سید محمد یونس قادری

سوشل سائنسز کی طرح معاشیات کا تعلق بھی سرمایہ داری کی علمیت سے ہے۔ اسی تناظر میں ہم سب سے پہلے معاشی نظریات کو پرکھیں گے اور ان کے مختلف ادوار کا جائزہ لیں گے نیز اس سے پھوٹنے والے اداروں پر نظر ڈالیں گے ۔آخر میں سرمایہ داری کے سائے میں پروان چڑھنے والی اسلامی معیشت کا تنقیدی جائزہ بھی لیں گے۔

جدید معاشیات کی بنیاد  بحیثیت سوشل سائنس کی علمیت کے اٹھارویں صدی میں رکھی گئی۔ اس کا سہرا مشہور معیشت دان ایڈم اسمتھ کے سر ہے۔ ایڈم اسمتھ جو کہ دور تنویر کا ایک مفکر ہے اس نے لاک اور ہیوم جو دور تنویر کے بہت اہم فلسفی ہیں سے متاثر ہو کر معاشیات پر اہم تصانیف مرتب کیں۔ جس میں “The theory of moral sentiment”, “Inquiry into the nature causes of wealth of nation” قابل ذکر ہیں۔ دور تنویر کے اس ابتدائی دور کو معاشیات کلاسیکل دور تصور کرتی ہے اس کا دورانہ 1729-1930 تک کا ہے۔ اس دور کے دیگر مشہور مفکرین میں ڈیوڈ ریکارڈو (1772-1823) جس نے نظریہ پیداوار’ نظریہ قدر پر قابل ذکر کام کیا۔مالتھیوس نے رکارڈو کے نظریہ پیداوار کو مدنظر رکھ کر آبادی کو مسئلہ بناتے ہوئے نظریات پیش کیے بینتھم اور جون اسٹیورڈ ملز نے افادے کے نظریات کے ذریعے تسکین اور لذت پسندی کو معیشت کی بنیاد بنایا۔ الفرڈ مارشل (1842-1924) نے افادہ کو بنیاد بنا کر طلب اور رسد کے نظریات کی داغ بیل ڈالی۔ کلاسیکل دور میں ایک تبدیلی رونما ہوئی جب اولالذکر مفکرین جوکہ لبرل نظریات کے حامل ہیں ان کے نظریات پر اشتراکیت اور کمیونزم کے نظریات نے بڑے گہرے اثرات مرتب کیے۔ ان نظریات پر علمی کام کا سہرا کارل مارکس (1818-83) کے سر ہے ۔کارل مارکس نے اینجلز کے ساتھ مل کر 1840 میں کمیونزم کا دستور بھی لکھا اور 1867 میں اس نے اشتراکیت پر مشہور زمانہ کتاب” ڈاس کیپٹل ”تحریر کی۔ اس کے نظریات کا مکمل جائزہ اگلے ابواب میں آئے گا۔

انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے ابتداء میں روبن سن (1898-1971) نے معاشیات کی جامع تعریف کی اور معاشیات کو سائنسی علوم گردان کر اس بات پر ایمان مستحکم کیا کہ اصل مقصد حیات زیادہ سے زیادہ خواہشات کا حصول ہے اور ان کے حصول کے ذرائع کو بڑھانا اصل میں مقصود معاشیات ہے۔

کلاسیکل دور جو کہ 1730 سے 1930 تک جاری رہا ان مفکرین میں کارل مارکس کو نکال کر معاشیات کو لبرل سرمایہ داری کا حصہ تصور کرتے ہیں۔ یہ مفکرین دور تنویر کے نظریات ہی کے مطیع تھے۔ اس دور میں معاشیات کو بحیثیت مغربی افکار اور علم کی اس سطح پر مرتب کیا کہ لوگوں کا ایمان مغربی افکار پر مستحکم ہوجائے اور وہ فردکی سطح پر معاشرتی سطح پر اور ریاستی سطح پر سرمایہ دارانہ عقلیت پر ہی ایمان لے آئیں جس میں اوپر دیے گئے تمام مفکرین کافی حد تک کامیاب رہے۔ اس دور میں مغربی عوام کا ایمان عیسائیت سے ختم ہو کر تنویری افکار پر ہو گیا۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ فرد کی معاشرتی اور ریاستی سطح پر معاشیات کا مضمون کیا نظریات پیش کرتا ہے۔

فرد کی سطح:

جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ مغربی تنویری مفکرین اس بات پر ایمان لے آئے تھے کہ فرد انفرادی طور پر لذات کا پیروکار ہے اور وہ اپنی خواہشات کو زیادہ سے زیادہ پورا کرنا چاہتا ہے معاشیات میں جو مفروضات اور نظریات اس کو حق ثابت کرتے ہیں وہ درج ذیل ہیں۔

تعقل (Rationality):

یہ عقلی تقاضہ ہے کہ ہر شخص اپنی خواہشات کی اتباع کرے۔ اس مفروضے کو مد نظر رکھتے ہوئے معاشیات میں جو نظریات قائم کیے ہیں ان کو صارف کا رویہ یا نظریات کہتے ہیں۔ اس نظریہ کو سب سے پہلے ایڈم اسمتھ اور بعد میں تفصیل کے ساتھ بینتھم اور ملز نے نظریہ افادہ میں بیان کیا۔ بینتھم لذات کی بڑھوتری اور تکالیف میں کمی (Maximization Of Pleasure And Minimization Of Pain) کو بنیادی مقصد حیات تصور کرتا ہے ۔ملز نے تسکین کی مقدار پر زور دیا کہ کون سا عمل زیادہ تسکیل دیتا ہے اور کونسا کم۔ نظریہ طلب و رسد کو الفرڈ مارشل اور ملز نے اسی نظریہ افادے کے ذریعہ وضع کیا ہے اس کے مطابق ہر شخص اپنی لذات کو زیادہ سے زیادہ پورا کرنا چاہتا ہے مگر اس کی خواہشات میں وہ مسائل رکاوٹ ہیں جن کی وجہ سے فرد اپنی خواہشات پوری نہیں کرسکتا ہے۔ آپ اچھے سے اچھا مکان’ گاڑی اور پر تعیش چیزیں لینا چاہتے ہیں مگر آپ کے پاس اس کی قوت خرید نہیں ہے یعنی آمدن اور قیمت وہ دو بنیادی رکاوٹیں ہیں جو آپ کی خواہشات کے آڑے آتی ہیں۔ قیمت جتنی کم ہوگی اتنی آ پ زیادہ اشیاء کو طلب کرسکتے ہیں اس کے برخلاف کم۔ اس طرح سے اس نے  نظریہ طلب کو ثابت کیا، کہ قیمتوں اور طلب میں منفی رجحان ہے۔ نظریہ طلب نظریہ افادہ سے نکلا ہے۔ یہ کوئی آفاقی قانون نہیں ہے۔ نظریہ طلب ان معاشروں میں کبھی کارفرما نہیں ہوگا جہاں پر آپکا مطمع نظر لذات میں اضافہ نہ ہو۔ آپ حرام شے کو کبھی بھی استعمال نہیں کریں گے چاہئے آپ کو اس کی کتنی ہی خواہش کیوں نہ ہو اور وہ کتنی سستی کیوں نہ ہو۔ اس کی طرح ایک اسلامی ریاست حرام و حلال کی تمیز کرے گی نہ کہ خواہشات کو پروان چڑھائے گی۔ ان نظریات کو ماننے اور تسلیم کرنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ عقل اور نفس کو حلال و حرام کے متعین کرنے کا حقدار تسلیم کرتے ہیں اور وحی اور الہام سے انکار کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ معاشیات میں دوسرا نظریہ رسد سے متعلق ہے یہ نظریہ سرمایہ داری کے اس تصور کا آئینہ دار ہے کہ بحیثیت سرمایہ دار آپ کا مقصد زیادہ سے زیادہ سرمائے کی بڑھوتری ہے اور یہ اس وقت ممکن ہے جب ہر سرمایہ دار اس مقصد سے پیداواری عمل میں شامل ہو اور منافع محض میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کر سکے۔ ہر پیداوار کنندہ منافع خور منافع میںاسی صورت زیادہ سے زیادہ اضافہ کرے گاجب کہ قیمت فروخت زیادہ ہو یا پیداواری لاگت کم سے کم ہو۔ یعنی سرمایہ دار رسد اس وقت زیادہ کرے گا جب قیمتیں زیادہ ہوں یا لاگت کم ہو اس کے برخلاف رسد کم کرے گا اس کو قانون رسد سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس طرح اگر دیکھا جائے تو قانون طلب و رسد کا تعلق قیمت سے ہوا۔ وہ مقام جہاں پر طلب کرنے والے صارف اور رسد کرنے والے پیدوار کنندہ ملتے ہیں اس کو مارکیٹ کہتے ہیں۔ اس مارکیٹ میں اشیاء و خدمات کی قدر متعین ہوتی ہے۔ قدر کو متعین کرنے میں ریکارڈو اور کنیز اس بات پر اتفاق کرتے تھے کہ قدر کو متعین کیا جاتا ہے مزدوری کی بنیاد پر۔ وہ شے جو کہ زیادہ مزدور لگا کر پیدا ہو زیادہ قدر یا قیمت والی ہے اس کے مقابلے میں جو کم مزدوری سے بنائی جائے۔ مگر نیو کلاسکیل مفکرین ملز مارشل اس نظریہ کو رد کرتے ہیں ان کے نزدیک قدر یا قیمت معین ہوتی ہے طلب و رسد کی رسہ کشی کے نتیجے میں، طلب کرنے والا کم قیمت پر زیادہ اشیاء لینا چاہتا ہے اور رسد کرنے والا کم قیمت پر کم رسد کرنا چاہتا ہے’ مارکیٹ میں قیمتیں وہاں طے ہوںگی جہاں پر طلب اور رسد یکساں ہوں اس جگہ مارکیٹ توازن کی حالت میں ہوگی۔ اس نظریے کے تحت جو قیمت طے ہوگی اس کو مارکیٹ قیمت کہتے ہیں ان قیمتوں میں منصفانہ قیمتوں کا کوئی وجود نہیں ہے کہ چاہے کوئی شے کتنی ہی سستی کیوں نہ پیدا کی جائے اس کی قیمت کا تعلق طلب و رسد پر ہے اگر پیداوارکنندہ اشیاء کی رسد کو کم کر دیں تو قیمتیں بڑھ جائیں گی اور اگر طلب کو بڑھا دیا جائے تو بھی قیمتوں میں اضافہ ہوگا یہی وجہ ہے کہ سرمایہ دارانہ معیشت میں عادلانہ قیمتوں کے موجود نہ ہونے سے قیمتوں میں اضافہ ہی ہوتا ہے کہ اصل طاقت کا سرچشمہ سرمایہ داری میں سرمایہ دار ہوتا ہے ۔قیمتیں طلب و رسد کی بنیاد پر طے نہیں ہوتیں بلکہ سرمایہ دار  قیمتیں خود متعین کرتا ہے جو کہ بڑھتی رہتی ہیں، اس کی وجہ سے افراط قیمت(Inflation) ہمیشہ سے سرمایہ دارانہ ممالک میں ایک مسئلہ رہتا ہے۔

معاشرہ:

ان نظریات کو ماننے کی وجہ سے جو اجتماعیت قائم ہوگی اس میں حرص و حسد’ خود غرضی کوٹ کوٹ کر بھری ہوگی ۔معاشیات کے نظریات ایک ایسے معاشرے کی داغ بیل ڈالیں گے جہاں درج بالا خصوصیات کو تقویت ملے گی اور جیسا کہ مارکیٹ کے باب میں دیکھا کہ اس کے نتیجے میں پورا معاشرہ مارکیٹ کے تابع ہو کر سول معاشرہ تعمیر کرے گا۔

ریاست:

ریاست سے متعلق کلاسیکل مفکرین کا خیال ہے (ماسوائے مارکس کے) ریاست کو معاشی معاملات میں عدم مداخلت کرنی چاہئے۔ مارکیٹ کے پورے معاشرے اور معیشت میں غلبے کے نتیجے میں فنانشل مارکیٹ کا غلبہ ہوگا جہاں سود اور سٹہ کی بازی گری ہوگی جب بھی معیشت عدم استحکام کا شکار ہوگی تو وہ خودبخود استحکام پر آجائے گی جس میں کلیدی کردار فنانشل مارکیٹ ادا کرے گی۔ کلاسیکل معیشت دان لبرل افکار سے متاثر ہو کر مارکیٹ کی آزادی کے قائل ہیں او رحکومت کی عدم مداخلت کو معیشت کے استحکام کے لیے لازمی قرار دیتے ہیں۔

کینزین معیشت:

1930 اور جنگ عظیم دوئم کے بعد جیسا کہ مارکیٹ میں دیکھا مغربی معاشروں میں تبدیلی آئی اور کلاسیکل نظریات کو ایک شدید جھٹکا لگا۔ 1930 میں مغربی ممالک کو عظیم کساد بازاری کا سامنا کرنا پڑا۔ معیشت عدم استحکام کا شکار رہی اور استحکام خودبخود قائم نہ ہوسکا۔ سرمایہ داری اپنے زوال کے قریب تھی کہ لارڈ کینز نے معیشت سے متعلق انقلابی تصورات پیش کیے جن کی روشنی میں سرمایہ داری کو ایک نئی زندگی ملی۔ اسی لئے کینز کو سرمایہ داری کا دیوتا تصور کیا جاتا ہے جیسے کنیز نے ثابت کیا کہ 1930 کی کساد بازار ی سے نکالنے کے لیے ریاست کو مالیاتی پالیسی مستحکم کرنی ہوگی۔ معیشت میں سٹہ بازی تخمینہ گوئی کی وجہ سے بے روزگاری اور پیدوار میں کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کساد بازاری سے نکالنے کے لیے سرمایہ دارانہ ریاست کی ضرورت ہے۔ 1930 سے 1970 کی دہائی تک سرمایہ دارانہ ریاست ہی سرمائے کے ارتکاز کو ممکن بناتی تھی اور جیسا کہ مارکیٹ میں دیکھا کہ سرمایہ ریاستی سرمایہ کہلاتا ہے جیسے برطانوی سرمایہ جرمن سرمایہ وغیرہ۔ فرد سے متعلق اور معاشرے سے متعلق کینزین کلاسیکل نظریات کا ہی حامل تھا۔ مگر وہ برخلاف لبرل سرمایہ داروں کے سرمائے کو مرتکز کرنے کے لیے ریاست کی ضرورت کو اہمیت دیتا تھا۔ عالمی سرمائے کو مرتکز کرنے کے لیے عالمی زر کو قابو میں کرنے کے لیے عالمی ادارے کے قیام کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔ کنیز کے ہی مشورے پر بریٹن ووڈ کانفرنس میں آئی ایم ایف کے منصوبے کو عملی جامہ پہنایا گیا۔ آئی ایم ایف کا مقصد ممبر ممالک کو زر مبادلہ کے ذخائر میں کمی کو پورا کرنا ہے تاکہ شرح مبادلہ کو استحکام حاصل ہو۔ اس وقت تک شرح مبادلہ کا تعین کرنا ہر ملک کے مرکزی بینک ہی کی ذمہ داری تھی وہ اپنی معاشی صورتحال کے پیش نظر رکھتے ہوئے شرح مبادلہ متعین کرتاتھا۔ بریٹن ووڈ سسٹم کی کوشش تھی کہ زر مبادلہ کے تعین میں آئی ایم ایف کردار ادا کرے اور اس کے لیے ایس ڈی آر محفوظات کا اجراء کیا جو کہ سونے کے مبادلے کی جگہ استعمال ہوں گے۔

نیو کلاسیکل نظریات:

کینزین معیشت کا یہ دور1960ء  کے بعد سرمایہ دارانہ معیشت کو استحکام دینے سے قاصر رہا بریٹن ووڈ سسٹم تباہی سے دوچار ہوا اور اس کی جگہ جس نظام معیشت نے لی اس کو نیو کلاسیکل سسٹم کہتے ہیں۔ یہ دور پس فورڈ ازم کے ساتھ کا دور ہے اور اب تک جاری ہے اس کے مفکرین میں فریڈمین’ لوکاس اور سارجنٹ ہیں۔ نیو کلاسیکل مفکرین کلاسیکل معیشت دانوں کی طرح اس بات کے قائل تھے کہ معیشت میں حکومتی عدم مداخلت ضروری ہے۔ اس دور میں سرمایہ ریاست کی سطح سے بلند ہو کر آزاد ہوجاتا ہے اور کارپوریشن کی بالادستی قائم ہوجاتی ہے  چناچہ یہ دور معیشت کی آزادی کا دور ہے۔ اس دور میں فنانشل مارکیٹ مملکتوں کی حدود کو پار کرکے اپنے منافع محض کے لیے کام کرتی ہیں۔ سرمائے کی محافظ ریاستیں’ عیسائیت کی طرح اس دور میں کمزور کر دی جاتی ہیں سرمایہ داری اپنی اس خصوصیت کو برقرار رکھتی ہے کہ جس کے بل بوتے پر وہ مستحکم ہوتی ہے اس ہی ادارے کو آخر کار ہضم کرجاتی ہے۔ پہلے عیسائیت جس نے سرمایہ داری کو جلا بخشی اس کو مغربی معاشرے سے بے دخل کر دیا۔ اس کے بعد مغربی ریاستوں نے اس کو سہارا دیا نیو کلاسیکل دور میں اس کو بھی تباہ کیا جارہا ہے۔ ریاستوں کی جگہ سرمایہ داری اب کسی اجتماعیت کو قائم کرنے سے قاصر ہے جو کہ اس کا دفاع کرسکے۔ کارپوریشن تو انفرادیت کو جنم دیتی ہیں اس لیے یہ دور سرمایہ داری کی پسپائی کا دور ہے چنانچہ مملکت کو سرمائے پر بالادست کیا جائے گا بلکہ کا ر پوریشن کو آزاد چھوڑ دیا جائے گا کہ وہ سرمائے کو سیال کر کے جہاں منافع زیا دہ ہو وہاں لے جائے ۔ریاست کی عدم موجو د گی میں سرمائے کو ایک محافظ کی ضرورت ہو گی وہ محا فظ عالمی سرمایہ دارانہ ریاست امریکہ کو تصور کیا گیا ۔اس کو تفصیل کے ساتھ ”عالمی سرمایہ دارانہ تنظیم اور امریکا” میں دیکھیں گے۔

فرد کی سطح پر نیو کلاسیکل جس نظریہ کو پروان چڑھاتی ہے کہ فرد کی آزادی ہی ہے مگر فرد کی تعقل اس کو کسی تجربہ سے یا کسی مشاہدے سے حاصل نہیں ہوتی جس کا قائل کینز تھا اس کو Adaptive expectation) کہتے ہیں۔نیو کلاسیکل حضرات چوں کہ انسان کو خدا تصور کرتے ہیں اس لیے جو بھی فیصلہ یہ انسان کرے گا وہ درست ہوگا اس کو Rational expectation کہتے ہیں۔نیو کلاسیکل جس قسم کی سرمایہ داری کے فروغ کی خواہاں ہے اس میں فرد آزاد ہے۔ معاشرہ سول معاشرہ اور معاشی معاملات کارپوریشن کے زیر اثر آزاد ہیں۔ اس دور میں تینوں فرد معاشرہ اور ریاست مکمل طور پر سرمائے کے غلام ہیں۔

یہ تو سرمایہ داری سے معاشیات کا تعلق تھا۔ معاشیات اپنے مختلف ادوار میں سرمایہ داری کے تحفظ کے لیے مختلف نظریات پیش کرتا ہے کبھی عیسائیت’ کبھی ریاست کبھی کارپوریشن اور امریکا کا سہارا لیتا ہے معاشیات اسی لئے کوئی غیر اقداری مضمون نہیں ہے بلکہ یہ سرمایہ داری کے فروغ کا علم ہے ،اس تناظر میں اب ہم اسلامی بینکاری کو فروغ دینے والے معیشت دانوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ اس مغالطے کی وجہ سے کس طرح سرمایہ داری کو فروغ دے  رہے ہیں۔

اسلامی معاشیات:

دو طرح کی سرمایہ داری کا تذکرہ ہم اس کتاب میں کر رہے ہیں ایک لبرل سرمایہ داری اور دوسری ریاستی سرمایہ داری یہاں میں ایک اور قسم کی سرمایہ داری کا ذکر کروں گا اس کو اسلامی سرمایہ داری کہتے ہیں جس کو عام طور پر اسلامی معاشیات کا نام دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ ہم نے اوپر دیکھا کہ سرمایہ داری مختلف ادوار میں کبھی مذہب کا سہارا لیتی ہے کبھی قوموں کا سہارا لیتی ہے اور آخر میں ان سے اپنا کام نکالنے کے بعد اپنے ہدف آزادی کے حصول کے بعد ان اجتماعیتوں سے جان چھڑاتی ہے۔ سرمایہ داری نے جس طرح اپنے مغربی معاشرے میں اپنے ابتدائی دور میں پروٹسٹنٹ عیسائیت کا سہارا لیا اسی طرح وہ اسلامی معاشروں میں اسلام کا سہارا بھی لینا چاہتی ہے۔ اس کے لیے اس نے اسلامی معیشت اور اسلامی بینکاری کو فروغ دیا ہے۔

اسلامی معیشت کی ابتداء بیسیویں صدی کے اواخر میں رکھی گئی ،اس کا سہرا سعودی عرب کے فرماں روا شاہ فیصل اور پاکستان کے سابق صدر جنرل ضیاء الحق کے سر ہے۔ اسلامی معیشت دان سرمایہ داری کے اصولوں کو غیر اقداری تصور کرکے ان میں اسلامی اصولوں کو خاص کر بلا سودی فنانشنل سسٹم کی پیوند کاری کرتے ہیں۔ جیسا کہ ہم نے مارکیٹ میں دیکھا کہ سود تو سرمایہ دارانہ نظام کی رگ و پے میں سرائیت کر رہا ہے اس کا خاتمہ جب ہی ممکن ہے جب سرمایہ دارانہ نظام کو مجموعی طور پر تباہ کیا جائے۔ ابھی ہم نے اس باب میں تفصیل سے دیکھا کہ معاشیات کا تعلق دور تنویر کے افکار سے ہے۔ اسی معنی میں معاشیات ایک خاص علمیت ہے کہ اس کا مقصد سرمایہ داری کا غلبہ ہے۔ اسلامی معیشت دانوں کی اصلی غلطی یہ ہے کہ وہ سرمایہ داری کو باطل نظام تصور نہیں کرتے، بلکہ اسکو ایک معاشی نظریہ تصور کرتے ہیں، اور نہ ہی اسلام کو کوئی نظام تصور کرتے ہیں۔ وہ اسلام کو برتنے کا طریقہ تصور کرتے ہیں اسی لئے کسی بھی نظام میں اس کی پیوند کاری کو جائز تصور کرتے ہیں۔

اسلامی معیشت دان جیسا کہ ہم نے معیشت میں دیکھا اس کے اصولوں پر جو کہ فرد، معاشرے اور ریاست کی سطح پر ہیں سے بالکل سہو نظر کرتے ہیں۔ وہ سرمائے کو دولت تصور کرتے ہیں اور نج کاری کو نجی ملکیت سے تعبیر کرتے ہیں جبکہ ہم نے مارکیٹ میں دیکھا کہ سرمایہ داری تو نجی ملکیت کو فروغ نہیں دیتی بلکہ نج کاری کا مقصد نجی ملکیت کو ختم کرکے کارپوریشن کومکمل اختیارات دینا ہے۔ جس کی تفصیل ہم دیکھ چکے ہیں۔

اسلامی معیشت دان معاشی اصولوں کو غیر اقداری تصور کرتے ہیں اسی لئے وہ فرد کو حریص و حاسد تصور کرتے ہیںا ور پیداوار کنندہ کے منافع کے زیادہ سے زیادہ حصول کو جائز تصور کرتے ہیں۔ تمام معاشی نظریات کو حق تصور کرکے ان کے لیے اسلامی جواز فراہم کرتے ہیں مثلاً قیمتوں کے تعین  میں طلب و رسد کے نظریات کو عین اسلامی ارو مارکیٹ کے قدر کے متعین کرنے کا اسلامی پیمانہ تصور کرتے ہیں۔ وہ سرمایہ داری کو ایک معاشی نظریہ تصور کرتے ہیں اور اس میں رہتے ہوئے سرمایہ داری کا فروغ چاہتے ہیں۔

معاشیات کے اصولوں کو من و عن تسلیم کرنے کا مقصد یہ ہوگا کہ ہم سرمایہ دارانہ اصول کو حق بجانب تصور کرتے ہیں کہ ہماری زندگی کا مقصد زیادہ سے زیادہ تسکین کا حصول ہے۔ تو اس صورت میں  جو شخصیت پروان چڑھے گی وہ کبھی بھی تقویٰ اور پرہیزگاری کا پیکر نہیں ہوگی اور جو معاشرہ تعمیر ہوگا وہ سول معاشرہ ہوگا نہ کہ اسلامی معاشرہ جو ریاست ہوگی وہ جمہوری  ہوگی نہ کہ اسلامی ۔

اسلامی معیشت  کے حوالے سے نظریات پر کام تو کم ہوا ہے البتہ جو کام اسلامی معیشت دانوں نے سب سے زیادہ اور پر زور طریقہ سے کیا ہے وہ اسلامی بینکاری پر ہے۔ اسلامی بینکاری جس کی ابتداء مصر میں جمال عبدالناصر نے ناصر سوشل بینک قائم کرکے کی اور سعودی عرب میں پرنس محمد الفیصل نے دارالمال کی صورت میں رکھی۔ ان دونوں اداروں کا تاریخی پس منظر یہ ہے کہ مصر میں اخوان المسلمون کی اسلامی تحریک کے سیاسی غلبے کو ختم کرنے کے لیے اور عرب دنیا میں اسلامی تحریکات کو کچلنے کے لیے دارلمال کی بنیاد رکھی گئی۔ اسلامی بینکاری کو 1980 کی دہائی میں عوامی پذیرائی حاصل نہ رہی اور اسلامی بینکاری مسلمان سرمایہ داروں تک ہی محدود رہی اور اس میں علماء کرام کی شرکت نہ ہونے کی وجہ سے اس کو مقبولیت حاصل نہ ہوسکی ۔

1976 میں شریعت کے ماہرین علماء کرام اور بینکاروں کے درمیان معاہدہ ہوا جس کے نتیجے میں مصر میں فیصل اسلامک بینک کا قیام عمل میں آیا 1990 کی دہائی کے وسط سے عام علماء کرام کو بینکوں نے اپنا شریعہ ایڈوائزر بنایا اور ایک شریعہ ایڈوائزری بورڈ تشکیل دیا گیا۔ اس طرح عام مسلمانوں کا اعتبار اسلامی بینکاری پر قائم ہوا اور اس کے بعد سے مسلم ممالک میں اسلامی بینکاری کا جال بچھ گیا۔ 21ویں صدی کی ابتداء میں جب مالیاتی نظام کی نجکاری کی گئی اور پاکستان میں خاص کر نجی بینکاری کو اور بیرونی بینکاری کو کام کرنے کی اجازت ملی تو اس کے ساتھ نجی اسلامی بینکوں کا قیام عمل میں آیا جس میں قابل ذکر المیزان بینک ہے۔ اس کے علاوہ تقریباً ہر بڑے بیرونی اور پاکستانی بینک نے اسلامی ونڈو بھی قائم کی جس میں سٹی بینک’ اے بی ایم ایمبرو بینک قابل ذکر ہیں۔

اسلامی بینکاری کی درج ذیل خصوصیات ہیں۔

1۔ اسلامی بینک مالیاتی اداروں کو غیر جانبدار ادارے تصور کرکے اس میں اسلامی تمویلی آلات کی پیوند کاری کرتا ہے۔ سود کی جگہ مرابحہ’ اجارے کو زیادہ تر استعمال کرتے ہیں اور محدود پیمانے پر مشارکت اور مضاربہ کو استعمال کرتے ہیں ا س طرح سود کو اسلامی جواز فراہم کیا جاتا ہے خود اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ میں صراحت کے ساتھ درج ہے کہ مرابحہ، اجارہ اور دیگر کرائے اور خرید و فروخت کے ذرائع سود کو پچھلے دروازے سے داخل کرنے کا ذریعہ ہے اس لئے ان ذرائع کا استعمال نہایت مجبوری میں اور محدود پیمانے پر کیا جائے جبکہ اسلامی بینکاری میں 80 فیصد سے زیادہ مرابحہ اور اجارہ پایا جاتا ہے۔

2۔ بینک ایک ثالث ہے جس کا کام زر کو ایک ضرورت مند سے دوسرے ضرورت مند کو فراہم کرنا ہے۔ بینک بحیثیت ثالث جب بھی زر کے تبادلے اور زر کی تجارت کا منافع لے گا وہ منافع سود کے سوا کچھ نہیں  ہوگا اسی لئے اسلامی نظریاتی کونسل نے جو سفارشات مرتب کیں اس میں نجی بینکاری کا کوئی ذکر نہیں ہے۔

3۔ اسلامی بینکاری  میں شریعہ ایڈوائزرز کو سرمایہ دار بطور ایجنٹ استعمال کر رہے ہیں۔ اس میں جو فتویٰ دیے جاتے ہیں وہ کل نظام پر نہیں دئیے بلکہ جزو پر دیتے ہیں اسلامی تمویلی ذرائع کے استعمال پر فتویٰ ہونا چاہئے اسی لئے ان کی مرتب شدہ شرائط صرف کاغذ پر ایگریمنٹ تک محدود رہتی ہیں اور عملی طور پر سودی بینکاری اور اسلامی بینکاری میں بالکل فرق نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں سود خور سرمایہ داروں کو دہرا فائدہ ہے ایک اسلامی بینک کم شرح پر قرضہ فراہم کرتا ہے اور اپنے کھاتے داروں کو کم شرح پر منافع / سود دیتا ہے۔

4۔ منظر کیف لکھتے ہیں کہ ان شریعہ ایڈوائزر کے ذریعہ سرمایہ دار درج ذیل فائدہ اٹھاتے ہیں۔

1۔ شریعت کو جدید خطوط پر استوار کیا جارہا ہے ادھر مالیاتی اور تمویلی میدان میں اسلامی اسکالرز پیدا ہورہے ہیںا س فیلڈ میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں دی جارہی ہیں۔

2۔فقہ سے متعلق فیصلوں اور آراء کو جدید بنایا جارہا ہے جس کا مقصد سود کو جائز کرنا اور اسلامی سرمایہ داری کا فروغ ممکن بنانا ہے۔

3 ۔ علماء کرام کے طرز زندگی کو پرتعیش بنانے کا ذریعہ ہے بڑی بڑی تنخواہیں فائیو اسٹار ہوٹل میں قیام وغیرہ’ سفر بڑے بڑے سرمایہ داروں اور ان کے ایجنٹوں سے براہ راست ملاقاتیں

4۔ علماء کرام کو بینکاری سے منسلک کرکے سرمایہ داری اور سودی نظام کی اسلام کاری کی جارہی۔

5۔ علماء کرائم کو سرمایہ داروں کا مشیر بنا کر ان کی وقعت’ قدر و منزلت عام مسلمانوں میں کم کی جارہی ہے۔

مسلم معیشت دان اور بینکار دونوں سرمایہ داری کے فروغ میں براہ راست اور بلا واسطہ شریک ہیں۔ اور سرمایہ داری کو اسلامی جواز پہنایا جارہا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اچھی طرح سمجھیں کہ معاشیات سرمایہ داری کی ایک علمیت ہے اس کے ذریعے  سرمایہ دارنہ نظام کو معاشرہ میں غالب کیا جارہا ہے۔ اس سرمایہ دارانہ معاشرے میں معاشیات ایک غالب قدر ہو جاتی ہے جس کے ذریعے سرمائے کی بڑھوتری برائے بڑھوتری کو مقصد حیات بنایا جاتا ہے اور پورا معاشرہ سرمائے کے گرد گردش کرتا ہے۔ اسلامی معاشرے میں معاش تابع ہوتا ہے اسلامی نظام کے اور وہ قدر متعین نہیں کرتا بلکہ اسلامی اقدار کے تابع ہو کر زندگی میں اس کی اہمیت کم ہوتی ہے۔ نہ ہی فرد معاشرے اور ریاست میں اسکو کلیدی حیثیت حاصل ہوتی ہے جبکہ سرمایہ دارانہ معاشرے میں افراد معاشرے اور ریاست میں معاشیات کو کلیدی مقام حاصل ہوتا ہے۔

تکملہ:

اسلامی معیشت دان سرمایہ داری کو معاشیات تک محدود کرتے ہیں جو کہ ایک غلط نظریہ ہے۔سرمایہ داری کا دائرہ کار پورے معاشرے پر محیط ہے۔ دوسرا مغالطہ یہ  ہے کہ سرمایہ داری نجی ملکیت کو فروغ دیتی ہے جبکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ سرمایہ داری سرمائے کی ملکیت کو فروغ دے کر ہر فرد کو سرمائے کا غلام بنادیتی ہے۔ سرما یہ داری کا تعلق مغربی اقدار سے ہے جس میں معاشیات بطور علم کے اس نظام کو فروغ دینے کا ضامن ہوتا ہے۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *