جاویداقبال(مرحوم)-

 

                اس باب میں ہم چار سوالوں کا جواب دینے کی کوشش کریں گے

١)            روس کے سرمایہ دارانہ اشتراکی انقلاب کا تصور کیا تھا۔

٢)            یہ انقلاب کون لایا

٣)            انقلاب کیسے آیا

٤)            سرمایہ دارانہ اشتراکی انقلاب کے معاشرتی اور ریاستی انتشارات

روس کے سرمایہ دارانہ اشتراکی انقلاب کا تصور

                 لبرل ازم اور قوم پرستی کی طرح اشتراکیت بھی سرمایہ دارانہ نظام زندگی کا ایک نظریہ (Ideology) ہے اشتراکی نظریہ کے تمام دھڑے سوشلسٹ، سوشل ڈیمو کریٹ، کمیونسٹ وغیرہ بنیادی سرمایہ دارانہ اقدار کو قبول کرتے ہیں۔

                سرمایہ دارانہ نظام زندگی کے تین بنیادی اقدار ہیں۔ آزادی مساوات اور ترقی۔ آزادی سے مراد یہ ہے کہ انسان کو قائم بذات احد اور صمد (Autonomus and self-determinent)ہونا چاہیے وہ انسان جو قائم بذات ہو اور احد اور صمد ہونے کا دعویٰ کرے اس کو ہیومن بینگ (Human Being) کہتے ہیں۔ ہر Human Being خود تشکیلیت (self-determination)اور احدیت کا یکساں مکلف ہے۔ اس کو (Equal Freedom)کہا جاتا ہے۔ اپنی خود تخلیقیت کا اظہار (Human Being) تسخیر کائنات کے عمل سے کرتا ہے۔ اس کو ترقی (Progress)کہتے ہیں۔ یعنی ترقی وہ عمل ہے جس کے ذریعے (Human Being)کائنات کی تمام قوتوں کو اپنے ارادے (Will) کے زیر نگین کرنے کا زیادہ سے زیادہ مکلف ہوتا چلا جاتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام زندگی انفرادی، معاشرتی اور ریاستی سطح پر آزادی مساوات اور ترقی کو فروغ دینے کی ایک ہمہ گیریت ہے۔

اشتراکی تنظیم سرماریہ داری ،انفرادیت، ریاست اور معاشرت کے ماتحت آزادی، مساوات اور ترقی کے فروغ کا مخصوص خاکہ پیش کرتی ہے جو لبرل اور قوم پرستانہ تنظیم سے مختلف ہے، لیکن اشتراکی، قوم پرستانہ اور لبرل نظریات (Ideologies)کا مقصد ایک ہی ہے۔ یعنی آزادی مساوات اور ترقی کا عمومی فروغ اس لیے ہم اشتراکیت کو لبرل ازم اور سرمایہ دارانہ نظام زندگی کے مختلف نظریات ہی سمجھتے ہیں۔

                اشتراکیت کے جس تصورنے روس میں غلبہ پایا وہ سائینٹفک اشتراکیت (Scientific Socialism) ہے۔ اس تصور کا خالق مارکس (Marx)اور اینگلز ز (Engels) تھے۔ ان کے مطابق ابتدائے آفرینش سے انسان زیادہ سے زیادہ پیداوار کی جستجو میں لگا ہوا ہے۔ انسانی تاریخ پیداوار میں مستقل اضافے کی جدوجہد کا دوسرا نام ہے۔ پیداوار میں اضافے کی جدوجہد کے نتیجہ میں نئے ذرائع پیدا وار (Techniques of Production)تلاش کیے جاتے ہیں اور ان ذرائع سے فائدہ اٹھانے کے لیے مخصوص تعلقات پیداور (Relation of Production)قائم کیے جاتے ہیں۔ مارکس اور اینگلز تمام معاشرتی اور ریاستی مذہبی، علمی، خاندانی، کاروباری، انتظامی، حکومتی، فوجی بین الاقوامی تعلقات کوپیداوار (Relations of Production) تصور کرتا ہے جیسے جیسے ذرائع پیداوار (Techniques of Production) کی پیداواری استعداد میں اضافہ ہوتا ہے ویسے ویسے تعلقات پیداوار(Relation of Production)  کی ترتیب نو کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس ترتیب نو کی راہ میںحائل رکاوٹ وہ طبقات ڈالتے ہیں جو قائم شدہ نظام تعلقات پیداوار سے مستفید ہورہے ہوتے ہیں۔ اور تعلقات پیداوار کی ترتیب نو کی جدوجہد وہ طبقات کرتے ہیں۔ جو اس ترتیب نو کے ذریعہ مراعات یافتہ ہونے کی توقع رکھتے ہیں۔

                مارکس اور اینگلز کی تعلیمات کے مطابق انقلاب کا مقصد تعلقات پیداوار کی ترتیب نو ہے۔ 18 ویں اور 19ویں صدی میں جو انقلابات یورپ میں آئے ان کا مقصد زمیندارانہ (Feudal) تنظیم تعلقات کی جگہ سرمایہ دارانہ تنظیم تعلقات پیداوار کو رائج کرنا تھا۔ پورے یورپ میں یہ انقلاب دکانداروں، ساہوکاروں اور صنعت کاروں کا طبقہ لایا اس طبقے کو مارکس اور اینگلز بورژ وا طبقہ (Boorgeis class) کہتے ہیں۔ اور ان انقلابوں کے ذریعے معاشرتی اور ریاستی قوت زمیندار طبقہ کے ہاتھ سے نکل کر بورژوا طبقے کے ہاتھوں میں منتقل ہوگئی۔لہٰذا جو تعلقات پیداوار یورپ میں اس دور میں غالب آئے وہ لبرل سرمایہ دارانہ معاشرتی اور ریاستی تعلقات تھے اور اس تغیر اقتدار اور تعلقات پیداوار کی ترتیب کرکے نتیجہ میں پیداوار میں تیزی سے اضافہ ہوا۔

                مارکس اور اینگلز لبرل سرمایہ داری نظام کو اس کی پیداواری صلاحیت کی بنیاد پر سراہتے ہیں۔ اور زمینداری نظام سے بہت بہتر سمجھتے ہیں۔ لیکن ان کے خیال میں 19 ویں صدی کے آخر تک ذرائع پیداوار (Teehniques of Production) اتنے تبدیل ہوگئے ہیں کہ تعلقات پیداوار کی ترتیب نو کے بغیر پیداوار میں مزید اضافہ ممکن نہیں چنانچہ بنیادی تبدیلی جو ہونی چاہیے وہ یہ ہے کہ ذاتی ملکیت کو ختم کرکے تمام پیداواری وسائل کو قومیہ(Nationalize)لیا جائے اور پیداوار اور آمدن کی تقسیم منصوبہ یعنی Planeکے ذریعے ہو مارکیٹ  (Market)کے ذریعے  نہ ہو۔

                لیکن تعلقات پیداوار میں اس ترتیب نو کی راہ میں بورژوا اور (Boorgeis)طبقہ رکاوٹیں ڈال رہا ہے۔ کیوں کہ لبرل تنظیم معاشرت اور ریاست سے اس کے مراعات منسلک ہیں۔ اس کے برعکس پرولتاری یعنی مزدور طبقے کے مفاد یہ تھے کہ ذاتی ملکیت کو ختم کرکے تمام ذرائع پیداوار کو قومیا لیا جائے۔ لہٰذاپرولتاری طبقہ کو اشتراکی سرمایہ دارانہ انقلاب برپا کردینا چاہیے۔ تاکہ پیداوار میں اضافہ کی راہ میں جو رکاوٹ بورژوا طبقہ پیدا کرے تووہ منہدم ہوجائے اور یہ پرولتاری انقلاب تمام انسانیت Human beingکے لیے مفید ہوگا کیوں کہ اسی کے نتیجے میں پیداوار میں برق رفتاری سے اضافہ ہوگا۔

                سرمایہ دارانہ اشتراکی انقلاب وہ انقلاب ہے جس کے ذریعے لبرل تنظیم معاشرت اور ریاست کو منہدم کرکے مارکیٹ کی جگہ منصوبہ Planeکے ذریعے معاشرتی زندگی کو منظم کیا جاتا ہے لیکن یہ انقلاب کیسے برپا کیا جائے مارکس کے پاس اس سوال کا صرف ایک مبہم جواب ہے۔ اس سوال کا تفصیلی جواب لینن نے دیا اور لینن 1917ء میں روس میں اشتراکی سرمایہ دارانہ انقلاب لانے میں کامیاب ہوگیا۔

                لینن (Lenin)کے مطابق پرولتاری طبقہ سرمایہ دارانہ اشتراکی انقلاب لانے کا ذریعہ ہے لیکن لبرل سرمایہ دارانہ معاشروں میں پرولتاری طبقہ انقلابی احساسات ومیلانات (Revolutionary Conciousness) نہیں رکھتا عام مزدور لبرل سرمایہ دارانہ نظام میں اپنا حصہ محفوظ کرنے کے لیے جدوجہد کرتا ہے۔ اس کی جدوجہد بہتر اجرتوں کے حصول کے ارد گرد گھومتی ہے اس کی عمومی تنظیم مزدور یونین (Trade Union)ہوتی ہے۔ اور مزدور یونین کی جدوجہد کا مقصد لبرل سرمایہ دارانہ نظام کا نہیں بلکہ لبرل سرمایہ دارانہ نظام میں مزدوروں کے حقوق اور مراعات کا تحفظ ہوتا ہے۔ لہٰذا ٹریڈ یونین انقلابی میلانات کو فروغ دینے اور لبرل سرمایہ دارانہ نظام کا ذریعہ بننے کی اہلیت نہیں رکھتیں۔

                لہٰذا اشتراکی سرمایہ دارانہ انقلاب برپا کرنے کے لیے انقلابی (Vanguard) (ہراول دستہ) پارٹی کی ضرورت ہوتی ہے یہ Vanguard پارٹی مزدوروں کی نمائندہ (Representative)جماعت ہوتی ہے۔ اس کا مقصد مزدوروں کی آمریت (Dictatorship of the Prolitariat)کا قیام ہوتا ہے۔ اس پارٹی کے تمام ارکان کل وقتی پیشہ ور انقلابی (Full Time Revolutionist)ہوتے ہیں۔ پارٹی تمام فیصلے جمہوری مرکزیت  (Democratic Centerlization)کے اصول کے تحت کیے جاتے ہیں۔ چونکہ لینن کے مطابق

٭             جن نظریات پر پارٹی کے ممبران ایمان لاتے ہیں۔ وہ سائنٹفک یعنی حق ثابت کیے جاچکے ہیں۔

٭             تمام ارکان پارٹی کے مقاصد کے حصول کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیارہوتے ہیں۔

                لہٰذا وہ جو فیصلہ باہمی بلا اکرا ہی (Voluntary) مشاورت سے کریں گے وہ لازماً درست ہوگا (جب تک وہ اس فیصلہ کو خود ہی بدل نہ دیں) اور اس سے اختلاف کا کسی پرولتاری کو خواہ وہ پارٹی کے اندر ہو یا باہر کوئی حق نہیں۔

                پارٹی مسلح، غیر قانونی اور دستوری جدوجہد کے ذریعہ لبرل سرمایہ دارانہ ریاستی نظام کو منہدم کرنے کی جدوجہد کرتی ہے۔ چونکہ جدوجہد کا مقصد ریاستی نظام کا انہدام ہے لہٰذا دستوری جدوجہد غیر دستوری جدوجہد کے لازما تابع ہوتی ہے اور پارٹی کا کام یہ ہوتا ہے کہ پرولتاری طبقہ اور اس کے حلیف طبقوں (بالخصوص فوجیوں اور کسانوں) کو ریاست کے خلاف بغاوت پر اکسائیں اور اس بغاوت کو برپا کرنے کے لیے پرولتاریوں اور ان کے حلیفوں کو منظم کریں اس طرح کے تمام طبقاتی تنظیمیں Vanguardپارٹی کی کلی ماتحتی کو قبول کریں۔ جب بغاوت کامیاب ہوجائے تو وینگارڈ پارٹی کا فرض ہے کہ وہ تمام ذرائع پیداوار کو توقومیالے اور پلان کی بالادستی مارکیٹ پر قائم کرے ۔ یوںمزدوروں کی آمریت  Dictatorship of the Prolitariat قائم ہوجائے گی۔ تمام معاشرتی اور ریاستی قوت دینگارڈ پارٹی کے ہاتھوں میں مرتکز ہوجائے گی۔ سابق غیرپرولتاری افراد اور طبقوں کو بتدریجپرولتاری بنادیا جائے گا اوروینگارڈ پارٹی کے فیصلوں کی تنقید و خلاف ورزی برداشت نہیں کی جائے گی اور ایک ملک میں اشتراکی سرمایہ دارانہ انقلاب برپا کرنے کے بعد اس ملک کی وینگارڈ پارٹی دوسرے تمام ممالک کی وینگارڈ پارٹیوں سے اشتراکی عمل کے ذریعے ہر لبرل اور قوم پرست ریاست کو منہدم کرنے کی پیہم جدوجہد کرے گی اگلے سیکشن میں ہم بتانے کی کوشش کریں گے کہ لینن نے روس میں یہ عمل کرنے کی کوشش کیسے کی۔

انقلاب کیسے آیا اور انقلاب کون لایا:

                انقلاب روس کے تجزیہ نگار عموماً زارکی ریاست کے انہدام کی جدوجہد کو 1860 کی دہائی سے شمار کرتے ہیں۔ 1860 میں زار کی حکومت نے قدیم زرعی روایتی نظام کو ختم کرکے زراعت کے شعبہ میں سرمایہ دارانہ نظام کے فروغ کی راہ ہموار کردی۔ مزارع (Peasants) جو پہلے اراضی کے ساتھ منسلک تھے اورنقل مکانی نہیں کرسکتے تھے آزاد کردیئے گئے اور فروخت کا روبار روز افزوں ترقی کرنے لگا ۔لہٰذامزارعوں کو جاگیروں پر جو معاشرتی تحفظ دستیاب تھا وہ اس سے محروم ہوگئے اور اپنے آبائی علاقوں سے بے دخل ہوکروہ دوسرے شہروں اور قصبوں میں وہ بے روزگاری اور فاقہ کشی کا شکار ہوگئے۔ چنانچہ جاگیردارانہ نظام میں ہئتی تبدیلی کے نتیجے میں مزارعوں کا استحصال بڑھ گیا۔ اس صورت حال میں جو پہلی انقلابی تحریک اٹھی اس کا نام (Narodnik) تھا اور اس کا قائد روبوکوف واسکی تھا۔ یہ ایک طاقت ور مزاحمتی تحریک تھی جس کا طریقہ کار عسکری اور غیر دستوری تھا۔ انقلابی جدوجہد کا آغاز پوری دنیا میں اسی ہی نوعیت کے جانباز اور سرفروش تحاریک کرتی ہیںNarodnik تحریک کے جانباز سرفروشوں نے زار انتظامیہ کو اپنا ہدف بنایا اور 1870 اور 1880 کی دہائیوں میں متعدد اعلیٰ افسروں اور درباریوں کو قتل کیا۔ لینن کا بڑا بھائی (جس کو لینن Saskaکہا کرتا تھا) Narodnik تحریک کا فدائی تھا اور جب لینن تقریباً 14 سال کا تھا تو Saska نے اس وقت کے شہنشاہ روس کو ایک پبلک تقریب میں قتل کردیا تھا۔ لینن آخری عمر میں اپنے بڑے بھائی کا مداح رہا۔اور اس نےNarodnik سے وابستہ جانثاروں کو اپنے ساتھ ملانے کی ہمیشہ بھر پور کوشش کی۔

روس کی مار کسسٹ جماعت Russia Social Democrate and Labour Party 1883 1883(RSDLP)ء میں Pleknonoeنے قائم کی اور اس سے کئی سال قبل جرمنی بھی ایک مارکسسٹ جماعت قائم کی جاچکی تھی اور RSDLP اس جرمن جماعت کو اپنا ماڈل تصور کرتی تھی اور مارکس ازم (Marxism) کی جو تعبیر کرتی تھی اس کو مارکس اور اینگلز کی تائید بھی حاصل تھی (مارکس 1883میں مرا اور اینگلز 1898میں مرا۔ دونوں جرمن کمیونسٹ جماعت کے مشیر تھے اور اینگلز کی RSDLP کی قیادت سے خط وکتابت ایک طویل عرصہ تک جاری رہی) اس تعبیر کے مطابق کمیونسٹ جماعت کا بنیادی کام مزدوروں میں بیداری پیدا کرنا تھا۔ کمیونسٹ اپنے آپ کو مزدور تحریک کا حصہ سمجھتے تھے اور اس بات کا اقرار کرتے تھے کہ مزدور تحریک میں دوسرے ایسے دھڑے موجود ہیں جن سے اشتراک عمل ضروری ہے روسی کمیونسٹ اپنی جماعت میں غیر کمیونسٹ افراد کو شامل کرتے تھے۔ اور دیگر بادشاہت مخالف جماعتوں سے اشتراک عمل کی ضرورت کو قبول کرتے تھے۔ ان کے خیال میں چوں کہ روس ایک پسماندہ معیشت ہے لہٰذا اس میں اشتراکی انقلاب برپا نہیں کیا جاسکتا۔

                پہلے مرحلے میں کمیونسٹوں کا کام روس میں ایک لبرل اور سرمایہ دارانہ تغیر لاناتھا۔ چوں کہ روس کی لبرل، قوم پرست، غیر مارکسی اشتراکی اور انارکسٹ جماعتیں بھی اس ہی کی خواہاں تھیں لہٰذا RSDLP کے مارکسٹوں اور ان دیگر جماعتوں میں اشتراکِ عمل ممکن بھی تھا اور ضروری بھی۔ یہ سب جماعتیں مل کر بادشاہت کو ختم کرکے ایک لبرل دستوری جمہوری ریاستی نظام قائم کرنے کی خواہاں تھیں گو کہ RSDLP ایک غیر قانونی جماعت تھی لیکن وہ ایک لبرل دستوری نظام کے قیام کے لیے جدوجہد کرتی رہی اور عسکری جدوجہد کو منظم کرنے کی RSDLP نے لینن کے غلبہ سے پہلے کبھی کوشش نہیں کی۔

                جب لینن تقریباً 21 سال کا تھا تو وہ RSDPL میں شامل ہوگیا شروع ہی سے اس نے قید وبند اور سائبیریا میں جلا وطنی کی صعوبتیں برداشت کیں۔ اس ہی جلاوطنی کے دوران لینن نے اپنی پہلی اہم کتاب Development of Capitalism in Russiaلکھی۔ اس کتاب میں اس نے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ روس ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود ایک غیر ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ معیشت ہے۔ لہٰذا اس میں اشتراکی سرمایہ دارانہ انقلاب برپا کیا جاسکتا ہے۔ اور غیر کمیونسٹ جماعتوں اور افراد سے لبرل جمہوری ریاستی نظام کے لیے اشتراک عمل ضروری نہیں بلکہ مضر ہے۔ RSDLP کو اشتراکی سرمایہ دارانہ انقلاب برپا کرنے کے لیے علیحدہ جدوجہد کرنا چاہیے اور اس جدوجہد میں عسکری جدوجہدکو سمونا بھی ناگزیر ہے۔

                RSDLP کے کارکنان میں یہ فکر تیزی سے مقبول اور  Narodnik تحریک میں شامل کئی افراد اپنی جماعت چھوڑ کر RSDLP میں شامل ہوگئے۔ 1902 کے RSDLPکے کل روسی اجتماع میں جماعت کے مندوبین کی اکثریت نے لینن کا ساتھ دیا اور RSDLP دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔

                بولشوک (Bolshevik)دھڑا جس کی قیادت لینن کررہا تھا اور ممشوک (Memshevik)دھڑا جو RSDLP کے اساسی نظریات پر قائم تھا اور جس کا قائد Murtovتھا۔

                1905ء میں زار (Czar)کی فوجیں جاپان کے ہاتھوں شکست کھا گئیں اور اسی ہزیمت کے نتیجے میں روس کے کئی شہروں میں بغاوت ہوگئی۔ روس کے سب سے بڑے شہر St Petersbourgh میںجو حکومتی نظام قائم تھا وہ Soviet کے نام سے مشہور ہوا۔ اس انتظامیہ میں غلبہ باغی اور مفرور فوجیوں اور شہری پولیس کے اہل کاروں کا تھا اور اس میں تقریباً تمام زار مخالف سیاسی جماعتیں بھی شامل تھیں کوئی منظم حکومتی ڈھانچہ قائم نہ ہوسکا اور جب زار کی فوج واپس آئی تو ایک مختصر فوجی تصادم کے بعد St. Petersbourghاور دیگر شہروں پر قبضہ کرکے زار کا اقتدار بحال کردیا۔ لینن اس جدوجہد سے بہت متاثر ہوا وہ 1905ء کی جدوجہد سے لینن نے جو نتائج اخذ کیے وہ یہ تھے۔

٭             انقلاب عسکری جدوجہد سے رونما ہوگا۔

٭             انقلابی تنظیمی ڈھانچہ سوویٹ (Soviet)کی شکل کا ہوگا اس تنظیمی ڈھانچہ کے قیام کا مقصد ریاست کے اہل کاروں سے اقتدار چھین کر اقتدار کمیونسٹوں کے ہاتھوں میں مرتکز کرنا ہے۔

٭             کمیونسٹوں کے لیے یہ کافی نہیں کہ وہ محض مزدور طبقہ کو منظم کریں ان کو فوج میں اور دیہی علاقوں میں Sovietsکی تنظیم سازی پر توجہ دینی چاہیے۔

٭             اشتراکی سرمایہ دارانہ ریاستی اقتدار کے قیام سے قبل کمیونسٹوں کو ریاست کے نظام اقتدار میں کوئی حصہ حاصل نہیں کرنا چاہیے۔

٭             زار کے اقتداری نظام کی عوامی بنیاد عیسائی Orthodox churchکا نظام عبادات اور تعلیم فراہم کرنا ہے لہٰذا اس نظام عبادات اور تعلیم کو بالخصوص دیہی علاقوں میں منہدم کرنا کمیونسٹوں کے معاشرتی اور ریاستی غلبہ کے لیے از حد ضروری ہے۔ لینن اپنی زندگی کے ہر دور میں ایک کٹر دھریہ اور ملحد تھا اور خدا دشمنی اس کے رگ رگ میں رچی بسی تھی۔

                1905ء سے 1917ء کے دور میں روسی ایمپائر ایک مطلق العنان بادشاہت ایک دستوری بادشاہت میں بتدریج تبدیل ہوتی رہی ملک گیر انتخابات کا انعقاد ہوا۔ پارلیمنٹ (Duma)کے اجلاس ہوتے رہے دساتیر کی تشکیل ہوتی رہی لبرل حقوق کی وہ فہرست جس کو دستوری تحفظ حاصل تھا طویل سے طویل ہوتی رہی Stopinکے وزارت کے دور میں ریاست نے ایک فلاحی کردار ادا کرنا شروع کردیا تمام زار مخالف جماعتیں بشمول Narodvikکی سیاسی نمایندہ جماعت جس کا نام Socialist Revolutiounary party تھا بتدریج قانونی تحفظ حاصل کرتی چلی گئی اور ریاستی اقتدار میں شریک ہوگئی۔ جب 1914ء میں زار نے دوسری جنگ عظیم میں شمولیت کا اعلان کیا تو تمام سیاسی جماعتوں نے اس کی تائید کی۔ صرف Bolshevikجماعت اس جنگ کی مخالف تھی۔

                1905ء سے 1917ء کے دور میں لینن کا بنیادی مقصد Soviet کے نظام کی تشکیل تھیSovietنظام کی بنیادی اکائی دیہات، فیکٹری اور فوجی پلٹن ہوتی ہے۔ یہ اکائیاں کئی سطح پر مجتمع کی گئیں۔ قصبہ کی سطح پر شہری سطح پر بریگیڈ کی سطح پر اور ملک گیر سطح پر Soviet بتدریج ایک متبادل غیر دستوری نظام حکومت کی شکل اختیار کرتی چلی گئی جنہوں نے فیکٹری پلاٹون اور دیہات کی سطح پر زار انتظامیہ کو بتدریج محروم اقتدار کردیا۔

                سویٹ کے نظام میں تین سیاسی جماعتیں نمایاں تھیں( RSDLP) Socialist Revolutiounary party Memshevikاور لینن کیk Bolshevi پارٹی Soviet کی تنظیم ہر سطح پر جمہوری بنیادوںپر ہوتی تھی اور اہل کار ہر سطح پر منتخب ہوتے تھے۔Bloshevik جماعت کا سیاسی اثر Supreme Sovietکی ملک گیر تنظیم میں 1906ء کے بعد سے بڑھتا رہا لیکن 1917ء فروری کے انقلاب تک بلشویک پارٹی Supreme Sovietمیں کبھی اکثریت حاصل نہ ہوسکی بلشویک جماعت کی حکمت عملی ہمیشہ یہ رہی کہ وہ Sovietنظام کو ریاستی نظام سے ٹکرا کر قانونی نظام اقتدار کو منہدم کردیا جائے اس کے برعکس Memshevikاور Socialist Revolutiounary سویٹ نظام کو قانونی نظام ریاست کا جزو بنانے کے خواہاں تھے۔

نظام اقتدار سے تصادم کے نتیجے میں 1906-1917ء کا دور بلشوائیوں کے لیے ایک دور ابتلا اور آزمائش تھا۔ لینن خود کئی بار گرفتار اور جلا وطن ہوا۔ اور کئی بلشوائی کارکن قید وبند کی صعوبت اٹھا کر مار ڈالے گئے جب لینن نے اعلانیہ 1914ء میں روس کے جنگ میں شمولیت کی مذمت کی تو اس کے پھانسی پر چڑھائے جانے کا خطرہ پیدا ہوگیا اور وہ روس سے فرار ہوکر اپریل 1917ء تک روس سے باہر رہا۔ پہلی جنگ عظیم میں روسی افواج کی کارکردگی نہایت ناقص رہی اور وہ شکست پر شکست کھاتی رہیں 1917ء کے اوائل تک روس کا بہت بڑا علاقہ دشمن کے قبضہ میں چلا گیا تھا اور جنگ سے بے دلی عام ہوگئی تھی۔ اس بے دلی سے فائدہ اٹھاتے ہوئےSocialist Revolutiounariesجن کو اپنے اتحادیوں کے ساتھ روسی پارلیمنٹ (Dumen)میں اور Supreme Sovietمیں اکثریت حاصل تھی اقتدار پر قبضہ کرلیا اور Kerenskeyکی حکومت قائم ہوگئی فروری سے اپریل 1917ء تک بلشوائی Kerenskey کی حکومت کے بارے میں اپنا رویہ متعین کرنے میں متذبذب رہے اور آثار یہی تھے کہ وہ اس حکومت میں شمولیت اختیار کرلیں گے۔

                لیکن اپریل 1917ء میں لینن جلاوطنی سے روس واپس آگیا اور اس شدت سے Kerenskey کی حکومت سے تعاون کی پالیسی کو رد کردیا اور اپنی مشہور دستاویز the april thesis میں کہا کہ Kerenskeyحکومت عوام سے کیے گئے وعدے کبھی پورے نہیں کرسکتی۔ Leninنے مطالبہ کیا کہ

١)            فوراً جنگ ختم کی جائے

٢)            فوراً تمام زمینوں کو مزارے کے قبضہ میں دیا جائے۔

٣)            فوراً ریاستی اقتدار سوویٹوں Sovietکے سپرد کیا جائے۔

                اگلے Supreme soveitکے انتخابات ہوئے جس میں Bolshevikجماعت کو پہلی مرتبہ کامیابی حاصل ہوئی۔ بلشوائیوں نے Kremlineحکومت کے خلاف پہلی بغاوت جولائی 1917ء میں کی جو ناکام ہوگئی لیکن 4ماہ بعد وہ فوج کی مدد سے Kremlineپر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگئے اور لینن روس  امپائرکا حکمران بن گیا اور اپنی موت تک (جو کہ 1924ء میں واقع  ہوئی، جبکہ وہ 54 سال کا تھا) اس منصب پر قائم رہا۔ اپنے دور حکومت میں اس نے ایک تین سالہ (1921ء تا 1918ئ) داخلی جنگ (Civilwar)میں اکیس ممالک کی ایک مشترکہ  فوج کو شکست دی اور ان تمام نو آبادیوں پر دوبارہ روسی تسلط قائم کردیا جو 1917ء کے بعدداخلی اورخارجی کمزوریوں کی وجہ سے ،زارکی چیرہ دستیوں کی وجہ سے آزاد ہوگئی تھیں۔

اشتراکی سرمایہ دارانہ انقلاب کے اشارات:

                روسی ریاست (Empir) میں اشترا کی  سرمایہ دارانہ نظام 74سال قائم رہا۔ اس کے نتیجہ میں نہ کوئی غیر سرمایہ دارانہ انفرادیت پنپی نہ کسی غیر سرمایہ دارانہ معاشرت نے جنم لیا اور نہ کوئی غیر سرمایہ دارانہ نظام اقتدار قائم ہوسکا۔

                مارکس نے اشتراکی انفرادیت کا ایک قدرے مبہم تصور اپنی کئی تصانیف میں پیش کیا ہے۔ (الف) اس کے مطابق وینگارڈ (Vanguard)پارٹی کے ارکان بنی نوع انسان (Humanity)کے حقیقی نمائندہ ہوتے ہیں۔ مارکس ایسے افراد کو (Specie being)کہتا ہے۔ (ب)Specie beingوہ انفرادیت ہے جو اپنے ذاتی مفادات پر Humanityکے نوعی Specieمفادات کو ترجیح دے۔ مارکسی تعلیمات کے مطابق نبی نوع انسانیت کا نوعی مفاد اس میں ہے کہ بنی نوع انسان Human beingاحد اور صمد قائم بالذات بن جائے اور کائنات کی تمام قوتوں پر اپنے ارادہ (Will) کو مسلط کرکے حقیقت کو اپنے منشا کے مطابق تخلیق کرے۔

                Specie beingاصلاً خدا کا باغی ہوتا ہے وہ خدا سے اس لیے نفرت کرتا ہے کیوں کہ حقیقتاً احد وصمد اور قائم بذات تو وہ خود ہے اور Human beingکبھی احد وصمد اور قائم بالذات نہیں بن سکتا۔ اور انسان کو خدا بنانے کی جدوجہد اصولاً اور لازماً ایک لغو اور ناکام جدوجہد ہے (کیوں کہ ہر فرد لازماً موت سے دو چار ہوتا ہے اور Humanityکا کوئی خودوجود Self Conciousness existence)خود بخودممکن نہیں۔ ابلیس کی طرح Speciebeingبھی ایک ایسی لازماً ناکام سعی لاحاصل میں اپنی زندگی گنوادیتا ہے جس میں تحرک جذبہ نفرت اور حسد فراہم کرتا ہے۔

                Speciebeingکے قلب پر حسد اور غضب کے شیاطین کا مکمل قبضہ ہوتا ہے۔ مارکس نظریہ Speciebeing کو یہ سکھاتا ہے کہ Humanityکی الوہیت کے قیام کے لیےDictatorship of the Prolatriateکا قیام واستحکام لازمی ہے۔لہٰذا  وینگارڈ پارٹیSpeciebeing کی وہ اجتماعیت ہے ۔جس کا ہر رکن اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ Dictatorship of the Prolatriate کے قیام اور استحکام کے لیے وہ اپنے تمام مفادات کو قربان کردے گا Dictatorship of the Proletriateکے دشمنوں کی

نفرت سے مغلوب ہوکر وینگارڈ پارٹی کا رکن بڑی سے بڑی ذاتی قربانی دینے پر ہر وقت آمادہ رہتا ہے۔

بولشوک جماعت کے ارکان نے 1906ء سے لے کر 1923-24ء تک جاری رہنے والی طویل جدوجہد میں ثابت کردیا کہ وہ مارکس Speciebeingتھے۔ زار کے دور حکومت میں ہزاروں بولشیوائی گیارہ سال تک بدترین اذیت اور تعدیت قید وبند اور جلاوطنی کی تکالیف برداشت کرتے رہے اوراس پورے دور ابتلا میں بولشوائی جماعت سے انحراف کرنے والوں کی تعداد نہایت قلیل رہی۔ اشتراکی سرمایہ دارانہ انقلاب کے وقوع کے بعداکیس مغربی ممالک نے روس پر چڑھائی کردی اور 1918ء تا 1921ء ایک ایسی طویل جنگ روسی امپائر کے چپہ چپہ پر جاری رہی جس میں بولشوائی جماعت کے بیشتر افراد مارے گئے جنگ میں فتح اور اتحادی فوج کی پسپائی کے بعد روس پر معاشی مقاطعہ Economic boycoteمسلط کیا گیا لیکن بولشوائی قیادت نے تمام مصائب اور صعوبتوں کے باوجود اپنی ریاست کو مستحکم کیا۔

                ان بے لوث قربانیوں اور نظریاتی یکسوئی کے مظاہرہ کے نتیجہ میں بولشوائی روسی عوام کی نظر میں ہیرو بن گئے اور 1906ء سے 1924ء تک اس جماعت کی عوامی مقبولیت میں حیرت انگیز اضافہ ہوا پرانی Socialist Revolutionaryجماعتوں کے ارکان کی  بہت بڑی بہت بڑی اکثریت بولشوک جماعت میں شامل ہوگئی اور یہ لوگ 1921ء سے 1918ء کی جنگ میں بولشوائیوں کے شانہ بشانہ لڑے لینن نے ایک قدم Memshevikلیون ٹرا سکی (Leon Trotsky) کواپنا وزیر جنگ مقرر کیا اور اتحادیوں کے خلاف فتح Trotskyکی حکمت عملی کا نتیجہ تھی کسانوں نے (جو عموماً بولشوائی تنظیم اور نظریات سے مطلقاً ناواقف تھے) لینن کا بھر پور ساتھ دیا۔

                لیکن ریاستی استحکام کے حصول کے بعد بولشوائی جماعت اپنا پرانا جذبہ ایثار وقربانی نہ رکھ سکی اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ نفرت اور حسد منفی محرکات ہیں ٹرائسکی Trotskyاس بات سے خوب واقف تھا اور اس نے کوشش کی کہ خانہ جنگی Civil warکے خاتمہ پر روس آگے بڑھ کر جرمنی اور مشرقی یورپ پر حملہ کردے اور ان ممالک میں اشتراکی سرمایہ دارانہ انقلاب برپا کرنے کی جدوجہد کرے لیکن لینن نے اس حکمت عملی کی مخالفت کی اور اپنی زندگی کے آخری ایام میں خانہ جنگی کے بجائے Stalinکو کمیونسٹ پارٹی کا سربراہ جنرل سیکریٹریcertary Geneval se)بنادیا۔

                Speciebeingنہایت گھنائونی اور پلید شخصیت کا مالک ہوتا ہے اس کی اخلاقیات اس کے جذبہ نفرت اور حسد پر تعمیر ہوتی ہے۔ لازماً یہ فاسد اورغلیظ اخلاقیات ہوتی ہیں اورSpeciebeingاذیت پسندسفاک اورظالم ہوتاہے اور یہ اقدار اشتراکیوں اور قوم پرستوں میں یکساں پائی جاتی ہیں۔ کیوں کہ یہ دونوں

نظریات حسد اور نفرت کے اساسی محرکات کا عملی اظہار ہیں۔(ج) لینن ایک ظالم اور سفاک شخص تھا اس نے اپنے ہزاروں مخالفین کو نہایت بے دردی سے ایذا Tortureپہنچائی اور قتل کیا۔ لینن ہی نے روس کی بدنام زمانہ خفیہ تنظیم KGBکو قائم کیا اور KGB نے  سویت (Soviet) ایمپائر کو دس سال میں ایک جہنمی جیل خانہ بنادیا۔ لینن ایک جھوٹا اور دغا باز شخص تھا اس نے روسی ایمپائر کے مسلمانوں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ان کی آزاد ریاستوں کو تسلیم کرے گا لیکن Civil warکے خاتمہ کے بعد اس نے مسلم ریاستوں پر فوج کشی کرکے ان کو سوویت ایمپائر میں ضم کرلیا اور مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیے قرآن مجید کی بے حرمتی کی مساجد کو مسمار کیا اور اسلام کی تذلیل کی۔(د) لینن مارکس کی طرح ایک عادی زانی آزاد شہوت رانی کا مبلغ تھا اس کی ذاتی زندگی نہایت غلیظ اور پراگندہ تھی۔

                Civil warکے اختتام کے بعد سویت ایمپائر نے لبرل اور قوم پرست سرمایہ دارانہ ریاستوں سے عملاً بقائے باہمی کی بنیاد پر سمجھوتا کرلیا Stalinکے دور حکومت (1953ء تا 1925ئ) میں قومی جدوجہد کا مرکزی ہدف Building Sicialism in one countryتھا۔ بلشوائی جماعت کے ارکان کی جدوجہد اب ملک میں تیز سے تیز تر معاشی ترقی کا حصول بن گیا۔ اس جدوجہد میں غیر نفرت کے اظہار کے وہ مواقع موجود نہ تھے۔ جو Civilwarکے دوران عسکری جدوجہد نے فراہم کیے تھے۔ لہٰذا پارٹی کے اندر اور معاشرتی سطح پر عموماً ذاتی انتشار اور قربانی کی فراوانی بتدریج کم ہوتی چلی گئی۔

                وینگارڈ پارٹی کی یہ امید کہ معاشرتی سطح پر ایک عمومی شخصیت ظہور پذیر ہوگی (اس کو وہ Soveitmanکہتے تھے)جو مزدوروں اور ان کی محور ریاست مجموعی معاشی مفادات کو اپنی ذاتی معاشی مفادات پر مطلقاً فرو غ دے گی کبھی بار آور نہ ہوسکی۔ لہٰذا اشتراکی سرمایہ دارانہ ریاست کو اپنے معاشی اہداف حاصل کرنے کے لیے بڑھتے ہوئے ظلم اور جبر سے کام لینا پڑا۔Stalinنیمعاشی ترقی کو مہمیز دینے کے لیے تقریباً ایک کروڑ کسانوں کو قتل کرکے ان سے ان کی زمینیں چھین لیں ٹریڈ یونینز کو ریاستی ڈھانچہ میں ضم کردیا اور بلشوائی جماعت میں پے در پے قتل عام کرکے ہزاروں قائدین اور کارکنوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔

                اشتراکی سرمایہ دارانہ نظام کا بنیادی دعویٰ ہے کہ پیداواری ترقی کو مہمیز دینے کے لیے ضروری ہے کہ مارکیٹ کو منہدم کرکے منصوبہ بندی (Planing) کے ذریعے پیدا وار اور اس کی تقسیم کو منظم کیا جائے لیکن سویت ایمپائر میں کبھی بھی مارکیٹ کو ختم نہ کیا جاسکا۔ Civil war کے خاتمے کے بعد لینن نے جو نئی معاشی حکمت عملی New Economic Policy واضح کی اس کے تحت معیشت کے بڑے حصہ پر مارکیٹ کا دائرہ کار قائم کردیا گیا۔ منصوبہ بندی باضابطہ طورپر 1927ء میں شروع ہوئی اور اس کے نتیجے میں پیداوار بالخصوص صنعتی پیداوار کی

رفتار نمو میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا۔ لیکن ایک تو یہ منصوبہ بندی معاشرے میں کرپشن اور بدعنوانی کے فروغ کا ذریعہ بنی اور دوسرے اس ہی پلاننگ کے زیر سایہ جو زر کے بازار (Money Market) اور سرمایہ کے بازار Market Capital کو قائم کردیا عملاً Stalinنے جو معاشرتی نظام قائم کیا،وہ اشتراکی سرمایہ دارانہ نظام ان معنوں میں تھاکہ سرمائے کی رفتار بڑھوتری کے علاوہ کوئی دوسرا پیمانہ قدر اعمال اور اشیاء کی قدر متعین کرنے کے لیے موجود نہ تھا۔ سوویت ایمپائر میں جو معاشرہ قائم کیا گیا وہ خالصتاً ایک سرمایہ دارانہ معاشرہ تھا اور یہ ناگزیر تھا کہ اس میں غضب اور نفرت کے ساتھ ساتھ شہوت اور حسد بھی فروغ پائے۔

                حکمران جماعت کے قائدین، کارکنان اور عوام سب حرص حسد، شہوت اور غضب سے مغلوب ہوگئے۔ ریاست پر قبضہ  ایک ایسی سیاسی اورانتظامی نوکر شاہی کا تھا جواس قبضے سے زیادہ سے زیادہ معاشی اور سماجی مراعات حاصل کرنے کی خواہاں تھی اور Brezhnevکی صدارت کے ابتدائی دور میں جو فیصلے کیے گئے ان سے واضح ہوگیا کہ Dictatorship of the Proletariateکی حکومتی اشرافیہ اور لبرل سرمایہ دارانہ ریاستی اشرافیہ کے مفادات یکساںہیں۔ سویت ایمپائر میں ریاستی اشرافیہ عوامی نفرت کا ہدف بن گئی۔ اشتراکی نظریہ غیر معتبر ثابت ہوا اور عوام کی بہت بڑی اکثریت نے اس کو ایک ایسا دھوکہ اور فریب گردانا جس کو استعمال کرکے ریاستی اشرافیہ عوام کا استحصال کرتی ہے اور اپنے معاشی اور سماجی غلبہ کو فروغ دیتی ہے۔

اشتراکی نظریات سے دستبردار ہونے کے بعد سوویت ایمپائر کے عام شہری لبرل نظریات کو اپنا کر امریکا کو اپنا نجات دہندہ سمجھنے لگے۔ 1995ء میں سوویت ایمپائر کا انہدام عوام کی خواہشات کے عین مطابق ہوا اور روس میں لبرل سرمایہ دارانہ ریاستی اور معاشرتی نظام دوبارہ قائم ہوگیا۔

 

خلاصہ:

                لبرل سرمایہ دارای کی طرح اشتراکی سرمایہ داری بھی کفر جلی ہے۔ یہ انسان کوعبدسے Humanبنا ڈالتی ہے اور اللہ سے بغاوت پر انسان کو اکسانے والا ایک نظریہ ہے۔ جماعت اسلامی پاکستان نے سب سے پہلے اشتراکیت کو کفربین قرار دیا اور اپنی جدوجہد میں اشتراکیوں کا بھر پور مقابلہ کیا اور کئی محاذوں پر ان کو شکست فاش دی۔

                اشتراکی انقلاب کے ذریعہ سرمایہ دارانہ نظام زندگی قائم اور مستحکم ہوتا ہے۔ اشتراکیت حسد اور غضب کے جذبات کو فروغ دیتی ہے۔ اس نظریہ کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ ایک ایسا مخالف موجود ہو جس سے بھر پور نفرت کی جاس کے  ایسے دشمن کی عدم موجودگی میں اشتراکی عصبیت بتدریج تحلیل ہوجاتی ہے اور لبرل

نظریات دوبارہ انفرادی معاشرتی اور ریاستی سطح پر غالب آجاتے ہیں یہی کل روس اور مشرقی یورپ میں ہوا اور یہی آج چین اور ویتنام اورکوریا میں ہورہا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *