سیدذیشان ارشد

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ یہ ایک اٹل حقیقت اور ایسا سچ ہے جسے اﷲ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے پسند کیا اور مکمل کیا (سورة المائدہ آیت نمبر٣: آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کردیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا۔ مودودی)

 سورہ المائدہ۔ آیت٣ آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل کر دیا اور میں نے تم پر اپنا انعام)۔ اسلامی علمیت کی بنیاد وحی خالص ہے جو اﷲ تعالیٰ نے اپنے محبوب پیغمبروں پر نازل فرمائی۔ انسان بحیثیت عبد کے اﷲ تعالیٰ کی راہنمائی کا محتاج رہا ہے اور رہے گا۔ انسان کے کسی بھی کلیہ میں (چاہے وہ حس ہو’ عقل یا وجدان) اتنی سکت و صلاحیت نہیں کہ وہ محض اپنے بل بوتے پر ”الحق” تک رسائی حاصل کرسکے۔ لہٰذا اسلام میں علم کا اصل ماخذ صرف وحی ہے اور انسان کی تمام کلیات (بشمول عقل و حواس) کا درجہ وحی کے ماتحت ہے۔

موجودہ دور میں سائنس اور سائنسی علوم کا بہت دور دورہ ہے۔ عام مسلمان تو عام ، سائنسی ترقی نے کئی ایک بزرگان دین کو بھی مرعوب کر دیا ہے۔ ایک سطحی نگاہ سے دیکھنے والے مسلمان کو بظاہر سائنس کی تباہ کاریاں اور برائیاں تو نظر آجاتی ہیں لیکن پھر بھی مجموعی طور پر دیکھنے والوں کو یہ قابل قبول ہی معلوم ہوتی ہے اور بھلا کیونکر معلوم نہ ہو آخر اسی کی وجہ سے مغربی تہذیب نے بے تحاشہ مادی ترقی کی اور موجودہ دور میں دنیا کی زمام کار سنبھالی ہوئی ہے۔ اکثر لوگوں کے خیال میں مسلمانوں کے زوال اور انحطاط کی وجہ بھی انہی سائنسی علوم میں ترقی نہ کرنا ہے۔ درج ذیل مضمون میں ہماری یہ کوشش ہوگی کہ ہم سائنس کی حقیقت کو واضح کرنے کی کوشش کریں۔

جدید سائنس: ایک علمیت

جدید سائنس کی ابتداء کو پرنیکس’ گلیلیو’ اور نیوٹن جیسے سائنس دانوں سے ہوتی ہے لیکن یہ تمام سائنس دان اور ان کے نظریات اچانک کسی دن معجزے کے طور پر پیدا نہیں ہوئے بلکہ ان کے پیچھے یورپ کا مخصوص تاریخی عمل کار فرما رہا ہے۔ قرون وسطیٰ کے یورپ میں عیسائی علمیت غالب تھی۔ لوگ علم اور راہنمائی کے لیے کلیسا اور پادریوں کی طرف رجوع کرتے تھے۔ عیسائیت کی ابتدا تو الہامی پیغام سے ہوئی تھی لیکن جلد ہی اس میں بڑے پیمانے پر تحریفات ہوئیں۔ جو عیسائیت پہلی صدی عیسوی کے بعد رائج ہوئی وہ اصل میں سینٹ پال کے نظریات تھے۔ بعد میں چوتھی صدی میں سینٹ آگسٹائین اور پھر تیرھویں صدی عیسوی میں سینٹ تھامس اکویناس کی اصولی تحریفات نے عیسائی علمیت میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں کو جواز فراہم کیا۔ ان تبدیلیوں کا محرک وہ قدیم یونانی فلسفے کے نظریات تھے جو اس وقت کی مقدس رومی سلطنت میں زور پکڑتے جارہے تھے۔ عیسائی علمیت کی اصولی تبدیلیوں کے نتیجے میں یہ بات قابل قبول ہوگئی کہ سچ تک رسائی کے لیے وحی کے علاوہ بھی ذرائع ہوسکتے ہیں۔ مثلاً اکثر پادریوں کے خیال میں افلاطون اور ارسطو وحی کے بجائے اپنی عقل اور حواس کی مدد سے سچ تک پہنچے تھے اور اس اصولی تبدیلی کی رخصت کو استعمال کرکے قدیم یونانی فلسفے کی کئی خرافات عیسائی مذہب میں شامل کر لی گئیں۔

مسخ شدہ عیسائی افکار اور کلیسا کی زیادتیوں کے باعث عیسائیت کمزور سے کمزور تر ہوتی چلی گئی۔ لوگ عام راہنمائی اور علم کے لیے عیسائیت کو چھوڑ کر اپنی عقل اور حواس پر زیادہ بھروسہ کرنے لگے۔ عیسائیت کی شکل میں مذہب ایک دھوکا اور کلیسا زندگی کی دشمن قرار پائی۔ اس موقع پر عیسائیت کے حامیوں نے تحریک اصلاح  (Reformation) کی صورت میں اور روایت کے حامیوں نے روایت پسندی (Conservativism) کی صورت میں حالات کو سنبھالنے کی کوشش کی لیکن ناکامی مقدر بنی۔ جو تحریک کامیاب ہوئی اس کا نام تھا نشاة ثانیہ (Renaissance) جس نے آگے چل کر تحریک تنویر (Enlightenment) اور پھر جدید سائنس کی شکل اختیار کی۔ نشاة ثانیہ کا بنیادی نظریہ انسانیت کی مذہب سے آزادی اور دنیاوی زندگی کا بھرپور اثبات تھا۔ یہیں سے مغربی تہذیب میں انسان پرستی کی ابتداء ہوتی ہے۔ تحریک تنویر کی ایک خاص صفت اس کا انسان کی سمجھ پر اعتماد اس کی تمام کلیات کا اثبات تھا۔ اٹھارویں صدی کے مشہور فلسفی کانٹ نے اس سوال کے جواب میں تنویریت کیا ہے؟ کہا کہ تنویریت انسانیت کا حدِبلوغیت کو پار کرنا ہے جب انسان اپنی تمام خود ساختہ پابندیوں اور جکڑ بندیوں کو اتار پھینکے۔ سوائے اپنی ذات کے کسی اور کی مدد اور محتاجی اختیار نہ کرے۔ اپنی سمجھ اور فیصلوں کے لیے صرف اپنے اوپر اور اپنی صلاحیتوں پر اعتماد کرے۔ اس موقع پر تحریک تنویر کی جو علمیت قرار پائی وہ تھی جدید سائنس اور سائنٹفک میتھڈ۔

عیسائیت اور سائنس:

سائنس کی تاریخ میں کوپر نیکس کے نظام شمسی سے متعلق نظریے کو انقلاب کی حیثیت حاصل ہے۔ جدید سائنس سے پہلے عیسائیت ”زمین مرکزِ کائنات” کے نظریے کی قائل تھی۔ اس نظریے کے مطابق دنیا کائنات کا مرکز ہے۔ سورج اور باقی تمام سیارے اس کے گرد چکر لگاتے ہیں۔ گو کہ یہ نظریہ اصل میں ارسطو کا تھا لیکن عیسائی پادریوں نے یونانی فلسفے سے مرعوبیت کی بناء پر اسے عیسائی عقائد کا حصہ بنا لیا تھا۔ ان کے خیال میں اس نظریے سے انسان کے خداوند کریم کے مقرب ہونے اور عیسائیت کے حق ہونے کی دلیل ملتی تھی۔ کوپر نیکس نے جب سائنسی اصولوں کے تحت ”سورج مرکز کائنات” کا نظریہ پیش کیا تو اس سے عوام کے درمیان عیسائیت کی ساکھ کو زبردست جھٹکا لگا۔ اس نظریے کے تحت نظام شمسی میں سورج کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور زمین اس کے گرد چکر لگاتی ہے۔ گلیلیو کی ایجاد کردہ دوربین نے اس نظریے کو مزید حسّی شواہد فراہم کیے۔ اس واقعہ کو سائنس کی جیت اور مذہب کی ہار سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اس واقعہ کے بعد لوگوں کا عیسائی مذہب کے ذریعۂ علم ہونے پر سے اعتماد اٹھ گیا اور یورپ کی عوام علم اور راہنمائی کے لیے سائنسی علوم اور سائنس دانوں کی طرف دیکھنے لگے۔

جدید سائنس اور اس کے اغراض و مقاصد:

سائنس اور اس سے متعلقہ علوم کا مقصد فطرت کے خزانوں کی کھوج لگانا اور انسانیت کے علم میں اضافہ کرنا کہا جاتا ہے۔ لیکن معلومات کے اس اضافہ کو اسی وقت درست گردانا جائے گا جب اس کے حصول کے لیے سائنٹفک میتھڈ استعمال کیا گیا ہو۔ کسی بھی علم کو صرف اسی وقت سائنس کا درجہ حاصل ہوتا ہے جب اس میں سائنٹیفک میتھڈ کو مستقل حیثیت حاصل ہوجائے۔ جدید سائنس کے ابتدائی دور میں سائنسدانوں کی زیادہ تر توجہ کا مرکز نیچرل سائنس یعنی طبیعات’ کیمیاء حیاتیات اور ریاضی رہے۔ ان علوم کی مدد سے انسان مادے اور اشیاء کی خصوصایت کو جاننے اور پھر ان سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہونے کی کوشش کرتا رہا۔ اس طریقہ سائنس کا مکمل دارومدار انسانی سمجھ اور صلاحیتوں پر تھا۔ اس میں کہیں بھی خدا کی محتاجی یا راہنمائی کی ضرورت محسوس نہ کی گئی۔ تحریک تنویر کے فلسفیوں (خصوصاً کانٹ) کو نیوٹن کا یہ سائنسی طریقہ بہت پسند آیا اور انہوں نے اس طریقہ کو باقی معاشی’ معاشرتی اور سیاسی علوم میں رائج کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ آہستہ آہستہ ان کی یہ کوشش کامیاب ہوئی جس کا ثبوت موجود دور میں تقریباً تمام علوم کے ساتھ لفظ ”سائنس” کا اضافہ ہے مثلاً پولیٹیکل سائنس’ مینجمنٹ سائنس وغیرہ اور ان علوم میں کہیں بھی وحی یا خدا کی مدد کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔

جدید سائنس کے مندرجہ ذیل اغراض و مقاصد بتائے جاتے ہیں

1۔ دنیا و کائنات کے مظاہر کی تفتیش اور ان کو انسانی عقل کے مطابق سمجھنا۔

2۔ ان مظاہر کے اسباب و علل بیان کرنا۔

3۔ ان مظاہر کی ٹھیک پیشن گوئی کرنا۔

4۔ ان مظاہر کو قابوکرکے ان پر اختیار حاصل کرنا۔

مختصراً یہ کہ سائنسی علمیت انسان کے حصول علم کی ایک ایسی کاوش کا نام ہے جس کا مکمل دارومدار انسانی عقل’ حواس اور سمجھ بوجھ پر ہے اور جس کا مقصد انسان کو دنیا اور کائنات کے مظاہر پر زیادہ سے زیادہ اختیار دلانا ہے تاکہ وہ ان سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہوسکے۔

سائنس کا ارتقائی نظریہ سچائی:

اسلامی علمیت اور سائنسی علمیت کا ایک اور بڑا واضح فرق ان دونوں کا نظریہ سچائی  ہے۔ اسلام میں ”الحق” ایک ہے جو ہر زمان و مکان کے لیے ایک اٹل حقیقت ہے’ جبکہ سائنس ارتقائی نظریہ سچ کی قائل ہے۔ سائنسی علوم میں کوئی اٹل سچ یا سچائی نہیں ہوتی بلکہ ہر زمانے کے سائنسدان اپنے زمانے کی معلومات کی بنیاد پر مختلف نظریات کو سچ قرار دیتے ہیں۔ یہ نظریات اس وقت تک سچائی کے مرتبے پر فائز رہتے ہیں جب تک یا تو یہ غلط ثابت نہیں کر دیے جاتے یا ان سے بہتر کوئی نظریہ پیش نہیں کر دیا جاتا۔ سائنس کی دنیا میں نہ صرف ہر زمانے میں الگ سچ ممکن ہے بلکہ ایک زمانے میں کئی سچ بھی ممکن ہیں۔ اس بکھری ہوئی کیفیت کو یکجا کرنے کے لیے سائنسی دنیا میں تحقیقی اشاعتوں کا ایک نظام رائج ہے۔ ایک سائنسدان کے کام کو جانچنے کے لیے یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس نے کتنے تحقیقی مقالے شائع کیے ہیں اور اس کے کام کو کتنے تحقیقی مقالے حوالے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اسی بنیاد پر ہر نیا زمانہ’ پچھلے زمانے سے بہتر سمجھا جاتا ہے کیونکہ ہر نئے زمانے میں اور زیادہ معلومات جمع کر لی جاتی ہے۔ سائنس میں ترقی سے مراد محض اور زیادہ سے زیادہ ایسی دنیاوی معلومات کا جمع ہوجانا ہے جس سے انسان اور بھی زیادہ کائنات پر تصرف حاصل کرسکے جبکہ اسلام کے مطابق بہترین زمانہ آقائے دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کا زمانہ تھا اس کے بعد صحابہ رضی اﷲ عنہم’ پھر تابعین اور پھر تبع تابعین ہر گزرتے زمانے کے ساتھ دین داری کے رجحان میں کمی اور مسلمانوں میں مجموعی طور پر خوف خدا سے دوری بڑھ رہی ہے اور کیونکہ شریعت میں علم کا تعلق تقویٰ اور پرہیز گاری سے ہے لہٰذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسلامی لحاظ سے موجودہ دور میں علم کم سے کم ہوتا جارہا ہے۔

سائنٹفک میتھڈ (یعنی سائنسی طریقہ کار):

جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا کہ سائنسی طریقہ کار میں کسی بھی معلومات کو حتمی اور آخری حقیقت نہیں سمجھا جاتا بلکہ اس میں مستقل تحقیقات اور تبدیلیاں جاری رہتی ہیں۔ اس طریقے کو تجرباتی طریقہ کار بھی کہا جاتا ہے اس میں سائنسدان مشاہدے’ تجربے اور عقلی دلائل کی مدد سے مظاہر کی تفتیش اور پھر اس سے علم بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کیونکہ اس طریقہ کار میں ضروری نہیں کہ نتائج پہلے سے معلوم ہوں لہٰذا نتائج کے معتبر ہونے کا تعلق نتیجے سے نہیں بلکہ طریقہ کار سے ہوتا ہے تجرباتی طریقہ سائنس کے نتائج اتنے ہی زیادہ معتبر سمجھے جائیں گے جتنا زیادہ سائنسی طریقۂ مشاہدہ اور عقلی دلائل استعمال کیے گئے ہوں گے اس بات کو ریاضی کے سوال کی مثال سے سمجھا جاسکتا ہے جس میں سوال سے صحیح جواب تک پہنچنے کے لیے ریاضی کے تصدیق شدہ اصولوں کو استعمال کرنے کی پابندی ہوتی ہے سوال کا جواب پہلے سے معلوم نہیں ہوتا لیکن اسے حل کرنے کے دوران تصدیق شدہ اصولوں کی پابندی کے طریقہ یعنی میتھڈ کی وجہ سے جواب معتبر ہوجاتا ہے نیوٹن نے اپنی کتاب Principia Mathematica میں سائنس (Natural Philosophy)  کے ریاضی اصول بڑی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔

مختصراً یہ کہ سائنٹفک میتھڈ کی آخری حد انسانی مشاہدہ’ عقل اور سمجھ ہے۔ مشاہدے کی تفصیل حواس خمسہ اور اس کی حدود وہ تمام آلات جو ان حواس کا تسلسل’ مددگار و معاون تصور کیے جاتے ہیں مثلاً دور بین اور خردبین انسان کی قوت بینائی کی صلاحیت میں بے تحاشا اضافہ کرتے ہیں۔

عقلیت کا تعلق استقرائی اور استخراجی طریقہ دلیل سے ہے استقرائی وہ طریقہ دلیل ہے جس میں انسان جزوی مشاہدے اور حادثوں سے کلی اصول اخذ کرتا ہے جبکہ استخراجی طریقہ دلیل اس کا الٹ یعنی کلی اصول سے جزیات کا استخراج ہے۔جبکہ سائنٹفک میتھڈ میں انسانی سمجھ سے مراد پہلے ادوار کی وہ تمام معلومات اور تجربوں کا مجموعہ ہے جو اس سائنسی طریقہ مشاہدے اور عقلیت سے جمع کیا گیا ہو۔ سائنسی تحقیق میں Literature review  سے مراد یہی سمجھ ہے۔ سائنسی میتھڈ کی ایک اور خصوصیت اس کا متعین خصوصی حالات میں ہر بار ایک ہی جیسے نتائج پر پہنچنا ہے۔ ان متعین خصوصی حالات کی مدد سے کوئی بھی سائنس دان کسی بھی تحقیقی تجربے کو دہرا سکتا ہے۔

یہ سائنسی طریقہ کار موجودہ دور کے اکثر علوم میں تحقیقی طریقہ کار کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ تحقیقی طریقہ کار عددی  (Quantitatine) یا تاثراتی (Quali tative) ہوسکتا ہے۔  عددی ہونے کی صورت میں معلومات میں اضافے یا تصدیق کے لیے شماریات استعمال کی جاتی ہے جبکہ تاثراتی ہونے کی صورت میں رائے’ تصورات اور تنقیدوں کی مدد لی جاتی ہے۔

پس جدیدیت اور سائنس:

تحریک تنویراور جدیدیت کے مفکرین سائنس اور سائنسی طریقہ کار کو معلومات حاصل کرنے کا بہترین آفاقی طریقہ سمجھتے تھے’ لیکن پس جدیدیت کے مفکر سائنس اور سائنٹفک میتھڈ کی اس آفاقی حیثیت کو تسلیم نہیں کرتے بلکہ اسے تاریخ کا اتفاق سمجھتے ہیں کہ اسے ایک علمی حیثیت حاصل ہوگئی۔ جدیدیت کی سائنس کسی مخصوص سچ کی قائل تو نہ تھی بلکہ (کسی ممکنہ) سچ کی جانب بڑھنے والے طریقے (یعنی سائنٹفک میتھڈ) کی قائل تھی لیکن پس جدیدیت کیونکہ کسی سچ کو ممکن ہی نہیں سمجھتی لہٰذا وہ کسی مخصوص طریقہ کار کے بہتر ہونے کی بھی قائل نہیں۔ پس جدیدیت کے نکتہ نظر سے سائنس’ ٹیکنالوجی یا کسی بھی مضمون میں امتیازی حیثیت متعین کرنا نہ تو ممکن ہے اور نہ ضروری۔ مختصراً یہ کہ موجودہ دور میں پس جدیدیت نہ تو سائنس کو رد کرتی ہے اور نہ ٹیکنالوجی کو بلکہ وہ تو صرف سائنس کو کوئی امتیازی حیثیت دینے کی انکاری ہے۔

اوپر دی ہوئی تاریخ’ تفصیل اور دلائل سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ لفظ سائنس سے مراد ایک ایسی علمیت ہے جس کا دراومدار صرف اور صرف انسانی سمجھ اور عقل پر ہے۔ سائنسی علمیت کو وحی سے کوئی سروکار نہیں۔ جدید یورپ نے اسے عیسائیت سے بغاوت کرنے اور بے دین مغربی تہذیب کی بنیاد رکھنے کے لیے استعمال کیا۔ اس کا مقصد کائنات کو تسخیر کرکے اس سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہونا ہے۔ بعض مسلمان قرآن کریم میں سائنس تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا پھر شرعی احکام کی حمایت کے لیے سائنسی دلیل دینے کی کوشش کرتے ہیں یہ دونوں ہی رویے سائنس کی حقیقت کو نہ پہنچاننے کے باعث اورمرعوبیت کا نتیجہ ہیں۔ یہ وہی راہ ہے جس پر عیسائیت یونانی فلسفے کی آمیزش کے بعد چلی اور بل آخر شکست سے دو چار ہوئی ۔ گلیلیو کا مشہور قول ہے

“Bible tells us the way to go to Heaven and not the way the Heavens go” (Galileo)

ترجمہ: بائبل ہمیں جنت کے راستے کی راہنمائی تو کرتی ہے لیکن کائنات میں کارفرما اصول نہیں بتاتی۔

لہٰذا جسے آخرت کی فکر ہو اور جو اﷲ کی رضا حاصل کرنا چاہتا ہو اس کے لیے تو ذریعہ علم صرف وحی ہے باقی جو دنیا سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہونا چاہتا ہے اس کے لیے ذریعہ معلومات سائنس ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *