سرمایہ داری کا مذہبی صحیفہ

محمد احمد حافظ

دورِ حاضر میں تحریکاتِ اسلامی کے کارکنان کے لیے ”انسانی حقوق” کا موضوع نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ انسانی حقوق کا چارٹر جسے یو این او کے ذریعہ تمام ممبر ممالک پر یکساں طور پر لاگو کیا گیا ہے، عمومی طور پر اسے ایک ایسا ”خیر” اور ”حق” تصور کیا جاتا ہے جو فلاح انسانی کا ضامن، امن وسلامتی کا علمبردار اور شرفِ انسانی کا پیکر ہے۔ ہمارے بہت سے اہلِ علم اور عام پڑھے لکھے حضرات بھی ایک قدم مزید آگے بڑھ کر ”انسانی حقوق” کے چارٹر کو اسلامی تعلیمات خصوصاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبۂ حجة الوداع سے ماخوذ سمجھتے ہیں۔ ہمارے ہاں اس سلسلے میں ایک مقبولِ عام جملہ اکثر دہرایا جاتا ہے کہ: ”اسلام ہی وہ مذہب ہے جس نے سب سے پہلے انسانی حقوق عطا فرمائے…” بادی النظر میں یہ جملہ ممکن ہے اپنے اندر کسی قسم کی پیچیدگی نہ رکھتا ہو مگر جب ہم اس چارٹر کو مغربی فکر کے تناظر میں دیکھتے ہیںتو یہ جملہ اسی طرح نظر آتا ہے جیسے کہا جائے کہ ”اسلام ہی وہ مذہب ہے جس نے سب سے پہلے ہندو مت کی بنیادیں فراہم کیں…!!” کیا کوئی ہوش مند مسلمان یہ جملہ کہہ کر اپنے ایمان سے دست بردار ہونے کے لیے تیار ہو گا؟ ظاہر کہ نہیں!

فلسفہ انسانی حقوق کا مختصر خلاصہ:

قبل اس کے ہم آگے بڑھیں، خلاصے کے طور پر ”حقوق انسانی” کی اصل فکر کو چند سطور میں بیان کردیں… سترھویں صدی عیسوی میں جب جدید یورپ کی ابتدا ہوئی تو اس دور میں جو فکر ابھر کر سامنے آئی اسے سرمایہ دارانہ انفرادیت سے تعبیر کیا گیا۔ سرمایہ دارانہ انفرادیت یہ ہے کہ انسان کسی کا عبد نہیں بلکہ وہ آزاد (Free) ہے۔ آزاد ان معنوں میں کہ وہ جوچاہنا چاہے’ چاہ سکے اور جس چیز کی خواہش اس کا نفس کرے اسے حاصل کر سکے۔ خواہشات بے پناہ ہیں اور انسان کو خواہشات کی تکمیل کے لیے بنیادی طور پر جس چیز کی ضرورت ہے وہ ”سرمایہ ” ہے سرمایہ ہی وہ بنیادی عنصر ہے جس کے ذریعے تمتع فی الارض کے زیادہ سے زیادہ امکانات وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ انفرادیت مابعد الموت سے بحث نہیں کرتی۔ اس کے نزدیک موت اختتامِ زندگی ہے۔ چناں چہ سرمایہ دارانہ عقلیت میں جس طرح مابعد الموت کی بحث نہیں، اسی طرح ما قبلِ پیدائش کا سوال بھی خارج از بحث ہے۔ مغربی فکر کے جتنے بھی کلاسیکل مفکرین ہیں، ان کے نزدیک انسان اسی معنی میں قائم بالذات اور اپنا خالق خود (Existent by itself)ہے۔ اس فکر کا مقدمہ پانچ صدی قبل مسیح کی یونانی فکر میں بھی ملتاہے جس میں یونانی مفکر پروتاغورس کہتا ہے:

”انسان کائنات کی تمام اشیاء کا پیمانہ ہے”

یعنی وہ اس کائنات میں مقصود بالذات ہستی ہے اور وہ کائنات کی ہر شے کو اپنی مرضی (Decision)اور منشاء (will)کے تابع کرنے کاحق رکھتا ہے۔ یہاں پہنچ کر ہم دیکھتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ تصور انفرادیت ”الوہیت انسانی” کا مظہر ہے، اور اسی تناظر میں تہذیب مغرب کا کلمہ… ”لا الہٰ الا الانسان ”ہے۔

انسانی حقوق کو ”خیر” سمجھنے کا مغالطہ کیوں؟

اصطلاح ”انسانی حقوق” ہیومن رائٹس کا ترجمہ ہے۔ ”ہیومن ” کا مغربی فلسفہ و فکر میں خاص مقام اور اس کا معنٰی و مطلب ہے اور ظاہر ہے کہ ”ہیومن” کا ترجمہ ”انسان” کر کے اسے نہیں سمجھا جا سکتا۔ ”ہیومن ” مغربی فکر میں ایک خاص مفہوم کا فرد ہے جس کے معنی و مطلب کو جاننے کے لیے ہمیں لازماً مغربی فلاسفہ کے افکار کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔ جب ہم ہیومن کی کنہ اور مغربی فکر میں اس کی وجہِ وجود کو جان لیں گے تو ہمارے لیے انسانی حقوق کے چارٹر کا تجزیہ و محاکمہ کرنا آسان رہے گا۔

انسانی حقوق کا تاریخی پس منظر:

جدید یورپ کی ابتدا عیسائیت کی شکست وریخت سے ہوئی۔ عیسائی پادری مارٹن لوتھر وہ شخص تھا جس نے اپنے ہی مذہب پر کاری ضرب لگائی اور لوگوں کو عیسائیت کے خلاف وہ بنیادیں فراہم کر دیں، جن کے سہارے انہیں مذہب سے راہِ فرار ڈھونڈنے میں آسانی ہوگئی۔ انہی بنیادوں پر بعد کے فلسفیوں نے عیسائی علمیت کو رد کیا اور ہیومن ازم (انسان پرستی) کا آغاز ہوا۔ مغربی مفکرین نے مذہب کی زندگی کے ہر شعبے اور ہر سطح سے خارج کر کے انسان ہی کو ہر شے کی میزان ٹھہرایا۔ انسان کو اللہ کا بندہ ہونے کی بجائے ایک ایسے آزاد فرد کے طور پر باور کرایا جو خیر وشر کی تعیین اور تحدید میں بذاتِ خود ایک پیمانہ ہے۔ یہ فرد ہر طرح کے شک وشبہے سے بالاتر قرار پایا۔ مغربی فلسفیوں (ڈیکارٹ، کانٹ، میکس، نطشے، روسو وغیرہ)کے نزدیک کائنات کو صرف اور صرف انسانی پیمانوں پر پرکھنا ہی علمیت کی میراث ہے۔ یوں انسان پرستی (ہیومن ازم)کو اقداری ڈھانچے میں کلیدی اور قطعی حیثیت حاصل ہوئی۔

ہیومن ازم کیا ہے؟

انسان کوکائنات کا محور و مرکزقرار دینا ہی ہیومن ازم ہے۔ انسائیکلوپیڈیا آف فلاسفی کے مطابق:

Humanism is that philosphical and literary movement originated in italy in the second half of the fourteenth century and diffused into other countries of Europe coming o constite one of the factors of the factors of modern culture.                                            

ترجمہ:ہیومنزم وہ فلسفیانہ اور ادبی تحریک ہے جو چودھویں صدی کے نصف ثانی تک میں اٹلی میں پیدا ہوئی اور وہاں سے یورپ کے دوسرے ممالک میں پھیل گئی جو بالآخر جدید ثقافت کی تشکیل کے اسباب میںسے ایک سبب بنی۔

اس کی حقیقتوں سے بحث کرتے ہوئے درج کیا گیا:

Hunasim is also any philosphy which recogonizes the blue or drignity of man and makes him the measure of all things of some how takes human nature,its limits, or its interest as its theme.

ترجمہ: ہیومنزم ہر اس فلاسفی کو بھی کہتے ہیں جو انسانی قدر یا عزت کو تسلیم کرے اور اسے” تمام چیزوں کا میزان” قرار دے یا جو صرف انسانی طبیعت کو اپنی فکر کی حد یا دائرہ کار کی حیثیت سے لے۔

[Encyclopaedia of philosphy the macmillon company and the free press N.York]

ہیومن ازم کی تحریک اپنی اصل کے اعتبار سے وحی الٰہی اور ہدایت ربانی کی ضد تھی۔ اس تحریک کا مقصد عیسائی معاشرے میں تصور الٰہ، تصور رسول اور تصور آخرت کو ختم کر دینا تھا، چناں چہ اس تحریک نے عیسائیوں کو ہر اس ہدایت کے انکار کی طرف ابھارا جو ربانی یا آسمانی ہو اور ہر اس ظابطے سے بغاوت پر آمادہ کیا جس کی بنیاد ہدایتِ الٰہی تھی۔ اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انسائیکلوپیڈیا آف ریلجن اینڈ ایتھکس میں بیان کیا گیا:

Hunasim in philosophy is opposed to nauralism and absolutism; it desuganates the philosophical attitude which regards the interpretation of human experience as the primary concern of human knowledge for this purpose.

ترجمہ: فلسفہ میں ہیومن ازم ہر طرح کی فطریت (ربانیت) اور کلیت کی ضد ہے۔ یہ ایک ایسا فلسفیانہ رجحان دیتا ہے جو انسانی تجربوں کی تشریحات کو ہر طرح کے فلسفہ کا اولین مرکز توجہ دے اور اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ اس کام کے لیے انسانی علم کافی ہے۔

[Encyclopedia of religion and ethics edinbery, T&T clarh, 1937]

ہیومن ازم کی فکری بنیادیں:

کسی بھی نظام میں سب سے بنیادی مسئلہ تصور ذات (self)کا ہوتا ہے۔ مثلاً آپ ایک عالمِ دین سے پوچھیں کہ انسان ذاتی طورپر کیا ہے؟ اور اس کا بنیادی وظیفہ کیا ہے؟تو وہ ربانی عالم دین آپ کو بتائیں گے کہ انسان دراصل اللہ کا بندہ ہے اور اس کا بنیادی وظیفہ اللہ تعالیٰ کی بندگی ہے۔ مگر یہی سوال جب آپ کسی مغربی فرد سے کریں گے تو وہ آپ کو جواب دے گا کہ انسان کے اندر وہ جبلتیں اور خصائص موجود ہیںجن کی بنیاد پر وہ خود اپنی زندگی کو استوار کر سکتا ہے۔ اسے کسی ماورائی ذات کی پرستش کرنے ، اس سے ہدایت حاصل کرنے اور اس کی پیروی کرنے کی ضرورت نہیں۔

مغربی فکر میں انسان ہی کائنات کا میزان ٹھہرایا گیا ہے۔ چناں چہ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ کسی بھی خارجی قدر، وحی اور ہدایتِ الٰہی کا انکار کر دے۔ وہ کائنات میں کارفرما عقائد ، نظریات اور افکار وخیالات کو اپنی عقل کی میزان میں پرکھ کر فیصلہ کرے کہ وہ ریزن ایبل (Reason able) ہیں کہ نہیں؟ یہ ریشنل ازم یا عقلیت پرستی ہے۔

ریشنل ازم لاطینی لفظRatio سے مشتق ہے، جس کا معنی ہے عقل یا Reason انسائیلو پیڈیاآف فلاسفی کی روح ان فلاسفروں سے مربوط ہے جو سترھویں اور اٹھارویں صدی میں یورپ میں پیدا ہوئے۔ ان مغربی فلاسفروں کے مطابق عقل کی بنیاد پر قطعی اور آفاقی سچ کا حصول ممکن ہے۔ چناں چہ جب انسان ہی تمام خیروشر کا تعین کر سکتا ہے تو ایسی صورت میں خدا پرستی کا کیا سوال؟

مشہورفلسفی ڈیکارٹ، ]١٥٩٦ئ۔١٦٥٠ئ[ وہ شخص ہے جس نے جدید فلسفہ کی بنیاد رکھی اور عیسائیت کو شکست دی، اس نے انسانی ادراکات میں کسی بھی خارجی عامل کو ردّ کر دیا اور سیلف نالج کی خالص عقلی دلیل دی۔ اس کے پیش کردہ فلسفے کے مطابق:

”علمی اور عقلی بنیادوں پر کوئی بھی انسان اپنے سوا کسی بھی چیز کو خواہ وہ خیالات ہوں یا اقدار’ معیارات خیروشر ہوں یا وحی اور چاہے خدا کا وجود، غرض کسی بھی چیز کا انکار کر سکتا ہے۔ اکیلی میری ذات میرا وجود ہے، جس کا ہونا کسی بھی قسم کے شک وشبہے سے بالاتر ہے۔”

ڈیکارٹ کے نزدیک واحد سچ:… ”میں سوچتا ہوں ‘ اس لیے میں ہوں۔”

[Ithink there for I,m]

یعنی میں اپنے اس دنیا میں ہونے کا جواز اپنے اندر رکھتا ہوں۔ میرا وجود کسی خارجی ذریعے، حقیقت مطلق یا خالقِ کائنات کا مرہون منت نہیں… ڈیکارٹ کے مطابق میری عقل کی استطاعت نہیں کہ میں اپنے وجود کے سوا کسی بھی دوسری ذات کے وجود کا ماورائے شک جواز پیش کر سکوں۔

اس طرح ڈیکارٹ نے ایک ایسی علمیت (جہالت) کی بنیاد رکھی جو کہ اولاً مابعد الطبیعات (وحی)سے ماورا تھی… وہ (Doubt)پر قائم تھی۔ ڈیکارٹ کے پیش کردہ تصور انسانی یا تصور ذات کو بعد کے مفکرین نے آگے بڑھایا۔

روسو کا خیال ہے کہ انسان بنیادی طور پر خیر ہے۔ وہ ہمیشہ خیر کا طالب ہوتا ہے۔(یہاں خیر سے مراد وہ خیر نہیں جسے ہمارا دین خیر کہتا ہے بلکہ روسو کے مزعومہ انسان کا خیر اس کی” خواہشِ نفس” ہے۔) وہ کہتا ہے کہ انسانی خواہشات ، جبلتیں اور احساسات فطرتاً پاک ہیں، یہی وجہ ہے کہ انسان اپنے ارادے کے تحت جس چیز کو پسند کرتا ہے وہ عمومی فلاح ہے، اس کے خیال میں:

The self is essentially good

”انسان فی نفسہ خیر ہے”

چوں کہ مغرب کا فرد خود اپنی عقل سے اس بات کا فیصلہ کرتا ہے کہ کیا چیز خیر ہے اور کیا نہیں’ اس لیے اس کے ہاں وہ بات بھی خیر میں شامل ہے جو ہمارے ہاں بدی تصور کی جاتی ہے۔ مثلا جھوٹ بولنا، ماں باپ کی نافرمانی، زنا، اور دیگر فواحش و منکرات جنہیں ہم رذائل میں شمار کرتے ہیں۔ ہیومن کے نزدیک وہ خیر ہی ہے۔

کانٹ انسانی ذات کے بارے میں کہتا ہے کہ:

selfکے اندر وہ ترتیب اور نظم orderموجود ہے جس کے نتیجے میں اشیاء اور ان کے باہمی تعلق کو واضح کر سکے۔ کانٹ Kindom of endsمیں ایک ایسی ریاست کا قائل ہے جہاںہر فرد کا یہ اختیار تسلیم کیا جائے کہ وہ خود مختار[Automomous]اور قائم بالذات [self determind]ہے۔ جہاں ہر شخص اس بات کاتعین کرے کہ وہ کس قسم کی زندگی گزارے گا۔ جہاں یہ تسلیم کیا جائے کہ ہر شخص خیر وشر کا تعین خود کر سکتا ہے۔

ہیگل کے خیال میں اجتماعیتوں (معاشروں)کی تاریخ اور طرزِ حیات ہی خیر وشر کے پیمانہ ہیں۔ اخلاقیات وہ نہیں جو انجیل اور قرآن میں لکھی ہیں بلکہ اخلاقیات سے مراد یہ ہے کہ تاریخی اجتماعیت نے ارتقاء (Evolution) کے لیے جو معیارات خیروشر مقرر کیے ہیں انہی سے اخلاقی معیارات اور پیمانے تشکیل پاتے ہیں۔ ہر آنے والا وقت پہلے سے بہتر ہے اور اس کے پیمانے پہلے دور کے مقابلے میں فوقیت رکھتے ہیں۔ اسی کا نام ارتقاء اور ترقی ہے۔ چوں کہ سب سے زیادہ ترقی جس اجتماعیت نے کی ہے اور سب سے زیادہ جس نے غلبہ حاصل کیا ہے وہ مغرب ہے، اس لیے مغرب کی تاریخ، اس کی تہذیب، ادارتی صف بندی اور آدرشیں ہی حق وباطل کا معیار ہیں اور چوں کہ مغرب کی اس ترقی کے آگے کسی ترقی کا تصور نہیں ہو سکتا اس لیے مغربی تہذیب ہی بنیادی طور پر ذاتِ مطلق اور روحِ کائنات کا مکمل اظہار ہے۔

سارتر جو مغرب کا بہت اہم مفکر ہے، اس کے افکارکا خلاصہ یہ ہے کہ ذات( self ) کے اندر اس بات کی استطاعت ہے کہ وہ جیسا بننا چاہے بن سکے، وہ اپنی تخلیق خود کر سکتا ہے اور دنیا کو بھی جیسا بنانا چاہے بنا سکتا ہے۔ انسان بنیادی طور پر کوشش کرتا ہے کہ وہ خد ابن جائے، اگر وہ خدا نہیں بننا چاہتا تو یہ Bad faith ہے۔

سارترنے جو بات کہی ہے کم وبیش مغرب کے تمام فلسفی یہی بات کہتے ہیں، ان کے نزدیک انسان ہی الوہیت کا مظہر ہے۔ مثلاً J. H.Homesاپنی کتاب(A struggling God)میں کہتا ہے کہ ”خدا انسان ہے اور انسان خدا ہے، دونوں سے مراد وہ زندگی ہے جو محبت کے لیے مصروفِ کشمکش ہے۔”

ایمز کہتا ہے کہ… خدا کا مخصوص اور قابل رسائی تصور اسی صورت میں پیدا ہو سکتا ہے کہ اسے انسانوں کا وہ اجتماعی ضمیر سمجھ لیا جائے جو معاشرے مین کارفرما اور اس طرح معاشرتی اداروں میں برنگ مجاز جلوہ گر نظر آتا ہے”

فیور باخ خدا کے وجود ہی کا منکر ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ خدا صرف انسان کے دل میں ہوتا ہے اس سے باہر اس کا کہیں وجو دنہیں۔

کامٹ کا کہنا ہے کہ… ”انسانیت خدا ہے”

مفکرین کے ایک گروہ کا خیال ہے کہ خدانے کائنات کو بنایا اب اس کے بعد وہ اس مشینری کے چلانے میں دخل نہیں دیتا، یہ مشین انسان کے سپرد کر دی گئی ہے، لہٰذا کائنات میں الوہیاتی منصب اب خود انسان کو مل چکا ہے۔

مغربی مفکرین کی ان تعریفات کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کے ہاںکسی اَن دیکھی ہستی کا وجود خدا کی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ ان کے ہاں انسان ہی ان تمام طاقتوں کا مظہر ہے، جنہیں کوئی بھی مذہب ان دیکھی ہستی کے ساتھ وابستہ تصور کرتا ہے۔ مغرب کا ”سپر مین” انہی خدائی طاقتوں کا مظہر ہے۔

]مغرب مذہب اور خدا کو کس طرح خیرباد کہہ چکا ہے اس کا اظہار ڈنمارک کے بدبخت شاتمِ رسول ”فلیمنگ روز” نے ان الفاظ میں کیا تھا:

”ہم میں اور مسلمانوں میں فکری اور ثقافتی یا تہذیبی طورپر فرق یہ ہے کہ ہم نے تو خدا، رسول اور کتاب کا حوالہ اپنے ذہنوں سے اتار دیا ہے، ہم کوئی فیصلہ کرتے وقت یہ نہیں دیکھتے کہ بائبل میں کیا لکھا ہے؟ کوئی قانون طے کرتے وقت یہ نہیں دیکھتے کہ خد اکیا کہتا ہے؟ کوئی بات کہتے وقت عیسیٰ کا حوالہ نہیں دیتے کہ اس بارے میں انہوں نے کیا کہا تھا، ہم آزاد ذہن سے فیصلہ کرتے ہیں”[

اس مخصوص تصور علم اور تصور انسان کو ہیومن بینگ (Human Being)سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس وقت مغرب میں جتنے بھی علوم پائے جاتے ہیں’ خواہ سائنس ہو یا سوشل سائنس ‘ ان میں یہی فکر اساسی طور پرکارفرما ہے۔

مغربی مفکرین کے مطابق جب انسان ہی کائنات کا محور ومرکز ہے اور وہ اشیاء کی حقیقتوںکو بغیر کسی خارجی علم کی مددکے خود پہچان سکتا ہے اور اپنی مرضی کے مطابق اپنی زندگی استوار کر سکتا ہے تو اس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ وہ خواہش نفس کامطیع ہے۔ انسانی خواہشات کا بنیادی عنصر لذات سے زیادہ سے زیادہ متمتع ہونا ہے، لذّات سے بہرہ ور ہونے کے لیے، تمتع فی الدنیا کے لیے ”سرمایہ” اساسی حیثیت رکھتا ہے۔ چناں چہ فرد کا سرمائے کی بڑھوتری برائے بڑھوتری کے عمل میں شریک ہونا لازمی امر ٹھہرتا ہے۔ یہ بات اس وقت تک ممکن نہیں جب تک انسان اول درجے کا حریص اور حاسد نہ ہو۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا سرمائے کی بڑھوتری حرص وحسد کو عمومی فروغ دیئے بغیر ممکن ہے؟… تاریخ اس کا انکار کرتی ہے۔ سرمایہ دارانہ معاشرے بدترین سطح کی حد تک حریص اور حاسد ہوتے ہیں۔ ہم آئے روز دیکھتے ہیں خصوصاً مغرب میں تویہ معمول کی بات ہے کہ سرمائے کے حصول کے لیے اخلاقی اور معاشرتی قدر میں کوئی معٰنی نہیں رکھتیں۔ حرص اور حسد دیگر کئی اخلاقی بیماریوں اور کمزوریوں کا مجموعہ ہیں۔ حریص اور حاسد انسان خود غرض، سفاک، قاتل، انتہائی درجے کا فریبی اور مکار، اور نہ جانے کیاکچھ ہو سکتا ہے!! جو شخص خود کو ”فری” خیال کرتا ہو اور اللہ تعالیٰ کی نگہ بانی مین اور عبدیت میں رہنے کے لیے تیار نہ ہو، وہ دراصل نفس و شیطان کا بندہ ہوتا ہے… اسی معٰنی میں ہیومن بینگ شیطنت کے مساوی ہے۔ یہی ہیومن رائٹس(Human Rights) کا علمیاتی پس منظر ہے۔

انسانی حقوق کا چارٹر کن لوگوں نے مرتب کیا؟

پچھلی سطور میں مغرب کا جو تصورِ انسان ذکر کیا گیا اور مغربی مفکرین کے افکار کا خلاصہ پیش کیا گیا، انسانی حقوق کا چارٹر انہی تصوراتِ انسان سے ماخوذ ہے۔

تاریخی طور پر دیکھا جائے تو١٧٧٦ء میں امریکا کا اعلانِ آزادی سامنے آیا۔ ١٧٨٨ء میں امریکی دستور ”بل آف رائٹ” مرتب ہوا۔ امریکی دستور کا مأخذ فیڈرلسٹ پیپرز ہیں۔ فیڈرلسٹ پیپرز وہ مضامین تھے جو دستور کی حمایت میں امریکا کے پہلے وزیرِ خزانہ الیگزینڈر ہملٹن، امریکا کے پہلے چیف جسٹس جان جے اور امریکی صدر جیمس میڈسن نے امریکی اخباروں میں لکھے تھے۔

یہ تمام مضامین مغرب کے ملحد مفکرین کے تصوراتِ انسان ہی کی روشنی میں لکھے گئے تھے۔

اقوامِ متحدہ کا منظور کردہ انسانی حقوق کا منشور اسی امریکی دستور کا چربہ ہے۔ اس منشور کی منصفہ اس وقت کے امریکی صدر کی بیوی ایلینا روز ویلٹ تھی۔ اقوام ِ متحدہ کے ذریعہ تمام ممبر ممالک کو اس بات کا پابند کیا گیا کہ وہ انسانی حقوق کے اس منشور کو عالمی اور ناقابلِ چیلنج قانون تسلیم کرتے ہوئے اس پر دستخط کریں۔ چناں چہ مسلم ممالک بھی یو این او کے رکن ہونے کی حیثیت سے اس کفر مطلق اور اللہ تعالیٰ سے بغاوت پر مبنی منشور پر دستخط کرتے ہیں، وہ پابند ہوتے ہیں کہ اپنے ممالک کے دستور و قانون کو انسانی حقوق کے چارٹر سے ہٹ کر عمل میں نہیں لائیںگے۔

ہیومن رائٹس چارٹر کے بعض اہم مشمولات:

٭ہر انسان آزاد پیدا ہوا ہے اور اس آزاد حیثیت میں ہر فرد دوسرے فرد کے مساوی ہے۔

٭ ہر انسان کو زندگی گزارنے اور معاشرت کو تعمیر کرنے کے لیے جو بنیادی وسائل دیے گئے ہیں، وہ دو ہیں: (١)عقل (٢)ضمیر

عقل کی بنیاد پر انسان طبعی معاشرت کی تعمیر کرتاہے تو ضمیر کی بنیاد پر اپنی اخلاقی معاشرت کی تعمیر کرتا ہے۔

٭ہر شخص کو ضمیر اور مذہب کی آزادی ہے۔ اسی طرح مذہب کو تبدیل کرنے’ اپنے عقائد کا انفرادی یا اجتماعی طور پر اظہار کرنے کی آزادی ہے۔(چاہے وہ فرد اسلام کو چھوڑ کر عیسائی ہونا چاہے یا یہودی عیسائیت قبول کر لے)۔

٭ہر شخص کو اپنے خیالات کی تبلیغ کا حق حاصل ہے۔

٭ہر شخص کو (خواہ مرد ہو یاعورت)ایک دوسرے کے ساتھ آزادانہ طور پر ملنے اور اپنی انجمنیں قائم کرنے کا حق حاصل ہے۔

٭ہر انسان کو یہ حق ہے کہ وہ کسی بھی میڈیا کے لیے جس قسم کی معلومات جہاں سے چاہے حاصل کر سکتا ہے۔

٭مردوعورت (بلا تفریق مذہب وملت) شادی کرنے کے بعد اسے فسخ کرنے کا اختیا ررکھتے ہیں۔

٭تمام بچے خواہ شادی سے پہلے ہوں یا بعد میں’ معاشرتی تحفظ میں یکساں طورپر مستفید ہو سکتے ہیں۔

٭ انسانی حقوق کے چارٹر کے مطابق غیر انسانی اور وحشی سزاؤں(مراد اسلامی سزائیں) کو کالعدم قرار دے دیا گیا ہے۔

٭انسانی حقوق کے اس چارٹر میں غلام ، لونڈی بنانے رکھنے اور ان کی خرید وفروخت کو ناجائز قرار دیا گیا ہے۔

٭ہر شخص کو اپنے ملک کی حکومت میں براہِ راست یا آزادانہ طور پر منتخب کیے ہوئے نمائندوں کے ذریعے حصہ لینے کا اختیار حاصل ہے۔ عوام کی مرضی حکومت کے اقتدار کی بنیا ہو گی۔

٭تعلیم کا مقصد، انسانی شخصیت کی پوری نشوونما ہو گا اور وہ انسانی اور بنیادی آزادیوں کے احترام میں اضافہ کرنے کا ذریعہ ہو گی۔

یہ چند نکات ہم نے بطور نمونہ پیش کر دیے ہیں ورنہ حقوق کی فہرست بہت طویل ہے جس میں ہمہ قسم کی آزادیوں کی لمبی تفصیل ہے۔

انسانی حقوق کا مقصد خدا سے بغاوت ہے:

انسانی حقوق کی اس بحث میں ہم دیکھتے ہیں کہ حقوق کے ضمن میں تمام فلاسفہ مغرب کا اصل زور آزادی (Freedom)پر ہے۔ فری ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انسان ہر طرح سے آزاد ہے۔ وہ کسی ان دیکھی ہستی کا عبد نہیں، اس کی عقل اس کے لیے واحد اتھارٹی ہے، اس کی عقل ہی فیصلہ کرے گی کہ شر کیا ہے اور خیر کیا ہے؟ … کسی خارجی ذریعے کو یا خارج از عقل ہستی کو خیر وشر کے تعین کا حق حاصل نہیں ہے۔اس معنٰی میں تمام انسان مساوی ہیں کہ ہر فرد اپنی عقلیت کی بنیاد پر اپنی زندگی کی تعمیر کر سکتا ہے۔ وہ آج مسلمان ہے تو کل عیسائی ہو سکتا ہے، اگر مذہب اس کی خواہشات کی تکمیل میں سدِّ راہ ہو تو وہ لا مذہب بھی ہو سکتا ہے۔ خواہشات لامحدود ہوتی ہیں اور ان کی تکمیل کے لیے سرمایہ وہ بنیادی عنصر ہے جو خواہشات کی تکمیل میں معاون ہو سکتا ہے، لہٰذا سرمائے کی بڑھوتری برائے بڑھوتری اس کی ایک ناگزیر ضرورت بن جاتی ہے اوریہ بڑھوتری حرص وحسد کی عمومیت کے بغیر ممکن نہیں۔

اوپر ذکر کردہ فکر کا پیکر ہی ”نیومین” ہے۔ سترھویں صدی عیسوی کے فلسفے کے نتیجے میں خلق جدیدکے نتیجے میں (New Man)کا ظہور ہوا تھا، کیوں کہ اس سے قبل کا انسان عہد ظلمات (Dark ages)کا آدمی تھا۔ تحریک تنویر (Enlightenment)کے نتیجے میں انسان نے گویا اپنا اصل مقام پہچانا تھا۔ چناں چہ اب وہ روشن خیال، لبرل ، آزادی و مساوات پر اور جمہوریت پر یقین رکھنے والا انسان تھا۔ اب وہ خیرو شر کے تعین کے لیے کسی خارجی ذریعے کا محتاج نہیں تھا، بلکہ اس کی عقل ہی اس کے تمام امورِ زندگی کے لیے میزان تھی۔ جو چیز ریزن ایبل نہیں تھی، وہ ردّی کی ٹوکری کے برابر بھی نہیں تھی۔

نطشے نے کہا تھا ‘ خدا مر گیا ہے۔ فوکالٹ نے کہا کہ انسان بھی مر گیا ہے۔ یہ مرنے والا انسان وہی تھا جو عہدِ ظلمات مین جی رہا تھا۔ مشل فوکو نے کہا تھا کہ انسان تو اٹھارویں صدی میںپیدا ہوا ہے۔ اس لیے حضور! یہ بات جانئے کہ اہلِ مغرب کے نزدیک وہ فرد انسان ہی نہیں جو آزادی، مساوات، جمہوریت پر یقین نہیں رکھتااور جو اب بھی وحی پر یقین رکھتا ہے، رسولوں کی رسالت پر، آخرت پر اور قیامت پر یقین رکھتا ہے۔

انسانی حقوق کے نفاذ کے لیے استعماری جبر:

یو این ڈی پی کی ہیومن ڈیولپمنٹ رپورٹ 2000ء میں ہیومن رائٹس کے فروغ کے لیے تین اہم خطوط متعین کیے گئے۔ UNDPکی رپورٹ میں جن ترجیحات کا تعین کیا گیا وہ حسبِ ذیل تھیں:

١۔تیسری دنیا کے ممالک بین الاقوامی قوانین کی ملکی قوانین پر بالادستی تسلیم کر لیں جو ہیومن رائٹس سے متعلق سول لبرٹیز کو عالمی سطح پر نافذ کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔

٢۔قومی ریاستوں کا دستوری ڈھانچہ ان بین الاقوامی قوانین اور عدالتی تنظیموں کے ماتحت کر دیا جائے، جو سرمایہ دارنہ نظام کی عالمگیریت کے تحفظ کے لیے وضع کیے گئے ہیں۔

٣۔معاشرتی سطح پر اغراض کی بنیاد پر ایسی گروہ بندیاں قائم کی جائیں جو حقوق کی سیا ست کو فروغ دیں اور قومی ریاستوں کے عالمی سرمایہ کے ماتحت ہو جانے کے عمل کی تائید کریں اور اس کا جواز عوامی سطح پر پیش کریں۔

اسی رپورٹ کے آغاز میں اس وقت کے یو این او کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان نے اپنی خواہش ظاہر کی کہ جو ملک بھی حقوق انسانی کے ماورا قانون سازی کرے اس کے خلاف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل فوجی کاروائی کرے۔ کوفی عنان نے لکھا تھا:

”کسی حکومت کو حق نہیں کہ وہ قومی خودمختاری کو آڑ بنا کر ہیومن رائٹس سے انکار کر ے۔ سوڈان اور افغانستان کے مظلوم عوام کا حق ہے کہ ہم ان پر ہونے والے ظلم کو ختم کریں اور ان ممالک کو ترقی کی راہ پر لائیں۔ ہم ان ممالک میں فوجی مداخلت کریں کیوں کہ یہ مداخلت ہیومن رائٹس کے عالمگیر طور پر تسلیم شدہ اصولوں کے مطابق ہوگی۔”

(UNDP. Human Development Report 2000 P 31)

مندرجہ بالا تصریحات کے بعد آپ سمجھ سکتے ہیں کہ حقوق انسانی کا منشور عالمی سطح پر تسلیم شدہ واحد ”الحق” ہے، جسے تسلیم کیا جانا اور ریاستی معاملات کو انسانی حقوق کے مطابق استوار کرنا لازم ہے۔ جو ریاستیں انسانی حقوق کے طے شدہ منشور کے علی الرغم ”الحق” کو رائج کرنے کی کوشش کریں ان پر فوج کشی ضروری ہے۔

مثلاً افغانستان میں طالبان عالی شان نے شریعت اسلامیہ کا نفاذ کیا اور افغانستان کو امارت اسلامی قرار دیا تو امریکا نے نیٹو افواج کے ہمراہ افغانستان پر حملہ کردیا۔ تب بش نے کہا تھا کہ وہ افغانستان کے باشندوں کو آزادی دلانے اور جمہوریت رائج کرنے آیا ہے۔ یہ آزادی وہی تھی جس کا دعویٰ ہیومن رائٹس میں کی گیا ہے اور جمہوریت کو شریعت کے متبادل جگہ دی گئی ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیمیں:

منشور انسانی حقوق کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی کیا جا سکتا ہے کہ استعماری ریاستوں کی سرپرستی میں سینکڑوں این جی اوز دنیا کے مختلف خطوں اور ممالک میں کام کرتی ہیں اور قومی معاشروں میں اس بات کا جائزہ لیتی ہیںکہ حکومتیں، ریاستی ادارے، سیاسی جماعتیں انسانی حقوق کی پاس داری کر رہی ہیں کہ نہیں؟ یہ غیر ریاستی تنظیمیں منشور انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر رپورٹیں شایع کرتی ہیں، احتجاجی مظاہرے ترتیب دیتی ہیں، مختلف ذرائع سے حکومتوں پر دباؤ ڈالتی ہیں تا کہ منشور انسانی حقوق کی مکمل پاس داری ہو سکے۔ ان تنظیموں کے طریق کار، اہداف، حکمت عملی سے یہ بات بخوبی سمجھی جا سکتی ہے کہ ان کا کوئی تعلق معاشرتی وحدت، مذہب کی بالا دستی، شرعی قوانین کی پاس داری سے نہیں ہو تا۔بلکہ یہ سرمایہ داری کو مستحکم کرنے کا سبب ہوتی ہیں۔ یہ این جی اوز جب صاف پانی کی فراہمی کو اپنا ایشو بناتی ہیں تو بین السطور ان کا اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ منرل واٹر کی بوتلیں خرید کر پانی پئیں تا کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے سرمائے میں اضافہ ہو سکے۔ یہ این جی اوز جب کسی بیماری کو ایشو بناتی ہیں تو اس کا ذکر اس طور پر کیا جاتا ہے کہ لوگ شدید خوف زدہ ہو جائیں تا کہ اس بیماری کی ادویات کی فروخت میں اضافہ ہو سکے، اسی طرح یہ تنظیمیں انصاف کی فراہمی کو ایشو بناتی ہیںتو عمومی طور پر ایسے زنا کار جوڑوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے جو اپنے مذہب، والدین اور معاشرے سے بغاوت کر کے سرمایہ داری کی محافظ عدالتوں کا رخ کرتے ہیں۔ مذہب دشمنی ان کی سرشت میں ہوتی ہے، اسی لیے یہ مختاراں مائی کے لیے تو جان ودل سے تگ ودو کرتی ہیںمگر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے لیے کبھی کلمۂ حق کہنے کے لیے تیار نہیںہوتیں۔ یہ این جی اوز جب غیر اسلامی فرقوں کے تحفظ کی بات کرتی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مسلم معاشروں میں ارتداد کی کھلی اجازت ہونی چاہیے… کوئی مسلمان قادیانی ہونا چاہے یا عیسائی یا لبرل بننا چاہے تو اس میںمذہب کو مزاحم نہیں ہونا چاہیے۔

خلاصۂ کلام:

انسانی حقوق کا چارٹر اور اس کے پس منظرمین کار فرما پورا فلسفۂ مغرب کسی خیر کا منبع نہیں بلکہ شروفساد کا محور ہے۔ اصولاً حقوقِ انسانی:

٭کتاب اللہ کا ردّ ہیں۔٭ربوبیّت کا انکار ہیں۔

٭سرمایہ داری کو مستحکم کرنے کے بنیادی اصول ہیں۔٭انسان کو خدا بنانے کاذریعہ ہیں۔

جن معاشروں میں انسانی حقوق کوپریکٹس کیا جاتا ہے تو ہم دیکھتے ہیںکہ وہ معاشرے حریص وحاسد، سفاکی کی حد تک خودغرض، شہوت پرست، قاتل اور غاصب ہو جاتے ہیں۔ ہر فرد محض اپنی ذات میں سمٹ جاتاہے اور معاشرتی اکائیاں مثلاً خاندان وغیرہ بکھر جاتی ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ہم بلا کسی تامل کے انسانی حقوق کے چارٹر کو اسی طرح کفرِ خالص تسلیم کرتے ہیں جس طرح  سکھون کی گرنتھ، ہندؤوں کی وید کو… اللہ تعالیٰ نے شرک کو ظلم عظیم قرار فرمایا ہے اور مشرک کو کسی صورت معاف نہ فرمانے کا اعلان کیا ہے۔ مشرک وہ ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات میں اس کے غیر کو شریک ٹھہرائے، یعنی وہ اللہ تعالیٰ کی الوہیت کا قائل ہوتا ہے مگر شرک کی آلودگی کے ساتھ جب کہ انسانی حقوق کے فلسفے میں معاملہ جدا ہے، یہاں اللہ تعالیٰ کی ذاتِ واجب الوجود کا ہی سرے سے انکار کیا جاتا ہے۔

انسانی حقوق کے عقیدہ کو ہم چند نکات میں بیان کرنا چاہیں تو حسبِ ذیل ہوں گے۔

(١)انسان کائنات کا اصل محور ومرکز ہے۔

(٢)علم و ادراک کا بنیادی ذریعہ عقل ہے… پھر تجربہ ومشاہدہ۔

(٣)آزادی اور مساوات اساسی قدر ہے۔

(٤)مادی ترقی لازمی عمل ہے۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *