بنی اسرائیل کی قوم کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کی نعمت سے سرفراز کیا اور اس قوم کو دنیا کی امانت کا مقدس فریضہ سونپا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے غیراسلامی افکار وخیالات کو اپنے مذہب میں جگہ دینی شروع کی اور چھوٹی چھوٹی بے اصل ظاہری باتوں میں پڑ کر بڑے بڑے اعلیٰ روحانی مقاصد سے غافل ہوگئے، روحانی ترقی سے زیادہ مذہبی رسوم وشعائر کو اہمیت حاصل ہوئی اور اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہوئے لیکن قانون کا مرتبہ افضل قرار دیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ظہور کے وقت سیاسی لحاظ سے بھی یہودی قوم منتشر ہوچکی تھی۔ بحیرۂ روم کے آس پاس کے ممالک میں ان کی مختلف نوآبادیاں قائم تھیں اور مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک میں بھی کافی تعداد میں موجود تھے بابل کی جلا وطنی کے اختتام پر تھوڑے بہت یہودی فلسطین میں دوبارہ آبسے تھے لیکن جلاوطن افراد کی اکثریت بابل میں مستقل قیام پذیر تھی۔ یروشلم روسی حکومت کا ایک صوبہ تھا جہاں رومیوں کی طرف سے ایک حاکم مقرر تھا۔ مادی اسباب کے لحاظ سے اس امر کا کوئی امکان نہ تھا کہ یہودی پھر کبھی آزادی کی فضا میں سانس لے سکیں گے یا غیرملکی فرماں رواؤں کے ظلم وستم سے نجات حاصل کرسکیں گے۔

ان تمام حالات اور دینی زبوں حالی کا یہودیوں کو شدت سے احساس تھا اس لیے ان کی امیدیں مستقبل پر مرتکز تھیں اور وہ خداوندتعالیٰ کی راست مداخلت کے منتظر رہتے تھے ان کا عقیدہ تھا کہ وہ وقت قریب ہے جبکہ ظالمانہ بیرونی سلطنت کا خاتمہ ہوجائے گا اور خداوند تعالیٰ بنی اسرائیل کو پھر ایک مرتبہ آزادی اور بالادستی کی نعمت سے سرفراز کرے گا۔ اس کے نتیجے میں بنی اسرائیل کو ایک ایسی عالمگیر قوت اور سلطنت حاصل ہوگی جو ہمیشہ قائم رہے گی اور یہ وہی سلطنت ہوگی جس کا وعدہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور دوسرے پیغمبروں سے کیا گیا۔

یہ وہ حالات تھے جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام یروشلم کے قریب ایک مقام بیت اللحم میں پیدا ہوئے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعوت اور اصلاح سے قبل حضرت یحییٰ علیہ السلام نے روحانی پیغام کی اشاعت شروع کی۔ انہوںنے لوگوں کو خبردار کیا کہ مسیح (نجات دہندہ) آمد قریب ہے اسی دوران حضرت عیسیٰ علیہ السلام تشریف لائے۔ ان کی تعلیمات بھی وہی تھیں جو کہ بنی اسرائیل کی طرف وقتاً فوقتاً مختلف پیغمبر لائے تھے بلکہ بنی اسرائیل کے غیراسلامی افکار وخیالات کو صاف کرکے ان کی صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کی اور ان کی تمام سرگرمیوں کا محور رضائے الٰہی کو بنانے کی کوشش کی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یہودیوں کے بہت سے بگڑے ہوئے اعمال اور اخلاق پر اعتراض کیے اور وہ غیرضروری پابندیاں جو انہوںنے خود اپنے اوپر لگا رکھی تھیں انہیں ان سے آزاد کرانے کی جدوجہد کی۔ لیکن یہ تعلیمات ایسی نہ تھیں جن سے مذہبی طبقات اور سیاسی حکمرانوں کو اطمینان قلب حاصل ہوتا بلکہ انہوںنے ان تعلیمات کو اپنے لیے خطرہ تصور کرتے ہوئے اپنے تئیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نبوت کے ڈیڑھ یا تین سال بعد صلیب دے دی۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی سحرانگیز شخصیت اور لوگوں کے بعض روحانی تجربات نے ان کے دنیا سے اٹھ جانے کے بعد ان کے پیروں کے اندر اس یقین کو پیدا کیا کہ عیسیٰ علیہ السلام مرنے کے بعد پھر زندہ ہوںگے اور آسمانی بادشاہت کا آغاز کریں گے حالانکہ یہ آسمانی بادشاہت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کی نشان رہی تھی جس کی خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے خبر دی تھی۔ چنانچہ اس غلط فہمی کا شکار ہونے کے بعد یہ لوگ عیسیٰ علیہ السلام کے ظہور ثانی کا انتظار کرنے لگے۔ انہیں جن لوگوں سے بھی بات چیت کا موقع ملتا انہیں آنے والے دور کی برکات سے آگاہ کرنے میں پس وپیش نہ کرتے۔ چونکہ یہ دعوت اپنے وقت کی جامع ترین دعوت تھی اس لیے اسے عام مقبولیت حاصل ہوئی۔ ان مبلغوں کی دعوت کا اثر یہ ہوا کہ مقامی یہودیوں کے ساتھ ساتھ یونانی یہودی بھی اس دعوت سے متاثر ہونے لگے جن کی زبان یونان تھی اور جن پر یونانی تہذیب اور خیالات کا اثر غالب تھا ان یونانی پیرو ان مسیح نے فلسطین سے باہر بھی اپنے خیالات کی تبلیغ شروع کی اور ایک علیحدہ مذہب کی حیثیت سے عیسائیت کی بنیاد ڈالی۔

عیسائیت کے پھیلاؤ کی دوسری وجہ پال (Paul) تھا اس نے روم میں عیسائیت کی باقاعدہ منظم تبلیغ کی جس کی وجہ سے وہاں عیسائیت کی مقبولیت توقع سے زیادہ ہوئی یہ عیسائی گروہ یہودیوں کی مذہبی اور فقہی پابندیوں کا قائل نہ تھا اور ان کی صرف عبرانی النسل یہودیوں کے قومی شعائر قرار دیتا تھا چنانچہ انہوںنے یہودیت کے رسم ورواج اور مذہبی قوانین کی پابندیوں کو تما انسانوں کے لیے لازمی قرار نہیں دیا۔ بلکہ مقامی قوانین اور رسم ورواج کو قانونی جواز فراہم کرکے مذہب کو قومی شکل میں تبدیل کردیا۔

قدیم یونانی تاریخ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کو طبیعات ریاضیات اور علوم وفلسفہ کا یہ وسیع ذخیرہ فراہم کرنے والا ملک بیشتر حصے میں بت پرست اور ستارہ پرست واقع ہو اور صدہا توہمات اور خرافات میں گھرا ہوا تھا اور ہر طرف دیوی دیوتاؤں اور ہیاکل کا جال بچھا ہوا تھا۔

ان حالات میں جب پال کے نظریات کا ٹکراؤ یونانی فکر وخیالات سے ہواتو عیسائیت کے نام پر دین وشرک کا ایک ملغوبہ تیار ہوا۔

امام ابن تیمیہ لکھتے ہیں:

”عیسائیوںنے دو ادیان کو ملا کر ایک دین بنایا۔ ایک انبیاء موحدین کا دین اور ایک مشرکین کا دین۔ ان کے دین میں ایک حصہ تو انبیاء کی تعلیمات کا ہے اور ایک حصہ ان اقوال وافعال کا ہے اور انہوںنے مشرکوں کے دین سے لے کر شامل کیے ہیں اس طرح انہوںنے اقانیم (Trinity) کے الفاظ ایجاد کیے جن کا انبیاء کے کلام میں کوئی ذکر نہیں ملتا اس طرح انہوںنے مجسم اور سایہ دار بتوں کی طرح آفتاب اور چاند کی طرف نماز پڑھنے، موسم بہار میں روزہ رکھنے کو دین میں داخل کیا تاکہ دین شرعی اور امر طبعی دونوں کو وہ جمع کرلیں۔”

ابتداء میں مسیح کے پیروں کا عقیدہ مسیح کا ظہور ثانی اور آسمانی فرمانروائی تھا اور وہ عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا درجہ نہیں دیتے تھے لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا چلا گیا ان کی امیدیں مایوسیوں میں بدلتی گئیں اور عیسائیوں میں یہ عقیدہ پیدا ہوا کہ عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی موت سے انسانیت کا کفارہ ادا کرکے اس کی روحانی نجات کا راستہ ہموار کردیا اور ان کو ماننے کے ساتھ ہی انسان گناہوں کی آلائش سے پاک ہوکر آسمانی بادشاہت کے دائرے میں داخل ہوجاتا ہے۔

بنی اسرائیل کے ہاں خدا کے لیے باپ کا لفظ بطور استعارہ استعمال ہوتا تھا اور اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ انسان اپنے آپ کو خدا سے قریب سمجھے اور مشکل میں اس سے نصرت کی توقع رکھے لیکن مسیح کی غیرمعمولی شخصیت کے زیراثر ایک نجات دہندہ اور مسیح کے ظہور ثانی، مسیح کے ساتھ یہودیوں نے جو ظالمانہ برتاؤ کیا اس کا ردعمل اور سب سے بڑھ کر یونانی مذہب کے ان تصورات نے کہ دیوتاانسانی جسم میں حلول کرسکتا ہے نے آسمانی باپ کے تصور میں تبدیلی پیدا کی اور یہ عقیدہ پیدا ہوا کہ مسیح واقعتا اللہ کے بیٹے ہیں۔ چونکہ اللہ نے اپنی مقدس روح کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جسم میں داخل کرکے نجات انسانی کے لیے دنیا میں بھیجا۔ اس لیے یہیں سے نظریہ تثلیث نے جنم لیا یعنی باپ، بیٹا اور روح قدس جو تینوں خدائی میں برابر کے شریک ہیں۔ یہ روح قدس کا فلسفہ بھی یونانی تصور (LOGOS) سے عیسائیت میں داخل ہوا۔

عیسائی اقتصادیات کے مطابق چونکہ آدم نے گناہ کیا تھا اور اس کی بدولت جنت بدر ہوئے تھے لہٰذا ہر انسان کو آدم علیہ السلام کا گناہ وراثت میں ملتا ہے اور اس کی روح خبیث ہوتی ہے۔ اس لیے اللہ نے اپنے بیٹے عیسیٰ علیہ السلام کو جو خود خدا بھی ہے دنیا میں بھیجا اور انہوںنے صلیب پر جان دے کر سارے انسانوں کے گناہوں کا کفارہ ادا کردیا۔ چنانچہ جو کوئی عیسائیت قبول کرے گا نجات پائے گا۔

امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:

”اس مذہبی سمجھوتے میں عیسائیوں نے حضرت مسیح اور انبیاء کی پیروی نہیں کی بلکہ ایک نیا عقائد نامہ تیار کیا جس کا انبیاء کے کلام میں کوئی سراغ نہیں ملتا نیز حضرت مسیح اور دوسرے انبیاء کے کلام میں کہیں اللہ کے اقانیم کا ذکر نہیں ملتا اور نہ کہیں صفات ثلاثہ کا ثبوت ہے اور نہ کہیں صفت الٰہی کو ابن اللہ یارب کے الفاظ سے تعبیر کیا ہے اور نہ اللہ کی حیات کو روح کہا گیا ہے اور نہ یہ کہا گیا ہے کہ خدا کا ایک فرزند ہے۔

وہ اپنے باپ کے جوہر سے ہے اور وہ بھی اسی طرح خالق ہے جیسے کہ اللہ خالق ہے۔ اسی طرح سے اور وہ دوسرے اقوام جو مختلف اقسام کفرپر مشتمل ہیں کسی پیغمبر سے منقول نہیں۔”

اس طرح عیسائیت کے دو نظریے نے یورپ میں لادینی تہذیب کے ارتقاء میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ انسانیت میں خدا کی ذات اور صفات کے حلول کا عقیدہ آگے چل کر انسان پر ستی (HUMANISM) کی بنیاد بنا ہیونزم اس بات کا دعویٰ کرتا ہے کہ انسان خدا کی صفات اپنا کر خدائی اختیارات (Powers) حاصل کرسکتا ہے۔ خدا کی ماورائے کائنات ہستی نہیں بلکہ محض چند ایسی صفات کا مجموعہ ہے جو انسان اور کائنات کی دیگر اجسام میںحلول کرسکتا ہے۔ اگر یہ تسلیم کرلیا جائے کہ انسان خدا بن سکتا ہے تو پھر انسان کا یہ اختیار کہ خیر وشر کے معیارات اور زندگی گزارنے کے طریقے خود مروج کرے تسلیم کرنا ناگزیر ہوجاتا ہے۔

یورپی عیسائیوں نے ہیونزم کے اس دعوے کو پہلے جزوی طور پر اور بالآخر کلی طور پر قبول کرلیا Saint Augestine نے خدائی بادشاہت (City of man) کی ناگزیر ہم آہنگی (neccasary coexistance) پر زور دے کر (Human law) دراصل رومن قانون کی حکمرانی ہے جوچونکہ ایک مضبوط سلطنت ایک مضبوط کلیسائی نظام کے لیے ناگزیر ہے لہٰذا خدائی بادشاہت اور انسانی بادشاہت لازم وملزوم ہیں اور شہنشاہ (Holy Roman Empirer) کی سیکیولر حکمرانی (Soverignity) کو پوپ کی تصدیق حاصل ہونا چاہیے اس فلسفے کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ خدائی بادشاہت کا دائرہ محدود اور انسانی بادشاہت کا دائرہ کار وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا حتیٰ کہ (Augestine) تقریباً ایک ہزار سال بعد Saint Aequnas نے خدائی بادشاہت کے دائرہ کار کی تجدید کو لادینی عقلیت (Rationality bounded by desire) کی بالادستی کو تسلیم کرکے جواز فراہم کیا۔

سولہویں صدی میں مارٹن لوتھر کی تحریک اصلاح سے پہلے پوپ کی مرکزی حیثیت تھی جو عیسائی دنیا کا روحانی پیشوا تھا اور پوری رومن امپائر اس کے ماتحت تھی بائبل کی تشریح کا حق بھی صرف چرچ کو حاصل تھا اور آخرت سنوارنے کا اگر کوئی سامان کرسکتا تھا تو وہ بھی چرچ ہی تھا۔

دوسرے نمبر پر رومن فرمانروا تھا جو حکومتی معاملات کی دیکھ بال کرتا تھا اور تیسرے نمبر پر وہ سینکڑوں چھوٹے چھوٹے نواب تھے جو پوری رومن سلطنت میں پھیلے ہوئے تھے یہ وہ پس منظر تھا جس میں لوتھر نے تحریک اصلاح شروع کی۔ یہ تحریک مکمل طور پر مذہبی جذبے سے سرشار ہوکر شروع کی تھی تھی اس وقت کسی کے خواب وخیال میں بھی نہ ہوگا کہ یہ تحریک آگے چل کر لبرل ازم کے ارتقاء کا سب سے بڑا سہارا ثابت ہوگی۔ ابتداء میں یہ تحریک ایک سیاسی جدوجہد تھی لیکن اس کے نتیجے میں صدیوں کے تعمیر شدہ سیاسی معاشی اور معاشرتی افکار وخیالات تبدیل ہوکر رہ گئے۔

نیشنلزم:

نیشنلزم کے لیے بنیادی جواز تحریک اصلاح نے فراہم کیا چونکہ یہ تحریک بنیادی طور پر پوپ اور چرچ کے ادارے کے خلاف برپا کی گئی تھی چنانچہ اس کے نتیجے میں ہر فرد کو بائبل کی تشریح کرنے کا اختیار حاصل ہوگیا اس کے علاوہ حکومت کے تیسرے ستون یعنی نواب اتنے طاقتور ہوگئے کہ رومن ریاست اور چرچ دونوں کے لیے خطرہ بن گئے لہٰذا ان دونوں کی مرکزی حیثیت ختم ہوگئی۔ اور مذہب قوموں کے لحاظ سے تقسیم ہوگیا۔ نتیجتاً قومی روایات کو تقدس فراہم ہوا اور مذہبی رسوم اور رواج پامال ہوئے اور پورے یورپ میںآزادی اور مساوات کی لہر دوڑ گئی اور مختلف ریاستوں نے جنم لیا۔

سیکیولر ازم:

سیکیولر ازم تحریک اصلاح کے نتیجے میں آزادی اور مساوات کے جذبے سے عام لوگوں میں پذیرائی حاصل ہوئی۔ آگے چل کر اسی جذبے نے پورے عیسائی معاشرے پر ضرب لگائی ہر چیز کو عقل کے پیمانے پر رکھ کر ناپا اور سمجھا جانے لگا۔ اگر ہر شخص اور گروہ کا اقرار ہے کہ وہ تمام معیارات اور پیمانے جن کی بنیاد پر یہ تشریح کی جارہی ہے یکساں ہیں اور مساوی قدر (Equal Value) رکھتے ہیں۔ آزادی اور مساوات کی بالادستی دراصل تمام خواہشات کی یکساں اہمیت کا اقرار ہیں۔ جب کوئی معاشرتی آزادی اور مساوات کو اپنے اخلاق کی بنیاد قرار دیتا ہے تو وہ دراصل معاشرتی عمل کا مقصد زیادہ سے زیادہ مذہبی خواہشات کا حصول قرار دیتا ہے جو یکساں قدر کی گردانی جاتی ہے۔ اس معاشرہ پر ایسی عقلیت غالب ہوتی ہے کہ خواہشات کے حصول کو مقدم رکھتی ہے۔ اور خواہشات کی اصل قدر کا تعین کرنے سے قاصر ہوتی ہے۔ اسی کو Retionality bounded by desire کہتے ہیں۔ عیسائیت کی راہ ہموار کی۔ لیکن انسانی تاریخ نے یہ بات ثابت کی کہ عقل سے اقدار کے تعین اور ترتیب میں بہت کم مدد ملتی ہے مثلاً عقل سے ہم اس بات کا فیصلہ نہیں کرسکتے کہ عورتوں اور مردوں کا بے تکلف میل جول مناسب بات ہے یا نہیں یا انسان کو اس دنیا میں لذت حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے یا نہیں۔ مختصراً یہ کہ عقل کو اہداف کے حصول کا ذریعہ تو بنایا جاسکتا ہے لیکن عقل کی بنیاد پر اچھائی یا برائی کے معیارات قائم نہیں کیے جاسکتے۔ عقلیت کی اس کمزوری کا ادراک موجودہ دور کے ابتدائی زمانے میں زیادہ تھا۔ اس دور میں عقلیت اور Reformed عیسائیت نے اس کا علاج سیکولر ازم کو قائم رکھ کر کیا۔

سیکیولرازم نے مجموعی طور پر انسانی زندگی کو دو خانوں میں تقسیم کردیا تھا۔ اس سماجی زندگی اور دوسری ذاتی زندگی سماجی زندگی سے اس نے مذہب کو بالکل علیحدہ کردیاتھا اور اس کی جگہ عقلیت کی بالادستی تسلیم کرلی تھی۔دوسرا حصہ جو انہوںنے ذاتی زندگی کے نام سے رکھا تھا اس میں عقلیت اور ریاستی نظام کو بے دخل کر دیا تھا اور اس کی جگہ مذہب کو دے رکھی تھی۔ اس پورے نظام کے تحت مطلق العنان بادشاہت دو ڈھائی صدیوں تک قائم رہی۔

لبرل ازم:

لبرل ازم سیکیولر ازم کتنا ہی مذہب بیزار نظام سہی پھر بھی اس نے زندگی کے ایک حصے میں مذہب کی گنجائش رکھی تھی۔ لبرل ازم درحقیقت اس سیکیولر تقسیم کار کے خلاف بغاوت بن کر ابھری۔ لبرل ازم نے بھی اپنی بنیاد عیسائیت سے لی۔ چونکہ عیسائی مسیح کی الوہیت کے قائل تھے اسی عقیدے کے مطابق عیسیٰ علیہ السلام بیک وقت خالق ومخلوق بندہ وخدا محدود سے لامحدود تھے۔ آگے چل کر اسی عقیدے کی بنیاد پر لبرل ازم نے ایک تہذیب کا روپ دھارا جس میں فرد بحیثیت فرد اپنا نظام زندگی خود طے کرنے کی آزادی رکھتا ہے۔ نیکی اور بدی کے معیارات خود متعین کرسکتا ہے کسی اور کو اس بات کا حق نہیں کہ وہ کسی فرد کو کوئی خاص طرززندگی اختیار کرنے پر مجبور کرے یعنی وہ خود خدا بن سکتا ہے دوسرا نجات کا جو تصور عیسائیت میں پایا جاتا ہے اس کے تحت تو عیسیٰ علیہ السلام نے مصلوب ہوکر تمام انسانوں کے گناہ کا کفارہ ادا کردیا۔

چنانچہ ہر فرد کی اخلاقی حیثیت برابر ہوگئی۔ پھر لبرل ازم نے نجات کو ان معنوں میںبھی لیا کہ جب انسان تسخیر کائنات کرے گا تو سارے دکھ درد، رنج والم، مصائب ومشکلات وغیرہ سب مٹ جائیں گے اور دنیا میں انسان کو نجات مل جائے گی اور تسخیر کائنات کا مطلب قانون فطرت پر بھی مکمل قبضہ ہے یعنی دن رات، بارش، ہوا حتیٰ کہ ایک مغربی فلسفی کے مطابق ترقی کا دور بھی آنے والا ہے جب انسان موت پر بھی قابو پالے گا۔

اس پورے عقیدے کو بنیاد بنا کر ایک فلسفی Kant نے انسانیت کا ایک تصور پیش کیا جو لبرل ازم کے بنیادی تصورات میںنہایت اہم ثابت ہوا۔ Kant  فرد کو بحیثیت فر اس بات کا مجاز سمجھتا ہے کہ وہ اپنے لیے خود نظام زندگی تجویز کرے اور ہر فرد جو نظام زندگی اپنے لیے منتخب کرتا ہے وہ اتنا ہی قابل قدر ہے جتنا وہ نظام زندگی جو دوسرا کوئی فرد اپنے لیے منتخب کرے مثلاً ایک شخص جو اپنا مقسد یہ ٹھہراتا ہے کہ وہ ایک مربع میل کے علاقے میں موجود گھاس کے پتوں کو گنے گا اور دوسرا شخص اپنا مقصد یہ ٹھہراتا ہے کہ اتنے علاقے میں وہ کوئی منشیات کا کاروبار کرے گا سوسائٹی کے لیے دونوں کے مقاصد یکساں طو رپر قابل احترام ہے۔

بنیادی طور پر لبرل ازم کا فلسفہ یہ ہے کہ انسان کا جو جی چاہے وہ کرے لیکن اس حد تک کہ جہاں آپ دوسروں کی آزادی میں مخل نہ ہوں یعنی آپ اپنا مکا وہاں تک گھما سکتے ہیں جہاں دوسرے کی ناک شروع ہوتی ہے غرض عیسائیت نے موجودہ لبرل تہذیب کی تعمیر اور ارتقاء میں اہم کردار ادا کیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *