روشن خیال اعتدال پسندی (Enlightenment moderation) ایک بہت معنی خیز اصطلاح ہے جس کا خصوصاً آج کل حکومتی حلقوں میں بہت چرچا ہے اور کثرت کے ساتھ اس کو استعمال کیا جارہا ہے۔ اس مضمون میں اس اصطلاح کے معنی پر کچھ روشنی ڈالنے کی کوشش کی جائے گی اور اس بات کی کوشش کی جائے گی کہ اس سلسلے میں ہمارا رویہ کیا ہونا چاہیے؟
روشن خیالی مغربی تہذیب میں ایک بڑا مکتب فکر ہے اور تحریک تنویر کے نام سے معروف ہے۔ جب روشن خیالی کی بات کی جاتی ہے تو اس کے تہذیبی تانے بانے اٹھارویں صدی کی اس تحریک سے جا ملتے ہیں جو بنیادی طور پر کانٹ سے شروع ہوئی۔ ہر چند کہ سترھویں صدی میں سائنٹفک میتھاڈولوجی کی تحریک میں بھی اس کے آثار تلاش کیے جاسکتے ہیں۔ لیکن بنیادی طور پر مغربی تہذیب میں جو الحاد آیا ہے اور مغربی تہذیب بن گئی وہ روشن خیالی یا تحریک تنویر (Enlightenment moderation)کے نتیجے میں ہی بنی۔ گویا کہ جو لوگ آج ہمارے ملک میں روشن خیال پسندی کا پرچار کرتے ہیں تو وہ بنیادی طو رپر ہماری تہذیب کو اسی تحریک کی تعلیمات سے جوڑ دینا چاہتے ہیں اور وہ ہماری تہذیب کو اس تحریک کے ماتحت کردینا چاہتے ہیں۔ لہٰذا ہمارے لیے بہت ضروری ہے کہ تحریک تنویر سے آگاہ ہوں اور اس کا محاکمہ اسلامی بنیادوں پر کرسکیں۔

Sarmaya darana Tehzeeb
تحریک تنویر کے بارے میں یہاں چند بنیادی باتیں عرض کرنے کی کوشش کروں گا۔
۱۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ ایک علمی تحریک ہے اور بنیادی طور پر علمیاتی تصورات میں تغیر کی تحریک ہے اور یہی علمیاتی تغیر یورپ وغیرہ میں معاشرتی، معاشی اور سیاسی تبدیلیوں کا باعث ہوا۔ تحریک تنویر بنیادی طور پر عیسائی علمیت کی رد تھی۔ اس علمیت میں جو بنیادی سوالات حیات سے متعلق، کائنات سے متعلق، علم سے متعلق تھے ان کی تشریح ملتی تھی اور یہ تشریح عیسائیت سے متاثر تھی۔ اب اس کی جگہ ایک نئی علمیت نے غلبہ حاصل کیا۔ تحریک تنویر کے نتیجے میں جنم لینے والی اس نئی علمیت کی مندرجہ ذیل خصوصیات تھیں:
* علم صرف وہ ہے جو انسان اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر دریافت کرتا ہے۔
* علم حاصل کرنے کے صرف دو ذرائع ہیں: (۲) فکر(عقل) (۲) تجربہ
* جو چیز فکر اور تجربہ کے احاطہ میں نہ آئے علم کے دائرے سے خارج ہے۔
ان بنیادی مفروضات کو قائم کرکے عیسائیت کی بنیادی تعلیمات کو رد کر دیا گیا۔ عیسائی تصورات خدا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام، عالم بالا فرشتے، آخرت ان سب کے متعلق کہا گیا ہے کہ علمیت سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ کیونکہ نہ تو فکر ان کا احاطہ کرسکتی ہے یعنی نہ استقرائی منطق (Inductuive Logic) اور نہ استخراجی منطق (Deductive Logic) کے ذریعے الٰہیات اور اس کے تصورات کو ثابت کیا جاسکتا ہے ۔ اس کے علاوہ تجربے اور مشاہدے کے دائرے سے بھی یہ ماوراء ہیں کیونکہ نہ خدا اور اس کے متعلق تصورات کو دیکھا جاسکتا ہے، نہ چھوا جاسکتا ہے اور نہ حواس کے کسی اور ذریعہ سے ان کو ثابت کیا جاسکتا ہے۔
اس تصور علمیت کے محاکمے کے ضمن سب سے پہلی اور بنیادی بات یہ ہے کہ کوئی بھی (Epistemology) یا تصور علمیت اپنے کچھOntologicalاور Cosmological مفروضات رکھتا ہے یعنی یہ کہ انسان کا اپنی حیثیت اور ماہیت کے بارے میں کیا خیال ہے اور وہ جس کائنات میں رہ رہا ہے اس سے اپنے تعلق کو کیسے پہچانتا ہے۔ گویا کہ ہر تصور علمیت کے پیچھے کچھ مابعدالطبیعاتی تصورات پائے جاتے ہیں۔ تحریک تنویر نے جو مابعدالطبیعاتی تصورات انسان کے بارے میں قائم کیے وہ مندرجہ ذیل ہیں:
* انسان قائم بالذات ہے اور اس کا بات کا مکمل مکلف ہے کہ وہ دنیا کو جان سکے اور اس کو جیسا بنانا چاہتا ہے ویسا بنا سکے۔ اس بات کو ہم آسانی کے لیے کہہ سکتے ہیں کہ تحریک تنویر کا بنیادی کلمہ ’’لاالہ الاالانسان‘‘ ہے۔
* تمام انسان اس کلمہ میں برابر کے شریک ہیں اور ان معنوں میں مساوی ہیں۔
* تعقل اس چیز کا تقاضا کرتی ہے کہ انسان کائنات پر اپنی مرضی کو مسلط کرتا چلا جائے اور اپنی ’’خدائی‘‘ سلطنتوں کی وسعتوں میں لامتناہی اضافہ کرتا چلا جائے۔ اس لیے مغربی تہذیب کے نقطۂ نگاہ سے ان مابعدالطبیعاتی تصورات کے انکاری لوگ انسان کہلانے کے لائق نہیں ہیں۔ اس لیے جب امریکا میں کئی ملین ریڈانڈینز کو تہہ تیغ کیا جاتا رہا تو ان کے مشہور فلسفی نے اس بہیمیت کو جواز فراہم کیا۔ اس نے کہا کہ یہ ریڈانڈینز تو سرے سے انسان ہی نہیں ہیں، ان میں اور جنگلی بھینسے میں کوئی فرق نہیں۔ اسی طرح جارج واشنگٹن نے انہیں بھیڑیے کہہ کر ان کے قتل عام کا جواز فراہم کیا۔ انہیں کوئی انسانی حقوق حاصل نہیں۔ کیونکہ یہ اپنی ’’انسان‘‘ ہونے کی حیثیت سے ہی انکاری ہیں۔ اور کلمہ لاالہ الا انسان پر ایمان نہیں لاتے۔ (اس لیے اصلی انسانی حقوق ابوغریب جیل اور گوانتاناموبے میں پریکٹس کیے جاتے ہیں)
گویا روشن خیالی یہی ہے کہ انسان قائم بالذات ہے اور اپنی خدائی کو قائم کرنا اس کی عقل کا تقاضا ہے۔ اس لیے تسخیر کائنات کو واحد معقول (Rational) مقصد کے طور پر قبول کرلیا جائے۔
اس روشن خیالی کی تین بنیادی قدریں ہیں:
آزادی: انسان جو چاہنا چاہے چاہ سکے۔ اس کی چاہت پر کسی بھی قسم کی بندش اور قدغن نہ ہو اس تصور کا عام ہونا ’’آزادی‘‘ ہے۔
مساوات: ہر ایک کو یہ مساوی حق حاصل ہے کہ وہ چاہنا چاہیے چاہ سکے اس میں کوئی درجہ بندی نہیں ہے۔ نمازی اور غازی برابر ہیں، فرد کی چاہتیں جیسی بھی ہوں، صرف اس بنا پر وہ کسی فرد سے افضل یا کمتر نہیں ہوسکتا۔ بہت بڑا مفکر رالز (Rawls) جس کا حال ہی میں انتقال ہوا۔ اس نے اپنی کتاب میں یہ دلیل دی ہے کہ ایک شخص اگر اپنے لیے خیر یہ سمجھے کہ وہ ایک متعین علاقے کے اندرگھاس کی پتیاں گنے گا اور دوسرا اپنے لیے یہ منتخب کرے کہ وہ مخصوص علاقے میں منشیات کا خاتمہ کرے گا تو کوئی بنیاد نہیں بنتی کہ ہم ایک تصور خیر کو دوسرے کے تصور خیر پر برتری دیں۔
اگر ہم روشن خیالی کے اس مفروضے کو مان لیں کہ تمام تصورات خیر کی یکساں قدر ہے تو اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ تمام تصورات خیر لایعنی ہیں۔ اگر میں یہ کہوں کہ مرا کوئی بھی نام ہوسکتا ہے تو پھر میرے مخصوص نام جاوید انصاری کی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی۔ مغرب میں خیر کا یہ تصور رہ جاتا ہے کہ آپ وسائل میں ’’اضافہ محض‘‘ کرتے چلے جائیں۔ جس کے نتیجے میں آپ جو چاہنا چاہ سکیں اور اس کو حاصل کرسکیں۔
ترقی: تحریک تنویر کی تیسری اساسی قدر ’’ترقی‘‘ ہے۔ سرمائے کی بڑھوتری میں ترقی۔ کیونکہ اکیلی وہ چیز جس کے نتیجے میں جو چاہنا چاہوں چاہ سکتا ہوں۔ وہ سرمایہ ہے اس لیے کہ اگر میرے پاس سرمایہ ہوگا تو مسجد بھی بنا سکتا ہوں، شراب خانہ اور جواخانہ بھی۔ نماز پڑھنے بھی جاسکتا ہوں، شراب پینے بھی اور جوا کھیلنے بھی۔ اس لیے خیر کا مطلب ’’سرمایہ کی بڑھوتری محض‘‘ ہے۔ مغربی تہذیب میں بظاہر اس بات کی آزادی ہے کہ انفرادی زندگی میں تو خیر کا کوئی تصور اپنایا جاسکتا ہے اور اسے مسلسل بدلا بھی جاسکتا ہے۔ گویا انفرادی زندگی میں جو بھی خیر ہوگا وہ (Trivial) اور مہمل ہوگا۔ لیکن پبلک آرڈر کی تعمیر وتخلیق ’’سرمایہ کی بڑھوتری‘‘ کے اصول پر ہوگی۔ اس لیے انفرادی زندگی میں تو انسان مساوی القدر ہیں لیکن پبلک لائف میں ’’درجہ بندی‘‘ موجود ہے اور جو سرمایہ کی بڑھوتری میں زیادہ معاون ہوگا، اس کی قدر زیادہ ہوگی جس کے پاس ارتکاز سرمایہ زیادہ ہوگا، مارکیٹ میں وہی برتر تصور ہوگا۔
مغربی تہذیب کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو بڑھوتری میں ضم کردے۔ وہ سرمائے کی مکمل غلامی اختیار کرے۔ مغرب کا یہ ’’تصور‘‘ دراصل ’’شرعظیم‘‘ ہے۔ جس کا مطلب یہی ہے کہ انسان اللہ سے بغاوت کرے اور اعلان کرے کہ ’’اناربکم الاعلیٰ‘‘ اور یہ کہ انسان کی زندگی کا مقصد اپنی خدائی کی سلطنتوں اور وسعتوں میں مستقل اضافہ کرتے چلے جانا ہے۔ اس لیے ہم کہتے ہیں کہ روشن خیال اعتدال پسندی کوئی بے ضرر چیز یا غیرجانبدار (Neutral) چیز نہیں ہے۔ بلکہ اسلامی اقدار کے لیے زہرقاتل چیز ہے اور اس کا تصور خیرخالصتاً شر ہے۔
ان تصورات کو دنیا پر لاگو کرنے کے لیے اور ان کے نفاذ کے لیے جو ہتھیار اور حکمت عملی استعمال کی گئی ہے وہ سوشل سائنسز کے ذریعے فروغ کی کی ہے۔ سوشل سائنسز تحریک تنویر کے فلسفے سے مربوط ہیں اور ان کا مقصد مغربی تہذیب کی انہی قدروں کا فروغ ہے۔ اس لیے کہ اگر ہم معاشیات کو بطور ایک علم کے قبول کرلیں تو یہ ہو نہیں سکتا کہ ہم اس تصور انسان، تصور کائنات اور تصور عقلیت کو قبول نہ کریں کہ جو معاشیات کے بنیادی مفروضات فراہم کرتے ہیں۔ ہمارے اسلامی معیشت دانوں کی بنیادی کمزوری یہی ہے کہ مغربی فلسفے کو جو کہ علم معاشیات کے پیچھے ہے ان کو فطری تصور کرتے ہیں۔ اور سمجھتے ہیں کہ اس کے علاوہ کوئی دوسرا تصور عقل کے مطابق نہیں ہوسکتا۔اس لیے ہم معاشیات کو اسلامی بناسکتے ہیں۔ اس وقت روشن خیال اعتدال پسندی نے علماء کے اندر درآنے کا جوطریقہ اختیار کیا ہے۔ وہ سوشل سائنسز کی اسلام کاری (Islamization of Social Science) ہے۔ عیسائیت کے رد سے الحاد کو فروغ حاصل ہو ااور مغربی تہذیب کو فکر اور عقل کے تقاضے کے طور پر قبول کرلیا گیا۔ اس طرح کی کوشش ہمارے یہاں بھی ہے کہ سوشل سائنسز کی اسلام کاری کے نتیجے میں مغربی فلسفے کو قابل قبول بنایا جائے۔ اس لیے کہ یونانی فلسفے کو اسلامیانے کی جو کوشش معتزلہ نے کی اسے امام غزالی شکست دے چکے تھے اور ۱۸ ویں صدی میں یورپ میں جو تحریک کامیاب ہوگئی اس سے چھ سو سال پہلے امام غزالی مسلم دنیا میں اسے شکست دے چکے تھے۔ تجربیت و تفکر کا چرچا مسلم دنیا میں سات سو سال پہلے ہوا مگر امام غزالی، امام اشعری اور راسخ العقیدہ علماء علوم اسلامی کی بنیاد پر اس تحریک کو شکست دے چکے تھے۔
جب روشن خیال اعتدال پسندی کی بات کی جاتی ہے تو دراصل اس فکر اور سائنٹفک میتھوڈولوجی کو اپنانے کی بات کی جاتی ہے جس کے مابعدالطبیعاتی مفروضات اور فلسفے کی کوئی توجیہہ اسلامی تناظر میں اب بیان نہیں کی جاسکتی۔ کوئی اسلامی دلیل نہیں دی جاسکتی کہ انسان قائم بالذات ہے اور یہ ہمارے علمائے کرام کا کارنامہ ہے۔
سوشل سائنسز کی اسلام کاری کا یہ پروجیکٹ جو امریکا میں شروع ہوا اور شروع سے ہی امریکا کے پیسوں سے چل رہا ہے اس میں بنیادی کردار شاہ فیصل مرحوم نے ادا کیا، اس وقت ہمارے ملک میں کوشش ہو رہی ہے کہ مغرب کے بنیادی مفروضات ہیں کسی طریقے سے ان سے توجہ ہٹا دی جائے اور مغرب نے جو طریقہ مذہب کو ہٹا کے الحادی نظام زندگی کے فروغ کا اپنایا ہے۔ وہی طریقہ یہاں بھی اختیار کیا جائے۔ استعمار کو یہ امید ہے کہ آخر جب عیسائیت نے ’’تبدیلی علمیت‘‘ کا مقابلہ نہیں کیا اور اس کے لیے عیسائیت میں کوئی تحریک مزاحمت نہ چلی تو اسلامی تہذیب بھی اس کا مقابلہ نہیں کر پائے گی۔ ہر جگہ عیسائیت نے استعمار کے جزلاینفک کے طور پر اس کو سپورٹ کیا۔ لاطینی امریکا میں، ریڈانڈینز کے قتل میں، فلپائن، افریقہ سب جگہ وہ استعمار کی شریک جرم رہی ہے۔ بنیادی طور پر یروشلم کی عیسائی فکر کو بالکل تج دیا گیا اور عیسائیت سے بالکل نکال کر پھینک دیا۔ عیسائیت نے اپنا مفاد اس میں تلاش کیا اور استعمار سے سمجھوتہ کرلیا اور صرف اس پر اکتفاء کرلیا کہ کچھ عیسائی علامتیں محفوظ رہیں اور بس۔ ہمارے دشمن اسلام کو کبھی اس طرح بنا دینا چاہتے ہیں کہ وہ محض چند علامتوں تک محدود ہو کر رہ جائے۔ وہ یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ اسلام کوئی نظام زندگی نہیں بلکہ محض ایک رویہ اور کیفیت کا نام ہے۔
’’اسلامی جمہوریت‘‘ اور ’’اسلامی بینکاری‘‘ کی باتیں بھی اسی پس منظر میں کی جاتی ہیں۔ سرمایہ دارانہ ٹیکنالوجی کو اسی ضمن میں جوازفراہم کیا جاتا ہے۔ سائنس کے متعلق تو یہ بات بہت عام ہے کہ سائنس اور اسلام کا بہت قریبی تعلق ہے، بلکہ یہ تو اسلام اور اسپین کے مسلمانوں سے ہی لی گئی ہے۔ سوشل سائنسز کی اسلام کاری کی بات مختلف حلقوں میں زور وشور سے کی جاتی ہے کہ جب عیسائی علماء الحاد کے غلبہ پر راضی ہوگئے۔ انہوں نے سوشل سائنسز کو قبول کرلیا تو مسلمان علماء بھی اس پر راضی ہوجائیں گے۔
مسلمان علماء بھی اس بات کو قبول کرلیں گے کہ اسلام محض علامتی طور پر محفوظ ہو۔ اور دوسری طرف آزادی، مساوات اور ترقی بھی جاری رہے گی، مساجد اور ان کی آرائش بھی برقرار رہے۔ اور دین اسلام عیسائیت کی طرح محض ’نفسیاتی سکون‘‘ کے لیے استعمال ہوتا رہے۔ سوشل سائنسز کی اسلام کاری کا یہ پروجیکٹ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے تحت بہت زور وشور سے جاری ہے اس پروجیکٹ کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ اسلام کو بطور نظام کے نہیں بلکہ ایک رویہ اور کیفیت کے طور پر متعارف کروایا جائے۔
ہائبرماس جو جرمن فلسفی ہے اور آج کی دنیا کا سب سے بڑا (Rationalist) معقولی فلسفی ہے۔ وہ ایران کا مستقل دورہ کرتا رہتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اسلام ایک Life world ہے، یہ کوئی نظام نہیں ہے اس لیے مسلمان یہ بات کہنا چھوڑ دیں کہ شریعت کا نفاذ ایک لازمی امر اور ضروری چیز ہے اور مغرب سے ہمارا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ مسلمان جہاد کو چھوڑ دیں وہ کہتا ہے کہ مغربی تہذیب کے اندر اتنی گنجائش موجود ہے کہ اس کے اندر مسلمانوں کی اسلامیت بھی فروغ پاتی رہے۔
تاریخی لحاظ سے دیکھیں تو ۱۹۲۰ء میں جمعیت علماء ہند کے قیام کے بعد سے ہم نے دستوریت کے اندر اپنی پناہ دیکھی، ۱۹۲۰ء سے پہلے کی جدوجہد جو حضرت شیخ الہند مولانا محمد قاسم نانوتوی اور حضرت قطب العالم مہاجر مکی رحمہم اللہ کی وہ جہاد کی جدوجہد تھی۔ وہ اس بات کی جدوجہد تھی کہ ہم انگریز کو بے دخل کردیں گے ہم نے مدرسہ دیوبند قائم کیا کہ وہاں مجاہدین تیار کریں گے۔ ۱۹۲۰ء کے بعد یہ سب چیزیں رد ہوگئیں۔ ہم نے حقوق مانگنا شروع کردیے۔ ہمارے کچھ علماء مسلم لیگ اور کچھ کانگریس میں چلے گئے ؂
یہاں تک ہم گھیر کے لے آئے ہیں باتوں میں
اور کھل جائیں گے دو چار ملاقاتوں میں
اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ مغربی تہذیب وتمدن کی فکر اور اس کے نظام پر آپ سے صاد کرالیں اور آپ کہہ دیں کہ اسلامی معاشیات، اسلامی سیاسیات اور اسلامی عمرانیات کا ہماری فکر میں ایک مقام ہے اور نفیسات سے بھی اسلام کا ایک خاص تعلق ہے۔ جب آپ نے ایک دفعہ یہ کردیا تو مسلمانوں کو یہ بات آسانی سے سمجھائی جاسکتی ہے کہ ترقی (Progrees) کا تصور اسلام کے عین مطابق ہے۔ اور سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ رہتے ہوئے بھی ہم اپنی انفرادی زندگی میں اسلامیت کو فروغ دے سکتے ہیں۔
لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ دشمن کی یہ حکمت عملی ان شاء اللہ بالکل کامیاب نہیں ہوگی اور یقیناًہم روشن خیال اور اعتدال پسندی کو شکست فاش دیں گے۔ یہ محض میری رائے نہیں ہے بلکہ ایک اٹل حقیقت ہے۔ اس لیے کہ مغرب آج ایک شکست خوردہ، پسماندہ، زوال پذیر اور نظام زندگی کی طرف دعوت دے رہا ہے۔ اور صرف وہ لوگ جو مغرب کو اچھی طرح سے نہیں جانتے اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ مغرب طاقتور ہے اور اس کے لیے ہمارا وہی رویہ مناسب ہے جو ہم نے انیسویں صدی میں اختیار کیا تھا۔ مغرب کے زوال کی تین ٹھوس دلیلیں ہیں جو ناقابل رد ہیں:
(۱) سب سے پہلے تو مغربی علمیت نے جو مفروضات قائم کیے تھے خود مغربی تہذیب کے اندر آج غالب رجحان ان کے رد کی طرف ہے۔ پس جدیدیت (Post modernism) کی تحریک نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ماڈرنزم نے جو دعوے کیے تھے وہ سب جھوٹے ہیں۔ لہٰذ علمی سطح پر ماڈرنزم کو مغرب نے خود ہی رد کردیا ہے۔ مغرب نے یہ رد کر دیا ہے کہ عقلی بنیادوں پر یہ بات ثابت کی جاسکتی ہے کہ آزادی، مساوات اور ترقی کسی طرح سے تہذیب کی صف بندی قائم کرنے کے لیے جائز بنیادیں ہوسکتی ہیں۔ لہٰذا جو نظام زندگی مغرب اس وقت ہمارے اوپر مسلط کیے ہوئے ہے محض جبر کی بنیاد پر ہے۔ کسی دوسرے طریقے سے وہ مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کرسکتا۔ جہاں بھی جمہوریت آئی ہے اور آئے گی وہ امریکی شمشیر وسنان تلے ہی آئے گی۔ جہاں بھی جمہوریت کے نتیجہ میں دستوری ریاست قائم ہوگی وہ امریکی فوج کے تسلط کی بنیاد پر ہوگی۔ گویا اب مغربی تہذیب کا دنیا میں پھیلنا خصوصاً اسلامی ممالک میں امریکی قوت اور جبر کی بنیاد پر ہی ہے۔
(۲) مغربی تہذیب کا دوسرا المیہ یہ ہے کہ مغرب خود اس قابل نہیں رہا کہ اپنے عالمی نظام کو قائم رکھ سکے۔ اس وقت پوری دنیا کے اندر امریکیوں کی تعداد محض تین فیصد ہے۔ پورا مغرب دنیا کی کل آبادی کا محض چودہ فیصد ہے۔ ۲۰۵۰ء تک یہ آبادی محض نوفیصد رہ جائے گی۔ اس لیے کہ جو نظام زندگی انہوں نے اپنایا ہے اس سے وہ نسلی وقومی خودکشی کر رہے ہیں۔ ابھی بیجنگ ٹائم میں ایک کارٹون چھپا ہے جس کے پنجرے میں چمپینزی تھے اور دوسرے پنجرے میں ایک امریکی کو دکھایا گیا ہے اور ایک چینی اپنے بچوں سے کہہ رہا ہے ’’دیکھو ایک سو سال پہلے یہ پوری دنیا پر حکمرانی کرتا تھا۔‘‘
یہ عددی زوال اس نظام زندگی کی وجہ سے ہے جو انہوں نے اختیار کر رکھا ہے اور اس عددی زوال کو نہیں روکا جاسکتا جب تک کہ اس نظام کو بدلانہ جائے لہٰذا جو آیندہ صدی ہے لازماً امریکہ کے زوال کی صدی ہے۔
(۳) تیسری کمزوری وہ معاشی تضادات ہیں جس کی بنا پر نظام سرمایہ داری کو آگے بڑھانا ناممکن ہے۔ اس کی تفصیل کرائسز تھیوری (Crises theory) ہے۔ یہ تضادات ناقابل حل ہیں۔ کیونکہ جن بنیادوں پر فنائنشل مارکیٹ میں قدر متعین ہو رہی ہے ان بنیادوں پر اس کا تعلق پروڈکشن سیکٹر کے معاشی عمل سے مستقل قائم رکھنا ناممکن بات ہے۔ اس لیے جو بھی معاشی پالیسیاں اختیار کی جارہی ہیں وہ ناکام ہیں اور کسی وقت بھی بڑا کریش ہوسکتا ہے۔
گویا کہ عسکری صف بندی ایسی نہیں ہے کہ جوناقابل شکست ہو۔ عراقی اور افغانی مجاہدین نے یہ ثابت کردیا ہے کہ مغرب کی عسکری برتری کے باوجود جہاد ممکن ہے اور اسے بزورِ شمشیر اپنا تسلط قائم رکھنا ممکن نہیں۔ اسی طرح علمی غلبہ بھی ناقابل تسخیر نہیں ہے اس لیے کہ علمی سطح پر تو خود وہ اپنی پوزیشن سے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔ معاشی سطح پر بھی کوئی ایسی صف بندی موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ ملٹی نیشنل کمپنیوں اور انٹرنیشنل فنائنس کے تسلط کو برقرار رکھ سکیں اور چین نے تو یہ ثابت کردیا ہے کہ اس کو چیلنج بھی کیا جاسکتا ہے۔
اب کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہم مغرب کے مقابلے میں ایک معذرت خواہانہ مرعوبانہ اور مدافعانہ حکمت عملی اختیار کریں مجاہدین افغانستان، عراق اور فلسطین نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ استعمار کو شکست دیناممکن ہے۔ اب استعمار کی بہت بڑی حکمت عملی یہ ہے کہ مجاہدین کو علماء کی سرپرستی سے محروم کردے۔ اور علماء بات کرنے لگیں اعتدال پسندی کی، روشن خیالی کی اور مغربی دنیا سے ڈائیلاگ کی اور یہ کہنے لگیں کہ مجاہدین تو بے عقل اور بے وقوف ہیں، یہ اسلام کو ختم کرنے والے لوگ ہیں، یہ اسلام کے اصل نمایندے نہیں ہیں اصلی نمایندے تو مہاتیر محمد اور شوکت عزیز ہیں۔
یہ محض ان کی امیدیں ہیں اور یہ انیسویں صدی کے حالات نہیں کہ جب تحریکات اسلامی کو شکست ہوگئی۔ آج تو یہ چھوٹے سے ملک چیچنیا تک میں بھی ممکن نہیں جو آبادی اور رقبے کے لحاظ سے بہت کم ہے۔ عراق اور افغانستان تو بہت مشکل اہداف ہیں ۔ میں حاکم بدہن یہ کہنا چاہوں گا کہ عراق میں ہمیں شکست ہوسکتی ہے لیکن وہ محض امریکی قوت کی وجہ سے نہیں بلکہ شیعہ وسنی جھگڑے کی وجہ سے ہوسکتی ہے۔ افغانستان میں بھی شکست کی وجہ یہی تھی کہ ایران کے ساتھ ہمارا رابطہ موجود نہیں تھا۔ شکست ہم کھاسکتے ہیں۔ لیکن دشمن سے نہیں بلکہ اپنے اندر سے اس لیے استعمار چاہتا ہے کہ ہم آپس کی لڑائی کو جہاد سمجھنے لگیں اور اعتدال پسند روشن خیالوں کو اپنا حلیف سمجھنے لگیں۔ بریلوی اور دیوبندی آپس میں فروعات پر تو نزاع رکھیں لیکن روشن خیال اعتدال پسندوں کے نظام کے اندر رہ کر ان کے ساتھ کام کرنے کی کوشش کریں۔ آج ہم اتحاد اور جہاد سے ہی روشن خیال اعتدال پسندی کا مقابلہ کرسکتے ہیں