لینن اور ماؤ زے تنگ کے نظریات کی روشنی میں

زاہد صدیق مغل

 

کسی انقلاب کی مکمل تفہیم میں چار سوالات بنیادی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں

١۔           انقلاب کیا تھا؟ یہ سوال دو حصوں پر مشتمل ہے: 

                اولاً :  انقلاب کے مقاصد کیا تھے یعنی اس کے بنیادی دعوے اور دعوت کس چیز کی طرف تھی؟ 

                ثانیاً:  انقلابی دعوت کی علمی بنیادیں کیا ہیں، یعنی انقلاب کی دلیل کیا ہے، یہ کیوں ضروری ہے؟

٢۔            انقلاب کون لایا؟ یعنی کونسی جماعت انقلاب لانے کا باعث بنی ، انقلابی عمل کی پیروی کس نے کی، انقلابی لیڈروں کے نظریات و حال کیا تھے؟

٣۔             انقلاب کیسے لایا گیا؟ یعنی انقلابی عمل کے دوران کیا ہوا، ارتکاز قوت  کیسی حکمت عملی اپنائی گئی، قوت کن نئے اداروں میں مرتکز ہوئی؟

٤۔             انقلاب کا نتیجہ کیا نکلا؟ یعنی انقلاب کے بعد کیا ہوا، انقلاب نے جو وعدے کئے وہ کس حد تک پورے ہوئے، کس قسم کی نئی ادارتی صف بندی وجود میں آئی؟

                اس تحریر کا مرکزی مضمون  (١)  اشتراکی انقلاب کی نوعیت اور  (٢)  اس کے لئے درکار حکمت عملی کے خدوخال بیان کرنا ہے۔ مضمون کے پہلے حصے کے سلسلے میں مارکس جبکہ اشتراکی انقلاب کے طریقہ کار کی تفہیم کے ضمن میں لینن اور ماؤ زے تنگ کے نظریات کو بنیاد بنایا جائے گا۔ لینن اور ماؤ کے خیالات کو مرکز بحث بنانے کی وجوہات یہ ہیں کہ:

                اول:   مارکس نے اپنی زندگی میں  ‘عملاً ‘  کسی انقلابی جدوجہد میں شرکت نہیں کی اور نہ ہی اس مقصد کے لئے کوئی انقلابی پارٹی بنائی۔ لہٰذا مارکس کے نزدیک اشتراکی انقلاب برپا کرنے کا طریقہ کیا ہے اس کی  ایک سے زیادہ تعبیرات نہ صرف یہ کہ ممکن ہیں بلکہ عملاً کی گئی ہیں (١)، لہٰذا ضرورت ہے مارکس کے معتبر مفسرین کی اور اس مضمون میں ہم لینن اور ماؤ کو یہی درجہ دے کر اشتراکی انقلاب پر گفتگو کریں گے

                دوئم:  لینن اور ماؤ کے نظریات اس لئے بھی اہمیت کے حامل ہیں کہ انہوں نے اشتراکی انقلاب کی نہ صرف یہ کہ علمی پیروی کی بلکہ بالفعل اسے برپا بھی کیا ۔

                دھیان رہے کہ درج بالا اٹھائے گئے چار سوالات میں سے خصوصاً چوتھے سوال (کہ کسی مخصوص انقلاب کے بعد کیا ہوا یعنی وہ کس حد تک کامیاب ہوا) ایک عملی (empirical) نوعیت کا سوال ہے جس کا تعلق نظرئیے سے زیادہ مخصوص تجرباتی حقائق و واقعات کے ساتھ ہے اور زیر نظر مضمون کا نفس موضوع اشتراکی انقلاب کے فکری و عملی پہلو پر گفتگو کرنا ہے لہٰذا یہاں ہم اشتراکی انقلاب کے تجرباتی پہلو پر براہ راست گفتگو نہیں کریں گے۔

لبرل اور اشتراکی سرمایہ داری کا تعلق

                قبل اس سے کہ اشتراکی انقلاب کی ماہیت و طریقہ کار کا مطالعہ کیا جائے یہ اہم ترین بات ہمیشہ ذہن نشین رہنی چاہئے کہ سرمایہ دارانہ نظام زندگی کے دو بڑے نظریات ہیں:  ایک لبرل ازم (جسے عام طور پر سرمایہ داری کہہ دیا جاتا ہے) اور دوسرا اشتراکیت۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو اشتراکیت سرمایہ داری سے الگ کوئی نیا نظام زندگی نہیں جیسا کہ اشتراکیت کے علم بردار بڑی فنی مہارت سے یہ دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ سرمایہ دارانہ مقاصد کو حاصل کرنے کا محض ایک دوسرا طریقہ ہے۔ اس بات کی دلیل یہ ناقابل تردید حقائق ہیں : 

١۔             لبرل ازم اور اشتراکیت دونوں کی فکری بنیادیں تحریک تنویر (Enlightenment) کی علمیت سے ماخوذ ہیں، اسی لئے دونوں انسان کو قائم بالذات فرض کرتے ہیں۔ درحقیقت تصور   Humanity  ہی جدیدیت کی مختلف تعبیرات کا کلیدی اور روح رواں تصور ہے

٢۔            اشتراکیت بھی انہی مقاصد (آزادی، مساوات اور ترقی) کو حق اور انسانی زندگی کا مقصد کہتی ہے جنہیں لبرل سرمایہ داری حق کہتی ہے

٣۔            مارکس واضح طور پر کہتا ہے کہ اشتراکیت سرمایہ داری ہی سے برآمد ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مارکس اس طور پر (لبرل ) سرمایہ داری کا مداح ہے کہ سرمایہ داری جاگیرداری (fuedalism) کے مقابلے میں ایک ترقی یافتہ نظام پیداوار  (mode of production) ہے کہ اس میں رفتار پیداوار بہت تیز ہوجاتی ہے نیز افراد کو کہیں زیادہ مذہبی، معاشرتی، معاشی و سیاسی آزادیاں میسر ہوتی ہیں

٤۔            مارکس نے لبرل یا مارکیٹ سرمایہ داری پر جو بنیادی تنقید کی اسکا حاصل یہی ہے کہ مارکیٹ کے ذریعے آزادی اور لامتناہی ترقی کا حصول ممکن نہیں بلکہ مارکیٹ ایک خاص حد کے بعد ترقی (عمل پیداوار ) پر قدغن لگانے والا ادارہ ثابت ہوتا ہے ۔

٥۔            اگر آپ کسی اشتراکی سے یہ سوال کریں کہ جو معاشرہ و ریاست آپ قائم کرنا چاہتے ہیں وہ کن چیزوں کا حصول ممکن بنائے گا تو اسکا جواب ہوگا  ‘آزادی،  مساوات اور ترقی۔

٦۔             یہی وجہ ہے کہ چاہے اشتراکی علاقے ہوں یا لبرل ممالک، ہر جگہ ایک ہی قسم کی حرص اور حسد سے مغلوب، نفس پرست اور گناہوں کی اسیر انفرادیت و معاشرت پروان چڑھتی ہے ۔

                یہ بات کہ اشتراکیت محض سرمایہ داری کا ایک دوسرا نظریہ ہے اشتراکی انقلاب کی نوعیت پر غور کرنے سے بھی واضح ہوجائے گی۔ اب ہم اشتراکی انقلاب کے تصور کی وضاحت کرتے ہیں۔

١)   اشتراکی انقلاب کا تصور

                یہ سوال کہ  ‘مارکسٹ انقلاب کے بنیادی مقاصد کیا ہیں ‘  زیادہ تر اشتراکی مفکرین اس کے  جواب پر متفق ہیں۔ یہاں ہم مختصراً مارکس کی بیان کردہ آئیڈئیل اشتراکی معاشرتی و ریاستی نظم کی نشاندہی کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آئیڈئیل اشتراکی معاشرت کی مربوط تفصیلات مارکس کی تحریروں میں بمشکل ہی نظر آتی ہیں البتہ اس معاشرتی نظم کی چیدہ چیدہ خصوصیات مارکس کی تحریروں میں مل جاتی ہیں اور انہی کی بنیاد پر ہم درج ذیل تفصیل بیان کریں گے۔

                مارکس کے نزدیک اشتراکی انقلاب کی دو سطحیں ہیں، پہلی سطح کو وہ سوشلزم اور دوسری کو کمیونزم سے تعبیر کرتا ہے۔ درحقیقت اشتراکیوں کے خیال میں سوشل ازم سرمایہ داری اور کمیونزم کے درمیان ایک عبوری دور کی حیثیت رکھتا ہے جس میں وہ معاشی و سیاسی تبدیلیاں لائی جائیں گی جو بالآخر کمیونزم کے طلوع آفتاب کا باعث بنیں گی۔

 پہلی سطح، سوشل ازم:  

                سوشلزم سے مراد مزدور طبقے کی ڈکٹیٹرشپ پر مبنی ریاستی نظام کا قیام ہے جس کی درج ذیل خصوصیات ہو ںگی: 

١۔           نجی ملکیت (خصوصاً ملکیت زمین ) اور قانون وراثت کا خاتمہ

٢۔             progressive  (آمدنی میں اضافے کے ساتھ ٹیکس کی مقدار بڑھنے والے) نظام ٹیکس کا قیام

٣۔            نظام زر پر ریاست کا مکمل قبضہ

٤۔            ہر فرد کے لیے  عمل پیداوار میں لازمی شرکت (یعنی ہر فرد صرف محنت کے عوض اجرت کا حقدارہو گا)

٥۔            تیز رفتار صنعت کاری

ان تمام تبدیلیوں کا مقصد :

                 (١)  سرمائے کو سرمایہ دار طبقے سے چھین کر   (٢)  ریاستی نظم کے ماتحت کرنا ہے  (٣)   تاکہ سرمائے میں تیز رفتاری کے ساتھ اضافہ ممکن ہو اور  (٤)  ساتھ ہی ساتھ آمدنیوں کا تفاوت بھی کم ہوسکے۔ اس عبوری دور میں نجی ملکیت ختم ہونے کے باوجود آمدنیوں کا تفاوت یکسر ختم نہیں ہوگا اور اسی تفاوت کو کم کرنے کے لیے  مارکس progressive ٹیکس اور نظام زر پر ریاستی قبضے کو ضروری سمجھتا ہے۔ آمدنی کا تفاوت کم ہونے کے ساتھ ترقی میں ہوش ربا اضافہ ہوجائے گا جس کے نتیجے میں ایسی معاشی ترتیب منظم ہوگی جو اولاً شہر اور گاؤں کی تفریق و مسابقت (antagonism) ختم کرکے نتیجتاً  ‘division of labor’ (تقسیم کار کے اصول) کے خاتمے کی بنیاد بھی بنے گی۔

                مارکس سوشل ازم کے سیاسی منظر نامے پر بھی چند اصولی نکات کے علاوہ کوئی تفصیلی روشنی نہیں ڈالتا۔ اشتراکی ریاست کو وہ لبرل سرمایہ داری کے خاتمے کے بعد قائم ہونے والی  ‘مزدوروں کی ڈکٹیٹرشپ ‘  سے تعبیر کرتا ہے یہاں تک کہ یہ ڈکٹیٹرشپ بالاخر تحلیل ہوکر کمیونزم میں تبدیل ہوجائے گی۔ مزدوروں کی ڈکٹیٹرشپ سے اس کی مراد مزدور طبقے کی جمہوری نمائندگی پر مبنی ریاست ہے اور چونکہ سرمایہ داری میں اکثریت مزدوروں ہی کی ہوتی ہے لہٰذا اشتراکی اس ڈکٹیٹرشپ ہی کو اصل  جمہوریت کہتے ہیں (٢) ۔ لینن کے نزدیک مزدوروں کی اس ڈکٹیٹرشپ کو مارکس ایک انقلابی عمل کے طور پر دیکھتا ہے جسکا مقصد پرانے یعنی لبرل سرمایہ دارانہ نظام کا بذریعہ قوت انہدام عمل میں لانا ہے۔ مارکس اس ڈکٹیٹرشپ کو پیرس کمیون (Paris Commune) (٣) کی طرز پر قائم کرنا چاہتا ہے جس کی خصوصیات مارکس کے خیال میںدرج ذیل ہیں:

٭             وہاں کا نظم ایسے میونسپل کونسلروں پر قائم تھا جو بار بار کے ریفرنڈموں کی بنیاد پر چنے جاتے اور ہرشخص اس نظم میں حصہ لیتا۔ ان کونسلروں کو کسی بھی وقت ریفرنڈم کی بنیاد پر ہٹا کر ان کی  جگہ دوسرے افراد چنے جاسکتے تھے ۔

٭            یہ کونسلر انتظامیہ کے ساتھ ساتھ مقننہ کا کردار بھی ادا کرتے ۔      

٭               انتظامیہ کے تمام اہل کار بشمول پولیس و جج بھی الیکشن کے ذریعے چنے جاتے ۔

٭                پیشہ ور فوج (armed force) کے بجائے عام لوگ (armed people) یہ کام سرانجام دیتے ۔

دوسرے لفظوں میں مارکس ایک ایسے معاشرتی و ریاستی نظم کا خواب دیکھتا ہے جہاں کثرت سے الیکشن اور ریفرنڈم کی بنیاد پر فیصلے ہوتے ہوں اور لوگ اپنے اصل نمائندوں کو قوت نافذہ منتقل کرسکتے ہوں ۔

                مارکس کے خیال میں جب یہ انقلابی تبدیلیاں پوری طرح اپنا لی جائیں گی تو ان کے مثبت ثمرات برآمد ہونا شروع ہوجائیں گے: مثلاً: 

١۔   مزدوروں کے لیے  کام کے حالات (working conditions) میں بہتری آئے گی ۔

٢۔  کام کرنے کے اوقات پندرہ فیصد تک کم ہوجائیں گے ۔

٣۔  پیداواری عمل تیز ی کے ساتھ ترقی پذیر ہوگا ۔

٤۔  اشیاء کی پیداوار اور ضرورتوں میں توازن قائم کرنے کے لیے  پلاننگ کی جائے گی۔

٥۔  حقیقی اجرتوں میں اضافہ ہوگا ۔

٦۔   پیداوار کی تقسیم پیداواری عمل میں صرف کیے گئے اوقات کار کے حساب سے عمل میں آئے گی جسکا طریقہ واؤچر (voucher) ہوگا ۔

٧۔  ان واؤچر ز نیز ذرائع پیداوار اور اجتماعی صرف کی اشیاء (مثلاً ریل) کی خرید وفروخت کی اجازت نہ ہوگی ۔

٨۔   رفتہ رفتہ ریاست کا کردار کم ہوتا چلا جائے گا ۔

                یاد رہے کہ ان تمام تبدیلیوں کے باوجود سوشلسٹ ریاست میں آمدنیوں کا تفاوت اور نجی ذرائع پیداوار و صرف   (consumption)مکمل طور پر ختم نہ ہونگے۔

دوسری سطح، کمیونزم:

                  درج بالا اصولوں پر ایک عرصے تک کاربند رہنے کے نتیجے میں کمیونزم برآمد ہوگی۔ سوشل ازم سے کمیونزم کی یہ تبدیلی درحقیقت افراد کی اخلاقی تبدیلی کا مظہر ہوگی، یعنی سوشلسٹ انقلاب کے دوران ایک نئی انفرادیت و شخصیت (جسے مارکس specie being  (٤)کہتا ہے ) کی تعمیر وجود میں آئے گی۔ اس تبدیلی کی وجہ سائنس و ٹیکنالوجی کے درست استعمال اور پلاننگ کی بدولت پیداوار میں بے انتہا اضافہ ہوگا جس سے ذرائع کی قلت (scarcity) ہمیشہ کے لیے  ختم ہوجائے گی اور انسان اپنی تمام خواہشات پوری کرنے کا مکلف ہوجائے گا۔ مارکس کے خیال میں ذرائع کی قلت ہی وہ بنیادی عنصر ہے جسکی بناء پر پوری انسانی تاریخ میں ایک انسان دوسرے انسانوں سے مسابقت اور اسکا استحصال کرنے پر مجبور رہا ہے (یہاں مارکس کا بنیادی مفروضہ یہ ہے کہ انسان کا اصل مقصد بس زیادہ سے زیادہ کھا جانا ہے اور اسی جدوجہد کو جواز دینے کے لیے  وہ نظریات وضع کرتا ہے اور انہیں نافذ کرنے کے لیے  قوت جمع کرتا ہے)۔ مارکس کے خیال میں جب کمیونزم قائم ہوگا تو: 

١۔            فرد تقسیم لیبر (division of labor) کے اصول پر فتح حاصل کرلے گا یعنی تقسیم کار کی بنیاد پر پیشوں اور کاموں کی تقسیم ختم ہوجائے گی ۔

٢۔             صرف (consumption) کے تمام فطری ذرائع (یہاں تک کہ نجی استعمال کی اشیاء تک) اجتماعی ملکیت سمجھے جانے لگیں گے ۔

٣۔            فطرت کی مکمل تسخیر یعنی ارادہ انسانی کا فطری قوتوں پر مکمل تصرف ہوگا ۔

٤۔            تمام اجتماعیتیں اور تقسیمیں (خاندان، مذہب، قوم، نسل، پیشے، پولیس، فوج، سرمایہ دار، مزدور) ختم ہوکر انسانیت میں ضم ہو جائیں گی اور صرف  ‘فرد’   (specie being)   باقی رہ جائے گا اور وہ جو چاہے گا کرسکنے کا اہل ہوگا ۔

٥۔            چونکہ فرد کو مکمل آزادی ہوگی لہٰذا اخلاقیات کا سوال بے معنی ہوجائے ہوگا ۔

٦۔            پیداواری نظم کے سوا کسی جبر اور نظام جزا و سزا کی ضرور ت نہ رہے گی ۔

٧۔            بالآخر ریاست بھی تحلیل (wither away) ہوجائے گی اور محض رضا کارانہ تنظیم کار کی بنیاد پر معاشرہ قائم ہوگا ۔

٨۔            ہر شخص اپنے ذاتی نفع نہیں بلکہ دوسروں کے ساتھ مل کر اور دوسروں کے لیے  کام کرنے کو اپنی اصل خواہش کے طور پر پہچاننے لگے گا۔ کام ہی بنیادی خواہش بن جائے گی اور یہی اظہار آزادی و انسانیت کا ذریعہ ہوگی، لہٰذا سستی اور کام چوری نامی کوئی شے باقی نہ رہے گی (یہاں مارکس کا بنیادی مفروضہ یہ ہے کہ انسان اپنی انسانیت کا اظہار  ‘عبادت ‘  نہیں بلکہ  ‘عمل پیداوار ‘  میں شرکت کے ذریعے کرتا ہے)

                یہ سب اس لئے ہوگا  ہر شخص شعوری طور پر انسانیت کو اپنی ذات کا ایک جزو سمجھنے لگے گا (humanity as being part of himself)۔ البتہ اشتراکی فرد یہ سب کچھ کسی اخلاقی یا مذہبی فرض کی بنیاد پر نہیں بلکہ اپنی ذاتی تسکین کے لوازم کے طور پر سر انجام دیا کریگا کیوں کہ  فرد دوسروں کو اپنی ذات کا ایک حصہ سمجھنے لگے گا، یعنی انفرادیت کا تصور و شناخت  ‘ذات’  سے نہیں بلکہ  ‘نوع ‘  سے اخذ کی جانے لگے گی (اخلاقی فرض کا مطلب نظام جبر واکراہ کا اقرار ہے اور یہ کمیونزم میں نہیں ہوگا)۔ چونکہ قلت ذرائع ختم ہوجائے گی لہٰذا افراد کے درمیان مقابلے کی کوئی وجہ باقی ہی نہ رہے گی، ہر شخص جو شے جتنی چاہے گا اسے میسر ہو سکے گی (٥) ، نجی ملکیت کی خواہش بے جا و غیر فطری سمجھی جانے لگے گی ۔ ذرائع کی یہ قلت سائنسی علم کے استعمال سے فطری قوتوں کو انسانی ارادے اور تصرف میں لانے کے نتیجے میں ختم ہوگی، انسان اس کائنات کے تمام رازوں سے پردہ اٹھا کر انہیں اپنی خواہش سے ہم آہنگ کرلے گا اور  انسان جو چاہے گا وہ کرسکنے کا مکلف ہوجائے گا (٦) ۔ چونکہ پیداواری نظم کے علاوہ ہر جبری تنظیم ختم ہوجائے گی اور افراد ہی صحیح معنی میں اپنے حاکم ہونگے لہٰذا ریاستی ادارے بشمول مقننہ، عدلیہ، انتظامیہ اور فوج و پولیس تحلیل (wither away) ہوجائیں گے ۔ اگر کوئی کمیونسٹ فرد غلطی سے کسی غیر ذمہ دارانہ رویے کا مرتکب ہو بھی گیا تو اسکا انفرادی تصور گناہ ہی اسے اس فعل سے توبہ کرانے کے لیے  کافی ہوگا (٧) ۔ کیوں کہ  اشتراکیوں کے خیال میں ریاست محض استحصالی طبقے کی بالادستی قائم رکھنے کا ایک آلہ ہے لہٰذا جب طبقے ہی نہ رہیں گے تو ریاست کی ضرورت خود بخود ختم ہوجائے گی اور ریاست کا تحلیل ہونا غماز ہوگا ہر قسم کی معاشرتی تقسیم کے خاتمے کا۔ نیز چونکہ کمیونزم میں ہر شخص کو مکمل آزادی میسر ہوگی اس لئے  ‘حکم’  کی ضرورت ہی ختم ہوجائے گی (ریاست کا مطلب ہی تحکم ہے، تو جب حکم کی ضرورت نہ ہوگی تو ریاست کیسے بچے گی)۔ خیال رہے کہ لینن کے نزدیک مارکس کے خیال میں سرمایہ داری سے سوشلزم تک کا سفر  ‘خونی انقلاب’  کے ذریعے طے ہوگا جبکہ  ‘سوشل ازم ‘  سے  ‘کمیونزم’  میں تبدیلی بتدریج اور پر امن ہوگی کیوں کہ  یہ دونوں ایک ہی نظام کی محض دو سطحیں ہیں۔

                اس تفصیل سے واضح ہوجانا چاہئے کہ اشتراکیت سرمایہ داری سے رجوع نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ عدل کے حصول کا ایک متبادل طریقہ ہے۔ دوسرے لفظوں میں اسکا مقصد سرمایہ دارانہ مقاصد کے حصول اور تنظیم کے لیے  ایک نئی طرز کی ادارتی صف بندی ممکن بنانا ہے۔

٢)  اشتراکی انقلاب کا طریقہ کار

                اشتراکی انقلاب کے خدوخال بیان کرنے کے بعد اب اس امر کی طرف رجوع کرتے ہیں کہ اشتراکی انقلاب کیسے برپا ہوتا ہے۔ مارکس کے ہاں اس سوال کا کوئی واضح جواب موجود نہیں کہ آیا سرمایہ داری سے اشتراکیت تک کا سفر اس کے خود کے دریافت کردہ مادے میں تغیر کے فطری قوانین کے تحت خود بخود رونما ہوگا یا اس کے  لئے کسی انسانی عمل دخل (human agency) کی بھی ضرورت ہے۔ چونکہ مارکس اس سوال کا کوئی واضح جواب نہیں دیتا لہٰذا اشتراکیوں کے ہاں اس امر پر شدید اختلافات ہوئے اور اسی لئے وہ دو بڑے فرقوں (سوشل ڈیموکریٹ اور کمیونسٹ) میں تقسیم ہوگئے اور ہر گروہ اپنی حکمت عملی کو مارکس کی طرف منسوب کرکے اس کی درست تعبیر قرار دیتا ہے۔ اس حصے میں ہم اشتراکی انقلاب کے اس طریقہ کار کے خدو خال بیان کریں گے جسے کمیونسٹ مفکرین حق سمجھتے ہیں اور اس سلسلے میں لینن کے نظریات کو بنیاد بنایا جائے گا جن میں خصوصیت کے ساتھ اسی سوال کو زیر بحث لایا گیا ہے کہ سرمایہ داری سے اشتراکیت تک کا سفر کس حکمت عملی کے تحت طے کرنا ممکن ہے۔ اس کے بعد ماؤ کے نظریات سے اس امر کا جواب دینے کی کوشش کی جائے گی کہ اشتراکی ریاست کے قیام کے بعد مختلف طبقات کے ساتھ کس نوع کی حکمت عملی اپنائی جانی چاہئے۔ گویا لینن سے اشتراکی انقلاب کے قیام جبکہ ماؤ سے اس کے استحکام کا طریقہ سمجھا جا سکتا ہے۔

١.٢)  لینن اور اشتراکی انقلاب کا قیام

                لینن اشتراکی انقلاب  ‘بذریعہ مسلح جدوجہد ‘  کو نہ صرف ضروری سمجھتا تھا بلکہ اسے ہی واحد درست طریقہ کار قرار دیتا تھا اور اس کے  علاوہ دیگر تمام طریقوں مثلاً ‘اشتراکی انقلاب بذریعہ اصلاحی جمہوری سیاست ‘  کو باطل اور گمراہ کن گردانتا تھا۔ لینن کے طریقہ کار کی تفہیم کے ضمن میں اشتراکیوں کے ایک گروہ کی جانب سے پیش کی جانے والی مارکس کی سوشل ڈیموکریٹ تعبیر اور لینن کی طرف سے دیا گیا ان تعبیرات کا جواب سمجھنا ضروری ہے، لہٰذا ہم لینن کی حکمت عملی کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:  اول مسلح جدوجہد کا جواز (یعنی یہ جدوجہد کیوں لازم ہے) اور دوئم اس کا طریقہ کار۔

 مسلح جدوجہد کا جواز

                لینن ١٩١٧ میں لکھی گئی اپنی کتاب State and Revolution   میں تفصیل کے ساتھ سوشل ڈیموکریٹ مفکرین کی غلطی واضح کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ چنانچہ وہ کہتا ہے کہ جس طرح ہر مفکر کی فکر و نظریات کو اس کی موت کے بعد مسخ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اسی طرح مارکس کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ پیش آیا۔ لینن کے مطابق فکر کو مسخ کرنے کی صورت یا تو اصل نظریات کی تعبیر نوع کردینا ہوتی ہے اور یا پھر اصل فکر کے محض کسی ایک ہی جزو کو کل فکر پر غالب کردینا ہوتی ہے ۔ فکر کو اس طرح مسخ کرنے کا مقصد اس کے انقلابی پہلو کو زائل  (neutralize)  کرکے اسے موجود ہ غالب نظام کے لئے قابل قبول بناکر اس میں ضم کرنا ہوتا ہے۔ لینن کے نزدیک مارکس کے نظریات کی ایک ایسی ہی گمراہ کن تعبیر جرمن مفکرین (مثلاً  Kautsky) نے  ‘سوشل ڈیموکریسی’  کے نام پر پیش کی ہے جو یہ دعویٰ کرتی ہے کہ لبرل سرمایہ داری سے اشتراکیت تک کا سفر مسلح جدوجہد کے بجائے جمہوری و اصلاحی سیاست کے ذریعے طے کیا جا سکتا ہے، یعنی اگر جمہوری عمل میں شرکت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کرلیا جائے تو ایسی اصلاحات لانا ممکن ہے جن کے ذریعے سرمایہ دارانہ مظالم کو کم کرکے اشتراکی اہداف کا حصول ممکن ہوگا۔ چونکہ لینن مسلح جدوجہد کا قائل اور حامی ہے لہٰذا وہ سوشل ڈیموکریٹ نظریات پر سخت تنقید کرتا ہے۔ چنانچہ لینن کہتا ہے کہ سوشل ڈیموکریٹ مفکرین کی اصل غلطی ریاست کو درست طور پر نہ سمجھ پانا ہے۔ اس کے  نزدیک مارکس کے تصور ریاست کی دو تشریحات کی گئی ہیں:

                (١) ایک یہ کہ ریاست معاشرے سے ماوراء ایک غیر جانبدار اکائی ہے جو معاشرے پر اوپر سے مسلط ہوتی ہے اور جسکا مقصد طبقاتی کشمکش کو کم یا ختم کرکے ہم آہنگی لانا ہوتا ہے۔ اس تصور کے مطابق جمہوری ریاست ان معنی میں غیر جانبدار ہوتی ہے کہ اصلاً و بالذات یہ کسی مخصوص طبقے کی نمائندہ نہیں ہوتی بلکہ یہ نظام اقتدار پر مخصوص طبقے کا قبضہ ہے جواس ریاستی ڈھانچے کو سرمایہ دار طبقے کے مقاصد کے لیے  استعمال کرنا ممکن بناتا ہے۔ لہٰذا اگر جمہوری عمل کے ذریعے اقتدار کی کنجیاں سرمایہ دار طبقے سے  مزدور طبقے کے ہاتھ میں دے دی جائیں تو نہ صرف یہ کہ طبقاتی کشمکش کو کم کرنا بلکہ اشتراکی اصلاحات لانا بھی ممکن ہوسکے گا۔ یہ سوشل ڈیموکریٹ مفکرین کا تصور ریاست ہے جن کے نزدیک ریاست اصلاً طبقاتی کشمکش ختم کرکے ہم آہنگی لانے کی ایک اکائی ہے  (state is an organ to reconcile class-antagonism)۔ اگر اس تصور ریاست کو درست تسلیم کرلیا جائے تو پھر یہ امکان ماننا بھی ممکن ہوجاتا ہے کہ جمہوری ریاست کے اندر نفوذ کے ذریعے اشتراکی اصلاحات لانا عین ممکن ہے ۔

                (٢)  ریاست کے بارے میں اشتراکیوں کے دوسرے گروہ کا تصور یہ ہے کہ ریاست معاشرے سے ماوراء یا علیحدہ کوئی وجود نہیں رکھتی بلکہ اصلاً یہ طبقاتی کشمکش کے نتیجے میں ابھرنے والی ایک اکائی ہوتی ہے جس کا مقصد کسی مخصوص طبقے کی بالادستی اور تسلط کو ممکن بنانا ہوتا ہے۔ لینن کے نزدیک درست مارکسٹ نظریہ ریاست یہی ہے جس کی وجہ یہ مقدمات ہیں کہ: 

 ٭           مارکس پوری انسانی تاریخ کو ایسی طبقاتی کشمکش کا نتیجہ قرار دیتا ہے

٭            جہاں مختلف طبقے اپنے اپنے مادی مفادات کے تحفظ و غلبے کے لیے  ایک دوسرے سے باہمی کشمکش کا شکار ہوتے ہیں ۔

٭            اس کشمکش میں غالب طبقہ وہی ہوتا ہے جس کے قبضے میں ذرائع پیداوار ہوتے ہیں، لہٰذا ہر طبقہ اسی جدوجہد میں مصروف عمل ہوتا ہے ۔

٭             اپنے مادی مفادات کے تحفظ اور ذرائع پیداوار پر اپنے تسلط و استحصا ل کوجواز و دوام بخشنے کے لیے  یہ طبقہ نظریات وضع کرتا اور قوت جمع کرتا ہے جس کا اظہار علمیت و جمالیاتی معیارات، مذہب و اخلاق ، قانون و روایت سے لے کر ریاستی ڈھانچے وغیرہ کی صورت میں ہوتا ہے  (مادی مفادات کے تحفظ کے لیے  وضع کئے جانے والے ڈھانچے کو مارکس super structure  کہتا ہے) ۔

                اس تجزئیے سے معلوم ہوا کہ  (الف)  ریاست اصلاً طبقاتی کشمکش سے ابھرنے والا ڈھانچہ ہے  (ب)  جو مخصوص طبقے کے مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے  وجود میں آتی ہے  (ج)  لہٰذا یہ کبھی اس طبقاتی کشمکش کو ختم نہیں کرسکتی جو اس کا وجہ جواز اور وجود ہوتی ہے۔ اشتراکیوں کے نزدیک اشتراکی ریاست کے سوا دیگر تمام ریاستی نظام لازماً طبقاتی کشمکش کو فروغ اور اسے بڑھاوادینے کا آلہ کار ہوتے ہیں (state is an organ to promote irreconcilable class-antagonism)۔ چنانچہ لینن کے نزدیک جمہوری ریاست بھی اس اصول سے مستثنی نہیں کیوں کہ  اس کا مقصد وجود بوژوا یعنی سرمایہ دار طبقے کے مفادات کی نمائندگی اور ان کا تحفظ کرنا ہوتا ہے اور یہ صرف اسی مقصد کے لیے  کار آمد ہوتی ہے۔ اس کے نزدیک جمہوری ریاست کا مقصد:

                (i)  ایک طرف لوگوں کے اندر یہ احساس پیدا کرنا ہوتا ہے کہ سرمایہ دار طبقے کا غلبہ ایک فطری امر ہے اور لوگ اسے عقل کا تقاضا سمجھ کر قبول کریں۔ یہی وجہ ہے کہ جمہوری عمل کارخانے میں نہیں ہوتا کیوں کہ  جمہوریت کا مقصد کارخانے میں جاری پیداواری عمل اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ذرائع پیداوار کی تقسیم پر سرمایہ دار طبقے کے قبضے کو مہمیز دینا ہوتا ہے۔ الغرض لینن اپنے تجزئیے سے یہ ثابت کرناچاہتا ہے کہ  ‘جمہوریت میں آزادی’  ایک دھوکے کے سواء اور کچھ نہیں ۔

                (ii)  دوسری طرف لوگوں کو سرمایہ دارانہ ظلم (یعنی  ‘اضافی قدر ‘  پر سرمایہ دار طبقے کے قبضے ) پر راضی کرکے انقلابی ماحول  (revolutionary situation)  پیدا نہ ہونے دینا ہے۔ اشتراکیوں کے ہاں انقلابی صورت حال کی ابتداء مزدور طبقے کا شعوری سطح پر خود کو ایک آفاقی طبقے (class for itself) کے طور پر پہچان لینے سے  ہوتی ہے۔ جمہوری ریاست کے اندر جو علمیت، اخلاقیات، قانون، مذہب اور روایات وغیرہ پروان چرھتے ہیں وہ سرمایہ دار طبقے کی بالادستی کو عوام الناس کے لیے  فطری امر کے طور پر پیش کرتے ہیں لہٰذا یہ ریاستی ڈھانچہ حتی الامکان انقلابی صورت حال کو مدہم کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے، اسی لئے اس ریاستی ڈھانچے کو تہہ تیغ کئے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ چونکہ جمہوری ریاست سرمایہ دار طبقے کے تحفظ پر مامور ہوتی ہے لہٰذا یہ لازماً ہر اس طبقے کی بذریعہ قوت بیخ کنی کرنے کے لئے سامنے آتی ہے جو مقتدر طبقے کے مفادات کا مخالف ہو۔ پس جب مزدور طبقہ انقلابی ماحول سے آشنا ہوکر مقتدر طبقے کے مفادات کو زک پہنچانے کے لیے  اٹھ کھڑا ہوگا (مثلاً جب وہ اضافی قدر پر سرمایہ دار طبقے کے خاتمے کی بات کرے گا) تو تصادم ہو کر رہے گا جسکا فیصلہ بالآخر مسلح جدوجہد کے بعد ہی ممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لینن انقلابی عمل میں کامیابی کے لیے  مسلح فوج کا ہونا لازمی سمجھتا ہے۔ مختصراً یہ کہ لینن کے نزدیک سوشل ڈیموکریٹ مفکرین کا یہ مفروضہ کہ ریاست طبقاتی کشمکش سے ماوراء اور غیر جانبدار ہوسکتی ہے ایک باطل دعوی ہے لہٰذا  ‘پرامن اصلاحی سیاست’،  ‘جمہوری عمل میں کامیابی’  اور  ‘جمہوری ریاست میں نفوذ’   کے ذریعے کبھی اشتراکی انقلاب برپا نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس کے  نتیجے میں لازماً طبقاتی کشمکش ہی کو بڑھاوا ملتا ہے۔

                لینن سوشل ڈیموکریٹ مفکرین کی مسلح جدوجہد کے خلاف دی جانے والی اس غلط فہمی کا تعاقب بھی کرتا ہے کہ (جیسا کہ اوپر بتایا گیا کہ) جب مارکس کے مطابق بالآخر ریاست تحلیل (wither away) ہو ہی جائے گی تو پھر اشتراکی ریاست قائم کرنے کے لیے  انقلابی و مسلح جدوجہد کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ لینن کہتا ہے کہ یہ ایک نہایت گمراہ کن دلیل اور مارکس کی غلط تعبیر ہے کیوں کہ  مارکس کے نزدیک جو ریاست خود بخود تحلیل ہوگی وہ جمہوری ریاست نہیں بلکہ اشتراکی ریاست ہے۔ جمہوری ریاست کو بذریعہ انقلاب ختم کرنا پڑے گی۔ اس کے  بعد اشتراکی ریاست قائم ہوگی جو پرانے تعلقات پیداوار کو ختم کرکے ایسے تعلقات پیداوار کو مرتب کرے گی جن کے نتیجے میں ذرائع پیداوار میں لامحدود اضافہ (abundance) ممکن ہوسکے گی، جس کے بعد ہی وہ مساوی آزادی میسر ہوسکے گی جو ریاست کے تحلیل ہونے کا باعث بنے گی۔ چونکہ جمہوری ریاست طبقاتی کشمکش کو فروغ دینے کے لیے  ایسے تعلقات پیدوار مرتب کرتی ہے جو ذرائع پیداوار میں لامحدود اضافہ کرنے میں رکاوٹ ہوتے ہیں لہٰذا جمہوری ریاست خود بخود تحلیل نہیں ہوگی۔ الغرض لینن کے نزدیک سوشلسٹ ریاست کو تحلیل ہونا ہے جبکہ جمہوری ریاست کو تباہ کرناہے۔

 مسلح جدوجہد کے خدوخال

                اشتراکی انقلاب کے طریقہ کار کی وضاحت کے لیے  لینن کمیونسٹ مینی فسٹو کو خصوصی اہمیت دیتا ہے۔ مارکس کے خیال میں کمیونسٹ انقلاب مخصوص حالات میں برپا کیا جاتا ہے جسے وہ Revolutionary Situation  کہتا ہے۔ یہ حالات اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب طبقاتی کشمکش شروع ہوجاتی ہے، یعنی جب تعلقات پیداوار ذرائع پیداوار کے مزید اضافے میں مانع ہوجائیں۔ اس موقع پر تعلقات پیداوار کی نئی ترتیب و تشکیل ایک مادی و معروضی ضرورت (material and objective necessity) بن جاتی ہے۔ لینن انقلاب کے بارے میں مارکس کی پوزیشن کچھ اس طرح واضع کرتا ہے: 

الف)        سب سے پہلے طبقاتی کشمکش کے نتیجے میں خانہ جنگی برپا ہوتی ہے

ب)          پھر مسلح انقلابی جدوجہد ہوتی ہے جس کا مقصد سرمایہ داروں کو بے دخل کرنا ہوتا ہے

ج)            اس کے بعد اشتراکی انقلابی پارٹی اقتدار پر قبضہ کرکے مزدوروں کی ڈکٹیٹرشپ قائم کرتی ہے

د)             نجی ملکیت کا خاتمہ

ہ)             ریاست کا تحلیل ہوجانا

                اس تجزئیے سے لینن یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ مارکس کے ہاں اشتراکی انقلاب کے بعد مزدور طبقے کی ڈکٹیٹرشپ اور اقتدار پر ایک منظم مزدور پارٹی کا قبضہ ہونا ضروری امر ہے۔ لینن کے نزدیک نظام اقتدار پر یہ قبضہ ایک انقلابی پارٹی کے ذریعے ہوگا جسے وہ centralized organization  (مرکزی طور پر قائم نظم) اور organization of  violance  (تشدد کے نظم) سے تعبیر کرتا ہے۔ یہ پارٹی دو کاموں پر مامور ہو گی:

١)   استحصالی طبقے کی بیخ کنی  (لبرل سرمایہ دارانہ ظلم ختم کرنے کے لیے )

٢)  پسے ہوئے طبقے کی راہنمائی و پیروی   (اشتراکی سرمایہ دارانہ عدل قائم کرنے کے لیے )

                اس انقلابی پارٹی کی چند بنیادی خصوصیات ہوں گی: 

(i             Democratic centralism(جمہوری مرکزیت) :  اس سے مراد پارٹی کا مخصوص اندرونی نظم وضبط ہے جہاں پارٹی کے ہر کارکن کو کسی مسئلے کے حل کے لیے  خوب بحث و تکرار کی اجازت ہوگی (اس لئے اسے  ‘جمہوری ‘  کہتے ہیں) مگر جمہوری بنیادوں پر کسی فیصلے پر پہنچنے کے بعد پارٹی کے کسی ممبر کو کسی بھی فورم پر کچھ کہنے یا پارٹی کے فیصلے سے مختلف رائے کے اظہار کی اجازت نہ ہوگی (اس پہلو کو  ‘مرکزیت ‘  کہتے ہیں) کیوں کہ  جو رائے متعین ہوتی ہے وہ سائنسی علمیت کی روشنی میں ہوتی ہے ۔ لینن اس نظم و ضبط کو freedom of discussion, unity of action   (فکری آزادی اور عملی اتحاد) سے تعبیر کرتا ہے۔

(ii             Over-development  (یعنی سب کام کرنے کی ذمہ داری اکیلی اس ہی جماعت کی ہونا):  اس خصوصیت کا مطلب یہ ہے کہ:

٭             اس پارٹی کے پاس انقلاب برپا کرنے کا سائنسی علم ہوگا، یعنی اس کے پاس سائنسی مارکسزم کا علم ہوگا جو یہ بتاتی ہے کہ معاشرتی تغیرات برپا ہونے کے فطری،   سائنسی و معروضی اصول کیا ہیں ۔

٭             چونکہ حقیقت کے ادراک میں اس پارٹی کی اجارہ داری ہے لہٰذا یہی جماعت انسانیت کی جائز نمائندہ جماعت ہے اور اسے یہ حق ہے کہ انسانیت کی بھلائی کے لیے  فیصلے کرے اور وہ جو کچھ بھی کرتی ہے سب کا مفاد اسی کی پیروی میں ہے ۔

٭             اس پارٹی کی ذمہ داری ہے کہ تمام انقلابی کام وہ اکیلے کرے ۔

(iii            :Professionalism  وہ جماعت ان معنی میں بھی منظم ہوگی کہ اس کے  تمام ممبران رضاکار نہیں بلکہ پروفیشنل انقلابی ہونگے، یعنی ان کا کام ہی انقلاب برپا کرنا ہوگا (جیسے موچی کا کام جوتے گانٹھنا اور درزی کا کپڑے سینا ہوتاہے )

(iv            :Violance  یعنی وہ ایک تشدد پسند جماعت ہوگی جس کا کام قوت جمع اور منظم کرنا ہوگا ۔

                لینن کے نزدیک چونکہ سوشل ڈیموکریٹک جمہوری پارٹی کے اندر یہ تمام خصوصیات نہیں ہوتیں لہٰذا وہ اشتراکی انقلاب برپا نہیں کرسکتی۔

                لینن اپنے مخالف گروہ کے اس سوال کا جواب بھی دیتا ہے کہ آخر روس میں انقلابی جدوجہد کرنے کا جواز کیا ہے۔ مارکس کی تحریروں میں یہ بات تفصیل کے ساتھ درج ہے کہ مادی قوانین تغیر کے مطابق اشتراکی انقلاب ان علاقوں میں برپا ہوگا جہاں سرمایہ دارانہ معیشت خوب ترقی کرچکی ہوگی۔

                اسی بناء پر مارکس نے یہ پیشن گوئی کی تھی کہ اشتراکی انقلاب سب سے پہلے جرمنی یا انگلستان وغیرہ میں آئے گا کیوں کہ  وہاں سرمایہ دارانہ معیشت سب سے زیادہ ترقی یافتہ ہے۔ سوشل ڈیموکریٹ مفکرین مارکس کے اس تجزئیے کو بنیاد بنا کر روس میں لینن کی سربراہی میں جاری انقلابی جدوجہد کو ہدف تنقید بنا تے ہوئے کہتے تھے کہ روس جیسے زرعی اور پسماندہ ملک میں اشتراکی انقلاب کی پیروی کرنا کیسے درست ہوسکتا ہے؟ اس کے دفاع میں لینن دو اہم باتیں کہتا ہے: 

(i             روس ایک جاگیردارانہ نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ معیشت ہے، چنانچہ ١٨٩٩ میں لکھی گئی اپنی پہلی کتاب Capitalist Development in Russia   میں وہ اپنے اس مقدمے پر تفصیل سے روشنی ڈالتا ہے کہ روس کیونکر ایک سرمایہ دارانہ معیشت ہے ۔

ii۔  دوسری بات وہ یہ کہتا ہے کہ آج سرمایہ داری قومی حدود پھلانگ کر ایک عالمی استعماری نظام بن چکا ہے، لہٰذا اس کے  خاتمے کا آغاز وہاں سے کرنا ممکن ہے جہاں یہ کمزور ہے۔

ان دو مقدمات کو بنیاد بنا کر وہ کہتا ہے کہ ہمیں روس میں سرمایہ دارانہ پیداواری نظم کے استحکام کا انتظار کئے بغیر موقع سے فائدہ اٹھا کر یہاں اشتراکی انقلاب برپا کردینا چاہئے نیز یہ انقلاب ترقی یافتہ ممالک میں انقلاب برپا کرنے کے لیے  پیش خیمہ اور بنیاد (base camp) فراہم کرے گا۔

                درج بالا تجزئیے کی روشنی میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اشتراکی فکر و فلسفے میں لینن کا اصل مقام و کردار یہ ہے کہ اس نے انقلاب برپا کرنے کے لیے  ایک  ‘انقلابی پارٹی کی ضرورت ‘  اجاگر کی جو مزدوروں کو ایک بالقوة طبقے (class in itself) سے اوپر اٹھا کر ایک بالفعل طبقے (class for iself) میں تبدیل کردے۔ جو پارٹی یہ کام کرے گی اسے vanguard  پارٹی  (ہراول دستہ) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

 ٢.٢)  ماؤ اور اشتراکی انقلاب کا استحکام

                لینن کے بر خلاف ماؤزے تنگ اپنی کتاب Four Essays on Philosophy   کے تیسرے مضمون On Correct Handling of Contradictions among the People  میں اس پہلو پر تفصیلی گفتگو کرتا ہے کہ اشتراکی پارٹی کو اپنا اقتدار مستحکم رکھنے کے لیے  معاشرے کے دیگر طبقات اور مختلف گروہوں کے ساتھ کس نوع کے تعلقات استوار کرنا چاہئے، یعنی معاشرے کے مختلف طبقات کے درمیان جو تضادات کار فرما ہیں انہیں رفع کرنے کی درست حکمت عملی کیا ہے۔ ماؤ اپنی گفتگو کی بنیاد اس کلیدی مقدمے پر رکھتا ہے کہ سوشلزم کے قیام کا ہرگز یہ مطلب نہیں سمجھنا چاہئے کہ طبقاتی کشمکش سے ابھرنے والے معاشرتی تضادات فی الفور مکمل طور پر ختم ہوجاتے ہیں، بلکہ سوشلسٹ ریاست کے اندر بھی مختلف گروہوں کے درمیان یہ کشمکش جاری رہتی ہے البتہ اس کے خیال میں اس کی نوعیت ذرا بدل جاتی ہے۔ چنانچہ وہ کہتا ہے کہ اشتراکی چین میں دو طرح کے تضادات پائے جاتے ہیں: ایک وہ جو اپنے لوگوں ور ان کے دشمنوں کے درمیان ہیں دوسرے وہ جو ہمارے اپنے اندر پائے جاتے ہیں۔ ماؤ کے نزدیک  ‘اپنے لوگوں’  (the people)سے مراد وہ تما م گروہ ہیں جو چین میں اشتراکی نظام کی یا تو حمایت کرتے ہیں اور یا اس کے  لئے تن من دھن کی بازی لگا رہے ہیں جبکہ  ‘دشمن’  سے مراد وہ تمام قوتیں ہیں جو انقلاب سے نالاں ہیں یا جو انقلاب مخالف جدوجہد کو پروان چڑھاتی ہیں۔ اپنے لوگوں کے تضادات سے اس کی  مراد مزدوروں، کسانوں، دانشور طبقے وغیرہ کے باہمی تضادات، اسی طرح ریاست اور افراد کے مابین تضادات وغیرہ ہیں۔ اپنوں کے درمیان یہ تضاد و کشمکش اصولاً non-antagonistic   ہوتی ہے لیکن اگر اسے درست طریقے سے حل نہ کیا جائے تو اس بات کا خطرہ رہتا ہے کہ یہ antagonistic   بھی بن سکتی ہے۔ اس کے  نزدیک چین میں اول الذکر تضاد مخالفت و تنازع (antagonsitic) جبکہ ثانی الذکر non antigonist ہے۔

                اس کی نظر میں اس دوسرے قسم کے تضاد کی بنیادی وجو ہات میں سے ایک یہ ہے کہ اشتراکی نظام کے قیام کے بعد تمام ذرائع پیداوار کو یک دم اجتماعی ملکیت میں شامل کرنا ممکن نہیں ہوتا بلکہ اس کے  لئے تدریجی حکمت عملی اپنانا ہوتی ہے جس کی وجہ سے اشتراکی معاشرے میں مختلف گروہوں کا اپنے اپنے مخصوص مقاصد کے حصول کا دائرہ کار مکمل طور پر ختم نہیں ہوپاتا اور یہی  ‘انفرادی دائرہ عمل’  تضادات کو جنم دیتا ہے۔ وہ کہتاہے گو کہ ہر شے کی حقیقت تضاد پر مبنی ہوتی ہے نیز یہ کہ اشیاء کے درمیان تضاد ہونا ہی ایک آفاقی اصول ہے (اسے وہ universality of contradiction  کہتا ہے) لیکن  ‘اپنے لوگوں ‘  کے درمیان پائے جانے والے تضادات کی نوعیت اور اس کی  شدت انقلابی عمل کی جہات اور حالات بدلنے سے بدلتی رہتی ہیں۔ (اسے وہ  particularity of contradiction  کہتا ہے)۔ اس ضمن میں ماؤ سرمایہ دار اور چھوٹے دکان دار طبقے کی مثال دیتا ہے  ساتھ سوشلسٹ پارٹی کی کشمکش استعمارکے ساتھی کی حیثیت سے مخالفت و تنازع پر مبنی تھی مگر ان طبقوں کے سوشلسٹ اقتدار قبول کرنے کے بعد اس سے اوپر اٹھ گئی ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ چین میں اب تک تمام ذرائع پیداوار اجتماعی ملکیت میں نہیں آئے جیسا کہ بہت سی انڈسٹری ابھی پرائیویٹ پبلک جوائنٹ پراپرٹی کے اصول پر کام کررہی ہے جن کے  مالکان کو متعین شرح سود ادا کی جاتی ہے (یعنی سرمایہ دارانہ استحصال ابھی پوری طرح ختم نہیں ہوا)، اسی طرح زراعت اور دستکاروں کی بھی بہت سی کواپریٹوز (co-operatives) ابھی اتک سوشلائز نہیں ہوئیں وغیرہ۔ یہی وجہ ہے کہ کل پیداوار کے کتنے حصے کو  ‘صرف ‘  (consumption)کیا جانا چاہئے اور کتنے کا  ‘ارتکاز ‘  (accumulation) یہ فیصلہ بھی پوری طرح ریاست کے قبضے میں نہیں۔ اشتراکی ریاست میں تضاد ات و کشمکش کی دوسری بڑی وجہ اس کے  نزدیک چین کے ریاستی ڈھانچے میں کام کرنے کا  ‘بیوروکریٹک ‘  طریقہ کار ہے جسے وہ لبرل سرمایہ دارانہ نظام کا ترکہ قرار دے کر ترک کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ ماؤ کے خیال میں بہت سے اشترکی اس مقدمے کو قبول کرنے کے لیے  تیار نہیں کہ اشتراکی معاشرے (مثلاً چین) میں بھی طبقاتی کشمکش پائی جاتی ہے، مگر انہیں اپنی یہ غلط فہمی دور کرلینی چاہئے اور اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ ان تضادات کو درست طریقے سے حل کرکے ہی اشتراکی ریاست مضبوط و مستحکم ہوتی ہے، نیز یہ کہ سرمایہ دارانہ ریاست ان تضادات کو کبھی رفع نہیں کرسکتی۔ مگر ماؤ اس بات کا قائل ہے کہ اشتراکی تعلقات پیداوار بہر حال لبرل سرمایہ دارانہ تعلقات پیداوار سے ان معنی میں اعلی و ارفع ہیں کہ ان کے نتیجے میں ذرائع پیداوار میں زیادہ تیز رفتاری سے اضافہ ہوتا ہے تاکہ عوام کی بڑھتی ہوئی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے  پیداوار میں بدستور اضافہ ممکن ہوسکے۔ اس بنیادی بحث کے بعد ماؤ اپنوں اور دشمنوں دونوں کے ساتھ معاملہ کرنے کا جو طریقہ تجویز کرتا ہے اس کے  خدو خال ذیل میں بیان کئے جاتے ہیں۔

 ‘دشمنوں’  کے ساتھ کشمکش ختم کرنے کی حکمت عملی

                اس ضمن میں ماؤ واضح الفاظ میں کہتا ہے کہ مزدوروں کی ڈکٹیٹرشپ کو چاہئے کہ وہ اپنے دشمنوں کو پوری قوت کے ساتھ کچل دے۔ ایسے دشمنوں کو گرفتار کرنا، سولی دے دینا ، قتل کردینا، ان کی جائیدادیں چھین لینا، ان کی اظہار رائے کی آزادی سلب کرلینا وغیرہ ضروری ہے۔ اسی طرح جرائم پیشہ طبقے کا بھی سختی سے قلع قمع کیا جانا چاہئے۔ ماؤ کہتا ہے کہ دشمنوں کے ایسا سلوک کرنا عین عوام کی خواہشات کا احترام کرنا ہے کہ ایسا کئے بغیر انہیں آزادی دلانا ممکن نہیں۔ دشمنوں کے سلسلے میں جس اصول پر عمل پیرا ہونا چاہئے وہ یہ ہے:  ‘دشمن جہاں کہیں بھی ہو اسے کچل دو اور اگر ماضی میں کوئی چوک ہوگئی ہو تو اس کی اصلاح کرلی جائے (یعنی اگر پہلے کوئی بچ رہ گیا تو اب اسے ٹھکانے لگا دو )’۔ ماؤ خبردار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ہمیں اپنے دشمنوں سے غافل نہیں رہنا اور یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ ہمارے ملک میں ہمارا کوئی دشمن نہیں بچا کہ اب بھی بہت سے دشمن باقی ہیں۔ البتہ ماؤ اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ محض کسی طبقے کے قبضے میں ذرائع پیداوار کا ہونا اس کے  دشمن ہونے کی دلیل نہیں کیوں کہ  ایسے لوگ اپنوں (وہ جو اشتراکی اقتدار و قوانین کو قبول کرتے ہیں) کی صفوں میں بھی موجود ہوسکتے ہیں۔

‘اپنوں’  کے ساتھ کشمکش ختم کرنے کی حکمت عملی

                اپنوں کے ساتھ معاملے کو ماؤ اپنے مضمون میں قدرے تفصیل کے ساتھ ذکر کرتا ہے۔ اس کے خیال میں اپنوں کے ساتھ معاملہ کرنے کا اصول  ‘جمہوری مرکزیت’ پر مبنی ہوگا۔ وہ بتاتا ہے کہ چین کا دستور عوام کو اظہار رائے، مذہبی عقیدے، مظاہرہ کرنے وغیرہ کی پوری آزادی فراہم کرتا ہے نیز یہ دستور مقتدر طبقے کو پابند بناتا ہے کہ وہ اپنوں پر جمہوری مرکزیت کے اصول کے مطابق حکمرانی کرے جبکہ دشمنوں پر ڈکٹیٹرشپ مسلط کرے۔ اس کے خیال میں اشتراکی نظام جو جمہوریت فراہم کرتا ہے وہ سرمایہ دارانہ جمہوریت سے اعلی و ارفع ہے کیوں کہ  اشتراکی جمہوریت  (democratic centralism)  عوام کو مغربی جمہوریت کی طرح انارکی نہیں بلکہ اتحاد اور نظم و ضبط سکھاتی ہے۔ اشتراکیت عوام کو  ‘آزادی لیڈرشپ کی نگرانی ‘  جبکہ  ‘جمہوریت مرکزیت’  کے ساتھ فراہم کرتی ہے۔

                البتہ ماؤ خبردار کرتا ہے کہ درج بالا اصول کا مطلب یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ فکری اختلافات یا مذہبی عقائد کے اختلافات کا حل بذریعہ جبر نکالنا جائز ہے کیوں کہ  اس قسم کی ہر کوشش نہ صرف یہ کہ لاحاصل بلکہ نقصان دہ بھی ثابت ہوتی ہے۔ اس قسم کے تنازعات کا حل رائے کو استوار کرنے کے طریقوں سے نکالنا چاہئے، مثلاً بحث و تکرار، رغبت بذریعہ تعلیم وغیرہ۔ فکری کشمکش کو ختم کرنے کے اس طریقے کو وہ  ‘unity, criticism, unity’  کا نام دیتا ہے، یعنی حصول اتحاد کی نیت سے آغاز کرکے بحث و تکرار کے ذریعے کشمکش کو ختم کرکے نئے اصول پر مبنی اتحاد قائم کرلینا۔ اس موقع پر وہ خبردار کرتا ہے کہ ماضی میں اشتراکی پارٹیوں نے اس اصول کو نظر اندار کرکے داخلی کشمکش کے حل کے لیے  بھی جبری طریقے اختیار کرنے کی جو غلطی کی گئی تھی ہمیں وہ نہیں دہرانی چاہئے۔ وہ کہتا ہے کہ بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ  ‘جمہوری طریقوں سے اختلافات کا حل تلاش کرنا’   شاید کوئی نیا اصول ہے جو ہم نے انقلاب چین کے بعد وضع کرلیا ہے، لیکن یہ سوچ درست نہیں کیوں کہ  اشتراکیوں نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ مزدور طبقے کے مقاصد کی حقیقی کامیابی کا انحصار ہمیشہ عوام کی شمولیت میں پوشیدہ ہوتا ہے (کہ اکثریت تو مزدور ہی ہوتی ہے)، نیز یہ کہ ہماری پارٹی ہمیشہ اس اصول پر زور دتی رہی ہے کہ اپنوں کے لیے  جمہوری مرکزیت جبکہ دشمنوں کے لیے  ڈکٹیٹرشپ ہونی چاہئے۔ یہ اصولی حل پیش کرنے کے علاوہ ماؤ اپنوں کے مختلف طبقات کے ساتھ مسائل حل کرنے کی کچھ تفصیل بیان کرتا ہے۔

                زرعی شعبے میں اشتراک عمل کا مسئلہ:  ماؤ کہتا ہے کہ کسانوں کے حالات کا ہمارے ملک میں اشتراکی انقلاب کی کامیابی کے ساتھ براہ راست تعلق ہے کیوں کہ  ان کی تعداد پچاس کروڑ سے بھی زیادہ ہے۔ چین میں زرعی اصلاحات کا طریقہ بڑے پیمانے پر  ‘کواپریٹوز’  کا استعمال رہا ہے۔ ماؤ اس مقام پر کچھ ایسے خدشات کا ذکر کرتا ہے جو ان کی پارٹی کے ناقدین کی طرف سے اٹھائے جارہے تھے۔ مثلاً بعض لوگوں کا خیال یہ تھا کہ کواپریٹوز کے ذریعے کی جانے والی زراعت اور نجی زراعت میں کوئی خاص فرق نہیں ہوتا۔ اس کے رد میں ماؤ اعدادوشمار پیش کرکے کہتا ہے کہ یہ محض ایک غلط فہمی ہے کیوں کہ  چین میں کواپریٹو زراعت بہت زیادہ پیداوار دینے لگی ہے۔ دوسری بات یہ کہ کواپریٹوز کا قیام ایک نہایت مشکل امر ہے نیز انہیں مستحکم ہونے میں بھی خاصا وقت درکار ہوتا ہے۔ وہ اس بات کی طرف بھی توجہ دلاتا ہے کہ کواپریٹوز کے مخالفین ایک نہایت قلیل اقلیت ہے جبکہ اس کے  حامیوں اور فائدہ اٹھانے والوں میں چھوٹے کسانوں کی بہت بڑی اکثریت اور درمیانی آمدنی والا کسان طبقہ ہے جو ہماری آبادی کے ستر فیصد

سے بھی زیادہ ہے۔ البتہ وہ یہ مانتا ہے کہ زرعی شعبے میں طبقاتی کشمکش ابھی پوری طرح ختم نہیں ہوئی اور اس کے  لئے پیداوار اور تقسیم پیداوار کو مرکزی پلاننگ کے تحت اس طرح لانے کی ضرورت ہے کہ  (الف)  حکومت کی آمدنی و زرتکاز میں اضافہ ہو،  (ب)  کواپریٹوز کے لئے ایک حد تک ارتکاز ممکن رہے نیز  (ج)  کسان طبقے کی سالانہ آمدن میں اضافہ ہوتا چلا جائے۔ اسی طرح بعض لوگ یہ اعتراض بھی کرتے ہیں کہ کسانوںکے مالی حالات بہت خراب ہیں۔ ماؤ کے خیال میں اس کی  بنیادی وجہ اشتراکی پالیسیاں نہیں وہ لوٹ کھسوٹ ہے جو استعمار ی طاقتوں نے ایک عرصے تک ہمارے علاقوں میں روا رکھیں اور  اذالہ کرنے میں چند دہائیاں لگ سکتی ہیں۔ دوسری بات یہ کہ اس کے نزدیک یہ اعتراض ان معنی میں تو درست ہے کہ کسانوں کی حالت صنعتی مزدور وں کے مقابلے میں خراب ہے مگر اس اعتبار سے غلط ہے کہ ماضی کے مقابلے میں اس میں کوئی بہتری نہیں آئی جیسا کہ وہ اعدادوشمار کے ذریعے ثابت کرتا ہے۔ اس کے  نزدیک صنعتی مزدور طبقے اور کسانوں کی آمدن کا براہ راست تقابل کرنا بھی اس لئے غلط ہے کیوں کہ  مزدور طبقہ کی پیداواری صلاحیت نیز اس کی شہری زندگی کی ضروریات دونوں کسان طبقے کے مقابلے میںبہت زیادہ ہیں۔

                صنعت کاروں اور تاجروں کا مسئلہ:  اشتراکی انقلاب کے بعد ١٩٥٦ میں چین کے صنعتی شعبے کو پرائیویٹ پبلک جوائنٹ ملکیت میں تبدیل کردیا گیا۔ البتہ یہ خیال درست نہیں کہ مزید کسی قسم کی بہتری کی ضرورت باقی نہیں رہی ۔ ماؤ اس اعتراض کا ذکر بھی کرتا ہے کہ بعض لوگوں کے خیال میں نئے تعلقات پیداوار کے بعد سرمایہ دار طبقے کی پوزیشن میں کوئی واضح تبدیلی نہیں آئی اور وہ اب بھی مزدوروں کے مقابلے میں بہت بہتر حالت میں ہیں۔ اس کے جواب میں وہ کہتا ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ انقلاب کے بعد سرمایہ دار طبقے کی پوزیشن میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی کیوں کہ  نئے نظم و ضبط میں اسے اپنی آمدنی کے ایک حصے کے لیے  بطور مزدور کام کرنا پڑتا ہے البتہ یہ درست ہے کہ ابھی اسے اس کے نجی سرمائے کے بدلے کچھ نہ کچھ نفع بھی ملتا ہے۔ اس مقام پر وہ یہ باور کراتا ہے کہ اشتراکی چینی سرمایہ دار طبقے کا شمار دشمنوں میں نہیں بلکہ اپنوں میں ہوتا ہے نیز جس طرح انقلابی عمل سے گزر نے کے بعد مزدور طبقہ خود کو نئے قالب میں ڈھالتا ہے سرمایہ دار طبقے کو بھی اسی نوع کی تبدیلی سے گزرنے کی ضرورت ہے (واضح رہے کہ اشتراکیوں خصوصاً ماؤ کے نزدیک علم کا حصول صرف اور صرف  ‘اشتراکی انقلابی عمل’   سے گزرنے کے بعد ہی ممکن ہوتا ہے)۔ چونکہ سرمایہ دار طبقہ ابھی تک اس عمل سے نہیں گزرا لہٰذا نئے تعلقات پیداوار سے گزرنے اور اشتراکی علمیت کا مطالعہ کرنے کے بعد وہ اشتراکی تبدیلیوں کو قبول کرنے پر آمادہ ہوتا چلا جائے گا اور یوں آہستہ آہستہ طبقاتی کشمکش ختم ہوتی چلی جائے گی۔

                دانشور طبقے کا مسئلہ:  ماؤ کے خیال میں دانشور وں کا سارا طبقہ جو پہلے سرمایہ دارانہ نظام کے حامی تھے

اب انہیں اشتراکی نظام کی حمایت کا بیڑا اٹھانا ہے اور اس ضمن میں ہمیں ان کی  راہنمائی کرنا ہوگی۔ اس کی نظر میں چین کو ایسے دانشوروں کی اشد سے ضرورت ہے جو اشتراکی مقاصد کو آگے بڑھائیں اور وہ اپنی پارٹی کے ایسے کمریڈز کو سرزنش کرتا ہے جو دانشورطبقے کی قدر نہیں کرتے اور ان کے علمی، سائنسی اور کلچرل کاموں میں بے جا مداخلت کرتے ہیں۔ وہ دانشور طبقے سے پر زور اپیل کرتا ہے کہ وہ نئے نظام میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے  خود کو تیار کریں اور اسے امید ہے کہ وہ ایسا کریں گے۔ اس کے حساب سے پچھلے کئی برسوں میں بہت سے دانشور سوشل ازم کے مطالعے کے بعد اس کے حامی ہوگئے مگر ایسے لوگوں کی تعداد بھی کم نہیں جو اب بھی اس کے  خلاف ہیں۔ ایسے مخالفین کو اس وقت تک کچھ نہ کہنا چاہئے جب تک وہ سوشلزم کے قوانین کی پاسداری کرتے ہیں اور کوئی شورش برپا نہیں کرتے۔ اس ضمن میں ماؤ تعلیمی پالیسی پر خصوصی توجہ دینے کی بات کرتا ہے جو ایک طرف آنے والی نسل کے لیے  اشتراکیت کو ایک زندہ حقیقت بنائے اور دوسری طرف اشتراکیت کی حقیقی تعلیم اور اہداف سے انہیں آراستہ کرے تاکہ وہ اس قسم کی غلط فہمیوں کا شکار نہ ہوں کہ قیام اشتراکیت کے ساتھ ہی دنیا امن و جنت کا گہوارہ بن جانی چاہئے جیسا کہ ہمارے طلباء اشتراکیت سے امید رکھتے ہیں۔

اقلیتوں کا مسئلہ: 

                چونکہ چین میں غیر ملکی باشندے بھی بڑی تعداد میں آباد تھے لہٰذا ماؤ اسے (خصوصاً Han Chauvinism  کو ) بھی موضوع بحث بناتے ہوئے کہتا ہے کہ ہمیں ان کے ساتھ خوشگوار تعلقات استوار کرنے اور جمہوری اصلاحات کے ذریعے انہیں اشتراکی ریاست میں سمونے کی کوشش کرنا چاہئے۔ Han Chauvinism   کو وہ چینی اقوام کے اتحاد میں رکاوٹ تصور کرتا ہے۔ تبت کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتا ہے کہ حالات ناسازگار ہونے کی وجہ سے وہاں ہم اب تک کوئی اصلاحات نہیں کرسکے جسکی ایک وجہ ہمارے اور ان کے درمیان سترہ نکاتی امن معاہدہ بھی ہے۔ وہ اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ دوسرے پنج سالہ پروگرام میں بھی ہم وہاں کوئی اصلاحات نہیں کریں گے اور صبر کی تلقین کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اس معاملے میں جلدی کرنے کی ضرورت نہیں۔ مگر وہ اس بات کی اہمیت بھی اجاگر کرتا ہے کہ بالآخر ہمیں ان طبقات پر بھی قابو پانا ہی ہوگا۔

                شورش برپا کرنے والوں کا مسئلہ:  ١٩٥٦ میں طلباء اور مزدوروں کی ایک جماعت نے چین میں چند مطالبات کے لئے ہڑتال کی۔ اس قسم کی شورشوں کی وہ دو وجویات بیان کرتا ہے۔ ایک طلباء اور مزدوروں میں درست تعلیم اور سیاسی شعور کی کمی ، دوسرا مقتدر طبقے کے کام کرنے کا بیورو کریٹک انداز۔ وہ کھلے الفاظ میں کہتا ہے کہ اکثر و بیشتر اس قسم کی شورشوں کی اصل وجہ ہماری لیڈرشپ کا غیر ذمہ دارانہ رویہ ہوتا ہے۔ البتہ وہ کہتا ہے کہ اس قسم کی شورشوں کو بڑھنے نہیں دینا چاہئے کہ یہ ہمارے مقاصد کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ خیال ہے کہ ہماری آبادی کی

بڑی اکثریت نہ صرف یہ کہ نئے نظام پر عمل پیرا ہے بلکہ اس کے ساتھ مخلص ہے اور اگر وہ شورش برپا کرتے ہیں تو اس کی کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہوتی ہے۔ لہٰذا ہمیں ان معاملات میں unity, criticism, unity   کا اصول نہیں بھولنا چاہئے۔ اس کے  نزدیک اس قسم کی شورشوں کو ختم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہم عوام کو درست تعلیم دیں مگر اس سے بھی زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے کام کرنے کے طریقوں سے بیوروکریٹک انداز کا خاتمہ کریں۔ اسی طرح اگر کہیں ہماری طرف سے کوئی چوک ہوئی ہو تو ہمیں اس کا اذالہ کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہئے۔ ماؤ اس قسم کی شورشوں میں یہ مثبت پہلو دیکھتا ہے کہ ایک تو چین جیسے بڑی آبادی کے ملک میں ایسے شورشیوں کی تعداد نہایت کم ہے نیز ان کے نتیجے میں ہم بیوروکریسی سے بھی گلو خلاصی کر سکیں گے۔

‘گلشن میں رنگ برنگے پھول مہکنے کی اجازت دینے ‘  کا مسئلہ: 

                ماؤ اس اصول پر عمل پیرا ہونے کو سائنس اور آرٹس کی ترقی کے لیے  نا گزیر سمجھتا ہے۔ اس کے  خیال میں سائنس و آرٹس کے مختلف رجحانات کو پھلنے پھولنے کی مکمل آزادی ہونی چاہئے اور علم کے ان دائروں میں صحیح اور غلط کے فیصلے علمی بنیادوں پر ہی طے پانے چاہئے نہ کہ سیاسی قراردادوں وغیرہ کے ذریعے کیوں کہ  حق (یعنی اشتراکیت کا قیام) بالآخر باطل پر غلبہ پا کر رہتا ہے۔ وکوپرنیکس کی مثال  کہتا ہے کہ ایسا اکثر ہوتا ہے کہ ایک بات کو ابتداً علم کی دنیا میں پزیرائی نہیں ملتی مگر وقت گزرنے کے ساتھ لوگ اس کی  سچائی ماننے پر مجبور ہوجاتے ہیں کیوں کہ  علم بذات خود طبقاتی کشمکش کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے اور کسی مخصوص دور تک اس کشمکش کا اظہار جس حد تک ہوپاتا ہے اسی قدر لوگ حق کا ادراک کرسکتے ہیں، اس سے زیادہ کی امید رکھنا اشتراکی تصور علم سے ناواقفیت کی علامت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مرکسزم بھی مادی جدلیت کے نتیجے میں ابھرتی ہے اور ایسا ہونا ہی قوانین فطرت کا تقاضا ہے۔ وہ اس سوال کا جواب بھی دیتا ہے کہ ہمیں مارکسزم مخالف نظریات کے ساتھ کیسا برتاؤ رکھنا چاہئے۔ وہ کہتا ہے کہ جہاں تک انقلاب مخالف قوتوں کا معاملہ ہے تو ہمیں ان کی آزادی اظہار رائے چھین لینی چاہئے۔ مگر عوامی غلط فہمیوں کے معاملے کو وہ اس سے یکسر الگ رکھتا ہے ۔ اس کے  خیال میں غلط نظریات کے اظہار پر پابندی لگا دینے سے وہ عوام کے ذہنوں سے ختم نہیں ہوجاتے بلکہ اس حکمت عملی کا الٹا نقصان ہوتا ہے۔ لہٰذا ہمیں بحث ومباحثے اور علمی تکرار کے طریقہ پر عمل پیرا ہوکر اپنے نظریات کا لوہا منوانا چاہئے کیوں کہ  اشتراکیت ہی حتمی حقیقت ہے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم دلیل کے ذریعے غلط فہمیوں کو دور کریں۔

                ماؤ یہ اہم بات بھی کہتا ہے کہ درج بالا نعرے کو کوئی آفاقی یا غیر طبقاتی نعرہ نہیں سمجھنا چاہئے، کیوں کہ  کون سی چیز  ‘خوشبو’  کے زمرے میں آتی ہے اور کونسی  ‘زہر’  اسکا فیصلہ ہر طبقہ اپنے نقطہ نظر ہی سے کیا کرتا ہے۔ لہٰذا ہمیں ان دونوں میں تمیز کرنے کے لیے  ‘معیار ‘  وضع کرنا ہوگا اور یہ معیار ات اس کے  نزدیک درج ذیل

ہیں: 

١)            حق نظریہ وہ ہے جو ہمارے ملک کی مختلف اقوام کو متحد کرے نہ کہ ان میں رقابت پیدا کرے

٢)            وہ نظریہ اشتراکی انقلاب کے لئے نقصان دہ نہ ہو بلکہ اس کے مقاصد کو بڑھانے والا ہو

٣)            وہ نظریہ مزدوروں کی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف سازش یا اسے کمزور کرنے والانہ ہو

٤)            وہ نظریہ جمہوری مرکزیت کے خلاف سازش یا اسے کمزور کرنے والانہ ہو

٥)            وہ نظریہ عالمی اشتراکی اتحاد کو کمزور کرنے والا نہ ہو

ماؤ کے نزدیک ان معیارات میں سب سے اہم اشتراکی مقاصد کا حصول اور پارٹی کی لیڈرشپ کا استحکام ہے۔ ان معیارات کا مقصد بحث کو روکنا نہیں بلکہ اس کے لئے مناسب ماحول فراہم کرنا ہے اور جو لوگ ان معیارات سے اختلاف رکھتے ہیں ماؤ کے نزدیک انہیں اپنے معیارات وضع کرکے ان پر بحث کرنا چاہئے۔ وہ مزید کہتا ہے کہ چونکہ یہ معیارات  ‘سیاسی نوعیت ‘  کے مسائل کے حل کے لیے  دئیے گئے ہیں، لہٰذا علمی و سائنسی میدانوں کے مسائل کے حل کے لیے  ان کے دائرہ عمل کے اعتبار سے مزید اور مناسب معیارات کا اضافہ کرنا ہوگا۔

                ان گزارشات کی روشنی میں بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ماؤ اشتراکی نظام کے استحکام کے لیے  جبر کے ساتھ ساتھ فکری ہم آہنگی کے لیے  اصلاح بذریعہ رضا ورغبت، تعلیم و تربیت اور بحث و مباحثے کی آزادی جیسے مباحث کو خصوصی اہمیت دیتا ہے اور جنہیں دیگر اشتراکی مفکرین عام طور پرپس پشت ڈال دیتے ہیں۔ آخر میں وہ روس کے ساتھ تعلقات مضبوط بنانے پر بھر پور زور دیتا ہے تاکہ ہم دنیا میں تنہا نہ رہیں ۔ اس کے علاوہ وہ اپنے لوگوں کو دیگر سرمایہ دارانہ ممالک سے تجارتی تعلقات استوار کرنے نیز ان کے ساتھ جنگ کرنے سے حتی الامکان بچنے کی نصیحت بھی کرتا ہے۔

حواشی

١۔            دیکھئے کاؤٹزکی (Koutsky) کے نظریات

٢۔            معلوم ہوا کہ اشتراکی نظام میں محض  ‘نمائندگی کی بنیاد ‘  تبدیلی ہوتی ہے نہ کہ  ‘نمائندگی کا تصور’، یعنی لبرل جمہوری نظام میں نمائندگی کی بنیاد  ‘فرد’   جبکہ اشتراکیت میں  ‘طبقہ’ ٹھہرتی ہے۔ دونوں نظاموں میں یہ مماثلت اس لئے پائی جاتی ہے کہ دونوں ایک ہی علمیت (تنویری علمیت) سے برآمد اور مقاصد کو حاصل کرنے والے دو مختلف دھارے ہیں ۔

٣۔            پیرس کمیون (Paris Commune) اس قلیل دور حکومت کو کہا جاتا ہے جو پیرس میں مارچ سے مئی ١٨٧١ تک قائم رہی۔ اشتراکیوں کے خیال میں یہ دنیا کے نقشے پر مزدوروں کی پہلی حکومت کا قیام تھا۔ یہ ایک قسم کی لوکل کونسل اور شہری حکومت طرز کا ریاستی ڈھانچہ تھا ۔

٤۔            Specie being  کا معنی انسانیت (humanity) ہے یعنی انسان بطور  ‘نوع’  اور  ‘اکیلی وحدت’۔ مارکس کے خیال میں انسان اصلاً  Specie being ہے ، یعنی حقیقت میں تو انسان بحیثیت  ‘نوع’  کے اکیلا موجود ہے، جو انسانیت کے فائدے کو ذاتی فائدے پر ترجیح دیتا ہے ۔ مسابقت وغیرہ کے جذبات تو تصور دوئی سے پیدا ہوئے ہیں جو نتیجہ ہے ذرائع کی قلت اور طبقاتی کشمکش کا ، جب یہ دونوں چیزیں ختم ہوجائیں گی انسانیت اپنی اصل فطرت پر لوٹ آئے گی

٥۔            مارکس کا خیال تھا کہ جب ذرائع پیداوار ایک خاص حد تک ترقی کرچکے ہوںگے اور لوگوں کی تمام تر مادی خواہشات پوری ہوجائیں گے تو اس کے بعد آہستہ آہستہ لوگوں کی خواہشات میں کیفیاتی تبدیلی رونما ہوگی اور وہ مادی اشیاء کے بجائے جمالیاتی تقاضوں کو زیادہ اہم سمجھنے لگیں گے جسکا مطلب یہ ہوا کہ مادی ذرائع پیداوار میں مزید اضافے کی ضرورت نہ رہے گی۔ مگر عملاً کسی بھی اشتراکی معاشرے میں ایسا نہ ہوا بلکہ لوگوں کی مادی خواہشات ہی بڑھتی رہیں اور یہ صورت حال اشتراکیت کی کامیابی میں اہم رکاوٹ ثابت ہوئی ۔

٦۔            دوسرے لفظوں میں انسان خدا بن جائے گا ۔

٧۔            دھیان رہے یہاں گناہ سے مراد مذہبی تصور گناہ نہیں بلکہ اشتراکی انفرادیت کی وہ قلبی کیفیت ہے جو وہ اپنی فطرت کے خلاف عمل کرنے کے بعد محسوس کرتی ہے ۔

 

1 thoughts on “Ishtiraki Inqilab – اشتراکی انقلاب – ماہیت اور طریقہ کار”

  1. Accidentally I come across by this article which grabbed my attention the title was extremely appealing as such I followed it ,I have not read it thoroughly but it is under study as I have saved it for further reading, I tried to follow the page or like it on Facebook but I failed , please what would be the easy way to follow the page to get day to day updates, Thank you, Shafiq Zaman Waziri,

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *