سرمایہ دارانہ نظام زندگی کے ا نہدام کی حکمتِ عملی

 

جیسا کہ ہم جا نتے ہیںکہ سرمایہ داری رائج الوقت عالمگیر نظام زندگی ہے اور قوم پرستی، سیکولرازم، سوشلزم، لبرل ازم، انارکزم اور سوشل ڈیموکریسی اس نظام زندگی کے نظریات ہیں۔
ہم سرمایہ داری کو ایک نظام زندگی اس لیے کہتے ہیں کہ اس کے مخصوص عقائد ہیں۔ ان عقائد کی بنیاد پر وہ مختلف النوع انفرادیتیں، معاشرتیں اور ریاستیں تعمیر کرتا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظریات… قوم پرستی، سیکولرازم سوشلزم، لبرل ازم، انارکزم اور سوشل ڈیموکریسی، سب سرمایہ دارانہ عقائد کو قبول کرتی ہیں لیکن ان عقائد کو بروئے کار لانے کے لیے جس قسم کی انفرادیت، معاشرت اور ریاست کے قیام اور استحکام کی ضرورت ہے، اس کی تفصیل بیان کرنے میں ان نظریات میں اختلاف ہے۔
ہر راسخ العقیدہ قوم پرست، سیکولرسٹ،سوشلسٹ، لبرل، انارکسٹ اور سوشل ڈیموکریٹ سرمایہ داری کے کلمہِ خبیثہ  ”لاالٰہ الالانسان” پر ایمان لاتا ہے۔ ہرقوم پرست، سیکیولرسٹ،سوشلسٹ، لبرل، انارکسٹ اور سوشل ڈیموکریٹ کافر ہے اور قوم پرستی، سیکولرازم، سوشلزم، لبرل ازم، انارکزم اور سوشل ڈیموکریسی کفر ہیں کیونکہ ان نظریات کو قبول کرنے والوں کا عقیدہ ہے:کہ
” انسان فطرتاً قائمِ بالذات اور خالقِ ذات و کائنات (Self Determined and Autonomous) ہے۔ وہ اپنی خواہش اورخرد کے مطابق حقیقت کو معنی دینے کا مکلف ہے۔ حصولِ آزادی (Freedom)، مساوات (Equality) اور ترقی (Progress) کی جدوجہد کے ذریعے انسان کی فطری الو ہیت آشکار ہوتی ہے اور وہ تسخیر کائنات کے ذریعے اپنے رب  العالی اور قادر مطلق ہونے کی تصدیق کرتا ہے”
یہ قوم پرستی، سیکولرازم، سوشل ازم، لبرل ازم ،انارکزم اور سوشل ڈیموکریسی کے متفق علیہ عقائد ہیں لیکن بہت سے مسلمان شعوری طور پر ان عقائد کی نوعیت اور ماہیت اور ان کے تاریخی تناظر سے واقف نہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظریات کی عملی جہتوں کو ان کے عقائد کی بنیادوں سے جدا کیا جاسکتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اسلامی عقائد اور سرمایہ دارانہ نظریات کا مرکب تیار کیا جاسکتا ہے اور اس ملغوبہ سے مسلم قومیت، اسلامی سوشلزم، اسلامی جمہوریت وغیرہ تعمیر کی جاسکتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ ناممکن ہے کیوں کہ سرمایہ دارانہ نظریات کا مقصدِ وجود ہی سرمایہ دارانہ عقائد کی توجیہ اور توضیح ہے۔ لبرل ریاست اور سوشلسٹ معاشرت میں اسلامی انفرادیت فروغ نہیں پاسکتی۔
مولانا حسرت موہانی رحمہ اللہ، مولانا عبیداللہ سندھی رحمہ اللہ، مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ، علامہ اقبال اور علامہ علی شریعتی یہ سب راسخ العقیدہ مسلمان اور بڑے پائے کے عشاق رسول ۖتھے لیکن ان سب نے قوم پرستی، لبرل ازم اور سوشل ازم کی اسلام کاری کی سعی کی اور سرمایہ دارانہ معاشرتی اور ریاستی صف بندی کو غلبہ اور تحفظ دین کا ذریعہ گردانا (علمائے دیو بند بریلی اور جعفریہ کی پیہم تنبیہات کے باوجود) یہ کیسے ممکن ہوا؟  میری رائے میں اس کی ایک بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کے وضع کردہ تصور نظام کی تشریح اس کے وضع ہونے کے تقریباً دو صدیوں کے بعد کی، اور مولانا مودودی وہ نابغہ روز گار عالم دین اور متکلم اسلام ہیں، جنہوں نے اس کلیدی نظریاتی تصور کے احیاء کا حق ادا کردیا۔
 تاریخ اسلام میں پہلی مرتبہ آپ نے مغرب کو جاہلیت خالصہ کے طور پر پیش کیا اور اسلام کو مغرب کے مقابل ایک مکمل نظام حیات گردانا اور اسلامی نظام زندگی کی انفرادیت، معاشرت اور سیاست کو تفصیلاً اُجاگر کیا۔ آپ نے تحفظ دین اور غلبہ دین کے عمل کے ارتباط کو واضح کیا اور انقلاب اسلامی کا نظریاتی تصور پیش کیا۔
انقلاب ایک عمل ہے واقعہ نہیں ہے۔ اسلامی انقلابی جماعت مکمل نظاماتی تغیرکے لیے جدوجہد کرتی ہے۔ ہر نظامِ زندگی کی تین جہتیں ہوتی ہیں:… انفرادیت، معاشرت اور ریاست۔
 جب ہم سرمایہ داری کو ایک نظامِ زندگی کہتے ہیں تو ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ سرمایہ داری ایک مخصوص شخصیت، معاشرت اور ریاست کو قائم کرتی اور فروغ دیتی ہے۔ اسلامی انقلابی جماعت سرمایہ دارانہ شخصیت، سرمایہ دارانہ معاشرت اور سرمایہ دارانہ ریاست کی مکمل تحلیل اور تسخیر کے لئے جدوجہد کرتی ہے۔ کوئی بھی سرمایہ دارانہ نظریاتی جماعت، قوم پرست، لبرل، سوشلسٹ، انارکسٹ، سوشل ڈیمو کریٹ، سرمایہ دارانہ شخصیت، معاشرت اور ریاست کی مکمل تسخیر کے لیے جدوجہد نہیں کرتی، کیوں کہ یہ تمام جماعتیں سرمایہ داری کے بنیادی عقائد، یعنی آزادی، مساوات اور ترقی پر ایمان رکھتی ہیں۔ ان سب کا کلمہ ”لاالٰہ الالانسان” ہے۔ لہٰذا یہ تمام جماعتیں سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی میں جزوی اصلاح کی قائل ہیںاورسرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کی تسخیر کی جستجو نہیں کرتیں۔ یہ جماعتیں ایک غیر سرمایہ دارانہ نظام زندگی (مثلا عیسائیت) کو مسخر کرکے سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی قائم کرسکتی ہیں اور سرمایہ دارانہ نظام کے اندر انقلابی تبدیلیاں لاکر اس کی ادارتی ساخت تبدیل کرسکتی ہیں (مثلاً اشتراکی انقلاب کے ذریعے سرمایہ دارانہ ریاست کی حیثیت یکسر تبدیل ہوجاتی ہے اور معاشرے پر مارکیٹ کی گرفت معدوم ہوجاتی ہے، )اس لیے ہم سوشلسٹ انقلاب کو ایک سرمایہ دارانہ انقلاب کہہ سکتے ہیں، لیکن یہ انقلاب سرمایہ داری کی تسخیر کا انقلاب نہیں کیوں کہ یہ سرمایہ دارانہ اہداف اور عقائد، آزادی، مساوات اور ترقی کے فروغ اور استحکام کے لیے ایک نئی سرمایہ دارانہ ادارتی صف بندی قائم کرتا ہے۔  سوشلزم ایک سرمایہ دارانہ نظریہ ان معنوں میں ہے کہ وہ سرمایہ دارانہ عقائد آزادی، مساوات اور ترقی پر ایمان رکھتا ہے اور سرمایہ دارانہ علمیت، یعنی سائنس (Science) اور سوشل سائنسز (Social Science) کو معقول گردانتا ہے۔ (یہی باتیں قوم پرستی، انارکزم وغیرہ کے بارے میں کہی جاسکتی ہیں) لیکن کوئی سرمایہ دارانہ نظریاتی جماعت سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کو مسخر نہیں کرسکتی، نہ کوئی ایسی غیر سرمایہ دارانہ جماعت یہ کام کرسکتی جو سرمایہ داری کو بحیثیت ایک نظام زندگی کے نہیں پہچانتی۔ یہ کام صرف وہ جماعت کرسکتی ہے جو
٭ آزادی، مساوات اور ترقی کو بحیثیت اہداف اور عقائد کے ردکر ے۔
٭ان اہداف کے لیے جو شخصیتی، معاشرتی اور ریاستی صف بندی کی گئی ہے اس کے باہمی ارتباط کو پہچاننے اور ارتباط کے اس جہت کو ایک مکمل نظامِ زندگی کے طور پر سمجھے،
٭اس نظامِ زندگی کی مکمل تسخیر اورتحلیل کے لیے ایک جامع منصوبہ ترتیب دینے اور تنفیذکرنے کی اہلیت بتدریج مجتمع کرنے کی اہلیت رکھتی ہو۔

سرمایہ داری کے انہدام کی حکمت عملی:
سرمایہ داری کے انہدام کی ذمہ داری جماعت اسلامی پر عائد ہوتی ہے کیوں کہ یہی وہ راسخ العقیدہ اسلامی جماعت ہے جس نے سرمایہ داری کو بحیثیت ایک مکمل نظامِ زندگی کے پہچانا ہے لیکن یہ کام جماعت اسلامی تنہا انجام نہیں دے سکتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام زندگی کے انہدام اور اسلامی نظامِ زندگی کے غلبہ اور تحفظ کے لیے جس نوعیت کی جدوجہد کی ضرورت ہے اس کی بھی تین جہتیں ہیں:
اولاً :فریضہ اسلامی انفرادیت کا فروغ اور سرمایہ دارانہ انفرادیت کا انتشار ہے۔
 اسلامی انفرادیت کے فروغ سے مراد یہ ہے کہ فرد معا ش  کو محض معادکمانے کا ذریعہ سمجھے۔
٭ آزادی کو بحیثیت قدرکے رد کرکے عبدیت کواختیار کرے۔
 ٭مساوات کو بحیثیت قدر کے رد کرے اور نظامِ ارشاد میں کسی پاک نفس مرشد کا مطیع بن جائے ۔
٭ ترقی کو بحیثیت قدر کے رد کرکے معرفت کے حصول کی جستجو کرے۔
ظاہر ہے کہ عوامی سطح پر اسلامی شخصیت اور تعمیر کا کام صوفیاء کرام اور اولیاء اللہ کا دائرہ کار ہے اور برصغیر کی پوری تاریخ عوامی تطہیرِ نفس کی تحریکات سے بھری پڑی ہے جن کی قیادت حضرت معین الدین چشتی، حضرت علی ہجویری، حضرت نظام الدین اولیائ، حضرت مجدد الف ثانی اور حضرت شاہ ولی اللہ رحمہم اللہ اجمعین جیسے اکابر صوفیا نے فرمائی۔ عوامی سطح پر اسلامی شخصیت سازی کی ذمہ داری صوفیائے کرام کی ہے اور یہ فریضہ کوئی دوسرا گروہ سر انجام نہیں دے سکتا۔
ثانیاً: اسلامی معاشرت کے غلبہ کی ذمہ داری ہے۔
اسلامی معاشرت میں:
٭علوم اسلامی اور اسلامی عقلیت کا غلبہ ہوتا ہے اور غیر اسلامی علمیاتی منہج (بالخصوص سائنس اور سوشل سائنس) غیر معقول اور غیر معتبر گردانی جاتی ہیں۔
٭روابط اور تعلقات کی بنیاد صلہ رحمی اور خونی رشتے ہوتے ہیں۔ خاندان، قبائل اور شعوب، اسلامی معاشرت کی بنیادی اکائیاں ہوتی ہیں۔ غرض ( Interest) کی بنیاد پر تعلقات استوار نہیں کیے جاتے۔
٭روحانی ثقافت شہوانی ثقافت کو کچل دیتی ہے۔ علاقائی اور نسلی رسوم و رواج اسلامی عصبیت کے اظہار اور مقاصد شریعت کے حصول کا
 ذریعہ بن جاتے ہیں، مسجد، مدرسہ اور خانقاہ اسلامی ثقافت کے محور اور مرکز بن جاتے ہیں۔ تمام ثقافتی مظاہر مذہبیت کے رنگ میں ڈوب جاتے ہیں۔
٭سرمایہ دارانہ ملکیت (Corporate Property) تحلیل ہوجاتی ہے۔ سود کا بازار اور سٹہ کا بازار (Money and Capital Markets) مفقود ہوجاتے ہیں۔ حلال رزق کمانے کے ذرائع عام ہوجاتے ہیں۔ کاروبار حصول معاد کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ مارکیٹ کی جگہ بازار لے لیتے ہیں، انفاق اسراف کو مسخر کرلیتا ہے۔ معیار زندگی میں بڑھوتری کی جستجو غیر معقول ہوجاتی ہے، دولت سرمایہ کی غلاظت سے پاک ہوجاتی ہے۔
اسلامی معاشرت کے قیام اور غلبہ کی بنیادی ذمہ داری علمائے کرام، مصلحین کی جماعتوں، ائمہ مساجد، قبیلوں، برادریوں اور خاندانوں کے سربراہوں اور اسلامی کاروبار منظم کرنے والے حضرات کی ذمہ داری ہے۔ ہماری تاریخ میں انہیں طبقوں نے اسلامی معاشرت کو زندہ رکھا ہے اور یہی حضرات اسلامی ثقافت کا احیا بروئے کار لاسکتے ہیں۔
ثالثاً:اسلامی ریاست کے قیام کی ذمہ داری ہے۔
 ریاست سے مراد نظام اقتدار ہے۔ اسلامی ریاست اس وقت وجود میں آتی ہے جب کسی علاقہ کے باشندے احکام شریعت کے مطیع ہوجائیں اور اس علاقہ میں حاکمیت کا جواز (Legitimacy) شرع مطہرہ اور صاحب شریعت کی اطاعت ہو۔ یہ علاقہ ایک محلہ جتنا محدود اور تمام دنیا جتنا وسیع بھی ہوسکتا ہے۔ شرعاً صرف یہ  ضروری ہے کہ علاقہ کا حاکم نہ کسی کا نمایندہ ہو نہ مطلق العنان ہو بلکہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ (یعنی سلطان ظل اللہ ہو) سقوط سلطنت عثمانیہ تک کرہ ارض کے ایک وسیع علاقہ میں اسلامی ریاست قائم تھی اور آج بھی مجاہدین جابجا اسلامی سلطنتیں قائم کرنے میں کامیاب ہورہے ہیں۔مثلاً ایران،سوڈان،یمن، فلسطین،چیچنیا، افغانستان، صوما لیہ،ما لی اور سینڑل افریقن ریپبلک کے مفتو حہ  علا قوں میں۔

سرمایہ دارانہ ریاست کے انہدام کے دو ذریعے یہ ہیں:
(الف) سرمایہ دارانہ ریاستی ادارتی صف بندی کو کمزور کرنا اور ان کی قوت نافذہ کی تحدید…

اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے جمہوری عمل اور ریاستی انتظامیہ کے تضادات کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام اقتدار غرض، حرص اور ہوس کی حاکمیت کادوسرا نام ہے۔ اس نظامِ اقتدار کو بتدریج معطل کیے بغیر مقاصد شریعہ حاصل نہیں کیے جاسکتے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ بہت سی اسلامی سیاسی جماعتیں سرمایہ دارانہ نظام اقتدار کو مقاصد شریعت کے حصول کا ممکنہ ذریعہ سمجھنے لگی ہیں اور بیشتر غیر سیاسی اسلامی جماعتیں سرمایہ دارانہ نظام اقتدار کو تحلیل کرنے کی ضرورت کی قائل نہیں۔ وہ اس کے وجود سے صرف نظر کرتی ہیں ، ان کے خیال میں یہ نظام اقتدار دعوت دین کے فروغ اور اسلامی معاشرت کے قیام میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالتا۔ اس رویہ کے نتیجہ میں سیاسی اور غیر سیاسی جماعتیں عملاً سرمایہ دارانہ نظام اقتدار میں بتدریج سمودی جاتی ہیں۔

(ب)دوسرا ذریعہ اسلامی ریاستی صف بندی ہے۔

آج ہم نے اس ضمن میں خاصا تجربہ حاصل کرلیا ہے۔ اس حکمتِ عملی کی تنفیذ کا
 بنیادی ذریعہ مساجد کے علاقائی اقتدار کا فروغ ہے۔ محلہ اور بازار کی سطح پر کئی ممالک میں مساجد ان معنوں میں بااقتدار بنا دی گئی ہیں کہ وہ علاقے میں امن قائم رکھنے اور عادلانہ فیصلوں کی تنفیذ کی اہلیت حاصل کرگئی ہیں۔ وہ نہ صرف دارالافتاء اور دارالقضا بن گئی ہیں بلکہ ان میں اتنی قوت اور اقتدار مجتمع ہوگیا ہے کہ وہ اپنے فیصلے محلہ اور بازار کی سطح پر نافذ کرسکیں، مسلمانوں کے کئی شہروں میں ایسے بین المسلکی وفاق المساجد قائم ہوگئے ہیں جنہوں نے سرمایہ دارانہ انتظامیہ اور عدلیہ کو عملاً محلہ اور بازار کی سطح پر بے دخل اور اپنے فیصلوں کاپابند کردیا ہے اور ان علاقوں سے غیر شرعی کا روبار (مثلاً بینک، سینما، وڈیو شاپ، مخلوط تعلیمی ادارے) بے دخل اور معطل کردیے ہیں۔ آج کئی ایسے مسلمانوں کے ممالک موجود ہیں جہاں حکومت تو غیر اسلامی ہے لیکن اسلامی ریاستی نظام ان کی حدود میں بتدریج طاقت ور ہوتا چلا جارہا ہے۔ اس نوعیت کے سب سے کامیاب تجربات جنوبی لبنان افغانستان اور مشرقی صومالیہ میں کیے گئے ہیں ،اور اس کام کی تنظیم اور تحکیم میں مجاہدین  اسلام کی جماعتوں کا بنیادی کردار رہتا ہے۔ ریاستی تعمیر کی اس نوعیت کی جدوجہد عموماً دشوار گزار علاقوں تک محدود رہی ہے اور گنجان آبادی کے علاقوں میں (بالخصوص دارالحکومت کے ارد گرد) اسلامی انقلابی ادارتی صف بندی کمزور، نسبتاً بے اثرہے،اور ان علاقوں میں اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے اسلامی انقلابی قوتیں بالادست سیکولر مقتد رین سے سمجھوتے کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ بات بیروت، موغادیشو، اور قندھار تک کے لیے کہی جاسکتی ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کے انہدام کی تحریک کو جس بنیادی چیلنج کا سامنا ہے وہ غیر سرمایہ دارانہ اسلامی شخصیت، غیر سرمایہ دارانہ اسلامی معاشرت اور غیر سرمایہ دارانہ اسلامی نظام اقتدار کے کام کو مربوط کرنا ہے تاکہ سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کے متبادل اسلامی نظام زندگی عملاً متحرک اور زور پکڑتا ہوا نظرآئے، انفرادی، معاشرتی اور ریاستی تعمیر کی جدوجہد کو مربوط اور مستحکم کرنا جماعت اسلامی کی ذمہ داری ہے۔ جماعت اسلامی تمام راسخ العقیدہ اسلامی تحریکات کی رابطہ کی جماعت ہے۔ اس کی کوشش ہونا چاہیے کہ جو کام مزکی اور صوفیا اسلامی شخصیت سازی کے لیے کررہے ہیں، جو کام علما اور مصلحین کی جماعتیں اسلامی معاشرت کی تعمیر کے لیے کررہی ہیں اور جو کام اسلامی سیاسی جماعتیں اور مجاھدین اسلامی نظام اقتدار کے قیام اور استحکام کے لیے کررہی ہیں۔ اس کو اس طرح مربوط کیا جائے کہ سرمایہ دارانہ نظام زندگی بتدریج منتشر ہوتا چلا جائے۔ سرمایہ دارانہ علمیت غیر معقول نظر آنے لگے۔ سرمایہ دارانہ اخلاقیات غیر معتبر ہوتی چلی جائیں، سرمایہ دارانہ معاشرتی صف بندی بکھر جائے، سرمایہ دارانہ نظام اقتدار کی قوت نافذہ بتدریج تحلیل ہوتی چلی جائے ،اسلامی شخصیت سازی، تعمیر معاشرت اور ترتیب اقتدر کی جدوجہد کے کام میں ارتباط پیدا کیے بغیر غلبہ دین ناممکن ہے۔
برصغیر میں جماعت اسلامی مختلف النوع اسلامی جدوجہدوں میں ارتباط پیدا کرنے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ جماعتِ اسلامی کو کسی دوسری اسلامی جماعت پر کوئی فوقیت حاصل نہیں لیکن جماعت اسلامی کی چند ایسی خصوصیات ہیں جن کی بنا پر وہ تمام راسخ العقیدہ جماعتوں میں ایک رابطہ کی جماعت کا رول ادا کرکے انہدام سرمایہ دارانہ نظام زندگی کی ہمہ جہت جدوجہد کو مربوط کرسکتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جماعت اسلامی کی اپنی کوئی منفرد فقہ نہیں، مولانا مودودی فقیہ نہیں ایک متکلم اسلام تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی میں تمام اسلامی مذاہب اور مکتب ہائے فکر کے لیے یکساں گنجائش موجود ہے اور اس کے کارکن بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث، اہل تشیع سب ہی ہیں۔ ان خصوصیات
 کی بنیاد پر یہ تمام دیگر راسخ العقیدہ جماعتوں سے منفرد ہے۔ اس کا ہر کارکن دین سے وابستگی کو مسلکی وابستگی پر فوقیت دیتا ہے اور اس کا بنیادی پیغام ہے۔
کہوہر کارکن سے ہر جتھا ہے اپنا گھر یاور
ہر اک بھائی بنا اپنا حلیف و ہمسفر یارو
جماعت اسلامی تمام اسلامی جماعتوںکو عزت اور احترام کی نظر سے دیکھتی اور مولانا مودودی اور دیگر تمام امراء ِ جماعت نے کبھی بھی جماعت کی فوقیت کا کوئی دعویٰ نہیں کیا۔ اتحاد اسلامی کو فروغ دینا جماعت کی ہمیشہ اولین ترجیحات میں شامل رہا ہے اور سرمایہ دارانہ نظام زندگی کے انہدام کی کثیر الجہت اسلامی جدوجہد کو مربوط کرنا جماعت اسلامی کے لیے ایک فطری تقاضہ کی حیثیت رکھتاہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ مولانا مودودی بیسویں صدی کے وہ پہلے متکلم اسلام ہیں جنہوں نے شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کے تصور نظام کے احیاء کی جستجو کی اور اس کو تصور اسلامی انقلاب سے مربوط کیا۔ آج اللہ کے فضل سے ان دونوں نظریات کو اسلامی حلقوں میں مقبولیت عام حاصل ہے اور کوئی اسلامی مکتب فکر اسلام کی نظاماتی حیثیت اور اسلامی انقلاب کی ضرورت کا منکر نہیں۔ ان نظریات کی بنیاد پر عملی جدوجہد کو مرتب کرنا جماعت اسلامی ہی کی ذمہ داری ہے، اور اس ہی جماعت کا یہ فرض ہے کہ ہر وہ اسلامی جماعت جو اسلامی نظام اور اسلامی انقلاب کے تصور کو اصولاً قبول کرتی ہے اس کے لیے انہدام سرمایہ داری کو اپنی عملی جدوجہد میں شامل کرنے کے لیے گنجائش پیدا کرے۔
٭…آخری بات یہ ہے کہ مولانا مودودی ہی نے مغرب کو جاہلیت خالصہ گردانا اور اس بات کا اعادہ کیا مغربی نظام زندگی کی جزوی اصلاح اور اسلامی ترتیب تو ناممکن ہے (یہی خصوصیت آپ کو علامہ اقبال اور مولانا محمد علی جوہر جیسے مفکرین سے جدا کرتی ہے اور اس ہی وجہ سے آپ نے Reconstruction of Religious thought in Islam   کی رد کے طور پر اپنی کتاب ،اسلامی تہذیب اورا س کے اصول و مبادی تحریر فرمائی) مولانا مودودی کے علم کلام کی توسیعی اور ارتقاء کا بنیادی تقاضہ ہے کہ اس علم کلام کی بنیادپر سرمایہ دارانہ نظام زندگی کی ہمہ جہت اور بھر پور تنقید مرتب کی جائے اور اس نقد کی بنیاد پر سرمایہ دارانہ نظام کے انہدام کی ہمہ پہلو جدوجہد برپا کی جائے۔ مولانا مودودی کی نیم مستشرقانہ (Post Orientalist) لبرل تشریحات جن کو آج مغرب زدہ جامعات فروغ دے رہی ہیں، مولانا مودودی کے انقلابی منہج سے انحراف کے علاوہ کچھ نہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *