ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری

سرمایہ دارانہ نظام یورپ کی پیداوار ہے۔ یورپ میں سلطنت روم کے انحطاط کے بعد جاگیردارانہ نظام قائم تھا اور اس نظام کو کلیسا کی بھرپور حمایت اور تعاون حاصل تھا۔ اس نظام میں اقدار کی وقعت کا تعین مذہبی پیمانوں کی بناء پر کیا جاتا تھا کلیسا اس عمل کو عیسائی اقدار کے حصار میں رکھنے کی کوشش کرتا تھا۔ دنیا پر مبنی دولت کے اضافہ اور ارتکاز قوت کو بری نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور حرص وحسد کو مذہبی قبولیت اور جواز کبھی فراہم نہیں کیا گیا اور معاشرتی اقدار پر ہمیشہ مذہبی رنگ ہی غالب رہا۔ اخروی کامیابی کو دنیاوی ترقی کے مقابلہ پر ہمیشہ فوقیت حاصل رہی۔ لیکن عیسائیت کے پاس اپنا کوئی قانونی نظام نہ تھا اس لیے روما کے قوانین ہی کو City of man کی عمل داری کے لیے قبول کیا جاتا تھا اور اس کی اپنی اقدار ان قوانین میں بہت مشکل سے منعکس (Reflect) ہوتی تھیں۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا خود کلیسا بھی ان اخلاقیات کی پابندی نہ کرسکا۔ معاشی میدان میں بڑے پیمانے پر کرپشن میں کلیسائی ادارے ملوث ہوئے اور ١٠٠٠عیسوی تک پاپائے روم مغربی یورپ کا سب سے بڑا زمیندار بن گیا۔ ان حالات میں عیسائی اقدار پر سے عوام کا اعتماد اٹھنے لگا وہ حدود وقیود ٹوٹنے لگیں جنہوںنے دنیا پرستی، حرص اور حسد کی ترقی کو محدود کردیا تھا۔

پندرہویں صدی کے بعد سے پروٹسٹنٹ (Protestant Movement) تحاریک نے دنیا پرستی کو مذہبی جواز فراہم کرنا شروع کیا۔ یہ تحاریک انفرادیت کا پرچار کرتی تھیں اور کیتھولک چرچ کے اس دعوے کی نفی کرتی تھیں کہ بندے اور خدا کے درمیان وسیلہ کی ضرورت ہے۔ پروٹسٹنٹ پادریوں کا دعویٰ تھا کہ ہر شخص خود انجیل کی تفسیر کرسکتا ہے۔ پھر مذہبی نظام میں وہ بادشاہ کی برتری کے قائل تھے اور کہتے تھے کہ یہ خدا نے بادشاہ کو حاکمیت مطلق بخشی ہے۔ اس نظریہ کو Divine rights of King کہا جاتا ہے۔ بادشاہ کو ملکی معاملات میں خیر وشر متعین کرنے کا حق بلاشرکت غیرے حاصل ہے اور کوئی اس حق کے استعمال پر حد لگانے کا مجاز نہیں۔

چونکہ بادشاہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو معاشرے میں عموماً سب سے زیادہ قوت اور دولت کے حریص اور حاسد ہوتے تھے لہٰذا منطقی طو رپر بادشاہوں کی بالادستی قبول کرکے پروٹسٹنٹوں نے حرص اور حسد کو مذہبی جواز فراہم کیا۔ وہ احتکار اور ارتکاز دولت کو خدائی نظام تصور کرنے لگے اور خیرات اور صدقہ کی جگہ بخل اور بچت کی تحسین کرنے لگے۔ دنیوی ترقی کو نہ صرف فرض قرار دیا گیا بلکہ دنیوی ترقی اخروی انعام کا مظہر اور پرتو سمجھی جانے لگی۔ سترہویں صدی تک مغربی اور شمالی ریاستوں میں مضبوط قومی ریاستوں کی تعمیر کا عمل زور پکڑ گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ فلسفہ تنویر (Enlightenment Philosophy) کے بیشتر مباحث اور نتائج کو مذہبی رہنماؤں نے قبول کرلیا۔ خواہشاتی عقلیت  Rationality bounded by desire کی بالادستی کو عیسائی حلقوں میں مستحکم کرنے کا کام ST. Thomas Acquanas کے وقت سے فروغ پا رہا تھا اور سترھویں صدی تک کی تحریک نے اس رجحان کو بالکل ہی غالب کردیا اور اس کے بعد کیتھولک اور پروٹسٹنٹ مفکر دونوں دنیاداری حرص اور حسد کی معاشرتی تقویم کو جواز فراہم کرنے لگے اور مذہبی حلقوں میں مخالف آوازیں تقریباً معدوم ہوگئیں۔ حرص اور حسد کو مذہبی جواز فراہم کرنے میں پروٹسٹنٹ مفکرین کے فطری حلیف یورپی یہودی تھے۔ ان کے یہاں دنیا پرستی مذہبیت پر ایک ہزار سال قبل غالب آچکی تھی اور وہ کیتھولک چرچ کو اپنا سب سے بڑا حریف سمجھتے تھے۔ بادشاہوں کی معاشرتی بالادستی یہودیوں کے پیسوں پر ہی قائم ہوئی اور فطری طور پر نئے معاشرتی سیکولر علوم۔ بالخصوص معاشیات اور عمرانیات پر یہودی فکر کی گہری چھاپ لگی۔

سرمایہ داری کا ارتقاء:

سرمایہ داری اس معاشرتی نظام کا نام ہے جہاں حرص اور حسد غالب معاشرتی اور انفرادی اقدار کی حیثیت حاصل کرلیتی ہیں۔ تاریخی طور پر حرص اور حسد کا عام ہونا تین مراحل سے گزرا ہے۔ سب سے پہلے دور میں حرص اور حسد صرف چند تجارتی اور صنعتی مراکز میں عام ہوتے ہیں۔ اس دور میں سرمایہ دار ریاستی جبر کو استعمال کرکے بڑے پیمانے پر لوٹ مار کے ذریعہ دیگر تمام علاقوں سے وسائل ودولت حاصل کرتے ہیں۔ اس لوٹ مار اور استحصال کی دو شکلیں ہوتی ہیں۔ قومی ریاستوں کے زرعی علاقوں میں کسانوں کی زمینیں چھینیں جاتی ہے اور زرعی پیداوار کو ارزاں سے ارزاں بنایا جاتا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر ایک ایسا نظام قائم کیا جاتا ہے جس کے نتیجہ میں دوردراز ممالک کے وسائل پر قبضہ ہو۔ اور وہاں سے دولت کھینچ کھینچ کر سرمایہ دارانہ مراکز میں جمع ہوجائے۔ سولہویں صدی سے انیس ویں صدی تک یورپی اقوام نے جس سفّاکی اور شقی القلبی سے تمام عالم اسلام میںلوٹ مار اور قتل وغارت کا بازار گرم رکھا، اس کی تاریخ انسانی میں کوئی نظیر نہیںملتی۔ دو براعظموں کی قدیم آبادی کو یکسر نیست ونابود کر دیا گیا۔ اس عرصہ میں تقریباً سترلاکھ سرخ سیاہ فام باشندے (Red Indians) امریکا میں اور ستر لاکھ ابورجینز آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں قتل کیے گئے۔ افریقہ کو مکمل طور پر تباہ کردیا گیا۔ محتاط اندازوں کے مطابق بیس لاکھ کے قریب افریقی صرف امریکا کے غلام بردار جہازوں میں مر گئے۔ ہندوستان، چین اور انڈونیشیا کی دولت کا ٦٠ سے ٨٥ فیصد تک یورپ منتقل کیا گیا۔

لامحالہ اس بہیمانہ سفاکی کا اثر یورپی اخلاق پر پڑاکیونکہ لوٹ مار اور قتل وغارت گری تقریباً تین صدیوں تک منظم طور پر جاری رہی اور یہی بہیمیت مغربی تہذیب کی اصل بنیاد ہے۔ اسی بنیاد پر قومی سرمایہ دارانہ فلاحی ریاست (Welfare State) نے جنم لیا۔ یہ سرمایہ داری کا دوسرا دور ہے اور اس دور میں سرمایہ داری چند مراکز سے نکل کر پورے ملک پر چھا جاتی ہے۔ اس ملک کا ایک عام شہری خودغرض، حاسد اور حریص بن جاتا ہے اور اپنی ذاتی خواہشات کی تکمیل ہی مقدم ترین معاشرتی ہدف بن جاتا ہے۔ سرمایہ دارانہ ریاست حقوق کی سیاست کو جمہوریت کے ذریعے عام کرکے خودغرضی، حسد اور حرص کو تحفظ بھی دیتی ہے اور فروغ بھی۔

سرمایہ داری کا تیسرا مرحلہ وہ ہے جب حرص اور حسد پوری انسانیت پر غالب آجائے اور ایک ایسا بین الاقوامی نظام قائم کیا جاسکے جو مکمل طو رپر سرمایہ دارانہ اقدار، ترجیحات اور ضابطوں کا عکاس ہو یہ دور ابھی تک تاریخِ انسانی میں نہیں آیا۔

سرمایہ دارانہ نظام:

سرمایہ دارانہ نظام کا قیام اور استحکام اس بات پر منحصر ہے کہ حرص اور حسد عام ہو۔ ہرآدمی حریص ہو وہ زیادہ سے زیادہ مال جمع کرنے کی خواہش رکھتا ہو۔ اس کو Accumulation کہتے ہیں۔ ساتھ ساتھ وہ دوسرے شخص کو اپنا حریف سمجھے اور اس سے سبقت لے جانے کے لیے Compete کرے۔  Accumulation اور Competition حرص اور حسد کو فروغ دینے کے ذریعہ ہیں۔ سرمایہ دارانہ اخلاقیات انہی بنیادوں پر قائم ہیں۔ معاشی تھیوری اس مفروضہ پر قائم ہے کہ ہر شخص فطرتاً خود غرض ہے اور زیادہ سے زیادہ حصول لذت اس کی فطرت کا تقاضا ہے۔ دور حاضر کا مغربی سیاسی فلسفہ خودغرضی اور نفس پرستی کو بنیادی انسانی اوصاف حمیدہ تصور کرتا ہے اس کے مطابق انسان نہ صرف خودغرض اور لذت پرست ہے بلکہ اس کو ایسا ہی ہونا چاہیے۔ انسان کو صرف اپنی انفرادی حیثیت میں نہیں بلکہ بنی نوع آدم کے ایک رکن کی حیثیت سے خودغرضی اور لذت پرستی کو بحیثیت اقدار کے قبول کرنا چاہیے۔ اگر انسانیت یا قوم کی مجموعی لذت میں اضافہ کرنے کے لیے انفرادی لذت کو قربانی دینا پڑے تو فرد کو یہ قربانی بخوشی دینا چاہیے۔ کیونکہ فرد کے اغراض کا حصول نوع کے اغراض کے حصول پر منحصر ہے۔ جب فرد اس نوعیت کی قربانی دیتا ہے تو اپنی فطری خودغرضی اور لذت پرستی کا منطقی تقاضا پورا کرتا ہے، اسی کو Rationality bounded by desire کہتے ہیں۔ سرمایہ داری وہ نظام ہے جس میں خود غرضی اور لذت پرستی اعلیٰ ترین اقدار کے طور پر قبول کی جاتی ہیں، ہر فرد احتکار اور مسابقت کو مقدم ترین اوصاف تصور کرتا ہے۔

Accumulation صرف یا لاگت اور حاصل ریونیو کا فرق ہے۔ یعنی

C۔ R = A …صرف۔ حاصل= جمع

سرمایہ دارانہ عمل حاصل کو بڑھانے اور صرف کو کم کرنے کا عمل ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں اشیاء کی قدر صرف ان کی قیمت متعین کرتی ہے۔ سرمایہ دارانہ معیشت میں قیمت کا تعین ایک پیچیدہ عمل ہوتا ہے۔ فرض کیجیے ہم گیہوں کی قیمت متعین کرنا چاہتے ہیں تو ان کی قیمت کا تعین ان اشیاء کی قیمتوں سے ہوگا جن کو استعمال کرکے گیہوں پیدا کیا گیا۔ مثلاً زمین کا لگان یعنی لگان۔ اجرت = گیہوں کی قیمت

چنانچہ اس شے (گیہوں) کی قیمت کے تعین میں تین اشیاء کے مالک شریک ہوتے ہیں۔

١۔ گیہوں کا مالک (تاجر)

٢۔ زمین کا مالک (زمیندار)

٣۔ محنت کا مالک (مزدور)

ہر شے کے مالک کی کوشش سرمایہ دارانہ نظام میں یہ ہوتی ہے کہ جس شے کو وہ خریدے گا اس کی قیمت کم سے کم ادا کرے اور جس چیز کو وہ فروخت کر رہا ہے اس کی قیمت زیادہ سے زیادہ وصول کرے۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ وہ خود غرض اور لذت پرست ہوتا ہے۔ احتکار اور مسابقت کا اسیر ہوتا ہے۔ جن معاشروں میں حرص اور حسد عام نہیں ہوتے وہاں قیمت کا تعین اس قسم کی رسہ کشی سے نہیںہوتا۔ وہاں شے بنانے والے وہ قیمت چاہتے ہیں جو ان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہو گویا جتنی محنت صرف ہوگی اتنی ہی اجرت طلب کی جائے گی۔ جتنا لگان زمین کی پیداواری لاگت برقرار رکھنے اور زمیندار کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہوگا وہ لگان قبول کرلیا جائے۔ اس قسم کے معاشرہ میں عادلانہ اجرت (Just wage) اور عادلانہ قیمت (Just price ) کا تصور معنی رکھتا ہے گویا عدل کا قیام ضرورتوں اور خواہشات کے محدود ہونے پر ہوتا ہے۔ جب خواہشات لامحدود ہوجاتی ہیں تو نہ عدل ممکن رہتا ہے اور نہ قیمتوں کا تعین کسی معروضی Objective پیمانہ کی بنیاد پر کیا جاسکتا ہے۔

سرمایہ دارانہ معاشرہ میں خواہشات بے لگام ہوجاتی ہیں کیونکہ ہر فرد خود غرض اور لذت پرست ہوجاتا ہے ہر شخص کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ جو کچھ خرید رہا ہے اس کی کم سے کم قیمت دے اور جو فروخت کر رہا ہے اس کی زیادہ سے زیادہ قیمت وصول کرے قیمتیں گویا قوت کی بنیاد متعین ہوتی ہے۔ بازار میں جس کی قوت سب سے زیادہ ہوگی وہ اپنی چیز کی سب سے زیادہ قیمت وصول کرتا ہے۔ قیمتوں کے تعین کا کوئی مستقل Objective پیمانہ باقی نہیں رہ جاتا۔ قیمتوں کا تعین Subjectively ہوتا ہے اس بات کو جدید معاشی نظریہ پوری طرح قبول کرتا ہے لیکن معاشی تھیوری (Economic Theory) یہ دھوکا دینے کی کوشش کرتی ہے کہ قیمتوں کا تعین صارف (Consumer) کی خواہشات کی بنیاد پر ہوتا ہے اور سرمایہ دارانہ معیشت میں صارف (Sovereign) ہے۔ یہ بات بالکل غلط ہے۔ سرمایہ دارانہ معاشرہ میں اصل قوت ان کمپنیوں کے پاس ہوتی ہے جو Accumulation میں سب سے زیادہ کامیاب ہوتی ہیں۔ یہی کمپنیاں اشیاء کی طلب کا تعین کرتی ہیں، اس عمل کو Demand Management کہا جاتا ہے اور اس میں ریاست ان کمپنیوں کی مدد کرتی ہے اور انہی کی پالیسیاں اشیاء کی پیداواری مقدار اور ان کی قیمت پر فیصلہ کن طور پر اثرانداز ہوتی ہیں۔

یہ بات اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ سرمایہ دارانہ معیشت میں قیمتوں کا تعین قوت کے ٹکراؤ سے ہوتا ہے۔ قوت ان کمپنیوں کے ہاتھوں میں مرتکز ہوتی ہے جو سب سے کامیاب Accumulator ہوتی ہے  Accumulation ایسی اشیاء اور خدمتوں (services) کی پیداوار اور تقسیم Exchangeکا نتیجہ ہے جو صرف کی جاسکیں۔ لیکن اشیاء یا خدمتیں Accumulate نہیں کی جاسکتیں۔ ان کا مقصد وجود ہی صرف ہوجاتا ہے Accumulate صرف سرمایہ کو کیا جاتا ہے۔ سرمایہ (Capital) وہ زر (Money) ہے جو اشیاء اور خدمتوں کی پیداوار اور تقسیم کے چکر سے صرف اس لیے گزرتا ہے تاکہ اپنی مقدار مسلسل بڑھاتا رہے۔ سرمایہ کی کوئی اساسی صفت یا حقیقت نہیں ہوتی وہ مقدار محض (Pure.quantity) ہوتا ہے (جیسے دوسری شیطانی قوتوں کی حقیقت نہیں ہوتی وہ محض وسوسہ ہوتی ہیں) جیسے جیسے:

(١) اشیاء کی انواع (Range of production)(٢) اشیاء کا صرف(٣) اشیاء کی تقسیم

تیز ہوگی زر کی گردش تیز ہوگی اور سرمایہ کے احتکار (Accumulation) مواقع زیادہ ہوںگے۔ زر کی گردش کو تیز کرکے Accumulation کے عمل کو وسعت دی جاتی ہے۔ زر کی گردش کو تیز کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سرمایہ نظام میں پھنسا نہ رہے وہ ایک ایسا سیال مادہ بن جائے جو برق رفتاری سے مسلسل حرکت کرتا رہے۔ ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ معیشتوں میں سرمایہ کی سا لیت (Liquidity and Flexibility) بہت بڑھ جاتی ہے۔ زر کے بازار اور سرمایہ کے بازار پیداواری نظام سے کہیں زیادہ تیز رفتار Integrated ہوتے ہیں اور ان کا اور پیداواری نظام کا تعلق کمزور ہوتا جاتا ہے۔ مثلاً ١٩٧٣ء کے بعد سے یورپ اور امریکا ایک ایسی طویل المدت کساد بازاری سے دوچار ہیں جس کے نتیجہ میں پیدوار میں اضافہ کی شرح ١٩٥٠ء اور ١٩٦٠ء کی دہائیوں کے مقابلے میں آدھی سے بھی کم ہوکر رہ گئی ہے۔ اس کے برعکس سرمائے کے بازار میں حصص کی قیمتیں عموماً تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہیں۔ مثلاً EBE100 کا انڈکس ١٩٧٣ء سے لے کر ١٩٩٢ء کے اختتام تک ساڑھے تین گناہ بڑھ گیا) اور بارہا ایسا ہوا کہ پیداوار میں کمی کے باوجود طویل مدت تک حصص کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا رہا۔

لیکن سرمایہ کا بازار پیداواری نظام سے اپنا پیچھا نہیں چھڑا سکتا کیونکہ پیداواری نظام ہی تقسیمی نظام (Distributive System کو ممکن بناتا ہے اگر پیداوار اور اس کی تقسیم کی رفتار مستقلاً منجمد ہوجائے تو Accumulation ناممکن ہوجائے جیسا کہ بعد میں زیادہ تفصیل کے ساتھ سامنے آئے گا کہ سرمایہ دارانہ نظام کا ایک بنیادی تضاد یہ ہے۔

(١) Accumulation صرف، پیدوار اور تقسیم (Distribution) میں کمی کر دیتا ہے۔

(٢) Accumulation صرف ،پیداوار اور تقسیم کے عمل کی بنیاد پر ممکن ہوتا ہے۔

(٣) لیکن پیداواری نظام سرمایہ کو مشینری، زمین، بلڈنگ وغیرہ کی شکل میں منجمد اور قید کرلیتا ہے اور اس سیالت میں کمی کردیتا ہے۔

لہٰذا سرمایہ ہمیشہ پیداواری نظام سے دوری کی تلاش میں رہتا ہے۔ یہ دوری مکمل کبھی نہیں ہوسکتی کیونکہ Accumulation کی بنیاد پیداواراور اس کی تقسیم میں اضافہ پر ہے لیکن جتنی یہ دوری بڑھتی ہے سرمایہ کی گردش کی رفتار اتنی ہی تیز ہوجاتی ہے تاریخی طور پر سرمایہ نے پیداواری نظام سے دوری کی دو شکلیں اختیار کی ہیں۔

١۔ استعماریت(Imperialism  ):

جب کوئی پیداواری نظام Mature ہوجاتا ہے تو وہاں شرح منافع گھٹ جاتی ہے بڑھوتری کے ساتھ ساتھ سرمایہ کی گردش کے مواقع بھی کم ہوجاتھے تھے۔ لہٰذا زیادہ منافع اور سیالیت Liquidity کی تلاش میں سرمایہ پرانے مراکز چھوڑ دیتا تھا۔ مثلاً انیسویں صدی میںبرطانوی سرمایہ دارانہ معیشت جرمنی اور جاپان میں مستحکم ہوئی یہ ممالک برطانیہ اور امریکا کے لیے خطرہ بن گئے۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں جرمنی اور جاپان کو تباہ کیا گیا۔ یہ بات ہم کو سرمایہ دارانہ معیشت اور ریاستی قوت کے نظام کے تعلق کے بارے میں ایک اہم اشارہ دیتی ہے جس پر ہم سرمایہ داری کے تضادات والے سیکشن میں گفتگو کریں گے لیکن یہاں اتنی بات سمجھ لینا کافی ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کی برتری قائم رکھنے کے لیے ریاستی جبر کااستعمال ناگریز ہے۔ ایشیا اور افریقہ میں استعماری نظام نے وہ نظام جبرفراہم کیا ہے جس سے ان ممالک کا معاشی استحصال ماضی میں بھی کیا اور آج بھی ریاستی جبر کی بنیاد پر یہ استحصال جاری ہے۔

٢۔ زر کے بازار اور سرمایہ کے بازار کا قیام

سرمایہ پیداواری نظام سے آزاد کرانے کے لیے زر کا بازار قائم کیا گیا۔ زر کے بازار کا قیام اس بات پر منحصر تھا کہ زر کی قدر کسی شے کی بنیاد پر نہیں بلکہ سرمایہ داروں اور ان کی ریاست کی قوت کے استعمال کے ذریعہ کی جائے۔ چنانچہ پہلے زر کا تعلق سونے اور چاندی سے محدود کیا گیا اور ١٩٧١ء کے بعد سے یہ تعلق بالکل ختم کردیا گیا اور اب دنیا کے ہر ملک کے سکے کی قدر حکومتوں اور سرمایہ داروں کی قوت کی رسہ کشی کے نتیجہ میں مقرر ہوتی ہے۔ کسی کرنسی کی کوئی متعین اور مستحکم قدر نہیں۔ تمام سکوں کی قدر مستقل قوت کے استعمال کے ذریعہ ہر آن بدلتی رہتی ہے یہی Foreign exchange market کا کام ہے۔

زر کے بازار کے فروغ میں بنیادی کام بینکوں نے انجام دیا۔ سرمایہ دارانہ نظام میں بینکوں کو خود سرمایہ پیدا کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں بخل عام ہوتا ہے اور لوگ اپنی بچت کو محفوظ رکھتے ہیں اس کا صرف قلیل حصہ استعمال میں لاتے ہیں بینکاری کا نظام اس بات کا اندازہ لگاتا ہے کہ بچت میں سے ایک متعین مدت میں کتنا خرچ ہوگا۔ مثلاً یہ شرح پچیس فیصد ہے تو ایک بینک ان سو روپوں میں سے جو اس کے پاس رکھوائے گئے صرف پچیس روپیہ محفوظ رکھتا ہے اور ٧٥ روپے کسی کو قرضہ دیتا ہے۔ یہ ٧٥ روپے کسی دوسرے بینک میں جمع ہوتے ہیں اور وہ بینک ٧٥ روپوں کا ٢٥ فیصد محفوظ رکھ کر ٥٦ روپے ٢٥ پیسہ قرضہ دے دیتا ہے اب یہ اس کا بھی بھی ٢٥ فیصد محفوظ کرلیا جاتا ہے اور ٤٢ روپے ١٩ پیسہ کا قرضہ دیا جاتا ہے لہٰذا ١٠٠ روپے کی بچت قرضہ کی مقدار …٧٥+ ٢٥.٥٦+١٩.٤٢= ٤٤.١٧٣

صرف تیسرے چکر تک ہوجاتی ہے۔ اگر آپ پورا حساب کریں تو دیکھیں گے کہ بینکاری کا نظام ١٠٠ روپے کی بچت کی بنیاد پر ٤٠٠ روپے کا قرضہ ٢٥ فیصد کے محفوظات رکھتے ہوئے دیتا ہے۔ یہ چار سو روپے بینکاری نظام کی پیداوار ہیں اور چونکہ ان کے پیچھے کوئی اصل قدر مثلاً سونا چاندی وغیرہ نہیں ہوتی اس لیے اس پیداوار کی صرف شرح بچت ہی حد متعین کرتی ہے۔

سرمایہ دارانہ معیشت میں زر کی قیمت سود ہے۔ سود کا تعین دیگر تمام قیمتوں کی طرح قوت کی رسہ کشی سے ہوتا ہے۔ بچت کرنے والے سود کو بڑھانے اور قرضہ لینے والے سود کو گھٹانے کی مسلسل جدوجہد کرتے ہیں چونکہ اشیاء کی پیداوار اور ان کی تقسیم زر کے استعمال کے بغیر ناممکن ہے اور چونکہ زر کی قدر اور قیمت کا تعین بینکاری نظام کرتا ہے لہٰذا سود ربو ٰا الفضل کی شکل میں ہر شے اور ہر خدمت کی قیمت میں داخل ہوجاتا ہے۔ بینکاری نظام کو یکسر ختم کیے بغیر ربو ٰا الفضل سے نجات ممکن نہیں جیسے جیسے بینکاری کا نظام وسعت پاتا ہے ویسے ویسے حرام خوری عام ہوتی ہے اور فرد سرمایہ دارانہ معیشت میں ضم ہونے پر مجبور ہوجاتا ہے۔

فرد کی اس مجبوری میں اضافہ سرمایہ کا بازار بھی کرتا ہے۔ سرمایہ وہ زر ہے جو اپنی مقدار میں اضافہ کی خاطر مستقل پیداواری اور تقسیمی (Distributive ) چکر سے گزرتا رہتا ہے۔ سرمایہ جوائنٹ اسٹاک کمپنیوں اور ان کے حصص کی شکل میں تجسیم (Subjectivity) اختیار کرتا ہے۔ جوائنٹ اسٹاک کمپنیاں شخصی ملکیت کو ختم کرنے کا ذریعہ ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام میں شخصی ملکیت بتدریج ختم ہوجاتی ہے۔ جوائنٹ اسٹاک کمپنیاں پورے پیداواری اور تقسیمی نظام پر حاوی ہوتی ہیں۔ انہی کی آپس کی قوت کی رسہ کشی کے نتیجے میں بیشتر اشیاء اور خدمتوں کی قیمتیں اور پیداواری مقدار مقر رہوتی ہیں۔ ایک جوائنٹ اسٹاک کمپنی کے لاکھوں قانونی مالک ہوتے ہیں۔ لیکن یہ ملکیت محض افسانوی (Fictional) حیثیت کی ہوتی ہے۔ کمپنی کو چلانے والے اور اس کی پالیسی متعین کرنے والے اس کے قانونی مالک نہیں بلکہ اس مینجمنٹ کے ارکان ہوتے ہیں جن کے پاس عملاً کمپنی کے ایک فیصد حصص بھی نہیں ہوتے۔ کمپنی کی کامیابی اس بات پر منحصر ہوتی ہے کہ مینجمنٹ سرمایہ کے احتکار (Accumulation ) میں کتنا اضافہ کرتی ہے۔ اس اضافہ کی رفتار کو تیز کرنے کے لیے لازم ہے کہ مینجمنٹ کمپنی کے ہر کارکن کو زیادہ سے زیادہ خودغرض، دنیا پرست، سفاک اور ظالم بنائے یہی سرمایہ دارانہ عقلیت (Rationality of Capitalist) کا فطری تقاضا ہے۔ جب سرمایہ کا بازار وسعت حاصل کرتا ہے۔ تو جوائنٹ اسٹاک کمپنیاں معیشت پر غالب آجاتی ہیں۔ شخصی ملکیت ختم ہوجاتی ہے اور سرمایہ دارانہ عقلیت نفس انسانی کو مسخ کرکے رکھ دیتی ہے۔ لذت پرستی، خود غرضی اور استحصال ایک وبا کی طرح تمام انسانیت کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔

سرمایہ دارانہ معاشرہ کی بنیادی خصوصیات:

جیسا کہ بارہا عرض کیا جاچکا ہے کہ سرمایہ داری کی اصل روح خودغرضی اور لذت پرستی ہے جب حرص اور حسد عام ہوجاتے ہیں اور خواہشاتی عقلیت (Rationality bounded by desire) معاشرے پر غالب آجاتی ہے تو سرمایہ دارانہ ادارے مستحکم ہوجاتے ہیں۔ یہ ادارے ہر فرد کو ایک بے بس اور لاچار شے بنا کر رکھ دیتے ہیں۔ ہر شخص اس بات پر مجبور ہوتا ہے کہ خواہشاتی عقلیت کو اپنے عمل کی بنیاد بنائے۔ وہ جتنا خودغرض، حریص، حاسد اور سفاک ہوگا معاشرہ میں اس کا مقام اتنا ہی بلند ہوگا۔ اگر وہ حرص، حسد اور دنیا طلبی سے دامن بچانے کی کوشش کرے گا تو اس کی زندگی جہنم بن جائے گی۔ اس کا کاروبار چوپٹ ہوجائے گا۔ وہ نوکری سے نکال دیا جائے گا۔ اس کے ماں، باپ، بیوی بچے اس کو حقارت کی نظر سے دیکھیں گے۔

حقیقت یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں ہر شخص خواہشاتی عقلیت کا پیمانہ اور معیارات قبول کرنے پر مجبور ہے، سرمایہ داری وہ نظام جبر ہے جس میں ذاتی ملکیت کو ختم کرکے ہر شخص کو سرمایہ کا مزدور بنا دیا جاتا ہے۔ سرمایہ وہ زر ہے جو مستقل اپنی مقدار میں اضافہ کی غرض سے پیداواری نظام سے گزر رہا ہے اور جو جوائنٹ اسٹاک کمپنیوں کی شکل میں تقسیم ہو رہا ہے۔ سرمایہ ہر شخص کا اصل مالک بن جاتا ہے اور سرمایہ کا کوئی مالک نہیں ہوتا۔ اس کے صرف منیجر ہوتے ہیں جن کی بقا صرف اس پر منحصر ہوتی ہے کہ وہ سرمایہ دارانہ عقلیت کے تقاضوں کے کتنے پابند ہیں۔

سرمایہ دارانہ معاشرہ میں ہر شخص مزدور ہوتا ہے اور سرمایہ کی مسلسل خدمت پر مجبور ہوتا ہے۔ سرمایہ دارانہ معاشرہ میں طبقات ختم ہوجاتے ہیں اور بھرپور (Mature) سرمایہ دارانہ معاشرہ میں طبقاتی کشمکش ناممکن ہوجاتی ہے۔ چونکہ ہر شخص اپنی محنت کو ایک شے (Objectified) کی شکل میں سرمایہ کی خدمت میں پیش کرنے پر مجبور ہے اور چونکہ سرمایہ جوائنٹ اسٹاک کمپنی کے ہیولے میں تجسیم ہوچکا ہے لہٰذا معاشرہ یک رنگ ہوجاتا ہے۔ ترقی کامعیار صرف سرمایہ دارانہ عقلیت کی پیروی بن جاتی ہے اور غریب سے غریب شخص اعلیٰ سے اعلیٰ مقام تک پہنچ سکتا ہے بشرطیکہ وہ سرمایہ دارانہ عقلیت کو مکمل طور پر اپنانے کی اہلیت رکھتا ہے اور سرمایہ دارانہ اہداف کا حصول اپنی زندگی کا سب سے اہم مقصد سمجھتا ہے۔ سرمایہ دارانہ عقلیت میں مذہبی، نسلی، لسانی اور طبقاتی امتیازات کو رد کیا جاتا ہے اور سرمایہ دارانہ معاشرت میں اس بات کی کوشش کی جاتی ہے کہ ہر شخص کو سرمایہ کی خدمت کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ اور یکساں مواقع فراہم کیے جائیں۔ سیاسی فلسفہ میں اس نظریہ کو (Equality of opportunity) کہاجاتا ہے یعنی یکساں مواقع سب کے لیے اور فلاحی ریاست کا قیام اسی  (Equality of opportunity)کو حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔

سرمایہ دارانہ ریاست سرمایہ دارانہ معاشرت کی پشت پناہی کرتی ہے۔ یہ آزادی اور مساوات کی اقدار کو عام کرتی ہے اور ہر شخص کو ایک ایسا یکا اور تنہا فرد گردانتی ہے جس کی خواہشات کی تکمیل ہر دوسرے کی خواہشات کی تکمیل کا انحصار صرف اس بات پر ہے کہ فرد کتنے وسائل حاصل کرتا ہے اور وسائل کا حصول صرف سرمایہ دارانہ عقلیت کے پیمانوں کو قبول کرنے اور ان پر عمل کرنے کا نتیجہ ہے لہٰذا جو سیاسی نظام سرمایہ دارانہ معاشرت کو تقویت دیتا ہے وہ انسان کو خودغرض، حریص، حاسد اور سفاک بنانے میں فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے۔ جتنا جتنا آزادی اور مساوات کو بحیثیت معاشرتی اقدار کے قبول کرلیا جائے گا اور جوں جوں سیاسی عمل حقوق کے حصول کے محور کے گرد مرتکز ہوگا سرمایہ دارانہ معیشت اتنی ہی زیادہ استحکام اور تقویت حاصل کرے گی اور فلاحی ریاست باآسانی بنیادی سرمایہ دارانہ اداروں۔ زر کے بازار، سرمایہ کے بازار، جوائنٹ اسٹاک کمپنیوں، ذاتی ملکیت کا خاتمہ اور نظام اجرت کی عمومیت کو تحفظ دے سکے گی۔ جمہوری فلاحی ریاست وہ فطری سیاسی خول ہے جس میں سرمایہ دارانہ معیشت پنپتی ہے اور جس میں نفس پرستی، خود غرضی، حسد اور حرص فروغ پاتی ہیں۔

لیکن جو لوگ جمہوری ریاست اور سرمایہ دارانہ معیشت کو رائج کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ فطرت انسانی سے جنگ کرتے ہیں۔ فطرتاً انسان خودغرض، حاسد، حریص اور سفاک نہیں ہے۔ انسان کی سب سے بڑی فطری ضرورت یہ ہے کہ وہ محبت کرے اور اس سے محبت کی جائے۔ محبت فنائے ذات کی متقاضی ہے نفس پرستی اور لذت پرستی کی نہیں محبت کرنے والا شخص ایثار، انفاق اور احسان کی صفات کو اپنانے کی کوشش کرتا ہے اوروہ حرص، حسد، دنیا طلبی اور سفاکی کو عیب جانتاہے۔ سرمایہ دارانہ عقلیت کی نفی فطرت انسانی خود کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے بھرپور Mature سرمایہ دارانہ معاشرہ میں  بھی اس عقلیت کے تقاضوں کو بہت کم افراد پورا کر پاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام لاتعداد تضادات کا شکار ہے اور خود اپنی تباہی کے سامان پیدا کرتا ہے۔ ذیل میں ہم ان تضادات کو مختصر بیان کریں گے۔

سرمایہ داری  کے تضادات:

سرمایہ دارانہ نظام کی ترقی کا انحصار اس بات پر ہے کہ احتکار کی رفتار میں مسلسل اضافہ ہو لیکن احتکار کی بنیاد نظام پیداوار ہے لہٰذا احتکار(Accumulation) کی رفتار میں مسلسل اضافہ ناممکن ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پیداوار میں اضافہ خواہشات میں اضافہ کے تابع ہے۔ اگر خواہشات میں خاطرخواہ اضافہ نہ ہو تو پیداوار بیکار ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زراعت بالخصوص کئی دہائیوں سے زائد از ضرورت پیداوار (Over Production) کا شکار ہے اور ہر سال لاکھوں ٹن اجناس تباہ کی جاتی ہے۔ ضرورت سے زیادہ پیداوار کئی صنعتی شعبوں میں بھی پھیل جاتی ہے۔

لہٰذا سرمایہ دارانہ پیداواری نظام ضرورتوں اور خواہشات کو بڑھانے کی سعی کرتا ہے۔ سب سے زیادہ منافع بخش وہ صنعتیں ہوجاتی ہیں جو خواہشات کو ابھارنے کے لیے اشیاء پید اکریں مثلاً تفریحی صنعتیں معلوماتی اور مواصلاتی صنعتیں اشتہاری صنعتیں وغیرہ۔ جولوگ ان صنعتوں سے وابستگی نہیں رکھتے وہ سرمایہ دارانہ ترقی میںحصہ لینے سے قاصر رہیں اور سرمایہ دارانہ نظام ان افراد کو اپنے اندر جذب کرنے کا کوئی مؤثر طریقہ نہیں رکھتا۔ یہ سرمایہ دارانہ تعلق کی ایک بہت بڑی کمزوری ہے کہ فلاحی ریاست کے قیام کے باوجود سرمایہ دارانہ مراکز تک میں کروڑوں افراد سرمایہ دارانہ معیشت میں شمولیت نہیں اختیار کر پاتے۔ بے روز گاری عام ہوجاتی ہے ریاست کے وسائل محدود ہوجاتے ہیں اور فلاحی ریاست کے دائرہ کو مجبوراً کم کرنا پڑتا ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پیداواری نظام بازار زر اور سرمایہ کے بازاروں کی رفتار ترقی کا ساتھ نہیں دے پاتے اور سرمایہ دارانہ معاشی ڈھانچہ غیرمتوازن ہوتا چلا جاتا ہے Financial مارکیٹ کی ارتقاء کے لیے جن اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے وہ ان پالیسیوں سے متصادم ہوتے ہیں جو پیداواری معیشت کی ترقی اور استحکام کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔

سرمایہ دارانہ عقلیت کی بنیادی کمزوری یہ ہے کہ وہ احتکار کا مقصد بیان نہیں کرپاتی۔ کارخانہ میں کام کرنے والا مزدور فطرتاً اس نظام جبر کے خلاف بغاوت کرتا ہے جس کا مقصد محض احتکار ہے۔ ریاست کا شہری جمہوری عمل سے لاتعلق ہوجاتا ہے کیونکہ یہ عمل ایک ایسا یکا اور تنہا فرد بنانا چاہتا ہے جو آزادی اور مساوی حقوق کے حصول اور فروغ کے ذریعہ اپنی تنہا اور خودمختاری کا طالب ہے لیکن انسان نہ تنہا ہے نہ خود مختار، فطرتاً اس کی نظر میں آزادی اور مساوی حقوق کوئی وقعت نہیں رکھتے، یہی وجہ ہے کہ الہامی ادیان نے مساوات کو کبھی بھی اقداری اہمیت نہیں دی۔

انسان آزادی اور خودمختاری نہیں چاہتا بلکہ وہ محبت کرنا چاہتا ہے۔ خدا سے محبت اور بندوں سے محبت۔ معاشرہ کی بنیادیں محبت فراہم کرتی ہے۔ چونکہ سرمایہ داری اور لبرلزم آزادی اور مساوی حقوق کی پرستش کرتے ہیں لہٰذا وہ کسی معاشرہ کی تعمیر کی بنیاد فراہم نہیں کرسکتے۔ تاریخی طور پر سرمایہ داری ور لبرلزم نے معاشرتی تعمیر کے لیے قوم پرستی کا سہارا لیا ہے۔ افراد اپنی قوم کے لیے ایثار اور اخلاص کا مظاہر کرتے ہیں لیکن قومی ریاستیں کسی اعلیٰ اور واضح مقصد کے لیے قائم نہیں ہوتیں۔ ان کا مقصد وجود محض ارتکاز قوتر اور نفس پرستی کو فروغ دینا ہوتا ہے۔ وہ نفرت کو عام کرتی ہیں محبت کو نہیں یہی وجہ ہے کہ سرمایہ داری ہمیشہ استحصالی جنگ کو فروغ دیتی ہے اور سرمایہ دارانہ نظام میں ہمیشہ اقوام برسرپیکار رہتی ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام ہمیشہ اخلی بحران اور بین الاقوامی جنگ کے خطرات سے گھرا رہتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سرمایہ داری فطرت انسانی کے خلاف جنگ ہے اور وہ حرص، حسد، لذت پرستی اور سفاکی جیسے منفی جذبات کو فروغ دیتا ہے جو سکون قلب کو تباہ کرکے انسان کو جہنم کے دہانے تک پہنچا دیتے ہیں۔

سرمایہ دار نظام اور اسلامی انقلابی حکمت عملی:

سرمایہ داری اسلام کی ضد ہے۔ اسلام سراپا محبت ہے۔ سرمایہ داری حرص وحسد کی تجسیم ہے۔ افسو س اس بات کا ہے کہ اسلامی معاشیات دانوں نے سرمایہ دارانہ اداروں کو اسلامیانے کی کوشش کی، اسلامی انقلابی سب سے پہلے سرمایہ دارانہ عقلت کو یکسر رد کرتے ہیں۔ وہ اس بات کا انکار کرتے ہیں کہ انسان فطرتاً حریص، حاسد، خود غرض اور لذت پرست ہے وہ محبت، انفاق، صبر، توکل، فقر، زہد اور احسان کو فطری انسانی صفات شمار کرتے ہیں اور ان کو فروغ دینے کی کوشش کرتے ہین اور اپنی معاشرتی حکمت عملی انہی صفات کو عام کرنے کی بنیاد پر مروج کرتے ہیں۔

یہ حکمت عملی سرمایہ دارانہ نظام کو مکمل طور پر تباہ کرنا چاہتی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں جزوی اصلاح کی خواہش مند نہیں۔ اس حکمت عملی کو بروئے کار لانے کے لیے تین سطحوں پر کام اشد ضروری ہے۔

(١) ان بازاروں اور پیشوں میں حلال رزق فراہم کرنے کی کوشش کرنا چاہیے جو قدیم اسلامی روایت برقرار رکھے ہوئے ہیں اور جن کا زر کے بازار اور سرمایہ کے بازار سے بالواسطہ تعلق نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلامی جماعتیں مساجد کو بنیاد بنا کر ایسی معاشی صف بندی کریں جس کے نتیجے میں عام آدمی کے لیے حلال رزق کے وافر مواقع مہیا ہوں۔ اسلامی جماعتوں کو اس کام کو اس طرح ترتیب دینا چاہیے کہ حرص اور حسد کی بیماریاں اس میں شریک افراد کو متاثر نہ کرسکیں۔ اس وجہ سے لازم ہے کہ معاشی صف بندی کا کام انفرادی نہ ہو اور سماجی رفاہی تنظیموں کے سپرد نہ کیا جائے۔ یہ خالص دینی کام ہے جس کو مساجد پر مرتکز ہونا چاہیے اور جس کی ذمہ داری اسلامی جماعتوں کو اٹھانا چاہیے یہ ضروری ہے کہ اس کام میں ایسے اداروں سے کوئی مدد نہ لی جائے جو زر کے بازار اور سرمایہ کے بازار سے متعلق ہیں۔ (مثلاً اسلامک بینکس، مضاربہ کمپنیاں، لیزنگ ایجنسیاں وغیرہ) ان احتیاطوں کے بغیر للہیت کو فروغ نہیں دیا جاسکتا وار اس قسم کا کام بہت جلدخودغرضی، حرص اور حسد کا شکار ہوجاتا ہے۔

(٢) اللہ کے فضل وکرم سے آج پاکستان کے ہر بڑے صنعتی اور مالیاتی اداروں میں اسلامی مزدور یونینیں موجود ہیں۔ ہمارے جیالے یونینسٹ تحریک اسلامی کا ہر اول دستہ ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو آگے بڑھ کر سرمایہ داری کے مضبوط ترین مورچوں پر قبضہ کریں گے وار ان پر اسلام کا سبز ہلالی پرچم بلند کریںگے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ ظلم اور استحصال کے عینی شاہد ہیں اور سرمایہ دارانہ مکاری کا مدت دراز سے نہایت نامساعد حالات میں دلیرانہ مقابلہ کر رہے ہیں۔ ضروت اس بات کی ہے کہ ہماری مزدور تنظیمیں حقوق کی سیاست کو شرح صدر کے ساتھ رد کریں۔ سرمایہ دارانہ نظام میں مزدوروں کے حقوق کے تحفظ سے سرمایہ داری مستحکم ہوتی ہے۔ اسلامی مزدور تنظیموں کو تمام سرکاری اور غیرسرکاری جوائنٹ اسٹاک کمپنیوں کی مینجمنٹ میں شمولیت کی سعی کرنی چاہیے تاکہ یہ کمپنیاں اسلامی مقاصد کو پیش نظر رکھ کر اپنی پالیسیاں بنائیں۔ زر کے بازار اور سرمایہ کے بازار سے ان کا تعلق کم ہو اور کالے دھندوں اور کرپشن سے دست کش ہوں اور مزدوروں کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ جوائنٹ اسٹاک کمپنیوں کا حقیقت میں کوئی ملک نہیں اور مزدور کو مینجمنٹ کے اہداف اور حکمت عملی متعین کرنے کا پورا پورا حق ہے۔ یہ صورت سرکاری کمپنیوں کی بھی ہے۔

(٣) سرمایہ داری کی قومی سطح پر ضرب کاری اسلامی ریاست ہی لگائے گی اس ضمن میں سب سے پہلی بات جس کو سمجھ لینا چاہیے وہ یہ ہے کہ اسلامی انقلابیوں کو آزاد معیشت کو عام کرنے اور نج کاری کی پالیسی کی بھرپور مخالفت کرنی چاہیے۔ آزاد معیشت کی پالیسیاں قومی ریاست کو کمزور کرکے بین الاقوامی سرمایہ کا تسلط ملکی معیشت پر قائم کرنا چاہتی ہیں اور صرف ملک اور قوم کے غدار ہی ان پالیسیوں کے حامی ہوسکتے ہیں (سوائے ان بھائیوں کے جو ان پالیسیوں کی اصلیت سے ناواقف ہوں) اگر بین الاقوامی سرمایہ کا تسلط ملکی معیشت میںپوری طرح ضم ہوگیا تو یہاں اسلامی ریاست کا قیام ناممکن ہوجائے گا۔ اسلامی ریاست استعماری نظام سے تعلقات منقطع کرے گی تاکہ اس نظام کے خلاف مؤثر جہاد ممکن ہو۔ اسلامی ریاست کو لازماً سود کے بازار اور سٹہ کے بازار کو یکسر ختم کرنا ہوگا اور سرمایہ دارانہ تصور ملکیت کو رد کرکے شخصی ملکیت کی اسلامی خطوط پر احیاء کی کوشش کرنا ہوگی۔ یہ ایک طویل المدت کام ہے جو مزدور یونینوں اور عوامی معاشی اداروں کی مدد سے کیا جاسکتا ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جہاد وقت کی اہم ترین ضرورتوں میں سے ایک ہے۔ اس جہاد میں پہلا مرحلہ تطہیر نفس کا آتا ہے۔ ہم نے یہاں اقدار خبیثہ حسد، حرص، خودغرضی، سفاکی کا بیان کیا جو سرمایہ داری کی روح ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *