کانٹImmanuel Kant(١٨٠٤ ۔ ١٧١٤)اپنی سیاسی فکرمیںلاک اورروسو سے متاثرتھاوہ تجربیت (Empiricism)کامخالف تھا اوراس نے لبرل سرمایہ دارانہ سیاست کی معروضی (Abstract)اخلاقی فلسفیانہ بینادیںفراہم کیںجن کوبعدمیںDeontologicalآدرش کہاگیاہے ۔کانٹ کانظریہ ریاست (Reichkstat)اس کے تصورقانون اورتصوردائمی امن (Eternal peace)پرمبنی ہے ۔

                کانٹ کے تصورریاست کوReichkstatکہتے ہیں،ریخ اسٹیٹ وہ نظام اقتدارہے جس کی بنیاد قانون (Law)پرمبنی ہو۔ریخ اسٹیٹ (Reichkstat)قانون کے ذریعے امن (Peace)قائم کرتی ہے اوربرقراررکھتی ہے ۔قیام اوراستحکام امن قومی اوربین الاقوامی سطح پرریخ اسٹیٹ(Reichkstat)کااصل وظیفہ ہے ۔اس امن کی بنیادپرقانون (Law)اوریہ قانون عقلیت (Reason)کی بنیادپروضع کیاجاتاہے انسانی فطرت اورتاریخ انسانی بقول کانٹ کاتقاضاہے کہ ریخ اسٹیٹ (Reichkstat)قائم کی جائے تاکہ عقلی (Rational)بنیادوںپرآزادی (Freedom)کی جستجو یونیورسلائز ایبل (Universalizable)(اس تصورکی تشریح ہم بعدمیںپیش کریںگے)ہوسکے اورامن قائم رہ سکے ۔

                کانٹ کے نظریہ کے مطابق فطرت انسانی آزادی اور اٹانومی(Autonomy)کی متقاضی ہے ،جب کہ قوانین فطرت انسان پرجبراًمسلط کرتے ہیںلہٰذافطرت انسانی اورکائناتی نظام (Physical nature)میںتضادہے ،  ظاہری اشیاء کوکانٹ فنومینا(Phenomenon)کہتاہے اوراس کے خیال میںان ظاہری اشیاء اور کیفیات کوہم سائنس(Science)کے ذریعے جان سکتے ہیں،اس کے برعکس اشیاء کی حقیقت کووہ نومینون (Neomenon) کہتاہے اوران کوتیقن کے ساتھ لیکن مورالٹی (Morality)ان نومینونNeomenon))کاکچھ نہ کچھ شعورحاصل کرنے کی طرف رہنمائی کرتی ہے ۔عقل (Reason)کے ذریعے نومینون (Neomenon)کی  لا علمی کے با وجود انسان آزادی حاصل کرتاہے اور آزادی تسخیرکائنات کے ذریعے ہی حاصل کی جاتی ہے ۔

                اس آزادی کوکانٹ اٹانومی (Autonomy)کہتاہے ایک اٹانومسٹ (Autonomist)انسان ان معنوںمیںآزاداورخودمختاراورخودتخلیقی ہے کہ وہ اپناتصورخیراورشرضابطہ اخلاق اورتصورحیات وکائنات خودمتعین کرتاہے وہ کسی خارجی قوت مثلاخدا،فطرت یاتاریخ پرانحصارنہیںکرتابلکہ وہ ایک خودمختارقانون ساز(Legislator)ہے۔وہ اشیاء کائنات (Phenomenon)کوان کی حقیقت ودیعت کرتاہے وہ صرف ان قوانین کی اطاعت کاقائل ہے جواس نے خوداپنی مرضی سے تخلیق کئے ہیںاوریہ قوانین مقدس اس لئے ہیںکہ ان قوانین کونوع انسانی کے ہرفردپر اس طرح لاگوکیاجاسکتاہے کہ اس کی اٹانومی (Autonomy)فروغ پائے ۔کانٹ کے مطابق کسی قانون کے جائز ہونے کے لئے ضروری ہے کہ

                ٠  وہ قانون کسی اٹانومسٹ(Autonomous)فردنے بغیرکسی بیرونی (خدا،فطرت ،تاریخ)پرانحصارکے اپنی اورعقل کی بنیادپرخودتخلیق کئے ہیں۔

                ٠یہ قانون ان معنوں میں یونیورسلائزایبل(Universalizable)ہوکے اس کااطلاق بنی نوع انسان کے ہرفردپراس طرح ممکن ہوکہ اس اطلاق کے نتیجے میںہرفرد کی اٹانومی(Autonomy)فروغ پائے ۔یہ قانون انسانوںکے درمیان تفریق نہیںکرتاوہ ان معنوںمیںغیرجانبدار(Impartial)ہے کہ اس کے اطلاق کے نتیجے میںہرانسان کی اٹانومی(خودمختاریت اورخودتخلیقیت)فروغ پاتی ہے ۔(ہم آگے چل کرثابت کریںگے کہ یہ خودتخلیقی یونیورسلائزایبلUnivresalisable) (قانون ،قانون سرمایہ داری(Law of capital)ہے ،اورکانٹ Rule of lawسے Rule of capitalہی مراد لیتاہے ) اس یونیورسلائزایبل(Universalizable)قانون کوکانٹ مارل لاء (Moral law)کہتاہے اوریہ مارل لاء آزادی کی یونیورسلائزایبلٹی(Univresalizablity)کی تشریح ہے یہی وجہ ہے کہ کانٹ کی اخلاقی (Moral)فکرکوراز(Raz)نے Morality of freedomکہاہے ،انسان (جس کوبعدمیںچل کرہیومن بینگ(Human being)کہاجائے گا۔(کانٹ یہ اصطلاح استعمال نہیںکرتا)اصولاًپابندتوصرف اس قانون آزادی (Moral law)کاہے جواس نے خودتخلیق کیالیکن قوانین فطرت نے اس کوعملامجبورکررکھاہے کہ اپنی خواہشات کی تکمیل لازماً فطری قوانین ( Natural laws)کے ماتحت کرے لہٰذادائرہ کارآزادی (Reailm of freedom)اوردائرہ کارضرورت (Reailm of neccesity)میںتضاداورتصادم موجودہے اورانسانی جدوجہددائرہ کارضرورت سے دائرہ کارآزدی کی مراجعت کی جستجوہے ،ضرورت کوآزادی کابتدریج تابع کرکے انسان نیک عمل(Virtue)(یعنی وہ عمل جوآزادی کوفروغ دے )کوحصول لذات (Happiness)کاذریعہ بنا سکتے ہیں(کانٹ اورہیوم کے تصور(Happiness)میںفرق ہیںRealm of happinessحصول لذات کی جدوجہدکے علاوہ اورکچھ نہیں)۔فطرت  (Nature,realm of neccesity)کوفروغ آزادی کاذریعہ بناناممکن بھی ہے اورناگریزبھی ۔

                کانٹ کے مطابق سیاسی عمل جدوجہدحصول لذات کو جدوجہدارادی میںسموناہے ۔یہ اس وقت ممکن ہے جب سیاسی نظام رائٹ آف مین(Right of man)کے تفوق کااظہارہو۔رائٹ آف مین ،ہیومن رائٹ ہی ہیںاوراٹانومی(Autonomy)کوسیاسی شکل دیناان کااصل وظیفہ ہے ۔

                ہیومن رائٹ کی تقدیم کی بنیادپرایک ایساسیاسی نظام تشکیل کیاجاسکتاہے جہاںحصول لذات کی جدوجہدکواس بنیادپرجوازفراہم کیاجاسکے کہ یہجدوجہدیونیورسلائزایبل  (Universalizable) ہویہی سرمایہ دارانہ نظام زندگی ہے جہاںعمومی لذات (GNP,gross national product)کواس طرح بڑھانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ مجموعی لذات کے اضافے کے نتیجے میںمعاشرے کاہرفرداپنی خواہشات کی تکمیل کازیادہ مکلف ہوجائے (یہ بات تفصیل سے رالز(Rawls)کے اپنے Diffrernce princpleکے ذریعے واضح کی ۔اس کاتجزیہ بعدمیںپیش کیاجائے گا۔)

                کانٹ اس بات پراصرارکرتاہے کہ حصول لذات کی جدوجہدہی فروغ آزادی کاذریعہ بن سکتی ہے ،گویاامن عامہ (Perpetual peace)آزادی کے فروغ کی جدوجہد کامنطقی تقاضا ہے لیکن لاک کے اثرکے تحت کانٹ تسلیم کرتاہے کہ امن کافروغ تحفظ جان اورپراپرٹی(Property)کی جستجوکے نتیجے میں ہی ممکن ہوتاہے اس طرح سول سوسائٹی (Civil socity)کاقیام جہاںہیومن رائٹس کی تقدیم تسلیم کی جاتی ہے بقول کانٹ تاریخی طورپراس لئے قائم ہوتی ہے کہ سول سوسائٹی میںحصول لذات سہل ثابت ہوئے ،لہٰذاکانٹ کے مطابق سول سوسائٹی ایسے           پربھی قائم کرسکتے ہیںجوذہین(Intelligent)ہوں ۔سول سوسائٹی کااصل مقصدلذات کافروغ اورپراپرٹی کاتحفظ ہوتاہے ۔

رائٹس آف مین یعنی ہیومن رائٹس

                کانٹ کے مطابق بنیادی ہیومن رائٹ حق خودتخلیقیت (Right of self determenation) ہے۔ہرفرد کویہ تسلیم کرناچاہئے کہ وہ کسی ایسے قانون کوجائز نہیںگردانے گاجس کواس نے بلااکراہ خودتخلیق نہ کیاہو۔جب فرداس عقیدے کوقبول کرلیتاہے تووہ بالغ (Mature)اورروشن خیال (Enlightened)ہوجاتاہے ۔

                 بالغ (Mature)اورروشن خیال (Enlightened) فرداس بات پرایمان لاتاہے کہ تمام افرادکی اخلاقی قدر(Moral worth)یکساںہے اسی لئے ہیومن رائٹس سب کی مشترکہ پراپرٹی ہے یہ کہ تمام افرادخودتخلیقیت کے یکساںحقدارہیںعقلیت لازمی مفروضہ (presupposition)ہے ۔تعقل(Reason)یاتفہیم(Understanding)سے ثابت نہیںبلکہ اس عقیدے کوقبول کئے بغیرعقلیت اورتفہیم ممکن نہیں۔ (بقول کانٹ جس طرحOriginal Cauese کولازم ہونامفروض (Presupoce)کے بغیرمادی(Effect)کونہیںسمجھاجاسکتااورسائنسی علم ناممکن ہوجاتاہے۔)مادی دنیاکی تفہیم اسی وقت ممکن ہے جب ایک  روشن خیال (Enlightened)فرداپنے ذہن میںمضمراے پرادری(A prior)مفروضات کی بنیاد پران اطلاعات کوتصوراتی  (Concepts)  شکل میںڈھالے جوتجربہ(Experience)فردکے ذہن کوفراہم کرتی ہیںخودانحصاریت (Self determination)ایک درست نظریہ ہے اس لئے نہیںکہ یہ عقل سے ثابت ہے بلکہ یہ تسخیرکائنات کوممکن بناکرنوعی آزادی کوفروغ دیتاہے ۔خداکومسبب الاسباب سمجھناایک غلط نظریہ ہے اس لئے نہیںکہ یہ عقل کے خلاف ہے بلکہ اس لئے کہ یہ نوع کی آزادی اوراس کی خودتخلیقیت کی راہ میںرکاوٹ ہے ۔تسخیرکائنات یعنی (سرمایہ داری )کی جدوجہد فروغ شعورخودتخلیقیت ہی کی جدوجہد ہے چونکہ اسلامی تاریخ میںلبرل سرمایہ داری کے ظہورسے قبل خودتخلیقیت کی سیاسی جدوجہدکبھی نہ کی گئی لہٰذاہیومن رائٹس کے بقاء اوراستحکام کے لئے تاریخ سے کوئی سبق نہیںلیاجاسکتالبرل سرمایہ داری سے پہلے کی تاریخ ظلمت کی تاریخ (Dark ages)ہے آزادی کے خواہاںافراد اس سے کچھ نہیںسیکھ سکتے ،ہیومن رائٹس کامآخذتاریخ انسانی یامسودہ مقدس(کانٹ کی مراد بائبل سے ہے )نہیںبلکہ انلائٹنڈہیومن بینگ(Enlightend human being)کاوجدان ،میلانات اورجبلی مفروضات (Rational presupposition)ہیںجواس تسخیرکائنات (سرمایہ داری )کے لئے عقل اورتجربہ سے کام لیناسکھاتی ہیں۔روشن خیال    (Enlightened)    ہیومن بینگ کے عمل اورفکرکی واحدتحدیدنوعی آزادی فراہم کرتی ہے ۔خدا،رسول،امام،مرشد،استاد،ماں،باپ کسی کوحق نہیںپہنچتاکہ وہ  بالغ روشن خیال  (Enlightened)   ہیومن بینگ کے فکریاعمل کاتعین کریںکیونکہ تسخیرکائنات یعنی فروغ لذات کے ذریعے ہی آزادی میسرآتی ہے لہٰذاروشن خیال  (Enlightened)   ہیومن بینگ کے فکروعمل کاتعین صرف شیطان (یعنی نفس امارہ )کوتفویض کیاگیاہے ۔

                عقل نفس (Will)کی مطیع ہے کیونکہ بقول کانٹ نفس خیرہے ۔نفس(Will)خیر (Good)خواہ اس کامقصدخیرکاحصول ہویانہ ہو۔نفس قانون کی مکمل تابعداری اس وقت قبول کرتاہے جب قانون (Law of capital)نفس کے ارادوں کاغمازاوراس کاتعمیرشدہ ہو۔قانون(Law of capital)  روشن خیال  (Enlightened)   ہیومن بینگ کے will کا عکس ہوتا ہے۔ اس کی اطاعت قانون نفس (یعنی شیطان)ہی کی اطاعت ہے۔

                کانٹ ہر ہیومن بینگ کی مساوی  ڈگنیٹی (Dignity) کا قائل ہے کیونکہ اس کی رائے میں”ہیومینیٹی (یعنی شطینت بقول فاسٹر)خودڈگنیٹی(شرف)ہے یہ صرف انسان اس وقت کھوتاہے جب وہ اپنے آپ کو (یاکسی اورانسان کو)غیرکے ارادے کے تابع کرتاہے ۔اپنے نفس کا بندہ مشرف ہے،عبداللہ ہیومن بینگ نہیں۔کسی انسان کویہ حق حاصل نہیںکہ وہ حصول رضائے الٰہی کے لئے اپنی زندگی وقف کردے یہ ہیومن رائٹس کے متضادہے۔ایسا انسان Autonomousنہیں Hetronomousہوتا ہے، اور یہ ہیومینیٹی کی تذلیل ہے۔

                ہرفرداپنے نفس کابندہ بننے ،ہیومن بینگ بننے کی صلاحیت رکھتاہے ۔یہی وہ چیزہے جواس کوجانوروںممیزکرتی ہے ۔ہیومن رائٹس کی تعظیم اورعمومی فراہمی کے نتیجے میںتمام انسان اٹونومس بن جائیںگے اوریہ اپنی عقلیت کواپنی نفسانیت کے تابع کردیںگے ۔لہٰذاسرمایہ دارانہ سیاسی نظام میںتمام انسانوںکوخواہ وہ ہیومن بینگ ہوںیانہ ہوں،مساوانہ قدرکاحامل تصورکیاجاتاہے اورہیومن رائٹس سب کوفراہم کئے جاتے ہیں۔

                نفس خیرمطلق(Good)صرف اس لئے ہے کہ وہ صرف اپنی تابعداری کااس انداز میںقائل ہے کہ اس کے احکامات قانون کے ذریعے یونیورسلائزایبل (Universalizable)ہو ں۔فرض عین (Duty)ایسے قانون کی تکریم (Respect)ہے جونفس کے یونیورسلائزایبل احکامات کاغمازہوں(اس نقطے کی وضاحت کے لئے کانٹ ایک مثال دیتاہے ،وہ پوچھتاہے کہ مجھ کوایک ایساقرض واپس کرنے کاوعدہ کرناچاہئے جومیںجانتاہوںمیںواپس نہیںکرسکوںگا؟مجھے یہ نہیںکرناچاہئے کیونکہ اگرسب لوگ ایسے قرض واپس کرنے کاوعدہ کریںجووہ جانتے ہیںکہ وہ کبھی واپس نہیںکرسکتے توقرضوںکاپورانظام بیٹھ جائے گااورپراپرٹی ختم ہوجائے گی۔چونکہ یہ فعل یونیورسلائزایبل  نہیں  لہٰذانفس کی اتباع اس سے اجتناب کرنے میںہے ۔اس کے کرنے میںنہیں۔)نفس کا”حکم مطلق(Categorical imperative)یہ ہے کہ ان فیصلوںکے مطابق عمل کیاجائے جویونیورسلائزایبل ہوں۔یہ Categorical imperativeوہ واحدفرض عین ہے جس کوکانٹ قبول کرتاہے اوراسی بنیادپرسرمایہ دارانہ نظام زندگی کی تصدیق کی جاتی ہے چونکہ نفس کی خواہشات کے حصول کے جدوجہد کوسرمایہ کے ذریعے ہی یونیورسلائز کیاجاسکتاہے ۔سرمایہ کی بڑھوتری سے تمام انسان مستفید مستقلاًہوسکتے ہیںکیونکہ جب سرمایہ ،سرمایہ دارانہ زر(Capitalist money)(اس تصورکی تشریح صفحہ     میںپیش کی گئی ہے ) سرمایہ کی شکل اختیارکرلیتاہے تواس کی بڑھوتری کی کوئی حدنہیںرہتی لیکن اس حکم مطلق (Categorical imperative)   کی بنیادپرسرمایہ کی بڑھوتری کے وہ طریقے استعمال نہیںکئے جاسکتے جویونیورسلائز ایبل نہ ہوں۔

 Categorical imperative کاتقاضہ ہے کہ ہرفردکے نفس کے احکام کی تکریم کی جائے اوراس کایہ حق تسلیم کیاجائے کہ وہ اپنے نفس کے یونیورسلائزایبل احکام کی اتباع کرے ۔ہرفرد  ”End in himself”ہے ان معنوںمیںکہ اس کی یونیورسلائزایبل خواہشات نفسانی کاحصول سب کامقصد(End)ہے کسی مقصدکے حصول کاذریعہ (Means)نہیں۔چونکہ بڑھوتری سرمایہ وہ واحدعملی (Practical)ذریعہ ہے جوہرفردکی خواہشات کی یونیورسلائزایبل تکمیل کوممکن بناتاہے لہٰذاعملیe    Practical Categorical imperativeبڑھوتری سرمایہ کے عمل میںمہمیزدینے کی علاوہ کچھ اورنہیںیہی ہیومن رائٹس (Right of man)کی بنیاد ہے (کانٹ صراحت سے نہیںکہتاکہ بڑھوتری سرمایہ یونیورسلائزایبل خواہشات نفسانی کے حصول کاواحدذریعہ ہے لیکن تاریخ نے ثابت کردیاہے کہ بڑھوتری سرمایہ کی جستجوکے علاوہ کسی اورذریعہ سے خواہشات نفسانی کی لامتناہی اورمستقل تکمیل ممکن نہیں۔)اوراس ہی فرض عین کی ادائیگی Categorical imperativeکی ادائیگی تحفظ اورفروغ آزادی (Liberty)اورپراپرٹی کی ضمانت فراہم کرتاہے ۔

                خودمختاراورخودتخلیقی نفوس ایک ”سلطلنت مقاصد”(Kingdom of ends)تعمیرکرتے ہیںجس میںتمام افراد فرض عین (Categorical imperative)کے مطیع ہوتے ہیںاورایسے قوانین وضع کرتے ہیںجواس فرض عین (Categorical imperative) کی ادائیگی کے لئے معقول (Rational)ضروری (Necessary)اورجامع (Sufficient)ہوں۔”سلطنت مقاصد(Kingdom of ends)ایک ایسی ری پبلک(Republic) ہے جہاںہرسٹیزن(Citizen)راعی بھی ہے اوررعایا  بھی ،وہ خواہشات نفسانی کی یونیورسلائزایبل کی تکمیل کے لئے قانون سازی کرتاہے اوران قوانین کی اتباع کواپنافرض عین( Categorical imperative) گرادنتاہے ۔اس ری پبلک میںجوقانون نافذہوتے ہیںوہ لازماًLaw of capitalان معنوں میںہوتے ہیںکہ بڑھوتری سرمایہ کی مستقل جدوجہد وہ واحد عملی طریقہ ہے جس کے ذریعے یونیورسلائزایبل خواہشات نفسانی کی تکمیل اورفروغ ممکن ہے تاریخ سے ثابت ہے کہ تکمیل اورفروغ خواہشات نفسانی کاکوئی اورعملی ذریعہ موجود نہیں(اس ضمن میںبعدکے صفحات میںزیادہ تفصیل سے گفتگوکریںگے)اس ری پبلک میںہرسٹیزن کاواحد باہمی (Reciprocal)فرض عین بڑھوتری سرمایہ کی یونیورسلائز ایبل مستقل جدوجہدہے ۔

                اس ری پبلک کاکلیدی تصورنیکی (Virtue)عدل (Justice)ہے ،ری پبلک میںعدل کے قیام کے لئے ہراٹونومسٹ خودمختار،اورخودتشکیلی فردکے لئے ضروری ہے کہ وہ ہردوسرے فرد کی خودمختاریت اورخودتشکیلیت کوتسلیم کرے اوریونیورسلائز ایبل قوانین کی اتباع کی بنیاد پراپنے ذاتی خواہشات نفسانی کی جدوجہدکومنظم اورمحدودکرے (واضح ہوکہ ہرنظام زندگی کااپناتصورعدل ہوتاہے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کامشہورقول ہے کہ ”کافرحکومت چل سکتی ہے ظالم حکومت نہیںچل سکتی ۔اس سے حضوررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مراد یہ ہے کہ جوحکومت خود اپنے تصورعدل پہ قائم نہ ہو وہ نہیںچل سکتی ،یہ نقطہ مجھے جناب زاہدصدیق مغل نے سمجھایاہے )۔یہاںکانٹ سرمایہ دارانہ تصورعدل پیش کررہاہے سرمایہ دارانہ ریاست میںسرمایہ دارانہ عدل قائم کرنے کی کو شش کی جاتی رہتی ہے ۔ظاہرہے کہ اسلامی تصورعدل  تحکیم احکام شریعت قائم نہیںکیاجاسکتاسرمایہ دارانہ عدل کی ایک اورتشریح Theory of marginal productivityہے جوانیسویںصدی میںپیش کی گئی)ری پبلک میںنفس کی کسی خواہش کی کواصل(Intrinsic)قدرتسلیم نہیںکیا جاتا کوئی عمل یاخواہش قدرنہیںرکھتا۔وہ Valueless  ہے اوران معموںمیںتمام اعمال اورخواہشات مساوی یعنی صفرقدرکے حامل ہیںلیکن وہ قدرمطلق کے حصول کاذریعہ بن سکتے ہیںخیرمطلق ری پبلک کے مجموعی سٹیزن کی خواہشات نفسانی کی یونیورسلائز ایبلکرکے انتہائی تسکین کے حصول کی جدوجہد ہے اسی جدوجہدکے نتیجے میںہرسٹیزن دوسرے سٹیزن کی اٹانومی کوباہمی تعاون (Receprocity)کی بنیادپرفروغ دیتاہے ۔عملاً(Practically)یہ صرف بڑھوتری سرمایہ کومہمیزدے کر ممکن ہے لہٰذاکانٹ کی سلطنت مقاصد(Kingdom of ends)کے قیام کامقصدبڑھوتری سرمایہ کے عمل کووسعت دیناہے اورتمام انفرادی اعمال کی قدربڑھوتری سرمایہ کے عمل میںاپناحصہ ڈال کرہی حاصل کرتے ہیںاوراس فرض عین کی ادائیگی میںمعاون ہیںیہ فرض عین ہرسٹیزن کے لئے لازم کرتاہے کہ

٠وہ اپنی ذاتی زندگی کوبڑھوتری سرمایہ کے لئے وقف کردے ۔

٠ہردوسرے سٹیزن کاحق تسلیم کرے کہ وہ بڑھوتری سرمایہ کی جدوجہد میںشامل ہو۔

٠کسی دوسرے کایہ حق تسلیم نہ کرے کہ وہ یونیورسلائزایبل بڑھوتری سرمایہ کی جدوجہدمیںرخنہ ڈال کرانسانی جان یاکسی اورمعاشرتی وسیلہ کوکسی اورمقصد کے لئے استعمال کرے ۔

٠تحفظ پراپرٹی (سرمایہ دارانہ ملکیت )کی فرضیت کوقبول کرے ۔

                یہ ریپبلک میںمقدم اوراعلیٰ ترین (Supreme)انفرادی فرائض (Legal duties)ہیںاورانہی سے ہیومن رائٹس برآمدہوتے ہیںاوران حقوق کومکمل تحفظ فراہم کئے بغیربڑھوتری سرمایہ کی جدوجہد کومنظم نہیںکیاجاسکتا ۔کانٹ کے مطابق حقوق صرف قانونی (Legal)ہوتے ہیںاخلاقی (Moral)نہیںہوتے ہیں۔وہ اخلاقیات جن کی عیسائیت تصدیق(وہ یونانی اخلاقیات جن کی تصدیق Scholastic               مباحث میںارسطوکے زیراثرملتی ہے )قانون کاجوازیااس کی بنیاد فراہم نہیںکرتے ,کیونکہ یہ قانون Law of capitalہے Law of God نہیںہے ،ریپبلک کے نمائندہ منتظم کافرض ہے کہ وہ یونیورسلائز ایبل خواہشات نفسانی کے حصول کے لئے قانون سازی کرے اگریہ قوانین عیسائی تصوراخلاق سے متصادم ہیںتویہ ان کی حکم عدولی جواز نہیںریپبلک کاسٹیزن ہرحال میںان قوانین پرعمل کرنے کاذمہ دارہے لیکن وہ اس نمائندہ اقتدارکی تبدیلی کے لئے قانون کے دائرے میںرہتے ہوئے جدوجہدکرسکتاہے ۔

پروگریس(Progress)

ٍ             کانٹ کے مطابق یونیورسلائز ایبل خواہشات کے تابع عقلیت (Rationality)کے فروغ کے نتیجے میںایک سرمایہ دارانہ قانونی ریاست (Lawful state)کاقیام اوراستحکام ہوتا ہے ،اس لیگل اسٹیٹ کاوجودایک خودمختارانفرادیت کے نمو کے لئے ضروری ہے ایک اٹونومسٹ سٹیزن کوپروگریس کے امکان پرایمان لاناچاہئے گوکہ کانٹ کے مطابق تاریخی عمل پروگریس کی ناگزیریت کوثابت نہیںکرتاایک اٹونومسٹ فردکوپروگریس کے مقاصد(یونیورسلائزایبل خواہشات نفسانی کی تسکین یا سرمایہ کے لامتناہی بڑھوتری)کے حصول کے لئے جدوجہدکرنی چاہئے بقول کانٹ فطرت انسانی اس نوعیت کی جدجہدمیںرکاوٹ نہیںڈالتی کیونکہ انفرادی لذات کے حصول کی جستجواوریونیورسلائزایبل خواہشات نفسانی کے حصول کی جدوجہد(جسے کانٹ Virtueکہتاہے )اس میںمتصادم نہیںنہ قوانین فطرت (Nature)ان دوجدوجہدوںکے ارتباط میںرخنہ اندازہیں۔فرض عین کی ادائیگی (یونیورسلائزایبل خواہشات نفسانی کوفروغ دینا)اورانفرادی اغراض کی جستجوکی جدوجہدہم آہنگ ہیں۔

                تاریخ انسانی سے غرض (Interest)ورفرض (Duty)کی یہ ہم آہنگی واضح ہوتی ہے۔انفرادی اغراض کی جدوجہدکے ذریعہ ہی یونیورسلائزایبل خواہشات نفسانی کامسلسل فروغ ہواہے اورمسلسل ہوتارہ سکتاہے کیونکہ کانٹ کے مطابق انسان بحیثیت نوع کے ابدی ہے۔آدم اسمتھ(Adam smith)نے اس ہی خیال کو Doctrine of the invisible hand   کے طور پرپیش کیاہے،اسمتھ کے مطابق  Doctrine of the invisible handقانون فطرت (Law of nature)سے ماخوذہے ۔فطرت خوداپنی تسخیر(End of nature) میںان معنوںمیںمعاون ہے کہ وہ انفرادی اغراض(Instant)کی جستجوحصول آزادی،بڑھوتری ،سرمایہ،یونیورسلائزایبل خواہشات نفسانی کے حصول کے فروغ کاذریعہ   (Medium)بناتی ہے۔کانٹ کے مطابق اجتماعی مفادات (Public benefit)انفرادی کمزوریوں سے ہی برآمدہوتے ہیں۔قانون سرمایہ کی ریاست (Legal state)کاقیام اوراستحکام انفرادی خودغرضیوں،شہوت رانی اورانفرادی حرص وحسدکے فروغ پرلازماًمنحصرہے ۔عقلیت ،خواہشات کی پرورش اور نمو  (Retainment) کے ذریعے ہی فروغ پاتی ہے ۔  عیاشی استحصال         (Exploitation)  اورتشدد (Violence) کے ذریعہ ہی سوشل کونٹریکٹ(Social contract)وجود میںآتاہے اورسول سوسائٹی قائم ہوتی ہے۔خواہشات (Appetites) کو  ہوادے کرہی فرداس تنظیم  (Discipline) کی ضرورت کوپہچان سکتاہے جس کے قیام کے بغیریونیورسلائزایبل خواہشات نفسانی کافروغ اورسرمایہ دارانہ قانونی ریاست  (Lawful state)کاوجودمیںآناناممکن ہے ۔سرمایہ دارانہ معاشرہ(Civil society)اورسرمایہ دارانہ ریاست (Legal state)عیاشی،اغراض،حرص،حسد،شہوات اوردیگرمنکرات کی تنظیم اورا ظہارکامعقول  (Rational)ذریعہ ہیں۔خودغرضی ،شہوت پرستی اورحسدفطرت انسانی کے ناقابل تسخیراساس ہیں سرمایہ دارانہ معاشرہ(Civil society)اورسرمایہ دارانہ ریاست (Law full state) انہی فطرتی قوتوںکواستعمال  (Instrumentalise) کر کے اپنے فرض عین (یونیورسلائزایبل خواہشات نفسانی کی تسکین کی مسلسل جدوجہدکی ادائیگی کوممکن بناتی ہیں۔سول سوسائٹی اورلافل میں اسٹیٹ یہ تمام اوصاف خبیثہ،شہوت رانی،حرص ،حسد،خودغرضی ایک منظم ) (Disciplined اندازمیںفروغ پاتی ہیں۔فرض عین کی ادائیگی کی جستجوایک ایسی تنظیم فراہم کرتی ہے جوانفرادی سفاکیت کواجتماعی اشتراک عمل میں ڈھال دیتی ہے اوراجتماعی خودغرضیاںاجتماعی انانیت میںسمودی جاتی ہیں۔

سرمایہ دارانہ قانونی ریاست (Legal state)

سرمایہ دارانہ قانون فرض عین کی ادائیگی کے ضابطے متعین کرتاہے ۔فرض عین یہ ہے کہ یونیورسلائزایبل خواہشات نفسانی کی تکمیل کی مسلسل جدوجہدکی جائے ۔سرمایہ دارانہ ریاست (Legal state)اسی قانون کی تنفیذکی تنظیم ہے ۔قانون صرف یہ جانچنے کاپیمانہ فراہم کرتاہے کہ سرمایہ دارانہ فرض عین (یونیورسلائزایبل خواہشات نفسانی کے فروغ کی جدوجہد)تسلسل سے اداہورہاہے اس کاکوئی اورمقصدنہیںاس فرض عین کی ادائیگی کے لئے جو وسیلہ ضروری ہے اس کورائٹ آف مین(Right of man)یاہیومن رائٹس کہتے ہیں۔بنیادی ہیومن رائٹ یہ ہے کہ ہرفردہروہ عمل کرسکنے کامجازہے جس کی ادائیگی سے کسی دوسرے کاحق نہ چھن جائے یامحدودہو،سرمایہ دارانہ قانون اس ہیومن رائٹ کے فروغ کے علاوہ کچھ نہیں۔سرمایہ دارانہ ریاست انفرادی آزادی کی ایسی تحدیدات کوممنوع قراردیتی ہے جس کے نتیجے میںاجتماعی آزادی کے فروغ میںرکاوٹ ہووہ صرف اس انفرادیت اورمعاشرت کوفروغ دیتی ہے جویونیورسلائزایبل خواہشات نفسانی کے نموکوبطورخیرمطلق اورعدل کے قبول کرتی ہوں۔لیگل اسٹیٹ سیکولر ان معنوںمیںہے کہ وہ ان تمام مذاہب عالم کی دشمن ہے جویونیورسلائزایبل خواہشات کے مسلسل اضافے کوتعین قدرکاپیما نہ نہیںمانتے (مثلااسلام ،عیسائیت،ہندومت وغیرہ)۔ریخ اسٹیٹ (Reichstuf)لازماًایک ریپبلک ہوگی اور اس ریاست کے وجودکاواحدمقصدلوگوںکی انفرادی آزادیوں(Liberties)میںاضافہ ہوگااورکچھ نہیں۔ اس کے قیام کے نتیجے میں

                ٠      افرادکوخوشی(Happiness)بھی میسرآئے گی کیونکہ خودارادیت کااحساس طمانیت کولازماًفروغ دیتاہے۔

                ٠      افرادکی اخلاقی ترقی کاباعث ہوگی کیونکہ قانون کی بالادستی (Rule of law of capital)کوقبول کرکے وہ اپنی ذاتی خواہشات نفسانی کے حصول کے لئے اجتماعی خواہشات نفسانی کے فروغ کی ناگزیریت کے قائل ہوجائیںگے ۔

                قانون(Law)حق (Right)کوپراپرٹی میںڈھالنے کاوسیلہ ہے اصولاًہرشے ریخ اسٹیٹ کے ہرشہرکے تصرف کے لئے موجودہے لیکن عملایہ ضروری ہے کہ حق ملکیت دوبنیادوںپرمحدودکیاجائے ۔

                ٠ایک یہ کہ ملکیت ہرفردکی انفرادی آزادیوںکاذریعہ بنے ۔

                ٠دوسرے یہ کہ انفرادی املاک کاایسااستعمال قانوناًممنوع ہوجس کے نتیجے میںانفرادی آزادی کافروغ اجتماعی آزادی کے فروغ میںرکاوٹ بنے۔

                 یہی سرمایہ دارانہ ملکیت ہے اوراس کے قیام اوراستحکام کے لئے ضروری ہے کہ حق کی ایسی تشریح  کی جائے کہ ان کی آزادی محدودہوجوحق (یعنی قانون)کی خلاف ورزی کرتے ہیںاوران کی آزادی بھی محدودکرے جن کوسول سوسائٹی میںشامل کیاجاناناممکن ہے ۔(مثلاریڈانڈین ،نوآبادیاتی ممالک کے باشندے،غلام وغیرہ)

                قانون کی تنفیذ(اوراس کے نتیجے میںانفرادی آزادیوںکی تحدید)کی ذمہ داری ایک ایسے نمائندہ اجتماعی نفس(Collective will)کے سپردکی جائے گی جوایک معاشرتی معاہدہ کے ذریعے وجودمیںلائی گئی ہے اس اجتماعی نفس کے احکامات کے نافذکردہ احکام کی تکمیل ہرانفرادی نفس کے احکام کی ہی تکمیل ہے چونکہ اجتماعی نفس ایک ایسے معاہدے کے ذریعے تشکیل پاتاہے جس میںتمام انفرادی نفوس برضاورغبت شامل ہوتے ہیںیہ اجتماعی نفس(جسے کانٹ Body of citizenکہتاہے )واحدالٰہ (Sovereign)ہے ۔ریخ اسٹیٹ (سرمایہ دارانہ قانونی ریاست)ہرفردکویہ آزادی دیتی ہے کہ ہرایسے قانون کی معقولیت سے انکارکردے جوباہمی رضا کی قائم ہونے والی اجتماعی نفس (Body of citizen)نے نہ بنایاہو اسی وجہ سے سرمایہ دارانہ قانونی ریاست مذہبی قوانین کولازماًردکرتی ہے اوران کے جوازکا انکاری ہے انہی معنوںمیںسرمایہ دارانہ ریاست لازماًسیکولرطرزحکومت ہوتی ہے کانٹ کے مطابق یہی واحد جائز (Legitimate)نظم ریاست وحکومت ہے ۔

                کانٹ مقننہ (Legislature)،انتظامیہ(Executive)اورعدلیہ(Judiciary)کے دائرہ کاراوراختیارات میںفرق کرتاہے ۔الٰہ (Sovereign)صرف مقننہ ہے ،مقننہ کی الوہیت(Sovereignity)ہی ایک بھیڑ(Mob)کوایک مہذب اجتماعیت (People)میںتبدیل کرتی ہے اوراگریہ الٰہ انفرادی آزادیوںکے بلااکراہ اشتراک سے تشکیل نہ دیاجائے توبھیڑمہذب اجتماعیت میںنہیںڈھلتی لہٰذاحصول رضا الٰہی کے لئے قائم کیاگیانظام (جیساکہ CromwellیاCalvinنے قائم کیاتھا)،جائز نہیں،نہ مطلق العنان بادشاہت (مثلاًLouis xivکانظام )جائز ہے ۔     عالمی سرمایہ دارانہ نظام

                لاک کی طرح کانٹ بھی اس بات کاقائل ہے کہ سرمایہ دارانہ ریاست ملکی سطح پرقائم ہوسکتی ہے ،بین الاقوامی سطح پرنہیںکیونکہ بین الاقوامی سطح پرسول سوسائٹی قائم نہیںکی جاسکتی اوروہاںState of natureہی قائم رہتاہے ۔کوئی مقننہ الٰہ(Sovereign)نہیںہوتااوراشتراک عمل کافروغ اورجنگ کی ممانعت انفرادی حکمرانوںکی صوابدیدپرمنحصرہوتی ہے سرمایہ دارانہ بین الاقوامی نظام میںجنگ کاخطرہ ہمیشہ موجودرہتاہے ۔عالمی الٰہ (Sovereign)کی غیرموجودگی سرمایہ دارانہ نظام کی فطری دور(State of nature)سے سول سوسائٹی کی طرف مراجعت ناممکن بنادیتی ہے ۔

                کانٹ کے خیال میںبین الاقوامی سرمایہ دارانہ نظام کوایک عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی شکل اختیارکرناناممکن ہے اس کے بجائے یہ ممکن ہے کہ انفرادی سرمایہ دارانہ ریاستوںکے ایک ایسے عالمی دستور(Constitution)کی تشکیل کی طرف پیش رفت کریںجوجنگ کوناممکن بنادے ،اس دستورکی بنیادایسے بین الاقوامی معاہدوںپرہوناچاہئے جوسرمایہ دارانہ ریاستوںکے مابین وقتاًفوقتاًطے کئے جاتے ہیںکانٹ ایک بین الاقوامی ادارے(International organization)کے قیام کی ضرورت کااحساس دلاتاہے جوا س دستور(               )کی شقات کی تشکیل اورتنفیذکی ذمہ داری اداکرے کانٹ امیدرکھتاہے کہ جیسے جیسے سرمایہ کی بڑھوتری(Progress) وقوع پذیرہوگی اس بین الاقوامی دستور کی حاکمیت اوراس کے دائرے کارمیںاضافہ ہوگاسرمایہ دارانہ قومی ریاستیںبتدریج اس عالمی دستورکی پابندہوتی جائیںگی جوامن عامہ کی ضمانت دے گااورسرمایہ کی بڑھوتری(Progress)کے عمل کومہمیزدے گا۔

عالمی سرمایہ دارانہ نظام میںکئی مرتبہ ایسے بین الاقوامی تنظیمیںبنی ہیںسب سے اہم اوروسیع دائرہ کارکھنے والی تنظیم اقوام متحدہ ہے ۔١٩٤٤ئسے اس نے مستقل سرمایہ دارانہ تجارت ااورانویسٹمنٹ(Investment)کے لئے قانون سازی کی ہے اس کے ذیلی ادارے(IMF,WTO,WIPO,World bank)وغیرہ کے تحت ایک عالمی سرمایہ دارانہ پبلک انتظامی ڈھانچہ (Public regularity system)وجود میںآگیاہے اقوام متحدہ نے سرمایہ دارانہ جنگ اورامن کی تنظیم میںبھی اہم کرداراداکیاہے اقوام متحدہ کی وساطت سے ہی دوعظیم سرمایہ دارانہ ریاستوںامریکہ اورسویت یونین میںباہمی تعاون ممکن ہوااورسردجنگ (Cold war)کے دورمیںکبھی ان دوسرمایہ دارانہ ریاستوںمیںتصادم نہیںہوا۔  ١٩٩٠ء کے بعدسے اقوام متحدہ امریکہ کی عالمی بہیمیت کی پشت پناہ اوراس کوقانونی جوازفراہم کرنے والے ادارے کے طورپہ مستقل کام کررہی ہے ۔اقوام متحدہ اپنی Peace forceکے ذریعے امریکی جنگیںبھی لڑتی ہے اورعراق ،سربیہ،نکاراگوا،لیبیاوغیرہ میںامریکی حملوںکوقانونی جوازبھی فراہم کرتی ہے اس طرح اقوام متحد ہ نے جنگ کوترقی یا پروگریسProgressکاوسیلہ بنانے میںاہم کرداراداکیاہے اوراقوام متحدہ کی مدد سے وہ عالمی صلیبی جنگ آج بھی جاری ہے جوگیارھویںصدی سے سرمایہ دارانہ عالمی نظام کے غلبے اورپروگریسProgressکے تسلسل کے لئے شروع کی گئی تھی (اس ضمن میںاقوام متحدہ اورامریکہ کے کمزوری یہ ہے کہ وہ سرمایہ داری کے خلاف غیرسرمایہ دارانہ جنگ کومحدودنہ کرسکے یہی چیزان کومجاہدین سے مذاکرات پرمجبوکرتی ہے )۔٢٠٠٥ئ میںامریکہ اورچین کی کوششوںسے عالمی سرمایہ دارانہ دستورکی تشکیل کی طرف ایک اہم قدم اٹھایاگیایہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میںR2Pاعلامیہ (Decleration)کی منظوری ہے اس اعلامیہ کے تحت اقوام متحدہ نے استعماری قوتوںکایہ حق تسلیم کرلیاکہ وہ کسی بھی ایسے ملک میںفوجی مداخلت کرسکتی ہیںجہاںان کے خیال میںہیومن رائٹس کی خلاف ورزی کی جارہی ہے ۔کانٹ سے متاثرفلسفی یورگن ہیبرماس(Jorgen habermace)اس کی عالمی سرمایہ دارانہ دستورسازی کی تاریخ کاایک اہم سنگ میل گردانتاہے عالمی امن کے فروغ کے مطلب سرمایہ دارانہ جنگ اوربین الاقوامی قوانین کوپروگریسProgress(سرمایہ کی بڑھوتری )کاذریعہ بناناہے ،کانٹ اس بات کااقرارکرتاہے کہ سرمایہ دارانہ عالمی امن کے فروغ میںسب سے بڑی رکاوٹ مذاہب عالم ہیں،سرمایہ دارانہ جنگ وامن (وہ جنگ وامن جس کانتیجہ پروگریس ہو)مذہبی جنگ وامن کومسخرکرتاہے علاوہ ازیںسرمایہ دارانہ ریاستوںمیںباہمی جنگ ،کانٹ کے بقول بتدریج ختم ہوتی چلی جاتی ہے سرمایہ دارانہ ممالک میںبتدریج عقلیت کے ذریعے مذہبیت (Religion with the limits of reason at  one)(کانٹ نے اس عنوان کے تحت ایک مشہورمقالہ لکھاہے )تمام الہامی مذاہب کوفتح کرلیتی ہے اورلوگ ٹولیرینس(Tolerance)کی ضرورت کے قائل ہوجاتے ہیں،یہ Rational religionلازماًپروگریس Progress کاذریعہ بنتاہے کیونکہ وہ انفرادی اغراض (Interests and desires)کے حصول کی جدوجہد کوجوازفراہم کرتاہے ۔جیساکہ کانٹ کے دورمیںProtestanism))کررہی تھی)غرض (Interets)کاآلہ کارسرمایہ دارانہ تجارت (Commerce)اورکمرشل روحانیت (Commercial spirit)کی معاشرتی بالادستی غیرسرمایہ دارنہ جنگ (جہاد)کوناممکن بنادیتی ہے ۔کانٹ لکھتاہے کہ ریاست کاسب سے موثرہتھیارزر(Money)ہے ،اورجب سرمایہ دارانہ ریاست کے شہری عبدالدیناربن جاتے ہیںتوغیرسرمایہ دارانہ جنگ اورغیرسرمایہ دارانہ امن (نفاذشریعت)ناممکن ہوجاتاہے ،سرمایہ دارانہ شخصیت دولت کے لامتناہی اضافے کی مستقل متلاشی رہتی ہے اور سرمایہ کی بڑھوتری کی جدوجہدکرتی ہے لہٰذاحرص حسد کی عوامی مقبولیت ہی سرمایہ دارانہ جنگ وسرمایہ دارانہ امن کے استحکام کی ضامن ہیں،عوام جتنے روشن خیال (Enlightened)ہوںگے غیرسرمایہ دارانہ جنگ اورامن اتناہی ناممکن ہوجائے گا ۔ روشن خیال (Enlightened)اجتماعی سرمایہ کی لامتناہی بڑھوتری کواپنے واحدفرض عین کے طورپرقبول کرلیںگے ۔

                سرمایہ دارانہ امن کے فروغ کی دوبنیادی ضرورتیںہیں،ایک یہ کہ لوگ روشن خیال (Enlightened)ہوں،دوسرے یہ کہ سرمایہ دارانہ متصادم قوتیںمتوازن قوتوںکی حامل ہوں(کانٹ اس کو Equilibrium of force    کہتاہے)۔

                اخلاقیات وریاستی تنظیم

                یہ بات واضح ہوجاناچاہئے کہ سرمایہ دارانہ متقی کی ایک خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ اس کی نگاہ میں اپنی خواہشات نفسانی کے حصول کی جدوجہداجتماعی خواہشات نفسانی کی جدوجہدسے ہم آہنگ ہواسی چیزکوکانٹ Practical reasonیاMoralityکہتاہے سرمایہ دارانہ تقویٰ کیسے پیداہوتاہے اس سلسلے میںکانٹ اپنی مختلف کتابوںمیںمتضادرائے دیتاہے ۔(Religion with the limits of reason والے مقالے میںجو تصورپیش کرتاہے وہ یہ ہے کہ پہلے سیکولر تعلیم کے ذریعے لوگوںکو روشن خیال (Enlightened)کیاجائے گا پھرسرمایہ دارانہ عدل کاقیام ممکن ہوگا۔On perpetual peaceوالے رسالے میںوہ سرمایہ دارانہ ریپبلک کے قیام اوراستحکام کے لئے اس قسم کی تعلیم کوضروری نہیںسمجھتا۔سرمایہ دارانہ ریپبلک کاقیام اوراستحکام ان حالات میںبھی ممکن ہے کہ اس کوجودمیںلانے والے سرمایہ دارانہ تقوے کے حامل نہ ہوںبلکہ انفرادی اغراض کے حصول کواجتماعی خواہشات نفسانی کے حصول پرمقدم رکھتے ہوںسرمایہ دارانہ ریپبلک ”شیطانوںکی بستی ”(بقول کانٹ”Nation of devils”)بھی قائم کرسکتی ہے سرمایہ دارانہ ریاستی دستورباشندوںکو روشن خیال (Enlightened)کرنے کاذریعہ بن سکتاہے ۔

                میری رائے میںسرمایہ دارانہ تاریخ سے جوبات ثابت ہوتی ہے وہ یہ کہ سرمایہ دارانہ معاشرے میںسرمایہ دارانہ متقیوں(وہ جومجموعی خواہشات نفسانی کے فروغ کواپنے ذاتی اغراض کے فروغ پرمقدم رکھتے ہیں)کی تعداد نہ ہونے کے برابرہوتی ہے (کانٹ کوایک سرمایہ دارانہ متقی نہیںکہاجاسکتاوہ اغلام باز(Homosexual) تھا اوراپنی اغلام بازی کومخفی رکھنے کے لئے لاتعدادایسے اقدام کرتاتھا جواس کے تصورCategorial imperativeکے خلاف تھے )۔اس کے بجائے مارکس ،روسواورلینن کوسرمایہ دارانہ متقی کہاجاسکتاہے )۔سرمایہ دارانہ عقلیت کوقبول کرنے والے اہل دانش (Intellectuals)کاایک محدد گروہ ہوتا ہے ہے (جوعموماسرمایہ دارانہ متقیوں پرمشتمل نہیںہوتا) وہ ایسے دستوراورقوانین وضع کرتے ہیںجن کی تنفیذسرمایہ دارانہ اشرافیہ(کارپوریشنوںکے منیجرز،سٹے باز،سودخور،سیاستدان ،بیورکریٹس،اعلیٰ فوجی نوکرشاہی )کے معاشرتی غلبے کوممکن بناتی ہے ۔یہ اشرافیہ عظیم عوامی اکثریت کو ان دستاویز اورقوانین کی ماتحتی پرمجبورکرتی ہے اورپروگریس کے نتیجے میںسرمایہ دارانہ قانون کی تکریم ”فطرت ثانیہ”بنتی رہتی ہے اورنفسانی خواہشات کے حصول کی جدوجہدعقلیت کے واحدتقاضے کے طورپرمجموعی سطح پرقبول کی جانے لگتی ہے سرمایہ دارانہ قانون اوردستوروہ تنظیم (Discipline)نافذکرتی ہیںجوانفرادی خواہشات کے حصول کی جدوجہدکوااس بنیادپرمحدودکرتی ہے کہ یہ انفرادی جدوجہداجتماعی اغراض نفسانی کے حصول کی جدوجہدپرمنفی اثرنہ ڈالے سرمایہ دارانہ معاشرے میںاجتماعی فیصلہ عموماسرمایہ دارانہ عقلیت کے تقاضوںکوپوارکرنے کے لئے کئے جاتے ہیں(ہم بعد میںدیکھیںگے کہ Public choise theoryاس بات کاانکارکرتی ہے )گوکہ لوگ اپنے انفرادی اغراض کے حصول کے لئے سرمایہ دارانہ قانون اورسرمایہ دارانہ عقلیت کے تقاضوں کی خلاف ورزی اس حدتک کرتے ہیںجہاں تک ان کوایساکرنے کے مواقع میسرہوں(یادرہے کہ دنیامیں سب سے زیادہ سرمایہ دارانہ جرائم امریکہ میںہی سرانجام پاتے ہیں)۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *