اس سلسلہ کے پچھلے مضمون میں عرض کیا تھا کہ سرمایہ داری کا بنیادی عقیدہ” لاالٰہ الاانسان” ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ انسان واحد اِلہٰ ہے وہ اپنی ذات کا اور اس کائنات کا خالق ہے، خیر و شر کا تعین ارادۂ انسانی کے اظہار کے علاوہ کچھ نہیں۔ آزادی خیرِ مطلق ہے اور آزادی سے مراد یہ ہے کہ انسان کا اختیار کائنات پر لامحدود ہوتا چلا جائے، اصولاً انسان آزاد ہے وہ اپنے اندر یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ قائم باالذت اور خالقِ کائنات بن جائے لیکن عملاً وہ آزاد نہیں اس کی آزادی کو مادی (Material) قوتیں بھی محدود کرتی ہیں اور معاشرتی (Social) قوتیں بھی۔ مثلاً وہ آج نظامِ شمسی سے باہر نہیں جاسکتا، مرنے سے نہیں بچ سکتا، طوفانوں کو نہیں روک سکتا، بغیر ماں باپ کے نہیں پیدا ہوسکتا، امریکا میں دو بیویاں نہیں رکھ سکتا ایران میں خدا اور رسولۖ کو گا لیاں نہیں دے سکتا ، کیوبا میں زمین نہیں خرید سکتا وغیرہ وغیرہ۔Equality and Rights

سرمایہ داری ان مادی اور سماجی پابندیوں کے خلاف جدوجہد کا نظام ہے جو ادارۂ انسانی کی متصور اصولی آفاقیت پر لگائی گئیں  ہیں۔ عملاً (Practically) انسان آزاد ان معنوں میں ہے کہ وہ اپنی متصور مطلق العنان ربوبیت کے قیام کی مستقل جہدوجہد کرنے پر مجبور ہے۔ اسی  عملی مجبوری کو اصولی آزادی کہتے ہیں۔ چوں کہ سرمایہ دارانہ عقائد کے مطابق انسان (Human Being) صرف اس ہی وجود کو کہتے ہیں جو اپنی اصولی مطلق العنان ربوبیت پر ایمان لائے۔ لہٰذا ہر انسان اصولاً آزاد اور عملاً مجبور ہے۔ یہی مساوات ہے اور مساوات سے مراد یہ ہے کہ

٭… ہر انسان یکساں طور پر اپنی مطلق العنان ربوبیت کا دعویٰ کرنے میں یکساں حق بجانب ہے۔

٭… ہر انسان اس اصولی مطلق العنان ربوبیت کی عملی توسیع کی جدوجہد میں مستقل شمولیت پر مجبور ہے۔

انسان کی اصولی مطلق العنان ربوبیت کی عملی تشریح کا ذریعہ سرمایہ کاری ہے۔ سرمایہ کارانہ عملیات (Processes) میں حصہ لینے پر ہر وہ فرد مجبور ہے جو انسان کی مفروضہ مطلق العنان ربوبیت پر ایمان لے آیاہے۔ سرمایہ، آزادی (اصولی اور عملی) کی تجسیم (Concrete form) ہے۔ سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کو قبول کرنے والا سرمایہ دار ہوتا ہے۔ خواہ وہ مزدور ہو، منیجر ہو، عوامی نمایندہ ہو، ریاستی بیوروکریٹ ہو، انٹیلکچوئیل (Intellectual) ہو۔ وہ سرمایہ دار انہیں معنوں میں ہوتا ہے کہ وہ انسان کی مفروضہ مطلق العنان ربوبیت پر ایمان لے آیا ہے۔ اور اس مطلق العنان ربوبیت کے عملِ توسیع میں شرکت کرنے پر مجبور ہے۔

سرمایہ دارانہ ریاست اصولی آزادی کو فروغ دینے کے لیے جو ذرائع فراہم کرتی ہے ان کو حقوق کہتے ہیں۔ یہ حقوق تمام سٹیزن (s Citizen) کو یکساں فراہم کیے جاتے ہیں اوروہ ان حقوق کے مالک ہوتے ہیں ہر Citizen دوسرے Citizen کا مساوی ہے۔ یہ حقوق دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ہیومن رائٹس (Human Rights) اور سوشل رائٹس (Social Rights)۔

Human Rights لبرل سرمایہ دارانہ ریاستیں فراہم کرتی ہیں اور یہ تین ہیں۔

آزادی حیات (Right of life)  :

اس سے مراد یہ ہے کہ ہر سٹیزن (Citizen) کا یہ حق اور فرض ہے (وہ اس بات میں آزاد اور مجبور ہے) کہ اپنی زندگی آزادی / سرمایہ کی بڑھوتری میں کھپا دے، جو شخص اپنی زندگی کو سرمایہ کی بڑھوتری کے عمل میں نہیں کھپاتا وہ انسان (یعنی Human) نہیں۔ کیوں کہ وہ انسانیت کے مفروضہ عقیدے مطلق العنان ربوبیت پر ایمان نہیں لایا۔ اس اصول کے تحت ٨٠ ملین ریڈ انڈینز (Red Indians) کو امریکیوں نے سترہویں سے انیسویں صدی تک قتل کیا اور مشہور لبرل فلسفی جان لاک(John locke ) نے اس قتلِ عام کا یہ جواز پیش کیا کہ ریڈ انڈین اور بھینسوں کا قتل عام یکساں طور پر جائز ہے کیوں کہ نہ بھینسے Human ہیں نہ ریڈ انڈین دونوں نے امریکا کی زرخیز زمینوں پر قبضہ کرکے بڑھوتریٔ سرمایہ کے عمل کو ناممکن بنادیا ہے۔

دورِ حاضر کے مشہور امریکی سیاسی فلسفی Walzer نے افغان مجاہدین کے قتل کا یہی جواز پیش کیا ہے اور کہا ہے کہ مجاہدین اسلام Human نہیں، وحشی درندے ہیں اور ترقی کی راہ میں حائل ہیں۔

دوسرا Human Right آزادیٔ اظہارِ رائے    (Right of conciseness)ہے:

 ہر سٹیزن کا یہ حق / فرض ہے (وہ اس بات میں آزاد اور مجبور ہے) کہ سرمایہ کی بڑھوتری کو فروغ دینے کے لیے جو تجویز دینا  چاہے دے۔ اگر وہ آزادی کو خیرِ مطلق تسلیم نہیں کرتا اور رائے کا اظہارِ کسی اور مقصد کے لیے کر تا ہے تواس  کو یہ حق میسر نہیںکیوں کہ وہ Human نہیں اور اس اصول کی بنیاد پر Locke نے اپنے کتابچہ (A letter  concerning  toleration) میں کہا تھا کہ مسلمانوں کو آزادانہ اظہار رائے کا حق نہیں دینا چاہیے کیوں کہ وہ عیسائیوں کے برخلاف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ابن اللہ نہیں مانتے لہٰذا الوہیتِ انسانی کے منکر ہیں۔ اسی اصول کی بنیاد پر مجاہدینِ اسلام کی وکالت آج امریکا میں جرم گردانی جاتی ہے۔

 

تیسرا حق: حق ملکیت (Right  of Property)ہے:

ہر سٹیزن کا یہ حق / فرض ہے (وہ اس بات میں آزاد / مجبور ہے) کہ وہ اپنی املاک سرمایہ کے سپرد کردے اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو اس پر رزق کے دروازے بند کردئیے جائیں گے اور حصولِ دولت نا ممکن بنادی جائے گی۔دولت بنکوں میںرکھ کر اور سٹہ کے بازار(Capital  Market)  کے ذریعے سرمایہ میںاضافہ مستقل کیا جاتا ہے، ذاتی ملکیت بتدریج ختم ہو جاتی ہے اور کارپوریٹ ملکیت(Corporate Property) ہر شخص کو سرمایہ کا غلام بنا دیتی ہے۔

لبرل سرمایہ دارانہ ریاست اصولاً یہ Human Rights سب Citizensکو مساویانہ طور پر فراہم کرنے کی پابند ہے۔ اور اس کا دستور اس بات کی گارنٹی دیتا ہے کہ ہر Citizen مساویانہ طور پر ان حقوق اور فرائض کا مکلف ہے۔ اس ہی چیز کو Rule of Law کہتے ہیں جو کہ حقیقت میں Rule of Law of Capital ہے۔ لیکن ایک سرمایہ دارانہ معاشرت میں تقسیمِ وسائل لازماً غیر مساویانہ ہوتے ہیں۔ کچھ دولت مند ہوتے ہیں کچھ مفلس، کچھ عہدہ دار ہوتے ہیں کچھ ماتحت۔ کچھ باصلاحیت ہوتے ہیں کچھ ناخواندہ وغیرہ اور سرمایہ کی گردش کا عمل لازماً ارتکاز سرمایہ (Accumulation of Capital) کا عمل ہے یعنی سرمایہ بہت سی جگہوں اور ملکیتوں سے کھنچ کھنچ کر مستقلاً چند مقامات اور چند کارپوریشنوںCorporations  کے زیرِ تسلط جمع ہوتا رہتاہے۔ جیسے جیسے سرمایہ دارانہ نظام فروغ پاتا ہے، عملی نامساویت  Inequality بڑھتی جاتی ہے۔ اور Human Rights اصولاً موجود اور عملاً ناقابلِ حصول بنتے چلے جاتے ہیں۔ ایک بے روزگار شخص سرمایہ کی بڑھوتری کے لیے اپنی جان کھپانے کا کتنا ہی متمنی کیوں نہ ہو وہ یہ نہیں کرسکتا اور جیسے جیسے سرمایہ دارانہ نظام فروغ پاتا ہے ویسے ویسے بے روزگاروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ ایک عام آدمی اپنی رائے کا اظہار کیسے کرے؟ جب کہ عالمی میڈیا پر صرف تیس کمپنیوں کا تسلط مستحکم سے مستحکم ترہوتا جارہا ہے اور عوامی رائے سازی ہی کمپنیاں کرتی ہیں۔ ذاتی ملکیت کا وجود کیسے قائم رہ سکتا ہے۔ جب کہ تمام کی تمام دولت سود کے بازار (Mony Market) اورسٹہ کے بازار (Capital Market) کے زیرِ تصرف آگئی ہے۔ ان حالات میں Human Rights عملاً معاشرتی طور پر ایک افسانوی حیثیت اختیار کرگئے ہیں:

”ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے”

اس معاشرتی نامساویت (Social Inequality) کو کم کرنے کے لیے سرمایہ دارانہ اشتراکی اور سوشل ڈیموکریٹ ریاستیں سوشل رائٹس (Social Rights) پیش کرتی ہیں سب سے اہم سوشل رائٹ (Social Right) حقِ اجتماعی سودے بازی (Right of Collective bargaining) ہے۔ اشتراکی سرمایہ دارانہ مفکرین اور سوشل ڈیموکریٹ اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام میں سب سے نمایاں نا مساویت (Inequality) مزدور اور منیجمنٹ (Management) کے درمیان تقسیمِ اختیار اور قوت کے ضمن میں پائی جاتی ہے۔ ایک عام مزدور اپنے کمپنی منیجمنٹ (Company Management) کے سامنے بالکل بے بس ہوتا ہے کیوں کہ منیجمنٹ جب چاہے اس کو بے روزگار کرسکتی ہے۔ لہٰذا مزدور یونینوں (Union) کو منیجمنٹ کے عمل میں شرکت اور اجرتوں کے تعین میں اختیارات کے مواقع فراہم کر دینا چاہئیں۔ اشتراکی سرمایہ داروں نے ریاستی کاپوریٹ ملکیت (State Corporate property) کے معیشت پر تسلط کی وکالت کی ہے اور سوشل ڈیموکریٹ سرمایہ دارانہ مفکرین نے سرمایہ دارانہ ریاست سے مطا لبہ کیاہے کہ وہ ایسے فلاحی (Welfare) حقوق فراہم کرے جس کے حصول سے ہر  سیٹیزن مسلسل بڑھتی ہوئی معقول آمدنی  صحت، تعلیم  اور   رہائش حاصل کرسکے۔

 Human  اور Social  حقوق کی فراہمی کا مقصد سیٹزن کو اس قابل بنانا ہے کہ وہ بڑھوتری سرمایہ کے عمل میں اپنا کردار ادا کرسکے اور اس عمل میں شرکت کے ذریعہ اپنی خواہشات نفسانی کی تکمیل کرسکے یہیسرمایہ دارانہ عدل ہے۔

سرمایہ دارانہ عدل ظلم ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ آج بیشتر اسلامی جماعتیں سرمایہ دارانہ عدل کے قیام کی جدوجہد کا اسلامی جواز پیش کرتی ہیں،Human  اور Social  حقوق کی وکیل بن گئیں ہیں اور مساوات اور آزادی اور ترقی کو مقاصدِ شریعت کے طور پر قبول کرلیا ہے۔ اس بات کا کوئی احساس نہیں کہ سرمایہ دارانہ عدل کا قیام (جو کہ اصولاً اور عملاً ناممکن ہے) کی جدوجہد سرمایہ دارانہ شخصیت معاشرت اور ریاست کی جدوجہد کے قیام کا حصہ ہے اور آزادی، مساوات اور ترقی کو صریحتاً بحیثیت  احداف کے رد کیے بغیر موجودہ حالات میں نہ تحفظ دین ممکن ہے نہ غلبہ دین۔ سرمایہ دارانہ عقائد، آزادی، مساوات اور ترقی کی اسلام کاری ایک ایسی Revisionist تحر یک ہے جس کا مقصد اسلامی جماعتوں کو عالمی سرمایہ کا حلیف اور ایجنٹ بنانے کے علاوہ اور کچھ نہیں۔