اشتراکیت اور لبرل ازم میں ہم آہنگی اور تفریق:

16 صدی کے بعد یورپ میں دو ہمہ گیر تحاریک نے فروغ پایا۔ یہ دونوں تحریکیں Enlightenment اور Romanticism عیسائیت کی مکمل رد کرتی تھیں اور ایک نئے تصور انسان، کائنات اور مقصد حیات کا تصور پیش کرتی تھیں۔ ان دونوں تحریکوں نے انسانی ترقی کو اس بات پر منحصر قرار دیا کہ انسان کتنا آزاد ہوتا ہے۔ ان دونوں تحاریک نے آزادی کو بنیادی قدر اور ہدف کی حیثیت سے قبول کیا۔ آزادی سے مراد یہ لی جاتی ہے کہ انسان ہر وہ چیز حاصل کرنے کا مکلف ہوجائے جس کی وہ خواہش کیا جائے کہ وہ خیر وشر کے معیارات خود متعین کرنے کا اہل ہے۔ آزادی کے اس تصور کو تفصیلی طور پر ”جمہوریت” اور ”حقوق” کے مضامین میں بیان کیا گیا ہے۔
اشتراکیت اور لبرلزم Enlightenment اور Romanticism کی تحاریک کی جانشین ہیں۔ لبرلزم دونوں آزادی کو بحیثیت افضل ترین مقصود کے تسلیم کرتی ہیں۔ اشتراکیت اور لبرل ازم اس بات پر متفق ہیں کہ معاشرہ کے قیام اور وجود کا اہم ترین کلیدی مقصد حصول آزادی ہے۔ دونوں نظریات آزادی سے یہی مراد لیتے ہیں کہ انسان جو کچھ چاہے وہ حاصل کرسکے اور حصول لذات کی راہ میں مادی اور معاشرتی قیود یکسر ختم ہوجائیں۔
لبرلزم کا فروغ 18 ویں صدی سے ہونا شروع ہوا اور اس کا غلبہ انقلاب فرانس کے بعد تمام مغرب پر قائم ہوا۔ لبرلزم کا دعویٰ تھا کہ جب عیسائی قدروں کی معاشرتی گرفت کمزور ہوگی اور معاشرہ کی تربیت عقلی (Rational) اور سیاسی بنیادوں پر کی جائے گی تو حصول آزادی آنسان ہوجائے گی اور ہر شخص اپنی خواہشات باآسانی پوری کرسکے گی۔ لیکن عملاً ایسا نہیں ہوا اور لبرل تنظیم نے سرمایہ دارنہ معیشت اور معاشرت (Civil Soceity) کو فروغ دیا۔ اس معاشرہ میں قوت اور دولت سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں مرتکز ہوگئی اور عاوم آدمی کی زندگی ایک جہنم بن گئی ہے۔ وہ تمام مراعات اور تحفظات جو جاگیردارانہ (Feudalism) نظام میں ایک عام آدمی کو حاصل تھے اس سے چھین لیے گئے اور اس کی معاشی اور تمدنی حالت پہلے سے بہت ابتر ہوگئی۔ اس تناظرمیں دو تحریکیں برپا ہوئیں جنہوںنے لبرلزم کے اس دعویٰ کو چیلنج کیا کہ سرمایہ دارانہ نظم معیشت اور معاشرت کے ذریعہ حصول آزادی ممکن ہے۔ یہ تحریکیں ناراجیت اور اشتراکیت (Socialism) تھیں۔ان دونوں تحریکوں نے آزادی کی بحیثیت ایک حتمی طور پر (Ultimate Value) کے قبول کیا لیکن حصول آزادی کے لبرل طریقہ کو رد کیا۔ اشتراکیت نے دعویٰ کیا ہے کہ خیر وشر کے معیارات کا تعین افراد اپنے اغراض اور میلانات کی بنیاد پر کرنے کے مکلف نہیں۔ خیر وشرکے معیارات کا تعین نوع انسانی کی مجموعی اغراض کو سامنے رکھ کر کرنا چاہیے۔ ہدف محض فرد کی آزادی میں زیادہ سے زیادہ اضافہ نہیں بلکہ بنی نوع انسان کی مجموعی آزادی میں زیادہ سے زیادہ اضافہ ہے۔ اشتراکی نظریہ کے مطابق پرولتاری یعنی مزدور طبقہ واحد (Universal )طبقہ ہے اور اس کے اغراض اور مفادات انسانیت کے اصل اغراض اور مقاصد ہپیں۔ لہٰذا معیارات خیر وشر کو پرولتاری طبقہ کے اغراض کی بنیاد پر متعین کرنا چاہیے۔ اس طرح ہی نوع انسانی کی مجموعی آزادی میں زیادہ سے زیادہ اضافہ ہوسکتا ہے۔
مارکس اور لینن کے نظریات:
چوعنکہ پرولتاری طبقہ Universal طبقہ ہے لہٰذا اس کی ترقی فطری طو ر پر تاریخی ارتقاء کے دھارے سے ہم آہنگ ہے۔ مارکس نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ مادی تعبیر تاریخ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نظام پیداوار (Madeof production) میں ارتقاء مسلسل ہوتا رہتا ہے (Mode of production) میں ارتقاء ہے۔ مثلاً جب پیداواری نظام میں ترقی ہوئی تو جاگیردار پیداواری تعلقات کا نظام تباہ ہوگیا اور اس کی جگہ سرمایہ دارنہ پیداواری تعلقات نے لے لی۔ مارکس کی رائے میں جیسے جیسے نظام پیدا وار ترقی کرتا جائے گا سرمایہ دارانہ پیداواری تعلقات قائم رکھنا مشکل ہوجائے گا۔ کیونکہ سرمایہ دارنہ پیداواری تعلقات کا انحصار شخصی ملکیت پر منحصر ہے اور شخصی ملکیت کا نظام ارتکاز سرمایہ کے ساتھ ساتھ نہیں چل سکتا۔ جیسے جیسے پیداواری نظام میں ترقی ہوگی سرمایہ کا ارتقاز بڑے گا (Joint stock کمپنیاں انفرادی کاروبار کی جگہ لیں گی بڑی بڑی Trade Union قائم ہوںگی اور ریاست کا معاشی دائرہ کار وسیع سے وسیع تر ہوجائے گا۔ اس صورت میں انفرادی ملکیت کو ختم کرکے قومی ملکیت (Nationalisation) کو رائج کرنا فطرتاً آسان ہوگا۔ کیونکہ مارکس کے خیال میں ارتکاز دولت طبقاتی کشمکش کو لازماً تیز کرتی ہے اور مزدور طبقہ انفرادی ملکیت کے نظام کو ختم کیے بغیر اپنے مفادات کا تحفظ کرسکتا ہے۔
مارکس کے نظریہ کے مطابق اشتراکیت سرمایہ داری کے بطن سے جنم لیتی ہے اور اشتراکی انقلاب کے امکانات سب سے زیادہ روشن ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک میں ہی ہوتے ہیں۔ مارکس کو توقع تھی کہ اشتراکی انقلاب سب سے پہلے برطانیہ یا جرمنی میں وقوع پذیر ہوگا اور مارکس کے بہت سے روسی پیروکار اسی رائے کی بنا پر روس میں اشتراکی انقلابی جدوجہد سے احتراز کرتے تھے۔
لینن کا بولشوک (Roshevik) دھڑا اس رائے سے متفق نہ تھا۔ لینن نے اپنی دو کتابوں State and Revolution اور Imperrialism میں یہ نظریہ پیش کیا کہ سرمایہ داری ایک قومی نظام نہیں بلکہ ایک عالمگیر نظام ہے۔ ایک ایسا عالمگیر نظام جو اپنے ترقی کی انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ ایک ایسا عالمگیر نظام جو اپنی ترقی کی انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ ار جس کے تحت پیداواری نظام میں مزید ترقی ممکن نہیں اس نظام کے خلاف بغاوت سب سے زیادہ آسان نہیں اس نظام کے خلاف بغاوت سب سے زیادہ آسان اس کے بعید مراکز (مثلاً برطانیہ، جرمنی، میئں نہیں بلکہ اس کے کمزور اور دوردراز علاقوں مثلاً (روس، چین) میں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ لینن کا یہ نظریہ بھی تھا کہ لبرل جمہوری ریاست کے قیام سے اشتراکی انقلاب کی راہ مسدور ہوجائے گی کیونکہ جمہوری لبرل ریاست سرمایہ دارانہ معیشت کو تحفظ فراہم کرے گی اور مزدوروں کو بے بس کردے گی، لہٰذا انقلاب کا ہدف پرولتاری آمریت کا قیام ہونا چاہیے چوعنکہ اس ذریعہ سے ریاست اور معاشرہ کی تفریق کو ختم کرکے مکمل مساوات ہر سطح پر قائم کی جاسکتی ہے۔ لینن کا یہ عقیدہ تھا کہ جب پرولتاری آمریت قائم ہوجائے گی تو معاشی ترقی کی رفتار تیز ہوجائے گی۔ اشتراکی انقلاب تمام ممالک میں پھیل جائے گی۔ اشتراکی انقلاب تمام ممالک میں پھیل جائے گا اور عنقریب وہ وقت آجائے گا جب وسائل کی اتنی فراوانی ہوجائے گی کہ افراد کی تمام خواہشات پوری کی جاسکیں گی۔ یہ Commaunism کا دور ہوگا اور اس دور میں طبقات ختم ہوجائیں گے ریاست دم توڑ دے گی (The state will whither away) اور انفرادی اور اجتماعی اقدار کی ترتیب کوئی معانی نہیں رکھے گی کیونکہ ہر خواہش کی تسکین وسائل کی فراوانی کی وجہ سے ممکن ہوجائے گی اور ایسے معاشرہ میں جرم کا سرزد ہونا ناممکن ہوجائے گی۔
انقلاب روس:
روسی کی مارکسٹ پارٹی ( جس کا پورا نام Russan Social Democrat and Labour Partythiy تھی 1881ء میں قائم ہوئی۔ 1890ء میں یہ دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی۔ Menshevik دھڑاMastov کی قیادت میں ایک مقبول عام Mass popular) پارٹی قائم کرنا چاہتا تھا جو پیشہ ورانہ انقلابیوں Professional revolutionarsies پر مشتمل ہو۔ 1905ء میں جاپان کے ہاتھوں شکست کھانے کے بعد زار کی حکومت کو بڑے پیمانہ پر بغاوت کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن یہ بغاوتیں آسانی سے کچل دی گئی۔ 1905ء کے بعد سے شہروں اور گاؤں میں Soviet تنظیموں کا وسیع پیمانہ پر قیام عمل میں آیا۔ یہ ایسی تنظیمیں تھیں جو مزدوروں کسانوں اور سپاہیوں پر مشتمل تھیں اور جو شہری دیہی اور فیکٹری کی انتظامیہ سے ان طبقوں کے لیے مستقل برسرپیکار رہتی تھیں۔ 1905ء سے 1917ء بولشوک ڈھڑے نے ان Soveits میں اپنے نفاذ کو سب سے زیادہ اہمیت دی اور Soveits کی قوت میں اضافہ بولشوک دھڑے کے معاشرتی اثر میں اضافہ کا سب سے اہم سبب بنا۔
1914ء کے بعد زار کی حکومت کمزور ہوتی چلی گئی اور 1917ء میں اس کے خلاف کسانوں کی جماعت Social Revolutionories نے کامیاب انقلاب برپا کیا لیکن Menshevik کی طرح یہ جماعت بھی لبرل جمہوریت کے قیام پر یقین رکھی تھی۔ اس کے برعکس بولشوک مقنّنہ (Duma) سے کہیں زیادہ اہمیت Soveits کو دیتے تھے۔ 1917ء میں بالشوک کو کل روسی Supreme Sovits میں واضح اکثریت حاصل ہوئی اور فوج اور مزدوروں کی مدد سے انہوںنے اکتوبر میں انقلاب برپا کردیا۔ جرمنی سے ذلت آمیز سمجھوتہ امن پر دستخط کیے اور غیرروسی ریاستوں کی آزادی کو تسلیم کیا۔ چند ماہ کے اندر ایک سول جنگ کا آغاز ہوا جو 1920ء تک جاری رہی جس کے اختتام پر بالشوک اقتدار مستحکم ہوگیا۔ غیرروسی ریاستیں دوبارہ سلطنت میں ضم کرلی گئیں۔ Soviects اور Trade Union کی آزادی کو مکمل طو رپر ختم کردیا گیااور محدود پیمانہ پر سرمایہ دارانہ ملکیت کو فروغ دیا گیا۔ 1944ء میں Lenin دو سال کی علالت کے بعد مر گیا اور اس کے چار سال تک Trotsky اور Stalin میں اقتدار کی رسی کشی جاری رہے اور 1928ء میں Statin نے کامیابی حاصل کرنے کے بعد 25 سال تک ظلم وجبر کا بازار گرم رکھا جس کے نتیجہ میں ایک کروڑ سے زیادہ انسان قتل کر دئیے گئے اور اپنے گھروں سے نکالے گئے۔
تجزیہ:
سب سے پہلی بات جس کا ادراک کرلینا چاہیے وہ یہ ہے کہ اشتراکیت اور لبرلزم کا ہدف ایک ہے اور وہ ہے حصول آزادی یعنی ہر فرد کو اس قابل بنانا کہ وہ جو چاہے حاصل کرسکے۔ اشترکیت لبرلزم پر الزام لگاتی ہے کہ افراد کی آزادی کا حصول انفرادی ملکیت اور سرمایہ دارانہ نظم معیشت میں ممکن نہیں۔ لیکن روس میں 75 سالہ اشتراکی تجربہ نے ثابت کردیا کہ وسائل کو قومی ملکیت میں لے کر بھی عوام کی بہت بڑی اکثریت نے اشتراکیت سے براء ت کا اعلان کرکے اس بات کا ثبوت دیا کہ وہ سرمایہ دارانہ نظام لبرلزم کو حصول آزادی کا بہتر طریقہ سمجھتے ہیں اور روس میں اس کے احیا کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار ہیں۔
اسلامی نقطۂ نگاہ سے لبرل اور اشتراکی نظام حیات میں کوئی اقداری فرق نہیئں دونوں کا مقصد انسان کو خدا بنانا ہے۔ دونوں خواہشات کو پرکھنے اور ان کو ترتیب دینے کے لیے کوئی پیمانہ نہیں رکھتے دونوں کا مطمح نگاہ صرف حصول دنیا ہے۔ وہ انسان کو خودغرض، لالچی اور حاسد بناتے ہیں اور فطرت انسانی کو مسخ کرتے ہیں۔ ان دونوں نظاموں کی کامیابی اقدار کو کمزور کرنے اور روحانی ارتقاء کی راہوں کو مسدود کرنے کا وسیلہ بنتی ہے۔ اسلامی انقلابی ان دونوں نظاموں کومکمل طور پر تباہ کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔