آدم اسمتھ (Adam smith)ان اہم غداروںاورملک فروشوںمیںسے تھاجنہوںنے اپنے ملک اسکاٹ لینڈ(Scotland)پرانگریزوں کے تسلط کومستحکم کرنے میںاہم کرداراداکیاانگلستان نے  اسکاٹ لینڈ(Scotland)پرقبضہ ١٧٠٧ء میںایک طویل جنگ (جوچودہویںسے اٹھارویںصدی تک وقتاًفوقتاًبھڑکتی رہی )اوروحشیانہ مظالم ڈھانے کے بعدحاصل کیا۔ اسکاٹ لینڈ(Scotland)کوغضب کرنے کے لئے انگریزوںنے جوحکمت عملی اپنائی اس کااہم جزوجنوبی اورمشرقی  اسکاٹ لینڈ(Scotland)میںایک غدارقوم فروش اشرافیہ کافروغ تھاجوپہاڑیوں(Highland)کے سرفروش حریت پسندوںکی مخالفت ومخبری کریںاس اشرافیہ کے دواہم ارکان ڈیوڈہیوم(David Hume)اورآدم اسمتھ تھے ۔

                علم معاشیات کادوسرااہم ترین ابتدائی موجد (اس صف میںفرنکوآئے کینومے (Francois Quesaey 1694-1774)اورباک ترگو(Jacques Turgd 1727-1781)کے نام بھی شامل کئے جاتے ہیںلیکن ان دومفکرین کے نظریات وہ مقبولیت اوراثرنہ حاصل کرسکے جواسمتھ اورریکارڈوکے نظریات حاصل کی )ایک یہودی سودخورسٹے بازتھاجس کانام ڈیوڈریکارڈوتھا۔لندن اسٹاک ایکسچینج کے ابتدائی دورمیںاس کاایک کلیدی رکن تھا اورسٹے بازی ریکارڈوکاخاندانی پیشہ تھاچودہ سال کی عمرمیںریکارڈو(Ricardo)کل وقتی سٹے بازبن گیااوراکیس سال تک پہنچتے پہنچے وہ لندن کے سٹے بازوں میںعزت کی نگاہ سے دیکھاجانے لگابینک آف انگلینڈ(Bank of england)کے زری سودوں کے کاروبارسے بھی ریکارڈونے بہت فائدہ اٹھایاسوداورسٹے کے کاروبارسے ریکارڈونے اپنی ذاتی دولت کوتقریباًتیس سالوںمیں٨٧٥گنابڑھایا(ریکارڈوکاسب سے مشہورسوانح نگارسرافا(Saraffa)آج کی قیمتوںمیںاگرریکارڈوکی دولت کاتخمینہ لگایاجائے تووہ کئی ہزارملین پونڈ کے برابرہوگی )١٨١٩ء میںبرٹش پارلیمنٹ کاممبرمنتخب ہوااورحکومت اور حز ب اختلاف دونوں اس کی آراء کواہمیت دیتی تھیں۔

اکنامکس کی اعتقاداتی بنیادیں

                آدم اسمتھ ،جا ن لاک کاپیروان معنوںمیںہے کہ جس اعتقادی تناظرکویہ دونوں مفکرین فطری سمجھتے ہیں وہ بڑی حدتک مماثل ہیںان اعتقادات کااظہارمعاشی عمل کے ذریعے اورمعاشی دائرہ (بالخصوص مارکیٹ )میںہوتاہے یہ وہ نقطہ ہے جس کا اسمتھ نے لاک کی فکرمیں اضافہ کیا ۔

                اسمتھ کاتصورفطرت اورHuman، اس کی کتاب Theory of Moral Sentimentsمیںبیان کیا گیا ہے ۔اسمتھ کے خیال میںنیکی(Virtue)وہ خیر ہے جس کی دوسرے ہیومن بینگ تعریف (approbation)کریں۔نیکی کااظہارعمل کے ذریعے ہوتاہے اورہرعمل کی بنیادجذبات (emotion)یاخواہشات(passions) ہوتے ہیں(اسمتھ لفظ emotionاورلفظ passionکوہم معنی سمجھتاہے )۔

                اسمتھ کہتاہے کہ کسی جذبے یاخواہش کی قدردوبنیادوں پرطے کی جاسکتی ہے ایک یہ کہ اس کامحرک (cause or motive)کیاہے اوردوسرے یہ کہ مقصدحصول (purpose or effect)محرک کی بنیادپرایک عمل کی درستگی یاموزونیت Propreityکاتعین کیاجاتاہے اوراس افادیت یاخوبی(merit)کاتعین عمل کے نتائج پرہوتاہے ۔لہٰذااخلاقی اقدار (Moral values)(میری رائے میںمغربی فکرمیںMorality اور Ethics میںتفریق ہمیشہ مبہم رہا ہے ۔میںMoralityسے مراد حال کی درستگی سے لیتاہوںیعنی فرد اپنی ذاتی زندگی میںخود اپنے ساتھ کیسا برتائو کرتاہے اپنے قلبی میلانات کی ترتیب کس طرح کرتاہے ایک ولی کانفس اس کی روح کے تابع ہوتاہے ۔جدید یعنی تنویری یورپ میںروح کااورتطہیرنفس کاکوئی تصورنہیںنفس امارہ کی ہرخواہش تکمیل کی متقاضی ہے بشرطیکہ وہ یونیورسزلائیبل (Universlaible)ہوUniverslaiblityاورافادیت کی بنیادپرEthicsکاتصورموجودہے اورEthicalمعیارات کی بنیادپرانفرادی اقدارکاتعین کیاجاتاہے ۔Ethicsافراد کاباہمی تعلقات کاجوازتلاش کرتی ہے اوریہ اس انفرادی میلان کو وصف حمیدہ تصورکرتی ہے جس کے اظہارکے نتیجہ میںدوسرے ہیومن بینگ کی خودارادیت(autonomy)محدودنہ ہو۔کسی انفرادی رجحان کی کوئی قدراصلی نہیںاس کی قدرصرف اس بات سے متعین ہوتی ہے کہ وہ ہیومن اٹانومی(autonomy)کوفروغ دینے میںکتنامددگارہے مثلاًزناکرنے کی خواہش رکھنانہ اچھاہے نہ برا۔زنااس وقت قابل قبول ہے جب یہ بارضاکیاجائے اگرزناکاری کوبحیثیت ایک صنعت کے فروغ دیاجائے تاکہ عمومی معاشرتی سرمایہ (آزادی)بڑھے توزناایک مستحسن عمل بن جاتاہے اورسرمایہ کامارکیٹ اس کے فروغ دینے والی کارپوریشنوں کی قدرمتعین کرتاہے ۔)خالصتاًخواہشات نفسانی کی موزونیت(Prosperity)اوران کی افادیت (Utility)کی بنیادپرمتعین کی جاتی ہے ۔ہیومن بینگ کے وجودکی بنیاداس کانفس امارہ (Self)اورنفس لوامہ کاخادم اس کاحاکم نہیں۔کسی خواہش کی موزونیت (Prosperity)اس بات پرمنحصرہے کہ وہ کس حدتک ہمددری (sympathy)کااظہارہے ۔(sympathy)اسمتھ کاایک کلیدی تصورہے اس سے وہ خواہشات کی نوعی ہم آہنگی(fellow feeling)مرادلیتاہے ۔ایک ہیومن بینگ کی خواہشات دوسرے ہیومن بینگ کی خواہشات کی غمازپہلے ہیومن بینگ کی تصوراتی صلاحیت (immagination)کی بنیاد پرہوجاتی ہیںایک غیرجانبدارناظر(impartial spectator)کسی ہیومن بینگ کی خواہش اس وقت موزوں(Prosperous )گردانتاہے جب وہ اس ہیومن بینگ کی خواہش خوداپنی خواہش سے مکمل طورپرہم آہنگ تصورکرتاہے اس طرح غیرجانبدارانہ ناظراس ہیومن بینگ سے Sympathiseکرتاہے جس کے عمل کووہ جانچ رہاہے یہ بات واضح ہوجاناچاہئے کہ sympathyکایہ تصورکانٹ کے تصورUniversalablityسے قریب ہے ۔

                کسی فعل یاجذبے کی قدراس کے نتائج کی بنیادپربھی کی جانی چاہئے (یاد رہے کہ جو نتائج ایک فرد حاصل کرناچاہتاہے وہ ان نتائج سے مختلف ہوسکتے ہیںجو فعل کے ارتکاب کی نتیجے میںواقعتاحاصل ہوئے)اسمتھ کے خیال میںاگرغیرجانبدارناظر(impatial spectator)جذبات سے Sympathasiesکرے جوفاعل کے عمل کے نتیجے میںمفعول نے محسوس کئے ہیںتوغیرجانبدارناظرفاعل کے عمل کوقابل قدرvaluableقراردے گا بشرطیکہ یہ نتائج مفعول میںمثبت (positive)جذبات پیدارکررہے ہوںلہٰذاکسی فاعل کے کسی عمل کانیک Virtuousقراردیئے جانے کی دوشرائط ہیں:

                ٠             ایک غیرجانبدارناظرفاعل کی خواہشات کی محرکات سے sympathasiseکرتاہو۔

                ٠             وہ ہی غیرجانبدارناظرمفعول (وہ شخص جس نے اس عمل سے تاثرلیاہو)کے ان جذبات سے sympathieseکرتاہوجواس عمل سے متاثرہونے کے نتیجے میںاس میںپیداہوئے ہوںاس سے واضح ہوتاہے کہ خیرکاتعین غیرجانبدارناظرکی اپنی خواہشات کی بنیادپرہوتاہے ۔

                لہٰذاتعین قدرمیںدوجذبات (passions)فیصل کرداراداکرتے ہیںایک sympathyاوردوسرے imaginationیہ دونوںجذبات فطری (natural)ہیںعقلی(rational)نہیں۔اسمتھ ان جذبات کوsub rational capacitiesکہتاہے بقول اسمتھ دونوںsub rationalجذبات ہیومن بینگ کودوسرے کے وجودسے ہم آہنگی فطری طورپرفراہم کرتے ہیںاورانہی کی بنیاد پرہیومن بینگ نوعی ادراک (specei conciousnessکی صلاحیت حاصل کرتاہے اسی نوعی ادراک کااظہاراس بات میںہے کہ ایک ہیومن بینگ اس بات کی فطری خواہش رکھتاہے کہ دوسرے ہیومن بینگ اس کو(اوراس کے اعمال کو)پسندیدگی کی نظرسے دیکھیںاوراسمتھ کے مطابق دوسروںکی تحسین حاص کرنے کی یہی خواہش انسانی معاشرے میںنیکی(Virtue)کے فروغ کی اصل محرک ہے ۔

                ہیومن فطرت (human nature)قانون فطرت (law of nature)کی غمازہے اورنیک عمل (یعنی وہ عمل جس کی دوسرے ہیومن بینگ تعریف کریں)کرنے کی خواہش فطری(natural)ہے یہ تصورخیر (virtue)غیرجانبدارناظر(Impartial spectator)کوہیومنیٹی (humanity)کاایسا نمائندہ تصورکرتی ہے جوانفرادی جذبات اوراعمال کونوعی بقاء اورفروغ کی بنیادپرپرکھے اورتعقل (Rationality)کونوعی اورانفرادی میلانات کوsympathyاورimaginationکی بنیادپرہم آہنگ کرنے میںمدددے ۔اسمتھ کے بزرگ دوست (Mento) David Humeنے کہاتھاکہ    عقل خواہشات کی غلام ہے(Reason is the slave of the passion)اوراسمتھ اس رائے سے بڑی حدتک متفق نظرآتاہے ۔

                اسمتھ کی فکرمیںسرمایہ دارانہ حکومت معاشرے میںغیرجانبدار (impartial spectator)کاکرداراداکرتی ہے لیکن حکومت کوئی فطری شے نہیںبقول اسمتھ حکومت کاوجودایک ایسے عمل کانتیجہ ہے جس میںانسانوںنے اپنے مفادات کے فروغ اورتحفظ کے حصول کے لئے معقول (rational)ادارتی صف بندی کوقبول کیابقول اسمتھ ہیومن فطرت کاتقاضہ تویہ ہے کہ لوگوںکاعمل benevolentہویعنی نوعی خودغرضیوںکوانفرادی خودغرضیوں پرترجیح دی جائے لیکن حکومت اس مقصدکے لئے وجود میںنہیںآتی ۔حکومت کے قیام کا مقصدعدل (justice)کافروغ ہے (یاد رہے کہ ہرنظام زندگی کااپناتصورعدل ہوتاہے )اورسرمایہ دارنہ ریاست کانظام عدل ایک ہیومن بینگ سے دوسرے ہیومن بینگ کو نقصان پہنچانے کی راہ میںرکاوٹیں کھڑی کرنے کانام ہے(اس کی برعکس Benevolenceدوسرے کی آزادی اورخوداختیاری کوفروغ دینے کامتقاضی ہے)اسمتھ اپناتصورآزادی ان الفاظ میںبیان کرتاہے ”ہروہ کام کرناجودوسراہیومن بینگ مجھ کوکرنے پرمجبورکرنے کاحق رکھتاہے”۔عدل کاتقاضہ ہے کہ قانون کی پابندی کی جائے ۔کون سے قانون کی ؟قانون فطرت (Law of nature)اوراسمتھ کاتصورقانون فطرت وہی ہیجولاک کا ہے ۔

                عدل کاقیام جیورس پروڈینس(jurisprudence)(اس کے برعکس Benevolenceدوسرے کی آزادی اورخوداختیاری کوفروغ دینے کامتقاضی ہے )اخلاقیات (Ethics)کامقصد نہیںاسمتھ کے مطابق قیام عدل جس جذبے کی تسکین کاباعث بنتاہے وہ جذبہ انتقام (Resentment)ہے قانون فطرت اس ہی جذبہ انتقام کاغمازہے اورریاست کاقیام اس ہی جذبہ انتقام اورباہمی نفرت (Animosity)کومنظم کرنے کے لئے ضروری ہے اس جذبہ انتقام اورمنفردمنافرت کا اظہار فطری سطح پربین الاقوامی تعلقات کے ضمن میںہوتاہے (لا ک اوراسمتھ دونوں ریاستی تعلقات کوstate of natureاورقانون فطرت (Law of nature)کے اظہارکادائرہ کارتصورکرتے ہیں۔) جہاں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اپنی قوم سے محبت دوسری اقوام سے نفرت اورمسابقت (competition)کی غمازہے بین الاقوامی تعلق جذبہ سمپتھی (Sympathy)پرنہیںجذبہ مسابقت (Competition)پراستوارہیں۔اسمتھ کہتاہے کہ انسان فطرت کے اعتبارسے خودغرض بھی ہے اورسمپیتھیٹک (sympathitic)بھی اورمعاشرہ اورریاست جذبہ خودغرضی اورجذبہ سمپتھی (sympathy)کے امتزاج کااظہارہے۔

                 سرمایہ دارانہ ریاست اورسرمایہ دارانہ معاشرت:

                سرمایہ دارانہ معاشرہ اس اصول پہ قائم ہے کہ ہرہیومن بینگ کو اپنی خواہشات نفسانی کی تکمیل کے لئے ایک ایساآزادماحول فراہم کیاجائے جہاںنفسانی خواہشات کی تسکین کے وسائل مستقلاًبڑھتے رہیں۔ذاتی اغراض کواس طرح فروغ دیاجائے کہ ان اغراض کاحصول مجموعی معاشرتی (total social)آزادی(سرمایہ )کے فروغ کا ذریعہ بن سکیں۔سرمایہ دارانہ حکومت کافرض ہے کہ انفرادی مسابقت کواس طرح منظم کیاجائے کہ اس کے نتیجے میںمجموعی معاشرتی آزادی(سرمایہ )مستقل فروغ پاتارہے ۔

                اسمتھ کے مطابق معاشرہ جذبہ سمپتھی(Sympathy)پرقائم ہے ہرشخص چاہتا ہے کہ دوسرے لوگ اس سے سمپتھی کریںلیکن وہ یہ بھی چاہتاہے کہاس سمپتھی کی بنیاداس کی کامیابی سے محرومی نہ ہولہٰذامعاشرتی سطح پرانفرادی سمپتھی کے حصول کی جستجوانفرادی کامیابی کے حصول کی جدجہد(competion)کی شکل اختیارکرلیتی ہے ۔

                معاشرے میںتحسین(approbetion)عموماًان اعمال کے حصے میںنہیںآتی جوبینویلنس (benevolence)مبنی ہوتے ہیںکیونکہ ان کے نتیجے میںعموماًمجموعی سرمایہ میںبڑھوتری وقوع پذیرنہیںہوتی اس کی برعکس وہ اعمال جوخودغرضیوں کے بنیادپرکئے جاتے ہیں عموماًبڑھوتری سرمایہ کاباعث بنتے ہیںاورانہیںمعاشرتی پذیرائی حاصل ہوتی ہے ۔

                خودغرضی کے جذبات خودقابل تحسین نہیںلیکن ان کے نتائج قابل تحسین ہیںکیونکہ اس طریقے سے مجموعی سرمایہ (آزادی)میںبڑھوتری کومہمیزدیاجاسکتاہے اوربقول اسمتھ قدرت کاہم پریہ احسان ہے کہ اس نے جذبہ ایثاراورہمدردی (benevolance)کوسرمایہ کی بڑھوتری کی راہ میںرکاوٹ نہ بننے دیااس سے اسمتھ یہ نتائج اخذ کرتاہے کہ معاشرتی قدرحصول دولت(یعنی سرمایہ )کی جدوجہداوراس جدجہدکی کامیابی کے حصول میںہے نیکی کے حصول کی جدوجہداورنیکی فروغ پانے میںنہیںسرمایہ دارانہ معاشرہ اس ہی اصول پرکارفرمارہتے ہیںاورمعاشرتی جدوجہدکامقصدسرمایہ دارانہ نظام میںدولت (یعنی سرمایہ )کی بڑھوتری کوہی قدرکے پیمانے کے طورپر قبول کیاجاتاہے اورنیکی(Virtue)کی جستجو ایک بے وقعت(valueless)اورمہمل عمل بن جاتاہے (اس بات کی وضاحت رالس(Rawls)کی فکرکی تجزئے (Chapter no   )میںزیادہ تفصیل سے پیش کی جائے گی)۔سرمایہ دارنہ معاشرہ حرص (acquesitiveness)اورحسد(competion)کوفروغ دینے کوہی اپنامقصدوجودگردانتاہے ۔بقول اسمتھ نیکی(Virtue)کوذاتی اغراض پرقربان کئے بغیربنی نوع ہیومنیٹی (Humanity)کی بقاء اورترقی ناممکن ہے ۔

                بقول اسمتھ سرمایہ دارانہ معاشرے کی بنیادمارکیٹ ہوتی ہے (مارکیٹ بازارنہیںہوتے تاریخ انسانی میںبازارہمیشہ معاشرے کے ماتحت ہوتے ہیںاورقیمت کاتعین ایک معاشرتی عمل ہوتاہے ۔مارکیٹ سرمایہ دارانہ معاشرہ کومسخر(Colonise)کرنے کاذریعہ ہوتے ہیںاورتیرہویں صدی میںاٹلی کے بحرمتوسط (Medetireanian sea)کے ساحلوں پرپہلی مرتبہ قائم کئے گئے اورمارکیٹ میںایک ایسادست غیب (invisible hand)کارفرماہوتاہے جوانفرادی خودغرضیوںکے حصول کی لاتعدادجدوجہدوںکواس طرح مرتب کرتاہے کہ اس ترتیب کے نتیجہ میں مجموعی سرمایہ کی بڑھوتری کاعمل خودبخودفروغ پاتاہے مارکیٹ میںہرسودے بازاپنے منافع کومنتہیٰ(Maximum)حدتک پہنچانے کے لئے کام کرتاہے ۔وہ جس حد تک سودے کاری کرتاہے وہ خالصتاًخودغرض (Self interest)ہے اوراس کانیکی (Virtue)سمپتھی(Sympathy)اوربینوویلنس(Benevolence)سے کوئی سروکار نہیںہوتا۔

                   سرمایہ دارانہ ریاست کابنیادی فرض مارکیٹ کا فروغ اورتحفظ ہے ریاست کوقیمتوں کے تعین کے عمل میںبالکل دخل اندازنہیںہوناچاہئے جب تک یہ عمل اجارہ داروں کی دست بردسے محفوظ رہے ۔ دولت کی غیرمساویانہ تقسیم عدل کے منافی ہے اورمارکیٹتقسیم وسائل کوکوئی خاص اہمیت نہیںدیتے (ریکارڈونے اس مسئلے پرخاص توجہ دی ہے اورسرمایہ کی بڑھوتری کے لئے تقسیم دولت کوزیادہ اہمیت دیتاہے )۔

                معاشرہ یعنی مارکیٹ اورریاست میںہومن بینگ ایک سیاسی عامل (Political agent)کے طورپرشریک ہوتاہے،یہ ایک اخلاقی Moralکی حیثیت ہے۔مورالیٹی کاتعلق اس کے Noncontractualغیرمعاہداتی تعلقات (مثلاًباپ،بیٹے،عام عیسائی (Member of the laity)کے پجاری (Preist)تک محدودرہتے ہیں اورتعلقات کے اس دائرے میںسمپتھی(Sympathy) اوربینوویلنس(Benevolence)  کے اظہارکاموقع ہے ریاست اورمارکیٹ کے دائرے میںہیومن بینگ سمپیتھٹک (Sympathic)ہوسکتاہے نہ بینوویلنس(Benevolent )مارکیٹ میںہیومن بینگ کودھوکہ دینااوراپنے مخالف کی کمزوریوںسے فائدہ اٹھاناجائز ہے بقول اسمتھ مارکیٹ اورریاست پرخودغرضیوںکاراج لازم ہے یہی عقل کاتقاضاہے کیونکہ فطرت (Nature)نے اس بات کاانتظام کیاہے کہ خودغرضیوں کی جستجو میںخودبخود(automatically)خودبخودمجموعی آزادی(سرمایہ )انتہائی حد(Maximise)چھولیتی ہے ۔

                اسمتھ اورریکارڈوسرمایہ داری (اس کووہ آزاد معیشت کہتے ہیں)کے عریاںوکیل تھے انہوںنے مجموعی قومی آمدنی (Gross national product)کاتصوردیااورGNPکی آخری حدوں (Maximisation)کومعاشرتی ہدف اولیٰ (Supreme objective) کہاکیونکہ GNPہی وہ اقداری شماریہ (Quantitative indicator) ہے جومجموعی لذات نفسانی کی پیمائش کرسکتاہے ریاست اورمعاشرتی وجود کامقصداولیٰ GNP Maximitionہے ،اخلاق یانیکیوںکافروغ اس ہدف کے حصول سے کوئی تعلق نہیں۔اسمتھ اس بات پرمسلسل اصرارکرتاہے اوراسی بنیادپراپنی فکرکوعیسائی اورسیکولرمورل فلسفیوں(مثلاًلاک جوProdenceپرزوردیتاہے اورکانٹ جوفرائض Categorical imprativeکاتصورپیش کرتاہے )سے ممیز کرتاہے ۔GNPکی Maximisationکے لئے ضروری ہے کہ مارکیٹ میںہرفردکواس کی مکمل آزادی ہوکہ اپنی خواہشات کی تکمیل کی بھرپورجستجوکرے اورمسابقت (Competion)اس بات کاضامن ہے کہ خودغرضیوںکی انفرادی جدوجہدمیںمجموعی لذات نفسانی کی Maximisationپرمنتج ہوئے بغیرکسی فردیاکسی ادارہ کی سمعی کے مجموعی سرمایہ (Aggregate capital)کے فروغ کوحاصل کیاجائے ”دست غیب ”(Invisible hand)وہ خودکارمیکنزم ہے جوانفرادی خودغرضیوں کی جدوجہدکوGNP Maximisationکے حصول کے لئے منظم کرتاہے ۔پالیسی سازوں(یعنی حکومت کی اصل دلچسپی افراد  کے اخلاقی یامذہبی تربیت سے نہیںبلکہ محنت کاروںکی پیداواری کارکردگی(Productivity)میںاضافے سے ہوناچاہئے ۔مزدوروں کی فلاح کی ذمہ داری حکومت کی ذمہ داری ہے کیونکہ مارکیٹ میںمتعین ہونے والی اجرتیںناکافی ہیںاوربغیرحکومتی امدادکے مزدوروںکی پیداواری کارکردگی میںاضافہ نہیںہوسکتا۔

                حکومت کی ایک ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ تجاراورصنعت کاروںکواجارہ داریاں(Monopolies)قائم کرنے سے روکے اوران کوقیمتوںکے تعین میں دخل اندازی نہ کرنے دے اس طبقہ کے پاس دوقوت ہے کہ اپنے انفرادی مفادات مجموعی لذات کے فروغ کی راہ میںمزاحم بنادے۔ اسمتھ لیبرتھیوری آف ویلیو(Labour theory of value)(یاد رہے کہ یہ نظریہ لاک نے پیش کیاتھا)کاقائل ہے لیکن اس نظریے کے ارتقاء اورتدوین کااصل کام ریکارڈونے کیا۔اسمتھ کی رائے میںگوقدر(Value)صرف محنت (Labour)کانتیجہ ہے لیکن اس قدرکی تقسیم میںسرمایہ کے مالکان اورزمینداروںکا بھی حصہ ہوتاہے  ا سمتھ تسلیم کرتا ہے کہ کے یہ بات اخلاقی معیارات (moral standerads)کے خلاف ہے لیکن اس تقسیم کوقبول کرنے کاجوازوہ یہ بیان کرتاہے کہ اس سے مجموعی لذات کے فروغ میںاضافہ ہوتاہے (دلیل یہ ہے کہ مزدوراپنی آمدنی سے سرمایہ کاری نہیںکرتے جب کہ دوسرے طبقات اپنی آمدنی کابڑاحصہ سرمایہ کاری کے لئے استعمال کرتے ہیں۔)تقسیم دولت پرگفتگوکرتے ہوئے اسمتھ مطلوبہ نتائج (فروغ سرمایہ کے حصول )کواخلاقی مورال تقاضوںسے مقدم تصوررکرتاہے ۔

                اسمتھ سرمایہ دارانہ نظام کونظام آزادی اخلاق (System of moral liberty)کانام دیتاہے آزادی اس نظام کی کلیدی قدرہے اوربقول اسمتھ قدرت کامنشاء اوراصول بھی یہ ہے کہ ہیومن بینگ مکمل آزادی سے مستفید ہوتارہے فطرتاًہرہیومن بینگ اپنی آزادی (سرمایہ )کوفروغ دینے کی مستقل کوشش کرتاہے اورریاست کواس جدوجہدمیںہرہیومن بینگ کی اس وقت تک مددکرتے رہناچاہئے جب تک جدوجہدمجموعی لذات (GNP)کے فروغ میںرکاوٹ نہ بنے عقل(Reason)کاکام یہ ہے کہ

                ٠             وہ تسخیرکائنات (Progress)کی راہیںاس طرح استوارکرے کہ نوع انسانی کی آزادی(سرمائے )میںمستقل لامتناہی اضافہ ہوتارہے ۔ 

                ٠             انفرادی اغراض کے حصول کی جدوجہدکواس طرح منظم کرے کہ وہ مجموعی لذات (GNP)کے فروغ کاذریعہ بنے ۔ جب عقل (Reason)اپنے ان دونوں فراہم کردہ اصولوںکی مخلص تابعداری اختیارکرلیتی ہے تو وہ ریزں بن جاتی ہے، عقلیت کایہ تصورلاک (Locke)اورہیوم(Hume)کے تصورات عقلیت سے واضح مماثلت رکھتاہے ۔ان مفکرین کے مطابق تمام صاحب عقل (Rational)ہیومن بینگ ایسے حکمرانوںکی حاکمیت قبول کرلیتے ہیںجو ۔۔۔۔

                ١)            رعایاکے منتخب نمائندے (Representative)ہوں۔

                 ٢)           اس نمائندگی  (Representation)کی بنیادپرقانون سازی (Legislation)کافریضہ انجام دیں۔  ٣)ہرسٹیزن(Citizen)کی پراپرٹی (جان ،آراء اورمال جوسب بڑھوتری سرمایہ کی جدوجہدکے لئے وقف کردیئے گئے ہوں)کومقدس جانیں۔

                سرمایہ دارانہ نظام زندگی کے قیام کامقصدایک ایسی معاشرتی اورریاستی تنظیم سازی (Institutionalization)ہے جس کے نتیجے میںآزادی (سرمایہ)کے فروغ کی لامتناہی جدوجہدجاری اورساری رہے اس جدوجہدکوجاری رکھنے کا کوئی عقلی یااخلاقی جوازبیان نہیںکیاگیا(اس نوعیت کاجوازنہ اسمتھ نے پیش کیانہ ہیوم (Hume)نے نہ کانٹ(Kant) نے روسو(Rousseau)نے نہ کسی اورسرمایہ دارانہ فلسفی نے)۔بڑھوتری سرمایہ (آزادی )مقصداعلیٰ اوراپناجوازخود (End in it self)ہے ۔یہ لا الہٰ الاانسان کے کلمہ خبیثہ کی عملی تشریح ہے بقول کانٹ ہرہیومن بینگ کو اس بات پرایمان لانالازم ہے کہ”فردکاوجودخوداپناجوازہے””Every man is an end in himself”وہ کسی اورمقصدکے حصول کاذریعہ نہیں۔

                عقل (Reason)اورقانون دونوں تسخیرکائنات اورخواہشات نفسانی کے فروغ کے حصول کاراستہ بتانے والے ذرائع ہیںفردعقل اورقانون کی ماتحتی قبول کرکے اپنی خواہشات نفسانی کے حصول اورفروغ کی جدوجہد تمام دیگرہیومن بینگ کی ایسی ہی جدوجہدسے ہم آہنگ اس طرح کرتاہے کہ مجموعی آزادی کی شکل (GDP)میںمستقل بڑھتی رہے ۔ انفرادی خودغرضیوں کے لامتناہی جدوجہدکے ذریعے ہی پروگریس (GNPمیں مسلسل اضافہ )ممکن ہوتی ہے بقول اسمتھ عیسائی قرون وسطیٰ کی تہذیت اورمعاشرت کوجس چیزنے تسخیرکیاوہ سرمایہ دارانہ تجارت تھی ایسی تجارت جس کا مقصدضروریات کوپوراکرنانہیںبلکہ سرمائے کی بڑھوتری کی رفتار(Accumulation)میںمستقل اضافہ ہواسمتھ کے مطابق عیسائیت کونشاط ثانیہ (Renaissance) کے               اورتحریک تنویر نے شکست نہیں دی،عیسائیت کوشکست سرمایہ دارانہ تجارت کے عالمی فروغ نے دی اسی تجارت کی توسیع کے نتیجے میںحرص وحسدایک وباء کی طرح پورے (عیسائی )معاشرے میںپھیلااورہرشخص خداکانہیںبلکہ اپنے نفس کابندہ بن گیااسمتھ لکھتاہے ”عیسائیت پرفتح پانے والے دوگروہ تھے ایک امراء اورنوابین اوردوسرے سہوکاراورتجاریہ دونوں طبقے ہی اس بات کے ذمہ دارتھے کہ پورے عیسائی معاشرے میںخودغرضیوں(Self interest)کی جدوجہدکو عمومی مقصدیت بنا دیں ”یہ طبقے اتنے کامیاب تھے کہ چرچ تک خودغرضی کی اثیرعقلیت کاجوازپیش کرنے لگا(بارہویں صدی تک چرچ سودکے کاروبار کو حرام قراردیتاتھااس کے بعدکیتھولک چرچ نے اسی طرح سودکے متبادل تلاش کرنے شروع کردئیے جیسے آج کے اسلامی بینکارکررہے ہیںپروٹیسٹنٹ(Protestant)عیسائیت کے بیشتردھڑوںبالخصوص (Calvinism)نے سودکی حرمت سے قطعی انکارکردیا۔)اسمتھ اس بات کابھی اقرارکرتاہے کہ امریکہ کے قتل عام اورلوٹ ماراوراستعماری تجارت کے فروغ نے یورپی عیسائی معاشرے کو بربادکرنے میںایک اہم کرداراداکیا(اسمتھ کے مطابق امریکہ کی فتح تاریخ انسانی کا سب سے اہم واقعہ ہے)۔

                اسمتھ کو اس بات کابھی احساس ہے کہ حرص وحسد معاشرتی سطح پرخودبخودپروان نہیںچڑھتیںان اوصاف رذیلہ کے فروغ کے لئے استعماری لوٹ مارکے ساتھ ساتھ تعلیمی نظام)وہ نظام تعلیم جس کامقصدافراد کوسرمایہ کی بڑھوتری کاذریعہ بناناہے،سرمایہ دارانہ تعلیم سے ہیومن بینگ Human capitalبن جاتاہے )کے لئے بھی جدوجہدکرنی چاہئے ریاست کومفت پرائمری تعلیم فراہم کرناچاہئے۔ریاست کواس بات کابھی اہتمام کرناچاہئے کہ مذہبی انتشارفروغ پائے اسمتھ کہتاہے برطانیہ میںعیسائیت کوتین ہزارایسے چھوٹے چھوٹے فرقوںمیںتقسیم کردیناچاہئے جوملکی وحدت کوپارہ پارہ کردیںاورہرفرقے کی پوری توجہ ملکی معاملات سے ہٹ کراپنے نظریاتی تشخص کی دفاع اورفروغ پرمخصوص ہوریاست کوان تمام فرقوںکے درمیان ایک غیرجانبدارناظر(Impartial spectator)کاکرداراداکرناچاہئے اورفرقہ وارانہ بحثوںکوفروغ دیتے ہوئے کسی کوبھی حاکمیت قانون سرمایہ (Rule of law of capital)سے حکم عدولی کی اجازت نہیںدینی چاہئے یہ اسمتھ کاتصورسیکولرزم (Secularism)ہے ۔

                ریاست کوسائنس اورآرٹس (بالخصوص تھیٹرTheatreاورناچ (Danceکے ہرطریقے کی حوصلہ افزائی کرناچاہئے کیونکہ سائنس اورآرٹس دونوں شہوت رانی کے جذبات کوفروغ دیتی ہیںاورخودغرضیوںکی جدوجہدکومہمیزفراہم کرتی ہیں۔

اسمتھ اس بات سے امید رکھتاہے کہ وہ ریاست جوآزاد معیشت کوفروغ دے سرمایہ دارانہ تعلیم (بشمول آرٹس ،سائنس اورسرمایہ دارانہ ثقافت )کوعام کرے اورفرقہ واریت کوبرداشت کرے (یعنی سیکولرہو)سرمایہ دارانہ عالمگیری عمومیت کی آلہ کاربن سکتی اوراس کے اقتدارکے استحکام کے نتیجے میںہرانسان ہیومن بینگ بن سکتاہے اورغیرجانبدارناظر(Impartial spactator)کے فرمودات کاعقل کو تقاضے کے طورپرقبول کرکے قانون سرمایہ کی حاکمیت (Rule of the law of capital)کی اطاعت پرراضی کیاجاسکتاہے لیکن اسمتھ کے پیروریکارڈوکویہ احساس تھا کہ سرمایہ دارانہ نظام کی تقسیم دولت (Distribution of welth)اس راہ میںحائل ہوسکتی ہیںاورسرمایہ دارانہ معاشرت طبقاتی کشمکش کاشکارہوسکتاہے۔ریکارڈونے اپنی پوری توجہ اس ہی مسئلہ پرمرکوزکی ۔
سرمایہ دارانہ نظام میںتقسیم دولت:
ریکارڈوسرمایہ دارانہ معاشرہ کو مختلف طبقات (Class)میںتقسیم ہوامتصورکرتاہے ہرطبقہ ایک مخصوص معاشی فریضہ (Function)انجام دیتاہے اوراس کے طبقاتی مفادات (Class interests)جداگانہ ہوتے ہیں، طبقاتی تعلقات طبقاتی مفادات کی پیہم جدوجہدمیںاستوارہوتے ہیں ریکارڈوانہی تعلقات کوسرمایہ دارانہ معاشرت سے تعبیرکرتاہے اورسرمایہ دارانہ معیشت (یعنی مارکیٹ) وہ محوراورمرکزہے جوسرمایہ دارانہ معاشرتی تغیرکے عمل کومنظم کرتی ہے معاشرے کی بنیاد(Foundation)معیشت ہے اخلاقیات ،سیاسیات اورمذاہب ثانوی حیثیت رکھتے ہیں(اس نظریے کی جامع تشریح ریکارڈوکے پیرومارکس(Marx)نے پیش کی اس نے معیشت کومعاشرے کاBaseاورمذہب اورسیاسی نظام کو اس کا Super structureقراردیا)۔
طبقات کے باہمی تعلقات کا سوال ریکارڈونے جس دورمیںاٹھایااس دورمیںانگلستان نپولین(Napoleon)سے لڑی جانے والی جنگوںکے اثرات برداشت کررہاتھا ان جنگوں کے نتیجے میںاجناس (Grain) کی قیمتوںمیںبہت اضافہ ہوااورزمین کی اجرتیںبھی تیزی سے بڑھنے لگیں اس کے برعکس صنعت کاروںکے منافع(Profit)اوراجرتیں نسبتاًکم ہوئیںاورملکی معیشت کساد بازاری (Reccesion)کاشکارہوگئی ۔عوامبھوکوںمرنے لگے اوراس بات کاخطرہ پیداہواکہ وہ دولت مندطبقوںکے خلاف بغاوت نہ کردیںحکمرانوںکواحساس ہواکہ ریاستی معاشی حکمت عملی کو اس متوقع بغاوت کوٹالنے کے لئے موثرطورپراستعمال کیاجاناچاہئے ۔
ریکارڈوانگلستان کے اہم ترین سٹے بازوں میںشامل تھا اوراس کے نظریاتی کام کابنیادی محرک سرمایہ دارانہ نظام کاتحفظ تھا ریکارڈوکے خیال میںاسمتھ (اوراس کے قبل کے Political economists)جس سوال کاجواب نہ دے سکے وہ یہ تھا کہ ”وہ کون سے فطری قوانین ہیںجوGNPکواجرت،منافع اورکرایے میںمنقسم کرتے ہیں)ریکارڈونے اس سوال کاجواب دینے کی کوشش کی اورایسی ریاستی حکمت عملی تجویزکی جوان فطری اصولوں پرمبنی ہواوران سے مستفید ہوکر سرمایہ دارانہ نظام زندگی کوفروغ دے سکے۔
ریکارڈونے لاک اوراسمتھ کی وضع کردہ labour theory of value کی توسیع کی ریکارڈو کے مطابق کسی شے کی قدراس کی پیداوار کی دورانیہ محنت (Labour time)سے متعین ہوتی ہے (مثلاًایک میز بنانے میںایک مزدوردس گھنٹے صرف کرتاہے اورایک کرسی بنانے میںوہ پانچ گھنٹے صرف کرتاہے تودوکرسیوںکی قدر(Value)ایک میز کے برابرہوناچاہئے )شئے کی قدرکاکوئی تعلق اس اجرت ،منافع اورکرائے سے نہیں جواس کے نتیجے میںاداکی جائے گی بلکہ اجرت ،کرایہ اورمنافع شئے کی قدرکے مختلف حصے ہیں۔
قدرکے حصوں کا تعین جن ”اصولوں”کی بنیادپرہوتا ہے ان کے بارے میںریکارڈونے دونظریات پیش کئے ایک نظریہ اجرت اورایک نظریہ کرایہ ۔منافع کووہ صرف قدرکاوہ حصہ گردانتاہے جواجرت یاکرایہ کی مد میںنہ صرف کیاجائے یعنی
منافع=قدر-(اجرت+کرایہ)………………(١)
لہٰذامنافع کاتعین علیحدہ ”قانون فطرت ”کی بنیادپرنہیںہوتا ۔نظریہ کرایہ ،یہ ہے کہ بنجرزمین کاکوئی کرایہ نہیںاورجیسے جیسے قطعات اراضی کی زرخیزی بڑھتی جاتی ہے ویسے ویسے ان کاکرایہ بڑھتاجاتاہے اورسب سے زیادہ کرایہ سب سے زیادہ زرخیرقطعہ اراضی کوملتاہے جتنازیادہ فرق بنجراورزرخیزترین اراضی کی زرخیزی (Productivity)میںہوگاکرایہ اتنازیادہ ہوگا۔
ریکارڈوکے مطابق اجرت کاتعین محنت کشوں(Labour)کی رسد(Supply)اورطلب (Demand)پرمنحصرہے جب مارکیٹ میںلیبرکی تعداد(Supply)بڑھے گی ان کی مانگ کے مقابلے میںتواجرتیںگریںگی اصولاًاجرت اس سطح کے اردگردمتعین ہوگی جومزدوروںکو زندہ رہنے کے لئے ناگریزہے۔اس نظرئے کوsubsistence theory of wagesکہتے ہیںاورsubsistenceکی یہ سطح جس کے نتیجے میںاگراجرتیںگریںتومزدورطبقہ منتشرہوجائے گا مزدوروںکی عادات اورروایات (habits and customs)پرمنحصرہیں۔
ریکارڈوکہتاہے کہ اگرقانون سازی کے ذریعے اجرتوںکوsubsistenceکی سطح سے اونچاکیاگیاتو
١) لیبراس آمدنی کو اپنی آبادی بڑھانے پرخرچ کریںگے ۔
٢) چونکہ امیروںکا اجرتوںپرخرچ کیاجانے والے خرچے کا فنڈ Wage fund محدودہے لہٰذاوہ کم مزدوروںکو ملازمت دیںگے ۔ریکارڈوکاپیغام یہ ہے کہ اجرتوںکوsubsistenceپرہی رہناچاہئے اورریاست کوکوئی ایسے اقدام نہ کرنے چاہئیںکہ اجرتیںاس فطری subsistenceسطح سے بلندہوںکیونکہ ایسے اقدامات مزدورطبقے کے حقیقی مفادات کے منافی ہیںان اقدامات کے نتیجے میںیاتومزدوروںکی آبادی بڑھے گی(ان کی سطح زندگی نہیں)یاوہ بے روزگارہوجائیںگے۔
مکرکی چالوںسے بازی لے گیاسرمایہ دار
انتہائی سادگی سے کھاگیامزدورمات
(میری رائے میںمزدورنے اتناہی سادگی سے مات نہیںکھائی بلکہ اس سرمایہ دارانہ نظام کامزدورخودسرمایہ داربن گیاہے حرص ہوس کابندہ بن کراپنامفاداسی میںسمجھنے لگا ہے کہ مجموعی رفتاربڑھوتری سرمایہ (GNP)میںاضافہ اس کے مفاد میں ہے، اس بات کی تفصیل سوشل ڈیموکریسی کی بحث میںبیان کی جائے گی )جیساکہ پہلے عرض کیاگیاہے منافع وہ قدر ہے جو اجرت اورکرایہ کومنہاحاصل ہوتا ہے یادرہے ۔
٠ شئے کی قدراس کی دورانیہ محنت (Labour time)سے متعین ہوتی ہے ۔
٠ یہ دورانیہ محنت سب سے زیادہ بنجرزمین (Marginal land)پرہوتاہے ۔زرخیزاراضی (Non marginal land)پرشے بنانے میںکم دورانیہ محنت صرف ہوتاہے ۔ ٠ لہٰذاشئے کی قدر اس دورانیہ محنت سے متعین ہوتی ہے جوبنجرزمین پرصرف کی جاتی ہے ۔
٠ اورکرایہ (Rent)بنجرزمین پرخرچ کی جانے والے اوقات محنت اورزرخیرزمینوںپرمحنت کافرق ہے ۔
کرایہ=بنجرزمین کی اوقات محنت-زرخیززمینوں کی اوقات محنت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔(٢)
محنت کشوں(Labour)کو جو اجرت دی جاتی ہے وہ قدرکاایک حصہ ہوتی ہے وہ حصہ جومحنت کشوںکو زندہ رکھنے subsistence levelکے لئے کافی ہے لہٰذامنافع کاتعین ایسے ہوتاہے ۔
منافع=قدر-لیبرکوSubsistence levelپرزندہ رکھنے کاخرچہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(٣)
اس subsistence سطح پرمتعین کی گئی اجرت کوریکارڈو”محنت کی فطری قیمتNatural price of labourکہتاہے ۔ریکارڈوکے مطابق مجموعی قومی آمدنی GNPکی مقدارمتعین (Fixed)ہے اوراس کاتعین محنت کاروں کی پیداواری استطاعت (Productivity) سے ہوتا ہے۔ یہ متعین مجموعی پیداوارتین طبقوں محنت کشوں، زمین داروں،صنعت کاروںاورساہوکاروںمیںاجرت کرایہ اورمنافع کی شکل میںتقسیم کی جاتی ہے اورگوکہ اجرت اورکرایہ کاتعین قوانین فطرت WagefundاورLand diffrential productivities کی بنیاد پرہوتا ہے،لیکن ان کاتعین جس طرح عمل میںآتاہے وہ عمل مربوط ہے ۔
ریکارڈوکے خیال میںسرمایہ دارانہ نظام فطرتاًروبہ زوال اورانہدام (Stagnation)کی طرف مائل ہے جیسے جیسے آبادی بڑھ رہی ہے کسان بنجر سے بنجرزمین کاشت کرنے پرمجبورہیںاورWage fundمیں(انفرادی اجرتوں میںنہیں)اضافہ ناگزیرہوتاجارہاہے لہٰذامجموعی آمدنی میںمنافع کاحصہ کم اوراجرتوں اورکرایے کاحصہ بڑھتاچلاجارہاہے ریاست کوان رجحانان کوختم کرنے کے لئے پالیسی سازی کرنی چاہئے ریکارڈونے چار پالیسی تجاویز پیش کیںاوران سب کو(کچھ ترمیم کے ساتھ )پہلے انگلستان اوربعد میںبیشترسرمایہ دارانہ ممالک میںاپنالیاگیا۔
١۔ بین الاقوامی تجارت کافروغ اورمحصولات (Import texes)میںبدرجہ تخفیف ۔اس کے نتیجے میںریکارڈوکہتاہے کہ اناج کی قیمتوںمیںکمی ہوگی subsistenceاجرت میںکمی ہوگی اورزمین کاکرایہ بھی کم ہوگا۔
٢۔ ایسے اقدامات کاخاتمہ جن کے نتیجے میںاجرتوںمیںاضافہ ہومثلاًریکارڈوکے دورمیںانگلستان میںایسے قوانین موجودتھے (انہیںPoor lawsکہتے تھے اورریکارڈونے ان کی تنسیخ کی بھرپورکوشش کی )جن کی بنیاد پر غریبوںاوربے روزگاروں کو آمدنی اوررہائش فراہم کی جاتی تھی۔
٣۔ ایسے ٹیکسوں(Taxes)کانفاذجوزمینداروںکی آمدنی پرہواورجومجموعی قومی آمدنی میںکرایہ کاتناسب کم اورمنافع کاتناسب زیادہ کردیں۔
٤۔ سرمایہ دارانہ زرکی تشکیل
سرمایہ دارانہ زرکی تشکیل:
اپنی سٹے بازی کے عروج کے دورمیںریکارڈونے بینک آف انگلینڈ کے منتظمین سے قریبی تعلقات استوار کئے اپنے دورمیںریکارڈو بینک آف انگلینڈ کے تمسکات Bondsکاسب سے بڑابیوپاری تھا۔نیپولیونک (Napolonic)جنگوںمیںاگلستان کاسرکاری قرضہ بے تحاشہ بڑھ گیا اورریکارڈو نے جنگی تمسکات(War bonds)کے لین دین سے بھرپورفائدہ اٹھایا۔
سرمایہ دارانہ زرکی تشکیل کے بارے میںریکارڈونے جوتجویزدی اس کووہ اپناسب سے بڑافکری کارنامہ قراردیتاتھا۔انیسویںصدی میںبیشترسرمایہ دارانہ ممالک میںملکی کرنسی(currency)سونے یاچاندی کے متبادل ہوتی تھی اورعموماًسکے کی قیمت اس سونے یاچاندی کے وزن کے مطابق کی جاتی تھی جوایک سکے میںشامل کیاجاتاتھا۔تھا۔نیپولیونک (Napolonic)جنگوںکے نتیجے میںسونے اورچاندی کی قیمت یورپی بازاروں میںتیزی سے بڑھنے لگی اوربرطانوی کرنسی میں شرح تبدل گرنے لگااس زمانے میںبینک آف انگلینڈ نے ایسی کاغذی کرنسی (paper currency)کااجراء کیاتھا جوسرمایہ دارانہ زرکی ابتدائی شکل تھی کیونکہ ان بینک آف انگلینڈ کے نوٹوں کوملک کے اندرسونایاچاندی میںکسی مقررہ شرح میںتبدیل (convert)کرنے کی ذمہ داری بینک آف انگلینڈ نے قبول نہیںکی تھی بین الاقوامی تجارت اورسرمایہ کاری کے لئے یہ نوٹ استعمال نہیںکئے جاتے تھے کیونکہ انگلستان کی معیشت کادارومداربین الاقوامی تجارت پربہت زیادہ تھالہٰذاجب سونے کی قیمت بڑھتی تھی توبین الاقوامی مارکیٹ میں انگلستان کی اس کرنسی کی قدرمیںکمی واقع ہوتی تھی جوان بازاروںمیں استعمال ہوتی تھی (بینک آف انگلینڈ کے جاری کردہ نوٹ نہیں) اس سے ظاہرہوتاتھاکہ ضرورت سے زیادہ بینک آف انگلینڈ کے کاغذی نوٹ جاری کردیئے گئے ہیںاورتورم (Inflation)کاخطرہ پیداہوگیاہے ریکارڈو نے ثابت کرنے کی کو شش کی کہ کاغذی نوٹوں کی اجارہ کی حد متعین کی جاسکتی ہے ۔
ریکارڈونے ثابت کیاسرمایہ دارانہ زر( وہ زرجس کے اجراء کابنیاد مقصدبڑھوتری سرمایہ کااصول ہو)کی کوئی ذاتی قدر(Intrinsic value)نہیںہوتی اوراس کے اجراء اوررسد کواس طرح ترتیب (manage)کیاجاسکتی ہے کہ افراط زر(Inflation)یامعاشی کساد بازاری (Depression)رونمانہ ہو۔ریکارڈونے اس بات کی وکالت کی کہ بینک آف انگلینڈکوسرمایہ دارانہ زر(غیرمتبدل کاغذی نوٹ Non convertable currency)چھاپنے کی اجازت دی جائے اورکسی دوسرے بینک یاحکومت کوخودیہ اختیارنہ دیاجائے ۔اس طرح بینک آف انگلینڈ کی کے ضمن میںاجارہ داری (Monopoly)قائم ہوجائے گی اوروہ بغیرکسی خرچے (cost)برداشت کئے کاغذی زرکااجراء کرسکے گا اس کاغذی کرنسی کے اجراء کے حدکاتعین اس بات پرمنحصرہوگاکہ بین الاقوامی مارکیٹ میںبرطانوی کی کرنسی کی شرح مستحکم رہے (یہ شرح یانرخ سونے میںطے کیاجاتاتھا لہٰذاپیپرکرنسی کی قدرکابلاواسطہ تعلق سونے کی قیمت سے برقرارہوگا۔آج کل سرمایہ دارانہ زرپورے طورپربینکوں کے قبضے میںآگیاہے ڈالر،پائونڈ ،بورد وغیرہ کی کوئی متبادل قیمت نہیںسب Inconvertableہیں۔بینکاری نظام اپنے منافع کوMaximiseکرنے کے لئے جتنی مقدارمیںچاہتاہے سرمایہ دارانہمرکزی بنککے تعاون سے جاری اورمنہاکرتاہے )ریکارڈوکی تجاویز کوبینک آف انگلینڈ اوربرطانوی پارلیمنٹ نے ١٨١٧ئ میںمنظورکرلیا۔
اسمتھ اورریکارڈونے اقتصادیات کوایک سائنس(science)بنانے میںایک کلیدی کرداراداکیااس سائنس کواکنامکس(Economics)کہتے ہیں۔اکنامکس کاعلمیاتی منہج (methodology)کانٹ کی تصوریت (Idealism)اورہیوم کی تجربیت (Enpiricism)کاامتزاج اوراسمتھ ہے اورریکارڈوکی تصانیف نے اس منہج کوسرمایہ دارانہ انفرادی اوراجتماعی حکمت عملی (policy)کی اثاثی بنیاد(foundation)بناکردکھایا۔انیسویںصدی کے بعد سے دیگرسوشل سائنسس ,Sociology,Psychology,Political science, Anthropologyوغیرہ)اسی علمیاتی منہج کواپنائے ہوئے ہیںیہ سرمایہ دارانہ انفرادیت ،معاشرت اورریاستی غلبے اورتحفظ کے لئے راہ ہموارکرتی ہے ۔

1 thoughts on “Adam Smith and David Ricardo – آدم اسمتھ اورڈیوڈریکارڈو”

  1. asalam-o-alaikum is main boht se words galt hain sahi se smj hi nai a rahi k kia likha hai koi hal bta sakte hain kia

Leave a Reply to jiadoll Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *