انسانیت پرستی کیاہے؟

انسانیت پرستی کی فکر اور اس کے ماتحت علوم انسانی (معاشرتی ومعاشی علوم) کا تانابانا یونانی فکر سے نکلتا ہے جیسا کہ پانچویں صدی قبل مسیح کا یونانی مفکر ’’پروتاغور‘‘ کہتا ہے:
’’انسان کائنات کی تمام اشیاء کا پیمانہ ہے۔‘‘
یعنی اس کائنات میں مقصود بالذات ہستی انسان ہے اور انسان اسی کائنات کی ہر شئے کو اپنی مرضی Decision اور منشاء Will کے تابع کرنا چاہتا ہے۔ انسانیت پرستوں کے نزدیک دراصل انسان کی اشتہاء اور خواہش ہی اس کا مقصود ہے اور جو کچھ اس کی خواہش ومنشاء کے مطابق ہے وہ سب کچھ خیر ہے۔ دراصل مغربی نظریہ انسان پرستی نے شہ کے حصول میں ہر لمحہ اس جیسا کوئی دوسرا انسان مذاحم ہے لہٰذاوہ شہ کے حصول میں اس شخص سے بھی بطور ایک شہ (Agent ) کے برتاؤ کرتا ہے اور وہ زندگی کے ہر موڑ پر وجود لغیریہ (Being other than itself)  کے واہمہ میں مبتلا رہتا ہے۔ اسی لیے وہ ہر لمحہ مظاہر اشیاء کی فسوں کاری کا شکار رہتا ہے۔ دراصل انسانیت پرستی Humanism مغرب کی کاروباری ذہنیت کی آئینہ دار ہے جس کی نمونوآبادی فکر سے ہوئی اور اس کی جڑ بنیاد ان نوآبادیاتی علاقوں سے چھینی گئی دولت پر رکھی گئی۔ اس مال مفت نے مغربی انسان کی اشتہاء کےلئے جلتی پر تیل کا کام کیا اور اس کو روایتی معاشرہ وتہذیب (عیسائیت) کے خلاف معاشرتی، معاشی اور سیاسی طور پر بغاوت پر اکسایا اور انسانی زندگی میں انقلاب عظیم برپا کرکے اس کو سرتا پا لذات پرست، قوم پرست، سرمایہ دار، لبرل اور سیکولر بنا دیا۔
چودھویں صدی سے انسانیت پرستی کو عروج حاصل ہوا اور خدا پرستی کی جگہ انسانیت پرستی نے لی اور اس فکر نے خدا اور کتاب (بائبل) سے رشتہ کاٹ کر نئے سرے سے رومی اور یونانی ادبیات وفلسفہ سے مغرب کا رشتہ جوڑا یہ تحریک دراصل مذہب اور عیسائیت سے بغاوت کی تحریک تھی۔ مذہب وعیسائیت کو ترک کرکے رومی اور یونانی فلسفہ وفکر کی روشنی میں وضع کیے گئے اور جن کی روشنی میں سائنس اور کاروبار صنعت Trade & Industry کو ان علوم کی روشنی میں انسانی ضروریات، خواہشات واشتہاء سے ہم آہنگ کیا جاسکے۔ اس ضمن میں ہائڈیگر، ولیم جیمز، جان دیوی اور شلر کی کوششیں قابل ذکر ہیں۔ انسان پرستی یعنی Humanism کو بطور اصطلاح پہلی بار ’’شلر‘‘ ہی نے استعمال کیا تھا۔ انسانیت پرستی میں خاص طور پر اس دنیا میں زور دیا جاتا ہے جوبراہ راست انسانی تجربہ اور مشاہدے میں آچکی ہے۔
انسانیت پرستی کی اصل اور خصوصی اقدار Values نشاۃ الثانیہ Renaissance کے عہد سے وابستہ ہیں ان کی یہ اصلیت اور خصوصیت کسی اور عہد اور مقام Time & Space کے لیے موزوں نہیں۔ نشاۃ الثانیہ کے فلسفۂ انسان پرستی کا تعلق یونانی اور رومی فکر سے اس حد تک وابستہ ہے کہ یونانی وردی فکر بلاشبہ عقلی Rational اور غایاتی Telos پر مبنی تھا۔ یہ لوگ عقلی وجدان پر بھروسہ کرتے تھے۔ لیکن موجودہ انسانیت پرستی کی فکر کلیتاً حواس وادراک پر مبنی ہے۔ صرف Consumption لذت پرستی، افادۂ پرستی، انفرادیت پسندی کی دلدادہ۔ یونانی وردی فکر کے برخلاف انسانیت پرست عقل ووجدان کو حواس وادراک کا مماثل خیال کرتے ہیں۔ رومی اور یونانی فکر کے اصول ایک خاص روحانی (Moral) اصول پر قائم اور مقرر تھے لیکن موجودہ انسانیت پرستی کے فکری اصول مفروضات Axiome ، قیاسات Proposition پر قائم ہیں۔ دراصل یہی وہ بنیادی اصول ہیں جن پر مغربی طرز فکر کی اساس رکھی گئی ہے۔
رومی اور یونانی فکر میں قدرت یا فطرت کو ایک مقصد سمجھا جاتا تھا لیکن موجودہ زمانے میں میکانیت ہی کو سب کچھ سمجھا جاتا ہے۔ گوکہ مغرب کی انسانیت پرست تہذیب اپنا تعلق ماضی میں رومی اور یونانی تہذیب سے وابستہ کرتی ہے اور اس تحریک کو عالمگیر بنانے کی پیہم کوششوں میں مصروف ہے لیکن رومی اور یونانی تہذیب نے اپنے مقام سے نکل کر کبھی بھی اپنے نظریات واقدار کو عالمگیر بنانے کی سرمایہ کے زیر سایہ کوشش نہیں کی۔ انسانیت پرست اقدار کو عالمگیریت عطا کرنے کی یہ کوشش صرف نشاۃ الثانیہ کے عہد سے ہوکر سرمایہ داری کے عہد کی ایک کہانی ہے۔ جو بادشاہت سے جمہوریت تک دربار سے منڈی تک شیطان پرستی سے نفس پرستی تک زرپرستی سے سرمایہ پرستی اور نوع وقوم پرستی Nationalism سے خودپسندی اور مادر پدر، آزادی Freedom تک پھیلی ہوئی ہے۔

انسانیت پرستی کی ایک اجمالی تفہیم:

اگر انسان پرستی کی تعریف انسانیت پرستی کے لٹریچر کی مدد سے بیان کرنے کی کوشش کی جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ انسانیت پرستی Humanism کا مفہوم دنیوی بمقابلہ دینی، روحانی بمقابلہ اخلاقی، کشفی بمقابلہ عقلی، علمی بمقابلہ عملی کے ذریعے طے پاتا ہے۔ انسانیت پرستی کا مفہوم آزادی اور انتخاب کے ساتھ لازم وملزوم کی حیثیت رکھتا ہے ان ہی دونوں صلاحیتوں کی بنا پر وہ اپنی الوہیت کا دعویٰ کرتا ہے۔ یہی آزادی اور انتخاب کی صلاحیت انسان کے جذبات اور احساسات کو برانگیختہ کرکے اس کو خدا بیزاری پر ابھارتی ہے۔ تاریخی طور پر انسانیت پرستی کا مسلک اس جدوجہد کا غماز ہے کہ انسان خود اپنی الوہیت خصوصی کا مقصود یہ ہے کہ انسان کو اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے آپ کو ایک مقصود کل کی شکل میں پیش کیاجانا چاہیے تاکہ انسان اپنے دعویٰ میں حقیقت کا روپ بھرسکے اور یہ خیال کیا جانے لگے کہ اس کی ہر حرکت نیکی وفلاح کا نتیجہ ہے اور وہ جو بھی اعمال انجام دیتا ہے وہ فلاح ہی فلاح کا نتیجہ ہے اور وہ جوبھی اعمال انجام دیتا ہے وہ فلاح ہی فلاح ہے اور اس کی یہ تمام خوبیاں باہم مربوط ہیں اور اس کی الوہیت حق کے نصب العین کی مختلف کڑیاں ہیں وہ چاہے تو روشنی میں سایہ اور سایہ میں روشنی پید اکرے اور اس دنیا کی ہماہمی انسانی مہاپرش ہے اور ایک عظیم ہستی اس لیے اس کا ہر عمل مسرت Pleasure کے حصول کا پیش خیمہ ہے۔
انسانیت کا فلسفہ اقدار Values کے بجائے ضروریات Needs پر زور دیتا ہے نیز محبت Love کے بجائے مسابقت Competetion کو اہم قرار دیتا ہے تاکہ انسان اپنی تمام تر باطل جبلتوں کو بروئے کار لاکر الوہیت کا حق دار بن جائے اور ’’لاالٰہ الا انسان‘‘ کہنے کا مکلف بن جائے۔ وہ اپنی اسی روش اور صلاحیتوں کی بنا پر اپنے نفسی نظریات واستحقاق کو قائم بالذات حیثیت دے کر رد یا پسند کرنے کا اختیار رکھتا ہے یعنی وہ جو چاہے سو چاہے۔ انسانیت پرستوں کے نزدیک انسان ہی وہ ہستی ہے جو اپنے حصول مقصد لاقانونیت وابدیت کی طرف گامزن ہے۔ اس حصول مقصد کے تحت وہ ایک ایسے مقام پر کھڑا ہے جہاں سے وہ اپنی اس ابدیت والوہیت کے اختیار کی بنا پر دائرے کے تمام حصول اور تمام افقوں پر یکساں نظر رکھ سکتا ہے۔ یہ تمام دائرے اور افق صرف اس کے حال سے وابستہ ہوتے ہیں اسی لیے ہر انسانیت پرست ابن الوقت ہوتا ہے اس کی ہر کوشش حال کو مزین کرنے پر صرف ہوتی ہے، اسی لیے اس نصب العین ہم عصر زندگی سے وابستہ ہوتا ہے۔ وہ آنے والے حال یعنی جنت اور زندگی بعد کا کوئی ادراک کر ہی نہیں سکتا۔ وہ تو صرف عمرانی علوم کے ذریعہ دنیا کا مشاہدہ کرتا ہے اور اسے اپنے حسب منشاء وحسب حال بنانا چاہتا ہے۔ دنیا اور اس کے لوازمات کو اپنی خواہشات اور مقاصد کے حصول کا ذریعہ سمجھتا ہے۔ اسی جذبے کے تحت وہ تسخیر کائنات کرنا چاہتا ہے۔ اسی جذبے کے تحت وہ تسخیر کائنات کرنا چاہتا ہے۔ اسی جذبے کو ہوا دے کر انسان کو مافوق الفطری انسان یعنی Superman بنایاجاتا ہے۔ اسی لیے انسانیت پرستی مذہب اور خدا کے خلاف احتجاج کا نام ہے۔ یہ ان خیالات کا پرتو ہے جن کو موجودہ زمانے میں Modrn World میں کافی اہمیت حاصل ہے۔ Moderinisation اور صنعتی انقلاب Industrial Revolution حضرت انسان کو اتھاہ تاریکی اور انتہائی کرب میں مبتلا کرچکی ہے۔ اس صنعتی انقلاب نے فکر اخروی کی جگہ دولت اور مادی اشیاء کے حصول کی خواہش کو برانگیختہ کیا۔ انسانیت پرستی کے ساتھ اشتراکیت کے تال میل نے دہریت اور مادیت کو مزید ترقی دی۔ صنعتی انقلاب کے زیرسایہ مالیاتی انقلاب نے ایک امربیل کے طور پر آفرینش حاصل کی اور اس مالیاتی انقلاب نے بینک، مالیاتی اداروں، ملٹی نیشنلز کی شکل میں الوہیت نفس کی خواہش کوووٹ اور نوٹ (زر) کی شکل میں مجسم کیا، جس کے تحت انسان اتکاز سرمایہ (Capital Accmunlation ) کو الوہیت کے حصول اور ازلی زندگی کی خواہش کے نتیجہ کا پیش خیمہ سمجھنے لگا۔ ان تمام وجوہ کی بنا پر عہد حاضر کا تمام زور تخیل وفکر خواہ انسانیت پرستی کی کسی بھی شکل حقوق انسانی، حقوق حقوق طفلاں، گرین پیس، ماحولیات وغیرہ، میں ہو وہ سب کا سب اتکاز سرمایہ کے عمل پر مرکوز ہے دراصل ارتکاز سرمایہ کی خباثت کو چھپانے کے لیے ہی ہیومن رائٹ کے مختلف طرائق، پیرائے اور اسالیب وضع کیے گئے ہیں۔

انسانیت پرستی اور لافانیت کی امید: (Hummanism & Eternality)

انسانیت پرست کہتے ہیں کہ لاقانونیت کی خواہش کا مسئلہ اصل انسانی مسئلہ ہے۔ لاقانیت کی اس خواہش کو وہ اپنی Metaphysics مابعدالطبیعات (الٰہیات) کہتے ہیں۔ لافانیت Elenality کی اس طرح کی خواہش کی تکمیل کے لیے انسان نے اب تک غیرمعمولی کارنامے انجام دئیے ہیں۔ لافانیت Etenalaty کی اس طرح کی خواہش کا اظہار انسانی تاریخ کے مصدقہ ریکارڈ میں کہیں نہیں ملتا۔ لافانیت کی یہ خواہش خاصہ ہے موجودہ جدید دور نے انسان کی خواہش الوہیت کا جو مغرب ہے موجودہ جدید دور کے انسان کی خواہش الوہیت کا جو صرف مغرب کے باطل مادی فکر کا کارنامہ ہے۔ آج کا مغربی انسان لاقانونیت کی زبردست خواہش رکھتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ انسانیت کی تاریخ اس حیاتیاتی Biological حادثہ سے ماورا ہے جسے موت کہاجاتا ہے۔ لیکن انسان مسلسل ایسی سرگرمیوں کا متلاشی ہے جو اس کی حیاتی زندگی کو طویل سے طویل تر کرسکے۔ اس لیے کہ میں جولافانیت کے حصول کے لیے جو بھی کام کرنا چاہتا ہون مجھے اس کے لیے وقت درکار ہے۔ وہ وقت نہیں جواب تک ختم ہوچکا ہے بلکہ وہ وقت آنے والا ہے۔ چنانچہ میں اس عبوری وقفہ میں اپنی صلاحیتوں کو لافانیت کے حصول کے لیے صرف کرتا ہوں کسی کام یا کسی شوق کو انجام دینے کے لیے جن صلاحیتوں، قابلیتوں اور قوتوں کی ضرورت ہے انہیں برقرار رکھنا ہی زندگی ہے ان صلاحیتوں، قابلیتوں اور قوتوں کا صحیح اظہار ارتکاز سرمایہ میں پنہاں ہیں۔ ارتکاز سرمایہ ہی وہ شکتی یا مخفی قوت ہے جو مجھے اور میری صلاحیتوں کو لافانیت عطا کرتی ہے۔ یہی ارادہ کی وہ آزادی ہے۔ یہی وہ کام ہے جو اس لمحے سے ماورا ہے جسے موت کہتے ہیں۔ اس مفہوم کے اعتبار سے جینا مرنے سے انکار کرنا ہے۔ ارتکاز سرمایہ Capital Accumulation اور بچت Saving ہی میری کل آنے والی دلچسپیوں کی امید برقرار رکھتی ہے اور اس سلسلہ لامتناہی کو برقرار رکھتی ہے جس کو زندگی کہتے ہیں۔ یہی جینے کا مقصد اور جینے کی آروزو ہے جو تمام جزوی خواہشوں کی بدیہی حقیقت ہے جس نے ہر خواہش کو اتکاز سرمایہ کی خواہش میں مجتمع کردیا ہے۔ انسانیت پرستوں کے نزدیک موت ایک عالمگیر دشمن ہے س لیے اس خوفناک مقہور کے خلاف صف آراء ہونا انسان کو یہ امید دلاتا ہے کہ وہ ایک دن موت پر غالب آجائے گا اور اپنی الوہیت کے مقصد کو تسخیر کائنات کی شکل میں مافوق الفطری انسان بن کر حاصل کرلے گا۔ انسانیت پرستوں کے نزدیک لافانیت کا مطلب ہے کہ زندگی کا کھاتہ کبھی بند نہیں ہوتا، دیوالیہ پن کی نوبت کبھی نہیں آتی، کوئی ناقابل تلافی نقصان نہیں ہوتا۔ لافانیت کی خواہش انسا ن کو مستقبل کی دنیا میں لے جاتی ہے۔ جہاں حال سے زیادہ کامیابی ومسرت ذاتی کا حصول ممکن ہے۔ اس لیے ہر انسان کو اپنی موجودہ زندگی کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہ کوشش اس وقت مسرت ولافانیت سے سرشار ہوگی جب اس کے پاس زیادہ سے زیادہ سرمایہ ہوگا۔
دوسری طرف حیات بعد الموت کی دنیا مذہبی تخیل کی دنیا ہے ایک ایسی فرضی دنیا جس تک رسائی اس دنیا میں ممکن نہیں۔

نعوذباﷲ من ذالک ھذا الاعتقاد الفاسد:

’’اے بار خدا ہم مسلمانوں کو محفوظ فرما ہر باطل بھٹکی ہوئی گمراہی سے۔‘‘
مغربی تہذیب اور مغربی فکر سے مراد وہ طرز زندگی اور وہ نظام ہے جو قدیم یونان سے شروع ہوکر موجودہ جدیدیت (ماڈرن ازم) اور پس جدیدیت (پوسٹ ماڈرن ازم) میں آکر اپنے انجام کو پہنچا ہے۔ مغربی فکر کی اساس ’’عقل‘‘ کی برتری پر رکھی گئی ہے عقل ہی سب کچھ ہے اور یہی الٰہ ہی بن چکی ہے، مغرب اس کی پرستش میں مصروف ہے۔ لہٰذا صداقت صرف وہی ہے جسے ہم خواس خمسہ سے معلوم کرسکیں۔ خد ااور روح کے تصورات کو اسی لیے مغربی علوم سے خارج کردیا گیا کہ وہ حقیقت ہی نہیں جو حواس کی گرفت میں نہ آسکے، جسے عقل محسوس نہ کرسکے اور جو ماورائے عقل ہو لہٰذا مغرب میں ’’حق‘‘ (Right) اور انسان (Human) کو ہر چیز پر فوقیت حاصل ہے اور خیر صرف اس آرزو تمنا اور خواہش کا نام ہے جوکسی انسان کے دل میں مچلتی ہے اور اپنے لیے عمل کا پیرہن تلاش کرتی ہے۔ خواہش نفس الٰہ ہے (جسے قرآن نے شرک سے تعبیر کیا ہے) مغرب کسی مذہب، کسی خدا، کسی اخلاقی قدر، کسی فقہ، کسی شریعت، کسی وحی اور کسی قانون کو نہیں مانتا، وہ انسان کے رب ہونے کا مدعی ہے اور نفس انسانی کو وحی الٰہی بلکہ ’’الٰہ واحد‘‘ تسلیم کرتا ہے اور خواہش نفس کی غلامی کو مقصد زندگی مانتا ہے۔ مغرب کا خیر وشر کا معیار صرف اور صرف نفسانی خواہشات کا حصول ہے۔ اس کے علم کی بنیاد ایمان پر نہیں شک (Doubt) پر کھی گئی ہے اور علم کا واحد مقصد تسخیر کائنات رہ گیا ہے۔ اس تہذیب کا بنیادی المیہ یہ ہے کہ فر د کی پرستش کے باوجود یہ ’’تہذیب فرد کی داخلی کیفیات کا کوئی ادراک نہیں رکھتی۔ یہ تہذیب عرفان ذات سے قاصر تہذیب ہے۔ اس کی دنیا اور اس کا قلب دونوں بے نور ہیں۔ دل کی دنیا کو تاریک کرنے والی یہ تہذیب خدا کی موت کی قائل ہے لہٰذا وہ کسی اخلاقیات کو ماننے پر تیار نہیں ۔ اس تہذیب کی نظر میں فرد کی زندگی کے چار مقاصد ہیں: (1) دولت (2) آمدنی (3) قوت (4) اختیار۔ یہی اقدار مطلق ہیں اور انہیں اضافے کی جدوجہد ہی حاصل زندگی ہے۔ اس تہذیب کا ایک نعرہ ’’مذہبی آزادی بنیادی ہے‘‘ ایک دل فریب نعرہ ہے۔ لبرل ازم کا سب سے نمایاں فلسفی John Rawls اپنی کتاب Political Libreralism میں لکھتا ہے کہ ’’مذہبی آزادی کو لبرل ازم کے لیے خطرہ بننے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، وہ مذہبی نظریات جو لبرل آزادیوں کا انکار کردیں ان کو عملاً کچل دینا اتنا ہی ضروری ہے جتنا امراض کو ختم کرنا ناگزیر ہے۔‘‘
فکر مغرب بندے کو رب مانتی ہے ، وہ الوہیت انسا نی کی قائل ہے جبکہ اسلام عبدیت اور عبادت کا قائل ہے، عبدیت قرب کا اعلیٰ ترین درجہ ہے۔ خاتم المعصومین صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بندے ہونے پر فخر فرمایا اور اسے انسانیت کی معراج قرار دیا ہے۔ مگر مغرب عبد کے بجائے انسان کو رب تسلیم کرتا ہے۔ اسلام میں یہ اللہ کا بندہ ہے، وہاں نفس کا بندہ، بلکہ اپنی ذات میں خود خدا ہے۔ اس فلسفے سے انسانی حقوق اور بنیادی حقوق کے فلسفے اٹھے اور فرائض پس پشت چلے گئے، انسان اور حقوق ہی زندگی کا اصل مقصد بن گئے۔ مغرب کے عالمی نظریہ World View کا محور ومرکز انسانی (Humanities) ہے جبکہ اسلام کا مرکز ومحور خدا  ہے۔ اسلام خدا پرستی کا قائل ہے جبکہ مغرب انسان پرستی کا علمبردار ہے۔