہے کہ وہ ایک ایسی شخصیت کی تعمیر اور اسکی مستقل تخلیق کو ممکن بنائے جو آزادی کو اپنے اوپر خیر مطلق کے طور پر مسلط کرے ۔ یہ ریاستیں تین چیزوں کا خصوصی التزام رکھتی ہیں:۔

            (١)        حرص و حسد عالمگیر ہوجائے کیونکہ یہ سرمایہ دارانہ ریاستیں ہیں اور سرمایہ داری حرص و حسد ہی کی عمومیت کا نام ہے۔

            (٢)        انسان ایک Comodity self بن جائے اورصرف Consumtion میں اضافہ کو ویلفئیر کا ہم معنی سمجھے اور                                اس کی پیہم جستجو میں لگا رہے۔

            (٣)        کائنات کو ابدی سمجھا جائے اور سرمایہ کی بڑھوتری کے ذریعے ہر انسان اس ابدیت میں شریک سمجھا جائے۔

            ظاہر ہے کہ ان تین چیزوں میں سے کوئی بھی فطری چیز نہیں ہے بلکہ انتہائی غیر فطری ہیں اس وجہ سے اس کو قائم اور مستحکم بنانے کے لئے ایک جبر کی ضرورت ہوتی ہے، ایک قانون کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ لبرل دستور کے ذریعے ریپبلک فراہم کرتی ہے۔ اور اس لبرل دستور کا دیباچہ حقوق انسانی ہیں ان حقوق انسانی کو کسی صورت بھی معطل نہیں کیا جاسکتا۔ کلاسیکی تنویری مفکرین نے تین قسم کے انسانی حقوق کی نشاندہی کی ہے :

            حق ملکیت:          ملکیت کو صرف بڑھوتری سرمایہ /آزادی کے علاوہ کسی اور مقصد کے لئے استعمال نہ کیا جائے۔

            حق زندگی :         کسی ایسے انسان کو زندہ رہنے کا حق نہیں جو انسانی زندگی کا سرمایہ کی بڑھوتری محض کے علاوہ کوئی اور مقصد                                                 متعین کرتا ہو۔

            آزادی ضمیر:        کسی انسان کو یہ حق نہیں کہ وہ سرمایہ کی بڑھوتری کی قدر کیا آفاقیت اور معروضیت کو چیلنج کرے اور                                                           اس کی جگہ کسی اور نظام کو رکھے۔

            ہم نے دیکھا کہ ریپبلک کا بنیادی وظیفہ اور فرض سرمائے کی بڑھوتری ہے اس فریضے کی انجام دہی کے لئے کچھ حقوق دئیے گئے جو (Human Rights) ہیومین رائٹس کہلائے ہیں۔ یہ انتہائی ظالمانہ اور جابرانہ قوانین ہیں۔ انہی کی وجہ سے مغرب کا انسان بڑھوتری سرمایہ پر یکسو ہو گیا  اور جو اس پر یکسو نہیں ہو پائے یا اس کو رد کرتے ہیں ان کو اس کی پاداش میں قتل کیا جارہا ہے چاہے وہ تاریخ کے سرخ ہندی ہوں آسٹریلیا کے ابورجینز ہوں یا عراق اور افغانستان کے مسلمان۔

            ٣۔         سرمایہ دارانہ نظام وہ نظم معیشت ہے جہاں حرص اور حسد غالب معاشرتی اور انفرادی اقدار کی حیثیت اختیار کر لیتی ہیں۔ بڑھوتری سرمایہ برائے بڑھوتری سرمایہ کی خواہش کی تکمیل ہی مقدم ترین ہدف بن جاتی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کا قیام اور استحکام غرض اور حسد کے عمومیت پر منحصر ہے۔ ہر آدمی حریص ہو۔ وہ زیادہ سے زیادہ مال جمع کرنے کی خواہش رکھتا ہو اس کو (Accumalation) کہتے ہیں۔ اس کے ساتھ وہ دوسروں سے زیادہ مال جمع کرنا چاہتا ہے یعنی وہ دوسرے کو اپنا حریف سمجھے اور اس سے سبقت لے جانے کی مستقل مسابقت (Competetion) کرتا رہے ۔ پوری سرمایہ دارانہ اخلاقیات انہی دو بنیادوں پر قائم ہیں۔ سرمایہ دارانہ معیشت میں قدر کا تعین دو بازاروں سود اور سٹہ کے بازار میں ہوتا ہے اور پیداواری مارکیٹ ، تبادلے کی مارکیٹ اور اشیاء کی مارکیٹ سب انہیں دونوں کے زیر نگین جاتے ہیں  ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ سرمایہ داری کا پورا نظام ظن و تخمین کی بنیاد پر کھڑا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سے اس کی غیر معقولیت بھی عیاں ہوجاتی ہے۔ اسلئے سرایہ داری کے نظم معیشت میں ہر وقت کسی بحران Crises کا امکان موجود رہتا ہے۔

امریکی استعمار سے متعلق تمہید کا خلاصہ اور اسکی تاریخ کے اہم نکات

            ٭          ہماری جدوجہد امریکہ کی بے دخلی کی جدوجہد ہے۔

            ٭          امریکہ کے خلاف ہماری جدوجہد اسلئے ہے کہ وہ سرمایہ دارانہ نظام کا سرخیل ہے ۔ یہ جدوجہد کسی نفرت یا انتقام کی وجہ سے نہیں۔

            ٭          چونکہ ہر امریکی نے دستور پر صاد کیا ہے اور پالیسی سازی میں شریک ہے اس لئے یہ جدوجہد سب امریکیوں کے خلاف ہے محض                حکومت کے خلاف نہیں۔

            ٭          یورپی آباد کار جو امریکہ میں آکر بسے وہ مذہبی اقدار اور تعلیمات کو عملاً ترک کرچکے تھے۔

            ٭          یورپی آبادکاروں نے محض اپنی دولت میں اضافے کے لئے مقامی آبادی ریڈ انڈینزکے ستر لاکھ لوگ تہہ تیغ کردیے ، سولائزیشن                         کے نام پر اس قتل وغارت گری کو جواز فراہم کیااور یہ آج بھی جاری ہے۔

            ٭          یورپی آبادکاروں کی برطانیہ سے آزادی بڑھوتری سرمایہ اور آزادی کی وسعت کے لئے تھی۔

            ٭          سول وار کے ذریعے آزادی ، مساوات اورترقی کو ہر امریکی کی اساسی قدر بنا دیا گیا۔

            ٭          امریکیوں نے ترقی اور دنیا پرستی کے لئے تصرف فی الکائنات کے نت نئے طریقوں کو متعارف کرایا ۔

            ٭          آزادی ، مساوات ، ترقی آفاقی قدریں نہیں بلکہ امریکی اور یورپی تاریخ سے نکلی ہیں۔

            ٭          سول سوسائٹی، ریپبلک اور سرمایہ دارانہ نظام نے امریکہ اور یورپ میں جنم لیا

امریکی استعمار کے اہداف اور حکمت عملی:

            امریکی استعمار کا بنیادی ہدف آزادی ، مساوات اور ترقی جو کہ لبرل تہذیب کی اساسی اقدار ہیں انکو قبولیت عامہ دلانا اور تمام ممالک میں (١) سول سوسائٹی  (٢)  ریپبلک کا قیام  (٣)  سرمایہ دارانہ نظم معیشت کا فروغ ہے۔ اب ہم اس بات کا جائزہ لیں گے کہ ان اہداف کے لئے کس قسم کی حکمت عملی اختیار کی جاتی ہے۔ ہم خصوصا ً پاکستان کے تناظر میں یہ جائزہ پیش کریں گے:

            ١۔         آزادی ، مساوات اور ترقی کو قبولیت عامہ دلوانا ایک مشکل پروجیکٹ ہے۔ جیسا کہ ہم نے دیکھا یہ تینوں امریکی اور یورپی تاریخ سے مخصوص ہیں اور ہماری تاریخ میں یہ اجنبی اور نا مانوس اصطلاحیں ہیں۔ اسلئے ان کو علوم اسلامی کی کسی شاخ میں بھی جواز فراہم کرنا مشکل ہے۔ ہمارے متقدمین نے ان اصطلاحوں کو کبھی بھی استعمال نہیں کیا اور کر بھی کیسے سکتے تھے کہ ان کی ساری گفتگو بندگی رب پر مرکوز تھی۔ جبکہ یہ اقدار الوہیت انسانی کی غماز ہیں۔ لیکن اس کے باوجود امریکی استعمار نے مکالمہ Diologue کے لئے مسلمانان دنیا کو قائل کر لیا ہے اور اب اس مکالمے کا دائرہ کار اسلامی جماعتوں تک پھیل گیا ہے آزادی یعنی خدا سے بغاوت اور مساوات یعنی مساوی آزادی کو تو رد کر دینا اسلامی تحریکوں کے لئے شاید آسان ہو لیکن جب بات ترقی کی ہوتی ہے تو سب کا رویہ مرعوبانہ ہو جاتا ہے اور اس کو انسانی زندگی کے جائز ہدف کے طور پر مان لیا جاتا ہے ۔ ترقی کی اس قد کو مان کر اسلامک ماڈرنزم کی راہ ہموار کی جارہی ہے اور کہا جارہا ہے کہ ہم ویسٹرنائزیشن کے تو سخت خلاف ہیں لیکن ماڈرنائزئشن تو خالص اسلامی قدر ہے اور مغرب اسلام کے توسط سے ہی اس سے متعارف ہوا ہے ۔ ترقی (progress) کی اس قدر پر ایمان کی وجہ سے اسلامی علوم سے صرف نظر کیا جارہا ہے اور سرمایہ دارانہ نظام کی ٹکنالوجی یعنی سوشل سائنسز کو اسلامی جواز فراہم کیا جارہا ہے ۔ ظاہر ہے کہ مکالمہ اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب ہم اس مفروضے کو مان لیں کہ ہمارے اور مغرب کے درمیان اختلاف کی نوعیت اصولی اور بنیای نہیں بلکہ جزوی اور فروعی ہے۔ ہمیں جلد ازجلد لوگوں کو اس پر قائل کرنا ہے کہ مغرب جاہلیت خالصہ ہے اور یہ وحی کے انکار کی وجہ سے ہے۔ اور اس کے تمام علوم اور ٹکنالوجی الوہیت انسانی کی طرف دعوت دیتے ہیں جبکہ ہم بندگی رب کو سب سے اہم مقصود تصور کرتے ہیں اسلئے مکالمہ ممکن نہیں ہے۔ سیکولرازم اور اسلام کے درمیان مشترکات تلاش کرنے کا کام بہت خطرناک کام ہے اور اسلامی جماعتوں کے پر خلوص کارکنان کو اس سے جلد پیچھا چھڑالینا چاہئے۔

            علمی حلقوں خصوصاً ہماری جامعات میں امریکہ کا ایک حلیف طبقہ تیزی سے جنم لے رہا ہے خصوصاً ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو امریکی یا یورپی جامعات میں تعلیم حاصل کرچکے ہیں ۔ تحاریک اسلامی کو خصوصاً سوشل سائنسز کے محاکمہ کا کام سنجیدہ بنیادوں پر کرنے کی ضرورت ہے۔

            ٢۔         ہمارے ہاں سول سوسائٹی کو پیدا کرنے کی جدوجہد شعوری طور پرکئی جہتوں سے ہو رہی ہے اور یہ کاوشیں کئی عشروں پر محیط ہیں ۔ اس کے لئے استعمار کی جانب سے سب سے اہم ادارتی صف بندی غیر سرکاری تنظیموں (NGOs) اور کمیونٹی بیسڈ آرگنائزیشن (CBOs) ہیں۔ یہ سنگل ایشو موؤمنٹ استعمار کے پیسہ سے عموماً کام کرتی ہیں ان کے دائرہ کار زیادہ تر انسانی حقوق ، خصوصاً بچیوں کی تعلیم اور عورتوں کے حقوق ، تعلیم خصوصا ً پرائمری تعلیم ، صحت خصوصا ً خاندانی منصوبہ بندی و غیرہ شامل ہیں۔ یہ سنگل ایشو موؤمنٹ ایک سرمایہ دارانہ انفرادیت کی تشکیل میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہیں اور آج کل سول سوسائٹی کا ایک انتہارئی اہم ادارہ تصور کی جانے لگی ہیں۔ اسلامی نظام کے قیام کے سلسلے میں یہ بہت بڑی رکاوٹ ہیں اور اس سادہ سی مثال سے یہ بات عیاں ہیں کہ ہر سیکولر کاوش چاہے وہ حدود آرڈیننس کے ضمن میں ہو یا خواتین کی میراتھن ریس وغیرہ ، انہوں نے اس کی کھل کر حمایت کی ہے۔ ان کے خلاف اسلامی جدوجہد مرتب کرنا وقت کا اہم تقاضہ ہے۔ اسی طرح آج کل میڈیا کو بھی تین طرح سے استعمال کیا جارہا ہے ۔

            (الف)     میڈیا کے مذاکروں کے ذریعے جس قدر کو سب سے زیادہ پھیلا یا جارہا ہے وہ ہے برداشت یعنی (Tolarance) کی قدر ہے۔برداشت کی قدر یہی ہے کہ خیر مطلق تو صرف بڑھوتری سرمایہ ہے باقی ہر قدر اور ہر تصور خیر کی مہمل (Trivil) حیثیت ہے۔ اور چاہے انسان کوئی سی بھی اقدار کا قائل ہو ان کو ایک ساتھ (Peacefull coexistence) کا حق حاصل ہے تکثیری معاشرہ ملٹی کلچرل ازم اسی بات کا نام ہے جو یہ بتاتا ہے کہ اسلام ” الدین” نہیں بلکہ دوسرے مذاہب کی طرح ایک مذہب ہے۔

            (ب)       میڈیا کو جو آزادی حاصل ہے وہ اسے فحاشی کے لئے ہی زیادہ تر استعمال کر رہا ہے اور جو چیز یں اور اقدار ہمارے معاشرے میں بالکل اجنبی ہیں وہ خالص مغربی اقدار ، فیشن، کھانے ، رہن سہن  میڈیا کی جذباتی اپیل کے نتیجے میں قبولیت عامہ حاصل کر رہے ہیں۔ میڈیا اس بات کے لئے بھی کوشاں ہیں کہ مغرب کے نظام کے خلاف احتجاج سسٹم کے اندر ہو اور سسٹم سے باہر کسی بھی احتجاج کو وقعت نہ دی جائے ۔

            اس طرح ہماری زبانوں کی سیکولرائزیشن کے لئے باقاعدہ شعوری کوششیں کی جارہی ہیں اردو کی سیکولرائزیشن کا عمل  فورٹ ولیم کالج سے شروع ہوگیا تھا اب پنجابی اور سندھی کے لوک ادب خصوصاً صوفیانہ کلام کو اس کے سیاق و سباق سے کاٹ کر نئے سیکولر معنی پہنائے جارہے ہیں۔ اس کے لئے صوفیانہ کلام کی محفلیں حکومت کے تعاون سے منعقد کی جارہی ہیںجس میں بتایا جارہا ہے کہ صوفیوں کی تعلیمات محض ”انسانیت” کے فروغ کے لئے ہیں اور اسلام اور شریعت سے اس کا کوئی رشہ نہیں ہے۔۔ اللہ کا شکر ہے کہ پاکستان میں مذہبی سوسائیٹی کی جڑیں بہت گہری ہیں اور فکری طور پر نہیں تو کم از کم جذباتی وابستگی اسلام کے ساتھ قائم ہے۔ اور یہ وابستگی اسلامی رسوم و رواج کی بناء پر ہے جن کے تطہیر اور فروغ کیلئے ہمیں کوششیں کرنی چاہئے۔ اس طرح لوکل ادب اور زبانوں کی ایسی ترویج کو ممکن بنانا چاہئے جو اس کا رشتہ آفاقی نظام حیات کے ساتھ گہرا کردے۔

            ٣          امریکی استعمار چونکہ ایک قوت اور جبر کا نام ہے اسلئے اس کا مقابلہ نیشن اسٹیٹ کی قوت سے ہی کیا جاسکتا ہے، امریکن استعمار نے خصوصاً پاکستان میں ایسے اقدامات کروائے ہیں جس سے اسٹیٹ کی قوت کمزور ہو ، قومی ریاستوں کو کمزور کرنا استعمار کے معاشی اور دفاعی استحکام کے ضروری ہے ۔ ریاست کی قوت کے دوسرچشمے ہوتے ہیں (١)  اعلی سیاست  (٢)  ادنی سیاست

            سیاست  علیا یعنی اعلی سیاست کا مطلب ہے ملک کی خارجہ پالیسی، معاشی پالیسی اور دفاعی پالیسی، جبکہ ادنی سیاست کا مطلب ہے خدمات کی فراہمی عوام کو، اس لئے لوکلائزیشن یا مقامیت کا منصوبہ یہی ہے کہ عوام سیاست علیا سے دستبردار ہو جائیں اور صرف اپنے محدود فائدوں کو ہی مد نظر رکھیں جبکہ سیاست علیا بیوروکریسی کے سپرد کر دی جائے جو کہ آسانی سے استعمار کی آلہ کار بن سکتی ہے۔ اس طرح اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ مرکزی ریاست خدمات کی فراہمی کے عمل سے بھی دستبردار ہوجائے اور اس کی ذمہ داری ضلعی ، اور تحصیل کی سطح پر مقامی حکومتوں کو منتقل کردی جائے۔ اعداد و شمار اور واقعات بتاتے ہیں کہ مقامیت کا اصل مطلب یہ ہے کہ اختیارات عالمی اور استعماری اداروں کو منتقل ہو جاتے ہیں ۔ ہمیںعالمگیریت( گلوبلائزیشن) یا مقامیت (لوکلائزیشن )کے عمل کی مخالفت کرنی چاہئے اور اسیی کسی اسکیم کا حصہ نہیں بنناچاہئے۔ ہم ایک مضبوط جہادی اور اسلامی ریاست بنانا چاہتے ہیں جو کشمیر و افغانستان کے جہاد کی پشتیبان بنے اور استعمار کا مقابلہ کر سکے۔

            ہم عموما امریکہ کو انسانی حقوق کے ڈبل اسٹینڈرڈ کی بنیاد پر تنقید کا نشانہ بناتے ہیں ۔ اس طرح ہم نادانستہ فردکے ” انسان ” اور human کے مغربی تصور کو قبول کرلیتے ہیں اور فرد کے ” عبد ” ہونے سے صرف نظر کر لیتے ہیں ہم نے امریکن تاریخ میں دیکھا کہ حقوق انسانی حقوق العباد کی عین ضد ہیں اس لئے خصوصاً اسلامی جماعتوں کو اغراض اور حقوق انسانی کی بنیاد پر جدو جہد کو شرح صدر سے رد کر دینا چاہئے۔اور ایک جہادی سیاست کی بنیاد ڈالنی چاہئے۔ جہادی سیاست وہ سیاست ہے جو مغربی اور امریکی نظام فکر و فلسفے و ادارتی صف بندی کو تہس نہس کرنے کے لئے مرتب کی جاتی ہے اور ہمیں مجاہدین اسلام کے کارناموں پر شرمندگی کے بجائے ان کا وکیل بن جانا چاہئے کیونکہ مجاہدین اسلام نے ہی امریکہ کو عسکری سطح پر چیلنج کیا ہے اور اسے ہزیمت سے دو چار کیا ہے اس طرح ہمیں امریکہ کے علوم اور ادرتی صف بندی کو رد کرکے اپنی معاشرتی و ریاستی صف بندی کرنا چاہئے اور عوام کو دعوت دینا چاہئے کہ وہ علوم اسلامی کی برتری کو تسلیم کریں  اور علماء کو قیادت کا منصب سونپ دیں تاکہ عوام کو بتائیں کہ ہم ریپبلک کے بجائے ” اسلامی خلافت و امارت ” کا قیام چاہتے ہیں ۔

            ٤          پاکستان کی معیشت کو عالمی سرمایہ دارانہ نظام سے ہم آہنگ کرنے کے لئے تجارتی پالیسی ، مالیاتی پالیسی اور زری پالیسی میں بنیادی تبدیلیاں کی جاتی ہیں ۔ مثلاً آزادانہ تجارتی پالیسی اپنائی جائے ، کرنسی کو ڈی ویلیو کیا جائے ، درآمدات پر سے لائسنس اور دوسری مقداری پابندیاں ختم کی جائیں ، ٹیرف میں کمی اور ملکی اشیاء کی قیمتوں کو بین الاقوامی منڈی کی قیمتوں کے برابر لایا جائے۔حکومتی اخراجات میں کمی ، توانائی اور زراعت کے شعبے سے سبسڈی ختم کی جائے بیرونی سرمائے پر سے تمام پابندیاں ہٹانا ، شرح سود پر کسی قسم کی پابندیاں نہ ہونا، فنانشل سیکٹر میں مکمل لبرلائزیشن کی جائے، آکشن سسٹم کا نفاذ کیا جائے ۔ تمام شعبے ڈی ریگولیٹ، اور تمام محکموں کی نج کاری کردی جائے۔ یہ ان مطالبات کی مختصر فہرست ہے جس کے شکنجے میںکس کر ہمارے نظم معیشت کو سرمایہ دارانہ نظام معیشت سے ہم آہنگ کیا جارہا ہے لیکن الحمد للہ ابھی تک ہمارے نظام معیشت میں حلال کاروبار کا حصہ بہت زیادہ ہے یہاں حلال کاروبار سے ہماری مراد ہے ایسا کاروبار ہے جس کا سود اور سٹے کے بازار سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلامی جماعتیں حلال کاروبار کے فروغ اور پھیلاؤ کی دانستہ کوشش کریں۔ لوگوں کی بچتوں کو مساجد یا مدارس کی بنیاد پر جمع کرکے اس کام کو کیا جاسکتا ہے۔

            امریکہ جو کہ اپنی تاریخ کو آفاقی اور اپنے معیارات کو آفاقی گردانتا ہے اور اپنی تاریخ کے سوا ہر تاریخ کو رد کرتا ہے اس لئے اپنے معیارات کو یونیورسلائز کرنے کی کوشش کرتا ہے مثلاً اکاؤنٹس ہو یا مینجمنٹ ہو امریکی معیارات میں مسلّم تسلیم کیے جاتے ہیں۔ ہمیں اس مرعوبیت کو رد کرنے کی ضرورت ہے۔

امریکی استعمار کی کمزوریاں

            الف:       آج کا امریکی استعمار نہ توتاتاری غلبہ کی طرح ہے نہ انیسویں اور بیسویں صدی کے یورپی استعمار سے اس کی مماثلت ہے۔ تاتاری غلبہ محض عسکری غلبہ تھا۔ اور اس غلبے کے نتیجے میں معاشرے میں قائم اسلامی ثقافت اور تہذیب کو خطرات لاحق نہ ہوئے بلکہ اسلامی ثقافت اور تہذیب کی جڑیں اس قدر مضبوط تھیں کہ خود تاتاری بھی اس سے متاثر ہو گئے اور بقول اقبال     پاسباں مل گئے کعبہ کو صنم خانے سے۔  اس کے برعکس اگر ہم برصغیر کے تناظر میں انگریزی استعمار کا مختصر جائزہ لیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ انہوں نے اپنے عسکری غلبے کو بالآخر تہذیبی غلبہ بھی بنا لیا ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس وقت انگریزی استعمار کو اپنے علوم اور نظریات کے آفاقی ہونے کا یقین تھا اور اپنے اساسی اقدار کے حوالے سے ان کے پاس عقلی دلائل کی بہتات تھی۔ برصغیر کے علماء اور مجاہدین اسلام بڑی تعداد میں شہادت کے باوجود بھی انگریزی استعمار کو مکمل عسکری غلبہ کو شکست سے دو چار نہ کرسکے  بلکہ باوجود کوشش کہ استعمار کو تہزیبی شکست بھی نہ دے سکے۔ انگریزی تہذیب کانمائندہ سر سید احمد خان جیت گیا ،کہ مسلم قوم پرستی کو قبولیت عامہ حاصل ہوگئی اور ١٩٢٠ء کے بعد قیادت سیکولر لوگوں کے ہاتھوںمیں چلی گئی ۔ جمہوریت اور دستوری جدوجہد کو علماء تک نے تسلیم کر لیا لیکن ان دونوں استعماروں کے برعکس آج ہم اکیسویں صدی میں زندہ ہیں۔ آج امریکی استعمار ان معنوں میں بہت کمزور ہے کہ کسی بھی مسلم ملک پر اس کی براہِ راست حکمرانی قائم نہیں ہے اس کے علاوہ علمی سطح پر ان کے نظریات کی شکست و ریخت کا عمل شروع ہو چکا ہے اور اپنے بنیادی نظریات و افکار پر سے ان کا ایمان متزلزل ہو رہا ہے۔ جدیدیت کے تمام مفروضات کو آج خود مغرب کے اندر عقلی دلیل دینے سے لوگ قاصر ہیں۔ پس جدیدیت (Post Modernism) کی تحریک نے جدیدیت کے اساسی مفروضات پر کاری ضرب لگائی ہے ۔ لیکن امریکہ کی شدید خواہش ہے کہ امریکہ کا طرز زندگی ، امریکن کلچر اور امریکن ویلیو پھیل جائیں ۔ حالات و واقعات بتاتے ہیں کہ ہر جگہ امریکہ کی مقبولیت میں کمی آرہی ہے حتیٰ کہ امریکا کے حلیف بھی اس کی پالیسیوں کے بارے میں منفی رویہ رکھتے ہیں اس وجہ سے امریکہ مسلسل Soft Power کے بجائے Hard Power کا استعمال کرنے پر مجبور ہے اور یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ Hard Power کا استعمال جو بظاہر قوت کا اظہار سمجھا جاتا ہے در حقیقت امریکہ کی کمزوری کا اظہار ہے۔ کیونکہ اس کا مطلب ہے کہ بہ رضا و رغبت امریکا کی پالیسیوں پر عمل نہیں کیا جارہا بلکہ اس کے تہذیبی غلبہ کو رد کرنا عام ہوتا جارہا ہے۔ اس کے لئے امریکہ کی حکمت عملی کے دو اجزاء ہیں :

١۔         یہ دلیل عام کردینا چاہئے کہ امریکہ کو عسکری شکست کس صورت بھی دی نہیں جاسکتی اور مجاہدین کی حکمت عملی دانشمندانہ نہیں ہے۔

            ٢۔         اچھی خاص تعداد ان لوگوں کی پیدا کردی جائے جو یہ سمجھتے رہیںکہ امریکہ خطرہ نہیں ہے بلکہ مغربی تہذیب کے اندر بھی اسلامی شناخت برقرار رکھی جاسکتی ہے۔اور اس کے لئے مسلسل dialouge  ہوتا رہے۔

اس کے علاوہ ہم نے دیکھا کہ چونکہ امریکی تہذیب کا جز دنیا پرستی ہے۔ دنیا پرستی اور ہردم نفس امارہ کی لذات کی جستجو سے موت کا خوف جنم لیتا ہے۔ مغربی فرد موت سے حد درجہ کراہت کرتا ہے کیونکہ وہ دنیا کو ہی سب کچھ سمجھتا ہے۔ اور جانتا ہے کہ اس کی موت کے ساتھ ہی اس  لذات کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اس لئے سرمایہ دارانہ نظام کی اہم کمزوری یہ ہے کہ اپنے نظریات کے لئے قربانی دینے کی صلاحیت امریکی افراد میں کم سے کم ہورہی ہے۔ اسلئے جنگی آلات کا اس قدر پھیلاؤ ہے لیکن ان جنگی آلات سے کسی ملک کو تباہ و برباد تو کیا جاسکتا ہے لیکن اس پر قبضہ کرنا مشکل ہے۔ اس لئے امریکہ کے لئے صرف وہی جنگ feasable ہوتی ہے جو وہ کم مدت اور کم تر قربانی سے جیت سکے ، اس لئے انہیں لازما ً ہر ملک میں غداروں کی تلاش ہوتی ہے اور خصوصاً مسلمانوں کے فرقہ ورانہ اختلافات کو باہمی لڑائی کے لئے برائے کار لاتے ہیں

            ان کمزوریوں کو نگاہ میں رکھتے ہوئے یہ ضروری ہے کہ:

            ١۔         مجاہدین کی پے درپے کامیابیوں کو مسلسل اجاگر کیا جائے۔

            ٢۔         مجاہدین اسلام کی بھر پور وکالت کی جائے۔

            ٣۔         مکالمہ اور مفاہمت کا عمل امریکی استعمار سے یکسر ختم کردیا جائے۔

            ٤۔         مسلم ممالک میں امریکن ایجنٹوں کو بھی وہی حیثیت دی جائے جو

                         امریکہ کی ہے۔

            ٥۔         آپس میں اتحاد و اتفاق کی فضا کو قائم رکھی جائے ۔ باہمی لڑائی

                         جھگڑوں میں نہ الجھا جائے۔

            ب:        آزادی، مساوات اور ترقی کی جن اقدار پر مغرب کا نظام زندگی مرتب ہوا ہے ان اقدار کا فطری نتیجہ یہ ہے کہ خاندان اور نکاح ختم ہورہا ہے اور زنا عام ہورہا ہے ان اقدار کی وجہ سے مغرب کی عورت ماں بننے اور ایک ماں کی ذمہ داریاں نبھانے سے بچنا چاہتی ہے۔ اس چیز کے سبب ان کی آبادی مسلسل گھٹتی جارہی ہے۔ بیسویں صدی کے آغاز میں مغرب کی آبادی پوری دنیا کا ١٥ فیصد تھی اور آج یہ صرف ١٢ فیصد رہ گئی۔ اور امریکی قوم پوری دنیا کی آبادی کا دو فیصد تھی جو اس صدی کے آخر میں ایک فیصد رہ جائے گی۔ آبادی کے کل حصہ میں بوڑھے افراد کا تناسب ٣٠ فیصد تک ہو جائے گا۔ تو مغرب خود اپنے ہاتھوں سے اپنا گلا کاٹ رہا ہے۔ اس لئے اس کی شدید خواہش ہے کہ یہ تمام اقدار ہمارے ہاں بھی قبولیت عامہ حاصل کر لیں تاکہ خواہشات اور زنا ہمارے ہاں بھی عام ہو جائیں ۔ اسلئے خصوصاً خاندانی منصوبہ بندی وغیرہ کے لئے مغرب سے اس قدر فنڈنگ کی جاتی ہے۔

            ہمیں مغرب کی اقدار سے بالکلیہ اعلان برأت کرنا ضروری ہے اور اس کے ساتھ ہی معاشرے کی سطح پر ہونے والے تمام اقدامات جس میں خاندانی منصوبہ بندی کا تدارک کرنا بھی ضروری ہے۔ ہمیں ”نکاح” کے ادارے کو مضبوط تر بنانا ہے اور خاندا ن کے استحکام کے لئے حکمت عمل کو مرتب کرنے کی شدید ضرورت ہے۔

            ج:         سرمایہ دارانہ نظام کے استحکام کے لئے ضروری ہے کہ اس کی پشت پناہ کوئی ریاست ہو۔ پچھلی صدی میں سرمایہ قومی ریاستوں میں مرکز ہوتا تھا۔ اب سرمایہ دارانہ نظام گلوبل ان معنوں میں ہو گیا کہ اب سرمایہ بین الاقوامی کارپوریشن اور عالمی مالیاتی اداروں میں مرتکز ہو گیا ۔ اور عالمی سرمایہ داری کو تحفظ دینے کے لئے عالمی ریاست کی بھی ضرورت ہے۔ لیکن سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادی کمزوری یہ ہے کہ سیاسی نظام جمہوری ہے اور نیشن اسٹیٹ قائم ہیں۔ اسلئے عالمی ریاست کا قیام ناممکن ہے ۔ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے محافظ کے طور امریکہ کی خصوصی حیثیت اور خصوصی فرائض ہیں۔ لیکناس کے ساتھ ہی امریکہ کی ایک مجبوری یہ بھی ہے کہ ان فرائض کو ادا کرنے کے لئے امریکی ریاست کے شہریوں اور امریکی عوام سے مسلسل توثیق کرانا پڑتی ہے یعنی امریکی ریاست کو سرمائے کے عالمی عمومی مفاد کا تحفظ اس طریقہ سے کرنا پڑتا ہے کہ جس سے امریکی عوام کے مفادات متاثر نہ ہوں ۔ مثلاًامریکہ نے عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے تحفظ کے لئے افغانستان اور عراق کی جنگ کو ناگزیر سمجھا لیکن قومی نقصانات کے پیش نظر امریکہ کے اندر عوامی حلقوں میں جنگ کی مخالفت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ امریکہ طاقتور ہونے کے باوجود بھی نہایت کمزور ملک ہے۔ کیونکہ امریکہ جو فرائض بحیثیت سرمائے کی تحفظ والی ریاست کے ادا کرنے پڑتے ہیں ۔ وہ فرائض ان فرائض سے متصادم ہیں جنہیں بحیثیت ایک قومی ریاست کے ادا کرنے پڑتے ہیں۔ اور عوام کی توثیق و تصدیق اسی وقت ممکن ہوتی ہے جب وہ دیکھتے ہیں کہ عالمی بالا دستی ایک امریکی شہری کی اغراض سے متصادم نہ ہو۔ گویا کہ امریکی استعمار ان معنوں میں کمزور ہے کہ اس کے اندر فی الواقع وہ صلاحیت نہیں ہے جو عالمی غلبے کے لئے ضروری ہے۔ اس لئے مثلاً عراق کے اندر پے درپے شکستوں کے بعد اب امریکہ وہاں سے نکلنے کا سوچ رہا ہے گویا طویل مزاحمت کے ہتھیار کے سامنے امریکہ ٹھہرنے کی ہمت نہیں رکھتا۔

            امریکہ نے اپنی اس کمزوری کو دور کرنے کے لئے مختلف قسم کے عالمی ادارے قائم کئے ہیں مثلاً آئی۔ایم۔ایف،  ورلڈ بینک اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن جو ہر ملک کو اس پر راضی کرتے ہیں کہ عالمی سرمائے کے تحفظ کے لئے کیسے وہ اپنا کردار ادا کریں۔ لیکن یہ تمام ادارے بھی ان معنوں میں بہت کمزور ہیں کہ ان کے جال سے نکلنے کے لئے محض ایک سیاسی ارادہ(Political Will) ہی در کار ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلامی سیاسی جماعتیں مجرد مہنگائی وغیرہ کے ایشوز کے بجائے متعین طور پر عالمی استعماری اداروں کی پالیسیوں کی مخالفت کریں اور پاکستانی عوام کو بتائیں کہ حلال رزق کی راہ میں رکاؤٹ یہی عالمی استعماری ادارے ہیں اور ان کی پالیسیوں کو شرح صدر سے رد کردینے کی ضرورت ہے۔   سلیم احمد سے معذرت کے ساتھ

استعمار کی جو صف بندی ہے بناء ہے اسکی ریت پر

ایک دھاگے سے یہ سب زیروزبر ہوجائے گی

اسلامی نظام اور اسلامی انقلاب

جاوید اقبال

١٨٦٠ء تا ١٩٢٠ء تک کے پورے دور میں احیائے جہاد کے لیے علمائے کرام نے بے مثال قربانیاں دیں۔ اس دور میں بنیادی مقصد انگریز کے نظام کو تہس نہس کرنا تھا اور اسلامی ریاست کے قیام کو ممکن بنانا تھا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ایک طرف مدارس کا جال پھیلایا گیا تاکہ اسلامی علمیت اور اسلام کے علمی سرمائے کا تحفظ کیا جاسکے اور دوسری طرف اسلامی ریاست کے قیام کے لیے برصغیر کے مختلف حصوں میں تحریکات برپا کی جاسکیں، لیکن پے درپے ظاہری ناکامیوں کے بعد خصوصاً ١٩٢٤ء میں تحریک خلافت کی ناکامی کے بعد اسلامی ریاست کے قیام کو ایک ناقابل حصول ہدف کے طور پر علماء نے قبول کرلیا۔ اس کے بعد سیکولر جماعتوں مسلم لیگ اور کانگریس سے اشتراک عمل، دستوری وجمہوری ذرائع کا استعمال ہماری دینی جماعتوں کا عام طریقہ بن گیا۔ ان کے خیال میں کافر اقتدار میں تحفظ اسلام کی یہی واحد حکمت عملی تھی قیام پاکستان کے بعد بھی لائحہ عمل کے تسلسل کو برقرار رکھا گیا۔

وہ جماعتیں جن کی فکر کا بنیادی محور احیائے جہاد تھا، انہوںنے بھی قیام پاکستان کے بعد ریاستی جدوجہد کے لیے جو نظریہ تشکیل دیا وہ یہی تھا کہ ہم دستورِ پاکستان کے اندر رہتے ہوئے جمہوری نظام کو اسلامیانے کی کوشش کریںگے اور چونکہ پاکستانی عوام اصولی طور پر غلبہ اسلام ہی چاہتے ہیں، اس کے لیے ہم تطہیر افکار کریں گے اور لوگوں کو یہ باور کرا دیں گے کہ پاکستان کے لیے دیانت دار قیادت ناگزیر ہے اور پیہم جدوجہد کی بنیاد پر ہم خیانت کار قیادت کو اکھاڑ پھینکیں گے اس کے لیے ہم نے ایک طرف رائے عامہ کی ہمواری کے لیے تن من دھن سے کام کیا اور دوسری طرف علماء کرام کے ساتھ مل کر دستورِ پاکستان میں اسلامی شقیں شامل کرانے کی بھرپور جدوجہد کی۔

اس نظریاتی ماڈل پر کام کرنے کا ثمر یہ ہے کہ ہم نے دستور میں چند اسلامی شقیں شامل کروا دیں جو فی العمل معطل رہتی ہیں۔ تمام قوانین غیرشرعی نہ صرف برقرار ہیں بلکہ ان میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور دوسری طرف اپنی انتھک کوششوں اور جدوجہد کے باوجود ہم رائے عامہ کو نہ غلبہ اسلام کے لیے ہموار نہ کر سکے اور اس بات پر تیار نہیں کہ وہ سیکولر حکمرانوں سے چھٹکارا پائیں اور منصب اقتدار دین دار قیادت کو سونپ دیں۔ ساٹھ سال کا تجربہ ہمیں بتا تا ہے کہ لوگوں کی دلی وابستگیاں اب بھی سیکولرپارٹیوں کے ساتھ ہی ہیں اور وہ اپنا راہنما اب بھی سیکولر پارٹیوں میں ہی تلاش کرتے ہیں اور اس محاذ پر ہمیں پے درپے ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

اس ناکامی کے اسباب کا جب بھی تجزیہ کیا جاتا ہے تو ایک ہی نتیجہ نکالا جاتا ہے کہ جدوجہد کی موومنٹ کو اور تیز کرنے کی ضرورت ہے اور تحاریک اسلامی کے کارکنان کو مزید متحرک ہونے کی ضرورت ہے، لیکن ہم نے کبھی اس بات کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ پاکستان کے مخصوص حالات میں ہم نے جو انقلاب اسلامی کا لائحہ عمل اور نظری ماڈل تیار کر رکھا ہے اس کا عمیق تجزیہ کیا جائے، اس کی ازسرنو تشکیل اور تبدیلی عمل میں لائی جائے۔ یہ بات اچھی طرح جاننے کے باوجود کہ نظریات کی وہ حیثیت نہیں ہوتی جو کہ عقائد کی ہوتی ہے عقائد تغیر پذیر نہیں ہوتے لیکن مخصوص حالات کے تناظر میں جو نظریے تشکیل پاتے ہیں ان میں تبدیلی کی گنجائش یا انہیں بالکل بدل ڈالنے کی گنجائش موجود رہتی ہے اور اصولاً ہونی بھی چاہیے ورنہ جمود طاری ہوجاتا ہے اور جمود کا مطلب ”ایک جگہ ٹھہرے” رہنا نہیں بلکہ پیچھے جانا ہوتا ہے۔

ہمارے ناقص خیال کے مطابق انقلاب اسلامی کے لیے جس نظریاتی ماڈل کا تذکرہ کیا گیا ہے اس کی بنیاد پر ہونے والی کاوشیں اور جدوجہد کا مومینٹم نقطہ عروج پر ہے اور اس ماڈل کی بنیاد پر دینی جماعتوں کے لیے اس سے زیادہ تحرک ممکن نہیں ہے، اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ اس نظری ماڈل کا گہرا تجزیہ کیا جائے اور آیندہ لائحہ عمل کو مرتب کرتے ہوئے جہادی سیاست کو اولین حیثیت دی جائے، جہادی سیاست ہے ہماری مراد یہاں یہ ہے کہ غالب نظام یعنی سرمایہ داری کی جزوی اصلاح کے بجائے اس کی مکمل تباہی کے لیے صف بندی عمل میں لائی جائے۔ کیونکہ اب حالات بدل چکے ہیں اور سرمایہ دارانہ نظام کی مکمل شکست وریخت ممکن ہے۔

اس مضمون کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ یہ شکست وریخت کیونکر ممکن ہوتی ہے اور اسلامی نظام کا غلبہ کیونکر ممکن ہے۔ یہ ایک بالکل ابتدائی کوشش کی جارہی ہے۔ اس کے لیے ہم پہلے چند نظری مسائل کو بیان کریں گے۔

١۔ نظام کی تعریف کرتے ہوئے بتایا جائے گا کہ اسلامی نظام اور سرمایہ دارانہ نظام کیا ہے اور ان میں کیا اصولی فرق ہے۔

٢۔ یہ واضح کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ سرمایہ دارانہ نظام میں جزوی اصلاح کی کوشش کیوں ناکافی ہے اور مکمل انقلاب کیوں ناگزیر ہے۔

اسلامی انقلاب کے حوالے سے مندرجہ ذیل چار مباحث پر بھی روشنی ڈالی جائے گی۔

١۔ اسلامی انقلاب کیا ہے اور کیا نہیں ہے۔

٢۔ اسلامی انقلاب کس کے خلاف آئے گا۔

٣۔ اسلامی انقلاب کون لاسکتا ہے۔

٤۔ اسلامی انقلاب کیسے آسکتا ہے۔

نظام کی تعریف، اسلامی نظام اور سرمایہ دارانہ نظام میں اصولی فرق:

انسان ہمیں جس طرح کے احساسات جنم لیتے ہیں، ان احساسات کو وہ خاص طرح کی ترتیب دیتا ہے اور ترجیحات متعین کرتا ہے ان ترجیحات کی بنیاد پر وہ مخصوص طرز عمل اختیار کرتا ہے اور اس کے تعلقات مخصوص رخ اختیار کر لیتے ہیں، گویا انسان کی سوچ، عمل اور تعلقات میں گہرا ربط ہے۔ ہر شخص اپنے اعمال کا لامحالہ ذمہ دار ان ہی معنوں میں ہے کہ دراصل وہی فیصلہ کرتا ہے کہ اس دنیا کے اندر اس کا مقام کیا ہے؟ اس کی زندگی کا مقصد کیا ہے، خیر اور شر کیا ہے اور وہ ان دونوں میں سے کس کو اختیار کرے اور جن مقاصد زندگی کا اس نے تعین کیا ہے ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے اس کو کیسے اعمال وافعال اختیار کرنے چاہیں اور کیسے تعلقات استوار کرنے چاہییں، انسان کے ان تعلقات کا اظہار دو سطحوں پر ہوتا ہے۔

١۔ معاشرہ کی سطح پر

٢۔ ریاست کی سطح پر

معاشرہ اور ریاست دراصل ایک فرد کے دوسرے افراد سے مخصوص تعلقات کے دو اخبارات ہیں۔ معاشرہ ایسے اجتماع کو کہاجاتا ہے جو افراد بغیر کسی جبر واکراہ اپنی انفرادیت کے لیے قائم کرتے ہیں۔ گویا معاشرہ رضاکارانہ (Voluntary) صف بندی سے تشکیل پاتا ہے۔ مثلاً خاندان، قبیلہ، برادریاں، محلہ، عبادت گاہ، بازار ان سب جگہوں پر تعلقات رضاکارانہ ہوتے ہیں۔ گویا معاشرہ بہت سارے افراد کی مشترکہ سوچ اور اقدار کا عکاس ہوتا ہے اور جب اس اقتدار میں تبدیلی رونما ہوتی ہے تو وہ مخصوص معاشرتی ادارتی تنظیم بھی تغیر پذیر ہوجاتی ہے اور وہ نئے اقداری نظام کی غماز بن جاتی ہے۔ اس معاشرتی تنظیم کو ایک نظام جبر کی بھی ضرورت ہوتی ہے ۔ اس نظام جبر کو ریاست کہتے ہیں۔ ریاست مشترکہ معاشرتی اقدار کی بنیاد پر جائزوناجائز، حلال وحرام کے ان تصورات کو نافذالعمل بناتی ہے جنہیں معاشرتی سطح پر مقبولیت حاصل ہو یا معاشرہ کے افراد اس کو برداشت کرنے پر آمادہ ہوجائیں۔ گویا ریاست محض نظام جبر نہیں بلکہ اقتدار کا وہ نظام جبر ہے جس کو عام مقبولیت یا عام برداشت حاصل ہو یعنی ریاست عوام الناس میں مقبول معاشرتی اقدار کو نافذالعمل بنانے کے لیے جبری صف بندی عمل میں لاتی ہے۔ مثلاً دورحاضر میں ان اداروں کی مثال عدلیہ، انتظامیہ یعنی فوج، پولیس وبیورکریسی اور محصولات وصولی کا نظام وغیرہ ہے۔

ہم نے اب تک انفرادیت، معاشرت اور ریاست کے تصورات کے بنیادی خدوخال بیان کیے ہیں ان تینوں کے باہمی ارتباط کا نام ”نظام” ہے۔ اس کو تہذیب بھی کہا جاتا ہے۔ ان تینوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ یہ تینوں تصورات ایک دوسرے پر اثرانداز بھی ہوتے ہیں اور ایک دوسرے سے اثرپذیر بھی ہوتے ہیں۔ ایک خاص انفرادیت کا ایک مخصوص معاشرت اور ریاست میں پنپنا آسان ہوتا ہے اسی طرح ایک مخصوص انفرادیت کے تعلقات کے تانے بانے سے مخصوص معاشرتی نظام اور ریاستی نظام تشکیل پاتا رہتا ہے اور پروان چڑھتا رہتا ہے۔

ایک اسلامی انفرادیت کا بنیادی کلمہ لاالہ الا اللہ محمد رسول اﷲ ہے وہ اپنے ایمان ومعرفت کی وجہ سے اللہ کی عبدیت پر راضی ہوتا ہے اور اللہ سے بغاوت کو رد کرتا ہے۔ اس طرح اسلام میں اس دنیا کے لیے بھی اور اخروی دنیا کے لیے بھی ہدایت کا پورا نظام موجود ہے جو ہم تک انبیاء علیہم السلام، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین، تبع تابعین علمائے اسلام اور صوفیائے عظام کے ذریعے پہنچا ہے۔ اس لیے ایک مسلمان جس طرح عبدیت پر اصرار کرتا ہے اسی طرح ایک نظام ہدایت پر بھی اصرار کرتا ہے۔ وہ دنیا کو اس رنگ ڈھنگ سے ؟؟؟؟ کرتا ہے کہ اس کا خالق ومالک اس سے راضی ہوجائے، وہ اپنی زندگی کے ہر دائرۂ کار میں سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل اتباع کو ترجیح دیتا ہے۔

اس کے برخلاف ہم مغربی تہذیب کو دیکھیں جوکہ جاہلیت خالصہ ہے۔ اس کا ایک عام باشندہ عقائد کے فساد کے شکار ہے۔ پہلی صدی عیسوی کے آخرتک بیشتر عیسائیوں نے ان عقائد کے ایک حصے کو رد کردیا جو حضرت مسیح علیہ السلام لے کر آئے اور جن کو حضرات حواریوں نے قبول کیا تھا۔ دوسری صدی سے چودھویں صدی تک عیسائیت حضرت مسیح علیہ السلام اور یونانی عقائد کا ایک مرکب بن گئی تھی۔ تحریک نشاة ثانیہ اور تحریک اصلاح مذہب نے مسیحی عقائد کو تقریباً رد کردیا اور یونانی عقائد اور افکار کی ایک مسیحی تشریح پیش کی ہے۔ انقلاب فرانس نے اس ظاہری نمائشی عیسائی ملمع کاری کو بھی ترک کردیا۔ اٹھارویں صدی کے آخرتک ہیوم اور کانٹ کے فلسفوں نے عبدیت کو عیسائیت سے کلیتاً بے دخل کرکے خدا سے بغاوت یعنی ”آزادی” کو یورپی عوام کا اساسی عقیدہ بنا دیا، اور اس عقیدے کے بطن سے سرمایہ دارانہ نظام برآمد ہوا۔ سرمایہ دارانہ انفرادیت آزادی (خدا سے بغاوت) مساوات (ہر انسان کی مساوی آزادی) اور ترقی (دنیا کی ابدیت) کی اقدار پر ایمان لاکر قائم ہوتی ہے، جو شخص ان اقدار پر ایمان لاتا ہے وہ لازماً عبدیت، نظام ہدایت اور نظام خلافت کو ترک کر دیتا ہے۔ سرمایہ دارانہ معاشرہ اور ریاست کا قیام آزادی مساوات اور ترقی کا ذریعہ (Tool) ہے۔ دراصل اس ذریعہ سے انسان اپنی الوہیت کا اظہار کرنے کی کوشش کرتا ہے اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ مغرب میں انسان کا بنیادی کلمہ لاالہ الا الانسان ہے۔

اس بنیادی اور اصولی اختلاف کی وجہ سے اسلامی انفرادیت معاشرتی سطح پر جو تعلقات استوار کرتی ہے اس سے ایک ”مذہبی سوسائٹی” وجود میں آتی ہے۔ جبکہ مغرب میں چونکہ آزادی کی جو ٹھوس شکل سامنے آئی وہ سرمایہ تھی اور سرمایہ دارانہ معاشرے میں ہر معاشرتی عمل بنیادی طور پر سرمایہ کی بڑھوتری کے عمل کے تابع ہوجاتا ہے۔ بڑھوتری برائے بڑھوتری کا یہ عمل اس وقت ممکن ہے جب حرص وحسد اور دنیا پرستی کسی انسان کا بنیادی وصف ہوجائے۔ ایسا فرد ”اغراض کا بندہ” بن جاتا ہے اور ایسی سوسائٹی جہاں سارے تعلقات اغراض ہی کی بنیاد پر ترتیب پانے لگیں اس کو ”سول سوسائٹی” کا نام دیا جاتا ہے۔ اسلامی انفرادیت کا وصف چونکہ اللہ کی عبدیت ہے اس لیے ایک اسلامی ریاست اس عبدیت کی توسیع اور استحکام کے لیے کاوشیں کرتی ہے اور اس کو نظام خلافت ونیابت کہا جاتا ہے۔ جبکہ مغرب میں تین طرح کی ریاستیں وجود میں آئیں۔ قوم پرستانہ ریاست، لبرل ریاست اور اشتراکی ریاست اور اس کی مختلف شکلیں۔ یہ دراصل سرمایہ دارانہ ریاست کے تین مختلف نام ہیں، کیونکہ اساسی اقدار میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اس ریاست کا ایک ہی وظیفہ ہے کہ وہ ایک ایسی شخصیت کی تعمیر اور اس کی مستقل تخلیق کو ممکن بنائے جو آزادی یعنی خدا سے بغاوت کی قدر کو اپنے اوپر خیرمطلق کے طور پر مسلط کرسکے۔

سرمایہ دارانہ معاشرت کی پشت پناہ سرمایہ دارانہ ریاست ہوتی ہے جسے ”ری پبلک” کہتے ہیں۔ اس میں اقتدار عوام کے ان نمائندگان کے ہاتھوں میں ہوتا ہے، جن کو آزادی، مساوات اور ترقی کے فروغ کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے اس لیے ری پبلک کی اساس دستور فراہم کرتا ہے، جو حکمرانی کے وہ اصول متعین کرتا ہے جن کی بنیا دپر آزادی، مساوات اور ترقی کے علاوہ کسی اور چیز کی جدوجہد ناممکن ہوجائے۔ اس لیے دستور کی بنیاد پر حقوق العباد کو رد کردیا جاتا اور ”حقوق انسانی” کی فوقیت تسلیم کرلی جاتی ہے۔ گویا اس کے ذریعے سے عملاً کسی بھی فرد، گروہ یا اکثریت سے یہ حق چھین لیا جاتا ہے کہ وہ آزادی، مساوات اور ترقی کو رد کردے، یعنی دستور میںجمہوریت کو سرمایہ دارانہ زندگی تک محدود اور اس سے نتھی کردیا جاتا ہے۔

اس تمام بحث سے ہم مندرجہ ذیل خلاصہ اخذ کرسکتے ہیں۔

١۔ اسلامی نظام اور سرمایہ دارانہ نظام میں اختلاف کی نوعیت جزوی نہیں بلکہ اصولی اور بنیادی ہے۔

٢۔ اسلام ایک مکمل اور آفاقی نظام زندگی ہے جو کسی دوسرے نظام زندگی کا حصہ نہیں بن سکتا۔

٣۔ مغربی تہذیب جس نے سرمایہ دارانہ نظام کی شکل اختیار کرلی ہے ایک مکمل نظام زندگی ہے جو کسی بھی دوسرے نظام زندگی کا حصہ نہیں بن سکتا۔

٤۔ گر کسی بھی ایک نظام زندگی کا غلبہ ہوگا تولازماً دوسرے نظام زندگی کے اقدار اور ادارے (معاشرتی وریاستی) تباہ تے چلے جائیں گے۔

٥۔ غلبہ اسلام کے لیے سرمایہ دارانہ نظام کو کلیتاً تباہ کرنا اشدضروری ہے۔

جزوی اصلاح یا مکمل انقلاب؟

جیسا کہ اوپر خلاصہ بیان کیا گیا کہ ہم اسلام کو ایک مکمل نظام حیات کے طور پر تسلیم کرتے ہیں اور سرمایہ داری کو بھی ایک مکمل نظام حیات تصور کرتے ہیں اور اس بات کے قائل ہیں کہ غلبہ اسلام کے لیے سرمایہ دارانہ نظام میں جزوی اصلاح ناکافی ہے اور اس نظام کی کلیتاً تباہی ناگزیر اور ضروری ہے۔ چونکہ مغربی تہذیب کی بنیاد وحی سے کامل انکار ہے اس لیے ہم مغربی تہذیب اور اس کے تمام مظاہر لبرل ازم نیشنل ازم، سوشلزم، کمیونزم اور سوشل ڈیموکریسی وغیرہ کے نظریات کو جاہلیت خالصہ سمجھتے ہیں۔

انقلاب کا مقصد اس انفرادیت، معاشرت اور ریاست کی جانب مراجعت ہے جو سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں یعنی خیرالقرون میں تعمیر کی گئی تھی۔ یعنی ہم سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کی تمام سنتوں کا مکمل احیاء چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ انفرادیت، معاشرت وریاست کلیتاً تباہ ہو اور اس کی جگہ ایک ایسی انفرادیت، معاشرت وریاست قائم ہو جہاں سارے فیصلے اسلامی علمیت کی بنیاد پر مرتب ہوں۔

اصولی طور پر ان تمام باتوں کو ہماری جماعتیں درست تسلیم کرتی ہیں۔ لیکن عملاً پاکستان کے اندر جوکہ استعمار کی ایک باج گزار ریاست ہے ہماری جدوجہد جمہوری نظام کو اسلامی خطوط پر مرتب کرنے کی جدوجہد رہی ہے۔ یا پھر کچھ جماعتوں نے نظام اقتدار کے مسئلے پر دانستہ صرف نظر کیا اور سرمایہ دارانہ نظام کے اندر ہی تحفظ اسلام کے لیے انہی تمام کاوشوں کو مرکوز کردیا۔ ہماری پچھلی ساٹھ سالہ تاریخ نے ثابت کردیا کہ یہ رائے درست نہیں ہے جمہوری نظام کو اسلامیانے کی جدوجہد سے شاید کچھ ضمنی اور محدود فوائد تو حاصل کیے جاسکتے ہیں، لیکن اس طریقے سے پاکستان کے مخصوص حالات میں غلبہ اسلام ناممکن ہے۔ غلبہ اسلام کے لیے ہمیں جہادی ریاست کے احیاء اور اس کی نظریاتی بنیادیں مستحکم کرنا ہوںگی اور کسی بھی جزوی اصلاح کی بنیاد پر سرمایہ دارانہ نظام کو شکست نہیں دی جاسکتی۔ اس کے لیے ہمیں اسلامی انقلاب کی طرف پیش رفت کرنا ہوگی۔

اسلامی انقلاب کے حوالے سے ہم اپنے چارسوالات کی جانب چلتے ہیں اور ان کے کچھ متعین جوابات تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

١۔ اسلامی انقلاب کیا ہے اور کیا نہیں ہے:

”غالب سرمایہ دارانہ نظام کو کلیتاً منہدم کرکے اس کی جگہ اسلامی نظام کا قیام اسلامی انقلاب ہے اس انہدام میں سرمایہ دارانہ شخصیت، انفرادیت، اس شخصیت کو استحکام اور پروان چڑھانے والی معاشرت اور تمام معاشرتی ادارے اور ان کوتحفظ دینے والی سرمایہ دارانہ ریاست کا مکمل انہدام ضروری ہے۔”

سوچ وبچار کے لیے یہ نکات بھی بہت اہم ہیں کہ اسلامی انقلاب کیا نہیں ہے، خصوصاً پاکستانی سیاست کے تناظر میں ان پر ضرور غور وفکر ہونا چاہیے۔ ویلفیئراسٹیٹ ایک یورپی تصور ہے جو سرمایہ دارانہ ریاست کے اندر ہی کچھ سوشل حقوق کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ ہماری خلافت وامارت ان معنوں میں ماڈل ویلفیئرٹرسٹ ہرگز نہیں تھی۔ اس لیے ایک ویلفیئر اسٹیٹ جو سوشل حقوق کے تحفظ محض کے لیے وجود میں آئے اسلامی خلافت امارت کے مماثل نہیں ہوسکتی۔

اسلامی انقلاب طبقاتی کشمکش پید اکرکے نہیں لایا جاسکتا اس لیے ظلم کو بنیاد بنا کر اور نفرت کے جذبات کو پروان چڑھا کر سوشلسٹ انقلاب کی راہ تو ہموار کی جاسکتی ہے لیکن اسلامی انقلاب اس سے پس پشت چلا جاتا ہے۔

انسانی حقوق کی بنیاد پر جدوجہد استوار کرکے لبرل اسٹیٹ کی راہ ہموار کی جاسکتی ہے۔ اجتماعی حقوق کی تحریک چلا کر سوشل ڈیموکریسی ہی کو مقبول عام بنایا جاسکتا ہے۔

پاکستانی قوم پرست یا مسلم قوم پرست آدرشوں کو سند جواز عطا کرکے ایک قوم پرست ریاست وجود میں آسکتی ہے جبکہ ایک آفاقی اسلامی انقلابی جہادی ریاست کے قیام کی بنیادیں منہدم ہوجاتی ہیں۔ لہٰذا قوم پرستی کو بنیاد بنا کر بھی اسلامی خلافت وامارت کا قیام ناممکن ہے۔

٢۔ اسلامی انقلاب کون لاسکتا ہے:

اسلامی انقلاب وہی لوگ لاسکتے ہیں جو اسلامی علمیت اور علوم کا گہرا شعور وادراک رکھتے ہوں اور وہ اسلامی علمیت کی برتری کے قائل ہوں۔ ایسے لوگ ظاہر ہے علمائے کرام کی صفوں میں موجود ہیں جنہوںنے اسلامی علمیت کو سبقاً سبقاً پڑھا اور یہی قال اللہ وقال الرسول کو سب سے بہتر جانتے ہیں۔ یہی اس بنیاد پر فیصلہ کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں کہ اللہ کی مرضی کیا ہے۔ سرکار ددعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے علماء ہی کو اپنا وارث قرار دیا ہے اور وہی امامت کے لائق ہیں۔ اسلامی انقلاب محض پڑھے لکھے باعمل مسلمان نہیں لاسکتے وہ انقلاب میں مدد دے سکتے ہیں۔ لیکن اسلامی انقلاب کے لیے فیصلہ کن حیثیت علمائے کرام ہی کی ہوگی۔ جب باطل نظام سے قوت ٹرانسفر ہوگی تو وہ ظاہر ہے کہ خلا میں تو ٹرانسفر نہیں ہوسکتی وہ قوت فطری اسلامی اداروں ہی مشتمل ہوگی یعنی مسجد اور مدرسہ ہی پبلک یونٹ اور بنیادی گورننگ یونٹ بن سکتے ہیں اور یہاں صف بندی علماء نے ہی ممکن بنا رکھی ہے۔ اس لیے بھی لامحالہ قیادت علماء کرام ہی کے حصے میں آئے گی۔

٣۔ اسلامی انقلاب کس کے خلاف آئے گا؟

اس وقت پاکستان استعمار کی ایک باجگزار ریاست ہے ان معنوں میں کہ پاکستان کی معاشی، خارجہ، سیاسی اور حتیٰ کہ معاشرتی پالیسیاں بھی استعمار کے زیراثر تشکیل پاتی ہیں۔ اس نظام کے مرافقین اسلامی انقلاب کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ یہ لوگ سیکولر اور لبرل سیاسی پارٹیوں کے علاوہ سول اور فوجی بیوروکریسی میں بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ اسلامی انقلاب ان کی سیادت وقیادت کا خاتمہ کر دے گا۔ اسلامی انقلاب اس سول سوسائٹی (این جی اوز، سیکولر تنظیمیں وغیرہ) کے خلاف بھی ہوگا، جو اسلامی نظام کے قیام کی راہ میں رکاوٹ ہے۔

٤۔ اسلامی انقلاب کس طرح آئے گا:

ہماری جدوجہد پاکستان میں جمہوری نظام کو اسلامی خطوط پر مرتب کرنے کی جدوجہد رہی ہے۔ پچھلی ساٹھ سالہ ساریخ نے ثابت کردیا ہے کہ یہ رائے درست نہیں ہے۔ ایک دیندار، مخلص اسلامی جماعت کی جمہوریت اور جمہوری عمل میں شمولیت کا نتیجہ پیہم شکستوں کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے۔ سیکولر جماعتوں سے علامتی اسلامی بنیادوں پر اتحاد بھی ہم بارہا کر چکے ہیں جس کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ سیکولر جماعتیں کامیاب ہوجاتی ہیں اور ہم اپنے آپ کو یہ دعویٰ کرنے میں حق بجانب سمجھتے ہیں کہ یہ کامیابی ہماری تایید کی بناء پر حاصل ہوئی ہے لیکن جب سیکولر حکومتیں کاروبار سلطنت مرتب کرتی ہیں تو ہمارے کارکنان تحاریک اسلامی اس میں اسلام کی رمق تک نہیں پاتے۔ اور ہماری اسلامی جماعتیں اس سیکولر جماعت کی ناقد بن جاتی ہیں اور اس سے ایسے مطالبات شروع کردیتی ہیں جن کو پورا کرنا حکومت کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ یوں پھر ہم اس حکومت کے خلاف تحریک چلاتے ہیں جو کبھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوتی کیونکہ ہمیں اس ملک میں عوامی تائید حاصل نہیں ہے اس طرح ایک سیکولر حکومت کی جگہ دوسری سیکوکر حکومت لیتی رہتی ہے۔

انقلاب ہمیشہ ایک اقلیت ہی لے کر آتی ہے اور عوام الناس محض اسے برداشت کرتے یا اس کا ساتھ دیتے ہیں۔ لوگوں کو یہ تایید حاصل کرنے کے لیے محض تطہیر افکار کا عمل ناکافی ہے۔ لوگوں کے قلب میںمکمل تبدیلی تطہیر وتزکیہ نفس سے ممکن ہوتی ہے جس قلب میں جذبہ عشق ومحبت موجزن ہوجات ہے وہ فرد اسلام کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے پر راضی ہوجاتا ہے اور یہ کام محض وعظ تلقین اور عوامی اجتماعات سے نہیں ہوسکتا۔ ان اجتماعات سے افراد میں مستقل اسلامی تشخص اجاگر نہیں ہوتا۔ اس کے لیے ہمیں حضور سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ہمیں جوسبق ملتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عوام الناس کے قلوب کو تبدیل فرما کر انہیں اللہ کا عبد بنا دیا۔ اس طرح غلبہ اسلام کی راہ ہموار ہوئی۔ اسلامی جماعتوں کے سامنے بھی بنیادی چیلنج یہی ہے کہ وہ گوہ کی خواہشات اور میلانات کو تبدیل کرکے غلبہ اسلام کو ممکن بنائیں۔ جمہوریت اور انتخابی سیاست تشخص اسلامی کو کمزور کرنے کا باعث بنتی ہے کیونکہ اس جدوجہد میں لوگوں کو مادی اغراض پورا کرنے کے نام سے اکٹھا کیا جاتا ہے۔ اگر اسلامی تحریکیں مادی مفادات کے حصول کی بنیاد پر لوگوں کے جمع کرنے کا کام مصلحتاً کرتی ہیں کہ اس طرح پہلے اپنے حلقہ اثر کو وسیع کرلیں تو ان کو سوچنا چاہیے کہ اس طرح ان کا حلقہ اثر وسیع ہونے کی بجائے اور سکڑنا شرو ع ہوجاتا ہے کیونکہ لوگ لالچ، حرص وحسد میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور اسلامی انقلاب کا کام ایثار قربانی کا متقاضی ہے۔

٭ ہم نے اسلامی نظام اور سرمایہ دارانہ نظام کے موازنے کی جو بحث کی ہے اس گفتگو کا خلاصہ یہ نکلتا ہے کہ انقلاب ایک پیچیدہ عمل ہے۔ یہ محض الیکشن میں اکثریت حاصل کرکے سرمایہ دارانہ انتظامیہ کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرلینا نہیں ہے ، سرمایہ دارریاست کے موجود اداروں سے اسلام کے نفاذ کی کوشش عبث ہے اس کے لیے ایسے نئے متوازی ادارے بنانے کی ضرورت ہے جو اسلامی جدوجہد کا اظہار ہوں، اس کو ممکن بنائیں اور اس کی توسیع کریں تاکہ اس کے نتیجے میں سرمایہ دارانہ اداروں سے عام لوگوں کا اعتبار اٹھ جائے۔

٭ معاشرتی ادارتی صف بندی سے اس کا م کا آغاز کیا جاسکتا ہے اور اس سے نئی طرح کے سیاسی کام کی بنیادیں بھی کھڑی کی جاسکتی ہیں۔ ان کاموں میں دو کام بہت اہم ہیں۔

١۔ حلال رزق کی فراہمی کا بندوبست اولاً تحریک اسلامی کے اپنے کارکنان کے لیے اور ثانیاً عوام الناس تک اس کی توسیع کا انتظام

٢۔ لوگوں کے معاملات کے شرعی فیصلے کرنا تاکہ لوگ چھوٹے سے چھوٹے معاملے میں بھی اسلامی علمیت کی برتری کو تسلیم کرلیں۔ معاشرتی صف بندی کے ان کاموں کی طویل فہرست مرتب کی جاسکتی ہے جن سے حقیقتاً قوت اور اقتدار ہماری طرف منتقل ہوسکتا ہے۔ ان معاشرتی کاموں کے لیے مساجد اور مدارس کو محور ومرکز بنانا چاہیے اور تحفظ اسلامی کی جماعتوں (تبلیغی جماعت اور دعوت اسلامی اور سلاسل طریقت، مدارس) کے ساتھ مل کر یہ عظیم کام انجام دیا جاسکے۔

٭ پاکستان پر حکمرانی کرنے والے سب سیکولر لوگوں کی یہ شدید خواہش ہے کہ پاکستان کے اندر سرمایہ دارانہ ادارے مضبوط ہوں اور استعمار بھی اس کام کے لیے تیکنیکی اور مالی سپورٹ فراہم کرتا ہے اور کوشش کی جاتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ ان اداروں کے اندر سمو دئیے جائیں۔ اس نظام میں ہماری شمولیت سرمایہ داری کو مزید سندجواز عطا کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ تمام انقلابات (ایران، فرانس، روس) کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ غالب نظام کا انہدام اس ریاست کے متوازی نئے اداروں کے قیام کی وجہ سے ہی ممکن ہوتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہر جگہ ایسے ادارے ماقبل انقلاب وجود میں آچکے ہوتے ہیں جنہیں ہم ریاست کے اندر ریاست سے تعبیر کرسکتے ہیں۔

٭ الیکشن میں ہماری شمولیت نے ہمیں پیہم شکستوں سے دوچار کیا ہے۔ فیصلہ ہم نے کرنا ہے کہ اب بھی ہم نے پے درپے شکستیں کھانی ہیں یا پھر اپنی جدوجہد اسلامی خطوط پر مرتب کرنے کا کام کرنا ہے۔ اگرہم آئندہ کی حکمت عملی میں معاشرتی اداروں کی صف بندی کے کام کو اولیت دیں تو ان شاء اللہ تعالیٰ ہمارے لیے بہت سی نئی راہیں کھل جائیں گی۔

اسلامی انقلاب اور لبرل دستوری جدوجہد

ڈاکٹر پروفیسر عبدالوہاب

تحریکِ اسلامی بنیادی طور پر ایک ہمہ گیر تحریک ہے۔ اس تحریک کی سیاست، معاشرت ، تنظیمِ نو، کامیابی و ناکامی کو جانچنے کا پیمانہ اس اراداہ ِخدا وندی کا احیاء ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آنحضرتۖ پر نازل فرمایا ۔ جس کی تفسیر آپۖ نے فرمائی۔صحابۂ کرام نے جس تفسیر کا تحفظ فرمایا آئمہ امت نے جس کی ترویج فرمائی اورنقل کے ذریعہ جس طرح علماء کرام اور صوفیائے عظام نے جسے عوام الناس تک منتقل کیا۔ اسلامی تاریخ ہی نہیں پوری انسانی تاریخ میںتحفظِ اراداہ خداوندی کی ایسی کوئی مثال پیش نہیں کی جاسکتی۔

تحریکِ اسلامی کی رکنیت اور اس تحریک کے لیے اپنے تن من دھن کو وار دینے والے ہر زبان نسل میں نہ صرف پیدا ہوتے رہے ہیں بلکہ اس ہمہ گیر جدوجہد میں وہ اپنے دوسرے امتیوں کے ہم رکاب اور پشتی بان رہے ہیں۔تحریکات ِ اسلامی سے وابستہ افراد مختلف تاریخی ادوار میں مختلف چیلنجزکا مقابلہ کرتے چلے آئے اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ان کی حفاظت اور تائید فرماتے رہے ہیں۔

انیسویں صدی کے اواخر سے برصغیر پاک و ہند کی تحریکاتِ اسلامی کو جن مختلف  چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا ان میںسیکولرازم بھی ایک اہم چیلنج رہا ہے۔اللہ کے فضل و کرم سے تحریکات اسلامی نے علمی سطح پر سیکولرازم کا جم کرمقابلہ کیا اور امت کے عملی سرمائے کے تحفظ کا فریضہ بہ احسن و خوبی ادا کیا۔ لیکن اس کے باوجود بھی سیکولرازم اپنی گرفت آہستہ آہستہ مضبوط کرتا جارہا ہے ۔ زیرِ نظر مضمون میں اختصار کے ساتھ secularization کے اس عمل میں تحریکات اسلامی کے کردار سے بحث کریں گے تاکہ ان کمزوریوں کی نشاندہی کے ذریعے تحریکات ِ اسلامی کو ان نقائص سے محفوظ کیا جاسکے اور تحفظِ دین کی ہمہ گیر جدوجہد میںہمارا حصہ بھی شامل ہو جائے۔

تحریکات ِ اسلامی سے وابستہ اکابرین کی علمی و عملی جدوجہد کا یہ ثمر ہے کہ سیکولرازم کے داعی یہ بات ماننے پر مجبور ہیں کہ اسلامی معاشرے کو سیکولزائز کرنے کے لیے روایتی اسلامی علمیت سے امت کا تعلق منقطع کئے بغیر secularizationکا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ روایتی اسلامی علمیت کو جس علمیت کی بنیاد پر شکست دینا ممکن ہے فی زمانہ وہ علمیت ہے جو روشن خیالی (englightenmaent)کے فلسفیانہ مباحث سے اخذ کردہ ہے ۔ فکر روشن خیالی کی جدیدیت و رومانویت سے اخذ کردہ سیاسی سماجی اور معاشی نظام ہم پر کسی علمی اجتہاد کے ذریعے قائم نہیں کیے گئے بلکہ یہ ہمارے نو آبادیاتی ماضی کی گلی سڑی باقیات ہیں۔ یہ تاریخ کا جبر تھا کہ تحریکاتِ اسلامی کو ان سیاسی، سماجی اور معاشی نظام کے اندر احیائے اسلام کی جدوجہد کرنی پڑی اور کسی نہ کسی سطح پر نظام کے ساتھ مصالحت کرلینا بھی وقت کا تقاضہ قرار پایا۔

تحریکات اسلامی نے روشن خیالی سے اخذ کردہ سیاسی، سماجی، قانونی اور معاشی ڈھانچوں (جو کہ نامیاتی طور پر سیکولرنوعیت کے نظام کی بنیاد فراہم کرتے ہیں) میں شرکت کے ذریعے ان ڈھانچوں کو اسلامیانے کی کوشش کی۔ ان جوہری طور پر سیکولرڈھانچوں کی اسلام کاری کے عمل میں تحریکاتِ اسلامی سے وابستہ افراد کامیاب ہوئے ہوں یا نہ ہوئے ہوں لیکن اس نظام میں راسخ العقیدہ علماء حق کی شرکت سے معاشرتی، سیاسی، معاشی اور قانونی نظام کی  secularization کو اسلامی جواز ملنا شروع ہوگیا۔

ہم اسلامی جمہوریت کے ذریعے اسلامی انقلاب لانے میں کامیاب تو نہ ہوسکے لیکن اِس شرکت کے نتیجہ میں سیاسی جدوجہد کی secularizationکے عمل کو بہر حال تقویت پہنچی ۔ ہم اسلامی بینکاری اور اسلامی معاشیات کے ذریعے غیر سرمایہ دارانہ معاشی نظام تو نہ قائم کرسکے لیکن اس نظام میں شرکت سے سرمایہ داری کا اسلامی جواز ضرور فراہم کرتے چلے گئے۔ ہم اس قانونی نظام کو شریعت کے پابند شاید نہ کرپائے لیکن اس کی ادارتی صف بندی میں سیکولرازم کو ادارتی سطح پر جڑ پکڑ لینے میں معاون کردار ادا کرتے رہے۔

سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ تحریکاتِ اسلامی کی اس شرکت سےsecularization کے عمل کو کس طرح تقویت پہنچتی ہے۔ اس سوال کے جواب کے لیے ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ آیا اسلام محض عبادات اور احکامات کا ایک مجموعہ ہے یا اس کے ساتھ ساتھ اسلام ایک علمیت بھی ہے جو آنحضرتۖ ، صحابہ کرام، تابعین  تابعہ تابعین ، آئمہ امت، علماء کرام اور صوفیائے عظام کے قلوب میں موجزن رہی اور اس علمیت کے نور سے امت مسلمہ طاغوتی گھٹا ٹوپ اندھیروں میں صراط مستقیم پر قائم رہی اور اس علمیت سے رہتی دنیا تک انسانیت منور ہوتی رہے گی۔اگر اسلام ایک علمیت ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ کسی بھی نظامِ زندگی میں علمائے حق کی شرکت علومِ اسلامیہ کی دلیل کے بغیر ممکن نہیں لہٰذا علمائے حق کی کسی بھی نظام خواہ وہ سیاسی قانونی ، معاشی یا معاشرتی ہو تحریکاتِ اسلامی کے تسلسل کو قائم رکھنے کے لیے اس کی علمی توجیہہ کے بغیر وہ شرکت تحریکات اسلامی میں معتبر نہیں ہوسکتی۔ لہٰذا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ تحریک تنویر کی مابعدالطبعیاتی تصورات میں گندھے ہوئے سیاسی، معاشی اور قانونی نظام کو غیر اقداری ڈھانچے سمجھ کر اس میںاسلامی روح کو داخل کرنے کی کوشش کے باعث تحریکات اسلامی secularization کے عمل کو اسلامی جواز فراہم کرنے کی ذمہ دار گردانی جاسکتی ہیں۔

دستوریت و جمہوریت کے بارے میں تحریکات اسلامی کا رویہ واضح کرتا ہے کہ جمہوری سیاسی عمل محض احیاء اسلام کے حصول کا ذریعہ نہیں بلکہ اسلامی نظامِ اقتدار کا لازمی نتیجہ ہے۔ اس idealization کے ذریعہ نہ صرف ہم اپنی پوری سیاسی تاریخ سے اپنا تعلق منقطع کرلیتے ہیں بلکہ اپنے اسلاف کی سیاسی بصیرت اور اسلامی عدل کی تاریخیت کے بارے میں بھی مشکوک ہوجاتے ہیں۔

دستوریت و جمہوریت الوہیت انسانی کو نافذ کرنے کا فی زمانہ سب سے موثر سیاسی نظام ہے اور اسی سیاسی نظام سے الوہیت خدا وندی کے نفاذ کی کوشش میں مصروف ِ عمل تحریکات اسلامی ہر آنے والے دن اس نظام پر سمجھوتے پر سمجھوتے کرنے پر مجبور ہیں۔

خیر کی سیاست سے حقوق کی سیاست تک:

تحریکاتِ اسلامی بنیادی طور پر خیر کی طرف دعوت دینے اور اس خیر کے شخصی، سماجی اور ریاستی اظہار اور تحفظ کی صف بندی کرنے والی قوت ہیں۔ لہٰذا اصولی طور پر ”اراداہ خدا وندی” کو ایک ناقابل چیلنجNon-Contestableخیر کے طور پر تسلیم کرتی ہیں۔ حقوق و فرائض کا تانا بانا اسی تصورِ خیر سے اخذ کردہ ہے لہٰذا کسی حق کے ایسے نظام کو جو اس خیر سے مُبّرا  ہو ، نہ تو تسلیم کرتی ہیں نہ ہی حقوق کے کسی ایسے مجرد نظام کو تسلیم کرسکتی ہیں جو اس خیر سے اخذ کردہ نہ ہو جو” اراداہِ خدا وندی” آنخصرتۖ پر قرآن کی صورت میں نازل ہوا اور آپۖ کی سنت نے جس کی تفہیم کو ممکن بنایا۔

اسی طرح چونکہ حقوق و فرائض کا تمام تر نظام اراداہِ خداوندی اور سنت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اخذ کردہ ہے لہٰذا ان حقوق کی تفسیر اور تنسیخ بھی قرآن و سنت کی روشنی میں ہی ہوگی۔ لہذا تحریکاتِ اسلامی کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ کسی ایسے مجرد حقوق کے نظام کو نہ صرف تسلیم کرلے جو کہ اپنے تاریخی تجربات کی بنیاد پر کچھ اہل مغرب نے اخذ کرلیے بلکہ ان ہی مجرد حقوق کے نظام کے اندر اپنے مذہبی اور سیاسی تشخص کے تحفظ کی کوشش کریں۔

ہم سمجھتے ہیں کہ معاشرتی، سیاسی ، سماجی، معاشی اور قانونی سطح پر تحریکاتِ اسلامی secularization کے لیے نادانستہ طور پر جتنی آسانیاں پیدا کی ہیں۔ حقوق کی سیاست اختیار کرنا ان تمام compromizes کا  عشر ِ عشیر بھی نہیں۔ دستوریت و جمہوریت نے تحریکات اسلامی کے ذریعے secularization ہی کے عمل کو جو تقویت حقوق کی سیاست کی اسلام کاری کے ذریعے پہنچائی ہے دستوریت و جمہوریت کا تحریکاتِ اسلامی کے خلاف اور secularization کے حق میں سب سے بڑی کامیابی ہے۔

دستوریت اور جمہوریت:

دستوریت اور جمہوریت پر اتنا کچھ لکھا جاچکا ہے کہ ان اصطلاحات کے معنی و مطالب سے متعلق یہ ابہام پیدا ہوتا دکھائی دیتا ہے گویا ان اصطلاحات کے معنی self evident ہیں اور یہ فرض کرلیا گیا ہے کہ گویا نظامِ اقتدار سے متعلق ہماری تمام محرومیوں کا مداوا اگر کسی سیاسی نظام کے ذریعے ممکن ہے تو وہ دستوریت اور جمہوریت کے سوا کچھ نہیں۔ پیش ِ نظر موضوع پر قلم طرازی کے کئی تناظر ممکن ہیں۔ مثال کے طور پر:

]١[        دستوریت اور جمہوریت کی تاریخ

]٢[        دستوریت اور جمہوریت سے متعلق مختلف نظریات Liberal democracy (written and unwritten constitutional) Social democracyاسلامی جمہوریت constitutional democracy۔

]٣[        دستوریت اور جمہوریت کے مجرد اصولوں کی وضاحت جو حصول اقتدار،

             انتقالِ اقتدار ، نظامِ اقتدار کے ڈھانچے کا تعین کرتے ہیں۔

]٤[        دستوری و جمہوری سیاسی نظام کی آفاقیت سے متعلق مباحث کا احاطہ۔

]٥[        دستوری و جمہوری سیاسی نظام کی غیر اقتداری تفہیم اور اس کی کمزوریوں

             سے متعلق مباحث کا احاطہ۔

]٦[        دستوری و جمہوری سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں حقوق کی سیاست کا فروغ

             اور اس کے اقتداری  محرکات کا احاطہ۔

]٧[        دستوری و جمہوری سیاسی جدوجہد کے نتیجے  میں حق کی خیر پر فوقیت یا خیر

             کی حق پر فوقیت کی امکانات کا احاطہ۔

]٨[        دستوری و جمہوری سیاسی جدوجہد کا اسلامی تحریکوں کے انقلابی کردار پر اثر۔

]٩[        جمہوری و دستوری سیاسی جدوجہد کی پر امن اور کسی بھی غیر جمہوری سیاسی

             جدوجہد کے لازماًمتشدد ہونے پر ایمان کی نظریاتی اور تاریخی حقیقت

ہم اس مختصر سے مضمون میں دستوری و جمہوری سیاسی نظام اور اس کے دائرۂ اثر میں ہونے والی سیاسی جدوجہد میں مذہبی سیاسی تحریکوں کی کمزوریوں کی نشاندہی کریں گے جو آگے چل کر ان کی مذہبی شناخت کو ہی تبدیل کردیتی ہیں اور اسلامی انقلاب کا نعرہ محض ایک نعرہ ہی بن کر رہ جاتا ہے۔

مذہبی تحاریک بالعموم اور اسلامی تحاریک بالخصوص ایک مخصوص تصورِ خیر کی دعوت،اس خیر سے اخذ کردہ اقداری ترتیب کے مطابق معاشرتی عمل کی تنظیم نو  اور اس تصورِ خیرکے تحفظ اور ادارتی صف بندی کی خاطر نظامِ اقتدار کو اس تصورِ خیر کے تابع کرنے کے عزم کے ساتھ میدان عمل میں آیا کرتی ہیں۔ لہٰذا اسلامی شخصیت، اسلامی معاشرت اور اسلامی ریاست کے قیام کی جدوجہد تین الگ الگ اہداف نہیں بلکہ ایک کل کے جز ہیں۔

اسلامی تحریک کسی تصور خیر کی تلاش میں سرگرمِ عمل نہیں ہوتی بلکہ اس تصورِ خیر کی شخصی، معاشرتی اور ریاستی دائروں میںسرایت کی کوشش کرتی ہیں جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرتۖ پر وحی کیا، جسے صحابۂ کرام نے محفوظ کیا جو تابعین، تبع تابعین کے ذریعے علماء کرام اور صوفیائے عظام کے ذریعے ہم تک منتقل ہوا۔

لہٰذا اصولی طور پر اسلامی تحاریک خیر کی مرکزیت کی قائل ہوتی ہیں اور اس تحریک کے نزدیک شخصی، معاشرتی اور ریاستی حقوق کا تانا بانا اسی تصورِ خیر سے اخذ کردہ ہو تا ہے جو قرآن و سنت کے مطابق ہوں اور ان کی کوئی بھی تفسیر قرآن و سنت کے منافی نہ ہواس لحاظ سے اسلامی تحاریک جس سیاسی نظام سے نامیاتی طور پر منسلک و مربوط ہوتی ہے وہ اصولی طور پر ”خیر کو حق” پر فوقیت دیتا ہے۔ لہٰذا اس تحریک کا بنیادی وظیفہ اس خیر کی ترویج، دعوت، تحفظ اور ادارتی صف بندی کی کوشش اور اس مقصد کے حصول میں آنے والی مشکلات ، مصائب اور تکالیف کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔

دستوری و جمہوری ریاستی جدوجہد تحریکات اسلام کو اپنے اس اصولی مقصد سے دور کرتی چلی جاتی ہے، جس کے حصول کے لیے وہ تحاریک برپا کی جاتی ہیں۔ تحریکات اسلامی محض حقوق انسانی کے تحفظ کی تحاریک بن کر رہ جاتی ہیں۔ دستور ی جمہوری نظام حق کی خیر پر فوقیت کو نافذ کرنے کا نظام ہے۔

١۔ حقوق کی سیاست اغراض کی سیاست کو جنم دیتی ہے۔ اغراض کی سیاسی فضا میں کسی خیر کی دعوت مہمل چیز بن کر رہ جاتی ہے کیونکہ حقوق کی سیاست بنیادی طور پر فرد کا یہ حق تسلیم کرتی ہے کہ ہر فرد کو اپنے تصور خیر کے تعین کا یکساں اور برابر حق حاصل ہے۔ نیز کسی تصور خیر کو کسی دوسرے تصورِ خیر پر کوئی اقداری برتری حاصل نہیں۔

٢۔ حقوق کی سیاست خیر کو ایک انفرادی معاملہ بنادیتی ہے جو کسی بھی تحریک اسلامی کی عمومی جدوجہد کی نفی ہے۔تحریکاتِ اسلامی در اصل اس اجتماعی خیر کی احیاء ہی کی جدوجہد میں مصروف عمل ہوتی ہیں جو آنحضرتۖ کی نبوتِ کے صدقے ہم تک پہنچا ہے اور اسی خیر کی فرد، معاشرے اور ریاستی دائروں میںاظہار اور اطلاق کے لیے کوشاں رہتی ہیں۔

٣۔ حقوق کی سیاست plurality of goods (کثیر تصورات خیر) کی ادارتی صف بندی کا انتظام کرتی ہے جس کے باعث تحریکات اسلامی کے لیے ممکن نہیں رہ جاتا کہ معاشرے میں پنپنے والے کسی بھی ایسے تصورِ خیر کو جسے حقوق انسانی سے تو تحفظ حاصل ہو لیکن اس کے اظہار سے اقدار اور تشخصِ اسلامی کی نفی ہو مخالفت کرے۔

٤۔ اس طرح حقوق کی سیاست آہستہ آہستہ  Secularization کے لیے راہ ہموار کرتی چلی جاتی ہے(plurality of goods) ایک ایسا illusionپیدا کردیتی ہے جس میں سیکولر خیالات تحریکاتِ اسلامی کے لیے قابلِ برداشت ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اور کارکنانِ تحریکات اسلامی خیر کی دعوت اور حقوق کی سیاست کے باہمی تضاد کے باعث confusionکا شکار ہو جاتے ہیں۔ تحریکی کام کے نتیجے میں روز بروز اپنے اصولی موقف سے پیچھے ہٹنے اور اقتدارِ اسلامی سے متصادم تصورات خیر کو انسانی حقوق کی چھتری تلے پنپتے دیکھتے ہوئے تحریکاتِ اسلامی کے کارکنان اس پورے سیاسی عمل سے دل برداشتہ ہو جاتے ہیں اور تحریکات اپنے مخلص کارکنان سے محروم ہو جاتی ہیں۔

٥۔ حقوق کی سیاست میں تحریکات ِاسلامی کی شرکت ان کے تصورِ خیر کو اسی سطح پر لے آتی ہے جو کسی بھی فرد کے نفسِ رذیلہ کی پیداوار ہو۔ اس طرح یہ شرکت سیاسی، سماجی اور قانونی اداروں کی secularization کا جوازبنتی چلی جاتی ہے۔

٦۔ حقوق کی سیاست اصولی طور پر ریاست سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ خیر کے معاملے میں غیر جانب دار رہے اور حقوق کے تحفظ کے لیے پوری ریاستی مشینری کو استعمال کرے۔ تحریکات اسلامی سے متعلق رہنما جب حقوق کی سیاست کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتاہے کہ ریاست احیاء اسلامی اور تشخص اسلامی کے معاملہ میں بھی غیر جانبدار رہے۔ لیکن عملی طور پر یہ تحریکات ریاست سے یہ مطالبہ کرتی ہیں کہ الوہی تصور خیر کے معاملے میں جانبدار رہے اور تمام حقوقِ انسانی کی تنسیخ کو اس الوہی تصور خیر کے تقدس سے مشروط کردے۔ لیکن یہ ایک ایسا احمقانہ مطالبہ ہے جس کے نتیجے میں تحریکات ِ اسلامی کے ذہین کارکنان اپنے اکابرین کی سیاسی بصیرت کے بارے میں مشکوک ہو جاتے ہیں۔

٧۔ حقوق کی سیاست کو اختیار کرنے کی ایک بنیادی توجیہیہ تحفظ تحریکات اسلامی بھی قرار دی جاتی ہے۔ لیکن اول تو اس کے ذریعے حقیقی معنی میں تحریکات اسلامی کو تحفظ حاصل نہیں ہوتا الجیریا، سوڈان،افغانستان،عراق ، لبنان ، کشمیر ، چیچنیا وغیرہ میں تحریکات اسلامی کے کارکنان کو حقوق کی سیاست کون سا تحفظ فراہم کرسکی۔لیکن اس حقوق کی سیاست کے باعث تحریکاتِ اسلامی جو compromizes کرتی ہیں وہ تحریکات کی جڑیں کاٹنے کے مترادف ہیں مثلاً

١۔تحریکات اسلامی الوہی تصور خیر کو contestableمان لیتی ہیں جس کے باعث

 مذہبی تفسیر فرد کا انفرادی معاملہ بن کر رہ جاتی ہے۔

٢۔ حقوق اجتماعیت کے نہیں فرد کے ہوتے ہیں۔ لہٰذا حقوق کی سیاست اجتماعتوںکی  تحلیل کا باعث بنتی چلی جاتی ہے۔ خیر ایک انفرادی معاملہ بن کر رہ جاتا ہے اور وہ خیرجو  مذہبی معاشرت اور اجتماعیت کی شیرازہ بندی کرتی ہے  پارہ پارہ ہو کر رہ جاتا ہے۔

٣۔ حقوق کی سیاست حقوق انسانی کی معاشرتی، سماجی، قانونی اور معاشی ادارتی صف بندی میں داخل ہو کر اس تصورِ خیر کو اجاگر کرنے کا باعث بنتی ہے جو مغربی تصور علمیت، مغربی تصور اقتدار اور سب سے بڑھ کر مغربی مابعدالطبعیات جس کے بطن سے یہ حقوق انسانی اخذ کردہ ہیں۔ اس طرح تحریکات اسلامی مجرد حقوق کے نام پر اس تصور خیر کی ادارتی صف بندی کے ہراول دستے کے طور پر کام کرتی ہیں جو بنیادی طور پر Secularization کو  Naturalize کرتاہے۔

اسلامی خلافت اور موجود ہ مسلم ریا ستوں کا تاریخی تناظر میں موازنہ

مولانامحمد زاہد صدیق مغل

مقاصد وترتیب

خلافت اسلامیہ کا قیام مسلمانوں پر اللہ تعالی کے مقرر کردہ فرائض میں سے ایک اہم فرض ہے جس کے قیام کو  امت مسلمہ نے دور نبوی ۖ سے لیکرخلافت عثمانیہ کے زوال تک بغیر کسی وقفے کے جاری و ساری رکھا۔ اس مضمون میں ہم خلافت اسلامیہ کا تاریخی تجزیہ کرکے یہ بتانے کی کوشش کریں گے کہ موجودہ مسلم ریاستیں کسی بھی معنی میں خلافت کہلانے کی مستحق نہیں لہذا انکے خلاف خروج و جہاد کے بارے میں وہ موقف اختیار کرنا درست نہیں جو علماء متقدمین نے امارت اسلامیہ کے تناظر میں اختیار کیا تھا۔ مباحث مضمون کو ہم تین حصوں میں بیان کریں گے:

١)    پہلے حصے میں ہم تاریخ اسلامی کے تسلسل کی اہمیت پرروشنی ڈالیں گے ، جس سے مطالعہ تاریخ اسلامی کا درست طریقہ معلوم ہوگا

٢)    پھر خلافت اسلامی کی درجہ بندی بیان کرکے مسئلہ خروج پر بحث کریں گے

٣)    آخر میں موجودہ مسلم ریاستوں اور اسلامی خلافت کا اصولی فرق واضح کرنے کی کوشش کریں گے جس سے موجودہ دور میں مجاہدین کی انقلابی جدوجہد کی حیثیت واضح ہو گی

مضمون کے آخر میں موضوع سے متعلق اہم سوالات و اشکالات کے جوابات بھی شامل کئے جائیں گے

                                                            وما توفیقی الا باللہ

(١)اسلامی تاریخ کے تسلسل کی اہمیت

 مغربی تہذیب کے غلبے کے نتیجے میں جو فکری گمراہیاں مسلمانوں میں عام ہوئیں ان میں سے ایک اسلامی تاریخ کو جمہوری پیمانوں پر جانچنے کا رویہ بھی ہے۔ جب اسلامی تاریخ کو اس پیمانے پر پرکھا گیا تو کئی مفکرین اس عجیب و غریب نتیجے پر پہنچے کہ اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ دو علیحدہ چیزیں ہیں۔ ان مفکرین کو خلافت راشدہ کے بعد کی ساری اسلامی تاریخ ایک غیر اسلامی تاریخ دکھائی دینے لگی جسے بدنا م کرنے کیلئے  ‘ملوکیت’  بمعنی ‘خلافت کی ضد’  کا عنوان دیا گیا ۔ خلافت و ملوکیت کی یہ تفریق اسلامی علمیت کیلئے ان معنی میں اجنبی تھی کہ بیسویں صدی سے پہلے کسی معتبر اسلامی مجتہدنے اسلامی تاریخ کا تجزیہ اس تصور دوئی کے ساتھ بیان نہیں کیا کیونکہ امام ماوردی اور ابن خلدون سے لیکر شاہ ولی اللہ  تک تمام سیاسی مفکرین نے اسلامی تاریخ کو درجات خلافت کی تطبیق ہی کے تناظر میں لکھا ہے۔

ان جدید مفکرین نے اپنے تجزیے کی بنیاد اس مفروضے پر رکھی کہ ملوکیت لازماً بری اور غیر اسلامی شے ہے اور اسلام کا  ‘اصلی’  سیاسی نظام جمہوری اقدار کے ہم معنی ہے ۔ اس مفروضے کی صداقت پر انہیں اتنا یقین تھا کہ اسکے حق میں کوئی قطعی شرعی نص پیش کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی گئی اور محض قیاس آرائیوں کے زور پر بڑے بڑے نتیجے اخذ کرلئے گئے۔ حالانکہ قرآن مجید کی کسی ایک آیت یا رسول اللہ ۖ کی کسی ایک بھی حدیث میں یہ نہیں کہا گیا کہ ملوکیت حرام ہے اور اس سے بچو۔ حیرت ہے جو قرآن مسلمانوں کی معاشی و معاشرتی تنظیم میں سود و زنا کو علی الاعلان حرام قرار دیتا ہے وہی قرآن سیاسی تنظیم کے سب سے بڑے مزعومہ شر یعنی ملوکیت کی حرمت بیان کرنے پر مکمل طور پر خاموش ہے۔ قرآن سے ملوکیت کی حرمت ثابت کرنا تو رہا درکنار خود قرآن مجید سے اسکا ثبوت ملتا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں کئی انبیاء کرام کا طلب ملوکیت کیلئے دعا فرمانا ذکر ہے اور اللہ تعالی نے انہیں اس دعا کرنے سے منع نہیں فرمایا۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ ایسے تمام مفکرین تضاد بیانی کرتے ہوئے حضرت عمر بن عبد العزیز  کے دور حکومت کو خلافت راشدہ کے مثل مانتے ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ آپ  بھی تو ایک ملک ہی تھے پھر انکی تعریف کے کیا معنی ؟پھر یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ اگر آج کے دور میں  ‘خدائی جمہوریت’  اور  ‘اسلامی جمہوریت’  کے نام پر خلافت کی  ‘جمہوری تعبیر’  کی جاسکتی ہے تو  ‘شخصی تعبیر ‘  کیو نکر نا ممکن ہے، جبکہ اول الذکر کی نہ تو کوئی دلیل کسی معتبر مجتہد کے ہاں ملتی ہے اور نہ ہی اسکی نظیر خلافت راشدہ میں موجود ہے جبکہ موخر الذکر کی نظیر  ‘نامزدگی’  کی صورت خلافت راشدہ میں بھی ملتی ہے اور تمام مسلم آئمہ مثلاً امام ماوردی، ابن خلدون اور شاہ ولی اللہ  سب کے نزدیک اسکی اجازت ہے۔

اصل بات یہ ہے کہ ملوکیت لازماً غیر اسلامی نہیں ہوتی اگرچہ یہ آئیڈیل بھی نہیں ہے ۔ جو شے ملوکیت کو بری بناتی ہے وہ اسکا بذات خود ملوکیت ہونا نہیں بلکہ اسکا غلط استعمال ہے اور یہ بات صرف ملوکیت کیلئے ہی نہیں بلکہ ہر طریقہ حکومت کیلئے درست ہے۔ دورحاضر کے مفکرین نے اسلامی تاریخ کی ملوکیت کو کسی مطلق العنان بادشاہت پر قیاس کررکھا ہے جہاں بادشاہ کا حکم نامہ قانون کا ماخذ ہو تا ہے ، جب کہ یہ مفروضہ ہی سرے سے غلط ہے کہ اسلامی تاریخ میں کوئی ایسی مطلق العنان ملوکیت قائم تھی کیونکہ ہماری ملوکیت مذہبی تھی جسکی تفصیل آگے آرہی ہے۔ لیکن اس بیان سے قبل ہم ان منطقی نتائج کا ذکر کرنا چاہتے ہیں جو اس مفروضے کو مان لینے کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں کہ ملوکیت لازماً غیر اسلامی ہوتی ہے اور خلافت راشدہ کے بعد کوئی غیر اسلامی نظام قائم ہوگیاتھا۔

١)   ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ اسلامی نظام زندگی کی عمر صرف تیس برس تھی

٢)  ا ب اولاً تو اسلامی نظام زندگی قائم نہیں ہو سکتا اور اگر ہو بھی گیا تو زیادہ عرصہ قائم نہ رہے گاکیونکہ جب آپۖ کے صحابہ  جیسی عظیم ہستیاں ہی اسے تیس سال سے زیادہ قائم نہ رکھ سکیں تو ہم جیسے نا تواں اور کمزور ایمان والوں کی کیا حیثیت ؟

٣)  جب اسلام ماضی کے انسانوں کے سیاسی مسائل حل کرنے میں ناکام رہا ہے تو دور جدید کے پیچیدہ انسانی مسائل کیونکر حل کرپائے گا ؟ دور جدید میں اسلام کی عملیت کے امکانات صرف اسی حد تک سمجھے جاسکتے ہیں جس قدر یہ ماضی میں عمل پذیر رہ چکا ہو۔ اگر اسلامی تاریخ نا کامی کا شاخسانہ ہے تو غیر مسلم یہ نتیجہ نکالنے میں حق بجانب ہونگے کہ اسلام میں عمل پذیری کی وہ قوت ہی نہیں جسکے ذریعے یہ اپنے ماننے والوں کی زندگیاں تبدیل کرسکے

٤)  اسلام کو ماضی اور حال کے مردان حق کی زندگی کی روشنی میں ایک تاریخی حقیقت کے طور پر پیش نہ کرنے کا مطلب طالبان حق سے یہ کہنا ہے کہ اسلام محض ایک ایسا خیالی نظریہ یا مردہ فلسفہ ہے جو ماضی بعید میں اپنی موت مر چکا، جسکا ذکر صرف کتابوں میں ہی مل سکتا ہے نیز موجودہ عملی حالات میں یہ نا ممکن العمل ہے ۔  اسکے بغیر اسلام کسی عملی نمونے اور زرخیز تاریخی ثقافت نہیں بلکہ صرف چند تخیلاتی، نا قابل فہم، مبہم اور غیر متاثر کن اصولوں کا نام رہ جاتا ہے جسکا عملی زندگی سے کوئی تعلق ہی نہیں

٥)   پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ پوری اسلامی تاریخ کے مسلمان بشمول تمام مفسرین، محدثین ، مجتہدین ، صوفیاء یہاں تک کہ مجددین امت بھی ایک جاہلی نظام زندگی کے ما تحت زندگیا ں گزارتے رہے  (العیاذ باللہ)

٦)   اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اگر ملوکیت کے بعد ایک غیر اسلامی جاہلی نظام آگیا تھا تو اسکے قیام و استحکام کا الزام معاذ اللہ صحابہ کرام  پر پڑتا ہے ، یعنی اسے قائم کرنے والے امیر معاویہ اور خاموش رہ کر استحکام دینے والے دیگر صحابہتھے

اگر کوئی ان نتائج کو قبول کرنے کیلئے تیار ہے تو بھلے اسلامی تاریخ کو جہالت کا شاخسانہ قرار دے مگر ایک مسلمان کیلئے تو یہ اسکے ایمان گنوانے کے مترادف ہی ہوگا کہ وہ صحابہ کرام پر ایسے رکیک حملے کرنے کی جرات کرے۔

اسلامی تاریخ کو کوسنے کی ایک وجہ یہ بھی گھڑلی گئی ہے کہ ہماری تاریخ میں اسلامی تعلیمات اپنی سو فیصد آئیڈیل شکل میں موجود نہ تھیں ۔ یہ ایک ایسا غیر معقول رویہ ہے جسکی زد سے تو خلافت راشدہ بھی نہیں بچ سکتی۔ آخر یہ دعوی کون کر سکتا ہے کہ خلفائے راشدین معصوم تھے؟ اور در حقیقت اسی گروہ کے لوگو ں نے اپنے تجزیوں میں خلفائے راشدین پر بھی تنقیدیں کی ہیں تو پھر یہ سو فیصد کے فلسفے کا نشتر صرف ملوکیت ہی کو کیوں گھائل کرتا ہے؟ نیز ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ان مفکرین کی جدوجہد کے نتیجے میں اگر کوئی اسلامی ریاست قائم ہو گی تو کیا وہ  ‘سو فیصد آئیڈیل خلافت ‘  ہوگی؟ پھر جب ان مفکرین سے پوچھا جائے کہ چلئے یہ بتائیے کہ خلافت اسلامی کیا ہے تو اسکے لئے وہ جتنی بھی شرائط پیش کرتے ہیں وہ سب کی سب دور ملوکیت میں پوری ہوجاتی ہیں لیکن اسکے باوجود وہ ملوکیت کو خلافت نہ ماننے پر مصر رہتے ہیں۔ ان مفکرین کے ایسے تضادات میں ملوث ہوجانے کی تین بڑی وجوہات ہیں:

اولاً:   اسلامی نظام سیاست پر گفتگو کرتے وقت متقدمین کو یکسر نظر انداز کرکے جمہوریت کے تناظر میں اسلامی نظام ریاست کی تعبیر نوع بیان کرنا ۔ چنانچہ آپ کسی بھی جدید مفکر کی سیاسی فکر پڑھتے چلے جائیے کسی ایک مقام پر بھی وہ اپنے تصور ات مثلاً   ‘خدائی جمہوریت’  (Theo-democracy) یا  ‘اسلامی جمہوریت’  کے حق میں متقدمین کا قول پیش نہیں کرتے کیونکہ یہ تصور تو انہوں نے فارابی، جان لاک اور روسو وغیرہ سے مستعار لیا ہوا ہے جسکا اسلامی علمیت میں کوئی نام و نشان ہے ہی نہیں

ثانیاً:    حکومت کو ریاست کے ہم معنی سمجھ لینا، حالانکہ حکومت تو ریاست (نظام اقتدار)  کا محض ایک جز ہے نہ کہ کل ریاست ۔ نظام اقتدار کا دائرہ خاندان سے لیکر حکومت تک پھیلا ہوتا ہے جس میں نظام تعلیم، معاشرتی تعلقات کی حد بندیاں ، نظام تعزیر ، قضا ، حسبہ اور انہیں نافذ کرنے والے ادارے وغیرہ سب شامل ہوتے ہیں جن میں سے ایک اہم مگر جز وی ادارہ حکومت بھی ہوتا ہے۔ دور ملوکیت میں جو اصل خرابی پیدا ہوئی وہ یہ تھی کہ  ‘اہل الرائے ‘  کے مشورے سے خلیفہ کی نامزدگی کا نظام ختم ہو گیا اور ریاست و حکومت کے اس فرق کو نہ پہچاننے کی وجہ سے خلافت راشدہ کے بعد اسلامی نظام اقتدار میں آنے والی جزوی تبدیلی کو جدید مفکرین نے بذات خود اسلامی ریاست کی تبدیلی پر محمول کر لیا ۔ ریاست اور حکومت کا فرق اور اسکا تعلق ایک مکمل مضمون ہے جسکی تفصیلات یہاں بیان کرنا ممکن نہیں، البتہ بعض مقامات پر ہم اسکی طرف اشارہ کریں گے

ثالثاً:    ریاست و حکومت کے اس فرق کو نہ سمجھنے کی بناء پر بادشاہوں کو مطلق العنان اور ہر قید سے مکمل طور پر آزاد فرض کرلینا۔ اس میں شک نہیں کہ بادشاہ اگرچہ متغلب تھے مگر علماء کی بالادستی اور دیگر سیاسی و معاشرتی قیود سے مکمل طور پر بے نیاز نہ تھے۔ مثلاً خلافت عثمانیہ کے زمانے میں جب اندلس کے عیسائی مسلمانوں پر ظلم ڈھا رہے تھے تو سلیم اول جو انتہائی بہادر مگر سخت مزاج بادشاہ تھا نے اسکے جواب میں سلطنت عثمانیہ کی عیسائی آبادی کے قتل عام کا ارادہ کیا۔ مگر شیخ الاسلام علی جمالی نے اسے یہ فیصلہ واپس لینے پر مجبور کردیا، اور اسلامی تاریخ میں اس نوع کی بے شمار مثالیں موجود ہیں ۔ مکمل مطلق العنان حکمرانی محض ایک فرضی خواب ہے جو عملاً کبھی وقوع پذیر نہیں ہوتا۔ اسکی مثال گھر کے ادارے سے سمجھی جاسکتی ہے جہاں مرد باوجود قوام ہونے کے اولاد کے بالغ ہوجانے کے بعد اپنی بیوی اور بچوں کی خواہشات اور رائے کا احترام کئے بغیر نہ تو اپنا اقتدار قائم رکھ سکتاہے اور نہ ہی اپنے فیصلے مسلط کرسکتا ہے۔ اسی طرح ایک خاندان کا بزرگ یا گاؤں کا سر پنچ وغیرہ اپنی مرضی چلانے کیلئے آزاد نہیں ہوتا۔ بالکل اسی طرح بادشاہ مختلف قبیلوں کے سردار، علماء ، قاضی ، سلطنت کے دیگر عمال و صوفیاء کو نظر انداز کرکے زیادہ دیر حکمرانی نہ کرسکتا تھا، اسے اپنے اقتدار کی سند کیلئے لامحالہ مذہبی جواز ہی ڈھونڈنا پڑتا تھا۔

( ٢)خلافت اسلامی کے درجات

اس مختصر وضاحت کے بعد اب ہم مطالعہ تاریخ اسلامی کے اس طریقے کی وضاحت کرتے ہیں جو علمائے متقدمین کے دور سے مقبول رہا ہے جسکے مطابق اسلامی تاریخ کو خلافت و ملوکیت کی تفریق کے بجائے درجات خلافت کی تطبیق کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔ اسلامی خلافت وریاست (نظام اقتدار) کی بنیاد نیابت رسولۖ ہے، یعنی یہ ماننا کہ انفرادی اور اجتماعی تمام معاملات میں فیصلے اس بنیاد پر ہونگے کہ شارع کی رضا کیا ہے ، حکمران خود بھی اس پر عمل کریگا اور عوام کو بھی عمل کرائے گا ۔ اس نیابت میں درجات کی مثال درحقیقت درجات ایمان کی سی ہے ، یعنی جیسے مسلمانوں کے ایمان کے درجات ہوتے ہیں، کچھ وہ ہیں جنہیں ہم ابو بکر و عمر وصحابہ کہتے ہیں ، کچھ اس سے کم ایمان رکھتے ہیں، کچھ ہم جیسے کمزور ایمان والے ہیں، ان میں بھی کچھ کم درجے کے فاسق ہیں اور کچھ انتہا ئی درجے کے فاسق، لیکن اس توافق درجات کے باوجود سب کے سب مسلمان ہی ہیں ۔ گو کہ مطلوب اصل تو صحابہ  جیسا ایمان ہی ہے لیکن اس درجہ ایمانی سے کم ایمان والے لوگوں کو ہم مسلمان کہنے کے بجائے کچھ اور نہیں کہتے۔ بعینہ یہی معاملہ خلافت کا بھی ہے کہ اس میں ایک درجہ وہ ہے جسے ہم  ‘خلافت راشدہ ‘  کہتے ہیں جو خلافت اسلامی کے اظہار کا بلند ترین درجہ تھا جبکہ اسکے بعد گو کہ خلافت تو موجود رہی مگر اسکے اظہار کا وہ معیاری درجہ مفقو دہوگیا۔ اب اگر کوئی یہ کہے کہ چونکہ خلافت راشدہ کے بعد خلافت کا آئیڈیل نظام باقی نہ رہا اور مطلوب اصلی وہی نظام ہے لہذا ہم بعد والے دور کو خلافت کے بجائے کسی اور نام (مثلاً مسلمانوں کی تاریخ) سے پکاریں گے تو یہ کہنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخض یہ کہے کہ چونکہ آئیڈیل اور مطلو ب ایمان تو صحابہ  کا ہی تھا اور اسکے بعد مطلوب ایمان کا درجہ قائم نہ رہا لہذا ہم بعد والے لوگوں کو مسلمان کے علاوہ کچھ اور (مثلاً مسلمانوں جیسے) کہیں گے۔

عقلاً بھی خلافت کو درجات کے تناظر میں دیکھنا قرین قیاس ہے کیونکہ انسانی زندگی کا اظہار فرد، معاشرے اور ریاست کی جن تین سطحوں پر ہوتا ہے اس میں زوال پذیری کی تین اہم خصوصیات ہوتی ہیں  (١)  پورے نظام حیات پر بیک وقت زوال طاری نہیں ہوجاتا بلکہ زوال جزواً جزواً اثر پذیر ہوتا ہے،  (٢)  زوال یکدم کسی حادثاتی واقعے مثلاً زلزلے کے طور پر نازل نہیں ہوجایا کرتا کہ لوگ آناً فاناً ایک طریقہ حیات چھوڑ کر کسی نئے طرز زندگی کو اختیار کرلیتے ہیں، بلکہ معاشرتی تعلقات کے نتیجے میں ابھرنے والی روایتی اکائیوں اور اداروں کی تدریجاً تحلیل کی صورت میں آیا کرتا ہے،  (٣)   زوال کسی خط مستقیم (Linear relation) کی مانند نہیں ہوتا کہ ہمیشہ اوپر سے نیچے کی طرف ایک مسلسل عمل کی طرح چلتا ہی چلا جاتا ہے بلکہ زوال کے مجموعی عمل کے اندر بھی نشیب و فراز آتے رہتے ہیں، یعنی کبھی پستی زیادہ ہوتی ہے اور کبھی کم۔ یہ بات رسول اللہۖ کے اس حدیث میں ارشاد فرمائی گئی جسے ہر جمعے کے خطبے میں دھرایا جاتا ہے   خیر القرون قرنی ثم الذین یلونہم ثم الذین یلونہم، یعنی امت مسلمہ کا زوال تدریجی عمل ہوگا نہ کہ کوئی حادثاتی واقعہ ۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ خلافت راشدہ کے بعد تنزل کا اظہار صرف ریاست و حکومت کی سطح پر ہی نہ ہوا تھا، بلکہ یہ زوال انفرادیت اور معاشرت کی سطح پر بھی تھا ، یعنی دنیا سے بے رغبتی، فکر آخرت، اتحاد امت، استیصال کفر کا جذبہ، داخلی شر پسندی سے حفاظت وغیرہ کا وہ ابتدائی ماحول بھی قائم نہ رہا تھا جو خلافت راشدہ کا خاصہ تھا اور یہ انفرادیت و معاشرت کا تنزل ہی تھا جسکا اظہار ریاست کی سطح پر ہمیں  ‘خلافت راشدہ ‘  سے  ‘محض خلافت ‘  کی تبدیلی کی صورت میں نظر آتا ہے۔

خلافت کا معنی جیسے بیان کیا گیا تمام معاملات میں نیابت رسولۖ ہے۔ جیسے ہر ریاست کے ذمے چند اندرونی اور بیرونی مقاصد کا حصول اور اسکے لئے لائحہ عمل وضع کرنا ہو تا ہے، اسی طرح خلافت کے بھی دو تقاضے ہیں: ریاست کے اندرونی معاملات کی سطح پر اقامة دین کیلئے نفاذ شریعت ، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی بنیاد پر نظام اقتدار کی تشکیل اور بیرونی معاملات میں اعلاء کلمة اللہ کیلئے جہاد وتبلیغ کا کام مر تب کرنا۔ درجات خلافت کی تفصیلات درج ذیل طریقے سے بیان کی جاسکتی ہے:

الف)    خلافت راشدہ   اس کا مفہوم یہ ہے کہ نیابت رسولۖ میں بندگان خدا کی اصلاح ، امر بالمعروف ونہی عن المنکر ، نفاذ شریعت واعلاء کلمة اللہ کیلئے جہاد کے سواء ذاتی سطح پر ہرگز بھی کچھ مطلوب نہ ہو ۔ یعنی اتباع نفس و مرغوبات نفسانیہ کا ہرگز بھی کوئی گذر نہیں ہوتا یہاں تک کہ رخصتوں ، مباحات و توسع کے بجائے عزیمت ، تقوی و احتیاط کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے ۔ اس رویے کی وضاحت خلفائے راشدین کے طرز عمل کی دو مثالوں سے ہوجاتی ہے:  (١)  باوجود اسکے کہ اسلام میں خلیفہ کیلئے متوسط درجے کا معیار زندگی اختیار کرنا جائز ہے خلفائے راشدین نے ہمیشہ کم سے کم تر پر ہی اکتفا کیا  (٢)  باوجود اسکے کہ خلیفہ کیلئے اپنی حفاظت کا مناسب بندوبست کرنا جائز ہے خلفائے راشدین نے کبھی اسکا اہتمام نہ فرمایا حالانکہ تین خلفاء شہید تک ہوئے ۔ نیابت رسولۖ میں اختیار عزیمت و احتیاط کا یہ پہلو ہر معاملے میں اپنایا جاتا تھا اور خلفائے راشدین کے طرز عمل سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ کسی بھی خلیفہ راشد نے اقتدار کو اپنے ذاتی مفادات کیلئے استعمال کرنے کی ادنی درجے میں بھی کوشش نہیں کی۔ درحقیقت یہی وہ پہلو ہے جو خلافت رشدہ کو محض خلافت سے ممیز کرتا ہے ۔

ب )     خلافت /امارت / سلطنت   سے مراد یہ ہے کہ نفاذ شریعت و جہاد کے ساتھ ساتھ دنیاوی مقاصد، مثلاً مرغوبا ت نفسانیہ ، مال وجاہ کی خواہش، اقرباء پروری، امصار و بلدان پر تسلط اور طول حکومت کی آرزو وغیرہ بھی شامل حال ہوجاتے ہیں ۔ اس ہوا ہوس کے بھی کئی مراتب ہیں جنکی بناء پر خلافت کی درجہ بندی کی جاسکتی ہے:

اول:    امارت عادلہ  کا مفہوم یہ ہے کہ مسلمان حکمران عادل ہو، جیسے عمر بن عبد العزیز، سلیمان بن عبد الملک، اورنگ زیب عالمگیر وغیرہم ۔ یعنی نیابت رسولۖ میں حاکم کے ہاتھ سے ظاہر شریعت نہ چھوٹتی ہو، نہ ہی فسق و فجور میں مبتلا ہوتا ہو۔ اگر معصیت میں مبتلا ہو بھی جائے تو اس پر دوام اختیار نہ کرتاہو نیز مباحات کے درجے میں لذات نفسانیہ تلاش کرلیتا ہو

دوئم :    امارت جابرہ   سے مراد فاسق مسلمان حکمران ہے لیکن اسکا فسق انتہائی درجے کا نہ ہو۔ یہ ایسا حاکم ہوتا ہے جس سے بعض احکامات شرعیہ میں کوتاہی ہوجاتی ہو، یعنی اطاعت نفس میں دائرہ شریعت سے باہر نکل کر فسق و فجور میں مبتلا ہو جاتا ہے اور پھر اس پر پشیماں بھی نہیں ہوتا اور نہ ہی توبہ کرتا ہے لیکن اس کے باوجود نفاذ شریعت و مقاصد شریعت بجا لانے کی سعی کرتا رہتا ہے

سوئم :    امارت ضالہ   کا معنی ایسا مسلمان حکمران ہے جو انتہائی فاسق ،فاجر و ظالم ہو۔ جو زمانہ بھر کا فاسق و عیاش ہوتا ہے، جبر وتکبر ، ظلم و تعدی کی بنیاد ڈالتا ہے، نفس پرستی میں ہمت صرف کرتا ہے، فسق و فجور کے طریقوں کو عام کرنے کو اپنی پالیسی بنا لیتا ہے

چہارم  :    ا مارت کفر   ایک ایسی ریاست ہے جہاں  حکمران کافر ہو یا کفریہ احکامات پر عمل پیرا ہو ۔ ایسا شخص خود ساختہ قوانین کو شرع پر ترجیح دیتا ہے، سنت و ملت کے طریقے کی اہانت اور اسپر طنز و اعتراض کرتا ہے ، الحاد و زندقہ کی بنیاد رکھتا ہے، دشمنان اسلام کے ہاتھ مضبو ط کرتا ہے

اس تقسیم سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہماری تاریخ میں اقتدار ( نظام جبر ) بحیثیت مجموعی اسلامی تھا گو کہ اچھی بری حکومتیں آتی رہیں ۔ یقیناً اسلامی تاریخ میں برائیاں رہی ہیں، مگر اس کی وجہ یہ نہیں کہ اسلامی ریاست ناپید ہوگئی تھی، بلکہ صرف اسلئے کہ مسلمان فرشتے نہیں بلکہ دوسرے انسانوں کی طرح انسان ہی ہیں جن سے غلطی اور گناہ کا صدور ممکن ہے۔ چنانچہ بیرونی طور پر اسلام مخالف طاقتوں کا مقابلہ اور ان سے جہاد اور اندرون ملک مذہبی و تمدنی زندگی کے تمام شعبوں میں احکامات شرعیہ کے نفاذ کے مقاصد مختلف درجات میں ادا کئے جاتے رہے، گو خلافت راشدہ کے بعد اسکے ساتھ ذاتی مفادات اور عملی کوتاہیوں کے معاملات بھی شامل حال ہوگئے تھے ۔

مسئلہ خروج کی وضاحت

خروج سے مراد فاسق مسلمان حکمران کے خلاف بذریعہ قوت نہی عن المنکر کرناہے۔ خروج کی اصل اطاعت امیر کااطاعت شارع سے مشروط ہو نا اور مسلمانوں پر امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا لازم ہونا ہے ۔ یہ امر کہ خروج کب کیا جائے علماء کے ہاں ایک مختلف فیہ مسئلہ ہے ۔ اس مسئلے میں درج ذیل امور اہمیت کے حامل ہیں:

٭  علماء کا اس امر میں اجماع ہے کہ امام عادل کی اطاعت واجب ہے اور اسکی اطاعت سے نکلنا ان تمام وعیدوں کا مصداق بننا ہے جو احادیث میں الجماعة سے علیحدگی اختیار کرنے والوں کیلئے بیان ہوئی ہیں۔ ایسے عادل حاکم کا تختہ الٹنے کیلئے ہتھیار اٹھانا یا اسکے اقتدار کو کمزور کرنے کیلئے گروہ بندی کرنا بغاوت کے زمرے میں شمار ہوگا اور ایسا کرنے والوں کے ساتھ باغیوں کا سا معاملہ کیا جائے گا۔

٭  اسی طرح خروج کے مفاسد سے بچنے کیلئے امارت جابرہ کے خلاف بھی خروج نہیں کرنا چاہئے کیونکہ یہ چھوٹے منکر کی جگہ بڑے منکر کا خدشہ مول لینے کے مترادف ہے۔ لیکن بذریعہ قوت نہی عن المنکر نہ کرنے کا مطلب حکمرانوں کو کھلا چھوڑ دینے یا ہر درجے میں نہی عن المنکر ترک کردینے کے مترادف نہیں ۔ شیخ عبد المنعم المصطفی حلیم نے ایسے حاکم کی اطاعت کے رویے پر نہایت خوبصورت بات کہی ہے کہ اس صورت حال میں اطاعت سلبی نہیں کہ جس میں نہ تو نیکی کا حکم اور برائی سے ممانعت ہے اور نہ ہی ظالموں کے سامنے حق کہنا، بلکہ یہ رشد وہدایت اور حکمتوں پر مبنی ایجابی اطاعت ہے جو باطل کے سامنے نہ تو ذلت و رسوائی اور حقارت پر مبنی ہے اور نہ ہی ظالموں کے اثر و رسوخ سے خوف کھانے والی۔ چنانچہ ظالم حکمرانوں کے سامنے حق بات کہنے کے نمونے ہمارے سلف صالحین کی زندگیوں میں بے شمار ملتے ہیں ۔

٭  مسئلہ خروج میں فقہاء کا اختلاف اس مرحلے پر ہوتا ہے جب امارت ضالہ یعنی انتہائی فاسق و ظالم حاکم کے خلاف خروج درپیش ہو ۔ اس میں شک نہیں کہ اہل سنت کے علماء کی ایک بڑی تعداد کے خیا ل میں ایسے حاکم کے خلاف بھی خروج جائز نہیں جسکی وجہ انکے نزدیک مسلمانوں میں دنگا و فساد ، کفار کے مقابلے میں مسلمانوں کی شان و شوکت کم ہوجانے کا خوف نیز بہت سے مصالح دینیہ کا فوت ہوجانا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ خروج کے خلاف ان علماء کے فتوے کی وجہ یہ نہیں کہ انکے نزدیک خروج سرے سے شرعاًجائز ہے ہی نہیں، بلکہ اس رویے کی وجہ عالم اسباب میں تاریخی طور پراکثر اوقات اس طریقہ کار کی ناکامی رہی ہے، مثلاً امام حسین و عبد اللہ بن زبیر  کو بنو امیہ کے خلاف بظاہر کوئی کامیابی حاصل نہ ہوئی اور مسلمانوں کی خون ریزی ہوئی۔

٭   جس طرح علماء کی ایک بڑی تعداد امارت ضالہ کے خلاف خروج کرنے کی مخالف ہے بالکل اسی طرح کئی جید علماء کرام جن کے سرخیل امام ابوحنیفہہیں کے خیا ل میں خروج نہ صرف یہ کہ جائز ہے بلکہ بوقت قوت واجب ہے کیوں کہ مسلمانوں پر شریعت اسلامی قائم کرنا اور فاسق امام کی جگہ امام عادل کا قیام لازم ہے چاہے اسکے لئے جان ہی کیوں نہ دینی پڑے۔ قرآن مجید میں ارشاد فرمایا گیا:  قال انی جاعلک للناس اماما قال ومن ذریتی قال لا ینال عہد الظالمین  (بقرة:  ١٢٤)۔ علماء نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ ظالم اصولاً منصب امامت کا حقدار ہے ہی نہیں ۔ اسی طرح ارشاد ہوا  ان اللہ یامرکم ان تؤدواالامانات الی اھلھا  (نسائ:  ٥٨) جس سے پتہ چلا کہ منصب امامت ایسے شخص کو دینا چاہئے جو اسکا اہل ہے یعنی اسکی شرائط پورا کرتا ہو۔ حدیث شریف میں اصول بیان ہوا کہ  لا طاعة لمخلوق فی معصیة اللہ   (متفق علیہ)اسی بات کو قرآن میں یوں بیان کیا گیا :   لاتطیعواامر المسرفین الذین یفسدون فی الارض ولا یصلحون (شعراء : ٢۔١٥١)، نیز   یا ایہا الذین امنوا ان تطیعوا الذین کفروا یردواکم علی اعقابکم فتنقلبوا خسرین  (آل عمران : ١٤٩)۔اسی طرح فرمایا گیا   یاایہا الذین امنوا کونوا قوامین للہ شہداء بالقسط۔ ان نصوص سے معلوم ہوا کہ امیر کی اطاعت اطاعت شارع سے مشروط ہے اور فسق و فجور اور نظام باطل برپا کرنے والوں کی اطاعت جائز نہیں نیز مسلمانوں پر عدل و قسط پر قائم رہنا لازم ہے۔ ایک حدیث مبارکہ میں فرمایا گیا :  ستکون امراء فتعرفون و تنکرون فمن عرف بری ومن انکر سلم ولکن رضی و تابع  قالوا افلا نقاتلہم قال لا ما صلوا  (مسلم) جس سے پتہ چلا کہ فاسق حکمرانوں کی اطاعت کی کم از کم شرط یہ ہے کہ وہ نظام صلوةقائم کریں ۔ اسکے علاوہ ایسی کئی احادیث ہیں جن سے حکمرانوں کے خلاف بذریعہ قوت نہی عن المنکر پر استدلال ہوتا ہے ۔ پھر خیر القرون میں خروج کی سب سے اعلی نظیر امام حسین کے طرز عمل میں نظر آتی ہے جسکا مقصد اسلامی خلافت و ریاست کو امارت و سلطنت کے بجائے خلافت راشدہ کی طرف پلٹادینے کی جدوجہد کرنا تھا، دوسرے لفظوں میں امام صاحب کی جدوجہد اختیار عزیمت کی اعلی مثال ہے ور اس حسینی قافلے کو علماء امت نے پسند فرمایا ۔ معرکہ حسین و یزید پر تین قسم کے رویے سامنے آئے ہیں :

الف)  ایک گروہ امام حسین  کو صائب اور یزید کو نہ صرف خاطی سمجھتا ہے بلکہ اسپر لعنت بھی کرتا ہے

ب)   دوسراگروہ امام حسین  کو صائب اور یزید کو خاطی سمجھتا ہے مگر اسپر لعنت نہیں کرتا جسکی وجہ یا تو ایسا کرنا اسلامی مزاج کے خلاف ہونا ہے یا یزید کو امام صاحب کے قتل سے ابتداً بری الذمہ سمجھنا ہے ۔۔۔واللہ اعلم

ج)   تیسرا گروہ امام حسین  کے مقابلے میں یزید کو صائب گردانتا ہے ۔ یہ رویہ اہل سنت کے ہاں مردود ہے

٭   خروج کی اجازت دینے والے علماء کے نزدیک بھی اسکی اجازت چند شرائط کے ساتھ ہے:

اول:   خروج تب کیا جائے جب بگاڑ بڑی نوعیت کا ہو ، یعنی جب حکمران کھلے بندوں واضح احکامات شرعیہ کی دھجیاں بکھیرنے لگیں۔ دوسرے لفظوں میں خروج امارة ضالہ و کفر کے خلاف کرنا چاہئے۔ علماء کے اقوال میں تطبیق دینے کی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ علماء کے خلاف خروج قول کو امارة عادلہ اور جابرہ کے خلاف خروج پر محمول کرلیا جائے کیونکہ بصورت دیگر یہ واضح نصوص کے خلاف ہوگا جیسا کہ اوپربیان کی گئیں  واللہ اعلم بالصواب

دوئم:   حالات اتنے ساز گار اور قوت اتنی ہو کہ خروج کی صورت میں کامیابی کے امکانات روشن ہوں ۔  کامیابی کے امکانات اور تیاری کے مراحل بہر حال اجتہادی مسائل ہیں کیونکہ نہ تو حالات ہی ہمیشہ یکساں کیفیت کے ہوتے ہیں اور نہ تیاری کے لگے بندھے اصول ہیں بلکہ تیاری کی کیفیت و مراحل کو در پیش حالات پر منطبق کرنے کے نتیجے میں ایک حکمت عملی وضع کرناہوتی ہے جسکی نوعیت ہمیشہ مختلف ہواکرتی ہے۔ البتہ جدوجہد کے متوقع نتائج کے اعتبار سے علامہ ابن قیم   کی بات بہت خوبصورت ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ انکار منکر کے چار درجات ہیں:

١)   ایک منکر ختم ہوجائے اور اسکی جگہ معروف قائم ہوجائے، ایسا کرنا مشروع ہے

٢)  ایک منکر کم ہوجائے اگرچہ ختم نہ ہو، یہ بھی مشروع ہے

٣)  ایک منکر ختم ہوجائے مگر اسکی جگہ ویسا ہی منکر قائم ہوجائے، یہ اجتہادی مسئلہ ہے (کہ آیا واقعی اسی درجے کا دوسرا منکر آجائے گا یا نہیں )

٤)   ایک منکر ختم ہوجائے مگر اسکی جگہ اس سے بھی بڑا منکر قائم ہوجائے، ایسا کرنا حرام ہے

اس تفصیل سے یہ مسئلہ بھی واضح ہواکہ خروج کے وقت یہ خیال بھی رکھنا چاہئے کہ کہیں اس سے کفار کو فائدہ نہ  پہنچے ۔ مثال کے طور پر اگر خروج اسطرح کیا جائے کہ مشرف کی حکومت تو ختم ہوجائے مگر اسکی جگہ امریکہ کی حکومت قائم ہوجائے تو یہ یقینا ایک چھوٹے شر کے مقابلے میں بڑا شر قائم ہو جانے والی کیفیت پیدا کردینا ہے۔

خیال رہے گو کہ خروج کی یہ شرائط امام حسین کے طرز عمل پر پوری اترتی ہیں، مگر اس بحث و شرائط کو ان پر لاگو کرنا درست طرز عمل نہیں کیونکہ وہ ان بحثوں سے پہلے ہو گزرے اور آئمہ حضرات نے یہ شرائط اپنے دور کے حالات اور ماضی کی کوششوں کے نتائج مدنظر رکھتے ہوئے رکھیں ہیں۔ ویسے بھی کسی امام کے اجتہادی اصول یا مسئلے پر کسی صحابی کے عمل کو جانچنا اصولاً غلط ہے کیونکہ عمل صحابی بذات خود اجتہاد سے بڑھ کر شرعی دلیل ہے خصوصاً کہ جب وہ عمل کسی مجتہد صحابی کا ہو۔ بعض ناصبی قسم کے لوگ امام حسین کے طرز عمل کے مقابلے میں امت مسلمہ کو یہ کہہ کر امام حسن کا طرز عمل اپنانے کی تلقین فرماتے ہیں کہ امام حسین کا طرز عمل امت کو توڑنے جب کہ امام حسن کا طرز عمل امت کو جوڑنے کی مثال ہے لہذا ہمیں توڑنے والے کے بجائے جوڑنے والے کی پیروی کرنی چاہئے۔  حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ سرکار دوعالم ۖ کے دونوں ہی شہزادے امت کیلئے مشعل راہ ہیں:  ایک کا طرز عمل یہ سکھاتا ہے کہ جب سامنے امیر معاویہ  جیسی عظیم المرتبت شخصیت ہو تو حسن کا سا معاملہ کرو اور جب مقابلہ یزید سے ہو تو حسین  کی عزیمت دیکھو۔گویا حسنین کے طرز عمل میں فرق کسی تضاد پر مبنی نہیں بلکہ دو مختلف حالات میں مختلف رویوں کی صورت کا ہے، دوسرے لفظوں میں یہ فرق تضاد کا نہیں بلکہ تنوع کا ہے۔

٭  رہی یہ بات کہ جب بذریعہ قوت خروج کی استطاعت نہ ہو تو کیا کیا جائے تو اسکا جوا ب ہے مناسب تیاری، یعنی ایسی صورت میں خروج کی تیاری کرنا لازم ہے کیونکہ واجب کا مقدمہ بھی واجب ہواکرتا ہے ۔ شیخ عبد المنعم المصطفی حلیم فرماتے ہیں کہ اس تیاری کی کئی صورتیں اور درجے ممکن ہیں:

١)   حسب استطاعت فکری و عملی تیاری کرنا تاکہ خروج کی راہ ہموار ہو اور امت مسلمہ کو باطل کے غلبے سے نجات ملے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوا:  اعدوالہم ما استطعتم من قوة  (انفال:  ٦٠)

٢)  حکمرانوں سے علیحدگی اختیار کرکے نظام باطل کی مضبوطی کا باعث نہ بننا۔ یعنی ایسے امور ترک کردئیے جائیں جن سے ان کی سلطنت مضبوط ہو یا ملک پر انکا اثرو رسوخ بڑھے۔ اسکی اعلی مثال امام ابوحنیفہ کی زندگی میں نظر آتی ہے جنہوں نے باوجود سرکاری جبر کے منصور کی سلطنت میں قاضی القضاء کا عہدہ قبول نہ کیا

٣)  انکے آئین و باطل قوانین کو برضا و رغبت تسلیم نہ کیا جائے اور نہ ہی ایسی بات کی جائے جو اعتراف حاکمیت یا قبولیت نظام کا فائدہ دے اور اگر کچھ لوگ متفق ہوکر ان سے علیحدہ ہونے اور انکے خلاف تیاری کرنے کے رویے کو اپنائیں تو انکا ساتھ دینا چاہئے تا کہ باطل نظام اقتدار کمزور ہو اور اس سے نجات مل سکے۔ یاد رہے کہ باطل نظام اقتدار پر مطمئن رہنا درحقیقت اس سے رضا مندی کی علامت ہے کیونکہ اقتدار کے معاملے میں لاتعلقی یا نیوٹرل رویے کی کوئی حقیقت نہیں ، یعنی یا تو آپ کسی نظام اقتدار کے خلاف ہوتے ہیں یا اسکے حق میں انکے درمیان کوئی راستہ موجود نہیں۔ ہماری اکثر دینی جماعتیں اس غلط فہمی پر فخر کرتی ہیں کہ وہ غیر سیاسی جماعتیں ہیں حالانکہ انکی اس بات کا مطلب اسکے سواء اور کچھ نہیں کہ انہوں نے باطل نظام اقتدار کی سیادت اور اس سے مصالحت قبول کرلی ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ان غیر سیاسی دینی جماعتوں کے ممبران اپنے حلیف سیاسی دینی جماعتوں (مثلاً ایم ایم اے ) کے بجائے لادینی سیاسی جماعتوں (مثلاً مسلم لیگ وغیرہ) میں تلاش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔       اللہ تعالی ہمارے حال پر رحم فرمائے

 (٣)خلافت اور موجودہ ریاستوں میں اصولی فرق

ان بنیادی مباحث کے بعد اب ہم خلافت اور موجودہ مسلم ریاستوں کے بنیادی فرق پر روشنی ڈالتے ہیں جس سے یہ واضح ہوجائے گا کہ اکثر و بیشتر مسلم ریاستیں خیر و القرون کی خلافت تو کجا خلافت عثمانیہ و مغلیہ کے ہم پلہ بھی نہیں۔ درج ذیل تمام فرق بذات خود تفصیل طلب موضوعا ت ہیں لیکن نفس مضمون کا لحاظ اور خوف طوالت ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ہم اختصار کے ساتھ کچھ عرض کرتے ہیں۔

اول:    قومی  بمقابلہ  اسلامی ریاست

خلافت اور موجودہ ریاستوں کا پہلا فرق یہ ہے کہ اب ہم نے قومی ریاستیں قائم کرلی ہیں، جبکہ پہلے کبھی ایسا نہ ہوا تھا ۔ قوم کا مطلب ہے ایک مخصوص جغرافیائی حدود کی بناء پر اپنا تشخص تلاش کرنا، جیسے پاکستانی، عراقی، ایرانی وغیرہ۔ یہ ویزے اور ایمبسیوں (embacies) کی بھرمار اسی قوم پرستانہ تصور تشخص کا نتیجہ ہے ۔ قوم پرستی کی چند بنیادی صفات ہیں:  ( ١)  اسکی بنیاد نفرت ہوتی ہے یعنی قوم پرستی اپنی قوم کے علاوہ دوسروں کو اپنا حریف سمجھنے کا تقاضا کرتی ہے ،  (٢)  خیر وشر کو قومی پیمانوں پر طے کیا جاتا ہے، یعنی خیر اسی شے کو سمجھتا ہے جو ایک مخصوص جغرافئے  میں رہنے والے افراد کے لئے بہتر ہو جیسا کہ موجودہ جہاد افغانستان کے وقت ہماری حکومت نے  ‘سب سے پہلے پاکستان’  کے نعرے میں کیا،  (٣)   قوم ہمیشہ اپنے لئے جیتی ہے ، اسکا مطمع نظر مادی ترقی اور حصول طاقت کے ذریعے صرف ایک مخصوص علاقے کے لوگوں کا معیار زندگی بلند کرنا ہوتا ہے، انہی معنی میں قومی ریاست سرمایہ دارانہ ریاست ہوتی ہے جسکا مقصد افراد کی آزادی یعنی سرمائے میں لا متناہی اضافہ کرنا ہوتا ہے  (خیال رہے کہ قوم پرستی سرمایہ داری کی مختلف تعبیرات میں سے ایک تعبیر ہی ہے)،  (٤)  قوم کے پاس مادی ترقی و خوش حالی کے علاوہ نوع انسانی کی فلاح و ہدایت کا کوئی دوسرا لائحہ عمل نہیں ہوتا ، سرمائے کی بڑھوتری ہی وہ واحد خیر ہے جسے قوم خود بھی اپناتی ہے اور دوسروں کو بھی اس کی طرف دعوت دیتی ہے،  (٥)  قومیت کبھی جغرافیائی حدود پار نہیں کرسکتی یعنی قوم پرستانہ نظرئیے کے لئے کسی دوسرے علاقے کے رہنے والے لوگوں کو اپنی شناخت میں سمو لینے کی صلاحیت نہیں ہوتی،   (٦)  اسی لئے قومی ریاست ہمیشہ ایک استعماری ریاست ہوتی ہے جسکا مقصد دوسروں کو مغلوب کرنا ہوتا ہے یعنی ایک قوم پرست شخص کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اسکی قوم باقی سب قوموںپر غالب آجائے اور انہیں محکوم بنا کر رکھے، لہذاہر وہ کام  ‘خیر’  کہلاتا ہے جو قوم کے غلبے کاباعث بنے ۔ قومیت کا یہ تشخص اور اسکا استحکام و پھیلاؤ امت کے اس بنیادی تصور ہی کے خلاف ہے جہاں جغرافیائی حدود بے معنی ہیں اور جسکے مطابق اسے اپنے لئے نہیں بلکہ دوسروں کیلئے جینا ہے جیسا کہ ارشاد ہوا:  کنتم خیر امت اخرجت للناس  (آل عمران:  ١١٠)، یعنی امت مسلمہ کا مقصد بنی نوع آدم کی اصلاح ہے ۔ اس تصور ملت میں صرف دو ہی گروہ ہیں، ایک امت اجابت اور دوسری امت دعوت، گویا یہاں امت مسلمہ کا تعلق ملت کفر کے ساتھ نفرت کے اصول پر نہیں بلکہ دعوت و اصلاح کے اصول پر استوار ہے اور اگر کسی وجہ سے ملت کفر کے ساتھ لڑائی و دشمنی کا معاملہ ہے بھی تو اس لئے نہیں کہ دنیا کے مال و متاع پر قبضہ کرنے کے نتیجے میں وہ ہم سے آگے نکل گئے ہیں بلکہ صرف یہ ہے کہ وہ حق کی اس دعوت کے پھیلاؤ میں مزاحمت کا باعث بن رہے ہیں جو انسانوں کے خالق نے انکے لئے پسند فرمایا ہے۔ تصور قومیت اور امت کبھی ایک ساتھ پنپ نہیں سکتے کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں، اول الذکر کی بنیاد نفرت جبکہ موخر الذکر کی محبت ہے۔ اسلامی ریاست استعماری نہیں بلکہ جہادی ہوتی ہے جہاں ریاست کی توسیع کا مقصد دوسروں کو محکوم بنانا نہیں بلکہ دعوت و تبلیغ اسلام کے مواقع پیدا کرکے دوسروں کو امت مسلمہ میں شریک کرنا ہوتا ہے اور اس تسخیر قلوب کے مقصد کیلئے طاقت سے بڑھ کر کردار کی ضرورت ہوتی ہے ۔ چنانچہ اسلامی خلافتیں ہمیشہ جہادی رہی ہیں یہاں تک کہ خلافت عثمانیہ و مغلیہ بھی جہادی ریاستیں ہی تھیں جن میں پھیلاؤ آتا رہا، مثلاً خلافت عثمانیہ عثمان خاں کے دور  ١٢٨٨  میں صرف ساڑھے سات ہزار مربع میل سے شروع ہوکر محمدفاتح کے دور  ١٤٨١  تک ایک لاکھ مربع میل سے بھی زیادہ ہوگئی تھی۔ اس میں شک نہیں کہ آخر دور میں ہم نے ریاست کی توسیع کو اسلامی انفرادیت اور معاشرت کے کام سے کاٹ دیا تھا اور یہی ہمارے زوال کی اصل وجہ تھی کیونکہ اسکی وجہ سے دائرہ اسلام میں شامل ہونے والے غیر مسلمین کی تعداد کم سے کم تر ہوتی چلی گئی جس سے اسلامی شخصیت و معاشرت غیر مانوس ہوگئے اور نتیجتاً ہماری ریاست افراد کو اجنبی اور جبر لگنے لگی جسکے زوال پر وہ خوشی محسوس کرتے۔

دوئم  :    نمائندگی عوام  بمقابلہ  نیابت رسولۖ

موجودہ جمہوری ریاستوں میں عوام کو رعایا کے بجائے citizens یعنی اصل حاکم (autonomous)  مانا جاتا ہے اور ریاست و حکومت محض عوام کی سوچ اور خوا ہشات کو پورا کرنے کے لئے عوام کی نمائندگی کا نام ہے ، یعنی حکومت چلانے والے افراد عوامی نمائندے(representatives)  ہوتے ہیں جنکا مقصد حصول لذت کی ذہنیت کا عموم اور عوام کی خواہشات کی تسکین کیلئے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کرنا ہوتا ہے ۔ یہی عوامی نمائندگی جمہوریت کی حقیقت ہے جہاں مفاد ات ہی وہ پیمانہ ہیں جس پر ریاست و جمہور کے تعلق کو پرکھا جاتا ہے، حاکم و محکوم کے درمیان یہی رشتہ ہے، قیادت اور عوام کے مابین یہی میثاق وفا ہے۔ جو اسے پورا کرے اسکی حمایت کی جا تی ہے اور جو عوام کی جھولی کو مراعات و سہولیات سے نہ بھر سکے اس کا عمل قابل اتباع نہیں ہوتا۔ سارا جمہوری فلسفہ اس چھتری کے تحت قائم ادارے اور این جی اوز وغیرہ اسی عقیدے کے فروغ کا وسیلہ ہیں۔ جمہوریت کا معنی ہی یہ ہے کہ فیصلے عوام کی مرضی اور خواہشات کی بناء پر ہونے چاہئیں، گویا اسکا مطلب خیروشر کا منبع انسانی خواہشات کو مان لینا ہے۔ اسکے مقابلے میں اسلامی ریاست میں عوام رعایا (subject) ہوتے ہیں اور خلیفہ عوام الناس کا نہیں بلکہ رسول اللہ ۖ کا نمائندہ ہوتا ہے جسکی ذمہ داری عوام الناس کی خواہشات کو شریعت کے تابع کرنے کی ذہنیت عام کرنا ہوتا ہے، نہ یہ کہ خود عوام کی خواہشات کے پیچھے چلنا ۔ انہیں معنی میں جو ریاست جتنی زیادہ جمہوری ہوتی ہے اتنی ہی غیر اسلامی ہوتی ہے ۔ گویاجمہوریت میں پیری مریدی کا تعلق ہی الٹ جاتا ہے ، یہاں عوام بجائے مرید کے پیر (فیصلہ کرنے اور ہدایت دینے والے ) بن جاتے ہیں اور حاکم جسکا کام لوگو ں کی رشدوہدایت کا انتظام کرنا ہوتا ہے ان معنی میں مرید ہوجاتا ہے کہ ہر کام سے پہلے عوام الناس کی خواہشات کی طرف دیکھتا ہے۔ لوگوں نے ووٹ کو بیعت کا متبادل سمجھ لیا ہے حالانکہ ووٹ توبیعت کی عین ضد ہے۔ بیعت کا مطلب حصول ہدایت کیلئے عوام کا اپنے نفس کو کسی بلند تر ہستی کے سپرد کردینا ہے جبکہ ووٹ کا معنی عوام کی حکمرانی قبول کرکے حاکم کا خود کو انکے نفس کے سپرد کردینا ہے۔ اسلامی علمیت میں خیروشر کی تعیین میں عوام کی خواہشات اور اسکی کثرت کی کوئی شرعی حیثیت ہے ہی نہیں بلکہ خلافت میں فیصلے اس بنیاد پر ہوتے ہیں کہ کسی معاملے میں شارع کی منشا و رضا حاصل کرنے کا طریقہ کیا ہے اور ظاہر ہے یہ طے والے علماء ہی ہوتے ہیں جو در حقیقت قرآن و سنت کا علم رکھتے ہیں۔ چنانچہ نمائندگی عوام کا تصور نہ تو کبھی کسی اسلامی ریاست بشمول خلافت راشد ہ میں ہی ملتا ہے اور نہ ہی اسلامی علمیت میں اسکا کوئی ذکر ہے ، دوسرے لفظوں میں عوام الناس کی حاکمیت اور نماندگی کے تصورات بدعت سیئہ ہیں (جمہوریت اور خلافت کا تفصیلی فرق اسی کتاب کے مضمون  ‘جمہوریت یا امارت ‘  میں بیان کیا گیا ہے)۔

سوئم :    سوشل سائنسز  بمقابلہ  علوم شرعیہ کی بالادستی

اسلامی ریاست کے قیام کا خواب اس وقت تک شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا جب تک اسلامی علوم  (یعنی علم الکلام، فقہ اور تصوف) کا معاشرتی غلبہ نہ قائم ہو جائے کیونکہ نظام علم ہی ریاستی حکمت عملی اور اسے نافذ کرنے والے افراد مہیا کرتا ہے ۔ ہر نظام علمیت معاشرے میں تین بنیادی مقاصد انجام دیتا ہے:  (١)  غالب علمی و ثقافتی ورثے کو اس طرح اگلی نسل تک منتقل کرنا کہ اسے حاصل کئے بغیر معاشرے میں کامیاب زندگی کا تصور نا ممکن ہو جائے،  (٢)  افراد کو چندمخصوص مقاصد زندگی اور معاشرتی اقدار بطور مقصد حیات قبول کرنے پر تیار کرکے معاشرے میں فکری ہم آہنگی پیدا کرنا،   (٣)   افراد کے تعلقات کے نتیجے میں قائم شدہ معاشرے اور ریاست کو پیش آمدہ مسائل حل کرنے کیلئے حکمت عملی اور اسے عملی جامہ پہنانے کیلئے اس علمیت کے حامل با صلاحیت افراد فراہم کرنا۔ چنانچہ کوئی معاشرہ و ریاست تبھی اسلامی بن سکتی ہے کہ جب اسکی غالب علمیت سائنس (بشمول فطری و سوشل سائنسز) نہیں بلکہ اسلامی علمیت ہو کیونکہ جب تک اسلامی علمیت غالب نہیں ہوگی معاشرتی فیصلوں اور ریاستی حکمت عملی کی اسلامی بنیاد فراہم نہیں کی جاسکتی۔ اسلامی علمیت در حقیقت علم الکلام ، فقہ، اور تصوف کی صورت میں متشکل ہوکر سامنے آئی ہے، مثلاً علم اصول فقہ اور فقہ کا مقصد قرآن و سنت میں وارد شدہ نصوص سے وہ اصول اخذ کرنا ہے جنکی روشنی میں یہ طے کیا جا سکے کہ ان گنت انسانی اعمال و افعال سے رضا ئے الہی کے حصول کا درست طریقہ کیا ہے، نیز یہ معلوم کیا جا سکے کہ افراد کے تعلقات کو کن ضروری بندشوں کا پا بند بنا کر معاشرے کو احکامات الہی کے تابع کیا جاسکتا ہے ۔ بالکل اسی طرح سوشل سائنسز کا دائرہ کار سرمایہ دارانہ معاشرے و ریاست کا جواز ، اسکے امکانِ قیام کیلئے ضروری حالات کی نشاندہی و ریاستی لائحہ عمل کی ترتیب و تنظیم کرنا ہے۔ سوشل سائنسز کا مقصد ایک طرف سرمایہ دارانہ شخصیت ، معاشرے و ریاست کی علمی توجیہہ پیش کرنا ہے اور دوسری طرف یہ افراد کے تعلقات میں آزادی کی ان لازمی حدود کا تعین کرنے کے اصول وضع کرتی ہیں جنکے نتیجے میں سرمایہ دارانہ معاشرتی و ریاستی صف بندی وجود میں آسکے ۔ دوسرے لفظوں میں سو شل سائنسز کا دائرہ عمل ایک ایسے نئے دستور، ایک ایسے نئے قانون، ایک ایسے نئے معا شرتی نظام و سیاسی ڈھانچے کا قیا م ہے جسے الہامی اور آسمانی قانون سے کوئی واسطہ یا رابطہ نہ ہو،جہاں کوئی رعایا  (subjects) نہ ہو بلکہ سب شہری  (citizens)  ہوں ۔ اس پس منظر میں اسلامی تاریخ اور موجودہ ریاستوں پر غور کیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ ہماری پوری تاریخ میں جو علمیت غالب رہی وہ اسلامی علمیت (یعنی کلام، فقہ اور تصوف) تھی جسکا واضح مظہر موجودہ درس نظامی ہے جو در حقیقت سلطنت مغلیہ میں ایک طرح کا سول سرونٹ کورس تھا ۔ چنانچہ ہماری تاریخ میں اسلامی علمیت ہی کی بنیاد پر ریاستی حکمت عملی وضع کی جاتی تھی، گو کہ اس حکمت عملی میں حکمران اپنے بعض ذاتی مفادات کو بھی شامل کردیتے تھے۔ اسکی مثال بالکل اسی طرح ہے جیسے دور حاضر میں ریاستی حکمت عملی سوشل سائنسز بالخصوص علم معاشیات کے اصولوں سے طے کی جاتی ہے اور حکمران طبقہ اسی حکمت عملی کے اندر رہتے ہوئے اپنے مفادات کا تحفظ بھی کرتا ہے۔ سب دیکھ سکتے ہیں کہ جوں جوں سائنسی علمیت کو عروج حاصل ہوتا ہے اسی رفتار سے اسلامی علمیت معاشروں میں بے معنی ہوتی چلی جاتی ہے۔ سائنسی علم کا معنی لامحدود انسانی خواہشات کی تکمیل کیلئے کائنات پر ارادہ انسانی کا تسلط قائم کرنا ہے۔ سائنسی علمیت کے مطابق علم رضا ئے الہی کے حصول کا طریقہ جان لینا نہیں، بلکہ تسخیر کا ئنا ت یا با الفاظ دیگر انسانی ارادے کے کائناتی قوتوں پر تسلط قائم کرنے کا طریقہ جان لینے کا نام ہے اور سائنسی علمیت اس جاہلانہ ذہنیت و جنون کو پروان چڑھاتی ہے کہ انسانی عقل کو استعمال کر کے فطرت کے تمام رازوں سے پردہ اٹھا نا نیز انسانی ارادے کو خود اسکے اپنے سواء ہر بالا تر قوت سے آزاد کرنا عین ممکن ہے ۔ دوسرے لفظوں میں سائنسی علمیت کا مقصد انسان کو خود اپنا خدا بننے کا مکلف بنانا ہے۔ یہ تصور علم ایک ایسی شخصیت کا علمی جواز فراہم کرتا ہے جو انبیاء کرام کی تعلیمات سے کوسوں دور اور اخلاق رزیلہ سے متصف ہونے کے با وجود بھی معا شرے میں ایک با عزت علمی مقام پر فائز ہوسکتی ہے، یہ علمیت ایسا ریاستی لائحہ عمل فراہم کرتی ہے جس میں فیصلوں کی بنیاد شارع کی رضا کے بجائے لوگوں کی خواہشات ہوتی ہے۔ چونکہ موجودہ مسلم ریاستوں میں غالب علمیت یہی جاہلی علمیت ہے لہذا یہ کسی بھی معنی میں اسلامی خلافت کے ہم پلہ نہیں ہیں بلکہ جیسے جیسے ہمارے ممالک اس علمیت کے شکنجے میں پھنستے جارہے ہیں اتنا ہی زیادہ یہ استعمار کے وفادار اور طاغوتی نظام کے حامی و ناصر بنتے جا رہے ہیں۔

چہارم :  دوستور (ہیومن رائٹس ) بمقابلہ شریعت (نظام قضاء ) کی بالادستی

ہمارے ملکوں کا نظام قانون آئین یا دستور پر مبنی ہے اور دستور وہ شے ہے جو حاکمیت الٰہی کی نفی اور حاکمیت انسان کی بالا دستی قائم کرتا ہے اور نفاذ شریعت کے امکانات کالعدم کردیتا ہے جسکی وجہ یہ ہے کہ دستور کتاب الہی کا متبادل ہے اور جمہوری ریاستوں میں اسے ویسی ہی تقدیس حاصل ہوتی ہے جیسی مذہبی ریاستوں میں کتاب الہی کو (دستوری ریاست کے خدوخال اسی کتاب کے مضمون  ‘دستوریت و جمہوریت’  میں بیان کئے گئے ہیں)۔ دستورمیں قانون سازی کی بنیاد ہیومن رائٹس ہوتے ہیں جسکے مطابق فرد کو اپنی آزادی استعمال کرکے خواہشات کی تسکین کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔ اس قانون سازی کے دو بڑے مقاصد ہوتے ہیں:

(الف)  ہر فرد کے اس حق کو ممکن بنانا کہ وہ زیادہ سے زیادہ آزادی حاصل کرسکے (یعنی جو چاہنا چاہے چاہ سکے اور اسے حاصل کرنے کا زیادہ سے زیادہ مکلف ہو سکے) یہاں تک کہ وہ کسی دوسرے کی عین ویسی ہی آزادی میں رکارٹ نہ بنے۔یعنی اس بات کو طے کرنے کیلئے کہ افراد کو کیا کرنے کی اجازت ہوگی اس سوال کا جواب دینا چاہئے کہ کیا تمام افراد کو اس عمل کی اجازت دینے کے بعد بھی اس عمل کو کرنا ممکن ہے یا نہیں؟ مثلاً فرض کریں ایک شخص چاہتا ہے کہ وہ شراب پئے،اب سوال یہ ہے کہ اگر تمام افراد ایسا کریں تو کیا ایسا کرنا ممکن ہے؟ چونکہ تمام افراد کو اس فعل کی اجازت دینے سے افراد کی خواہشات میں کوئی تصادم لازم نہیں آتا، لہذا شراب پینا بالکل درست عمل ہے ۔لیکن اگر کوئی شخص یہ چاہتا ہے کہ وہ شراب پی کر کار چلائے تو یہ ٹھیک نہیں کیونکہ اگر تمام افرادکو ایسا کرنے کی اجازت دی جائے تو کوئی بھی شخص گاڑی نہیں چلا سکتاجس سے واضح ہوا کہ شراب پینا توٹھیک عمل ہے مگر شراب پی کر گاڑی چلانا غلط ہے۔اس اصول کے مطابق ایک بھائی کا اپنی بہن سے ، باپ کا بیٹی سے اور بیٹے کا ماں سے بدکاری کرنا عین درست عمل ہے کیو نکہ اگر تمام افراد ایسا کرنے لگیں تو بھی ایسا کرنے میں افراد کی خواہشات میں ٹکراؤ کی صورت پیدا نہیں ہوتی۔اخلاقیت کے اسی اصول کو کانٹ (Kant)کا آفاقی اصول (Principle of universalisability)کہا جاتا ہے۔ اس اصول کے مطابق ایک فرد کا ہر وہ فعل اور خواہش قانوناًجائز ہے جسے وہ خواہشات میں ٹکراؤ آئے بغیر تمام انسانوں کو کرنے کی اجازت دینے پر تیار ہوسکتا ہے۔

(ب)  ہر فرد کے اس مساوی حق کو ممکن بنانا کہ وہ دوسروں کو اپنی آزادی اس طرح استعمال کرنے پر مجبور کرسکے  جس سے وہ دوسرا شخص اس فرد کی آزادی میں مداخلت نہ کر سکے ۔یعنی اگر ایک باپ اپنی بیٹی کو یونیورسٹی کے کسی رات کے فنکشن میں جانے سے منع کرے تو اس بیٹی کو اس بات کا حق حاصل ہونا چاہئے کہ و ہ پولیس کو بلواکر اپنے باپ کو جیل بھجوا دے اور خود یونیورسٹی جا سکے۔ اسی طرح اگر ایک باپ اپنی اولاد کو نماز نہ ادا کرنے پر سرزنش کرے تو اولاد کو یہ حق حاصل ہو کہ وہ باپ کو انکی آزادی میں مداخلت کرنے سے روک سکیں۔

دستور کے مطابق افراد کی خواہشات ہی وہ اساس ہیں جو ایک جمہوری معاشرے میں قانون سازی کی واحد بنیاد بن سکتی ہیں، نیز یہ کہ افراداپنے اس حق کو اس طرح استعمال کریں کہ جس کے نتیجے میں افراد کی خواہشات میں اس طرح تحدید ہو کہ افراد کی آزادی میں بحیثیت مجموعی زیادہ سے زیادہ اضافہ ہوسکے ۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری اکثر و بیشتر ریاستیں ہیومن رائٹس پر مبنی دستوری و جمہوری ریاستیں ہیں جسکا صاف مطلب ہوا کہ یہ لبرل سیکولر ریاستیں ہیں۔ اسکے بر خلاف خلافت کا منصب نظام قضاء کا تقاضا کرتا ہے جہاں فیصلے شرع کی روشنی میں طے کئے جاتے ہوں۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ پوری اسلامی تاریخ میں ریاستی قانون کی بنیاد شریعت رہی ہے جسکا واضح ثبوت یہ ہے کہ ہماری عدالتوں میں نظام قضاء قائم تھا جہاں اسلامی علمیت کے ماہرافراد شریعت کی روشنی میں فیصلے کیا کرتے تھے، یہاں تک کہ مغلیہ سلطان عالمگیر نے کوئی دستور نہیں بلکہ فقہاء کرام کے فتاووں کو جمع کرکے اسے اپنی سلطنت کا قانون بنادیاتھا جس سے معلوم ہوا کہ افراد کے معاملات شرعی احکامات کے مطابق طے ہوتے تھے ۔ اسی طرح ہمارے ہاں حسبہ کا ادارہ بھی قائم تھا جسکا مقصد نہی عن المنکر کی بنیاد پر لوگوں سے اطاعت کرانا تھا۔ الغرض حاکمیت دستور اور نفاذ شریعت و اعلاء کلمة اللہ دو متضاد مقاصد ہیں ، نظام قضاء و حسبہ اسی وقت قائم ہوسکتا ہے جب اسلامی علمیت اور اسکے حاملین افراد کا معاشرتی غلبہ ہو نہ کہ دستور اور سوشل سائنسز کا۔

  پنجم :    مذہبی معاشرت   بمقابلہ  سول سوسائٹی

معاشرے سے مراد وہ ادارے ہیں جو افرادکے ان تعلقات سے وجود میں آتے ہیں جنہیں وہ برضاو رغبت اختیار کرتے ہیں۔ کسی بھی معاشرتی صف بندی کی نوعیت افراد کے ان مقاصد اور ان اقدار پر مبنی ہوتی ہے جنکے حصول کی خاطر وہ آپس میں تعلقات قائم کرتے ہیں، یعنی معاشرتی تنظیم کی ہئیت اور نوعیت اس بات پر منحصر ہے کہ جو افراد یہ معاشرہ بنا رہے ہیں ان کے میلانات ، رجحانات اور خواہشات کیا ہیںاور وہ دوسروں سے تعلقات استوار کر کے کن مقاصد کا حصول چاہتے ہیں۔ چونکہ سرمایہ دارانہ معاشرے میں ہر فرد اپنی خواہشات کی تکمیل کرنا چاہتا ہے، لہذا لوگ جس بنیاد پر اپنے تعلقات قائم کرتے ہیں وہ انکی  ‘ذاتی غرض ‘  (Self-interest)ہوتی ہے یعنی ہر فرد ان تعلقات و روابط کے ذریعے اپنی کسی ذاتی خواہش ہی کی تکمیل کرنا چاہتا ہے ۔ ایسے تعلقات سے تعمیر ہونے والے معاشرے کو مارکیٹ یا سول سوسائٹی کہتے ہیں جہاں ہر تعلق اغراض کی طلب و رسد  (Demand and Supply) کے اصول پر قائم ہوتا ہے ۔ ایسی سوسائٹی میں ہر شخص اپنی اغراض کی بنیاد  پر interest-groups   (غرضی گروہ) بناتا ہے، مثلاً محلہ و مارکیٹ کمیٹیاں، مزدور تنظیمیں، اساتذہ و طلبہ تنظیمیں، صارفین و تاجروں کی یونین، عورتوں اور بچوں کے حقوق کی تنظیمیں و دیگر این جی اوز وغیرہ اسکے اظہار کے مختلف طریقے ہیں جہاں تعلقات کی بنیاد صلہ رحمی یا محبت نہیں بلکہ اغراض ہوتی ہیں۔ جتنے زیادہ افراد ان اداروں پر منحصر ہوتے چلے جاتے ہیں سول سوسائٹی اتنی ہی مضبوط ہوتی چلی جاتی ہے ۔ نتیجتاً ذاتی اغراض و حقوق کی ذہنیت و سیاست پختہ ہوتی چلی جاتی ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کا اصل مقصد ہے ۔ سول سوسائٹی کی اکائیاں تبھی وجود میں آتی ہیں جب خاندان کا ادارہ کمزور ہوجاتا ہے، یہ اکائیاں فرد کی زندگی کے اس خلاء کو پر کرنے کیلئے وجود میں آتی ہیں جو روایتی اداروں کے ختم ہوجانے سے پیدا ہوتا ہے۔ سول سوسائٹی درحقیقت مذہبی معاشرت کی ضد ہے جہاں تعلقات کی بنیاد صلہ رحمی ، محبت اور باہمی تعاون کا جذبہ ہوتا ہے اور ان جذبات پر مبنی تعلقات سے جو فطری ادارہ تشکیل پاتا ہے اسے خاندان و برادری کہتے ہیں جو اسلامی معاشرت کا جزاول ہے ۔ پوری اسلامی تاریخ میں ہماری معاشرت اسلامی تھی ، تعلقات کی بنیاد صلہ رحمی تھی جسکی وجہ سے خاندان مضبوط تھے، حرص و حسد کو معاشرتی عموم حاصل نہ تھا، مخلوط معاشرت کی وبا ظاہر نہ ہوئی تھی اورتقریباً تمام افراد تزکیہ نفس کیلئے صوفیاء سلسلوں سے منسلک تھے ۔ موجودہ مسلم ریاستوں میں جو معاشرت عام ہورہی ہے وہ اسلامی نہیں بلکہ سول سوسائٹی ہے جسکا سب سے بڑا اظہار خاندان و برادری کی کمزوری، بے حیائی و فحاشی کے فروغ اور افراد کا خانقاہوں سے لاتعلق ہوجانے کی صورت میں واضح ہے ( اسلامی معاشرت کی مزید تفصیلات اس کتاب کے مضمون  ‘اسلامی معاشرت وریاست کے خدو خال’  کے مضمون میں بیان کی گئی ہیں)۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ہماری حکومتیں جس نوعیت کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں وہ سول سوسائٹی کو مضبوط اور مذہبی معاشرت کو کمزور کرنے کیلئے موثر ترین ہتھیار ہے۔

موجودہ مسلم ریاستوں کے خلاف انقلابی حکمت عملی کی شرعی حیثیت

اب ہم اس بات کی طرف آتے ہیں کہ موجودہ مسلم ریاستوں کے خلاف انقلابی جدوجہد کرنے کی شرعی حیثیت کیا ہے۔ اگر ایک لمحے کیلئے درج بالا تفصیلات کو نظر انداز کر بھی دیا جائے تو بھی موجودہ مسلم ریا ستوں کا صریح طور پر فسق و فجور میں مبتلا ہونا عین واضح ہے جوانکے امارت ضالہ ہونے کا ثبوت ہے جس صورت میں انکے خلاف خروج جائز ٹھرتا ہے، اور اگر یہ ریاستیں کفریہ کام کریں تو پھر بدرجہ اولی خروج (بمعنی جہاد) کی مستحق ہونگی ۔ لیکن اوپر بیان کی گئی تفصیلات سے معلوم ہوا کہ موجودہ ریا ستیں دانستہ و نا دانستہ طور پر ایک ایسے کفر یہ نظام پر مبنی اوراسکی حامی و ناصر ہیں جہاں خدا کے بجائے عوام کی حاکمیت اور شرع کے بجائے دستور نافذ ہے، لہذا یہ بحیثیت ریاست کافرانہ ریاستیں ہیں گو کہ انہیں چلانے والے مسلمان ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ہماری افواج و پولیس، بیوروکریسی اور عدلیہ وغیرہ کے ممبران بہرحال مسلمان ہی ہیں جن میں سے کئی ایک مخلصین بھی ہیں ، مگر یہ ایسے ہی ہے جیسے مسلمان عیسائی ریاست قائم کرکے اسکے قانون کے ما تحت زندگیاں بسر کرنے لگیں یا جیسے مسلمان سودی بینکنگ پر مبنی نظام زر چلارہے ہیں۔ انہیں معنی میں موجودہ دور میں پائی جانے والی صورت حال نئی اور منفرد ہے کہ  ‘قومی نوعیت ‘  کے مسلمان حکمران اس سے پہلے کبھی کسی  ‘باطل نظام ‘  کے تحت حکمرانی نہیں کرتے تھے ، بلکہ ان کا جرم فسق و فجور کی نوعیت کا ہوتا تھا نہ کہ کسی نظام باطل کے حامی و ناصر ہونے کا ۔ اکثر و بیشتر مسلم ریاستیں جس علمیت، قانون ، معاشرت و سیاست کو فروغ دے رہی ہیں وہ سرمایہ دارانہ خدوخال پر مبنی ہیں جن کا اسلام سے ہر گز کوئی تعلق نہیںاور اس میں کون شک کر سکتا ہے کہ جب مسلم آبادیوں پر نظام کفر غالب ہو تو اسکے خلاف جہاد کرنا لازم ہے ، حالت اضطراری کی بات الگ ہے گو کہ اس دور میں بھی تیاری کرنا لازم ہے ۔ گو کہ ایسی صورت حال میں جہادکے فرض عین و کفایہ ہونے کی بحث کی جاسکتی ہے لیکن جس شخص پر اس باطل نظام کی حقیقت واضح ہوجائے کم از کم اسپر تو بقدر استطاعت جہاد لازم ہے۔ ۔۔واللہ اعلم بالصواب

اس مقام پر ایک وضاحت کردینا ضروری ہے جو اکثر و بیشتر غلط فہمی کا باعث بنتی ہے اور وہ یہ کہ جہاد کی جو بحث اور شرائط کتب فقہ میں ملتی ہیں وہ اسلامی اور کفریہ  ‘ریاست ‘  کے تناظر میں ہے ، یعنی تحفظ دین کا جہاد (جب کفار مسلمانوں کے علاقوں پر لشکر کشی کریں)  فرض عین جبکہ غلبہ دین کا جہاد (جب مسلمان کفار کے علاقوں پر لشکر کشی کریں)  فرض کفایہ ہوتا ہے۔ جہاد کی ان شرائط کو جو اسلامی ریاست کے تناظر میں وضع کی گئیں تھیں انہیں موجودہ کافرانہ قومی مسلم ریاستوں کے خلاف جدوجہد کرنے پر منطبق کرنا قیاس مع الفارق ہے۔ اسی طرح علمائے متقدمین نے خروج کے خلاف جو فتوے دئیے تھے انہیں بھی موجودہ صورت حال پر منطبق کرنا درست نہیں کیونکہ یہاں تو سرے سے وہ اسلامی ریاست ہی مفقودہے جس کے خلاف خروج پر وہ فتوے دئیے گئے تھے۔ ہماری فقہ کے اہم اصول پہلی اور دوسری صدی ہجری میں مرتب ہوئے کہ جب بنوامیہ اور عباسی خلافتیں قائم تھیں ، آج کے دور میں تو مسلمان آبادیوں اور حکمرانوں سب پر طاغوت کا غلبہ ہے لہذا ہمیں مجاہدین اور انقلابیوں کی جدوجہد کا دفاع کرنا چاہئے نہ کہ انہیں ان اصولوں پر سو فیصد منطبق کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جو فقہاء کرام نے خلافت اسلامیہ کے تناظر میں مرتب کئے تھے۔ پس فتوی دینے میں اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ کہیں وہ کفار کو فائدہ پہنچانے کا باعث نہ بنے جیسے کہ خود کش حملوں کے خلاف فتوے دینا ۔

اس تفصیل سے خروج اور جہاد میں فرق کی بحث بھی بے معنی ہوجا تی ہے کیونکہ خروج بھی جہاد ہی ہوتا ہے جیسا کہ حدیث میں آتا ہے  افضل الجہاد کلمة الحق عند السلطان الجائر، نیز تفسیر جصاص میں نفس زکیہ کے خروج کے حق میں امام ابوحنیفہ  کا قول منقول ہے کہ آپ نے اسے کفار کے خلاف جہاد سے افضل قرا ر دیا ۔ دونوں کوششوں میں فرق یہ ہے کہ اگر یہ جدوجہد اسلامی نظام زندگی کے اندر فاسق و ظالم مسلمان حکمران کے خلاف ہو تو  ‘خروج’  کہلاتی ہے اور اگر غیر اسلامی باطل نظام زندگی کے خلاف ہو تو  ‘جہاد ‘  کہلائے گی، البتہ اس مسلمانیت کے فرق کی بنا ء پر دونوں کے فقہی معاملات میں بھی فرق کیا جائے گا (مثلاً یہ کہ مسلمانوں کو غلام نہیں بنایا جائے گا اور نہ ہی انکے اموال کو مال غنیمت سمجھا جائے گا وغیرہ وغیرہ)۔ اسلامی تاریخ میں اس نوع کے جہاد کی مثالیں تاتاریوں کے خلاف علامہ ابن تیمیہ اور دیگر علماء کی قیادت میں نیز صلاح الدین ایوبی   کے زمانے میں فاطمی حکومت کے خلاف جہاد کی صورت میں موجود ہیں۔

خوب یاد رہے کہ ہماری جدوجہد کا مقصد موجودہ نظام اقتدار کے اندر شمولیت نہیں بلکہ ایک متبادل نظام زندگی اور اقتدار قائم کرنا ہے جہاں عوام یا کسی فرد کے بجائے  ‘اہل الرائے ‘  کا اقتدار قائم ہو جنکی مرضی و مشورے سے ہی ریاست کے امور طے پائیں ۔ ملوکیت میں ریاست کے ایک جز  ‘تبدیلی حکومت کے طریقے ‘  میں یہی خرابی پیدا ہوگئی تھی کہ خلیفہ کا تعین اہل الرائے کے ہاتھ سے چھن گیا تھا جسکی وجہ سے دیگر مسائل پیدا ہوئے۔ اسی سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ آج کے دور میں جہاں اہل الرائے کو اقتدار کے تمام اداروں سے بے دخل کردیا گیا ہے وہاں نظام اقتدار میں کتنی خرابیاں پیدا ہوئی ہونگی کیونکہ ریاست اہل الرائے کے اقتدار سے جتنی دور ہوتی ہے اتنی ہی غیر اسلامی ہوتی ہے ۔ چنانچہ جہاد اور خروج کے بغیر عموماً اقتدار نہیں بلکہ حکومتیں تبدیل ہوا کرتی ہیں کیونکہ قانون کے اندر رہ کر کی جانے والی جدوجہد توloyal disobedience   (تابعدارانہ مخلص نا فرمانی ) ہوتی ہے جسکے نتیجے میں نظام اقتدار تبدیل نہیں ہوتے۔ نظام باطل کے قانونی دائرے میں رہتے ہوئے اقتدار تبدیل کرنے کی خواہش رکھنا  self-defeating (تضاد پر مبنی ) اصول ہے کیونکہ ہر نظام اقتدار کے قوانین اسکے اپنے استحکام کیلئے بنائے جاتے ہیں نہ کہ اسے ڈھادینے کے لئے۔ disobedience   Loyal  کے زریعے اقتدار تبدیل کرنے کی غلط فہمی اس لئے پیدا ہوئی کہ ہم نے قانون کو  ‘غیر اقداری’  (value-neutral) سمجھ لیا ہے حالانکہ ہر قانون ایک مخصوص انفرادیت و معاشرت نافذ کرنے کیلئے وضع کیا جاتا ہے اور یہی حال ہیومن رائٹس پر مبنی دوستوری قانون کا بھی ہے جسکا مقصد سرمایہ دارانہ شخصیت (ہیومن) ، معاشرت (سول سوسائٹی) اور ریاست (ریپبلک) کا قیام و فروغ ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں سچ بات سمجھنے ، کہنے اور اسپر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔                  واخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

سوالات و اشکالات

اشکال  (١):  خروج خون ریزی کو دعوت دیتا ہے جو فتنہ ہے ، اس سے بہت سے دینی مصالح فوت ہوجاتے ہیں، نیز کامیابی بھی یقینی نہیں ہوتی ، تو کیا بہتر یہ نہیں کہ اس سے احتراز ہی کیا جائے؟

٭    پہلی بات :  قرآن و حدیث کے مطابق کفر و طاغوت کے خلاف جہاد نہ کرنا اصل فتنہ ہے، کیونکہ کفر و شرک کے غلبے پر خاموشی سب سے بڑی مصیبت ہے  (والفتنة اشد من القتل، والفتنة اکبر من القتل: بقرة ١٩١، ٢١٧) ۔ خون خرابے کے خوف سے طاغوتی نظام کو تبدیل کرنے کیلئے انقلابی جدوجہد نہ کرنا اسکے غلبے پر راضی ہوجا نا ہے اور یہ ایک چھوٹی مصیبت سے بچنے کیلئے بڑے منکر کو قبول کرلینے کے مترادف ہے

٭    دوسری بات :  اگر جان و مال کے ضیاع اور شکست کے امکانات کا اعتبار کرلیا جائے تو کفار کے خلاف جہاد بھی ساقط ہوجائے گا کیونکہ یہ احتمالات بلکہ اس سے بھی بڑے خدشات بدرجہ اولی وہاں موجود ہوتے ہیں ، مثلاً یہ کہ شکست کی صورت میں مسلمان عورتوں کو لونڈیاں اور مردوں و بچوں کو غلام بنالیا جائے گا وغیرہ وغیرہ اور کفار کے خلاف جہاد میں بھی کامیابی یقینی نہیں ہوتی

٭    تیسری بات :  مسلمان کا اصل مطلوب ہی شہادت حق میں جان کھپا دینا ہے تو جان جانے میں ناکامی کیسی؟

اشکال  (٢):    مسلم ممالک میں نماز، جمعہ، نکاح، حج و دیگر فرائض ادا کرنے کی پوری آزادی ہے تو پھر ان پر  ‘کفریہ ریاست ‘  کا لیبل کیوں چسپاں کیا جائے ، نیز اس قسم کے فتوے کی رو سے تو مسلمانوں پر ان ریاستوں کے خلاف جدوجہد کرنا لازم ہوجائے گا جس سے وہ بڑی مصیبت میں پڑ جائیں گے بصورت دیگر وہ سخت گنہگار ٹھریں گے

٭   پہلی بات :  یہ جتنے امور گنوائے گئے ان سب کی ادائیگی کی اجازت تو دور برطانیہ میں بھی تھی، نیز موجودہ ہندستان کے مسلمان بھی انہیں آزادی کے ساتھ ادا کرتے ہیں، اور تو اور یورپ اور امریکہ وغیرہ میں بھی نماز، جمعہ، نکاح، حج و دیگر کئی فرائض اسلامی ادا کرنے کی پوری آزادی ہے تو کیا یہ سب ملک دارلاسلام ٹھریں گے؟

٭   دوسری بات :  جیسے ایک فرد کا ایمان معتبر ہونے کیلئے چند شرائط ہیں بالکل اسی طرح ریاست بھی اسلامی تب ہی ہوتی ہے جب وہ اسلامی اصولوں کے مطابق قائم ہو، گو کہ اسمیں عملی خامیاں قبول کی جاسکتی ہیں مگر اصولی باتوں پر ایمان لانا تو شرط ہے۔ اکثر و بیشتر موجودہ مسلم حکومتیں تو سرمایہ دارانہ نظام پر مبنی ہیں جہاں اقتدار کا منبع عوام کی خواہشات کو مان لیا گیا ہے، شرع کے بجائے ہیومن رائٹس پر مبنی دستور نافذ ہے تو یہ اسلامی کیسے ہوگئیں؟ مسئلہ یہ ہے کہ ہم سرمایہ داری کو صحیح طریقے سے پہچانتے نہیں جسکی وجہ سے ایسے سوالات پیدا ہوتے ہیں ۔ اگر مسلمان عیسائی قانون کے مطابق ریاست چلائیں تو کیا وہ اسلامی ریاست ہوگی؟ بالکل اسی طرح اگر مسلمان سرمایہ دارانہ قانون کے مطابق ریاست چلائیں گے تو وہ ریاست اسلامی نہیں ہوگی کیونکہ سرمایہ داری بھی عیسائیت ہی کی طرح ایک مستقل کافرانہ مذہب ہے

٭   تیسری بات :  اگر کسی فرض کی عدم ادئیگی کی بناء پر مسلمان گنہگار ٹھرتے ہیں تو کیا ہم اس فرض ہی کو ختم کردیں؟ مثلاً آج مسلمانوں کی غالب اکثریت نماز ادا نہیں کرتی تو کیا اس عدم ادائیگی کے گناہ سے بچانے کیلئے ہم نماز کی فرضیت ختم ہوجانے کا فتوی دے ڈالیں؟

اشکال  (٣):    کیا پاکستان کے آئین میں قرآن و سنت کے منافی قانون سازی نہ کرسکنے کا آرٹیکل اسے اسلامی ریاست نہیں بنا دیتا ؟

٭   پہلی بات :  ١٩٤٩ کی قرارداد مقاصد ہو یا ١٩٧٣ کا دستور، علماء اسمیں ایسے ہی دھوکہ کھا گئے جیسے سترہویں ترمیم کے وقت مشرف سے دھوکہ کھا گئے تھے۔ علماء پر دستوری ریاست و ہیومن رائٹس کی حقیقت صحیح طریقے سے واضح نہ ہو سکی تھی جسکی بناء پر انہوں نے دستور میں مذہب کی پیوندکاری کرنے کی کوششیں کیں، حالانکہ جس شے کو اصولاً رد کرنا چاہئے تھا وہ بذات خود ہیومن رائٹس پر مبنی دستوری قانون ہے جو کہ کتاب و سنت کا عملی متبادل ہے۔ ہیومن رائٹس پر مبنی دستور میں مذہبی پیوندکاری کی مثال ایسی ہی ہے جیسے عقیدہ تثلیث میں توحید تلاش کرنا۔ ہوسکتا ہے علماء نے  ١٩٤٩  میں یہ پوزیشن سوشلزم کے بڑھتے ہوئے خطرات کی بناء پر اختیار کی ہو  (واللہ اعلم ) ۔ لیکن اصل غلطی  ١٩٤٩  میں نہیں بلکہ ١٩٢٠ سے شروع ہوئی کہ جب خلافت اسلامی برپا کرنے کیلئے انقلابی جدوجہد سے مایوس ہوکر علماء نے ریاست کو غیر اقدار ی سمجھ کر تحریک خلافت کے بجائے تحریک استخلاص وطن کا ساتھ دینا شروع کیا

٭   دوسری بات :  قرار داد مقاصد ہو یا ١٩٧٣ کا دستور، یہ شقیں تو ریاست کو کافرانہ نظام کے ماتحت چلانے کا بہانہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ شقیں ہمیشہ طاق نسیاں پر پڑی رہتی ہیں اور ہمارے ملک میں بے شمار قوانین خلاف شرع ہونے کے باوجود پچھلے  ٣٤  سالوں سے عدلیہ ٹس سے مس نہیں ہوتی، بلکہ اسکے بجائے جب کبھی کوئی اسلامی قانون نافذ کرنے کا معاملہ پیش آئے تو اسکی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتی ہے جیسا کہ سود کے خلاف قانون اور حسبہ بل کے معاملات میں دیکھا گیا

٭   تیسری بات :  ان اسلامی نما شقوں کی حیثیت صرف اتنی ہے کہ انہیں خود  ‘ہم نے’   دستور میں رکھا ہے اور اگر  ‘ہم’  چاہیں تو انہیں ختم بھی کرسکتے ہیں گویا اصل حاکمیت  ‘ہماری ‘  ہی ہے ۔ پھر ان شقوں پر مبنی شرعی قوانین کی نوعیت کسی بالادست قانون کی نہیں بلکہ وفاقی شرعی عدالت کے ایک  ‘مشورے’  کی ہوتی ہے جنہیں عدالت عظمہ چاہے تو رد کرسکتی ہے، گویا اصل حاکمیت تو دستوری قانون ہی کی ہوگی اور شارع کی بات بس ایک مشورے کے طور پر کہی اور سنی جا سکتی ہے۔۔۔العیاذباللہ

٭   چوتھی بات :  اسلامی ریاست صرف قرآن و سنت کے خلاف فیصلہ  ‘نہ’   کرنے کی پابند نہیں ہوتی بلکہ ہر فیصلہ قرآن وسنت اور اسلامی علمیت کی روشنی میں کرنے کی پابند ہوتی ہے۔ شرع کے دائرے کو تشکیل قانون میں صرف اس حد تک محدود کرنا کہ قانون کا کوئی فیصلہ شرع کے خلاف نہ ہو اس مفروضے پر مبنی ہے کہ انسانی زندگی کا کوئی دائرہ عمل ایسا بھی ہے جہاں شارع نے انسان کو اپنی خواہشات پر چلنے کیلئے آزاد چھوڑ دیا ہے نیز قانون کا دائرہ شرع کے دائرے سے وسیع تر ہے۔ جبکہ اصل معاملہ اسکے عین برعکس ہے کہ شریعت ہمیں ہر معاملے کا حکم قرآن و سنت کی روشنی میں طے کرنے کا طریقہ بتاتی ہے اور اسلامی ریاست کا یہ وظیفہ ہوتا ہے کہ وہ قرآن و سنت پر مبنی اہل الرائے کے مشورے سے تمام معاملات پر حکم لگائے ۔ شرع محض فرائض ، واجبات اور محرمات کا ہی نام نہیں بلکہ اس کا دائرہ سنن، مندوب، مستحب، مکروہ ، اساء ت و خلاف اولی کے درجات تک اسطرح پھیلا ہوا ہے کہ پیدائش سے لیکر موت تک کوئی ادنی سے ادنی انسانی فعل بھی اسکی گرفت سے باہر نہیں۔ لہذا طے کرنے کی بات یہ نہیں کہ کوئی فیصلہ شرع کے خلاف نہ ہو بلکہ یہ ہے کہ ہر فیصلہ شرع کے تقاضوں کے مطابق ہو کیونکہ اول الذکر رویہ شرع کو فرائض اور محرمات تک محدود کردیتا ہے

اشکال  (٤):    دور حاضر میں مسلم ریاستوں کی شرعی حیثیت کو نئے پیرائے میں بیان کرکے آپ انکے خلاف خروج کی دلیل تلاش کرتے ہیں ۔ کیا ایک نئے اجتہاد کی بات کر کے آپ متجدیدین کی صفوں میں نہیں جا پہنچتے ؟

٭   پہلی بات :  مسئلہ خروج کا وقت مجتہد فیہ مسئلہ ہے اس میں اجماع ہے ہی نہیں

٭   دوسری بات :  علماء کا اسپر اجماع کہاں ثابت ہے کہ  ‘نظام کفر ‘  کے خلاف خروج کرنا حرام ہے؟ جب ایسا کوئی اجماع ہے ہی نہیں تو ہمارے اجتہاد سے کونسا اجماعی مسئلہ ٹوٹا؟ اسکے مقابلے میں متجددین اجتہاد کے نام پر امت مسلمہ کے اجماع کو توڑتے ہیں

٭   تیسری بات :  یہ نیا اجتہاد بھی نہیں بلکہ تقلید ہی ہے امام حسین اور امام ابوحنیفہ  وغیرہ کی جیسا کہ واضح کیا گیا ، لہذا یہ اجتہاد تقلید کی نفی نہیں بلکہ اسکی تصدیق کرتا ہے ۔ اسکے مقابلے میں متجددین جب اجتہاد کرتے ہیں تو کسی کی تقلید نہیں کرتے، مثلاً جب وہ اسلامی جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو کسی مسلمان عالم کا حوالہ نہیں دیتے بلکہ اسلامی علمیت کی تعبیر نوع کرتے ہیں

٭   چوتھی بات :  نئے حالات میں ہمیشہ نیا ہی اجتہاد کیا جاتا ہے اور جب نیا اجتہاد اصول شرعیہ کی روشنی میں کیا جائے تو اسمیں کوئی حرج نہیں ہوتا، مثلاً انسانی اعضاء کی پیوندکاری اور روزے میں انجکشن لگوانا وغیرہ جیسے مسائل میں نیا اجتہاد ہی کیا گیا ہے۔ بالکل اسی طرح نظام کفر پر مبنی قومی مسلم ریاستیں ایک نیا مسئلہ ہے جس پر نیا اجتہاد ہی کرنا ہوگا

٭   پانچویں بات :  تقلید کا معنی یہ نہیں کہ اجتہاد بند ہوجائے کیونکہ اگر اجتہاد ختم گیا تو تقلید بھی ناممکن ہوجائے گی۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ انسانی حالات تو تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور نئے حالات میں تقلید ممکن بنانے کیلئے پرانے اجتہاد کی تصدیق  (نہ کہ تنسیخ)  کرتے ہوئے ایسا اجتہاد کرنا ہوتا ہے جسکے نتیجے میں معاشرہ دور نبویۖ کی طرف رجوع کرسکے۔ اسی لئے ضروری ہے کہ نیا اجتہاد  ‘مقلد’   کا ہونا چاہئے نہ کہ  ‘آزاد’  متجدد کا

اشکال  (٥) :   اگر باطل حکومت کو تبدیل کرنا ضروری ہے تو آخر آئمہ اربعہ وغیرہ نے اتنا اثر و رسوخ ہونے کے باوجود آج کے دور کی طرح جتھا بندی کرکے بنوامیہ و عباس کے خلاف خروج کیوں نہ کیا ؟

٭   پہلی بات:   آئمہ اربعہ  کا  circle of influence  (اثرورسوخ ) خود انکے اپنے دور میں اتنا وسیع تھا ہی نہیں جتنا آج ہمیں نظر آتا ہے ۔ مثلاً امام ابوحنیفہ  کو انکی زندگی میں لوگوں نے امام اعظم نہیں مان لیا تھا بلکہ اس میں صدیاں لگیں۔ انکے دور میں تو انکے ہم پلہ کئی دیگر آئمہ حضرات موجود تھے ، بلکہ انکی زندگی میں تو لوگوں نے کئی وجوہات کی بناء پر ان پر خوب جرح تک کی تھی جسکا ذکر کتابوں میں ملتا ہے ۔ لہذا یہ مفروضہ کہ انہیں لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں لوگوں کی حمایت حاصل تھی ایک غلط مفروضہ ہے

٭   دوسری بات:   ضروری نہیں ہر وہ شخص جو کسی اعلی علمی سطح پر فائز ہو وہ سیاسی محاذ آرائی کا رجحان بھی رکھتا ہو ۔ ہم اپنے دور میں اسکی کئی مثالیں دیکھ سکتے ہیں، مثلاً علامہ غلام رسول سعیدی، مفتی تقی عثمانی، مولانا سلیم اللہ وغیرہ کا بڑا علمی مقام ہے، ہزاروں کی تعداد میں انکے شاگرد ہیں جنکا پھر اپنا ایک وسیع حلقہ احباب ہے لیکن اسکے باوجود یہ علماء مسند علم سنبھالے ہوئے ہیں اور کسی قسم کی سیاسی محاذ آرائی کا حصہ نہیں بنتے

٭   تیسری بات:   پھر ان آئمہ نے یہ کب لکھا کہ ایسا کرنا ہی حرام ہے۔ آئمہ اربعہ کا کسی کام کو نہ کرنا ادلہ احکامات شرعیہ میں سے تو نہیں ۔ مثلاً آئمہ اربعہ میں سے کسی نے کفار کے خلاف عملاً جہاد میں حصہ نہ لیا تو کیا اسکا مطلب یہ ہو گیا کہ جہاد کی اہمیت ہی کم ہے؟ درحقیقت جو کام وہ اچھی طریقے سے کر سکتے تھے انہوں کیا ، لیکن جو نہیں کرسکے تو انکا نہ کرنا اسکے غلط ہوجا نے کی کوئی دلیل نہیں ۔ انہوں نے جو عظیم علمی کارنامہ کر دکھایا امت ہمیشہ کیلئے اسپر انکی احسان مند رہے گی

٭   چوتھی بات:   یہ مفروضہ بھی غلط ہے کہ ان آئمہ نے کسی قسم کی سیاسی جدوجہد کی ہی نہیں۔ امام ابوحنیفہ کا نفس زکیہ کے خروج کا ساتھ دینا تو سب کو معلوم ہے ، امام صاحب کے سیاسی نظریات کیسے تھے یہ جاننے کیلئے آپ کے بارے میں امام اوزاعی کا یہ مشہور قول ہی کافی ہے کہ  ‘ہم نے ابو حنیفہ کی سب باتوں پر صبر کیا یہاں تک کہ وہ حکومت کے خلاف تلوار لیکر باہر نکل آیا’۔ اسی طرح امام احمد بن حنبل نے بھی قربانیوں کی جو بے مثال تاریخ رقم کی ہے اسے کون بھلا سکتا ہے؟

اشکال  (٦):   اگر امام حسین درست تھے تو دیگر صحابہ نے یزید کے خلاف خروج کیوں نہ کیا؟

٭   پہلی بات:   مسئلہ خروج ہے ہی اجتہادی مسئلہ جیسا کہ پہلے بتایا گیا ، اس امر میں بہر حال اختلاف ہے کہ کس وقت تک امیر کی اطاعت کرتے رہنا ضروری ہے ۔ مثلاً ایک حدیث میں اس وقت تک امیر کی اطاعت کرنے کا حکم دیا گیا ہے جب تک کفر بواح (یعنی واضح کفر) کا اظہار نہ ہونے لگے۔ اب حدیث کے الفاظ کفر بواح  کی تعبیر میں اختلاف ہو سکتا ہے دیگر صحابہ  کا اپنا اجتہاد تھا جبکہ امام صاحب کا اپنا اور دونوں ہی مجتہد تھے ۔ ہوسکتا ہے دیگر صحابہ  کے نزدیک کفر بواح  سے مراد کفریہ عقیدہ ہو اور امام حسین و عبداللہ بن زبیرکے نزدیک اس سے مراد ترک فرائض ہو جیسا کہ انکے لئے بھی کفر کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ، مثلاً  من ترک الصلوة متعمد ا فقد کفر

٭   دوسری بات:   ہو سکتا ہے دیگر صحابہ نے مسلمانوں کی مزید خون ریزی کے خدشے کی بناء پر یزید کو قبول کرلیا ہو، ویسے بھی حضرت علی و امیر معاویہ کی جنگوں کے نتیجے میں مسلمانوں کی باہمی خون ریزی کی یادیں ابھی تازہ تھیں، نیز ہو سکتا ہے انکے خیال میں یہ تبدیلی نظام خلافت کے ایک جز  (اہل الرائے کے مشورے سے خلیفہ کے تعین)  کی مستقل تبدیلی پر محمول نہ ہو ۔ امام حسین  نے عزیمت اختیار کی، انہوں نے بھانپ لیا تھا کہ یزید کی امارت محض ایک واقعہ نہیں ہے بلکہ خلافت اب مورثی بننے جارہی ہے اور تاریخ نے ثابت کردیا کہ وہ ٹھیک تھے ، پھر بڑی تعداد میں اہل کوفہ کے یقین دلانے پر انہیں کامیابی کا امکان بھی نظر آرہا تھا

٭   تیسری بات:   دیگر صحابہنے ایسا کرنے پر امام حسین  کو برا بھلا کب کہا؟ ا سکے برعکس سب کی ہمدردیاں آپ  کے ساتھ تھیں ۔ یہی وجہ ہے کہ جب یزیدی لشکر نے مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ پر حملہ کیا تو کئی صحا بہ نے اس کھلے فسق و فجور کو دیکھ لینے کے بعد اپنی بیعت فسخ کرکے حضرت عبدللہ بن زبیر  کا ساتھ دیا گویا اب حالات انہیں بالکل واضح نظر آنے لگے تھے

٭   چوتھی بات:   عین ممکن ہے کوئی شخص امام صاحب   کی حکمت عملی سے اختلاف کرتے ہوئے اس میں اجتہادی غلطی ثابت کردکھائے کہ انہیں کوفہ جانے کے بجائے حضرت عبداللہ بن زبیر کے ساتھ ملکر مکہ و مدینہ کو ہی اپنی مشترکہ جدوجہد کا مرکز بنانا چاہئے تھا وغیرہ وغیرہ، مگر یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالی کے ہاں نہ تو کامیابی کامعیار زمین کے کسی ٹکڑے کو فتح کرلینا یا اسپر اپنی زندگی میں عملاً کوئی آئیڈیل نظام ہمیشہ کیلئے بالفعل قائم کردینا ہے اور نہ ہی اسکے ہاں کسی شخص کا مقام اس بات سے طے ہوتا ہے کہ کسی فعل کو انجام دیتے ہوئے اس نے کتنی اجتہادی غلطیاں کیں، بلکہ جو شے اسکے ہاں مقبول ہے وہ تقوے اور اخلاص پر مبنی ایسی جدوجہد ہے جسکا مقصد دنیا کو سرکار دو عالم ۖ کے دور کی طرف پلٹا دینا ہے کیونکہ اسلامی ریاست کی dynamics میں یہی مطلوب ہے کہ وہ ہمیشہ خیرو لقرون کی طرف مراجعت کے عمل سے دو چار رہے

٭   پانچویں بات:   صحابہ کے آپسی اختلافات میں ہمیں منصف بن کر کسی ایک گروہ کو صحیح اور دوسرے کو غلط کہنے کا رویہ اختیار نہیں کرنا چاہئے۔ صحابہ کے بارے میں یہ ارشاد نبوی ہمیشہ ذہن میں رہنا چاہئے  فی اصحابی لا تتخذوہم غرضا من بعدی۔ انکامقام بہت بلند ہے اور وہ جو بھی کرتے تھے پورے خلوص نیت کے ساتھ اسلام ہی کیلئے کرتے تھے

اشکال  (٧):  کیا آپ کو موجودہ دور کی جہادی و انقلابی جدوجہد کے خوف ناک نتائج اور ان تحریکات کے نقائص نظر نہیں آتے؟ ان تمام باتوں اور حالات میں مطابقت کیسے ہوسکتی ہے؟ کیا ان حالات میں بہتر یہ نہ ہوگا کہ ہم جہاد کے کام کو صرف ریاست کی سطح پر مرتب کرنے اورریاست کو اس ذمہ داری کا احساس دلانے پر اکتفا کریں جو اسکا درست شرعی طریقہ کار ہے؟

٭   پہلی بات:  یہ بہت اہم سوال ہے جسکا جواب تفصیل طلب ہے لیکن پہلے ہم اس نفیس جواب کے نکات بیان کرتے ہیں جو  شیخ عبد المنعم المصطفی حلیم نے دیا ہے، آپ فرماتے ہیں:  جہادی و انقلابی جدوجہد کے جن مفاسد کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے ان کے پھیلنے کا سبب راہ خداوندی میں جہاد اور طاغوتی حکمرانوں کے خلاف خروج کرنا نہیں بلکہ ہمارا اپنا نفس اور حکمت عملی کی غلطیاں ہیں۔ ان غلطیوں میں سے چند ایک یہ ہیں:

١)   مطلوبہ تعداد و تیاری ہونے سے پہلے ہی اقدام کردینا یعنی جلد بازی کا مظاہرہ کرنا

٢)  دائرہ عمل کا مجاہدین کی طاقت اور صلاحیت سے بڑا ہونا

٣)  دور حاضر کی طاغوتی قوتوں کی فکر ، وسائل اور لائحہ عمل کا غلط اندازہ لگاکر توکل کے جذبات سے انکا مقابلہ کرنا

٤)   جہادی کاروائیوں کے بارے میں بعض اوقات شدت پسندی کا ایسا رویہ اختیار کرنا جو خارجیوں کے اصولوں پر استوار ہے

٥)   اپنی جدوجہد کی کامیابی کیلئے استعمار کی وفادار حکومتوں اور خفیہ ایجنسیوں سے اس طرز کا تعلق رکھنا کہ انکی مدد کے بغیر جہادی تنظیموں کا وجود ہی برقرار نہ رہ سکے۔ اسی بناء پر جہادی لشکروں کو کاروائیوں کے نتائج حاصل کئے بغیر ہی لوٹنا پڑتا ہے

٦)  آپس میں مسلکی گروہ بندیوں کا شکار ہونا اور اپنی جدوجہد کو دیگر دینی کاموں سے مربوط کرنے کے بجائے تفریق کے اصول پر کار بند ہوکر باقی سب کاموں کو لایعنی قرار دینا

٧)  مسلمانوں کی اکثریت کا مجاہدین کی نصرت و حمایت سے ہاتھ کھینچ کر کھیل تماشوں اور لغویات میں مشغول ہوجانا

٨)  سب سے بڑھ کر یہ کہ مبادیات واخلاقیات اسلام و دیگر مقدس امور جن کی بناء پر اللہ تعالی کی جانب سے مدد اترا کرتی ہے ان میں سست روی اختیار کرنا

حقیقت یہ ہے کہ ہمیں جہاد کی ابتداء ہی میں ایسی مشکلات اور غلطیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے ، لیکن بڑا ظلم کرتا ہے وہ شخص جو ان غلطیوں کو ناقص حکمت عملی کے بجائے خود جہاد کے آثار و نتائج گرداننے لگے

٭   دوسری بات:  یہ درست ہے کہ جہادی و انقلابی تحریکات میں درج بالا نوع کی خرابیاں موجود ہیں، لیکن اسکا یہ مطلب نہیں کہ ان کی بناء پر اس جدوجہد ہی کو ترک کردیا جائے بلکہ کرنے کا کام انکی اصلاح و تزکیہ ہے ۔ اگر ایسی کمزوریوں کو بہانہ بنا کر مجاہدین و انقلابی تحریکات کی مخالفت کرنا جائز سمجھ لی جائے تو پھر ساری دینی تحریکات کی مخالفت کا رویہ اپنانا پڑے گا کیونکہ ان میں سے اکثر و بیشتر اور انکے علاوہ کئی دیگر خرابیاں ایسی ہیں جو صرف جہادی تنظیموں کے ساتھ ہی خاص نہیں بلکہ تقریباً سب ہی دینی جماعتیں و تحریکات بشمول مدارس کے علمائ، خانقاہوں کے صوفیائ، تبلیغی و دعوتی تحریکات وغیرہ ان میں مبتلا ہیں ۔ تو کیا یہ سارے دینی کام بند کرکے ہم  ‘مسند تنقید’  سنبھال لیں؟

٭   تیسری بات:  ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے کسی جدوجہد کو  ‘پورا قبول کرنے یا پورا رد کردینے ‘  کا رویہ اختیار کر رکھا ہے جو درست نہیں کیونکہ یہ رویہ صرف رسول کی ذات کیلئے ہی مخصوص ہے جو معصوم ہوتا ہے اسی لئے اسکا سار اسوہ  ‘اسوہ حسنہ’  ہوتا ہے اور جسکی اطاعت بلاچوں چراں مطلوب ہوتی ہے۔ عام انسانوں سے تو لازماً غلطیاں ہونگی، تنقید کرنے والوں نے تو امام حسین میں بھی غلطیاں نکال کر دکھا دیں، لہذا غلطیوں کو بنیاد بنا کر کسی کام کو پورا رد نہیں کرنا چاہئے

٭   چوتھی بات:  پھر جیسا کہا گیا کہ کسی جدوجہد کے نتیجے میں مسلمان عملاً کوئی اسلامی ریاست قائم کرنے میں کامیاب ہونگے یا نہیں یہ بحث ہی ثانوی ہے کیونکہ مطلوب اصل راہ حق میں شہادت ہے، جسے یہ حاصل ہو گئی وہ کامیاب ہو گیا۔ ہمیں آئیڈیلزم کے سراب سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے، خلافت راشدہ اب دنیا میں کبھی قائم نہیں ہونے والی، البتہ خلافت علی منہاج النبوة  قائم ہوتی اور ٹوٹتی رہیں گی جیسے طالبان نے کر دکھایا، گویا یہ ایک مسلسل عمل ہے اور ہمار کام اس میں اپنا حصہ ڈالنا ہے (جہاد تو اب قیامت تک جاری رہے گا)۔ مسلمان کی جدوجہد دنیا میں جنت بنانے کی نہیں بلکہ مر کر جنت پہنچنے کی ہوتی ہے، دنیا میں جنت کبھی قائم نہیں ہوگی۔ ایک آئیڈیل اسلامی ریاست کا خواب جہاں دنیا جنت کا نمونہ ہوگی (جو مفکرین پاکستان وغیرہ کے ہاں ملتا ہے) در حقیقت مغربی فکر سے مستعار ہے جہاں سائنس نے انسان کو دنیا میں جنت بنانے کا خواب دکھایا تھا۔ لوگ اکثر یہ سوال پوچھتے ہیں کہ  ‘ ہماری اس ساری جدوجہد کے آخر میں کیا ہوگا، کیا اسلام نافذ ہو جائے گا ؟’  اس کا جواب صرف یہ ہے کہ آخر میں ہم سب اپنی اپنی قبروں میں چلے جائیں گے اور جونہی میں قبر میں پہنچوں گا یہی میری آخر ہے، اسکے سواء آخر کچھ اور نہیں اور اللہ تعالی مجھے صرف اسی آخر تک پوچھنے والا ہے اور بس۔ جو فوجی اس شرط پر جنگ میں شامل ہو کہ اپنی زندگی میں کامیابی دیکھے گا وہ کبھی جنگ نہیں لڑتا

یہ اسی آئیڈیلزم کا شاخسانہ ہے کہ آئے دن مسلمانوں کی بڑی تنظیموں و تحریکات سے ٹوٹ کر علیحدہ سے نئے نئے اورچھوٹے چھوٹے گروہ و تنظیمیں وجود میں آرہی ہیں۔ چنانچہ ہر شخص پہلے موجودہ تنظیموں کی چند خامیاں بیان کرتا ہے، پھر انہیں دور کرنے کی سعی کرنے کے بجائے اپنا ایک آئیڈیل تراش کر خود کو اسکے حصول کا مکلف قرار دیتا ہے ، اور پھر دوسروں کو اتحاد امت کیلئے اس آئیڈیل کی طرف دعوت دیتا ہے۔ گویا وہ اتحاد امت اور اجتماعیت کو توڑ کر اتحاد امت کی دعوت پر عمل پیرا ہوتا ہے جسکی وجہ سے اسکی دعوت کا دائرہ عمل سکڑتا چلا جاتا ہے اور امت مسلمہ مزید افتراق کا شکار ہوجاتی ہے

٭   پانچویں بات:  جہادی تحریکات پر تنقید کرنے سے پہلے اس بات پر بھی غور کرنا چاہئے کہ ان میں سے اکثر و بیشتر تحریکات اقدامی یا غلبہ دین کی نہیں بلکہ تحفظ ملت و امت کیلئے ہیں اور وہ بھی ایسی کہ جنہیں مسلمانوں نے از خود اختیار نہیں کیا بلکہ کفار کی طرف سے مسلط کردہ یلغار پر مسلم حکمرانوں کی بزدلی پر مبنی حکمت عملی کے جواب میں مسلمانوں کو بادل نا خواستہ ان میں کودنا پڑ ا ہے۔ اب ایسی مسلط شدہ جنگ کو لڑنے میں غلطیاں لا محالہ ہونگی۔ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے ایک ایسا شخص سویمنگ پول کے کنارے کھڑا ہو جسے تیرنا نہ آتا ہو اور کوئی اسے اسمیں دھکا دے ڈالے، اور جب وہ لامحالہ اپنے بچاؤ کیلئے الٹے سیدھے پیر چلانے لگے تو تجزیہ کرنے والے ماہرین یہ کہیں  ‘دیکھو یہ شخص تیراکی کے اصولوں کے مطابق نہیں تیر رہا’ ۔ پھر مجاہدین کی جنگی حکمت عملی کو اصول شرعیہ میں پرکھتے وقت دشمن کے ہتھیاروں کی نوعیت اور مجاہدین کی پوزیشن بھی ذہن میں رہنی چاہئے۔ چنانچہ اس قبیل کے تمام تر زمینی حقائق کو نظر انداز کرکے علماء کرام جب ایک  ‘آئیڈیل ماحول’  پر منطبق ہونے والے اصولوں کی روشنی میں خود کش حملوں کے خلاف فتوے صادر کرتے ہیں تو بڑا عجیب لگتا ہے۔ کیا شریعت نے جہاد کے علاوہ کسی اور معاملے پر کوئی شرائط عائد نہیں کیں؟ کیا ہم نے تمام معاملات عین مطابق شریعت حل کر لئے ہیں کہ بس اب جہاد ہی کی شرائط پورا کرنے کے پیچھے پڑجائیں؟ یہ تو بڑی عجیب بات ہے کہ پاکستانی فوج تو بمبار طیاروں کی مدد سے مجاہدین کے علاقوں پر بمباری کرکے انکے معصوم بیوی، بچوں اور بوڑھوں کا قتل عام کرے( اورپھر اسے collateral demage کا خوبصورت نام دیکر پیش کرے) مگرجب مجاہدین کی باری آئے تو انہیں کہا جائے  ‘بھائی دیکھو بم چلاتے وقت ہمارے معصوم عوام کا خیال رکھنا’  ۔۔۔  فیا للعجب۔ کیا سارے معصوم انسان کراچی، لاہور ، پنڈی واسلام آباد وغیرہ میں ہی بستے ہیں، یا انکے معصوم انسان انسان ہی نہیں؟ ہو سکتا ہے آپ کہیں کہ ہم جذباتی ہو کر الزامی بحث میں پڑ گئے لیکن یقین مانئے یہ انداز بھی قرآن مجید ہی کا ہے۔ جب کفار مکہ نے مسلمانوں پر مقدس مہینوں میں جنگ کرنے کا الزام لگایا تو قرآن نے انہیں ایسے ہی جواب دیا کہ ٹھیک ہے ان مہینوں میں لڑنا بری بات ہے لیکن تم اپنے گریبان میں تو جھانکو کہ تم کن جرائم کا ارتکاب کررہے ہو  (قل قتال فیہ کبیر ۔۔۔بقرة)۔

٭   چھٹی بات:  مجاہدین تنظیموں کی اخلاقی پستی و دیگر کمزوریوں کی نشاندہی کرنے والے عموماً جہاد کو ریاستی افواج کے ماتحت کرنے کے شوقین ہوتے ہیں، لیکن انہیں سوچنا چاہئے کہ اخلاق رزیلہ کے معاملے میں مسلم افواج ان مجاہدین سے دس ہاتھ آگے ہیں، یہ ایسی افواج ہیں جو نہ تو صوم و صلوة کی پابند ہیں اور جہاں شراب نوشی، لونڈے بازی، زنا و بدکاری محض مشغلے بن چکے ہیں ۔ اگر ان تمام خرابیوں کے باوجود بھی مسلم فوجیوں کا لڑنا جہاد ہو سکتا ہے تو پھر جہادی تحریکوں کے جہاد ہی کا موازنہ صحابہ کے جہاد سے کیوں کیا جائے؟ کیا جہاد کرنے کیلئے مجاہد کا صفت عصمت یا عدل سے متصف ہونا شرط لازم ہے؟ یہ رائے بھی محل نظر ہے کہ جہادی تنظیموں کو حکومت کے ماتحت چلنا چاہئے۔ یہ بات اس مفروضے پر مبنی ہے کہ مسلم ریاستیں اسلامی ہیں، جبکہ ایسا ہے ہی نہیں۔ درحقیقت خفیہ ایجنسیوں کی مدد سے جنگ کرنا ان تحریکات کی ناکامی کا ایک بڑا سبب ہے تو اگر انہیں مکمل طور پر ایسی حکومتوں کے حوالے کردیا گیا جو واضح طور پر استعمار کی وفادار، طاغوتی نظام پر مبنی اور اسکی حامی و مدد گار ہیں تو یہ تو خود اپنے پیر پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہوا۔ جہادی تحریکات کو اپنی صف بندی اسطرح مرتب کرنی چاہئے کہ ان کفریہ ریاستوں پر انکا انحصار کم سے کم تر ہوتا چلا جائے تاکہ نظام اقتدار ایک دوسرے طریقے سے مرتب کرکے اسلامی انقلاب برپا کرنا ممکن ہوسکے

٭   ساتویںبات:  یہ بات درست ہے کہ جہاد کرنے کا موزوں ترین طریقہ اسکا ریاست کے زیر سر پرستی ہونا ہی ہے۔ مگر سوال یہ نہیں کہ جہاد کرنے کا درست طریقہ کیا ہے، بلکہ یہ ہے کہ اگر ریاست نہ صرف اپنی اس ذمہ داری سے پہلو تہی کرے بلکہ اسکی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرے اور اس میں شامل ہونے والوں کی مخالفت پر اتر آئے تو ایسی صورت حال میں کیا کرنا چاہئے۔ آپ کے خیا ل میں ہمیں صرف ریاست کو اس ذمہ داری کا احساس دلانا چاہئے، کیونکہ غیر ریاستی سطح پر ایسے کام کرنے سے بہت سی قباحتیں پیدا ہوتی ہیں، لیکن یہ طرز فکر صائب نہیں کیونکہ اس میں ایک طرح کا تضاد ہے۔ وہ ایسے کہ اگر ریاست بذات خود نفاذ شریعت اور اعلاء کلمة اللہ کے مقاصد سے دور اور طاغوتی نظام کی حامی ہو تو پھر کیا کیا جائے؟ یقینا ایسی صورت میں حکومت تبدیل کرنے کی جدوجہد کرنی چاہئے اور اسکے لئے دو میں سے ایک طریقہ اختیار کرنا ہوگا:  (١)  پر امن جمہوری طریقہ،  (٢)  انقلابی طریقہ۔ پہلے طریقے سے ریاست کی تبدیلی نا ممکن ہے کیونکہ جمہوری سیاست سرمایہ دارانہ نظام اقتدار میں ضم ہوجانے کا دوسرا نام ہے جیسا کہ  ‘دستوریت و جمہوریت کے خدوخال ‘  کے لیکچرمیں واضح کیا گیا۔ اب رہ گیا دوسرا طریقہ تو وہ غیر ریاستی سطح پر قوت جمع کرکے کشت و خون کے انہیں موہوم خطرات سے ہو کر گذرتا ہے جو جہادی تحریکات کا حصہ ہوتے ہیں۔ اب اگر ان خطرات کا اعتبار کرلیا جائے تو پھر کفریہ ریاست کے خلاف انقلابی جدوجہد بھی نا قابل عمل طریقہ بن جائی گی اور ہمارے سامنے کرنے کا کام صرف وہی ہوگا جو سیاسی دینی جماعتیں کررہی ہے، یعنی حقوق پر مبنی جمہوری سیاست ۔ دوسرے لفظوں میں ہم تبدیلی ریاست سے دستبردار ہو کر صرف مسند دعوت سنبھال لیں اور عملاً جہاد اور اقتدار کی تبدیلی کے نا ممکن العمل ہونے پر راضی ہو جائیں

٭   آٹھویں بات:  جہاد کے معاملے میں ریاست کو محض اسکی ذمہ داری کا احساس دلا دینا کافی نہیں کیونکہ اگر اس طریقے کا اعتبار ہر معاملے پر کر لیا جائے تو دین کے بہت سے مصالح فوت ہو جائیں گے۔ مثلاً  (١)  لوگوں کے جان و مال کو حفاظت فراہم کرنا ریاست کا کام ہے لیکن اگر پولیس خود چور، بے ایمان اور رشوت خور ہو اور لوگ اپنی جان و مال کی حفاظت کی خاطر پرائیویٹ سکیورٹی کا بندوبست کریں (جیسے ہمارے ہاں عام ہو گیا ہے) تو کیا یہ فعل غیر شرعی ہوگا؟ سب کو معلوم ہے کہ کراچی کی کئی سکیورٹی ایجنسیاں جعلی نکلیں، گارڈز نے لوگوں کے گھر، دوکانیں یہاں تک کہ بینک بھی لوٹ لئے اور کئی دفعہ یہ گارڈز لوگوں کو قتل تک کر دیتے ہیں۔ تو کیا ان مفاسد کی بناء پر پرائیویٹ سکیورٹی ناجائز ہو جائے گی؟ کیا لوگوں کا کام بس اتنا ہی ہے کہ وہ ڈاکووں سے اپنے بچاؤ کی تدبیر کرنے کے بجائے صرف بے ایمان پولیس افسروں کو اصلاحی دروس دلوانے کیلئے اچھے واعظ تلاش کرتے پھریں؟  (٢)  اسی طرح لوگوں کے معاملات کو احکامات شرعیہ کے مطابق طے کرنے کیلئے نظام قضاء کا قیام بھی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ لیکن جب ریاست نے یہ سرپرستی چھوڑ دی تو علماء نے نجی طور پر اور مدارس کی سطح پر فتاووں کے ذریعے یہ کام سر انجام دیا ۔ سب جانتے ہیں اس طریقہ کار کے ذریعے بہت سے غلط فتوے جاری ہوئے جن کی وجہ سے کئی مفاسد سامنے آئے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا سب مفتیان کرام دارالافتاء بند کرکے سپریم کورٹ آف پاکستان میں نظام قضاء کے قیام کیلئے مقدمہ دائر کرکے اسکی پیروی کیلئے ایک قابل وکیل تلاش کرنا شروع کردیں؟    (٣)   یہ بات عیاں ہے کہ نظام زکوة کے ثمرات تبھی ظاہر ہوتے ہیں جب حکومت اسے قائم کرے۔ لیکن جب ریاست ایسا نہ کرے تو کیا اس دلیل سے کہ بہت سے ٹھگ اور غیر مستحقین لوگوں سے زکوة لے اڑتے ہیں افراد زکوة دینا بند کرکے محکمہ سی بی آر کو اس کام کی اہمیت کا احساس دلانا شروع کردیں؟  (٤)   اور تو اور مسجدوں کا موجودہ  ‘مسجد کمیٹی’  نظام کیا عین اسلامی ہے؟ سب کو معلوم ہے کہ جب سے مسجدیں بنانے کی کھلی آزادی ملی ہے مسجدوں کو فرقہ بندی کیلئے استعما ل کیا جانے لگا ہے، باقاعدہ مسجدوں پر قبضے ہوتے ہیں، مسجدوں کے نام پر پلاٹوں پر قبضہ کیا جاتا ہے۔ تو کیا مسلمان ساری مسجدیں بند کرکے مشرف صاحب کو اقامت صلوة کی اہمیت بتلانے پر سارا زور صرف کردیں؟ اس قبیل کی اور بہت سی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں

اصل بات یہ ہے کہ ایک کام جب اپنے درست طریقے کے بجائے کسی دوسرے طریقے سے کیا جاتا ہے تو اسمیں گو نا گو ں خرابیاں ضرور پیدا ہوتی ہیں اور جہادی تحریکات کی جدوجہد کو بھی اسی پر قیاس کرلینا چاہئے۔ اس موقع پر لوگ اکثر کہتے ہیں کہ قتل کی صورت میں فرد کو خود قصا ص لینے کے بجائے صبر کرنا چاہئے، لیکن ہم کہتے ہیں کہ اگر ریاست قتل کرنے والوں سے اغماض کرنے کو نہ صرف یہ کہ اپنی مستقل پالیسی بنالے بلکہ انکی پشت پناہی کرے تو یقین مانئے افراد اپنے تئیں قصاص لینے پر مجبور ہوجائیں گے جس سے بہت سی خرابیاں جنم لیں گی، اور پھر کسی مفتی کے فتوی دینے سے کام نہیں چلے گا۔ انسانی زندگی کسی جمود کا نام نہیں اور نہ ہی یہ خلا میں متشکل ہوتی ہے، جب حصول مقاصد میں مدد گار ایک قسم کی اکائیاں تحلیل ہوتی ہیں تو اسکی جگہ دوسری اکائیاں لازماً جنم لیتی ہیں۔ ایسا نہیں ہوتا کہ انسانی معاشرت ایک قسم کی اکائی ختم ہو جانے کے بعد ضروری مقاصد چھوڑ کر خلا میں معلق ہو جاتی ہے۔ دور حاضر کے متجددین کا یہی شیوہ ہے کہ جب وہ دینی روایات پر تنقید کرکے انہیں چھوڑنے کا سبق دیتے ہیں تو یہ سبق صرف کچھ چھوڑ دینے کا ہی نہیں ہوتا بلکہ لازماً ایک نیا طرز زندگی اختیار کرنے کا بھی ہوتا ہے۔ پس جس طرح اسلامی علمیت کی حفاظت اور فروغ کیلئے آئیڈیل ماحول یعنی ریاستی سرپرستی معدوم ہوجانے کے بعد علماء نے مساجد و مدارس کی سطح پر اسکا انتظام کیا ، اسی طرح دفاع و غلبہ امت کے آئیڈیل نظام کے ختم ہوجانے کے بعد مجاہدین اسلام نے اپنی بے مثال قربانیوں اور جہادی صف بندی کے ذریعے اس چراغ کو روشن رکھ کر احیاء اسلام کے مواقع زندہ رکھے ہیں۔ خوب یاد رہے کہ مقاصد الشریعہ کے حصول کیلئے نازل شدہ احکامات کا نفاذ امت مسلمہ پر لازم ہے، آئیڈیل طریقہ میسر نہ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ غیر آئیڈیل طریقہ اپنانے کے مقابلے میں مقاصد الشریعہ کا فوت ہوجانا قبول کرلیا جائے

٭   آخری بات:  جہادی جدوجہد رد کرنے کا مطلب اسکے سواء اور کچھ نہیں کہ ہم غلبہ اسلام کے دعوے سے دستبردار ہوکر استعمار کا غلبہ قبول کرکے اسے کھلی چھٹی دے دیں اور یہی اصل نقصان ہے۔ مسلمانوں کا اجتماعی فائدہ اور نقصان یہی ہے کہ آیا نفاذ اسلام کے مواقع پیدا ہورہے ہیں یا نہیں۔ اسلام کا کام صرف عقائد درست کرنا ہی نہیں بلکہ ان عقائد پر نظام عبادت قائم کرکے پوری زندگی کو اسکے تابع کرنا ہے اور یہ کام نظام اقتدار تبدیل کئے بغیر نا ممکن ہے جس کیلئے جہادی و انقلابی جدوجہد کو مرتب کرنا جز ولازم ہے ، استثناء کی بات الگ ہے کہ اللہ تعالی کی طرف سے کوئی انعام مل جائے جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے معاملے میں ہوا۔  وما علینا الا البلاغ

فقہ السیاسےة

خلافت یا جمہوریت

مولاناسید محمد محبوب الحسن بخاری

مقصد مضمون:

اس مضمون کو لکھنے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ اصولی طور پر یہ سمجھا جائے کہ جمہوریت اور خلافت میں بنیادی طور پر کیا فرق ہے اور اگرکوئی فرق ہے تو اس فرق کی نوعیت کیا ہے کیا یہ سطحی فرق ہے یا بنیادی نوعیت کا فرق ہے اور اگر بنیادی فرق ہے تو ہمیں اس سلسلے میں کیا کرنا چاہیے۔

ترتیب مضمون:

مضمون کی ابتداء میں ہم ریاست کا مقصد بیان کریں گے اور یہ بیان کریںگے کہ ریاست کوئی ماورائے قدر شے نہیں ہے اور ریاست کی قدر دراصل ایمانیات سے ماخوذ ہوتی ہے۔ دوسرے مرحلے میں ہم جمہوریت بحیثیت ایک نظام اقتدار اور اس کے خدوخال اور اس کی قدر اور اس کی ایمانیات سے تعلق بیان کریں گے، تیسرے مرحلے میں ہم خلافت، اس کا مقصد وقدر اور اس کا ایک خاص تعلق اس کی ایمانیات سے واضح کریں گے اور چوتھے اور آخری مرحلے پر ہم جمہوریت اور خلافت کا ایک تقابلی جائزہ پیش کرکے نتیجہ اخذ کریں گے۔

ریاست اور اس کا قیام:

ریاست کو ہمیشہ ایک خاص قدر کو معاشرے میں نافذ کرنے کے لیے قائم کیا جاتا ہے اور اس قدر کی بناء پر عدل قائم کیا جاتا ہے یہ قدر معاشرے اور لوگوں کی ایمانیات سے مستنبط ہوتی ہے یہ قدر ایمانیات کے ساتھ مکمل ہم آہنگی رکھتی ہے اور اگر یہ قدر ایمانیات سے مختلف یا برعکس ہوجائے تو لامحالہ لوگوں کے لیے اس ایمانیات کے مطابق زندگی گزارنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جاتا ہے۔

ریاست دراصل نظام اقتدار ہے جو اوپر سے لے کر نیچے تک جبراً قدر کو نافذ کرواتی ہے حکومت ریاست کی صرف ایک اوپری سطح ہے جس کی تبدیلی سے ریاست اپنے بنیادی مقاصد کے حصول سے نہ تو رکتی ہے اور نہ اپنے مقاصد واقدار کو تبدیل کرتی ہے۔

چند اصولی جملوں کے بعد اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کو ایک مثال سے واضح کردیا جائے ۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ ایک ریاست ہے اور یہ ریاست اپنے ملک میں ایک خاص قدر کو نافذکرنے کے لیے وجود میں آئی ہے ریاست کے پاس موجود قوت نافذہ کے ذریعے سے وہ اوپر سے لے کر نیچے تک اس قدر کو نافذ کرتی ہے اور چونکہ حکومت ریاست کی اوپری سطح ہے لہٰذا اس کی تبدیلی سے اس قدر کے نفاذ میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی کیونکہ حکومت سے نیچے مختلف ادارے ہیں جن میں بلدیہ، پولیس، عدلیہ وغیرہ وغیرہ ہیں یہ پہلے سے قائم شدہ اقدار کے مطابق کام کرتے ہیں اور اس قدر کے نفاذ کی جدوجہد کرتے ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکی تناظر میں وہ قدر ہے کیا اور اس کے استنباط کا ذریعہ اور اصل کیا ہے تو امریکہ کی ریاست کی بنیادی قدر ہے برابری کی سطح پر آزادی یعنی آزادی ہر انسان کے لیے بلا استثناء چاہے وہ مرد ہے یا عورت، کالا انسان ہے یا گورا، انگریز ہے یا غیرانگریز اگر اس شخص کا تشخص انسان (Human)ہے تو اسے برابری کی سطح پر آزادی فراہم کرنا ریاست ہائے متحدہ امریکا کا کام ہے۔ یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ آزادی کا استعمال ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یہی ہے کہ انسان اپنی خواہشات نفسانی کی پیروی کرے اور اپنی خواہشات کو بڑھاتا چلا جائے اور بڑھانے کے ساتھ ساتھ ان کو پورا کرنے کے لیے کوششوں کا دائرہ کار بھی بڑھاتا چلا جائے اس عمل کو سرمایہ داری کہا جاتا ہے۔ لہٰذ امریکا کی قدر تو برابر کی آزادی ہے اور جب اس قدر کو نافذ کیا جاتا ہے تو زندگی سرمایہ داری (تکمیل خواہشات کے لیے ذرائع میں مسلسل اضافہ)کے سوا کچھ اور سامنے نہیں آتی یہی حقیقت ہے اور تاریخ یہی ثابت کرتی ہے۔

ریاست امریکا کی قدر تو یہی ہے آزادی لیکن یہ ایسے ہی نہیں آگئی بلکہ یہ قدر امریکیوں کی ایمانیات سے مستنبط ہے اور امریکی کا انسان یعنی اپنے بارے میں یہ ایمان باالیقین ہے کہ انسان عدم سے وجود میں نہیں لایا گیا بلکہ وہ تو ایک قائم بذات حقیقت ہے جو اپنے ہونے کا جواز اپنے اندر رکھتی ہے نہ کہ اپنے باہر یعنی انسان کوئی مخلوق نہیں ہے بلکہ اپنا الٰہ خود ہے اسے کسی خدا نے پیدا نہ کیا نہیں ہے اور جب اسے کسی خدا نے پیدا نہیں کیا تو مقصد حیات انسان خود طے کرے گا کہ خیر وشر کیا ہے، صحیح اور غلط کیا ہے کوئی مذہب، نبی یا خدا نہیں بتائے گا۔ اور جب خدا کا مجھ سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں تو میں کسی کے آگے جوابدہ بھی نہیں ہوں امریکی انسان کی آزادی انہی معنوں میں کہتے ہیں اور آزادی کسی خاص انسان کے لیے مخصوص نہیں ہے بلکہ سب انسان فطری طور پر آزاد ہیں۔

لیکن معاشرے میں رہتے ہوئے انسان اپنی فطرت (آزاد) کے مطابق زندگی نہیں گزار سکتا کیوں کہ معاشرے میں کچھ انسان کمزور اوردوسرے طاقتور ہیں اسی طرح کچھ غبی اور دوسرے چالاک ہیں۔ اپنی آزادی کی تکمیل کے لیے وہ دوسرے کی آزادی کو سلب کر لیتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ عدل کا تقاضہ ہے کہ انسان ہونے کے ناطے سب کو برابر کی آزادی فراہم کی جائے تاکہ وہ اپنے بنائے گئے تصور خیر وشر کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ اس عدل کے قیام کے لیے ریاست کو قائم کرنا ناگزیر ہے (ہابس، LEVEATHAN) ریاست کا کام سب لوگوں کو برابری کی آزادی فراہم کرنا ہے یہی وہ قدر ہے جس کا نفاذ ریاست کرتی ہے اس قدر کے مطابق ہی سرمایہ دارانہ عدل قائم ہوتا ہے عدل کوئی ماورائے قدر تصور نہیں بلکہ ہمیشہ اپنے اندر ایک خاص قدر سموئے ہوئے ہوتا ہے۔

ریاست جب کسی خاص قدر کو نافذ کرتی ہے تو وہ دراصل ایک اچھی زندگی (good life) کے تصور کو پروان چڑھاتی ہے یعنی قدر کے نفاذ سے ایک مخصوص خیر سے بھرپور زندگی سامنے آتی ہے اور تمام شہریوں کے لیے یہ زندگی ایک معیار کے طو رپر سامنے آتی ہے جس کو حاصل کرنا ہر شہری کے لیے معیار بن جاتا ہے۔

جمہوریت: اقدار اور مقاصد:

جمہوریت (Republic) دراصل سرمایہ داری کی اقدار کو نافذ کرنے کا نظام اقتدار ہے سرمایہ دارانہ نظام میں جس قدر کا فروغ ہوتا ہے وہ برابر کی آزادی ہے لہٰذا جمہوریت (Republic) کو بطور آلہ کار اور ذریعہ استعمال کر کے سرمایہ دارانہ اقدار کا فروغ کیا جاتا ہے لہٰذا جمہوریت (Republic)کو اس سے منسلک ایمانیات سے ہٹا کر دیکھنا لاعلمی ہے۔ جمہوریت میں انہی اقدار کا فروغ ہوتا ہے اور ہوسکتا ہے جس کے لیے اس کو بنایا اور قائم کیا گیا ہے۔

جمہوریت کا انگریزی ترجمہ میں نے Republic کیا ہے نہ کہ Democracy۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے ڈیموکریسی Republicکی فرع ہے اور وہ اس کی اصل ہے فرع میں اصل شامل ہوتا ہے اس طور پر کہ وہ اصل ہی کی فرع ہوتی ہے۔ Republicدراصل وہ نظام اقتدار ہے جس میں فیصلے انسان اپنی مرضی سے کرتا ہے نہ کہ اپنے سوا کسی اور کی مرضی سے یعنی ریاست کیا نافذ کرے گی اور کس کو فروغ دے گی اس بات کا فیصلہ انسان خود کرے گا نہ کہ خدا اور نہ رسم ورواج اور مذہب۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا کہ انسان خود کیسے درست فیصلہ کرے گا۔ انسان اپنے فیصلے کو اپنی عقل کے ذریعے سے پرکھے گا کہ یہ فیصلہ عقل کے معیار پر درست ثابت ہوتاہے یا نہیں۔ خلاصہ کلام یہ ہوا کہ Republicمیں انسان خود اپنی مرضی سے عقل کے ذریعے فیصلے کرتا ہے اور اس عقل کے معیار پر پورا اترنے والی قدر اور حق آزادی ہے لہٰذا ریاست کا کام صرف آزادی کا فروغ ہے۔ ری پبلک کا تصور ہمیں سب سے پہلے افلاطون، ارسطو، ہابس، میکاولی، لاک، روسو وغیرہ اور اس کے بعد آنے والے تمام مفکرین میں ملتا ہے جو اس طرز کی ریاست کو وجہ جواز فراہم کرتے ہیں اور اس ہی طرز کی ریاست کو حق جانتے ہیں۔

اب اس طرز ریاست اور نظام اقتدار میں مختلف نظام حکومت قائم کیے جاسکتے ہیں جن میں اشرافیہ، جمہوریت اور بادشاہت وغیرہ ہوسکتے ہیں۔ افلاطون بنیادی طور پر ری پبلک کا حامی تھا لیکن جمہوریت کے خلا ف تھا اس کا خیال تھا کہ تمام انسان عقل کے ذریعے حق تہیںجان سکتے ہیں لہٰذا نظام حکومت میں تمام لوگ نہیں بلکہ چند یا ایک فلسفی کنگ حکومت کرے گا۔ (ری پبلک۔ افلاطون)

اسی طرح ارسطو بھی ری پبلک کا زبردست حامی اور داعی تھا لیکن جمہوریت کو اس نے بھی سخت ناپسند کیا۔ پورے یونان میں عقل کا تو چرچا تھا لیکن برابری کا کوئی تصور نہ تھا شہری سے صرف مشاورت کی جاسکتی تھی اور شہری صرف اور صرف آزاد مرد تھے ان میں عورتیں اور غلام شامل نہ تھے۔ مغرب میں برابری کا تصور رومی لے کر آئے اور بتایا کہ سب لوگ عاقل ہیں اور اس میں سب برابر ہیں عورتیں اور غلام بھی۔ (Encyclopedia of Britanica)

جمہوریت وہ نظام حکومت ہے جو اصولی طور پر Republicکو خاص انداز میں قائم کرتی ہے جس میں فیصلے تو لوگوں کی ہی کی مرضی کے مطابق ہوںگے لیکن ایک خاص انداز میں اور وہ خاص انداز یہ ہے کہ لوگ اپنے نمائندے منتخب کرکے ایوان زیریں میں بھیجیں گے جو لوگوں کی خواہشات اور آرزوؤں کے مطابق قانون سازی یعنی قانون بنائیں گے اور یہ قانون صرف اور صرف لوگوں کی خواہشات نفسانی کا تحفظ کریں گے اور اگر منتخب نمائندگان اس طرح کی قانون سازی میں ناکام رہے تو لوگوں (عوام الناس) کو اس بات کا پورا حق ہوگا کہ وہ ان منتخب نمایندگان کو مسترد کرکے نئے نمائندگان منتخب کرکے اپنی خواہشات کا تحفظ کریں (لاک)

ری پبلک اور سرمایہ داری میں چولی دامن کا ساتھ ہے ری پبلک ہی وہ ادارہ ہے جس کے ذریعے سے سرمایہ داری اپنے اہداف حاصل کرتی ہے اور جمہوریت تو محض اس کی ایک خاص (Form) شکل ہے۔ لہٰذا جمہوریت چاہے براہ راست (Direct) ہو یا دستوری (Consthutional) اپنی اصل میں فرع ہے ری پبلک کی اور ری پبلک دراصل ذریعہ اور آلہ کا ر ہے سرمایہ داری کے فروغ کا اور سرمایہ داری دراصل اس بات کا اقرار ہے کہ انسان زمان ومکان سے آزاد قائم بالذات حقیقت ہے جو اپنا خالق خود ہے، خیر وشر کے تعین کے لیے اسے اپنے علاوہ کسی پر تکیہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

انسان بحیثیت آزاد قائم بالذات ہونے کے ناطے سے تین حقوق رکھتا ہے۔ (1) زندگی (2) آزادی (3) ملکیت۔ یہ تینوں بنیادی اور فطری انسانی حقوق ہیں اور انہی حقوق کی فراہمی سے انسان اپنی ذات کی تکمیل اور زندگی کے معانی کی کھوج لگا سکتا ہے۔ (جان لاک، An Essau H.Unde)

ان بنیادی حقوق سے آپ اسی وقت کماحقہ استفادہ حاصل کر سکتے ہیں جب آپ انہیں اپنی لذات کے حصول اور انہیں بڑھانے اور ان میں تنوع پیدا کرنے کے لیے استعمال کریں اور اگر آپ ان حقوق کو خواہشات اور لذات کے ماسوا استعمال کریں گے تو یہ انسانیت کی معراج کے لیے ناکافی ہیں اور تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا (بینتھم)۔ حقوق دراصل خاص فرائض کی ادائیگی کا  وسیلہ ہیں لہٰذا اگر ان بنیادی انسانی حقوق کو آپ کسی اور مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہیں  مثلاً اپنی زندگی کو خدا کے نام اس طرح کر دیں کہ اس کی رضا حاصل کرنے کے لیے زندگی گزارنا ضروری ہوجائے یا آپ صرف اور صرف خدا کی حمد وثناء اور انبیاء کرام کی عصمت کے لیے آزادی اظہار کا حق نہ دیں یا آپ اس بات پر پابندی لگا دیں کہ آپ صرف اور صرف حلال چیزیں تو خرید اور مالک بن سکتے ہیں اور حرام کے نہیں تو ان خیالات کی سرمایہ داری میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ سرمایہ داری دراصل خدا بیزار اور خدا کی انکاری اور کفر ہے اور اسلام سے مختلف نہیں بلکہ اس کے بالکل برعکس ہے اور دو متضاد اشیاء کاایک ساتھ وجود ناممکن اور خلاف عقل ہے لہٰذا سرمایہ داری میں ایسے امکانات تلاش کرنا جس میں کہیں اسلام کو کسی کونے میں سکونت دلا دی جائے ایک مخلص مشورہ اور کوشش تو ہوسکتی ہے لیکن انتہائی غیرمعقول اور ناممکن ہے۔

انہی حقوق کا تحفظ بنیادی مقصد ریاست اور انہیں حقوق کا تحفظ وہ معیار ہے جس سے لوگ یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ کون سی حکومت اور طرز حکومت بہتر طور پر ہمارے انہی بنیادی حقوق کا بہتر تحفظ کر رہی ہے کہ نہیں۔ سرمایہ دارارنہ نظام میں لوگ اہم ہیں لہٰذا زندگی کی ابتداء سے انتہا تک صبح سے شام تک ان کی کوششوں کی سمت ہمیشہ اپنے ذاتی حقوق کا تحفظ ہے اور ذاتی حقوق کے تحفظ میں وہ خیر، اچھائی، اور نیکی جیسے تمام تصورات کو پس پشت ڈال کر زندگی گزارنا شروع کر دیتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ معاشرے اور ریاست میں حقوق تصورات خیر سے زیادہ اہم ہوجاتے ہیں اور انسان اپنے بارے میں زیادہ سوچتا ہے فکر کرتا ہے اور خیر کے بارے میں کچھ نہیں یا بہت کم۔

بنیادی انسانی حقوق کی ایک مخصوص تعبیر سمجھنا اور ان پر عمل کروانا ریاست کی ذمہ داری ہے اور اس بات کا اظہار روسو نے اس فرق کے ذریعے واضح کیا کہ ارادہ عمومی (geneal wiu) کبھی بھی غلط نہیں ہوسکتا چاہے تمام لوگوں کا ارادہ (Will of All) اس کے خلاف ہوجائے۔تمام لوگوں کے ارادے (Will of all) کو ارادہ عمومی کے تابع کردینا ریاست کی ذمہ داری ہے تمام لوگوں کا ارادہ غلط ہو بھی سکتا ہے یعنی تمام لوگ اپنے حقوق کی غلط تعبیر کرسکتے ہیں لیکن ارادہ عمومی کبھی بھی غلط نہیں ہوسکتا کیونکہ ارادہ عمومی میں انسانی بنیادی حقوق کی ایک خاص تعبیر زمان ومکان سے ماوراء تصور کرکے محفوظ کرلی گئی ہے جو Bill of Rights کہلاتی ہے اور اسی کو امریکا نے اپنے دستور میں جوہری حیثیت دی اور پھر امریکی دستور کی اتباع میں تمام دساتیر بنیادی عالم میں اس Bill of Righits کو Rights اور کلیدی طور پر قبول کرلیا گیا ہے لہٰذا ارادہ عمومی کبھی بھی غلط اس لیے نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ تو پہلے ہی سے بنیادی فرق کی ایک خاص تعبیر کے طور پر لکھا جا چکا ہے جو 54 سفید فام مردوں نے تشکیل دیا تھا۔

خلاصہ کلام یہ ہو ا کہ انسان آزاد قائم بالذات ناقابل مواخذہ ہستی ہے جس کے کچھ بنیادی انسانی حقوق ہیں جنہیں انسان صرف لذات کے حصول اور تنوع اور تلذذ کے لیے استعمال کرسکتا ہے اور انہیں حقوق کی اس خاص تعبیر کو دستور میں محفوظ کر لیا گیا ہے۔  ہر طرز حکومت اس دستور کے مطابق حکومت کرتی ہے اور اگر سب لوگ مل کر اس تعبیر کے خلاف ہونا چاہیں تو ان کی یہ کوشش غلط ہے کیونکہ انسان تو اسی طرح ہی اچھا انسان بن سکتا ہے اور ہر ریاست ری پبلک کے ذریعے سے سرمایہ دارنہ نظام نافذ کرے گی اور اس ری پبلک کی مختلف اشکال میں سے ایک جمہوریت ہے۔

اب ہم جمہوریت کو بطور نظام حکومت دیکھتے ہیں جیسا کہ ہم نے اس سے قبل کہا کہ جمہوریت ری پبلک کی فرع ہے لہٰذا اپنی اصل کی طرح یہ بھی لوگوں کی حکومت ہے۔ اس میں بھی فیصلے لوگوں کی مرضی اور صرف اور صرف لوگوں کی خواہشات نفسانی کے مطابق ہوتے ہیں اور لوگوں کی اس صلاحیت کی حفاظت کا اہتمام کیا جاتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ فیصلے اپنی مرضی سے کرسکیں۔

جمہوریت میں سب سے پہلے بلند وبانگ دعویٰ اس امر کا کیا جاتا ہے کہ یہ عام لوگوں کی حکومت ہے عام لوگوں کے ووٹوں سے (جو کہ صرف اور صرف لوگوں کی نمائندگی کرنے کا ایک آلہ اور ہتھیار ہے) حکومتیں چلتی ہیں بنتی ہیں بگڑتی ہیں اور عاوم آدمی کی آواز سنی جاتی ہے آزادی رائے ہوتی ہے وغیرہ وغیرہ لیکن یہ تمام کے تمام دعوے بے بنیاد اور غلط ہیں۔ یہ اس طرح غلط ہیں کہ حکومت ایک بار منتخب ہونے کے بعد کبھی بھی عوام سے نہیں پوچھتی کہ فلاں چیز کس طرح ہوگی اور فلاں چیز کس طرح ہوگی فلاں چیز پر قانون سازی کی جائے اور کس طرح کی جائے ان تمام امور کے لیے عوام سے رائے نہ لی جاتی ہے اور نہ اسے درست سمجھا جاتا ہے کیونکہ عوام اپنا فائدہ کس طرح زیادہ محفوظ رکھ سکتی ہے یہ عوام سے زیادہ ماہرین عمرانی علوم (Social Scientists)  جانتے ہیں لہٰذا اس طرح کا ہر معاملہ عمرانی علوم کے ماہرین کے پاس بھیجا جاتا ہے اور ان کی رائے کو حتمی سمجھ کر قانون سازی کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر پاکستانی روپے کی قیمت دن بدن گرتی جارہی ہے پاکستانی عوام کے منتخب نمائندے اس کے سدباب کے لیے کبھی بھی عوام کے پاس نہیں جائیں گے بلکہ یہ معاملہ ماہر معاشیات (عمرانی علم) کے پاس بھیجا جائے گا اور اور ماہر معاشیات پاکستان کی معیشت کا مکمل جائزہ اور تجزیہ کرنے کے بعد بتائے گا کہ اس کا سدباب یوں ممکن ہے اور اس کے برعکس ناممکن ہے جبکہ عوام الناس کی رائے غیرمعقول تصور کی جائے گی۔

جمہوریت میں جب اقتدار عوام کی امنگوں کے مطابق نہیں چلتا لوگ اپنی انفرادی زندگیوں اور سرمایہ کی بڑھوتری کے لیے اپنا زیادہ سے زیادہ وقت صرف کرنا شروع کر دیتے ہیں اور آخر کار وہ وقت آجاتاہے کہ شہری اس سیاسی عمل میں کم سے کم شریک ہونا پسند کرتا ہے، امریکا کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں جمہوریت کی جڑیں معیاری حد تک مستحکم ہیں اور وہاں سیاسی عمل میں صرف 29 سے 30 فیصد شہری شریک ہوتے ہیں۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ مغربی تہذیب کی ایمانیات یہ ہے کہ انسان قائم بالذات آزاد ناقابل مواخذہ ہستی ہے لہٰذا خیر وشر کو وہ خود عقل کے ذریعے طے کرنے، اس کی تعبیر کرنے اور اس پر عمل کرنے کی مکلف ہے۔ اس ایمانیات سے نکلنے والا  اچھی زندگی کا تصور یہ ہے کہ اچھی زندگی وہ ہے جس میں ہر انسان کو اس طور پر آزادی ملے جس میں وہ اپنی مرضی کے مطابق نفسانی خواہشات کو پیدا کرنے، تنوع کرنے اور ان کو مکمل کرسکنے پر قادر ہو۔ اس تصور کو جو آلہ نافذ کرسکتا ہے وہ ہے ری پبلک جس میں فیصلے لوگوں کی مرضی سے لوگوں کی خواہشات کی تکمیل کے لیے ہوتے ہیں اور جمہوریت صرف ایک خاص انداز میں سرمایہ داری کے لیے یہ خدمت سرانجام دیتی ہے۔

 خلافت:

خلافت دراصل اسلام کی ریاستی سطح پر نفاذ کا نام ہے خلافت کے ادارے ہی سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ خلافت کے ذریعے سے شریعت پر عمل کرنا ہر مسلمان کے لیے آسان اورلازمی ہوجائے۔ خلافت اسلام کے تصور (good life) کو نافذ کرتی ہے۔ یہ تصور خیر اسلام کی ایمانیات سے ماخوذ ہے جس کے مطابق انسان مخلوق ہے جسے خدا عدم سے وجود میں لایا لہٰذ انسان کی حقیقت اس کا عبد( بندہ) ہونا ہے لہٰذا اس کائنات وجہاں کی حقیقت خدا تعالیٰ ہے اور انسان صرف مخلوق ہے لہٰذا شر اور خیر کو اللہ تعالیٰ واضح کریں گے اور انسان صرف وہ کرنے کا مکلف ہے جو اسے خدا نے حکم دیا ہے لہٰذ مرنے کے بعد انسان کو خدا کے سامنے جواب دینا ہے اس ایمانیات سے اچھی زندگی کا تصور یہ نکلتا ہے کہ اللہ کی خوشنودی۔ زندگی میں جہاں خدا کی خوشنودی ملے وہاں سے حاصل کرو۔ جیسا حدیث پاک میں ارشاد ہوا کہ تم وہاں موجود ہو جہاں خدا نے موجود رہنے کا حکم دیا ہے اور وہاں غیرحاضر ہو جہاں خدا نے تمہارا وجود نہ پسند کیا۔ اس تصور خیر کو نافذ خلافت کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ (ابن خلدون)

خلافت میں جس بات کو ممکن بنایا جاتا ہے وہ ہے اسلام جو مسلمان ہیں ان کے ایمان کو قومی سے قوی تر کرنے کی کوشش اور ان پر عمل کرنے کے زیادہ سے زیادہ مواقع اور دوسری طرف اسلام کی دعوت وتبلیغ جس کے لیے جہاد نہایت اہم ہے یہاں پر یہ بات اچھی طو رپر سمجھ لینے کی ضرورت ہے کہ اسلامی ریاست اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک آفاقی ریاست ہوتی ہے جو اپنے پھیلاؤ میں کسی خاص مکان میں محدود نہیں رہتی بلکہ پورے عالم میں پھیلنا ضروری ہوتا ہے وہ جغرافیائی حدود میں قید نہیں رہتی ہے جیسا کہ قومی ریاست (Nation State) ہوتی ہے۔ لہٰذا خلیفہ مسلمانوں کے ایمان کی حفاظت اور اس پر عمل اور اسلام کی تبلیغ کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتا ہے۔

قبل اس کے کہ ہم خلافت کا ائمہ اسلاف کے ہاں اس کی ایک خاص صورت (form) بیان کریں یہاں یہ بات واضح رہے کہ ہمارے لیے صورت سے بڑھ کر اس میں موجود مافیہ زیادہ اہم ہے اور وہ ہے اعلاء کلمةاللہ صورتوں کا اختلاف ثانوی درجہ کا  ہے اور زیادہ اہمیت کا متحمل نہیں ہے لہٰذا خلافت کی کوئی بھی صورت ہو اور اس میں شریعت نافذ ہو دعوت وتبلیغ جاری ہو درست ہے۔

اب ہم خلافت کا ایک عمومی ڈھانچہ بیان کرتے ہیں۔

خلافت کا قیام دو طرح سے ممکن ہے ارباب حل وعقد شریعت کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے خلیفہ کو چن لیں عام طور سے خلیفہ کی شخصیت میں کم سے کم درج ذیل پانچ صفات کا ہونا ضروری ہے۔

(١) علم (٢) عدالت (٣) کفاےة (٤) حواس کا درست ہونا (٥) قریشی النسب ہونا (ابن خلدون)

درج بالا شرائط کے مطابق یا اس میں کچھ کمی بیشی کے ساتھ ارباب حل وعقد خلیفہ کو چن سکتے ہیں تاریخ اسلام میں حضرت ابوبکر صدیق  کی خلافت کا انعقاد اسی طرح ہوا۔ (ابن خلدون)(ماوردی) ۔ دوسرا طریقہ انعقاد خلافت کے مطابق خلیفہ وقت حالات اور شریعت کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے خود کسی شخص کو نامزد کردے۔ اور اس طرح حضرت عمر  کی خلافت منعقد ہوئی (ماوردی)

خلافت کے یہ دو ہی طریقے نہیں ہیں کسی اور طریقے سے بھی خلافت کا انتخاب کیا جاسکتا ہے لیکن خلیفہ میں مذکورہ صفات کا ہونا ضروری ہے۔

خلافت میں آنے کے بعد خلیفہ خدا تعالیٰ سے دعا کرتا ہے کہ خدا اسے توفیق دے کہ وہ اس ذمہ داری کو شریعت کے تقاضوں کے مطابق کماحقہ نبھاسکے اور اس کے بعد وہ لوگوں سے بیعت لیتا ہے اور لوگ اس کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں کہ وہ خلیفہ کے حکم کو اس وقت تک مانیں گے جب تک وہ شریعت مطہرہ کے مطابق ہوگا اور بصورت دیگر اطاعت نہیں کریں گے یعنی ان کی اطاعت مشروط ہے جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا ”اطیعواللہ واطیعوالرسول واولی الامر منکم فان تنازعتم فی شیٍٔ فرودہ الی اللہ والرسول۔”

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خلافت کے بعد فرمایا کہ میں تم میں سے سب سے بہتر نہیں ہوں میں جب تک خدا کے حکم کے مطابق تم کو لے کر چلتا رہوں اطاعت کرنا ورنہ مجھے درست کرنا۔

خلافت کا اعلان وبیعت کے بعد خلیفہ کی درج ذیل ذمہ داریاں ہیں۔ (١) ایمان کی حفاظت (٢) جہاد (٣) امر بالمعروف ونہی عن المنکر (٤) حدود وتعزیرات کا انعقاد (٥) شعائر اسلام کی عزت واحترام (٦) سادہ زندگی۔ (ماوردی)

جیسا کہ ہم نے پہلے بھی ذکر کیا کہ لوگوں کے ایمان کی حفاظت اور اس میں تقویت اور عمل پر لوگوں کو ابھارنا خلیفہ وقت کی ذمہ داری ہے اس کے ساتھ ساتھ اسلام کی تبلیغ واشاعت بھی اس کی ذمہ داری ہے یہ فرض کفایہ ہے لہٰذا اس کا اہتمام کرنا خلیفہ کی ذمہ داری ہے کہ کوئی نہ کوئی جماعت یاگروہ اس فریضہ کی تکمیل کے لیے کاربند رہے اور جہاد بھی اسی سے منسلک ہے۔

خلیفہ وقت کی زندگی میں سادگی ہو زندگی گزارنے میں کوئی عیش وعشرت نہ ہو اس طرح حدود کا قیام ہے کہ شریعت مطہرہ کی حدود کو توڑنے والوں کو سزائیں دی جائیں اور یہ خلیفہ وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسا کریں اور اگر کوئی جرم حدود کی حد سے زیادہ باہر کا ہے کہ مناسب تعزیرات کا اہتمام کیا جائے تاکہ شریعت مطہرہ کے قوانین توڑنے کی حوصلہ شکنی کی جائے۔

درج بالا عمومی نوعیت کا نقشہ خلافت ہے جس میں ائمہ مجتہدین کا اس کی ساخت میں تو اختلاف ہوسکتا ہے لیکن اس کے مافیہ اور اس کے شریعت کے نفاذ کے آلہ کے طور پر ضروری ہونے پر سب کا اجماع ہے۔

اب ہم مضمون کے آخری حصہ میں داخل ہو رہے ہیں جس میں ہم جمہوریت (ری پبلک) اور خلافت کا تقابلی مطالعہ کرکے نتیجہ اخذ کریں گے۔

١۔ ری پبلک میں لوگوں کی مرضی اور خواہشات کے مطابق فیصلے ہوتے ہیں۔ جبکہ خلافت میں خدا کی مرضی کے مطابق فیصلے کیے جاتے ہیں۔

٢۔ ری پبلک میں رہنما امیر لوگوں کو اپنے عمل کا جوابدہ ہے اور لوگ ہوتے ہیں۔ (آزاد، برابر) جبکہ خلافت میں خلیفہ خدا کو جوابدہ ہے اور شریعت کے مطابق لوگوں کو چلاتا ہے۔

٣۔ ری پبلک میں رہنما لوگوں کی رائے کے مطابق فیصلہ کرنا ضروری ہے جبکہ خلیفہ کے لیے شریعت کے مطابق فیصلہ کرنا ضروری ہے۔

مندرجہ بالا تضادات کی بنا پر یہ نتیجہ واضح ہے کہ ری پبلک اور خلافت آپس میں متضاد ایمانیات سے نکلنے والے تصور خیر کے نفاذ کے آلات ہیں لہٰذا ان دونوں کو ملانا ناممکن العمل اور خلاف عقل ہے یعنی آپ ری پبلک کے ذریعے سے اللہ کے نظام کو نافذ کرنا چاہییں جزوی طور پر تو شاید یہ خواب شرمندۂ تعبیر ہوجائے جس کی آج تک تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی ہے لیکن ایسا ہونا ایک مشکل کام ہے اسی طرح خلافت کے قیام کے اندر آپ ری پبلک کے مقاصد حاصل کریں نہ تو یہ کبھی مقصد رہا ہے اور ایسا ہونا بھی ناممکن ہے۔

اس امر کو ایک اور پہلو سے بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ ری پبلک میں رہتے ہوئے مسلمان ری پبلک (جمہوریت) کے ذریعے سے طاقت حاصل کرکے اس کو خلافت سے بدل دیں۔ مسلمان جماعتیں طاقت حاصل کرکے اقتدار میں آتے ہی جمہوریت (ری پبلک) کو بند کردیں اور سب لوگ خلافت کے تحت رہنا شروع کردیں جمہوریت کے اندر تسلسل سے رہ کر شریعت نافذ رہنا ناممکن العمل ہے اور ہر نظام کے اپنے تقاضے ہیں اور وہ وہی چیز نافذ کرتی ہے جو کہ اس کی مابعدالطبیعاتی بنیادیں ہیں لہٰذا اب ایسا کرنا درست نہ ہوگا لیکن یہ بات کوئی اصولی نوعیت کی نہیں بلکہ ایک تدبیر ہے۔

یہاں ایک اور بات ملحوظ خاطر رہے کہ ری پبلک (جمہوریت) کا تصور ائمہ کے لیے کوئی نئی یا اجنبی تصور نہیں ہے بلکہ اس کو جانتے ہوئے شریعت کے تقاضوں سے غیرہم آہنگ ہونے کی وجہ سے انہوںنے اس سے برات اختیار کی اور خلافت کو شریعت کے لیے مناسب سمجھا اور امر الٰہی کے عین مطابق سمجھا اور بتایا لہٰذا ائمہ مجتہدین اس سے واقف ہونے کی وجہ سے خلافت کا تصور نہیں دیا۔

تحریک لال مسجد ایک مثالی تحریک

سےّد محمد یونس قادری

اس مضمون میں ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ لال مسجد کا طریقہ کار کیوںکر انقلابی تھا؟ہم یہ بھی جاننے کی کوشش کریں گے کہ وہ اپنے اس مقصد میں کتنے کامیاب ہوئے؟ سب سے بڑھ کر یہ کہ دیگر دینی گروہ ان کے تعاون پر آمادہ کیوںنہ ہوسکے اور ان  کی عدم یکجہتی کے کیا عوامل تھے اس پر بھی اظہار خیال کیا جائے گا۔ ان تمام تجزیات کا مقصد نہ کسی کی عظمت کو کم کرنا ہے نہ ہی کسی پر الزمات لگانے ہیں بلکہ لال مسجد کے اقدامات سے اسلامی انقلاب کی راہوں کو تلاش کرناہے۔

تمہید :

ہم پچھلے مباحث کو تفصیل سے دیکھ چکے ہیں ۔تمہید کے طور پر اس کا خلاصہ پیش کرتے ہیں۔

٭ اسلامی ریاست اور حکومت میں فرق:

ریاست ان اداروں پر مشتمل ہوتی ہے جہاں پر قوت اقتدار منظم  ہوتا ہے۔ حکومت ریاست کا ایک ادارہ ہوتا ہے ۔ایک جمہوری ریاست میں حکومت  مقننہ ، عدلیہ اور انتظامیہ پر مشتمل ہوتی ہے۔

ریاست کا دائرہ عمل فرد /خاندان  سے لیکر سربراہ ریاست تک پھیلا ہوا ہوتا ہے۔

جمہوری عمل میں شرکت کے نتیجے میں ہم نے دیکھا کہ ہم بھی حقوق کی جدوجہد میں شریک ہوکر عوام الناس سے ان کے مادی مفادات کے حصول کے لیے  ووٹ مانگتے ہیں۔ اس طرح عام مسلمانوں کی اصلاح کے بجائے خود بھی گمراہی کا شکار ہوجاتے ہیں۔

موجودہ دور میںاگر ہم پاکستانی ریاست کا بغور مطالعہ کریں تو ہم کو یہ ریاست امریکہ کی باجگزار مسلمانوں کی ریاست نظر آئے گی جس کا فریضہ امریکہ کے اشاروں پر غلبۂ اسلام کی ہر کوشش کو ہر طرح سے ناکام بنا نا ہے۔مشرف حکومت تو کھل کر پاکستان کو ایک لبرل ریاست بنا نا چاہتی ہے۔پاکستان کے حکمران صرف فاسق وفاجر ہی نہیں بلکہ ملحدانہ افکار کے حامل ہیں انہوںنے بہ رضاء و رغبت شریعت کو بالائے طاق رکھا ہوا ہے۔یہ حکمران کھل کر اسلام اور مجاہدین کے خلاف برسرپیکار ہیں۔

 محترم زاھدصدیق مغل صاحب کی تحقیقات کے مطابق یہ اس درجے کے حکمران ہیں کہ جن کے خلاف خروج  سے بڑھ کر جہا د فرض ہو چکا ہے۔ہمیں  ہر صورت حکمرانوں سے جو کہ کفریہ ایجنڈے پر گامزن ہیں کسی بھی طرح کا اتحاد ،تعاون برقرار نہیں رکھنا ہے۔ایک ایسی حکمت عملی وضع کرنی ہے جس سے انقلاب کی راہ ہموار ہوسکے ۔اور ہم مکمل تبدیلی کی طرف مراجعت کرسکیں۔

جیساکہ ہم نے جناب جاوید اقبال کی تحقیقات میں دیکھا کہ امریکہ جس تہذیب کا علمبردار ہے ااسکو ہم سرمایہ داری کہتے ہیں ۔ سرمایہ داری اور اسلام ایک دوسرے کے ہر زاویے سے مخالف ہیں۔سرمایہ داری الوہیت انسان (Human) کی قائل ہے اور اسلام الوہیت رب کا قائل ہے۔اس لیے مغرب سے کسی بھی سطح پر مصالحت ناممکن اور غیر فطری ہے۔

فرد معاشرے اور ریاست کا جو تعلق مغربی افکار کے پروان چڑھنے سے بروئے کار آتا ہے اس میں اصل قدر آزادی کو حاصل ہوتی ہے۔

فرد کا طرز فکر اسکے عقائد معاشرے اور ریاست کے طرز فکر سے متاثر ہوتے  ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جیسے جیسے معاشرہ اور ریاست غیر اسلامی ہو تی جاتی ہے فرد کاطرز عمل اور فکر متاثرہوتی جاتی ہے۔موجودہ سرمایہ دارنہ دور میں ریاست اور معاشرت سرمایہ دارنہ اصولوں پر استوار ہورہی ہیں جس کے نتیجے میں معاش کی حیثیت معاد سے بڑھ رہی ہے ۔ سود سٹہ کی ماکیٹ نے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔سود ہمارے معاشرے کی رگ و پے میں سرائیت کرگیا ہے۔ایک فرد کے لیے اب یہ ممکن نہیں رہا ہے کہ اس سے بچ سکے۔ریاست سرمایہ داری کے لئے وہ جبر مہیا کرتی ہے کہ فرد اور معاشرے کے لیے ممکن نہیںرہتا کہ سرمایہ داری سے الگ کوئی اسلامی شخصیت و معاشرت تعمیر کرسکے۔ ہو یہ رہا ہے کہ ہم نے یا تو اس سے آنکھیں بند کرلی ہیں یا پھر اس کوشش میں ہیں کہ سرمایہ داری کی کوئی اسلامی توجیہ بیان کرکے فرد کو سرمایہ داری کے ظلم پر قانع کیا جاسکے۔اسلامی جمہوریت اسلامی بینکاری اس کی سب سے واضح نشانیاں ہیں۔

فرد جب یہ کہتا ہے کہ میں اپنا زیادہ وقت سرمایہ کی خدمت میںلگاؤں گااو ر کم وقت عبادت میں تو وہ سرمایہ دارنہ جبر کو بہ رضاء ورغبت قبول کرتاہے۔دنیا پرستی ،پرتعیش زندگی ، سرمایہ کی بڑھوتری کو اپنی زندگی کو محور و مرکز بنانے پر مجبور ہوتا ہے۔ یہی آج ہماری زندگی کے اوصاف حمیدہ  بن گئے ہیں۔ فقر، قناعت ،زہد و تقوی ہماری زندگیوں سے ناصرف نکل گئے ہیں بلکہ یہ اب مطلوب بھی نہیں رہے ہیں۔ ایسے معاشرے میں اسلامی زندگی گزارنے والے اقلیت میں رہ جاتے ہیں۔ ریاست کی اس اہمیت کے پیش نظر یہ لازم و ملزوم ہوگیا ہے کہ ہم ریاست کو اہمیت دیتے ہوئے ریاست کو اسلامی اصولوں پر استوار کرنے کی کوشش کریں۔ اس کی ایک سعی لال مسجد کے اکابرین نے کی۔

پاکستان میں اسلامی سیاسی افکار:

پاکستان میں سیاسی افکار کی بات کی جائے تو دو طرح کے نظریات سامنے آتے ہیں۔ ایک نظریہ جس کے پیروکار تبلیغی جماعت کے ارکان اور دیگر علمائے کرام ہیں ان کا خیال یہ ہے کہ ریاست کے لیے براہ راست کوشش کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ فرد کی اصلاح کے نتیجے میں انعام کے طور پر ہم کو ریاست حاصل ہوجائے گی ۔دوسرے گروہ کا خیال ہے کہ حکومت کے حصول کے نتیجے میں ریاست خود بخود اسلامی ہوجائے گی ۔ اول الذکر نظریات کے حامل افراد کا نقطہ نگاہ یہ نکلتا ہے کہ غلبہ دین کا مقصد فرد کی اصلاح ہے جبکہ آخر الذکر کی رائے کے مطابق غلبہ دین سے مراد ہی حکومت کا قیام ہے۔

دونوں نظریات کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو اس میں قدر مشترک ان کا ریاست کے قیام کے لیے ادارتی اور معاشرتی صف بندی سے انحراف ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ کافرانہ نظام  ریاست و حکومت کے ہوتے ہوئے فرد کی اصلاح کے نتیجے میں غلبہ دین ممکن ہو۔ محض فرد کی اصلاح کی بنیادوں پر کیسے ممکن ہوگا کہ خود بخود بغیر کوشش کے اسلامی معاشرہ پیدا ہوجائے۔ جب معاشرہ خود بخود کبھی بھی قائم  نہیں ہوسکتا، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ، جہاں تعلقات قوت کی بنیاد پر طے ہوتے ہوں ، بغیر قوت کے حصول کے وہاں تبدیلی آجائے۔ جو تبدیلی ان افکار کی بدولت آتی ہے وہ  اس معاشرے میں آتی ہے جو کہ مغلوب ہو جیسا کہ آج کے دور میںہمارا اسلامی معاشرہ۔ اس تبدیلی کے نتیجے میں ہم اپنے غلبہ سے دسبردار ہوکر کفر کے غلبہ کو  قبول کرلیتے ہیں۔

کفریہ اداروں کے ساتھ اشتراک سے ہم اگر حکومت پر قابض ہوتے ہیں اور ان اداروں کو قائم بھی رکھتے ہیں ، ان کی طاقت بھی بحال  رکھتے ہیں تواس صورت میں ممکن نہ ہوگاکہ یہ ریاست اسلامی ریاست ہوجائے۔فوج  ، مقننہ ،عدلیہ ، سول ایڈمنسٹریشن ہمیں کبھی بھی موقع نہیں دے گی کہ ہم ان کے اقتدار کو ان ہی کے ہاتھوں ختم کردیں۔ ہم یہ اس لیے تصور کرتے ہیں کہ ہم ان اداروں کو غیر اقداری تصور کرتے ہیں۔اور خیال کرتے ہیں کہ یہ ادارے ہمارے بھی ایسے ہی مطیع ہوں گے جیسا کہ اس دور میں نظامِ سرمایہ داری کے مطیع ہیں۔اس مغالطے سے ہم کو نکلنے کی ضرورت ہے ۔ جب بھی کوئی ایسی کوشش ہوتی ہے جو کہ انقلاب کو برپا کرنے والی ہو اس کا کھلے دماغ سے مطالعہ ضروری ہے۔ اسی تناظرمیں جب ہم لال مسجد کے واقعہ کو دیکھتے ہیںکہ یہ کیوں کر  ایک جدا انقلابی اقدام دکھائی دیتاہے۔

 تحریک لال مسجد کا طریقہ کارکیوں کر  درست طریقہ کار ہے:

تحریک لال مسجد کے ٣ مقاصد تھے:

١) نظام اسلامی کا قیام اور استحکام

٢) فواحش و منکرت اور نواہی کا انہدام

٣) مساجد و مدارس کا فروغ اور ان کا دفاع

ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے دو طریقے اختیار کیے گئے:

١) کافرانہ نظام اقتدار اور استعمار کی آلہ کار انتظامیہ اور فوج سے تصادم۔ایک ریاست کے علی الرغم  ریاست کا قیام عمل میں لائے ۔ اور مطالبات کی سیاست سے نکل کر عملی طور پر امر بالمعروف  و نہی عن المنکر کے فرائض کو اسلام آباد  جیسے مرکز میں انجام دیا۔

٢) دوسرا طریقہ جو تحریک لال مسجد کی قیادت نے اختیار کیا وہ ایک متبادل  نظام اقتدار کی تشکیل تھا۔مسجد کومحور و مرکز بنا کر محدود پیمانے پر اس کے ارد گرد معاشرتی کام کا آغاز کیا۔

تحریک لال مسجد کی تحریک کے برپا ہونے میں یہ عوامل کارفرما تھے۔

الف )     امارت اسلامی افغانستان  پر    ٢٠٠١ء  میںامریکی یلغار اور اس کے جواب میں حکومت وقت کی غداری اور جمہور دینی جماعتوں اور علمائے کرام کی برائے نام حمایت اور مدد۔

ب )      پرویز حکومت کا شعائر اسلامی کا کھلے عام خلاف ورزی اور ان کا مذاق۔ اس کے جواب میں ہماری ان اقداما ت کی مزاحمت سے لاتعلقی

ج)     علمائے کرام ،مجاہدین اسلام، دینی شخصیات کا حکومتی سرپرستی میں قتل عام ، انہیں پابند سلاسل کرنا اور امریکہ کے حوالگی۔

  موجودہ حکومت کے اقدامات سے یہ بات  واضح ہو گئی تھی کہ کافرانہ نظام اقتدر میں شمولیت اختیار کرکے غلبۂ اسلام ممکن نہیں۔ لال مسجد کے مجاہدین نے ایک ایسے وقت میں نظام اقتدار کو چیلنج کیا جب تمام دینی مراکز اور اسلامی جماعتیں کافرانہ نظام اقتدار سے مصالحت کر چکی تھیں۔ اس کی سب سے افسوس ناک مثال ایم ایم اے نے قائم کی’ جس نے ٢٠٠٢ء کے انتخابات جیتنے کے بعد نفاذ شریعت اور غلبہ دین کے لیے کوئی بھی موثر قدم نہیں اٹھایا۔ صوبہ سرحد میں سودی نظام کو برقرار رکھا’ استعماری اداروں بالخصوص ایشین ڈولپمنٹ بینک اور ورلڈ بینک سے بھیک لے کر صوبہ سرحد کے طول و عرض میں لاتعداد پروجیکٹ چلاتی رہی’ اور عملاً سرمایہ دارانہ نظام کی مخلصانہ خدمت کرکے دستور پاکستان کی اطاعت کو تقاضائے شریعت پر مقدم رکھا۔ آج جماعت اسلامی غلبہ اسلام کو ناممکن سمجھتی ہیں’ اور ان کی تمام تر توقعات اس سیکولر اتحاد (اے پی ڈی ایم) سے ہیں جس کی قیادت قوم پرست لیڈر محمود اچکزئی اور سیکولر لیڈر عمران خان کر رہے ہیں۔ اور جس کا مقصد جمہوریت اور سرمایہ درانہ نظام اقتدار کا ہی فروغ اور استحکام ہے اور جس کے منشور میں غلبہ اسلام کا کوئی تذکرہ نہیں۔

ایک ایسے وقت جب اسلامی نظام کے مکمل اور فوری نفاذ کی جدوجہد تمام دینی حلقوں اور اسلامی جماعتوں نے عملاً ترک کر دی تھی تحریک لال مسجد نے اسلامی انقلاب کا جھنڈا بلند کیا اور اپنے عزم و استقلال اور بیش بہا قربانیوں کے ذریعے ثابت کر دیا کہ اہل دین کی مکمل وفاداری اسلام کے ساتھ ہے اور وہ نفاذ شریعت محمدی کی راہ میں نہ جمہوریت کو حائل ہونے دیں گے نہ دستور کو نہ پاکستانی ریاست کو’ اور اس مقصد کے حصول کے لیے کافرانہ نظام اقتدار اور اس کی آلہ کار فوج’ انتظامیہ اور پارلیمنٹ سے ٹکرانے کی ہمت اور حوصلہ رکھتے ہیں۔

دوسرا طریقہ جو تحریک لال مسجد کی قیادت نے اختیار کیا وہ ایک متبادل نظام اقتدار کی تشکیل تھا۔ لال مسجد اور اس کے متعلقہ مدارس میں اسلامی نظام اقتدار کو ترتیب دیا اور عملاً ایک وسیع ہوتے ہوئے اسلامی ریاستی نظام کی بنیاد ڈالی۔ انہوں نے اسلام آباد میں منکرات کے خاتمے کے لیے ایک منظم مہم چلائی’ اس بات کی کوشش کی کہ علماء کی سربراہی میں عوامی ادارتی صف بندی اس طرح ہو کہ علاقے سے کافرانہ نظام اقتدار کا اور اس کی آلہ کار انتظامیہ کا غلبہ عملاً ختم ہوجائے۔

مولانا عبدالعزیز نے نفاذ اسلام کا ایک عملی خاکہ بھی پیش کیا جس کی چند اہم شقیں درج ذیل ہیں:

 نفاذ اسلام: پورے ملک میں اسلامی نظام نافذ کر دیا جائے’ ہمارا یہ مطالبہ آئینی بھی ہے اور شرعی بھی۔

 شرعی قوانین: تمام عدالتوں میں شرعی قوانین نافذ کیے جائیں … جج حضرات کو برقرار رکھتے ہوئے انہیں قضا کورس کروایا جائے اور ان کے ساتھ جید مفتیان کرام کا تقرر کیا جائے۔

 ظالمانہ ٹیکسوں کا خاتمہ: ہمارے ملک میں طرح طرح کے ظالمانہ ٹیکس دینے پر عوام کو مجبور کیا جاتا ہے’ ان ٹیکسوں کا فوری خاتمہ بھی ضروری ہے۔ حکومت اگر سمجھتی ہے کہ ٹیکس کم کرنے سے اس کو مالی مشکلات پیش آئیں گی تو حکام کو چاہیے کہ وہ اپنی روز مرہ کی زندگی کو سادہ بنائیں’ غیر ضروری اخراجات اور غیر ضروری دوروں کو ختم کیا جائے۔

 حدود کا اجرائ: ملک میں چوری’ ڈکیتی اور قتل و غارت کے واقعات انتہا کو پہنچ چکے ہیں’ اس صورت حال کے سدباب کے لیے شرعی حدود فوری طور پر نافذ کی جائیں۔

 سود کا خاتمہ: ہمارے ملک کی شرعی عدالت یہ فیصلہ دے چکی ہے کہ ملک سے سودی نظام کا خاتمہ کیا جائے’ اس فیصلے کو عملی طور پر تسلیم کرتے ہوئے ملک کے بینکوں سے فوراً سود کا خاتمہ کر دیا جائے۔

اس کے علاوہ دیگر شقوں کے عنوانات درج ذیل ہیں: منشیات کا انسداد’ بے گھر لوگوں کو رہائش کی فراہمی’ اہل صحافت کے لیے شرعی ضابطہ اخلاق’ قیدیوں کے معاملات’ غیر شرعی رسومات کا انسداد’ تعلیم کا فروغ’ پولیس میں اصلاحات’ شعبہ احیاء السنة کا قیام’ مجلس فقہی کا قیام’ شاہراہوں پر عوامی مراکز کا قیام’ لائوڈ اسپیکر کے غلط استعمال کی روک تھام’ نماز باجماعت کی پابندی’ طلبہ امن فورس’ جیسے عنوانات شامل ہیں۔

تحریک لال مسجد کی باقاعدہ ایک شوریٰ تھی جس میں جید علماء کرام اور مفتی حضرات شامل تھے… لال مسجد میں ایک دارالافتاء قائم تھا جہاں لوگوں کے استفسار پر شرعی فتویٰ جاری کیا جاتا … لوگوں کو دینی مسائل بتانے کے لیے بھی ایک شعبہ تھا … ایک شعبہ قضا کا تھا جہاں لوگوں کے نجی جھگڑوں کا فیصلہ قرآن و سنت کی روشنی میں کیا جاتا … القاسم فائونڈیشن کے نام سے فلاحی ادارہ تھا جس نے کمزور و بے بس اور غرباء کی فلاح کے لیے بھرپور خدمات انجام دیں زلزلہ زدہ علاقے میں کروڑوں روپے کی امداد تقسیم کی … پرویزی دور استبداد کے تحفوں میں سے ایک تحفہ یہ بھی تھا کہ مجاہدین اسلام کو ان کے گھروں سے خفیہ ادارے اٹھا لیتے اور انہیں بدترین عقوبت خانوں میں ڈال دیا جاتا … باہر کی دنیا میں کچھ معلوم نہ ہوتا کہ ان افراد کو کہاں رکھا گیا ہے اور آیا یہ لوگ زندہ بھی ہیں کہ نہیں؟ ایسے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے ایک تنظیم تشکیل دی اور ان کی برآمدگی کے لیے عدالتی سطح پر چارہ جوئی کا آغاز کیا۔ اس کے نتیجے میں درجنوں لاپتہ مجاہدین بازیاب ہوئے … اسلامی انقلاب کی راہ ہم وار کرنے کے لیے تحریک کا لٹریچر شائع کیا جاتا’ اس کے علاوہ ویب سائٹ بھی انٹرنیٹ پر لانچ کی گئی۔ ایف ایم ریڈیو کا بھی آغاز کیا گیاجس سے تحریک سے متعلق نشریات جاری کی جاتیں۔

یہ تمام ایسے امور تھے جو عام لوگوں کو علمائ’ مسجد اور مدرسے کے ساتھ جوڑنے میں اہم کردار ادا کرتے تھے بایں ہمہ مولانا عبدالعزیز صاحب نے تحریک طلبہ کو عملی کام کا خاکہ بھی دیا تھا’ اس لائحہ عمل سے جزوی اختلاف ممکن ہے مگر مجموعی طور پر انقلابی اور جہادی جدوجہد کرنے والوں کے لیے بہترین نشان راہ بھی ہے۔ اس لائحہ عمل کے خدوخال کچھ یوں تھے:

٭ ہر علاقے کے طلبہ کرام کو چاہئے کہ وہ باہم مل کر ایک منظم گروپ تشکیل دیں اور مقتدر علماء کرام کی حمایت حاصل کریں جو اس تحریک کی حمایت کریں۔

٭ طلبہ کرام ایک بیت المال قائم کریں اور عوام الناس کو دعوت دیں کہ وہ اپنے استعمال سے زائد چیزیں اور زائد از ضرورت اشیاء گھروں میں جمع رکھنے کی بجائے بیت المال میں جمع کرادیں تاکہ ان چیزوں کو مستحق افراد تک پہنچایا جاسکے۔

٭ ہر تھانے کی حدود میں ”دارالصلح” قائم کیا جائے’ اس ”دارالصلح” میں حضرات علماء کرام اور دیگر منتخب معززین علاقہ تشریف فرما ہوں’ دارالصلح کے قیام کے بعد لوگوں کو دعوت دی جائے کہ وہ اپنے مقدمات تھانوں میں لے جانے کی بجائے اور اپنے مسائل غیر اسلامی قوانین کے ذریعے حل کرنے کی بجائے یہاں آکر شریعت کی روشنی میں حل کرنے کی کوشش کریں۔

٭ ہر تھانے کی حدود میں ایک دارالشکایت قائم کیا جائے’ لوگوں کو مطلع کیا جائے کہ انہیں اگر مثلاً تھانے والوں سے شکایات ہوں یا کوئی اور ان پر ظلم کر رہا ہو تو دارالشکایت میں اپنی شکایت درج کرائے تاکہ اس کے ازالے کی کوشش کی جائے۔

٭ طلبہ کرام معمول بنا لیں کہ چھٹی کے اوقات میں تیس چالیس افراد یا کم و بیش کی جماعت بنا کر شاہراہوں پر جا کر کھڑے ہوجائیں اور یہ طلبہ مناسب انداز میں وہاں سے گزرنے والی گاڑیوں کو روکیںا ور معلوم کریں کہ ان گاڑیوں میں ٹیپ یا وی سی آر پر فحش گانے یا فلمیں تو نہیں چلائی جارہی ہیں؟ اگر خدانخواستہ ایسا ہو تو شائستہ طریقے سے ڈرائیور کو اس سے منع کریں۔

٭ طلبہ کرام اپنے علاقے میں موجود ویڈیو’ سی ڈی کی دکانوں اور ہوٹل والوں کے پاس تیس چالیس افراد کی جماعت کی صورت میں جائیں’ ان دکانداروں اور ہوٹل والوں کو سمجھائیں کہ ان کے کاروبار کی وجہ سے پورے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو رہا ہے نوجوانوں کے اخلاق بگڑ رہے ہیں۔ نوجوان بے راہ روی کا شکار ہو کر بھیانک جرائم کا ارتکاب کر رہے ہیں اور اپنی مسلمان مائوں بہنوں کی عزت لوٹ رہے ہیں’ اس صورت حال کی ذمہ داری بنیادی طور پر انہی دکان داروں پر عائد ہوتی ہے جو قوم تک ایسا گندا مواد پہنچا رہے ہیں’ ایسے دکان داروں اور ہوٹل والوں سے عرض کریں کہ وہ جلد کوشش کریں کہ یہ کاروبار ختم کردیں اور اس کا متبادل تلاش کریں۔

٭ اہل صحافت کا معاشرے کی تعمیر و تخریب میں اہم اور موثر کردار رہا ہے لہٰذا ضروری ہے کہ صحافی بھائیوں کو بھی شرعی تقاضوں پر عمل پیرا ہونے کی ترغیب دی جائے۔

٭ طلبہ کرام اپنے اپنے علاقے میں اگر ضرورت محسوس کریں تو گروہ بنا کر ہاتھوں میں لاٹھیاں اور سروں پر پگڑیاں باندھ کر گشت کریں تاکہ ان کے زیر اثر علاقوں میں چوری ڈاکے کا انسداد ہو۔

٭ تمام علماء کرام اور طلبہ کرام سے گزارش ہے کہ اگر ان کے علاقوں میں اس سے پہلے قاضی وغیرہ کا تقرر ہے تو انہیں چاہئے کہ وہ اس امر کی جدوجہد کریں کہ شریعت کے علاوہ تمام قوانین کا خاتمہ ہو اور صرف شرعی قوانین ہی نافذ کیے جائیں۔(بحوالہ تحریک لال مسجد اور اسلامی انقلاب)

اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ایک طویل مدت تک عوامی ادارتی صف بندی کی جائے تاکہ جب کافرانہ نظام اقتدار کا انہدام مکمل ہو تو ایک ایسا متبادل نظام اقتدار محلہ اور بازار کی سطح پر موجود ہو جہاں پر قوت مجتمع ہو سکے اور اسلامی جماعتیں اسلامی حکومت قائم کرنے سے قبل معاشرتی سطح پر اسلامی نظام اقتدار مستحکم کر چکی ہوں۔

یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں دینی حلقوں اور اسلامی جماعتوں نے کبھی بھی معاشرتی صف بندی کی طرف خاطر خواہ توجہ نہیں دی، ان مساجد اور مدارس کا معاشرتی تفوق روز بروز محدود ہوتا جارہا ہے’ اسلامی سیاسی جماعتوں نے کافرانہ دستور اور قانون کی وفاداری کو شریعت کی وفاداری پر ہمیشہ مقدم رکھا ہے’ صوبہ سرحد میں ٥ سال ایم ایم اے کی حکومت قائم رہی لیکن فوج مجاہدین کا قتل عام کرتی رہی۔ بیورو کریسی کا ریاستی غلبہ جوں کا توں برقرار ہا اور مساجد و مدارس اقتدار کی تنظیم میں کسی طور پر شریک نہیں ہو سکے۔ سودی معیشت خوب پھلتی پھولتی رہی اور حکومت کی ترقیاتی منصوبہ بندی ورلڈ بینک اور ایشین ڈیولپمنٹ بینک کو سونپ دی گئی’ عہد حاضر کی تشویش ناک حقیقت یہ ہے کہ اسلامی جماعتیں سرمایہ دارانہ دستوری نظام میں ضم ہو رہی ہیں۔ آج بعض اسلامی جماعتیں ”اسلامی انقلاب” کو ایک نعرے کے طور پر استعمال کرتی ہیں اور عملاً ان کے پاس اسلامی انقلاب برپا کرنے اور اسلامی نظام اقتدر کو استوار کرنے کا کوئی ایجنڈا موجود نہیں۔

٭ علمائے کرام کے طریقہ کار کا ایک تاریخی تناظر ہے جس کو سمجھے بغیر ہم اس کے اصلاحی اور دفاعی طریقہ کار کی وجوہات تلاش نہیںکرسکتے۔

١٩ویں صدی اس معنی میں ایک اہم صدی تھی کہ مسلمانان ہند واضح طور پر دو گروہوں میں منقسم ہوگئے ایک وہ گروہ جو کہ انگریزوں کو ہندوستان سے نکال کر مسلمانوں کا اقتدار بحال کرنا چاہتا تھا۔ دوسرا گروہ انگریزوںاور ہندوؤں سے مصالحت چاہتا تھا اور غلبہ دین کو فی الحال ممکن نہیں سمجھتا تھا۔ یہ دونوں گروہ مسلمانوں کے مخلص گروہ تھے۔ اس دور کے لحاظ سے انگریزی غلبہ کے خلاف مختلف سیاسی حکمت عملیاں مرتب کررہے تھے۔ اول الذکر مسلمانوں کی اٹھنے والی تحریک دراصل انقلابی تحریک ہے جبکہ آخر الذکر تحریک اصلاحی تحریکات ہیں۔ سب سے پہلے ان تحریکات کے فرق کو واضح کرتے ہیں۔

اصلاحی تحریکات وہ تحریکات ہیں جو پہلے سے موجود کفریہ نظام اور غیر اسلامی اقتدار کو قبول کرکے اس میں اسلام کے دفاع کا کام سرانجام دیتی ہیں’ یہ دین کو مختلف شعبوں میں بانٹ کر تحفظ دین کو ممکن بناتی ہیںاور اپنے آپ کو ایک حصار میں بند کرکے اپنے لیے ایک مصنوعی قلعہ تعمیرکرتی ہیں۔ جہاد اور انقلاب کو فی الحال ناممکن سمجھ کر اس سے دستبردار ہوجاتی ہیں۔

انقلابی تحریکات وہ ہوتی ہیں جو کفر کے غالب نظام کو اس وقت چیلنج کرتی ہیں جب وہ ایک غالب اور طاقتور نظام ہوتا ہے۔ انقلاب موجودہ نظام کو اکھاڑ کر اسکی جگہ اپنا نظام لاکھڑا کرنے کی جدو جہد کا نام ہے۔ انقلابی ہمیشہ دوسرے نظام سے ٹکراؤ کی کیفیت میں رہتا ہے۔ وہ تحریکات جو غلبہ دین چاہتی ہیںاور موجودہ دور کو ایسے ہی دیکھنا چاہتی ہیںجیسا کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے قائم کیا’ ان کو اسلامی انقلابی تحریکات کہا جاتا ہے۔ جدید غیر اسلامی تحریکا ت کے برخلاف اسلامی انقلابی تحریکات تاریخ کے دھارے کو پیچھے کی طرف دھکیلنا چاہتی ہیں اور ہمیشہ پیچھے کی طرف دیکھتی ہیں۔ انقلابی قلیل وسائل اور مشکل حالات میں قربانی اور شہادت کی وہ تاریخ رقم کرتے ہیں جو کہ مطلوب تو ہوتا ہے مگر اسکی ہمت عام مسلمانوں میں نہیں ہوتی۔ وہ مسلمانوں سے اس بڑے پیمانے کی قربانی کا مطالبہ کرتا ہے جو کہ اس نظام سے مصالحت کرنے والوں کے لئے ممکن نہیں ہوتی۔

انقلابی تحریکات سے اصلاحی تحریکات کا سفر:

١٨٥٧ء کے جہاد’ ١٩٢٠ء میں شیخ الہند مولانا محمود حسن کی رہائی اور جمعیت علما ئے ہند کے قیام نے ہندوستان کی سیاسی جدوجہد پر کافی دوررس اثرات مرتب کیے۔ مسلمانوں کی تحفظ دین کی تحریک دراصل نتیجہ تھی اس ١٨٥٧ء کے جہاد کی شکست اور اس دور میں توڑے گئے مسلمانوں کے خلاف ظلم واستبداد کا جس نے مسلمانوں کے حوصلے پست کردیے اور ان کو مصالحانہ حکمت عملی پر مجبور کردیا۔ اس تحریک نے ایک طرف تو مسلمانوں کے علمی’ تہذیبی اثاثوں کی حفاظت کی تو دوسری طرف غلبہ دین سے دست بردار ہو کر غلبہ مغرب کے ساتھ مصالحت کی سعی بھی کی۔ تحفظ دین کی تحریک جس میں دیو بندی’ بریلوی’ اہل حدیث تمام مکاتب فکر کے گروہ شامل تھے اپنی اپنی سطح پر تحفظ دین کا کام بڑی کامیابی سے چلارہے تھے۔ ان ہی تحریکات کی بدولت آج مسلمانان برصغیر اپنے علمی و تہذیبی اثاثوں سے پوری طرح آشناء و مستفید ہیں۔

جامعہ حفصہ اور لال مسجد کے معاملے میں بھی علمائے کرام اور دینی تحریکا ت کا وہی رویہ ہے جو طالبان’ حضرت شیخ الہند اور حضرت قاسم نانوتوی کے ساتھ روا رکھا گیا تھا۔ علمائے کرام نے واضح طور پر کہا کہ ہم شریعت کی مخالفت نہیں کررہے۔ وہ تو اس انقلابی طریقہ کی مخالفت کررہے ہیں جس کو وہ ناقابل عمل سمجھ چکے ہیں اور ریاست سے ٹکراؤ’ شریعت کی بالادستی’ ریاست کے متوازی ریاستی اقدام وہ بھی اسلام آباد جیسے شہر میں کو ناممکن سمجھتے ہیں۔ شہید اسلام مولانا عبدالرشید شہید اور ان کے رفقاء نے حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کے جانشینوں کی طرح قربانی کی عظیم داستان رقم کی ہے۔

اب ہم جائزہ لیتے ہیں کہ انقلابیوںکو یہ صورتحال کیوں درپیش آتی ہے۔

تاریخی تناظر ہم کو اس رخصت پر چلنے کی ایک توجیہ پیش کرتا ہے کہ عام مسلمانوں کا دنیا پرستی میں ملوث ہوکر علمائے کرام اور دینی تحریکات کا ساتھ نہ دینا اور عالم کفر کے ساتھ مصالحت کرلینا۔ دوسرا جمہورعلمائے کرام کا انقلابی طرز عمل کو ہمیشہ کے لیے ترک کردینااور تیسرا عالم کفر کے سرغنہ مغرب سے پہلو تہی کرنا اور اسکو غیر اقداری تصور کرنا۔ ان تینوں عوامل کی توجیہات درج ذیل ہیں۔

پہلی وجہ جس کا ذکر ہم اوپر کرچکے ہیں کہ خالص انقلابی تنظیم کا نہ ہونا جو کہ ان انقلابی تحریکا ت کو نا صرف منظم کرے بلکہ انقلاب کے عمل کو آگے کی جانب رواں بھی رکھے۔ انقلابی تنظیم کے نہ ہونے کے سبب ہم انقلابی تحریکات تو برپا کردیتے ہیں مگر ان کو منظم اور مستحکم نہیں کرپاتے۔ اس لیے وہ فوائد ہمیں حاصل نہیں ہوپاتے جو کہ ان قربانیوں کے نتیجے میں ہونا چاہیے تھے۔ تنظیم کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ تنظیم دراصل وہ ادارتی صف بندی ہے جہاں سے یہ انقلابی عمل مستحکم اور منظم ہوتا ہے۔ یہ تحریکات سے پورے طور پر فوائد بھی حاصل کرتی ہیں اوران کی کمزوریوں کو رفع بھی کرتی ہیں۔ ان تنظیموںکا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ یہ مسلمانوں پر توڑے جانے والے مظالم کو دشمن کی طرف بھی منتقل کردیتی ہیں اس طرح دشمن کسی بھی شدید کارروائی سے گریز کرتا ہے۔ لال مسجد میں حکومت نے اسی لیے طلبہ اور علمائے کرام کو بے دردی سے شہید کیا کہ ان کو باہر سے کوئی مدد نہ مل سکی اور وہ تنہا ہوگئے اور اتنی بڑی فوج کے سامنے ایک تر نوالہ ثابت ہوگئے۔ اگر تنظیمی صلاحیت بھرپور ہوتی تو وہ دیگر جگہ کارروائی کر کے ریاست پر دباؤ ڈالتی۔ جیسا کہ عراق میں ہورہا ہے اور امریکی افواج وہاں سے بے دخل ہورہی ہیں۔اب ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں موجودہ حالات میں تنظیمی ڈھانچہ کس نوعیت کا ہے۔

پاکستان میں اگر دیکھا جائے تو طالبان کی تحریک نے قبائلی علاقوںمیں تنظیم بندی کی ایک شکل پیدا کی ہے جو کہ قبائلی اداروں’ مدارس مساجد کے ڈھانچوںکو استعمال کرتے ہوئے جہاد کو منظم کررہے ہیں۔ اسی لیے جیسا کہ اوپر ہم نے دیکھا کہ اس تنظیم کے ہوتے ہوئے امریکی اور پاکستانی افواج کی کارروائی کا فوری رد عمل سامنے آجاتا ہے۔ چناں چہ حکومت پاکستان ان مجاہدین سے امن معاہدہ کرنے پر تیار ہو جاتی ہے۔ ان مقامی طالبان کی معاشرتی اور معاشی صف بندی کیا ہے؟ اسکا ہمیں علم نہیں ہے’ مگر ہماراخیال یہ ہے کہ جیسا کہ امریکی صدر نے اپنے حالیہ بیان میں القاعدہ سے متعلق یہ بیان دیا ہے کہ اسکے پاس کوئی مثبت لائحہ عمل نہیں ہے جوکہ وہ عراق میں امریکی افواج کے جانے کے بعد دے سکے۔ یہی وہ سوال ہے جو کہ مقامی طالبان سے کیا جاتا ہے کہ اس عسکریت پسندی کے علاوہ بھی انکے پاس شریعت کی بالادستی کا کوئی پروگرام ہے کہ نہیں؟ چوں کہ قبائلی اسٹرکچر ایسا ہے کہ اس میں یہ سوال شاید مہمل ہو مگر جب یہ تحریک پاکستا ن کے دیگر شہروںکی طرف جاتی ہے تو یہ سوال نہایت اہمیت کا حامل ہوجاتا ہے۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ قبائلی علاقوںکے برخلاف دیگر علاقوں میں جہاں سرمایہ دارنہ ڈھانچہ بہت مضبوطی سے موجود ہے وہاں پر انقلابی جماعت کا وجود ہی نہیں ہے۔ ہاںوہاں انقلابی رجحان ضرور پایا جاتا ہے۔ میرے خیال میں مدارس کے طلبہ و طالبات میں اور اسلامی جمعیت کے کارکنان میں انقلابی جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ مگر مدارس اور جماعت اسلامی کی قیادت موجودہ نظام سے مصالحت کرچکی ہے اور انقلابی عمل کو ناممکن سمجھ چکی ہے۔ اسی لیے ان دونوں تنظیموںنے عبدالرشید غازی شہید کا ساتھ نہ دیا بلکہ ان کی مخالفت کی جس کا گلہ عبدالرشید غازی شہید نے اپنے آخر ی انٹرویو میں کیا۔ متحدہ مجلس عمل کی قیادت نے اے پی سی (APC) میں شرکت کو فوقیت دی اور نواز شریف کی قیادت کو اہمیت دی’ عبدالرشید شہید اور ان کے رفقاء کو تنہا چھوڑ دیا۔ اور صرف زبانی جمع خرچ پر اکتفا کیا۔ کچھ یہی حال وفاق المدارس کا رہا پہلے تو ان کی مخالفت اتنی شدید کی کہ ان کے مدرسہ کا رجسٹریشن تک ختم کردیا پھر بعد میں آخری لمحات میں صرف حکومت سے مطالبات ہی پر اکتفاء کیا اور مذکرات کی ناکامی کے بعد ان حضرات کو اکیلا چھوڑ دیا گیا اور اب تک اس حکومتی دہشت گردی کے خلاف کوئی لائحہ عمل وضع نہیں کرپائے۔ ان حالات میں امید ہے کہ مدارس کے طلبہ اور کارکنان جماعت اسلامی یا تو اپنی قیادت کو اپنے عزم اور استقامت کی بنیاد پر مجبورکریں گے’ جیسا کہ غازی شہید نے علمائے کرام کو جگانے کے لیے کیا ہے’ یا پھر انکو تبدیل کر کے ان کی جگہ نئی انقلابی قیادت کو لا کھڑا کریں گے’ جیسا کہ طالبان نے افغانستان میں کیا’ تاکہ انقلابی حکمت عملی پر کاربند ہوا جاسکے۔

انقلابی حکمت عملی کی دوسری بڑی کمزوری اسکا اپنے موقف کے صحیح ثابت کرنے کے لیے دلائل کا نہ ہونا ہے۔ اسی لیے عملی میدان میں استقامت اور قربانی دینے کے باوجود فکری میدان میں مات کھاجاتے ہیں جس کے سبب اسلامی جماعتوں اور علمائے کرام میں ان کاموقف نہایت کمزور پڑجاتا ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انقلابی حکمت عملی کو درست ثابت کرنے کے لیے قرآن وسنت سے رجوع کرنے کے ساتھ تاریخ سے بھی استدلال حاصل کریں۔ اپنے دشمن کی حکمت عملی سے آگاہی ضرور حاصل کریں اور موجودہ غالب کفریہ نظام زندگی کا مطالعہ کریں اور اسکے خلاف استدلال کو اسلامی احکام کی بنیاد پر غلط ثابت کریں اور انقلابی حکمت عملی پر ڈٹے رہیں۔ انقلابی عمل کی کوئی معذرت خواہانہ توجیہ پیش کرنے کی کوشش نہ کریں۔ ہماری سب سے بڑی کوتاہی یہ ہے کہ ہم نے اب تک اپنے دشمن سے پہلوتہی کی ہے’ اپنے اسلاف کے طریقہ پر چلتے ہوئے اپنے دشمن کو سمجھنے کی کوشش اس پیمانے پر نہیں کی ہے جس پیمانے پر امام غزالی نے یونانی افکار کو سمجھنے کی کی تھی۔ دشمن کو کمزور جانا اور پرانے طریقہ کار کے مطابق ہی اصلاح پرزور دیا چناں چہ دشمن غالب آتا گیا اور ہم پسپا ہوتے گئے پہلے برطانیہ نے’ پھر امریکا نے ہم پر ظلم و ستم کی وہ داستان رقم کی جو تاریخ میںنہیں ملتی۔ اپنوں کی غداری اور غیروں کے ظلم و ستم نے جہاد و انقلاب ہم سے چھین لیا۔ ہم نے محض اسلام کے دفاع پر اکتفا کیا۔ یہ حکمت عملی مخصوص حالات میں تو بہتر تھی جب دشمن (مغرب) بہت طاقتور تھا۔ اب جبکہ دشمن کمزور اور فکری طور پر پسپا ہے یہ حکمت عملی غیر موثر اور اپنی شکست کا سامان کرنے والی ہے۔

اصلاحی اور انقلابی تحریکات کو مربوط کرنے کی ضرورت:

تیسری کمزوری یہ ہے کہ اصلاحی تحریکات اور انقلابی تحریکات میں ایک دوری اور کھچاو کی صورتحال ہے جس کی بڑی وجہ موجودہ مغربی تہذیب و افکار کا غلبہ ہے۔ اصلاحی تحریکات اورانقلابی تحریکات آپس میں رابطہ رکھیں اور انقلابی حضرات علمائے کرام کے اس موقف کو رد کریں کہ وہ یہ تصور کرے بیٹھے ہیں کہ دشمن بہت قوی ہے اور اس سے لڑنا شکست کا سامان کرنا ہے۔ عراق و افغانستان کے مجاہدین کی طرح وہ عظیم الشان قربانیاں دینی ہوں گی جن کی وجہ سے جمہور علمائے کرام اور عام مسلمان دشمن کو کمزور سمجھ کر اس سے مقابلہ کے لیے تیار ہوگئے۔ ہر نظام کو چلانے کے لئے کچھ نہ کچھ قربانیاں دینی ہوتی ہیں۔ عوام ان قربانیوں کو برداشت کرلیں اور اس کے خلاف تحریک نہ چلائے تو وہ نظام کامیاب ہوجاتا ہے ورنہ ناکام۔ جیسا کہ پاکستان میں عوام سرمایہ دارنہ نظام کی سختیوں کو برداشت کرتے ہیں مہنگائی’ طوائف الملوکی’ بیروزگاری’عدم استحکام’ چوری ڈاکہ زنی’ لوٹ مار وغیرہ کو برداشت کررہے ہیں اور حکمرانوں کے خلاف تحریک کا ساتھ نہیں دیتے۔ افغانستان میں طالبان کی قربانیوں کے نتیجے میں عوام وہاں امریکی بمباری’ عدم استحکام کو خندہ پیشانی سے برداشت کررہے ہیںاو ر مجاہدین کاکافی حد تک ساتھ دے رہے ہیں۔ تو یہ کہنا کہ اسلامی انقلاب بغیر قربانی کے آسکتا ہے اور ہم اسی نظام میں رہتے ہوئے پر امن طریقہ سے اقتدار حاصل کرسکتے ہیں تو یہ ہماری بھول ہے۔ اس لئے تمام تحریکات کو خاص کر انقلابی تحریکات کو یہ کوشش کرنی ہوگی کہ عوام کو اسلامی انقلاب کے لئے تیار کریں۔ ان کو اس نظام سے کاٹ کر اسلامی نظام کے تحت منظم کریں۔ وہ ادارتی صف بندی کریں جس کے نتیجے میں سرمایہ دارنہ نظام میں رہتے ہوئے کارکنان ِاسلامی تحریکا ت غلبہ دین کے کاموں کو منظم کریں۔ اسلامی تحریکات دین کے ہر شعبہ کو زندہ کریں اور آپس میں ایک دوسرے سے تعاون کریں۔ ریاست کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر اسلامی غلبہ کے کام کو آگے بڑھائیں۔ ہمارے لیے محاذ عمل خالی ہے اس کو اپنی بنیادوں پراستوار کریں۔ ریاست کے متوازی ریاستی کام کو منظم کرنا ہی اپنے آپ کو منظم کرنا اور اسلامی شعار کو زندہ کرنے کے مترادف ہوگا۔

لال مسجد نے اس دور میں یہ کام کرکے دکھادیا کہ کس طرح امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام مدارس و مساجد کی صف بندی کے تحت کیا جا سکتا ہے۔ ریاست کے متوازی کس طرح معاشرتی کام کو منظم کیا جاسکتا ہے یہی لال مسجد کا سبق ہے۔

دینی قوتوں کے لئے ریاستی سطح پر مداخلت کیوں ضروری ہے؟

غلام جیلانی خان

٭          مضمون کے شروع میں ہم اسلامی نظام اقتدار کی اہمیت بیان کریںگے۔ اس کے بعد ہم موجودہ سرمایہ دارانہ ریاست کی حیثیت اور نوعیت کا جائزہ لے کر یہ دیکھنے کی کوشش کریںگے کہ یہ غیر اسلامی نظام اقتدار دینی قوتوں کے لئے کیا خطرات پیش کرتا ہے۔ اسی تناظر میں یہ بھی دیکھنے کی کوشش کریں گے کہ اس موجودہ نظام اقتدار سے صرف نظر کیوں ناممکن ہے اور دینی قوتوں کے لئے ریاستی سطح پر مداخلت کیوں ضروری ہے ۔

٭          علماء کرام لکھتے ہیں کہ قرآن مجید کی پانچ آیات اور 30 روایات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اسلامی حکومت کا قیام واجب ہے۔ سورہ نور کی آیت نمبر55 میں صاف طور یہ بیان کردیا گیا ہے کہ خلافت یعنی شریعت محمدی کی پابند حکومت کے قیام کے بغیر نہ دین اسلام کو قوت اور غلبہ حاصل ہوسکتا ہے نہ امن قائم ہو سکتا ہے۔ اور نہ مشرکانہ نظام کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ علامہ طرابلسی  حنفی لکھتے ہیں ” سیاست شرعیہ کا ختیار کرنا واجب ہے اور اس سے انکار کرنا نصوص شرعیہ اور خلفاء راشدین کی تردید کرنا ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ازالة الخفا میں فرماتے ہیں”حضور ۖ کا جہاد کو قائم رکھنا ، امراء کومقرر کرنا ، جیوش و سرایا کو بھیجنا، لوگوں کے فیصلے کرنا اور بلا د اسلامیہ میں قاضیوں کو مقرر کرنا ، حدود اللہ کو قائم فرمانا ، امر بالمعروف و نہی عن المنکر محتاج بیان نہیں ہے ۔ابن خلدون فرماتے ہیںکہ حکومت اسلامیہ کا قیام شرعا واجب ہے اور اس بات پر صحابہ اور تابعین کا اجماع ہے ۔ شرع شریف کا مسلم اصول ہے کہ مقصود محمود (فرض کی ادائیگی) کا حصول جس شے (ذریعہ) پر موقوف ہو تو اس ذریعہ کا حصول فرض ہوجاتا ہے حکومت اسلامیہ کے قیام کیلئے آج کل کے دور میں جو ذرائع ناگزیر ہیں ان کے حصول کی کوشش کرنا تمام مسلمانوں کے لئے ناگزیر ہے۔

٭          اب ہم سرمایہ دارانہ ریاست کی حیثیت اور نوعیت کا جائزہ لیتے ہیںاور دیکھتے ہیں کہ اس سے کیا خطرات لاحق ہیں۔مغرب میں مذہب عیسائیت اور عیسائی اقدار کی تباہی کا آغاز سیکولرازم سے ہوا۔ سیکولرازم کا جواز عیسائی علماء نے ہی پیش کیا۔ سیکولرازم نے انسانی زندگی کو دو خانوں میں تقسیم کردیا تھا، ایک سماجی زندگی اور دوسری ذاتی زندگی ۔ سماجی زندگی کے بارے میں کہا گیا کہ پبلک لائف تو ماورائے دین ہو گی اور مذہب پر عمل انسان کا انفرادی اور ذاتی معاملہ ہے۔ سیکولرازم نے زندگی کے ایک حصے میں مذہب کی گنجائش رکھی لیکن مغربی تہذیب کی بنیاد انسان پرستی تھی۔ یعنی انسان خود مقصود ہے اور وہ دنیا میں اس لئے آیا ہے کہ اس سے زیادہ سے زیادہ تسکین حاصل کرے اور اپنی خواہشات کی تکمیل کرسکے۔ مغرب اس بات پر یکسوہے کہ انسان پرستی صرف ” آزادی” کے حصول کے بعدہی ممکن ہے۔ آزادی کا آسان مطلب ہے ”خدا سے بغاوت” اس لئے ذاتی زندگی میں مذہب کا محض علامتی اظہار باقی رہ گیا  اور اب مغرب میں یہ علامتی اظہار بھی تقریبا نا پید ہوتا جارہا ہے۔

٭          آزادی کے حوالے سے ہم دیکھ چکے ہیں کہ اس ذریعے سے انسان اپنی الوہیت کا اظہار کرنے کی کوشش کرتا ہے اور وہ عملاً یہ دعویٰ کرتا ہے کہ معیار خیر و شرانسان کی اپنی ذات ہوگی۔ اس وجہ سے مغرب میں جو معاشرے تشکیل پائے اور جو ریاست بنی ان کی تمام ادارتی صف بندی کا مقصود ” آزادی ” اور مساوات یعنی ہر انسان کے لئے ” مساوی آزادی” کا حصول تھا۔ آزادی کی ٹھوس شکل تاریخی لحاظ سے سرمائے کی شکل میں سامنے آئی ، سرمایہ حرص وحسد کی تجسیم کا نام ہے ،سرمایہ تکاثر ہے یعنی بڑھوتری برائے بڑھوتری ہے۔ اس لئے مغرب کے تمام معاشرے مکمل طور پر سرمایہ دارانہ معاشرے بنتے چلے جارہے ہیںکیونکہ ہر معاشرتی قدر کو بڑھوتری سرمایہ کے اصول پر جانچا جاتا ہے۔ اسلئے غرض کی بنیاد پر ایک سول سوسائٹی تشکیل پاجاتی ہے اور محبت ، ایثار ، قربانی اور حیا کا تصور بھی محال ہو جاتا ہے اور مغرب کی تمام ریاستیں سرمایہ دارانہ ریاستیں ہیں۔ مغرب میں تیں طرح کی ریاستیں وجود میں آئیں۔ لبرل ریاستیں ، قوم پرستانہ ریاستیں اور اشتراکی ریاستیں اور انہی کی توسیع سوشل ڈیموکریٹ اور ویلفئیر ریاستیں ۔ یہ سب ” آزادی” کی قدر کو قبول کرتی ہیںاس لئے بنیادی طور پر سرمایہ دارانہ ریاستیں ہی ہیں۔ ان ریاستوں کا وظیفہ ایک ہی ہے یعنی وہ ایک ایسی شخصیت کی تعمیر اور اس کی تخلیق کو ممکن بنائیں جو ”آزادی” یعنی خدا سے بغاوت کی قدر کو اپنے اوپر خیر مطلق کے طور پر مسلط کرے ۔آزادی کی اسی قدر پر ایمان کی وجہ سے مغرب کے تمام معاشروں میں اخلاقی رزائل اپنی انتہاؤں کو چھورہے ہیں، خاندان تباہ ہوچکے ہیں ،مذہب اور مذہبی اقدار کی تضحیک ، انبیاء اور رسولوں کی تضحیک عام معمول بن گئی ہے۔ اسی طرح نو آبادیات (Colonialism) کے خاتمے کے بعد مسلم ریاستوں نے قومی ریاستوں کی شکل اختیار کر لی اور دنیا کے نقشے پر بظاہر آزاد اور مقتدر ریاستوں کی حیثیت سے موجود ہیں لیکن عملاً سب کی سب سرمایہ دارانہ استعمار کی باجگزار ریاستیں ہیں۔ ان سب ریاستوں کی معاشی اور خارجہ بلکہ اب تو معاشرتی پالیسیاں بھی امریکہ کے ہاتھ میں ہیں۔ پاکستان استعمار کی ان باجگزار ریاستوں میں سر فہرست ہے۔ ان ریاستوں میں استعمار کی معاونت سے سرمایہ دارانہ نظام نہ صرف جڑ پکڑ چکا ہے بلکہ مسلسل ترقی کر رہا ہے۔ اسلئے رزائل اخلاق کے پھیلاؤ کا ایک طوفان ہمیں نظر آتا ہے۔

٭          اس بات کو بھی اچھی طرح سمجھ لینے کی ضرورت ہے کہ معاشرہ کے برعکس جہاں تعلقات رضا کارانہ بنیادوں پر استوا ر ہوتے ہیں ریاست ایک نظام اقتدار کا نام ہے جس کے پاس اپنے فیصلوں کے نفاذ کے لئے ایک مخصوص علاقے اور اس کی آبادی کے لئے قوت نافذہ بھی موجود ہوتی ہے۔ ریاست کو عوام کی مرضی سے یہ اجارہ داری حاصل ہوتی ہے کہ وہ لوگوں پر حکومت کرنے کے لئے انہی کے چنے گئے نمائندگان کے ذریعے قوانین بنائے۔ تمام ریاستی ادارے مقننہ ، عدلیہ ، انتظامیہ عوام کا ہی تفویض کردہ کردار نبھاتی ہیں۔ اس لئے ہم مخصوص نظام اقتدار میں موجود ہوتے ہیںاور اس معاملے میں غیر جانبدار ی ممکن ہی نہیں ہے۔ ہماری دو بڑی عوامی جماعتیں یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ وہ نظام ریاست کے معاملے میں غیر جانبدار ہیں لیکن انکا یہ دعویٰ غلط فہمی پر مبنی ہے۔ وہ دراصل سرمایہ دارانہ نظام اقتدار میںزندگی بسر کر رہے ہیں اور عملاً اسے قبول کیے ہوئے ہیںبلکہ نادانستہ طور پر اس کی تقویت کا باعث بن رہے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام زندگی کے جو نتائج مغرب میں نکلے ہیں اگر ہم نے اس کے خلاف جدو جہد نہ کی اور بزعم خود غیر جانبدار بن کر بیٹھ گئے توخدا نخواستہ ہمیں بھی وہی نتائج بھگتنے ہوں گے۔

اس بحث کا خلاصہ مندرجہ ذیل نکات کی شکل میں نکال سکتے ہیں:۔

١۔         اسلامی ریاست کا بنیادی فریضہ اقامت دین ہے جو فرد کی اسلامی انفرادیت کے تحفظ اور استحکام کی ضامن ہوتی ہے

٢۔         غیر اسلامی ریاست یا سرمایہ دارانہ ریاست کا بنیادی فریضہ فرد کی آزادی کی توسیع اور استحکام ہے

٣۔         نظام اقتدار کے بارے میں غیر جانبداری ناممکن ہے اور ہم عملاً سرمایہ دارانہ نظام اقتدار میں زندگی بسر کررہے ہیں اور نادانستہ اس غیر اسلامی نظام کی تقویت کا باعث بن رہے ہیں

٤۔         سرمایہ دارانہ نظام اقتدار کے استحکام اور توسیع سے اسلامی انفرادیت اور معاشرہ کو شدید خطرات لاحق ہیں اور مذہبی اقدار کا تادیر قائم رکھا جانا بہت مشکل ہے

٥۔         اسلئے اسلامی ریاست کے قیام کی کوشش شرعاً واجب ہے

٭          مضمون کے آخر میںدینی قوتوں کے اشتراک عمل کی اہمیت اور ضرورت پر چند گزارشات پیش خدمت ہیں:

            اس وقت تحفظ دین اور غلبہ دین کی جدوجہد برپا اور منظم کرنے والے چار ممتاز گروہ ہیں۔    ١۔   مدرسین اور  مُزَکِّیْ   ٢۔     مبلغین اور مصلحین ۔   ٣۔  انقلابی ۔    ٤۔   مجاہدین ۔

مدرسین اور مزکیوں کا بنیادی ہدف اسلامی علوم کا تحفظ اور اسلامی تشخص کا فروغ ہے۔ ان کے سب سے اہم ادارے مدرسہ اور خانقاہ ہیں۔ تبلیغ اور اصلاح کے ضمن میں سب سے اہم کام تبلیغی جماعت اور دعوت اسلامی کررہے ہیں۔ ہم تمام اسلامی سیاسی جماعتوں کو انقلابی گروہ میںرکھ سکتے ہیں جو رائج شدہ نظام زندگی میں مکمل تبدیلی کے خواہاں ہیں(ان کو کسی نہ کسی طور پر مصلحین میںبھی شمار کیا جاسکتا ہے چونکہ یہ شہری ، صوبائی اور مرکزی حکومتی اداروں میں شمولیت کے ذریعے اسلامی اقدار اور روایات کا دفاع کرنے کی کوشش بھی کررہے ہیں) چوتھا گروہ مجاہدین کا جو استعمار اور استعمار کے ایجنٹوں سے عسکری سطح پر برسر پیکار ہے۔اول الذکر دو گروہ کو تحفظ دین اور مؤخر الذکر دونوں کو ہم غلبہ اسلام کی جماعتیں کہتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ :

١۔         تحفظ دین اور غلبہ دین کی جدوجہد کرنے والے سب گروہ ایک دوسرے کو باہم حریف نہ سمجھیں بلکہ رفیق سمجھیں۔ سب کو ایک دوسرے کے پھیلتے اور وسعت پذیر کام سے خوش ہونا چاہیے۔

٢۔         تحفظ دین کی جماعتوں اور غلبہ دین کی جماعتوں کے کام کو ایک قدم آگے بڑھ کر آپس میں مربوط ہونا چاہئیے۔ دونوں کے مابین تعلق استوار نہ ہوا اور اس کی شعوری کوشش نہ کی گئی تو دونوں کا مجموعی کام بہت متاثر ہوگا۔

٣۔         تحفظ اسلام اور غلبہ اسلام کی جماعتوں کا کام ایک لڑی میں پرو جائے۔ دونوں ایک دوسرے کی خامیوں اور کمزوریوں کو رفع کریں تاکہ بحیثیت مجموعی دین کا کام مضبوط سے مضبوط تر ہو

٤۔         تحفظ اسلام کی جماعتیں خصوصاً معاشرتی صف بندی کے کام مساجد کی بنیاد پر انجام دے سکتی ہیں۔ غلبہ اسلام کی جماعتوں کی قوت کے لئے یہ ایک نہایت اہم کام ہوگا کیونکہ اسلام کا سیاسی غلبہ معاشرتی تطہیر کے کام کے بغیر قائم نہیں رکھا جاسکتا۔ انتخابی سیاست ہی ریاستی جدوجہد کا واحد دائرہ کار نہیں بلکہ معاشرتی سطح پر اپنی قوت کو منظم کرنا بھی نئی طرح کی سیاسی جدوجہد کی بنیاد بن سکتی ہے۔

اللہ سے دعا ہے کہ وہ (اللہ) تحفظ دین اور غلبہ دین کے ضمن میں ہونے والی ہماری تمام کوششوں کو کامیاب فرمائیں اور ہمارے ناقص اعمال کو اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت بخشیں۔

ہماری معاشرتی اور ریاستی صف بندی

 کے لازمی اجزائ

سیدذیشان ارشد

ہمارے معاشرے میں لوگ عبادات وغیرہ کے مختلف مسائل تو جانتے ہیں مگر ہمارے معاشرے میں جو لوگ کاروبار وغیرہ کرتے ہیں وہ کاروبار کے اسلامی احکامات ومسائل  سے واقف نہیں ہیں، اسی طرح دیگر معاشرتی مسائل مثلاً شادی بیاہ کی رسومات آپس کی لین دین، نکاح اور طلاق اور اسی طرح مختلف عمال میں اسلامی احکامات کے متعلق لوگوں سے پوچھیں تو وہ ان سے واقف نہیں ہیں اور وہ بتانے سے قاصر ہیں۔ تو پہلی اہم چیز جو ہم دیکھتے ہیں وہ یہ ہے کہ اس معاشرے کے اندر جو ایک پاکستانی معاشرہ ہے اس کے اندر جو نظام تعلیم ہے وہ محض مدرسوں کی حد تک تو اسلامی ہے لیکن مدرسوں کے باہر جو بیشتر مسلمان ہیں وہ ہمیں اسلام سے واقف نظر نہیں آتے، ہمارے اس مضمون کا موضوع بہت تفصیلی حکمت عملی پر منحصر تو نہیں ہے لیکن ہم اس میں لازمی اجزاء پر گفتگو کریں گے۔ اسلامی معاشرتی صف بندی کا لازمی جز اسلامی نظام تعلیم ہے یعنی جماعت اسلامی اور دیگر تحریکات اسلامی کو اس چیز کی کوشش کرنی چاہیے کہ کس طرح سے لوگوں کے اندر اسلام کی تعلیم عام ہو۔ ہم مختلف سطحوں پر بات کرسکتے ہیں اگر ہم مدرسوں کی سطح پر بات کریں تو وہاں پر اسلامی تعلم کا بہت اچھا انتظام ہے وہاں بہت سے طلبہ ہی دینی تعلیم حاصل کرتے ہیں مگر دینی تعلم عام نہیں ہوپاتی، یہ تعلم مخصوص لوگوں کے لیے ہیں جو لوگ وہیں رہتے ہیں اور وہاں سات آٹھ سال میں فارغ تعلیم ہوکر مسجدوں میں جاتے ہیں اور اپنی زندگی گزارتے ہیں لیکن جس طرح اسکولوں اور کالجوں میں عام لوگ تعلیم حاصل کرتے ہیں ان تک دینی تعلیم نہیں پہنچ پاتی، تحریکات اسلامی اس چیز کی کوشش کرسکتی ہیں کہ دینی تعلیم عام مسلمانوں میں زیادہ سے زیادہ عام ہوں، عقائد کی درستگی، اعمال اور معاملات کے متعلق اسلامی تعلیم عام ہو۔ دوسری بات خود تحریکات اسلامی کے کارکنان کے متعلق کی جاسکتی ہے جن لوگوں کا تعلق مدارس سے ہے ان کے اندر تو اسلامی تعلیمات عام ہوتی ہے مگر جن تحریکات کے کارکنان کا تعلق مدارس سے نہیں ہوتا جیسے میں خود جماعت اسلامی کا بہت عرصے سے رکن ہوں ان کا دینی مطالعہ بڑا محدود ہوتا ہے۔ وہ اسلام کے لیے جدوجہد تو کرتے ہیں ان کے جذبات اور اخلاص پر کوئی شک نہیں کیا جاسکتا مگر بہرحال خود ان کے اندر اسلامی تعلیم کی اور اسلامی تربیت کی کمی محسوس کی جاتی ہے۔ ان کے اپنے معاملات میں کاروبار ہی دیگر جو رسومات ہیں۔ ان چیزوں کے اندر ان کے لیے اسلامی تعلیم کا بندوبست کرنا چاہیے۔ تو ہماری ایک معاشرتی صف بندی جس کا حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے وہ یہ ہے کہ ہم ایسے مواقع اور اس چیز کی کوشش کریں کہ عام مسلمانوں میں اسلامی تعلیم کا عام ہو اور تحریکات اسلامی کے کارکنان جن کا تعلق مدارس سے نہیں ہے ان کے لیے دینی تعلیم کا عام ہونا بلکہ سے بڑھ کر رشد وہدایت کا عام ہونا۔ یعنی اسلامی معاشرت کی ایک خاص بات ہے کہ لوگوں کے اندر رشد وہدایت کا سلسلہ عام ہوتا ہے اور لوگ اپنے معاملات کی درستگی کے لیے علماء کی طرف، صوفیاء کی طرف اور بزرگوں کی طرف دیکھتے ہیں اور اس لازمی سلسلہ اسلامی علمیت کا بھی قیام ہے۔

موجودہ معاشرہ جو ہمارے سامنے موجود ہے اس میں اسلامی علمیت غالب نہیں ہے۔ اسلامی علمیت سے میری مراد یہ ہے کہ جب ایک عام شخص کے سامنے ایک مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو وہ بجائے اس کے کہ علماء اسلام کی طرف دیکھتا ہے وہ قانون دانوں کی طرف دیکھتا ہے وہ معیشت دانوں Economist کی طرف دیکھتا ہے۔ وہ معاشرے میں ایسے Professionalsکی طرف دیکھتا ہے جو مغربی تہذیب کے تربیت یافتہ ہوتے ہیں اور ایسے عام زندگی کے معاشرتی اور معاشی مسئلوں کا حل دنیاوی علوم میں تلاش کرتا ہے اور اسلامی علوم میں تلاش نہیں کرتا اس نظام تعلیم کے ساتھ جو بات اہم ہے وہ یہ ہے کہ اسلامی تعلیم کو عام کیا جائے بلکہ اسلامی علمیت کے غلبے کی بھی کوشش کی جائے۔ اور یہ بات ہماری حکمت عملی میں شامل ہو کہ لوگوں کا مزاج اور اعتماد دوبارہ سے علماء اور اسلام کی تعلیم کی طرف بحال ہو اور وہ اپنی نجات اور رہنمائی کے لیے علماء سے رجوع کریں بجائے اس کے کہ وہ سرمایہ دارانہ ذہنیت کے لوگوں کی طرف رجوع کرے۔ اسلامی تعلیم کے تناظر میں ایک اہم چیز جس کا ہمیں ادراک ہونا چاہیے وہ یہ ہے سائنس اور ٹیکنالوجی کا عمل داخل، موجودہ معاشرے کے اندرے سائنس اور ٹیکنالوجی کا بہت عمل دخل ہے، عام مسلمان جب سرمایہ دارانہ نظم عمل میں سائنس اور ٹیکنالوجی کو دیکھتے ہیں تو یہ انہیں علوم نظر آتے ہیں۔ جبکہ یہ فنون ہیں زیادہ تر علوم کوئی بھی نہیں ہے۔ سائنس کے حوالے سے تو بہت لکھا جا چکا ہے۔ البتہ ٹیکنالوجی کے حوالے سے اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ تدبیر ہے اور اس تدبیر کو اختیار کرنے کے لیے ایک فرق کرنا پڑے گا ٹیکنوسائنس اور ٹکنالوجی میں کہ کون سی تدابیر ایسی ہیں جو سرمایہ دارانہ نظم عمل میں شامل نہیں ہیں اور وہ ایسی ہیں جنہیں ہم استعمال کرکے غلبہ دین کی جدوجہد کرسکتے ہیں اور کون سی ٹیکنالوجی ایسی ہیں جن کو استعمال کرکے مسلمان اسلام سے تو قریب نہیں البتہ سرمایہ داری کے بہت زیادہ قریب ہوجاتا ہے اور وہ سرمایہ داری کے مقاصد حاصل کرنے لگتا ہے۔ٹیکنالوجی میں یہ فرق کرنے کی ضرورت ہے۔

اس کے بعد دوسرا جز یہ ہیں کہ خاندان اور برادری کو اس نہج پر ترتیب دیا جائے کہ مسلمانوں کے لیے اسلام اور اسلامی تعلیمات پر عمل کرنا آسان سے آسان ہوجائے جس تہذیب سے ہمارا مقابلہ ہے یعنی سرمایہ دارانہ تہذیب اس کا سب سے پہلا وار گھر اور خاندان پر ہے۔ موجودہ مغربی تہذیب کے اگر آپ معاشرے کو دیکھیں تو وہاں پر گھر اور خاندان تباہ ہوچکا ہے یہ ایک Individualst تہذیب ہے جو فرد کو پکا اور تنہا کر دیتی ہے۔ سب سے پہلا اثر تو اس کا یہ ہوتا ہے کہ لوگ برادری سے ٹوٹ جاتے ہیں۔ اپنے گاؤں اور گھروں کو لوگ چھوڑ دیتے ہیں۔ اور بہتر تعلیم کی تلاش میں اور بہترروزگار کی تلاش میں لوگ شہروں کی طرف نکل آتے ہیں۔ اور اپنے گھر خاندان، ماں باپ، بہن بھائی، چچاتایا پھوپھا وغیرہ جس کی بنیاد ایک شناخت ہوتی ہے اور جن کی بنیاد اس کے لیے ایک معاشرتی سہارا حاصل ہوتا ہے وہ سب چیزیں چھوڑ کر ایک ایسے شہر میں آبستے ہیں جہاں وہ اپنے روزگار کے لیے یکا اور تنہا ہیں۔ جہاں ان کے لیے ان کی بیویاں اور بچے سکون قلب کے لیے میسر نہیں، تو وہ دوستوں میں گھومتے پھرتے ہیں، کلبوں میں جاتے ہیں اور پھر انہیں اپنی خاندان کی رہنمائی حاصل نہیں ہوتی، یہ بہت اہم مسئلہ ہے یعنی سرمایہ داری نے فرد کے دماغ تبدیل کرنے کے لیے جس جگہ پر خاندان کو کمزور کیا ہے وہاں وہاں سے اسلامی روایات ختم ہوئی ہیں اور ان پر عمل کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ گھر اور خاندان کی اسلام کے اندر بہت اہمیت ہے۔ گھر اور خاندان کی بنیاد محبت پر قائم ہے، اخوت پر قائم ہے اور یہ وہ دو چیزیں ہیں جو سرمایہ داری کے اندر موجود ہی نہیں ہیں اور سرمایہ داری کے بنیادی اجزاء حرص اور ہوس اس کے راستے میں رکاوٹ ہیں۔ انسان جب اپنے گھر والوں کے لیے اور اپنے رشتے داروں سے تعلقات بڑھاتا ہے اور سب سے اخوت اور محبت کا رشتہ قائم رکھتا ہے تو اس کے لیے اسلام پر عمل کرنا آسان ہوجاتا ہے، معاشرتی سطح پر جو لوگ خاندان سے منسلک ہیں وہ اسلام پر عمل پیرا زیادہ ہیں اور ریاست پر کم انحصار کرتے ہیں جب فرد یکا اور تنہا ہوجاتا ہے تو وہ ریاست پر اور اپنے دوستوں پر زیادہ انحصار کرتا ہے یعنی وہ سرمایہ دارانہ معاشرے پر انحصار کرتا ہے لیکن جس شخص کے پیچھے گھر، ماں باپ، بہن بھائی، بیوی بچے اور اس کے خاندان والے موجود ہوتے ہیں تو اس کے لیے معاشی طور پر اس کی سپورٹ، دیکھ بھال، خیرخواہی اور اس کا خیال اور اس کے لیے نیکی کرنا آسان اور برائی کرنا مشکل ہوجاتا ہے اور جو لوگ تنہا رہتے ہیں دوردراز علاقوں میں وہ کسی کو جواب دہ نہیں ہوتے کوئی ان کا پوچھنے والا نہیں ہوتا، ان کے لیے گناہ کرنا آسان ہوجاتا ہے، وہ کوئی عمل کریں نہ کریں کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں ہوتا، لیکن جو شخص ایک بھرے خاندان میں رہتا ہے اس کے لیے پانچ وقت کی نماز پڑھنا، دیگر اسلامی رسومات کا ادا کرنا قربانی اور روزوں کا اہتمام کرنا اور دیگر عبادات کرنا اس کے لیے بہت حد تک آسان ہوجاتا ہے،تو معاشرتی حکمت عملی کے لیے جس پر تحریکات اسلامی نے اب تک کام نہیں کیا وہ یہ ہے کہ خاندانی رسوم اور روایات کو اسلامی نہج پر ترویج دینا اور ایسے گھرانوں کو ترتیب دینا مثلاً شادی کے معاملات وغیرہ تحریک اسلامی کے نیک اور دین دارگھرانے جو تحریک کا کام کر رہے ہیں ان کے آپس میں نکاح کرانا ان کے گھروں اور رہائش کا بندوبست اسلامی خاندان کی تربیت کا اہتمام کرنا ہے۔ ہماری تحریکات اسلامی کا فوکس ہر خاندان کی اسلامی طرز پر تعمیر اور انہیں مضبوط کرنا ہوجائے تو یقینا ہم سرمایہ داری کو روکنے میں اور اس کے خلاف بند باندھنے میں کامیاب ہوجائیں گے کیونکہ گھر اور خاندان ہی وہ آخری جگہ ہے جس کی وجہ سے ہم برائی کو اپنے گھر کے باہر رکھ سکتے ہیں۔ اور گھر اور خاندان کے اندر ایک پوری اسلامی ریاست ترتیب دے سکتے ہیں۔

اسلامی معاشرتی صف بندی تیسرا جز معاش کا مسئلہ ہے، یہ مسئلہ سب سے اہم مسئلہ ہے جب تک لوگوں کا معاش کا انتظام نہ ہو اس وقت تک اسلامی معاشرہ ترتیب نہیں دیا جاسکتا۔ تجارت ایک جائز اور اسلامی چیز جبگہ سرمایہ داری ایک حرام اور ناجائز چیز ہے۔ معیشت کے سلسلے مین جب بھی بات کی جاتی ہے تو اس میں دو چیزوں میں فرق کرنا ضروری ہے ایک ضرورت میں اور دوسری تعیشات اور عیش وعشرت میں۔ موجودہ سرمایہ دارانہ معاشرہ ضرورت میں اور تعیشات میں فرق نہیں کرتا۔ ضرورتیں (Needs) میں اورخواہشات Wants میں فرق نہیں کرتا بلکہ ہر تعیش کی طرف لے جانے والی چیز ضرورت بن جاتی ہے اور پھر اس تعیش کی چیز کے لیے انسان تگ ودو کرتا ہے اور جدوجہد کرتا ہے جب وہ حاصل ہوجاتی ہے تو پھر ایک دوسری چیز آجاتی ہے اور انسان پھر نئی تعیش کی چیز کے پیچھے پڑ جاتا ہے جیسے کہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ آج کل موبائل فون کے نئے نئے ماڈل آتے جارہے ہیں اسی طرح گاڑیوں اور کپڑوں وغیرہ کے نئے نئے ماڈل آتے جارہے ہیں اور انسان ان کی خریداریوں میں مشغول رہتا ہے۔ ایک لامتناہی سلسلہ ہے چیزیں ہر وقت بازار میں دستیاب ہے۔ پہلے وہ اس کو استعمال کرتے ہیں پھر ان کی ضرورت بن جاتی ہے۔ پھر اس کے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتے۔ تو اس چیز میں فرق کرنے کی ضرورت ہے کہ انسان کا دنیا میں وجود  وماخلقت الجن والانس الالیعبدون عبادت کرنا ہے اور عبادت کے لیے جو چیز ضرورت ہے بس وہی چیز ضرورت ہے اور اس کے علاوہ کوئی چیز ضرورت نہیں ہے۔ جو چیز مسلمان کے لیے عبادت ممکن بنا دے اس کے غلبہ دین کی جدوجہد ممکن بنا دے وہی اس کی ضرورت ہے باقی تمام چیزیں تعیشات ہیں اور غیرضروری ہیں۔ چاہے وہ مباح ہی کیوں نہ ہوں لیکن وہ آپ کو گناہ کی طرف لے جاسکتی ہیں۔ معاش اور روزگار کے سلسلے میں تحریک اسلامی جو کام کرسکتی ہے وہ یہ ہے کہ ہر شخص معاش کے چکر میں بڑی طرح پھنسا ہوا ہے یعنی نیک اور عبادت گزار آدمی بھی اس پریشانی میں ہے کہ کسی طرح بھی مجھے کسی سے مانگنا نہ پڑے اور میں کچھ اور کمالوں اور کچھ اور کما لوں اور روز روز کے قیمتوں کے اضافے نے تمام افراد کو جو سرمایہ دار بھی نہیں ہیں کیونکہ سرمایہ دار تو ایک طرف حرص وہوس اور اسٹاک مارکیٹ میں لگے ہوتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ کمانا چاہتے ہیں لیکن اس کے علاوہ بھی ایسے تمام لوگ جو غریب ہیں اور درمیانے درجے کی زندگی گزارنا چاہتے ہیں ان سب کے لیے بھی دن بدن یہ ناممکن ہوتا جارہا ہے کہ کیونکہ قیمتیں مستقل بڑھ رہی ہیں۔ اپنی زندگی کا زیادہ حصے یا کچھ حصے دینی کاموں اور تحریک اسلامی کی جدوجہد میں لگا سکیں۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام کی خصوصیت ہے کہ اس میں مستقل قیمتوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے جب دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام نہیں تھا۔ ہزار سال تک قیمتیں ہی نہیں بڑھتی تھیں تو اس معاشی جال میں ہم پھنس کر ہم ایک نہ ختم ہونے والی دوڑ میں شامل ہوچکے ہیں اور اس نظام میں مسلمانوں کی بنیادی خصوصیات صبر، قناعت، زہد اور تقویٰ ان خصوصیات کے لیے جدوجہد کرناتقریباً نا ممکن ہوگیا ہے۔ تحریکات اسلامی اس سلسلے میں یہ کرسکتی ہیں کہ حلال روزی کے ذرائع فراہم کیے جائیں۔ یعنی اس قسم کی حلال تجارت کے سیٹ اپ کیے جائیں۔ جہاں تحریکات اسلامی کے لوگ پہلے مرحلے میں اور دوسرے مرحلے میں عام مسلمان شامل ہوں جو دینی افراد میں اور اپنی ضروریات پر ان کی نظر ہے۔ اور وہ اپنی ضروریات کو پورا کرکے اپنی عبادات کو ممکن بنانا چاہتے ہیں تو ایسے لوگوں کے لیے حلال تجارت کے ذرائع موجود ہوں۔ ایسے بہت سے افراد جو تحریک اسلامی کا کام کرنا چاہتے ہیں وہ بڑی بڑی ملوں میں ملٹی نیشنل کمپنیوں میں پھنس جاتے ہیں اور ایسی ایسی جگہوں پر جاکر ان کو نوکریاں کرنی پڑتی ہیں کیونکہ ہم غلبہ دین کی تحریک کے اندر ہم نے ایسے کارکنان اور دیگر مسلمانوں کے لیے معاش کے لیے کوئی انتظام نہیں کیا معاشرتی صف بندی کا ایک لازمی جزاسلامی تجارت کا احیاء ہے۔ تحریک اسلامی کو اس سلسلے میں ایسا انتظام ضرور کرنا چاہیے جہاں پر تحریک اسلامی کے کارکن اپنی معاش کا انتظام کرسکیں اور انہیں اتنی آمدنی بھی میسر آسکے کہ وہ روزمرہ زندگی کے اخراجات بھی پورے کرسکیں اور اپنی زندگی کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے استعمال کرسکیں اور غلبہ دین کی جدوجہد کو ممکن بنا سکیں۔ اب تک تحریک اسلامی کی جدوجہد جتنی بھی ہوئی ہے اس کے اندر خاص کر جماعت اسلامی کی حد تک وہ پارٹ ٹائم ورکرز رکھتے ہیں، یعنی ان کا گھر، ان کا معاش ان کے دیگر معاملات ان کی اپنی ذمہ داری ہے۔ اور پھر تحریک اسلامی اس کے بعد ان سے وقت کا تقاضا کرتی ہے اور مختلف سرگرمیوں کے لیے ان سے وقت کا مطالعہ کرتی ہے اور اپنے کام کرواتی ہے۔ لیکن جو ان کی بشری ضروریات ہیں ان کے گھر والوں کی ضروریات ہیں، ان کا معاش کا بندوبست ہے جس کے لیے وہ وقت دینے پر مجبور ہیں۔ اور وہ تو ان کو کرنا ہی پڑے گا اسی لیے ان کی زندگی کا بہت بڑا حصہ استعمار کی خدمت کے لیے چلا جاتا ہے اور دین کی خدمت کے لیے ان کے پاس وقت بہت کم رہ جاتا ہے۔ جو لوگ صبح٨،٩بجے سے لے کر شام ٥، ٦ بجے تک نوکری اور کاروبار وغیرہ کرتے ہیں اس کے بعد شام کو ایک آدھ گھنٹہ ان کے پاس وقت ہوتا ہے جس میں وہ تحریک اسلامی کا کام کرتے ہیں اور اجتماع اور دروس وغیرہ میں شرکت کرتے ہیں تو ان کی زندگی کا بہت بڑا حصہ استعمار اور سرمایہ داری کی خدمت میں گزرتا ہے۔ جہاں پر وہ حرص وہوس دیکھ رہے ہیں جہاں پروہ گناہوں میں مبتلا ہیں۔ تو اگر آپ ایک معاشرتی تبدیلی چاہتے ہیں تو آپ کو اس بات کی کوشش کرنی پڑے گی کہ لوگوں کے لیے حلال ذرائع رزق فراہم کریں۔ جس کے ذریعہ عبادت کو ممکن بنایا جاسکے اور غلبہ دین کو ممکن بنایا جاسکے حلال تجارت کے ذریعے ایک چیز یہ ممکن ہوجائے گی کہ ان کے پاس حلال آمدنی آجائے جس کے ذریعے وہ اپنی گزر بسر کرسکیں اور اس کے ذریعے جو اضافی آمدنی ہوتی ہے اس کو غلبہ دین تحفظ دین اور جہاد اسلامی کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے اور اس تجارت کا اہم عنصر یہ ہونا چاہیے کہ اسے سرمایہ دارانہ نظم کی کسی بھی چیز سے منسلک یا تعلق نہیں ہونا چاہیے، نہ بنک لوں، نہ بنکوں میں اکاونٹ نہ کسی قسم کا بنک اکاونٹ وغیرہ۔ جس طرح ہمارے یہاں B.C ڈالنے کا طریقہ کار جو لوگوں کی ضروریات پورا کرنے کا ایک گھریلو اور اسلامی طریقہ کار ہے جس کو بنکوں نے پرسنل لون کی صورت میں ختم کردیا ہے۔ یعنی چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کے لیے ہمیں سود جیسے بدترین چیز میں مبتلا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اور گھر اور خاندان کے ذرائع کو چھوڑ کر بنک اور فانینشل (Financial) اداروں کا غلام بنانے کی کوشش کی جاتی ہے، جبکہ یہ ضروریات وہ لوگ گھر والوں اور خاندان والوں کی مدد سے آسانی سے پورا کرسکتے ہیں جن کا گھر اور خاندانی تعلق مضبوط ہوتا ہے۔ اور ان چیزوں کی وجہ سے آپس کے تعلق بھی مضبوط ہوتے ہیں۔ معاشرہ اور خاندان میں ایک دوسرے کی مدد کے ذریعے محبت اور اخوت کا فروغ بھی ہوتا ہے اور یہ سارے معاملات غیرسودی ہوتے ہیں۔ یعنی یہ پورا سیٹ اپ سرمایہ دارانہ نظم عمل سے بالکل الگ رہ کر معاشرے کی تشکیل کرتا ہے اور اسی کے ذریعے تعلیم کو بھی عام کیا جاسکتا ہے اور پورا خاندانی نظام مضبوط اور معاشرے میں ایک اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور اسی خاندانی نظام میں آپس میں رشتہ داریاں بھی قائم ہوں جس کے ذریعے خاندان بڑھتا ہی چلا جائے اور مضبوط سے مضبوط تر ہوجائے اور اس کے ذریعے ہم سرمایہ دارانہ نظم عمل سے بالکلیہ علیحدہ رہ سکتے ہیں۔ یعنی اسلامی تجارت اور خاندان کا بنیادی مقصد خاندان کو مضبوط بنانا اپنی روزمرہ کی ضروریات کو پورا کرنا اور زیادہ سے زیادہ اللہ کی عبادت کو ممکن بنانا ہے یعنی یہ تمام تجارتی معاشرتی کام اصل میں ہماری عبادت کے گرد گھومے گا اور غلبہ دین اور جہاد اسلامی کے لیے بہت معاون ومددگار ہوگا۔

آخری اور اہم چیز ہمارے معاشرے میں تھانے اور یونین کونسل کا کردارہے۔ اور ناظم یونین کونسل کا کردار ہے۔ اس کو کم اور تبدیل کرنا ہے۔ اور محلے اور خاندان کے جو مسائل ہیں انہیں مسجد اور مدارس کے گرد منظم ہونا چاہیے۔ یعنی اس وقت محلے کے جو چھوٹے موٹے لڑائی اور جھگڑے اور تنازعات ہیں وہ یونین کونسل اور تھانیدار کے ذریعے حل کیے جاتے ہیں۔ جبکہ معاشرے میں بے شمار مساجد ہونے کے باوجود ایک بے اثر ادارہ کے طور پر موجود ہیں اور لوگ مساجد کو صرف اپنی نمازوں کے لیے استعمال کرتے ہیں اس کے علاوہ مساجد کا کوئی معاشرتی کردار نہیں ہے۔ اگر ہم معاشرے میں اسلامی غلبہ چاہتے ہیں تو ہمیں یہ تمام مسائل کے حل کے لیے مساجد کا رخ کرنا پڑے گا۔ یعنی ہمارے محلے کی جو مسجد ہو اور جو امام صاحب ہوں اور ان کی اس قدر اہمیت ہو اور وہ مقام ہو کہ لوگ اپنے مسائل کے لیے تھانے اور یونین کونسل کی بجائے مسجد کے پیش امام کے ذریعے اپنے مسائل حل کروائیں۔ اور مساجد تو اس درجہ پر پہنچانے کی کوشش تحریکات اسلامی کو کرنا چاہیے، تحریکات اسلامی کے پاس بہت ساری مساجد ہیں، ان مساجد کو اس طرح کا نظام بنایا جائے جس کے ذریعے معاشرے کے روزمرہ کے معاملات مساجد کے ذریعے حل کروائے جائیں اور معاشرے کے عام لوگوں کا رجوع مساجد کی طرف پھیر دیا جائے، اس کا سب سے اہم اور ضروری فائدہ یہ ہوگا کہ لوگوں کو اپنے معاملات کے حوالے سے اسلامی حل اور علم مل جائے گا اور امام مسجد اس حوالے سے ان کی اسلامی علم کے حوالے سے رہنمائی کر سکے گا۔ اور اس طرح ایک ادب اور تعظیم کا ایسا ماحول مرتب ہوجائے گا جس کے ذریعے تھانے اور یونین کونسل کی اہمیت ختم ہوجائے گی اور مسجد کا کردار اور حکومت قائم ہوجائے گی۔

اگر ہم اس بات پر غور کریں کہ یہ تمام چیزیں لوگوں کے اندر عام ہوجائیں کہ ایک عام مسلمان اپنے معاملات کے حل کے لیے یونین کونسل اور تھانے کی بجائے مسجد کی طرف رجوع کریں، اپنے معاشی معاشرتی مسائل کے حل کے لیے خاندان اور برادری کی طرف رجوع کرتا ہے اور وہاں اسے اخوت ومحبت اور سکوں ملتا ہے۔ اور وہ حکومت کی ملازمت کا محتاج نہیں رہتا اور بنکوںاور  بڑی بڑی ملٹی نیشنل اداروں کا محتاج نہیں رہتا اور حلال اسلامی تجارت جو سرمایہ دارانہ نظام سے بالکل علیحدہ اور آزاد ہے اس پر انحصار کرتا ہے اور اپنی ضروریات محدود رکھتا ہے اور اسلامی علم سے بھی آگاہ ہے۔ تو ہم اسلامی صف بندی کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے یہ تمام کام سیکولر اور لادین حکومت کے ذریعے تو ناممکن ہیں۔ یہ تمام کام ایک اکیلے شخص کے لیے ناممکن ہے۔ بلکہ یہ تمام کام تحریک اسلامی ہی کے لیے ممکن ہے۔ اگر لوگوں کے اندر اسلامی تعلیم ہو، اسلامی شعور عام ہو۔ اور یہ کام ہم منظم کریں تو ان شاء اللہ دس بیس سال میں واضح تبدیلی دیکھ سکیں گے اور پھر ہمیںیہ نظر آئے گا کہ لوگ خود اسلام کی طرف رغبت کریں گے۔ کیونکہ لوگوں کو پتہ ہوگا کہ اسلام کیا ہے۔ اور وہ کیا چاہتا ہے تو ہم جو تبدیلی اوپر سے لے کر آئیں گے لوگ اس کے لیے راضی ہوںگے اس تمام کام کے ذریعے محلوں میں تو شریعت تو خود ہی نافذ ہوچکی ہوگی یعنی ہم مسجد کے ذریعے سے جو کام منظم کر رہے ہوں گے اس کے ذریعے شریعت تو عملاً نافذ ہوچکی ہوگی۔ اسلامی اصول اور اسلامی مسائل کا ہر کسی کو علم ہوگا، حلال روزی ہوگی تو برکت ہوگی اور خاندان مضبوط ہوںگے اور اسلامی تعلیم عام ہوگی تو لوگ خود ہی کفر سے آگاہ ہوںگے۔ تب اگر ہمیں حکومت ملتی ہے تو ہم پورے معاشرے کو اسلامی نظام زندگی میں ڈھالنے میں کامیاب ہوجائیں گے اور پورا معاشرہ بھی اس بات کو قبول کرنے کے لیے بھی راضی ہوگا کہ وہ اسلام چاہتے ہیں اور اس کے بعد ملک میں اسلام دشمن حکمرانوں کا رہنا بھی مشکل ہوجائے گا۔

پاکستانی ریاست اور ٢٠٠٢ء سے ٢٠٠٧ء تک ہمارے تجربات

محمد امین اشعر

پاکستان ١٤اگست ١٩٤٧ء میں ایک ملک کے طور پر وجود میں آنے والی ریاست ہے جدوجہد پاکستان ایک خالص مسلمان قوم کی جدوجہد کا ثمر ہے جنہوںنے اسلام کا نعرہ لگا کر مسلمانوں میں ایک علیحدہ ریاست کی طرف مسلمانان ہند کو منظم کیا، تحریک پاکستان کی بنیادوں میں دو قومی نظریہ کا خالص قوم پرستانہ نعرہ بھی شامل ہے اور اسی طرح جن حضرات نے اس جدوجہد کو آخری انجام تک پہنچایا وہ تمام کے تمام سیکولر اور لادین حضرات تھے جو مسلمانوں کو اسلامی ریاست کا جواب دکھا کر ایک سیکولر مسلم ریاست قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ مولانا مودودی اس تمام صورت حال پر اپنا تبصرہ یہ پیش کرتے ہیں کہ جن لوگوں کے ہاتھ میں مسلم لیگ کی باگ دوڑ ہے وہ کبھی بھی اسلامی ریاست نہیں بنا سکتے اور اب تک کی پوری تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ پاکستان ایک سرمایہ دارانہ جمہوری ریاست ہے جس میں اصل حکمران لادین قوانین اور سیکولر حضرات رہے ہیں پاکستان کے تینوں ریاستی ستون عدلیہ، انتظامیہ اور مقننہ خالص لادین اور سیکولر ادارے ہیں۔

ریاست کے یہ تینوںپورے کے پورے سیکولر ڈھانچے کے مطابق ہی عمل کرتے ہیں اور ایک سرمایہ دارانہ نظام مملکت کے جاری وساری رکھنے ہی کو ممکن بناتے ہیں۔ پاکستان کی عدلیہ نے آج تک کوئی ایسا کام نہیں کیا جس کو دیکھ کر یہ کہا جاسکتا ہو کہ یہ کسی اسلامی ریاست کی عدلیہ ہے اور اس عدلیہ کو چلانے والے سیکولر لادین اور مغربی نظام عدل کے تحت ہی احکامات جاری کرتے ہیں اور قانون سازی کرتے ہیں کیونکہ اس پورے عدلیہ کے نظام میں علم دین کی کوئی حیثیت نہیں اور نہ ہی کسی عالم دین مفتی اور کسی فقیہہ کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ بارایٹ لا کی لندن کی ڈگریوں کی اہمیت ہے اور وہیں کے دنیاوی علوم اور قانون کے مطابق یہاں فیصلے کیے جاتے ہیں۔ بظاہر پاکستان میں قرار داد مقاصد کے تحت اسلامی نظام کو جواز فراہم کیا ہے اور یہ قرار داد مقاصد پاکستان میں آج تک قابل عمل نہیں رہی بلکہ ہمیشہ معطل رہی ہے اور اس کے نتیجے میں اسلامی طبقات کو انقلابی حکمت عملی سے دور رکھنے کی سعی کی گئی ۔ عدلیہ کے سیکولر اور لادین ہونے کی سب سے بڑی مثال سود کے متعلق فیصلوں پر ہے۔ سود کو معیشت سے کبھی بھی نکالا نہیں جاسکا ور تمام حکومتوں نے سود کو جاری وساری رکھا بلکہ مختلف حکمرانوں نے سود کو مختلف نام دے کر اسلامی کرنے کی کوشش بھی کی اور آج کل اسلامی بینکوں کے ذریعے سود اور بنک جیسے گمراہ اور لادین ادارے کو بھی اسلامی جواز پہنا دیا گیا جس کی اسلامی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔

اس ملک کی انتظامیہ کا اصل کام سرمایہ دارانہ قوانین کو عملی جامہ پہنانا ہی ہے جس کے لیے فوج پولیس اور سیکریٹری اوردیگر ملازمین اپنی خدمات سیکولر نظم کے تحت ہی ادا کر رہے  ہیںیعنی اس ملک کی انتظامیہ بھی ہمیشہ سیکولر نظم اور افراد کے ہاتھ میں رہی چاہے وہ اپنی انفرادی زندگی میں جتنے بھی دین دار ہوں مگر بیورکریسی فوج اور پولیس نے ہمیشہ اسی لادین سرمایہ دارانہ نظام ہی کو جاری وساری رکھنے کی کوشش کی، اس ملک کی سول انتظامیہ CSS کے امتحانات میں کامیابی کے بعد ہی اس سسٹم کو چلانے کے لیے تیار ہوتی ہے اور CSS کے امتحانی نظام میں کوئی ایسانصاب شامل نہیں جس کے ذریعے دینی اخلاقیات اور اصولوں کے مطابق معاشرے کے حالات اور مسائل پر قابو پایا جاسکے اور پوری سول انتظامیہ وہی مغربی فکر آزادی اور Human Right کے اصولوں کے مطابق معاشرے کو منظم کرتی ہے حالانکہ بیوروکریسی میں مذہبی اور دین دار طبقے اور تحریکی اسلامی کے افراد بھی شامل ہوتے رہے مگر وہ بھی اس میں شامل ہوکر اس لادین اور سیکولر نظام کا حصہ بنتے رہے اور اپنی دینی اور تحریکی وابستگیوں کو بالائے طاق رکھ دیا۔ بلکہ تحریک اسلامی کے افراد تو اس سیکولر نظام کو چلانے کے لیے بہت ہی مفید اور کارآمد ثابت ہوئے انہوںنے اپنے کردار کی تحریکی خوبصورتی اور دیانتداری کے ساتھ اس ملک کی سیکولر انتظامیہ کی دن رات خدمت کی اور یہ سمجھتے رہے کہ اس کے نتیجے میں معاشرے سے بگاڑ اور ظلم ختم ہوجائے گا حالانکہ کہ یہ ظلم وجبر اس سرمایہ دارانہ اور سیکولر نظام کو تباہ وبرباد کیے بغیر ختم نہیں کیا جاسکتا۔

جب ہم پاکستان کی فوج کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں انتہاء کی بدترین صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستانی فوج اور  پولیس کا پورا ڈھانچہ وہی ہے جو انگریزوں نے مرتب کیا تھا بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پاکستانی فوج وہ بدترین ادارہ ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کے جبر کو قائم ودائم رکھے ہوئے ہے۔ یہ وہ ادارہ ہے جس کے ذریعے مسلمانوں کو مختلف ممالک میں مروانے کے لیے بھی اقوام متحدہ کی امن فوج کی شکل میں بھی دنیا بھر میں استعمال کیا جاتا رہا ہے پاکستانی فوج کی تاریخ بدترین واقعات اور لادینی کرتوتوں سے بھری پڑی ہے۔ سانحہ سقوط ڈھاکہ جس میں ٩٠ ہزار مسلمانوں سے گناہ عظیم کروایا گیا اور ایک ہندو اور بزدل فوج کے سامنے ہتھیار ڈالوا دئیے گئے۔ پاکستانی فوج کے جرنلوں کی تربیت اور تعلیم ہمیشہ امریکا اور  انگلستان کے ذریعے کنٹرول کروائی جاتی رہی اور ہمیشہ حکومتی معاملات میں فوج اپنی سیکولر فکر کے مطابق دخل اندازی کرتی رہی اور زیادہ تر حکومت فوج نے کی۔اسی طرح فوج کا تربیتی نظام پورا کا پورا لادینیت کا پرچار کرتا ہے حالانکہ اس کا موٹو ایمان، تقویٰ اور جہاد کا ذرا سا بھی شائبہ اس کے تربیتی نظام میں نظر نہیں آتا ہے بلکہ یہی پاکستانی فوج ہے جس نے امریکی اشارے پر مجاہدین کو پکڑ پکڑ کر امریکا کے حوالے کیا اور اس کے بدلے کروڑوں ڈالر کمائے جس کا برملا اظہار پرویزمشرف نے اپنی کتاب میں کیا اور وہ اس بات پر فخر کرتا ہے۔ یہی ہماری فوج ہے جو ہمیشہ عالمی تناظر میں کفر کی ایجنٹ کے طور پر کام کرتی رہی ہے۔ پھر یہی پاکستانی فوج ہے جس نے لال مسجد اور اس کے سینکڑوں طلبہ وطالبات کو اپنی گولیوں سے بھون ڈالا اور فاسفورس بموں سے جلا ڈالا اور اس کے بعد فتح کا جشن منایا۔ اور یہی پاکستانی فوج ہے جس نے ان امریکی حملوں کو اپنے سر لیا جس میں علاقہ جات کے پورے کے پورے مدرسے اور مسجد کو مسمار کر دیا گیا تاکہ امریکا کی مداخلت کو چھپایا جاسکے۔

شاید صرف ضیاء الحق کا وہ واحد دور ہے جس میں جذبہ جہاد اور شہادت کو پروان چڑھانے کی کوشش کی گئی اور جہاد افغانستان اور کشمیرمیں فوج کے مذہبی طبقے نے جہاد کے احیاء میں اہم کردار ادا کیا اس دور میں فوج نے پاکستان کو چھوٹے ہتھیاروں میں خودکفیل کرکے اپنے آپ کو امریکی بالادستی سے نکالنے کی کوشش کی۔ مگر اس کے بعد پرویزمشرف کی حکومت نے ان تمام کوششوں پر پانی پھیر دیا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ فوج کا پورا ڈھانچہ امریکی استعماریت کے لیے زیادہ موزوں ہے بنسبت اسلامی عصبیت کے۔

پارلیمنٹ تو خالصتاً پورا کا پورا سرمایہ دارانہ نظام ہے جو شریعت اسلامی سے کسی قسم کا تعلق نہیں رکھتا جو شریعت کے متوازن ایک دوسرا قانون سازی کا ادارہ ہے۔ اسلامی تاریخ میں کہیں بھی کسی پارلیمنٹ کا جواز نہیں ملتا۔ پارلیمنٹ کے حوالے سے ہم پچھلے لیکچرز میں تفصیلی گفتگو کر چکے ہیں۔ پاکستانی پارلیمنٹ بھی بالکل لادین اور سیکولر ممالک کی طرح سرمایہ دارانہ نظام مملکت ہی کو آگے بڑھانے اور عوام الناس کی خواہشوں کے مطابق قانون سازی کرتی رہی۔ اور اس نے پوری تاریخ میں کوئی ایسی قانون سازی نہیں کی جس کے ذریعے مقاصد شریعت اور اللہ کی بندگی کی طرف عوام الناس کو متوجہ کرایا جاسکے اور ان کے لیے ایسی قانون سازی نہیں کی جس کے ذریعے زیادہ سے زیادہ لوگ حصول جنت کی حرص اور طمع میں لگ سکیں۔ بلکہ ہر حکومت نے پارلیمنٹ کے ذریعے ایسے قوانین پاس کرائے جس کے ذریعے وہ زیادہ سے زیادہ اپنے مفادات کا تحفظ کرلے۔ اسی پارلیمنٹ کے ذریعے پورا مغربی نظام نافذ کیا جاتا رہا ہے۔ وفاقی بجٹ ہمیشہ IMF اور ورلڈبینک کے مشیروں کے ذریعے ہی مرتب ہوتا رہا ہے اسی طرح نام نہاد حقوق نسواں بل جو قرآن وحدیث کی حدوں کو معطل کرتا ہے اس کو منظور کروایا۔

٢٠٠٢ء سے ٢٠٠٧ء تک کے تجربات:

٢٠٠٢ء کے انتخابات پاکستان کی تاریخ کے وہ پہلے انتخابات ہیں جس میں مذہبی جماعتوں نے ایک پلیٹ فارم سے متحد ہوکر الیکشن میں شرکت کی، متحدہ مجلس عمل دراصل چھ جماعتوں کا اتحاد بنا جس میں دو مختلف نوعیت کی جماعتوں کا اتحاد ہوا۔

١۔ ایک وہ جماعت جو دستوری طور پر قائم ہے۔

٢۔ اور دوسری وہ جماعتیں جو پیری مریدی اور صوفیاء کرام اور اصلاحی جماعتوں کا تسلسل ہیں۔

وہ دستوری جماعت جس نے متحدہ مجلس عمل کو ایک مذہبی اور سیاسی اتحاد بنانے میں اہم کردار ادا کیا جماعت اسلامی ہے جو یہ سمجھتی ہے کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے۔

جماعت اسلامی پاکستان نے مارچ ١٩٤٩ء میں دستور ساز اسمبلی میں قرار داد مقاصد کے منظور کیے جانے کے بعد سیاسی تبدیلی کے لیے جمہوری ذرائع اور انتخابی راستے کو اختیار کیا اور وہ اس پر سختی سے قائم ہے لیکن جماعت اسلامی نے پہلے دن سے انتخابی عمل کے دستور اور قانون کے مطابق اور اس پورے عمل کو قواعد وضوابط اور انتظام کار کے اعتبار سے غیرجانبدار اور شفاف ہونے کو ضروری قرار دیا ہے۔ مگر اصلاً پوری دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ انتخابات کبھی بھی شفاف نہیں ہوسکتے اور ہر کہیں دھاندلی کی جاتی ہے اس کے باوجود جماعت اسلامی نے نظام کی تبدیلی کا انتخاب کے علاوہ کسی اور طریقہ کار پر سوچنے کی زحمت کبھی بھی گوارا نہیں کی اور ہمیشہ لادین طریقہ کار بائیکاٹ اور احتجاجی سیاست کے اندر رہتے ہوئے جدوجہد کی اور ہمیشہ اس سرمایہ دارانہ جمہوری ریاست کے اداروں کو اسلامیانے کی جدوجہد جاری رکھی اور اس سلسلے میں اپنے قیمتی کارکنان اس ریاست کے اداروں میں اصلاح کے لیے داخل کیے مگر وہ اس سرمایہ دارنہ ریاست کو ایک مخلص اور دیانتدارانہ ہیومن کیپٹل کے علاوہ کچھ نہ دے سکے۔ اس طرح جماعت اسلامی کے مرکزی ذمہ داران خالص یہودی ادارے بنک کو بھی اس نظریہ اسلامی ریاست کے تناظر میں اسلامی بینکنگ کے سرمایہ دارانہ کام کو آگے بڑھانے اور استحکام بخشنے میں معاون ومددگار بننے کے علاوہ اس کو اسلامی جواز دینے میں بھی ہمہ تن گوش مصروف عمل ہیں۔

جماعت اسلامی ریاست کے تینوں ستونوں کو اسلامی کرنے کی کوشش کرتی اور سمجھتی ہے کہ اس کافرانہ نظام میں رہتے ہوئے مقاصد شریعت حاصل کیے جاسکتے ہیں،جبکہ جماعت اسلامی وہ واحد جماعت ہے جو مکمل نظام کے بدلنے کا دعویٰ لے کر اٹھی تھی۔ مولانا مودودی فرماتے ہیں:

”نظام بدلنے کی یہ کوشش ہمیں صرف اس لیے نہیں کرنی چاہیے کہ دنیا کی خیرخواہی ہم سے اس کامطالبہ کرتی ہے۔ نہیں، ہم خود اپنے بھی سخت بدخواہ ہوں گے اگر اس سعی وجہد میں اپنی جان نہ لڑائیں کیونکہ جب اجتماعی زندگی کا سارا نظام فاسد اصولوں پر چل رہا ہو، جب باطل نظریات اور افکار ساری دنیا پر چھائے ہوئے ہوں، جب خیالات کو ڈھالنے اور اخلاق وسیرت کو بنانے کی عالمگیر طاقتوں پر فاسدنظام تعلیم، گمراہ کن ادبیات، فتنہ انگیز صحافت اور شیطنیت سے لبریز ریڈیو اور سینما، ٹی وی چینل اور کیبل کا تسلط ہو، جب رزق کے تمام وسائل پر ایک ایسے معاشی نظام کا قبضہ ہو جو حلال وحرام کی قید سے ناآشنا ہے۔ جب تمدن کی صورت گری کرنے اور اس کو ایک خاص راہ پر لے چلنے کی ساری طاقت ایسے قوانین اور ایسے قانون ساز مشینری کے ہاتھ میں ہو جو اخلاق وتمدن کے سراسر مادہ پرستانہ تصورات پر مبنی ہیں اور جب قوموں کی امامت اور انتظام دنیا کی پوری زمام کار ان لیڈروں اور حکمرانوں کے ہاتھ میں ہو جو خدا کے خوف سے خالی اور اس کی رضا سے بے نیاز اور اپنے کسی معاملے میں بھی یہ دریافت کرنے کی ضرورت نہیں سمجھتے کہ ان کے خالق کی ہدایت اس معاملے میں کیا ہے تو ایسے نظام کی ہمیشہ گرفت میں رہتے ہوئے ہم خود اپنے آپ کو اس کے برے اثرات اور بدترنتائج سے کب بچا سکتے ہیں۔

یہ نظام جس جہنم کی طرف لے جارہا ہے اسی طرف وہ دنیا کے ساتھ ہمیں بھی گھسیٹے لے جارہا ہے۔ اگر ہم اس کی مزاحمت نہ کریں اور اس کو بدلنے کی کوشش میں ایڑی چوٹی کا زور نہ لگائیں تو یہ ہماری آیندہ نسلوں کی دنیا خراب اور آخرت خراب تر کرکے چھوڑے گا۔ لہٰذا محض دنیا کی اصلاح ہی کے لیے نہیں بلکہ خود اپنے بچاؤ کے لیے بھی یہ فرض ہم پر عائد ہوتا ہے اور یہ سب فرضوں سے بڑا فرض ہے کہ ہم جس نظام زندگی کو پوری بصیرت کے ساتھ فاسد ومہلک جانتے ہیں اسے بدلنے کی سعی کریں اور جس نظام کے برحق اور واحد ذریعہ فلاح ونجات ہونے پر ایمان رکھتے ہیں اسے عملاً قائم کرنے کی جدوجہد کریں۔”

جماعت اسلامی کی اس فکر نے متحدہ مجلس عمل کی صورت میں تمام مذہبی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر منعظم کیا تاکہ اس فاسدانہ نظام کی تبدیلی ممکن بنائی جائے۔ مگر مجلس عمل کی دیگر جماعتیں خالص تحفظ دین کی جماعتیں ہیں جو مدارس اور خانقاہوں کے ذریعے تحفظ دین اور فرد کی اصلاح کا کام بخیر وخوبی انجام دے رہی ہیں اور ان جماعتوں کو اس کافرانہ ریاست کی یہ اجازت کافی معلوم ہوتی ہے کہ ریاست ان کے کام میں مداخلت نہ کرے اور یہ لوگ ریاستی امور سے پہلوتہی رکھیں۔ بلکہ وہ انتخابات میںکامیابی کے بعد اپنے کام کو آگے بڑھانے اور اپنے مفادات کا تحفظ کرنے میں زیادہ حد تک کامیاب ہوجاتے ہیں اور وہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے جہاد فی سبیل اللہ جیسے عظیم کام سے بھی پہلوتہی کر جاتے ہیں۔

ان دونوں قسم کی جماعتوں نے ٢٠٠٢ء کے انتخابات میں متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے حصہ لیا اور غیرمتوقع کامیابی حاصل کی اور خاص طور پر سرحد اور بلوچستان میں حکومت بنانے میں اہم وزارتیں بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اس طرح سندھ اور پنجاب میں بھی بہت سی سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔

قاضی حسین احمد امیرجماعت اسلامی مجلس عمل کے قیام کے بعد فرماتے ہیں اس اتحاد کا قائم رکھنا اسے مضبوط بنانا اور آپس میں ہم آہنگی پیدا کرنا ہماری ترجیح اول ہے اب تک جماعت کی ہر سطح کی قیادت اور ارکان نے جس حکمت اور صبر وتحمل سے کام لیا وہ لائق تحسین ہے۔ مجلس عمل کا بنیادی مقصد اعلائے کلمة اللہ اور اقامت دین ہے ہم اس کے ذریعے سے اختلافات سے بالاتر ہوکر مشترکات پر اکٹھے ہوئے ہیں۔ (حکمت عملی کا تسلسل صفحہ ٢١٨۔٢١٩)

مگر متحدہ مجلس عمل کے پاس کوئی بھی ایسا منصوبہ عمل نہ تھا کہ الیکشن میں کامیابی کے بعد اس منصوبے پر عمل پیرا ہوکر اعلائے کلمة اللہ اور اقامت دین کے کام کو منظم اور مربوط کیا جاسکے اور قوت اور اقتدار اسلامی اداروں یعنی مساجد اور مدارس کی طرف منتقل کیا جاسکے اس کے الرغم مجلس عمل کے مرکزی ذمہ داران وزارت عظمیٰ کے خواب دیکھنے لگے اور پیپلزپارٹی سے اتحاد نواب زادہ نصراللہ اور بے نظیر سے روابط بڑھانے لگے اور پھر جب وزارت عظمیٰ نہ مل سکی تو اپوزیشن لیڈر کا مراعت یافتہ عہدے پر براجمان ہوگئے۔

کارکردگی:

متحدہ مجلس عمل کی کارکردگی کا جب جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں بہت ہی افسوس ناک صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پوری مجلس عمل کا کوئی ایسا کام بھی نظر نہیں آتا جو اس کے قیام کے اصل مقصد اعلائے کلمة اللہ اور اقامت دین سے ہم آہنگ اور شریعت کے نفاذ کا عملی نمونہ ہو بلکہ مجلس عمل اس سرمایہ دارانہ نظام کو آگے بڑھانے اور اس کافرانہ نظام کی دیانتدارانہ خدمت کو ہی اصل کام سمجھتی رہی اور اس طرح Progress اور Development ہی میں اپنی توانائیاں خرچ کرتی رہی۔

سرحد حکومت مکمل طور پر متحدہ مجلس عمل کے پاس رہی۔ مگر کوئی ایک کام بھی ایسا نہیں سوائے حسبہ بل کی منظوری کے جو شریعت کے نفاذ کی طرف پیش قدمی کہا جاسکے اور اس حسبہ بل کو بھی Implement نہیں کروایا جاسکتا۔

سرحد حکومت کی وزارت مالیات نے اسی طرح سود کو جاری وساری رکھا۔ IMF اور ورلڈبینک سے اسی طرح قرض لیتے اور دیتے رہے جس طرح سیکولر اور لادین حکومتیں کرتی ہیں اور اسی طرح IMF اور ورلڈبینک کی پالیسیاں جاری وساری رکھیں۔ بلکہ انتہائی خلوص اور دیانتداری کے ساتھ جس کی تعریف خود ورلڈبینک اور IMF نے کی۔

خاندانی منصوبہ بندی کے گمراہ اور لادین ادارے کو بھی اسی طرح جاری رکھا۔حکومتی اداروں میں بھی دیگر لادین جماعتوں کی طرح اپنے لوگوں کو بھرتی کروایا مجاہدین کی جدوجہد کی برکت کے نتیجے میں MMA کو اس قدر کامیابی ملی اور اس نے پھربھی مجاہدین اسلام کو کوئی سپورٹ فراہم نہ کی بلکہ وفاقی حکومت نے جو مجاہدین کے خلاف کارروائی کی ان کو بھی خاموشی سے برداشت کیا۔ مجلس عمل کی حکومت کے دوران کئی مدارس اور مساجد کو شہید کر دیا گیا مگر مجلس عمل صرف احتجاج کے علاوہ کچھ بھی نہ کرسکی۔ اصل حکومت چیف سیکریٹری نے کی اور ہمارے ارکان صرف مفادات سمیٹنے میں مصروف رہے۔ بلوچستان میں تو متحدہ مجلس عمل ق لیگ کے ساتھ حکومت میں شریک رہی اور مستقل حکومت ہی کی ایجنٹ کے طور پر کام کرتی رہی اور مفادات سمیٹتی رہی۔ بلکہ ایک طرح حکومت میں ہی ضم ہوکر رہ گئی یہاں تک کہ متحدہ مجلس عمل کی مرکزی قیادت کی پالیسیوں سے بھی سہو نظر کیا۔

اسی طرح سندھ اور پنجاب میں متحدہ مجلس عمل دیگر لادین جماعتوں کے ساتھ مل کر احتجاجی سیاست کرتی رہی۔ سندھ میں پیپلزپارٹی کے ساتھ اتحاد کیا۔ کراچی کی شہری حکومت متحدہ مجلس عمل کی جماعت ہی کے پاس تھی مگر اس نے بھی وہی مغربی نظام کی طرح عوام کے دنیاوی فلاح کے کام کو آگے بڑھایا اور معاشرتی ترقی کے لیے سودی معیشت ہی کو اپنا ذریعہ بنایا اور پورے شہر میں پارکوں کو مخلوط اجتماعیت کے لیے مزین کیا۔

متحدہ مجلس عمل کے قومی اسمبلی کے ساتھ ارکان کی موجودگی میں وہ خلاف شریعت حدود آرڈیننس بل منظور کروایا گیا جس کے ذریعے فحاشی اور عریانی کو قانونی جواز مہیا کیا گیااور مجلس عمل کے ارکان محض احتجاج کرتے رہ گئے۔ بلکہ کچھ افراد نے تو احتجاج کی زحمت بھی گوارا نہیں کی۔

اسلام آباد میں لال مسجد کا واقعہ بھی متحدہ مجلس عمل کی موجودگی میں رونما ہوا جس پر متحدہ مجلس عمل نے کوئی بھی مربوط، منظم اور اصولی موقف نہیں اپنایا۔ بلکہ مجاہدین لال مسجد کو تنہا کردیا۔ بلکہ ان پر حکومتی ایجنٹ، ایجنسیوں کے ایجنٹ ہونے کا بھی الزام لگاکر لندن میں ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کے لیے چلے گئے جو کہ خالص لادین افراد کی کانفرنس تھی جس کا حاصل کچھ بھی نہ ہوا۔

اسی طرح وکلاء کی تحریک میں بھی متحدہ مجلس عمل کود پڑی اور وہ بھی صرف اس فاسدانہ اور کافرانہ نظام کو بچانے اور اسے منظم انداز میں چلانے کے ایشو کے ساتھ اور اپنے اعلائے کلمة اللہ اور غلبہ دین کے کام کو چھوڑے رکھا۔ وکلاء کی بحالی تحریک میں شامل ہونے کی وجہ سے متحدہ مجلس عمل بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی۔

آخری بات یہ ہے کہ متحدہ مجلس عمل اگر پورے ملک میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائے تو وہ ترکی کی جسٹس پارٹی کی طرح کی حکومت بنائے گی اور اس سرمایہ دارانہ کافر اور فاسق نظام ہی کو جاری وساری رکھے گی۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہماری قیادت کو دین کا فہم اور فراست عطا فرمائے اور اس کی قیادت کو بے ڈر اور مجاہدانہ طرز عمل اختیار کرنے کی طاقت عطا فرمائے۔ مجاہدین اسلام کا وکیل اور معاون ومددگار بنائے جو اس کافرانہ اور فاسقانہ نظام کو تباہ وبرباد کرنے میں ہمہ تن گوش مصروف عمل ہیں۔ آمین

جماعت اسلامی کی جمہوریت مخالف جدوجہد برائے ٢٠٠٨ء تا٢٠١٢ئ

جاوید اکبرانصاری

ایک کارکن کی تجاویز:

١۔ جماعت اسلامی سے ہی گزارشات کیوں

٭ جماعت اسلامی کسی دوسری راسخ العقیدہ اسلامی جماعت سے کسی معنی میں برتر نہیں۔

٭ لیکن تحریک تحفظ اور غلبہ دین میں جماعت اسلامی کی ایک مخصوص ذمہ داری ہے۔

٭ وہ تمام تحریکات اسلامی میں اس نوعیت کا رابطہ وتعاون پیدا کرنے کی ذمہ دار ہے جس کے نتیجے میں انقلاب اسلامی (یعنی تمام سنتوں کا احیاء اور قرون اولیٰ کی طرف مسلسل مراجعت) ممکن ہو۔

٭ برصغیر میں جماعت اسلامی تحریکات اسلامی میں رابطہ پیدا کرنے والی جماعت ہے۔ ایک ایسا رابطہ جو ان کو باہم مربوط کردے اور ان میں کافر نظام زندگی کو یکسر اکھاڑ پھینکنے کی استطاعت پیدا کرے۔

٭ جماعت اسلامی کا کارکن اس کام کو اصولاً ممکن بھی سمجھتا ہے اور اس کے کرنے کا عزم بھی رکھتا ہے۔ کسی دوسری اسلامی جماعت کا کارکن اس کام کے لیے تیار نہیں ہے۔

٭ جماعت اسلامی کا اپنا کوئی منفرد فقہی مسلک نہیں۔ مولانا مودودی  فقیہہ نہیں متکلم اسلام تھے، جماعت اسلامی، بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث، اثناء عشری کو یکساں عزت اور احترام سے دیکھتی ہے اور اس کے کارکن مختلف فقہی مسالک سے بدستور منسلک رہتے ہیں۔

٭ چونکہ جماعت اسلامی وہ واحد جماعت ہے جو اصولاً اس بات کی قائل ہے کہ موجودہ نظام کو کلیتاً جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے، لہٰذا وہ اس نظام کے سرغنہ یعنی امریکا سے ازم گاہ حیات کے ہر مورچہ پر مسلسل چومکھی لڑائی لڑنے پر مجبور ہے کوئی دوسری جماعت اس نوعیت کے مسلسل اور ہمہ گیر تصادم پر مجبور نہیں، میری رائے میں دیگر تمام اسلامی جماعتیں بشمول مجاہدین امریکہ سے کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر سمجھوتا کرسکتی ہیں، جماعت اسلامی یہ نہیں کرسکتی۔

٭ لہٰذا امریکی حکمت عملی میں پاکستان میں جماعت اسلامی کو ایک عام سیاسی جماعت بنا دینا اور اور اس کو ترکی کی جسٹس اینڈڈویلپمنٹ پارٹی کی طرح جمہوری نظام میں سمو دینا ایک اہم ہدف ہے اور آئندہ پانچ سال میں استعماری قوتیں بالخصوص سعودی عرب اس ہدف کو حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کرے گا۔

تجاویز کی نوعیت:

یہ تجاویز جماعت اسلامی کا ایک ایسا عام کارکن پیش کر رہا ہے جو علوم دینیہ سے قطعاً بے بہرہ ہے۔ مغربی فکر وار سرمایہ دارانہ منہج سے بھی اس کی واقفیت نہایت سطحی اور نامکمل ہے۔ اس کا عمل بھی نہایت مجہول اور قلبی کیفیات بھی نہایت پراگندہ ہیں۔ وہ یہ تجاویز پیش کرنے کی جسارت اس بنیاد پر کر رہا ہے کہ اپنی تمام ترکمزوریوں کے باوجود وہ جماعت اسلامی سے شدید محبت کرتا ہے اور جماعت اسلامی سے اپنی ٤٥سالہ وابستگی کو اپنا واحد سرمایہ آخرت سمجھتا ہے۔

٭لہٰذا تجاویز بالکل ابتدائی نوعیت کی اور خام ہیں۔ یہ محض بحث اور تنقید، اصلاح، ترمیم اور تنسیخ کے لیے علماء اور جماعت اسلامی کے کارکنوں کی خدمت میں پیش کی جارہی ہیں۔

٭تمام تجاویز فی الفور قابل عمل ہیں، جماعت اپنی تاریخ کی قیدی نہیں (گوکہ تاریخ رفتار اور انداز تعمیر کار پر جزواً اثرانداز ہوسکتی ہے) اس کی وجہ یہ ہے کہ جماعت کی قیادت اور ارکان امت کے مخلص ترین افراد میں شامل ہیں۔ وہ آخرت سنوارنے کے لیے جماعت اسلامی میں شامل ہوئے ہیں۔ ان کی کوئی دنیاوی غرض نہیں۔ اگر وہ تحفظ وغلبہ دین کے لیے کسی حکمت عملی کی افادیت کے قائل ہوجائیں تو دنیاوی اغراض ان کو اس حکمت عملی کی افادیت کو اپنانے سے نہیں روکے گی۔

اس طرح ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ جماعت اسلامی محض مولانا مودودی کی فکر کی غماز جماعت نہیں۔ یہ اس عظیم الشان لشکرجرار کا ہراول دستہ ہے جس کو سب سے پہلے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے منظم فرمایا۔ جماعت اسلامی اس بات کی مکمل استطاعت رکھتی ہے کہ وہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی، شاہ ولی اللہ، حضرت امداد اللہ مہاجر مکی، شیخ الہند حضرت محمود الحسن، امیرشریعت عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہم اللہ کی تعلیمات سے بھرپور استفادہ کرے۔

دیگر اسلامی جماعتیں بالخصوص تحریک احرار، تنظیم اسلامی، جمعیت علمائے پاکستان، بریلوی مشائخ کے حلقے اور دعوت اسلامی ان تجاویز کی بنیاد پر مجوزہ حکمت عملی اپنانے میں جماعت اسلامی کی مدد بھی کرسکتی ہے اور کم از کم جزواً ان تجاویز کو خود بھی اپنا سکتی ہیں۔

تجاویز کو اپنانے کا مقصد:

ان تجاویز پر عمل کرکے جماعت اسلامی اسلامی انقلاب برپا کرنے کی صلاحیت بتدریج حاصل کرے گی۔ جیسا کہ ہم نے پچھلے سیمیناروں میں واضح کیا اسلامی انقلاب برپا کرنے کی صلاحیت کا حصول  ١۔ اسلامی شخصیت   ٢۔ اسلامی معاشرت  ٣۔ اسلامی ریاست کے قیام کی استعداد پر منحصر ہے۔ لہٰذا درج ذیل تجاویز جماعت اسلامی کے ذریعے اسلامی شخصیت، معاشرت اور ریاستی نظام کے تعمیر وغلبہ کو ممکن بنانے کے لیے پیش کی گئی ہیں۔

اسلامی انقلابی شخصیت:

جماعت اسلامی میں ایسا نظام تربیت قائم کیا جائے جس کے نتیجے میں پہلے ہر کل وقتی رکن اور پھر تمام ارکان کسی نہ کسی ایسے حلقہ ارشاد سے وابستہ ہوں جن کا تعلق چشتیہ، نقش بندیہ یا قادری سلسلوں سے ہو۔ روحانی تربیت کا یہ نظام مرکزی طور پر مرتب کیا جائے اور فکری اور عقلی تربیت کا متبادل نہ سمجھا جائے اور یہ رائے صراحتاً ترک کی جائے کہ فکری اور معاشرتی activeeroum کے نتیجے میں automaticolly (خود بخود) قلب کی تطہیر ہوجاتی ہے۔ روحانی تربیت کا نظام رکن جماعت کی پوری زندگی پر محیط ہو اور ان اشغال اور اعمال پر خاص طور پر زور دیا جائے، جو ارکان میں درویشانہ ذوق پیدا کرتی ہیں اور جو حب جاہ کو ختم کرتی ہیں۔ جماعت کے ارکان میں درویشانہ طرززندگی کو اپنانے کی خاص کوشش نظم ارشاد کو کرنی چاہیے۔

اس نظم ارشاد کے قیام کی ذمہ داری ان صوفی بزرگوں کو سونپی جائے جو جماعت سے وابستہ ہیں۔ پنجاب اور سرحد (اور شاید اندرون سندھ) میں یہ بزرگ موجود ہیں لیکن ان کی تعداد نہایت قلیل ہے۔ لہٰذا ان کا پہلا کام دیگر اولیاء اللہ سے روابط پید اکرنا، ان کے حلقہ ہائے ارشاد میں جماعت کے ارکان کو سمونا اور ان صوفیاء کو جماعت کی فکر اور نظم سے متعارف اور  (ان شاء اللہ) منسلک کرنا ہونا چاہیے۔

اسی طرح جماعت کے ارکان میں علوم دینیہ کے فروغ کا انتظام باضابطہ ہونا چاہیے۔ جماعت کے ہر رکن بالخصوص کل وقتی رکن کے لیے مدارس دینیہ سے ایک خصوصی سند حاصل کرنا لازم کیا جائے جو علماء خاص طو رپر ارکان کے لیے مرتب فرمائیں۔ تنظیم اسلامی نے اس ضمن میں گراں قدر کام کیا ہے اور ابتداء جماعت کے ارکان کو تنظیم اسلامی کے جزوقتی اور کل وقتی کورسز میں لازماً شریک ہونا چاہیے۔ دیوبندی اور اہل حدیث مدارس سے استفادہ کرکے جماعت اسلامی میںشامل علماء تنظیم اسلامی کے ان کورسز کی اس طرح تنظیم نو کرسکتے ہیں کہ وہ جماعت کے ارکان میں بتدریج علوم دینیہ کے فروغ کا ذریعہ بنیں۔

چونکہ جماعت اسلامی استعمار سے براہ راست نبردآزما ہے اس لیے اس کے کارکنوں کے لیے ضروری ہے کہ مغربی فکر سے واقف رہیں۔ مغربی فکر کی اساس اور مغربی تہذیب کے بنیادی عقائد اس کے فلسفہ سے ماخوذ ہیں اور اصولاً اور عملاً مغرب میں عیسائیت کی جگہ فلسفے نے لی ہے۔ دورِحاضر کے مغربی فلسفہ کے بنیادی مباحث سے درساً درساً واقف ہونا جماعت اسلامی کے رکن کے لیے ناگزیر ہے۔ اس طرح سرمایہ دارانہ معاشرتی اور ریاستی صف بندی کے بنیادی اصولوں اور عملی اشکال سے واقف ہونا بھی ضروری ہے کیونکہ پاکستان میں رائج شدہ نظام معاشرت اور ترتیب اقتدار ان ہی اصولوں پر مرتب ہے۔ لہٰذا جماعت اسلامی سے وابستہ تحقیقی اداروں کو ایک نصاب مرتب کرنا چاہیے جو ہر رکن میں مغربی فکری مباحث اور معاشرتی اور ریاستی اصول کار کی فہم پید اکرسکے۔ ایرانی یونیورسٹیوں اور شیعہ مدارس نے ایران میں اسلامی حکومت کے قیام کے بعد اس ضمن میں کچھ ابتدائی کام کیا ہے جس سے ہم کو مستفید ہونا چاہیے۔

جماعت اسلامی کے ہر رکن کو ایک ایسا شخص بنانا جو شرعی اصولوں کے مطابق اہل الرائے اور ارباب حل وعقد کا ایک جائز شریک کار بن سکے یہ ہماری اہم ترین ضرورت ہے۔

ہمیں تنظیمی اقدام کے ذریعہ ٢٠١٣ تک کم از کم جماعت اسلامی کے ہر کل وقتی رکن کو

٭ صوفیاء کے کسی راسخ العقیدہ سلسلہ قادریہ، چشتیہ، نقشبندیہ وغیرہ کا مرشد بننے کے قابل کرنا ہے تاکہ اپنے سلسلہ کے اصولوں کے مطابق بیعت لینے کا مجاز قرار پائے۔

٭ اتنا علم فقہ حاصل ہوکہ وہ شرع کے اصولوں کے مطابق فتویٰ دینے کا اہل مانا جائے۔

٭ مغربی فکر سے اتنا واقف ہوکہ جماعت کی ریاستی اور معاشرتی حکمت عملی اس طرح مرتب کرنے کا مجاز (اور اہل) ہوکہ اس حکمت عملی کے نفاذ کے ذریعے مقاصد شریعت حاصل ہوں۔

تمام ارکان، کارکنان اور متفتین جماعت انہی کل وقتی ارکان کے حلقہ ہائے ارادت میں منظم ہوں کیونکہ یہ ہی جماعت کے شیوخ، مفتی اور اہل الرائے (لہٰذا ارباب حل وعقد) ہوںگے۔ یہی لوگ حکم لگانے اور اس کے نفاذ کے ذمہ دار ہوں۔ کوئی شخص جو اس نظام روحانی، دینی اور عصری تربیت سے نہ گزرا ہو جماعت اسلامی کی پالیسی سازی اور اس پالیسی کی تنظیمی شکل متعین کرنے میں کوئی حصہ نہ لے۔ جماعت کی پالیسی سازی میں بیرونی اور اندرونی پروفیشنلز کا رول یکسر ختم کردیا جائے۔ ان پروفیشنلز نے جماعت کو موجودہ سرمایہ دارانہ نظام میں سمونے میں اہم کردار اد اکیا ہے۔ یہ پروفیشنلز سرمایہ دارانہ جمہوری نظام کو فطری اور معقول سمجھتے ہیں۔ یہ اس نظام کو جواز فراہم کرنے والی سوشل سائنسز بالخصوص اکنامکس، جوروسپروڈنس سائیکالوجی اور فزیکل سائنسز کو غیراقداری (Value Neutral) گردانتے ہیں۔ ان کے خیال میں یہ تمام سائنسز جہل مطلق نہیں بلکہ معروضی علمیت کی غماز ہیں۔ لہٰذا جو نظامِ زندگی یعنی سرمایہ داری ان سائنسز کی فراہم کردہ نظریاتی بنیادوں پر قائم ہے معقول اور معتبر ہے۔ اس میں اصلاح کی گنجائش تو ہے لیکن اس کا انہدام (Transcendence) غیرمعقول اور عملاً ناممکن ہے۔

جماعت اسلامی کے پالیسی ساز اداروں میں ان پروفیشنلز کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ کے نتیجہ میں جماعت کا بین الاقوامی کام سعودی استعمار کا آلۂ کار بن کر رہ گیا ہے۔ یہ پروفیشنلز اسلامی انقلاب کو عملاً ناممکن سمجھتے ہیں۔ ان میں سے اکثر نے سرمایہ دارانہ طرز زندگی اور معاشرت اختیار کرلیا ہے اور یہ جماعت اسلامی کے کام کو سرمایہ دارانہ معاشرت میں سمونے کا علمی اور عملی جواز پیش کرتے ہیں۔

اسلامی انقلابی معاشرتی صف بندی:

اسلامی انقلابی معاشرتی صف بندی کا مقصد سرمایہ دارانہ معاشرت کو تباہ کرنا اور روزمرہ زندگی کے اس تعلقاتی نظام کی طرف مستقل مراجعت ہے جو قرونِ اولیٰ میں موجود تھا۔جیسا کہ تحریک لال مسجد کی عظیم الشان کامیابی نے ثابت کردیا کہ اسلامی انقلابی معاشرتی صف بندی کے کام کی ابتداء مسجد کی معاشرتی مرکزیت کی بحالی سے ہوتی ہے۔ چنانچہ

٭٢٠٠٨ء تا٢٠١٣ ء کے دور میں جماعت اسلامی کے تمام مرکزی، ضلعی علاقائی اور مقامی دفاتر کسی نہ کسی مسجد میں منتقل کر دیے جائیں یا ان سے ملحقہ مساجد ہوں (یہ ایسا ہی ہے جیسے اسکولوں کے نصاب میں اسلامیات کا پیریڈ) ضرورت اس بات کی ہے کہ جماعت کا دفتر مسجد میں ہو اور ضلع کا جماعتی ایریا ناظم امام مسجد ہو۔ مسجد کے معاشرتی اثر ورسوخ ونفوذ کو فروغ دینا امیرجماعت کی اہم ترین ذمہ داری ہو جماعت اسلامی کی مقامی، ضلعی اور قومی حکمت عملی بین المساجد اشتراک اور اقدام کی شکل اختیار کرلے۔ یہ مساجد جماعت اسلامی کا بنیادی تنظیمی یونٹ ہوں اور ان ہی یونٹوں کے کام کی تطبیق سے جماعت کی ملکی حکمت عملی ترتیب دی جائے۔ جماعت اسلامی کے تنظیمی ڈھانچہ کو ”مسجد یانے” کا یہ کام پورے ملک میں ٢٠١٣ء تک مکمل کرلیا جائے۔

٭ جماعت اسلامی کے زیراثر ہر مسجد تبلیغی جماعت اور دعوت اسلامی کے بیس  کیمپ (Base Camp) کی حیثیت اختیار کرے۔ بلاشبہ عوام میں اسلامی دعوت پہنچانے کا ایک صحیح طریقہ وہ ہے جو دعوت اسلامی اور تبلیغی جماعت اپنائے ہوئے ہیں اس کے مقابلے میں جماعت اسلامی جو طریقہ اپنائے ہوئے ہے غیرمؤثر اور غیرمفید ثابت ہوچکا ہے اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔ ایک یہ کہ جماعت اسلامی کی بنیادی دعوت منطقی ہوتی ہے، جذباتی نہیں۔ لہٰذا عوام اس سے متاثر نہیں ہوتے۔ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق کو فروغ دینے کا کہیں زیادہ موثر طریقہ تبلیغی جماعت اور دعوت اسلامی کا ہے۔ دعوت اسلامی اور تبلیغی جماعت عوام کو کھینچ کھینچ کر مسجد میں لاسکتے ہیں۔ علمائ، صوفیائ، انقلابیوں اور مجاہدین کا کام اس کے بعد شروع ہوتا ہے کہ وہ عوام کی روحانی، علمی، فکری اور سیاسی ادارتی صف بندی کو ممکن بنائیں۔

جماعت اسلامی کے دعوتی کام کی دوسری بنیادی کمزوری یہ ہے کہ یہ یاتو بالکل انفرادی ہے (تبلیغی جماعت اور دعوتِ اسلامی کے کام کی طرح گروہی بنیادوں پر منظم نہیں) یا پھر اس کا مرکزی فوکس لوگوں کو اپنے حقوق کے حصول کے لیے متحرک (Mobalize) کرنا ہے اور حقوق کی طلب کی بنیاد پر نہ تو اسلامی انفرادیت فروغ پا سکتی ہے اور نہ اسلامی اجماعیت۔ لہٰذا جماعت اسلامی کو اپنے بنیادی دعوتی کام کو تبلیغی جماعت اور دعوت اسلامی کے کام میں ضم کر دینا چاہیے  اور اپنے نظریات اور تبلیغی جماعت ودعوت اسلامی کے نظریات میں تطبیق پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔ جماعت کو اس بات کا انتظام کرنا چاہیے کہ اس کا ہر کارکن دعوتِ اسلامی اور تبلیغی جماعت کے کام میں بھرپور طریقہ سے حصہ لے۔ چونکہ جماعت اسلامی ایک رابطہ کی جماعت ہے لہٰذا س کے اصل مخاطب عوام نہیں بلکہ دوسری اسلامی جماعتوں کے کارکن ہیں۔ عوامی رابطہ کا کام جماعت اسلامی کا کام نہیں یہ تبلیغی جماعت اور دعوتِ اسلامی کا کام ہے اور ہمارا کام وہاں سے شروع ہوتا ہے جہاں ان دونوں جماعتوں کا کام ختم ہوجاتا ہے۔

دعوت اسلامی کا نہایت گراں قدر کام عوامی زندگی میں اسلامی رسوم ورواج کے فروغ کے لیے بھی جماعت اسلامی کی مساجد ایک مرکزیت فراہم کرسکتی ہے۔ آج سرمایہ دارانہ تہذیب نے پوسٹ مارڈنسٹ (Post Modemist) شکل اختیار کرلی ہے اور پورسٹ مارڈنسٹ تمدن دماغ سے زیادہ دل اور عقل سے زیادہ جذبات پر حملہ آور ہے۔ آج اسلامی تمدن اور ثقافت کا احیاء انٹرٹینمنٹ (Intertainment Industry) کو شکست دینے کا ایک موثر ذریعہ ثابت ہوسکتا ہے۔ صوفیاء کرام نے مقامی کلچر اور روایات کو اسلامی تہذیبی ڈھانچہ میں سمونے کی سعی وتبلیغ پورے برصغیر میں فرمائی اس کو دورحاضر کے چیلنجوں کے مطابق ازسرنو مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میں دو پہلو اہم ہیں اور دونوں کے لحاظ سے جماعت کی مساجد بریلوی علماء اور صوفیاء کرام کی قیادت میں اپنا رول ادا کرسکتی ہیں۔

پہلا کام اسلامی رسوم ورواج سے بدعات رذیلہ کا اخراج ہے۔ اعلیٰ حضرت احمد رضاخان بریلوی کی ملفوظات سے اس ضمن میں گراں قدر رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے اور اگر رسوم ورواج ( بالخصوص سماع) کو مسجد کے احاطہ میں لے آیا جائے تو یہ کام آسان ہوجائے گا۔

دوسرا کام مقامی زبانوں میں پائے جانے والے ادب کی اسلامی شناخت کو اجاگر کرنا ہے۔ سندھی، پنجابی، پشتو وار براہوی ادب صوفیائے کرام کا فیض ہے۔ آج قوم پرست جو ملک میں ہمارے سب سے بڑے اور کٹر حریفوں میں شامل ہیں مقامی ادبی روایات اور تہذیب کو مسخ کرکے قوم پرستی کو فروغ دے رہے ہیں۔

جماعت کی ہر مسجد میں مقامی زبانوں اور مقامی تہذیبی روایات کے فروغ کا انتظام مستقلاً کیا جائے۔ فیصلے ہمیشہ مقامی زبانوں میں ہوں اور تمام اجتماعات اور انتظامی امور میں مقامی رنگ غالب رہے۔

٭ معاشرتی سطح پر مسجد کے اثر ونفوذ کا ایک اہم ذریعہ محلہ کی سطح پر مناسب شادی بیاہ کے انتظامات کا فروغ ہوسکتا ہے۔ جماعت کی ہر مسجد میں مناسب رشتوں کی تلاش اور شادیوں کا انتظام کیا جائے۔ تمام مستقل باجماعت نمازیوں کے خانگی کوائف مرتب ہوں اور ان میں رابطہ استوار کرکے کوشش کی جائے کہ محلہ کی کوئی بھی ٢٥ پچیس سال سے زیادہ عمر کی خاتون مناسب رشتہ سے محروم نہ رہے۔ اس ضمن میں شہری، ضلعی بین المساجد تعاون بھی ایک اہم رول ادا کرسکتا ہے۔

٭ اسی طرح مقامی مدارس کے تعاون سے جماعت اسلامی کی ہر مسجد میں ایک دارالافتاء اور محکمہ قضا قائم ہو جو مقامی آبادی کی دینی رہنمائی کرے۔ ان کے جھگڑے چکائے اور ان کو سیکولر عدلیہ اور پولیس کی وسعت برد سے محفوظ رکھے۔ لال مسجد کے عظیم الشان کامیاب تجربیے نے یہ ثابت کردیا کہ مسجد میں قائم افتاء اور قضا کا انتظام محلہ اور بازار پر مسجد کے اثرونفوذ کو قائم کرنے اور فروغ دینے کا ایک نہایت مؤثر طریقہ ہے۔

٭ جماعت اسلامی کے کاموں میں ایک اہم کام علاقہ میں حلال رزق کے ذرائع کا فروغ بھی ہونا چاہیے۔ا س ضمن میں حزب اللہ کی تحریک اور جماعت اسلامی ہند کے گراں قدر تجربات سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں ٨٠ اسی فیصد سے زائد کاروبار حلال ہیں ان معنوں میں کہ ان کا سود اور سٹہ کے بازار کے لین دین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ١٦سولہ کروڑ کی آبادی والے ملک میں بینکوں میں اکاؤنٹ رکھنے والے افراد تقریباً ڈیڑھ کروڑ ہیں یعنی پاکستان کی آبادی کا نوے فیصد حصہ کبھی کسی بینک کا دروازہ نہیں کھٹکھٹاتا۔ سٹہ کے بازار میں شامل افراد کی تعداد تو ملک کی مجموعی آبادی کا صفر اعشاریہ ایک فی صد بھی نہیں۔ ان حالات میں نہایت آسان ہے کہ مساجد کے ذریعے بچت کی رقوم جمع کرکے مشارکہ اور مضاربہ معاہدوں کے ذریعہ کارکنوں کے حلال کاروبار میں لگائی جائیں۔ جناب یونس قادری اس نوعیت کی اسکیموں کی تفصیل کئی بار جماعت کی قیادت کے سامنے پیش کرچکے ہیں۔ جماعت کی مساجد کو اس نوعیت کا کام محلہ اور بازار کی سطح پر فروغ دینے کا مستقل انتظام اور اس کے لیے مستقل نظم قائم کرنا چاہیے۔ معاشرتی ادارتی صف بندی کے اس کام کا بنیادی اصول یہ ہو کہ جماعت سب سے پہلے اپنے ارکان اور کارکنوں کی (مالی) حالت بہتر بنانے کی سعی کرے۔ پھر دوسری اسلامی تحریکات کے کارکنوں کو اس نظم سے منسلک ومتعلق کرنے کی سعی کی جائے اس طرح کہ جماعت کے کام اور دیگر اسلامی جماعتوں اور حلقوں کے کام میں تطبیق پید اہو۔ جماعت چونکہ ایک رابطہ کی جماعت ہے لہٰذا وہ عوام کو براہ ِ راست مخاطب یا منظم نہ کرے وہ عوام تک رسائی دوسری اسلامی جماعتوں کے توسط سے حاصل کرے۔

اسلامی انقلابی ریاستی صف بندی:

قیام پاکستان کے بعد سے جماعت اسلامی نے سب سے زیادہ توجہ ریاستی سطح پر دی ہے، لیکن دانستہ اس نے انقلابی اسلامی صف بندی کی کوئی سعی نہ کی اور جو انقلابی صف بندی وقوع پذیر ہوئی اسے یا تو مجہول کردیا (تحریک نظام مصطفی کے دور کی صف بندی) یا اس سے لاتعلق رہی (تحریک طالبان عالی شان اور عظیم الشان تحریک لال مسجد) اسلامی انقلاب ایران کے بارے میں بھی جماعت اسلامی کبھی یکسو نہ ہوسکی اور انقلابات سوڈان اور صومالیہ کو بھی ہمیشہ سعودی تناظر میں دیکھا۔

اس کی وجہ جماعت اسلامی میں مولانا مودودی کی سیاسی فکر کا غلبہ رہا ہے۔ مولانا مودودی کی سیاسی فکر ان کے مجموعی فکری منہج کا ایک ضمیمہ ہے جو عملاً پورے منہاج پر محیط ہوگیا ہے لیکن جس کا اس مجموعی منہاج سے اصولی اور منطقی تعلق نہیں اور میری رائے میں اگر اس ضمیمہ کو کل منہاج سے الگ کردیا جائے تو یہ منہاج لایعنی (Inchhmet) نہیں ہوجاتا۔

اصولاً مولانا مودودی بیسویں صدی کے وہ پہلے متکلم اسلام ہیں جنہوںنے حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کے نظام کی بنیاد پر اسلام اور مغرب کی حالیہ کشمکش کو سمجھنے کی کوشش کی۔ یہ کام نہ علمائے دیوبند نے کیا اور نہ علماء بریلی نے کیا نہ علامہ اقبال اور مولانا محمدعلی جوہر جیسے مخلص مسلمانوں نے۔ علماء دیوبند وار بریلی نے مغربی غلبہ کے نتیجے میں اٹھنے والے مسائل کی طرف سے اپنی آنکھیں بند کرلیں اور علامہ اقبال وغیرہ نے اسلامی اور سرمایہ دارانہ نظام زندگی میں تطبیق اور پیوندکاری کی۔ مولانا مودودی برصغیر کے پہلے راسخ العقیدہ عالم دین ہیں جنہوںنے عالمی سرمایہ داری کو ایک مکمل نظام سمجھا اور انہوںنے اس نظام کو جاہلیت خالصہ کہا۔ تحفظ اور غلبہ اسلام کے لیے اس خالص جاہلی نظامِ زندگی کے مکمل انہدام کو ضروری جانا۔

مولانا مودودی کی رائے میں اس کے مکمل انہدام کے لیے ایک اسلامی حکومت کا قیام کافی ہے اور یہ حکومت جماعت اسلامی پاکستان میں قائم کرسکتی ہے کیونکہ

٭ تحریک پاکستان دراصل تحریک غلبہ اسلام ہی تھی اور عوام الناس اسلامی نظام زندگی کا غلبہ ہی چاہتے ہیں۔

٭ موجودہ جمہوری، دستوری ریاستی ادارے (مقننہ، عدلیہ، انتظامیہ) ایک غیراقداری (Volue Neutral) تنظیمی ڈھانچہ (Framework) فراہم کرتے ہیںجن میں جماعت اسلامی ایک اسلامی انفرادیت، معاشرت اور ریاست قائم کرسکتی ہے۔

ظاہر ہے کہ یہ رائے غلط ہے اور اس طریقہ سے عالمی سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کا انہدام ممکن نہیں بلکہ یہ تو اس نظام (بالخصوص اس کی ریاستی صف بندی) کو اسلامی جواز فراہم کرنے اور اس جاہلیت خالصہ میں سمونے کی ایک غیرشعوری سعی ہے۔ جمہوری دستوری ادارے Volue Neutral نہیں بلکہ وہ Value loaded ہیں۔ وہ صرف حاکمیت عوام یا حاکمیت سرمایہ ہی کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ ان اداروں کے غلبہ کے ذریعہ اصولاً اور عملاً حکومت الٰہیہ اور خلافت علی منہاج النبوة قائم نہیں کی جاسکتی۔ اس اجمال کی تفصیل ہم گزشتہ سیمیناروں میں پیش کرچکے ہیں۔

پچھلے پچاس سالوں سے جماعت اسلامی اس فکر کی بنیاد پر پاکستان میں اسلامی حکومت کے قیام کی جدوجہد کر رہی ہے اور ٢٠٠٢ء تک انتخابی کامیابیاں نہایت محدود تھیں اور جو کچھ حاصل ہوئی وہ جماعت اسلامی کی اسلامیت کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کی وجہ سرمایہ دارانہ نظام میں مخلصانہ اور دیانتدارانہ کارکردگی رہی۔ ١٩٥١ء سے ٢٠٠٢ء تک جماعت حقوق کی سیاست کرتی رہی وہ عوام کے دستوری جمہوری حقوق کی علمبردار بنی رہی اور اس کی وجہ سے جماعت کا اسلامی تشخص مستقلاً منتشر ہوتا رہا۔ جماعت نے ١٩٩٧ء کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا اور ١٩٩٧ء سے ٢٠٠٢ء تک اپنے اسلامی تشخص کو بحال کرنے پر بھرپور توجہ دی جس سے خواطر خواہ فائدہ ہوا جو ٢٠٠٢ء کے انتخابات میں سرحد میںکامیابی سے ظاہر ہے۔

٢٠٠٢ء کے انتخابات میں کامیابی کی بنیادی وجہ طالبان عالی شان کی تحریک سے جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام کی وابستگی تھی۔ یہ دونوں جماعتیں طالبان عالی شان کے فطری حلیف سمجھے جاتی تھیں اور طالبان عالی شان کے غلبہ کے نتیجے میں اسلامیت کی جس لہر نے سرحد کے عوام کو اپنی لپیٹ میں لیا جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام کو اس کا بہت فائدہ ہوا۔

لیکن سرحد کی ایم ایم اے کی حکومت نے طالبان عالی شان اور مجاہدین اسلام کو بری طرح دھوکہ دیا۔ طالبان عالی شان اور مجاہدین اسلام سرحد میں بے دریغ قتل کیے جاتے رہے اور ایم ایم اے کی حکومت کچھ بھی مؤثر مزاحمت نہ کرسکی۔ وہ استعمار کی آلۂ کار حکومت بنی رہی اور آئی ایم ایف، ورلڈبینک اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک (ADD)کو سرحد کی معاشی پالیسی سازی سونپ دی۔ وہ سودپر قرضہ دیتی اور لیتی رہی اور استعماری حکومتوں سے اقتصادی بھیک مانگتی رہی اور نفاذ شریعت کا کوئی عملی اقدام ممکن نہ اٹھایا یہی حال جماعت اسلامی کی کراچی شہری اور انتظامیہ کا ہوا۔ سرحد اور کراچی کے تجربات نے یہ بات بالکل عیاں کر دی ہے کہ دستور پاکستان نفاذ اسلام کو ناممکن بنانے کا ذریعہ ہے۔ اس دستور کو جائز Legetimate مان کر کبھی بھی اسلامی حکومت قائم نہیں ہوسکتی نہ شہری، نہ صوبائی اور نہ ہی وفاقی سطح پر۔

حقیقت یہ ہے کہ مولانا مودودی کی فکر سے ماخوذ جو سیاسی حکمت عملی جماعت اسلامی نے تشکیل دی وہ کلیتاً ناکام ہوچکی ہے۔ اس ناکامی کا پہلا اظہار خود مولانا مودودی نے ١٩٧٠ء کے انتخابات کی شکست کے بعد جماعت کی امارت سے استعفاء دے کر کیا۔ ١٩٨٨ء میں میاں طفیل اسی تناظر میں مستعفی ہوگئے۔ آج جماعت اسلامی کی ترتیب نو کے لیے لازم ہے کہ قاضی حسین احمد اپنی ہمہ پہلو سیاسی ناکامی کا اعتراف کریں، جماعت کی امارت سے مستعفی ہوں اور نیا امیرجماعت نامزد کریں۔

قاضی صاحب کا استعفاء اس لیے ضروری ہے کہ آپ اس ہی حکمت عملی کو اپنائے ہوئے ہیں اور جو ١٩٥١ء سے چلی آرہی ہے اور اس نے مسلسل اپنی ناکامی ثابت کر دی ہے اور جس سے قاضی صاحب مراجعت کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ آج قاضی صاحب تمام تر توقعات اے پی ڈی ایم سے وابستہ کر چکے ہیں۔ APDM ایک اسلام دشمن جماعتوں پر مشتمل اتحاد ہے جس نے کبھی بھی نفاذِ اسلام کا کوئی وعدہ تک نہیں کیا اور جو سیکولر عدلیہ اور سیکولر مقننہ کے کردار اور صوبائی حقوق کے فروغ کے لیے کام کر رہا ہے۔ APDM میں جماعت اسلامی کی شمولیت ایک نہایت ذلت اور شرم کی بات ہے۔ APDMسے وابستہ ہوکر جماعت اسلامی کے خود سیکولر ہوجانے کا خطرہ ہے۔ جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آج جماعت اسلامی کی قیادت یہ بات برملا کہہ رہی ہے کہ میڈیا، عدلیہ اور مقننہ کے اختیارات کی بحالی اور ایک سیکولر سول سوسائٹی کی تعمیر کے نتیجہ میں غلبہ اسلام خود بہ خود ہوجائے گا۔ اپنے آپ کو دھوکہ دینے کی اس سے بڑی مثال نہیں دی جاسکتی۔ یہ سب جانتے ہیں کہ پاکستان کی ساٹھ سالہ تاریخ میں سیکولر میڈیا اور سیکولر عدلیہ (اعتزازاحسن، افتخار چودھری، بھگوان داس، ہارون خاندان، میرخلیل الرحمن کا خاندان نجم سیھٹی وغیرہ) اسلام کے بدترین دشمن اور سیکولرازم اور امریکا کے سب سے بڑے حلیف رہے ہیں۔ لہٰذا جماعت اسلامی کو APDMسے فوراً اور کلیتاً الگ ہوجانا چاہیے اور قوم پرست سیکولر قیادت بالخصوص عمران خان، اچکزئی اور نوازشریف کی اصولی بنیادوں پر بھرپور مخالفت اور مزاحمت کرنا چاہیے۔

تحریک تحفظ اور غلبہ دین کو مستحکم کرنے کے لیے ایم ایم اے کے وجود کو قائم رکھنا اور اس کو ازسرنو منظم کرنا نہایت ضروری ہے۔ ایم ایم اے کی بنیادی کمزوری ہے کہ وہ ایک جمہوری (عملاً صرف پارلیمانی) سیاسی اتحاد ہے۔ جماعت اسلامی کے علاوہ ایم ایم اے میں شامل تمام جماعتیں موجودہ سرمایہ دارانہ دستوری نظام میں شمولیت کے ذریعہ مساجد اور مدارس اور دیگر دینی اجتماعیتوں کے مفادات (wterests) کے تحفظ کے لیے کوشاں ہیں۔ یہ بنیادی طور پر وہی حکمت عملی ہے جو جمعیت علماء ہند نے ١٩٢٠ء میں اپنے قیام کے وقت وضع کی اور جس کی بنیاد پر علماء کانگریس اور مسلم لیگ میںشامل ہوئے۔ ایم ایم اے کا ٢٠٠٨ء کے انتخابات میں شمولیت کا فیصلہ اسی فیصلے کا تسلسل ہے اور وہ اسلامی جماعتیں جن کو ایک سیٹ ملنے کی بھی توقع نہیں۔ انتخابات میں شمولیت کے فیصلے کی توثیق اس لیے کرتی ہیں کیونکہ وہ سرمایہ دارانہ دستوری نظام سے وفادار ہیں اور اس کے خلاف بغاوت کا کوئی ارادہ نہیں رکھتیں۔

جماعت اسلامی ملک کی واحد اسلامی جماعت ہے جس کے فیصلے (اس میں پائے جانے والے واضح سعودی اثر ونفوذ کے باوجود) سرمایہ دارانہ نظام میں مفادات کے تحفظ کی بنیاد پر نہیں ہوتے۔ دوسری اسلامی جماعتوں کی طرح جماعت اسلامی بھی سرمایہ دارانہ دستوری نظام سے وابستہ ہے لیکن اس کی وابستگی کا سبب کچھ مخصوص مفادات اور تحفظ نہیں بلکہ مولانا مودودی کا یہ نظریہ ہے کہ سرمایہ دارانہ عدل کا فروغ اور دستور، جمہوری نظام کا استحکام اور تحفظ اور غلبہ دین کے لیے ضروری ہے۔

اس غلط نظریہ سے برأت کے لیے ضروری ہے کہ مولانا مودودی کی فکر کی تفہیم نو مرتب کی جائے۔ مولانا مودودی کی فکر کو کلاسیکی اسلامی سیاسی فلسفہ میں سمونے کے لیے ضروری ہے کہ آپ کے تفکرات اور حضرت عبدالحق دہلوی، حضرت امداد اللہ مہاجر مکی، حضرت نانوتوی اور حضرت شیخ الہند رحمہم اللہ تعالیٰ کے سیاسی افکار میں تطبیق پیدا کی جائے جماعت اسلامی اور جماعت اسلامی سے باہر دیوبندی علماء کو اس کام کا بیڑہ اٹھانا چاہیے اور یہ کام کچھ اتنا مشکل نہیں کیونکہ حقیقتاً مولانا مودودی ان ہی اکابر کے ایک فطری معتقد، پیرو اور جانشین ہیں۔

مولانا مودودی کی فکر کی اس نوعیت کی تعبیر جماعت اسلامی کی اصولی انقلابیت کو عملی انقلابیت میں تبدیل کرنے کے عمل میں معاون ثابت ہوگی۔ جماعت اسلامی اس کے قابل ہوجائے گی کہ وہ ایم ایم اے کو ایک پارلیمانی اتحاد سے ایک انقلابی مذہبی اتحاد بنا دے اور محلہ اور بازار کی سطح پر اس اتحاد کا مظہر وہ ملک گیر بین المساجد انقلابی تنظیم ہو جس میں تمام دفاعی اور اقدامی تحریکات شامل ہوں اور بتدریج محلہ اور بازار کی روزمرہ زندگی کو اپنے دائرہ اختیار میں لے لے۔

ہمارے ریاستی مقاصد اس ہی بین المساجد تنظیمی اتحاد کے اقتدار اور اختیار میں توسیع ہونا چاہیے۔ اس نظام کو اپنے دفاع اور اپنے علاقہ میں شعارِ اسلامی کے فروغ کی صلاحیت میں توسیع کے لیے جدوجہد کرنا چاہیے اور ایسی سیاسی قوت ریاستی سطح پر منظم کرنا چاہیے جو سیکولر عدلیہ اور انتظامیہ کو اس نظام کے بڑھتے ہوئے دائرۂ کار میں بے بس اور مجبور کر دے۔ جیسے جیسے اس بین المساجد انقلابی نظام کے اختیار میں توسیع ہوگی۔ ویسے ویسے اسلامی ریاست قائم ہوگی۔

اس نظام کی توسیع میں اسلامی مزدور اجتماعیت کا رول بھی اہم ہے۔ مزدور سرمایہ دارانہ نظم مملکت کا فطری مخالف بھی ہے اور معاون بھی۔ مزدوروں کو سرمایہ دارانہ عدل کے مطالبات سے دستبردار کرکے سرمایہ دارانہ ملکیت کے انہدام کے لیے منظم سرمایہ دارانہ نظام کی معاشرتی بالادستی کو تہس نہس کرنے کا ایک نہایت اہم ذریعہ ہوسکتا ہے۔ آج پاکستان میں نجکاری کے خلاف مزدور تحریک کو اسلامی خطوطِ مزاحمت پر منظم کرنا جماعت اسلامی کی بحیثیت ایک اسلامی انقلابی جماعت اہم ترین ذمہ داریوں میں شامل ہے۔

بحیثیت اسلامی انقلابی ہمارا کام یہ بھی ہے کہ ہم مجاہدین اسلام کے فرمانبردار وخدمت گار ثابت ہوں۔ ہمیں جلد از جلد ایم ایم اے کو مقبوضہ کشمیر میں سیدعلی گیلانی کی رہنمائی میں حریت کانفرنس کے مماثل ایک ایسا اتحاد بنانا ہے جس کا بنیادی فریضہ عوام میں مجاہدین اسلام کے مقدمہ کی وکالت اور ریاستی جبراور استبداد کے خلاف مؤثر بند باندھنا ہے۔

جماعت اسلامی پاکستان کے اصل ہیروز اور فطری رہنما سید علی گیلانی اور گل بدین حکمت یار ہیں۔ ہم عزم کریں کہ پوری قوم کو ان رہنماؤں کی قیادت میں منظم کریں گے۔ ہم اسلامی انقلابی ہیں اور دورحاضر میں حسینی کارواں کو آگے لے کر چلنا ہمارا خاص کام ہے۔ ہم دنیا اور اس کی لذات کے حصول کی طرف دعوت نہ دیں بلکہ ہم شوق شہادت کو عام کریں۔ ہماری کامیابی صرف یہ ہے کہ اس ملک کا ہر فرد خود کو حضرت امام حسین کے قافلے میں شامل سمجھے اور یہ بات اچھی طرح سمجھ لے کہ اسلامی حکومت کا ایک ہزار سالہ وجود امام عالی مقام کی عظیم قربانی ہی کا ثمرہ ہے

ہر فرد ہو اس شاہ جہانگیر کے صدقے

ہر سمت یہ نعرہ ہوکہ شبیر کے صدقے