حصہ دوم

قومی سیاسی پہلو پر چند اصولی کلمات

اصل شرع کی بالادستی ہے ،ریاست بنانے کے طریقے ظروف ہیں۔غامدی صاحب دراصل ظروف کو اولیت دے کر گفتگو کی ترتیب کو بدل رہے ہیں۔جس بیانئے کو رد کرنے کے لئے غامدی صاحب نے بیانیہ وضع فرمایا ہے اس کے تناظر میں اس کا سادہ سا جواب کچھ اس طرح ہے :

نیشن سٹیٹ کا فارمیٹ بدلنا کوئی دین شکنی نہیں ہے ریاستی عمل (قوانین کے اجراء اور نفاذ) کو اسلام کا پابند کردینے کی جو بھی صورت مسلمانوں کی استطاعت میں ہو مسلمان اسے کیوں اختیار نہ کریں؟ 98فیصد مسلم آبادی اپنی سماجی قوت اور سیاسی رٹ کو اس کا ذریعہ بنائے یہ فتح کی نسبت ایک کہیں نرم ترعمل ہے ۔مسلمان کو غاصب کرداننے کے معاملے میں اصل بات بہت پیچھے تک جاتی ہے جو شاید BJP کے زوایہ کے مطالعہ تاریخ سے جا ملے اور راجہ داہر کے حق تک پہنچے اصل یہ ہے کہ ہمارے ان شہروںک اذانوں سے کونجنا جن فتو حات کا مرہون منت ہے انہی کو صاف ظلم گردانیں ۔ورنہ اتنی بڑی مسلم جماعت(اسلامیان پاکستان) کا اپنی ناقابل مزاحمت سماجی وسیاسی برتری کے بل پر ریاستی عمل کو خدا کی عبادت میں دے دینا فتح کی نسبت ایک کہیں ذیادہ سمجھ آنے والی بات ہے کسی زمیں پر شریعت کی رٹ قائم کرنے کے معاملہ میں اصل چیز مسلمانوں کے پاس اس بات کی قدرت ہونا ہے جبکہ فتح یا سیاسی وسماجی برتری اس قدرت کی ایک صورت ۔قرارداد مقاصد ایسے کسی اقدام سے البتہ نیشن سٹیٹ کی ساخت میں کچھ فرق آگیا ہے تو کوئی شریعت کی خلاف ورزی نہیں ہو گئی ہے ۔اصل بحث  وہیں پر پہنچے گی :بارہ صدیوں تک نصف معمورہ ارض کا اسلام کی قلمر وبنارہنا غصب کی ایک داستان ہے اور اسلام کا نصف جہان میں پھیلنا بڑی حد تک ظلم وبربریت کا نتیجہ ! ہمارا مشورہ ہے کہ ان کالموں میں مسئلہ کو اس کے پورے حجم کے ساتھ کھول دیا جائے۔

ریاست اور حکومت میں آپ جیسے مرضی فرق کریں اصل چیز ریاستی عمل کو اسلام کے تابع کرنا ہے بایں طور کہ یہ افراد کے موڈ اور مزاج پر نہ رہ جائے بلکہ یہاں کا باقاعدہ آئین ہو جو افراد کو آپ سے آپ پابند کرے ۔ریاستی عمل میں اسلام کی یہ مستقل حیثیت دورحاضر کی بحثوں میں حکومت سے ذیادہ ریاست سے متعلق ہوگی گو ہمیں اس کی شکلی صورت سے غرض نہیں (ازحامد کمال الدین صاحب)

(3) متبادل بیانئے کے اثرات

قرارداد مقاصد کے جس بند کو توڑنے کی باتیں ہورہی ہیں عملاً اس بندے کے پیچھے کیا ہے اس بھی سمجھ لینا چاہئے یک رخی مجرد ونظریاتی گفتگو نفس معاملہ کو واضح نہیں کرسکتی ۔

یہان اگر اسلام کا بہت کچھ بچ رہ گیا ہے تو وہ اس لئے کہ یہاں کوئی قرارداد مقاصد خاصے بھلے وقتوں میں پاس کرالی گئی تھی ورنہ پچھلے کئی عشروں سے یہاں جو خاک اڑنا شروع ہوئی ہے وہ سب گرد آلود کرنے میں ذیادہ دیر لگانے والی نہیں ہے ۔دیے ہوئے حالات میں یہ بات بلا خوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ عملاً اسلامیا نے کے عمل میں گو اس کی کوئی خاص افادیت نہیں رہی کہ اس کے بعد یہ مسئلہ ریاست کا نہیں حکومت کا رہ گی تھا (ہمیں ریاست اور حکومت کا فرق سمجھانے والے توجہ فرمائیں!!!)البتہ اس ملک کے اندر کھلے کفر کا راستہ روکنے میں بے شمار پہلوؤں سے یہ چیز ایک ناقابل عبور بند کاکام دیتی رہی ہے اور یہ  پہلو بھی کچھ کم خیر نہیں۔ ہمیں چاہئے کہ ان لوگوں کے لئے صبح وشام دعائے خیر کریں جو قرارداد مقاسد جیسا ایک آیئنی اقدام آپ کی قوم کے لئے بروقت کرگئے ۔

کسے نہیں معلوم کہ اکثر تھرڈ ورلڈ ملکوں میں الیکشن ایک مہذب واردات کا نام ہے ۔این جی اوز ،ملٹی نیشنلز ،میڈیا ،بینکرز ،انٹر سٹ گروپس ،تہذیبی ساخت کرنے والی لابیاں س عمل کو اپنی مرضی کی جہت دینے میں یہاں کیسی کیسی سرگرمیاں نہیں دکھاتیں اور کیسی کیسی اثر انگیزی نہیں رکھتیں۔اس جمہوری عمل سے قرارداد مقاصد جیسے کسی انتظام کی غیر موجودگی میں   عالمی تقاضوں کے تحت یہاں ایک ہیومن اسٹ  سٹیٹ آپ کو ضرور ملک جانے والی ہے ۔جس بے بھروسہ جمہوری عمل پر آپ اسلام کی تقدیر کو معلق ٹھہرانا چاہتے ہیں اس کا کوئی تجربہ آپ آج ہی کیوں نہیں کرلتیے :قراردادمقاصداس کے راستے میں کوئی رکاوٹ تو بہر حال نہیں ہے!(از حامد کمال الدین صاحب)

یعنی سوچنا یہ ہے کہ اس قرارداد  مقاصد کو ہٹا کر آخر یہ حضرات کون سا خیر برآمد کرنا چاہتے ہیں ؟ کبھی یہ بھی غور کیجئے  کہ اگر یہ رکاوٹ ہے تو کس کے خلاف ؟ ہیومنٹ سٹیٹ سٹرکچر کے یا اسلام کے ؟ چنانچہ بات نہایت واضح ہے کہ دنیا ویسی نہیں جیسے ہمارے یہ ارباب علم فرض کرتے ہیں ۔اگر تو یوں ہوتا کہ دنیا میں لوگ واقعی کھلے طور پر اس معاملے میں آذاد ہوتے کہ بغیر کسی بیرونی مداخلت ،بغیر کسی علمی ڈسکورس کے جبر نیز بغیر کسی استعماری قوت کی موجودگی کے اپنی اپنی مرضی سے اپنے اپنے نظریات کے مطابق اپنی اپنی اجتماعی زندگیوں کے فیصلے کررہے ہوتے گویا جیسے یہ سب ایک دوسرے سے کٹے ہوئے الگ الگ جزیروں میں بس رہے ہوتے تو شاید مسلمانوں سے بھی یہ تقاضا  کسی معنی میں معنی خیزہوتا کہ آخر تم ان سب آزاد لوگوں پر کیوں اپنے تصور خیر کو بالادست کردینا چاہتے ہو؟ تم بس انکے درمیان بس جاؤاور جو تمہاری بات واقعی مان لے گا وہاں تمہاری مرضی چلنے لگے گی اور بس۔ آخر یہ جھگڑا کس سے اور کیوں ؟سردست معاملہ تو یہاں یہ ہے کہ دنیا پ رلوگوں کی رائے کے نام پر ایک مخصوص تاریخ وعلمیت سے برآمد ہونے والے جبر کو مسلط کرنے کا پورا پورا بندوبست موجو دہے ۔اگر دنیا کے کسی خطے میں کہیں چند کمزور غلطی سے بھی اس جبر کے خلاف اجتماعی رائے کا اظہار کرلیں تو اسے تلپٹ کردینے کا پورا پورا نتظام بھی موجود ہے مگر اس سب کے باوجود بھی مسلمانوں سے یہ شکوہ کہ آخر تم جو چاہتے ہو وہ کیوں چاہتے ہو کا  کیا معنی؟ یہ جو حاضروموجود ہے یہ ایک عالمگیر فتنہ ہے اور اس معاملے میں درحقیقت کوئی چوائس ہے ہی نہیں کہ یا توا سکی بالا دستی کو قبول کرکے اس کے تحت صاغرون ہوکر رہنا قبول کرلیا جائے اوریا پھر اس سے کشمکش جاری رکھی جائے یہاں تک کہ دین اللہ کے لئے ہوجائے مولانا مودودی ؒ نے کیا خوب کہا تھا کہ دنیا والوں کے دین کے معاملے میں درحقیقت کوئی چوائس ہوتی ہی نہیں یہاں اگر مسلمان آگے بڑھ کر مداخلت نہیں کریں گے تو ایسا نہیں ہوگا کہ دنیا خلا مین معلق ہوکر کسی نیوٹرل مقام پر جاکھڑی ہوگی جہاں جو جو چاہے گا وہ ہوتا رہے گا بلکہ جو باطل ہے وہ آگے بڑھ کر زمام اقتدار اپنے ہاتھ میں لے کر رہے گا جنہیں لگتا ہے کہ ایسا نہیں ہے وہ حاضر موجود کی نوعیت کو سمجھے ہی نہیں پس اگر آپ ان سیکولروں عالمی لابیوں اور  اور استعماری قوتوں کو ریاست کے معاملے میں پیچھے ہٹالیں اور پھر ان سے نیوٹرل رہنے کا پختہ عہد وپیمان لے لیں تو شاید ہم بھی ریاست کے معاملے سے پیچھے ہٹنے کے لئے تیار ہوجائیں ۔دشمن کی فوجیں سرحد پر حملے کے لئے تیار کھڑی  دکھائی  دی رہے ہوں اور کوئی ہمیں اس بنا پر اپنے دستے ہٹالینے کی صلاح  دے رہا ہو کہ اس سے تمہارے کچھ سرحدی علاقے کے لوگوں کو نفسیاتی گرہ محسوس ہورہی ہوگی تو ایسی صلاح آخر کس عقلمند کے لئے قابل قبول ہوگی؟

چنانچہ آئین کی چند اسلامی شقوں سے علماء نے یہ کامیابی حاصل کی ہے کہ ملک میں سیکولرائزیشن کا عمل سست روی کا  شکار ہے یہ شقیں اس کی راہ میں کیسے کیسے روڑے اٹکاتی ہیں یہ کوئی دیسی لبرلز سے پوچھے مگر چند ارباب علم اقلیتوں کے حقوق (وہ اقلیتیں جنہیں اس ملک میں بہترین سکول وکالج چلانے یہاں کے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے نوکریاں کرنے یہاں تک کہ عدالت عظمی کے جج تک بننے جیسے کھلے حقوق  ومواقع میسر ہیں)کے غم میں اس بند کو ہٹادینے کےدرپے ہیں۔بعض اوقات ایک جگہ پر کھڑے رہنے بلکہ مخالف کی آگے بڑھنے کی رفتار کو کم کرنے کے لئے بھی بہت ساری قوت ومحنت درکار ہوتی ہے جس کا اندازہ صرف اس وقت ہوتا ہے جب وہ قوت ومحنت بھی ضائع کردی جائے۔قرارداد مقاصد سے حاصل ہونے والے عملی فوائد کو اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہئے کہ یہ کھلے کفر کے آگے بند بابندھنے نیز ملک میں سیکولرائزیشن کی رفتار کو سست روی کا شکار کرنے میں کلیدی حیثیت رکھتی ہے ۔

پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ علماء نے بڑی محنت سے اس نظام کو چلانے والوں کے ارادوں کو قرآن وسنت کے کلے سے باندھنے کے لئے اسلامی نظریاتی کونسل اور شریعت بنچ جیسی جو کامیابیاں حاصل کیں جدید ارباب علم انہیں اپنی نکتہ شناسیوں  میں بہا ل جانا چاہتے ہیں۔جبکہ علماء کی اس جمہوری جدوجہد سے نالاں ملک کے ایک مسلح طبقے کی شکایت ہی ہے کہ اس نظام کے اندر اسلامیت تلاش کرنے کا جو یہ راستہ آپ نے تلاش کیا ہے یہ ذرا ہی دورجاکر ختم ہوجاتا ہے گویا ملک کے اس ناراض طبقے کو واپس لانے کے لئے علماء اب تک جو جواب دیتے آئے ہیں یہ جدید ارباب علم اقلیتیوں کی ذہنی تسکین بحال کرنے لئے ان شقوں کو آئین سے ختم کرکے علماء کو  ان ناراض طبقوں کے  سامنے بالکل ہی لاجواب کردینا چاہتے ہیں اور اس کے بعد یہ امید رکھتے ہیں کہ ملک سے ریاست کے خلاف شدت پسندانہ رویہ ختم ہوجائے گا۔

یہ بھی کہا جارہاہے کہ آئین میں قرآن وسنت کی بالادستی کی شق کی اس لئے ضرورت نہیں کیونکہ جب پارلیمنٹ میں اکثریت مسلمانوں کی ہوگی تو قرآن وسنت کی بالادستی گویا ان کے عقیدے کا لازمی حصہ ہی ہوگا تو وہ جو بھی قانون باہمی مشورے سے بنائیں گے اسے عملی طورپر قبول کرلینا چاہئے ۔اگر کوئی فرد یا گروہ سمجھتا ہے کہ وہ قانون قرآن وسنت کی غلط تشریح ہے تو وہ چاہے تو اس سے اختلاف کرے اور رائے عامہ کو ہموار کرے ۔الغرض اس قسم کی کسی شق کی بنیاد پر پارلیمنٹ کی رائے کو عدالت عظمی میں چیلنج کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔

گویا ہمارے یہ احباب اب الطاف حسین ،نواز شریف،عمران خان،زرداری جیسوں کے مشوروں سے بننے والی تشریح اسلام کو امت سے فائنل اتھارٹی منوالینا چاہتے ہیں وہ بھی ایسے جسے کسی قانونی فوم پر قرآن وسنت کی بنیاد پر چیلنج بھی نہ کیا جاسکتا ہو(ویسے خود نواز شریف وعمران خان بھی اس تجویز کو سن کر ایک لمحے کے لئے شاید چونک اٹھیں  کہ یہ تو ہم پر ایسا بار ڈالا جارہاہے جس کی ہم نے کبھی تمنا ہی نہ کی)۔اگر ایسا ہی ہے تو پھر آئین نامی ہر شے ہی کو ختم کردینا چاہئے کہ اسکی بھی کیا ضرورت ؟اور ہمارے یہ ارباب علم ذرا ایسی ہی کوئی بات عاصمہ جہانگیر واعتراز حسن جیسوں سے آئین میں لکھے ہوئے بنیادی انسانی حقوق کے بارے میں بھی تو منوا کر دکھائیں کیا خیال ہے کہ پارلیمنٹ میں بیٹھے لوگ کیا انسان نہیں کہ وہ انسانوں کے حقوق متعین کرنے کے لئے انسانی حقوق نامی کسی مسودے کے محتاج ہوں گے ؟ جب لوگ یہ اعترض کریں تو ان کا منہ بھی اسی دلیل سے بند کراکر دیکھیں کہ جاو انسانی حقوق کے بارے میں عوامی رائے ہموار کیجئے پھر آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہوجائے گا۔

ایک الزامی سوال

متبادل بیانئے والوں کے نظریہ ریاست کی روسے یورپ وامریکہ کی جدید سیکولر ریاستیں سیکولرانہ جنرل ول کو ریاست کا وظیفہ قرار دے کر اپنی عوام پر جبر استبداد کا باعث بنتی ہیں دوسرے لفظوں میں ان کے نظریہ ریاست کی  رو سے یہ ریاستیں بھی استبدادی وجابرانہ ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کے نظریے کی رو سے بھی تاریخ کی بدتریں استبداد ی ریاستیں ہیں کہ یہ لوگ خود اپنے اوپر ہی نہیں بلکہ گلوبل ولیج بنانے کے شوق میں باہر والوں پر بھی اپنے نطریات مسلط کرتے آرہے ہیں اب اس قسم کے استبداد کے خلاف انسداد فتنہ کے تحت جہاد کے مشروع ہونے کے یہ حضرات بھی قائل ہیں تو کیا یہ حضرات ان ریاستوں کے خلاف اپنے نظریہ جہاد وریاست کی روشنی میں امت مسلمہ پر جہاد کی اصولی مشروعیت کا اعلان فرمائیں گے ؟ کیا ایک متبادل بیانیہ اس پر بھی نہیں ہونا چاہئے؟

اگر ہمارے ان محترم اہل علم کا خیال ہے کہ ان سیکولر ملکوں میں عوام کو ووٹ ڈالنے کا حق ہونا ان ریاستوں کے غیر استبدادی ہونے کی گویا دلیل ہے تو کسی غلط فہمی میں نہ رہیں یہ استبدادی قوتیں اپنوں کی ول آف آل کو بھی اصولاً یہ حق نہیں دیتیں کہ وہ ریاست کی طرف سے مسلط شدہ مخصوص جنرل ول کے خلاف جاسکیں چاہے عوام کی رائے کچھ بھی ہو یا رہی ہو ہوجائے۔ان عالمی معاہدوں کی جنم بھومی یعنی امریکی آئین ریڈانڈینز کی اجتماعی مرضی سے جاری نہیں کیا گیا تھا بلکہ ان کی اجتماعی قبر پر کھڑے ہوکر امریکی ریاست کو مسلط کیا گیا تھا۔

نیز کیا یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے یہاں آئین  میں جو اسلامی شقیں  لکھی ہوئی ہیں انہیں عالمی سیکولرازم کے ٹھیکدار عالمی معاہدوں کے تحت اپنی کسی اصولی رائے کے تحت قبول کئے بیٹھے ہیں ؟ ہرگز یہ کڑواگھونٹ فی الوقت صرف اس لئے پینا ناگوارکررکھا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ ہمارے یہاں جو موجود متوقع اہل اقتدار  وحکومت ہیں وہ ان شقوں کے نفاذ میں کوئی خاصی دلچپسی نہیں رکھتے ۔جس دن انہیں یہ خوف محسوس ہوا کہ ہمارے یہاں کی ول آف آل سے کسی ایسی جماعت کا برسراقتدار آنا یقینی ہو چلا ہے جو ان شقوں کو سنجیدگی سے برتنے کا ارادہ رکھتی ہے تو دنیا ان استبدادی قوتوں کا وہی اصلی چہرہ پھر سے دیکھے گی جس کا مظاہرہ الجزائر اور مصر میں ہوا تھا۔

پس ہمارے یہ حضرات  اپنے متبادل بیانیہ جہاد کے ذریعہ اصل بیانئے  میں جہاد کی جس مشروعیت کو شعوری طورپر کالعدم ٹھہرانے نکلے تھے متبادل بیانیہ ریاست کی روس ے غیر شعوری طورپر خود اسی موڑ پر آن پہنچے بس اتنا سا فرق ہے کہ اصل بیانئے میں یہ ذمہ داری قیام اسلام کے لئے قبول کرنا پڑتی ہے جبکہ متبادل نظریے میں یونانی جمہوریت کے قیام کے لئے ۔

اسلام اور تصور خلافت

غامدی صاحب کا یہ کہنا ہے کہ نہ صرف یہ کہ خلافت کوئی دینی اصطلاح نہیں بلکہ مسلمانوں پر کسی عالمی خلافت یہاں تک کہ کسی عالمی سیاسی وحدت(مثلاًکنفیڈریشن ) کا قیام بھی کوئی دینی تقاضا نہیں (اس قسم کی کسی وحدت کے قیام کی خواہش کو ذیادہ سے ذیادہ بس ایک نیک خواہش کہا جاسکتا ہے نہ کہ دین کا کوئی حکم)  کیونکہ ازروئے اسلام قومیت کی بنیاد پر مذہب نہیں بلکہ دیگر عناصر(مثلا تاریخی نسلی شناخت وغیر ہم) ہوا کرتے ہیں مسلمانوں کے درمیان باہمی تعلق اخوت کا ہے نہ کہ قومیت کا ۔ان کا کہنا ہے کہ قرآن وحدیث میں اس قسم کی خلافت کا کوئی تصور موجود نہیں ۔ذیل میں  اختصار کے ساتھ ان کے دعووں کا تجزیہ کیا جاتا ہے ۔

قرآن میں تصور خلافت

خلافت (رسول اللہ کی سیاسی نیابت)  کاتصور یہ ہے کہ امور ریاست اس حق کے مطابق چلائے جانے چاہئیں جسے شارع نے حق کہا نہ کہ اپنی طرف سے وضع کردہ کسی تصورحق(یعنی ہوائے نفس) کے تحت۔ خدا نے اپن برگزیدہ رسول کو بعینہ یہی تلقین فرمائی:

یا داود انا جعلنا ک خلیفۃ فی الارج فاحکم بین الناس بالحق ولا تتبع الہوی فیضلیک عن سبیل اللہ

 اے داؤد! ہم نے آپ کو زمین میں خلیفہ بنایا پس آپ لوگوں کے درمیان حق کی بنیاد پر فیصلے کرین اور (اس حق کے مقابلے میں کسی کی) خواہشات کی پیروی نہ کریں کہ (اگر فرض محال آپ نے ایسا کیا تو) اللہ کی راہ سے ہٹ جائیں گے ۔

بتایئے خلافت کا تصور جسے امت کے فقہاء نیز سیاسی مفکرین امام ماوردی سے لے کر مولانا مودودی تک قولی تواتر کے ساتھ بیان کرتے چلے آئے ہیں اس کا مفہوم اس کے سواء اور کیا ہے؟ خدا  نے قرآن میں اپنے نیک بندوں اور پسندیدہ قوموں کو زمین میں اقتدار عطا کرکے فیصلے کرنے کا جب ذکر کیا تو اسے بالعموم خلافت(خلیفہ استخلاف) سے تعبیر کیا اسی طرح احادیث  میں بھ خلفاء کا ذکر ہوا لہذا علماء نے اس تصور کو بیان کرنے کے لئے یہ اصطلاح استعمال کی اب اگر کسی کو اس تصور کو بیان کرنے کے لئے خلافت  کی یہ اصطلاح پسند نہیں تو وہ چاہے تو اس کے لئے اپنی طرف سے کوئی دوسرانام رکھ لے بھلا اصطلاح میں کیا لڑائی ؟ لیکن کیا وہ یہ کہنا چاہتا ہے کہ خلافت کا یہ تصور ہی خدا کو مطلوب نہیں؟

آیت شوریٰ اور عالمی خلافت (جمہوریت )۔۔۔۔خود آپ کے اصول سے دلیل

دیکھئے “امرھم شوری بینھم”کے تحت آپ دعویٰ کرتے ہیں کہ جمہوریت خدا کے حکم کا درجہ رکھتی ہے غامدی صاحب اس آیت کے تحت لکھتے ہیں:

پھر اس مقام پر چونکہ قرآن مجید اس ضمیر غایب کی طرف اضافت کے سوا کسی دوسری صفت سے مخصوص نہیں کیا اس لئ ےنظام کا ہر پہلو س میں شامل سمجھا جائے گا بلدیاتی مسائل قومی وصوبائی امور ،سیاسی ومعاشرتی احکام،قانون سازی کے ضوابط،اختیارات کا سلب وتفویض ،امرا کا عزل ونصب،اجتماعی زندگی کے لئے دین کی تعبیر ،غرض نظام ریاست کے سارے معاملات اس آیت میں بیان کئے گئے قاعدے سے متعلق ہوں گے ریاست کا کوئی شعبہ اس کے دائرے  سے باہر اور کوئی حصہ اس کے اثرات سے خالی نہ ہوگا(میزان)

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس آیت میں “ھم”کا مصدق کون ہے؟ آپ کے اصول تفسیر کی رو سے یہاں “ھم” کا اشارہ تمام مسلمانون کی طرف مانا چاہئے یا کہ پاکستان ،ایران ،فلسطین کے مسلمانوں کی طرف الگ الگ؟ (اس دوسری صورت میں دلیل درکار ہے )۔تو کیا خود آپ کے اصولوں کے مطابق آیت کا مطلب یہ نہیں بنا کہ مسلمانون کی ایک عالمی جمہوریت ہونی چاہئے جہاں سب مسلمانوں کے مشورے سے ان کے حکمران چنے جائیں اب دیکھئے ان قومی ریاستوں میں تو ایسا ہرگز نہیں ہورہا نیز اس جمہوریت (آپکے نظام شوری) کے قیام کا مقصد یہی تھا نا کہ تمام مسلمانوں کے اجتماعی مفادات انکی اجتماعی رائے سے طے ہونا چاہئے ؟کیا ان قومی ریاستوں میں ایسا ہوسکنا ممکن ہے؟ آخر اس “ھم” کے مصداق کو جغرافیائی لکیروں ۔۔وہ بھی ایسی لکیریں جو خود مسلمانوں نے اپنی مرضی سے نہیں کھینچیں تھیں بلکہ استعمار نے ان کے لئے طے کیں۔۔کا پابند بنانے کی کیا دلیل ہے کسی مفسر کے پاس؟ تو اب بتایاجائے کہ اگر”امرھم شوری بینھم ” کا مطلب جمہوریت کا خدائی حکم ہے تو اسکا مطلب عالمی جمہوریت کا حکم کیوں نہیں ؟ آپ اسے عالمی خلافت نہیں کہنا چاہتے نہ کہیں عالمی جمہوریت کہہ لین مگر اپنی اس دلیل کے تحت آپ اسے جمہوریت ہی کی طرح کا خدائی حکم کیوں نہیں مانتے ؟ یہاں ضمیر کے مراجع طے کرکے جس ریاست کی بات ہورہی ہے وہ ریاست  کونسی ریاست ہے قومی یا عالمی؟ نیز یہاں جس طرز کی ریاست کی بات ہورہی ہے اس کا مزاج کس ریاست کا متقاضی ہے؟ اگر نظام (امور ریاست) نیز اس کے ہر پہلو کو اس آیت سے کشید کیا جاسکتا ہے تو اس نظام کے معاملے میں “ھم”سے تمام مسلمانون کو ایک ساتھ کیوں نہیں مراد لیا جاسکتا ؟ آخر وہ کونسا قرینہ ہے جو نظام کے ہر پہلو کے استدلال کے لئے توقطعی دلیل کا ردجہ رکھتا ہے مگر تمام مسلمانوں کو مراد لینے کے لئے دلیل نہیں یا تو کسی قرآنی دلیل یا قرینہ صارفہ سے یہ ثابت کردیا جائے کہ آیت شوری سے عالمی جمہوریت کا مفہوم نکالنا قطعا غلط ہے اور یا پھر اسے حالیہ قوموں تک محدود کرنے کی دلیل دے دی جائے بصورت دیگر اگر کوئی اس آیت سے مراد قوم لینا چاہتا ہے تو اس کی ذاتی رائے ہے اور بس جسکی بنیاد پر اسے یہ حق نہیں مل سکتا کہ وہ یہاں تمام مسلمانوں کی عالمی جمہوریت مراد لینے والوں کو غلط کہے اور ایک خدائی حکم کو اپنی طرف سے دین سے خارج کردے کیونکہ کوئی امر جس طرح کسی کے کہنے سے دین نہیں بن جاتا بالکل اسی طرح کسی کہ کہنے دینے سے خارج بھی نہیں ہوجاتا۔1

اگر اس کے جواب میں کسی کا استدلال یہ ہے کہ جہاں بھی مسلمان ایک جماعت (بشمول قوم) کی شکل میں ہین اور معاملہ ان کی اجتماعیت سے متعلق ہے وہاں وہ یہ بات باہمی مشورے سے طے کریں گے اگرمسئلہ گلی محلے کی سطح کا ہے تو اس سطح پر طے ہوگا۔اگر شہر کا ہے تو شہر کی سطح پر اگر ملککا ہے تو ملک کی سطح پر اور اگر پورے عالم اسلام کا مسئلہ ہے تو ظاہرہے عالمی سطح پر طے ہوگا گویا “امرھم”کے الفاظ سےواضح ہے کہ جن لوگوں سے  متعلق “امر” ہوگا مشاورت کا عمل انہی تک محدود ہوگاس ۔اس جواب سے ہمارے محترم ہمارے بہت قریب آگئے کہ اس سے اتنی بات تو معلوم ہوگئی کہ مسلمانوں کی عالمی جمہوریت نہ سہی مگر کم از کم مثلا ایک کنفڈریشن ٹائپ کسی شے کا قیام تو بہر حال اس آیت کا مصداق ضرور ہے یعنی جس سطح کا مسئلہ ہوگا اسی سطح کی مشاورت ضروری ہوگی ۔اب مسائل کی کوئی سطح ظاہر ہے مقامی ہوگی کوئی علاقائی تو کوئی ملکی تو کوئی اقلیتی تو کوئی عالمی غرض “ھم” کی ضمیر مسلمانوں کی طرف ہے یعنی جہاں تک مسلمان  وہاں تک شوری کوئی فرق ہوگا تو صرف مسئلہ کی سطح اور نوعیت کے لحاظ سے تو کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوگیا کہ وہ امور جو مسلمانوں کے عالمی مصالح سے متعلق ہوں ان کی بابت نیشنل سطح پر فیصلے(decision) لینا شرعا ممنوع ہوگا؟بے بسی اور بدنظمی کی عذر کی بات الگ ہے اصولاً ممنو ع ہوگا یا نہیں؟ کیا س بدنظمی کے خاتمہ کی جانب پیش قدمی مستحسن ہوگی یا نہیں؟ مگر اس کا کیا کیا جائے کہ محترم غامدی صاحب تو اس دینی فریضے کے بھی قائل نہیں۔چنانچہ اگر تھوری ڈیر کے لئے یہ تسلم کربھی لیا جائے کہ روئے زمین پر مسلمانوں کے 58 انتظامی یونٹ بن جانا جائز ہے پھر بھی مسلمانون کو اس آیت کی روسے ایک عالمی شوری کا پابند کیوں نہ کیا جائے؟ جس یونٹ کے مسلمان اس عالمی شوری کا حصہ بننے سے انکاری ہوں انہیں معصیت کا مرتکب کیوں نہ کہاجائے ؟ اس کا حل یہ ہے کہ آپ شوریٰ کو واجب ہی قرار نہ دیں لیکن اس صورت میں جمہوریت کا دینی حکم بھی خود بخود ساقط ہوجاتا ہے۔

ا س پہلو پر بھی غور فرمانا چاہئے کہ غامدی صاحب اس آیت کے تحت فرماتے ہیں جب کہتے کہ کہ اس مقام پر چونکہ قرآن مجید نے اسے ضمیر غایب کی طرف اضافت  کے سوا کسی دوسری صفت سے مخصوص نہیں کیا اس لئے نظام کا ہر پہلو اس میں شامل سمجھا جائے گا بلدیاتی مسائل ،قومی مسائل وصوبائی امور۔۔۔۔غرض نظام ریاست کے سارے معاملات اس آیت میں بیان کئے گئے قاعدے سے متعلق ہوں گے تو یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ آخر یہاں صرف صوبائی وقومی تک کے معامات آیت میں شامل ہونے جبکہ امت (عالمی) کے معاملات شامل نہ ہونے کی آخر کونسی دلیل ہے؟ الغرض غامدی صاحب کو تو اپنے فلسفے کے تحت سب سے آگے بڑھ کر کہنا چاہئے کہ یہاں ضمائر کی روشنی میں یہ بات قطعی ہے کہ مسلمانوں کی کم زا کم کنفڈریشن کا قیام دینی فریضہ ہے جو انکے عالمی مسائل کو انکے مشورے سے نمٹا سکے الغرض ان کے اپنے اصول تفسیر کی روسے یہ آیت اس معاملے میں بالکل قطعی ہے کہ “ھم” کا “امر” جس سطح کا ہوگا مشاورت بھی اسی سطح پر مطلوب ہے اسے محدود کرنے یا ضروری نہ سمجھنے کی کوئی دلیل موجود نہیں۔

مسلم وحدت اور عالمی خلافت۔۔۔۔۔۔۔۔آپ کی بیان کردہ نصوص کے مقاصد سے استدلال

اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ قومیت کی بنیاد اسلام نہیں بلکہ جغرافیائی وتاریخی نسل کی شناختیں ہوا کرتی ہیں تب بھی یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ کیا قرآن وحدیث میں مسلمانموں کو اخوت کے جس رشتے سے باندھا گیا ہے اس کا کوئی سیاسی تقاضا بھی ہے یا نہیں ؟ کیا قرآن وحدیث مین ایسی کوئی نص موجودہے جس میں مسلمانون کو موجودہ معنی میں قومی وحدت اور قومی مفادات کے فروغ پر زور تلقین کی گئی ہو؟ اس کے برعکس قرآن پلٹ پلٹ کر کہیں امت وسط وخیر امتہ تو کہیں اخوۃ ملۃ جیسی اصطلاحات ،مسلم اکائی کے لئے استعمال کرکے مسلم ذہن کو اپنی بنیادی شناخت کی طرف متوجہ کرتا چلا جاتا ہے۔اسی طرح احادیث میں بھی یہ تھم تسلیل کے ساتھ ملک جاتی ہے مثلا ایک حدیث میں مسلم اکائی کو ایک جسم سے تشبہہ دے کر یہی بات سمجھائی گئی ہے کہ:

اخوت اس کو کہتے ہیں چبھے کانٹا جو بل میں

تو ہندوستاں کا پیروجواں بیتاب ہوجائے

تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرآن وحدیث میں یہ تھیم جوا س قدر تسلسل کے ساتھ بیان ہوئی ہے کیا یہ مسلمانون سے کوئی سیاسی تقاضا نہیں کرتی؟ کیا قومیت کے یہ جدید تصورات ۔۔جہاں ایک قومی مسلم ملک اپنے قومی مفاد میں دوسرے قومی ملک کی گویا جڑ تک کاٹنے میں مصروف ہوجاتا ہے۔۔شارع کے بیان کردہ مطلوبہ تصورو حدت کا سیاسی اظہار ہیں؟ تو آخر یہ بات کس منظق پرکھی جاری ہے کہ خدا مسلمانون سے ان قومی ریاستوں سے آگے کوئی دینی تقاضا نہیں کرتا؟فی الوقت ہم طریقے کی بحث نہیں کررہے کہ یہ کرنا کیسے ہے بلکہ فی الوقت تو گفتگو اس پر ہے کہ اس ذمہ داری کو اتنی آسانی سے کوئی کس طرح مسلمانوں کے کا ندھوں سے اتار کر انہیں حاضر وموجود پر راضی کرسکتا ہے ؟ چنانچہ اگر یہ مان لیا جائے کہ اس ضمن میں امت کے فقہاء نے نصوص کے منشاء وک سمجھنے میں غلطی  کہ پھر بھی سوال تو اپنی جگہ قائم ہے کہ س معاملے میں”خدا چاہتا کیاہے” یہ کہ مسلمان ایک گلوبل سرمایہ دارانہ نظام میں سرمایہ دارانہ قومی ریاستوں کی صورت میں بٹ کر سرمائے کی دوڑ میں دوسروں سے آگے بڑھ جانے کی جدوجہد میں لگے رہیں؟فی الوقت نفس امری۔۔ جس پر آپ کو بظاہر کوئی خاص خاص اعتراض نہیں ۔۔تو یہی ہے یا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ خدا کو اس سوال سے کوئی غرض نہیں کہ مسلمانوں کو اس معاملے میں کیا کرناچاہئے بس جو بھی دنیا کا چلن ہو اس پر عمل کرلو؟ اس صورت میں گھوم پھر کر پہلا ہی جواب لوٹ آتا ہے۔

001

پی ڈی ایف ڈاؤن لوڈ کرنے کے لئے یہاں کلک کریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *