قوم پرستی – تمہید 

 مدارس اور کالج یونیورسٹی کے طلبہ کیلئے ضروری ہے کہ وہ عصری تحریکات اور ان کے رحجانات سے واقف ہوں۔ اس سلسلے میں ہم ہر ماہ عصری تحریکات کا ایک تعارف پیش کریں گے تاکہ وہ انہیں پرکھنے کا شعور حاصل کریں اور ان سے وابستگی کے مضمرات سے واقف ہوسکیں۔ اس سلسلے میں ہم”قوم پرستی” کے حوالے سے آگاہ کرنا ضروری خیال کریں گے اس لئے کہ آج کے دور میں ”قوم پرستی” ایک ناسور کی طرح مسلم معاشرے میں پھیل چُکی ہے۔ اس کی مقامی طور پر مثالیں مہاجر، بلوچ، سرائیکی، ہزارہ قوم پرستانہ تحریکات ہیں، ہمیں اس بات کو جاننا ضروری ہے کہ قوم پرستانہ خیالات ، تصورات اور تحریکات کا اصل منبع کیا ہے؟ تب ہی ہم آگے جاکرموجودہ قوم پرستانہ تحریکات کی صحیح جانچ کرپائیں گے۔

 

                قوم پرستی کا تاریخی پس منظر:

قوم پرستی  کی تحریک نے یورپ میں سولہویں، اور سترہویں صدی عیسوی میں جنم لیا۔ سب سے پہلی قومی ریاست برطانیہ کی تھی جس نے پاپائے روم کے اقتدار کو رد کرکے اختیارات کو Tudorخاندان کے سُپرد کیا۔ سولہویں اور سترہویں صدیوں میں یورپ مذہبی جنگوں کا شکار رہا۔ جس دور میں پاپائے روم کے حامی (Catholics)اور اس کے باغی(کئی پروٹسٹنٹ فرقے) مسلسل برسرِ پیکار رہے اور ریاستی اقتدار پر قبضہ کرنے کی خواہش کی بنیاد پر یہ جنگیں جاری رہیں اسی دوران پاپائے روم نے فرانس ، اسپین اور پرتگال کی قومی ریاستوں کو تسلیم کرلیا۔ اسی دور میں ہالینڈ کی پروٹسٹنٹ ریاست بھی قائم ہوئی۔ اٹھارویں اور انیسویں صدی میں سویڈن بشمول ناروے،ڈنمارک ، اٹلی اور جرمنی کی قومی ریاستیں قائم ہوئیں، بیسویں صدی میں جب ان یورپی حکومتوں نے اپنے استعماری نظام کو ختم کیا تو انہوں نے ایشیا اور افریقہ میں اپنے ماتحت علاقوں میں اقتدار قومی ریاستوں کے سپرد کردیا۔ تمام ایشیائی اور افریقی ریاستیں(بااستثناء جاپان اور تھائی لینڈ) بیسویں صدی کی پیداوار ہیں، ان کا اقتداری ڈھانچہ بھی انہی یورپی قوموں نے مرتب کیا۔ (اس کی مثال ملائیشیا، انڈیا، پاکستان، خلیجی ریاستیں، عراق، شام، اردن، لیبیا اور تیونس وغیرہ ہیں)۔

 

قوم پرستی کی تعریف:

   قوم پرست تحریک کا بنیادی دعویٰ یہ ہے کہ ایک خاص نسل سے تعلق رکھنے والے اور ایک مخصوص زبان بولنے والوںکو یہ حق حاصل ہے کہ وہ بلاشرکتِ غیرے اپنا نظامِ اقتدار یعنی اپنی ریاست تعمیر کریں۔ جہاں ان کی تشکیل کردہ قوم کو اپنی مرضی کے مطابق اپنا نظامِ زندگی رائج کرنے کے مواقع فراہم کئے جائیں۔ لہذا قوم پرست تحریک کی سب سے پہلی ضرورت قوم سازی ہے۔ قوم سازی سے مراد یہ ہے کہ کسی منتخب لسانی یا نسلی گروہ کو یہ بات باورکرانی چاہئے کہ دوسری ”قوم” ان کا استحصال کررہی ہے اور اس استحصال کو ختم کرنے کیلئے اپنی قومی ریاست بنانا ضروری ہے۔ اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ قوم پرستی سرمایہ دارنہ نظامِ زندگی کو ایک جواز فراہم کرنے والا نظریہ ہے۔ (یہ ایک پہلو ہے جبکہ سرمایہ داری کو جواز فراہم کرنے والے دیگر اہم ترین نظریات لبرل ازم اور سوشل ازم ہیں) یہ بات استحصال کی جو تشریح قوم پرست پیش کرتے ہیں اس سے واضح ہوتی ہے۔ ”استحصال” سے قوم پرستوں کی مراد ان کی ”قوم” کی معاشی محرومی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا۔ قوم پرست تحریک کی کامیابی کے نتیجہ میں ایک ایسی ریاست (نظامِ اقتدار) کی تعمیر کا وعدہ کیا جاتا ہے جو منتخب قوم کے سرمایہ دارانہ حقوق کو فروغ دے گی۔ اور سرمایہ دارانہ اہداف یعنی آزادی اورترقی کا حصو ل ممکن بنائے گی۔ قوم پرست ”قوم” کی تشکیل کو سمجھنے کیلئے سب سے اہم مثال دورِ حاضر میں کراچی کی ہے ۔ جہاں ایم کیو ایم اس بات میں کامیاب ہوگئی کہ وہ اردو بولنے والوں کو اس بات کا یقین دلانے میں کامیاب ہوگئی ہے کہ کوئی دوسری قوم مثلا سندھی، پنجابی،پشتون اور بلوچ ان کا استحصال کررہے ہیں۔اس استحصال کو ختم کرنے کیلئے ریاستی اقتدار پر قبضہ لازم ہے۔  ایم کیو ایم کی کامیابی سے قبل اردو بولنے والے قوم پرست نہ تھے۔ ان کی غالب سیاسی وابستگی جماعتِ اسلامی اور جمعیتِ علمائے پاکستان سے تھی۔ ان دونوں جماعتوں کا اثر و نفوذ ختم کرکے ہی ایم کیو ایم قائم ہوئی ہے اور آج بھی ایم کیو ایم کا سب سے مؤثر مقابلہ ایک مذہبی جماعت ”سنی تحریک” کررہی ہے۔ قوم پرستی کے اسی خطرہ سے بلوچستان میں جمعیتِ علمائے اسلام اور سرائیکی علاقہ میں سپاہِ صحابہ دوچار ہیں۔ جیسے جیسے بلوچی اور سرائیکی بولنے والے قوم پرست نظریات سے متاثر ہوں گے ویسے ویسے ان کی جدوجہد ”استحصال” کے خاتمے اور سرمایہ دارانہ حقوق کے حصول پر مرکوز ہوگی اور دینی جماعتوں کا اثر و نفوذ ختم ہوتا چلا جائے گا۔

 

                مسلم قوم پرستی:

برصغیر کی قوم پرست تحریک نے ایک مسلم شناخت بھی تعمیر کی ہے۔ انیسویں صدی کے آخر تک مسلمانانِ ہند کو ”قوم” ہونے کا شعور نہ تھا نہ کبھی انہوں نے اپنے سرمایہ دارانہ حقوق کیلئے سیاسی جدوجہد کی تھی۔قوم پرستی بالکل اجنبی تصور تھا۔ اکبر نے کہا تھا۔

ع دیکھئے قوم کہتے ہیں جسے

چند لڑکے تھے مشن اسکول کے

مسلم قوم پرستی کا پہلا ہندوستانی مبلغ سرسید احمد خان تھا۔ اس نے انگریزی تعلیم کو فروغ دے کر مسلمانوں کو باور کرایا کہ ہندو ان کا استحصال کررہے ہیں۔ چنانچہ مسلمانوں کو اپنے (سرمایہ دارنہ ) حقوق کے حصول کیلئے انگریزی نظامِ اقتدار میں شمولیت کرنی چاہئے۔ اسی فکر کی بنیاد پر آل انڈیا مسلم لیگ نے تحریکِ پاکستان برپا کی اور پاکستان اپنے قیام کے ٦٥ سالہ دور میں ایک خالص سرمایہ دارنہ ریاست کے طور پر روبہ عمل رہا ہے۔ آج مسلم قوم پرستی ایک کمزور نظریہ ہے، کیوں کہ مسلم قوم پرستی لازماً اسلامی تشخص کو مجروح کرتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلم قوم پرستوں کی جدوجہد سرمایہ دارنہ حقوق کے حصول کی طرف ہوتی ہے اور ظاہر ہے کہ جو شخص سرمایہ دارنہ نظام میں شمولیت کا طلب گار ہے وہ اسلامی طرزِ حیات سے لازماً بتدریج دور ہوتا چلاجاتا ہے۔ تحریکِ پاکستان کے دوران مسلم قوم پرستی کی سب سے بھرپور اسلامی تنقید مولانا مودودی نے مرتب کی تھی لیکن قیامِ پاکستان کے بعد جماعتِ اسلامی عملاً ایک مسلم قوم پرست جماعت بن گئی اور اس فعل نے اس کے دینی اور سیاسی تشخص کو بری طرح مجروح کیاہے۔ کسی حد تک یہی بات جمعیت علمائے اسلام اور جماعتہ الدعوة کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے۔

 

”قوم” اور ”امت” میں فرق:

 اسلام جس سیاسی اجتماعیت کا قائل ہے وہ ”امت ” ہے قوم نہیں!۔۔ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے ساتھ تعلق، خواہ وہ کسی بھی خطے، رنگ اور زبان یا قبیلے سے تعلق رکھتا ہو دوسرے مسلمان کے ساتھ اخوت، بھائی چارے، ہمدردی اور دل سوزی کا علاقہ رکھتا ہے۔ وہ کسی سے محبت اسلئے نہیں کرتا کہ وہ اس کے قبیلے سے تعلق رکھتا ہے بلکہ کلمے کی بنیاد پر محبت رکھتا ہے، اسی طرح اگر وہ کسی سے نفرت کرتا ہے تو اس کی نفرت کی بنیاد کلمہ اور قرآن ہے نہ کہ قوم، زبان یا علاقائی حیثیت، یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں جابجا مسلمانوں کو بطورِ امت پکارا گیا ہے ۔ چناچہ قرآنِ مجید میں ارشاد ہے:

وکذلک جعلنا کم امة وسطا

ولتکن منکم امة یدعون الی الخیر

ان ھذہ امتکم امتہ واحدة

امت جو ریاست تشکیل دیتی ہے وہ قومی نہیں ہوتی، ہر مسلمان اس کی رعیت میں شامل ہونے کا حق رکھتا ہے۔ یہ بات بلاخوفِ تردید تمام اسلامی ریاستوں ۔۔خلافتِ راشدہ، خلافتِ امویہ، خلافتِ عباسیہ ، سلجوق بادشاہتوں، خلافتِ عثمانیہ، سلطنت مغلیہ وغیرہ کے بارے میں کہی جاسکتی ہے۔ کوئی بھی اسلامی ریاست قومی ریاست نہیں تھی وہاں اقتدار عوام کے کسی گروہ کے پاس نہیں تھا۔ بلکہ سلطان ظلِ اللہ تھا۔ اورتمام فیصلے شارع علیہ السلام کے احکام کی تعمیل میں صادر کیئے جاتے تھے۔ اسلامی ریاست کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں نمائندگی کا کوئی نظام نہیں ہوتا۔ نہ ہی مقننہ کا کوئی ادارہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم کسی قوم کے اقتداری حقوق کے قائل نہیں ہیں۔عوام اور خواص کے کسی گروہ یا فرد کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ نظامِ اقتدار اپنی مرضی سے مرتب کرے۔ حکم اللہ نے اپنے لئے مخصوص کیا ہے۔ْ اسی نے حکم دیا ہے کہ صرف اس کے احکام کی تعمیل کی جائے۔

الالہ الخلق والامرا

ان الحکم الاللہ

وماامرو الا لیعبدو للہ

اسلامی ریاست سرمایہ دارانہ قومی حقوق کے فروغ کا ذریعہ نہیں۔ لہٰذا  ہم ہر قوم پرست تحریک بہ شمول مسلم قوم پرست تحریکات ، کی نظریاتی اور عملی مخالفت کرتے ہیں معٰذا ہم دوسری جانب قوموں کے سماجی اور ثقافتی تشخص کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔ اقوامِ عالم کے بارے میں صرف وہی تصور ہمیں قابل قبول ہے جسے قرآنِ حکیم نے بیان کیا ہے۔ قرآنِ مجید میں ارشاد ہے۔

یاایہاالناس انا خلقنکم من ذکر وانثٰی وجعلنا کم شعوبا وقبائل لتعارفوا۔ان اکرمکم عندللہ اتقکم

”اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہیں گروہ اور قبائل بنایا ہے تاکہ تم آپس میں پہچانے جاؤ۔ مگر درحقیقت تم میں وہی معزز ہے جو زیادہ پرہیز گار ہے”(الحجرات) یعنی قبیلوں اور قوموں کا اختلاف محض ایک دوسرے کے تعارف کیلئے ہے ایک دوسرے کے ساتھ تفاخر، آپس کی عداوت اور فساد فی الارض کیلئے نہیںہے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک معزز وہی ہے جو متقی ہے خواہ وہ عربی ہو یا عجمی، وہ افریقی ہو یا شامی، لیکن اگر وہ متقی نہیں ہے تو وہ اپنے آپ کو کتنا ہی اعلیٰ ذات کا بتائے معزز نہیں ہوسکتا۔ قومیں،قبائل اور شعوب کی ترقی یافتہ شکلیں ہیں ۔ قوموں کے لسانی اور معاشرتی تشخص کے تحفظ اور فروغ کو احیاء اسلام کا مؤثر ذریعہ بنایا جاسکتا ہے۔ صوفیا کے اس عظیم الشان کارنامے سے مستفید ہوسکتے ہیں ، اس کیلئے ضروری ہے کہ مقبولِ عام رسوم وروایات کو شریعتِ مطہرہ کے دائرہ کار میں مرتب کیا جائے اور عوام کے دینی جذبات اور عقیدت کے اظہار کیلئے ایسے طرائق وضع کیئے جائیں جو شرع کی تعلیمات سے متصادم نہ ہوں اور عوام کی قومی ثقافتی روایات کے ہم آہنگ ہوں۔

                اسلامی تحریکا ت کی حالیہ معاشرتی کمزوری کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ کسی اسلامی جماعت نے ایک اقدامی ثقافتی حکمتِ عملی مرتب نہ کی۔ پنجابی، سندھی، بلوچ زبانوں اور روایات کے فروغ کیلئے ہم نے کوئی اسلامی منصوبہ مرتب نہ کیا اور دشمن نے ہماری اس کمزوری سے فائدہ اٹھاکر قومی تشخص کے اظہار کو سیکولرازم کے فروغ کا ذریعہ بنالیا ہے۔ آج پنجابی، سندھی زبانوں میں جوادب تصنیف کیا جارہا ہے وہ بالعموم اسلام دشمن ادب ہے۔ ۔۔کیا کسی اسلامی جماعت کے پاس پنجابی، سندھی، بلوچی زبان اور ثقافت کو فروغ دینے کا کوئی منصوبہ ہے؟!

1 thoughts on “Qaum Parasti kya hai – قوم پرستی کیا ہے؟”

  1. شعوب جنوری تا مارچ 2017 محترم جناب ایڈیٹر صاحب ! شعوب جنوری تا مارچ 2017 ء کا شمارہ دیکھنے کا موقع ملا جس میں مضامین تازہ کی بہار ہر طرف بکھری ہوئی ہے۔ سرگودھا کے معروف شاعر، محقق اور دانش ور شاکر کنڈان کی نعت نے دامن دل کو بے ساختہ کھینچا۔ محبت حسین اعوان کا اداریہ علوی اعوان قوم سے محبت کا واضح ثبوت ہے۔ ڈبلیو جی آسبرن کا مضمون” رنجیت سنگھ سفر آخرت کا حال” تاریخ کے خفتہ گوشوں کو سامنے لاتا ہے۔ مختار علی نیر کا مضمون “پشاور کی ادبی ، فنی اور ثقافتی شخصیات ” رسالے کا ماحصل ہے۔ مختار علی نیر پی ٹی وی کے مشہور فن کار ہیں ۔ ان کی بصیرت افروز فکر نے صوبہ سرحد کی کلچرل ہسٹری کو محفوظ کر دیا ہے۔ مولا نا ولی رازی صاحب کی سیرت النبی ﷺ پر مشتمل کتاب “ہادیء عالم” غیر منقوط ہے۔ ہادیء عالم میں سے انتخاب لائقِ صد تحسین ہے۔ خطہء فردوس بریں واہ کینٹ سے تعلق رکھنے والے معروف شاعرعلامہ قابل کلاٹھوی راجشاہی یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے ہیں۔ ہمیں اپنے بچپن میں مشاعروں میں شرکت کے دوران ان کا غیر منقوط کلام سننے کا موقع ملا ۔ کاش کوئی ان پر مزید کام کر سکے۔ خلیق انجم کے مرتبہ جوش ملیح آبادی کے خطوط شمارے کی علمی و ادبی حیثیت کو اجاگر کرتے ہیں۔ بشری اعجاز کا مضمون” حضرت مولانا اکرم اعوان کی کہانی ان کی زبانی ” روحانی دنیا میں پسند کیا جائے گا۔ آج کل مزاحیہ شاعری کی مقبولیت کا راز عوام کی بے چینی ہے۔ خالد مسعود خان ، انور مسعوداور سرفراز شاہد نے متاثر کیا۔ جسٹس ایم آر کیانی کی علمی تصنیف “افکار پریشاں” میں سے انتخاب دلچسپ ہے۔ کتابوں پر تبصرے کے کالم میں نئی کتابوں کے متعلق معلومات ہوئیں۔ مبشر حسن ملک کا مضمون “گجرات کے اعوان” بھی لائقِ توجہ ہے۔ میری گذارش ہے کہ ہر شہر ، تحصیل اور یونین کی سطح پر اعوان فورم کا قیام عمل میں لایا جائے ۔ہر ذیلی شاخ میں مجلس تصنیف و تالیف قائم ہو ۔ جہاں پر اعوان قبیلے کی شجرہ نویسی کے حوالے سے معلومات اکٹھی کی جائیں ۔ اعوان قبیلہ ریسرچ کے پہلو سے ابھی کافی تشنہ ہے۔ کتنے ہی علاقے شخصیات اور مقامات اعوان قوم کی تاریخ میں نہیں آ سکے ۔ اگر کوئی قبیلہ مال و دولت ، سماجی مقام و مرتبے اور عہدہ و منصب کے لحاظ سے پہچانا جائے تو تاریخ کے بہت سے گوشے نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔ میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ آخر کھٹر نیلا ب اعوان قبیلے میں آنے کے لئے کیوں مصر ہیں ؟ چلو مان لیا کہ وہ اعوان ہیں مگر اس سے پہلے ان کا وجود بھی نہیں ملتا۔ محققین کرام ، دانشوران عظام ، اعوان قوم کے سربستہ لیڈران ، سب خاموش ہیں ۔سب سے پہلے تو یہ دیکھا جائے کہ کسی قبیلے کی تاریخ کے راویوں کا حسب نسب کیا ہے؟ اگر علم روایت اور درایت کے اصولوں کو پیش نظر رکھا جائے اگر باقاعدہ اسماء الرجال کے نظام کو نافذ کردیں تو تاریخ اعوان کی چھان پھٹک میں کافی مدد ملے گی۔ اگر یہی عالم رہا تو شاید ساری قومیں اعوان قبیلہ میںشامل ہو جائیں گی۔ شکریہ محمد عارف اسلام آباد http://www.oqasa.org

Leave a Reply to شوکت اعوان Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *