ترقی [Progress]

 

ترقی(Taraqi) سے مراد Progress ہے اور Progress کا عقیدہ سرمایہ دارانہ فکر کی امتیازی خصوصیت ہے۔ سرمایہ دارانہ علمیت (Epistemology) کے غلبہ سے پہلے کسی نظامِ فکر نے نہ آزادی کو بحیثیت ایک عقیدہ کے قبول کیا نہ Progress کو۔ ترقی/ Progress، آزادی/ Freedom کا لازمی لاحقہ ہے۔ ترقی(Taraqi) / Progress سے مراد صرف یہ ہے کہ سرمایہ کی بڑھوتری میں لامتناہی اور مسلسل اضافہ مستقل ہوتا رہے۔Progress-Taraqi

ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ عقیدہ” آزادی” رکھنے والا شخص اس بات پر ایمان لاتا ہے کہ Human being وہ ہے جو صرف اپنی خواہشاتِ نفسانی کے حصول کی مستقل جدوجہد کرنے کو عقل کے واحد تقاضے کے طور پر قبول کرے۔ وہ صرف اپنے نفس کا بندہ ہو، اس کو Autonomy یا خود کفالت کہتے ہیں۔ ایک Autonomous Human Being  اپنی خواہشاتِ نفسانی کے حصول کی جدوجہداس طرح کرتا ہے تا کہ تمام دوسرے Autonomous Human Beings بھی اپنی خواہشاتِ نفسانی کی جدوجہد بِلا غیر ضروری روک ٹوک جاری رکھ سکیں۔

اس عقیدہ کی سب سے واضح توجیہ نظریہ افادیت (Utilitarianism) نے پیش کی ہے۔Utilitarianism فلسفہ ,سرمایہ دارانہ علم Economics کو بنیاد فراہم کرتا ہے۔ اس نظریہ کا پہلا بڑا مفکر Hume تھا جو Adam Smith کا قریبی دوست تھا۔ انیسویں صدی میں سب سے نمایاں Utilitarianism بینتھم (Bentham) اور جان اسٹوِٹ مل (John Stwat Mill) تھے اور دورِ حاضر میں Utilitarianism کے نمایاں ترین مفکرین Hare اور Harsuny ہیں۔

نظریۂ Utilitarianism کے مطابق انفرادی اور اجتماعی زندگی کا مقصد لذت (Pleasure) کومستقلاً انتہائی فروغ دینا (یعنی Maximize کرنا) ہونا چاہیے۔ لذتِ نفس خواہشات کی تسکین سے حاصل ہوتی ہے اور نفس کی تسکین کا واحد ذریعہ” صرف” یعنی Consumption ہے لہٰذا معاشی اور معاشرتی پالیسی کا واحد معقول حدف مجموعی معاشرتی صرف کو لامتناہی اور مستقل  بڑھانا(Maximization )ہے۔ صرف (Consumption)میں اضافہ کو ناپنے کے لیے علم Economics نے جو پیمانہ وضع کیا ہے اس کو Gross National Production) (GNP اور Gross National Expenditure  کہتے ہیں۔ عملاً ترقی / Progress سے مراد GNP یعنی مجموعی معاشرتی صرف میں اضافہ کے علاوہ کچھ نہیں۔

Economics کی وہ شاخ جسے Welfare Economicsکہتے ہیں اصرار کرتی ہے کہ ترقی کو ناپنے کے لیے GNP کی معاشرتی تقسیم (Social Distribution) کو بھی ملحوظِ خاطر رکھنا چاہیئے۔ ترقی کو ناپنے کے لیے محض مجموعی معاشرتی لذت (GNP) میں لامتناہی( Maximum ) اضافہ کافی نہیں۔ بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ GNP  کی تقسیم ایسی ہو کہ تمام افراد اور گروہ لذات کے اضافہ سے مستفیذ ہوتے رہیں یہی سرمایہ دارانہ عدل ہے اور اس کی سب سے واضح تشریح جان رالز (John Rawls) نے اپنے مشہور Principle ” “Differenceمیں کی ہے۔ اور ایک فی زمانہ مشہور عالم تشریح Amartya Sen کی کتاب Development as Freedom  میں ملتی ہے۔

واضح ہو کہ ترقی (Progress) سے مراد حصولِ لذات کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ لذات کے حصول کا ذریعہ سرمایہ (Capital) ہے۔ لہٰذا ترقی (Progress) کا حصول سرمایہ کی بڑھوتری Accumulation of Capital کے ذریعہ ہی ہوتا ہے، جب کوئی معاشرہ Progress کی جستجو کرتا ہے تو وہ لازماً ایک سرمایہ دارانہ انفرادیت اور ایک سرمایہ دارانہ نظمِ ریاست کو فروغ دیتا ہے۔

یہ بات ہم دورِ حاضر کی تاریخ کے مطالعہ سے اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں، جب سرمایہ دارانہ استعمار یورپ، امریکا، ایشیا اور افریقہ پر غالب آیا تو ان ممالک میں سرمایہ دارانہ انفرادیت کا وجود تھا نہ سرمایہ دارانہ معاشرت کا اور نہ سرمایہ دارانہ نظامِ اقتدار کا۔ سرمایہ دارانہ اشرافیہ نے سرمایہ دارانہ علمیت (Science) کے ذریعہ ان غیر سرمایہ دارانہ شخصیتوں، معاشرتوں اور ریاستوں کو مسخر کیا اور اس سیاسی اور عسکری غلبہ کے نتیجہ میں اپنے گماشتوں (سرسید احمد، ضیاگوقلب، محمد عبدہ وغیرہ) کے ذریعہ سرمایہ دارانہ عقائد اور نظریات کی وسیع پیمانے پر تبلیغ کی اور رفتہ رفتہ یہ عقائد اور نظریات مفتوح علاقوں میں عمومی سطح پر معقول سمجھے جانے لگے۔

سرمایہ دارانہ علوم کو معقول تصور کیے جانے کی سب سے بڑی وجہ سرمایہ دارانہ اشرافیہ کا عسکری غلبہ تھا اور چوں کہ یہ غلبہ Science کی مرہون منت تھا لہٰذا یہ تصور کیا جانے لگا کہ ہماری ”سائنسی پسماندگی” ہماری شکست کا باعث ہے۔اس بات کو فراموش کردیا گیا کہScience کن اہداف کے حصول میں کامیاب ہوتی ہے۔ وہ کامیاب ہوتی ہے لذات کے لامتناہی فروغ (Maximization) کے ہدف کے حصول میں، وہ کامیاب ہوتی ہے انسان کو Human being بنانے میں اور جیسا کہ ١٨ ویں صدی کے ایک جرمن پادری Helmit Forstner نے کہا تھا Human Being شیطانی انفرادیت کا دوسرا نام ہے۔ Science انسان کو شیطان بنانے میں کامیاب ہوتی ہے۔ کیا اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا چاہیے کہ اب شیطان بننا مقاصدِ شریعت میں شامل کردینا چاہیے۔ یہ ایسا ہی ہے کہ جیسے کسی کامیاب زانی کے کارناموں سے متاثر ہو کر زنا کو مشرف بہ اسلام کریں۔

سرمایہ داری ہم پر اس لیئے غالب نہیں آئی کہ ہم تسخیرِ کائنات کے عمل میں اس کے کارندوں سے پیچھے رہ گئے وہ اس لیئے غالب آئی کہ ہم لوگوں کو سرمایہ دارانہ عقائد اور نظریات اختیار کرنے سے نہ روک سکے۔ ہم نے ایک ہزار سال تک یورپ، افریقا اور ایشیا کے وسیع علاقوں پر حکومت کی لیکن نہ ہم یورپ کو مسلمان بناسکے نہ ہندوستان کو نہ چین کو اگر ہم اس میں کامیاب ہوجاتے تو سائنسی علمیت (جو بقول مولانا مودودی جاہلیتِ خالصہ ہے) کبھی بھی غالب نہ آتی اور تسخیرِ کائنات اور نفسانی خواہشات کے لامتناہی فروغ کو تہذیبی مقبولیتِ عام کبھی بھی نصیب نہ ہوتی۔

ہمیشہ کی طرح آج بھی اسلامی جدوجہد کا مقصد انسان کو مسلمان بنانا ہے لیکن سرمایہ داری کے گماشتے انسان کو شیطان (Human Being) بنانے کے لیے برسرِکار ہیں۔ سرمایہ داری کے یہ گماشتے عموماً مسلم قوم پرست ہیں۔

 

 تصورِ ترقی کی اسلام کاری:

ترقی کی اسلام کاری کا عمل انیسویں صدی میں شروع ہوا اور اس کو مسلم قوم پرست استعمار مخالف قومی تحریکوں نے اپنایا۔ یہ جماعتیں مثلاً مسلم لیگ خالصتاً سیکولر مذہب دشمن جماعتیں تھیں لیکن انہوں نے اسلامی استعارے ( Symbols) اور نعرے اختیارکئے اور مسلمانوں کو ایک قوم بنادیا۔ اس ”مسلم قوم” کا مفاد دوسری تمام سرمایہ دارانہ اقوام کی طرح لذات کا لامتناہی فروغ (Maximization) ہی تھا۔ انہوں نے اسلامی علمیت( بالخصوص کلام) کو لغو اور ناقابلِ عمل گردانا اور دعوی کیا کہ Science مسلمانوں کی ایجاد ہے۔ مسلم قوم پرست، معتزلہ دہریوںکے پیروکار ہیں۔ انہوں نے لبرل جمہوریتوں کو اپنے ماڈل (Model) کے طور پر قبول کیا اور جب انہیں اقتدار حاصل ہوا تو انہوں نے خالص سرمایہ دارانہ نظامِ اقتدار قائم کیا۔ ان کی ”اسلامی جمہوریتوں میں” نہ شریعتِ مطہرہ کے لیے کچھ گنجائش تھی نہ اسلامی علمیت اور روحانیت کے فروغ کے لیے۔ ان کا مقصد ترقی(Taraqi/Progress) کی جستجو کے ذریعہ مسلمان کو سرمایہ دار بنانا تھا۔ سرمایہ دار کو مسلمان بنانے کو یہ ایک نامعقول عمل گردانتے ہیں۔

ترقی(Taraqi/Progress) کی اسلام کاری کی دوسری کاوش اسلامی Revisionist نے کی۔ اسلامی Revisionist وہ مفکرین ہیں جو نظام زندگی کی کلیت سے سہو نظر کرکے اس نظام زندگی کے انفرادی اعمال کا اسلامی جواز پیش کرتے ہیں۔ اس کی ایک اہم مثال مولانا تقی عثمانی کی کتاب ”اسلام اور جدید معیشت و تجارت” ہے۔ اس کتاب میں مولانا تقی عثمانی نے اس بات سے انکار کیا کہ اسلام ایک نظام زندگی ہے اور اسٹاک ایکس چینج، کارپوریشن اور سرمایہ دارانہ تعینِ قیمت کے عمل کا اسلامی جواز پیش کیا۔ اس ہی فکر کی بنیاد پر اسلامی بینکاری فروغ پارہی ہے، جو سرمایہ دارانہ سود اور سٹہ کے مارکیٹوں Money and Capital Markets کا جزوِلاینفک ہے اور جس کے ذریعہ اسلامی دنیا سے ہر سال اربوں ڈالر نیو یارک ،لندن اورذیورخ منتقل ہوتے ہیں اور جس اسلامی بینکاری کو جید ترین دیو بندی علماء نے حرام قرار دیا ہے۔

اسلامی جمہوری جماعتیں بھی ترقی کی اسلام کاری کے عمل میں شامل ہیں۔یہ جماعتیں ،اسلامی بینکار اوراسلامی اکنامسٹ (Ecoonomists) دعویٰ کرتے ہیں کہ احکامِ شریعت کی پابندی ترقی(Taraqi/Progress) کا بہترین ذریعہ ہے اور اگر اسلامی تعلیمات پر عمل کیا جائے تو معیارِ زندگی میں مستقل لامتناہی اضافہ(Maximisation of Welfare) لازماً ناگزیر ہوجائے گا۔ جماعت اسلامی پاکستان کا 2013ء کا انتخابی منشور اس نوعیت کے دعوئوں سے بھرا پڑا ہے۔ اس دستور کے مطابق اگر جماعتِ اسلامی کو اقتدار حاصل ہوا تو وہ عوام کو وہ تمام ہیومن (Human) اور سوشل (Social) حقوق فراہم کرے گی جو سرمایہ دارانہ ویلفیئر (Welfare) ریاستوںمیں میسرہیں۔ وہ آزادی، مساوات اور ترقی کو فروغ دے گی اور یہی اسلام کا تقاضہ ہے۔ جماعتِ اسلامی سرمایہ دارانہ نظام کی بہترین خدمت کرسکتی ہے اور کیوں نہ ہو ماضیٔ قریب میں IMF نے جناب سراج الحق اور جنرل مشرف نے جناب نعمت اللہ خان کے سرمایہ دارانہ نظام کے بہترین منتظمین ہونے کا بارہا اقرار کیا ہے۔یہ اس جماعت کا انتخابی منشور ہے جو اسلامی انقلاب برپا کرنے کی دعوے دار ہے۔

آپ ہی اپنی ادائوں پہ ذرا غور کریں

اور طرفہ تماشا یہ کہ یہ منشور ایک ایسے زمانہ میں پیش کیا جارہا ہے جب سرمایہ داری کے چوٹی کے مفکرین Saloaj Zizek، Alain Badiou، Jacques Derrida وغیرہ برملا ترقی کو ایک ناقابلِ حصول ہدف قرار دے رہے ہیں اور اس بات کا اقرار کررہے ہیں کہ جو عالمی ماحولیاتی اور مالیاتی بحران سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کو تہس نہس کررہا ہے اس کی بنیادی وجہ لذت پرستی کا لامتناہی فروغ ہی ہے اور سرمایہ دارانہ نظام خود اس ”ہل مم مزید” کی مجنونانہ جستجو کو روکنے کی کوئی اہلیت نہیں رکھتا۔

ہم ایک ایسے دور میں رہ رہے ہیں جب سرمایہ دارانہ نظریات اور سرمایہ دارانہ اعتقادات کی فطری نامعقولیت دو اور دو چار کی طرح واضح ہوچکی ہے۔ آج مسلم قوم پرستی، اسلامی بینکاری اور حقوق کی سیاست کو فروغ دینا ایک احمقانہ حکمتِ عملی ہے۔ ہم انیسویں صدی میں نہیں اکیسویں صدی میں رہ رہے ہیں اور اس صدی میں سرمایہ دارانہ نظام برق رفتاری سے اپنی تباہی کی طرف رواں دواں ہے۔ ہمیں آج ادائیگی ٔفرائض کی طرف دعوت دینا چاہئیے۔ حصولِ حقوق کی طرف نہیں، اسلامی تحاریک کا ہدف عوام اور خواص کی خواہشات اور میلانات کی تبدیلی ہے لوگوں کی خواہشاتِ نفسانی کی تگ و دو کو جواز فراہم کرنا اور اس کو آسان بنانا نہیں۔

اسلامی انقلابی جدوجہد حریص و حاسد شخصیت ،شہوت اور غضب سے مغلوب معاشرت اور لذات کو مہمیز دینے والے نظام اقتدار یعنی Welfare State کے قیام اور استحکام کی جدوجہد نہیں۔ ہم عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی مکمل اور حتمی (Final) انہدام کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔ سرمایہ دارانہ عقائد، آزادی، مساوات اور ترقی اور سرمایہ دارانہ نظریات، لبرل ازم، سوشلزم، قوم پرستی، سوشل ڈیموکریسی کو بالکل رد کرکے اسلامی شخصیت معاشرت اور ریاست کے غلبہ کے لیے برسرِ پیکار ہیں۔

کیا نصوص صحیحہ میں خواہشات نفسانی کو فروغ (Maximise) دینے کی کوئی ترغیب ملتی ہے۔ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور شیخین نے ہمیشہ فقر کو غنا پر ترجیح نہ دی۔ کیا پیداوار کو بڑھانے کان کنی کو فروغ دینے بچتوں کو بڑھانے، سڑکوں اور عمارات کی تعمیر کرنے کے حق میں ہمیں کوئی احادیث ملتی ہیں اور اگر نہیں تو  اس کی وجہ یہ ہے کہ خواہشات نفسانی کو فروغ دینا، اپنے حقوق طلب کرنا، تسخیر کائنات کی جستجو میں لگے رہنا مکروہ اعمال ہیں۔ آج اسلامی جماعتیں ان احداف کو فروغ دے کر صرف سرمایہ دارانہ آدرشوںسے اپنی مرعوبیت کا اظہار کرتی ہیں۔ ان کے پاس عوام اور خواص کی خواہشات کو تبدیل کرنے کا کوئی ایجنڈا نہیں، وہ ایک شریعت پابند (Shariah Constrained) سرمایہ دارانہ نظام قائم کرنا چاہتی ہیں۔ یہ ایک نامعقول اور لغو سعی ہے اور وہ اس میں ان شاء اللہ ضرور ناکام ہوںگی۔