محمد زاہد صدیق مغل

جدید زمانے کے مذہب مخالفین ،خود کو عقل پرست کہنے والے اور چند سیکولر لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اخلاقیات (خیر وشر اہم وغیرہ اہم) یعنی قدر کا منبع الہامی کتاب نہیں ہونا چاہئے (کیوں؟ بعض کے نذدیک اس لئے کہ مذہبی اخلاقیات داگمٹیک ہوتی ہیں بعض کے نذدیک اس لئے کہ ان کی عقلی توجہیہ نہیں ہوتی اور بعض کے نذدیک اس لئے کہ وہ سرے سے وحی کو علم ہی نہیں مانتے ،مگر یہ کیوں فی الحال ہمارے لئے اہم نہیں) جب ان سے پوچھا جائے کہ اچھا یہ بتاؤ کہ پھر اخلاقیات کی بنیاد کیا ہے تو انکو مختلف لوگ مختلف دعوے کرتے ہیں۔اس مختصر مضمون میں ہم اخلاقیات کی انہی معروف غیر الہامی بنیادوں کے اصولی مسائل اور داخلی تضادات پر روشنی ڈالیں گے ،وما توفیقی الا باللہ

  • سائنس سے اخلاقیات کشید کرنے والوں کی خدمت میں

ہمارے یہاں کے ملحدین اور عقل پرستوں میں سائنسی تحقیقات کی بنیاد پر اخلاقیات یا قدر کا اثبات کرنے والوں کی تعداد سب سے ذیادہ ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ اس کی سرے سے کوئی بنیاد ہے ہی نہیں ۔جولوگ اخلاقی معاملات طے کرنے ے لئے سائنسی تحقیقات پیش کرتے ہیں انہیں اتنی بنیادی بات کی خبر بھی نہیں کہ سائنسی تجربات کا دائرہ کیا ہے (what is)جبکہ اخلاقیات کا کیا ہونا چاہئے (what ought to be(ہے یہ ght to be کیا ہونا چاہئے رتے ہیں انہیں اتنی بنیادی بات کی خبر بھی نہیں کہ سائنسی تجربات کا دائرہ کیا ہے اخلاقی معاملات طے ہے (یہ الگ بحث ہے کہ سائنس کی بذات خود اپنی اقدار بھی ہیں مگر یہاں ہم بحث کو پچیدہ نہیں کرنا چاہتے ) ۔بنیادی منطق پڑھے لوگ بھی اس امر سے واقف ہیں کہ کیا ہے کے دعوے سے کیا ہونا چاہئے کا دعویٰ منطقی طور پر اخذ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ دو الگ دائرے (categories)ہیں (بالکل اسی طرح جیسے ایک کلو کا موازنہ ایک فٹ سے نہیں کیا جاسکتا ) ۔دوسرے لفظوں میں کیا ہے کا دعوی کیا ہونا چاہئے کی دلیل بننے کی صلاحیت نہیں رکھتا کیاہونا چاہئے کا دعویٰ اخذ کرنے کے لئے دلیل میں لازماً ایک نارمیٹو (normative)یعنی  کیا ہونا چاہئے کا دعوی موجو د ہونا ضروری ہے بصورت دیگر ایسا استدلال دوناقابل موازنہ دعووں کا غیر منظقی مجموعہ ہوگا مثال کے طور پر یہ دعوی لیجئے کہ چرس کے استعمال سے انسانی موت واقع ہوجاتی ہے (ایک پوزیٹو یا مثبت دعویٰ) کیا س سے یہ نتیجہ نکالاجاسکت اہے کہ چرس نہیں پینی یا نہیں اگانی چاہئے (نارمیٹو یا اخلاقی دعویٰ)؟ ہرگز نہیں جب تک دلیل میں پہلے دعوے کے ساتھ یہ نارمیٹو دعویٰ فرض نہ کرلیا جائے کہ انسانی زندگی کو تلف نہیں کرنا چاہئے یا انسان کو بچانا چاہئے اس وقت تک اس بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا کہ چرس پینی چاہئے یا نہیں ۔چنانچہ عقلاً ایسا کوئی اخلاقی دعویٰ نہیں دکھایا جاسکتا جس کی پشت پر ایک مفروضہ نارمیٹودعویٰ موجود نہ ہو (اس اصول کا ایک اہم نتیجہ ذیل میں عقل کی بحت کے ضمن میں بیان ہوگا جس سے دلیل مکمل ہوگی)۔

اس اصولی گفتگو سے یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ جو عقل پرست لوگ سائنسی تحقیقات کا حوالہ دیکر کسی فعل کے صحیح یا غلط ہونے کا اخلاقی جواز دینے کی کوشش کرتے ہیں وہ کیسی فاش اور مضحکہ خیز منطقی غلطی کا ارتکاب کرتے ہیں ۔چنانچہ یہ سمجھنا کہ قدر کے سوال میں سائنس ہماری رہنمائی کرے گی ایک غلط فہمی کے سوا کچھ نہیں سائنسی تحقیقات اس حوالے سے عقل پرستوں کوکہیں نہیں لے جاسکتی انسان کو قتل کرنا چاہئے یا نہیں سائنس اس بات کا جواب دینے کے لئے کلیتاً بے کار سے ہے (یہ الگ بات ہے کہ ہم سائنس کی مفروضہ اخلاقیات کو پہلے مان لیں مگر اس صورت میں پھر اس اخلاقی چوائس اور ترجیح کاجواز پیش کرنا ہوگا)۔

(2 ) تاریخی عمل سے اخلاقیات کشید کرنے والوں کی خدمت میں

جب اخلاقیات کے لئے سائنسی بنیاد کو منہدم کردیا جائے تو یہ عقل پرست اخلاقی قضیوں کے جواز کے لئے تاریخی عمل تشکیل پانے والے انسان کے اجتماعی شعور کا حوالہ دینے لگتے ہیں چنانچہ وہ کہتے کہ انسان اپنی تاریخی اور اجتماعی شعور سے اخلاقی سبق سیکھتا رہتا ہے کہ کیا غلط ہے اور کیا صحیح کیا فائدہ مند ہے اور کیا نقصاند ہ وغیرہ(یعنی سچ بولنا،انسانیت کا احترام وغیرہ یہ سب تاریخی عمل سے سیکھے ہوئے اخلاقی تصورات ہیں)۔اس اجتماعی شعور کے نتیجے میں انسان غلط کو ترک کرتا اور صحیح کو اختیار کرتا چلا جاتا ہے ۔ان کے خیال میں اس تاریخی عمل میں مذہب بھی کسی طور ان معنی میں شامل کیا جاسکتا ہے کہ مخصوص دور تک کے انسانوں نے اپنے تاریخی تجربات سے جو کچھ سیکھ لیا تھا چند اچھے اور بھلے لوگوں (جنہیں اہل مذہب انبیاء کہتے ہیں) نے ان اقدار کو معاشرے میں بطور عقیدہ متعارف کروادیا ،مگر چونکہ انسانی شعور کی تعمیر کا یہ سفر جاری وساری ہے لہذا نسان کو ماضی کے ان اقدار ی تصورات کو قصہ پارینہ سمجھ کر بھول جانا چاہئے اور دور حاضر کی علمیت (یعنی سائنس وسوشل سائنس) کی روشنی میں اقدار اختیار کرنا چاہئے ۔یہ دلیل بلکہ کہانی سنا کر وہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے ساری اخلاقی گھتیاں ہمیشہ کے لئے سلجھا دی ہیں۔

مگر یہ کہانی اپنے اندر اس قدر غیر منطقی ،باہم متضاد اور غیر ثابت شدہ مفروضات سموئے ہوئے ہے کہ انکا احاطہ کرنے کے لئے ایک مستقل مضمون درکار ہے ۔خوف طوالت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہاں چند ایک کی نشاندہی کئے لیتے ہیں:

  • انسانی تاریخ ایک مسلسل عمل (continuous process) او رسفر کا نام ہے ظاہر ہے یہ صرف ایک مفروضہ ہے جسے چند ایک فلسفیوں کے سواء دیگر فلسفی نہیں مانتے
  • یہ تاریخی عمل یک جہتی خط مستقیم (linear path) پر سفر کرتا ہوا ایک عمل ہے یعنی تاریخی عمل ہمیشہ پیچھے سے آگے کی طرف بڑھتا ہے نیز یہ سفر کبھی معکوس سمت میں نہیں چل سکتا ۔یہ بھی محض ایک مفروضہ ہے نیز اس کے خلاف بہت سی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں ۔مثلا ہم دیکھتے ہیں کہ یونانی فخریہ انداز سے برہنہ حالت میں کھیلوں کا مظاہرکیا کرتے تھے مگر پھر عیسائیت کے غلبے کے بعد لوگوں نے ایک طویل عرصہ تک ایسا کرنا چھوڑے رکھا یہاں تک کہ تنویری فکرکے غلبے کے بعد یورپی اور امریکی معاشروں میں یہ فعل دوبارہ راسخ ہونا شروع ہوگیا اسی طرح دورجاہلیت کے عرب شرم کے باعث اپنی بچیوں کو زندہ درگور کردیتے تھے ،پھر ایک عرصہ تک اسے براسمجھا جاتا رہا یہاں تک کہ یہ فعل دنیا میں دوبارہ اپورشن کے حق کے نام پر لوغ آیا (آج انڈیا میں کئی ایسے گاؤں ہیں جہاں لڑکیاں معدوم ہوتی جارہی ہیںجس کی وجہ یہ ہے کہ خواتین پیدائش سے قبل بچے کی جنس لڑکی معلو م ہونے پر اسقاط حمل کرالیتی ہیں) اسی طرح سود کی اخلاقی شناعت کے حوالے سے معکوس سمت میں تبدیل ہوتے انسانی اخلاقی رویوں کی مثال بھی پیش کی جاسکتی ہے ۔
  • کیا اس دنیا میں مطالعہ تاریخ اور اس سے نتائج اخذ کرنے کا ایک ہی مخصوص طریقہ کا راور نظریہ ہے ؟ ظاہر ہے ایسا تو ہرگز بھی نہیں مثلا ہیگل ،مارکس ،کومٹے ،سپنسر،فوکووغیرہ مختلف نظریات اور مفروضوں کی بنیاد پر تاریخی عمل کا مطالعہ کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ایک طرز عمل ایک مفکر کے مطابق اخلاقاً درست ہوتا ہے جبکہ دوسرے کے مطابق غیر اخلاقی قرار پاتا ہے ۔مثلا جذبہ مسابقت کولیجئے مارکس کے نزدیک یہ ظلم اور استحصال کو فروغ دیتا ہے جبکہ سنپسر اور دیگر سوشل ڈارونسٹ مفکرین کے خیال میں یہ انسانی فطرت کا عمدہ اور جائز ترین اظہار ہے
  • ان میں سے جو بھی منہج اخیتار کرلیا جائے اس کی علمی حیثیت ایک رائے (perspective) سے ذیادہ او رکچھ نہیں ہوگی اور یہ رائے کسی صورت غیر اقداری یا نیوٹرل نہیں ہوگی کیونکہ آپ اس کے اندر رہتے ہوئے تاریخ کو دیکھ رہے ہیں ۔ظاہر ہے تاریخ کے مختلف ادوار اور دھاروں کے اندر ہرنے والے لوگ تاریخ کو چند دیگر نظریات وآراءسے دیکھ کر مختلف نتیجے نکالیں گے نیز ان میں سے ہر ایک کو اپنے نظریہ سے نکلنے والی تاریخ ہم اہنگ دکھائی دے گی اور دوسرے کی لایعنی (یہ درحقیقت استقراء کا ایک بنیادی مسئلہ ہے کہ ایک ہی قسم کے مشاہدات کی توجہیہ ایک سے ذیادہ مفروضات کے ذریعہ کرنا ناممکن ہوتا ہے)
  • مطالعہ تاریخی اور اس سے نتیجہ نکالنے کے مختلف مناہیج سے کونسا منہج درست ہے اس کا فیصلہ کیسے کیا جائے گا یہ فیصلہ کون اور کس بنیاد پر کرے گا ؟پھر کیا اس فیصلہ کرنے کا پیمانہ تاریخی عمل کے اندر ہوگا یا اس سے باہر؟اگر کہاجائے کہ وہ پیمانہ تاریخی عمل کے اندر ہوگا تو یہ باہم متضاد بات ہے اس لئے کہ جب تاریخ کیا ہے بذات خود ایک منہج سے طے ہوتا ہے اور مختلف مناہیج ونظریات تاریخ کے مختلف تصورات پیش کرتے ہیں تو یہ تاریخ اور اسکے مختلف تصورات بذات خود ان مناہیج پر فیصل حیثیت کیسے اختیار کرسکتے ہیں یہ تو خود ان سے نکلے (outcome) ہیں؟اور اگر یہ کہاجائے کہ وہ پیمانہ تاریخی عمل سے باہرہوگا تو وہ کہاں سے آئے گا اور کون دیگا؟نیز یہ بھی باہم متناقص بات ہے کہ ایک طرف تو آپ دعوی کررہے ہیں کہ علم تاریخ عمل سے آئے گا مگر اسکی صحت طے کرنے کا پیمانہ اس سے باہر ہے سوال یہ ہے کہ جب امکان علم ہی تاریخ سے آتا تو اس سے باہر جانے کا امکان کہاں سے آیا؟
  • اگر کوئی ایک منہج طے کرہی لیا جائے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ تاریخی عمل درست سمت میں جارہاہے یا غلط سمت میں اس کا فیصلہ کیسے ہوگا؟ظاہر ہے تاریخی عمل سے وجود میں آنے والا اجتماعی شعور بذات خود اپنا جواز نہیں بن سکتا جب تک کہ یہ فرض نہ کرلیا جائے کہ یہ ٹھیک ہوتا ہے سے مان لو ۔پس جب کسی پیمانے پر یہ طے ہی نہیں کیا جاسکتا کہ یہ عمل ٹھیک سمت میں جارہا ہے یا نہیں،تو تاریخی عمل کو اخلاقی اعمال کے جواز کے طورپر پیش کرنا کیسے درست ہوسکتا ہے؟
  • فرض کرلیں اگر یہ تاریخی عمل درست بھی تب بھھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ مجھے بطور فرد اسے کیوں قبول ور اختیار کرلینا چاہئے ؟ آخر بطور آزاد ہستی میں اسے رد کرکے اسکے خلاف رویہ کیوں نہ اختیار کروں (خصوصا اس صورت میں کہ جب یہ معلوم ہی نہیں کہ حاضروموجود درست ہے بھی یا نہیں)؟

(3)تصورات فطرت سے اخلاقیات کشید کرنے والوں کی خدمت میں

بہت سے عقل پرست انسانی فطرت کو بھی اخلاقی اعمال کے جواز کے طورپر پیش کرتے ہیں (یعنی فلاں عمل فطرت کا تقاضا ہے یا فطرت کے خلاف ہے لہذا یسا کرنا یانہیں کرنا چاہئے وغیرہ) ۔آگے بڑھنے سے قبل یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ لفط فطرت دومعنی میں استعمال ہوتا ہے  ایک پوزیٹو(مثبت) دوسرا نارمیٹو(معیاری) ۔پوزیٹو معنی میں فطرت سے مراد کسی کام کوکرنے کی صلاحیت (ability to do something )ہوتی ہے ،ان معنی میں سچ بولنا،محبت کرنا،کسی کی مدد کرنا،دوسرے انسان کی جان لے لینا ،محرم رشتوں سے بدکاری کرنا ،جھوٹ بولنا ،نفرت کرنا ،دھوکہ دینا وغیر ہ تمام فطری کام ہیں اس لئے کہ انسان میں یہ سب کرنے کی صلاحیت موجود ہے ۔نارمیٹو معنی میں فطرت سے مراد نارمل معیار ی یاجائز رویہ ہوتا ہے یعنی یہ سوال اٹھایا جائے کہ سچ بولنا نارمل ہے یا جھوٹ ،محبت جائز عمل ہے یا نفرت کسی کو قتل کردینا اہم ہے یا بچا لینا،محرم رشتوں کا تقدس ہونا چاہئے یا ان کے ساتھ بدکاری ،مزامیر سے پرموسیقی کی سماعت درست ہے یا اس کا نہ سننا وغیرہ ۔چنانچہ جب اخلاقی اعمال کا جواز فطرت سے پیش کیا جاتا ہے تو لفظ فطرت اس دوسرے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے یعنی یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ نارمل وابنارمل معیاری وغیرمعیاری جائز وناجائز انسانی رویوں اور احساسات کا فیصلہ مطالعہ فطرت کی روشنی میں کرنا ناممکن ہے۔

مگر انسانی فطرت کو ماخذ اخلاق پیش کرنے میں نہایت بنیادی نوعیت کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے یہاں بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس انسانی فطرت کی روشنی میں خیر وشر ،جائز وناجائز کا فیصلہ کرنے کو دعوی کیا جارہاہے وہ انسانی فطرت کیا ہے اس کا تعین کیسے ہوتا ہے ؟ اس کی تعیین کا ایک طریقہ وہ ہے جو اجتماعیت پسند مفکرین بتاتے ہیں کہ فطرت انسانی کا فیصلہ تاریخی عمل سے وجود میں آنے والی انسانی شعور سے ہوتا ہے مگر اس فکر کی بنیادی خامیاں اوپر بیان کردی گئیں اس  کا دوسرا طریقہ وہ ہے جو انفرادیت پسند مفکرین پیش کرتے ہیں جن کے خیال میں انسانی فطرت کا تعین انسان کو زمان ومکان سے ماوراء(asocial and ahistorical) تصورکرکے کیا جاسکتا ہے ۔یعنی یہ حضرات کہتے ہیں کہ اگر ہم انسان کو معاشر اور وقت سے ماقبل اور ماوراء اور ان سے علیحدہ کرکے ایک آزاد ہستی کے طورپر تصورکریں تو وہ اسکی حالت اصلی یا فطری حالت ہوگی اس اصلی حالت میں انسان جو کرے گا یا کرنا چاہے گا وہی اس کی فطرت کا جائزہ اظہار ہوگا (اس طریقے کے تحت انسانی فطرت کی تمیز قائم کرنے کی ایک کوشش مشہور فلسفی جان رالز کی کتاب Theory of Justice میں ملتی ہے مگراجتماعیت پرست مفکرین کے نقد کے بعد رالز کو اپنی اس پوزیشن سے رجوع کرنا پڑا اس دلچسپ بحث کے مطالعے کے لئے دیکھئے کتاب Liberals and Communitarians by Stephen Mulhall and Adam Swift،یہ دلیل دینے والون کا مقصد یہ کہنا ہوتا ہے کہ چونکہ معاشرے میں رہنے کی وجہ سے انسان کی فطرت بہت سے خیالات ،میلانات ،معاشرتی ریوں اور سیاسی جکڑ بندیوں  کی وجہ سے مسخ ہوجاتی ہے لہذا اصل فطرت کی دریافت کے لئے ضروری ہے کہ اسے معاشرے سے علیحدہ کرکے اورکاٹ کر دیکھا جائے ۔اس طریقہ مطالعہ میں بہت سی بنیادی نوعیت کی خامیاں وکمزوریاں ہیں:

  • سب س بڑامسئلہ یہ ہے کہ طریقہ ایک ایسی شے جو کٹی ہوئی ہے ہی نہیں اسے کٹی ہوئی فرض کرکے نتیجے نکالنے کی کوشش کرتا ہے یعنی جو ہے ہی جزواسے کلیت سے علیحدہ فرض کرنے کی کوشش کرتا ہے۔دوسرے لفظوں میں یہ ایک لامتصور شے کو متصور کرنے کی لاحاصل کوشش کے سوا کچھ نہیں۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انسان کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی معاشرے کی ،ماقبل معاشرہ انسان کا نہ تو کوئی تاریخی ریکارڈ موجود ہے کہ جسکی روشنی میں یہ طے کیا جاسکے کہ وہ اصلی انسان کیسا تھا اور نہ ہی ایسا فرض کرنے کی کوئی علمی بنیاد ہمارے پاس موجود ہے۔معلوم انسانی تاریخ میں تو انسان ہمیشہ معاشرے کے اندر ہی پایا گیا ہے اور اسی کے اندر سے وہ اپنی شناخت ،نظریات ورحجانات دریافت کرتا رہاہے ۔یہی وجہ سے کہ تاریخ کے مختلف ادوار اور مختلف قسم کے معاشروں میں پیدا ہونے والے لوگوں کے فطری وغیر فطری کے رحجانات ومیلانات مختلف ہوتے ہیں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہزار ہا سال کی انسانی تاریخ اور معاشرتی وسیاسی عمل سے گزرجانے اور ان سے نجانے کن کن طریقوں سے متاثر ہوجانے کے بعد آج کون سا شخص اور کس بنیاد پر یہ دعوی کرسکتا ہے کہ فطرت نے سے کیسا بنایا تھا؟آخر کون اور کس بنیاد پر یہ طے کرے گا کہ اسکے میلانات اور رحجانات فطری (بمعنی حالت اصلی کا اظہار ) ہیں ؟  یہ کس طرح طے ہوگا کہ آج جو ہمارے میلانات ہیں ان میں سے کونسے میلانات اور کس حدتک اصلی ہیں جبکہ دیگر معاشرتی حالات کی پیداوار ہیں؟ درحقیقت معاشرے سے ماقبل انسان کا تصور بدیہی طورپر ایک لغو (absurd) تصور ہے
  • درحقیقت اپنی مخصوص تاریخی ومعاشرتی جکڑ بندیوں کا شکار ہر شخص اس طریقہ کار کے تحت اپنی حالت اصلی کا ایک مختلف تصور قائم کرے گا اور ان مختلف تصورات حالت اصلی میں تمیز قائم کرنے کی کوئی علمی بنیاد نہیں ہوسکتی۔مثلا رالز ہی کی مثال لیں اس کے خیال میں انسان کی اصلی حالت یہ ہے کہ وہ خود کوآزاد قائم الذات اپنے ذاتی مفادات کے حصول کا حریص انسان تصور کرے ظاہر ہے اس تصور کو اصلی کہنے کی کوئی علمی دلیل نہیں رالز نے اسنان کی حالت اصلی کے بارے میں یہ رائے اس لئے قائم کی کیونکہ ہو جس مغربی معاشرے میں پیدا وہاں فرد کی آزادی اور مفادات کے تحفظ کو بنیادی فوقیت دی جاتی ہے لہذا رالز نے اسی کو حالت اصلی فرض کرلیا ۔اس کے برعکس ایک قبائلی معاشرت کے انسان کے لئے ذاتی آزادی اور مفاد کوئی معنی نہیں رکھتے وہ خود کو قبیلے کا رکن تصور کرتا ہے اور اسی کو حالت اصلی سمجھے گا ۔ اسی طرح رالز کی ملحدانہ عقل کے برعکس ایک مسلمان کی عقل اسے یہ بتاتی ہے کہ اس کی حالت اصلی (فطرت)خدا کا بندہ ہونا ہے (وہ الست بربکم قالوا بلی کا نعرہ بلندکرتا ہے )۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان عقل پرستوں کے پاس آکر وہ کونسا علمی پیمانہ ہے جس کے ذریعے یہ ان مختلف تصورات فطرت میں تمیزقائم کرکے  اصلی حالت کا تعین کرسکتے ہیں؟ اور جب ایسا کوئی پیمانہ ہے ہی نہیں تو پھر اس دعوے سے ذیادہ لغو بات اور کیا ہوگی کہ فلاح کام انسانی فطرت کے مطابق یا خلاف ہے لہذا اسے کرنا یا نہیں کرنا چاہئے ؟

    (4)عقلیت سے اخلاقیات کشید کرنے والوں کی خدمت میں:

درج بالا گفتگو کے بعد اس قضیئے پر تفصیلی بحث کی کوئی خا ص ضرورت نہیں رہتی البتہ ایک اصولی بات سمجھ لینی چاہئے کہ تصور عقل دومعنی میں استعمال ہوتا ہے جوہری اور آلاتی (substantive and instrumental rationality )جوہری عقلیت کا معنی یہ ہے کہ ہم عقل کے سامنے یہ سوال رکھیں کہ خیر وشر کیا ہے حقیقت کا سراغ کیسے لگایا جائے مقاصد حیات کی تعیین وترتیب کس طرح طے ہو۔اس کے مقابلے میں آلاتی عقل کا معنی یہ ہے کہ عقل  سے کسی طے شدہ مقصد کے حصو ل کا طریقہ معلو م کیا جائے چنانچہ یہ خوب سمجھ لینا چاہئے کہ دماغی عقل میں جوہری عقلیت کی صلاحیت نہیں یعنی وہ اس بات کا کوئی تشفی بخش جواب نہیں دے سکتی کہ خیر وشر کیا ہے نیز مقاصد حیات  اور انکی باہمی ترتیب کیا ہو۔دماغی عقل کے لئے صرف یہ ممکن ہے کہ آپ اسے کسی طے شدہ مقصد کے ذریعہ حصول کے طور پر استعمال کریں یعنی عقل یہ تو نہیں طے کرسکتی کہ مقصد ادائیگی حج ہو یا فٹ بال کھیلنا ،البتہ عقل اس امر میں ضرور مددگار ہوسکتی ہے کہ ادائیگی حج یا فٹ بال کا بہترین انتظام کیسے ہو ۔اس بات کو امام اشعریؒ وغزالیؒ نے فتنہ اعتزال کے تناظر میں صدیوں پہلے بتا دیا تھا کہ عقل خیر وشر کے تعین کی اہلیت نہیں رکھتی یہ خالصتاً شرعی اوصاف ہیں یعنی جو بات مغربی فلسفیوں کو بیسویں صدی میں سمجھ آئی امام غزالی نے ہزار سال قبل ہی اس کی وضاحت کردی تھی ۔

چند مغربی فلسفیوں نے اخلاقیات کی خالصتاً عقلی توجیہات پیش کرنے کی کوشش ھی کی ہے جن میں سرفہرست نام کانٹ  کا ہے ۔ اس کی فکر کا حاصل یہ ہے کہ ہر وہ خواہش جسے ایک انسان مقصد میں ٹکراؤآئے بغیر سب کو پورا کرنے کی اجازت دے سکتا ہے وہ جائز ہے مگر کانٹ کی فکر کی بنیادی کمزوری یہ ہے کہ آزادی کو مفروضے کے طورپر قبول کرتی ہے نیز یہ محض ایک ساخت ہے جس کے اندر سوائے انسانی خواہشات کسی شے کا گزر نہیں ،دوسرے لفظوں میں کانٹ کے خیال میں اخلاقیات کا مافیہ ہم اہنگی کے ساتھ خواہشات کا حصول ہے پھر کانٹ کے اس فریم ورک میں خواہشات کی ترتیب  قائم کرنے کا کوئی پیمانہ نہیں یعنی یہ اصول فرد کو یہ نہیں بتاتا کہ اسے کیا چاہنا چاہئے یہ بس اتنا بتاتا ہے کہ ہروہ فعل جو ہم اہنگی کے ساتھ حاصل کیا جاسکتا ہے وہ جائز ہے ۔ اور اس قسم کی مزید خامیوں کی بنا پر کانٹ کے اخلاقی فلسفے کو علمی دنیا میں اصولاً رد رکردیا گیا ( یہ  اور بات ہے کہ عملاً سے قانون کے دائرے میں اب بھی کسی نہ کسی درجے میں برتا جارہاہے )

عقل سے اخلاقیات اخذ کرنے کی مشکلات کو ایک مزید زاویے سے دیکھیں ۔اوپر اس بات کی وضاحت کی گئی کہ اخلاقی دعوی اخذ کرنے کے لئے دلیل میں اخلاقی دعوی موجود ہونا ضروری ہے ۔چنانچہ اگر ایک نارمیٹو دعوے کے اثبات کے لئے آپ کو دوسرانارمیٹو دعوی چاہئے پھر اس دوسرے کا جواز آپ تیسرے سے دیتے ہیں اور اگر آپ ہر پچھلے نارمیٹو دعوے پر یہ کیوں مانا جائے (what is its justification) کا سوال اٹھاتے چلے جائیں تو آخر میں ایک ایسا نارمیٹو دعوی بچے گا جسے آپکی عقل بدیہی ( self-evident)یعنی اپنی دلیل ازخود ماننے پر مجبور ہوگی یعنی آپ کہیں گے کہ اسے تو بس ہوناچاہئے یہ توواضح بات ہے وغیرہ ۔یہ بدیہی دعوی ہر دوسرے دعوے کی دلیل تو ہوگا لیکن خود اس کی دلیل نہیں ہوگی ۔درحقیقت جب عقل پرست مذہبی لوگوں کو کہتے ہیں تم عقل کی بات نہیں مانتے تو اس کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ تم ہماری عقل کی طے کردہ تعریف کیوں نہیں مان رہے؟ ان عقل پرستوں کے ہاں عقل کا معنی انسان کو قائم بالذات اور اس کی لامتناہی خواہشات کی تسکین کو مقصد حیات مان لینا ہے یہی کلمہ خبثیہ مزعومہ اخلاقیات کی اصل بنیا د ہے جو انکی اس خود ساختہ عقل کی تعریف کو نہ مانے یہ اس پر جاہل وحشی ،غیر مذہب اور غیر عقلی کے القابات چسپاں کردیتے ہیں ۔ان کے یہاں عقل اور قدر کا مطلب انسانی آزادی میں اضافہ ہے اور چونکہ آزادی کی عمل شکل اور تجسیم سرمایہ (capital) ہے لہذا سرمایہ ہی انکے یہاں ہر عمل کی قدر متعین کرنے  کا اصلی پیمانہ ہے ۔جو خواہشات او راعمال بڑھوتری سرمائے میں ذہادہ ممدومددگار ہوتی ہیں مغربی (سرمایہ درانہ) معاشروں میں ان کی قدروقیمت ذیادہ ہوتی ہے اور ان کا اجتماعی نظم فرد کو انہی خواہشتات واعمال کو اختیار کرنے پر راغب ومجبور کرتا ہے ۔خواہشتات کی جو ترتیب فرد وک حصول سرمائے کا مکلف نہیں بناتی یہ نظام ایسی ترتیب خواہشات رکھنے والے شخص کو سزا دیتا ہے (جس کی شکلیں آمدن میں انتہائی حدتک کمی ،معاشرتی اخراج،معاشرے میں شمولیت کے مواقع میں کمی وغیر ہ کی صورت ہوتی ہے) چونکہ سرمائے میں اضافے کی یہ جدوجہد حرص وحسد کے عمومی فروغ کے بغیر ممکن العمل نہیں لہذا حرص وحسد اور شہوت کا فروغ ہی  ان کے نزدیک فطری انسانی کیفیات ہیں اور یہی عقلیت کا وہ پیمانہ ہیں جنہیں اختیار کرکے فرد اپنا مقصد (آزادی میں اضافہ) حاص کرنے لائق بنتا چلا جاتا ہے جو جتنا ذیادہ حریص ،دنیا پرست اور شہوت س مغلوب ہوتا ہے ان معاشروں میں اتنی ہی ذیادہ کامیابی سے ہمکنار ہوتا چلا جاتا ہے ۔

جدید انسان کی سرکشی کی عجیب کہانی: اٹھارویں صدی کے ملحد فلاسفہ نے یہ بلند وبانگ دعوی کرکے مذہب کو رد کردیا تھا کہ ہم حقیقت ،سچ ،معنی ،قدر،عدلاور حسن وک وحی کی بنیاد پر قبول کرنے کے بائے انسانی عقل پر تعمیر کریں گے ،انکا دعوی تھا کہ حقیقت ،سچ،معنی،قدر،عدل اور حسن کی جو تشریح ہم دریافت کرکے بیان کریں گے چونکہ وہ عقلی ہوگی کسی مفروضے پر نہیں بلکہ حقائق پر مبنی ہوگی لہذا دنیا کے سب انسان اسے ماننے پر مجبور ہونگے مگر پھر کیا ہوا دوسوسال کی فلسفیانہ لم ٹٹول اور نتیجہ: انسان اپنے کلیات سے حقیقت ،سچ،معنی ،قدر،عدل اور حسن جان ہی نہیں سکتا ۔
 س مقام پر انسان کو اصولا اپنی علمی کم مائیگی ور دامن کی تنگی کو پہنچان کر اپنے رب کے حضور جبین نیاز خم کردینی چاہئے تھی کہ اس نے اپن پالن ہار کے آگے سرکشی کرکے خود خدا بننے کا جو دعوی کیا تھا اس دعوے کے حصول میں وہ چاروں شانے جت ہوگیا تھا ۔مگر یہ کیسا عجیب معاملہ ہے کہ جوشکست اس کی انکھیں کھول دینے کے لئے بہت کافی ہوجانی چاہئے تھی اس نے اپنے رب کی اسی نشانی کو سرکشی میں مزید اضافے کا ذریعہ بنالیا ۔بجائے اپنی شکست قبول کرنے کے آج کا جدید انسان اب یہ کہتاہے کہ حقیقت ،سچ،معنی ،قدر،عدل اور حسن نامی کوئی شے ہوتی ہی نہیں یہ محض اضافی وبے معنی تصورات ہیں۔وہ زندگی کو ایک بے معنی کھیل تماشا سمجھتا ہے مگر یہ غور نہیں کرتا کہ زندگی کو کھیل تماشا سمجھنا بذات خود ایک ایمان ہی ہے ۔وہ کہتا ہے کہ حقیقت اور سچ کچھ نہیں مگر یہ نہیں سمجھ رہا کہ کہ اس کا مطلب یہ دعوی کرنا ہے کہ سب کچھ ٹھیک اور سچ ہے (یعنی جو بھی چاہو او رکرلو وہ ٹھیک ہے) اسی بے معنویت  کی طرف وہ انسانیت کو دعویٰ دیتا ہے ۔آج اپنے اس لغو دعوے کو وہ اپنی تلاش قراردے رہاہے جبکہ فی الحقیقت  یہ دعوی صرف اور صرف اس کی شکست (retreat) کا باغیانہ اعتراف ہے ۔مگر اسے یاد رکھنا چاہئے کہ موت اٹل ہے اپنے رب کے حضور اس کی حاضری کا وقت بالکل قریب ہے پھر کیا حال ہوگا اس قت کہ جب اپنے دفاع کے لئے اسے پورا موقع دیا جائے گا مگر کہنے کے لئے اس کے پاس الفاظ ہی نہ ہونگے؟……….ہاں توبہ کا دروازنہ ہر آن کھلا ہے اور اس کا رب کریم ورحیم ہے۔

Article 1

پی ڈی ایف میں ڈاؤن لوڈ کرنے کے لئے یہاں کلک کریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *