فیصل منظور

 

گزشتہ ابواب کی طرح اس باب میں بھی مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کریں گے:

(1)ریاست ہائے متحدہ امریکا میں انقلاب سے کیا مراد ہے اور اس کا مقصد کیا تھا؟

(2)یہ انقلاب کیسے آیا اورکون لے کر آیا؟

(3)اس انقلاب کا نتیجہ کیا نکلا؟

امریکا میں انقلاب کا مقصد:

امریکا وہ پہلی اور واحد ریاست ہے جس کے قیام کا مقصد بڑھوتری سرمایہ اور حقوقِ انسانی کی بالادستی قائم کرنا تھا۔ امریکا کا اعلانِ آزادی (Declaration of Independence) فیڈرلسٹ پیپرز (Federalist Papers) اور امریکی دستور تینوں اس فلسفے کا اظہار ہے کہ سرمایہ دارانہ معاشرت، ریاست اورانفرادیت کو کس طرح استوار کیاجاتاہے اورنافذ العمل کیاجاتاہے۔

براعظم شمالی امریکا کو یورپی مہم جوؤں نے پندرھویں صدی کے اواخر میں دریافت کیا۔ 1492ء میں کولمبس کی آمد کے وقت امریکا میں جو لوگ آباد تھے، وہ کئی ہزار سال قبل ایشیا سے امریکا آئے تھے۔ یہ مختلف قبائل کی شکل میں رہتے تھے اور ان کو عام طور پر ریڈانڈینز (Red Indians) کہا جاتا ہے۔ کولمبس انڈیا کی تلاش میں نکلا تھا۔ جب امریکا کے ساحل پر لنگر انداز ہوا تو ان لوگوں کوانڈینز (Indians) سمجھا اور یہ ہی بعد میں ریڈانڈینز کے نام سے معروف ہو گئے۔ یہ یورپی آباد کار زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے کا ہدف لے کر آئے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق یورپی آبادکاروں نے سولھویں صدی سے انیسویں صدی کے درمیان تقریباً دس کروڑ ریڈ انڈینز کو قتل کیا اور یہ قتلِ عام تہذیب اور Civilization کے نام پر کیا گیا۔تفصیلات کے لیے مائیکل مین کی کتاب The Dark side of the demo cracy کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔

 امریکا کی بنیاد ایک خالصتاً خدا سے باغی نظام زندگی پر رکھی گئی، لیکن امریکا میں سرمایہ دارانہ انقلاب کی تکمیل ، اس کے اعلانِ آزادی 1776ء سے تقریباً نوے سال بعد اس مرحلے کے اختتام پر ہوئی جس کو امریکن خانہ جنگی (American Civil War) کہتے ہیں اور جس کے نتیجے میں امریکا میں غلامی (Slavery)کا خاتمہ ہوا۔

صنعتی سرمایہ دارانہ انقلاب کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں کو سرمایہ دارانہ حقوق دیے جائیں، جیسا کہ امریکا کے اعلانِ آزادی کی ابتدا میں متحدہ امریکا کی بنیاد انسانی حقوق اور آزادی کے تصور کو قرار دیا گیا ہے:

”We hold these truths to be self-evident, that all men are created equal,and they are endowed by their creator with certain unalienable rights, that among these are life, liberty and the pursuit of happiness.”

”ہم ان حقائق کو بذات خود واضح سمجھتے ہیں کہ تمام افراد برابر پیدا کیے گئے ہیں اور ان کے خالق نے انہیں کچھ نہ الگ ہونے والے حقوق ودیعت کیے ہیں اور ان حقوق میں زندگی، آزادی اور مسرت کے حصول کا حق شامل ہے۔”

چنانچہ اس ضمن میں مغربی کلاسیکل مفکرین نے تین قسم کے سرمایہ دارانہ حقوق کوحاصل زندگی قراردیا ہے:

(1)زندگی کا حق(Right of Life):

تمام انسانوں کو زندہ رہنے کا حق حاصل ہے، لیکن یہ حق انہیں ایسی صورت میں دیا جا سکتا ہے جب وہ اپنی جان سرمایے میں اضافے میں لگائیں۔ کسی ایسے انسان کو زندہ رہنے کا حق نہیں جو انسانی زندگی کا سرمائے میں بڑھوتری کے علاوہ کوئی اور مقصد متعین کرتا ہو۔چنانچہ انسان ایک ایسا جانور ہے جو محنت کرتا ہے تاکہ سرمایہ کو فروغ حاصل ہو، جو انسان یہ نہیں کرتا اس کا قتل جائز ہے، اور دس کروڑRed Indiansکے قتل عام کا جواز یہ بیان کیا گیا کہ وہ اپنی زندگیاں سرمائے کی بڑھوتری میں نہیں کھپاتے لہٰذا ایک بھینسا اور ایک Red Indianبنیادی طور پر جانور ہیں۔

(2)حق ملکیت(Right of Property):

تمام انسانوں کو ملکیت (Property) رکھنے کا حق حاصل ہے، لیکن یہ حق انہیں اسی صورت میں حاصل ہے جب اس ملکیت کو بڑھوتری سرمایہ (Accumulation of Capital) اور آزادی کے اظہار میں لگائیں۔ اگر وہ اس ملکیت کا کوئی دوسرا مقصد مثلاً اللہ کی رضا کا حصول متعین کرتے ہیں تو انہیں ملکیت کا حق حاصل نہیں اور ان کا مال ان سے چھین لیا جائے گا۔  جیسا کہ Red Indiansکی زمینیں چھینی گئی تھیں۔

(3) آزادی ٔ  ضمیر (Right of Consciousness):

تمام انسانوں کو ضمیر کی آزادی کا حق حاصل ہے یعنی وہ حق وباطل اور خیر وشر کا تعین کرنے میں آزاد ہیں، لیکن کسی انسان کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ سرمایے کی بڑھوتری کی قدر کی آفاقیت اور معروضیت کو چیلنج کرے اور اس کی جگہ کسی اور نظام کو رکھے۔

چوں کہ سرمایہ دارانہ حقوق دیے بغیر لیبر مارکیٹ (Labour Market) قائم نہیں ہو سکتی اور جب تک غلام یعنی Slave Labourموجود ہے تو لیبر مارکیٹ قائم نہیں ہو سکتی ، لہٰذا جمہوریت کا فروغ اور غلامی کا خاتمہ، سرمایہ دارانہ حقوق دینے کا ذریعہ ہے۔ یہی امریکن سول وار کا جواز تھا۔

سرمایہ دارانہ نظام محض ایک معاشی نظام نہیں ہے ( جیسا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں) بلکہ وہ ایک پورا نظام زندگی ہے جس کے اندر ایک خاص نوعیت کی انفرادیت ، ایک خاص نوعیت کی معاشرت اور ایک خاص نوعیت کی ریاست کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ انفرادیت، معاشرت اور ریاست قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سرمایہ دارانہ حقوق دیے جائیں، اور جمہوریت انہی سرمایہ دارانہ حقوق کے دینے کا ایک ذریعہ ہے۔ ان حقوق کو دیے بغیر سرمایہ دارانہ انفرادیت، معاشرت اور ریاست قائم نہیں ہو سکتی لہٰذا وہ لوگ جو سرمایہ دارانہ نظام زندگی نافذ کرنا چاہتے تھے، انہوں نے جنگ کی۔

امریکا میں انقلاب کیسے آیا اور کون لایا؟

یورپی استعمار کی امریکا سے بے دخلی کے بعد امریکا کا جو ریاستی ڈھانچہ بنا، وہ تین طرح کی ریاستوں پر مبنی تھا۔

(1) جنوبی ریاستیں:

یہ وہ ریاستیں تھیں جن کی معیشت کا انحصار کپاس کی پیداوار پر تھا اور یہ کپاس زیادہ تر انگلستان برآمد کی جاتی تھی۔ کپاس کی پیداوار کا کچھ حصہ امریکہ کی شمالی ریاستوں کو بھی بھیجا جاتا تھا ۔ امریکی جنوبی ریاستوں کی خاص بات ان میں غلامی (Slavery) کے ادارے کا پایا جانا اور مستحکم ہونا تھا۔ یہ غلام (Negroes)افریقہ سے پکڑ کر لائے گئے تھے اور کسانوں کی عظیم اکثریت انہی غلاموں پر مشتمل تھی۔

(2) شمالی ریاستیں:

یہ وہ ریاستیں تھیں جو مکمل طور پر آزاد صنعتی، سرمایہ دارانہ جمہوری نظام کو اپنا چکی تھیں اور جہاں پر تنخواہ دار مزدور (Wage Labour) کا ادارہ موجود تھا۔

(3) مغربی ریاستیں:

ان ریاستوں میں آزادکسان موجود تھے جو خودانحصاری کی بنیادوں پر کھیتی باڑی کرتے تھے۔

امریکا میں سرمایہ دارانہ انقلاب کی تکمیل کی بنیاد ان ریاستوں کی آپس میںکشمکش تھی جو خانہ جنگی پر منتج ہوا۔

انیسویں صدی میں امریکی معاشرتی ڈھانچہ مختلف سمتوں میں پروان چڑھا۔ جنوب میں ایک زرعی معاشرہ تھا جس کی بنیاد زرعی غلامی تھی۔ شمال مشرق میں صنعتی سرمایہ داری مستحکم ہوئی اور اس نے اپنے ناتے مغربی ریاستوں کے ساتھ جوڑے جہاں خاندانی بنیادوں پر زمینداری کی جاتی تھی۔

مغربی ریاستوں کے ساتھ، شمالی ریاستوں نے ایک ایسا معاشرہ اور کلچر تخلیق کیا جس کی بنیاد پر جنوب سے اختلاف تھا اور اس اختلاف کا مرکزی نکتہ غلامی کا ادارہ تھا۔

لنکن (Lincoln) کے اقتدار میں آنے کے بعد جنوبی ریاستوں نے شمالی ریاستوں کی یونین (Union) کے ساتھ علیحدگی اختیار کی اور اپنی ایک الگ کنفیڈریشن (Confederation) بنائی جس پر لنکن کی قیادت میں شمالی ریاستوں نے جنوبی ریاستوں کی اس بغاوت کو کچلنے کا اعلان کیا اور چار سالوں (1861-1865) پر محیط اس خانہ جنگی میں تقریباً چھ لاکھ فوجی مارے گئے اور بالآخر شمالی ریاستوں کو فتح حاصل ہوئی۔

اگر ہم معاشی نقطہ نظر سے غلامی کے معاملے کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ زرعی غلامی ایک منافع بخش ادارہ تھا خاص طور پر ان علاقوں میں جو کپاس اور اس جیسی دوسری فصلوں کی پیداوار کے علاقے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ شمالی ریاستوں کی تنقید کے باوجود جنوبی ریاستوں نے غلامی کے حق میں دلائل فراہم کیے اور ا س کے تحفظ کی کوشش کی۔

چناں چہ خالص معاشی مفاد اس خانہ جنگی کی بنیاد نہیں بن سکتا تھا۔

خانہ جنگی اور جنوبی ریاستوں میں غلامی کے خاتمے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ غلامی کی موجودگی حقیقی جمہوریت کی راہ میں ایک رکاوٹ تھی یا کم ازکم جمہوریت کے اس تصور میں جس میں تمام انسان برابر متصور ہوں اور جن کی آزادی اور ترقی کے مساوی مواقع میسر ہوں۔ چناں چہ جمہوریت اور سرمایہ دارانہ حقوق کے لیے غلامی کا خاتمہ ضروری تھا اور یہی وجہ ریاستوں کے آپس میں جنگ کی وجہ بنی۔

اس پورے عمل کاجائز ہ لیا جائے تو یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ امریکا میں سرمایہ دارانہ انقلاب کی تکمیل خالصتاً ریاستی عمل کی مرہون منت ہے اور اس میں معاشرے یا افراد کا بحیثیت فرد عمل دخل نظر نہیں آتا۔

انقلاب کے نتائج:

اس انقلاب کا امریکا میں یہ نتیجہ نکلا کہ مغربی ایمانیات ثلاثہ یعنی آزادی ، مساوات اور ترقی پر امریکیوں کا ایمان مستحکم ہوتاچلا گیا اور دنیاوی زندگی میں زیادہ سے زیادہ لذت کا حصول (Maximizition of Pleasure/ Happiness) مقصد زندگی قرار پایا اور جس کے حصول کا راستہ جمہوریت،آزادی اور انسانی حقوق (Human Rights) قرار پائے ۔ چنانچہ اس فکر کی بنیاد پر  نت نئے سائنسی علوم دریافت کیے گئے جو تصرف فی الارض کو زیادہ سے زیادہ ممکن بناتے ہوں۔

عورتوں کی آزادی کے نام پر حیا کا جنازہ نکالا گیا اور ٢٠٢٠ء تک امریکیوں کی اکثریت حرامی افراد پر مشتمل ہو گی۔

حرص اور حسد، شہوت اور غضب کے جذبات کو وہ فروغ حاصل ہوا کہ جس کی مثال تاریخ انسانی پیش کرنے سے قاصر ہے۔

آج اسی جذبہ ٔ غضب کے تحت امریکا بزعم خود اپنی مثالی اقدار پر مشتمل نظامِ حیات کو پوری دنیاپر مسلط کرنے کی کوشش میں مصروف ہے، چاہے اس کے لیے اسے لوگوں کا بے دریغ قتل عام کرنا پڑے۔ آج چوں کہ اس نظام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ راسخ العقیدہ مسلمان ہیں لہٰذا مسلمانوں کا قتل عام امریکا کی نظر میں بالکل جائز ہے اور اسی سوچ کے مظاہر آج ہمیں افغانستان ، عراق ،لیبیااور فلسطین میں نظر آتے ہیں، اور امریکہ کی نظر میں دور حاضر کے Red Indiansمسلمان ہیں جنہیں قتل کرنا جائز ہے۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *