غلام جیلانی-

اٹھارویں صدی کے آخر تک عیسائی دنیا بالخصوص فرانسیسی ریاست چرچ اور بادشاہ کی بالادستی پر قائم تھی۔ جس میں معاشرتی سطح پر عیسائی رسم ورواج کو بالادستی حاصل تھی۔ چرچ معاشرتی اور معاشی نظام کے اندر دخیل تھا۔ بادشاہ اپنے خاص قوانین کوزور، جبر وقوت کے ذریعے نافذ کرنے اور اداروں اور افواج کو منظم کرنے کا ذمہ دار تھا۔ یہ نظام قرونِ وسطیٰ سے چلا آرہا تھا۔ جب فرانسیسی استعمار کے  زیر سایہ عامة الناس کے ایک بڑے طبقے کے پاس دولت کی فروانی ہوئی تو اس نے خواص کے ایک خاص طبقے کو عیسائیت اوربادشاہت سے بغاوت پر اکسایا۔ اس بغاوت کو جائز قرار دینے کے لیے فکری ونظری بنیاد ان باغی دانشوروں نے فراہم کی جو کبھی چرچ کے نزدیک قابل گردن زنی تھے۔ بنابریں اس وقت کے فرانس کے سیاسی حالت اور پے درپے بادشاہوں کے قتل وتبدیلی نے بھی جلتی پر تیل کا کام کیا… چرچ کی باغی دانشوروں نے عیسائی تعلیمات کے اصول وضوابط کو عقل ومنطق کے خلاف قرار دیا اور عوام کو بادشاہ اور چرچ کے بجائے قوت وتبدیلی کا نہ ختم ہونے والا ممبہ بنا کرپیش کیا اور انسانیت(انسانیت پرستی) کی بالادستی کو عقل کے عین مطابق قرار دیا جس کے تحت عوام کی فلاح ہر چیز پر مقدم قرار پائی۔

یہی وہ احساس و جذبات تھے جو سنگ بنیاد بنے اس بڑے انقلاب کے جس کو دنیاآج انقلاب فرانس کے نام سے موسوم کرتی ہے۔ انقلاب فرانس نہ صرف مغرب میں تبدیلی کا موجب بنا بلکہ اس نے مشرق میں قدیم نظام کے تحت چلنے والی حکومتوں کو الٹ دیا۔ فرانس میں باغی عناصر کو فرانسیسی نظام حکومت سلطنت وریاست پر تین بنیادی اعتراض تھے۔

١۔ بادشاہ بالکلیہ مطلق العنان تھے، وہ نہ کسی قاعدہ قانون کے پابند تھے اور نہ کسی کو جواب دہ۔

٢۔ عوام میں مساوات قائم نہ تھی اور بعض طبقات کے حقوق زیادہ تھے اور بعض کے کم۔ عوام کی رائے کی چرچ اور بادشاہ کے سامنے کوئی وقعت نہ تھی۔

٣۔ ریاست اور اس کے قائم کردہ اداروں کی روش نہایت ظالمانہ تھی اور وہ عوام کے خلاف کارروائیاں کرنے کے عادی بن چکے تھے۔

حالات کا ر کاتاریخی اجمالی جائزہ:

مغربی تاریخ میں لارڈز (جاگیردار) اور مزارع (کسان) کی اپنی ایک تاریخی مادی اور سماجی حیثیت ہے۔ اس تاریخ سے آگاہی کے بغیر ان ایجنٹوں کے کرداراور اس سے ابھرنے والے انقلاب سے روشناس ہونا  مشکل بن جاتا ہے کہ کس طرح ایک نیم عیسائی مذہبی فرانس (مغرب) ماڈرن مادی دنیا میں تبدیل ہوا، اس مادہ پرستانہ انقلاب نے ساری دنیامیں کس طرح مساوات، آزادی، عقل پرستی اور جمہوریت کی ترویج کی اور ایسے عواقب و نتائج پیدا کیے کہ دنیا کے لیے ان سے پہلوتہی کرنا ناممکن ہو گیا… اس تناظر میں فرانس میں تین بنیادی عوامل نے انقلاب کی راہ ہموار کی۔

١۔سماجی تبدیلی اور سیاسی عمل

٢۔طبقاتی کشمکش

٣۔ معاشی عوامل اور عواقب

تاریخ فرانس میں یہ وہ تین بنیادی عوامل تھے جن کے تحت فرانسیسی عوام کو اذیت وکرب سے گزرنا پڑا اور فرانسیسی معاشرے میں بڑے پیمانے پر فساد (Violence) پھوٹ پڑا…اور فرانس کے خاص طبقوں کو فرانس کا پرانا معاشرہ مذہبی ظالمانہ نظر آنے لگا اور حالات نے ان کو بغاوت پر آمادہ کر دیا اور ماضی کی روایت اور طور اطوار پر تابڑ توڑ حملے شروع ہوئے۔ متمول مزارعوں ، اشرافیہ اور عیسائی تعلیمات کے باغی اورکتاب الٰہی (بائبل) کے  منکروں نے مل کر پرانے عیسائی معاشرہ کو جڑ سے اکھاڑنے کا فیصلہ کر لیا… اور بے شمار دیگر عوامل نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ آئیے ان عوامل کا ایک سرسری جائزہ لیتے ہیں تا کہ انقلاب فرانس کے محرکات کو سمجھنا آسان ہو۔

لوئس شازدھم:

فرانس میں ایک طویل عرصے سے بوربون خاندان کی حکومت و سلطنت چلی آ رہی تھی۔ جس کے یورپ میں دیگر شاہی خاندانوں سے رشتہ داریاں بھی قائم تھیں… لوئس شازدھم وہ آخری بوربون بادشاہ تھا جس کے خلاف انقلاب برپا ہوا۔ اس کی حکمرانی 1774سے 1792کے عرصے پر محیط ہے۔ یہ بوربون خاندان قدیم روایت کے تحت شاہی حکام اور چرچ کے ساتھ مل کر حکمرانی کے فرائض انجام دیتا تھا۔ اس کے وزیر ومشیر اس کے ماتحت تھے۔ صوبوں میں ایک گورنر اور اس کے مشیر مقرر کیے جاتے تھے۔ لیکن رفتہ رفتہ بادشاہ کی گرفت عاملِ حکومت اور اس کے ادارہ پر کمزور پڑتی جا رہی تھی جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان اداروںنے طے کیا کہ قومی نمائندوں سے مشورہ کیے بغیر بادشاہ کو نئے ٹیکس لگانے کا حق نہیں ہے۔یہ تجویز بالکل نئی اور انوکھی تھی کیوں کہ لوئس چہاردھم اور پانزدھم نے بے شمار ٹیکس رعایا پر عائد کیے تھے… اور 165سال میں کسی بادشاہ نے قومی نمائندوں کو جمع نہیں کیا تھا… چناں چہ جدید ٹیکسوں کے اجراء کے لیے بادشاہ نے اسٹیٹس جنرل کا اجلاس طلب کیا… فرانس کی تاریخ میں اسٹیٹس جنرل کو ہی پارلیمنٹ کے نام سے موسوم کیا جاتاتھاجس میں شہروں کے نمائندے، مذہبی رہنما اور امراء کے نمائندے شریک ہوتے تھے۔ قدیم بادشاہوں سے لے کر لوئس شازدھم تک کسی بادشاہ نے کسی امر میں کبھی عوام سے کسی مسئلہ میں صلاح مشورہ کا نہ تو سوچا تھا اور نہ اس کی توقع کی جا سکتی تھی۔ اس پارلیمنٹ کو کنٹرولر جنرل کے تحت چلایا جاتا تھا جو وقتاً فوقتاً بادشاہ کی مرضی کے ماتحت تبدیل ہوتے رہتے تھے۔ اور بادشاہ اپنی ذاتی اغراض کی حصول کیلئے اکثرکنٹرولر جنرل کو برطرف کر دیتا تھا۔ جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا کہ اسٹیٹس جنرل تین طبقات کے نمائندوں پر مشتمل تھی۔ امرائ، مذہبی رہنما اور عوام…ایوان عام کے نمائندوں کو انقلاب فرانس کے تاریخی کردار میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔ اس کو عرف عام میں تیسری اسٹیٹ کہا جاتا ہے۔تھرڈ اسٹیٹ کے کردار کو انقلاب فرانس میں ایک بڑے محرک /قوت کی حیثیت حاصل تھی…  تھرڈ اسٹیٹ کو ایوان عام کی حیثیت حاصل تھی جو پارلیمنٹ میں عامة الناس کی نمائندگی کرتی تھی… اور غیر مراعات یافتہ طبقہ گردانا جاتا تھا… مغرب میں تحریک تنویر کے اجراء کے وقت سے بادشا ہ اور مذہبی طبقات شدید تنقید کا نشانہ بنے ہوئے تھے اور ایوان عام تھرڈ اسٹیٹ کو طاقت و قوت کا سرچشمہ بناکرپیش کیاجارہاتھا۔یہ تھرڈ اسٹیٹ عوام کوپمفلٹوں کے ذریعے بغاوت پر اکسا رہی تھی ان پمفلٹوں میں سر عام اس خواہش کا اظہار کیا جار ہا تھا کہ مذہبی اداروں کے ساتھ ساتھ اسٹیٹس جنرل کا بھی مذہبی طریقہ اور سوچ سے اوپر اٹھ کر لبرل دلائل اور اصول کی روشنی میں جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ تھرڈ اسٹیٹ کو بالادست کرنا وقت کی ضرورت ہے۔اور عوام کے مفادات کو ترجیح دی جائے۔ ان تحریروں کواور پمفلٹوں کو بادشاہ اور اس کے حوارین ملک کے لیے اور سسٹم کے لیے تباہ کن قرار دیتے رہے۔ پارلیمنٹ کی نمائندگی ، پمفلٹوںاور جدید فلسفیانہ تحریروں نے فرانسیسی عوام کو قوم کا جامہ پہنا دیا۔ جس کی بنیاد پر پارلیمنٹ کی نمائندگی ووٹ دینے کے حق، طریقہ انتخاب، انتخابی حلقوں وغیرہ کو لبرل بنانے پر بادشاہ مجبور ہو گیا لیکن تیسری اسٹیٹ کا طریقہ کار اتنا گنجلک اور پیچیدہ قوانین کا تھا کہ اس کو سمجھنا آسان نہ تھا لیکن اس کے نمائندوں کو عددی برتری حاصل تھی جن کی تعداد چھ سو کے لگ بھگ تھی۔ انہوں نے پارلیمنٹ میں امراء اور مذہبی طبقہ پر فوقیت دلانے میں اہم کردار ادا کیا… اور انہوں نے نہ صرف اپنے حامی امراء پیداکئے بلکہ انہوں نے اپنے حوارین مذہبی طبقے میں بھی پیدا کرلئے۔یہ تھرڈ اسٹیٹ جو بعد ازاں ایک خود مختار انقلابی قومی اسمبلی کی سرخیل ٹھہری… اس اسمبلی کے خیالات پر باغیانہ عیسائی خیالات اور جذبات کا رنگ ڈھنگ نمایاں تھا۔ جن کے سپاس ناموں میں انقلاب نو کی واضح تصویرکشی کی جا سکتی تھی۔ جس میں زیادہ سے زیادہ آزادی ، مساوات اور ترقی کی بات کی گئی تھی اور وہ حالات وواقعات کے تناظر میں کسی حد تک محدود شہنشاہیت کے وفادار نظر آتے تھے اور چرچ کی بھی اصلاح چاہتے تھے اور وہ ایک جدید قوم بننا چاہتے تھے اور اس کی پشت پر ان پمفلٹوں کی تحریر یں تھیں جو انہیں باغیانہ خیالات، جذبات اور عوامل پر اکساتی تھیں جن کی اشاعت صرف پیرس میں 1784ء میں ہزاروں میں پہنچ چکی تھی… یہ پمفلٹ عوام کو اکساتے تھے کہ رائے عامہ (جنرل وِل) کا اظہار صرف قومی اسمبلی کے ذریعہ ہی ممکن ہے اور یہ اس اظہار کا فطری طریقہ ہے۔ یہ تحریریں تھرڈ اسٹیٹ کے لیے مشعل راہ تھیں اور وہ یہ ثابت کرتی تھیں کہ جمہوری طریقہ کار اپنا کر انقلاب کے ذریعہ بادشاہت، جاگیرداری، مذہبی بالادستی سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے، لہٰذا تھرڈ اسٹیٹ جس کے اختیارات مذہبی طبقے اور طبقۂ امراء سے کم تھے انہوں نے 17جون 1789ء کو اپنی تئیں خود کو نیشنل اسمبلی کے طور پر متعارف کرا دیا۔ جس کے کچھ نمائندے کسانوں اور مزدوروں پر مشتمل تھے اور کچھ طبقات جدید سرمایہ داروں پر مشتمل تھے۔ ان کے خیالات پر لبرل فکر، لبرل مفکرین کی آراء غالب تھیں۔جن کو بادشاہ اور چرچ سوائے گندگی کچھ نظرنہ آتے تھے۔

فرانسیسی طرز حکومت، طرزِ بودوباش، طرزِ معاش حفظ مراتب کی بنیاد پر قائم تھی۔ جن کو تین طبقات میں تقسیم کیا گیا تھا: پادری، امراء اور عوام…

پادریوں کا طبقہ سب سے اونچا اور واجب التعظیم سمجھا جاتا تھا ۔ چرچ کے طبقہ کی ملکیت میں بڑی بڑی جاگیریں تھیں جن کی چرچ کو سالانہ مال گزاری بھی ادا نہ کرنی پڑتی تھی اور نہ حکومت ان پر کسی قسم کاٹیکس عائد کر سکتی تھی۔ ہر پانچواں برس چرچ ایک خاص مجلس فرسٹ اسٹیٹ بلا کر خود ہی اپنے اوپر لگان یا ٹیکس مقرر کر لیتی تھی۔چنانچہ لوئس شازدھم کے وقت تک چرچ ایک وسیع دولت اور زمینوں جاگیروں کا مالک بن چکا تھا۔ یہ فرانس کا سب سے بڑا مال دار طبقہ تھا۔ چرچ کے باہر بھی چرچ کو کچھ اختیارات حاصل تھے مثلاً تعلیم، شفاخانوں ، خیرات خانوں کی نگرانی… ان کی خاص عدالت بھی تھی جہاں مذہبی مقدمے اور پبلک کے نکاح وطلاق کے مقدمے بھی طے ہوتے تھے۔ بازار اور کاریگروں کے معاملات میں بھی چرچ دخیل تھا… رفتہ رفتہ چرچ کے تمول و دولت کی ریل پیل نے چرچ کو کاہلی میںمبتلا کر دیا اور عامة الناس کی نظروں میں لبرل افکار اور ان کے نظریات جگہ پانے لگے۔ ان نظریات اور لبرل اقدار کا چرچ جبروت وقوت رکھنے کے باوجود مدلل جواب نہ دے سکا کیوں کہ حکومت و معاشرت و سیاست چلانے کے لیے چرچ کے سامنے حضرت عیسیٰ  کی عملی سنت موجودنہ تھی بلکہ وہ سب قرونِ وسطیٰ کے یونانی اور رومی طریقے کومذہبی رنگ دے کرچلائے جا رہے تھے۔ چرچ بہت سارے معاملات میں معاملہ فہمی اور مساوات کی صفت سے عاری تھا۔ چرچ کو ایک طرف جدید مفکرین کا سامنا تھا تو دوسری طرف چرچ سے بغاوت کرنے والے ایک نئے فرقہ سے بھی سابقہ تھا، جسے فرانس میں Hugenot کہا جاتا تھا… جس کی سوچ پر بھی جدید مفکرین کی واضح چھاپ تھی۔ ١٧٨٩ء تک چرچ کے سب ہی اسقف یعنی لاٹ پادری طبقہ اشرافیہ میں سے لیے جاتے تھے۔ عام گرجا گھروں کے پادریوں کو عوام کے نچلے طبقوں سے لیا جاتا تھا اور ان کا مرتبہ کسانوں اور مزدوروں کے برابر تھا… نودولتیے اور سرمایہ دار طبقہ ٹھیکیدار اور بیوپاری ان پادریوں سے نفرت کرتے تھے اور ان کو حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے ۔ لگان سختی سے وصول کرنے اور امیروں کبیروں کے حق میں فتویٰ دینے کی وجہ سے بھی اور پادریوں کے غیرمساویانہ اور غیر رواداری کے جذبوں کی وجہ سے عوام ان سے دور ہوتے چلے جارہے تھے۔ اب پادری بننے کے شائق امیدواروں میں بھی دن بدن کمی واقع ہو رہی تھی۔ فرانس میں اب لوئس چہاردہم کے عہد کی چرچ کی گہما گہمی مانند پڑتی جا رہی تھی لیکن یورپ میں عام خیال یہی تھا کہ فرانس کے پادریوں سے بہتر پادری سارے یورپ میں کہیں اور نہیں پائے جاتے۔

١٧٨٩ء تک کیتھولک چرچ فرانسیسی سوسائٹی کی قدیم ترین انجمن تھی۔ فرانس میں ہر پچیسواں شخص یا تو پادری تھا یا راہب لیکن ان سب کے باوجود منطق عقل پرستی کی بالادستی کو عروج حاصل ہو رہا تھا اور چرچ اور پادری کی تضحیک اور ملامت فرانس میں فیشن بنتی جا رہی تھی… اس سب کے باوجود کیتھولک چرچ کی جڑیں عوام میں اتنی گہری تھیںکہ انقلاب پسند چند قوتیں بھی نئے نظام کے تحت اخلاقی سدھار کے لیے چرچ کا ایک رول رکھناچاہتے تھے لہٰذا ان میں بہت سے اس کوشش میں تھے کہ کیتھولک پادری کو جمہوریت دوست، عقل پسند اور انسانی مساوات کا خوگر کیسے بنایا جا سکتا ہے اورایسا اسی وقت ممکن ہے جب چرچ کی اصلاح کر دی جائے۔ بھیک مانگنے، فقر وصبر اور قناعت سے متعلق سب ہی مذہبی احکامات مسترد کر دیے جائیں۔ عبادت کی قدیم صورت کو اسٹینڈرائزڈ کر دیا جائے…مذہبی احکامات کو کلیتاً رد کر دیا جائے۔ چرچ کی جائداد صرف پوپ یا پادری کی نہیں بلکہ پوری قوم کی گردانی جائے۔ چناں چہ انقلاب کے بعد دستور کے ذریعہ چرچ کی ہر میدان میں اجارہ داری کو چیلنج کر دیا گیا… قانون ساز اسمبلی (نیشنل اسمبلی) نے سول میرج اور سول میرج رجسٹریشن کو ملک کا قانون بنا دیا ۔ طلاق کے مسائل کو عورت کے حقوق کے نام پر سہل بنا دیا گیا۔ چناں چہ آزادی اور مساوات کے نام پر چرچ کے عمل دخل کو عائلی قوانین کے ذریعہ بدل گیا۔

طبقہ امرائ:

طبقہء امراء فرانس کی بہت بڑی زمین کے مالک تھے۔ آہستہ آہستہ زمین ان کے قبضہ سے نکل کر کسانوں کے قبضہ میں آتی جا رہی تھی جس کی مختلف سیاسی اور انتظامی وجوہات تھیں، لیکن قوت، نظم ونسق اور مال گزاری ٹیکس وغیرہ کا انتظام ان ہی کے ہاتھ میں تھا۔ بعد ازاں سیاسی اصلاحات کے ماتحت بہت سے امراء کے بہت سے حاکمانہ حقوق ‘ عمال سرکاری کی طرف منتقل ہو گئے لیکن پھر بھی ان کی عزت وتوقیر میں فرق نہ آیا… سرکاری عہدوں، دربار کے عہدے ان ہی امراء سے پر کیے جاتے تھے اور حفظ مراتب کے لحاظ سے امراء کی عزت وشرافت اور برتری مسلم تھی۔ فرانس کا مشہور ادیب والٹیر جس کی فکر کو انقلاب فرانس میں اہم مقام حامل ہے کسی امیر سے بدکلامی کی وجہ سے بیسٹائل کے قیدخانہ میں ڈالا گیا اور بعد ازاں جلا وطن کر دیا گیا۔

عوام الناس:

تھرڈ اسٹیٹ کا سب سے ادنیٰ طبقہ عوام الناس کا تھا۔ بادشاہ اس زمانے میں عدالتی اور مالی عہدے فروخت کیا کرتے تھے۔عوام میں سے جو ان عہدوں کو خرید لیتا ان کی حیثیت بلند ہو جاتی تھی صرف یہی لوگ منصف و تحصیلدار بنائے جاتے تھے اور ان میں سے جس کے عہدے موروثی ہوتے تھے اگر وہ اقتدار حاصل کرلیتے  تو عوام کے درجہ سے ترقی کر کے امراء کے طبقہ میں داخل ہو جاتے تھے تمام عمال حکومت کو ٹیکس اور جنگی بھرتی وغیرہ سے مستثنیٰ رکھا جاتا تھا۔

غیر سرکاری عہدوں میں ان صناعوں اور دستکاروں کو خاص امتیاز حاصل تھا جو اپنے پیشہ وہنر میں استاد ہوتے تھے۔ انہیں چرچ کے ماتحت ایک خاص پروانہ دیا جاتا تھا جس کی رو سے بغیر ان کی اجازت و رضامندی کے کوئی دوسرا شخص اس پیشے کو اختیار نہ کر سکتا تھا یعنی لوئس شازدھم کے عہد تک فرانس میں مارکیٹ نہ تھی بلکہ وہاں چرچ امور کے زیر انتظام منظم کئے جاتے تھے۔

چنانچہ ہم دیکھتے ہیںکہ باغی عناصرنے مساوات اور حقوق کے نام پرعیسائیت چیلنج کرنا شروع کر دیا اور عامة الناس کو عیسائیت کی اصلاح کے نام پر پرانے نظام سے برگشتہ کرنے میں کامیاب رہے۔

تعلیمی نظام:

جدید دنیا میں مغربی فکر کی بالادستی تعلیمی نظام کی بنا پر بھی قائم ہے۔١٧٨٩ء میں فرانس میں کیتھولک تعلیم رائج تھی۔ عیسائی اسکول بند ہو رہے تھے ان کی جگہ نیم مذہبی کالج لے رہے تھے۔ان نیم مذہبی کالجوں میں تعلیم اب بھی کڑے مذہبی پس منظر میں دی جاتی تھی۔ مگر ان نیم لبرل اسکولوں اور کالجوں میں لڑکے مذہب سے زیادہ فلسفہ اور اخلاقیات کی تعلیم میں دلچسپی لیتے  اور شاہی فرانس کی تاریخ کی نسبت انہیں رومی ریپبلک کی تاریخ سے زیادہ دلچسپی ہوتی تھی۔ طریقہ تعلیم پر بیداری(عیسائی نظام تعلیم سے بغاوت) کی ایک لہر طاری تھی۔ ڈکشنری آف فلاسفی، ایمائل کی جلد یں اور روسو کے مضامین زیادہ دلچسپی کا باعث بنتے جا رہے تھے۔ مذہبی تعلیمات کو لوگ اب آہستہ آہستہ خیر باد کر رہے تھے۔ ادب، قانون، اقتصادی مبادیات سے ذریعہ معاش کی نئی راہیں متعین ہو رہی تھیں۔ منطق اور عقل مذہبی تعلیم کی جگہ لے رہی تھی جس پر مشہور فرانسیسی مفکرین روسو اور والٹر کی تصانیف کے واضح اثرات تھے… نودولتیہ ٹھیکیدار اور بیوپاری فرانسیسی کیتھولک ازم کو حقارت کی نظر سے دیکھتے اور ان کا خیال تھا کہ فرانسیسی چرچ اپنی اہلیت اور پاکیزگی کھو چکا ہے۔ یہاں اب فیصلہ موروثیت اور دھن دولت اور اشرافیہ کے حقوق کے حق کی بنیاد پر کئے جاتے ہیں۔

نوید انقلاب:

ملک کے روشن خیال طبقہ کو امید تھی کہ گورنمنٹ بطور خود اصلاح کی طرف مائل ہو گی اور عمدہ نظام حکومت قائم کرے گی، لیکن بادشاہ کی روش نے انہیں یقین دلا دیا کہ گورنمنٹ اپنی کج روی ہرگز نہ چھوڑے گی، اور پادری اور امراء اپنے غیرمساویانہ حقوق و اختیارات سے دست بردار نہ ہوں گے۔ جب تک پبلک انہیں مجبور نہ کر دے گی۔ چناں چہ روز بروز انقلاب کی ضرورت محسوس ہونے لگی اور پبلک میںانقلاب نوکی امنگ جڑ پکڑنے لگی۔

اس وقت تک فرانسیسیوں کو معلوم نہ تھا کہ انقلاب کس طرح برپا کیا جا سکتا ہے اور جنہیں معلوم تھا وہ بھی مایوس تھے کیوں کہ اس تحریک کے شروع کرنے سے پہلے پبلک میں کوئی احساس نہ تھا، چنانچہ انقلاب سے دو سال پہلے ١٧٨٧ء میں جب آرتھریون انگریزی سیاح نے فرانس کی سیر کی تو اس نے بھی یہ کہہ کر اپنی مایوسی ظاہر کی کہ” باشندوں کی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ وہ اپنے ملک سے زیادہ ہالینڈ کی سیاسیات پر بحث کرتے ہیں۔”

لیکن پورے دو سال بھی نہ گزرنے پائے تھے کہ سارے فرانس میں آگ لگ گئی اور وہی قوم جو اپنی بے حسی و بے حمیتی میں ضرب المثل ہو رہی تھی یکایک ایسی بدلی کہ آزادی و جمہوریت کے سبق دنیا کو دینے لگی  اورانہیں پرانے بادشاہی نظام کو اکھاڑپھینکنے پراکسانے لگی۔

گورنمنٹ اور امراء کے مابین ناچاقی، مالی معاملات کی وجہ سے ہوئی۔ گورنمنٹ کی مالی حالت ازحد خراب ہو رہی تھی، کیوں کہ گزشتہ پچاس سال سے خرچ آمدنی سے زائد تھا۔ امریکہ کی جنگ نے اسے اور بھی کنگال کر دیا تھا کیوں کہ اسے پچاس کروڑ فرانک اس پر خرچ کرنے پڑے تھے ۔ ہر سال کے بجٹ کی کمی قرض لے کر پوری کی جاتی تھی جس کے بوجھ سے ملک دن بدن زبوں حالی کاشکاربنتا جارہا تھا چنانچہ بجز اس کے اور کوئی چارہ کار نہ رہا کہ بیکار عہدے ختم کرکے اور غیر ضروری منصب دار امراء کو برطرف کر کے کفایت شعاری کرے ، ساتھ ساتھ نیا ٹیکس لگا کر آمدنی بڑھائے کہ جس کے ادا کرنے میں امراء اور عوام سب شریک ہوں اور کسی میں کوئی تفریق نہ کی جائے۔ اس کاروائی کی انجام دہی کے لیے امراء کی ایک مجلس شوریٰ کا طلب کرنا ضروری تھا چناں چہ گورنمنٹ نے اس مقصد کے لیے ایسے امراء کو منتخب کر کے جمع کیا جن کے متعلق یقین تھا کہ اس کے ہم آہنگ ہوں گے۔ پبلک نے اس موقع پر ان امراء کے ساتھ بڑا تمسخر کیا۔ ہزاروں کی تعدادمیں ایسی کٹھ پتلیاں بنا کر تقسیم کیں جن کا سر ہر وقت آگے کو ہلتا تھا۔ ان سے مراد وہ امراء تھے جو گورنمنٹ کی ہاںمیں ہاں ملانے کو جمع ہوئے تھے۔

گورنمنٹ کی اس کاروائی کا یہ نتیجہ نکلا کہ تمام امراء اس سے برگشتہ ہو گئے۔ یہ ان سے روپیہ چاہتی تھی اور وہ دینے سے انکار کرتے تھے۔ امراء کی اس سرکشی سے ناراض ہو کر بادشاہ نے ارادہ کر لیاتھا کہ ٹیکس کے معاملہ میں ان کے حقوق توڑ کر انہیں کسی قدر کمزور کر دے تاکہ ایک طرف ان سے روپیہ بآسانی مل سکے اور دوسری طرف وہ اس کے قابو میں رہیں۔ اس کے مقابلہ میں امراء نے بھی یہ فیصلہ کر لیاتھا کہ اپنے حقوق سے دست بردار نہ ہوں گے، اور اپنے کو بادشاہ ِوقت کی دسترس سے باہر رکھنے کے لیے اس کی مطلق العنانی گھٹا کر چھوڑیں گے۔ عوام کو اس جھگڑے سے بڑی مدد ملی کیوں کہ وہ بالکل متحد و متفق تھے اور وہ چاہتے بھی یہی تھے کہ بادشاہ اوران کے مخالفوں میں پھوٹ پڑ ے۔

بادشاہ کو امید تھی کہ وہ اپنی سعی وتدبیر میں ضرورکامیاب ہو گا لیکن نتیجہ بالکل برعکس رونما ہوا اور اسے اپنی شدید مالی مشکلات کے ساتھ تین نئی مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا۔

١) سب سے پہلی ناکامی تو اسے یہ ہوئی کہ جن امراء کو اس نے اپنا طرف دار سمجھ کر مجلس شوریٰ میں جمع کیا تھا انہوں نے اس کا ساتھ نہ دیا اور جدید ٹیکس کی سخت مخالفت کی۔

٢) جب پارلیمنٹ سے اس معاملہ پر گفتگو کی گئی تو اس نے اعلان کر دیا کہ وہ جدید قرضہ کی مخالفت کرتی ہے کیوں کہ گورنمنٹ نے کوئی معقول وجہ اس کی تائید میں پیش نہیں کی ہے۔ پارلیمنٹ کی یہ کاروائی اس کی روایات کے بالکل خلاف تھی کیوں کہ اب تک اس کا کام صرف یہ تھا کہ یا تو بادشاہ کی خوشامد کرے اور یا اس کے حضور اپنی شکایات ادب سے پیش کرے ۔ پارلیمنٹ نے جب دیکھا کہ اس کی جدید کاروائی کی ہر طرف سے تائید ہو رہی ہے اور پیرس کی پبلک اس کی حمایت پر ہے تو اس نے ایک اور جرأت کی اور صاف صاف اعلان کر دیا کہ صرف قومی نمائندوں ہی کو یہ حق حاصل ہے کہ جس ٹیکس کو چاہیں منظور کریں اور جسے چاہیں نامنظور کر دیں لہٰذا پارلیمنٹ کو امید ہے کہ بادشاہ پارلیمنٹ کا ایک عام جلسہ منعقد کرے گا تا کہ قوم کے تمام نمایندے جمع ہو کر ٹیکس کے معاملہ پر غور کر کے اپنا فیصلہ صادر کریں۔”

پارلیمنٹ کے اس طرز عمل نے گورنمنٹ کو بدحواس کر دیا۔ اور اس نے چاہا کہ نرمی وفریب سے حاجت براری کرے اور معترضوں کو خاموش کر دے ۔ چناں چہ اس نے جدید اصلاحات کی ایک اسکیم شائع کر دی ۔ Hugenot فرقہ کو مذہبی آزادی دے دی۔ صوبوں میں گورنروں کی مدد اور نگرانی کیلئے کونسلیں بنا دیں۔

٣)تیسری عجیب تر بات یہ ہوئی کہ صوبائی حکومتوں اور کونسلیں ہی گورنمنٹ سے برگشتہ ہو گئیں انہوںنے پارلیمنٹ کی تائید کی۔ وزارء کے ظلم و استبداد پر سخت معترض ہو ئیں ساتھ ہی ریان بروفانس اور دوفیسا کے علاقوں میں شورش برپا ہو گئی۔ جس کے بانی خود امراء تھے۔ ووفینا کے امراء تو یہاں تک مشتعل ہو ئے کہ عوام کے ساتھ متحد ہو گئے اور اس علاقہ میں جدید نظام حکومت قائم کر دیا اور سارے فرانس کے لیے اصلاح کا مطالبہ کر دیا۔

حالات کی اس اچانک تبدیلی نے گورنمنٹ کو مخبوط الحواس کر دیا۔ پبلک پر سے اس کا رعب اٹھ گیا، ہر جگہ اعلانیہ اس کی مذمت ہونے لگی ، پریس نے خودمختاری حاصل کر لی۔ سنسر کا شکنجہ خودبخود ٹوٹ گیا اور ١٧٨٧ء اور ٨٨ء میں ہزاروں پمفلٹ ، گورنمنٹ کی مطلق العنانی اور امراء کے امتیازات کے خلاف شائع ہو کر پھیل گئے اور ان سے پبلک کے خیالات میں ہیجان عظیم پیدا ہو گیا۔

پارلیمنٹ نے اپنے عام اجلاس کا جو مطالبہ کیا تھا اسے گورنمنٹ منظور نہ کرنا چاہتی تھی کہ قومی نمائندوں کا اجتماع اس کے حق میں فال نیک نہیں ہے لیکن دن بدن وہ مجبور ہو تی جاتی تھی کیوں کہ اس کی مالی حالت بالکل زبوں ہو گئی تھی اور خزانہ میں پانچ لاکھ فرانک بھی باقی نہ رہے تھے ۔ آخر اسے اپنا متکبر سر جھکانا پڑا اور پارلیمنٹ کا مطالبہ منظور کرنا پڑا تا کہ کوئی سبیل روپیہ حاصل کرنے کی نکل سکے۔

لیکن اس مطالبہ کے قبول کرتے ہی بادشاہ کے سامنے دو نہایت پیچیدہ مسئلے آگئے جن کا حل ضروری تھا اور وہ یہ کہ:

١) قوم کو عام انتخاب کا حق دیا جائے ؟ یا سابق دستور کے مطابق تینوں طبقوں میں علیحدہ علیحدہ انتخاب ہو؟ اگر پہلی صورت میں عمل کیا جاتا تو پادریوں اور امراء کی مستقل حیثیت جاتی رہتی اور اگر دوسری صورت اختیار کی جاتی تو پبلک نمایندوں کی آواز بالکل کمزور ہو جاتی کیوں کہ پارلیمنٹ میں ان کی تعداد باقی دونوں طبقوں کے نمائندوں سے کم تھی۔

٢)پھر یہ بات ہی نہایت غور طلب تھی کہ پارلیمنٹ کے عام جلسہ کو کن معاملات پر بحث کرنے کا حق ہو گا؟ صرف مالی معاملات پر یا جملہ نظام حکومت پر؟

یہ دونوں مسئلے نہایت پیچیدہ تھے، کیوں کہ امراء ٹیکس کی اصلاح تو چاہتے تھے مگر اپنے غیرمساویانہ حقوق چھوڑنے کے لیے تیار نہ تھے اور اسی لیے وہ چاہتے تھے کہ نمائندوں کا انتخاب طبقہ وار ہو، عام نہ ہو۔ برخلاف ان کے موجودہ پارلیمنٹ عام انتخابات پر زور دیتی تھی۔ا س اختلاف کا نتیجہ یہ نکلا کہ پارلیمنٹ اور امراء میں سخت نزاع پیدا ہوگیا اور گورنمنٹ کو حَکم اور جج کی پوزیشن حاصل ہو گئی لیکن وہ اس سے فائدہ نہ اٹھا سکتی تھی کیوں کہ وہ دونوں میں سے جس کا ساتھ دیتی نقصان اٹھاتی۔ اگر امراء کی رائے کو ترجیح دیتی تو ٹیکس سے ہاتھ دھوتی اور اس طرح اپنی زندگی خطرہ میں ڈالتی اور اگر پبلک کی بات مان لیتی تو اپنی مطلق العنانی کو اپنے ہاتھ سے دفن کر دیتی۔ وہ موقع کی نزاکت کو بخوبی محسوس کرتی تھی اور اسی لیے اس نزاع میں برابر اپنی غیر جانبداری ظاہر کر رہی تھی ۔

چنانچہ پارلیمنٹ کے اجلاس شروع ہونے سے پہلے تینوں طبقوں نے باہم تبادلۂ خیال کیا اور سب اس امر پر متفق ہو گئے کہ محکمہ ٔ مال وخزانہ کی اصلاح کی جائے اور گورنمنٹ کے لیے ایک دستور العمل مرتب کیا جائے جو اس کی مطلق العنانی ختم کرنے والا ، اور قوم کے حقوق محفوظ کرنے والا ہو۔ اس کے علاوہ پبلک کے نمایندوں کا یہ مطالبہ بھی تھا کہ قوم میں مساوات قائم ہو اور غیر مساویانہ حقوق وامتیازات اٹھا لیے جائیں۔ نیز انہوں نے یہ بھی طے کیا تھا کہ اگر چہ انتخاب ہر طبقہ کا علیحدہ ہوا ہے اور اس کے متعلق ہماری رائے گورنمنٹ نے نہیںمانی ہے لیکن پارلیمنٹ میں ووٹ طبقہ دار نہ دیے جائیں بلکہ تمام ممبروں کو قوم کا نمایندہ تصور کر کے فرداًفرداً رائے لی جائے۔ اِدھر یہ گرماگرمی تھی اور ادھر گورنمنٹ سوئی ہوئی تھی اور اب تک طے نہ کر سکی تھی کہ پارلیمنٹ کی ترتیب کس اسلوب پر ہو اور کن معاملات پر وہ بحث کرے ۔ آخر اسی حالت میں پانچ مئی کو وسیلیز میں اس اجلاس کا باقاعدہ افتتاح ہو گیا۔

پارلیمنٹ جلسہ گاہ کا دروازہ کھلتے ہی چپقلش شروع ہو گئی ، کیوں کہ گورنمنٹ نے قدیم دستور کے مطابق ہر طبقہ کے لوگوں کے لیے علیحدہ علیحدہ نشستیں رکھی تھیں۔ عوام کے نمائندوں نے اس پر نہایت سختی سے اعتراض کیا ، اس لیے اگر وہ اسے منظور کر لیتے تو ووٹ بھی ہر طبقہ کے علیحدہ علیحدہ شمار کیے جاتے جو کسی طرح بھی انہیں قبول نہ تھا۔ عوام کے اس اعتراض کا نتیجہ یہ نکلا کہ پادری اور امراء پھر ان سے جھگڑنے لگے۔ اس موقع پر گورنمنٹ نے دونوں اوّل الذکر طبقوں کا ساتھ دیا اور عوام کی کچھ پروا نہ کی مگر وہ بھی اپنی ضد پر جمے رہے ۔ وہ کسی طرح بھی اپنے مطالبہ سے ہٹنا نہ چاہتے تھے۔ اس جھگڑے میں چھ ہفتوں تک کاروائی ملتوی ہوتی رہی اور فریقین میں سے کسی نے بھی اپنے موقف میں تبدیلی نہ کی۔ یہاں تک کے ایک روز عوام کے نمائندوں نے پوری جرأت کے ساتھ اعلان کر دیا کہ قوم کے نمائندے ہم ہیں، ہم ہی ذمہ دارہیں اور ہم ہی کو حق ہے کہ اس کے معاملات کا فیصلہ کریں۔ اگر پادری اور امراء اپنے کو قوم کا قائم مقام سمجھتے ہیں تو وہ بھی ہمارے ساتھ مل کر کام کریں ، اور اگر وہ اپنے کو علیحدہ اور بلند سمجھتے ہیں تو ہمیں ان کی کوئی حاجت نہیں…ہم ان کے بغیر بھی کام کر سکتے ہیں، ہماری مجلس کا نام آج سے قومی کانگریس ہے اور وہی قوم کی ذمہ دار جماعت ہے! امراء اور پادریوں نے عوام کی دعوت کو حقارت سے ٹھکرا دیا اور اس لیے ‘قومی کانگریس’ اپنے جلسے مستقل طور پر کرنے لگی۔

‘قومی کانگریس’ کے قیام سے گورنمنٹ بہت گھبرائی اور بیس جون کو اس نے وہ ہال بند کر دیا جس میں یہ کانگریس منعقد ہوتی تھی، اس پر قومی نمائندے ایک تھیٹر میں جمع ہوئے اور حلف اٹھایا کہ اس وقت تک منتشر نہ ہوں گے جب تک سلطنت کے لیے قانون اساسی مرتب نہ کر لیں گے۔ یہ فعل گویا اس بات کا اعلان تھا کہ بادشاہ ان کی کانگریس پر کوئی اقتدار نہیں رکھتا ہے اور نہ وہ اسے منتشر کر سکتا ہے۔ پبلک نے بھی اپنے نمایندوں کا ساتھ دیا اور اس طرح کانگریس کی پوزیشن بہت زبردست ہو گئی۔

گورنمنٹ نے جب دیکھا کہ حالات خطرناک ہوتے جار ہے ہیں تو ٢٣ جون کو ایک شاہی جلسہ منعقد کیا تا کہ اس میں اس جھگڑے کا تصفیہ کیا جائے۔ تینوں جماعتوں کے نمایندے شریک ہوئے۔ پہلے بادشاہ نے اپنا شاہی اعلان پڑھا ، پھر یہ تصفیہ کیا کہ تینوں طبقوں کے حقوق بدستور قائم رہیں گے اور پارلیمنٹ صرف ٹیکس کے معاملہ پر غور کرے ۔ امراء اور پادریوں نے اس فیصلہ کو قبول کر لیا، مگرعوام نے صاف انکار کر دیا اور نہایت سختی سے اس کی تردید کی۔ اس پر بادشاہ نے برہم ہو کر انہیں جلسہ سے نکل جانے کا حکم دیا،لیکن انہوں نے یہ حکم بھی نہ مانا اور پوری جرأت سے اس کی مخالفت کی۔

اب صورتِ حال اور بھی زیادہ خطرناک ہو گئی۔ عوام اعلانیہ طور پر گورنمنٹ اور بادشاہ کے مقابل آ گئے اور گورنمنٹ کو اچھی طرح سے معلوم ہو گیا کہ وہ سخت خطرہ میں گھر گئی ہے دوسری طرف امراء اور پادری  جو عوام کے مخالف تھے اور جن کی مخالفت سے گورنمنٹ ہمیشہ فائدہ اٹھایا کرتی تھی، آپس میں لڑ پڑے اور ان میں سے اکثر چھوٹے چھوٹے پادری اور امراء عوام سے جا ملے ۔ اب گورنمنٹ کے لیے بجز اس کے چارہ ہی کیا تھا کہ عوام کی متفقہ طاقت کے سامنے جھک جائے۔ چناں چہ ایسا ہی ہوا، اس نے ‘قومی کانگریس’ تسلیم کر لی ور تمام امراء اور پادریوں کو بھی اس میں شرکت کرنے کا حکم دیا۔

باسٹیل:

قومی کانگریس کا تسلیم ہو جانا ایک عظیم الشان فتح تھی جو عوام کو گورنمنٹ پر حاصل ہوئی بلکہ یو ں کہنا چاہیے کہ جتنے قانونی ہتھیار اس کے پاس تھے سب اس نے ان کے سامنے ڈال دیے اور اپنے کو ان کے ہاتھوں میں دے دیا۔ لیکن ابھی خطرہ باقی تھا ، جنگی طاقت بادشاہ کے ہاتھ میں تھی اور کانگریس کے پاس کوئی جنگی طاقت نہ تھی اور گورنمنٹ کے اختیار میں تھا کہ جنگی طاقت استعمال کر کے جب چاہے کانگریس کو شکست دے دے۔ اور دراصل اس کا ارادہ بھی یہی تھا۔ وہ برسیلز میں فوجیں جمع کر رہی تھی اور ایک مرتبہ اور قسمت آزمائی کرنا چاہتی تھی لیکن وہ ایسا نہ کر سکی ، کیوں کہ پیرس کی پبلک اس خطرہ سے آگاہ تھی اور اس نے اپنی کانگریس کے بچانے کا مصمم ارادہ کر لیاتھا  چناں چہ اس نے بہت جلد اپنے کو تیار کر لیا اور جہاں تک ممکن ہو سکا مسلح ہو گئی۔

اس اثناء میںیہ ہو اکہ شدید قحط سالی کی وجہ سے قرب وجوا ر کے فاقہ زدہ او رجرائم پیشہ لوگ بہت بڑی تعداد میں پیرس آ گئے، تا کہ کوئی صورت زیست کی ہو لیکن جب یہاں پہنچ کر انہیں حالات معلوم ہوئے، تو وہ بھی گورنمنٹ کی مخالفت پر کمر بستہ ہو گئے۔

غرض یہ کہ جب پیرس میں یہ فاقہ مست پہنچے توانہوں نے شورش مچانا شروع کر دی۔ پبلک نے بھی ان کا ساتھ دیا، اور سب نے مل کر سب سے پہلے باسٹیل کے قیدخانہ پر حملہ کر دیا، اس لیے کہ وہی گورنمنٹ کے جوروستم کا مجسمہ تھا۔ پبلک کے مقابلے کے لیے پیرس میں شاہی فوج زیادہ نہ تھی، صرف قیدخانہ کے محافظ سپاہی تھے اور ایک فوج فرنچ گارڈ کے نام سے تھی جو عرصہ دراز سے پیرس میں رہتے رہتے باشندوں سے بہت مانوس اور انقلابی خیالات سے متاثر ہو چکی تھی چناں چہ وہ بھی فوراً ان کے ساتھ ہو گئی اور اس کے ایک افسر نے باسٹیل کی چڑھائی میں پبلک کی قیاد ت کی لیکن پھر بھی پبلک اور شاہی فوج میں اچھی خاصی جنگ ہوئی ۔ جس میں اہل پیرس نے بڑی شجاعت کا اظہار کیا اور بالآخر فتح یاب ہوئے۔ باسٹیل کے اعلیٰ

افسر نے ہتھیار ڈال دیے اور قیدخانہ کی کنجیاں ان کے حوالہ کر دیں۔ اس فتح پر پبلک نے جو خوشی منائی اس کا اظہار الفاظ میں ہرگز نہیں ہو سکتا۔ ہر شخص رقص کرتا تھا، اور فرطِ مسرت سے دوسروں سے گلے ملتا تھا۔ باسٹیل بہت عظیم الشان قلعہ تھا مگر پرجوش پبلک نے چند گھنٹوں میں اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اورا س کی سر بفلک دیواروں کو گرا کر زمین سے ملا دیا۔

باسٹیل کا برباد ہو نا تھا کہ شاہی گورنمنٹ کی بنیادوں میں زلزلہ پڑ گیا اور خود بادشاہ نے کانگریس سے آ کر کہا کہ ”مجھے اپنی رعایا کی وفاداری پر جو اعتماد کامل ہے اس کی بنا پر میں نے پیرس اور ورسیلز کی فوجوں کو منتشر ہونے کا حکم دے دیا ہے، پس میں کانگریس کو اختیار دیتا ہوں کہ پائے تخت کے باشندوں کو اس سے مطلع کردے!”

کانگریس نے جب یہ اعلان کیا تو سارے فرانس میںبے حد خوشی منائی گئی کیوں کہ یہ قوم کی گورنمنٹ پر فتح تھی۔ لیکن باوجود اس اعلان کے بھی اہل پیرس نے ہتھیار نہ کھولے، بلکہ مشہور جنرل لافٹ کی زیر قیادت ایک زبردست ”نیشنل گارڈ” قائم کر لی، اس طرح کانگریس جنگی طاقت کی بھی مالک ہو گئی اور گورنمنٹ کو حسب مرضی چلانے لگی۔

انسانی حقوق کا اعلان:

باسٹیل کے برباد ہونے اور گورنمنٹ پر پبلک کے فتح یاب ہونے کی خبریں جب ملک میں پھیلیں تو چشم زدن میں گورنمنٹ کا رعب جاتا رہا۔ پولیس اور فوج منتشر ہو گئی اور ہر طرف قتل وغارت اور لوٹ مار کا بازار گرم ہو گیا۔ دیہاتیوں نے جب یہ حالات سنے تو امراء پر یکایک بر س پڑے۔ ان کے محلوں میں آگ لگا دی گئی اور چن چن کر وہ کاغذات اور دستاویزات جلا دی گئیں، جن کی رُو سے انہیں خاص حقوق اور امتیازات حاصل ہوئے تھے۔ صرف اسی قدر نہیں بلکہ انہوں نے بہت سے امراء کو شدید ایذائیں بھی پہنچائیں اور نہایت سخت وحشیانہ اور مجنونانہ مظالم کیے۔

کانگریس کو جب ان ہنگاموں کی اطلاع پہنچی تو اس نے ایک دستور العمل بنانا طے کیا کہ جس کے ذریعہ سے ملک میں امن وامان قائم ہو۔ چناں چہ ٤ اگست کی شب کو اس کا اجلاس ہوا، جس میں امن وامان کے قیام کی تدابیر، سیاسی آزادی کے حصول اور غیرمساویانہ حقوق کی تنسیخ پر نہایت طویل بحثیں ہوئیں۔ بعض امراء نے اپنی تقریر کے دوران میںکہا کہ ”کانگریس کو اعلان کر دینا چاہیے کہ امراء اور جاگیرداروں

کے حقوق برقرار رہیں گے  لیکن بیگار غلامی قطعاً منسوخ کر دی جائے گی۔”

ایک دوسرے ممبر نے اس پر سخت نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا ”قوم نے وہ تمام کاغذات جلا دیے ہیں جن کی رو سے امراء امراء کہلاتے تھے، کانگریس کو پوری اخلاقی جرأت سے ان ظالمانہ حقوق پر اظہار نفرت و حقارت کرنا چاہیے، جو قرونِ وسطی ٰکی یادگار ہیں، اور ان سب کو یکلخت منسوخ وباطل کر دینا چاہیے!”

پھر اسمبلی نے وہ اعلان مرتب کیا جو تاریخ میں اعلان حقوق انسانی کے نام سے مشہور ہے۔ یہ وہی اعلان ہے جس نے شائع ہوتے ہی فرانس کی کایا پلٹ دی اور پھر جس پر حکومت کے دستور العمل کی بنیاد رکھی گئی۔اورشاہی مذہبی فرانس کوجدید لبرل فرانس میں تبدیل کردیا۔اس اعلان میں کہا گیاکہ

١) تمام انسان آزاد پیدا ہوئے ہیں، لہٰذا انہیں آزاد ہی رہنا چاہیے! تمام انسانوں کے حقوق یکساں اور برابر ہیں، انسان کے حقوق یہ ہیں کہ وہ آزاد ہو، اپنی چیزوں کا مالک ہو، امن وچین اسے نصیب ہواور ظلم کا مقابلہ وہ کر سکے، آزادی کی حقیقت یہ ہے کہ بغیر کسی کو نقصان پہنچائے ہوئے انسان جو کچھ کرنا چاہے کر سکے!

٢)جملہ اختیارات قوم کے ہاتھ میں ہونا چاہئیں۔

٣)قانون درحقیقت قوم کی عام رائے کا مظہر ہوتا ہے، لہٰذا قوم کے ہر فرد کا حق ہے کہ اس کے بنانے میں شخصی طور پر یا اپنے قائم مقام کے ذریعہ سے حصہ لے اور یہ کہ قانون سب کو ایک نظر سے دیکھے۔

٤)سلطنت میں قوم کے تمام افراد برابر کے شریک ہیں، سب کے حقوق یکساں ہیں اور سب کو حق ہے کہ اپنی استعداد اور قابلیت کے مطابق عہدے اور مناصب حاصل کریں۔

٥)کسی کو شبہ کی نظر سے نہیں دیکھا جانا چاہیے اور نہ کسی کو گرفتار اور قید کرنا چاہیے، الا ان حالتوں کے جن کی تحدید و تعیین قانون نے کر دی ہو اور پھر گرفتاری اور قید اسی طریقہ سے ہو جسے قانون نے جائز رکھا ہے۔

٦)کسی شخص سے محض اس کے ذاتی خیالات کی بنا پر مواخذہ نہ کیا جائے، چاہے وہ خیالات مذہبی ہوں یا غیر مذہبی جب تک کہ دوسروں کو ان سے نقصان نہ پہنچے، اور امنِ عام میں خلل نہ پڑے، پس ہر شخص کو اجازت ہے کہ پوری آزادی سے جو چاہے کہے، لکھے اور شائع کرے۔

٧)ٹیکس کے ادا کرنے میں سب کو اپنی حیثیت کے مطابق شریک ہونا چاہیے۔

٨)ہر شخص کی جائیداد اس کی اپنی ہے، اور ہرگز اس سے چھینی نہیں جا سکتی،جب تک کوئی عام مصلحت اس کی متقضی نہ ہو، لیکن اس صورت میں ضرورت کے ناگزیر ہونے کو پوری طرح ثابت کرنا ہو گا اور جائیداد کی ٹھیک ٹھیک قیمت دینا ہو گی۔

٩)انقلاب کا بنیادی اصول یہ ہے کہ جملہ طاقتیں اور اختیارات قوم کے ہاتھ میں ہونا چاہئیں، اس کے تمام افراد کے حقوق میں مساوات ہونی چاہیے۔ سب کو آزادی کی نعمت سے متمتع ہونا چاہیے اور سب کی زندگی پُر امن ہونی چاہیے۔ سب کی جائیداد محفوظ ہونی چاہیے۔ کسی کو کسی پر زیادتی کرنے کا حق نہیں ہے، حتیٰ کہ گورنمنٹ اور سلطنت کو بھی نہیں… انقلاب کا طغرا کیا ہے؟آزادی، مساوات، اخوت!ترقی:

قدیم نظام میں جیسا کہ بیان ہو چکا،انقلابیوں کے نزدیک چند بنیادی خرابیاں تھیں:

١۔ بادشاہ کی مطلق العنانی۔

٢۔قوم میں عدم مساوات۔

٣۔گورنمنٹ کی بد نظمی۔

٤۔ چرچ کی بالادستی

نیشنل کانگریس نے قائم ہو کر یہ کیا کہ بادشاہ سے تمام اختیارات عملاً سلب کر لیے۔ امراء اور پادریوں کے  حقوق منسوخ کر کے قوم میں مساوات قائم کر دی اور گورنمنٹ کی بد نظمی دور کر کے اسے جنرل وِل پر قائم کردیا۔

انقلاب فرانس:

ہم اگر انقلاب فرانس کا غائر مطالعہ کریں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ تین سطحوں پر رونما ہوا۔

١)ایک جو دارالحکومت میں واقع ہوا۔

٢)دوسرا جو شہروں میں واقع ہوا۔

٣) تیسرا جو فرانس کے دیہاتی علاقوں میں واقع ہوا۔

پیرس میں ابتداء میں یہ انقلاب سیاسی نوعیت کا تھا جو بعد میں میونسپل نوعیت کا ہوا ۔ دیگر شہروں میں یہ پہلے میونسپل تھا بعد میں اس نے سیاسی نوعیت اختیار کی۔ دیہاتوں میں یہ انقلاب نہ تو سیاسی تھا اور نہ میونسپل بلکہ اقتصادی تھا۔ فرانس کے قدیم شہر جو١٧٨٩ء کے انقلاب میں شامل ہوئے تو یہ لوگ انسان

کے قدرتی حقوق یا فرانسیسیوں کے سیاسی حقوق کی حفاظت کے لیے نہ تھے بلکہ ان آزادیوں کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے تھے جن کے تحت وہ اپنے میئر اور مجسٹریٹ منتخب کرنا چاہتے تھے اور اپنا روپیہ خود خرچ کرنا چاہتے تھے اور اپنے معاملات کا خود انتظام کرنا چاہتے تھے۔بعض شہروں میں سرمایہ دار اور مزدور حکومت، پادری اور میونسپلٹی کے خلاف اپنے حقوق خصوصی اور جائیداد کی حفاظت کے لیے متحد ہو گئے تھے۔ ساتھ ہی ساتھ بعض شہروں میں غلے کی شدید قلت تھی ۔ بعض شہروں میں زیادہ تر عمارتوں کی ملکیت چرچ کے پاس تھی۔ فرانس کے سب ہی شہروں میں مختلف النوع تفرقات تھے۔ تمام شہروں کا مفاد بھی اس میںتھا کہ وہ اس وقت موقع کا فائدہ اٹھا کر ایک تجارتی اور پیشہ ور جماعتوں کی نمائندگی پر مشتمل اسمبلی تخلیق کریں اور پرانے ناظموں ، گورنروں اور پارلیمنٹوں سے جان چھڑا لیں۔

دیہی انقلاب:

نہ تو پیرس کے انقلاب کو اور نہ ہی باقی شہروں کے انقلاب کو وہ کامیابی حاصل ہو سکتی تھی اگر ساتھ ہی دیہاتی علاقوں میں انقلاب رونما نہ ہوتا کیوں کہ کل آبادی کا اسّی فیصد حصہ دیہی علاقوں میں رہتا تھا۔ ١٧٨٩ء کے فرانس میں دیہی آبادی میں اضافہ شہری آبادی میں اضافے سے زائد تھا… جس کی وجہ سے دیہی علاقوں میں غذائی قلت کا سامنا تھا۔ دوسرے زمین کی تقسیم کا مسئلہ بھی سامنے آ رہا تھا ۔ زمین کا ایک بہت بڑا حصہ تقریباً تیس فیصد پادری ، جاگیرداری اور نام نہاد کسان مالکوں کو منتقل ہو رہا تھا۔ لیکن کسان کے معمولی منافع میں جانشینی فروخت یا جائیداد کے تبادلے سے اور بھی کمی واقع ہو رہی تھی۔ نوجوان کسانوں کو بادشاہ کے عملدار زبردستی فوجی ملیشیاء میں بھرتی کر کے لے جاتے تھے۔

اس وقت کے فرانس میں ہر دسواں شخص گداگری سے اپنا پیٹ پالتا تھا اور گداگری کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ کسانوں سے ٹیکس نہایت بے رحمی سے وصول کیا جاتا تھا۔ بادشاہ کے افسران جب گاؤں سے گزرتے تو فوجی سامان کی نقل وحمل کیلیے کسانوں کی بیل گاڑیوں کو زبردستی طلب کرتے اور تندرست لڑکوں کو زبردستی فوجی کی نوکری کے لیے بھرتی کر لیتے۔ ان ٹیکسوں، لگان اور جاگیردار انہ کرایوں وغیرہ سے کسانوں کی حالت اتنی پتلی ہو چکی تھی کہ کسان اب اسے مزید برداشت کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ ٨٩ء کا انقلاب اس وقت رونما ہوا جب کہ ٥٦ سال تک لگاتار اضافے کے بعد قیمتیں اپنے عروج پر تھیں۔ قیمتوں میں سب سے زیادہ اضافہ عام اجناس میں ہواجب کہ اجرتوں میں اضافہ برائے نام تھا…فرانس کے کسانوں کی بغاوتوں کی تاریخ بہت طویل تھی… ا س تناظر میں کسانوں کی بغاوت ایک حقیقت تھی، ایک قدرتی ابال تھا جو مفلسی، بھوک، افلاس، نئے قوانین اور اصلاحات سے پیدا ہوا تھا۔

بنیادی دستاویزات:

بادشاہ پر فتح کے بعد ایک نیشنل اسمبلی تخلیق کی گئی جس نے بادشاہ پر فتح کا جشن انقلاب کی بنیادی دستاویز کا مسودہ تیارکر کے دیا۔ ان دستاویزات میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ ٹیکس مساویانہ ہوں گے، سول اور فوجی عہدے تک رسائی سب ہی کے لیے یکساں ہو گی۔ ان کے لیے کوئی بھی امیداوار ہو سکتا ہے۔ قانونی تقرریوں میں فروخت کا رواج ختم کر دیا گیا کہ مستقبل میں انصاف مفت عطا کیا جائے گا۔ ان دستاویزات میں جدیدفلاسفر اورچرچ سے باغی مفکروں یعنی روسواوروالٹئیروغیرہ کی فکرسے روشنی حاصل کی گئی تھی۔

اعلان حقوق میں کہا گیا کہ ”قانون” ارادئہ عام کی وضاحت ہے اس میںمزید کہا گیا کہ سب ہی شہریوں کو اس کی تشکیل میں حصہ لینے کا حق ہے۔ عوام چاہیں تو یہ حق ذاتی طور پر استعمال کر سکتے ہیں اور چاہیں تو اپنے نمائندگان کے ذریعہ سے۔

١٧٨٩ء کے دستوری انقلاب کا پہلا اصول تھا عوام کا اقتدار…اعلان حقوق میں واضح طور پر بیان کر دیا گیا تھا کہ اب ایک شخص کے ارادے کی جگہ سب ہی کے ارادے کو قائم کر دیا گیا ہے۔ من مانی حکومت کے پرانے فارمولے کی جگہ پر اب متفقہ قانونی کوڈ نے لے لی ہے۔

چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ بوربون خاندان کی عمل داری کا خاتمہ شدید ہنگامہ آرائی اور پر تشدد کا روائیوں کے ذریعہ ہوا۔ بوربون خاندان کا خاتمہ انقلاب فرانس کا اہم قدم ہے… جس کے بعد فرانس جمہوریت کے لمبے سفر پر رواں دواںہوا۔ فرانس کی جمہوریت انگلینڈ کی پابند/مقید جمہوریت سے ممیّز اور ممتاز تھی۔

یہاں انگلستان کی طرح لینڈ لارڈز کی پارلیمنٹ نہیں بنی جو سرمایہ داری سے مغلظ ہو۔ جیسے جیسے جمہوریت اور سرمایہ داری نے فرانس میں جڑ پکڑی۔ اس عمل نے فرانس سے بہت ر وایتی اداروں کا خاتمہ کر دیا اور فرانس لبرل ڈیمو کریسی کا سرخیل بن کر ابھرا جس کی کوکھ سے نئی ریاست (قوم پرست) نئی شخصیت، معاشرت (لبرل) اور معیشت (سرمایہ داری) نے جنم لیا جو پوری دنیا پر ایک آسیب کی طر  سوار ہو گئی۔

انقلاب فرانس کے تاریخی و واقعاتی تجزیے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ انقلاب فرانس سرمایہ دارانہ تنویری انقلاب تھا جس کی فکری بنیادیں جدید فلاسفرز اورمذہب و چرچ سے باغی عناصر نے فراہم کیں ۔جس میں تشددTerror , Violence کو بطورحربہ اورپالیسی سازی کے لئے استعمال کیا گیا اس حربہ کو کارگر ہتھیا رکے طور پر ایک مرکزی قیادت میں سامنے آکر بہ حسن خوبی برتا’چنانچہ یہ انقلاب پرائیویٹ پراپرٹی کے تحفظ اورحقوق انسانی سلوگن پر استوار ہوا جس میں انتہا پسندی کو بنیادی محرک کے طور پر استعمال کیا گیا ،جس میں ریڈیکل اور کنزرویٹو قوتوں نے اپنا اپنا کردارادا کیا اور ہر ایک نئی قانونی حد بندیوں ، مقننہ انتظامیہ اور دستور سازی کو اپنی جدوجہد کا اسا س ٹھہرایا تا کہ ہر سطح پر فیصلہ سازیGeneral Willیعنی ارادہ عام کے تحت انجام پائے جس کا محاصل نیشنل اسمبلی کا قیام ، پارلیمنٹ کے ذریعے قانون سازی ، دستوریت کا تقدم اور تفوق ٹھہرا ۔نتیجتاً سیاسی لبرل ازم ، روسو ازم ، لوتھرازم ، کانٹ ، نتشے ، ہمبولٹ اروفاسٹر کے خیالات رذیلہ، منطق اورفلسفے کے پراگندہ اورمنتشرخیالات فرانسیسی عوام میں داخل کردیئے گئے ۔اس انقلاب نے فرانس کی نیم عیسائی مذہبی ، سماجی زندگی، انفرادی شخصیت اور ریاست کوتبدیل کردیا۔آزادی، عقل پسندی، جمہوریت پر ایمان اور ایقان اور اس پر مبنی اقدار کو ہر شے پرغالب قرار دے کر فرانسیسی ریاست ، معاشرت ، معیشت اور شخصیت اور عہد جدید میں داخل کر دیا معاشی تگ و دو فرانسیسی معاشرے میں ایک وبا ء کی طرح پھوٹ پڑی۔ہر قدر اورطریقہ کار کو معاشی جدوجہد کے آئینے میں دیکھا جانے لگا اور فرانسیسی دہقانی معاشرہ کو پہلے کمرشل زرعی معاشرے میں تبدیل کیا گیا جو آگے چل کر صنعتی اور سرمایہ دارنہ مذہبی ریاست کو ملیا میٹ کرکے قوم پرست ریاست کی بیل ڈالی گئی۔

انقلاب فرانس کی کامیابی کے بعد سب سے زیادہ زک مذہبی طبقے کو اٹھانی پڑی۔مذہبی اقداراور رسوم و رواج کو پیروں تلے روندا گیا ۔مذہبی طبقے کی تضحیک یہ کہہ کر کی گئی کہ خدا کا وجود ایک وہم ہے ۔دوزخ ایک افسانہ ہے ، آدمی میں روح کا کوئی وجود نہیں انقلاب فرانس کے مفکروں نے مذہب کے خلاف لوگوں کو اُکسانے کے لئے برملا کہنا شروع کیا کہ مذہب ایک غیر فطری عمل ہے انسان کو مذہب کے ”واہمہ ”کو چھوڑ کر فطرت سے ہمکنار ہونا چاہئے، اورفطرت کے مزے لینے چاہئیں۔انقلاب فرانس کے بعدیہ اعلان عام

کیا گیا کہ قانون ،انصاف ،آزادی کے سوا کسی مذہب پر مبنی حقوق کو تسلیم نہیں کیاجائے گا ۔ہم اخلاق اور فطرت پرمبنی اصول کے علاوہ کسی اصول کو تسلیم نہیں کرتے اور عوام کے اقتدار اعلیٰ کے علاوہ کسی عقیدے کی فوقیت نہیں مانتے۔کھلے عام مذہبی سروس مذہبی علامات اورپادری کی پوشاک پہننے کی ممانعت کردی گئی اورمذہب کے برخلاف یہ کہا گیا کہ موت کے بعد کوئی انفرادی زندگی نہیں ”موت ابدی نیندہے”مساوات اور آزادی کے نام پر کہا گیا کہ تمام بشپ اپنے تاج ،صلیب اور انگوٹھی کو پہننا چھوڑ دیں چرچ کے مینار اگر سیکولر عمارتوں سے اونچے ہوئے تو انہیں مسمار کردیاجائے گا ۔بشپ ، پادری وغیرہ عام معاشی جدوجہد میں شریک ہوں اورانہیں کتاب کے بجائے فطرت اور منطق کواپنا شعار بنانا چاہئے’ اگر اپنے آپ کو منوانا ہے تو جمہوری عمل میں شریک ہونا پڑے گا۔حقوق انسانی اور پرائیویٹ پراپرٹی کا قیام فطرت کے عین مطابق ہے۔ انفرادی آزادی کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی تمنا ،آرزو اوراغراض کو جیسے چاہے انجام دے یہی اس کی فطرت ہے ۔اٹھارویں صدی میں رونما ہونے والا انقلاب جاگیرداروں کی ایسی کاوش تھی جسے اپنے Third Estate Alliesکے ساتھ مل کر زرعی اراضی کوکمرشل اراضی میں تبدیل کیا ۔یہ تبدیلی موجب بنی تین سطحی تبدیلی کی۔یعنی مذہبی ریاست ، معاشرت اور معیشت کو جدید ریاست، معاشرت  اور معیشت میں تبدیل کر دیا گیایعنی فرانس کاانقلاب ایک بورژوا انقلاب تھا جس نے مغرب میں پارلیمانی جمہوریت اور قوم پرست ریاست کی داغ بیل ڈالی۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *