ڈاکٹر جاوید انصاری-

کارپوریشن(Corporation) کے اندر نظامِ اقتدار سرمایہ داری اپنی کامل ترین شکل میں ہوتا ہے۔ جہاں ایک فرد سرمایہ دارانہ بندھنوں میں ایسے جکڑا ہوتا ہے کہ بڑھوتری سرمایہ  کا ایجنٹ بننے کے سوا اور کچھ ممکن نہیں ہوتا۔ کارپوریشن کے اندر جو ترتیب نظم ہوتی ہے اس کے نتیجے میں معاش کے پورے عمل پر جس طرح سرمایہ دارانہ عقلیت غالب آتی ہے اور کہیں غالب نہیں آتی۔ سرمایہ دارانہ نظام میں کارپوریشن کے ذریعے ذاتی ملکیت کو ختم کر کے سرمائے کی ملکیت قائم کی جاتی ہے۔ سرمایہ دارانہ تعقل کے لیے انسان کے جاگتے اوقات میں انسان کو خاص قسم کے ڈسپلن میں سمو دیا جاتا ہے اور اس کے ان اوقات میں اسے سرمائے کا خادم بنا دیا جاتا ہے۔ کارپوریشن وہ شخص قانونی ہے جس کا اکیلا وظیفہ یہ ہے کہ سرمائے کی بڑھوتری کے پیمانے پر اپنے تمام اعمال کو مرتب کرے۔ کارپوریشن کو چلانے والے منیجر ہوتے ہیں، جو عملاً بڑھوتری سرمایہ کی مشین ہوتے ہیں وہ اپنے ماتحت ملازمین کو بھی اس واحد پیمانے پر پرکھتے ہیں کہ وہ بڑھوتری سرمائے کا باعث بن رہے ہیں کہ نہیں… ایک معیشت میں جس قدر کارپوریشن کا عمل دخل بڑھتاہے اتنی ہی ذاتی ملکیت کم ہو جاتی ہے۔

سٹہ کا بازار ذاتی ملکیت کو ختم کرکے سرمایہ کی ملکیت بتدریج معاشرہ پر مسلط کردیتا ہے۔ سٹہ کی مارکیٹ کا بنیادی ادارہ کارپوریشن (Corporation)ہے یہ کارپوریشن وہ شخصِ قانونی   (Legal Person)  ہے جس کا مقصدِ وجود اصولا ً  صرف اپنے سرمایہ کی مستقل بڑھوتری ہوتا ہے۔ کارپوریشن کے مالک افراد نہیں ہوتے بلکہ سرمایہ خود اس کا مالک ہوتاہے۔ کارپوریشن کی ملکیت لاکھوں افراد کو سٹہ کے بازار کے ذریعہ فروخت کردی جاتی ہے۔ اور ان میں کسی کو بھی عملاً یہ اختیار نہیں ہوتا کہ وہ کارپوریشن کے کاروباری عمل کے تعین میں حصہ لے۔ کارپوریشن پر ایک (Professional management) قابض ہوتی ہے اور یہ منجمنٹ اس بات پر مجبور ہوتی ہے کہ کارپوریشن کے تمام کاروباری فیصلے صرف اس بنیاد پر کئے جائیں کہ ان فیصلوں کے نفاذ کے نتیجے میں کارپوریشن کے سرمایہ کی بڑھوتری تیز سے تیز تر ہورہی ہے یا نہیں؟ اگر فیصلے کسی اور بنیاد پر کیے جائیں اور کارپوریشن کے سرمایہ کے بڑھوتری کی رفتار دوسری کمپنیوں کے مقابلے میں کم ہوجائے تو سٹہ کا مارکیٹ اس کمپنی کو سزا دیتا ہے۔ اس کے حصص کی قدر گر جاتی ہے اور آخر کار کمپنی دیوالیہ (Bankrupt) ہوجاتی ہے۔ اور اس کی منجمنٹ نکال لی جاتی ہے اور وہ کسی دوسری کارپوریشن میں ضم کرلی جاتی ہے۔ سود کا مارکیٹ اور سٹہ کا مارکیٹ سرمایہ دارانہ معاشرے میں قدر کے تعین کے ذمہ دار ادارے ہوتے ہیں۔ ہر معاشی عمل کا تعین اس بنیاد پر کیا جاتا ہے کہ اس عمل کے نتیجے میں سرمایہ کی بڑھوتری کی رفتار کتنی بڑھی ہے یا کتنی بڑھنے کی توقع ہے۔ مثلاً کارپوریشن X جانمازے بناتی ہے اور کارپوریشن Y فحش فلمیں بناتی ہے تو سٹہ کا مارکیٹ ان کارپوریشنوں کے حصص کی متعین کرے گا تو اس بنیاد پر نہیں کرے گا کہ جانمازیں اور فحش فلمیں حصولِ رضائے الٰہی کا ذریعہ ہیں یا نہیں یا وہ مفادِ عام کو فروغ دیتی ہیں یا نہیں؟ حصص کی قیمتوں کا تعین کے کسی کارپوریشن کا موجود اور متوقع منافع زیادہ ہے اگر فحش فلمیں بنانے والی کارپوریشن کا حاضر اور متوقع منافع جانمازیں بنانے والی کارپویشن کے منافع سے زیادہ ہے تو فحش فلمیں بنانے والی حصص کی قیمت بڑھے گی۔ اور چوں کہ اس فحش فلمیں بنانے والی کارپوریشن کا Dividend payout اور Capital Gain زیادہ ہوگا لہٰذا تمام Fund Managers  لوگوں کا سرمایہ جانماز بنانے والی کارپوریشن سے نکال کر فحش فلمیں بنانے والی کارپوریشن میں لگادیں گے۔

سرمایہ دارانہ لبرل معاشرے میں حاکمیت صرف سرمایہ کی ہوتی ہے۔ نجی ملکیت بتدریج ختم ہوتی چلی جاتی ہے۔ ہر شخص کتنا بھی امیر کیوں نہ ہو سرمایہ کا ملازم اور اس کا غلام بن جاتا ہے کیوں کہ وہ اپنی دولت بینکوں اور سٹہ کے مارکیٹ کوسپُرد کردیتا ہے۔ اور یہ بازار اس کو ایک منٹ میں مفلس بناسکتے ہیں۔ وہ ان مارکیٹوں کے احکام کی حکم عدولی کا تصور بھی نہیں کرسکتا ۔

عیسیٰ  پیر نہ  موسیٰ پیر

سب سے بڑا  سر ما یہ پیر

لبرل سرمایہ دارانہ نظام میں سرمایہ پورے معاشرے پر قبضہ کرلیتا ہے ہر معاشرتی ادارہ مارکیٹ میں ضم ہوجاتا ہے۔ سب سے تباہ کن اثر خاندان پر پڑتا ہے جہاں ماں باپ اولاد کی تربیت زیادہ سے زیادہ سرمایہ کمانے کے قابل بنانے کے لیے کرتے ہیں اور اس تربیت کے نتیجے میں خود غرضی لالچ، حرص اور حسد کا سیلاب پورے معاشرے کو ڈبودیتا ہے۔ عورتیں گھروں سے نکل کر بازاروں میں بیٹھ جاتی ہیں۔ عصمت اور عفت کی دھجیاں اُڑ جاتی ہیں۔ زنا اتنا عام ہوجاتا ہے کہ نکاح ایک نامعقول فعل نظر آنے لگتا ہے۔ حرامی بچوں کی تعداد جائز اولاد سے بڑھ جاتی ہے۔ جیسا کہ امریکا، سویڈن اور فرانس میں ہوچکا ہے جہاں حالیہ سرویز کے مطابق نصف سے زاید پیدا ہونے والے بچے حرامی ہوتے ہیں۔ اور یہ کوئی مغرب تک محدود رجحان نہیں دو ہزار گیارہ کی مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں حرامی بچوں کی تعداد دو ہزار ایک کے مقابلے میں ٣٦٧ فی صد زیادہ تھی۔

لبرل معاشرے غلیظ ترین گھنائونے معاشرے ہوتے ہیں دنیا میں کسی ایک ایسے ملک کی مثال نہیں دی جاسکتی جس میں لبرل معاشرت پھیلی ہو اور وہاں زنا کا بھی اغلام بازی اور جانوروں سے مباشرت وبا کی طرح نہ پھیلے ہوں۔ آج کل امریکا میں صلیب (Cross) کے ذریعے زنا کرنے کا شغل نہایت تیزی سے پھیل رہا ہے اور اس عمل سے روحانی فیض حاصل کرنے کے دعویٰ کیے جارہے ہیں۔ ان معاشروں میں مذہب کھیل تفریح اور لذت کے حصول کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ Meditation کی محفلوں میں شرکت چرس پینے کے متبادل کی حیثیت اختیار کرلیتی ہے۔ ہر شخص کو تعلیم دی جاتی ہے کہ وہ نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے بالکل آزاد ہے اور معاشرتی تنظیم کا مقصد ہی فروغ لذات خواہش اور خود غرضی ہوکر رہ جاتا ہے۔

بے کاری  وعریانیوں و مے خوری و افلاس

کیا  کم ہیں فرنگی  مدنیت  کی   فتوحات

لبرل ریاست:

لبرل نظریہ مارکیٹ کی ریاست پر بالادستی پر یقین رکھتا ہے۔ اور لبرل سرمایہ دارانہ نظام زندگی میں مارکیٹ ریاست پر غالب ہوتی ہے۔  اس کے برعکس قوم پرست اور اشتراکی سرمایہ دارانہ نظام ہائے زندگی میں مارکیٹ کے عمل پر ریاستی تحدیدمختلف حق تک روا رکھی جاتی اور چوں کہ ان نظاموں میں ریاست سرمایہ کی عمومی نمایندہ (Representative of capital in general) ہونے کا دعویٰ کرتی ہے لہٰذا عموماً (اور مختلف حد تک) قوم پرست اور اشتراکی سرمایہ دارانہ ریاستیں قدر کے تعین کے عمل سے لاتعلق نہیں رہتیں اور منصوبہ بندی (Planning) کے ذریعے مارکیٹ پر اپنی بالادستی قائم کرنے کی کوشش کرتی ہے۔

لبرل ریاست ایک نمایندہ دستوریت ( Constitutional Republic) ہوتی ہے جو عموماً جمہوریہ بھی ہوتی ہے۔ اس کی بنیاد بھی Rousseau  کو متصور وہی سوشل کنٹریکٹ (Social Contract) فراہم کرتا ہے جس کی بنیاد پر سرمایہ دارانہ مارکیٹ قائم کیا

 جاتا ہے۔ Republic سے مراد ہے عوام (Public) کی حکومت (Re) عوام حکومت ان معنوں میں کرتے ہیں کہ وہ اصولاً مطلق العنان حاکم ( Absolute sovereign) تصور کئے جاتے ہیں۔ وہ حکومت اسی مطلق العنان حاکمیت یعنی آزادی کو تحفظ اور فروغ دینے کے لیے کرتے ہیں۔ ہر ری پبلک کا بنیادی عقیدہ لا الہ الا الانسان ہی ہوتا ہے اور دستور اس عقیدہ کو ہیومن رائٹس (Human Rights) کی شکل میں اپنے مقدمہ Preamble میں شامل کرلیتا ہے۔ یہ ہیومن رائٹس ان معنوں میں مقدس ہوتے ہیں کہ عوام کو یہ حق نہیں کہ کثرت رائے سے ان ہیومن رائٹس کو منسوخ کردیں۔ چوں کہ ہیومن رائٹس الوہیت انسانی کا دعویٰ ہیں لہٰذا ہر ری پبلک میں دستور کتاب الٰہی کی جگہ لے لیتا ہے۔

لبرل ریاست عموماً نمایندگی (Representative) کی بنیاد پر تشکیل دی جاتی ہے۔ لبرل ریاست میں عوام خود حکومت نہیں کرتے بلکہ وہ کثرت رائے سے اپنے نمایندہ منتخب کرتے ہیں جو قانون ساز (Legislators) ہوتے ہیں۔ قانون سازی (Legislation) لازماً دستور کے تناظر میں ہی کی جاتی ہے۔ لہٰذا کوئی ایسا قانون نہیں بنایا جاسکتا جو ہیومن بینگ (Human Being) کے مطلق العنان حاکمیت اور اس کی الوہیت کی نفی کرتا ہو۔ قانون نافذ قانون ساز نہیں کرتے۔ بلکہ یہ ایک غیر منتخب ریاستی انتظامیہ (پولیس، فوج اور سرکاری نوکر شاہی، عد لیہ) کرتی ہے۔ سب حکومت کرتے ہیں (عملاً مقننا یعنی قانون ساز ان میں سب سے غیر اہم عنصر ہوتے ہیں۔) دورِ حاضر میں میڈیا بڑی کارپوریشنیں اور سرمایہ دارانہ  مفکر یں (Capitalist Intellectuals)بھی لبرل حکومتوں کا اہم جز ہوتے ہیں ان کو عموماً یونیورسٹیوں اور  Think Tanksمیں منظم کیا جاتا ہے۔

قانون سازوں کے علاوہ باقی تمام گروہ غیر منتخب اور مستقل وجود رکھنے والے ہوتے ہیں اور سیاسی فیصلوں کی اصل ذمہ داری انہی مستقل حکمرانوں کی ہوتی ہے۔ کیوں کہ یہ سرمایہ دارانہ عقلیت کے محافظ ہوتے ہیں اور ان کا فرض ہے کہ قانون سازی کا عمل سرمایہ دارانہ عقلیت سے متصادم نہ ہو۔ اصل قوت انہی مستقل حکمرانوں کے پاس ہوتی ہے اور یہ قانون سازوں کو فیصلوں کی وہ عملی تشریح کرتے ہیں جو فروغِ سرمایہ (یعنی فروغِ آزادی) کومستقل مہمیز دے۔

گو کہ عوام گاہ گاہ مقننا کو منتخب کرتی رہتی لیکن عملاً اس کا حکومتی عمل سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اصل حکومت سرمایہ کی ہوتی ہے۔ کسی فرد یا گروہ یا ادارہ کی نہیں ہوتی۔ پورا ریاستی نظام ان اصولوں کی بنیاد پر چلایا جاتا ہے کہ سرمایہ کی بڑھوتری کی رفتار تیز سے تیز تر ہو سرمایہ ہی آزادی کی تجسیم (Concrete Form) ہے ،آزادی کوئی دوسری تجسیم تاریخ انسانی میں پائی نہیں جاتی، مارکیٹ کی ریاست میں بھی ہر فرد سرمایہ کا غلام ہوتا ہے۔ لبرل ریاست سرمایہ کی مطلق العنان حاکمیت قائم کرتی ہے اور اس کا سٹیزن (Citizen) صرف ان معنوں میں مطلق العنان حکمران ہے کہ وہ لاالہ الا الانسان کے خبیث کلمہ پر ایمان لے آیا ہے اور اس نے سرمایہ دارانہ عقلیت قبول کرلی ہے۔ وہ ہر چار پانچ سال بعد اپنے ان کافرانہ عقائد اور عقلیت کا اظہار انتخاب میں حصہ لے کر کرتا ہے اور ان لوگوں کے حکومت کرنے کی تصدیق کرتا ہے (خواہ وہ منتخب مقننہ میں ہوں یا غیر منتخب فوج، پولیس، نوکر شاہی، عدلیہ، میڈیا یا یونیورسٹیوں اورThink Tanks ) جو اس کی آزادی یعنی سرمایہ کی بڑھوتری کی عمومی رفتار کی مستقل گرانی کررہے ہوتے ہیں۔ اگر اس فرض کو انجام دینے میں ناکام ہوجائیں تو ان کو اس ہی طرح برطرف کرنے کی گنجائش موجود رہتی ہے جیسے کارپوریشن کے منیجمنٹ کو برطرف کیا جاتا ہے۔

مارکیٹ اور ریاست میں سرمایہ دارانہ نظام کے ایک عام آدمی کو مجبور اور بے بس کردیتا ہے۔ مارکیٹ کے تجزیہ میں ہم نے دیکھا کہ جیسے جیسے سود کا مارکیٹ اور سٹہ کا مارکیٹ دولت پر قبضہ مستحکم کرلیتا ہے ویسے ویسے نجی ملکیت ختم ہوتی چلی جاتی ہے اور ایک عام آدمی اس بات پر مجبور ہوجاتا ہے کہ وہ سرمایہ کی غلامی (اس کوWage labor ہیں) اختیار کرلے۔ اسی طرح ایک لبرل ریاست میں تمام قوت سرمایہ کے نمایندوں (فوج، پولیس، نوکر شاہی، عدلیہ، مقننہ، میڈیا اور Intellectuals کے ہاتھوں میں مرتکز ہوجاتی ہے۔ غیر سرمایہ دارانہ اجتماع قوت مشکل سے مشکل تر ہوتا جاتا ہے اس بات کو دورِ حاضر کے فرانسیسی فلسفیAlain Badiou نے اچھی طرح بیان کیا ہے وہ کہتا ہے کہ ”جمہوریت وہ زنجیر ہے جس سے عوام کو سرمایہ کے اصطبل میں مقید کیا جاتا ہے۔”

لبرل جمہوری ریاستوں کے خلاف کامیاب سیاسی بغاوت کی تاریخ میں صرف ایک مثال ملتی ہے اور وہ ہے حزب اللہ جنوبی لبنان کی بغاوت، حزب اللہ نے جنوبی لبنان سے لبرل جمہوری نظام کو فیصلہ کن شکست دی ہے۔ اس کے علاوہ دنیا میں کبھی اور کہیں لبرل جمہوری ریاست کے خلاف کامیاب بغاوت پچھلے تین سو سالہ تاریخ میں برپا نہیں کی گئی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ لبرل جمہوری ترتیبِ اقتدار سرمایہ کی سب سے طاقت ور، جابر، ظالم اور مستحکم ریاستی نظم ہے۔ اس استحکام اور قوت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اٹھارہویں صدی کے بعد پہلے یورپ اور پھر دنیا بھر میں مذہبی، سیاسی آدریشیں اجنبی سے اجنبی ہوتی چلی گئیں انفرادی طور پر تو بہت کم لوگ لبرل مابعد الطبیعاتی تصورات پر ایمان لائے (ماسوائے یورپ) زیادہ تر لوگ مذہبی تشخص اختیار کیے رہے۔ مادیت کا معاشرے پر غلبہ بھی سست رفتار اور نامکمل ہے، مسئلاً پاکستان میں پچانوے فیصد کاروبار سود اور سٹہ کے بازاروں کی دسترس سے باہر ہے اور دس فی صد سے کم پاکستانی بینکوں میں اکاؤنٹ رکھتے ہیں۔

لیکن ان صدیوں کی لبرل معقولیت اس وسیع پیمانے پر تسلیم کی گئی کہ مذہبی تشخص رکھنے والے عوام اور خواص کی عظیم اکثریت اس بات کی قائل ہوگئی کہ جائز (legitimate) اور معقول صف بندی وہی ہے جو لبرل نظام اقتدار تجویز کرتا ہے۔ لہٰذا ان لوگوں کی عظیم اکثر یت جو اپنی نجی زندگی  غرض و حسد کی بنیاد پر کیے جانے والے فیصلوں کو جائز (legitimate) نہیں تصور کرتے۔ نظام اقتدار کی ضمن میں حرص و حسد کی بنیاد پر کیے جانے والے فیصلوں کو نا صرف برداشت (Tolerate) کرتے ہیں۔ بلکہ ان کو معقول اور جائز بھی تصور کرتے ہیں۔ لہٰذا جب عوامی جدوجہد سرمایہ کی غیر لبرل تنظیمی اقتدار مثلاً قوم پرستانہ یا اشتراکی تنظیم اقتدار کے خلاف برپا کی جاتی ہے۔ تو عوام کا سیاسی   مقصد لبرل دستوری حقوق اور شخصی سیاسی آزادی اور معاشی ترقی کا حصول ہی ہوتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال مصر، تیونس اور لیبیا کے انقلابات ہیں۔ ان تمام انقلابیوں کی جدوجہد میں اسلامی قوتوں بالخصوص اخوان المسلمون نے اہم کردار ادا کیا ہے لیکن یہ اسلامی قوتیں لبرل سیاسی تصورات کی تنفیذ کی مدعی ہیں۔ ان سب کا ماڈل ترکی کی (Justice and Development) پارٹی ہے اور اس بات کے   دعویدار ہیں کہ مصر، تیونس وغیرہ میںحکومت تو اسلامی شرع نافذ ہو لیکن ریاست خالص سیکولر اور لبرل بنائی جائے۔ ایران اور سوڈان کی ریاستوں کو بھی لبرل جمہوریت سے شدید خطرہ ہے۔ ان ممالک میں لبرل قوتیں کو عوام کو ایک بڑی تعداد (بشمول علمائ) کی حمایت

 حاصل ہے اور ان کی موثر پشت پناہی امریکی استعمال کررہا ہے حال ہی میں سوڈان اپنا آدھا حصہ لبرل قوتوں کے ہاتھوں شکست کھاکر کھو بیٹھا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *