کاشف علی شیخ-

ابتدائیہ :

                اس مضمون میں ہم ١٩٨٩ء میں روس اور مشرقی یورپ میں رونما ہونے والے انقلاب معکوس یا ردّ انقلاب کا مطالعہ کریں گے۔ اشتراکی انقلاب جو کہ ١٩١٧ء اور اس کے بعد کے سالوں میںر وس اور مشرقی یورپ میں برپا ہوا اور ٧٥ سال کے لگ بھگ ریاست اور معاشرہ پر مقتدر رہنے کے بعدکیوں کر رد کر دیا گیا؟ کمیونسٹ پارٹی کے خلاف اٹھنے والی عوامی تحریکوں کی نوعیت اور مقاصد کیا تھے؟ کیا یہ تحریکیںاشتراکی آدرشوں (Socialist Ideals) کو رد کرنا چاہتی تھیں یا ان Idealsکے حصول میں کمیونسٹ پارٹی کی ناکامی پر احتجاج کر رہی تھیں؟ یہ اور دیگر سوالوں کے جواب ہم اس مضمون میں دینے کی کوشش کریں گے۔

رد انقلاب کے مقاصد کیا تھے:

                عوامی سطح پر انقلاب کا مقصد لبرل ازم کا حصول تھا یعنی ریاست اور معاشرہ لبرلائز ہو جائے۔ ان کے اوپر سے کمیونسٹ پارٹی کے استبداد کو ختم کیا جائے اور پارٹی کی جکڑ بندیوں سے جان چھڑائی جائے اورایک آزادمعیشت ومعاشرت کومغربی یورپ کی بنیادوں پراستوارکیاجائے۔

                 روس میں اس وقت کے صدر گوربا چوف کے خیال میں یہ ممکن تھا کہ ملکی معیشت تو لبرل بنیادوں پر استوار ہو جائے لیکن نظام ریاست کمیونسٹ ہی رہے اور ریاست پر کمیونسٹ پارٹی کی گرفت برقرار رہے۔ جبکہ گورباچوف کے خیال کے برعکس روس کے عوام مشرقی یورپ کے عوام کی طرح کمیونزم کو نظامِ ریاست سے بھی بے دخل کر دینا چاہتے تھے۔

                چنانچہ رد انقلاب کے مقصد کو عوام اور حکمراں جماعت کی سطح پر یوں بانٹ کردیکھا جاسکتاہے کہ حکمران چاہتے تھے کہ ملک کی بگڑتی ہوئی معیشت کو سنبھالنے اور عوام کا معیار زندگی بہتر کرنے کی خاطر نظام معیشت کو لبرلائز دیاجائے اور نظام ریاست / حکومت کو کمیونسٹ ہی بنیادوں پراستواررکھاجائے برخلاف اس کے عوام ہر سطح پر مکمل لبرل نظام زندگی کا حصول چاہتے تھے اور کمیونسٹ پارٹی سے اوراس کی لیڈرشپ سے جان چھڑانا چاہتے تھے۔

                یہاں ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اشتراکیت اور لبرل ازم کے اقدار اور مقاصد مشترک ہیں۔ یہ دونوں سرمایہ داری کے نظریات ہیں۔ ان دونوں نظریات کا مقصد یہ ہے کہ انسان کے لیے خوداپنی رضا کا حصول ممکن بنایا جائے اور یہ مقصد حاصل ہو گا، آزادی، ترقی اور مساوات کے ذریعہ… ان دونوں نظریات یعنی لبرل ازم اور اشتراکیت کی یکساں اقدار کی چند مثالیں مندرجہ ذیل ہیں:

الوہیت انسانی:

                انسان کا مقصد اپنی رضا کا حاصل کرنا ہے یعنی اس اعتبار سے ہر انسان اپنی ماہیت میں خدا ہے (Potentially) خدابننے کامکلف ہے اوریہ صلاحیت خوداس کے نفس میں موجودہے۔ لبرل ازم میں یہ حق ہر فرد کو حاصل ہے کہ وہ جس طرح چاہے اپنی خواہشات کی تکمیل کرے اور وہ اس کے حصول میں مکمل آزاد ہے۔ جب کہ اشتراکیت میں انسان اپنی نوع(Class) کو خدا کی حیثیت دیتا ہے۔ وہ اپنی آزادی کو اپنی کلاس میں ضم کردیتا ہے اور جوں جوں نوع اپنے مقاصد حاصل کرتی ہے، فرد کے مقاصد کی تکمیل خودبخود ہوتی رہتی ہے۔ لہٰذا لبرل ازم میں پرستش فرد کی ہوتی ہے اور اشتراکیت میں پرستش نوع کی،اوردونوں کابنیادی مقصدانسان کوالوہیت عطاکرناہے۔

(١)آزادی:

                انسان کی کامیابی اور مقصد یہ ہے کہ اس کی زیادہ سے زیادہ خواہشات پوری ہوں اور وہ دنیا میں زیادہ سے زیادہ لطف اندوز ہو سکے، اس کا معیار زندگی مسلسل بڑھتا رہے۔

(٢)ترقی۔ تسخیر کائنات:

                انسان فطرت کے تابع نہیں ہے۔ یہ انسان کی جہالت ہے جس کی وجہ سے وہ فطری قوانین کا پابند ہے۔ جوں جوں انسان ترقی کرتا ہے اور سائنس میں مہارت حاصل کرتا ہے وہ فطرت پر غالب آنا شروع ہو جاتا ہے اور رفتہ رفتہ سائنسی علوم کے ذریعہ یہ ممکن ہے کہ فطرت اور کائنات پر مکمل دسترس حاصل کر لی جائے۔

(٣)مساوات:

                تمام انسان برابر ہیں یعنی متقی، فاسق،فاجر، مذہبی اور دہریہ وغیرہ۔ مذہب، نسل، خاندان، قبیلہ اور مقاصد زندگی وغیرہ کی بنیاد پر انسانوں میں امتیاز ممکن نہیں۔ دنیا سے تصرف کے اور ترقی کے مواقع تمام انسانوں کو برابر حاصل ہونے چاہئیں۔

ہم ان مقاصد کو سامنے رکھ کر دیکھیں تو روس اور مشرقی یورپ میں عوامی سطح پر اٹھنے والی رد انقلاب کی تحریکیںبیان کردہ مقاصد کے حصول میں اشتراکیت کی ناکامی پر احتجاج اور اس سے بیزاری کا اظہار تھیں اور عوام نے انہی مقاصد کے حصول کے لیے کمیونزم کو ترک کر کے لبرل ازم کو باخوشی بارضاورغبت قبول کیا۔

انقلاب کون لایا؟

                ١٩١٧ء میں روس میں اور اس کے بعد مشرقی یورپ میں اشتراکی انقلاب کی کامیابی کے بعد کمیونسٹ پارٹی نے ریاست اور معاشرہ پر اپنا اقتدار کامیابی سے قائم کر لیااور اپنے مقاصد کے حصول کی طرف کامیاب جدوجہد کی۔

                تاریخی معیارات کی بنیاد پر روس کی معاشی ترقی کا ریکارڈ بہت متاثر کن ہے۔ سوویت روس جو کہ خلافت عثمانیہ سے کم ترقی یافتہ تھا اور پہلی جنگ عظیم کی ابتدا میں یورپ کا بیمار  Sick Man of Europe کہلاتا تھا، ١٩٤٥ء تک دنیا کی دوسری بڑی فوجی اور صنعتی طاقت بن گیا تھا۔ اسٹالن کی پلاننگ کو بجا طور پر انتہائی کامیاب قرار دیا جاسکتا ہے۔ ١٩٢٨ء میں روس کی کل قومی آمدنی امریکا کے ٧٠فیصد تک پہنچ گئی تھی۔ ترقی کی ایسی مثالیں دنیا میں کم ہی ملتی ہیں۔ اس کے باوجود عوام نے اس نظام کو رد کر دیا۔ جس کی وجہ ہے کہ اگرچہ مارکس کے خیال میں لوگوں کو جب ایک خاص حد تک اشیاء کی فراہمی ہو جائے گی تو اس کے بعد مزید مادی اشیاء کی ضرورت گھٹنے لگے گی اور ضروریات زیادہ سے زیاہ خود اپنی ذات کے اظہار کی طرف رخ کرنے لگیں گی۔ یعنی مادیت کی بجائے معاشرتی اور انسانی تعلقات کے فروغ کے لیے عملاً ایسا نہیںہوا، اور مادی ضروریات ، مادی پیداوار سے کہیں زیادہ تیزی سے بڑھیں۔ ضروریات میں اضافہ بڑھ رہا تھا اور پیداوار میں اضافہ کم ہورہا تھا۔ لہٰذا ان دونوں میں خلا بڑھتا چلا گیا۔

                روس اور مشرقی یورپ میں ١٩٨٩ء کا انقلاب لانے والی کوئی ایک انقلابی پارٹی نہیں تھی بلکہ عوام کی سطح پر حکومت کے اوپر دباؤ بہت بڑھ گیا اور چھوٹی چھوٹی بے شمار عوامی تحریکیں انقلاب کا باعث بنیں۔

انقلاب کیسے آیا؟

                روس میں اسی پس منظر میں اس وقت کے صدر اور پارلیمنٹ پارٹی کے رہنما گورباچوف نے مخلصانہ طور پر یہ چاہا کہ عوام کے معیار زندگی کو بڑھانے اور عوام کی بڑھتی ہوئی ضروریات /خواہشات کو پورا کرنے کے لیے معاشی نظام کو لبرل بنیادوں پر استوار کیا جائے۔ وہ یہ سمجھتا تھا کہ امریکا کے ساتھ طاقت کی دوڑ میں مسابقت کی ضرورت نہیں اور نہ ہی امریکا کو دشمن سمجھنے کا فائدہ ہے۔ اسی مسابقت نے روس کو مجبور کیا کہ ایٹمی اور دوسرے ہتھیار زیادہ سے زیادہ جمع کیے جائیں۔ ہتھیاروں کی اس دوڑ میں شامل رہنے کے لیے روس کو بڑے پیمانے پر قرضے لینے پڑتے ہیں اور معیشت پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ قومی آمدنی کا ایک بڑا حصہ اس دوڑ کی نذر ہو جاتا ہے اور عوام کے معیار زندگی بڑھانے پر خرچ نہیں ہو پاتا ، لہٰذا یہ ضروری ہو گیا ہے کہ امریکا سے مخاصمت ختم کر دی جائے اور معیشت کو لبرلائز کیا جائے جب کہ ریاست کمیونسٹ ہی رہے لیکن روس میں معاشرہ پر کمیونسٹ پارٹی کا اثر اور کنٹرول اتنا گہرا اور مضبوط نہ تھا جتنا چین میں کمیونسٹ پارٹی کا اثر تھا اور اب بھی ہے۔ اسی وجہ سے چین میں یہ ممکن ہو گیااور وس میں گورباچوف کے نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی اصلاحات نے عوام کو یہ موقع فراہم کردیاکہ اشتراکیت کو مکمل طور پر ریاست سے بے دخل کر دیا جائے۔

                اسی طرح مشرقی یورپ میں بھی عوام کی اسی خواہش نے کہ مغربی یورپ اور امریکا کے طرز پر آزادانہ زندگی گزاری جائے، ان کی ضروریات میں بہت زیادہ اضافہ کردیا۔ لہٰذا حکومت پر دباؤ بے تحاشا بڑھ گیا۔ چونکہ اشتراکیت کے گڑھ روس میں اشتراکیت شکست کھا چکی تھی ، لہٰذا مشرقی یورپ جو کہ روس کا حلیف تھا اس میں عوامی تحریکوں کی بنیاد پر مقتدر پارٹی نے لبرل ازم کو اختیار کر لیا۔

                اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ انقلاب لانے کے لیے جماعت/پارٹی کی ضرورت لازم نہیں۔ روس اور مشرقی یورپ کا انقلاب معکوس ایکMass Action تھا اور اس کی کوئی مربوط حکمت عملیPlanned Strategy نہیں تھی۔

انقلاب کے نتیجہ میں کیسا معاشرہ اور ریاست قائم ہوئے:

                مشرقی یورپ اور روس میں(Eastern Europe and Russia) ١٩٨٩ء کے رد اشتراکی انقلاب کے نتیجہ میں لبرل معاشرہ اور لبرل ریاست ہی قائم ہوئے۔ ان دونوں جگہوں پر قوم پرستی ایک مضبوط قوت بن کر ابھری۔ روس میں صدر پیوٹن بھی ایک روسی قوم پرست رہنما کی حیثیت میں ابھر کر سامنے آئے اور مشرقی یورپ میں قوم پرستی کے عروج کے تحت ممالک ٹوٹ گئے اور اسی جذبہ کے تحت جرمنی متحد ہو گیا۔روس اوراس کے اتحادیوں کاوجودمدمقابل قوت یعنی لبرل ازم میں ضم ہوگیا اور یہ انضمام غیرفطری نہ تھا

کیونکہ فکری سطح پردونوں ہی Enlightenment فکر کاحصہ تھے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *