ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری

ہم ایک انقلابی اسلامی جماعت ہیں جو موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کے انہدام اور اسلام کے مکمل نظاماتی غلبہ کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ اسی مقصد کے لیے ہم الیکشن لڑتے ہیں۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم سرمایہ دارانہ نظام اقتدار میں مقننہ کی حیثیت کو سمجھیں اور ہمیں اس بات کا ادراک ہو کہ سرمایہ دارانہ نظام اقتدار کی ترتیب اور تنفیذ میں مقننہ کیا مقام رکھتی ہے اور کیا کردار ادا کرتی ہے۔ اس بات کا شعور حاصل کیے بغیر ہم انتخابی عمل کو سرمایہ دارانہ اقتدار کے انہدام کے لیے استعمال نہیں کر سکتے۔

سرمایہ دارانہ نظم اقتدار میںمقننہ کا مقام اور کردار

سرمایہ دارانہ نظام اقتدار کے اجزاء  یہ ہیں:

            ١۔ کارپوریشن

            ٢۔ سود اور سٹہ کے بازار (فنانشل مارکیٹ(

            ٣۔ میڈیا

            ٤۔ فوج

            ٥۔ سول انتظامیہ اور پولیس

            ٦۔ عدلیہ

            ٧۔ مقننہ (ہمہ جہتی(

            ٨۔ بین الاقوامی قوانین، معاہدات اور تنفیذی ادارہ (مثلاً UN Peace Keeping, IMF, IACP, WTO, WIPO Forces)

            سرمایہ دارانہ اقتدار کی ترتیب اور تنفیذ کا مقصد بڑھوتریء سرمایہ (Capital Accumulation) کو تیزکرنا ہوتا ہے۔ اس مقصداعلیٰ کے تقدس کی ضمانت ہر سرمایہ دارانہ دستور کے مقدمہ (Preamble) میں شامل ہیومن رائٹس فراہم کرتے ہیں۔ بڑھوتریء سرمایہ کو کلیدی معاشرتی عمل کے طور پر جاری رکھنے کے لیے ہیومن رائٹس کی فراہمی لازمی ہے کیوں کہ ہیومن رائٹس کی طلب اور فراہمی ہی سرمایہ دارانہ انفرادیت کو نظاماتی غلبہ حاصل کرنے کا ناگزیر ذریعہ ہے۔

دستور اور ہیومن رائٹس سرمایہ دارانہ سیاسی فکر کی وہ کلیدی ایجادات ہیں جنہوں نے سرمایہ دارانہ نظام اقتدارکو دوام دلایا ہے۔ کسی غیرسرمایہ دارانہ ریاست کا نہ کوئی دستور ہوتا ہے نہ اس میں ہیومن رائٹس کی تقدیس پر ایمان لایا جاتا ہے کیوں کہ غیرسرمایہ دارانہ ریاست میں سرمایہ دارانہ انفرادیت کو نظاماتی غلبہ حاصل نہیں ہوتا۔

مقننہ کا وجود بھی سرمایہ دارانہ نظم اقتدار سے مخصوص ہے مثلاً ہماری قبل از استعمار کی ١٤ سو سالہ تاریخ میں کبھی بھی مقننہ کا وجود موجود نہیں تھا۔ مقننہ سرمایہ دارانہ انفرادیت کے نظاماتی غلبہ کی علامت ہے۔

مجلس آئین و اصلاح و رعایات حقوق

یہ بھی اک سرمایہ داری کی ہے جنگ زرگری

مقننہ سرمایہ دارانہ نظام اقتدارکا واحد منتخب ادارہ ہے۔ نہ فوج منتخب ہوتی ہے، نہ سود و سٹہ کی مارکیٹوں کے کارفرما ،نہ سول انتظامیہ اور نہ بین الاقوامی اداروں کے کارفرما۔ مقننہ کی کارفرمائی دیگر سرمایہ دارانہ مقتد ر اداروں کے غلبہ (hegemony) کا جواز  (legitimacy) فراہم کرتی ہے۔ یہ سب ادارے مقننہ کے سہارے پر مقتدر  رہتے ہیں۔ جیسا کہ ہمارے مرشد مولانا محمد مارماڈیوک پکتھال نے فرمایا: ”سرمایہ حرص و ہوس کی تجسیم ہے”۔ ہر وہ شخص جو اپنے نفس امارہ کا بندہ ہے سرمایہ دار ہے (خواہ وہ دولت مند ہو یا مفلوک الحال)۔ انتخابی عمل کے ذریعے ہر نفس کا بندہ گاہے گاہے ایسے افراد کو اپنے نمایندہ کے طور پر چنتا جو اس کی نفسانی خواہشات کے حصول کے لیے ایسے قواعد و ضوابط مرتب کریں جو دیگر ریاستی مقتدر اداروں کی سرمایہ کی بڑھوتری کی جدوجہد میں مددگار و معاون ثابت ہوں اور ان ناہمواریوں کو رفع کریں جو بڑھوتری سرمایہ کے عمل میں پیدا ہو رہی ہیں۔ ان معنوں میں مقننہ سرمایہ دارانہ عدل کی ایک مخصوص تشریح فراہم کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔

سرمایہ دارانہ عدل یہ ہے کہ ہرسرمایہ دارانہ فرد (نفس کے بندہ) کو ہیومن رائٹس فراہم کیے جائیں۔ یہ civil lawاور criminal law کی بنیاد(foundation) ہیں۔ اور ہر سرمایہ دارانہ فرد (نفس کے بندہ) کے لیے ممکن بنایا جائے کہ وہ مستقلاً اپنی خواہشاتِ نفس کے حصول میں اضافہ حاصل کرتا رہے۔ مقننہ اصولاً اس بات کی نگران ہوتی ہے کہ دیگر سرمایہ دارانہ مقتدر ادارے ہیومن رائٹس کے تحفظ اور فروغ کا فرض انجام دے رہے ہیں اور ان کی کارفرمائی کے نتیجہ میں ہر سرمایہ دارانہ فرد (نفس کے بندہ) کی نفسانی خواہشات کی تکمیل کے مواقع مستقلاً بڑھتے جا رہے ہیں۔

اسلامی اقتدار کے حصول کی جدوجہد

دعوت اسلامی کا مقصد نفس کے بندہ (subject of capital) کو خدا کا بندہ بنانا ہے۔ دعوت اسلامی کے دو شعبہ ہیں۔ تحفظ دین کی جدوجہد اور غلبہ دین کی جدوجہد۔ الحمدللہ جہاد ١٨٥٧ء کے بعد سے جاری بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث اور اثناء اشعری علمائے کرام اور صوفیائے عظام کی مساعی جلیلہ کے نتیجے میں تحفظ دین کی جدوجہد اسی مقصد کے حصول پر مرتکز ہے۔ کبائر کا ارتکاب کتنا بھی ہو سرمایہ دارانہ اقدار (نفس پرستی) کو عوامی معاشرتی سطح پر جواز (legitimacy) حاصل نہیں۔ ہمارا علمی اور روحانی ورثہ ہمارے مدارس اور خانقاہوں میں بڑی حد تک محفوظ ہے اور بیش تر دیگر مسلم ممالک کے مقابلے میں پاکستانی معاشرے میں اسلامی رسوم و رواج اور معاشرتی روایات کہیں زیادہ مستحکم ہیں۔

لیکن اس میں شک نہیں کہ تحفظ دین کی تحاریک نے جو قلعے فتح کیے ان پر ہمارا سرمایہ دارانہ دشمن پوری قوت سے حملہ آور ہے اور جیسا کہ مولانا سلیم اللہ خاں نے علما کے نام اپنے الوداعی مکتوب میں تحریر فرمایا ہے ہم اس حملہ کا خاطر خواہ مقابلہ نہیں کر رہے۔

اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہماری ١٨٥٧ء کے بعد کی غلبہ دین کی تحریک کمزور پڑ گئی ہے۔ سید بادشاہ ، علمائے صادق پور، حاجی شریعت اللہ، حاجی صاحب ترنگ زئی، حضرت شیخ الہند اور فقیر ایپی کی تحریکات جہاد کو پے درپے پسپائی کا سامنا کرنا پڑا اور برطانوی استعمار تحریکات جہاد کو مسلم معاشرہ سے isolate کرنے میں کامیاب ہو گیا۔

علما کے تمام مکاتیب فکر ـبریلوی، دیوبندی، اہل حدیث اور اثناعشریہ ـ نے تحفظ دین کے لیے سرمایہ دارانہ نظام میں سے کچھ لو کچھ دو کا رویہ اختیار کر لیا۔ وہ مسلم لیگ اور کانگریس کے حلیف بن گئے اور تحریک پاکستان اور تحریک استخلاص وطن کو غلبہ دین کا ذریعہ سمجھنے لگے۔ لیکن قوم پرستی (خواہ مسلم قوم پرستی خواہ ہندوستانی قوم پرستی) تو ایک تو سرمایہ دارانہ نظریہ ہے۔ اور قوم پرست تحریکوں کی کامیابی کے نتیجے میں ہندوستان اور پاکستان دونوں جگہ ایک سرمایہ دارانہ ری پبلک ہی قائم ہوئی۔ اس بات کا مکمل احساس حضرت شاہ جی کو بخوبی تھا لیکن سب نے ان کو بالکل اکیلا چھوڑ دیا۔

گلہ جفائے وفا نما جو حرم کو اہل حرم سے ہے

کسی بت کدہ میں بیاں کروں تو کہے صنم بھی ہری ہری

سرمایہ داری کی اصلاح

قوم پرستی سے مصالحت کے ضمن میں تحفظ اور غلبہ دین کی تحریکوں میں فاصلے بڑھتے جا رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قوم پرستی سرمایہ دارانہ انفرادیت (نفس کی بندگی) کو فروغ دیتی ہے اور نفس پرستی اور خداپرستی کی شخصی پیوندکاری بالکل ناممکن ہے۔ نتیجتاً ہماری سب سے موثر دفاعی تحریکات ـتبلیغی جماعت اور دعوت اسلامیـغلبہ دین کی جدوجہد سے اتنی متنفر ہو گئی ہیں کہ اس کی ضرورت ہی سے انکار کرتی ہیں۔ اس کے برعکس ہماری سیاسی جماعتیں جو غلبہ دین کی جدوجہد کر رہی ہیں سرمایہ دارانہ نظام کی اسلام کاری پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ وہ سرمایہ دارانہ نظام کے انہدام کی جدوجہد نہیں کر رہیں بلکہ سرمایہ دارانہ عدل کے قیام کے لیے کوشاں ہیں۔

یہ رویہ ١٩٧٠ء اور ١٩٨٠ء کی دہائیوں میں فرانس اور اٹلی کی Eurocommunist پارٹیوں نے اختیار کیا اور اس  رویئے کو اپنانے کے نتیجے میں یہ پارٹیاں بالکل تباہ ہو گئیں۔ آج ان Eurocommunist پارٹیوں کی طرح ہم بھی سرمایہ دارانہ نظام کے سب سے زیادہ دیانت دار اور مخلص کارکن ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ہمارے اہل کار کن کادامن سرمایہ دارانہ کرپشن سے بالکل پاک ہے۔

آج ہم سنت کی اتباع میں فقر اختیار ی کی دعوت نہیں دیتے بلکہ ہماری سیاسی جدوجہد کا مقصد خوش حال پاکستان کی تعمیر ہے۔ ہم ملک میں ہیومن رائٹس اور سوشل رائٹس کی فراہمی کے سب سے بلند بانگ وکیل ہیں۔ ہمارا انتخابی ایجنڈا ١٩٧٠ سے لے کر ٢٠١٣ ء تک بتدریج مکمل سوشل ڈیموکریٹ ہوتا چلا گیا ہے۔ ہمارا امیر اپنی پرولتاری (مزدور کا بیٹا ہونے) کی شناخت پر فخر کرتا ہے۔

زمام کار گر مزدور کے ہاتھوں میں ہو پھر کیا

طریق کوہ کن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی

ہر پانچ سال بعد ہم عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ ہم ان کی نفسانی خواہشات کی فراہمی کے لیے بھرپور کوشش کریں گے۔ بقول مولانا اسداللہ بھٹو ہم ایک لبرل اسلامی جماعت ہیں۔ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف اور اے این پی حقیقتاً لبرل ہیں نہ سوشل ڈیموکریٹ نہ قوم پرست۔ وہ عوام کو ان ناموں سے دھوکہ دیتی ہیں۔ اصل لبرل اور سوشل ڈیموکریٹ اور قوم پرست تو ہم ہیں۔ ہم بیش تر لبرل اور سوشل ڈیموکریٹ اور قوم پرست آدرشوں کی اسلامی تشریح پیش کرتے ہیں اور ہمارا دعویٰ ہے کہ خلافت علی منہاج النبوة دراصل جان مِل (John Mill) کی ویلفیئر اسٹیٹ  ہے ہم اسے مدینہ کا ماڈل کہتے ہیں۔

ہم سب سے بڑے قوم پرست اور افواج پاکستان کے فطری حلیف ہیں۔ ہمیں فوج نے ٹاسک دیا ہے کہ افغان طالبان کو امریکا سے مصالحت پر راضی کریں اور اس ٹاسک کی ادائیگی ہم نے بخوشی جہاد افغانستان سے غداری کر کے اشر ف غنی کی حکومت کوکٹھ پتلی سمجھنا چھوڑ دیا بلکہ اس سے صلح کے وکیل بن گئے ہیں۔

اور ہم چین کے وکیل بھی ہیں۔ چین دنیا کی سب سے بڑی اور طاقت ور کمیونسٹ حکومت ہے۔ مولانا مودودی نے کمیونزم اور سوشل ازم کو کفر کہا تھا اور تاریخ نے ثابت کیا کہ کمیونسٹ ہمیشہ سے اسلام کے سب سے بڑے دشمن رہے ہیں۔ آج بھی مشرقی ترکستان پر چین کا غاصبانہ تسلط اور سنکیانگ اور گانزو میں مسلمانو ں کے خلاف چین نے ظلم اور استبداد کا بازار گرم کر رکھا ہے اور ہر سال سیکڑوں مسلمان شہید ہو رہے ہیں۔ لیکن ہمارے سابق امیر سید منور حسن نے چین جا کر ایک معاہدہ پر دستخط کیے کہ ہم مشرقی ترکستان کے جہاد سے قطعاً لاتعلق رہیں گے اور اس جہاد کو کچلنے میں چینی حکومت کو حق بجانب سمجھتے ہیں۔ ١٩٨٠ء کی دہائی کے آخر سے ہمارا  (Intitute of Policy Studies) IPS ایک چینی تھنک ٹینک بن گیا ہے اور ٢٠١٥ء کے بعد سے ہمارا انجینئر  (Enineer Forum) سی پیک  پروجیکٹس کی تنفیذ کے پیشوا منصوبہ بندوں میں شمولیت پر فخر کر رہا ہے اور یوں پاکستان کو ایک چینی کالونی بنانے کی راہ ہموار کر رہا ہے۔

بیجنگ کی غلامی پہ رضامند ہوا تو

مجھ کو تو گلہ تجھ سے ہے کافر سے نہیں

کیوںکہ خوش حال پاکستان بنانے کے لیے چین کی غلامی قبول کرنا ناگزیر ہے۔

اسلامی انتخابی جدوجہد اور سرمایہ دارانہ نظام کا انہدام

ابھی تک ہماری انتخابی جدوجہد کا مقصد سرمایہ دارانہ عدل کی فراہمی اور سرمایہ دارانہ نظام اقتدار میں شمولیت رہا ہے ۔ یہ ایک سعی لاحاصل ہے کیوں کہ سرمایہ دارانہ عدل کا قیام غلبہ دین کا ذریعہ نہیں ہو سکتا۔ سرمایہ دارانہ عدل کی فراہمی کے ذریعے سرمایہ دارانہ شخصیت (نفس کی بندگی کرنے والی) غلبہ حاصل کرتی ہے۔ اسلامی انفرادی (خدا کی بندگی کرنے والی) شخصیت غلبہ حاصل نہیں کرتی۔ اس انتخابی حکمت عملی کو اپنا کر ہم ماڈرنائز اور سیکولرائز ہوتے جا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ ہمارے حلقوں میں دینی کام کو سیاسی کام سے الگ کرنے کی تحریک بھی اٹھ کھڑی ہوئی ہے جو کہ مولانا مودودی کی بنیادی دعوت سے کھلا انحراف ہے۔ ہماری ان پیہم ناکامیوں سے دینی حلقوں میں مایوسی پھیلی ہے اور سوادِ اعظم نے یہ رائے اختیار کر لی ہے کہ انتخابی عمل کے ذریعے غلبہ دین کی جدوجہد ناممکن ہے۔ یہ رویہ بھی سرمایہ دارانہ نظام سے مصالحت ہی کا رویہ ہے اور اس رویہ کو اختیار کرنے والے بھی سرمایہ دارانہ اقتدار کو فروغ دیتے ہیں۔

تحریکات جہاد کی پیہم پسپائی سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کا انہدام اس کے بیرون سے ممکن نہیں۔ آج سرمایہ دارانہ نظاماتی غلبہ عالمی اور ہمہ گیر ہے ۔ اس انہدام کا عمل سرمایہ دارانہ نظام کے اندرونی تضادات کو فروغ ایک طویل المدت جدوجہد کے ذریعے ہی حاصل کیا جاتاہے ۔ اس طویل المدت جدوجہد کی کئی جہتیں ہیں۔ میں صرف انتخابات کے متعلق گفتگو کروں گا اور وہ بھی صرف پاکستان کے تناظر میں۔

سرمایہ دارانہ اقتدار کا جواز اور توجیہ (legitimation) عوام ہی فراہم کرتے ہیں اور اس توجیہ کی فراہمی کا واحد ذریعہ انتخابات ہی ہیں۔ جہاں انتخابی عمل مستحکم بنیادوں پر مروج ہو وہاں انتخابات سے لاتعلقی صرف اس صورت میں سرمایہ دارانہ اقتدار کو کمزور کرتی ہے کہ لاتعلق افراد سرمایہ دارانہ ریاستی اداروں کی حاکمیت سے بھی لاتعلق ہو جائیں۔ یہ پاکستان میں بالکل ناممکن ہے کیوں کہ یہاں سرمایہ دارانہ زر (Capitalist money) رائج الوقت ترسیلی ذریعہ ہے اور ہم سب اس کو استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ لیکن انتخابی عمل کے انقلابی استعمال کے ذریعے سرمایہ دارانہ اقتدار کی توجیہ کو کمزور کیاجا سکتا ہے۔

٢٠١٣ء کے انتخابات میں تقریباً نصف رائے دہندگان نے ووٹ دینے سے اجتناب کیا اور تقریباً ٧ فی صد ووٹروں نے اسلامی جماعتوں کو ووٹ دیے۔لہٰذا کئی کروڑ افراد نے انتخابات کے ذریعے سرمایہ دارانہ اقتدار کو توجیہ فراہم کرنے سے گریز کیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ غیرسرمایہ دارانہ اسلامی انفرادیت بڑے پیمانے پر پاکستان میں موجود ہے۔ وہ سرمایہ دارانہ ماتحتی پر اس لیے مجبور ہے کہ اس کے پاس قوت موجود نہیں اور قوت کے حصول اور استعمال کے بغیر سرمایہ دارانہ اقتدار کو کمزور نہیں کیا جا سکتا۔

غلبہ دین اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب ہم غیرسرمایہ دارانہ انفرادیت (خدا کے بندوں) کو قوت حاصل کروائیں۔ انتخابات حصول قوت کی کشمکش میں عوامی شمولیت کا ایک اہم (واحد نہیں) ذریعہ ہیں جس سے کوئی بھی انقلابی تحریک سہو نظر نہیں کر سکتی۔

انتخابات کے انقلابی استعمال کے لیے مندرجہ ذیل اعمال ناگزیر ہیں:

ہمارا ایجنڈا خالصتاً اسلامی ہو۔ سوشل ڈیموکریٹ یا قوم پرستانہ ہرگز نہ ہو۔ ہم نفسانی خواہشات اور حقوق کے حصول کی طرف دعوت نہ دیں بلکہ عوام کو متحرک (mobilize) کرنے کے لیے اسلامی عصبیت کو ابھارنے کی ہمہ گیر جدوجہد کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ تحفظ دین کا کام کرنے والے تمام حلقے ہمارے پشتیبان بن کر انتخابی عمل میں ہمیں سہارا دیں۔

اسلامی عصبیت کو ابھارنے کا پاکستانی معاشرہ میں واحد ذریعہ اسلامی جذباتیت کو فروغ  دینا ہے۔ اسلامی جذباتیت کا اظہار تعلیم و تعلم سے نہیں رسوم و رواج سے ہوتا ہے۔ ان رسوم و رواج کو فروغ دے کر ہی چشتیہ اور قادریہ بزرگوں نے برصغیر کی تقریباً ٤٠ فی صد آبادی کو مشرف بہ اسلام کیا۔ ان رسوم و رواج کا فروغ ان کا احترام ان کی تطہیر ہی سرمایہ دارانہ معاشرت و نظام اقتدار کو غیرمعتبر اور اجنبی بنا سکتی ہے ، delegitimise کر سکتی ہے۔ غلبہ دین کی جدوجہدکو عوامی انقلابی بنانے کے لیے ناگزیر ہے کہ اسلامی جذباتیت جنگل کی آگ کی طرح پورے سرمایہ دارانہ معاشرہ کو اپنی لپیٹ میں لے لے۔

الیکشن میں شمولیت کا مقصد سرمایہ دارانہ اقتدار کو توجیہ فراہم کرنے والی حکومتوں میں شرکت نہیں ہونا چاہیے۔ ہم سرمایہ دارانہ عدل کے حصول کے لیے نہیں اس کو منہدم کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ ہم سرمایہ دارانہ اقتدار کے مستقل مخالف  (permanent opposition)ہیں۔ کوئی سرمایہ دارانہ جماعت ہماری حلیف نہیں ہو سکتی کیوں کہ وہ سرمایہ دارانہ اقتدار کی وفادار ہے۔ ہمارا مقننہ میں شمولیت شعائر اسلامی کا دفاع اورفروغ، مسجد و مدارس و خانقاہوں اور مزارات پر سرمایہ دارانہ حاکمیت کا خاتمہ، سرمایہ دارانہ معیشت پر تحدید اور استعماری ہتھ کنڈوں کی بھرپور مزاحمت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہونا چاہیے۔

پاکستان کی تاریخ میںہماری سب سے کامیاب انقلابی جدوجہد تحریک نظام مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تھی۔ لیکن یہ تحریک بھی ناکام ہو گئی اور اس کے ذریعے ہم سرمایہ دارانہ نظام اقتدار کو کمزور نہ کر سکے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جن عوام کو ہم نے اسلامی جذباتیت کی بنا پر متحرک کیا تھا ان کو منظم کرنے کا کوئی انتظام ہم نے نہیں کیا تھا۔

بحیثیت انقلابی ہمیں اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ غلبہ دین کی جدوجہد میں انتخابات محض ایک (اور ہرگز سب سے اہم نہیں) حربہ ہے۔ کامیابی کے لیے لازم ہے کہ غلبہ دین کی جدوجہد تحفظ دین کی تحریکات سے مربوط ہوں اور تمام دینی گروہ منظم ہو کر اسلامی انفرادیت رکھنے والے افراد (خدا کے بندوں) کو معاشی اور معاشرتی طور پر منظم کر کے بتدریج صاحب اقتدار بنا دیں۔ اس کی بہترین مثال لبنان کی تحریک حزب اللہ نے فراہم کی ہے اور پاکستان میں اس نوعیت کی عوامی اسلامی ادارتی صف بندی کے مواقع وافر ہیں۔ بنیادی عمل محلہ کی مساجد کو معاشی اور معاشرتی مرکز بنانا ہے۔

تفصیل اس اجمال کی میں اپنے اگلے مضمون میں عرض کروں گا جس میں اسلامی انتخابی انقلابی لائحہ عمل کے اصولوں پر گفتگو کی جائے گی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *