بسم اللّٰہ الرّٰحمٰن الرّٰحیم

حَسْبِیَ اللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَھُوَ رَبُّ العَرْشِ العَظِیْمُ.

ہر ملک مِلک ما است کہ مِلک خدا مااست

 

غلام جیلانی خان-

 

تمہید:

                 15 صدی کے شروع اور 17صدی کے آخر میں مغربی اقوام نے سیاسی جغرافیائی اور لسانی تفریق قائم کرکے قیصریت، پاپائیت اور زار وغیرہ جیسی مذہبی جکڑ بندیوں کو رو ندڈالا، قیصریت اور پاپائیت کے خلاف مختلف النوع اشتراک عمل قائم کرکے مذہب سے برگشتہ ہوگئیںجو کہ دراصل جزوی طور پر ہی سہی کسی نہ کسی معنی میں لبرل ازم، سیکولرازم کو اپنانے میں اور کیپٹل ازم پر ایمان لانے میں مانع تھی… مغربی اقوام نے اپنے اس کامیاب تجربے کو اپنے ایجنٹوں کے ذریعے نو آبادیات میں نفوذ کرنے کے لیے تیر بہ ہدف نسخے کے طورپر استعمال کیا… چنانچہ ان علاقوں کے مسلمان زعماء جانے انجانے رویوں کی بنا پر جہاں نسلیّت اور وطنیّت کی بنیاد پر تقسیم ہوئے وہیں خلافت کی قباء بھی چاک ہوگئی اور مسلمانوں کی اجتماعیت بحیثیت امت کے پارہ پارہ ہوگئی عرب اپنی عربیت پر ناز کرنے لگا مصریوں کو اپنے فراعنہ یاد آئے، ترک اپنا رشتہ ہلاکو خان اور چنگیز سے جوڑنے لگے، ایرانی اپنی ایرانیت کے جوش میں رستم اور اسفند یار کے قصے الاپنے لگے… حتیٰ کہ خود ہندوستان میں ایک متحدہ ہندوستانی قومیت کی تشکیل نوع کی فکر میں گیتا اور قرآن کو ایک ڈولی میں رکھ کر جلوس نکالے گئے گاندھی کو منبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بٹھا کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اپنا سب سے بڑا لیڈر قرار دینے لگے… قومیت کے ان نئے پیمانوں کی تشکیل نوع کی لہر اس قدر تندو تیز تھی کہ خود ہندستانی مسلمانوں کی بقاء اور ان کی وحدت کو شدید خطرات لاحق ہوگئے اس فکری تنزلی کا نتیجہ یہ نکلا کہ جمعیت علماء ہند کے پلیٹ فار م پر قوم پرست، کمیونسٹ اورسوشلسٹ اور حتیّٰ کہ ہندو قوم پرست تک نظر آنے لگے۔ بلاد اسلامیہ کے دیگر ممالک میں بھی حالات کچھ مختلف نہ تھے کہیںپان (pan)عرب ازم کی تحریک اٹھائی جارہی تھی، اسی تحریک کے بطن سے بعث پارٹی نے جنم لیا اور امت نے ناصرصدام، حافظ اسد کی صورت میں اپنے سینے پر زخم سہے… کسی نے ترکیت کی قومی تشکیل نوکرکے کمال اتاترک جیسا عجیب الخلقت باپ نے جنم لیا… جب ہندوستان میں مسلمان قومیت کا خمیرا اٹھایا گیا اور اس کے جراثیم علی گڑھ اور سر سید کی تحریک نے امت کے تنِ نازک میں داخل کیے تو بالا خر نتیجہ یہ نکلا کہ لیڈر شپ علماء کے ہاتھ سے نکل کر جوہر، شوکت، سرسید، آزاد اور جناح جیسے زعماء کے ہاتھ میں آگئی، جب تحریک خلافت کمزور پڑی اس کا تمام تر فائدہ ہندوؤں کو ہوا، اسی مسلم قومیت کی آسیب کی وجہ سے سیکولر اداروں، سیکولر سیاست حکومت کو جڑ پکڑنے کا موقع مل گیا۔ گاندھی نے اس تمام صورت حال کا بھر پور فائدہ اٹھایا، اس نے کانگریس کے زیر سایہ ہندوؤں کے لیے ایسی حکمت عملی تیار کی کہ جہاں خود ہندوئوں کو ہندو مت (مذہب) کی طرف پلٹنا مشکل ہوگیا۔ وہیں گاندھی اس بات میں بھی کامیاب ہوگیا کہ ہندوؤں کے لیے اسلام قبول کرنے کی دعوت کو اجنبی کردیا جائے کانگریس نے ہندوستانی وطن پرستی کے ذریعے ہندوئوں اور مسلمانوں میں جو دعوت کا رشتہ تھا اس کو کاٹ دیا برخلاف کانگریس کے مسلم لیگ نے مسلم قوم پرستی کو فروغ دیا جس نے نتیجے کے طور پر ہندو توا کی تحریک کو جوش و خروش عطا کیاگیا۔

قومیت کے اجزاء ترکیبی:

                تاریخی طور پر مغرب نے مختلف قوموں کو ایک قوم بنانے کے لیے تین جذبوں کا باہم مرکب تیار کیا وطن پرستی، دشمن سے بیر یا نفرت، معاشی مفاد سے دلچسپی، لہٰذا یہ قومی جذبے، نفس امّارہ کی کثافت کو ابھار کر وجود میں لائے جاتے ہیں حتیّٰ کہ ان غیر فطری جذبوں کو فطری بنانے کے لیے یورپ میں ایک ہی نسل پر مصائب کے پہاڑ توڑے گئے عالمی جنگوں کی صورت میں قتل و غارت گری کی گئی… ماضی میں پنڈت جواہر لال نہر، ابوالکلام آزاد کانگریس کے زیر سایہ ان جذبوں کو باہم یکجا کرکے ایک متحدہ قومیت کی تشکیل نوع میں مصروف نظر آتے ہیں۔ ہندوئوں کے بالمقابل سر سید کی پوری تحریک اسی دائرے میںجدوجہد کرتی نظر آتی ہے۔سرسید کی ہر تحریک کو انگریزوں کی ہمیشہ آسیر باد حاصل رہی۔

                روس کے عالمی افق سے غائب ہونے کے بعد اور عالمگیریت کے موجودہ عہد میں قوم، قوم پرستی اور وطن پرستی کی اصطلاح گو کہ اتنی معروف نہیں رہی لیکن قوم پرستی کا فتنہ عالمگیریت کے زیر سایہ مقامیت کی شکل میں ایک نئی عفریت کی شکل میں ہمارے سروں پر موجود ہے …مثلاً زرداری کا پاکستان کھپے، مشرف کا سب سے پہلے پاکستان اور ایم کیو ایم کاہمارا کراچی کا سلوگن،قائد کا شہر ہر ایک کا مقصد سوائے اس کے کچھ نہیں کہ پاکستان اور کراچی کو امت سے کاٹ کر عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ بنادیا جائے۔مشرق وسطیٰ اور عرب ممالک کی موجودہ ہلچل کے پیچھے عرب قومیت کا بت کار فرما ہے جسے امریکہ کی حمایت حاصل ہے۔

اوپر بیان کردہ تاریخی تناظر میں قوم، قوم پرستی وغیرہ کی تعریف متعین کی جائے گی اور اس کا سرمایہ داری وغیرہ سے جو نسبی اور بدیہی تعلق ہے اس کوبھی واضح کیا جائے گا۔ قومیت یعنی نشنلزم پر غور کرنے سے پہلے قوم کی اصطلاح کو سمجھنا ضروری ہے۔

قوم:

                ہم جانتے ہیں کہ مسلمان کبھی ایک قوم نہیں تھے اسلام مسلمانوںکو من حیث المجموع ”امت” قرار دیتا ہے۔ برٹش ہندوستان میں مسلمانوں کو ہندوئوں کے بالمقابل ایک قوم بنانے کی کامیاب کوشش سرسید احمد خان اور علی گڑھ تحریک نے کی اسی قسم کی واضح چھاپ غلام احمد قادیانی اورا س کے زعماء کے ہاں بھی ملتی ہے جس کے پیچھے انگریز کی فکر کار فرماتھی۔ 1857 ء کے جہاد کی ناکامی، تحریک خلافت کا فکری تنزل اور جمعیت علماء ہند کی کج روی کے نتیجے میں مسلمانوں کو بھی انہی معنوں میں قوم سمجھا جانے لگا جیسا کہ ہندو ایک قوم ہے۔ اس کج روی نے بحیثیت مجموعی مسلمانوں کے اخلاقی، اجتماعی اور سیاسی رویوں پر مہلک اثرات و نتائج مرتب کیے، انگریز اس بات میں کامیاب ہوگیا کہ تاریخی لحاظ سے مسلمانوں اور ہندوئوں میں دعوت اور محبت کا جو رشتہ  موجود ہے اس کو کاٹ دے، صبر، یقین، ایمان، احسان، صلح رحمی کے فطری جذبات کو، جذبات رزیلہ مثلاً نفرت، حسد، حرص، ہوس مقابلہ و منافرت میں تبدیل کردے۔ مغربی فکر کے تناظر میں قوم کا مفہوم اس طرح ابھرتا ہے کہ مشترکہ اغراض و مصالح کے حصول کے لیے متعدد افراد آپس مل کر تعاون و اشتراک کا عمل کریں اس اجتماع کو عرف عام میں قوم کہا جاتا ہے۔

قومیت:

                قوم کی اس سادہ سے تناظر میں اب قومیت کا مفہوم بیان کرنے کی سعی کی جائے گی۔ قومیت ”عصبیت” سے جنم لیتی ہے یعنی جب ایک خاص گروہ کے لوگ اپنے مشترکہ مفادات، اغراض، مصالحت اور ضروریات کے ماتحت یا کسی دوسرے گروہ، نسل، علاقہ وغیرہ کے لحاظ سے ایک قوم بن جاتے ہیں۔ چنانچہ جیسے جسے اس قوم میں عصبیت پروان چڑھتی ہے اسی قدر ان میں قومیت کا جذبہ شدت اختیار کرتا چلا جاتا ہے۔ اسی اسفل جذبے کے تحت وہ اپنے اندر والوں اور باہر والوں کے درمیان اپنے اور غیر کی حد فاصل قائم کرتا ہے۔ اور اپنی قوم کے ہر جائز اور ناجائز مفاد کوغیر پر ترجیح دیتا ہے، اس صورت حال میں وہ کبھی دعوت کی بنیا پر غیر کو اپنا کر اس سے محبت و اخوت کا رشتہ قائم کرنے پر راضی نہ ہوگا۔ بغض حسد، کینہ، مسابقت جیسے اقدار رذیلہ اس کے بنیادی اوصاف اور اقدار بنتی چلی جائیں گی… قوم پرستی اور سرمایہ داری دونوں ہی نفس کی پراگندگی کو ابھارتی ہیں اور بغض، حسد، مسابقت کو انسان کا فطری جذبہ قرار دیتی ہیں اور اپنی قوم کے لیے زیادہ سے زیادہ مادی مفادات اور ان کا عروج و برتری کو جائز اور فطری سمجھتی ہیں۔

قومیت کے عناصر ترکیبی:

                قومیت کے عناصر ترکیبی کی بہت سی جہتیں ممکن ہیں جو قومیت کے بت کی عصبیت کو پروان چڑھانے میں بطور معاون و مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ مثلاً

١… اشتراک وطن (آریائی و غیر آریائی)

٢… اشتراک وطن (ایرانی و تورانی)

٣… اشتراک زبان (سندھی، پشتو، فارسی وغیرہ)

٤…اشتراک رنگ (سفید اور کالی رنگت)

٥… معاشی مفادات کا اشتراک (G8،یورپی یونین وغیرہ، و سارک ممالک کے لوگ ،آسیان ممالک)

٦… جغرافیائی حدود و اشتراک (مثلاً کشمیر و امریکا وغیرہ)

٧… سیاسی قومیت (نظام حکومت کا اشتراک مثلاً سنگا پورروس)

                لہٰذا جو قومیتیں ان بیان کردہ عصیبت کی بنیاد پر تعمیر ہوتی ہیں ان میں اپنے اور غیر کے مقابل مسابقت و مزاحمت اور مناقشّت ایک دائمی شکل اختیار کرتی چلی جاتی ہے اور ایک دوسرے کو پامال کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور باہم فساد بدامنی شرارت کا ایک مستقل سرچشمہ ثابت ہوتے ہیں لہٰذا رنگ و نسل، زبان و علاقہ پر مبنی (امتیازات انسان کو ننگی جارحیت میں مبتلا کرکے حق و انصاف سے بے گانہ بنادیتے ہیں، تاریخ عالم میں فرعون وہ پہلا شخص تھا جس نے عصبیت کی بنیاد پر قبطی اور غیر قبطی کی تفریق مقرر کی اور آل یعقوب کو بے دریغ قتل کیا۔

قوم پرستی کے اسباب و علل:

                قوم پرستی یعنی نیشنلزم بنیادی طور پر ایک مغربی مظہر ہے جس کی اپنی تاریخ ہے، یہ تاریخ بتاتی ہے کہ مغرب نے کس طرح مذہبی اجتماعیت اور کلّیت کورد کرکے قومیت اور قومی مملکتیں تخلیق کیں۔ مغربی اقوام نے کولو نیل ازم (نو آبادیات) کے جذبہ رقابت کے تحت دنیا میں جس سفاکی اور شیطنت کا مظاہرہ کیا اس کا جواز مذہبی تاریخ، مذہبی ریاست کے ضمن میں ممکن نہ تھا۔ قوم اور قومی مملکت اس لوٹ مار سفّاکی اور شیطنت کو جائز قرار دیتی ہے، قوم پرستی کو فی زمانہ دو اکائیوں میں توڑ کر دیکھا جاتا ہے۔

١… ریاستی قوم پرستی

٢… غیر ریاستی قوم پرستی

٣…اجداد پرست قوم پرستی

 

ریاستی قوم پرستی:

                ریاستی قوم پرستی وطن پرستی کے نظریات سے ہم آہنگ ہوتی ہے، جس میں ریاست کے تقدس کو اوّلیت حاصل ہوتی ہے مثلاً کانگریس کے نظریات میں ہندوستانی وطنیّت کے تقدس کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔

غیر ریاستی قوم پرستی:

                غیر ریاستی قوم پرستی مقبول عام نعروں کے ماتحت اپنے وجود کا اظہار مذہبی، اخلاقی، عمرانی، علاقائی حقوق کی صورت میں کرتی ہے، مثلاً ترک قوم پرستی جہاں انفرادی آزادی اور انفرادی جمہوریت کو کم وقعت حاصل ہے بالمقابل ترک جذبات اور تکبر اور برتری کے۔

اجداد پرست قوم پرستی:

                اس قوم پرستی میں بلا امتیاز جز مشترکہ زبان، مشترکہ ثقافت، آباء و اجداد کے نسلی تفوق پر قائم ہوتی ہے اس کے تحت کوئی ریاست اپنا وجہ جواز اور سیاسی حیثیت کو انہی بے نسلی، مادر ملی پر مبنی جذبات کی بنیاد پر استوار کرتی ہے اور اس کو اپنی ثقافت اور معاشرت قرار دیتی ہے اور اپنی خاص جغرافیائی حدود کے باہر ہر نسل، قوم کو غیر سمجھتی ہے، مثلاً سعودی عرب، چین، اسرائیل، آریائی ہندوستان۔

قوم پرستی کی نامیاتی تحرکیب:

١…نسلیگروہی قوم پرستی

٢…توسیع پسندانہ قوم پرستی

٣…رومانوی قوم پرستی

٤…ثقافتی قوم پرستی

٥…تیسری دنیا پر مبنی قوم پرستی[Third world nationalism]

٦…لبرل قوم پرستی

٧…انارکسٹ قوم پرستی

٨…مذہبی قوم پرستی

٩…پان قوم پرستی

١٠…متفرق قوم پرستی[Diasposa Nationalism]

١١…غیر ریاستی قوم پرستی  [Stateless Nationalism]

قوم پرستی کا بنیاد ی اصول:

                قوم پرستی دو بنیادی اصولوں پر کارفرما ہے اس کا ایک آفاتی دعویٰ ہے اس دعویٰ کے تحت اپنی قوم کو دوسری قوم کے مدمقابل رکھ کر دیکھتی ہے کہ اس کی قوم کا اقوام عالم میں کیا مقام ہے اور اپنی قوم کے تفوق اور برتری کو کس طرح قائم کیا اور رکھا جاسکتا ہے۔ اور اس کو برتر و اعلیٰ قوم ہونے کے شرف کو کس طرح ثابت کیا جاسکتا ہے۔ اور مد مقابل قوم کے مفاد  اور اس کے مادی حصول کو کون سے ذرائع و وسائل سے حاصل کیا جاسکتا ہے اور ان مقاصد کے حصول کے لیے دنیا کی ترتیب اور ترکیب کیا ہونی چاہیے۔ قوم پرستی کی آمیزش بحیثیت ایک انفرادی قوم کے ایک خاص تخصیص پر قائم ہوتا ہے، جو اس کے مقامی اور آفاتی تصور اور دعویٰ کوایک دوسرے سے جوڑے رکھتی ہے۔ اس ترکیب نو پر قوم پرستی اپنے نظریات کے تانے بانی بنتی ہے مثلاً ہندی ہندوئوں کی زبان ہے۔ جو تمام زبانوں میں پوتر یعنی اعلیٰ ور ارفع ہے۔ لہٰذا  ہرہندوستانی کو ہندی بولنا چاہیے اور ہندوستان کی قومی زبان ہندی ہونا چاہیے۔ اردو ایک غیر ملکی زبان ہے جو مسلمانوںکی زبان ہے اور مسلمان دیگر بلادِ اسلامی سے آکر یہاں آباد ہوئے ہیں یہ سب غیر ملکی ہیں اور ان کی زبان ملیچھ (ناپاک) ہے یعنی قوم پرستی کی آمیزش و ترکیب کا نقطہ آغاز دیگر اقوام کا مدمقابل قوم کے موجد ہونا اور سرمایہ دارانہ مفادات کی ترکیب اپنی قوم کے حق میں استعمال کرنا یعنی قوم پرستی قائم ہوتی ہے مدمقابل قوم سے حرص، حسد، بغض اور مقابلے کی کیفیت سے… اسی کیفیت نے زمانہ جدید میں قوم پرست ریاست، قوم پرست سیاست،قوم پرست معیشت و معاشرت کی تشکیل کی ہے، حتی کہ مذہب کو بھی قومیالیا گیا ہے اور مذہب کی آفاقی تصور کو قوم کی سطح تک محدود کردیا گیا ہے۔ مثلاً تبتی بدھ ازم جو صرف تبت کی ریاست تک محدود ہے۔ مذہبی لحاظ سے تبتی بدھ ازم  ریاست تبت کی جغرافیائی حدود سے باہر نکل نہیں سکتا۔ نتیجتاً دلائی لامہ کا بدھ ازم اور بدھ قوم دونوں ہی ختم ہوتے جارہے ہیں۔ ہمارے ہاں سعودی حکومت بھی آل سعود تک محدود ہے اور ایک خاص قسم کے اسلام یعنی … کے تقدم و تفوق کا پرچار کرتی ہے۔ جغرافیائی ترتیب نو مخصوص زبان ثقافت اور اقدار کی تحدید نے ہر قوم کو دوسری قوم کے مد مقابل لاکھڑا کیا ہے۔ آزاد ریاست آزاد قوم کے نعرہ ہائے مستانہ ہر طرف گونجنے لگے قومی ریاست قوم کی فلاح و قیام اور حفاظت کی امین سمجھے جانے لگی، قوم پرست ریاست نے جہاں قوم پرستی کو پروان چڑھایا وہیں وطن پرستی کے جذبے کو بھی فروغ دیا اور مذہب کو قومیا کر مذہب کی آفاقیت کو مقامیّت میں دفن کردیا حتٰی کہ فی زمانہ غیر قومی ریاست کا قیام (طالبان کی ریاست ، ریاست اسلامیہ افغانستان، چیچنیہ کی ریاست) غیر قانونی ناجائز ریاست تصور کیا جاتا ہے اور تمام سرمایہ دارانہ قومی ریاستیں غیر قومی ریاست پر گدھوں کی طرح ٹوٹ پڑتی ہیں کیوں کہ  غیر قومی ریاست، سرمایہ دارانہ قومی ریاست میں اجنبی ہوتی ہے۔ لہٰذا ہم تاریخی طور پر یہ دیکھتے ہیں کہ ابتدائً جتنی بھی قومی سیاسی جدوجہد مغرب سے لے کر مشرق تک ہوئی ہے وہ سب غیر قومی ریاستوں کے خلاف ہوئی ہے اور اس کے نتیجے میں قومی ریاست کا ظہور ہوا، مثلاً عثمانی سلطنت کا خاتمہ عرب قومی ریاستوں اورموجودہ ترک ریاست کا باعث بنا۔  زار کی حکومت ،اسپین اور آسٹریلیا فرانس اور ہنگری کی بادشاہتوں کا خاتمہ وغیرہ سب ہی اس قومی سیاسی جدوجہد کا نتیجہ ہیں۔ بلاد اسلامیہ میں حجاز کو ختم کرکے، سعودی قومی ریاست کا ظہور ہوا اور عرب کو عرب حق پرستی کے نام پر تقسیم در تقسیم کردیا گیا۔ 19 ویں صدی کی تمام ریاستیں سرمایہ داری کے مکر و فریب کا شاخشانہ ہیں۔ قومی شناخت قومی کلچر، قومی سرمایہ، قومی دولت، قومی ریاست اور جغرافیائی حدود، قومی اقدار، قومی حفظ مراتب، قومی دستور، ری پبلک سب کا حدود اربعہ سرمایہ داری کا مرتب کردہ اور ترتیب دیا ہوا ہے۔ قومی سیاست اور قوم پرستی سرمایہ داری کی پرستش ہی کا نام ہے، جیسا کہ مشہور مغربی مفکر ارنسٹ گیلنر کہتا ہے، قوم، قوم پرستی اور قومی ریاست دراصل ماڈرن نائزیشن اور انڈسٹریل لائنزیشن کے ماتحت سرمایہ داری پر ایمان اور جدید پرپس، میڈیا کے قیام کا ہی نتیجہ ہیں۔

                یہاں پر یہ بات بھی گوش گزار کرانا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مغرب سے آیا ہوا ہررویہ اور ہرنظریہ  اور ہرتحریک تعمیر سے عاری ہے۔ مغربی فکر کو اپنانے اور اس پرعمل کرنے کے نتیجے میں فرد، معاشرہ اور ریاست مسلسل تبخیر کے عمل سے گزرتی ہے۔ چنانچہ جہاں بھی قوم پرستی خواہ مسلم قوم پرستی کی شکل میںہو یا ہندو قوم پرستی کی شکل وہ اسی شاخ نازک کو کاٹنے کے درپے ہوتی ہے جس پر اس کا آشیانہ ہوتا ہے۔ دیکھئے، اسی مسلم قوم پرستی کی کوکھ سے بنگلہ قوم پرستی نے سر نکلا اور پاکستان تقسیم ہوگیا (شیخ مجیب پہلے مسلم لیگی تھا)، جی ایم سید نے سندھی قوم پرستی کا نعرہ دیا وہ بھی پہلے مسلم لیگی تھا اور تحریک خلافت کا بڑا فعال کارکن تھا، آج پختونخواہ خیبر بنا تو ہم دیکھتے ہیں کہ مانسہرہ اور ہزارے والے تصادم کے نزدیک پہنچ گئے ہیں، عنقریب ہوسکتا ہے کہ کوہستان صوبے کی بھی بات چلے، مزید تقسیم در تقسیم کا عمل ہو… اسی طرح ہندوستان میں ہندو قوم پرستی کی کوکھ سے وہاں آسام، ناگالینڈ، منی پورہ، تری پورہ، آرونہ چل پردیش وغیرہ کی علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔

                قوم پرستی وہ آسیب ہے جو اپنی ماں کا پیٹ پھاڑ کر برآمد ہوتی ہے اور بعدازاں اپنی ماں اور اپنے بھائی بہنوں سب کو نگل جاتی ہے… خوں ریزی، خوں آسامی، قتل و غارت گری کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ ایسے میں جمہوریت، دستوریت سرمایہ داری امن کا پیغام دیتی ہے یہ پیغام امن و آشتی کا نہیں بلکہ ظلم اور جبر، حرص و حسد کومزید پروان چڑھانے کا باعث بنتی ہے۔

سوک نیشنل ازم (مدنی قومی پرستی):

                اس کے تحت ایک ایسی قوم مدنی ریاست کی تشکیل نو کی جاتی ہے جس میں اس کے شہریوں کی متحرک شمولیت کو ضروری سمجھا جاتا ہے۔ اور ریاستی امور کو لوگوں کی شخصی، نفسی اغراض یعنی [Will of people] کے آفاقی جذبوں کے ماتحت استوار کیا جاتا ہے۔ لہٰذا مدنی قوم پرست ریاست میں عقلیت پسندی، لبرل ازم کو تقدس حاصل ہوتا ہے اور اس کا معیار اخلاق نمایندہ حکومت، نمایندہ جمہوریت کو قرار دیا جاتا ہے۔ شخصی آزادی کے ماتحت کیپیٹل ازم پر ایمان کو استوار کیا جاتا ہے اور سرمایہ دارانہ حقوق کو ہر شے پر مقدم قرار دیا جاتا ہے۔

توسعی پسندانہ قوم پرستی:

                یہ قوم پرستی کی ایک ریڈیکل شکل ہے جس میں وطن پرستی حب ّ الوطنی کے جذبے کو توسعی پسندانہ عزائم کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلاً نازی ازم، نیشنلسٹ ، سوشل ازم وغیرہ مثلاً ہٹلر کا جرمنی اور سربیا کا خونی قاتل …

رومانوی قوم پرستی:

                رومانوی قوم پرستی کو نامیاتی قوم پرستی اور شناخت پر مبنی قوم پرستی بھی کہا جاتا ہے اس کے تحت کوئی ریاست اپنے سیاسی وجود اور جواز کو قوم کے اظہار کا ایک طریقہ سمجھتی ہے۔ رو مانوی قوم پرستی اپنے تاریخی ورثہ، کارناموں، واقعات، حالات کا ر، ز ندگی اور حالات ،تاریخی  حالات و واقعات سے مثلاً تنویر کی عقلیت پسندی، فرانسیسی قوم کی رومانوی تاریخ مثلاً رینسائ، ہندو تواکی گیتا کے گرد ریاست کی تشکیل وغیرہ۔

ثقافتی قوم پرستی:

                اس کے ماتحت قوم کی تعریف مشترکہ کلچر کے ذریعے متعین کی جاتی ہے اس کی ممبر شپ نہ تو مکمل طور پر رضا کارانہ ہوتی ہے اور نہ ہی اجداد کے تعلق سے کوئی بھی فرد چند بنیادی لوازمات کو پورا کرکے اس کو اپنا سکتا ہے۔ مثلاً یورپی یونین ، ہندوستان میں ایک مسلمان ہندی زبان، ہندی تاریخ و ورثہ کو اپنا کر ہندوستانی کلچر کا حصہ بن سکتا ہے۔

تیسری دنیا اور قوم پرستی:

                اس کو تھرڈ ورلڈ ازم بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے تحت تیسری دنیا کے ممالک اپنے معاشی مفادات کے تحفظ کے لیے اور اپنی معاشی بقا کے لیے حکمت عملی کے طور پر نو آبادیاتی، سامراجی پالیسیوں کے خلاف ایک پلیٹ فارم پر صف آرا ہو سکیں تاکہ سامراجی اقدامات سے اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکیں اور نو آبادیاتی قوتوں کے خلاف ایک مشترکہ قومی مفادات کو اپنا سکیں مثلاً غیر جانبدارانہ تحریک آسان ، سارک جی 10، جی 18 اور آئی سی وغیرہ۔

لبرل نیشنل ازم:

                اس قسم کی قوم پرستی کے ذریعے فرد کی خواہشات اور اس کی تکمیل سفلی جذبوں کے تحت ابھارا جاتا ہے۔ اور انسانیت پرستی کو مہمیز فراہم کی جاتی ہے۔ اور جمہوریت کو ہر سیاسی مرض کا ویکسین قرار دیا جاتا ہے تاکہ فرد کی زندگی کو زیادہ سے زیادہ لذت انگیزی سے ہمکنار کیا جاسکے … آزادی، ترقی، مساوات انفرادی حقوق کو خصوصی اقدار کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔

انارکسٹ نیشنلزم:

                انارکسٹ نیشنل ازم کے تحت فرد کو قوم پر تفوق حاصل ہے لہٰذا فرد کو کسی ریاستی حدود و قیود میں مقید کرنا ایک غیر فطری عمل ہے۔ ریاست اپنی ترجیحات قانون اور قوت کے بل بوتے پر قوم و فرد پر مسلط ہوجاتی یہ اور ریاست فرد کی انفرادی صلاحیتوں کو کچل دیتی ہے۔ چنانچہ ریاست قوم کی بہی خواہ کبھی نہیں ہوسکتی۔ لہٰذا ایک ایسا سیاسی نظام تشکیل دیا جائے جہاں پر ہر چیز لوکل کنٹرول میں ہو، فیڈریشن سے آزادی ہو، امداد  باہمی ہو یعنی فرد کو قوم پر اور قوم کو ریاست پر برتری حاصل ہو۔

غیر ریاستی قومی پرستی:

                کسی بھی قوم پرستانہ سیاسی تحریک کا بنیادی مؤقف اپنی قوم کے لیے ایک ریاست کا قیام ہے جو کہ بسا اوقات غیر ریاستی قوم پرستی کو جنم دیتی ہے۔ مثلاً ہندوستان کے قیام کے بعد ہندوستان میں مختلف ریاستوں کے اندر سیاسی جدوجہد کو اسی دائرہ کار کے اندر رکھ کر دیکھا جاسکتا ہے۔ اقلیتی قوم اور اقلیتی کلچر اکثریتی قوم کی ریاست کے اندر اپنے آپ کو دبا ہوا اور پسا ہوا محسوس کرتی ہے۔ فلسطینی جدوجہد کو یہودی ریاست کے قیام کے بعد سے اسی تناظر میں بیان کیا جاتا رہاہے۔ حال ہی میں مختلف بلاد اسلامیہ میں جو مسلح جدوجہد ابھر کر سامنے آئی ہے، اہل مغرب اس کو انتہا پسندی اور ٹیررازم سے تعبیر کرتے ہیں اور اکیڈمک طور پر اس جدوجہد کو غیر ریاستی سیاسی عنصر کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ چنانچہ قومی ریاست سے باہر جاکر جو بھی جدوجہد کی جائے گی اس کو اہل مغرب اور اس کے مفکر ناجائز قرار دیتے ہیں اور جدید دنیا کے منظر نامے پر ایک نئے عنصر کے طور پرلیتے ہیں۔ جو اپنی جدو جہد کو سرمایہ دارانہ عمل اور قومی ریاست کے باہر تشکیل نوع کرنے کی پیہم جدودجہد کررہی ہے، لہٰذا جو بھی جدوجہد قومی ریاست اور سرمایہ دارانہ عمل کے باہر ہوگی اہل مغرب یقیناً اس کو انتہا پسندی قرار دیں گے۔

انتہا پسندی:

                ہر وہ عسکری اور سیاسی جدوجہد جو جدید قومی ریاست اور سرمایہ دارانہ عمل کی ترکیب اور ترتیب کے خلاف عمل پیرا ہو اہل مغرب اس کوانتہا پسندی قرار دیتے ہیں، دراصل مغرب سمجھتا ہے کہ اسلامی دنیا اور اس سے باہر ہونے والی اسلامی جدوجہد قومی ریاست، قومی سرمایہ دارانہ عمل اور سرمایہ کے عالمی غلبہ کے مخالفانہ رویوں کا دوسرا نام ہے۔

                اوپر بیان کردہ قوم پرستی کی جو نامیاتی ترکیب اور ترتیب بیان کی گئی ہے اس دائرہ کار میں رکھ کر ہم ہندو قوم پرستی اور مسلم قوم پرستی کا برصغیر میں جو ظہور ہوا ہے اس کا موازنہ اور تجزیہ کرنے کی کوشش کریںگے۔

ہندو قوم پرستی:

                اوپرجو قوم پرستی کی اقسام بیان کی گئی ہیں اس دائرہ کار میں ہندو قوم پرستی دراصل ثقافتی قوم پرستی لبرل نیشنل ازم اور رومینٹک نیشنل ازم کا ملغوبہ ہے جس میں آپ کسی حد تک مذہبی قوم پرستی کو بھی شامل کرسکتے ہیں۔ یعنی ہندو قوم پرستی کے تحت ریاست ایک خاص نسل، گروہ کے حقوق اور سیاسی بقاء کے اظہار کی تاریخی طور پر فطری لحاظ سے وارث ہے۔ لہٰذا ہندو ریاست کا قیام ہندو و قوم کی بقا کے لیے ضروری ہے جہاں وہ اپنی لوک روایات، لوک رسوم و رواج، لوک اعتقادات، لوک داستانوں کا  اظہار کرنے میں آزاد ہوں۔

                ہندو قوم پرستی کا دعویٰ ہے کہ ہندو مشترکہ کلچر اور ہندوستان میں بسنے والی دیگر اقوام اگر ہندو روایات ہندو کلچر اور ہندو تاریخ کو اپنا لیتی ہیں تو وہ بھی ایک خاص درجے میں ہندو قوم کا حصہ ہیں۔

                فی زمانہ ہندو قوم پرستوں نے تمام لبرل اقدار، آزادی رواداری، مساوات، انفرادی حقوق اور قومی شناخت کو اپنالیا ہے اور پر تعیش لذت انگیز زندگی گزارنے کے بھی داعی ہیں لہٰذا ہندو قوم پرستی کوئی پرانی تاریخی چیز نہیں بلکہ جدید سیاسی تاریخ کا حصہ ہے۔ جس کے تحت قومی ریاستیں وجود میں آئیں… آئے اب ہندو توا کے تحت ہندو قوم پرستی کی تفصیل کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ہندو نیشنل ازم کو سمجھنے کے لیے ہندو تواکو سمجھنا ضروری ہے۔ ہندو توا ہندو نیشنل ازم ہی کا دوسرا نام ہے۔

ہندو توا Hindu tiva:

                ہندو سیاست ہندوستان میں ہندو توا کے ساتھ جڑی ہوئی ہے مختلف ہندوسیاسی جماعتوں کے مجموعے کو ہندو توا کہا جاتا ہے ہندو توا مندرجہ ذیل سیاسی ہندو پارٹیوں کے مجموعے کا نام ہے۔

١… بھارتیہ جنتا پارٹی

٢… شیوا سینا

٣… آکھل بھارتیہ ہندو مہاسبھا

٤… بھارتیہ جن سنگھ

٥… رام راج پرشید

٦… وشوا ہندو پرشید

٧… بج رنگ دَل (سکھ پارٹی)

٨… راشٹر یا سوا بام سوک سنگھ

               

                ہندو توا کے ماتحت اوپر بیان کردہ سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں کا ہندو قوم پرستانہ سیاست میں ایک خاص مقام ہے اور تمام سیاست دان ہی لیڈروں کے ارد گرد گھومتی ہے ۔

… بال گنگا دھرتلک

… پنڈت مدن موہن مالوا

… وینائک دامودار ساور کر

… مدھو سادشؤ گول واکر

… کشوا بلی رام ہجوار

… سائما پرشاد مکرجی

… دیند یپال آیا دھپایا

… بال ٹھاکرے وغیرہ

… واجپائی

ہندو توا کی سیاست:

                ہندو تو اپنی سیاست کی بنیاد مذہب پر استوار کرنے کی مخالف ہیں گوکہ وہ ہندو مذہب کی بنیاد آورشوں کی انفرادی زندگی میں بجا آوری پر زور دیتے ہیں، ہندو توا والے مذہب سے زیادہ سیکولرازم پر ایمان رکھتے ہیں۔ اسی لیے وہ مذہب کو ریاستی عمل سے باہر سمجھتے ہیں اور ریاستی سیاست (جمہوریت) میں وہ ہندو نیشنل ازم کو ایک قوت متحرکہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور ہندو نیشنل ازم کو بطور آئیڈیالوجی کے استعمال کرتے ہیں ہندو توائی جدید ہندوستانی ری پبلک کو ہندو راشٹریہ یعنی ہندو ریاست کے علی الرغم سمجھتے ہیں اور ری پبلک آف انڈیا کو ہندو ورثہ اور اس کی خود ساختہ تاریخ کی حفاظت کی امین سمجھتے ہیں… جیسے کہ بھارتیہ جنتا پارتی (بی جے پی) کے لٹریچر اور اس کے سلوگن میں ہندو راشٹریہ یعنی جدید ہندو ریاست کے قیام کو اپنی بنیادی نظریہ قرار دیتے ہیں۔ بی جے پی اسی ہندو راشٹریہ کے دائرے میںبدھ ازم، جین ازم اور سکھ ازم کو بھی بیان کرتے ہیں اور ان مذاہب کے ماننے والوں کو بھی ہندو قرار دیتے ہیں۔ جبکہ بدھ ازم، جین ازم اور سکھ ازم کے پیروکار اپنے آپ کو ہندوؤں سے الگ سمجھتے ہیں۔

                چنانچہ ہندو توا والے اپنی سیاست کووسعت دینے کے لیے مذہب کو اپنی سیاست سے جدا قرار دیتے ہیں۔ اور اپنی جدوجہد کو خالصتاً ہندو نیشنل ازم کا امین سمجھتے ہیں۔ جس کا بنیای مقصد ہندو راشٹریہ  یعنی ہندو ریاست کا قیام ہے۔

ہندو توا کیا ہے؟

                ہندو توا کا نظریہ کوئی پرانی چیز نہیں ہے اس کا ظہور بیس ویں صدی میں ہوا ہندوئوں کی طرف سے جنگ آزادی کا ہیرو جس کا نام وینائک دامودار تھا عوام میں ویر ساور کر  کے نام سے جانا جاتا تھا اس نے انگریز کی اسیری کے دوران جیل میں ایک کتاب لکھی جس کا نام ہندو توا تھا۔ بھاگو اگیتا کو ہندو مذہب میں بائبل کی حیثیت حاصل ہے اسی طرح ہندو توا کی کتاب کو جدید ہندوستان میں ہندو تاریخ، ہندوورثے، ہندو نسل اور ہندو نیشنل ازم پر حروف آخر سمجھا جاتا ہے، یاد رہے ہندو توا کی کتاب مراٹھی زبان میں لکھی گئی، دیر ساور کرکے مطابق ہند تواکا مطلب ہندوستانی ہونا ہے،جس کو وہ ”ہندو پن” Hindunessکہتا ہے۔ Hunduness کا مطلب اور مقصد ہندو رثے اور تہذیب کی حفاظت ہے اور ہندو طرز رہائش یعنی Hindu Way of Life کو اختیار کرنا ہے۔ ساورکرکے مطابق ایک ہندو اپنے ہندو پن کو چھوڑے بغیر کسی غیر ہندو مذہب کا پیروہوسکتا ہے۔ اور اپنی ہندوانہ روش پر قائم رہتے ہوئے دوسرے خدا یا خدائوں کی پرستش بھی کرسکتا ہے گو کہ اس کا یہ عمل ناقص ہوگا لیکن غلط یا قابل اعتراض نہیں گرداناجاسکتا، لہٰذا اسی کثیر جہتی ہماہمی کی بنیاد پر ان ہندو پن والوں کو انسانیت دوست دنیا کو کامیابی کی طرف لے جانے والے اور امن و آشتی کا گہوارا بنانے کے لیے ایک دوسرے کی مدد اور قوت فراہم کرنے والے ہندہ توا  دنیاوی بھلائی اور فلاح کے لیے،  نہ صرف ہندو ازم کی بھلا اور صلح چاہتا ہے بلکہ وہ سکھ ازم، بدھ ازم  اورجین ازم کو بھی وقعت کی نگاہ سے دیکھتا ہے، اسی وجہ سے وہ کہتا ہے کہ ہندو توائی  سب سے بڑھ کر سیکولر اور روادار ہوتا ہے۔

                گاندھی کی شخصیت کی بنا پر ہندو توا کی تحریک نے آزادی کے بعد خاصے عرصے تک قبولیّت عامہ حاصل نہ کی لیکن 1980ء میں اس کو پذیرائی ملنا شروع ہوئی اس دور میں دو بنیادی عوامل نے ہندو توا کو ہندوستان میں عوام میں پذیرائی عطا کی۔ راجیو گاندھی کے دور اقتدار میں پارلیمنٹ میں مسلمانوں کے خلاف سپریم کورٹ کے دیے ہوئے فیصلے کو تبدیل کیا۔

                بابری مسجد کا کیس، بابری مسجد کی شہادت اور اس کے گرد ہونے والی عوامی سیاست نے بی جے پی کو عوام میں قبولیت عطا کی اور اس کو عالمی پذیرائی بھی بخشی۔

ہندو نیشنل ازم کی تاریخ:

                ہندو توا کی اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ ہندو نیشنلزم کا آغاز 8 ویں صدی عیسویں سے ہوتا ہے جب مسلمان حملہ آور ہندوستان آنا شروع ہوئے۔ لہٰذا ہندوئوں نے بنیادی طور پر ان حملہ آوروں سے اپنی ریاست کو بچانے اور دھرم کو محفوظ رکھنے کی جدوجہد شروع کی اس مقصد کے لیے تاریخی طور پر ہندوئوں نے جس اصطلاح کو استعمال کیا جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے اس کو ہندو توائی کشٹیریا، یعنی تحفظ دھرم / تحفظ ریاست کہتے ہیں۔ ہندو توائی کہتے ہیں کہ یہ کشٹیریا بذات خود نیشنلزم ہی ہے، لہٰذا ہندو عوام ہندو دھرم ہندو ریاست کا قیام، ہندو توا یا ہندو نیشنلزم کے ساتھ منسلک ہے، اسی لیے ہر ہندوستانی کو ہندوستانی ریاست کا وفا شعار ہونا ضروری ہے۔ ساور کر اس وفا شعاری کو ہندو راشٹرا یعنی ہندو ریاست کا نام دیتا ہے اور بطور ایک ہندوستانی تمام ہندوستانیوں کو ہندو مذہب کے ساتھ ہندو روایات کے ساتھ ہندو تہذیب و اقدار کے ساتھ ساتھ ہندو ریاست کا پاسبان ہونا ضروری ہے۔اور ان تمام اقدار و روایات کو ریاست کی تعمیر کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔

ہندو راشٹرا کیا ہے:

                ہندو راشٹرا کی تکرار تمام ہی سنگ پری وار پارٹیوں میں ملتی ہے سنگ پری وار پارٹیوں میں سے ایک پارٹی کا نام ہی را شٹریا ہے جس کو RSS کمپنی راشٹریا سوا سوک سنگھ پارٹی ہے۔ (National Votunteer Organization)  RSS اپنے آپ کو ایک وینلٹیئر آرگنائزیشن کہتے ہیں۔ اس کا ایک اور نعرہ سنگھٹ ہندو سمار تھا بھارت یعنی یونائیڈڈ ہندو اور کیپ ایبل انڈیاہے، راشٹر والے روزانہ کھلی جگہوں پر اپنا اجتماع منعقد کرتے ہیں۔ جہاں بچے عورتیں مرد ایک ساتھ جمع ہوکر فوجی طرز کی مشقیں کرتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ سارے بھارت میں روزانہ ان کی اس طرح کے پانچ ہزار اجتماعات ہوتے ہیں۔ وشوا ہند پری شد اس کی ایک سسٹر تنظیم ہے جس کا مقصد ہندوستان سے باہر ہندوئوں کے لیے کام کرنا ہے۔ آر ایس ایس والوں کا دعویٰ ہے کہ ہندوستان نے ساری دنیا کو سیکولرازم، سول لائزیشن علم ہند سر سکھائی، مزید برآں ان کا دعویٰ ہے کہ محمڈن (مسلمان) بھی ہندو ہی ہیں یہ لوگ بھی ہندوستان کے باسی ہیں اور ہوسکتا ہے کہ مستقبل قریب میں ہندوستانی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہم سب مل کر مذہبی تعصب اور مذہبی کٹر پن سے گلو خلاصی حاصل کرلیں اور مذہب کی جگہ ایک ایسی انسانی ریاست کا قیام عمل میں لائیں (ہندو ریاست) جہاں مذہب کا کوئی ریاستی عمل دخل موجود نہ ہو۔

                ہندو قوم ہندوستان میں ہمیشہ سے تھی اور مستقبل میں بھی ہمیشہ رہیں گے اور ہندو ہندوستان میں بحیثیت مسلمان اور عیسائی کی طرح باہر سے حملہ آور نہیں ہوئے، لہٰذا ہندو راشٹرا کا خیال اور قیام سیکولرازم اور جمہوریت سے قطعی متصادم نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ فطری طور پرمتعلق ہے، لہٰذا ہندوتواکی اصطلاح احاطہ کرتی ہے تمام ہندوستانی ثقافت کی بالخصوص ان ہندوستانیوں کا جن کے آباواجداد ہندو تھے، لہٰذا مسلم اور عیسائی ہندوستانی بھی ہندو ہیں جس کے اجداد ہندو تھے۔ لہٰذا عیسائی اور مسلم مذہب سے قطعہ نظر ان کا ورثہ اور ان کی تہذیب  ہندوستانی ہی ہے۔ اسی دائرہ کار میں رہتے ہوئے اکھنڈ بھارت یعنی Complete india کی یہی تفسیر ہے ہندوستان کی تقسیم نے ہندوستان کی منفرد تاریخ، ثقافت، ورثے کو بری طرح متاثر کیا اور یہ تقسیم غیر فطری ہے۔

                ہندو راشٹرا کی وکالت کرنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ ہندو ازم میراث ہے۔ Tolerance یعنی رواداری، مختلف نوع فلاسفی اور اصلاح پسند تحریکات کی اس لیے ہندوتوا والے کہتے ہیں کہ ہم ایک عالمی بھائی چارے عالمی رواداری کے امین ہیں اسی لیے ہندوستان کا ہر فرد ہر طبقہ اور ادارہ ہندوستان میں دائمی طور پر ہندو تہذیب سے جڑا ہوا ہے۔ اسی لیے ہندو کی اصطلاح ایک کُل پر مبنی ہے اور یہ احاطہ کرتی ہے تمام ادیان اور فلسفوں کا جس میں سکھ، جین، بدھ تمام ہی شامل ہیں! آر ایس ایس والے کہتے ہیں کہ راشٹرا کا ترجمہ ہندو قوم درست نہیں ہے بلکہ اس کا درست ترجمہ ہندو ریاست اور ہندو پن ہے۔

وشوا ہندو پری شد:

                یہ آر ایس ایس کی ایک برادر تنظیم ہے۔ VHP کی تنظیم سازی 1967ء ہوئی، اس کے تحت بہت سے آر ایس ایس لیڈروں اور کچھ مذہبی پنڈتوں مل کر ہندو مذہب ہندو روایات اور ہندو بھائی کو از سر نو تعمیر (Revive) کرنے کا کام شروع کیا۔ VHP وہ تنظیم ہے۔ جس نے رام جنم بھومی (بابری مسجد) کا ایشوسارے ہندوستان میں عام کردیا اسی کے بطن سے اکھل بھارتیہ ویدھیار تیا پری شد نے جنم لیا جو اس وقت ہندوستان کی سب سے بڑی طلبہ تنظیم ہے۔ وی ایچ پی مزدوروں اور کسانوں میں بھی کام کرتی ہے۔

بھارتیہ جنتا پارٹی BJP:

                بھارتیہ جنتا پارٹی کو عموماً RSS کا پولیٹیکل ونگ سمجھا جاتا ہے، بی جے پی کا پرانا نام بھارتیہ جن سنگھ ہے جس کا سنگ بنیاد سیامر پرساد مکھرجی نے 1951ء میں رکھی۔ 1980ء میں بدل کر بی جے پی بنی… اٹل بہاری واجپائی اور لال کرشنا ایڈوانی اس کے مشہور لیڈر ہیں، وفاق کی سطح پر بی جے پی نے 1996ء میں حکومت حاصل کی لیکن صرف 13 دن میں ان کی حکومت ختم ہوگئی۔ 1998ء میں بی جے پی نے دوبارہ حکومت سازی کی 2001ء یہ دوبارہ انڈین کانگریس سے شکست کھاگئے۔ صوبہ گجرات، راجھستان ، چاتاس گڑھ، کرنا ٹکا، بی جے پی کے مضبوط گڑھ ہیں۔

                ہندو نیشنلزم میں ہندو دھرم سے زیادہ ہندو بادشاہوں کو بڑی اہمیت حاصل ہے جس میں پرتھوی راج اور سیواجی مہاراج کو اہم مقام حاصل ہے کیوں کہ  ان کا بنیادی مسئلہ ہندو مذہب نہیں بلکہ ہندو ریاست ہے۔ اسی لیے ایک ہندو تنظیم سیو سینا کا نام ہی شیواجی مہاراج نام کے اوپر ہے،(سیوا جی کی ساری جدوجہد ریاست کے حصول کے گرد گھومتی ہے) اس سیاسی پارٹی کا اثر و رسوخ بھارتی صوبے مہاراشٹرا میں بہت زیادہ ہے۔

                ہندو توا کا مرکزی خیال (Central Concept): ہندوتوا کے مطابق برصغیر میں ہمالیہ سے لے کر کوہ ہندو کش تک اکھنڈ بھارت ہے جو کہ ہندوئوں کا ہوم لینڈ ہے۔ ہندو صرف وہ ہے جو انڈیا یعنی بھارت کو اپنا عرف اترا بھومی یعنی  Father  Land سمجھتا ہے بلکہ وہ اس کو اپناپونیہ بھومی Holy land بھی سمجھتا ہے۔ عیسائی اور مسلمان کو باہر سے آئی ہوئی اقوام اور اقلیتیں ہیں انہوں نے ہندوئوں پر بڑے ظلم و ستم ڈھائے ہیں اور بہت سے ہندوئوں کو بزور طاقت مسلمان اور عیسائی بنایا ہے۔ مسلمان اور عیسائیوں کو تاریخی طور پر اس ظلم و زیادتی کو تسلیم کرنا چاہیے، ہندوئوں ہی کی کمزوری کی وجہ سے بیرونی طاقتیں ان پر غالب آئیں۔ لہٰذا مستقبل میں ایسی طاقتوں سے بچائو کے لیے ہندو راشٹرا کا قیام نہایت ضروری ہے۔ نیز ہندو مذہب اور ثقافت کو ریفارم اور ریویو یعنی تجدید نو کرنا ضروری ہے۔ گائے خالصاً ایک ہندوستانی سِمبَل ہے اس کی قربانی کرنے اس کی مذبحة کرنے پر پابندی عائد ہونی چاہیے۔

                ہندو توا ہندو ازم سے مختلف ہے، ہندو توا ایک تاریخ کا نام ہے جو ہندوسوی لائزیشن ، تاریخ، نظریہ، مذہب کا احاطہ کرتی ہے۔ ہندو تِوا ہندو نسل اور انسانیت پر مبنی خیالات کو متحرک کرنے کا نام ہے ، جس سے مراد صرف ہندو پن کا اظہار ہے۔

                ہندوؤں کی تاریخ سندھ کی وادیوں سے شروع ہوئی یہاں انہوں نے ایک خاص تہذیب کی بنیاد رکھی جس کے تحت انہوں نے اپنے آپ کو اپنے ایرانی بھائیوں سے کاٹ کر ایک قومیت کی بنیاد ڈالی جس کا ذکر ”ریگ ویدا” میں ”سیتا سندھوس” کے نام سے ملتا ہے یہ ہی وہ سندھ کی وادی ہے جہاں آرینز نے اپنی قومی اور تہذیبی روایات کو شروع کیا بعد میں یہ ہی سندھوزیادہ شہرت کے ساتھ ہندو کہلائے۔ سنسکرت کا ایس (S) بدل کر ایچ (H) میںتبدیل ہوگیا یعنی ہندو بن گیا اسی طرح سپیتا، ھپتا میں بدل گیا، ہندووں کی جغرافیائی حدود ہمالیہ سے لے کر سیلون تک پھیلی ہوئی ہے، جس کا سرخیل شہزادہ ایودھیا تھا۔ رام چندرا گپتا نے آریان کو اکھٹا کرکے ان کو ایک قومی شکل میں منضبط کیا اور اس مقدس ریاست کی بنیاد ڈالی ہندو توا والے آریا ورتا، برہما ورتا کی اصطلاحوں کو رد کرتے ہیں کیونکہ یہ تقسیم مقدس ریاست کو ویدک بھارت اور جین بھارت میں تقسیم کردیتی ہے۔

                ہندو قوم پیدا ہوئی  دریاوں کے دریا سندھ سندھو دریا نے اپنے پانی سے ہندوؤ ں کے اجداد کی پرورش کی اسی لیے سندھو راشٹرا ہندوؤں کی وہ مملکت قدیم ہے جس کا ذکر ان کی مذہبی کتابوں میں سندھو ساویر کے نام سے ملتا ہے۔ سندھو ساویر بھارت کا رشتہ دار تھا جس نے سندھو کی بقا کے لیے بہت سی جنگیں لڑیں اسی لیے سندھو ان کا قومی ہیرو ہے اور ان کی قدیم پہچان ہے، اسی لیے سندھو سے قدیم اقوام یعنی ایرانی، یہودی، یونانی بھی بخوبی واقف تھے اور اسی نام سے ان کو سیاسی اور جغرافیائی لحاظ سے پکارتے تھے۔ ہندو توا والے بھی ویدک لائنز پر ہی اداروں اور ریاست کا قیام چاہتے ہیں جو کہ لبرل ، سیکولر ، ہیومنسٹ آدرشوں کے ساتھ اور اقدار کے ساتھ منسلک ہو لہٰذا ہندو دھرم کو اس مقصد کے لیے اس کی تجدید نو کرنا ضروری ہے تاکہ ہندوؤں کا حال ان کے ماضی کے ساتھ جڑا رہے اور وہ عزت و توقیر اور رفعت سے اقوام عالم میں ہمکنار ہوسکیں۔

                ہندو توا والے ایک اصطلاح ملیچھستان کی استعمال کرتے ہیں جس سے مراد غیر نسل اور غیر ملک کے ہوتے ہیں جبکہ سندھستان سے مراد آریائوں کا لاجواب ملک ہے۔ نیز ملیچھستان سے مراد یہ ہے جہاں ہندوئوں کی چار قومیں نہ ہوں اور یہ سندھو دریا سے پار کا علاقہ ہے۔

                پرکھارتھ، سنسکرت کی بڑی بیٹی ہے جس کوفروغ ہندی کہتے ہیں، ہندی ہندئوں کی قومی زبان ہے، ہندی نئی زبان نہیں ہے، یہ شروع ہی سے ہندوستان میں رابطہ کی زبان رہی ہے، جبکہ سنسکرت پنڈتوں اور شہزادوں اور بادشاہوں کی زبان ہے ہندی کو آپ ہندوستانی بھی کہہ سکتے ہیں، جو تمام ہندوستان اور راج سبا کی بھی زبان ہے اور یہ ہندوستان کی قومی زندگی کی پہچان ہے۔

                مسلمانوں کے آنے ہی سے پرکھارتھ سنسکرت اور ہندو تہذیب زندگی اور موت کی کشمکش سے دوچار ہوئی جس کا سُر خیل محمد بن قاسم اور محمود غزنوی تھے، جنہوں نے ہمارے (یندوؤں)دلوں اور روحوں کو مجروح کیا کرب اور دکھ پہنچانے کی آخری کڑی ابدالی تھا۔ اسلام کی امن بخشنے والی تلوار نے نا صرف ہندوئوں کو مجروح کیا بلکہ یہ ساسانیوں اور بازنطانیوں کو کچلتی ہوئی افغانستان اور بلوچستان تک آپہنچیں۔ دنیا اسلام جو کے تلوار کے زیر سایہ آگئی، ان مسلمان فاتحین نے دنیا کی تہذیب کا حشر بگاڑ دیا… یہ واحد ہندوستان تھا جو عرب کی آندھی کا تن تنہا مقابلہ بے جگری سے کرتا رہا اور انسانی تہذیب و تمدن کو بچاتا رہا اخلاقی اورفوجی لحاظ سے وہ اورنگزیب تک اس آندھی کا مقابلہ بے جگری سے کرتے رہے گو کہ وہ معرکہ ہار گئے لیکن اخلاقی جنگ جیت گئے ان کی اخلاقی فتح اکبر اور دارا شکوہ کی شکل میں ظاہر ہوئی ہندو توا کی تحریک ہندوستان قوم اور ریاست کو انہی غیر ملکی حملہ آوروں سے بچانے کی جنگ ہے ہماری(ہندوؤں) یہ جنگ مذہبی نہیں بلکہ قومی اور سیاسی ہے۔ ہم ہندوستان کی تمام قوموں اور نسلوں کو ہندو قوم سمجھتے ہیں ہم تہذیبی یکجہتی اور شہری تمدن کے علم بردار ہیں… اسی لیے ہم مذہبی ہئیت کو رد کرتے ہیں اور مذہب کو قومیت کی شناخت کا سر خیل نہیں سمجھتے، ہندو توا ہندو قوم کا نجات دہندہ ہے، ہم ہی کشمیری پنڈتوں کو ظلم و جبر سے بچاسکتے ہیں اسی لیے ہم ہندو احساسات و جذبات ہندو ہیروز کو ہر سطح پر اجاگر کرتے ہیں پرتھوی راج، سیواجی مہاراج، راج سینا، بائوجی مہاراج، گروگو بندشینا وغیرہ کے کارناموں کو اجاگر کرتے اور ان کے کارناموں سے عوام کو روشناس کراتے ہیں۔ عرب، مسلمان ہماری قومی روایات اور مذہب کے متعلق تو بہت کچھ جانتے ہیں لیکن بحیثیت ہندو قوم کے یہ ہم سے واقف نہیں ہیں لہٰذا جو لوگ ہندوستان کو اپنا Father Land نہیں مانتے اور اس کو اپنا Holy landبھی نہیں مانتے ان کو ہندوستان چھوڑنا پڑے گا اگر ہندوستان ریاست کا شہری بننا ہے تو ہندوستان کو اپنا Father اور Holy land ماننا پڑے گااس کو ہندوستان چھوڑنا پڑے گا۔ ہمارا بنیادی فلسفہ یہ ہے کہ ”مادہ” خدا نے تخلیق کیا ہے، انسان نے اس کو ترتیب دے کر تہذیب کی تخلیق کی ہے، انسان تہذیب کا خالق ہے اور خدا مادہ کا، انسان جب تہذیب کو تخلیق کرتا ہے تو اپنی روح کو خوشی بخشتا ہے وہ اس خوشی سے ”حسن” محبت” کو کشید کرتا ہے اور زندگی کو جلا بخشتا ہے کوئی قوم اس وقت تک تہذیب یافتہ نہیں ہوسکتی، جب تک وہ اپنے خیالات کو مجتمع کرکے اپنا دائرہ کار متعین نہیں کرتی ادب آرٹ، خیالات کو مجتمع کرنے کا نام تہذیب ہے۔ ہندو قوم نے مادہ کو تعمیر کرکے تہذیب کی بنیاد ڈالی۔

وید کی طرف پلٹو/ رجوع کرو:

                وید کی طرف پلٹو سے مراد ہندو توا والے یہ لیتے ہیںکہ ریاست کو ان خطوط پرقائم کیا جائے اور دوبارہ استوار کیا جائے جیسا کہ تاریخی طور پر پرانی ویدوں میں اس کا تذکرہ ملتا ہے ان کے مطابق وکراما جیت، بھاواشیائے پرنا اور پروا وغیرہ کے مطابق آریائوں کا بہترین ملک سندھوستان ہے  اسی کی بنیاد پر ہم ہندوستانی اور غیر ہندوستانی کے درمیان حد فاصل کھینچ سکتے ہیں جیسا کہ ان بادشاہوں نے ملیچھوں اور آریائوں کے درمیان لکیر کھینچی تھی یہ بادشاہ اسی کو سندھو  یعنی بھارت ورتا کے نام سے پکارتے تھے۔ ریاست کی تعمیر نو میں ہماری نسل کی پرانی یاداشتوں کا بڑا عمل دخل ہے اس نسلی تفوق کی تفریق جہاں اس کا تعلق ہمارے انتہائی ماضی سے ہے وہیں اس کا تعلق ہمارے آنے والے مستقبل سے بھی ہے۔ یہی ہماری لافانیت اور ابدیت ہے۔ سندھو دریا سے لے کر برھیما پُترا تک کا علاقہ ہماری راجنا راشٹرم ہے جس پر ہمارے قدیم راجائوں کی حکومت رہی ہے۔ لہٰذا ہم ہندوستانی ریاست کا تعین محض اس کی جغرافیائی حدود یا زمین کے تکڑے پر نہیں کرتے بلکہ اس سے مراد ملچھستان اور غیر ملچھستان ہے۔

                مندرجہ بالا صفحات میں قوم پرستی کو اجزائے ترکیبی بیان کیے ہیں اس کے تحت آپ مسلم قوم پرستی کو پان نیشنلزم، مذہبی نیشنلزم، تنویری قوم پرستی، رومینٹک نیشنلزم، وغیرہ کے دائرہ کار کے اندر رکھ کر اس کا تجزیہ کرسکتے ہیں۔ برصغیر کے سیاسی اور تاریخی منظر نامہ پر مسلم قوم پرستی انہی اجزائے ترکیبی کا ایک ملغوبہ ہے۔

مسلم قوم پرستی:

                ہندوستان میں مسلم قوم پرستی اور وطن پرستی کا بیج سرسید احمد خان اور ان کے رفقاء اور ان کی فکر سے متاثر محمد علی جوہر، مولانا شبلی اورمولانا مدنی، وغیرہ کو قرار دیا جاسکتا ہے۔ تحریک خلافت کے آخری دور نے مسلم قوم پرستی اور وطن پرستی کی فکر کو اجاگر کیا جمعیت علماء ہند کے پلیٹ فارم پر مسلم قوم پرستی / وطن پرستی کو اسلامی جامہ پہنانے میں ہر اوّل دستہ کا کام کیا تاکہ مسلمانوں کا مادی اور سیاسی لحاظ سے ہندوئوں کے بالمقابل ہر سطح پر تحفظ کیا جاسکے… علی گڑھ سر سید احمد خان اور ان کے رفقاء کار نے مسلمانوں کا قومی تصور ابھارا مسلم حقوق، مساوات، ترقی سیکولرازم، مادہ پرستانہ سوچ کو پھیلانے کا بنیادی مقصد یہ ہی تھا کہ مسلمانوں اور ان کے زعماء کار کو ہندوئوں کے بالمقابل انگریزوں کے زیادہ قریب ان کا دوست اور ان کا بہی خواہ ثابت کیا جاسکے اور مسلمانوں کے معاشی مفادات، معاشی ترقی، برتری، مستقبل سازی بیوروکریسی میں مسلمانوں کا حصہ ان کو دلایا جاسکے ایسا اسی وقت ہوسکتا تھا کہ مسلمان فکری اور عملی طور پر خود کو انگریز کا حلیف ثابت کرسکیں اور انگریز کو یہ باور کرایا جاسکے کہ مسلمان دور جامد سے نکل کر ترقی اور جدیدتمدن کے حصول کے لیے مذہب سے نکل کر اس طرف گامزن ہورہے ہیں، لہٰذا سرسید اور ان کے رفقاء کار کی کوشش تھی کہ مسلمان نیچرل سائنس میڈیسن اور قانون کی تعلیم کی طرف راغب ہوں اور انگریزی عمل داری میں اپنا حصہ بقدر جثہ حاصل کرسکیں اور اس کی ریاستی ڈھانچہ میں بحیثیت ایک کل پُرزے یعنی کلرک کے اس کی ریاست کو چلانے میں معاون اور مددگار ثابت ہوسکیں۔

پان نیشنلزم :

                پان نیشنلزم بنیادی طور پر ثقافتی اور گروہی قوم پرستی کا ایک ملغوبہ جہاں مختلف نوع، مختلف نسل کے لوگ حصول اغراج کے لیے ایک ریاست کے گرد مجتمع ہوتے ہیں اور بسااوقات یہ غیر نسلی گروہ ایک مخصوص قوم پرستی کا اظہار کرتے ہیں۔ علمی طور پر اس کو پان اسلام ازم کہتے ہیں۔

پان اسلامی ازم:

                پان اسلامی ازم بنیادی طور پر اسلامک land کے حصول کی تحریک ہے جو اسپین، بغداد اور مسلم ہندوستان کی ترقی اور کامیابی کی طرف پلٹنا چاہتی ہے یہ ایک گروہی نسلی تحریک ہے جو مسلم اتحاد مسلم ترقی اور مسلمانوں کے تحفظ کی دعویدار ہے اس کا مقصد ایک عظیم تر اسلامی قومی ریاست کے قیام پر مبنی ہے، یان اسلام ازم ایک ایسی اسلامی ریاست کے قیام کی داعی ہے جو اقوام عالم میں مسلمانوں کو سُرخرو، مضبوط، آزاد اور طاقتور دیکھنا چاہتی ہے اور کلونیلزم اور کلونل ریاستوں سے مسلم ریاستوں اور مسلمانوں کو تحفظ فراہم کرنا اس کا بنیادی مطمع نگاہ ہے اس کے داعی (بالخصوص جمال الدین افغانی) عبدہ، آزاد، مدنی وغیرہ) چاہتے ہیں کہ مسلمان اپنے آپ کو جدید دورسے ہم آہنگ کریں اور زمانے کے ساتھ قدم بقدم چل سکیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان معاشرتی اور معاشی تبدیلیاں لائیں اور دور جامد سے باہر آئیں تاکہ اسلامی جمعیت کو اقوام عالم کے بالمقابل ابھارا جاسکے مسلمان عقل سے اپنا تعلق جوڑ کر دوبارہ مساوات، ترقی اور معاشرتی یکجہتی سے ہم آہنگ ہوسکتے ہیں۔ فی زمانہ حزب التحریر ڈاکٹر اسرار، ڈاکٹر طاہر القادری اور ڈاکٹر علامہ اقبال کی فکر کو اسی سانچے میں رکھ کر تجزیہ کیا جاسکتا ہے۔ پان اسلام ازم کی کوکھ سے ہی پان عرب ازم  اور پان اسلام ازم نے سر نکالا جو بعدازاں ہندوستان میں مسلم قوم پرستی  بنا… ہندوستان میںمسلم قوم پرستی نے 19 ویں صدی میں جڑ پکڑا جس کی بنیاد لسانی، مذہبی تفریق اور مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ برطانوی عمل داری میں رہتے ہوئے کرنا تھا۔ مسلم قوم پرستی کے رحجان کو غالب کرنے میں علی گڑھ تحریک، تحریک خلافت، جمعیت علماء ہند، بریلوی، دیو بندی تفریق نے اہم کردار ادا کیا۔

                پان اسلام ازم کا بنیادی مقصد مسلم ریاستوں کو تحفظ فراہم کرنے کی راہ نکالنا اور مسلمانوں کو حقوق دلانا تھا فی زمانہ مغربی سرمایہ دارانہ ریاستیں مسلم ممالک میں پان اسلام ازم کو لبرٹی، فریڈم جمہوریت کے فروغ کا ذریعہ سمجھتی ہیں اور لبرل ازم کے بالمقابل یان اسلامی ازم کو متوازی قوت کے طور پر متعارف کرانا چاہتی ہیں اسی لیے امریکا مسلم دنیا میںیان اسلام ازم کو ایک بالمقابل سیاسی قوت کے استعمال کرنے کا متمعنی سمجھتا ہے تاکہ مسلم ممالک میں مغربی فکر اس کی عمل داری کو اسلامی جامہ کے اندر پیش کیا جاسکے اور مسلم ممالک میں ایک اصلاح پسند اسلام کوسامنے لایا جاسکے۔

پان عرب ازم:

                پان عرب ازم کا بنیادی مقصد ترکوں کے خلاف سیاسی طاقت اور قوت کا حصول تھا۔ عرب کی زمانہ جاہلیت کی تاریخ اور اسلامی عرب کی تاریخ اس کی فکر کا بنیادی منبع اور مرکز تھا۔ پہلی جنگ عظیم کے آغاز میں فرانس اور انگلستان کو ایسے اتحادیوں کی تلاش تھی جو جرمنی اور عثمانی خلافت کے مد مقابل ان اے اتحادی بن سکیں۔ لہٰذا دونوں طاغوتی طاقتوں  نے عرب دنیا اور مسلم افریقہ میں عرب نیشنلزم کو ہوا دینا شروع کی۔ شریف مکہ جس کو اس وقت عالم اسلام میں بڑی اہمیت حاصل تھی اور عرب دنیا میں اس کا بڑا اثر و رسوخ تھا، مغربی طاقتوں نے شریف مکہ کوترکوں کی عملداری سے نکلنے کے لیے اکسایا ۔ یہودیوں کے بڑھتے ہوئے عظائم نے بھی عرب دنیا کو پان عرب ازم کی طرف مائل کیا۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد عرب مفادات کے حصول کے لیے عرب لیگ کا قیام عمل میں آیا۔ جس نے اپنے علیحدہ تشخص کو ابھارا عرب نیشنلزم کے بنیادی اصول ١٩٦٠ء میں  باعث پارٹی کے بعد مرتب ہوئے عرب قوم پرستی کا دوسرا بڑا  چیمئن مصر کا جمال عبدالناصر تھا جو کہ باعشٹ تو نہ تھا لیکن اس کے خیالات بہت حد تک باعث پارٹی کا چربا ضرورتھے۔ ناصر عرب اتحاد اور سوشلزم کا داعی تھا پان عرب ازم میں رہائشی عنصر عربیو عجمی عرب ثقافت، عرب اتحاد اور سیاسی آزادی کو اقداری حیثیت حاصل ہے۔ اس کے تحت عربی زبان عرب اشرافیہ، عرب جغرافیہ کو اہمیت حاصل ہے۔ عرب پان ازم کے بالمقابل عرب مسلم نیشنلزم کا داعی سعودی عرب ہے، جس کو مغربی دنیا بطور اپنے تحادی کے ایک بفرایجنڈ کے استعمال کرتی ہے۔ ہر دو طرح عرب نیشنلزم کے فروغ میں ان عرب دانشوروں کا بہت بڑا کردار  ہے جو مغرب سے مرعوب تھے اور مغربی تعلیم کے حصول کو اور تیل کی دولت کو عرب دنیااور اس کی ریاستوں کے تحفظ کا ذریعہ سمجھتے تھے۔

پاکستانی قوم پرستی:

                پاکستانی قوم پرستی نے مسلم قوم پرستی کی کوکھ سے جنم لیا جس کی بنیادی ترجیح اقوام عالم کے بالمقابل معاشی مفاد اور اخراج کا حصول ہے اس کا دوسرا بڑا مقصد ہندوستان کے بالمقابل پاکستان کو دفاعی لحاظ سے مضبوط کرنا، نیز پاکستان کو ہندوستان کے بالمقابل ایسی قوت کے طور پر پیش کرنا ہے جو مغرب کا حقیقی حلیف ہے، پاکستانی قوم پرستی کا ایک اور ہدف پاکستانی وطن پرستی کونچلی سطح پر اس طرح فروغ دینا ہے کہ اسلامی اقدار اور اسلامی شعار کو پاکستانی قوم پرستی کے فروغ کے لیے بطور ہتھیار کے استعمال کیا جاسکے۔ یہ تمام تصورات باطل ہیں کیوں کہ  یہ سب اسی دنیا میں جنت بنانا چاہتے ہیں اور مغربی اقدار، آزادی،حقوق، ترقی، مساوات کو زندگی کا حاصل قرار دیتے ہیں یہ اقدار ان کومادی ترقی، خود غرضی، قوت، مرتبے اور مقام کی تلاش پر اکساتی ہے اور آفاقی تصورات حشر، انصاف، موت، میزان، معاد کے تصور اُخروی کے حصول کو دھندلادیتی ہے اور مسلمانوں کو ”امت وسط” کے برخلاف سرمایہ دارانہ استعماری قوتوں کا حلیف بن جانے کے لیے اکساتی ہے۔

                پاکستانی قوم پرستی اور مسلم قوم پرستی اپنانے کا مطلب ہے کہ آپ نے سرمایہ داری کے نظریہ کو معاشرت، فرد اور ریاست کی سطح پر مساوات، ترقی، آزادی اور حقوق کے دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے قبول کرلیا ہے اور آپ طاغوت پر قوت کے حصول کے لیے ایمان لے آئے ہیں اور اسلام کے آفاقی تصور ایمان، اسلام اور احسان سے بری الذمہ ہوگئے ہیں اور آپ نے ایمان مفصل اور ایمان مجمل کی تفصیل کی جگہ قوم اور ریاست بل قوہ اور انسانیت پرستی کو لذت پروری کے لیے قبول کرلیا ہے۔

مسلم اور ہندو قوم پرستی کا تقابلی مطالعہ

                1857ء کے جہاد کی شکست محض عسکری شکست نہ تھی بلکہ یہ آگے چل کر انگریز کے ایجنٹوں کے زیر سایہ (سرسید، امیر علی، چراغ علی وغیرہ) فرد، معاشرت اورمعیشت کی شکست بھی ثابت ہوئی۔ ایمان، احسان اور اسلام کی جگہ سیکولر اور لبرل اقدار اور نظریات لبرٹی، آزادی، ترقی، مساوات اور حقوق نے لے لی اس فکری اور عسکری شکست نے ہندو مسلم رواداری دعوت و محبت اورفروغ اسلام کو ناممکن بنادیا، نتیجہ یہ نکلا کہ محبت و دعوت کی جگہ بالمقابلہ تفوق بغض ، حسدکو پیدا کرکے ہندو مسلم قوم پرستی کو پھلنے پھولنے کی راہ دکھائی۔ چنانچہ مسلم قوم پرستی، وطن پرستی کے جذبات نے ملت کے مباحث کو پس پشت ڈال کر اسلام اور مسلمانوں کے مادی مفادات کے حصول کے ساتھ خلط ملط کردیا سا  لمیت پاکستان اور بقاء مسلمان اور غلبہ دین ایک ہی چیز تصور کیے جاتے ہیں اسلامی ریاست اور قومی ریاست بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ خلط ملط اس طرح ہوئے کہ اسلام پاکستان اور پاکستان اسلام بن گیا۔”امت” ، ”مسلمان”، ”ایمان” ، ”احسان” فراموش کرادیے گئے۔

                ساخت کے لحاظ سے ہندو مسلم قوم پرستی میں کچھ زیادہ بنیادی فرق نہیں ہے۔ دونوں کی تشکیل ایک ہی طرح کے جذبے پر رہتی ہے، یعنی حرص، حسد، مقابلہ (دشمنی، عداوت، بغض) دونوں کے ہی بنیادی اوصاف حمید (رذیلہ) ایک ہی ہیں، دونوں یعنی مسلم و ہند قوم پرستی اپنے لبرل اور سیکولر ہونے کو وجہ جواز بناتی ہیں تاکہ اپنی قوم کو جدید آفاقی (سرمایہ دارانہ) دعویٰ اور اقدار کا علم بردار قرار دے سکیں، رواداری انسانیت پرستی دونوں کو ہی یہ بنیادی اقدار کے طور پر قبول کرتی ہیں، مذہب اور مذہبی اقدار کو قومی جذبات کے فروغ کے لیے بطور ہتھیار کے استعمال کرتی ہیں اور اقوام عالم میں ایک برتر تشخص، تفوق، برتری اور مقابلہ کی دعویٰ دار ہوتی ہیں۔ دونوں کا ہی بنیادی ہدف ریاست کا حصول ہوتا ہے اور دونوں ہی انسانی جذبات اور میلان کو فروغ دینے کے لیے نفس امارہ کو مہمیز دینے کے لیے غیر قوم سے تصادم/ نزع/ تعارض/ جدل/ مخالف قوم سے مسابقت / رقابت کو انسان کا فطری جذبہ قرار دیتی ہیں۔

                ذیل میں ہندو مسلم قوم پرستی میں فرق اور مماثلت کو وضح کیا گیا ہے:

 

 

مسلم قوم پرست                                                                       

٭…مسلم لیگ کا دعویٰ کہ پاکستان کے اندر بسنے والی قوم صدیوں پرانی ہے۔

 

٭…ہندو توا کا دعویٰ ہے کہ ہندو ہندوستان میں قدیم قوم ہیں۔

٭…اپنی تاریخ ہے جو موہن جودڑو، ہڑپہ اور ٹیکسلا سے شروع ہوتی ہے۔

 ٭اپنی تاریخ ہے جو سندھو دریا سے شروع ہوتی ہے۔

٭…بھلائی فلاح مسلم ورثہ ہے۔

 ٭…فلاح، انسانیت اور فطرت کے بغیر ہندو قدر ہے

٭…اپنے ہیرو ہیں محمد بن قاسم ، غوری اور بابر وغیرہ

 ہندو قوم پرستی

٭…اپنے یرو ہیں : پرتھوی راج اور سیواجی، باؤ جی وغیرہ

٭…ترقی، مساوات، حقوق، بنیادی نعرے ہیں، حقوق العباد حقوق انسانی ایک ہی چیز ہے۔

٭…ترقی، مساوات، حقوق ، بنیادی نعرے ہیں، حقوق انسانی کو مساوات کے دائرے میں تفوق حاصل ہے۔

٭…نقطۂ ماسکہ: غیر قومی ریاست کو رد کرتے ہیں جمہوریت کو قبول کرتے ہیں، ترقی کو اہم ہدف قرار دیتے ہیں ، معاشی مفادات کو ترجیح حاصل ہے۔ آزادی،امن آشتی کو اہمیت حاصل ہے

 ٭…نقطۂ ماسکہ: غیر قومی ریاست کو رد کرتے ہیں، جمہوریت کو قبول کرتے ہیں ، ترقی کو اہم ہدف قرار دیتے ہیں ، معاشی مفادات کو ترجیح حاصل ہے۔ ماحول کی درستگی ، امن و آشتی کا خود کو خوگر قرار دیتے ہیں۔

٭…معاشی مفاد کو معاد پر ترجیح حاصل ہے۔

 ٭…معاد کا کوئی تصور موجود نہیں ہے۔ معاشی ترقی کو ہر چیز پر اوّلیت حاصل ہے۔

٭…ریاست کی تعمی اور ترقی اور قوت کا حصول جدوجہد کا حاصل ہے۔

 ٭…ریاست کی ہندو بنیادوں پر تجدید اور قوت کا حصول اہم ہے۔

 

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *