عبدالوہاب سوری-

تمہید

سرمایہ دارانہ انقلاب(Capitalist Revolution) کی فکری بنیادوں کا اجمالی احاطہ کرنے سے پہلے چند بنیادی نکات کی نشان دہی بھی ضروری ہے تاکہ قاری کے لیے راقم الحروف کے نظریاتی تناظر کو سمجھنے میں آسانی رہے اور مضمون کی تفہیم اس کی فکری ساخت کے مطابق ہو سکے۔

(١)سرمایہ دارانہ نظام محض ایک نظم ِمعیشت کا نام نہیں بلکہ ایک مکمل نظام ِزندگی کا نام ہے، یعنی اس نظام زندگی میں فرد کی انفرادی، روحانی و جذباتی، معاشرتی اورریاستی زندگی الوہیت سرمائے کے لیے وقف ہو جاتی ہے۔

(٢)الوہیت سرمائے پر ایمان کو قائم رکھنے کے لیے سرمایہ دارانہ نظام کے مخلصین نہ صرف ایک خاص نوعیت کی علمیت کی تعمیر کرتے نظر آتے ہیں بلکہ ایسے علمی پیمانے بھی وضع کر لیے جاتے ہیں جو ہر اس علمیت کی نفی کرتے چلے جائیں جو سرمایہ داری سے ہم آہنگ نہیں۔

(٣)لہٰذا الوہیت کی غماز انفرادیت ‘معاشرے’ قوم’ طبقے’ نسل الغرض ہر قسم کی اجتماعیت کوقائم رکھنے کے لیے مخصوص نوعیت کی ادارتی صف بندی کی جاتی ہے جو ایک طرف تو مسلسل سرمایہ دارانہ نظام زندگی کی معقولیت اور معنویت فراہم کرنے کے لیے مختلف فلسفیانہ’ نفسیاتی’ معاشی’ معاشرتی’ سیاسی’ تہذیبی’ جمالیاتی افکار اور ان کے اظہار کے لیے مخصوص اداروں کا قیام ممکن بناتی ہے تو دوسری طرف ان تمام افکار اور اداروں کی غیر معقولیت کو بھی ترجیحی بنیادوں پر واضح کرتی چلی جاتی ہے جو کسی بھی سطح (انفرادی، اجتماعی اور ریاستی) میں الوہیت سرمائے کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

(٤)الوہیت سرمایہ کی یہ ہمہ گیریت جو فرد کی انفرادی’ معاشرتی’ ریاستی’ نفسیاتی اور جمالیاتی زندگی کا نہ صرف احاطہ کیے ہوئے ہے بلکہ فرد کی زندگی کا کوئی ایسا گوشہ جو سرمایہ دارانہ تعقل سے ماورا ہو’ باقی نہ رہے’ ہمارے نزدیک سرمایہ دارانہ انقلاب ہے۔

(٥)سرما یہ داری کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے لوگ عام طور پر سرمایہ داری کو اشتراکیت سے ممیز کرتے ہیں اور سرمایہ داری کی نفی کو اشتراکیت کی حمایت گردانتے ہیں لیکن ہم اشتراکیت کو بھی سرمایہ داری ہی کی ایک شکل سمجھتے ہیںلہٰذا ہمارے نزدیک اشتراکیت سرمایہ داری کی اجتماعی ادارتی صف بندی کے علاوہ اور کچھ نہیں اور اشتراکیت کی سرمایہ داری پر تنقید محض سرمایہ کے انفرادی ارتکاز کی تنقید ہے۔ حقیقتاً انفرادی سرمایہ داری اور اجتماعی سرمایہ داری(اشتراکیت) میں ہم کوئی اقداری فرق نہیں پاتے۔ (لبرل) انفرادی سرمایہ داری جو کچھ جو فرد کے لیے جائز سمجھتی ہے ،اشتراکی سرمایہ داری اسے اجتماعیت کے لیے جائز قرار دیتی ہے۔

(٦)سرمایہ داری سے مراد حرص وحسد کی اس نوعیت کی ادارتی صف بندی ہے جو فرد کی انفرادی، معاشرتی اور ریاستی زندگی کو واحد قابل عمل اقداری بنیاد کے طور پر قبول کرتے ہوئے پوری انسانی زندگی کو سرمائے کے سپرد کر دینے پر مستقل اور مسلسل تیار کرتی رہے۔

لبرل سرمایہ دارانہ نظام کی فکری بنیادیں:

لبرل سرمایہ داری کی اصطلاح دیکھتے ہوئے شاید آپ کے ذہن میں یہ خیال پیدا ہو کہ شاید غیر لبرل سرمایہ داری اور غیر سرمایہ دارانہ لبرل ازم بھی ممکن ہے۔ اس ضمن میں عرض یہ ہے کہ غیر لبرل سرمایہ داری جیسے اشتراکی سرمایہ داری، فاشسٹ سرمایہ داری، قوم پرستانہ سرمایہ داری تو ممکن ہے لیکن غیر سرمایہ دارانہ لبرل ازم ممکن نہیں … سرمایہ داری کا لبرل ازم سے ایک نامیاتی تعلق ہے(جس کا ذکر اختصار کے ساتھ ہم اسی مضمون کے آخرمیں کریں گے)، لہٰذا لبرل سرمایہ دارانہ انقلاب کو سمجھنے کے لیے لبرل سرمایہ داری کی ان اقدار کو سمجھنے کی ضرورت ہے جن کی ادارتی صف بندی کی جدوجہد کو ہم سرمایہ دارانہ انقلابی جدوجہد کہہ سکیں۔

کلاسیکی لبرل فکر کا مطالعہ کرنے سے کچھ بنیادی اقدار کی نشان دہی بھی ہوتی ہے جو مندرجہ ذیل ہیں:

(١)لبرل ازم ایک ایسی معاشرتی ،سیاسی اور اخلاقی فکر ہے جو فرد کو تمام قسم کی اجتماعیتوں پر فوقیت دیتی ہے یعنی لبرل ازم انسان پرستی کی جائز شکل انفرادیت کو ہی سمجھتی ہے اور بننے والے معاشرے میں اقداری ترتیب کے کسی بھی اجتماعی خاکے کو انفرادیت ہی کے تناظر میں ترتیب کیا جانا جائز قرار دیتی ہے۔

(٢)انفرادی آزادی انسان کا بنیادی حق ہے۔ اقدار کی کسی بھی ترتیب کو فرد کے اس بنیادی حق سے ہم آہنگ کرنا لبرل انقلابی فکر کابنیادی وصف ہے۔ یہاں پر آزادی سے مراد خیر وشر کے درمیان ایک کا انتخاب نہیں بلکہ خیر وشر کے تعین کا حق ہے، یعنی خیر وشر ارادۂ انسانی کی بنیاد پر خلق ہوتے ہیں اور ہر فرد کا یہ بنیادی حق ہے کہ اپنی انفرادی زندگی اپنے تصورِ خیر کے مطابق بسر کر سکے۔

(یہاں پر پڑھنے والے کے دل میں یہ خیال پیدا ہو سکتا ہے کہ شاید انفرادی آزادی کا یہ حق فی نفسہ طور پر قبول کیا جاتا ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ لبرل نظام زندگی ہر اس تصور خیر کی نفی کرتا ہے جو الوہیت انسانی اور الوہیت سرمایہ کی نفی کرے۔ صرف وہ طرزِ زندگی فروغ پاتا ہے جس کے ذریعے حرص وحسد کی عمومی عبدیت قبول کر لی جائے۔ عبدیت الٰہی تو آزادی کی نفی ہے۔ شارع کے احکام کی بجاآوری نفسِ انسانی کی پرستش کو ممکن نہیں بننے دیتی۔)

(٣)Tolerance: کا ترجمہ ہم رواداری نہیں کرتے کیوں کہ ہم یہ سمجھتے ہے کہ رواداری معنوی اعتبار سےTolerance سے مختلف ہے۔Tolerance انفرادی آزادی کو بنیادی قدرتسلیم کر لیے جانے کا اقداری تتمہ ہے۔ Tolerance کا لفظی مطلب مختلف نو اقداری ترتیب کو برداشت کرنا ہے، لہٰذا Toleranceکی اقداری حیثیت کے تسلیم کر لیے جانے کے بعد فرد اس مفروضے کو اصول کے طور پرقبول کر لیتا ہے کہ خیر کا تعین فرد کا انفرادی معاملہ ہے اور خیر بنیادی طور پر Relative Natureرکھتا ہے لہٰذا Toleranceکی اقداری حیثیت کا تسلیم کیا جانا ایک خاص قسم کی معاشرت کو ترتیب دیتا ہے یعنی ایک ایسی معاشرت جس میں اقدار کی کوئی بھی ایسی ترتیب جو آزادی فر د کے علاوہ کسی دوسری قدر مثلاً وحی الٰہی’ روایات ‘ خون، برادری وغیرہ کی بنیاد پر قائم ہو’ غیر معقول اور ظالمانہ قرار دے د ی جاتی ہے۔

(٤)لبرل طرزِ معاشرت اور ریاستی ڈھانچے میں Toleranceکے تصور کی ایک کلیدی حیثیت ہے، بلکہ ہم تو یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اس تصور کی مدد سے ہم ”آزادی” کے لبرل تصور کو سمجھنے کے قابل بھی ہو سکتے ہیں ‘مثلاً آزادی سے مراد صلاحیت ہے یعنی فرد اپنے ارادے کے مطابق اپنے اہداف کا تعین اور ان کا عملی اظہار کر سکتاہے، لیکن اگر فرد کی یہ صلاحیت انفرادی آزادی سے ماورا کسی دوسرے پیمانہ پر پرکھی جائے مثلاً ارادۂ خداوندی، روایات ، نسلی تعصبات وغیرہ تو اس کا لامحالہ یہ نتیجہ نکلے گا کہ فرد کی ”آزادی” بحیثیت ”قدر” سے مراد محض صلاحیت نہیں بلکہ صلاحیت کی معقولیت کو جانچنے کا آزادی کے علاوہ کسی بھی دوسرے بنیادی پیمانے کی نفی کرنا ہے، مثلاً زنا کرنے کی صلاحیت کا اظہار ایک آزادانہ اظہار ہو سکتا ہے لیکن اس آزادانہ اظہار کو پرکھنے کے لیے اگر آپ آزادی بحیثیت قدر یعنی( Choice of Choice)کے علاوہ کسی اور پیمانے کو استعمال کرتے ہیں ‘ (مثلاً شریعت کی رو سے زنا ایک حرام فعل ہے) تو آپ آزادی بحیثیت ”قدر” کی نفی کر رہے ہیں، لہٰذا آزادی بحیثیت قدر صرف آزادی بحیثیت صلاحیت کے قانونی تحفظ پر اکتفا نہیں کرتی بلکہ انفرادی واجتماعی اقداری ترتیب کے کسی بھی ایسے پیمانے کا تحفظ جو آزادی بحیثیت قدر کو تسلیم نہیں کرتا ۔ لبرل تصور Toleranceکی نفی ہے لہٰذا Toleranceکا تصور انفرادی آزادی کو بحیثیت صلاحیت ہی نہیں بلکہ بحیثیت قدر معاشرتی’ سیاسی’ قانونی زندگی پر مسلط کرنے کی جدوجہد اور ایک نہ ختم ہونے والا Processہے۔ انفرادی آزادی کے دائرے میں لامتناہی اضافہ ممکن ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس طرح ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آزادی بحیثیت قدر ادارتی شکل اختیار نہیں کر سکتی ‘ اگر Toleranceکے تصور کو غیر لبرل معاشروں میں ایک بنیادی انسانی قدر کے طور پر اختیار نہ کر لیا جائے۔

لبرل فکر کی ایک اور نمایاں خصوصیت وہ نامیاتی تعلق ہے ‘ جس کی نشان دہی Scottish Enlightenmentکے کلیدی فلسفیوں نے آزادی اورCommerce (جس سے مراد سرمائے میں اضافہ ہے) کے درمیان واضح کی ہے یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام جتنا محفوظ اپنے آپ کو لبرل معاشرتی اور ریاستی ڈھانچوں میں پاتا ہے اتنا کسی دوسرے طرزِ زندگی میں فی زمانہ نہیں پاتا۔آزادی اور Commerceکے درمیان یہ تعلق جو مخصوص تاریخی عمل کے نتیجے میں پیدا ہو گیا محض نظریاتی مباحث کا موضوع نہیں بلکہ لبرل سرمایہ دارانہ نظام کی عالمگیریت اس حقیقت کا بین ثبوت ہے کہ لبرل سرمایہ دارانہ نظام میں آزادی میں اضافہ سرمائے میں اضافے کے راست متناسب ہے۔

یوں تو لبرل فکرکی ابتدا پندرھویں صدی کے اواخر سے ہی ہو چکی تھی لیکن انقلاب فرانس کے بعد لبرل فکر کو بہت مہمیز ملی۔ لبرل مفکرین کے مدمقابل جو فکر مغربی دنیا میں موجود تھی ،وہ عیسائی اقداری ترتیب کی بنیاد پر اپنے علمی تشخص کو جواز فراہم کر تی تھی۔سولہویں صدی مغربی دنیا میں نہ صرف عیسائی اقدار کی شکست وریخت لے کر آئی بلکہ تحریک تنویر اور تحریک رومانویت سے اخذکردہ ایک ایسی علمیت بھی لے کر آئی جو بنیادی طور پر انسان پرست ہونے کے ساتھ ساتھ مذہب بیزار بھی تھی۔

گو کہ مغرب میں انسان پرستی کی کوئی ایک شکل موجود نہیں تھی قوم پرستی، اشتراکیت ، فسطائیت، نسل پرستی، لبرل ازم، وغیرہ تمام انسان پرستی کی ہی مختلف شکلیں ہیں لیکن پرستش انسان کو جانچنے کا پیمانہ ”آزادی” ہی کو قرار دیا گیا ،خواہ وہ انفرادی شکل میںہو خواہ اجتماعی شکل میں۔

لبرل مفکرین کا یہ خیال تھا کہ تحریک تنویر و تحریک رومانویت سے اخذ کردہ علمیت و اقدار کی گرفت جیسے جیسے مغربی معاشروں پر مضبوط ہوتی چلی جائے گی، ویسے ویسے معاشرتی، سیاسی اور اقداری دائروں میں فرد کی آزادی میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ خیر وشر کے تعین میں عیسائی کلیسا کی حاکمیت کمزور سے کمزور تر ہوتی چلی جائے گی اور خیرو شر کے تعین میں فرد کے حق کو بنیادی اصول تسلیم کر لیا جائے گا۔ قانونی اور ریاستی ڈھانچوں میں بنیادی تبدیلیوں کے باعث ایسے حالات پیدا کرنے کی کوشش کی گئی جس کے باعث ہر فرد اپنی انفرادی حیثیت میں اپنے خیر وشر کے معیارات کا تعین کر سکنے کے ساتھ ساتھ اپنی خواہشات بہ آسانی پوری کر سکے۔

لبرل مفکرین نے جس آزادی کے تحفظ کی کوشش کی اسے ہم آزادی کا منفی تصور کہتے ہیں۔ آزادی کے منفی تصور سے مراد یہ ہے کہ فرد پر عائد کردہ معاشرتی اور ریاستی حدبندیوں کے باوجود بھی ایک ایسا علاقہ بچ رہنا چاہیے جس میں فرد اپنے انفرادی خیر وشر کے مطابق زندگی بسر کر سکے۔ تمام لبرل مفکرین کی یہ کوشش رہی کہ فرد کے اس انفرادی دائرے میں کس طرح زیادہ سے زیادہ اضافہ کیا جا سکے اور معاشرے، ریاست اور مذہب کے ان دائروں کو محدود سے محدود تر کیا جا سکے جو کسی بھی طرح فرد کے اس بنیادی حق کو (کہ وہ خیر کی جو تفسیر کرنا چاہے کر سکے) تسلیم نہیں کرتے۔

لبرل مفکرین کے نزدیک انسانیت کا جوہر ہی فرد کی اس صلاحیت میں پنہاں ہے کہ وہ آزادانہ متعین کردہ اقدار کو اپنا سکے اور اس کے مطابق زندگی بسر کر سکے، لہٰذا وہ تمام معاشرتی اقدار’ مذہبی تعلیمات اور روایتی تحکمات باطل ہیں جو انسانیت کے اس بنیادی جوہر سے مطابقت نہیں رکھتے۔ ان معاشرتی اقدار، مذہبی تعلیمات اور ان سے اخذ کردہ ادارتی صف بندیوں اور روایات کی پشت پناہ ریاست کے خلاف انقلاب کی کامیابی ہی میں انسانیت کی بقا اور سا  لمیت پنہاں ہے۔ کانٹ کے خیال کے مطابق انسان کسی مقصد کے حصول کا ذریعہ نہیں بلکہ مقصود بالذات ہے، لہٰذا جو بھی نظام زندگی انسان کو اس کے علاوہ کسی اور مقصد کے حصول کا ذریعہ (جیسے مذہبی دائرے میں فرد رضائے الٰہی کے حصول کے لیے اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی گزارنے کی کوشش کرتا ہے اور اس بات کا تاثر دیتا ہے کہ رضائے الٰہی ہی مقصود بالذات ہے) بنانے کی کوشش کرتا ہے وہ انسانیت کی بنیادی اساس کی نفی کرتا ہے۔جو انسان کو مقصود بالذات نہیں مانتا وہ انسانیت کے جوہر کی نفی کرتا ہے۔ لہٰذا وہ نظام نہ صرف باطل ہے بلکہ انسانیت کے حقیقی اظہار کی راہ میں رکاوٹ بھی ہے۔

لبرل مفکرین کے تحفظِ”انفرادی آزادی” کے حق میں دیے گئے مختلف دلائل کا تنقیدی جائزہ لیا جائے تو ایک انتہائی اہم پہلو کی نشان دہی ہوتی ہے اور وہ یہ کہ انفرادی دائرۂ آزادی میں اضافہ کس مقصد کے حصول کے لیے کیا جائے؟ اگر انسان کا ارادہ ہی مقصود بالذات ہے تو یہ بحث ہی فضول ہے کہ وہ اس انفرادی دائرے میں کن مقاصد کے حصول کی کوشش کرے گا، لہٰذا انسان کی قدر کا تعین ان مقاصد کی بنیاد پر نہیں کیا جا سکتا جو کہ فرد اپنے انفرادی دائرہ عمل میں اختیار کرتا ہے بلکہ اس کے ارادے کی خود مختاری کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ اس طرح خیر کی بحث در حقیقت غیر اہم ہوتی چلی جاتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ منفی آزادی کا تصور اس سوال سے بحث نہیں کرتا کہ فرد اس دائرے میں کس قسم کی زندگی گزارے گا بلکہ صرف اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ معاشرتی اور ریاستی حدبندیوں کے درمیان ایک ایسا علاقہ ضرور بچ رہنا چاہیے جس میں فرد جو کرنا چاہے کر گزرے۔ فرد کے اسی حق کو ہم حقِ خود ارادیت(Right of self determination) کہتے ہیں۔ یہ وہ بنیادی حق ہے جس کے اظہار میں کوئی بھی مداخلت لبرل مفکرین کے نزدیک ناجائز ہے۔

 انفرادی حقوق جنہیں ہم عرف عام میں انسانی حقوق بھی کہتے ہیں اسی بنیادی حق کے تحفظ میں مضمر ہیں، جس میں خیر کے تعین کو فرد کا انفرادی معاملہ سمجھ کر معاشرتی اور ریاستی صف بندی کو اسی اصول کے ماتحت از سرنو تعمیر کیا جائے۔ انفرادی حقوق کا سارا معاملہ اس مقدس حق کا تحفظ ہے، جس میں آزادی فکر ونظر، حق ملکیت اور اظہار رائے وغیرہ شامل ہیں۔آزادی کے اس تصور میں صرف ‘حق’ کو متعین کر لیا جاتا ہے اور خیر چوں کہ اپنے تعین کے لیے فرد کے ارادے پر انحصار کرتا ہے، لہٰذا ایک ایسا معاشرہ ریاستی جبرو قانون کے ماتحت تشکیل پاتا ہے جس میں ‘حق’ متعین اور ‘خیر’ غیر متعین ہوتا ہے۔ اس طرح پبلک اور پرائیویٹ زندگی کا فرق پیدا ہوتا چلا جاتا ہے یعنی اس تصور کے مطابق فرد اپنی نجی زندگی میں کسی کو بھی مداخلت کا حق نہیں دیتا۔

منفی آزادی کے اس تصور کی بنیاد پر ریاستی، معاشرتی اور اقداری ترتیب کی جدوجہد کو ہم لبرل سرمایہ دارانہ انقلابی جدوجہد قرار دیتے ہیں۔ لبرل فکر گو کہ منفی آزادی کی ریاستی تجسیم کی ہی جدوجہد ہے لیکن اس کے باوجود بھی ہم لبرل فکر کو دو مختلف دھاروں میں منقسم کر سکتے ہیں۔ لبرل فکر کے ایک دھڑے کو ہم Ontological Liberalismقرار دے سکتے ہیں جب کہ دوسرے دھڑے کو ہمontological Liberalism Deکہتے ہیں۔

Ontological Liberalismکو ہم ontological Liberalism Good  بھی کہتے ہیں اور اس لبرل فکر کا بنیادی مفکر جان مل (John Mill) ہے۔ گو کہ لبرل فکر میں جان لاک کو ontological Liberalism Good  کے دائرے میں شامل نہیں کیا جاتا لیکن جان لاک کو ontological Liberalism Good  ہی کے دائرے میں شامل کرتے ہیں ۔

جان لاک کو ہم لبرل فکر کے نہایت اہم مفکر کے طور پر جانتے ہیں ۔ انفرادی آزادی کے تحفظ کو ہی جان لاک کسی بھی قانون کے جائز ہونے کی شرط قرار دیتا ہے، لیکن لاک کے خیال کے مطابق آزادی کے تحفظ کے لیے آزادی کے جائز دائرے کا تعین ضروری ہے، نہ صرف یہ کہ اس دائرے کا تعین ضروری ہے بلکہ ریاستی جبر کے ذریعہ اس دائرے کا تحفظ بھی ضروری ہے لہٰذا ریاستی جبر کے بغیر آزادی کا اظہار ممکن نہیں… دوسری طرف ریاستی عملداری کے باعث مطلق آزادی بھی ممکن نہیں، لہٰذاانفرادی دائرۂ آزادی کے تحفظ کی خاطر ایک ایسے ریاستی نظام کا قیام ضروری ہے جو انفرادی دائرۂ آزادی میں اضافہ اور تحفظ کی خاطر فرد کی زندگی کے کچھ دائروں میں اسی کی آزادی کو محدود کرے’ تا کہ انفرادی و اجتماعی زندگی میں حصول و اظہار آزادی ممکن ہوتا چلا جائے، اسی وجہ سے جان لاک کہتا تھا کہ…

”In all the states of created being capable of laws, where there are no laws there is no freedom.”

جان لاک انفرادی آزادی کے تحفظ کو حق ملکیت کے تحفظ سے مشروط کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اسی وجہ سے ہم جان لاک کو لبرل سرمایہ داری کے ایک بنیادی مفکر کے طورپر پہچانتے ہیں۔ جان لاک انفرادی حق ملکیت کو انسانی حقوق کی بنیاد قرار دیتا ہے اور اگر دیکھا جائے تو تمام بنیادی حقوق اس ایک حق ملکیت ہی سے اخذ کردہ ہیں۔ لاک کے مطابق انسانی جسم دراصل انسانی ملکیت ہی ہے جس کو برتنے کا اسے ہی حق حاصل ہے۔ اظہار ِرائے کی آزادی، تصور خیر کے تعین کی آزادی، مذہبی آزادی وغیرہ بنیادی طور پر حق ملکیت ہی کے تحفظ کی بنیاد پر ممکن ہیں۔ انسان چوں کہ اپنے جسم کی ملکیت رکھتا ہے لہٰذا اس کے اظہار پر بھی اسی کی ملکیت کو تسلیم کیا جانا چاہیے۔ اسی حق ملکیت کے تصور کی بنیاد پر جان لاکPrivate property کا تصور بھی پیش کرتا ہے۔ اس کے خیال کے مطابق جب فرد کسی چیز میں اپنی محنت شامل کر رہا ہے تو وہ اس کی ملکیت بن جاتی ہے…مثلاً جنگل میں جو پھل موجود ہیں وہ سب کے ہیں ‘ لیکن جب ایک شخص گھر سے نکلتا ہے اور جنگل تک سفر کرتا ہے، درختوں پر چڑھ کر پھل توڑتا ہے تو اس نے ان پھلوں میں اپنی محنت شامل کر دی جس کے باعث وہ پھل اب اس شخص کی ملکیت ہوں گے۔

اس تناظر میں اگر ہم فرد کے انفرادی دائرۂ آزادی میں اضافہ کرنا چاہیں تو فی نفسہ ہمیں کس چیز میں اضافہ کی جدوجہد کرنی چاہیے؟ جواب آسان سا ہے کہ فرد کے حق ملکیت کے دائرہ میں اضافہ… اس طرح پراپرٹی میں اضافہ بلکہ لامتناہی اضافہ ہی دراصل فرد کی آزادی کے راست متناسب ہے۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ لاک کے مطابق جسم انسانی ہی سرمایہ دارانہ ملکیت کی بنیاد ہے۔ آزادی میں اضافہ دراصل پراپرٹی میں اضافے کے علاوہ کچھ نہیں… لہٰذا وہ تمام معاشرتی، مذہبی اور روایتی اقدار جو انسانی جسم کو سرمائے میں اضافے کے علاوہ کسی اور مقصد کی طرف بلاتے ہیں اور انسانی جسم اور اس کے مختلف اظہارات پر جو بھی حدبندی وہ لگاتے ہیں ،اس کا مقصد اگر سرمائے میں اضافے کے علاوہ کوئی اور ہے تو وہ باطل ہے۔

 مذہبی ،روایتی، سماجی اور ریاستی حدبندیوں کی ایسی ترتیب جس کے نتیجے میں انفرادی سرمائے میں اضافہ کے علاوہ کسی اور مقصد کی تکمیل ہو’ لاک کے خیال کے مطابق فرد کی انفرادی آزادی اور اس کے بنیادی انسانی حق کی نفی ہے۔ اسی وجہ سے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ سرمایہ دارانہ نظام ملکیت کو قائم کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ لاک کا آزادی کا تصور اور حقوق انسانی کا تعقل ‘ سرمایہ دارانہ نظم ملکیت سے اخذ کردہ ہے، یعنی لاک کا تصور حقوق ایک مخصوص تصور خیر سے اخذ کردہ ہے جس کی اقداری برتری کو دلیل کی بنیادپر نہیں بلکہ دلیل کے تعقل کے طور پر پیش کرنا ہے، اسی وجہ سے ہم جان لاک کو ontological Liberalism Good  کے دائرے میں رکھ کر سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ، یعنی وہ لبرل فکر جو خیر کے حق پر فوقیت کی قائل ہو۔

اسی طرحontological Liberalism Good   کی ایک اور بلکہ سب سے طاقت ور شکل Utilitarianism یعنی لذت پسندی ہے۔ لذت پسندی Scottish Enlightenment ہی کے فکری ارتقاء کا ایک نظریاتی تتمہ ہے، گو کہUtilitarianism کی مختلف اشکال موجود ہیں، لیکن ان تمام اشکال میں سے ہم صرف جان اسٹورٹ مل (J.S.Mill)ہی کے نظریے کا اجمالاً ذکر کریں گے، چوں کہ مل بھی انفرادی آزادی کے تحفظ اور حقوق انسانی کی اہمیت ایک بنیادی تصور خیر یعنی لذت (Pleasure) ہی کی اقداری فوقیت سے اخذ کرتا ہے اسی وجہ سے ہم اس لبرل فکر کو ontological Liberalism  Goodہی کے طبقے میں رکھ کر سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس طرح مل بھی جس لبرل فکر کا مبلغ ہے وہ ایک خیر یعنی تصورِلذت(Pleasure) کی حق[Right] پر فوقیت کی قائل ہے، یعنی مل کے خیال میں حق خودارادیت لذت میں اضافہ کا بنیادی ذریعہ ہے اور اس کے تحفظ کے بغیر لذت میں اضافے کے امکانات معدوم ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ مل کے خیال کے مطابق حقوق چوں کہ ایک مطلق تصور خیر یعنی لذت سے اخذ کردہ ہیں اسی لیے اجتماعی لذت میں اضافے کی خاطر بعض مخصوص حالات میں بنیادی انسانی حقوق کومحدود کیا جا سکتا ہے۔ انسانی حق خودارادیت کے محدود کرنے کے مختلف جواز موجود ہیں۔لذت پسندیت کے نظریے معاشرے کی مجموعی فلاح کے نام پر لبرل اقدار کا تحفظ کرتے ہیں۔ یہ فرد کی آزادی کے قائل ہیں، لیکن اس کے نتیجے میں مجموعی لذت وفلاح میں اضافہ ضروری گردانتے ہیںاوران کے مطابق ایک ایسے معاشرے کی تشکیل ممکن ہے جس میں افراد زیادہ سے زیادہ لذت حاصل کر سکیں، لیکن اس کے نتیجے میں اگر کچھ لوگوں کی لذت اور حقوق قربان ہو رہے ہیں تو ان کا قربان کر دیا جانا جائز ہے۔

ontological Liberalism De-جسے ہم Right-based liberalismبھی کہتے ہیں’ لبرل فکر کی تفسیر کو Metaphysical بنیادوں پر رد کرتا ہے۔Rawls کے نزدیک Utilitarianismمعاشرے کو ایک فرد کی حیثیت سے دیکھتا ہے، جس کے نتیجے میں لذت پسندی فرد کی آزادی پر حد لگا کر اسے محض لذات کے حصول کا ذریعہ بنا دیتی ہے، جس کے باعث فرد اپنی انسانیت سے محروم ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ لبرل فکر میں فرد کو بحیثیت فرد کے مقصود مانا جاتا ہے نہ کہ کسی مقصد کو حاصل کرنے کاذریعہ… اس لیے اگر انسان اپنی آزادی یا حق خود ارادیت کا شعور حاصل کر لینے کے بعد بھی اپنی انفرادی آزادی کو کسی خیر پر قربان کر دے تو لبرل فکر کے مطابق وہ فرد انسان ہونے کے شرف سے محروم رہ گیا’ لہٰذا رالزین فکر میں فرد کا اس کے حق خود ارادیت سے محروم کیا جانا عدل کے منافی اور احترام انسانیت کی نفی ہے۔

 رالز کے مطابق حق کو خیر پر فوقیت حاصل ہے، اور حق خود ارادیت کی فوقیت کسی مخصوص تصور خیر سے اخذ کردہ نہیں بلکہ خیر کا تعین فرد کا انفرادی معاملہ ہے۔ رالز لبرل معاشرے کا جو تصوراتی خاکہ پیش کرتا ہے وہ خود غرض (self-interested) اور آزاد افراد کا ایسا گروہ ہے جو باہمی رضامندی سے ایک ایسا سماجی معاہدہ ترتیب دیتے ہیں جس کی بنیاد ان دو اصولوں پر قائم ہے:

(١)ہر فرد کو اپنے مفادات( نفس پرستی) کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کے لیے ممکنہ حد تک آزادی مہیا کی جائے۔

(٢الف)معاشرے کے پسماندہ ترین گروہ کے مفادات کو حتی الوسع فروغ دیا جائے۔

(٢ب)افراد کے درمیان مخاصمت (مقابلہ) کے مساویانہ مواقع کی فراہمی کے ذریعے مفادات کی تقسیم کو ممکن بنانا۔

رالز کے مطابق تمام معاشی و معاشرتی’ سماجی وریاستی مفادات کا حصول چند بنیادی خیر(Primary Goods) کی فراہمی کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ رالز کے نزدیک یہBasic primary Goods بذات خود مقصود نہیں بلکہ ایک مہذب معاشرے کے مہذب فرد کے متعین کردہ تصور خیر کے حصول کا ذریعہ ہیں۔ یہ بنیادی خیر حسب ذیل ہیں:

(١)دولت(Wealth)

(٢) قوت(Power)

(٣) آمدنی(Income)

(٤) اختیار(Authority)

رالز کے نزدیک یہی چار اشیاء قدر مطلق کی حامل ہیں۔ ان میں اضافہ ہی درحقیقت آزادی میں اضافہ کا مماثل ہے۔ بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے نتیجے میں فرد کی انفرادی آزادی کا تحفظ ہونے کے باعث فرد قانونی طور پر تو اپنے خیر کے تعین کا مکلف ہو جاتا ہے لیکن اس خیر کا اظہار ان بنیادی خیر (Primary Goods ) کی فراہمی کے بغیر ممکن نہیں … چوں کہ یہPrimary Goods آزادی کے حقیقی اظہار کے لیے نہایت ضروری ہیں ،لہٰذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ لبرل معاشرے میں آزادی ان اشیاء میں اضافے کے سوا کچھ اور نہیں…یہی وجہ ہے کہ اس فکر کے مقبول عام ہونے کا مطلب یہ ہے کہ روحانیت’ احیاء دین اور رضائے الٰہی کے حصول کی خواہش محض دیوانے کا خواب بن کر رہ جائے گی۔

 آزادی وعدل کے اس تصور کی ادارتی صف بندی آزادی کے خالص مادہ پرستانہ تصور کی ادارتی صف بندی کے سوا کچھ اور نہیں… جب افراد اپنی انفرادی آزادی میں اضافہ کو ان اشیاء کے حصول کے مماثل گردان کر سرمایہ دارانہ جبر قبول کرنے پر تیار ہوتے چلے جاتے ہیں، لبرل معاشرہ پیداوار کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینے کی کوشش کرتا ہے اور اس بات کا اعتراف کر تا ہے کہ یہ پیداواری ترقی فروغ خودغرضی کے بغیر ممکن نہیں، گو کہ اس خود غرضی کو فروغ دینے کے نتیجے میں دولت’ قوت’آمدنی اور اختیار کی تقسیم لا محالہ غیر منصفانہ ہوتی ہے۔ چناں چہ ان اسلامی قوتوں کو جو بہبود انسانی اور سرمائے کی بڑھوتری اور بنیادی انسانی حقوق کے حصول کو اسلامی انقلاب کی بنیاد سمجھتے ہیں’ انہیں یہ جان لینا چاہیے کہ ان مقاصد کے حصول کے لیے مغرب اسلامی تحریکوں سے زیادہ راسخ العقیدہ ہے اور ان مقاصد کے حصول کا احیاء اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔

حرف آخر:

لبرل سرمایہ دارانہ فکر کے اس اجمالی جائزے سے ہم چند بنیادی نکات اخذ کرنے میں اپنے آپ کو حق بجانب سمجھتے ہیں:

(١)لبرل فکر سرمایہ دارانہ طرز زندگی کو فروغ دینے کے لیے فی زمانہ سب سے زیادہ مستحکم سیاسی طریقہ ہے۔

(٢)آزادی بنیادی طور پر صرف وہ علاقہ ہے جہاں انسان جوکچھ چاہے کر گزرے ۔ اس کے سوا  آزادی اور کچھ نہیں۔ اس کا کوئی مستقل Content نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ مختلف لبرل مفکرینِ آزادی کے اس خالی خلا کو پُر کرنے کے لیے مختلف، Contents فراہم کرنے کی کوشش کرتے رہے ، کوئی اس میں لذت کا Contentتو کوئی ملکیت کاContent … اسی طرح کوئی Basic primary goods  کا   Content بھرنے کی کوشش کرتے نظر آنا ہے۔

(٣)لبرل فکر آزادی کے نام پر سرمایہ دارانہ جبر قائم کرنے کا نام ہے کیوں کہ بظاہر تو یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ آزادی سے مراد یہ ہے کہ فرد جو چاہنا چاہے ‘ چاہے لیکن اس نظام زندگی میں فرد سرمائے کے سوا کچھ اور چاہ ہی نہیں سکتا، کیوں کہ سرمائے کے بغیر آزادی کا اظہار لبرل سرمایہ دارانہ نظام میں فی العمل ممکن نہیںرہتا اور حقیقتاً انسان پرستی کے نام پر سرمائے کی پرستش کی جاتی ہے اور سرمائے کے جبر کو آزادی کے نام پر قبول کیا جاتا ہے۔

(٤)لبرل سرمایہ دارانہ فکر بظاہر حقوق انسانی کے تحفظ کو ایک مقدس فرض کے طور پر پیش کرتی ہے لیکن وہ تمام انسان جو الوہیت سرمائے کی پرستش کو مطلق خیر کی حیثیت سے قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں ، ان کو لبرل سرمایہ دارانہ فکر انسان بھی کہلانے کا حق دینے کو تیار نہیں ہوتی۔ رالز کے نزدیک لبرل سرمایہ داری کے انکاری معاشرے کے لیے ایک بیماری کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کواسی طرح کچل دینا چاہیے جس طرح ہم مضر کیڑے مکوڑوں کو کچل دیتے ہیں۔ ایک اور لبرل مفکر ڈربن کے مطابق…

”I am not ready to argue with any one who is not liberal,

 I am not going to argue with him, I am going to shoot  him.”

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *