سید محمد محبوب الحسن بخاری-

اس مضمون میں ہم درج ذیل سوالات کے جوابات دیں گے:

٭انقلاب کیا ہے؟

٭انقلاب کا مقصد؟

٭سرمایہ دارانہ نظام کیا ہے(اجمالاً)؟

٭سرمایہ دارانہ انقلاب کیا ہے؟

٭اسلامی انقلاب کیا ہے؟

انقلاب:

                انقلاب دراصل ریاست کے بنیادی ڈھانچہ میں مکمل تبدیلی کا نام ہے، یعنی ریاست مکمل تبدیل ہو جائے۔ انقلاب صرف حکومت کی تبدیلی کا نام نہیں ہے۔ کیوں کہ حکومت تو ریاست کی اوپری سطح ہے اور اس کی تبدیلی سے ریاست کا مکمل ڈھانچہ تبدیل نہیں ہوتا اور معاشرے میں کوئی بنیادی تبدیلی ممکن نہیں ہے۔اس کی مثال یہ ہے کہ امریکا میں حکومت کبھی ایک پارٹی کی ہوتی ہے کبھی دوسری پارٹی کی لیکن امریکا کی ریاست وہی ہے جس کی وجہ سے اس کے مقاصدِ ریاست تبدیل نہیں ہوتے۔

                انقلاب کا طریقہ جگہ اور وقت کے اعتبار سے مختلف ہوتا ہے اور انقلاب کا طریقہ متعین نہیں ہے۔ اسی طرح انقلاب آنے کے لیے کتنا وقت درکار ہے اس کا بھی کوئی طے شدہ وقت نہیں ہے۔

انقلاب کا مقصد:

                انقلاب کا مقصد ہمیشہ انقلابیوں کی ایمانیات اور ما بعد الطبیعات سے نکلتا ہے۔ ہر تہذیب اور نظامِ حیات کی ایک خاص ما بعد الطبیعات ہوتی ہے اور وہی اس کا مقصد ہوتا ہے۔ سرمایہ دارانہ انقلاب کا مقصد اس کی مابعد الطبیعات سے نکلتا ہے۔ اسی طرح اسلامی انقلاب کا مقصد اس کی ایمانیات سے ماخوذ ہو گا۔

سرمایہ دارانہ نظام:

                سرمایہ دارانہ نظام کی تین اقدار ہیں: (١) آزادی (٢) مساوات (٣)ترقی سرمایہ دارانہ نظام انہی تین اقدار کا فروغ ہے۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ آزادی مساوات اور ترقی کے خاص مطالب ہیں اور یہ خاص تاریخ کی پیداوار ہیں لہٰذاسرمایہ دارانہ اقدار یعنی (آزادی، مساوات، ترقی) کے مطالب ان کی تاریخ و روایت سے ہٹا کر دیکھنا درست نہیں ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں آزادی سے مراد انسان کے حق کو تسلیم کرنا ہے کہ اسے حق وباطل کو خود متعین کرنے کا حق حاصل ہے یعنی سرمایہ دارانہ نظام حق وباطل کو متعین کرنے کا حق خدا سے چھین کر انسان کو دیتا ہے کہ انسان ہی اس بات کا فطری حق دار ہے کہ حق وباطل کو خود متعین کرے اور یہ انسان کسی بھی ہستی کے سامنے جواب دہ نہیں ہے۔ آزادی اس کے سوا کسی دوسری چیز کا نام نہیں ہے۔ کم از کم تاریخ میں آزادی یہی رہی ہے۔یہ آزادی کسی خاص انسان کا حق نہیں ہے بلکہ ہر انسان ( جو آزادی، مساوات اور ترقی کو بطور اقدار رد نہ کرے) چاہے وہ کالا ہو یا گورا، جرمن، فرانسیسی، مرد، عورت سب کا برابرحق ہے۔ کسی کو کسی پر فوقیت نہیں ہے۔ مساوی آزادی کو سب انسانوں کو ترقی یعنی حرص وحسد کے فروغ کے لیے استعمال کریں۔

                اس کا مطلب یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام بطور قدر سراہتا نہیں ہے بلکہ آزادی کا استعمال ایک خاص مقصد کے لیے یعنی ترقی یعنی اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے کائنات پر قابو پانا ہے۔ یہی سرمایہ دارانہ اقدار ہیں۔

سرمایہ دارانہ انقلاب:

                سرمایہ دارانہ انقلاب دراصل ان ہی تین اقدار کو نافذ کرنے کا نام ہے یعنی ریاست کے ڈھانچے میں بنیادی تبدیلی کر کے ان اقدار کو نافذ کرنے اور ان کو فروغ دینے کا نام ہے۔ ریاست اپنی  قوت نافذہ سے ہر شخص کی آزادی (حق و باطل کے تعین کرنے کاحق صرف فرد کی نجی زندگی میں) اور آزادی کو برابری کے ساتھ عمل کروانے کی کوشش اورآزادی کے ذریعہ ارادۂ انسانی کو کائنات پر مسلط کرنے کی حوصلہ افزائی کرنے کانام ہے۔ سرمایہ دارانہ انقلاب دراصل نفسانی خواہشات کی تکمیل ہے۔

اسلامی انقلاب:

                اسلامی انقلاب سے مراد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے عین مطابق لوگوں کی زندگیوں کو بنانے کی کوشش کا نام ہے۔ انقلاب اسلامی دراصل احیائے سنت ِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی دراصل عبدیت خدا کا اعلیٰ نمونہ ہے جیسا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ”افلا اکون عبدا شکورا۔”

                اسلامی انقلاب دراصل سرمایہ دارانہ انقلاب کے دعویٰ آزادی سے دست برداری کا نام ہے۔ اسلامی انقلاب میں حق وباطل کے تعین کا حق صرف اللہ تعالیٰ کو ہے اور تمام انسان اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں گے۔ تمام انسان اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہیں۔

                سرمایہ دارانہ انقلاب مستقبل میں مزید آزادی کے فروغ کی امید رکھتا ہے اور اپنے ماضی کو کم تر اور مستقبل کی مسلسل بہتری کے بارے میں پرامید ہوتا ہے کہ آزادی کا دائرہ بڑھ جائے  جب کہ اسلامی انقلاب میں ہمیشہ ماضی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کی طرف لوٹا جاتا ہے ۔یعنی اسلامی انقلاب اپنی زندگیوں کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کی طرح بنانے کی کوشش کا نام ہے۔

اسلامی انقلاب میں آزادی کی جگہ عبادت، مساوات کی جگہ اطاعت و ہدایت اور ترقی کی جگہ معرفت لے لیتی ہے اور انہی اقدار کا فروغ ہوتا ہے۔

                اگر سرمایہ دارانہ اہداف یعنی آزادی، مساوات و ترقی کو حاصل کرنے کے لیے اسلامی انقلاب کی کوشش کی جائے گی تو وہ اسلامی انقلاب اسلامی ریاست نہیں بنائے گا بلکہ سرمایہ دارانہ اقدار کے فروغ کا ہی ذریعہ ہو گا۔ اور وہ ریاست آگے چل کر سرمایہ دارانہ ریاست میں تبدیل ہو جائے گی۔

                اس لیے اسلامی انقلاب لانے کے لیے یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ اسلامی اقدار یعنی عبادت، اطاعت وہدایت اور معرفت کی تنفیذ ہی کے لیے انقلاب کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہمیں غربت کے خاتمے، استحصال کے خلاف نہیں بلکہ عبادت واطاعت کے لیے انقلاب لانا چاہیے۔

                اسلامی انقلاب کی کوشش ہر دور میں مختلف ہوں گی ان کوششوں کی ماہیت پہلے سے طے کرنا مشکل امر ہے کیوں کہ اسلامی انقلاب دراصل یہ بات فرض Presumeکرتا ہے کہ زندگی اور اس کی مختلف سطحیں دراصل غیر اسلامی نظام نافذ کررہا ہے  اور یہ غیر اسلامی نظام ہردور میں مختلف ہے ہم اکیسویں صدی میں غیراسلامی نظام کا تعین کرسکتے ہیں اور وہ سرمایہ دارانہ نظام ہے جو ببانگ دہل اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ قانون سازی صرف انسان کا حق ہے جبکہ ہم نصوص قطعیہ کی روشنی میں یہ بات جانتے ہیں کہ 

                وما کان لمومن ولا مومنتہ ازاقضی اﷲ ورسولَہُ امرًا(صحیح مسلم):اور حضور اکرم ۖ کا ارشاد مبارک ہے  ”ھذاعلم دین فلینظروممن تاخذون دینکم” کہ علم تو صرف دین ہی ہے  اور آپ ۖ نے دین کی وضاحت اس طرح فرمائی ہے

                 ” العلم ثلثة اٰ ےة منتة قائمة فریضتة عادلة وماسوی ذلِکَ فھو فضل:درجہ بالا اصول جو نصوص مستنبط ہیں۔ ہمیں یہ بتا رہے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام غیر اسلامی ہے اور چونکہ اﷲ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے :

                ومن یتبع غیر الاسلام دیناً فلن یقبل منہ(جس نے اسلام کے علاوہ کسی دین کی اتباع کی تو اس سے ہر گز قبول نہیں کیا جائے گا)

                 لہٰذا اسلام کے سوا کچھ اور قبول کرنا اﷲ رب العزت کو قابل قبول نہیں ہے اور جو اﷲ کو قبول نہیں ہے وہ ہم کیسے قبول کرسکتے ہیں لہٰذا تنفیذ دراصل اسلام ہی کی ہونی چاہئے اور اس طرف گامزن ہونے کا نام اسلامی انقلاب ہے اور آج کے دور میں سرمایہ دارانہ نظام کا گرانا Over throwہی اسلامی انقلاب ہے ۔ اس لئے اسلامی انقلاب کی شکل ہر دور میں مختلف ہوں گی۔چوں کہ اسلامی انقلاب لانے کے لئے مختلف نظاموں سے نبرد آزما ہونے کے لئے تدابیر بھی مختلف اپنائی جائیں گی۔ سرمایہ دارانہ نظام سے نبرد آزما ہونے کے لئے مختلف تدابیر آزمائی جاسکتی ہیں اورتدابیر کا اختیار کرنا دراصل اُن کے نتائج پر مبنی ہوگا کہ کیایہ تدابیر اختیار کرنے کے بعد سرمایہ دارانہ نظام کمزور ہورہا ہے یا مزید پروان چڑھ رہا ہے ۔ہمیں ایسی تدابیر اختیار کرنا ہوں گی جو اس نظام کو کمزور کرے ۔

                اس کے ساتھ ایک اور پہلو بھی ہے جس پر سوچنے کی ضرورت ہے اگر سرمایہ دارانہ نظام کو ہٹانے کے لئے یا اس کو کمزور کرنے کے لئے کچھ سرمایہ دارانہ اشیاء کو ضرورتاً بطور آلہ کے استعمال کرلیا جائے تو اس میں کوئی ہرج نہیں ہے۔یہ سوال نہایت اہمیت کا حامل ہے کہ کیا کوئی چیز سرمایہ دارانہ نظام سے مستعار لی جاسکتی ہے اس معاملے میں شریعت مطہرہ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ اگر کوئی شے ثابت شدہ محرمات میں سے ہے تو اس کا قبول کرنا درست نہیںہے لیکن اگر کوئی چیز ایسی نہیں ہے تو اس کو مستعار لینے میں کوئی ہرج نہیں ہے۔

                لیکن مسئلہ اتنا سادہ نہیں ہے۔بعض حضرات نے ایسا کیا جن کو ہم Revisionistکہتے ہیں اس کا اثر یہ ہوا کہ کئی اشیاء جوبظاہر سرمایہ دارانہ معلوم نہیں ہوتی ہیں اورمسلمانوں کی معاشرت میں داخل کی جاسکتی ہیں لیکن  بظاہر ان غیر مضراشیانے  دراصل مسلمانوں کے معاشرے کو اسلامی بنانے کے بجائے سرمایہ دارنہ بنادیاہے۔ ان معاشروںمیں سرمایہ دارانہ ادارے مضبوط ہونے لگے ،اسلامی شعار کمزورہونے لگے ،اسلامی نظام زندگی غیرمعقول ہونے لگا ،اسلامی عبادات سے جذباتی وابستگی کمزورہونے لگی، اس طرح اشیاء کو مستعار لیناشاید اسلامی انقلاب میں بہت بڑی رکاوٹ ہوسکتا ہے۔

                اس سلسلے میں میری ذاتی رائے ہے کہ اگر ہم کچھ چیزیں سرمایہ دارانہ نظام سے اس لئے مستعار لیں کہ ان پر عمل کر کے ہم سرمایہ دارانہ نظام کو کمزور کریں گے اور اس کو اسلامی انقلاب سے بدل دیں گے تو درست ہے  لیکن اس درستگی کو پرکھا جانا چاہئے اور وہ اس طرح کیا جاسکتاہے کہ کچھ ادارے یا اُن کے تصورات یا اُن کے طریقہ کار کو اپنایا جائے ۔ معاشرے میں دیکھا جائے کہ آیاان کے ذریعے سے آپ سرمایہ دارانہ نظام کو کمزور کررہے ہیں یا نہیں۔اگر وہ دن بدن کمزور ہورہاہے یا آپ کو یقین ہے کہ مستقبل میں اس کی بیخ کنی ہو گی تو صحیح ہے ورنہ اس کو ترک کردینا چاہئے ۔

                Revisionist Thoughtمیں یہی کمزوری ہے کہ وہ سرمایہ دارانہ نظام کی کچھ اشیاء کو فی  نفسہ درست سمجھتے ہیں اور جس لمحے وہ مسلمانوں کے معاشرے میں در آتی ہیں تو سب سے زیادہ تحفظ ہی فکر دیتی ہے۔حالانکہ سرمایہ دارانہ نظام ایک کُل ہے اور یہ کُلےةً درست نہیں ہے لیکن تدابیر کو غلط جان کر صرف آلاتی طورپر استعمال کرنے میں کوئی ہرج نہیں ہے۔ اور اس امر کا Litmus Testیہی ہے کہ کیا اس کے استعمال سے سرمایہ دارنہ نظام بیہم کمزورہورہا ہے یا نہیں اور جیسے ہی نظام کمزورہوگا تواس کو فوراًاسلامی نظام سے بدل دیں گے اگر Revisionistکی فکر کو دیکھیں تو وہ ان سرمایہ دارانہ اشیاء اور اداروں کو ہرگز  تبدیل کرنے کے لئے تیارنہ ہوں گے لہٰذا  حقیقی معنوں میں Revisionistفکر اسلامی انقلاب کی طرف نہیں لے کر جارہی۔

                اس سلسلے میں مثال یہ ہے کہ اگر آج کے دورمیں کوئی جماعت اگر اسلامی انقلاب کی داعی ہے اور وہ اپنی جماعت کو پارٹی بناتی ہے اور پارٹی کی تنظیم سازی مروجہ سرمایہ دارانہ روایات کے مطابق کرتی ہے اپنے آپ کو منظم ایسے کرتی ہے اور کام کرنے کے انداز رنگ ڈھنگ اسی طرح کا اختیارکرتی ہے لیکن اس کی قیادت اور کارکن اسلامی انقلاب لانے میں مخلص ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ پارٹی سرمایہ دارانہ اداروں کو ہی کمزور کرتی ہیں۔سرمایہ دارانہ ادارے ہی غیرمعقول ہوجاتے ہیں تو اس میں کوئی ہرج نہیں۔اسی طرح اگر کوئی پارٹی جمہوری طریقے سے انقلاب لانے کے بعد جمہوریت کو خیر آباد کہہ دیتی ہے اور اسلامی ریاست کی طرف گامزن ہوتی ہے تو جمہوری نظام میں اس قدر شریک ہونے میں کوئی ہرج دکھائی نہیں دیتا  لیکن یہ تمام معاملات محض حکمتِ عملی ہی ہیں اور اس کا اظہار عملاً اسی طرح سے ہوتا ہے چاہے بصورت دیگر وہ پارٹی خود سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ بن جائے گی۔جیسا کہ پارٹیوں کے ساتھ ہوا انقلاب کی تاریخ یہ ہے کہ زندگی کی ترتیب اور تنظیم حضورۖ کے دورکے عین مطابق کردی جائے۔ہر لحاظ سے یہ تنظیم (Form)اورجواہراً(Substance)کے اعتبار سے حضور پُر نورحضرت محمدمصطفیٰ ۖ نے ارشاد فرمایا  خیرالقرون قرنی ثم الذین یلونھم ثم الذین یلونھم۔

                یعنی بہترین دورمیرا ہے اوردوسرے درجے پر میرے بعد میں آنے والوں کا یعنی تابعی اورتیسرے درجے پر تبع تابعین ہمارے لئے ترقی اورکامیابی کا معیار طے کردیا گیا ہے اوروہ یہی ہے کہ ہم اپنی زندگیوں کوحضور کے ارشاد کے مطابق اورحضور کے دور کے مطابق کردیں۔یہی اسلامی انقلاب ہے۔یعنی اﷲ کے نبی کی

ہر ہر سنت زندہ ہو جائے۔

                یہاں ایک بات اہم ہے ، اپنی زندگی کو حضور کے دور کے عین مطابق کرنے کا صرف یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ صرف جوہرSubstanceکے اعتبار سے کرنا چاہتے ہیں اوریہ چونکہ باطن کا معاملہ ہے لہٰذا باطنی طور پر انقلاب آئے گا لیکن اپنے ظاہر Formمیں آپ جدید تقاضوں کو بروئے کار لائیں گے۔انقلاب دراصل حضور کی زندگی کے مطابق اپنی زندگی کو FormاورSubstanceکی صورت میں ظاہر اور باطن میں ڈھالنے کا نام ہے۔ایسے اداروں کی تشکیل کانام ہے جو حضور ۖ کی طرح ظاہر اورباطن میں زندگی گزارنے کو آسان بنا دے۔

                Modernistsاور اسی طرح کافی حد تکRevisionistsکی دلیل میں یہ سب سے بڑی کمی ہے کہ وہ Formیعنی زندگی کا ظاہر کوجان بوجھ کر نظرانداز کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انقلاب باطن کا نام ہے یاباطن بعد میں ظاہری تبدیلیاں اسی طرح لے آئے گا ۔ لیکن اسلامی انقلاب اسی وقت ممکن ہوگایامکمل ہوگا جب دونوں سطح پر (Form, Substance) تبدیلی حضورۖ کے عین مطابق ہواس لئے ہم دیکھتے ہیںکہ علماء حق جن کے بارے میںحضوراکرم ۖ نے ارشاد فرمایا۔ ” العلماء ورثة الانبیائ”  علماء دراصل انبیاء کے وارث ہیں۔علماء نے ہمیشہ دونوں سطح پر اسلام کو محفوظ فرمایااور وارث ہونے کاحق کما حقہُ ادا کیا۔ یہ بات عام مشاہدے کی ہے کہ آج بھی علماء مکمل داڑھی ، امام یا کم از کم ٹوپی ، عطر کااستعمال ، مسواک کا استعمال، الغرض ہر ہر چیزیں  میں حضور ۖ کی اتباع کرتے ہیں ،کیونکہ یہی حقیقت ہے۔

                اگر انقلاب یہ ہے کہ تو حضورانقلابی نہ ہوئے کیونکہ آپ تو معیارات حق طے کرنے والے ہیں ۔انقلاب اس کوشش کا نام ہے کہ حضور کی طرح ہوا جائے لہٰذا حضور انقلابی نہیں ہیں۔انقلاب میں مکمل تبدیلی اس لئے کی جاتی ہے کہ خیرالقروں کی طرح ہواجائے اورحضور ان معنوں میں انقلابی نہ تھے کہ حضور اپنے دور کو کسی دوسرے کی طرح بنانا نہ چاہتے تھے بلکہ اُس وقت کے معاشرے میں وہ تبدیلیاں کیں جس کے نتیجے میں مسلمانوں کے لئے اسلام کے مطابق زندگی گزارنا آسان اورفطری ہوگیا اورحضور کے مطابق اسی لئے یہ خیرالقرون ہے۔ انقلاب اس کی طرف رجوع کا نام ہے۔

                حضرت امام حسین  کا معاملہ متعلقہ ہے امام حسین  کا خیال تھا کہ یزید زندگی کو خیرالقرون سے دور ہٹانے کی کوشش کررہا ہے لہٰذا امام حسین کی کوشش انقلابی تھی اور کامیاب ہوئی ہمارے لئے نمونہ بھی ہے،لیکن یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ امام حسین کے دور کے تقاضے اور ضروریات دور حاضر سے مختلف اور جدا ہیں لہٰذا انقلاب لانے کی کوششوں کی تکنیک بھی جدا ہوگی۔لہٰذا اگر ہم انقلاب کے داعی ہیں تو ہمیں آج کے دور کو بہت ہی اچھی

طرح سمجھنے کی ضرورت ہے اگر ہم آج کے دور کو نہ سمجھیں تو ہمارے لئے زندگی کے دھارے کو خیرالقرون کی طرف موڑنا مشکل ہوجائے گا۔

                اگر ایک بار انقلاب آگیااورزندگی خیرالقرون کی طرح ہوگئی تو پھر کسی انقلاب کی ضرورت نہ رہے گی۔لہٰذا اس کا شرعی حکم بھی بدل جائے گا اگر اب یہ فرض ہے تو اس وقت ایسا نہیں رہے گا۔انقلاب کا یہ پہلو بھی انقلابیوں سے چھپا ہوا نہیں ہوناچاہئے۔

نوٹ: وہ انفرادیت جو آزادی ، مساوات اور ترقی بحیثیت زندگی کے اہداف کے قبول کر لیتی ہے وہ انسانیت سے گِر کر Humanبن جاتی ہیں۔ بنی نوع انسان سے مراجعت کر کے نیا وجود اختیار کر لیتی ہے۔ مغربی مفکرین اس کو Human قرار دیتے ہیں جو ہماری نظر میں انسانیت نہیں بلکہ شیطنت کا نام ہے۔

 

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *