تاریخ:

لبرل ازم (Liberalism)سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کو وہ نظریاتی جواز فراہم کرتا ہے جو تاریخی طور پر سب سے زیادہ کامیاب ثابت ہوا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی یورپ میں چودہویں صدی عیسوی سے رائج ہونا شروع ہوا اور اس نظامِ زندگی کی توجیہہ ان عیسائی مفکرین نے کی جو پوپ اور کیتھولک ازم (Catholicism) کے باغی تھے۔ لیکن یہ توجیہات سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کے فروغ اور استحکام کے لیے زیادہ کارآمد نہ ہوسکیں۔ سولہویں اور سترہویں صدی میں جو غیر کیتھولک ریاستیں یورپ میں قائم ہوئیں وہ مذہبی ریاستیں تھیں۔ اور انہوں نے سرمایہ دارانہ  معاشرت کے فروغ کی راہ میں مختلف پابندیاں عائد کیں۔ ان مذہبی ریاستوں کے خلاف سرمایہ دارانہ حلقوں نے جو بغاوت برپا کی وہ لبرل ازم ہے۔ لبرل ازم کا بانی مفکر جان لاک (John Locke) ہے۔ میری رائے میں لبرل ازم کی پانچ صدیوں کی تاریخ میں اس سے زیادہ مؤثر مفکر پیدا نہیں ہوا۔ یہ اتنا صاحبِ اثر مفکر ہے کہ اس نے دورِ حاضر کی اسلامی فکر کو بھی بہت متاثر کیا ہے اور بیسویں صدی کے سب سے اہم اسلامی سیاسی مفکر مولانا مودودی جان لاک کے کلیدی تصورات کی اسلام کاری اپنی کتابوں مثلاً ”تحریکِ اسلامی کی اخلاقی بنیادیں” اور ”خلافت و ملوکیت” میں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جان لاک اس عیسائی ریاست کا باغی تھا جس کو Oliver Cromwell نے سترہویں صدی کے وسط میں برطانیہ میں قائم کیا تھا جو لگ بھگ تیس سال تک قائم رہی۔ لاک کی اہم ترین بنیادی کتاب کا نام ” The Second Tretise on Government ” ہے اور اس کتاب میں لبرل تصورِ انفرادیت، معاشرت اور ریاست کے جو تصورات پیش کیے گئے ہیں لبرل مفکرین پچھلے پانچ سو سالوں میں ان کی تشریح اور تفصیل ہی بیان کررہے ہیں۔ ان تصورات کی فلسفیانہ توجیہہ اگلی صدی میں فرانس میں Rousseau اور جرمنی میں Emanuel Kant نے کی اور اٹھارہویں صدی میں اس فکر کی بنیاد پر امریکا اور فرانس میں کامیاب سیاسی انقلاب برپا کیے گئے۔  اٹھارہویں صدی کے یورپ میں لبرل ازم کی مربوط اور منظم فکری مزاحمت نظر نہیں آتی اور عیسائی سیاسی تصورات لبرل مباحث میں ضم ہوتے نظر آتے ہیں۔ انیسویں صدی میں Marx  اور Nietzschلبرل ازم کے اہم فکری مخالفین کے طور پر ابھرے اور انہوں نے اشتراکیت اور قوم پرستی کو سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کے فروغ کے لیے زیادہ ساز گار نظریات کے طور پر پیش کیا۔ اور اشراکیت اور قوم پرستی کامیاب عوامی تحاریک برپا کرنے میں کامیاب ہوئیں اور جرمنی، جاپان، روس اور چین میں اشراکیت اور قوم پرست ریاستیں قائم ہوگئیں لیکن سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کے فروغ اور استحکام کے لیے یہ اتنی مفید ثابت نہ ہوسکیںجتنی لبرل ریاستیں اور عیسائی فکر کی طرح قوم پرستانہ اور اشتراکی فکر بھی بتدریج لبرل مباحث میں ضم ہوتی چلی گئیں۔ بیسویں صدی سے لبرل ازم کو دو دیگر سرمایہ دارانہ نظریات Post Colonialism اور Post Modernism کے چیلنج کا سامنا کرنا پڑا۔ فکری سطح پر

Post Colonialism  کے چیلنج کو امریکی مفکر جان رالز (John Rawls) اور Thomas Nagel نے لغو (Incoherent) ثابت کیا اور Post Modernism کا حتمی نقد جرمن مفکرین ہیبر ماس(  Habermas ) اور Gadamor  نے مرتب کیا۔ Post Modernism اور Post Colonialism ان معنوں میں ناکام تحریکیں ہیں کہ وہ سرمایہ کی مسلسل بڑھوتری کے لیے لبرل ازم سے بہتر معاشرتی اور ریاستی ادارتی صف بندی کے تصورات پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ لیکن ان معنوں میں یہ تحریکیں کامیاب ہیں کہ انہوں نے سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کے ایسے تضادات کی نشاندہی کی ہے جن کو رفع کرنے کی استطاعت لبرل نظریات نہیں رکھتے۔

لبرل نظامِ فکر ان معنوں میں یقینا ایک بحران کا سامنا کررہا ہے کہ اب یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ لبرل اہداف یعنی ”آزادی” اور ”ترقی” ناقابلِ حصول اہداف ہیں۔ لیکن یہ بات صرف منطقی اور فکری سطح پرواضح ہوئی ہے اور کوئی بھی لبرل مفکر آج یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ لامحدود ترقی اور آزادی قابلِ حصول اہداف ہیں (یہ بات سب سے واضح طور پر ان مباحث میں پائی جاتی ہے جن کی ابتدا  Martin Heidegger نے کی اور جو آج Complexity theory کہلاتی ہے) اور یہ سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کی شکست و ریخت کا ایک مظہر ہے کیوں کہ آزادی اور ترقی صرف لبرل ازم کے اہداف نہیں وہ قوم پرستی اور اشتراکیت کے بھی اہداف ہیں۔ لبرل ازم، اشتراکیت اور قوم پرستی کی لغویت کا اظہار سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کی بتدریج شکست و ریخت کا ایک مظہر ہے لیکن جیسا کہ Alain Badiou اور Slavoj Zizek واضح کرتے ہیں، ابھی یہ بات بالکل عیاں نہیں کہ سرمایہ دارانہ نظمِ حیات کا متبادل کیا ہے۔ Zizek کہتا ہے کہ ہم جس دور میں رہ رہے ہیں وہ ایک Liminal دور ہے۔ یہ واضح ہوگیا ہے کہ آزادی اور ترقی غیر معقول اور لغو اہداف ہیں لیکن انسانوں کی بہت بڑی اکثریت انہی نامعقول اور لغو اہداف پر ایمان رکھتی ہے اور رائے عامہ کو متاثر کرنے والے تمام مباحث (Policy discourse) انہی اہداف کے حصول کی حکمت عملیاں ترتیب دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔  کوئی بھی سرمایہ دارانہ مخالف مزاحمتی تحریک آزادی اور ترقی کے اہداف کو واضح طور پر رد نہیں کرتی بلکہ اپنی مزاحمت کو حصولِ آزادی اور ترقی کا ذریعہ گردانتی ہے ۔ان حالات میں یہ بات بالکل واضح نہیں ہے کہ سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کا متبادل کیا ہوگا، اور کتنی صدیوں تک گو مگو کی یہ کیفیت جاری رہے گی۔ تحریکاتِ اسلامی میں یہ رائے عام ہے کہ آنے والا نظام اسلام ہی ہوگا لیکن لگتا تو ایسا ہے کہ امام مہدی علیہ السلام کے ظہور میں ابھی کئی ہزار سال کا وقفہ باقی ہے۔ آج تحفظِ دین اور غلبۂ دین کی جدوجہد نہایت منتشر اور غیر مربوط ہے اور سست روی کا شکار ہے۔ اسلام میں داخل ہونے والوں کی تعداد محدود ہے اور نو مسلموں کی عظیم اکثریت مسلمانوں کی عظیم اکثریت کی طرح سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کو رَد کرنے کی نہ استطاعت رکھتی ہے اور نہ خواہش۔ علماء اور صوفیاء فرقہ وارانہ جھگڑوں میں بری طرح پھنسے ہوئے اور غلبۂ دین کی جدوجہد سے قطعاً لاتعلق ہیں۔ تحریکاتِ اسلامی سرمایہ دارانہ جمہوریتوں کا جز و لاینفک بنی ہوئی ہیں۔ یوں اسلامی حکومتیں قائم ہوئی ہیں لیکن ان سب (ایران، سوڈان، مصر وغیرہ)نے عالمی سرمایہ دارانہ نظام سے سمجھوتا کرلیا ہے۔ مجاہدین کی جدوجہد Mezzanine states کی سطح سے بلند ہوتی نظر نہیں آتی۔ ان ریاستوں کو عوامی پذیرائی حاصل نہیں۔ اور مجاہدینِ اسلام عوامی مقبولیت حاصل کرنے کی کوئی جدوجہد مرتب کرنے کے قائل نہیں۔ ان کا رویہ تو اس شعر سے عیاں ہے:

راہِ خدا کے متوالے ہیں اس سے بالکل بے پروا ہیں

کون ہے راضی کون خفا ہے، زنداں زنداں مقتل مقتل

اس طرح جہاد جاری توصدیوں تک رہ سکتا ہے لیکن اس جہاد کے ذریعے توسیع پذیر نظام قائم نہیں کیا جاسکتا۔ ان حالات میں یہ توقع رکھنا کہ مستقبلِ قریب میں ہم کو عالمی نظاماتی غلبہ حاصل ہوگا خوش فہمی کے علاوہ کچھ نہیں۔ یہ یقینا ممکن ہے کہ اسلام سرمایہ دارانہ نظام کے عالمی متبادل کے طور پر اُبھرے لیکن یہ ہر گز ناگزیر نہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ہمیں ایک طویل مدت جدوجہد مرتب اور نافذ کرنا پڑے گی۔

وقتِ فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے

نورِ توحید کا اتمام ابھی باقی ہے

اس جدوجہد کی ابتداء سرمایہ دارانہ نظریات سے اچھی طرح واقفیت پر منحصر ہے۔ ذیل میں لبرل تصورات کی تشریح کرنے کی کوشش کروں گا۔

لبرل تصورِ فرد:

اشراکیت اور قوم پرستی کی طرح لبرل ازم کا بنیادی عقیدہ بھی لاالٰہ الا الانسان ہے۔ لبرل ازم کا الٰہ ہر وہ فرد ہے جو اس کلمۂ خبیثہ پر ایمان لے آئے۔ لبرل نظریہ کے تحت جو فرد اس کلمۂ خبیثہ پر ایمان نہ لائے وہ انسان نہیں۔ امریکی براعظم پر قبضہ کرنے کے دوران تقریباً آٹھ کروڑ سرخ ہندیوں (جو ایک روایت کے مطابق حضرت یونس علیہ السلام کے امتی تھے) کو قتل کیا گیا اور ان کے املاک ان سے چھین لیے گئے۔ Locke  نے اس قتلِ عام اور لوٹ مار کو اس بنیاد پر جائز قرار دیا ہے کہ سرخ ہندی انسان نہیں تھے۔ ان کو اپنے انسان ہونے کا شعور نہ تھا۔ وہ قدرتی وسائل پر محنت کرکے سرمایہ کو مستقل لامتناہی بڑھوتری کے لیے استعمال نہ کرتے تھے لہٰذا ان کو قتل کرنا جائز بھی اور ضروری بھی تھا کیوں کہ وہ آوارہ بھینسوں سے کچھ زیادہ مختلف نہ تھے جن کو ختم کیے بغیر امریکی دولت کو فروغ دینا ناممکن تھا۔

بیسیوں صدی کے اہم ترین لبرل سیاسی مفکر جان رالز کی بھی یہی رائے ہے وہ اپنی مشہور کتاب Political Libralismمیں لکھتا ہے جو افراد آزادی کو قدرِ مطلق کے طور پر قبول نہیں کرتے ان کو ختم کرنا ایسا ہی فرض ہے جیسا ایک متعدی وبا کا ختم کرنا۔ آزادی کے منکروں کو جواب دلیل سے نہیں گولی سے دیا جانا چاہیے۔

امریکی صدور بش اور اوباما نے گوانتاناموبے اور ابو غریب میں جاری ٹارچر کو اسی دلیل کی بنیاد پر جواز فراہم کیا ہے۔ اوباما کی نظر میں مجاہدینِ اسلام انسان نہیں کیوں کہ وہ آزادی پر نہیں بلکہ بندگی ٔرب پر ایمان لائے ہیں۔ مجاہدینِ اسلام کی کھال کھینچنا، ان کو زندہ جلادینا، ان کے معصوم بچوں کو قتل کرنا، ان کی عورتوں کی عصمت دری کرنا، ان کے گھروں کو مسمار کرنا اوباما اپنا فرض سمجھتا ہے۔

لبرل ازم مجاہدین ِاسلام کے خلاف وحشت ناک درندگی کو فرض گردانتا ہے۔ وہ مسلمانوں کو آزادی پر دلیل کے ذریعے نہیں گولی اور ٹارچر کے ذریعے ایمان لانے پر مجبور کرتا ہے۔ لبرل ازم وحشت ناک درندگی کو جواز فراہم کرنے و الا نظریہ اپنی پوری تاریخ میں رہا ہے۔

وہ آزادی کیا ہے جس پر لبرل ازم ہم کو ایمان لانے پر مجبور کرتا ہے؟ اس سوال کا سب سے واضح جواب Imanuel Kant نے اپنیCritiques میں دیا ہے۔ کانٹ کا بنیادی دعویٰ ہے کہ انسان قادرِ مطلق ہے۔ ہر فرد کے ذہن میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ ان اطلاعات کو جو اس کے حواسِ خمسہ اس کو فراہم کرتے ہیں اس طرح سے مرتب کرے کہ وہ مربوط تصورات (Concepts) میں ڈھل جائیں۔ ان تصورات کی تعمیر اور ترتیب کے ذریعے انسان تسخیرِ کائنات کا مکلف ہوجاتا ہے۔ وہ اپنی تمام خواہشات کے حصول کے لیے ایسا ذریعہ اختیار کرنے کے قابل ہوجاتا ہے جو کسی دوسرے انسان کو اپنی خواہشات کے حصول کی راہ میں مزاحم نہیں ہوتا۔ اشیاء اور اعمال کی قدر اس بنیاد پر متعین  ہوتی ہے کہ وہ عمل ہر انسان کو اپنی خواہشات کی تکمیل ممکن بنانے میں کتنا معاون ہے۔

کانٹ کے تصورات کے مطابق خرد نفس کی غلام بھی ہے اور معلم بھی۔ وہ نفس کی غلام ان معنوں میں ہے کہ وہ نفس کے احکام کی تعمیل کو رد نہیں کرسکتی اور معلم ان معنوں میں کہ خرد اس عمل کی نشاندہی کرتی ہے جس کے ذریعے نفس کے حکم کی تعمیل اس طرح ہو کہ کسی دوسرے انسان کے نفس کے حکم کی تکمیل میں مزاحمت نہ ہو۔ مثال کے طور پر اوباما زنا کرنا چاہتا ہے خرد اوباما کو بتائے گی کہ وہ زنا اس طرح کرے کہ ہیلری کلنٹن کی خواہشِ نفس کی تکمیل بھی ممکن ہوسکے۔ اگر ہیلری کلنٹن اوباما سے زنا کرنے راضی ہے تو اوباما ہیلری کلنٹن کے ساتھ زنا کرے اگر ہیلری کلنٹن اوباما کے ساتھ زنا کرنے سے راضی نہیں تو اوباما ہیلری کلنٹن کا احترام کرے اور زنا کسی دوسری عورت یامرد کے ساتھ کرے جو اوباما کے ساتھ زنا کرنے کو تیار ہو۔

Kant کے مطابق خرد (Reason) اوباما کو یہ سبق دیتی ہے کہ کسی عمل کو (مثلا زنا) کی کوئی مطلق قدر نہیں، قدر صرف طریقہ (Procedure) کی ہے اور یہ قدر صرف اس بات سے متعین ہوتی ہے کہ وہ طرائق بڑھوتریٔ آزادی یعنی بڑھوتریٔ سرمایہ میں کتنی معاون ہیں۔ ہر وہ عمل بے قدر ہے جو بڑھوتریٔ سرمایہ (یعنی بڑھوتریٔ آزادی) کو فروغ نہیں دیتا۔ ظاہر ہے کہ قدر کے تعین کا یہ نظام صرف اسی دائرے میں نافذالعمل ہے جہاں ہر فرد بڑھوتریٔ آزادی (یعنی بڑھوتریٔ سرمایہ) پر ایمان رکھتا ہو، لہٰذا دائرہ میں اگر ایسے افرا دموجود ہیں جو بڑھوتریٔ سرمایہ (یعنی بڑھوتریٔ آزادی) کو قدر مطلق کے طور پر قبول نہیں کرتے تو اوباما کا فرض ہے کہ ایسے افراد کو فی الفور قتل کردے۔ ایسے افراد کو دلیل  دینے سے کچھ حاصل نہ ہوگا کیوں کہ بڑھوتریٔ آزادی (یعنی بڑھوتریٔ سرمایہ) کو قدرِ مطلق کے طور پر قبول کرنے پر لوگوں کو مجبور ہی کیا جاسکتا ہے قائل نہیں کیا جاسکتا۔

جو لوگ بڑھوتریٔ آزادی (یعنی الوہیتِ انسان) پر ایمان لے آئے ان کو کانٹ   Human Being کہتاہے۔ بیسویں صدی میں پہلی مرتبہ بڑی تعداد میں انسان Human being بن گئے۔ بقول Foucalt سترہویں صدی سے قبل Human being کا وجود سرے سے ناپید تھا۔ لاک  Lockکے مطابق ہر Human being کے تین بنیادی ہیومن رائٹس ہوتے ہیں۔ یہ ہیومن رائٹس صرف ان افراد کے ہوتے ہیں جو الوہیتِ انسان پر ایمان لے آئے ہوں۔ ریڈ انڈین اور مجاہدینِ اسلام کے کوئی ہیومن رائٹس تسلیم نہیں کیے جاسکتے کیوں کہ وہ الوہیتِ انسان پر ایمان نہیں لائے۔ وہ Human being نہیں ہیں۔

اقوام متحدہ کے منشور کے تحت بنیادی  ہیومن رائٹس تین ہیں:

١… حقِ تحفظ زندگی:

ہر فرد کا یہ فرض/ حق ہے کہ وہ اپنی زندگی بڑھوتریٔ آزادی بڑھوتریٔ سرمایہ کے عمل میں جس طرح کھپانا چاہیے کھپائے۔ جب تک وہ زندگی اس فرض کی ادائیگی میں کھپائے رکھے گا اس کی زندگی محفوط رہے گی۔ اگر اس نے اپنی جان بڑھوتریٔ آزادی (بڑھوتریٔ سرمایہ) کے عمل میں مزاحمت ڈالنے کے لیے لگائی تو اوباما کا فرض ہے کہ اس کو قتل کردے۔ جیسے مجاہدینِ اسلام کو قتل کررہا ہے اور جیسا اوباما کے باپ  داداؤں نے آٹھ کروڑ ریڈ انڈین (سرخ ہندیوں) کو قتل کیا تھا۔

٢… حقِ ملکیت:

ہر فرد کا فرض / حق ہے کہ وہ اپنی محنت اور اپنا مال سرمایہ کی بڑھوتری کے عمل میں جس طرح چاہے لگائے رکھے، اگر اس نے اپنی محنت اور اپنا مال سرمایہ کی بڑھوتری میں رخنہ ڈالنے کے لیے استعمال کیا تو اوباما اس کا مال چھین لے گا جیسا کہ وہ افغانستان میں قبضہ جمائے ہوئے ہے اور جیسا کہ اوباما کے باپ دادائو ں نے سرخ ہندیوں کا تمام مال و اسباب چھین لیا تھا۔

٣… حقِ آزادیٔ رائے:

ہر شخص کا فرض  / حق ہے کہ وہ بڑھوتریٔ آزادی / بڑھوتریٔ سرمایہ کے فروغ کے لیے جو رائے دینا چاہے دے، مثلاً عریاں تصاویر کی اشاعت کا حق۔ انبیاء علیہم السلام کو گالیاں دینے کا حق / فرض وغیرہ ۔ چوں کہ لبرل معاشروں میں ذرائع ابلاغ   پر سرمایہ کی اجارہ داری مسلط ہوجاتی ہے لہٰذا سرمایہ آزادی مخالف آراء کی تشہیر تقریباً معدوم ہوجاتی ہے اور اگر ایسی آراء سامنے آئیں تو اوباما اس کو ضبط کرلیتا ہے اور اپنے حلیف اداروں کے ذریعے ان ناقدینِ سرمایہ کاری اور لبرل اقدار کی زندگی حرام کردیتا ہے۔

لبرل ازم جس انفرادیت کو فروغ دیتی ہے وہ شہوت اور غضب سے مغلوب انفرادیت ہے جیسا کہ اٹھارہویں صدی کے ایک عیسائی راہبIII St.lglesias   نے کیا۔ Human being انسانیت نہیں شیطانیت کا مظہر ہے۔ اوباما شیطانِ کامل ہے۔

لبرل معاشرت:

لبرل ازم فرد (Human being ) کو قائم بالذات (Autonomous) تصور کرتا ہے۔ ہر Human being  اپنا معیارِ خیر و شر اور اپنا نظامِ زندگی خود متعین کرنے کا مکلف تصور کیا جاتا ہے۔ ہر فرد اپنے نفس کے احکامات (خواہشاتِ نفسانیہ) کی تسکین کے لیے اپنی خرد کے ذریعہ ایسا نظام العمل (Life plan) مرتب کرتا ہے جو ہر دوسرے Human being کے اس مادی حق (Equal right) کو تسلیم کرتا ہے کہ یہ دوسرا Human being   بھی اپنی خواہشاتِ نفسانیہ کی تکمیل بغیر کسی رکاوٹ کے کرسکے۔

Rousseau کہتا ہے کہ معاشرہ کی بنیاد ایک ایسے Social Contract (معاشرتی معاہدہ) پر رکھی جاتی ہے، جس میں ہر Human being اپنی انفرادی آزادی کے تحفظ کے لیے اس آزادی پر ایسی حدود تسلیم کرتا ہے جو معاشرہ میں شامل تمام افراد کی آزادی کے تحفظ کے لیے ضروری ہوتی ہیں اس بنیاد پر ایک لبرل ریاست۔ دستوری جمہوریہ (Constitutional republic) قائم ہوتی ہے جس کا تذکرہ ہم اگلے سیکشن میں کریں گے۔

معاشرتی سطح پر Social Contract کی بنیاد پرجو ادارتی صف بندی عمل میں آتی ہے اس کو مارکیٹ (Market) کہتے ہیں مارکیٹ بازار کی ظالمانہ تنظیم ہے۔ مارکیٹ میں ہر بیوپاری صرف اپنے سرمایہ کی بڑھوتری کے لیے داخل ہوتا ہے۔ بازار اور مارکیٹ میں جو بنیادی فرق ہے وہ میں د و مثالوں کے ذریعے سمجھانے کی کوشش کروں گا:

بازار میں لین دین کا فارمولا ہے

CA -M-CB

جہاں C سے مراد ہے شے

 M  سے مراد ہے زر

بازار میں بیوپاری ایک شے مثلا کپڑا ( A C) لے کے آتا ہے اور اس کو زر (M) کے عوض فروخت کرتا ہے۔ اس زر سے وہ آٹا (CB) خریدتا ہے تاکہ اپنے بال بچوں کو پال سکے انفاق کرسکے وغیرہ۔ بازار میں آنے کا مقصد اپنی ضروریات کو پورا کرنا ہوتاہے۔ اس ہی کاروبار کو عبادت کا درجہ حاصل ہے اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

”سچائی اور ایمانداری کے ساتھ کاروبار کرنے والا آخرت میں انبیائ، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا۔” (ترمذی ابن ماجہ)

مارکیٹ میں لین دین کا فارمولہ

مارکیٹ میں بیوپاری زر (M) لے کر آتا ہے وہ اس زر سے خام مال (R) اور مزدوری (L)خریدتا ہے اور اس مزدوری اور خام مال کے ذریعے ایک شے(C) بناکر بیچتا ہے تاکہ مزید زر  (M1) کماسکے۔ M اورM1   میں جو فرق ہے وہA Cاور CB  فرق سے بالکل مختلف ہے۔ A C اور CBمیں نوعی  Substantive فرق ہے۔ A Cکپڑا اور CB آٹا ہے ۔  M اور M1 میں کو ئی نوعی فرق نہیں دونوںزر ہیں   M اور M1 میں فرق صرف عددی (Quantitative)  ہے۔ مارکیٹ کا بیوپاری کو شش کرتا ہے کہ           M  اور  M1  کا فرق(M1- M) زیادہ سے زیادہ ہو ۔یہ اس کے کاروبار کرنے کا مقصدہے۔ اس کے کاروبار کرنے کا مقصد ضروریات پورا کرنا صرف ضمنی طور پر ہوتا ہے اور اصل مقصد(M1- M)  کی زیادہ سے زیادہ بڑھوتری ہے۔

M  اور1 Mکا فرق بیوپاری کا منافع ہوتا ہے لیکن اگر یہ منافع اصولاً مزید منافع کمانے کے لیے استعمال ہو اور اس کے باقی تمام استعمال ضمنی ہوجائیں تو یہ منافع سرمایہ کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ سرمایہ (Capital) وہ زر ہے جو محض اپنی مقداری بڑھوتری ”Quantitative Accumulation”  کی تلاش میں پیداواری عمل سے گزرتا رہتا ہے۔ یہ بڑھوتری لامحدود ہوتی ہے کیوں کہ سرمایہ حرص اور حسد کی تجسیم کے علاوہ کچھ نہیں اور حرص اور حسد لامحدود شیطانی قوتیں ہیں۔ سرمایہ کی بڑھوتری کو لامحدود بنانے کے لیے دو مارکیٹ قائم کیے جاتے ہیں۔ زر کی مارکیٹ (Money Market) اور سٹہ کی مارکیٹ (Capitial market) زر کی مارکیٹ میں جس قیمت پر زر بیچا اور خریدا جاتا ہے وہ سود ہے۔ اور سٹہ کے بازار میں جس قیمت میں حصص (Shares) اور تمسکات (Bonds) بیچے اور خریدے جاتے ہیں وہ مسلسل سٹہ کے کھیل کے ذریعہ متعین ہوتی ہے۔ سود  کی مارکیٹ اور سٹہ کی مارکیٹ کے ذریعہ سرمایہ معاشرہ کی تمام دولت پر قبضہ کرلیتا ہے۔ زر کی مارکیٹ کے بنیادی ادارے بینک ہیں۔ یہ زر کی تشکیل کرتے ہیں (اور سرمایہ دارانہ نظام میں زر کی کوئی اصل قدر  Value Real  نہیں ہوتی) اور تمام افراد بینکوں میں اپنی بچتوں کو رکھنے پر مجبور کردیے جاتے ہیں۔ بینک یہ تمام دولت سرمایہ داراوں کو قرض کے طور پر دے کر ہر شخص کی بچت کو سرمایہ کے گردشی چکر میں شامل کردیتے ہیں۔

سٹہ کا بازار ذاتی ملکیت کو ختم کرکے سرمایہ کی ملکیت بتدریج معاشرہ پر مسلط کردیتا ہے۔ سٹہ کی مارکیٹ کا بنیادی ادارہ کارپوریشن (Corporation)ہے یہ کارپوریشن وہ شخصِ قانونی   (Legal Person)  ہے جس کا مقصدِ وجود اصولا ً  صرف اپنے سرمایہ کی مستقل بڑھوتری ہوتا ہے۔ کارپوریشن کے مالک افراد نہیں ہوتے بلکہ سرمایہ خود اس کا مالک ہوتاہے۔ کارپوریشن کی ملکیت لاکھوں افراد کو سٹہ کے بازار کے ذریعہ فروخت کردی جاتی ہے۔ اور ان میں کسی کو بھی عملاً یہ اختیار نہیں ہوتا کہ وہ کارپوریشن کے کاروباری عمل کے تعین میں حصہ لے۔ کارپوریشن پر ایک (Professional management) قابض ہوتی ہے اور یہ منجمنٹ اس بات پر مجبور ہوتی ہے کہ کارپوریشن کے تمام کاروباری فیصلے صرف اس بنیاد پر کئے جائیں کہ ان فیصلوں کے نفاذ کے نتیجے میں کارپوریشن کے سرمایہ کی بڑھوتری تیز سے تیز تر ہورہی ہے یا نہیں؟ اگر فیصلے کسی اور بنیاد پر کیے جائیں اور کارپوریشن کے سرمایہ کی بڑھوتری کی رفتار دوسری کمپنیوں کے مقابلے میں کم ہوجائے تو سٹہ کا مارکیٹ اس کمپنی کو سزا دیتا ہے۔ اس کے حصص کی قدر گر جاتی ہے اور آخر کار کمپنی دیوالیہ (Bankrupt) ہوجاتی ہے۔ اور اس کی منجمنٹ نکال دی جاتی ہے اور وہ کسی دوسری کارپوریشن میں ضم کرلی جاتی ہے۔ سود کی مارکیٹ اور سٹہ کی مارکیٹ سرمایہ دارانہ معاشرے میں قدر کے تعین کے ذمہ دار ادارے ہوتے ہیں۔ ہر معاشی عمل کا تعین اس بنیاد پر کیا جاتا ہے کہ اس عمل کے نتیجے میں سرمایہ کی بڑھوتری کی رفتار کتنی بڑھی ہے یا کتنی بڑھنے کی توقع ہے۔ مثلاً کارپوریشن X جانماز بناتی ہے اور کارپوریشن Y فحش فلمیں بناتی ہے تو سٹہ کی مارکیٹ ان کارپوریشنوں کے حصص کا تعین کرے گی تو اس بنیاد پر نہیں کرے گی کہ جانمازیں اور فحش فلمیں حصولِ رضائے الٰہی کا ذریعہ ہیں یا نہیں یا وہ مفادِ عام کو فروغ دیتی ہیں یا نہیں؟ حصص کی قیمتوں کا تعین کہ کس کارپوریشن کا موجود اور متوقع منافع زیادہ ہے اگر فحش فلمیں بنانے والی کارپوریشن کا حاضر اور متوقع منافع جانمازیں بنانے والی کارپویشن کے منافع سے زیادہ ہے تو فحش فلمیں بنانے والی کارپوریشن کے حصص کی قیمت بڑھے گی۔ اور چوں کہ اس فحش فلمیں بنانے والی کارپوریشن کا Divident payout اور Capital Gain زیادہ ہوگا لہٰذا تمام Fund Managers  لوگوں کا سرمایہ جانماز بنانے والی کارپوریشن سے نکال کر فحش فلمیں بنانے والی کارپوریشن میں لگادیں گے۔

سرمایہ دارانہ لبرل معاشرے میں حاکمیت صرف سرمایہ کی ہوتی ہے۔ نجی ملکیت بتدریج ختم ہوتی چلی جاتی ہے۔ ہر شخص کتنا بھی امیر کیوں نہ ہو سرمایہ کا ملازم اور اس کا غلام بن جاتا ہے کیوں کہ وہ اپنی دولت بینکوں اور سٹہ کی مارکیٹ کے سپُرد کردیتا ہے۔ اور یہ بازار اس کو ایک منٹ میں مفلس بناسکتے ہیں۔ وہ ان مارکیٹوں کے احکام کی حکم عدولی کا تصور بھی نہیں کرسکتا ۔

 

عیسیٰ  پیر نہ  موسیٰ پیر

سب سے بڑا  سر ما یہ پیر

لبرل سرمایہ دارانہ نظام میں سرمایہ پورے معاشرے پر قبضہ کرلیتا ہے۔ ہر معاشرتی ادارہ مارکیٹ میں ضم ہوجاتا ہے۔ سب سے تباہ کن اثر خاندان پر پڑتا ہے جہاں ماں باپ اولاد کی تربیت زیادہ سے زیادہ سرمایہ کمانے کے قابل بنانے کے لیے کرتے ہیں اور اس تربیت کے نتیجے میں خود غرضی، لالچ، حرص اور حسد کا سیلاب پورے معاشرے کو ڈبودیتا ہے۔ عورتیں گھروں سے نکل کر بازاروں میں بیٹھ جاتی ہیں۔ عصمت اور عفت کی دھجیاں اُڑ جاتی ہیں۔ زنا اتنا عام ہوجاتا ہے کہ نکاح ایک نامعقول فعل نظر آنے لگتا ہے۔ حرامی بچوں کی تعداد جائز اولاد سے بڑھ جاتی ہے۔ جیسا کہ امریکا، سویڈن اور فرانس میں ہوچکا ہے جہاں حالیہ سرویز کے مطابق نصف سے زائد پیدا ہونے والے بچے حرامی ہوتے ہیں۔ اور یہ کوئی مغرب تک محدود رجحان نہیں دو ہزار گیارہ کی مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں حرامی بچوں کی تعداد دو ہزار ایک کے مقابلے میں ٣٦٧ فی صد زیادہ تھی۔

لبرل معاشرے غلیظ ترین گھنائونے معاشرے ہوتے ہیں دنیا میں کسی ایک ایسے ملک کی مثال نہیں دی جاسکتی جس میں لبرل معاشرت پھیلی ہو اور وہاں زنا کاری اغلام بازی اور جانوروں سے مباشرت وبا کی طرح نہ پھیلے ہوں۔ آج کل امریکا میں صلیب (Cross) کے ذریعے زنا کرنے کا شغل نہایت تیزی سے پھیل رہا ہے اور اس عمل سے روحانی فیض حاصل کرنے کے دعوے کیے جارہے ہیں۔ ان معاشروں میں مذہب کھیل تفریح اور لذت کے حصول کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ Meditation کی محفلوں میں شرکت چرس پینے کے متبادل کی حیثیت اختیار کرلیتی ہے۔ ہر شخص کو تعلیم دی جاتی ہے کہ وہ نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے بالکل آزاد ہے اور معاشرتی تنظیم کا مقصد ہی فروغ لذاتِ خواہش اور خود غرضی ہوکر رہ جاتا ہے۔

بے کاری  وعریانیوں و مے خوری و افلاس

کیا  کم ہیں فرنگی  مدنیت  کی   فتوحات

لبرل ریاست:

لبرل نظریہ مارکیٹ کی ریاست پر بالادستی پر یقین رکھتا ہے۔ اور لبرل سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی میں مارکیٹ ریاست پر غالب ہوتی ہے۔  اس کے برعکس قوم پرست اور اشتراکی سرمایہ دارانہ نظام ہائے زندگی میں مارکیٹ کے عمل پر ریاستی تحدیدمختلف حد تک روا رکھی جاتی اور چوں کہ ان نظاموں میں ریاست سرمایہ کی عمومی نمایندہ (Representative of capital in general) ہونے کا دعویٰ کرتی ہے لہٰذا عموماً (اور مختلف حد تک) قوم پرست اور اشتراکی سرمایہ دارانہ ریاستیں قدر کے تعین کے عمل سے لاتعلق نہیں رہتیں اور منصوبہ بندی (Planning) کے ذریعے مارکیٹ پر اپنی بالادستی قائم کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔

لبرل ریاست ایک نمایندہ دستوریت ( Constitutional Republic) ہوتی ہے جو عموماً جمہوریہ بھی ہوتی ہے۔ اس کی بنیاد بھی Rousseau  کا متصور وہی سوشل کنٹریکٹ (Social Contract) فراہم کرتا ہے جس کی بنیاد پر سرمایہ دارانہ مارکیٹ قائم کی جاتی ہے۔ Repbublic سے مراد ہے عوام کی حکومت۔ عوام حکومت ان معنوں میں کرتے ہیں کہ وہ اصولاً مطلق العنان حاکم (Absolute sovereign) تصور کئے جاتے ہیں۔ وہ حکومت اسی مطلق العنان حاکمیت یعنی آزادی کو تحفظ اور فروغ دینے کے لیے کرتے ہیں۔ ہر ری پبلک کا بنیادی عقیدہ لا الٰہ الا الانسان ہی ہوتا ہے اور دستور اس عقیدہ کو ہیومن رائٹس (Human Rights) کی شکل میں اپنے مقدمہ Preamble میں شامل کرلیتا ہے۔ یہ ہیومن رائٹس ان معنوں میں مقدس ہوتے ہیں کہ عوام کو یہ حق نہیں کہ کثرت رائے سے ان ہیومن رائٹس کو منسوخ کردیں۔ چوں کہ ہیومن رائٹس الوہیتِ انسانی کا دعویٰ ہیں لہٰذا ہر ری پبلک میں دستور کتابِ الٰہی کی جگہ لے لیتا ہے۔

لبرل ریاست عموماً نمائندگی (Representative) کی بنیاد پر تشکیل دی جاتی ہے۔ لبرل ریاست میں عوام خود حکومت نہیں کرتے بلکہ وہ کثرت رائے سے اپنے نمائندہ منتخب کرتے ہیں جو قانون ساز (Legislators) ہوتے ہیں۔ قانون سازی (Legislation) لازماً دستور کے تناظر میں ہی کی جاتی ہے۔ لہٰذا کوئی ایسا قانون نہیں بنایا جاسکتا جو ہیومن بینگ (Human Being) کی مطلق العنان حاکمیت اور اس کی الوہیت کی نفی کرتا ہو۔ قانون نافذ قانون ساز نہیں کرتے بلکہ یہ ایک غیر منتخب ریاستی انتظامیہ (پولیس، فوج اور سرکاری نوکر شاہی، عد لیہ) کرتی ہے۔ سب حکومت کرتے ہیں (عملاً مقننہ یعنی قانون ساز ان میں سب سے غیر اہم عنصر ہوتے ہیں۔) دورِ حاضر میں میڈیا بڑی کارپوریشنیں اور سرمایہ دارانہ مفکر (Capitalist Intelectuals)بھی لبرل حکومتوں کا اہم جز ہوتے ہیں ان کو عموماً یونیورسٹیوں اور  Think Tanksمیں منظم کیا جاتا ہے۔

قانون سازوں کے علاوہ باقی تمام گروہ غیر منتخب اور مستقل وجود رکھنے والے ہوتے ہیں اور سیاسی فیصلوں کی اصل ذمہ داری انہی مستقل حکمرانوں کی ہوتی ہے کیوں کہ یہ سرمایہ دارانہ عقلیت کے محافظ ہوتے ہیں اور ان کا فرض ہے کہ قانون سازی کا عمل سرمایہ دارانہ عقلیت سے متصادم نہ ہو۔ اصل قوت انہی مستقل حکمرانوں کے پاس ہوتی ہے اور یہ قانون سازوں کے فیصلوں کی وہ عملی تشریح کرتے ہیں جو فروغِ سرمایہ (یعنی فروغِ آزادی) کومستقل مہمیز دے۔

گو کہ عوام گاہ مقننہ کو منتخب کرتی رہتی ہے لیکن عملاً اس کا حکومتی عمل سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اصل حکومت سرمایہ کی ہوتی ہے۔ کسی فرد یا گروہ یا ادارہ کی نہیں ہوتی۔ پورا ریاستی نظام ان اصولوں کی بنیاد پر چلایا جاتا ہے کہ سرمایہ کی بڑھوتری کی رفتار تیز سے تیز تر ہو سرمایہ ہی آزادی کی تجسیم (Concrete Form) ہے ،آزادی کی کوئی دوسری تجسیم تاریخ انسانی میں پائی نہیں جاتی، مارکیٹ کی ریاست میں بھی ہر فرد سرمایہ کا غلام ہوتا ہے۔ لبرل ریاست سرمایہ کی مطلق العنان حاکمیت قائم کرتی ہے اور اس کا سٹیزن (Citizen) صرف ان معنوں میں مطلق العنان حکمران ہے کہ وہ لاالٰہ الا الانسان کے خبیث کلمہ پر ایمان لے آیا ہے اور اس نے سرمایہ دارانہ عقلیت قبول کرلی ہے۔ وہ ہر چار پانچ سال بعد اپنے ان کافرانہ عقائد اور عقلیت کا اظہار انتخاب میں حصہ لے کر کرتا ہے اور ان لوگوں کے حکومت کرنے کی تصدیق کرتا ہے (خواہ وہ منتخب مقننہ میں ہوں یا غیر منتخب فوج، پولیس، نوکر شاہی، عدلیہ، میڈیا یا یونیورسٹیوں اورThink Tanks میں) جو اس کی آزادی یعنی سرمایہ کی بڑھوتری کی عمومی رفتار کی مستقل نگرانی کررہے ہوتے ہیں۔ وہ اگر اس فرض کو انجام دینے میں ناکام ہوجائیں تو ان کو اس ہی طرح برطرف کرنے کی گنجائش موجود رہتی ہے جیسے کارپوریشن کے منیجمنٹ کو برطرف کیا جاتا ہے۔

مارکیٹ اور ریاست میں سرمایہ دارانہ نظام ایک عام آدمی کو مجبور اور بے بس کردیتا ہے۔ مارکیٹ کے تجزیہ میں ہم نے دیکھا کہ جیسے جیسے سود کا مارکیٹ اور سٹہ کا مارکیٹ دولت پر قبضہ مستحکم کرلیتا ہے ویسے ویسے نجی ملکیت ختم ہوتی چلی جاتی ہے اور ایک عام آدمی اس بات پر مجبور ہوجاتا ہے کہ وہ سرمایہ کی غلامی (اس کوWage labourکہتے ہیں) اختیار کرلے۔ اسی طرح ایک لبرل ریاست میں تمام قوت سرمایہ کے نمایندوں (فوج، پولیس، نوکر شاہی، عدلیہ، مقننہ، میڈیا اور Intellectulas ) ہاتھوں میں مرتکز ہوجاتی ہے۔ غیر سرمایہ دارانہ اجتماع قوت مشکل سے مشکل تر ہوتا جاتا ہے اس بات کو دورِ حاضر کے فرانسیسی فلسفیAlain Badiou نے اچھی طرح بیان کیا ہے وہ کہتا ہے کہ ”جمہوریت وہ زنجیر ہے جس سے عوام کو سرمایہ کے اصطبل میں مقید کیا جاتا ہے۔”

لبرل جمہوری ریاستوں کے خلاف کامیاب سیاسی بغاوت کی تاریخ میں صرف ایک مثال ملتی ہے اور وہ ہے حزب اللہ جنوبی لبنان کی بغاوت، حزب اللہ نے جنوبی لبنان سے لبرل جمہوری نظام کو فیصلہ کن شکست دی ہے۔ اس کے علاوہ دنیا میں کبھی اور کہیں لبرل جمہوری ریاست کے خلاف کامیاب بغاوت پچھلی تین سو سالہ تاریخ میں برپا نہیں کی گئی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ لبرل جمہوری ترتیبِ اقتدار سرمایہ کی سب سے طاقت ور، جابر، ظالم اور مستحکم ریاستی نظم ہے۔ اس استحکام اور قوت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اٹھارہویں صدی کے بعد پہلے یورپ اور پھر دنیا بھر میں مذہبی، سیاسی آدرشیں اجنبی سے اجنبی ہوتی چلی گئیں۔ انفرادی طور پر تو بہت کم لوگ لبرل مابعد الطبیعاتی تصورات پر ایمان لائے (ماسوائے یورپ) زیادہ تر لوگ مذہبی تشخص اختیار کیے رہے۔ مادیت کا معاشرے پر غلبہ بھی سست رفتار اور نامکمل ہے، مسئلاً پاکستان میں پچانوے فیصد کاروبار سود اور سٹہ کے بازاروں کی دسترس سے باہر ہے اور دس فی صد سے کم پاکستانی بینکوں میں اکاؤنٹ رکھتے ہیں۔

لیکن ان صدیوں کی لبرل معقولیت اس وسیع پیمانے پر تسلیم کی گئی کہ مذہبی تشخص رکھنے والے عوام اور خواص کی عظیم اکثریت اس بات کی قائل ہوگئی کہ جائز (legitimate) اور معقول صف بندی وہی ہے جو لبرل نظامِ اقتدار تجویز کرتا ہے۔ لہٰذا ان لوگوں کی عظیم اکثر یت جو اپنی نجی زندگی  غرض و حسد کی بنیاد پر کیے جانے والے فیصلوں کو جائز (legitimate) نہیں تصور کرتے نظام اقتدار کی ضمن میں حرص و حسد کی بنیاد پر کیے جانے والے فیصلوں کو نا صرف برداشت (Tolerate) کرتی ہے۔ بلکہ ان کو معقول اور جائز بھی تصور کرتی ہے۔ لہٰذا جب عوامی جدوجہد سرمایہ کی غیر لبرل تنظیمی اقدار مثلاً قوم پرستانہ یا اشتراکی تنظیم اقتدار کے خلاف برپا کی جاتی ہے تو عوام کا سیاسی مقصد لبرل دستوری حقوق اور شخصی سیاسی آزادی اور معاشی ترقی کا حصول ہی ہوتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال مصر، تیونس اور لیبیا کے انقلابات ہیں۔ ان تمام انقلابیوں کی جدوجہد میں اسلامی قوتوں بالخصوص اخوان المسلمون نے اہم کردار ادا کیا ہے لیکن یہ اسلامی قوتیں لبرل سیاسی تصورات کی تنفیذ کی مدعی ہیں۔ ان سب کا ماڈل ترکی کی Justice and Development پارٹی ہے اور وہ اس بات کے دعویدار ہیں کہ مصر، تیونس وغیرہ میںحکومت میں تو اسلامی شرع نافذ ہو لیکن ریاست خالص سیکولر اور لبرل بنائی جائے۔ ایران اور سوڈان کی ریاستوں کو بھی لبرل جمہوریت سے شدید خطرہ ہے۔ ان ممالک میں لبرل قوتوں کو عوام کی ایک بڑی تعداد (بشمول علمائ) کی حمایت حاصل ہے اور ان کی موثر پشت پناہی امریکی استعمار کررہا ہے۔ حال ہی میں سوڈان اپنا آدھا حصہ لبرل قوتوں کے ہاتھوں شکست کھاکر کھو بیٹھا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *