پوسٹ ماڈرازم کے تاریخی ماخذ:

تنویری عقلیت (Enlightenment Epistemology) کی سرمایہ دارانہ تنقید پوسٹ ماڈرن ازم (Post-Modernism) ہے۔ اس فکر کے بانی فلسفی، شوپن ہا وئر (Schopenhouer) اور نطشے(Neitzsche) ہیں۔ ان دونوں نے انیسویں صدی کی جرمنی میں زندگی گزاری۔ شوپن ہاوئرکی فکر قدیم ہندو فلسفہ اور کانٹ (Kant) کے فلسفہ کا ایک عجیب ملغوبہ ہے۔ شوپن ہاوئر اور نطشے دونوں عیسائیت سے شدید نفرت کرتے تھے اور قدیم یونان کے پرستار تھے۔ یہ دونوں جرمن رومانوی تحریک سے متاثر تھے۔ یہ تحریک تنویری فلسفہ کی مخالف سرمایہ دارانہ توجیہات پیش کرتی ہے۔شوپن ہاوئرکے مطابق حقیقت (Kants, Thing in itself) صرف انفرادی ارادہ انسانی (My will) میں مضمر ہے۔ انفرادی ارادہ (My will) شوپن ہاوئر کہتا ہے کہ ابدی ہے۔ My will پورے کائنات پر محیط ہے۔  My will اور Universal Will ”ارادہ کائنات” ایک ہی چیز ہے۔ My will ایک ایسے Universal Will کا اظہار ہے جو کائنات میں ہمہ موجود (Omnipresent) اور یکساں ہے۔ Schopenhouer کی فکر میں ”ہمہ دست” سے مراد یہ ہے کہ کائنات کا اظہار My will میں ضم ہے۔ My will کے علاوہ کائنات کا کوئی شعوری وجود نہیں۔

شوپن ہاوئر کے مطابق My Will ایک شیطانی (Evil) قوت ہے اس کا اظہاردکھ (Suffering) کے فروغ کے باعث لامحالہ ہوتا ہے۔ علم صرف My will کی تفہیم کا نام ہے اور علم کا فروغ لازماً دکھ کا فروغ ہے کیوںکہ My Will شیطانیت (Evil) ہے۔ My Will کے اظہار کا کوئی مقصد نہیں کیوں کہ موت لازماً اس اظہار کو ختم کردیتی ہے۔ ہر شخص مستقل دکھ سہنے پر مجبور ہے۔ آواگون کا فلسفہ اس ہی حقیقت کوآشکار کرنا ہے۔ دکھ سے نجات ارادہ اور خواہش کی تسخیر میں ہے کائناتی لاتعلقی اس کا اظہار ہے۔ نیروانا، شوپن ہاوئر کہتا ہے کہ نروان اس شخص کو نصیب ہوتا ہے جو کشمکش حیات سے کلیتاً لاتعلق ہوجاتا ہے اور دنیا کو مایا گردانتا ہے۔ شوپن ہاوئر ١٨٤٨ کی جرمنی کی انقلابی جدوجہد کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ شوپن ہاوئر اسلام کو ایک قابل نفرت نظریہ Detestalre doctrine کہتا تھا۔

شوپن ہاوئر کے مطابق چوں کہ خیر محض ارادہ (My Will) کی نفی ہے لہٰذا خیر اور حقیقت کچھ نہیں  (Nothingness) نجات عدم وجودیت ہے کیوں کہ دکھ اوروجود ہم معنیٰ ہیں۔

پوسٹ ماڈرن ازم  شوپن ہاوئرکی فکر سے جو دو رویہ قبول کرتی ہے:وہ یہ ہے

١… دکھ ابدی ہے اور اس کے مداوے کی تلاش لاحاصل ہے۔ دکھ سے نجات صرف عدم وجودیت (Nothingness) میں پائی جاتی ہے۔

٢… ارادہ انسانی (My Will) خالقِ کائنات ہے۔ علم وہ ہے جو ارادہ (My Will) تخلیق کرے۔ اس نظریہ کے گہرے اشارات برگساں (Bergson) کی فکر میں ملتے ہیں اور علامہ اقبال Bergson سے متاثر تھے۔ ان کے تصور خودی میں بھی شوپن ہاوئرکی فکر کی جھلک نظر آتی ہے (لیکن شوپن ہاوئر کے برعکس علامہ اقبال ارادہ (خودی My will) کو ایک تخلیقی (تخریبی نہیں) قوت گردانتے تھے۔ وہ خودی (My Will ) کو اظہار رضائے الٰہی کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ شوپن ہاوئر ارادہ My Will کو ایک شیطانی قوت گردانتا تھا۔)

نطشے (Nietzsche) اپنے آپ کو شوپن ہاوئرکا پیرو کہتا تھا، نطشے انیسویں صدی میں عیسائیت کا سب سے بڑا دشمن (شاید اس اعزاز کا ایک اور مستحق Marx ہے) ایک نہایت عابد و زاہد جرمن پادری کا بیٹا تھا۔ ,نطشے (Nietzsche)١٨٨٨ء میں جب اس کی عمر ٤٤ سال تک پہنچی تو وہ  پاگل ہوگیا اور اپنی موت (١٩٠٠) تک پاگل ہی رہا۔

نطشے یہودیوں سے شدید نفرت کرتا تھا۔ (کچھ Nazi مفکریں (بالخصوص (Karl Schmidt) لکھتے ہیں کہ نطشے (Nietzsche) کو ایک یہودی سازش کے نتیجہ میں پاگل قرار دیا گیا تھا)

نطشے کا واحد تصورِ خیر (Virtue) قوت (Power) ہے۔ وہ عیسائیت سے نفرت اس لیے کرتا ہے کہ عیسائیت مظلومیت اور مسکینیت (Humility and meekness) کو اعلیٰ اقدار گردانتی ہے۔ عوام کو دکھ دے کر ہی Übermensch (ہٹلر، نیپولین، الطاف حسین) کا غلبہ ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ خیر تک رسائی صرف ایک باعزت اشرافیہ (Noble Aristocracy) کے لیے ممکن ہے، عام آدمی قابل قدر (Valued) زندگی نہیں گزار سکتا۔ Übermensch  (فوق اللفطرت قائد) عوام سے جنگ کرکے ان کو اپنے ارادہ کا آلہ کار بناتا ہے عوام کہتے ہیں ”منزل نہیں رہنما چاہیے۔”

عوام کو Übermensch   کی قوت میں اضافہ کے لیے ہر قسم کی اذیت برداشت کرنے کے لیے راضی ہوجانا چاہیے Übermensch  کے اقتدار کے لیے انارکی (Anarchy) کو فروغ دینا اور کروڑوں انسانوں کا قتل عام خیر مطلق  ( Superme Good) ہے۔  نطشے (Nietzsche) قوم پرست نہیں۔ وہ Übermensch اور باعزت اشرافیہ (Noble Aristocracy) کی عالمگیری بالادستی کا خواہاں ہے۔Übermensch ہر ریاست کو کچل کر رکھ دے گا (جیسا کہ نطشے (Nietzsche)کے خیال میں Napoleon نے کیاتھا) اور اس کا مقصد صرف قوت کا حصول اور اضافہ ہوگا۔

نطشے (Nietzsche) تمام مذاہب کو جھوٹا گردانتا ہے لیکن عیسائیت سے نفرت اس کے باطل ہونے کی بنیاد پر نہیں کرتا بلکہ اس بنیاد پر کرتا ہے کہ عیسائی اخلاقی (Ethical) تعلیماتÜbermensch کے معاشرتی تفو ق کی راہ میںحائل ہیں ،Übermensch اذیت پسند (Cruel) اور سفاک Ruthless ہوتا ہے۔ حق صرف وہ ہے جو Übermensch کی قوت میں اضافہ کرے۔

ارادہ (My Will) قوت میں اضافہ کا ارادہ (Will to pwer) ہی ہے۔ Will To Power ہی فطرت انسانی ہے۔ اس Will to Power کے کئی    ا ظہار ہیں۔ آرٹ ثقافت اور بالخصوص موسیقی (Music) اس اظہار کے اہم ذریعہ ہیں۔ باعزت اشرافیہ (Noble Aristocracy) ہی آرٹ اور Musicکو سمجھ اور سرہاسکتی ہے اور اس ہی ستائیش کے نتیجہ میں اس کی معاشر تی بالادستی مضمر ہے اور اس Noble Aristocracy اور اس کے Übermensch کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ عوام اس کی قوت کے اضافہ کے لیے دکھ اٹھائیںÜbermensch ایک Artist Tyrant (آرٹسٹ سلطان  ) ہوتا ہے۔ Neizcheجرمن موسیقار Wagner کا شیدائی تھا۔ (لیکن جب ان میں جھگڑا ہواتو والگر کو یہودی ہونے طعنہ دیا۔)

Postmodernism نطشے (Nietzsche) کی فکر سے چند اہم آدرشوں کو قبول کرتی ہے۔ ایک یہ کہ حق کا کوئی معروضی وجود نہیں جو سب پر آشکارہ ہوسکے۔ حق صرف Übermensch کے ارادہ حصول قوت (Will to power) میں مضمر ہے۔ دکھ ) (Sufferingابدی ہے اور عوام جب ارادہ حصول قوت کے لیے دکھ برداشت کرتے ہیں تو یہ قابل قدر عمل ہے۔ فروغ حصول قوت کے لیے انارکی (Anarchism) کو فروغ دینا لازم ہے۔  نطشے  کا Postmodernism کو سب سے اہم ورثہ اس کی آرٹ اور میوزک کی اقداری فوقیت (Value Superiority) کا اثبات ہے وہ زندگی قابل قدر ہے جو آرٹ اور میوزک میں ڈوبی ہوئی ہو Übermenschبنیادی طور پر ایک آرٹسٹ ہوتا ہے۔ Napolean ایک ماہر رقاص تھا۔ ہٹلرمصور تھا۔ الطاف حسین شعر کہتا ہے۔

امریکی فلسفی جان ڈوی (John Dewey) جو بیسویں صدی کے نصف میںمرا بھی  Postmodernismپر اثر چھوڑ گیا۔ Dewey بھی حق اور حقیقت کی ابدیت ٠Eternity) (کا منکر تھا۔ Dewey  کے مطابق حق تاریخ (History) کے تابع ہے آج کا حق آج ہی حق ہے، لہٰذا حق معروضی (Objective) نہیں۔ حق محض ایک گروہ کی آرا کا اتفاق ہے۔ (Dewey لکھتا ہے Truth is the opinion Ultimately agreed to by all who investigate)  Dewey کا کلیدی تصور ”inquiry) ہے، اس کو وہ حق (Truth) کے بجائے استعمال کرتا ہے۔ حق کا کوئی وجود نہیں۔ Inquiry کے ذریعہ فرد یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ اپنے مخصوص (given) حالات کو اپنی بقا (Existence) کے لیے کس طرح تبدیل کرے۔ Dewey کی فکر میں تلاش حق کی جگہ جو تصور ہے یعنی Inquiry وہ محض ایک خاص ماحول میں اپنے مفادات کو محفوظ رکھنے یا فروغ دینا کا ذریعہ ہے Inquery حق کوInstrument بنادیتا ہے وہ تلاش حق کو مفاد کے حصول کا ذریعہ بنادیتی ہے۔

حق کا کوئی معروضی (Objective) آفاقی (Universal) وجود نہیں۔ کوئی عقیدہ اور عمل معروضی اور آفاقی طور پر اچھا یہ برا نہیں ہوتا۔ اچھا عقیدہ اور عمل وہ ہے کہ ایک فرد کو اس کے خاص ماحول میں فائدہ پہنچائے، لہٰذا Dewey کے مطابق کوئی معروضی حق ہمیں ایک خاص عقیدہ / عمل پر مجبور نہیں کرتے بلکہ ہم Inquiry کے ذریعہ کائنات کو مسخر کرتے ہیں۔

نطشے (Nietzsche)  کی طرح Dewey بھی قوت کا پجاری ہے اور اس کا فلسفہ لبرل اور اشتراکی دونوں قسم کے سرمایہ دار افراد کو مرغوب ہے کیوں کہ یہ سرمایہ داری کے بنیادی احداف آزادی اور تسخیر کائنات (Freedom and Progress) کا جواز پیش کرتی ہے۔ اس فلسفہ کو Pragmatism کہتے ہیں اور Postmodernism اس فلسفہ کی بنیادی تعلیمات کو قبول کرتا ہے اور Postmodernism کے جواثرات تحریکات اسلامی پر مرتب ہؤے ہیں وہ فلسفہPragmatism کے ذریعہ ہوتے ہیں۔ تحریکات اسلامی کے سب سے نمایاں Progmatic مفکر جماعت اسلامی کے پروفیسر خورشید احمد ہیں۔ (اور جماعت اسلامی کی فکر پر پروفیسر خورشید کے اثر کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جماعت کا٢٠١٣ کا انتخابی منشور پروفیسر خورشید احمد ہی نے مرتب کیا ہے۔

Postmodrenism کی تنویری عقلیت پر تنقید:

جیسا کہ عرض کیا جاچکا ہے Postmodernism تنویری عقلیت کی سرمایہ دارانہ تنقید۔ اس تحریک کے بانی مفکر Schoponhoure، Nietzsche اور Dewey تنویری عقلیت کی تنقید سرمایہ دارانہ رومانویت(Romanticism) کے ادرشوں کے تناطر میں کرتے تھے۔  (سرمایہ دارانہ رومانویت کی ابتدا ٔتحریک نشاط شانیہ(Renaissance) کے دور (پندرویں صدی) میں شروع ہوئی۔ اس کے اہم مفکرین میںPetrarch,Byron,Herder,Fichteشامل ہیں۔ یہ نہایت دیرپا تحریک ہے اور ١٩اور ٢٠ صدی میں اس کا اثر Heidegger, Husserl اور Sartre تک پر دیکھا جاسکتا ہے۔) بیسویں صدی کے پہلے نصف میںیہ تنقید Post Marxist مفکرین نے جاری رکھی جن میں Horkheimer,Adorno اور (کسی حد تک) Lucracs نمایاں تھے۔

1960  کی دہائی میں یورپ اور امریکا میں ایک عظیم سماجی تغیر رونما ہوا جس کا سب سے اہم اظہار جنسی بے راہ روی اور عریانیت کی عوامی مقبولیت کے طور پر ہوا۔ سرمایہ دارانہ نظام کا انحطاط بیسویں صدی کی ابتداء سے شروع ہوتا ہے اور پہلی جنگ عظیم (1914-1918) سرمایہ داری کی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس جنگ کے نتیجہ میں :

۔۔کروڑوں عورتیں گھروں سے نکل کر ملازمت کرنے پر مجبور ہوگئیںساطر لباس ترک کرنا اور مزدوروں سے مستقل روابط رکھنا پیشہ وارانہ ضرورت بن گئی۔ (چوتھی صدی عیسوی سے لے کر بیسویں صدی کے آغاز تک یورپ میں عورتیں ساطر لباس استعمال کرتی تھیں۔ حجاب (Bonnet) عام تھا۔ Nuns نقاب استعمال کرتی تھیں۔ عفت (Chastity) عیسائیت کی ایک کلیدی قدر تھی۔)

۔۔یہ بات واضح رہے کہ سرمایہ دارنہ عمل امن پر نہیں شدید جنگ و جدل اور قتل و غارت پر منتہج ہوتا ہے۔

۔۔سرمایہ دارانہ معاشرت کی قائم کردہ واحد اجتماعیت منتشر ہونا شروع ہوگئی۔ یہ مزدورں کی اجتماعیت(The Collectivity of labour) تھی جس نے مذہبی اجتماعیت کو جگہ لی (The Collectivity of Christendom ) اور سرمایہ دارانہ عدل کی جدوجہد مشکل سے مشکل ہوگئی (مزدور اجتماعیت کی تحلیل نے دو شکلیں اختیار کیں، سوشل ڈیمو کریٹ جماعتیں لبرل قوم پرست نظام میں ضم ہوگئیں اور کیمونسٹ مزدور تنظیمیں اشتراکی ریاستی نظام بالخصوص اس کی بیوروکریسی (Bureaucracy) میں ضم ہوگئیں)۔

 ان عوامل کے نتیجہ میں بہت سے مفکرین تنویری عقلیت کے ناقدین بن گئے۔ امریکا کے ویت نام (Vietnam) کی جنگ بھی ایک اہم سنگ میل ہے۔ اس جنگ میں امریکی شکست اور اس کے نتیجہ میں Bretton Woods کے نطام کی تحلیل (یہ ایک عالمی مالی نظام تھا جو 1946ء سے 1972-73 تک نافذ رہا۔ اس نظام کے تحت تمام کرنسیوں  Currenciesکا  شرح تبدل IMF  ڈالر میں متعین کرتا تھا اور ڈالر کا شرح تبدل سونے کے مقابلے میںتھا۔ امریکی حکومت اس کی پابند تھی ایک اونس سونے 35 ڈالر کے عوض دے۔ Nixon نے 1971ء میں اس سے انکار کردیا)نے جلتی پر تیل کام کام کیا اور ١٩٧٠ء کے بعد سے تنویری عقلیت پر تنقید عام ہوگئیں اور سرمایہ دارانہ نظام کی Postmodrenistتوجیحات پیش کی جانے لگیں۔ یہ اس ہی رومانوی تحریک  (Romantic Movement) کا احیاء ہے جس کا تعار ف ہم پچھلی فصل میں پیش کرچکے ہیں۔ آج جرمنی اور فرانس کا تقریباً ہر اہم مفکر کسی نے کسی حد تک Postmodernism  آدارشوں کا وکیل ہے (یہ بات Habermas کی سیاسی اور سماجی فکر تک کے بارے میں کہی جاسکتی گو کہ Habermas آج تنویری عقلیت کا سب سے اہم نمایندہ گردانا جاتا ہے۔ جدید Postmodernist مفکرین   Foucault ، Derrida، Baudelaire، Rorty، Walzer، Lyotard، Marcuse، Wallenstein، Urry، Charles Taylor اور Harel وغیرہ ہیں۔ ان مفکرین کی نگارشات کا اسلامی نقد مولانا محبوب الحسن بخاری سنابل میں گاہ گاہ پیش کریں گے۔ ان شاء اللہ (مولانا سید محبوب بخاری Derrida کے مابعد الطبیعات تصورات پر اپنا Ph.d کا مقالہ تحریر فرمارہے ہیں)۔

ذیل میں ہم تنویری فکر کی Postmodernism تنقید کا ایک اجمالی خاکہ پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔

تنویری عقلیت کی تنقید:

Postmodernist مفکرین سائنسی منہج (Scientfic Method) کی معقولیت کے قائل نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس منہج کی ترویج کے نتیجہ میں عالمی سرمایہ دارانہ نظام ماحولیاتی، معاشی اور سماجی بحرانوں Crises سے دوچار ہورہا ہے۔

اس منہج کی بنیاد پر معاشرتی عمل میں عللCause اور نتیجہ Effect کا تعین ناممکن ہے  (یعنی  Complexity theory کی معاشرتی Application  (Social کی تعبیر یہ بتاتی ہے کہ معاشرتی علل اور نتائج کا تعلق یکجہتی اور Linear نہیں  Complex  ہے یعنی پیچیدہ اور ہمہ جہت ہے اور کسی معاشرتی عمل (علل) کے نتیجہ کا تیقن   نہیں کیا جاسکتا۔ ناش (Nash) کہتا ہے کہ علم ایک معاشرتی تعمیر (Social Construct) ہے۔ علم کی تعمیر (Construction) کا مقصد قوت (Power) کا حصول اور استعمال ہے۔ کسی عمل یا شے کے کوئی درست معنی نہیں ہوتے۔ Baudrillard کہتا ہے کہ حق کا کوئی آفاقی تصور موجود نہیں اور تمام نظاماتی آدرش (Metanrratives) (مثلاً سوشلزم، لبرل ازم، قوم پرستی، اسلام، عیسائیت، فلسفہ سائنس اکنامکس (Economics) نسوانیتی تحریک (Feminism) وغیرہ)لغو اور نامعقول ہیں۔ Baudrillard  کہتا ہے کہ میڈیا (Media) کے پاس وہ قوت ہے جو حقیقت تعمیر کرسکتی ہے۔ اس Media کی تعمیر شدہ حقیقت کو بودی لا  Hyper reality کہتا ہے۔ حقیقت کچھ نہیں  Hyper Reality سب کچھ ہے۔

Legg کہتا ہے کہ علم کی تعمیر کا مقصد اقتدار کا استحکام ہے۔ علم تحکیم  (Governmentally) کو اس طرح ممکن بناتا ہے کہ وہ محکوم کو حاکم کی ریاستی حکمت عملی کی معقولیت پر قائل کرتا ہے۔تحکیم (Governmentally)  ایسے معاشرتی اداروں کے ذریعہ کی جاتی ہے جو رائج شدہ علمیت کی بنیاد پر جائز (Legitimate) ثابت کیے جاتے ہیں۔

تحکیم (Governmentally)  کے لیے معاشرتی کشمکش (Conflict )مستقل جاری رہتی ہے کیوں کہ دورِ حاضر کے سرمایہ دارانہ نظام میں بقول اپادورائے (Appadurai) علم کی جگہ نظریاتی تناظر  (Idea Scapes) نے لے لی ہے (Habermas کے تضادات پر ہمارے دو ساتھی ڈاکٹر علی محمد رضوی اور جناب ذیشان ارشد کام کررہے ہیں۔ ان کی تحریرات بھی سنابل میں گاہے گاہے پیش کی جائے گی یہ دونوں حضرات جماعت اسلامی کے رکن ہیں۔) Habermas (جو دورِ حاضر کا سب سے اہم Modernistفلسفی گردانا جاتا ہے) اقرار کرتا ہے کہ حالیہ سوشل تحریکات New Social Movements نے ایک ایسے نئے سرمایہ دارانہ تعقل کو جنم دے رہی ہیں جو سرمایہ دارانہ معاشرہ کا دفاع سرمایہ دارانہ معاشی اجارہ داری اور سرمایہ دارانہ ریاستی پالیسی کے لیے ضروری ہے۔  (New Social Movements میں تحریک رد عالمگیریت (World Social Movement) ماحولیاتی تحریک، تحریک نسواں، تحریک اغلام بازوں (LGBT) وغیرہ شامل ہیں)۔ اس معاشرتی علمیت کی بنیاد پر بھی سرمایہ دارانہ تحکیم یعنی جمہوریت فروغ پارہی ہے۔

Post Modernism مفکرین کہتے ہیں آج بیشتر افراد کے لیے آزادانہ فیصلہ کرنا اور اظہارِ پسندیدگی (Free Choice) ناممکن ہوگیا ہے۔ ایک ایسی عالمی اشرفیہ (Globel Elite) غالب آگئی ہے جو ایک خاص معاشی نظریہ پر اعتقاد رکھتی ہے اور یہ اشرافیہ بین الاقوامی اداروں، عالمی سرمایہ دارانہ کمپنیوں اور ریٹنگ ایجنسیوں (Rating Agencies) کے ذریعہ اس نظریہ کے مطابق عوام کی رائے تشکیل دیتی ہے۔ لوگ وہی پسند کرتے ہیں جو یہ محدود اشرافیہ چاہتی ہے کہ وہ پسند کریںFoucault کہتا ہے کہ آزادی صرف اس اشرفیہ کو میسر ہے اور باقی تمام افراد آزادی سے ان معنوں میں محروم ہیں کہ ان کے فیصلہ اس ہی اشرافیہ کی پسند کے مطابق مرتب ہوتے ہیں۔

٢… تنویری انفرادیت کی تنقید:

Postmodernist مفکرین کہتے ہیں کہ اب انفرادی خود کفالت (Self Autonomy) کا تنویری تصور لغوثابت ہوگیا ہے۔ علمیت معروضی انفرادی ادراک سے برآمد نہیں ہوتی جیسا Kant سمجھتا تھا بلکہ Macluhan کے مطابق اب فرد ایک غیر مطمئن خانہ بدوش (Nomadic) وجود ہے ،جو ادراک ذات کے عمل کو مستقلاً معطل کرنے پر مجبور ہے۔ علمیت ادراک ذات کو ممکن نہیں بناتی بلکہ وہ فرد کو اشرافیہ کے غلبہ پر مجبور کرنے کی ناگزریت کی توجیح ثابت کرنے کا ذریعہ ہے۔

دورِ حاضر میں انفرادیت غیر مرکزی(Decentralized) ہوگئی ہے اور انتشار کا شکار ہے۔ فرد نہ اپنے خاندان سے تعلق رکھتا ہے نہ اپنی قوم سے نہ اپنے طبقہ (Class) سے انفرادیت غیر مستحکم اور پیچیدہ (Complexified)ہوگئی ہے۔

انفراد یت بکھر گئی ہے اور انفرادیت کی شناخت کے متعدد سر چشمہ ہیںجو آپس میں متصادم ہیں۔ ان حالت میں اس Postmodernist دنیا کا عام باشندہ عقل کی بنیاد پر فیصلہ کرنے والا(Rational chooser ) تصور نہیں کیا جاسکتا Network theory انفرادیت کو تعلقات کے ایسے نکتہہائے ارتباط  (Loci of relationship) گردانتی ہے، جو زیادہ عرصہ تک مستحکم نہیں رہتا۔ اور یہ نظام ارتباط نظامتی عمل کا تعین کرتے ہیں۔ فرد یہ کام نہیں کرسکتا اور نظاماتی تغیر میں کسی فرد کو کوئی اہمیت نہیں۔ Urry لکھتا ہے ”رقص فیصلہ کن ہے، رقاص نہیں۔” یہ رقاص رقص کے ضوابط کا لازماٍ اثیرہے۔ اس  Postmodernistدنیا کی تفہیم رقص کی تنظیم کے ادراک سے حاصل ہوتی ہے انفرادی رقاصوں کے عقائد اور اعمال کے ادراک سے حاصل نہیں ہوتی۔ فرد اپنے لوکل (Local) ماحول سے لاتعلق ہورہا ہے۔ لیکن کسی عالمی (Global) ماحول میں کسی شناخت کی بازیافت سے قاصر ہے۔ لوکل اور گلوبل شناخت کی یہ کشمکش سرمایہ دارانہ مخالف انفرادیت۔ بالخصوص ”دہشت گرد” شخصیتوں (یعنی مجاہین اسلام) کو پروان چڑھارہی ہے۔

Postmodernism سرمایہ دارانہ انفرادیت متضاد اور متصادم تصورات حیات (Ontologies) کو جمع کرنے کی ناکام سعی ہے۔ دلوز (Deluze) کہتا ہے کہ یہ شخصیت Schizoid (او ہام کا شکار) ہے اور کوئی حتمی شناخت نہیں رکھتی۔ Post Modren فرد ایک ادارہ گرد (Stoller) Vagabond (لوفر) کھلاڑی (Player ) اور سیاح ہے۔ وہ زندگی چھوٹی چھوٹی غیر مربوط مہمات ((Projects کی لاحاصل جستجو میں گزار دیتا ہے۔ وہ ”ذات کا تاجر” (Entrepreneur of the self) بن گیا ہے اور اس کے لیے زندگی کھوکھلی بے معنی اور غیر مربوط عمل کا ایک ناقابل تفہیم سلسلہ بن کر رہ گیا ہے۔  Baumar  کہتا ہے آج کی دنیا   تاوں(Plague)بھکاریوں (Beggars) اور اوہام (Superstitions) سے بھریپڑی ہے۔ اس ماحول میں انفرادیت مستقل خطروں سے ہمہ وقت دوچار ہے اور یہ خطرات انفرادی ہیں۔ طبقاتی معاشرتی نہیں۔ Precariat (مستقل خطروں سے پریشان، غیر محفوظ) اکثریت نے Prolotoriat (پروتوتاری طبقہ) کی جگہ لے لی ہے۔ اس Precariat کا فرد citizen نہیں ہوسکتا کیوں کہ وہ تمام نظاماتی آدارشوں (Metanarratives) بشمول لبرل ازم، سوشل ازم اور قوم پرستی کو لغو اور بے معنی تصور کرتا ہے۔ وہ شکایتوں، محرومیوں اور نفرتوں سے بھری ایک Frustrated شخصیت ہے۔

٣… تنویری ریاست کی تنقید:

تنویری سرمایہ داری نے ایک Sovereign (خود مختار، مطلق العنان، قومی ریاست) قائم کی تھی۔  Postmodern نظام اقتدار اسی قومی ریاست سے اقتدار چھین رہا ہے۔ آج قومی ریاستیں ایک عالمی نظام اقتدار کی چوکیدار (Game Keeper) بن کے رہ گئی ہیں۔ ریاستی اقتدار کو چیلنج کرنے والی تمام قوتیں۔ فنانس ( Finance) ملٹی نیشنل کمپنیاں،میڈیا، نیو سوشل مومنٹس (New Social Movements) (یعنی تحریکات، نسواں، اغلام بازوں (LEBT)، ماحولیات اور World Social Forum ) قومی ریاست کے اقتدار کو کھولا کررہی ہیں اور مجاہدین اسلام ”دہشت گرد” ( Post Modernist ”دہشت گرد” کیٹیگری میں ہندوستان کے ماوئسٹوں اور لاطینی امریکا کے گوریلوں کو بھی شامل کرتے ہیں) ریاستی اقتدار کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ قومی ریاستی Citizenry بھی مفاداتی (Interest Oriented) اور نسلی گروہوں میں تقسیم ہوگئی ہے اور ”قومی مفاد” سے وابستگی ناپید ہے ایسے میں لبرل اور سوشلسٹ تصور Citizenship بے معنی ہوکر رہ جاتا ہے۔

Urry کہتا ہے کہ عالمگیریت (Globalization) ایک نامکمل اور تضادات سے لبریز عمل ہے۔ ریاستی اقتدار کو سبوتاژ  ( Sabutage) کرنے والی سب سے مہلک قوت  آئی ٹی سیاسی قوت کا سرچشمہ بن گئی اور اقتدار کا ایک نظام قائم ہوا ہے جہاں بااقتدار گروہوں کا معاشرتی لگائو مفقو د ہوتا جارہا ہے۔ ریاست کی جگہ جو نیا گلوبل نظام اقتدار قائم ہورہا ہے وہ نظر نہیں آرہا اور یہ بتانا کہ کس نے کون سا فیصلہ کیا اور فیصلہ کیسے ہوتے ہیں۔ مشکل سے مشکل ہوتا جارہا ہے۔ اس نظام اقتدار کو (Post Panopticon) نظام اقتدار کہتے ہیں (Foucault  اس اصطلاح کا موجد ہے وہ کہتا ہے کہ سرمایہ دارانہ ریاست اس جیل کی مانند ہوتی تھی جہاں ایک ایسا مرکزی مقام تھا جہاں بیٹھ کر جیلر تمام شہریوں کی ہر حرکت پر نظر رکھ سکے۔ Post Panopticon نظام اقتدار میں یہ ممکن نہیں، یہاں جیلر کون ہے اور قیدی کون، بتانا ناممکن ہوجاتا ہے۔  اس میں حاکم اور محکوم کی شناخت ناممکن ہوتی جاتی ہے۔

اس نظام اقتدار میں جمہوریت کے کوئی معنی نہیں رہتے۔ حکام جو بین الاقوامی اداروں، فنانشل(Financial) مارکیٹوں، ملٹی نیشنل کمپنیوں، ریٹنگ ایجنسیوں،میڈیا، سیاسی لیبر و ٹریڈیونیینوں اور سماجی تھنک ٹینکس (Think Tanks) میں پوشیدہ ہیں ان کی جمہوری جواب طلبی کا کوئی امکان نہیں۔ سکوکلپول (Skocpol) کہتی ہے کہ جمہوری جواب طلبی ایک مضحیکہ خیز افسانہ کے علاوہ اور کوئی حیثیت نہیں رکھتی کیوں کہ گلوبل باقتدار اشرافیہ صرف سرمایہ کے بازار کی نمایندہ ہے کسی جمہور کی نمایندہ ہوہی نہیں سکتی۔ ان حالات میں عوام کا جمہوری عمل سے بتدریج لاتعلق ہونا ناگزیر ہے۔ جمہوری عمل میڈیا پر جاری تفریح بن کر رہ گیا ہے، سیاسی قائد پوپ اسٹار  (Pop Star ) بن گئے ہیں۔ (اس کی بہترین پاکستانی مثال عمران خان ہے)۔ ووٹ، دینے کی شرع پوری دنیا میں رو با تنزل ہے۔ جمہوری اداروں پر عوامی اعتماد مفقود ہوتا جارہا ہے۔ Post Modern فرد کو کسی پر کنٹرول ( Control) نہیں۔ نہ اپنے خاندان پر، نہ اپنے کاروبار پر، نہ اپنے ماحول پر نہ اپنی حکومت پر، نہ اپنے ملک پر، نہ اپنی دنیا پر، اور جب ہر فرد بے اختیار ہے تو معاشرتی اختیار کو منظم کرنا اور رکھنا نہایت دشوار گزار عمل ہے۔

Held نے Cosmocracy کا تصور پیش کیا ہے۔ اس سے مراد عالمگیر جمہوریت ہے جو قومی جمہوریت کی جگہ لے رہی ہے لیکن  Zizek  اور Badiou  کہتے ہیں کہ Cosmocracy محض استعمار (Imperialism) کا ایک نیا جواز ہےCosmocracyکا عملی اظہار صرف ان ممالک میں امریکی مداخلت سے ہوتا ہے جو اقوام متحدہ کے وضع سرمایہ دارانہ حقوق اپنے شہریوں کو نہیں فراہم کرتے۔ اس کے علاوہ Cosmocracy کچھ نہیں ، اگر  Cosmocracy کی کوئی حقیقت ہے تو امریکا کیوں دنیا کے ہر باشندہ کو اپنی شہریت (Citizenship) نہیںدیتا۔

امریکا ایک بتدریج رو با تنزل انفرادیت، معاشرت اور نظام اقتدار ہے Deluze کے مطابق وہاں کی عظیم اکثریت Schezoid اور Paranoid ہے۔ معاشرتی انتشار تیزی سے بڑھ رہا ہے، ہر دہائی میں ایک معاشی بحران رونما ہورہا ہے۔ امریکی نظامِ اقتدار کے خلاف عسکری جدوجہد کئی دہایوں سے ایشیائ، افریقا اور لاطینی امریکا میں جاری ہیں اور اب کئی مقامات پر… مالی، افغانستان، یمن، فاٹا، بہار، جھاڑکنڈ بوڈولینڈ، کو ملجیبا وغیرہ۔ میں انقلابی ریاستی ڈھانچہ اپنی قومی حکومتوں سے نبردآزما ہیں اور امریکا ان پر قابو پانے سے قاصر ہے۔ (ان انقلابی ریاستی صف بندیوں کو Mezzanine States کہا جاتا ہے) ابھی تک یہ انقلابی مزاہمتی صف بندی عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی سرحدوں (Peripheries) تک محدود ہے لیکن یہ سرمایہ دارانہ مراکز تک پھیلنے کی استطاعت رکھتی ہے۔ اس انقلابی جدوجہد نے سرمایہ دارانہ نظام معاشرت اور اقتدار کو پر خطر بنادیا ہے۔ پورا سرمایہ دارانہ نظام ”دارالامن” اور ”دارالحرب” میں تقسیم ہوگیا ہے اور دارالحرب دارلامن میں سرائیت کرنے کی صلاحیت حاصل کررہا ہے۔ Bauman کہتا ہے کہ سرمایہ دارانہ عالمگیریت کا دوسرا نام World Risk Society ہے۔

 تنویری معاشرت کی تنقید:

Post Modernism  مفکرین کے مطابق سرمایہ معاشرت اور معیشت کو سب سے بڑا  خطرہ ماحولیاتی آلودگی اور تنزل (Enviorenmental depletion) سے ہے۔

Bellamy Foster کہتا ہے کہ اپنے ابتدائی دور سے آج تک سرمایہ داری ،فطرت سے عالم جنگ میں ہے۔ سرمایہ کی لامحدود بڑھوتری کی جدوجہد دنیا کو برباد کئے دے رہی ہے۔ تباہ کن موسمیاتی تبدیلی واضح ہورہی ہے۔ طوفان، خشک سالی، زلزلہ ہر سال سرمایہ داری پر حملہ آور ہونے لگے ہیں۔ قدرتی وسائل، میٹھا پانی ، جنگلات، تیل اور دیگر دھاتوں۔ کے خزانے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خالی کیے جارہے ہیں اور اس عالمگیر تباہی کو کوئی نہیں روک سکتا۔ نہ قومی حکومتیںنہ بین الاقوامی ادارے نہ ملٹی نیشنل کمپنیاں نہ سائنس دان کیوں کہ فطرت سے سرمایہ داری کی جنگ سرمایہ دارانہ کلیدی ہدف، ترقی کی مسلسل جستجو ہے اور ترقی کا مطلب ہی تسخیر فطرت ہے۔ سرمایہ داری اس جنگ کو ختم نہیں کرسکتی۔ وہ یہ جنگ لازماً ہار جائے گی اور بیشترist Environmentalسائنس دانوں کا خیال ہے کہ اس شکست کے وقوع پذیر ہونے میں زیادہ دیر نہیں لیکن ان کے خیال میں سرمایہ داری کی شکست اور کرہ ارض کا تباہ ہونا ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔

ہم تو ڈوبے ہیں مگر یار کو لے ڈوبیں گے

سرمایہ دارانہ معاشرتی بحران کا دوسرا اظہار اس بات سے ہوتا ہے کہ آج  کل سرمایہ دارانہ عدل کا کوئی مربوط تصور پیش نہیںکیا جا سکتا ۔ انیسویں صدی کے آخر میںسرمایہ دارای جب لبرل تشکیل معاشرت سے دوچار ہوئی تو سوشلسٹوں نے سرمایہ دارانہ عدل کا ایک دوسرا مقبول عام تصور پیش کیا۔ یہی کام ١٩٣٠ اور ١٩٤٠ء کی دہائیوں میں Keynes اور اس کے پیروں نے کیا لیکن آج کی سرمایہ دارانہ اصلاحی (Reformist) تحریکیں یہ کام کرنے سے قاصر ہیں۔ یہ تحریکیں  جو (New Social Movements) کہلاتی ہیں سرمایہ دارانہ نظام کی کسی ایک سرمایہ دارانہ ظلم کوتلف کرنے کی جدوجہد کرتی ہیں لیکن ان میں یہ سکت نہیں کہ سرمایہ دارانہ معاشرت اور ریاستی ڈھانچہ کی کسی ہمہ جہت ترتیب نو کو ممکن بناسکیں۔ لہٰذا ان کی مہمات تفریح اور کھیل تماشے سے آگے نہیں بڑھتیں اور ان کی معاشرتی تنقید کی بنیاد پر کوئی نئی عوامی جدوجہدی پیدا نہیں ہوتی۔ New Social Movement کی ادارشوں اور تنقید کو استعماری ادارہ (مثلاً IMF اور World Bank) باآسانی اپنے عملی مباحث (Policy Discourse) میں ضم کرلیتے ہیں۔

گلوبل  Civil Society  ایک عام آدمی کو اپنے میں ضم کرنی کی سکت نہیں رکھتی۔ گلوبل اشرافیہ کے ماتحت جو معاشرہ قائم ہوتا ہے وہ پیہم انتشار کا شکار ہوتاجاتا ہے۔ ایسے لوگ جو اس معاشرہ میں اپنے آپ کو اجنبی گردانتے ہیں، ان کو  Underclass کہتے ہیں۔ ان کی تعداد بڑھتی جاتی ہے۔ معاشرتی انتشار کو ختم کرنے اور معاشرتی تفہیم کو فروغ دینے کا کوئی مرکزی محور موجود نہیں۔ معاشرتی مکالمہ بتدریج ناممکن ہوتا جاتا ہے کیوں کہ ایسے معاشرہ میں اقداری ارتباط مفقود ہوجاتاہے ۔ ہر شخص اپنے مجبور محروم، خطرات گہرا ہوا اور مایوس  ہوگا۔ یہی  احساس رکھنا Schizophrenia  ہے اور آج امریکہ میں Schizophrenia ایک وبا کے طور پر پھیل گیا ہے۔ بقول Jones وہ ایک Mass Phenomena ہے اور ہر امریکی کسی نہ کسی حد تک اس کا شکار ہے۔ (امام خمینی نے آج سے ٢٥ سال پہلے فرمایا تھا ”ہر امریکی شیطان بزرگ ہے۔”( ایسے میں معاشرتی ارتباط اور ہمہ آہنگی (Social integration and solidarity) کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ معاشرتی زندگی میڈیا اور آئی ٹی (Information Technology) میں ضم ہوجاتی ہے۔ معاشرتی تغمیر جو مستقل وقوع پذیر ہوتا ہے بتدریج ناقابل فہم ہوتا چلا جاتا ہے۔

ماڈرن ازم اور پوسٹ ماڈرن ازم

Postmodernism کی اس انفرادی، معاشرتی اور ریاستی تنقید کا Modernism کے فلسفیوں کے پاس کوئی ہمہ گیر جواب موجود نہیں۔ وہ سب (Habermas, Callincos, Gadamar, Rawls  ) اس تنقید کے مختلف پہلوئوں کو اپنی فکر میں سموتے ہوئے اور Postmodernist تنقیدوں (Discourses) پر وضاحتی حاشیہ لکھتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان کا جزوی تنقید کا ٹیپ کا بند یہ ہے کہ Postmodernism ماڈرن ازم ہی ہے۔”

اور یہ بات درست بھی ہے اور غلط بھی۔ غلط ان معنوں میں ہے کہ Post Modernism تنویری احداف آزادی، مساوات اور ترقی کو نامعقول اور ناقابل حصول سمجھتے ہیں اور بلا خوف تردید یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ Postmodernist تنقید آزادی مساوات اور ترقی کی نامعقولیت اور لاحصولیت ثابت کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔

لیکنModernistsکا یہ دعویٰ ہے کہ Postmodernists دراصل Modernist ہی ہیں اور جس انفرادیت، معاشرت اور تنظیم اقتدار کی تشریح وہ پیش کرتے ہیں وہ Hyper Modernity ہی ہے۔ ان معنوں میں درست ہے کہ Post Modernist سرمایہ دارانہ احداف… آزادی، مساوات اور ترقی کو قبول کرتے ہیں رد نہیں کرتے اور گو کہ وہ بحیثیت مجموعی سرمایہ دارانہ عدل کے قیام سے مایوس ہیں چند ناانصافیوں کو ختم کرنے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔ مثلاً  Foucault نے اغلام بازوں کے حقوق کے لیے سر دھڑ کی بازی لگادی۔ Derrida  نے عراق کی 2003 کی جنگ کی مخالفت میں   Habermas کا ساتھ دیا۔ Deluze جانوروں کے حقوق کا بہت فاعل (Active) وکیل ہے۔ Rorty پینشروں (Pensioners) کے سماجی حقوق کے تحفظ کی تحریک میں شامل ہے وغیرہ۔

سرمایہ دارانہ نظاماتی غلبہ کی توجیہ دو مذہب دشمن یورپی تحریکوں نے کی۔ ایک تحریک تنویر (Enlightenment) اور دوسری تحریک رومانویت (Romanticism) پوسٹ ماڈرنسٹ تحریک رومانونیت کے دورِ حاضر کے پیرو کار ہیں۔ ماضی قریب میں ان کے رہنما Neitzsche, Shopenhouer اور Dewey رہے ہیں اور ظاہر ہے یہ سب سرمایہ داری کے وکیل تھے گو کہ ان تینوں نے بھی تنویری معقولیت (Epistemology) کی تردید کی تھی۔

Postmodernism سرمایہ دارانہ اھداف کی تصدیق جمالیاتی (Aesthetic) بنیادوں پر کرتی ہے۔ چارلس ٹیلر (Charles Taylar) کے مطابق چوں کہ وہ یورپی ہے اور اس کی تاریخ لبرل معاشرت کے ارتقا کی تاریخ ہے لہٰذا آزادی، مساوات اور ترقی کا فروغ اس کی تاریخی شناخت کے ہم معنیٰ ہے گو کہ وہ ان اھدا  ف کی معقولیت کا کوئی جواز پیش نہیں کرسکتا۔ اس کا آزادی، مساوات اور ترقی سے لگائو ایسا ہی ہے جیسا اس کاکلاسیکی موسیقی، آرٹ، ادب اور رقص سے لگائو۔ یہ لگائو ہی Charles Taylor،  کو Charles Taylorبناتے ہیں، آزادی، مساوات اور ترقی سے غداری اپنی تہذیب اور تاریخ سے غداری ہے۔

Rorty ان خیالات سے متفق ہے۔ وہ کہتا ہے کہ یہ درست ہے کہ اس کی تاریخ میں بہت سے ایسے واقعات ہیں جس پر اس کو شرمندہ ہونا چاہیے۔ لیکن Rorty  کی تاریخ Rorty   کو یہ سکھاتی ہے کہ Rorty ایک قائم بذات و مطلق عنان خود تخلیقی انفرادیت (Autonomous Being) ہے۔ وہ صرف اپنے آپ کو جواب دہ ہے۔ خدا کو جواب دہ نہیں۔

Rorty کہتا ہے کہ یہ درست ہے کہ ہم نے کروڑوں ریڈ انڈین قتل کیے لیکن چوں کہ ہم خود مختار اور کسی کو جواب دہ نہیں، لہٰذا ہمارا یہ حق ہے کہ ہم اپنے آپ کو معاف کردیں اور کسی سے معافی مانگنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہم نے اپنے آپ کو ریڈ انڈین کے قتل کے لیے معاف کردیا ہے اور اگر کل امریکی ریڈ انڈنینوں کے قتلِ عام سے امریکی اپنے کو معاف کراسکتے ہیںتو آج عراق اور افغانستان اور مجاہدین اسلام کے قتل عام سے  اپنے آپ کو معاف کیوں نہیں کراسکتے۔ انہیں اپنے آپ کواس قتل عام سے بھی معاف کردینا چاہیے (Rorty امریکن اور Charles Taylar انگریز ہے۔ الحمدللہ کے دونوں ملعوں پچھلے چند سالوں میں جہنم واصل ہوچکے ہیں۔

بیشتر Postmodernist امریکی استعمار کے وکیل اور حلیف ہیں ۔ وہ مغربی تہذیب کے عالمی غلبہ کے مدعی اور متمنی ہیں اور جس حکمتِ عملی (Strategy) کے ذریعہ اس کو ممکن بنانا چاہتے ہیں وہ Multiculturalism ہے۔

Multiculturalism سے مراد یہ ہے کہ معاشرہ میں مختلف النواع ثقافتوں کو فروغ پانے کے مواقع ملنا چاہیے لیکن ان ثقافتوں کی ایسی تشریح کو عام کیا جانے جو سرمایہ دارانہ احداف… آزادی، مساوات اور ترقی کی ا ثبات ہو۔ ہر ثقافتی گردہ (Cultural Community) اپنی تاریخی روایات کے تناظر میں آزادی، مساوات اور ترقی کے مستقل جستجو کی توجیح پیش کرے اور سرمایہ دارانہ نظام زندگی میں اپنی منفرد شناخت تلاش کرے۔ Foucalt نے سرمایہ دارانہ قوت (Power) کی وکالت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ قوت  متوع یکسانیت (Unity indivesity) کو ممکن بناتی ہے اور یہی اس کی اصل خوبی ہے۔ ہر فرد اور ہر کیمونسٹی سرمایہ /آزادی کی پرستش کرے لیکن اپنے تاریخی ورثہ رسوم، روایات اور میلانات کے مطابق۔

اسلامی جدوجہد اور پوسٹ ماڈرنزم:

مسلم دنیا میں سب سے نمایاں  Postmodernist اکبر ایس احمد ہے (یہ ایک آغا خانی ہے، کیمبرج میں پروفیسر تھا اب امریکا میں مقیم ہے) ایک اور پوسٹ ماڈرنسٹ آدرشوں سے متاثر مفکر (جو کہ پہلے Marxist کہتا تھا) اقبال احمد تھا جو دس سال قبل اسلام آباد میں مر گیا ۔) یہ Multiculturalism کا وکیل اور سلمان رشدی ملعون کا قریبی ساتھی ہے (١٩٩١ء میں سلمان رشیدی نے اکبر ایس احمد کے ہاتھ اسلام قبول کیا تھا)۔ اس نے Ernst Gellner کے تعاون سے Postmodernist آدرشوں کی اسلام کاری کرنے کی کوشش کی ہے۔

انگلستان اور امریکا میںیہ کوشش ان معنوںمیں بار آورثابت ہوئی ہے کہ وہاں کے کئی اسلامی حلقہ( جن میں کچھ مساجد بھی شامل ہیں ) یکجہتی پوسٹ ماڈرنسٹ تحریکوں (New Social Movements) سے اشتراک عمل پر آمادہ ہوگئے اور امریکا اور برطانیہ کی مسلم کمینٹیوں (Communities) کے معاشرتی مفادات کے تحفظ کے لیے اس اشتراک عمل کو ناگزیر سمجھنے لگے۔ اس سے لازماً اسلام کی نظاماتی شناخت مجروح ہوئی ہے اور اسلامی جدوجہد ردِ سرمایہ داری کی مخالفت کی جدوجہد نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ حقوق کے حصول کی جدوجہد میں ضم ہورہی ہے۔

عیسائی قیادت نے انیسویں صدی کے بعد یورپ میں اور دور حاضر میں لاطینی امریکا میں یہی رویہ اختیار کیا ہے بہت سے پادری سوشل رفارمر (Social Reformer) بن گئے اور عیسائی تعلیمات کی سماجی اصلاحی (Social Reformist) تعویلات پیش کی جانے لگیں۔ لیکن اس تجربہ سے ثابت ہوگیا کہ ان یکجہتی پوسٹ ماڈرنسٹ (New Social Movements) سے تعاون کے نتیجہ میں مذہبی شناخت کو فوقیت نہیں ملتی۔ کوئی اغلام باز، فیمسنٹ (Feminist) ماحولیاتی (Environmentalist) عیسائی نہیں بنتا بلکہ عیسائی نوجوان اغلام بازی Feminism اور Environmentalist آدرشوں سے متاثر ہوکر مذہبیت سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔

خطرہ اس بات کا ہے کہ  New Social Movements سے اشتراک عمل کے نتیجہ میں مسلمان نوجوان بھی اغلام بازEnvironmentalist ، امن پرست (Pacifist) اور Feministبن جائیں گے اور اسلامی مذہبی آدرشیں ان کے لیے بے معنی ہوجائیں گی(سو شل ریفارم Social Reform) ) کا کام ایک دو دھاری تلوارہے ۔اگرانقلا بی عمل سے مربوط ہو جائے تومعا شرتی ادارتی صفبندی میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔اگر سرمایادارانہ ریاستی تنا ظر میں کیا جائے تو انقلا بی عمل کی بیخ کنی کردیتا ہے)   یورپ میں ہماری کامیابی اس بات پر منحصر ہے کہ ہم کس رفتار سے ایک عام یورپی باشندے کو مسلمان بناتے ہیں۔ اس بات کو فرانس کی زیر زمین اسلامی تحریک کے مرشد، شیخ ابو بکر گاغودی  (١٩٥٠ء دہائی میں آپ فرنچ کمیونسٹ پارٹی (PCF) کے جنرل سیکرٹری اور Foucault کے قریبی ساتھی تھے۔ ١٩٦٠ء کی دہائی میں مشرف بہ اسلام ہوئے اور درقاویہ سلسلہ کے شیخ مقرر ہوئے۔ فرانس سے آپ نے تحریک برپا فرمائی ) خوب جانتے ہیں اورآپ کی مساعی جلیلہ کے نتیجہ میں آج فرانس کی اسلامی تحریکات New Social Movements) کی تردید میں سب سے نمایاں معاشرتی قوت بن گئی ہیں۔ انہوں نے فرانس کے مسلم عوام کو گوناں (Gunan) آدرشواں (Schuan) کے ملحدانہ تصوف (جو وحدت ادیان کا پرچار کرتی ہے اور اسلام، ہندو مت اور بدھ مت کا ملغوبہ ہے) سے محفوظ رکھا اور توحیدی عیسائیوں (Cathars and Unitarians) کو اسلام سے متعارف کیا (شیخ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ عیسائیت اسلام کی نامکمل اور مسخ شدہ تصور کے علاوہ کچھ نہیں۔حضرت عیسئی کے حواری مسلمان تھے۔ اور پہلی اور دوسری صدی عیسوی میں بڑی تعداد میں عیسی علیہ سلام مبلغیں موحدین یعنی مسلمان ہی تھے۔ اسلام یورپ کا ورثہ ہے۔) اور عالمی اسلامی جہاد کے پر جوش حامی پورے فرانس میں پیدا کیے۔ فرانس، سوئزرلینڈ اور اسپین عوام کی سطح پر دعوت اسلامی  سوشل ریفام یا کمیونٹی کے حقوق کی جدوجہد میں ضم نہیں ہوئی۔

مسلم دنیا میں Postmodernismکا سب سے اہم اظہار Pragmatism کی مقبولیت ہے۔ Pragmatism اس  رویہ کو کہتے ہیں جو عمل کا جواز اس کے نتیجہ کو سمجھتا ہے اور نتیجہ سے مراد دنیاوی بقا (Survival) ہے۔ Dewey کہتا ہے کہ حق  inquiry ہے یعنی وہ عمل جس کے ذریعہ ایک حامی ماحول میں اپنے مفادات کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔ اور ”مفاد” دنیا میں بقا ہے اور بقا کا انحصار قوت کی اجتماع پر ہے۔ Dewey بھی قوت کا پجاری ہے۔

Pragmatism کا اثر جماعت اسلامی کی پالیسی سازی پر نہایت نمایاں ہے اور Pragmatism کے سب سے اہم وکیل پروفیسر خورشید احمد ہیں۔ اس کی ایک ناقابلِ تردید مثال تو جماعتِ اسلامی کا چین اور سعودی عرب سے قریبی بڑھتا ہوا تعلق ہے، جماعتِ اسلامی کی چین اور سعودی عرب کی حمایت اور ان ممالک سے تعاون خالص Pragmatic بنیادوں پر ہے۔ چین کی حمایت اس لیے کرتی ہے وہ پاکستان میں امریکی اثرات کو چیلنج کرنے والی واحد علاقائی قوت ہے جو ایک مسلم قوم پرست حکومت کی ممکنہ پشت پناہ بن سکتی ہے۔

سعودی عرب سے تعاون اس لیے کرتی ہے کہ سعودی مالی اور انتظامی تعاون کے بغیر جماعت کا یورپ اور امریکا کام کرنے والے برادر تنظیموں، اسلامک فائونڈیشن ، اسلامک مشن یو کے اور ایکنا (ICNA) کو اس تعاون کی اپنے وجود کو قائم رکھنے کے لیے ضرورت ہے۔

Pragmatism کے نفوذ کے نتیجہ میں جماعت فکری جمود کا شکار ہوگئی ہے۔ مولانا مودودی کی فکر کی جو تنقید شوریٰ اجلاسوں میں ١٩٤٠ء کی دہائی سے آج تک مستقل ہورہی ہے، وہ اب اخفا ہے۔ نصف صدی سے زیادہ عرصے سے ”رودادِ جماعت اسلامی (شوری کے اجلاس کی کارروائی کی رپورٹ)   نہیں چھاپی گئی۔ مولانا مودودی پر علماء کی اصولی تنقید ہمیشہ نظر انداز کیا جاتا ہے اور کسی اعتراض کا جواب نہیں دیاجاتا۔

اور جماعت کی قیادت اس رویہ کا خالصتاً Pragmatic جواز پیش کرتی ہے۔ اگر شوری میں آرا کے اختلافات کو عام کیا گیا اگر مولانا مودودی کی فکر کو متنازع تسلیم کیا گیا۔ اگر جماعت کے تاریخی تجربات کا موضوع زیر بحث لایا گیا تو قیادت کہتی ہے کہ کارکنان میںConfusion پھیلے گا۔ نظم جماعت منتشر ہوگا اور جماعت کا وجود خطرہ میں پڑ جائے گا۔ لیکن جیسے کہ مولانا اصلاحی نے١٩٥٧ء اور ١٩٦٦ء میں سوال اٹھایا تھا، اپنے جماعتی وجود کے دوام کو مقدم رکھنے کا کیا شرعی جواز ہے۔ جماعت اسلامی کس لیے قائم ہوئی؟ Pragmatic رویہ سے جو جواب اخذ ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ ”جماعت صرف اپنے قائم رہنے کے لیے قائم ہوئی، لیکن یہ بات بالکل غلط ہے جماعت اسلامی غلبہ دین کے لیے قائم ہو ئی اپنے قائم رہنے کے لیے قائم نہیں ہوئی۔ غلبہ دین کی جدوجہد جماعت اسلامی کے قیام سے تقریباً ١٤سو سال پہلے سے جاری رہی ہے۔ جماعت اسلامی اس جدوجہد کو جاری رکھنے کا ذریعہ بن سکتی ہے لیکن غلبہ دین کو جاری رکھنے کے لیے جماعت اسلامی کا وجود ضروری نہیں۔

سوال یہ نہیں کہ جماعت اسلامی کے وجود کو ابدی کیسے بنایا جائے (ابدی صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے)۔ (غلبہ دین کی جدوجہد بھی ابدی نہیں۔ وہ بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ وارد اور انتقال کے بعد ختم ہوجائے گی)۔ سوال یہ ہے کہ جماعت اسلامی غلبہ دین کو مہمیز دینے کے لیے کیا کررہی ہے اور کیا کرسکتی ہے حقیقت یہ ہے کہ مولانا مودودی کی سیاسی فکر کی بنیاد پر جماعت اسلامی نے جو پالیسی سازی کی ہے اس کا اثر محدود سے محدود تر ہوتا جارہا ہے۔ وہ سرمایہ دارانہ نظام اقتدار کا حصہ بنتی چلی جارہی ہے۔ اس کے کارکنوں کے معاشی مقاصد سرمایہ دارانہ نظام سے منسلک ہوتے جارہے ہیں۔ جماعت کے پاس معاشرتی ادارتی صف بندی کا کوئی تصور موجود نہیں۔ مولانا مودودی کی فکر کی بنیاد پر اسلامی انقلابی ریاستی نظام قائم نہیں کیا جاسکتا صرف ترکی اور مصری جیسی اسلامی حکومتیں قائم کی جاسکتی ہیں جو سرمایہ دارانہ استعمار سے سمجھوتے کرنے پر ہمہ وقت مجبورہیں (اخوان مصر بھی اپنے اسرائیل سے تعلقات کو جاری رکھنے کی Pragmatic جواز پیش کرتی ہے) اگر جماعت اسلامی کو غلبہ دین کی جدوجہد میں ایک اہم کردار ادا کرنا ہے تو مولانا مودودی کی سیاسی فکر کو بھی رد کرنا ہوگا اور اپنے تعلیمی ڈھانچہ کو بھی مولانا مودودی کی سیاسی فکر لاک (Lock) اور جیفر سن (Jefferson) سے ماخوذ سے امام ماوردی، امام ابن خلدون اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ اجمعین کی فکر سے ماخوذ نہیں۔ اس سیاسی فکر کی بنیاد پر اسلامی نظاماتی اقتدار مرتب نہیں کیاجاسکتا جماعت اسلامی کا تنظیمی ڈھانچہ دستوریت اور جمہوریت کا اسیر ہے اور اس نے نہ صوفیا کی جماعتوں اور نہ مجاہدین کی جماعتوں کی صف بندی سے استفادہ کیا۔ پھر یہ مسلم عوام کو اپنے ارد گرد کیسے اکٹھا کرسکتی ہے۔

Post Modernism کی دوسری خصوصیات کا اثر مسلم دنیا کی اسلامی تحریکات پر بہت محدود ہے۔ بحیثیت مجموعی اسلامی گروہ نہ Modernist مباحث کو سمجھتے ہیں نہ ان کو رد کرنے کی ضرورت کے قائل ہیں۔ وہ سرمایہ دار نظاماتی صف بندی اور اس کی علمیت۔ یعنی سائنس اور سوشل سائنس کو ایک غیر اقداری (Value less) تکنیکی حقیقت کے طور پر قبول کیے ہوئے ہیں۔ وہ سرمایہ داری کی علمی اور عملی غلبہ کو چیلنج نہیں کرتے۔ وہ اس کی Modernist اور Post Modrenist توجیہات سے ناواقف بھی ہیں اور ناواقف رہنا بھی چاہتے ہیں۔ یہ تحریکات تحفط دین اور غلبہ دین کے لیے ایک نہایت مضر اور خطرناک رویہ ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *