What can Islamic movement learn from Minority Bill in Sindh Assembly?  سندھ اسمبلی  میں تحفظ اقلیت بل مجوزہ ترمیم سے ہم کیا سبق حاصل کرسکتے ہیں

(امین اشعر)

     یہ بل سندھ اسمبلی نے 24 نومبر کو اتفاق رائے سے منظور کیا تھا اور اس میں یہ شق شامل تھی کہ18سال سے کم عمر کے کسی فرد کو مشرف بہ اسلام نہیں کیا سکتا ۔اس سے قبل 18سال سے کم عمر کی شادیوں کو منسوخ کرکے بھی حکومت سندھ نے شعار اسلام کی خلاف ورزی کی تھی۔ بیشتر اسلامی جماعتوں نے اس خلاف اسلام قانون کے خلاف عوامی مزاحمت برپا کرنے کا اعلان کیا تھا اور اس متوقع مزاحمت سے خوف زدہ ہوکر سندھ کابینہ نے 16 دسمبر کو گھٹنے ٹیکنے کا اعلان کردیا اور وعدہ کیا کہ اسلام قبول کرنے کی پابندی کی شق منسوخ کی جائے گی ۔

    پیپلزپارٹی جیسی اسلام دشمن حکومت کی یہ پسپائی ہمارے لئے چشم کشا ہونا چاہئے  اور ہماری 2018 کی انتخابی حکمت عملی کومروج کرنے میں ان عوامل کو زیر نظر رکھنا ضروری ہے جن کی وجہ سے ہم کو یہ جزوی فتح حاصل ہوئی ۔

    حکومت کی پسپائی کی سب سے پہلی وجہ یہ ہے کہ ہم متحد ہوگئے ،شیعہ ،سنی دیوبندی،بریلوی ،اہل حدیث تمام جماعتوں نے متفقہ طورپر مزاحمتی تحریک چلانے کا عزم ظاہر کیا ،دشمن خوب جانتا ہے کہ جب ہم متحد ہوجائیں اور مدارس اور مساجد کے لاکھوں کارکنوں کو میدان عمل میں لے آئیں تو پاکستان میں ہم سے بڑی کوئی عوامی قوت موجود نہیں

پرچم نصرت ہم سے کھلا

رسم شجاعت ہم سے چلی

ہم ہیں جوہر صبر حسین

ہم ہیں زور دست علی

    دشمن ہماری متحدہ عوامی قوت کے سامنے ہمیشہ پسپا ہوا ہے اور تحریک نظام مصطفیۖ اور تحریک ختم نبوت ۖ اس کی درخشاں مثالیں ہیں۔  دوسری وجہ یہ ہے کہ ہم نے آج ایک بار پھر دشمن کو تحفظ دین کے جذباتی نعرہ کی بنیاد پر للکارا ہے ۔دشمن جانتا ہے ایک عام پاکستانی کا فطری تشخص اسلام ہے وہ کتنا ہی گناہ گار کیوں نہ ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلامی شعائر سے والہانہ تعلق رکھتا ہے وہ اسلام کے لئے جیتا نہیں لیکن اسلام کی خاطر جان قربان کرنے پر ہر وقت تیار رہتا ہے ۔اگر ہم اس کی جذباتیت کو مہمیز فراہم کریں تو ایک ایسی عوامی فوج میدان میں لے آئیں گے جس کو کم از کم پاکستان میں شکست دینا بالکل ناممکن ہے

کہوببانگ دہل سب سے کہ  ہماری قوم

گناہ  گار  بہت ہے مگر حسین  کی  ہے

     تیسری وجہ ہماری اس جزوی کامیابی کی یہ ہے کہ خلاف اسلام تحفظ اقلیت بل کے حما یتیوں میں تمام سیکولر جماعتیں ،مسلم لیگ (الف سے لے کر یے تک) پیپلزپارٹی ،تحریک انصاف سب شریک تھیںیہ سب اسلام مخالف جماعتیں ہیں اور تحفظ شعائر اسلام کے اسی مسئلہ پر دشمن نے اپنا مکروہ چہرہ ننگا کردیا ۔اس مسئلہ پر اسلام اور سیکولرازم کا فرق بالکل واضح ہوکر سامنے آیا ہے ۔کسی عامی کے لئے اس مسئلہ پر اسلامی اور غیر اسلامی شناخت میں کوئی ابہام نہ رہا اور ہمیں تمام اہل دین کو تحفظ اسلام کے لئے منظم کرنے کا ایک نادر موقع مل سکتا ہے۔

 سال 2018 کی انتخابی مہم کے لئے اسباق

      پہلاسبق: اسلامی سیاسی قوت کے اظہار کے لئے اتحاد اسلامی بالکل ناگزیر ہے ہمیں فی الفور تمام اسلامی جماعتوں کو ایک سیا سی پلیٹ فارم اور ایک اسلامی سیاسی ایجنڈہ پر متحد کرنا ہے اور اس اسلامی اتحاد کی قیادت واضح طور پر شیعہ ،سنی ،بریلوی ،دیوبندی ،اہل حدیث علماء کے ہاتھوں میں ہونا چاہئے انتخابی دفاتر اور مراکززیادہ سے زیادہ مساجد اور مدارس ہی میں ہوں۔

     دوسرا سبق: ہمارا انتخابی ایجنڈا خالصتاً مذہبی ہو ہمیں انتخابات ”اسلام خطرہ میں ہے” کے سلوگن کی بنیاد پر لڑنا چائیے اور ہمارا بنیادی مطالبہ مدارس اور مساجد پر ریاستی جبر اور ظلم کے خاتمہ اور تحدید کا ہو اس بنیادی مسئلہ کو اجاگر کرنے کے لئے ہمیں عوامی اسلامی جذباتیت اور اسلامی عصبیت کو ابھارنے کے لئے ایک ہمہ گیر مہم چلاناچاہئے ہمیں اس بات کو ناممکن بنانے کے لئے جدوجہد کرنا چاہئے کہ غیر سیاسی اسلامی جماعتیں با لخصوص خانقاہیں ،تبلیغی جماعت اور دعوت اسلامی انتخابی عمل سے لاتعلق نہ رہیںاور یوں بلاواسطہ طور پر سیکولر قوتوں کو تقویت نہ پہنچا ئیں ،ہمیں 2018 کے انتخابات کو اسلام اور کفر کی جنگ بنانا چاہئے ۔

        تیسرا سبق: کسی سیکولر جماعت ،مسلم لیگ،پیپلزپارٹی ،تحریک انصاف سے کسی نوعیت کا کوئی سمجھوتا نہیں کرنا چاہئے بالخصوص seat adjustmentسے ہر حال میں گریزکرنا چاہئے ہمیں عوام کو باور کرانا ہے کہ یہ سب سیکولر جماعتیں ہیں ان کو ووٹ دینا اسلام کے قلب میں چھرا گھوپنے کے مترادف ہے ۔ہمیں سوشل ڈیموکریٹک ایجنڈہ اپنا کر سیکولر جماعتوں کی طرح اپنے آپ کو سرمایہ دارانہ نظام کے مخلص کارکنوں کے روپ میں پیش نہیں کرنا چاہئے ۔ہمیں عوام کو باور کرانا ہوگا کہ دینی جماعتوں کا ہر کارکن اسلام کا شیدائی اور سپاہی ہے ۔

    چوتھا سبق: ہمیں اپنی عوامی تحریک کو فی الفور مرتب کردینا چاہئے ،سندھ حکومت نے شادیوں کی عمر پر جوپابندی لگائی ہے اس کی تنسیخ کا فی الفور مطالبہ اور اس کے خلاف مزاحمت کی تیاری فوراً شروع کردینا چاہئے  شادیوں کی عمر پر پابندی بھی اتنی ہی غیر اسلامی ہے جتنی قبولیت اسلام کی عمر پر پابندی اور چونکہ شادیاں ہی قبولیت اسلام کا بیشتر مواقع پر ذریعہ بنتی ہیںلہذا شادیوں کی عمر پر پابندی بالواسطہ طورپر قبولیت اسلام کی راہ میں ایک اہم رکاوٹ ہے ۔ہمیں شادیوں کی عمر پر پابندی والے قانون کو ہر گز قبول نہیں کرنا چاہئے ۔

   اگر ہم نے ان نکات کو پیش نظررکھتے ہوئے 2018 کے انتخابات کی حکمت عملی ترتیب دی تو انشاء اللہ ہمیں واضح کامیابی حاصل ہوگی اور یہ انتخابی مہم اسلامی انقلابی جدوجہد کو برپا اور منظم کرنے کی راہ میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوگی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *