ڈاکٹر وہاب سوری-

                لاطینی امریکی انقلابات(Revolutions of Latin America) کا جائزہ تحریکات اسلامی سے وابستہ قوتوں کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ کیوں کہ  لاطینی امریکی تاریخ کا مشاہدہ ہمیں اپنی تاریخ سے بعض مخصوص بنیادوں پر مماثل دیکھائی دیتا ہے۔

١)            لاطینی امریکی انقلابی تحریکات بنیادی طور استعمار مخالف تحریکات رہی ہیں۔

٢)            تاریخی طور پر لاطینی امریکی اقوام مغربی بہیمیت، لوٹ مار، جبر و استبداد کا راست تجربہ رکھتی ہیں اور اسی ذاتی تجربے کی روشنی میں لاطینی امریکی عوام مغرب سے اٹھنے والے جمہوریت، آزادی، مساوات وغیرہ جیسے پُر فریب نعروں سے اتنی متاثر نہیں ہوتی جتنی کہ ہماری اقوام۔

٣)            ہماری ہی طرح لاطینی امریکی اقوام بھی اپنی تہذیبی، معاشرتی، سیاسی اورانفرادی زندگی میں راست اور بلواسطہ امریکی مداخلت کا ایک طویل تجربہ رکھتے ہیں۔

٤)            چونکہ سرمایہ دارانہ نظام کی جس شکل کا استعماری تجربہ لاطینی امریکی معاشروں کو ہوا وہ لبرل سرمایہ دارانہ نظام کی پیداوار تھی اسی وجہ سے لاطینی امریکی اقوام اشتراکی و قومی سرمادارانہ نظام میں اپنا مستقبل تلاش کرتی دیکھائی دیتی ہیں۔

٥)            لاطینی امریکی اقوام پست نو آبادیاتی معاشرت رکھنے کے باعث انقلابی افکار کی حامل سیاسی اور معاشرتی قوتوں کو خوش آمدید کہتی دیکھائی دیتی ہیں۔

                لاطینی امریکی اقوام بھی تیسری دنیا ہونے کی حیثیت رکھتی ہیں اور اپنی پسماندگی کا ذمہ دار اس نو آبادیاتی نظام کو قرار دیتی ہیں جو ہم جیسی اقوام کی پسماندگی کا ایک بنیادی محرک ہے۔

                لاطینی امریکی تاریخ سرمایہ دارانہ انقلابات سے بھری پڑی ہے لیکن ان میں زیادہ تر انقلابات سرمایہ داری کی قوم پرستانہ اور اشتراکی تفاسیر سے عبارت ہیں، زیر نظر مضمون میں کیوباکے انقلاب کا اجمالی جائزہ پیش کریں گے۔

                کیوبین انقلاب کے انتخاب کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ کیوبین انقلاب کے ذریعہ ہمیں انقلابی ذات کی اور اس کے ذریعہ انقلابی اہداف میں ناکامی کے باوجود بھی انقلابی ریاست کے ساتھ اپنی بے لوث وابستگی کو قائم رکھنے کے مختلف عوامل کو سمجھنے میں مدد مل سکے گی۔ اور تحریکات اسلامی کو سرمایہ دارانہ نظام کی ہمہ گیری کو سمجھنے اور اپنی انقلابی جدوجہد کو سرمایہ دارانہ نظام میں ضم ہونے سے روکنے کے لیے ابتدائی نظریاتی مواد فراہم کرنا ہے۔

تاریخی پس منظر

                کیوبن عوام نے 1868ء میں ہسپانوی استعمار کے خلاف پہلی جامع جدوجہد آزادی برپا کی، یہ جدوجہد تقریبا دس سال تک جاری رہی جس کے نتیجے میں گوکہ ہسپانوی استعمار تو کمزور ہوا لیکن کیوبن عوام اپنی آزادی کا خواب شرمندہ تعبیر نہ کرسکے۔ دس سالہ جنگ کے نتیجے میں معیشت تباہ ہوگئی جس کے نتیجے میں جو معاشی خلا پیدا ہوا اس کوامریکی سرمایہ داروں نے پُر کیا۔ پہلی تحریک آزادی اور دوسری تحریک آزادی کے دوران امریکا کیوباکا تیسرابڑا تجارتی ساجھے دار تھا۔ 1895ء میں دوسری تحریک آزادی کا آغاز ہوگیا۔ اس تحریک کا بانی  جوسے مارٹی Jose Marti  تھا۔ مارٹی نے اس تحریک کو برپا کرکے ایک انقلابی پارٹی کی تشکیل نوع کی اور تحریک آزادی کی نظری بنیادوں کو قوم پرستی، سماجی مساوات کے اصولوں پر رکھا اور استعماری گماشتوں کے خلاف اپنی انقلابی پارٹی کے ذریعہ تحریک آزادی کو منظم، مربوط اور متحرک کردیا۔

                مارٹی کی انقلابی جدوجہد کی ایک اور نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ کیوبن قومی تشخص کو مارٹی نے امریکی مخالفت کے ساتھ مشروط کردیا اور مارٹی کے خیال میں کیوبن عوام کی خودمختاری کی راہ میں امریکی استعمار سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ کیوبن انقلابی فکرکا مشاہدہ کریں تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ کیوبن انقلابی قائدین مثلا  کاسٹرو Castro  چے گویرا وغیرہ مارٹی کے اس بنیادی نظریہ سے مکمل طور پر متفق نظر آتے ہیں۔

                اس سے پہلے کہ کیوبن تحریک آزادی دوئم اپنے منطقی انجام کو پہنچتی اور ہسپانوی اقتدار کا خاتمہ ہوتا امریکا نے بغیر کیوبن انقلابی قیادت کی اجازت کے١٢ اپریل١٨٩٨ء کو اپنی فوجیں کیوبامیں اُتاردیں۔ امریکہ نے ہارتی ہوئی ہسپانوی استعمار کے خلاف جنگ برپا کردی اور کیوبن انقلابی پارٹی کو ان ثمرات سے محروم کردیا جس کے لیے وہ تین سال سے مسلح جدوجہد میں مصروف تھی صرف تین، چار ماہ کے عرصے میں ہسپانوی اقتدار نے گھٹنے ٹیک دیے اور امریکا نے اسپین ساتھ امن معاہدہ کرلیا۔

                 معاہدے میں بنیادی فریق یعنی کیوبن انقلابی پارٹی کو کسی بھی سطح پر شامل نہیں کیا گیا۔ گو کہ امریکا نے اس معاہدے کی رو سے کیوبا کی آزادی کا اعلان کردیا لیکن کیوباکے دارالحکومت ہوانا میں امریکی پرچم لہراتا رہا ساتھ ہی ساتھ کیوبن انقلابی پارٹی کو بزور شمشیر غیر مسلح یعنی دوسرے لفظوں میں غیر معتبر کردیا گیا اور آزادی کے اعلان کے باوجود بھی چار سال تک کیوبن سرزمین پر امریکی افواج موجود رہیں۔ اس طرح امریکہ نے کیوبا میں اپنی باجگزار ریاست قائم کرلی۔ Platt. Amendment کے ذریعہ١٩٠٢ء میں امریکا نے کیوباپر اپنی گرفت اور مضبوط کرلی۔ اس دستوری شق کے ذریعے امریکا کو کیوبا میں فوجی مداخلت کا قانونی جواز مل گیا جس کے تحت امریکا نے تیس سال کے عرصہ میں چار بار کیوبا میں فوجی مداخلت کی۔ بعدازاں 1934ء میں اس دستوری شق کا خاتمہ کردیاگیا۔

                امریکی سرمایہ دارانہ استعمار کی راہ میں کسی قسم کی رکاوٹ کو امریکا نے فوجی قوت اور بعض صورتوں میں کیوبن فوجی اشرافیہ کے ذریعہ کچل دینے کی کوشش کی۔ مثلا 1952ء میں Grav San Martin کی حکومت کا تختہ الٹ کر Batista  کی حکومت کا قیام بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ امریکی سرمایہ دارانہ استعمار کی گرفت کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ “In 1959 US nationals owned  90% of the country electricity light and power service, 50% of public railways, the telephone industry and vast a majority of the country’s transportation, mining import, manufacturing and tourist industries”. Haddad 2003 p74

                لہٰذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کیوبن عوام کے انقلابی خیالات و افکار کی ساخت کی تشکیل میں امریکی مداخلت ایک بنیادی محرک کے طور پر موجود ہے لہٰذا کیوبن انقلابیوں کے لیے جس کی نوعیت سرمایہ دارانہ صف بندی ممکن تھی وہ قوم پرستانہ اور اشتراکی نوعیت کی ہی سرمایہ داری تھی کیوں کہ  وہ لبرل سرمایہ دارانہ بہمیت کا راست تجربہ رکھتے تھے۔

کیوبن انقلاب میں انقلابی شخصیت کی حیثیت اور اس کے اجزاء ترکیبی:

                کیوبن انقلاب کی کامیابی میں ایک مخصوص نوعیت کی انقلابی شخصیت اور اس مخصوص شخصیت کو برتنے، محفوظ  کرنے اور فروغ دینے کی معاشرتی، سیاسی اور ریاستی ادارتی صف بندی کا اجمالی جائزہ ہمیں ان نظریاتی بنیادوں کی شناخت اوراقوت کا اندازہ کرنے میں مدد دے گا جس کی بدولت لبرل سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی پشت پناہ امریکی ریاستی جبرو استبداد کا مقابلہ کرنے کے باوجود کیوبا ابھی تک اپنے سرمایہ دارنہ انقلابی کردار کو محفوظ رکھنے میں کامیاب رہا ہے۔ گو کہ کیوبن ریاست اپنے لوگوں سے کیے گئے تمام انقلابی وعدوں کو پورا نہ کرپائی۔

                انقلابی شخصیت کی تعمیر کا عمل 1959 ء کے کامیاب کیوبن انقلاب سے بہت پہلے شروع ہوچکا تھا اور انقلاب کے بعد ریاستی سطح پر اس انقلابی شخصیت کے تعمیری عمل کو مہمیز ملی۔ جسے کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ کیوبن عوام استعمار مخالف جدوجہد کا ایک طویل تجربہ رکھتے ہیں اور اس تجربے سے اخذ کردہ اقدار قوم پرستی، معاشرتی و سماجی مساوات، خود فراموشی، اجتماعی مفاد  کے حصول کی خواہش کو اپنائے ہوئے ہیں۔

                یہ تمام اقدار جس بنیاد پر ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہوتی وہ اشتراکی سرمایہ دارانہ جدوجہد کا ہی ایک سانچہ و ڈھانچہ تھا لیکن کیوبن عوام کے درمیان اشتراکی شخصی حیثیت یعنی مزدور سے کیوبن قوم پرستانہ شخصی حیثیت کہیں زیادہ طاقت اور نظر آتی ہے۔ چے گویرا (جو 1959ء کے کیوبن انقلاب کا ایک اہم Ideologue تھا) نے جدید کیوبن انقلابی شخصیت کی تعمیر میں بنیادی کردار ادا کیا۔ چے گویرا کے مطابق ایک حقیقی کیوبن انقلابی شخصیت کے اجزاء ترکیبی میں معاشرتی مساوات، قوم پرستی، خود فراموشی کے ساتھ ساتھ Fidelity کا اضافہ بھی ہوتا ہے ۔ چے گویرا کے مطابق Fidelity کے بغیر جدید کیوبن انقلابی شخصیت کی تفہیم ممکن ہیں۔

Fidelity سے چے گویرا کی مراد تھی:

Fidelity is a Star of the mind that equates uncompromising loyalty to the nation, socialism and Castro with true revolutionary Consciousness  (Medin, 1990)

                یعنی Fidelity ایک ایسی شعوری سطح کا عملی اظہار ہے جس میں فرد کی قوم، اشتراکیت، کیوبن عوام اور کاسٹرو (انقلابی لیڈر) کے ساتھ غیر متزلزل وفاداری اور غیر مشروط وابستگی کو ہی حقیقی انقلابی شعور کا مظہر جانا جاتا ہے۔ انقلابی شعور کے اجزاء ترکیبی میں کاسٹرو کے ساتھ غیر مشروط وابستگی اجتماعیت کی شخصی تجسیم کی کوشش ہے جس میں کیوبن انقلابی کسی حد تک کامیاب رہے ہیں۔ چونکہ کیوبن انقلابی شخصیت کی تعمیر میں اجتماعیت کی تینوں بنیادی سیاسی اجزاء یعنی قوم پرستی، اشتراکیت اور فاش ازم کا امتزاج ہے۔ جس کے نتیجے میں کیوبن عوام فی زمانہ لبرل سرمایہ دارانہ جبر اور امریکی استعمار کا مقابلہ کررہے ہیں۔ لہٰذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ گو کہ کیوبن انقلابی لبرل سرمایہ دارای کو امریکی مخالفت کے طور پر تو نظریاتی اور کسی حد تک ریاستی اور معاشرتی ادارتی صف بندی کی سطح پر رد کرتے رہے ہیں لیکن یہ استعمار مخالف جدوجہد سرمایہ داری کی قوم پرستانہ، اشتراکی اور فاشسٹ تفاسیر کے ایک امتزاج کے سوا کچھ اور نہیں۔ بلکہ اگر اس انقلابی جدوجہد کو بڑے نظریاتی تناظر میں دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ کیوبن عوام اس انقلابی عمل کے نتیجے میں اپنے روایتی تاریخی تناظر سے کٹتے چلے گئے اور حقیقتاً اس انقلابی شعور کی تشکیل روایتی کیوبن شعور کو غیرروایتی یعنی ماڈرن شعور ری ساخت میں تبدیل کرنے کی ایک کامیاب کوشش ہے جو کہ ماڈرن ازم کی قوم پرستانہ، اشتراکی اور فاشسٹ نظریات اور افکار کا مظہر ہے۔ اس طرح کیوبن انقلابی جدوجہد ایک غیر ماڈرن، غیر سرمایہ دارانہ معاشرت کو قوم پرستانہ اشتراکی اور فاشسٹ نظریات کے تاریخی اظہار سے ہم آہنگ کرکے اسے ماڈرن سرمایہ داری کی ایک غیر لبرل تفسیر میں ضم کرنے کی عملی کوشش ہے۔ کیوبن انقلابی ریاست کی تشکیل اور امریکی استعمار سے اس کے کامیاب تحفظ کے باوجود کیوبن انقلابی اپنے آپ کو لبرل سرمایہ دارانہ نظام سے مکمل طور پر محفوظ نہ رکھ سکے۔ گو کہ لبرل سرمایہ دارانہ نظام سے تحفظ کی خاطر کیوبن انقلابیوں نے اشتراکی، قوم پرستانہ اور فاشسٹ نظری بنیادوں کا نہ صرف سہارا لیا بلکہ معاشرتی، ریاستی تعلیمی، اخلاقی حد یہ کہ نفسانی اساس کا جزوبنانے کی ادارتی کوشش کی لیکن اس کے باوجود لبرل سرمایہ داری کے سیاسی نظریے جمہوریت، دُہری معیشت اور مادی ترقی کے ذریعے انفرادی و اجتماعی آزادی میں لامتناہی اضافہ کیوبن انقلابی سوچ کے مکمل غیر لبرل سرمایہ دارانہ ہونے کی نفی کرنا ہے اس طرح ہم یہ کرسکتے ہیں کہ بنیادی طور پر  اسے ایک استعمار مخالف جدوجہد ممکن ہے جو بیک وقت قوم پرستی، فاشسٹ، اشتراکی اور لبرل افکار کا امتزاج ہو۔ کیوبن انقلابی فکر اور اس کے تاریخی اظہار کے ذریعہ ہمیں قوم پرستانہ، فاشسٹ اور اشتراکی نظریات کی لبرل نظریہ انسان کے مقابلہ میں ایک بنیادی کمزوری کا عملی تجربہ ہوتا ہے۔ چونکہ قوم، کلاس وغیرہ ایک نظریاتی شعوری ڈھانچہ کے طورپر تو آپ تخلیق کرسکتے ہیں لیکن نفس حقیقی زندگی میں تو انفرادی وجود میں ہی مجسم ہے۔ لہٰذا  جوبھی اعلیٰ ترین سیاسی، معاشرتی اور انفرادی ادارتی صف بندی ممکن ہے وہ لبرل سرمایہ داری میں ہی ممکن ہے اور قوم پرستی، اشتراکیت اور فاش ازم وغیرہ اس کے انفرادی حیثیت میں اظہار کے مختلف درجات تو ہوسکتے ہیں اس کی معراج وہی طرز زندگی ہے جس کی نظریاتی تفسیرلبرل فلاسفہ نے کی۔ یہی وجہ ہے کہ کیوبن انقلابی شخصیت بہت سارے متضاد افکار کو ہم آہنگ کرنے کی ایک ایسی کوشش ہے جس کے اظہار نے کیوبن معاشرت اور طرز زندگی کو ایسے تضادات میں مبتلا کردیا ہے جس کے باعث ان تمام انقلابی وعدوں کے پورے نہ ہونے کے باوجود بھی کیوبن عوام کا انقلابی ریاست پر بھر پور اعتماد ہے ۔دوسری طرف ان تمام انقلابی اقدار سے ہر سطح پر انحراف (انفرادی، معاشرتی، اور ریاستی ) عیاں ہے، کیوبن عوام کی معاشرت نظریاتی طور پر جن اقدارکو Idialized کرتی ہے ۔وہ بنیادی طور غیر لبرل ہونے کے باوجود بھی کیوبن معاشرت اور سماج  کے لبرل طرز زندگی کی طرف ہی مراجعت پر مجبور نظر آتی ہے ۔اس مخصوص تاریخی تجربے کی روشنی میں ہم احیاء اسلام کی جدوجہد میں مصروف عمل اسلامی انقلابی تحریکات کے لیے ایک سبق پاتے ہیں جس کے بنیادی نکات مندرجہ ذیل:

١)            استعمارکی  مخالفت بھی کسی تحریک کے غیر سرمایہ دارانہ ہونے کی دلیل نہیں یہ ممکن ہے کہ کوئی تحریک مغربی استعمار کے خلاف مسلح یا غیر مسلح سیاسی جدوجہد میں مصروف ہو لیکن اصلا وہ ایک سرمایہ دارانہ جدوجہد ہی میں مصروفِ عمل ہو۔

٢)            امریکی استعمار کی مخالفت بھی کسی تحریک کے غیر سرمایہ دارانہ ہونے کی دلیل نہیں کیوں کہ  یہ ممکن ہے امریکی استعمار کی مخالفت قوم پرستی، اشتراکیت یا کسی نسلی، گروہی یا جغرافیائی بنیاد پر کی جائے اور امریکی مفادات کو رد کرکے کوئی تحریک یا گروہ انسانی مفادات کادوسرا سانچہ و ڈھانچہ وضع کرلے ۔

٣)            ضروری نہیں کہ لبرل سرمایہ دارانہ نظام کی تنقید سرمایہ داری کی بھی تنقید ہو۔ یہ ممکن ہے کہ لبرل سرمایہ دارانہ نظام کی جگہ قوم پرستانہ سرمایہ داری، اشتراکی سرمایہ داری یا فاشیسٹ سرمایہ داری وغیرہ لے لیں اور ایک انقلابی عمل کے نتیجے میں سرمایہ داری کی ایک تفسیر سے دوسری تفسیر کی طرف مراجعت اختیار کرلی جائے اور اس انقلابی عمل کے نتیجے میں حرص و حسد کو عام کرنے کے لیے ایک دوسری ادارتی منصوبہ بندی کرلی جائے۔

٤)            سرمایہ داری حرص اور حسد کی ادارتی صف بندی کا نام ہے جس کی بنیاد پر سرمائے بڑھوتری برائے بڑھوتری ہی واحد اقداری ترجیح بن کر رہ جاتی اور اس ادارتی صف بندی کے لیے بنیاد کبھی فرد کی انفرادیت، کبھی فوج، نسل، طبقہ، اور حد تو یہ کہ کبھی مذہب اور تاریخی روایات کا مسخ شدہ جواز تک استعمال کیا جاسکتا ہے۔

                لہٰذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کیوبن انقلاب کے اس اجمالی خاکے کے ذریعے ہم سرمایہ دارانہ استعمار سے علمی، اخلاقی اقداری، سیاسی، سماجی معاشی الغرض کہ ہر اس تہذیبی دائرے میں نبرد آزما  قوتیں جو اپنے آپ کو انقلابی کہنے کا دعوے رکھتی ہیں سے اظہار برأت کرتے ہیںجو اپنے انقلابی عمل کو ان خطوط پر استوار کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ جو اسلام کے نام پر آگے چل حرص و حسد کی ایک مذہبی ادارتی منصوبہ بندی نہ بن کر رہ جائے اور تاریخی انسانی ایک نئی قسم کی سرمایہ داری کا مزہ بھی نہ چکھ لے جسے ہم اسلامی سرمایہ داری کہہ سکیں۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *