سوشل ڈیمو کریسی کی تاریخ:

سوشل ڈیمو کریسی (Social Democracy) لبرل ازم اور سوشلزم کا ایک ملغوبہ ہے اور سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کا ایک مقبول عام نظریہ ہے۔ اس نظریہ کے بانی انیسویں صدی کے فرانسیسی فلسفی تھے بالخصوص Proudhon اور Fourier۔ فرانس کے بادشاہ Louis Napoleon iii, نے اس نظریہ کی بنیاد پر بہت سی ریاستی پالیسیاں بھی انیسویں صدی میں وضع اور نافذ کیں۔

انیسویں صدی کے آخری چوتھائی حصہ میں یہ نظریہ جرمنی میں بھی عام ہوا اور Marx کی زندگی میں ہی اس کی بنائی ہوئی تنظیم First Communist International  میں ایک مضبوط سوشل ڈیمو کریٹ دھڑا اُبھر کر سامنے آیا جس نے بالآخر اس تنظیم پر قبضہ کرلیا۔ جرمنی کی کیمونسٹ پارٹی اس زمانہ میں دنیا کی سب سے بڑی کیمونسٹ جماعت تھی۔ اس پارٹی پر بھی Social Democrat قابض ہوگئے۔ ان کی قیادت Eduara Bernstein اور Karl Kautsky کررہے تھے۔ روس کی کیمونسٹ جماعت بھی بیسویں صدی کی ابتدا میں دو حصوں میں تقسیم ہوگئی اور سوشل ڈیمو کریٹ Martow کی  قیادت میں اس جماعت کے Memshevik ڈھڑے پر قابض ہوگئے لینن ان کاشدیدترین مخالف تھا۔

انیسویں صدی کے اواخر اور بیسیوں صدی کے اوائل میں برطانیہ، اٹلی، اسپین اور  اسکنڈے نیویں (Scandinavian) ممالک میں طاقت ور سوشل ڈیمو کریٹ جماعتیں قائم ہوئیں پہلی جنگ عظیم کے دور میں تقریباً تمام یورپی ممالک میں سوشل ڈیمو کریٹ جماعتوں نے اپنے ملک کی قوم پرست حکومتوں کا ساتھ دیا اور ١٩١٩ئ- ١٩٤٥ء کے دور میں یہ حکومتوں میں شریک رہیں۔ جرمنی کی نازی (Nazi)   میںبھی سوشل ڈیمو کریٹ پالیسیاں اپناتی تھی اور Hitler اورMussolini خود کو National Socialist  سمجھتے تھے۔

١٩٤٥ء سے ١٩٧٩ء تک پورے مغربی یورپ اور امریکا میں سوشل ڈیمو کریسی غالب حکومتی نظریہ کے طور پر اپنائی گئی۔ اس دور میں جس نظریہ نے سوشل ڈیموکریٹک پالیسیوں کی   توجیہ پیش کی وہ Keynesianism ہے اور Kenynesian پالیسیوں کو ریاستی سطح پر سب سے پہلے امریکی صدرFranklin Roosevelt نے اپنایا۔ ١٩٤٥ء سے ١٩٧٩ء کے دور میں کئی یورپی ممالک میں اور امریکا میں بھی سوشل ڈیموکریٹک حکومتیں قائم ہوئیں۔ یہ دور سرمایہ داری کا زریں دور (Golden age) کہلاتا ہے۔

١٩٧٩ء سے ٢٠٠٧ء تک سوشل ڈیموکریٹ پالیسیاں بتدریج ریاستی سطح پر رد کی گئیںاور امریکا اور کئی یورپی ممالک میں لبرل پالیسیوں کا احیا ہوا۔ ٢٠٠٧ء کے بعد سے یورپ اور امریکا مالیاتی اور ریاستی قرضہ جات کے بحرانوں کا شکارر ہے۔ جس کے نتیجہ میں لبرل اور سوشل ڈیموکریٹ پالیسیوں کی ایک مخلوط تشریح جزوی طور پرظا ہرہورہی ہے۔ معیشت میں ریاستی مداخلت کی نظم ِنوکو ممکن بنانے کی ایسی کوشش ہورہی ہے جو سرمایہ دارانہ عدل کے حصول کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو۔

سوشل ڈیموکریٹک نظریات ایشیا افریقا اور جنوبی امریکا میں بھی ١٩٤٥ء کے بعد بہت مقبول ہوئے۔ یہاںکی قوم پرست حکومتیں… ہندوستان، مصر، انڈونیشیا، ارجنٹینا، ترکی، برازیل وغیرہ۔ عموماً سوشل ڈیموکریٹ پالیسیاں اختیار کرتی رہیں ہیں۔ پاکستان کی سب سے اہم سوشل ڈیموکریٹک جماعت پیپلزپارٹی ہے،گوکہ سوشل ڈیموکریٹک پالیسیاں ایوب خان، مشرف، نواز شریف وغیرہ نے بھی اختیار کی ہیں۔ جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام بھی سوشل ڈیموکریٹک نظریات سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔ جماعت اسلامی کے مفکرین، پروفیسر خورشید احمد، نجات اللہ صدیقی، عمر چھاپرا نے سوشل ڈیموکریسی کی اسلام کا ری کی۔ اسلامک اکنامکس (Islamic Economics) کا مضمون وضع کر کے کی ہے جو آج بیشتر پاکستانی جامعات میں شامل نصاب ہے۔

یورپی کیمونسٹ پارٹیاں بھی سوشل ڈیموکریٹک نظریات سے بے حد متاثر ہوئی ہیں۔ یہ عمل ١٩٧٠ء کی دہائی کے وسط سے شروع ہوا جب فرانس اور اٹلی کی کیمونسٹ پارٹیوں نے Eurocommunism کا نظریہ اختیار کیا (اس نظریہ کی اساسی بنیاد Antonio Gramsci ١٩٢٠ء کی دہائی میں وضع کرچکا تھا)۔ ١٩٨٥ء کے بعد سوویت روس کے حکمراں گوربا چوف (Gorbachev) نے سوشل ڈیموکریٹ پالیسیاں اختیار کیں۔ اب یورپ میں کیمونسٹجماعتیں تاحال معدوم ہوگئی ہیں۔ وہ اکیلا کمیونسٹ ملک جس نے سوشل ڈیموکریٹ پالیسیاں اختیار نہیں کیں وہ چین ہے اور چین کے ریاستی نظام کے استحکام کی یہ ایک اہم وجہ ہے۔

سوشل ڈیموکریٹک انفرادیت:

سوشل ڈیموکریسی ایک سرمایہ دارانہ نظریہ ہے، لہٰذا اس کے کلیدی تصورات اس تنویری فکر (Enlightenment) سے نکلتے ہیں جس سے لبرل قوم پرست اور سوشلسٹ کلیدی تصورات برآمد ہوتے ہیں۔ سوشل ڈیموکریسی کا کلمہ بھی ”لاالٰہ الاالانسان ہے” ۔ سوشل ڈیموکریسی کا مقصد لامتناہی فروغ آزادی یعنی بڑھوتری سرمایہ برائے بڑھوتری سرمایہ کے علاوہ کچھ نہیں۔ لبرل ازم اور سوشلزم کی طرح سوشل ڈیموکریسی بھی اصلاً اور اصولاً ایک مادہ پرست (Materialist) نظریہ ہے اور اس کا مقصد بھی انسان کی خواہشات کو تمام کائنات پر مسلط کرنا اور جلد از جلد زیادہ سے زیادہ تمتع فی الارض کو ممکن بنانا ہے۔ سوشلسٹ، قوم پرست، لبرل اور سوشل ڈیموکریٹ سب اس بات پر متفق ہیں کہ انسان کے اندر خود تخلیقیت اور تخلیقیت کائنات ( Self and Reality Creation ) کی صلاحیت موجودہے اور عقل (Pure Reason) کا یہ تقاضا ہے کہ وہ حق کو اپنی خواہش کے مطابق تخلیق کرے۔ لہٰذا قوم پرست لبرل، سوشلسٹ اور سوشل ڈیموکریٹ سب ذلیل ترین کافر ہیں۔ کیوں کہ یہ تو شرک سے بھی آگے کی ایک منزل ہے اور خدائی کا دعویٰ تو ابلیس نے بھی نہیں کیا اور اسی چیز کو مولانا مودودی نے ”جاہلیت خالصہ” بتایا ہے (دیکھئے اسلامی تہذیب کے اصول و مبادی)

لبرل اور سوشل ڈیموکریٹ تصور انفرادیت میں فرق بھی ہے۔ لبرل مفکرین فرد کو خود غرض اور قائم باالذت تصور کرتے ہیں۔ لبرل نظریہ کے مطابق ہر فرد اپنی انفرادی آزادی / سرمایہ کی بڑھوتری کے لیے مستقل جدوجہد کرتا ہے۔ وہ دوسرے افراد کو اپنے حصولِ سرمایہ / آزادی کا ذریعہ تصور کرتا ہے اور خود بھی دوسروں کی جدوجہد بڑھوتری  سرمایہ/  آزادی میں آلہ کار بننے پر راضی ہوتا ہے۔ اس ہی بنیاد پر لبرل معاہدات (Contract ) وضع کیے جاتے ہیں۔

سوشل ڈیموکریٹ فرد کو خود کفیل (Autonomous) تصور نہیں کرتا بلکہ انسانیت کو بحیثیت نوع خود کفیل اور قائم باالذت تصور کرتا ہے۔ سوشلزم کی طرح سوشل ڈیموکریٹ بھی  خودتخلیقیت کے عمل کا اظہار پیداوار (Production) میں دیکھتا ہے۔ انسان اپنی ذات کی تخلیق خام مادہ (Raw Materials) میں اپنی محنت (Labour) کو ملاکر کرتا ہے اور Production کا عمل ہی اظہار تخلیق ذات ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام زندگی میں انسانیت دو عظیم طبقوں (Classes) میںتقسیم ہوجاتی ہے۔ مزدوروں کا طبقہ جو صرف اپنی محنت (Labour) کا مالک ہوتا ہے اور سرمایہ داروں کا طبقہ جو تمام ذرائع پیداوار کا مالک ہوتا ہے۔ سوشلسٹ بھی اس نظریہ کے قائل ہیں لیکن سوشلسٹوں کی رائے میں مزدوروں اور سرمایہ داروں میں نزاع (Conflict) کو ختم کرنے کے لیے ایک ایسے ریاستی انقلاب کی ضرورت ہوتی ہے جو سرمایہ داروں کے طبقہ کو ختم کردے اور Dictatorship of the Proletariat کے ذریعہ سرمایہ دارانہ ریاستی ملکیت قائم کردے۔

سوشل ڈیموکریٹ اس انقلاب کی ضرورت کے قائل نہیں۔ ان کی رائے میں جیسے جیسے سرمایہ دارانہ نظام زندگی ترقی کرتا ہے۔ طبقاتی کشمکش کمزور ہوتی جاتی ہے۔ اور ہر شخص سرمایہ کا آلہ کار (یعنی مزدور) بن جاتا ہے۔ نجی سرمایہ دارانہ ملکیت کارپوریٹ (Corporate) سرمایہ دارانہ ملکیت میں تحلیل ہوجاتی ہے اور یہ تبدیلی سرمایہ دارانہ علمیت (Capitalist Epistimology) کے بتدریج غلبہ کے نتیجہ میں ظہور پذیر ہوتی ہے۔

سوشلسٹ اور سوشل ڈیموکریٹ تصور انفرادیت میں بنیادی فرق یہ ہے کہ سوشلسٹ انفرادیت کو غضب اور حسد سے مغلوب تصور کرتے ہیں۔ سوشلسٹ نظریہ کے مطابق مزدور طبقہ کا ہر فرد سرمایہ دار طبقہ سے اتنی شدید نفرت کرتا ہے کہ یہ نفرت اس کی ہوس اور شہوت پر غالب آتی ہے اور فرد اور طبقہ کا عمل نفرت ،حسد اور غضب کی بنیاد پر استوار ہوتا ہے۔ سوشلسٹ اور قوم پرستانہ اقداری مماثلت یہ ہے کہ دونوں نظریات فردکو نفرت اور حسد کے جذبات سے مغلوب تصور کرتے ہیں اور ایک سوشلسٹ اور قوم پرست فرد حسد اور نفرت ہی کی بنیاد پر بڑی سے بڑی قربانی دینے پر تیار ہوتا ہے۔

اس کے برعکس سوشل ڈیموکریٹ انفرادیت کو حرص اور طمع سے مغلوب تصور کرتے ہیں حسد اور نفرت سے نہیں۔ سوشل ڈیموکریٹ اور لبرل تصورِ انسانیت میں بہت مماثلت ہے۔ سوشل ڈیموکریٹ نظریہ کے مطابق ہر فرد خواہ وہ مزدور ہو خواہ سرمایہ کار، بڑھوتری سرمایہ سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہونے کی ابدی خواہش رکھتا ہے۔ لہٰذا وہ سرمایہ دارانہ عقلیت (Enlightenment Rationality) پر ایمان لے آتا ہے۔ یہ عقلیت خواہشات نفسانی کے حصول کے سہل ترین طریقہ کی نشان دہی کرتی ہے اور اس کی مفروضات دورس آفاقی (Universal) اور معروضی (Objective) ہیں اور ان پر عمل کرنے سے سب کا بھلا ہوتا ہے۔ سب کی خواہشات نفسانی فروغ پاتی ہیں۔ خواہ وہ مزدور ہو خواہ سرمایہ کار… ہوس سے مغلوب عقلیت مزدوروں اور سرمایہ کاروں میں اشتراک عمل کا وہ طریقہ بتاتی ہے جس سے سرمایہ کی بڑھوتری برائے بڑھوتری تیزسے تیز تر کی جاسکے اور سب کی خواہشات نفسانی خوب سے خوب تر فروغ پائیں۔ لہٰذا سوشل ڈیموکریٹ سرمایہ دارانہ طبقہ کے خلاف انقلاب برپا کرنے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ سرمایہ داروں اور مزدوروں میں ایسے اشتراک عمل کے ممکنات کی نشان دہی کرتے ہیں جس کے نتیجے میں سرمایہ دارانہ عدل فروغ پائے۔

سوشل ڈیموکریٹک تصورِ معاشرت:

سرمایہ دارانہ عدل سے مراد یہ ہے کہ ہر فرد اپنی تمام خواہشات نفسانی کے حصول کا ہنوذ مکلف ہوتا چلا جائے لبرل کہتے ہیں کہ اس عدل کے حصول کے لیے بنیادی انسانی حقوق (Human Rights) کی فراہمی کافی ہے۔  یہ ہیومن رائٹس،  تحفظ سرمایہ دارانہ حیات )غیر سرمایہ دارانہ حیات کا تحفظ مقصود نہیں، مثلاً مشہور لبرل فلسفی جان لاک نے امریکا کے قدیم باشندوں (ریڈانڈینز) کے قتل عام کو بالکل درست قرار دیا(۔تحفظ سرمایہ دارانہ آرا  )جان لاک نے کی اپنی مشہور دستاویز A Letter on Toleration میں مسلمانوں کو اشاعتِ آرا کے حق سے محروم کرنے کا جواز پیش کیا ہے (  ,اور تحفظ سرمایہ دارانہ ملکیت… سوشل ڈیموکریٹ کہتے ہیں، سرمایہ دارانہ عدل کے فروغ اور حصول کے لیے یہ کافی نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مارکیٹ (Market) کا عمل لازماً اجارہ داری (Monopolisation) کا شکار ہوجاتا ہے اور قیمتوں کا تعین مسابقتی عمل کے ذریعہ نہیںہوتا اور سرمایہ دارانہ نظام زندگی کے قیام کے وقت جو تقسیم قوت میں عدمِ توازن ہوتا ہے اس میں بتدریج اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ کیوں کہ سرمایہ دارانہ عمل کے ذریعہ ارتکاز دولت اور قوت لازماً فروغ پاتا ہے۔

تقسیم قوت کی سب سے بڑی ناہمواری، مزدوروںاور سرمایہ کاروں کے درمیان ہوتی ہے۔ انیسویں صدی میں یہ ناہمواری بہت شدید شکل میں سامنے آئی اور سرمایہ کارانہ ترقی کے نتیجہ میں مزدوروں کے مفادات میں اضافہ کی رفتار بہت سست رہی۔ اس دور کےSocial Democrats نے اس عدم توازن کی وجہ یہ بتائی کہ مزدور کی مسابقتی قوت سرمایہ کار کے مقابلہ میں نہایت محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ سرمایہ کار جتنی کم اُجرت بھی دے مزدور اس کو قبول کرنے پر مجبور ہے۔ سرمایہ کار جب چاہے مزدور کی ملازمت ختم کردے اور جتنی شدید مشقت مزدور سے چاہے لے ۔ سرمایہ دارانہ عدل کا قیام ان حالات میں ناممکن ہے۔ گو کہ مزدوروں کو فرداً فرداً تمام ہیومن رائٹس (human Rights) میسر تھے۔

سوشل ڈیموکریٹک مفکرین کے مطابق سرمایہ دارانہ عدل کے قیام کے لیے ٹریڈ یونین (Trade Unions) کا قیام ضروری ہے۔ ٹریڈ یونین وہ ادارہ ہے جس میں مزدوروں کی قوت مجتمع کی جاتی ہے اور وہ سرمایہ دارانہ عدل کے لیے جستجو اجتماعی سودے بازی (Collective Bargaining) کے ذریعہ کرتی ہے۔ اس اجتماعی سودہ بازی کا مقصد سرمایہ کی بڑھوتری میں مزدوروں کے جائز حق کا حصول ہوتا ہے۔ Collective Bargaining کے ذریعہ مزدور اجتماعی سرمایہ کار بن جاتا ہے۔ وہ سرمایہ کار کا مخالف نہیں رہتا بلکہ خود سرمایہ دار بن کر ذریعہ پیداوار کے مالک کا ساتھی بن جاتا ہے اور مالک سرمایہ دار اور مزدور سرمایہ دار اس بات پر سمجھوتا کرنے کی پیہم جستجو کرتے ہیں۔ کہ منافع (Surplus) کی کونسی ایسی تقسیم سب سے سود مند ہے جس کے  ذریعے مزدوروں کے مفادات میں اضافہ اس طریقے سے کیا جائے کہ بڑھوتری سرمایہ کا عمل تیز سے تیز تر ہوسکے۔ یہی سرمایہ دارانہ عدل کا تقاضیٰ ہے۔

ٹریڈ یونین (Trade Union) کے عروج کا دور ١٨٩٠ء سے ١٩٧١ء تک کا ہے۔ اس زمانہ میں بیشتر مغربی یورپی ممالک میں ٹریڈ یونین کی مسابقتی قوت کو قانونی تحفظ حاصل تھا اور اس کی نظریاتی بنیاد (Keynesianism )کا فلسفہ فراہم کرتا تھا۔ مالکان ٹریڈ یونین

 کی ہڑتال (Strike) کے عمل سے خائف تھے اور بیشتر سوشل ڈیموکریٹ جماعتیں (جن میں کچھ عرصہ تک امریکاکیDemocratic Party  بھی شامل تھی) ٹریڈ یونین کے زیر اثر رہیں اور ٹریڈ یونین اور سوشل ڈیموکریٹک پارٹیوں کے تعاون ہی سے ١٩١٩ء میں جرمنی میں ١٩٢٦میں برطانیہ میں ١٩٤٢ء میں اٹلی میں٤٥۔١٩٤٢ء میں فرانس میں اور ١٩٤٥ء میں یونان میں امریکی افواج نے کمیونسٹ انقلاب کو ناممکن بنایا۔ اس پورے دور میں اور آج تک یورپ کی سوشل ڈیموکریٹ جماعتیںامریکا کی ذلیل ترین کاسہ لیس حاشیہ برادر رہی ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال تو بلیر (Blair) اور Brown کی جماعتیں ہیں۔  لیکن امریکا کی چاکری کا سب سے واضح جواز Aunerin Bevan کی تحریرات میں ملتا ہے۔ Bevin ١٩٤٥ء تا ١٩٥١ء کی برطانوی لیبر حکومت میں وزیر تھا Social Democratic انفرادیت میں شہوت اور حوس کا غلبہ ہے۔ لہٰذا لبرل معاشرہ کی طرح سوشل ڈیموکریٹ معاشرہ بھی شہوت رانی اور ہوس پرستی میں ڈوبا ہوا ہوتا ہے۔ لبرل ازم اور سوشل ڈیموکریسی دونوں مذہب دشمن نظریات ہیں انہوں نے قدیم عیسائی معاشرہ کو یورپ میں بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکا ہے اور جس معاشرت کو فروغ دیاہے وہ نہایت غلیظ، پلید، گھنائونی اور نجس معاشرت ہے۔ لبرل ازم اور سوشل ڈیموکریسی انسانی معاشرت کو حیوانیت میںڈبونے کا ذریعہ بنے ہیں۔

١٩٧١ء کے بعد سے ٹریڈ یونینز کے زوال کا دور شروع ہوتا ہے اس کی سب سے بڑی وجہ کارپوریٹ ملکیت (Corporate Property) کا فروغ ہے۔ جیسے جیسے سرمایہ دارانہ نظام زندگی فروغ پاتا ہے۔ ذاتی ملکیت (Private Property) ختم ہوتی چلی جاتی ہے۔ اور اس کی جگہ Corporate Property لے لیتی ہے کارپوریٹ ملکیت میں ملکیت (Ownership) اور اختیار (Control) کو علیحدہ کردیا جاتا ہے۔ کارپوریشن کے قانونی مالک وہ لاکھوں افراد ہوتے ہیں جو کمپنی کے حصص (Shares) سٹہ کے بازار (Stock Market) میں خریدتے بیچتے رہتے ہیںیہ بالکل فرضی (Fictional) ملکیت ہوتی ہے کیوں کہ یہ لاکھوں افراد کارپوریشن کے کاروبار اور اس کی پالیسیوں کو متعین کرنے میں کوئی حصہ نہیں لے سکتے۔ ان کا سالانہ اجتماع عام (Annual General Meeting) محض ضابطہ کی کارروائی ہوتی ہے۔

کارپوریشن کے کرتا دھرتا اور بااختیار چلانے والے اس کے منیجر (Manager) ہوتے ہیں۔ ان منیجروں کا انتخاب ان کی اس صلاحیت کے مطابق کیا جاتاہے کہ وہ کارپوریشن کو استعمال کرکے اس کے منافع میں کس تیزی سے اضافہ کرسکتے ہیں۔ ان منیجروں کا انتخاب اور کسی بنیاد پر نہیں کیا جاتا۔ اگر وہ منافع میں مستقل اضافہ کرنے سے قاصر رہ جائیں تو ان کو ملازمت سے نکال دیا جاتا ہے کیوں کہ کارپوریشن کے دیوالیہ (Bankrupt) ہونے کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام میں کارپوریشن ایک شخص قانونی (Legal  Person) کی حیثیت اختیارکرتی ہے ۔اس کا مقصد وجود (Raison D’etre) صرف اور صرف اپنے سرمایہ کی رفتار بڑھوتری میں اضافے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا۔ کارپوریشن سرمایہ کی تجسیم ہے۔ سرمایہ دارانہ (کارپوریٹ) ملکیت سے مراد سرمایہ کی ملکیت ہے۔ اس نظام میں مالک صرف سرمایہ یعنی حرص اور حسد ہوتا ہے۔ باقی سب منیجر، حصص رکھنے والے صارف ،ملازمین ،سرمایہ کے غلام ہوتے ہیں۔ وہ سب اس بات پر مجبور رہتے ہیں کہ اپنی تمام توانائیاں

 بڑھوتری سرمایہ برائے بڑھوتری سرمایہ کے مقصد کے حصول میں مستقل کھپاتے ہیں۔ وہ سب یہ کرنے پر زندگی بھر مجبور رہتے ہیں۔ آزادی کا یہی مطلب ہے۔ آزادی کا اور کوئی مطلب تاریخ میں واضح نہیں ہوا۔ تعجب ان پر ہے جو آزادی کو عبادت کے ہم معنی گردانتے ہیں۔

خرد کا نام جنوں رکھ یا جنوں کا خرد

جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے

جب سب لوگ سرمایہ کے غلام بن جاتے ہیں تو طبقوں کا وجود لازماًبتدریج ختم ہوجاتا ہے۔ سب ہی سرمایہ کے غلام ہیں کیا مزدور کیا منیجر، کیا ریاست کا کارندہ (سرمایہ کی غلامی کا مقصد نفس کو حرص اور حسد کے شیطانوں کے سپرد کردینا ہے) تو طبقاتی کشمکش لازماً لایعنی ہوجاتی ہے اور وہ واحد اجتماعیت جو سرمایہ دارنہ نظام زندگی نے تعمیر کی تھی۔ یعنی مزدورں کی اجتماعیت اور جس نے مذہبی اجتماعیت کی جگہ لی تھی۔ لازماً تحلیل ہوجاتی ہے۔ ان حالات میں سوشل ڈیموکریسی لبرل ازم میں ضم ہوجاتی ہے۔ کارپوریٹ ملکیت کے غلبہ کے نتیجہ میں سرمایہ دارانہ عدل قائم  نہیںہوتاہے بلکہ ارتکاز قوت اور دولت میں اضافہ ہوتاچلاجاتا ہے۔ گو کہ معاشرتی عمل (بالخصوص سرمایہ دارانہ تعلیم اور ہنر سازی (Education and Training) کے ذریعہ ہر فرد Human Capital بن جاتا ہے لیکن سرمایہ کی بڑھوتری کے عمل میں شمولیت کے مواقع بتدریج محدود ہوتے جاتے ہیں۔ لہٰذا دور حاضر کی سوشل ڈیموکریسی طبقاتی مسابقت کا ذریعہ نہیں سرمایہ دارنہ شمولیت (Capitalist Inclusiveness) کا جواز فراہم کرتی ہے۔

سوشل ڈیموکریسی کا تصورِ ریاست:

سوشل ڈیموکریسی جو سرمایہ دارانہ ریاست بناتی ہے اس کو ویلفیئر اسٹیٹ (Welfare State) کہتے ہیں۔ ابتداً سوشل ڈیموکریٹ سمجھتے تھے کہ ویلفیئرا سٹیٹ کے قیام کا بنیادی ذریعہ قومی کارپوریشن کا قیام ہوگا۔ چناں چہ Eduard Bernstein جو جرمنی کے اولین سوشل ڈیموکریٹ مفکرین اور مبلغین میں سے تھا جرمنی کے ریلوے نظام کو وہ ماڈل تصور کرتا تھا جو سرمایہ دارانہ نجی ملکیت کے متبادل کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ ١٩٤٥ء سے ١٩٦٥ء تک کئی سوشل ڈیموکریٹک حکومتوں نے نجی سرمایہ دارانہ شعبوں کو قومی کارپوریشنوں کے طور پر چلایا لیکن عموماً یہ تجربہ ناکام ثابت ہوا۔ قومی اور نجی کارپوریشن کے عمل میں کوئی واضح فرق نہ تھا اور قومی کارپوریشنوں کی کارفرمائی کے نتیجہ میں سرمایہ دارانہ عدل کے فروغ میں کوئی خاطرخواہ اضافہ نہ ہوا۔ یہ بات واضح ہوگئی کہ نجی کارپوریشنوں کی طرح قومی کارپوریشنوں پربھی سرمایہ کی ملکیت قائم رہتی ہے اور سرمایہ دارانہ مارکیٹ کے عمل کوطابع (Transcend) کرنے سے وہ بھی اتنی ہی قاصر (Ineffective) رہتی ہیں جتنی نجی کارپوریشن سوشل ڈیموکریٹ حکومتوں نے اپنی مالیاتی (Fiscal) اور زری (Monitary) پالیسیوں کے ذریعہ ان لوگوں کے لیے جو بڑھوتری سرمایہ کے عمل سے بالواسطہ متعلق نہ تھے یہ اس سے خواطر خواہ استفادہ نہیں کررہے تھے۔ سہولیات زندگی بالخصوص تعلیم، علاج، رہائش اور سفر کی سہولیات فراہم کرنے کی کوششیں کیں اور سوشل ڈیموکریٹ مفکرین نے کہا کہ Human Rights کے ساتھ ساتھ ریاست کو Social rights کی ضمانت بھی فراہم کرنی چاہے اور ہر فرد کو ایک متعین معیارِ زندگی (

Basic Standard of Living) پر گزر بسر کرنے کا مکلف بنانا چاہیے۔ اور اس متعین معیارِ زندگی میں مستقل اضافہ ہوتا رہنا چاہیے کیوں کہ سرمایہ دارانہ نظام زندگی حصول لذات اور فروغ شہوات کے لیے اختیار کیا جاتا ہے۔

چناں چہ سوشل ڈیموکریٹ اور لبرل ریاستی ڈھانچہ (Structure) میں کوئی واضح فرق برقرار نہ رہ سکا۔ سوشل ڈیموکریٹ ریاستیں لبرل ریاستوں کی طرح نمایندہ دستوری جمہوریتیں (Representative Constitutional Republic) ہوتی ہیں اور اب یونینوں کا ان سوشل ڈیموکریٹک ریاستی نظاموں میں کوئی خاص مقام باقی نہیں رہ گیا ہے۔ لہٰذا مالی وسائل جمع کرنے میں جو مشکلات لبرل ریاستوں کے سامنے آتی ہیں انہی مسائل کا سامنا سوشل ڈیموکریٹ ریاستوں کو بھی کرنا پڑتا ہے۔ سوشل ڈیموکریٹک حکومتوں کی مالی ضرورتیں لبرل حکومتوں سے زیادہ ہوتی ہیں کیوں کہ لبرل حکومتوں کی طرح سوشل ڈیموکریٹ حکومتیں سرمایہ دارانہ نہ ختم ہونے والی عالمی جنگی مہمات کا بوجھ اٹھاتی ہیں۔ وہ سب امریکا کی باج گزار حلیف ریاستیں ہیں۔ اور اس کے ساتھ ساتھ سوشل ڈیموکریٹ حکومت کو عوام کی ایک بڑھتی ہوئی اکثریت کے لیے ایک بڑھتا ہوا معیار زندگی بھی فراہم کرنے کی ذمہ داری اٹھانا پڑتی ہے۔ لیکن لبرل حکومتوں کی طرح ان کی محصولیاتی صلاحیت (Taxation Capability) جمہوری عمل کی پابند اور لازماً محدود ہوتی ہے۔

بیشتر سوشل ڈیموکریٹ حکومتیںجلدیابدیر ریاستی مالیاتی بحران (Fiscal Crises of the State) کا شکار ہوتی ہیں۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔

١… چوں کہ سرمایہ دارانہ عمل لازماً سرمایہ کی مرکزیت (Concentration) کو فروغ دیتاہے اور سرمایہ کی بڑھوتری (Accumulation) کا مطلب ہی اس کی Concentretion ہے لہٰذا جیسے جیسے سرمایہ دارانہ چکر تیز ہوتا جاتا ہے وہ زیادہ سے زیادہ افراد کو اپنے سے باہر پھینکتا چلا جاتا ہے۔ آج مغربی یورپ اور شمالی امریکا میں کوئی ایسا ملک موجود نہیں جہاںٹیکس دینے والوں کی تعداد ٹیکس نہ دینے والوں سے زیادہ ہو۔ وہ لوگ جو اپنی گزر بسر کرنے کے لیے اتنا نہیں کماتے جو ان کی کفالت کرسکے۔ایسے لوگ بچت کرنے والوں سے کئی گنا زیادہ ہیں اور ان کا حکومت کی امداد اور قرضوں کی بنیاد پر گزارا ہوتا۔ مغربی یورپ میں شرح بے روزگاری ١٤ فی صد اور امریکا میں٨ فی صد ہے اور اس میں مستقل اضافہ ہورہا ہے۔ اس کے علاوہ لاکھوں کروڑوں بوڑھے بچے، طالب علم اور غریب ( امریکا میں تقریباً ٢٠ فی صد آبادی غربت کی سطح (Below the povery line) پر زندگی بسر کرتی ہے) حکومت پر مستقل انحصار کرتے ہیں۔ ہر مغربی یورپی اور شمالی امریکی ملک میں حکومت کے سوشل اخراجات (Social Expenditure) ناقابلِ برداشت حد تک بڑھتے چلے جارہے ہیں۔

٢… دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ لوگ معیارِ زندگی کم کرنے کو تیار نہیں۔ مثلاً ہرفرد معیارِ زندگی کو مستقل بڑھاتے رہنا حکومت کی بنیادی ذمہ داری گردانتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے وہ سب لوگ سرمایہ داری پر ایمان لے آئے ہیں اور سرمایہ داری کا تو مقصد ہی فروغ لذات، شہوات اور آزادی کے علاوہ کچھ نہیں۔

یقینا سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی ایسے بحرانوں سے دوچار ہے جن کا اس کے پاس کوئی حل موجود نہیں اور سرمایہ دارانہ عدل کے قیام کی جستجو

 عبث نظر آتی ہے۔ سوشل ڈیموکریٹ اور لبرل پالیسیوں میں فرق کرنا مشکل تر ہوتا جارہا ہے اور سوشل ڈیموکریٹک حکومتیں عوام سے کیے ہوئے ویلفیئر کو فروغ دینے والے وعدوںسے بھی گریز کررہی ہیں۔ عملاً آج پوری دنیا میں سرمایہ دارانہ عدل کے قیام کی جدوجہد معدوم ہوتی جارہی ہے اور سرمایہ دارانہ مفکرین سرمایہ دارانہ عوام کو باور کرانے کی کوشش کررہے ہیں کہ سرمایہ دارانہ ظلم  برداشت کرنا اس لیے ضروری ہے کہ سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کا کوئی متبادل موجود نہیں۔

سوشل ڈیموکریسی اور اسلام:

آج جب کہ مغرب سرمایہ دارانہ عدل کے قیام سے مایوس ہوگیا ہے دنیا بھر کی اسلامی جماعتیں سرمایہ دارانہ عدل کی وکیل بن کر سامنے آرہی ہیں۔ سوشل ڈیموکریسی نے اسلامی سیاسی جماعتوں کو بے حد متاثر کیا۔ جماعتِ اسلامی کا حالیہ منشور اور اخوان المسلمون کا ٢٠١٢ء کے انتخابات کا منشور سوشل ڈیموکریٹک تجزیوں اور پالیسیوں سے بھرا پڑا ہے۔ یہ جماعتیں حکومت الٰہیہ کو ویلفیئر اسٹیٹ تصور کرتی ہیں۔ ان کے منشوروں میں نفاذِ شریعت کا ذکر تو دبا ہوا ہے لیکن ہیومن اور سوشل رائٹس (Human and Social Rights) کی فراہمی کے دعو ے نہایت بلند آھنگ ہیں۔ یہ قومی دستور کی تقدیس کی قائل ہیں اور ان کا تصورِ ریاست Locke اور Jeffer son سے ماخوذ ہے۔ ریاست کی جو ذمہ داریاں یہ تفویض کرتے ہیں ان کا امام ماوردی، امام ابویعلٰی امام ابن خلدون اور امام محمد رحمہم اللہ کی سیاسی تصنیفات میں کہیں ذکر نہیں ملتا۔ ریاست اسلامی کی جو خصوصیات اسلامی جماعتوں کے مفکرین بیان کرتے ہیں وہ چند احادیث اور آیات کی ایسی تشریح پر مبنی ہیں جو اصولِ تفسیر اور اصولِ تاویل الحدیث سے صرفِ نظر کرکے مرتب کی گئی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی حکومت سوشل ڈیموکریٹک ویلفیئر اسٹیٹ نہ کبھی رہی ہے نہ کبھی ہوگی نہ کبھی ہوسکتی ہے۔ کیوں کہ اسلام سرمایہ دارانہ عدل کے قیام کی جدوجہد نہیں سرمایہ دارانہ نظام زندگی کے انہدام کی جدوجہد ہے۔

اسلامی جماعتوں نے سوشل ڈیموکریٹک ایجنڈہ اپناکر جو بنیادی غلطی کی ہے وہ یہ ہے کہ اس ایجنڈ ے کے تحت معاش کو حصول معاد کے ذریعہ کے طور پر پیش نہیں کیا جاسکتا۔ حصولِ معاش ایک مقصد کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور اس کو خود ایک مستقل مقاصد شریعت کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ اس کے نتیجہ میں ریاستی جدوجہد تعمیر معاشرت اور اصلاح انفرادیت کے عمل کا ذریعہ نہیں رہتی اور اسلامی جماعتیں سرمایہ دارانہ انفرادیت، معاشرت اور ریاستی صف بندی کے ارتباط سے صرف نظر کرلیتی ہیں۔ ایک ویلفیئر اسٹیٹ کے قیام کی جدوجہد ایک سرمایہ دارانہ معاشرت میں ڈوباسرمایہ دارانہ فردہی کرسکتا ہے۔ اسلامی شخصیت سازی کا ویلفیئر اسٹیٹ کے قیام سے کوئی تعلق نہیں اور نہ اسلامی معاشرتی صف بندی سے اس کا کوئی تعلق ہے۔اسلامی سیاسی تعلیمات اور سوشل ڈیموکریسی میں وہی تعلق ہے جو ایمان اور کفر، اور نور اور تاریکی اور حق اور باطل میں ہے۔ یہ ایک دوسرے کی رد ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *