١[ اس دلیل کا جائزہ کہ انقلابیوں کے پاس اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ کیوں موجودہ سیکولر نظام میں اسلام کو محفوظ و غالب نہیں کیا جاسکتا جس کے باعث وہ علماء کو اپنا ہمنوا بنانے میں ناکام رہے؟ ایک ایسی تحریک جو اپنے علماء کو اپنا ہم خیال نہ بنا سکے۔ اس سے یہ امید رکھنا کہ وہ تمام لوگوں یا اقتدار کو اپنا ہم خیال بنا سکتی ہے عجیب بات ہے اسی لیے ابھی تک کوئی انقلابی تحریک کامیاب نہ ہوئی صرف تحریک پاکستان کامیاب ہوئی جو جمہوری و سیاسی دستوری تھی اور قوم پرستی کی تحریک تھی کیا یہ خیال درست ہے؟ ]

٢[ اس خیال کا جائزہ کہ تحریک تحفظ دین تحریک غلبہ دین اور تحریک جہاد ایک ہی دھارے کے تین رخ ہیں لیکن افسوس یہ ہے کہ تینوں تحریکوں میں تطبیق و تلفیق کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ ہر تحریک دوسری تحریک کے بارے میں نہایت تشویش میں مبتلا ہے۔ ان تینوں تحریکوں کی تنظیم بھی نہیں ہے لہٰذا یہ غیر منظم طور پر کام کر رہی ہیں اور ان کے ثمرات سامنے نہیں آرہے۔ بسا اوقات بے شمار غلط فہمیوں بلکہ غلطیوں کے باعث تینوں تحریکیں ایک دوسرے کی مخالفت میں بھی پیش پیش نظر آتی ہیں جو حالات وزمانہ کی رعایت کے خلاف ہے؟ ]

٣[ کیا یہ تجزیہ درست ہے کہ اسلامی انقلاب تین سطحوں پر برپا ہوتا ہے۔ شخصیت، معاشرت ریاست یہ تین سطحیں تین مراحل نہیں ہیں کہ پہلے ایک مرحلہ طے ہوگا تو پھر دوسرا مرحلہ شروع ہوگا۔ یہ تینوں کام ایک ساتھ ہوتے ہیں۔ اسلامی شخصیت کی تعمیر تشکیل کے بغیر اسلامی معاشرہ وجود میں نہیں آتا اور جب تک اسلامی معاشرت وجود میں نہ آئے۔ اسلامی ریاست قائم نہیں ہوسکتی۔ ہماری تحریکوں نے ان تینوں اہداف کو جو ایک ہی کل کے جزو ہیں۔ اپنی حکمت و علمیت کے مطابق تین مختلف حصوں میں تقسیم کرنے کو بہتر سمجھا جو مناسب بات نہیں جس طرح دین ایک کل ہے اسے جزو میں تقسیم کرنے سے اس کی کلیت متاثر ہوتی ہے اسی طرح فرد خاندان ریاست بھی ایک کل ہیں۔ شخصیت اور معاشرت انقلاب کی گرفت میں آجائے تو ریاست اس کے اثرات سے باہر نہیں رہ سکتی۔ فرعون نے اسی خوف سے کہا تھا کہ حضرت موسی ہمارے مثالی نظام زندگی کا خاتمہ کر کے ہمیں زمین سے بے دخل کرنا چاہتے ہیں کیونکہ اسلامی علمیت جاہلیت یا قدیم علمیت کو شکست دیے بغیر نہیں رہ سکتی؟ ]

٤[ لال مسجد تحریک کی سب سے زیادہ حمایت جماعت اسلامی کے کارکنوں نے کی اور جماعت اسلامی میں نچلی سطح تک اس تحریک کو زبردست پذیرائی ملی جب کہ حیرت انگیز طور پر یہ جماعت مکمل طور پر سیاسی جمہوری عمل پر یقین رکھتی ہے اور غیر دستوری جدوجہد مسلح انقلاب اور گوریلا جنگ کی قائل ہی نہیں۔ مولانا مودودی نے خفیہ جدوجہد سے کارکنوں کو منع کر دیا تھا۔ اس کے باوجود اس تحریک کی مقبولیت کا سبب یہ تو نہیں ہے کہ جماعت اسلامی کے کارکن سیاسی جدوجہد کی مسلسل ناکامی سے مایوس ہو کر اب دوسری انتہا تک جانا چاہتے ہیں؟ کیا ردعمل کے ذریعے لائحہ عمل بدلنے کا طریقہ کسی نتیجہ خیز مرحلے تک پہنچا سکتا ہے؟ کیا لال مسجد تحریک طاقت، جذبے، رومان، انقلابیت، عسکریت، گھن گھرج کے باعث جذباتی عمل کو تیز کرتی ہے؟ ]

٥[۔ ایک غلط درغلط نقطہ نظر یہ ہے کہ انقلابی شخصیت کے پاس علمیت نہیں ہوتی اس لیے انقلابی علماء کو قائل نہیں کرسکتا۔علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ انقلابیوں کو اپنا حصہ سمجھیں ان کی غلطیوں سے درگزر کریں اور ان کے اقدامات کی علمی توضیح و توجیہہ پیش کریں انقلابی تو کرگزرنے کی صلاحیت رکھتاہے لہٰذا اس صلاحیت سے فائدہ اٹھانا علماء کا کام ہے لیکن گیارہ ستمبر کو ورلڈ ٹریڈ ٹاور کے واقعے کے بعد جب پاکستانی علماء مفتی نظام شام زئی، مولانا رفیع عثمانی، مولانا تقی عثمانی، سمیع الحق وغیرہ کی قیادت میں ملا عمر کو سمجھانے اور امریکہ سے مصالحت پر آمادہ کرنے کے لیے آئی ایس آئی کے طیارے میںکابل تشریف لے گئے تو پچاس علماء کے وفد کے سامنے ملا عمر نے جہاد کے قرآنی دلائل پیش کیے تو تقی عثمانی صاحب اور پورا وفد چپ ہوگیا اور وفد نے ملا عمر کو جہاد کے لیے اپنی مکمل حمایت کا یقین دلایا بہ ظاہر وفد اپنے مشن میں ناکام ہو کر واپس آگیالیکن فی الاصل وفد نے اپنے موقف سے رجوع کرلیا اور ملا عمر کے موقف کو تسلیم کرلیا کیونکہ ان کا موقف قرآن سنت اور اسلامی تاریخ و تعامل امت سے اقرب تھا اسلامی تہذیب و تاریخ کا کمال یہ ہے کہ اس کی علمیت کا متن Text لفظاً و حرفاً قرآن و سنت کی صورت میں محفوظ ہے لہٰذا اس متن کی بنیاد پر بڑے سے بڑے عالم کو یا کسی بھی بڑے نقطہ نظر کو قرآن و سنت کے منہاج پر رکھ کر رد و قبول کیا جاسکتاہے۔ تقی عثمانی کے سامنے ملا عمر ایک طفل مکتب تھے لیکن انھوں نے اسلامی علمیت سے شیخ الاسلام کونہ صرف خاموش کرا دیا بلکہ انہیں اپنا ہم نوا بنا کر جہاد کے لئے حضرت کی حمایت بھی حاصل کرلی اگر پاکستان کے جید علماء اور شیخ الاسلام مفتی ثقی عثمانی کومدرسے کا ایک معمولی طالب علم ملا عمر اپنے دلائل سے اپنا ہمنوا بنا سکتا ہے تو انقلابی تحریکیں علماء کو اپنا ہمنوا کیوں نہیں بنا سکتیں؟ علم و عمل اور روحانیت کے بغیر علماء کبھی اجنبی تحریکوں کے ہمنوا نہیں بنتے ان کی احتیاط صدیوں کے تجربات پر مشتمل ہے لہٰذا ان کا رویہ حکمت سے خالی نہیںکیا یہ بات درست ہے؟ ]

٦[ یہ نقطہ نظر کہ انقلاب خروج نہیں ہوتا خروج انقلاب کا حصہ ہوتا ہے۔ انقلاب پورے نظام کی تبدیلی کا نام ہے جس کے بغیر تحفظ غلبہ دین ممکن ہی نہیں۔ سوال یہ ہے کہ پورے نظام کی تبدیلی کے لیے انقلاب برپا کرنے والوں کے لیے مغربی نظام کی علمیت، روحانیت اور طاقت کا ادراک فہم علم ضروری ہے یا نہیں؟ کیا جاہلیت جدیدہ مغرب کے جدید فلسفے اس کی جدید سائنس و ٹیکنالوجی سے عدم واقفیت کے بغیر جدیدیت کے خلاف کسی انقلابی جہادی جدوجہد کا کوئی فائدہ بھی ہے اسلامی علمیت کے ذریعے مغربی علمیت کو شکست دیے بغیر کیا صرف طاقت مغربی علمیت کو شکست دے سکتی ہے؟ جو انقلابی تحریک مغربی نظام کی ابجد سے ہی ناواقف ہو اسے انقلابی تحریک کہنا کیا زیادتی نہیں ہے؟ انقلابی تحریک اگر احیائی تحریک بن جائے اور انبیاء کرام کے یقین ایمان اور ان کی حکمت عملی پر کاربند رہے تب اسے غالب نظام کی علمیاتی بنیادوں کو تلاش کرنے کی ضرورت نہیں پھر وہ سیدھے سادے فطری طریقے سے کام کرے لیکن یہ تحریکیں نہ انبیاء کے طریقے پر چلتی ہیں نہ فقہاء امت کے بتائے ہوئے راستے پر۔ ]

٧[ اس نقطہ نظر کا جائزہ کہ لال مسجد تحریک کی ناکامی ہی کامیابی ہے۔ خودپرستی کی آخری انتہا تو نہیں جب اس انتہا پر پہنچ کر لوگ کہتے ہیں کہ ناکامی ہی تو انقلاب ہے کیونکہ کامیابی تو ظہور مہدی کے بعد ہی ہوگی؟ ]

٨[ لال مسجد تحریک کے حامیوں کے اس اعتراض کا جائزہ کہ اس تحریک کے طریقہ کار کو غلط قرار دینے والے علماء نے صحیح طریقہ کار کیوں نہیں بتایا؟ اگر ان کے پاس صحیح طریقہ کار ہے تو اس کے مطابق انھوں نے خود کوئی جدوجہد کیوں نہ کی؟ اس جدوجہد کا لائحہ عمل کیوں نہیں دیا؟ لال مسجد کی مخالفت کرنے والے علماء نے پرویز مشرف حکومت کی مخالفت کیوں نہیں کی؟ حدود آرڈیننس، اسلامی شریعت کے قیام کے لیے علماء کرام اپنے صحیح طریقے کے مطابق کیا جدوجہد کر رہے ہیں؟ نفاذ اسلام، دفاع مساجد و مدارس کا اگر کوئی اور طریقہ ہے تو علماء بتائیں ان اعتراضات کے ذریعے علماء کو مطعون کرنے رسوا کرنے والوں کے مقاصد کا تجزیہ اور ان اعتراضات کا مفصل جائزہ۔ کیا اعتراضات کرنے والے دراصل امام ابو حنیفہ، امام مالک، اور امام احمد بن حنبل کے طرز عمل پر تو معترض نہیں ہیں؟ کیا علماء کا کام یہی رہ گیا ہے کہ وہ ضرور اقتدار کی مخالفت کریں ورنہ وہ اقتدار کے حامی سمجھے جائیں گے، یونانی منطق کی بنیاد پر قائم کیے گئے ان جاہلانہ خیالات کا محاکمہ۔ ]

٩[ اس خیال کا جائزہ کہ جب علمائ، تحریکیں، تنظیمیں غالب باطل نظام سے مفاہمت کرلیں اس کا حصہ بن جائیں اس کے بارے میں خاموشی اختیار کرلیں یا باطل نظام کی مزاحمت کی امنگ سے محروم ہوجائیں حاضر و موجود نظام کے بارے میں غیر یقینی طرز عمل اختیار کر کے آنکھیں بند کرلیں اسے سیاست کا دائرہ قرار دے کر گوشہ نشین ہوجائیں۔ تو انقلابی عمل تحلیل ہو کر ختم ہوجاتا ہے اور ردعمل میں تحریک نفاذ شریعت محمدی، مولانا اکرم اعوان کا لشکر جہاد، طالبان، القاعدہ اور جامعہ سیدہ حفصہ جیسی جذباتی تحریکیں جنم لیتی ہیں۔ اگر معاشرے میں ایسے ادارے قائم ہوں جہاں اقتدار علماء کے ہاتھوں میں ہو اور تمام اسلامی تحریکوں کا کام مربوط ہو ان کی رہنمائی میں ہو تو یہ وحدت قیادت انقلاب کی قوت کو محفوظ، مامون، موثر، متحرک، مطہر، مجتمع اور مرتکز رکھتی ہے جب تک مدارس مساجد بازار اور معاشرت کی سطح پر علماء متبادل قوت پیدا نہیں کریں گے لال مسجد جیسے واقعات اہل ایمان کے دلی اضطراب اور شدید بے چینی کا اظہار کرتے رہیں گے؟ ]

١٠[وہ کیا وجوہات ہیں کہ انقلابی یا تو اپنے موقف سے دستبردار ہوجاتے ہیں یا شہادت حاصل کرلیتے ہیں یا گوشہ نشین ہوجاتے ہیں یا ایک فرقے یا گروہ میں تبدیل ہوجاتے ہیں یا خود اسی نظام کا حصہ بن جاتے ہیں لیکن کوئی ایسی تنظیم نہیں بنا سکتے جو انقلاب کو رواں دواں رکھے اور ہر شکست کسی نئی مزاحمت اور نئی تحریک کا عنوان بن جائے؟ انقلابی لٹریچر سے بھی محروم ہوتے ہیں جب کہ انقلاب چین، فرانس، روس میں لٹریچر کا بہت اہم کردار ہے۔ ]

١١[ کیا لال مسجد کے واقعے کے نتیجے میں علمائ، مجاہدین، اسلامی تحریکوں میں قربت پیدا ہوگی یا ان کی دوریوں میں اضافہ ہوگا۔ کیا یہ تحریک مجاہدین کو تنہا کرنے کا سبب بنے گی؟ کیا یہ تحریک دینی قوتوں کی تقسیم در تقسیم کا سبب بنے گی اور یہ قوتیں آپس میں نبرد آزما ہوجائیں گی؟ ]

١٢[ کیا وجہ ہے کہ لال مسجد تحریک جو مساجد و مدارس کے تحفظ کے نام پر برپا کی گئی تھی خود اپنی مسجد اور اپنے مدرسے کا تحفظ نہ کرسکی کیا یہ تحریک کسی حکمت عملی کے بغیر ردعمل کے طور پر اٹھی تھی یا اٹھائی گئی تھی اس تحریک نے جو بڑے بڑے دعوے کئے ان کے پس پشت کیا علمیت تھی کیا وہ علمیت تحریر کی شکل میں سامنے آئی ہے؟ ]

١٣[ لوگوں کا خیال ہے کہ لال مسجد کی تحریک کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ علماء کی عدم حمایت تھی۔ کیا علماء کے تعاون، رہنمائی، حمایت کے بغیر کوئی تحریک کامیاب نہیں ہوسکتی؟ تحریک خلافت، تحریک ہجرت  سے لے کر ختم نبوت قومی اتحاد اور شاتم نبوت تک ہر تحریک علماء کی حمایت سے کامیاب ہوئی پھر کیا وجہ ہے کہ لال مسجد والے علماء کی حمایت حاصل نہ کرسکے جو تحریک علماء کی سرپرستی سے خالی ہو کیا وہ اسلامی تحریک کہلاسکتی ہے۔ انقلابی تحریکیں علماء کو قائل کرنے میں کیوں ناکام رہتی ہیں؟ ]

١٤[ اس موقف کا جائزہ کہ لال مسجد کی تحریک کو صحیح یا غلط کہنا ماورائے بحث ہے اصل بات یہ ہے کہ اس طرح کی تحریکیں ایمان کی بے چینی و بے تابی کے اظہار کے لیے اٹھ رہی ہیں۔ علماء اسے بہرحال کامیاب بنائیں کیوں کہ یہ تحریک ہے یہ سانحہ یا المیہ نہیں۔ یہ پیش رفت ہے تحریک نے بتا دیا ہے کہ علماء پاکستان کی ریاست کو غلط طور پر اسلامی سمجھتے ہیں لہٰذا ریاست کے خلاف جدوجہد سے گریز کرتے ہیں۔ تبدیلی اقتدار کو ممکن نہیں سمجھتے جس کے باعث انقلابی طرز عمل سے دست کش ہوجاتے ہیں۔ علماء نے ریاست جمہوریت، دستوریت کو رد نہیں کیا۔ اس طرح اپنے آپ کو عالمی استعماریت کے اداروں کے ساتھ اگر وابستہ نہیں کیا تب بھی اس استعمار کی مخالفت ترک کر دی ہے جس کے باعث اس استعمار کو دینی جواز حاصل ہوگیا ہے۔ علماء کے نظریے اور عمل میں جو خلیج ہے تحریک لال مسجد اسے پاٹنے کی موثر کوشش ہے۔ ١٩٢٠ء میں شیخ الہند کی مالٹا سے واپسی اور مولانا ابوالکلام آزاد کو امام الہند منتخب کرنے کے بعد انقلابی عمل رک گیا اور جہاد کا راستہ ترک کر کے سیاسی عمل کا راستہ مستقل طور پر اختیار کرلیا گیا۔ شیخ الہند نے جہاد پر اپنے موقف سے رجوع کر کے عدم تشدد کے ذریعے سیاسی جدوجہداور دستوری کوشش کا اجتہاد فرمایا لہٰذا تمام مکاتب فکر کے علمائے ہند نے حالات کی روشنی میں عسکری جدوجہد کے بجائے سیاسی جدوجہد کا مشترکہ اجتہاد فرمایا اس اجتہاد کے نتیجے میں تمام مکاتب فکر کے علماء نے کانگریس یا مسلم لیگ کے ذریعے سیاسی عمل کو جہاد پر ترجیح دی جس کے بعد ہند میں جہادی تحریک مسلسل پسپا ہو رہی ہے۔ اس اجتہادی غلطی کا ازالہ ہونا چاہیے۔ صرف مولانا مودودی نے مسلم لیگ اور کانگریس کے پرچم تلے قوم پرستی پر مبنی سیاسی جدوجہد سے انکار کیا اور جمہوریت کو شرک قرار دے کر تحریک پاکستان کی مخالفت کی مگر تقسیم ہند کے بعد وہ بھی علماء کے موقف پر ایمان لے آئے اور اپنی انقلابی جدوجہد کو پاکستانی قومیت کے دائرے میں محصور کرکے ماڈل اسلامی ریاست کے سراب میں مبتلا ہوگئے۔لال مسجد تحریک نے ہند میں تحریک جہاد کے ستر سالہ جمود کو توڑ کر قافلہ جہاد کو رواں دواں کر دیا ہے۔ اس موقف کا گہرا ناقدانہ جائزہ۔ اس بات کا بھی جائزہ کہ اگر دستوری جمہوری جدوجہد کو ترک کیا جائے تو اس کا دوسرا طریقہ صرف جہادی طریقہ کار رہ جاتا ہے کیا ان دو طریقوں کے سوا جدوجہد کا کوئی اور طریقہ نہیں ہے؟ کیا نبوی منہاج جدوجہد لوگوں کی نظر سے اوجھل ہے؟ ]

١٥[قرآن حکیم نے رسول اللہۖ کے صحابہ کرام اور ان کے سچے پیروکاروں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ کفار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں تم جب دیکھو گے انھیں رکوع و سجود اور اللہ کے فضل اور اس کی خوشنودی کی طلب میں مشغول پائو گے۔ سجود کے اثر ان کے چہروں پر موجود ہیں جن سے وہ الگ سے پہچانے جاتے ہیں۔ یہ ہے ان کی صفت تورات میں اور انجیل میں ان کی مثال یوں دی گئی ہے کہ گویا ایک کھیتی ہے جس نے پہلے کونپل نکالی پھر اس کو تقویت دی پھر وہ گدرائی پھر اپنے تنے پر کھڑی ہوگئی۔ کاشت کرنے والوں کو وہ خوش کرتی ہے تاکہ کفار ان کے پھلنے پھولنے پر جلیں”۔ ]٢٩٤٨[ کیا عہد حاضر کی اسلامی انقلابی احیائی تحریکوں کی قیادت اس آیت کے مصداق ایمان اور عمل کی کیفیات سے گزر رہی ہے کیا ان آثار، اثرات، کیفیات کے بغیر اس قیادت کو کامیابی مل سکتی ہے؟ ]

١٦[ اور انھوں نے جان لیا کہ اللہ سے بچنے کے لیے کوئی جائے پناہ خود اللہ ہی کے دامن رحمت کے سوا نہیں ہے تو اللہ اپنی مہربانی سے ان کی طرف پلٹا تاکہ وہ اس کی طرف پلٹ آئیں یقینا وہ بڑا معاف کرنے والا ہے۔ التوبہ١١٨۔ اللہ کے اس وعدے کے باوجود انقلابی تحریکیں اپنے ماضی کا جائزہ لے کر اللہ کے دامن رحمت کی طرف پلٹنے میں کیوں تردد کا شکار ہیں؟ ]١٧[ کیا یہ ممکن ہے کہ دنیا کے کسی خطے میں اسلامی شخصیت اسلامی معاشرت اور روحانیت پھیلے لیکن اسلامی ریاست قائم نہ ہو لوگوں کے قلوب دین کے لیے مسخر ہوجائیں لیکن اس کے باوجود اس پر اہل حق کو تمکن فی الارض حاصل نہ ہو؟ کیا کامیابی غلبے فتح کی اصل علامت صرف اور صرف استخلاف فی الارض ہے؟ کیا اصحاب الاخدود کی کامیابی اس فلسفے کے تحت ناکامی تصور نہ کی جائے؟ سورہ یسٰین کے شہید کی شہادت کے بعد بس ایک دھماکا ہوا اور سب تباہ و برباد ہو کر رہ گئے۔ ایک شہید کی حیات ابدی امت کو حیات ابدی اور کفار کو ابدی موت عطاکرتی ہے کیا وجہ ہے کہ یہ نتائج اب خال خال ہیں۔ امام احمد بن حنبل نے حکمرانوں سے نہ مصالحت کی نہ مفاہمت نہ جنگ عزیمت کے ساتھ ظلم سہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آپ کی شہادت پر تیس ہزار غیر مسلم مسلمان ہوگئے لیکن عصر حاضر کی انقلابی تحریکوں کی کامیابی یا ناکامی کسی مثبت نتیجے اور ثمر سے عاری رہتی ہے آخر کیوں؟ اکثر و بیشتر ان تحریکوں کے اقدامات کے نتیجے میں ناخوشگوار بحثیں، تنازعات، اختلافات اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور امت تقسیم در تقسیم اور انتشار در انتشار کا شکار ہوتی چلی جاتی ہے۔ سورہ یسیٰن میں جس شخص کا ذکر ہے کیا وہ بھی ناکام تھا؟ حالانکہ اصلاً تو وہی کامیاب تھا کہ اسے مومن کی زندگی کی معراج شہادت نصیب ہوئی اور اس شہادت کا ثمر یہ تھا کہ پوری بستی تباہ و برباد کر دی گئی اور اہل حق کو زمین کا وارث بنا دیا گیا۔ کیا استخلاف فی الارض اور کامیابی اسی گروہ کا مقدر ہے جو اس دین کے فروغ کے یے اخلاص و محنت سے جدوجہد کر رہا ہے یا یہ کامیابی اس گروہ یا قربانی دینے والے افراد کی عدم موجودگی میں اگلی نسل کو حاصل ہوسکتی ہے؟ کیا اصحاب الاخدود کی شہادت کے بعد دین قائم نہیں ہوا اور لوگ اللہ کی طرف نہیں پلٹے اور اس خونی واقعے نے اہل دین کو غلبہ عطا نہیں کر دیا؟ کیا اصحاب کہف کے غار میں روپوش ہوجانے کے بعد زمین پر حق قائم ہوا یا نہیں اس لیے اس غار پر عمارت تعمیر کی گئی۔ اصل کامیابی اپنے مقصد پر مرتے دم تک قائم رہنا اس کے لیے مخلصانہ جدوجہد کرتے رہنا اور شہادت سے سرفراز ہوجانا ہے یا اقتدار کا حصول بھی لازمی ہے؟ کیا اقتدار جدوجہد کا صلہ ہے یا نعمت الٰہی ہے جو اللہ رب العزت اپنی حکمت بالغہ کے تحت جسے چاہے عطا کرتا ہے؟ ]

١٨[ اس اعتراض کا جائزہ کہ اسلامی انقلابی احیائی تحریکوں کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے باوجود ان کا اثر و رسوخ محلے، بازار اور معاشرت تک وسیع نہیں ہوسکا۔ اسلامی تہذیب کے ان تین بنیادی احاطوں پر ان تحریکوں کا تسلط بہت کم زور رہا جس کے باعث یہ تحریکیں خاص علاقوں تک محدود و محصور ہوگئیں۔ آخر ان تحریکوں کے پھیلائو میں کیا رکاوٹ ہے؟ محلے بازار خاندان اور معاشرتی سطح پر تبدیلی کے لیے انقلابیوں کو خود کس قسم کی تبدیلیوں کی ضرورت ہے؟ ]

١٩[ اس سوال کا جائزہ کہ اسلامی تحریکوں کی دوغلی غیر فطری حکمت عملی کے باعث نہ ان کے حامی دل سے ان کے حامی رہتے ہیں نہ ان کے مخالف سیکولر لبرل ان کے حامی بنتے ہیں۔ اسلام اور لبرل ازم کے آمیختے سے تعمیر کیا جانے والا جدید اسلام اور اس اسلام کے نفاذ اور نفوذ کے لیے اختیار کیے جانے والے مغربی طور طریقے، اسالیب اور رویے اسلامی تحریکوں کو نہ صرف اپنے حلقوں میں مشکوک بناتے ہیں بلکہ سیکولر اور لبرل بھی ان تحریکوں کے حقیقی لبرل رویوں کو ایک خطرناک چال بلکہ جنگی حکمت عملی سمجھتے ہیں۔ اس طرز عمل کے باعث ان تحریکوں کے مخلص مستعدد اور قابل کارکن تذبذب کا شکار ہو کر کٹ جاتے ہیں اور لبرل سیکولر طبقات ان تحریکوں کی زبردست مخالفت کرتے ہیں جس کے باعث ان انقلابی تحریکوں کو اندرونی اور بیرونی دونوں سطحوں پر شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس سے انقلابی عمل کی رفتار مسلسل مدھم ہو رہی ہے بلکہ بعض ملکوں میں تو ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ ]

٢٠[ مغربی مفکرین کے ان خیالات کا جائزہ کہ اسلام دنیا کا واحد دین ہے جو شریعت پر مکمل عمل درآمد کے لیے ریاست کا طالب ہے اس دین کی تکمیل اس وقت تک ممکن ہی نہیں جب تک شریعت کے تمام اوا مرد نواہی پر عمل کرنے کی سہولتیں میسر نہ ہوں، یہ سہولتیں صرف اسلامی ریاست ہی مہیا کرسکتی ہے۔ حدود و تعزیرات کے نفاذ اور فروغ جہاد کے لیے ریاست کا قیام لازمی ہے۔ شریعت اور ریاست میں اس فطری تعلق کو مغرب کے مفکرین نہایت غصے کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اسلام کے اس منفرد منہاج کو Political Islam کی اصطلاح سے مطعون کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بے شمار مغربی مفکرین کا خیال ہے کہ وہ علمائ، جو گوشہ نشین ہیں جو مدرسے مسجد کی چار دیواری سے باہر نہیں نکلتے اور عملاً سیاست حکومت ریاست سے کسی قسم کا تعلق نہیں رکھتے۔ اپنی متوازی متبادل ریاست میں محصور و مقید ہیں۔ ان کے عقیدے اور دین میں بھی اسلامی ریاست کے وجود کی روح شامل ہے حتی کہ تبلیغی جماعت جو بظاہر سیاست و ریاست سے دور نظر آتی ہے ریاست اور سیاست عقیدے اور نظریے کے طور پر اس کے ایمان کے منہاج میں خودبخود مرکزی مقام کے حامل ہیں کوئی اس کا اقرار کرے یا انکار کرے یا خاموش رہے لہٰذا کسی دینی، دعوتی، غیر سیاسی اسلامی تحریک کو بھی بے ضرر نہ سمجھا جائے۔ تبلیغی جماعت اور دعوت اسلامی تو وہ گہوارے ہیں جہاں لوگوں کو دنیا سے توڑ کر دین سے جوڑنے کا کام کیا جاتا ہے اور جو آدمی دین سے جڑ جائے وہ کسی نہ کسی اسلامی، احیائی، انقلابی تحریک سے وابستہ ہوجاتا ہے یا کسی مجاہدین کے گروہ کا حصہ بن جاتا ہے کیونکہ مسجد اور اللہ سے تعلق اس کے لیے جہاد کو ممکن بنا دیتے ہیں لہٰذا تبلیغی جماعتوں کی دنیا بھر میں آزادانہ نقل و حرکت کو محدود کیا جا رہا ہے اور انھیں خطرناک ترین خاموش انقلابی تصور کیا جا رہا ہے۔ بعض مفکر انھیں اصل اسلامی گوریلے قرار دیتے ہیں جو کسی قسم کے ضرر و غرور اور ہنگامے کے بغیر دین کے لیے لاکھوں لوگوں کی ذہنی تبدیلی کا بنیادی کام کر رہے ہیں۔ ]

٢١[ اسلامی انقلابی تحریکوں کی ایک بڑی کم زوری یہ ہے کہ یہ تحریکیں سیاسی اقتدار کے حصول میں جذباتیت کا مظاہرہ کرتی ہیں اور جہاں کہیں بھی انھیں موجودہ سیکولر ڈھانچے میں کوئی ایسا حکم راں نظر آئے جو اسلام سے محبت کا واجبی اظہار کرتا ہو تو یہ تحریکیں ایسے حکمرانوں اور حکومتوں کے سامنے نہایت خلوص سے ڈھے جاتی ہیں اور ان کی غیر مشروط مشروط بالواسطہ یا بلاواسطہ حمایت و استعانت کر کے انقلابی عمل کو کمزور کر دیتی ہیں۔ قومی معاملات، قومی امور یا قومی دفاع پر حکومتوں سے تعاون کے مسئلے میں یہ تمام انقلابی تحریکیں نہایت زودحس ہیں اور وہ قومی ریاستوں کے تحفظ کے لیے سیکولر ڈھانچے سے بھرپور تعاون کر کے جان و مال کے نذرانے پیش کرتی ہے۔ مصر، پاکستان، ہندوستان، سوڈان وغیرہ اس کی بہترین مثالیں ہیں۔ یہ تحریکیں عموماً قرآنی آیت سلطاناً نصیرا میں اپنے رویے کا جواز تلاش کرتی ہیں اور ضیاء الحق، یحییٰ خان، اور ترکی میں فوج کے ساتھ اقتدار پر شراکت گوارا کرلیتی ہیں یا سیکولر حکومتوں میں شمولیت کی خاطر عزیز مصر کی حکومت میں حضرت یوسف کی شرکت کو وجہ جواز کے طور پر پیش کرتی ہیں۔ کیا انقلابی تحریکوں کا یہ استدلال درست ہے؟ کیا گزشتہ سو برسوں میں کسی اسلامی انقلابی تحریک کو کسی بھی اسلامی، انقلابی، یا سیکولر حکومت میں یا ان کی اپنی قائم کردہ حکومت میں وہ اختیار اور طاقت حاصل ہوئی جو حضرت یوسف کو مصر میں حاصل تھی۔ ظاہر ہے اس کا جواب صریحاً نفی میں ہے تو پھر اس استدلال کی کیا حیثیت ہے؟ کیا انقلابی جماعتوں کو ادھورے، معذور، اقتدار میں شراکت کے بجائے مکمل اقتدار تک گریز کی حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے یا کوئی اور طریقہ کار اخذ کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک تجزیہ؟]

٢٢[اس نقطہ نظر کا جائزہ کہ سورئہ نمل میں حضرت سلمان اور ملکہ سباء کے درمیان خط و کتابت سے یہ اصول اخذ ہوتا ہے کہ کفر و شرک کا اقتدار خدا کی زمین پر سب سے بڑا فساد ہے جس کو مغلوب کرنا اہل حق کے فرائض میں سے ہے دنیا میں قائم ہر حکومت پر اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری لازمی ہے لہٰذا اسلامی تحریکوں کا اصل کام اعلائے کلمة الحق ہے نہ کہ شرک و کفر کے اقتدار کو جائز تصور کر کے اس کے ساتھ سیاسی، سماجی رشتے حالات و زمانے کی رعایت کے نام پر استوار کیے جائیں اور اس نظام میں اپنے لیے محفوظ جگہ تلاش کی جائے۔ کیا وجہ ہے کہ پاکستان اور ترکی کی اسلامی جماعتیں نص صریح کے خلاف سیاسی عمل میں مصروف ہیں؟ ]

٢٣[ دین کا اصل کام لوگوں کی ترجیح دنیا سے بدل کر آخرت کرنا اور لوگوں کو آخرت کے اس امتحان کے لیے چوکس آمادہ اور تیار کرنا ہے۔ قرآن اور انبیاء کرام کی تمام تر جدوجہد کا نقطہ ماسکہ آخرت کی یاد اور یوم قیامت میں کامیابی کی جستجو ہے۔ کیا وجہ ہے کہ انقلابی تحریکوں کی سیاسی مہمات، انتخابی جلسے، تقاریر، اور حکومت و اقتدار میں آنے کے بعد بھی ان کے مباحث، مکالمے، گفتگو، تقاریر، اشتہارات تک میں آخرت کا کوئی ذکر تصور خیال تک نہیں ملتا۔ کراچی میں نعمت اللہ خان کی حکومت، صوبہ سرحد بلوچستان میں جماعت اسلامی و ایم ایم اے کی حکومت، ترکی میں اربکان و عبداللہ گل کی حکومت، سوڈان میں ترابی اور جنرل حسن البشیر اور ایران کی انقلابی اسلامی حکومتوں کے باوجود انقلابی اسلامی جدوجہد میں تصور و فکر آخرت کو مرکزی تو کیا ضمنی اہمیت بھی کبھی حاصل نہ ہوئی ان ملکوں، جماعتوں کے انتخابی منشور میں آخرت کی کوئی گنجائش ہی نہیں ایسا کیوں ہے؟ کیا یہ محض حکمت عملی ہے یا سیاسی مجبوری ہے یا حالات کا تقاضہ ہے یا فی الواقع یہ تحریکیں آخرت میں عوام کے لیے کوئی کشش نہیں پاتیں اور عوام کو متحرک کرنے کے لیے صرف دنیا پرستی کے مظاہر کو اختیار کرنے پر مجبور ہیں۔ کیا حبل الناس کی خاطر حبل اللہ کو ترک کر دیا جائے؟ کیا تصور آخرت کی اہمیت اجاگر کر کے کوئی انتخاب جیتا جاسکتا ہے؟ ]

٢٤[ اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ والذین جاہد وافینا… ]العنکبوت آیت

٦٩[ اور جو لوگ ہماری راہ میں مشقتیں جھیل رہے ہیں ہم ان پر اپنی راہیں ضرور کھولیں گے یعنی مظلوم مسلمانوں کے لیے نئی راہیں بھی کھلیں گی دنیا کی مشکلات بھی حل ہوں گی اور آخرت میں بھی کامیابی نصیب ہوگی لیکن بظاہر محسوس ہوتا ہے کہ گزشتہ سو برس کی تحریکوں کے معاملے میں خدانخواستہ یہ وعدہ پورا نہ ہوا۔ کیا اس کا مطلب یہی نہیں ہے کہ ہماری جدوجہد میں ضرور کوئی نقص ہے جس کے باعث ہم اللہ کے وعدے سے محروم رہے؟ ]

٢٥[ الروم ٤٧ میں کہا گیا ہے کہ اہل ایمان کی نصرت ہم پر لازم ہے۔ وکان حقاً علینا نصرا المومنین تو پھر کیا وجہ ہے کہ اہل ایمان کے لیے اللہ تعالیٰ کی نصرت نہیں آرہی؟ کیا یہ تاثر درست ہے؟ ]

٢٦[ سورہ الروم کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ حالات کے باطن تک لوگوں کی نگاہ نہیں پہنچ پاتی وہ سرسری طور پر حالات کو دیکھ کر غلط نتائج نکالتے ہیں کائنات بالحق پیدا کی گئی ہے۔ تمام معاملات اللہ کے اختیار میں ہیں حق اور اہل حق کی سرفرازی کا وعدہ پورا ہو کر رہے گا لیکن عملاً حق اور اہل حق کی کامیابی کے امکانات گزشتہ سو برس میں مسلسل معدوم ہو رہے ہیں آیا نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ پورا نہیں فرمایا، یا ہم نے آپ کو اس وعدے کے لیے خود تیار نہیں یا یہ ناکامیاں ہی آخر کار بڑی کامیابی کی راہ ہموار کریں گی یا ناکامیاں ہی اصل انقلاب ہے۔ اصل صورت حال کیا ہے؟ ]

٢٧[ اس خیال کا جائزہ کہ آیت ۔ ٤١، الروم بتاتی ہے کہ خشکی اور تری میں ہر جگہ لوگوں کے اعمال کے نتیجے میں فساد چھا گیا ہے۔ فساد فی الارض کی وجہ انسان کا حق سے منحرف ہونا اس کے ایمان کا کمزور ہونا، اس کا منافقت اختیار کرنا، دین میں مداہنت برتنا ہے۔ انقلابی اسلامی تحریکوں کے منشور اور دستور میں لوگوں کو غلط اعمال سے روکنے کے لیے کوئی انسدادی، دعوتی، معجزاتی طریقہ کار نہیں، وہ لوگوں کو فساد سے روکنے کا صرف ایک طریقہ کارگر سمجھتے ہیں۔ وہ اقتدار ہے، اسلامی تحریکوں کا یہ اجتہاد کہ فساد فی الارض صرف اور صرف اقتدار کی طاقت و شوکت سے روکا جاسکتا ہے۔ کیا یہ اپنی نوعیت کا منفرد اجتہاد ہے کیا یہ الحاد سے قریب تر ہے جس کے نتائج ہمیشہ منفی آرہے ہیں؟ ]

٢٨[ سورہ العنکبوت آیت٣٠ میں زوال، تباہی، بربادی کا قانون بتاتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے مختلف امتوں کے قصص کے اختتام پر فرمایا کہ ”پس ہم نے ان میں سے ہر ایک کو اس کے گناہ کی پاداش میں پکڑا فکلا اخذنا بذنبہِ قرآن میں امتوں قوموں کے زوال کا اصل سبب ہر جگہ ایک ہی بیان کیا گیا ہے۔ کثرت ذنوب، خطائیں، سئیات بداعمالیاں ناشکرا پن اس کے سوا زوال کا کوئی اور سبب نہیں بتایا گیا۔ امت مسلمہ کا زوال بھی اسی باعث ہوا جب کہ ان کے پاس کتاب بھی تھی اور سلطنت بھی، ایمان بھی تھا اور سنت رسالت مآبۖ بھی، کیا امت مسلمہ کو عروج کثرتِ گناہوں کے ساتھ مل سکتا ہے۔ اگر نصوص صریح کی روشنی میں نہیں مل سکتا تو امت مسلمہ کے انقلابی مسلمان معاشروں کو تبدیل کیے بغیر گناہگار معاشرت کو نیکوکار بنائے بغیر انقلاب کا خواب کیوں دیکھ رہے اور دکھا رہے ہیں؟ ]

٢٩[ سورہ قصص کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ حق کا ساتھ دینے والے کم زور اور حق کے مخالفین مضبوط ہوں تب بھی اللہ تعالیٰ حق کو قائم اور اس کے مخالفین کو تباہ کر دیتا ہے لہٰذا حق کے پیش کرنے میں کسی نرمی سے مداہنت سے مصالحت سے مفاہمت سے کچھ لو اور دو سے، غصِ بصر سے، اعراض سے کام نہ لیا جائے اور نظام کفر کے ساتھ کسی قسم کی مصالحت کسی سطح پر بھی قبول نہ کی جائے۔ اس رویے کے ساتھ اگر اہل حق دین کا کام کریں تو خواہ وہ تعداد میں تھوڑے ہوں، بلکہ برائے نام نہ ہوں یا صرف دو چار ہوں تب بھی غلبہ ان کو ملے گا کامیابی انھیں عطا ہوگی۔ تمکن فی الارض انھیں حاصل ہوگا زمین کے وارث اور استخلاف فی الارض کے حق دار یہی مخلص غیرلکچدار رویہ رکھنے والے مومنین ہوں گے اس کی مثال حضرت موسیٰ سے دی گئی ہے جو غلام قوم کے فرد تھے، محل میں پروان چڑھے تھے، ایک قبطی ان کے ہاتھوں قتل ہوچکا تھا لیکن ان کو اور ان کی قوم کو اللہ نے عروج دیا اسی طرح حضرات انبیاء نوح، شعیب، لوط کی قوم ہے، حضرت لوط کی قوم میں تو صرف ان کا ایک گھر حق پر قائم تھا اور آپ کی بیوی بھی قوم سے مل گئی تھی اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے کامیابی عطا فرمائی۔ ان سب واقعات کے باوجود انقلابی تحریکیں حبل اللہ کے بجائے حبل الناس کے ذریعے انقلاب امامت کا خواب کیوں دیکھ رہی ہیں۔ ]

٣٠[ انقلاب کے لیے انقلاب برپا کرنے والوں کی طرف لوگوں کے دلوں کا مائل ہونا نہایت ضروری ہے۔ حضرت ابراہیم نے اپنے رب سے دعا کی تھی فاجعل افدِةً من الناس تھوی الیہم آپ لوگوں کے دل ان کی طرف مائل کر دیجیے یعنی لوگوں کے دلوں کو ہمارا مشتاق بنا دیجیے۔ انقلاب برپا کرنے کے لیے انقلابیوں کی طرف لوگوں کے دلوں کا مائل ہونا بہت ضروری ہے۔ کیا وجہ ہے کہ عہد حاضر کی انقلابی تحریکوں کی جانب لوگوں کے دل مائل نہیں ہیں اور انقلابیوں کے اہداف میں لوگوں کے دلوں کو مائل کرنے انھیں اپنا مشتاق بنانے کی کوئی تڑپ اور امنگ موجود تک نہیں ہے؟ کیا وجہ ہے کہ عہد حاضر کی انقلابی تحریکوں کی جانب لوگوں کے دل مائل نہیں ہیں بلکہ اٰنقلابیوں کے دل عوام کی طرف مائل ہیں وہ عوام کے مشتاق ہیں جو عوام چاہتے ہیں انقلابی وہی کر گزرتے ہیں، انقلابیوں کے ایجنڈے میں لوگوں کے دلوں کو مائل کرنے کی کوئی طلب، تڑپ، جستجو آرزو کوشش بھی نہیں ہے کیوں؟ ]

٣١[ قرآن نے بار بار مختلف زاویوں سے دنیا کی زندگی کو ایک گھڑی، ایک دن چند لمحات قرار دیا ہے۔ مالبثوا غیر ساعةٍ اسلامی تحریکوں کی تمام تر سیاسی جدوجہد، ان کے دساتیر، منشور، ریلیاں جلسے جلوس دھرنے، کانفرنس، سیمینار، ٹینلٹ شو، بازار، میلے، ٹھیلے چوپالیں، بیٹھکیں، دنیا کی اس ایک دن کی زندگی میں حاصل ہونے والے اقتدار کے لیے مرتکز ہوگئی ہیں اور آخرت جو اصل زندگی ہے اس کی طرف لوگوں کو لانے، قائل کرنے، متوجہ کرنے کی ضرورت اور تحریک کم سے کم ہوتی جا رہی ہے۔ کیا اسلامی انقلابی تحریکوں نے دنیا کی زندگی کو ہی اصل سمجھ لیا ہے یا پروٹسٹنٹ ازم کے فلسفے کو اختیار کرلیا ہے جس کے تحت بادشاہ ہی ظل الٰہی ہے کیوں کہ جو دنیا میں کامیاب ہے وہی آخرت میں بھی کامیاب ہے لہٰذا ان تحریکوں کی تمام تر جدوجہد، کوشش کا مرکزی ہدف کسی نہ کسی اقتدار کا حصول رہ گیا ہے یا کسی نہ کسی اقتدار سے وابستگی۔ ]

٣٢[ قرآن نے کفر و اسلام میں فرق واضح کرنے کے لیے الاحزاب میں زبردست استدلال کیا ہے ماجعل اللہ لرجل من قلبین فی جوفہ اللہ نے کسی شخص کے سینے میں دو دل نہیں رکھے ]آیت نمبر٤[ اس استدلال سے یہ بات واضح کر دی گئی کہ اہل ایمان کے ساتھ اہل نفاق، مشرکین، کفار، اہل دنیا کے افکار کا میل جول نہیں ہوسکتا جس طرح ایک سینے میں ایک ہی دل ہوتا ہے اسی طرح ایک خدا ایک کتاب، ایک رسول پر ایمان لازمی ہوتا ہے کہ یہ سب دل کی مانند ضروری ہیں اور ان چیزوں کی موجودگی میں اگر کوئی بندہ مومن حکمت مصلحت مصالحت کے تحت طاغوت، کفر، شرک کے نظام سے اپنے اصولوں پر سودے بازی کرتا ہے تو وہ دراصل اہل حق اور اہل ایمان کے زمرے میں اپنے آپ کو رکھنے پر اصرار نہیں کرسکتا۔ عہد حاضر کی انقلابی تحریکیں اک شخص کے سینے میں دو بلکہ دو سے زیادہ دلوں کے ہونے کی مدعی ہیں کیا یہ بیانیہ درست ہے؟ ]

٣٣[ خدا پر ایمان اور شرک، رسول کی اطاعت کا عہد اور اس کے دشمنوں سے ساز باز، متضاد فکر و ارادہ، دین کے خاطر دین سے انحراف، شریعت کے نفاذ کے لیے شریعت سے انکار کے اقرار پر مغربی نظام سیاست قائم کرنا عملاً اس آیت کی خلاف ورزی نہیں ہے؟ ]

٣٤[ قرآن نے الاحزاب آیت٢١ میں واضح فرمایا دیا لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَة حَسَنَة لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًا ]الاحزاب:٢١[ رسول اللہ کی زندگی میں امت مسلمہ کے لیے بہترین نمونہ ہے۔ لیکن عملاً اس وقت اسلامی تحریکوں، انقلابیوں، اسلامی گروہوں کی نظر میں بہترین نمونہ مغرب کی زندگی، مغرب کی سول سوسائٹی، مغرب کے اداروں، افکار طرز زندگی اسلوب حیات میں نظر آتا ہے۔ ازواج مطہرات و صحابہ کرام زندگی کی مادی لذتوں و راحتوں سے محروم تھیں۔ رسول اللہ اور ان کی تمام ازواج مطہرات اور رسالت مآب کے تمام صحابہ کرام نے آخرت کو دنیا پر ترجیح دی اور اس کے مقابلے میں دنیا کی زیب و زینت اور زندگی کو مسترد کر دیا۔ ان کا حال قرآن نے یہ بیان کیا کہ وہ اپنے آپ پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں۔ خواہ اپنی جگہ خود ضرورت مند ہوں ]الحشر[ یہ سپردگی یہ ایمانی کیفیت اس وقت اپنے نقطہ عروج پر پہنچی ہے جب ازواج مطہرات کی جانب سے خوشحال زندگی کے ثمرات کے مطالبات رسول اللہۖ کی جناب میں اصرار کے ساتھ پیش کیے گئے تو آیت نازل ہوئی۔ یٰاَیُّھَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِکَ اِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَھَا فَتَعَالَیْنَ اُمَتِّعْکُنَّ وَ اُسَرِّحْکُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا ]الاحزاب:٢٨[ اے نبیۖ آپ ازواج مطہراتۖ سے فرما دیجیے کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زینتوں کی طالب ہو تو آئو میں تمہیں دے دلا کر خوبصورتی کے ساتھ رخصت کردوں۔ دنیا کی زندگی اور زینت دنیا شرعاً ممنوع نہیں لیکن داعیانہ مقام کے حاملین اور علماء فقہاء و صوفیاء اور ان کے اہل خانہ کی زندگی اس سے معریٰ ہوتی ہے اسی لیے رسالت مآب نے امت مسلمہ کے علماء کو انبیاء بنی اسرائیل کا درجہ دیا ہے کیا ہماری انقلابی تحریکوں کے قائدین درویشی سادگی اور سنت نبوی کے تارک ہیں یا اس پر عامل؟ کیا وہ دنیا سے اسی قدر تمتع فرماتے ہیں جس قدر رسالت مآبۖ نے کیا تھا اور فرمایا تھا کہ میں تو مسافر ہوں چند لمحوں کے لیے دنیا میں رکا ہوں مجھے دنیا سے کیا لینا؟ دنیا کو اس قدر ہیچ سمجھے بغیر خلافت انقلابی تحریکوں کو مل سکتی ہے؟ کیا حب دنیا حب جاہ اور حب مال نے ہمارے اخلاقی وجود کو سوالیہ نشان نہیں بنا دیا کیا وہ زہد و تورع وہ بے نیازی موجود ہے جو فی الاصل مطلوب ہے۔ ]

٣٥[ حضورۖ نے اپنے منہ بولے بیٹے حضرت زید بن حارثہ سے اپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زینب بن جحش کا نکاح فرما دیا تھا۔ ایک غلام سے قریشی عورت کا نکاح قدیم سماجی نظام پر زبردست ضرب تھی۔ کفار اس نکاح پر اعتراض کرتے تھے کہ ایک اعلیٰ خاندان کی عورت کا ایک غلام سے کیا جوڑ۔ حضرت زید نے طلاق کا ارادہ کرلیا اور اللہ تعالیٰ نے اس بات کا فیصلہ کیا کہ حضرت زینب سے نکاح رسول اللہ فرمائیں تاکہ عرب کی اس کافرانہ رسم کو ہمیشہ کے لیے توڑ دیا جائے کہ منہ بولا بیٹا حقیقی بیٹا ہوتا ہے اس کی بیوی سے نکاح جائز نہیں۔ رسول اللہ اس معاملے میں تذبذب کا شکار تھے۔ اس تردد کے باعث آپۖ نے حضرت زید کو طلاق دینے سے باز رکھنے کی کوشش کی جس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَ اِذْ تَقُوْلُ لِلَّذِیْ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِ اَمْسِکْ عَلَیْکَ زَوْجَکَ وَاتَّقِ اللّٰہَ وَ تُخْفِیْ فِیْ نَفْسِکَ مَا اللّٰہُ مُبْدِیْہِ وَ تَخْشَی النَّاسَ وَاللّٰہُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشٰہُ فَلَمَّا قَضٰی زَیْد مِّنْھَا وَطَرًا زَوَّجْنٰکَھَا لِکَیْ لَا یَکُوْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ حَرَج فِیْ اَزْوَاجِ اَدْعِیَآئِھِمْ اِذَا قَضَوْا مِنْھُنَّ وَطَرًا وَ کَانَ اَمْرُ اللّٰہِ مَفْعُوْلً ]

٣٧[ مَا کَانَ عَلَی النَّبِیِّ مِنْ حَرَجٍ فِیْ مَا فَرَضَ اللّٰہُ لَہ سُنَّةَ اللّٰہِ فِی الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ وَ کَانَ اَمْرُ اللّٰہِ قَدَرًا مَّقْدُوْرَنِ ]الاحزاب آیت ٣٧۔٣٨[ ان آیت کے ذریعے رسول اللہ کو بتا دیا گیا کہ پیغمبر کا کام رسوم و رواج کی زنجیروں کو توڑنا ہے ان سے گھبرانا نہیں۔ رسوم و رواج کو صرف پیغمبر ہی توڑ سکتے ہیں کیونکہ رسوم و رواج کو پامال کرنا پیروں تلے روندنا بڑے بڑے لوگوں کے لیے ممکن نہیں وقت کا الوالعزم پیغمبر ہی یہ کام انجام دے سکتا ہے۔ کیونکہ وہ زمین پر حق کی حجت قائم کرتے ہیں اور لوگوں کو ان بوجھوں سے آزاد کرتے ہیں جو معاشرے اپنی جاہلیت کے ذریعے خود مسلط کرتے اور اس کے بوجھ سے خود کراہتے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ انقلابی اسلامی تحریکیں سیاسی انقلابات ہنگامے اور جہاد میں بھرپور حصہ لیتی ہیں لیکن معاشرتی رسوم و رواج کو تبدیل کرنے پر توجہ مرکوز نہیں کرتیں۔ حضرت سید احمد شہید نے صوبہ سرحد میں نکاح بیوگاں، جائیداد میں عورت کی میراث وغیرہ جیسی جاہلانہ رسومات کے خلاف جہاد کیا تو آپ کے خلاف بغاوت ہوگئی۔ تحریک نفاذ شریعت کے صوفی محمد صاحب سے انٹرویو میں پوچھا گیا کہ آپ حکومت کے خلاف عسکری جدوجہد کر رہے ہیں لیکن اپنے علاقے میں غیر شرعی رسوم کے خلاف آواز کیوں نہیں اٹھاتے مثلاً عورت کو طلاق دیے بغیر گھر بٹھا لینا کہ طلاق عزت کے خلاف ہے، عورتوں کو جائیداد سے محروم رکھنا، نکاح بیوگان سے احتراز تو حضرت والا نے فرمایا کہ یہ کام اقتدار میں آنے کے بعد کیے جائیں گے۔ غالباً اسلامی تحریکیں اسے مشکل کام سمجھ کر اقتدار کے سائبان کو ضروری خیال کرتی ہیں لیکن نہ اقتدار ملتا ہے نہ سومات ختم ہوتی ہیں۔ کیا معاشرت کی اصلاح کے بغیر ایوان حکومت میں کامیابی فائدہ مند ہوسکتی ہے؟ کیا وجہ ہے کہ اسلامی انقلابی تحریکوں کی طبع کردہ کتابوں میں معاشرت پر برائے نام کتابیں بھی نہیں ملتیں۔ معاشرت کو اس قدر غیر اہم کیوں سمجھ لیا گیا ہے۔ کیا انقلابی تحریکیں انقلاب ہوا، خلاء اور فضاء میں برپا کریں گی یا زمین پر تو معاشرت کی تبدیلی کے بغیر یہ انقلاب کامیاب کیسے ہوسکتا ہے؟ ]

٣٦[ کَذَّبَتْ قَبْلَہُمْ قَوْمُ نُوْحٍ وَّالْاَحْزَابُ مِنْم بَعْدِہِمْ وَہَمَّتْ کُلُّ اُمَّةٍم بِرَسُوْلِہِمْ لِیَاْخُذُوْہُ وَجَادَلُوْا بِالْبَاطِلِ لِیُدْحِضُوْا بِہ الْحَقَّ فَاَخَذْتُہُمْ فَکَیْفَ کَانَ عِقَابِ ]مومن:٥[ قرآن بتاتا ہے کہ حضرت نوح اور ان کے بعد جتنے بھی رسول، پیغمبر، انبیاء تشریف لائے ہر امت نے اپنے رسول پر ہاتھ ڈالنے کا ارادہ کیا انھیں نیچا دکھانے کی کوشش کی اور باطل کے ذریعے سے کج بحثیاں کیں تاکہ حق کو پسپا کر دیں لیکن اللہ تعالیٰ نے انھیں اس ظلم و جہالت پر پکڑ لیا اور عبرتناک سزا دی۔ آل عمران آیت ١٤٨۔١٤٦ میں یہی مضمون بیان کیا گیا ہے وَ کَاَیِّنْ مِّنْ نَّبِیٍّ قٰتَلَ مَعَہ رِبِّیُّوْنَ کَثِیْر فَمَا وَ ھَنُوْا لِمَآ اَصَابَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ مَا ضَعُفُوْا وَ مَا اسْتَکَانُوْا وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الصّٰبِرِیْنَo  وَ مَا کَانَ قَوْلَھُمْ اِلَّآ اَنْ قَالُوْا رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَ اِسْرَافَنَا فِیْ اَمْرِنَا وَ ثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَ انْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ o فَاٰتٰھُمُ اللّٰہُ ثَوَابَ الدُّنْیَا وَ حُسْنَ ثَوَابِ الْاٰخِرَةِ وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ اس سے پہلے کتنے ہی نبی ایسے گزر چکے ہیں جن کے ساتھ مل کر بہت سے خدا پرستوں نے جنگ کی اللہ کی راہ میں جو مصیبتیں ان پر پڑیں ان سے وہ دل شکستہ نہ ہوئے انھوں نے کم زوری نہیں دکھائی وہ ]باطل کے آگے[ سرنگوں نہیں ہوئے ایسے ہی صابروں کو الہ پسند کرتا ہے ان کی دعا بس یہ تھی کہ ہمارے رب ہماری غلطیوں اور کوتاہیوں سے در گزر فرما۔ ہمارے کام میں تیرے حدود سے جو کچھ تجاوز ہوگیا ہے اسے معاف فرما دے ہمارے قدم جما دے اور کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد کر، آخرکار اللہ نے ان کو دنیا کا ثواب بھی دیا اور اس سے بہتر ثواب آخرت بھی عطا کیا اللہ کو ایسے ہی نیک عمل لوگ پسند ہیں۔ یہ دونوں آیات بتاتی ہیں کہ انبیاء اور رسولوں نے ہمیشہ حق کے لیے جان کی بازی لگائی اور اس عہد کے مشرکین و منافقین و کفار نے ان کو شکست دینے کے لیے پورا زور لگایا اور آخر کار شکست کفار کو ہوئی اگر بہ ظاہر عارضی شکست نظر آئی یا انبیاء قتل ہوئے تب بھی ان کی شہادت کے فوری بعد حقیقی فتح انبیاء کے پیروکاروں اور جانشینوں کو ملی۔ ضروری نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنا وعدہ رسول کی زندگی میں پورا کرے وہ اپنا وعدہ رسول کے گزر جانے اور شہادت پانے اور اہل حق کے ختم ہوجانے کے بعد بھی اس شان سے پورا کرتا ہے کہ زمین و آسمان حیرت زدہ رہ جاتے ہیں جیسا کہ سورہ یسٰین اور اصحاب الاخدود کے معاملے میں نظر آتا ہے۔ رسالت مآبۖ سے بھی اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر فرما دیا تھا کہ فَاصْبِرْ اِِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقّ فَاِِمَّا نُرِیَنَّکَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُہُمْ اَوْ نَتَوَفَّیَنَّکَ فَاِِلَیْنَا یُرْجَعُوْنَ پس اے نبیۖ صبر کیجیے اللہ کا وعدہ برحق ہے اب خواہ ہم آپ کے سامنے ہی ان کو برے نتائج کا کوئی حصہ دکھا دیں جن سے ہم انھیں ڈرا رہے ہیں یا ]اس سے پہلے[ آپ کو دنیا سے اٹھالیں پلٹ کر آنا تو انھیں ہماری ہی طرف ہے ]المومن:٧٧[  بے شک ہم مدد کریں گے اپنے رسولوں اور ایمان والوں کی دنیا کی زندگی میں بھی اور اس دن بھی مدد کریں گے جس دن گواہ اس کے حضور میں پیش ہوں گے۔ اِِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَیَوْمَ یَقُوْمُ الْاَشْہَادُ ]المومن:٥١[ اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ مسلمانوں کی مدد فرمائے گا۔ اہل ایمان، مخلصین، راسخون فی العلم، اہل حق کے تمام گروہوں سے تمام زمانوں میں اللہ کا وعدہ یہی رہا ہے اور قیامت تک یہی رہے گا بشرطیکہ اہل حق صراط مستقیم پر گامزن رہتے ہوئے صبر، حکمت، صلوٰة اور راستی پر قائم رہیں اور کفر سے کسی قسم کی مصالحت نہ کریں کیا وجہ ہے کہ انقلابی تحریکوں کو اللہ کے ان وعدوں میں سے بہت کم حصہ مل رہا ہے کہیں ہم اپنی راہ سے بھٹک تو نہیں گئے؟ ہمارے عمل میں کوئی کجی تو نہیں آگئی اور ہم دین کے نام پر دین میں غلو تو نہیں کر رہے؟ ایک اہم جائزہ۔ ]

٣٧[ اللہ کی رحمت یہ ہے کہ وہ قیامت کے دن لوگوں کو برے نتائج کے اعمال سے بچا لے اور جن کو اللہ نے اس دن برے نتائج سے بچا لیا تو دراصل اس نے ان لوگوں پر رحم فرما کر انھیں جنت کا حق دار بنا دیا ]المومن:٩[ لوگوں کو قیامت کے دن کامیاب بنانا مومنین کا اصل ہدف ہے کیا انقلابی اسلامی تحریکیں اس ہد ف کے لیے کام کر رہی ہیں ان کی تحریروں اور مطالبات اور تقریروں میں اس ہدف کا کیا مقام ہے؟ کیا یہ اہم سوال نہیں؟ ]

٣٨[ کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں کہ دیکھتے کیا انجام ہوا ان لوگوں کا جو اس سے پہلے گزرچکے ہیں وہ ان سے کہیں بڑھ چڑھ کر تھے، قوت میں اور ان آثار کے اعتبار سے بھی جو انھوں نے زمین میں چھوڑے پس اللہ نے ان کے گناہوں کی پاداش میں ان کو پکڑا اور کوئی ان کو اللہ کی پکڑ سے بچانے والا نہ تھا۔ اَوَ لَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَةُ الَّذِیْنَ کَانُوْا مِنْ قَبْلِہِمْ کَانُوْا ہُمْ اَشَدَّ مِنْہُمْ قُوَّةً وَّاٰثَارًا فِی الْاَرْضِ فَاَخَذَہُمُ اللّٰہُ بِذُنُوبِہِمْ وَمَا کَانَ لَہُمْ مِّنَ اللّٰہِ مِنْ وَّاقٍ ]مومن:٢١[ ہر امت اور قوم کی پکڑ ذنوبہم کے باعث ہوئی۔ لہٰذا امت مسلمہ کا بحیثیت امت وسط پہلا کام لوگوں کو گناہوں سے بچا کر پرہیزگاری کی طرف لانا ہے لیکن کسی انقلابی اسلامی جماعت کے منشور میں گناہگاروں کے لیے پاکیزہ زندگی بسر کرانے، ان کے قلب تبدیل کرنے، ان کو صراط مستقیم پر لانے، ان کے ذہن و دل کے مراکز کو بدلنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ سارے منصوبے دماغی صلاحیتیں اقتدار پر قبضہ کرنے کے لیے وقف ہیں کیا انقلابی اسلامی تحریکوں کا یہ نقطہ نظر درست ہے؟ ]

٣٩[ ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب کا وارث بنایا ]المومن:٥٣[ کتاب کے وارث بنانے کا لازمی نتیجہ اور حضرت موسیٰ پر ایمان لانے کا صلہ یہ تھا کہ اس کی میراث میں ان کے لیے غلبہ و اقتدار کو ممکن بنا دیا گیا۔ کیا استخلاف فی الارض یعنی زمین کی خلافت سیاسی جدوجہد، مطالباتی مہم، نعروں، جذباتی تقریروں، جلوسوں، پمفلٹ، کیسٹ اور پوسٹر کے ذریعہ ملتی ہے یا یہ ایک ملت کے اعمال صالحہ کا فطری انعام ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے نعمت اور آزمائش کے طور پر عطا ہوتا ہے۔ ]یونس:١٤[ خلافت ارضی خلافت کی جدوجہد کے ذریعہ ملتی ہے یا اپنے آپ کو رب کے سپرد کرنے اور اپنی تمام کوششوں کو اس کی رضا طلبی کے لیے وقف کر دینے کے نتیجہ میں بطور انعام ملتی ہے۔ ]النور:٥٥[ اگر روئے زمین پر ایک صالح گروہ موجود ہو جو اپنے ایمان علم عمل کے ذریعے آزمائش میں ثابت قدم رہا ہو تو کیا لازماً اسے خلافت ارضی عطا کرنا مشیت ربی کا تقاضہ ہے یا اللہ تعالیٰ اپنی مشیت کے تحت اس گروہ کو استخلاف فی الارض سے اپنی حکمت بالغہ کے تحت محروم رکھ سکتا ہے۔ کیونکہ کسی گروہ کو اقتدار کا ملنا اس کے جذبہ شکر کی آزمائش ہے اور کسی گروہ کو اقتدار سے محروم رکھنا اس کے صبر کا امتحان ہے اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو شکر اور صبر کے امتحانات سے گزارتا ہے اور پھر مناسب موقع پر اپنی حکمت کلی کے تحت اقتدار عطا فرما دیتا ہے۔ ان نقطۂ ہائے نظر کا سورہ یونس: ١٤، سورہ النور:٥٥، اور آل عمران:٢٦ اور دیگر آیات کی روشنی میں تقابلی جائزہ۔ کیا خلافت فی الاصل مقصود ایمان ہے کیا یہ کسی گروہ کا استحقاق ہے یا انعام؟ کیا اکثر ایسا نہیں ہوا کہ ایک گروہ کلمہ حق کہتے کہتے شہید ہوگیا لیکن یہ شہادت انقلاب اور خلافت ارض کا عنوان بن گئی کیا اصحاب الاخدود، اصحاب کہف، اور سورہ یسیٰن کے شہید کے حالات اس نقطہ نظر کی ترجمانی نہیں کرتے؟]

٤٠[ اس نقطۂ نظر کا جائزہ کہ امام ابو حنیفہ نے خلیفہ وقت سے تمام تر اختلافات کے باوجود کبھی مسلح جدوجہد، احتجاج، ہنگامہ آرائی، جلسہ جلوس، مطالبات اور احتجاجی بیانات کا طریقہ اختیار نہیں فرمایا۔ ریاست کی مخالفت کا سارا رخ حضرت امام ابو حنیفہ نے اپنی ذات تک مرکوز رکھا جس کے نتیجے میں ان کا مکتب فکر، ان کا حلقہ درس، ان کے تلامذہ ان کے علمی کام کو کسی قسم کا کوئی گزند نہ پہنچا بلکہ ان کی جرأت، عزیمت، قربانی اور ایثار کے باعث فقہ حنفی کو شرق سے غرب تک پذیرائی حاصل ہوئی۔ اگر امام ابو حنیفہ ردعمل کی سیاست کا شکار ہوتے تو کیا یہ نتائج حاصل ہوسکتے تھے؟ یہی رویہ امام احمد بن حنبل اور امام مالک کا رہا۔ ان کے شاگردوں، متوسلین، حامیوں کا حلقہ معاشرے کی صفوں سے لے کر ریاست اور فوج کی صفوں تک محیط تھا لیکن ان ائمہ نے اپنے حامیوں کو مقابلے پر لانے، عسکری جدوجہد کرنے کے بجائے اپنی ذات، ہستی، شخصیت اور اپنی پیٹھ کو کوڑوں کے لیے پیش کر کے امت کو حفاظت کے ساتھ اپنی علمی میراث اور اس کا تحفظ کرنے والی علماء فقہاء صوفیاء کی ایک منظم جماعت کو منتقل کر دیا۔ ظلم و تشدد سہنا صبر کی آخری منزل ہے۔ اس کے نتیجے میں ظلم کی رات خواہ کس قدر طویل ہو لیکن ظلم کا اقتدار اسی قدر کم زور، ناپائیدار اور بوسیدہ ہوجاتا ہے۔ اور دعوت دین ردعمل میں نہایت شدت سے پھیلتی ہے۔ مظلوم کے لیے ہمدردی اور محبت کا بادل پورے عالم کو محیط ہوجاتا ہے۔ توانائی ضائع کرنے کے بجائے اس کی سمت بدل دینا حکمت دین کا تقاضہ ہے۔ سب کو شہادت کے لیے تیار کرنا آسان ہے لیکن زمین کو محسنین کے وجود سے خالی کر دینا حکمت کا تقاضہ نہیں۔ ان ائمہ کو اپنے اپنے شہروں میں بلکہ خلافت عباسیہ میں عمومی قبولیت حاصل تھی لیکن انھوں نے کبھی اپنے حامیوں کو جتھے کی صورت میں منظم کر کے ریاست سے لڑنے کی دعوت نہیں دی۔ آخر کیوں؟ کیا ائمہ کا یہ رویہ ہماری اسلامی اصلاحی انقلابی احیائی تحریکوں کی نظر سے اوجھل ہے؟]

٤١[ یہ بات درست ہے کہ شہادت مطلوب، مقصود مومن ہے لیکن شہادت اسی طریقے سے طلب کی جائے گی جو قرآن و سنت اور تعامل امت سے ثابت ہے۔ موت سے معانقہ بھی اسی طرح کیا جائے گا جو اجماع سے ثابت ہے شہادت میں بھی جدیدیت پسندی کی روایت کا اتباع جائز نہیں؟]

٤٢[ ایک سوال شدت سے بار بار اٹھایا جا رہا ہے کہ وہ لوگ جو اپنے شہر کو اپنا ہم خیال نہ بنا سکے شہر کے چند محلوں میں اپنی عمل داری قائم نہ کرسکے جن کی آواز پر ان کے مکتب فکر کے علماء نے معاونت سے انکار کر دیا۔ انھیں کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ عسکری جدوجہد کا بیڑہ اٹھالیں۔ عسکری جدوجہد اس وقت شروع کی جاتی ہے جب دعوت کی علمیت غالب ہوجائے اور جب دعوت یا انقلاب اپنے آخری مرحلے میں داخل ہوجائے اور اہل حق کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ پیدا ہوجائے، جب یہ مرحلہ آجائے تو اس مرحلے کی تیاری بھی اس کے آخری درجے تک کی جائے گی پھر یا تو حق اور اہل حق زمین پر رہیں گے یا باطل کا نظام باقی رہے گا۔ اس یقین کے ساتھ جہاد کا آغاز کیا جاتا ہے کیا یہ مرحلہ ہماری انقلابی تحریکوں نے سر کرلیا ہے؟ یہ درست ہے کہ موت کی تمنا بے تابانہ طلب سچائی کی علامت ہے لیکن کیا موت کے تمنائی سمجھوتوں، ثالثوں، معاہدوں، پروپیگنڈہ وار، مذاکرات، میڈیا وار کے سہارے زندہ رہتے ہیں یا میدان جنگ میں سپرلے کر چلتے اور قضاء کے تیروں کا والہانہ استقبال کرتے ہوئے اپنے لہو کا نذرانہ بارگاہ رب العزت میں نہایت مسرت، بے تابی، سرعت بے باکی کے ساتھ پیش کر کے نظام حاضر موجود کو زبر و زیر کر دیتے ہیں کیا یہ نقطہ نظر درست ہے؟]

٤٣[ اس نقطہ نظر کا جائزہ کہ عالم اسلام کی انقلابی تحریکوں کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ سمجھتی ہیں کہ تمام مسلمان شریعت کے نفاذ کے متمنی ہیں۔ ہر شخص کا قلب و ذہن نفاذ شریعت کے برکات و ثمرات کا منتظر ہے موجودہ آمرانہ نظام حکومت اس طلب و تمنا کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور جمہوری عمل کے فروغ کے ذریعے شریعت کا غلبہ عالم پر ہوجائے گا۔ لہٰذا وہ عوام الناس کی اصلاح، ان کے تزکیہ، ان کی تطہیر اعمال کے لیے کوئی انقلابی منصوبہ نہیں رکھتے اور عوام کی اسلام سے وابستہ چند ثقافتی و تاریخی جذباتی رشتوں کے ذریعے ان کو دین کی طرف مائل دیکھتے ہیں۔]

٤٤[ اسلامی تحریکوں کے پاس روحانی تزکیہ اور فروغ روحانیت کا کوئی مربوط نظام موجود نہیں ہے جس کے ذریعے وہ لوگوں کو بندگی نفس سے نکال کر بندگی رب کے سانچے میں ڈھال سکیں لہٰذا یہ تحریکیں حقوق کی سیاست کے ذریعے لوگوں کو نفس کی پرستش میں مبتلا کر دیتی ہیں۔ ان تحریکوں کے قائدین اور ان کی کتابوں میں روحانی نظام رشد و ہدایت اور تزکیہ نفس کے بارے میں مکمل سکوت ہے۔ یہ تحریکیں فرض کرتی ہیں کہ تزکیہ نفس اصلاح معاشرہ کی جدوجہد کا لازمی حاصل ہے۔ کیا یہ خیال درست ہے؟

]٤٥[ علماء اور فقہاء نے مختلف خطوں کے عوام مقامی کے رسوم رواج کو شریعت کے سانچے میں ڈھال کر ان کی معاشرت و ثقافت کے اندر ثقافتی روحانیت برپا کر دی لیکن احیائی تحریکیں ظاہریت پر اصرار کرتی ہیں، مقامی رسوم و رواج جو شریعت سے متصادم نہیں ہیں ان کا بھی رد کرتی انھیں بدعت بلکہ کفر تک قرار دیتی ہیں اور ان میں کسی قسم کی اصلاح کی قائل نہیں۔ رسوم و رواج کی مذہبیت کے بغیر ایک شخص کی چوبیس گھنٹے کی زندگی کو مذہبی نہیں بنایا جاسکتا۔ رسوم و رواج فرد کو اسلامی تہذیب کے دائرے میں اس قدر محصور کرتے ہیں کہ وہ اسلامی روح تہذیب سے اوپر اٹھنے، باہر نکلنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ اسلامی تحریکوں کی تمام تر کتابیں، کیسٹ، خطبات، دعوت فرد کی عقل سے خطاب کرتی ہے۔ وہ انسان کے باطن اور اس کے من کو بدلنے کی طاقت نہیں رکھتی۔ وہ اس کی روح کے تاروں کو چھیڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتی، ان کتابوں کو پڑھنے کے نتیجے میں ایک منطقی، عقلی، کلامی وجود تشکیل پاتا ہے جو دین کی ساری حکمت بحث و مباحثے مجادلے مناظرے اور علمی و عقلی چونچلوں میں تلاش کرتا ہے اور روحانیت سے محروم ہوجاتا ہے۔ اس رویے، طریقے کا دوسرا خطرناک پہلو یہ ہے کہ اس کی تمام تر توجہ آخرت سے ہٹ کر دنیا پر مرکوز ہوجاتی ہے۔ ایسی شخصیت عوام کے لیے کرشماتی اور مقناطیسی نہیں رہتی، اس کھردری مذہبی شخصیت کو عوام پسند نہیں کرتے، اس سے فاصلہ محسوس کرتے ہیں لہٰذا ان کے دلوں میں ان شخصیات کے لیے تقدس اور محبت کے جذبات ناپید ہوجاتے ہیں۔ مذہبی تحریکوں کے نظام میں کارکنان کا تزکیہ نفس ثانوی، وقتی اور قطعاً ناقابل توجہ کام بن چکا ہے۔ سالانہ، ششماہی، تربیت گاہیں، روحانی بحران کا ناکافی علاج ہیں لہٰذا ان تحریکوں میں روحانی بحران بڑھتا جا رہا ہے۔

اسلامی تحریکیں اقتدار کی خاطر عموماً وہ تمام سیاسی حربے استعمال کرتی ہیں جو سیکولر سیاسی جماعتیں اختیار کرتی ہیں اس لیے اگر دنیا میں کہیں ان جماعتوں کو شہروں کی سطح پر ضلعی اقتدار یا قومی سطح پر ملکی اقتدار جوڑ توڑ کی سیاست کے ذریعے مل بھی جاتا ہے تو انھیں حکمت، معاملہ فہمی، قوت فیصلہ کی صفت نہیں ملتی قرآنی اصطلاحات میں گفتگو کی جائے تو ان تحریکوں کی قیادت علم، حکم، فصل الخطاب کی صفت، نفس، مطمئنہ، قلب مطمئنہ، تاویل الاحادیث کی صلاحیت، وقت پر صحیح نتیجہ اخذ کرنے کی صلاحیت عطا نہیں ہوتی اسی لیے اسلامی تحریکوں کی حکومتوں اور عام سیکولر حکومتوں میں کوئی بنیادی فرق نظر نہیں آتا کیا یہ نقطہ نظر درست ہے؟]

٤٦[ جدید اسلامی تحریکوں کی قیادت عموماً ایسے جدید پڑھے لکھے لوگوں کے ہاتھوں میں ہے جنھوں نے علوم اسلامی کی تحصیل نہیں کی ان کی اسلام سے والہانہ محبت و اخلاص میں کوئی شبہ نہیں، لیکن اخلاص علم کا متبادل نہیں ہوسکتا اس لیے تمام تر اخلاص کے باوجود ان تحریکوں کی قیادت ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں ہے جو جدید مغربی تعلیمی اداروں یا اعلیٰ مغربی تعلیمی اداروں سے مختلف تکنیکی علوم میں مہارت اور اعلیٰ سند کے حامل ہوتے ہیں۔ عموماً اس قیادت میں فلسفہ کے علم میں مہارت رکھنے والے سرے سے نہیں ہوتے یہ قیادت نہ علوم اسلامی کے ماخذات سے واقف ہوتی ہے نہ یہ قیادت علوم مغربی یعنی مغربی فلسفہ و تہذیب سے ناواقف ہوتی ہے۔ ڈاکٹر حسن الترابی، ملیشیا کے انور ابراہیم، ترکی کے نجم الدین اربکان، عبداللہ گل، جماعت اسلامی کی قیادت میں قاضی حسین احمد، خرم جاہ مراد خورشید احمد وغیرہ ان تمام اصحاب کے تقوی پر پرہیزگاری، اخلاص میں شاید کسی کو کسی شبہ کی گنجائش نہ ہو، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ اصحاب مقتدر مغربی فلسفہ اور اسلامی علوم پر عبور نہیں رکھتے جس کے باعث جدیدیت کی یلغار جماعت اسلامی کی جانب سے مولانا مودودی کی زندگی پر دستاویزی فلم کا اجراء اس جدیدیت کی نئی جھلک ہے۔ اسلامی تحریکوں میں نفوذ کر رہی ہے اور یہ تحریکیں بہت تیزی سے جدیدیت کے اثرات قبول کر رہی ہیں انھیں اس کا احساس تک نہیں ہے۔ ایک اہم تجزیہ۔

حدیث کی کتاب الرقاق کے مطابق حکمت کا سرچشمہ زہد ہے۔ زاہدانہ زندگی دنیا سے کم سے کم تمتع حاصل کرنا دنیا میں مسافر کی طرح ٹھہرنا اس زاہدانہ طرز کے نتیجے میں مومن کا دل حکمت کے چشموں سے معمور ہوجاتا ہے اور حکمت کے کلمات اس کے دل، ذہن، اور زبان سے پھوٹنے لگتے ہیں۔ ہماری قیادت زاہدانہ صفات کی سنگین کمی کا شکار ہے اس لیے ان کے کام میں برکت نہیں ہے اور ہر نیا کام ایک نئے خلفشار کا سبب بن جاتا ہے کیا ان کے جسم الابصار الافدئِ ہ سے خالی ہیں پھر یہ بار بار ٹھوکریں کیوں کھاتے ہیں سنبھل کیوں نہیں جاتے؟ کیونکہ ہمارا کام اخلاص و زہد سے زیادہ نام و نمود اور ہنگامہ آرائی پر زیادہ انحصار کرتا ہے کیا یہ نقطہ نظر درست ہے؟ ایک اہم تجزیہ

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *