سرمایہ دارانہ ریاستی ڈھانچے(State Structure of Capitalist) کو سمجھنے کے لئے یہ لازم ہے کہ جس ریاستی نظم سے ہمارا مقابلہ ہے اسکی نوعیت کیا ہے اور یہ ریاست کس طرح کام کرتی ہے کیونکہ ان اصولی مباحث کو سمجھنے کے بعد ہی ہم یہ سوال اٹھا سکیں گے کہ کس طرح اسلامی ریاست قائم اور مستحکم کرنے کی جدوجہد کی جاسکتی ہے۔ اس مضمون میں پیش کردہ لبرل سرمایہ دارانہ ریاست کا عمومی خاکہ دو سوالات کے جوابا ت دینے کی کوشش کرتا ہے،  اولاً سرمایہ دارانہ اقتدار کس کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور دوم یہ اقتدار کیسے قائم رکھا جاتا ہے۔ زیر نظر مضمون سے یہ بات بھی واضح ہوگی کہ حکومت اور ریاست (نظام اقتدار) میں بہت فرق ہوتا ہے کہ حکومت محض ریاست کا ایک جزو ہے۔

ریاستی سطح پر سرمایہ دارانہ اقتدار کس طرح تشکیل پاتا ہے؟

ریاست نظامِ اقتدار کا نام ہے، چناں چہ جب ہم لبرل سرمایہ دارانہ ریاست کی بات کرتے ہیں تو سب سے پہلے یہی سوال اٹھاتے ہیں کہ ”کس کا اقتدار؟”… تو سرمایہ دارانہ ریاست مین ان کو اقتدار حاصل ہوتا ہے جو ایمان لاتے ہیں سرمایہ دارانہ عقلیت پر اور جو موید ہوتے ہیں سرمایہ دارانہ عقلیت کے۔

سرمایہ دارانہ عقلیت یہ ہے کہ انسان کو تمتع فی الارض کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کیے جائیں، انسان کو اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے زیادہ سے زیادہ مساوی مواقع ملیں۔ جن لوگوں کے ہاتھوں میں سرمایہ دارانہ ریاست کا اقتدار ہوتا ہے اور جو صاحبِ معاملہ ہوتے ہیں وہ یہی لوگ ہوتے ہیں جو اس عقلیت پر ایمان لاتے ہیں۔

یہ اقتدار کیسے قائم رکھا جاتا ہے؟… وہ سرمایہ دارانہ عقلیت کو Universalize کر کے اقتدار قائم رکھتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ عقلیت ہی کی بنیاد پر تمام فیصلے ہوں اور پورا معاشرہ سرمایہ دارانہ تعقل کو اصل عقلیت کے طور پر قبول کر لے، جتنا وہ اس میں کامیاب ہوں گے اتنا ہی ان کا اقتدار مستحکم ہوگا۔

اس سرمایہ دارانہ تعقل کو آفاقی بنانے کے لیے انہیں ریاستی سطح پر نظامِ اقتدار مرتب کرنا ہوتا ہے، ریاست قوت نافذہ ہے، جو بھی فیصلے ہوں گے، ان فیصلوں کو نافذ کرنے کا ذریعہ ریاست ہوتی ہے۔

لبرل سرمایہ دارانہ ریاست میں’ سرمایہ دارانہ عقلیت کو آفاقی بنانے کے لیے دو مختلف ڈھانچے ہیں:

(١)جمہوری طرزِ اقتدار

(٢)ڈکٹیٹر شپ

ان دونوں طریقوں میں اقتدار کی ہیئت کچھ مختلف ہوتی ہے لیکن عملاً ان دونوں کے نتیجے میں سرمایہ دارانہ عقلیت ہی غالب آتی ہے۔

فرماں روائی اور عملداری کس کی ہوتی ہے:

معاشرہ تو رضا کارانہ (voluntary)صف بندی سے تشکیل پاتا ہے یعنی افراد اپنی مرضی سے تعلقات استوار کرتے ہیں۔ اس کے برعکس ریاست نظام اقتدار کا نام ہے یعنی ایک جبری صف بندی کی تشکیل کی جاتی ہے۔ اب سب سے بنیادی سوال یہی ہے کہ لبرل سرمایہ دارانہ ریاست میں اصل اقتدار کس کو حاصل ہو تا ہے ۔ لبرل سرمایہ دارانہ ریاست میں اصل اقتدار ان کو حاصل ہوتا ہے جو ”سرمایہ دارانہ عقلیت پر ایمان رکھتے ہیںاور ان کو مؤید ہوتے ہیں۔” سرمایہ دارانہ عقلیت یہ ہے کہ انسان کو تمتع فی الارض کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کیے جائیں۔ انسان کو اپنی خواہشات کی تکمیل کے زیادہ سے زیادہ مساوی مواقع ملیں، تو جو لوگ سرمایہ دارانہ لبرل ریاست میں صاحب اقتدار ہوتے ہیں، وہ اسی سرمایہ دارانہ عقلیت کے بارے میں راسخ العقیدہ ہوتے ہیں۔

فرماں روائی اور عملداری کیسے کی جاتی ہے:

اب بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سرمایہ دارانہ عقلیت پرایمان رکھنے والوں کا اقتدار کیسے قائم ہوتا ہے اور کیسے مستحکم ہوتا ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے کہ جب پورا معاشرہ سرمایہ درانہ تعقل کو اصل عقلیت کے طور پر قبول کرلے۔ سرمایہ دارانہ عقلیت کی بنیاد پر ہی تمام فیصلے ہوں، گویا اقتدار کو مستحکم کیا جاتا ہے، سرمایہ دارانہ عقلیت کو یونیورسلائز یعنی آفاقی بنا کر…جس قدر اس سرمایہ دارانہ عقلیت کی توسیع ہو گی، جس قدر سرمایہ دارانہ عقلیت کو معاشرہ میں قبولیت عامہ حاصل ہوتی جائے گی، جتنا سرمایہ دارانہ عقلیت پر ایمان رکھنے والے اور سرمایہ دارانہ عقلیت کے داعی اس میں کامیاب ہوں گے، اتنا ہی ان کا اقتدار مستحکم ہوگا۔

 ریاستی اقتدار:

ہم نے دیکھا کہ معاشرہ کے برعکس کہ جہاں تعلقات رضاکارانہ بنیادوں پر استوار ہوتے ہیں۔ ریاست ایک نظامِ اقتدار کا نام ہے جس کے پاس اپنے فیصلوں کے نفاذ کے لیے ایک مخصوص علاقے اور اس کی آبادی کے لیے قوتِ نافذہ بھی موجود ہوتی ہے گویا سرمایہ دارانہ عقلیت پر ایمان رکھنے والوں کے پاس محض تحکم نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنے فیصلو ں کے نفاذ کے لیے ریاست کی قوت کو بھی استعمال کرتے ہیں۔

سرمایہ دارانہ لبرل ریاست میں دو مختلف طریقوں سے نظامِ اقتدار مرتب کیا جاتا ہے یعنی اس کے دو مختلف ڈھانچے ہوتے ہیں:

١۔جمہوری طریقہ

٢۔لبرل ڈکٹیٹر شپ یا آمریت

بظاہر ان دونوں طرزِ اقتدار کی ترتیب وتنظیم مختلف ہوتی ہے لیکن عملاً ان دونوں کے نتیجے میں سرمایہ دارانہ عقلیت ہی غالب آتی ہے ، یعنی یہ دو قالب ہیں لیکن ان دونوں کی روح ”سرمایہ دارانہ عقلیت” ہی ہے۔ ان دونوں طرزِ اقتدار کو استعمال کر کے سرمایہ دارانہ عقلیت ہی کو آفاقی بنایا جاتا ہے اور ان بظاہر دو مختلف طرز اقتدار میں فیصلے سرمایہ دارانہ عقلیت کی بنیاد پر ہی کیے جاتے ہیں اور اسی کو مقبول عام بنائے جانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

(پاکستان کے تناظر میںدینی جماعتوں کی توجہ”سرمایہ دارانہ عقلیت ” کی مرکزی بحث کی بجائے اس کے قالب یعنی آمریت اور جمہوریت پر مرکوز ہو جاتی ہے۔ پاکستان میں دینی جماعتیں سمجھتی ہیں کہ ان کو جمہوری طرز کی حکومت میں اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کی زیادہ آزادی میسر آتی ہے(گو کہ ان پر یہ بھی الزام عائد کیا جاتا ہے کہ ان کو زیادہ فائدہ آمریت کی حکومتوں نے پہنچایا ہے) لیکن ان کو یہ سمجھنا چاہیے کہ جمہوریت یا آمریت میں ”روح” ایک ہی کارفرما ہے، اور ان کے متبادل کی بجائے انہی دونوں میں گنجائشیں تلاش کرنے سے ان دونوں سسٹم ہی کو استحکام حاصل ہوتا ہے۔ گنجائش تلاش کرنے سے یہ دونوں سسٹم کمزور نہیں ہوتے یا ان کو پیچھے نہیں دھکیلا جا سکتا۔)

فرماں روائی کا طریقۂ عمل اور اس کے دومختلف تصورات:

فرماں روائی کے طریقۂ عمل (Governance process)سے مرادہے کہ کس طریقے سے احکام صادر کیے جارہے ہیں او رکس طریقے سے احکام نافذ کیے جارہے ہی؟ یعنی نظامِ اقتدار کو مرتب کرنے کے لیے ضروری ہے کہ محض احکام دیے نہ جارہے ہوں بلکہ ان کو نافذ کرنے کے لیے بھی پوری حکمت عملی اور مشینری موجود ہو، گویا گورننگ پروسیس سے مراد سرمایہ دارانہ عقلیت کی آفاقیت اور اس کے غلبے کو ممکن بنانے کا مخصوص طریقۂ عمل ہے۔

اس سلسلے میں دو مختلف تصورات پائے جاتے ہیں:

٭ ایک تصور تویہ ہے کہ معاشرہ کا ہر فرد فطرتاً یہی چاہتا ہے کہ تمتع الارض اور خواہشات کو پورا کرنے کے زیادہ سے زیادہ مواقع میسر آئیں، یعنی معاشرہ اس بات پر راضی ہو چکا ہے اور یہی معاشرہ کے ہر فرد کی خواہش ہے کہ سرمایہ دارانہ عقلیت پر ہی زندگی کے ہر شعبہ کے ہر دائرہ کار میں فیصلے کیے جائیں اور سرمایہ دارانہ عقلیت ہی کو غلبہ حاصل ہو۔ یہی وہ نقطۂ نگاہ ہے جو انیسویں صدی کے اندر Scotish enlightent والوں میں کانٹ کی فکر میں ملتا ہے کہ فطرت ِ انسانی کا تقاضہ ہی یہ ہے کہ اس کی تمام خواہشات کی تسکین ہو۔ لہٰذا اسٹیٹ کو سوسائٹی پر تسلط کی ضرورت نہیں بلکہ ریاست کو معاشرہ یا سوسائٹی کے مختلف افراد جو خواہشات رکھتے ہیں۔ ریاست انھی کو پورا کرنے کا معقول ترین طرز نفاذ وضع کرتی ہے، گویا سرمایہ دارانہ لبرل ریاست سرمایہ دارانہ معاشرے کی خواہشات کو پورا کرنے کا ”ذریعہ” ہوتی ہے، لہٰذا اس کے تابع ہوتی ہے۔

٭دوسرا تصور یہ ہے کہ معاشرہ کے افراد نہیںجانتے کہ انہیں کیا چاہنا چاہیے۔ وہ عقلیت اصلیہ یعنی سرمایہ دارانہ عقلیت کے تقاضوں سے ناواقف ہوتے ہیں، لہٰذا ایک ایسے گروہ کی ضرورت ہے جو اصلی عقلیت کی نمائندہ ہو ، یہی گروہ پوری انسانیت کا نمائندہ گروہ ہے۔ اس گروہ کی آمریت لوگوں کو مجبور کرکے اس اصلی عقلیت(سرمایہ دارانہ عقلیت)کے مطابق تمام فیصلے ہوں، گویا ریاست محض معاشرے کے تابع نہیں ہے بلکہ اس کو معاشرے پر غالب ہونا چاہیے اور اس کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ عقلیت اصلیہ کو معاشرتی سطح پراور انفرادی سطح پر نافذکرنے کے لیے نظام اقتدار کھڑا کرے۔ اب یہ گروہ کون سا ہے اس کے بارے میں اختلاف ہو سکتا ہے(وہ مزدوروں کی آمریت یامخصوص طبقہ یا قوم ہو سکتی ہے)

واضح رہے کہ یہ دونوں تصورات و نظریات ریاست کے اندر خواہشاتِ نفسانیہ کی زیادہ سے زیادہ تکمیل کی جدوجہد ہی کرتے ہیں۔ ان کا طریقہ مختلف ہے۔ ایک طریقے میں ریاست معاشرہ کے ماتحت ہے اور ریاست پورا کررہی ہے ان خواہشات کو جو معاشرے کی dynamicمیں خودبخود ابھر کر سامنے آرہی ہیں اور ریاست ان کی ترتیب، مقدم اور مؤخر کا ایک ذریعہ ہے، دوسرا طریقہ میں ریاست کو معاشرے پر غلبہ حاصل ہوتا ہے اور وہ یہ فیصلہ کرتی ہے کہ کیا چاہنا چاہیے اور اس کے حصول کا بہترین طریقہ کیا ہے؟

(دونوں طریقوں میں فرق واضح نہیں ہے کیوں کہ دونوں صورتوں میں افراد معاشرہ سرمایہ دارانہ عقلیت کا غلبہ ہی چاہتے ہیں، اب یہ غلبہ کیسے ممکن الحصول ہو گا، ایک قسم کا تصور یہ کہتا ہے کہ ریاست میں مخصوص گروہ اس بات کا یقین کرے گا اور اول الذکر میں بظاہر تو نمائندگان یہ فیصلہ کرتے ہیں ، لیکن عملاً سرمایہ دارانہ اشرافیہ ہی فیصلہ کن پوزیشن میںہوتی ہے)

سرمایہ دارانہ عقلیت کے نفاذ کے لیے تین بنیادی فرائض:

سرمایہ دارانہ عقلیت کے حاملین سرمایہ دارانہ نظام اقتداء کو معاشرتی سطح پر مرتب کرنے کی جو کوشش کرتے ہیں، اس کے لیے انہیں تین بنیادی فرائض ادا رکرنے پڑتے ہیں۔

١۔مارکیٹ کے اندر واحد پیمانہ تعین قدر سرمائے کا عمل بن جائے۔

٢۔سرمائے کی بڑھوتری کا تعقل پورے معاشرے پر حاوی ہوجائے اور زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہ رہے جو سرمایہ دارانہ عقلیت سے ماورا ہو۔

٣۔ نمبر1اور نمبر2کو قبولیت عامہ اور جوازِ عمومی حاصل ہو جائے۔

سرمایہ دارانہ عقلیت کو غالب کرنے کے لیے ضروری ہے کہ زندگی کے ہر دائرہ کار میں تمام اعمال کو اس واحد عمل کے اردگرد مجتمع کر دیا جائے، یعنی سرمائے کی بڑھوتری مستقل تیز ہوتی چلی جائے اور سرمائے کی بڑھوتری محض خود اپنا جواز ہو۔ ہر معاشرتی یا انفرادی عمل کا مقصدِ اولین (Ultimate end)یہی ہو،کیوں کہ سرمایہ ہی ”آزادی” کی مجسم شکل ہے۔

یہ عمل پہلے مارکیٹ کی سطح پر ہوتا ہے۔جہاں اس کو واحد معقول پیمانہ خیروشر کے طور پر قبول کر لیا جاتا ہے اور کسی بھی عمل کو صرف اسی بنیاد پر جانچا جاتا ہے کہ اس مخصوص عمل کے نتیجے میں سرمایہ کی بڑھوتری کی رفتار میںتیزی آرہی ہے یا کمی ہورہی ہے ۔ یعنی فر د کے مخصوص عمل کے نتیجے میں سرمایہ کی بڑھوتری کی رفتار پر کیا فرق پڑ رہا ہے۔ اگر زیدکی مخصوص نوکری کے نتیجے میں سرمائے کی بڑھوتری کی رفتار میں اس سے کم اضافہ ہوتا ہے جتنا ایک اسٹاک بروکر کی کاوش کے نتیجے میں ہوتا ہے تو معقول بات اور جائز یہی ہے کہ زید کی تنخواہ اسٹاک بروکر کے مقابلے میں کم ہو کیوں کہ سرمائے کی بڑھوتری کے عمل کو آگے بڑھانے میں زید کا حصہ (Contribution)اس سے کم ہے جو اسٹاک بروکر کا ہے۔ گویا مارکیٹ کی سطح پر جو معقول پیمانہ خیروشر مسلط ہو جاتا ہے اور جسے قبول کیا جاتا ہے اور اس کے نتیجے میںایک فرد کو تمتع الارض کی اجازت دی جاتی ہے وہ اس سے ہم آہنگ ہوتی ہے کہ وہ سرمائے کی بڑھوتری کے عمل کو کتنا مہمیز دیتا ہے۔

معاشرے کے اندر مارکیٹ ایک دائرہ کار ہے۔ مارکیٹ کے باہر بھی فرد بہت سے تعلقات کو تشکیل دیتا ہے اور یہ ضروری نہیں کہ وہ ان تعلقات کی تشکیل بھی سرمایہ دارانہ عقلیت یا بڑھوتری سرمائے کی بنیاد پر کرے، مثلاً خاندانی تعلقات عموماً ایثار ومحبت کی بنیاد پر تشکیل پاتے ہیںلیکن سرمایہ دارانہ اشرافیہ اور سرمایہ دارانہ عقلیت میں راسخ العقیدہ لوگوں کی کوشش ہوتی ہے کہ بڑھوتری سرمایہ کا جو واحد معقول پیمانے کے طور پر جسے مارکیٹ میں تسلیم کر لیا گیا ہے یہ صرف مارکیٹ تک محدود نہ رہے بلکہ یونیورسلائز ہو جائے، خاندان بھی مارکیٹ کا حصہ ہوجائیں، رشتۂ ازواج میں منسلک ہوتے ہوئے ایمانداری، نسب وشرافت، خاندان اور کفو کو اہمیت نہ دیں بلکہ کیرئیر یا پیسہ کو مدّ نظر رکھیں۔ بچوں کی تربیت کرتے ہوئے بھی سرمایہ دارانہ تعقل کو نظر اندازنہ کریں ۔ برادریاں’ قبیلے ‘ قوم اور حتیٰ کہ مذہبی ادارے بھی مارکیٹ کے اس تعقل کا حصہ بن جائے۔ فرد صرف مارکیٹ کے عمل میں سرمائے کا ایجنٹ نہ ہو بلکہ زندگی کا ہر رول نبھاتے ہوئے وہ سرمائے کا ایجنٹ ہو، اس کو (Capitalist socialization)کہتے ہیںاور جہاں اس قسم کی سرمایہ دارانہ انفرادیت مکمل طور پر یونیورسلائز ہو جاتی ہے، اسے (Capitalist society)یعنی سرمایہ دارانہ معاشرہ کہتے ہیں۔

تیسرا فرض یہی ہوتا ہے ۔یہ دونوں طرح کے فرائض محض زبردستی نافذ نہ کیے جار ہے ہوں بلکہ ان کو مقبولیت عامہ اور جواز عمومی حاصل ہو ۔ عام آدمی کے لیے یہی معقول پیمانہ خیروشر اور پیمانہ عمل بن جائے، اور جب فرد کا ہر عمل بڑھوتریٔ سرمائے کے تحت آجائے تو ضرور خود اپنے دل میں یہ محسوس کرے گا کہ میں کامیاب ہوگیاہوں، اور زندگی کے ہر شعبے کے اندر سرمائے کی بڑھوتری کو مہمیز دینے کی بنیاد کے اوپر اپنی مرضی اپنے اعمال کا تعین کرے۔

فرماں روائی اور عملداری کو کن افراد کے ذریعے ممکن بنایاجاتاہے:

سرمایہ دارانہ عقلیت کوئی فطری چیز نہیں ہے بلکہ انتہائی غیر فطری چیز ہے، اس لیے سرمایہ دارانہ تعقل کو پورے نظامِ زندگی پر غالب کرنے کے لیے خصوصی کوشش کی جاتی ہے۔ اس میں مخصوص افراد اور اداروں کی اہمیت ہوتی ہے، پہلے ہم ان افراد کا تذکرہ کرتے ہیں جو سرمایہ دارانہ عقلیت کو قبولیتِ عامہ دلوانے اور سرمایہ دارانہ عقلیت کو غلبہ دلانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

(١)انٹلیکچوئیل(Intellectuals):

یہ وہ فرد ہے جو قدیم مذہبی علمیت اور قیادت کا فطری مخالف ہے۔ مذہبی علمیت کی بنیاد یہ ہوتی ہے کہ ہر عمل کی انجام دہی سے پہلے اللہ تعالیٰ کی رضامندی و مرضی تلاش کی جائے۔ احکام یا احکام سے استنباط اس طرح کیا جائے کہ اللہ کی مرضی ومنشاء سے قریب تر ہو جائے اور اللہ تعالیٰ کی مرضی کی اطاعت ممکن ہوسکے۔ اس کے برعکس انٹلیکچوئیل کا ظہور اٹھارویں صدی میں ہوا اور یہ مذہبی علمیت کے برعکس دوسری علمیت کا علم بردار ہوتا ہے۔ یہ انسان کی آزادی اور مساوات کا قائل ہوتا ہے اور ان راہوں کی نشاندہی کرتا ہے جس کے نتیجے میں انسانیت زیادہ سے زیادہ مساوی آزادی حاصل کر کے اپنی خواہشات (نفسانیہ) کو حاصل کر سکتا ہے۔

(٢)کلچرل ہیروز:

اس ریاستی نظام میں چوں کہ تمتع فی الارض اور نفسانی خواہشات عمل کے تعین کی بنیاد بنتی ہیں۔ لہٰذا ایسے لوگوں کو پروجیکٹ کرنے کی بہت ضرورت ہوتی ہے جو اس کام میں کامیاب ہو جائیں، عموماً یہ تین قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔

٭اسپورٹس مین:

لبرل نظام مین کھیلوں (لہو ولعب) کی خاص اہمیت ہے ، لوکل سطح سے لے کر ملکی اور بین الاقوامی کھیلوں کے مقابلوں کا ایک مستقل سلسلہ لبرل ریاستوں کے تعاون سے جاری رہتا ہے اور مختلف قسم کے کھیل کھیلنے والوں کو ہیروز کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

٭سائنسدان:(سائنسز سے وابستہ افراد میں فزیکل اور سوشل سائنسز سے وابستہ افراد)

یہ وہ افرادہیں جنہوں نے کائنات کی طبعی قوتوں پر انسان کا غلبہ اور اختیار بڑھا دیا ہے اور اس اختیار کو بڑھانے کا مقصد تمتع فی الارض ہے۔ ایک زمانے میں یہ فزیکل سائنسدان ہوتے تھے، مگر آج کل میڈیسن اور بائیو ٹکنالوجی سے وابستہ افراد کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔

ان تین قسم کے لوگوں کو یہ مواقع فراہم کیے جاتے ہیں کہ یہ معاشرے کے رول ماڈل بن جائیں۔ لوگ ان کلچرل ہیروز کو بزرگان دین کی جگہ رکھنے لگیں ۔ علماء اور صوفیاء کو بے وقوف سمجھنے لگیں اور اصلی عوامی لیڈر شپ کا منصب ان تین طرح کے لوگوں کے پاس آ جائے۔ اصلی عوامی لیڈر شپ عموماً سیاسی نہیں ہوتی بلکہ اصلی عوامی لیڈر شپ ان کلچرل ہیروز کے ذریعے پیدا کی جاتی ہے۔ ان کلچرل ہیروز کے ”فین” اپنی زندگی میں ان کا طرزِ زندگی اپنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

(٣)ٹیکنو کریٹ اور بیورو کریٹ:

ٹیکنوکریسی اور بیورو کریسی بھی سرمایہ دارانہ ریاستوںکے انتظام سے متعلق خاص چیز ہے۔ یہ ایسی اشرافیہ ہوتی ہے جو سرمایہ داری کے مجموعی مفادات کی بنیاد پرانفرادی سرمایہ دارانہ عمل کی تحدید اور ترتیب کرتی ہے۔ اس کا اپنا مفاد اس میں پنہاں ہوتا ہے کہ سرمایہ داری کے مجموعی مفادات کتنے حاصل ہو رہے ہیں؟ ان کو سرمائے کے مجموعی مفادات کے نمائندوں کے طور پر قبول کیا جاتا ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام کا ایک مستقل مسئلہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں کوئی ایجنٹ (as a whole)پیدا نہیں ہوتا۔ مارکیٹ کا جو طریقہ اور منظم قائم ہے اس میں ہر کمپنی اپنی مفادات کی نگرانی اور تحفظ کے لیے سرگرم عمل ہوتی ہے۔ اس کو صرف اس بات سے غرض ہوتی ہے کہ اس کا منافع زیادہ سے زیادہ ہو جائے۔ اس لیے اس نظم میں عمومی سرمائے کے تحفظ کے نمائندے نہیں ہوتے۔ مثلاً جو ا س بات پر نظر رکھ سکیںکہ کوئی مخصوص کمپنی اپنا منافع زیادہ سے زیادہ کرنے کے لیے کوئی ایسا کام تو نہیں کر رہی جس سے مجموعی بڑھوتری سرمایہ کو روکا جارہا ہے۔ تو ٹکنو کریسی اور بیوروکریسی یہ بتاتی ہے کہ تمتع فی الارض کا بہترین طریقہ کیا ہے اور ان سے امید کی جاتی ہے کہ وہ اپنے مفادات سے اوپر اٹھ کر مجموعی سرمایہ کے ایجنٹوں کا رول ادا کریں گے۔ ان کی(dedication)اور کمٹ منٹ (commitment)اور (impartiality)سرمایہ دارانہ نظام سے وابستہ ہوتی ہے۔ اس کے لیے انہیں مخصوص امتحانی نظام سے گزار کر سامنے لایا جاتا ہے اور عمومی نمائندوں کے برعکس ان کی حیثیت ایک مستقل نوعیت کی ہوتی ہے۔ قانون سازی میں بھی یہ اہم رول ادا کرتے ہیں۔ یہ کسی بھی سرمایہ دارانہ نظریے پرایمان رکھنے والے ہو سکتے ہیں۔ چاہے لبرل ہوں یا مسلم قوم پرست یا کمیونسٹ … سرمایہ دارانہ نظام کا تقاضہ ہے کہ ایسا گروہ مستقل تیار ہوتا رہے اور یہ نظریاتی گروہ برسر اقتدار بھی ہو اور اس کا اقتدار مقبول عام بھی ہو۔

(٤)آرمڈ فورسز (armed forces):

اس کی زیادہ تفصیل کی ضرورت نہیں… یہ سرمایہ داری کو لاحق خطرے کے وقت سامنے آتے ہیں اور سرمایہ داری کا آخری دفاع یہی لوگ کرتے ہیں۔ ہر ملک کی عموماً اپنی آرمی، پولیس اور ریزرفورسزو وغیرہ ہوتی ہیں۔

(٥)استعماری ایجنٹ (imperial oversights agents):

یہ وہ مقامی افراد ہوتے ہیںجن کا فکری تناظر ، جن کے مفادات اور وفاداریاں ایمپائر کے ساتھ ہوتی ہیں۔ چوں کہ سرمایہ دارانہ نظام ایک عالمی نظام ہوگیا ہے اور سرمایہ داری کی جو اصل قوت نافذہ ہے’ امریکہ ہے۔ اس قوت نافذہ کی ایک ضرورت یہ ہوتی ہے کہ براہِ راست اپنے افراد کی بجائے وہ ایسے مقامی افراد کے ذریعے حکومت کے کاموں میں دخیل ہو جن کی بنیادی وفاداریاں امریکن ایمپائر کے ساتھ ہوں۔ وہ بودوباش تو مقامی لوگوں کا سا رکھیںلیکن تمام تر طرزِ زندگی ایمپائر کی سی ہو، گویا یہ ایمپائر کے غیر مقامی شہری (non national citizen)ہوتے ہیں۔ ہر چیزمیں انگریزوں کی حکومت نے جب محسوس کیا کہ ان کی حکومت کو مقبولیت حاصل نہیں ہے تو انہوں نے مختلف طریقوں خصوصاً ایجوکیشن سسٹم کے ذریعے ایسے لوگ تیار کیے اور صرف ہندوستان میں نہیں بلکہ پوری تیسری دنیا کے اندر ایسے لوگوں کی پوری نسل تیار کی گئی جو فطرتاً ایمپائر ہی کے لوگ ہوں۔ یہ لوگ کلیدی مقامات پر فائز کیے جاتے ہیں۔

حاملین اقتدار ادارے

ہم ان افراد کا تذکرہ کر چکے ہیں جو سرمایہ دارانہ عقلیت کو قبولیت عامہ اور غلبہ دلانے میں اہم کردار اد ا کرتے ہیں اب ان اداروں(Capitalist Institutions)  کا تذکرہ ہے جن کے ذریعے یہ افراد اقتدار کی ترتیب عمل میں لاتے ہیں۔

(ا)کارپوریشن:

کارپوریشن کے اندر نظامِ اقتدار سرمایہ داری اپنی absolute شکل میں ہوتا ہے۔ جہاں ایک فرد سرمایہ دارانہ بندھنوں میں ایسے جکڑا ہوتا ہے کہ بڑھوتری سرمایہ  کا ایجنٹ بننے کے سوا اور کچھ ممکن نہیں ہوتا۔ کارپوریشن کے اندر جو ترتیب نظم ہوتی ہے اس کے نتیجے میں معاش کے پورے عمل پر جس طرح سرمایہ دارانہ عقلیت غالب آتی ہے اور کہیں غالب نہیں آتی۔ سرمایہ دارانہ نظام میں کارپوریشن کے ذریعے ذاتی ملکیت کو ختم کر کے سرمائے کی ملکیت قائم کی جاتی ہے۔ سرمایہ دارانہ تعقل کے لیے انسان کے جاگتے اوقات میں انسان کو خاص قسم کے ڈسپلن میں سمو دیا جاتا ہے اور اس کے ان اوقات میں اسے سرمائے کا خادم بنا دیا جاتا ہے۔ کارپوریشن وہ شخص قانونی ہے جس کا اکیلا وظیفہ یہ ہے کہ سرمائے کی بڑھوتری کے پیمانے پر اپنے تمام اعمال کو مرتب کرے۔ کارپوریشن کو چلانے والے منیجر ہوتے ہیں، جو عملاً بڑھوتری سرمایہ کی مشین ہوتے ہیں وہ اپنے ماتحت ملازمین کو بھی اس واحد پیمانے پر پرکھتے ہیں کہ وہ بڑھوتری سرمائے کا باعث بن رہے ہیں کہ نہیں… ایک معیشت میں جس قدر کارپوریشن کا عمل دخل بڑھتاہے اتنا ہی ذاتی ملکیت کم ہو جاتی ہے۔

(ب)بینک اور مالی ادارے:

کارپوریشن کے علاوہ دوسرا ذریعہ بینک اور فنانشل ادارے ہیں۔ یہ بھی خالصتاً سرمایہ دارانہ ادارے ہیں۔ ان کا بنیادی مقصد ہی ہے کہ سرمائے کی بڑھوتری کی بنیاد پر قدر کے تعین کا ایسا نظام نافذ اور قائم کریں کہ زر کی مارکیٹ اور اسٹاک مارکیٹ (capital market)سسٹم آف (production) یعنی پیداواری عمل کے نظام پر حکم لگانے کی پوزیشن میں آجائے۔ اس کے لیے بنک یہ فریضہ انجام دیتے ہیں کہ لوگوں کی بچتوں کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں تاکہ لوگ اپنے فاضل سرمائے کو خود استعمال نہ کریں بلکہ بینک میں اکاؤنٹ کھول لیں اور بینک اس رقم کو سرکل آف کیپٹل (circle of capital)میں شامل کر دیں۔ انہی اداروں کے ذریعے سرمایہ داری کو یونیورسلائز کرنے میں مدد ملتی ہے۔

(ج)فنانشل ریگولیشن (زری اصلاحات):

سرمایہ دارانہ نظام میں مختلف کمپنیاں اپنے اپنے منافع کو بڑھانے کے لیے مسلسل مسابقت کرتی ہیں۔ اس لیے ایک ریگولیٹری اتھارٹی کی ضرورت ہوتی ہے جو یہ نظر رکھتی ہے کہ اس مسابقت کے نتیجے میں سرمایہ دارانہ نظام بحیثیت مجموعی کسی نظاماتی بحران سے دوچار نہ ہو۔ یہ ریگولیٹری اتھارٹی اس نظاماتی بحران سے بچانے کے لیے پیسہ کی رفتارِ پیداوار میں کمی یا زیادتی کا فیصلہ کرتی ہے۔ بظاہر تو یہ خاص حکومت کا کام لگتا ہے ، لیکن اب صرف اسٹیٹ بینک یہ کام نہیں کرتا بلکہ عالمی مالیاتی اور زری ادارے بھی اس میں دخل اندازی کرتی ہیں اور پرائیوٹ سیکٹر میں بھی ایسی ویٹنگ ایجنسیاں آ گئی ہیں مثلاً جے پی مورگن وغیرہ جن ک اس سلسلے میں اہم کردار ہوتا ہے۔

(د)لیبر یونینز:

کبھی کبھار یہ بھی ہوتا ہے کہ ٹریڈ یونینز بھی سرمایہ دارانہ عقلیت کو غالب کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ انفرادی طور پر تو کارپوریشن کے اندر ہیومن ریسورس مینجمنٹ کے ذریعے یہ کام کیا ہی جارہا ہے، لیکن اجتماعی طور پر مزدوروں کو سرمایہ دارانہ عقلیت سے بہرہ ور کرنے کا کام مزدور یونینز کرتی ہیں۔ وہ مزدور قوتوں کو اس مقصد کے گرد منظم کرتی ہیں کہ سرمایہ دارانہ عقلیت کے فروغ کے نتیجے میں جو فوائد حاصل ہو رہے ہیں ‘ ان میں اپنا حصہ طلب کریں اور مزدور بھی اجتماعی طورپر سرمایہ کی بڑھوتری کے عمل کو مہمیز دینے میں اپنا کردار ادا کریں اور ان کے مفادات بڑھوتری سرمایہ کے اہداف سے زیادہ سے زیادہ ہم آہنگ ہو سکیں۔

(ذ)انتظامیہ (مقامی اورقومی ):

کسی بھی ملک کے معاملات چلانے کے لیے انہیں مختلف شعبو ں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے مثلاً داخلہ امور، خارجہ امور، دفاعی امور، تعلیمی امور، معاشی امور… اور ان سب امور کو چلانے کے لیے ہر ملک میں انتظامیہ کا ادارہ ہوتا ہے، جس کی تنظیم مقامی سے لے کر قومی سطح تک موجود ہوتی ہے۔ انتظامیہ کے ادارے کا کام محض قانون کا نفاذ نہیں ہوتا بلکہ وہ قانون سازی میںبھی نمایاں طور پر حصہ لیتی ہے۔ اکثر قوانین کے مسودے انتظامیہ ہی تیار کرتی ہے۔ عملاً انتظامیہ ہی مقننہ کی رہنمائی کرتی ہے اور اس پر حاوی ہوتی ہے اور اس کو سرمایہ دارانہ ڈگر سے نہیں ہٹنے دیتی۔

(ط)میڈیا:

جس میں اخبارات ورسائل، ریڈیو، ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ وغیرہ شامل ہیں۔ سرمایہ دارانہ دائرہ اقتدار کو وسیع کرنے کا اہم ادارہ ہے۔ میڈیا کے سب شعبے یعنی انٹر ٹینمنٹ، ایڈورٹائزنگ ور انفارمیشن پہنچانے کا عمل سرمایہ دارانہ نظام اقتدار کے استحکام کا باعث بنتے ہیں۔ انٹر ٹینمنٹ انڈسٹری سے وابستہ لوگوں کو رول ماڈل اور ہیرو بنایا جاتا ہے۔ ایڈورٹائزنگ کے ذریعے سرمایہ دارانہ کارپوریشن کی مال کی طلب پیدا کر کے اس کی کھپت ممکن بنائی جاتی ہے اور انفارمیشن پہنچانے کے عمل کو بھی مختلف طریقوں (لائسنسنگ پر کنٹرول) کے ذریعے ریگولیٹ کیا جاتا ہے۔ میڈیا کا وسیع نیٹ ورک سرمایہ دارانہ ریاست کے ماتحت ہی ہوتا ہے۔

(ز)کورٹس (عدالتیں):

عدلیہ بنیادی طورپر لبرل دستور کی محافظ ہوتی ہے۔ یہ لبرل دستور کی بنیاد پر شہریوں کے دو فریقوں یا سٹیزن اور مملکت اور اس کے مختلف اداروں کے درمیان متنازعہ امور کے فیصلے کرتی ہے۔ ان معنوں میں کورٹس کا بنیادی فریضہ روزمرہ معاملات کی دستور سے ہم آہنگ تشریح و توضیح کرنا اور مخصوص معاملات پر اس کا اطلاق کرنا ہے۔ دستور جیسا کہ ہم جانتے ہیں ‘ ایسی آزادیوں اور حقوق کے مجموعے کا نام ہے جو فرد کو سرمائے کی بڑھوتری کے فرض کو پورا کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ ان میں سب سے اہم سرمایہ دارانہ ملکیت کا تحفظ اور آزادی کا تحفظ ہے۔

(س)پولیس:

پولیس کا محکمہ کا سرمایہ دارانہ اشرافیہ اور عدلیہ سے مخصوص نوعیت کا تعلق ہوتا ہے۔ بنیادی طورپر سرمایہ دارانہ عدل کی بنیاد پر جو فیصلے کیے جاتے ہیں، ان فیصلوں کا نفاذ پولیس کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ سرمایہ دارانہ معاشرہ اور ریاست جس مخصوص نہج پر استوار ہوتے ہیں اس مخصوص نہج سے انحراف کرنے والوں پر پولیس نظر رکھتی ہے۔ بعض اوقات سرمایہ دارانہ اشرافیہ اپنے مخالفین کو کچلنے کا کام بھی پولیس سے لیتے ہیں۔

(ش)آرمڈ فورسز:

سرمایہ دارانہ ریاستیں اصولاً نیشن اسٹیٹ ہوتی ہیں اور اصولاً ایک نیشن اسٹیٹ کو اقتدار اعلیٰ حاصل ہوتا ہے، یعنی نہ تو اندرون ملک میں کوئی فرد یا گروہ ریاست کے دائرہ اختیار سے باہر ہو سکتاہے اورنہ کوئی بیرونی طاقت یا گروہ اس نیشن اسٹیٹ کی مرضی کے بغیر اس کے حاصل کردہ اختیار کو چیلنج کر سکتی ہے۔ اقتدار اعلیٰ کے اس تحفظ کے لیے بنیادی طورپر فوج کا ادارہ ہوتا ہے۔ سرمایہ دارانہ لبرل ریاست کا آخری دفاع آرمڈ فورسز ہی کرتی ہیں۔

(ص)مقننہ (legislature):

مقننہ عموماً دو ایوانوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ ایوانِ زیریںعوام کی نمائندہ سمجھی جاتی ہے اور ایوانِ بالا میں مخصوص طبقوں یا علاقوں کو نمائندگی دی جاتی ہے۔ انتخاب کی غرض سے تمام ملک کو مختلف حلقوں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے اور ہرحلقے سے ممبران کی مقررہ تعداد ایک متعینہ مدت کے لیے ایوانِ زیریں میں نمائندگی حاصل کرتی ہے۔ اصولی طورپر مقننہ کا اولین فرض؟؟؟…؟؟؟ اور عوام کے نمائندے معاشرہ کے بدلتے ہوئے حالات اور وقت کے تقاضوں کے مطابق قانون بناتے ہیں۔ قوانین میں ردوبدل کرنا یا ان کی تنسیخ کرنا بھی مقننہ کا کام ہوتا ہے اور تمام ارکان کو بحث ومباحثہ اور اظہارِ خیال کے بعد مقننہ کو اختیار ہوتا ہے کہ کثرتِ رائے سے پیش کیے جانے والے بل کو منظور یا مسترد کردے، لیکن فی الواقع جدید دور میں یہ محسوس کیا جاتا ہے کہ مقننہ کا کردار مسلسل کم ہورہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ تو وہی ہے کہ سرمایہ دارانہ لبرل ریاستوں کو عالمی سرمایہ دارانہ استعماری ریاست اپنی مرضی کے قوانین بنانے پر مجبور کرتی ہے اور عموماً یہ کام ٹکنو کریسی کرتی ہے۔ مقامی ٹکنو کریسی بھی صرف وہ اقدامات بروئے کار لاتی ہے جو عالمی سرمایہ دارانہ قوانین سے ہم آہنگ ہوں، جب مقننہ کا بنیادی فریضہ ہی ادا نہ ہوتو گویا یہ کمزور ترین ادارہ بن کر رہ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی چند جزوی وجوہات ایسی ہیں کہ مقننہ کا کردار کم سے کم ہوتا جارہا ہے، مثلاً ہر انفرادی ممبر اپنی پارٹی کی طرف سے پیش کیے گئے بل پر عموماً توثیق ہی کرتا ہے، چناں چہ اس عمل سے اس کی عدم دلچسپی بڑھتی جاتی ہے۔ مقننہ کے اندر متعلقہ شعبے کے ماہرین مثلاً دفاعی، معاشی، تعلیمی، معاشرتی ماہرین کم ہوتے ہیں، اس لیے وہ اس شعبہ سے متعلق قانون سازی کی سکت ہی اپنے اندر نہیں پاتے۔ لہٰذا صرف پاکستان کی مثال ہی نہیں بلکہ یورپ اور امریکہ ہر جگہ اب پارلیمنٹ یا مقننہ کا کوئی رول نہیں رہ گیا۔ پارلیمنٹ تو محض کھیل تماشہ ہے کیوں کہ حکومتوں میں تبدیلیوں کے نتیجے میں پالیسیوں کے اندر کسی قسم کی تبدیلی نہیں آتی۔

(ض)عالمی ریٹنگ ایجنسیاں اور نگراں ایجنسیاں:

اب بین الاقوامی سطح پر ایسے ادارے وجود میں آچکے ہیں جو ملکی سطح پر اہم ترین امور پر مکمل دخیل ہو چکے ہیں، مثلاً آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، یونائیٹڈ نیشن کے مختلف ادارے… انہوں نے قومی اداروں سے مخصوص نوعیت کا تعلق استوار کر لیا ہے۔ آئی ایم ایف کے پاس صرف یہ سکت نہیں ہے کہ وہ ہماری معاشی پالیسی کے بارے میں فیصلہ کرے بلکہ وہ اپنے فیصلے کے نفاذ کا ایک خاص میکنزم بھی رکھتا ہے۔ اسی طرح اب پرائیوٹ سیکٹر کی ریٹنگ ایجنسیوں کا ظہور بھی ہورہا ہے۔ یہ ایجنسیاں سرمایہ دارانہ اصولوں کی بنیاد پر ملکوں کی کارکردگی کو مسلسل جانچتی رہتی ہیں اور ان کی جانچ کا اثر کسی ملک میں ہونے والی بیرونی اور اندرونی سرمای کاری پر پڑتا ہے۔

(ط)تعلیمی نظام:

سرمایہ دارانہ علمیت اس وقت غالب آتی ہے جب مذہبی علمیت پر سے لوگوں پر اعتبار اٹھ جاتا ہے۔ یہ عمل مغرب کے اندر اٹھارویں صدی میں پروان چڑھا۔ کلیسا جو کہ قدیم مذہبی علمیت کا علمبردار تھا’ اس کو دورِ تنویر کے مفکرین نے شکست دے دی۔ دورِ تنویر کی فکر کی بنیاد پر جن علوم کا ظہور ہوا اسے فزیکل سائنس اور سوشل سائنسز کہا جاتا ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام کی ٹیکنالوجی اور سرمایہ دارانہ عقلیت کو جواز فراہم کرنے والے علوم ہیں۔ ان کی بنیاد پر مغرب کا پورا نظام تعلیم تشکیل پایا۔ تیسری دنیا پر استعماری طاقتوں کے غلبے کے بعد وہاں بھی یہی تعلیمی نظام مستحکم ہوا۔ اب اسکول کی تعلیم سے لے کر اعلیٰ تعلیم کا مکمل نظام ہے جسے لوگوں نے برضاورغبت قبول کر لیا ہے اور مذہبی علوم کی بجائے اس تعلیمی نظام میں پڑھائے جانے والے علوم کو فوقیت اور ترجیح دی جاتی ہے۔ تعلیمی نظام کے ان اداروں کے ذریعے سرمایہ دارانہ عقلیت کو جواز عمومی اور قبولیت عامہ فراہم کی جارہی ہے۔

اب تک جن حاملینِ اقتدار اداروں یا process کا ذکر کیا گیا ہے، اس میں اہمیت کے لحاظ سے کوئی ترتیب قائم نہیں کی گئی بلکہ ان کا محض تعارف اور خاکہ پیش کر دیا گیا۔ چوں کہ لبرل ریاست دو مختلف دائر ہ کار میں تقسیم ہو جاتی ہے، یعنی جمہوری طرز حکومت اور Authoritarian طرزِ حکومت… جمہوری طرزِ حکومت میں ان اداروں کی تقدیم اور ترتیب اس سے مختلف ہوتی ہے جو آمریت میں ہوتی ہے۔ ذیل میں جمہوری طرزِ حکومت کی ممکنہ ترجیعی ترتیب کی فہرست دی جاتی ہے۔

١۔بینک اور فنانشل ادارے

٢۔فنانشل ریگولیشن

٣۔انٹلیکچوئل

٤۔استعماری ایجنٹ

٥۔میڈیا

٦۔عدالتیں

٧۔بین الاقوامی نگراں ایجنسیاں اور عالمی ریٹنگ ایجنسیاں

٨۔مقننہ

٩۔پولیس

١٠۔آرمڈ فورسز

١١۔ٹریڈ یونین

جب کہ آمریت یا Authoritarian اسٹیٹ میں ممکنہ ترجیعی ترتیب ذیل کے مطابق ہو سکتی ہے۔

(ا)پولیس

(٢)مقننہ

(٣)استعماری ایجنٹ

(٤)عدالتیں

(٥)میڈیا

(٦)انٹلیکچوئل

(٧)بینک اور فنانشل ادارے

(٨)فنانشل ریگولیشن

(٩)بین الاقوامی نگراں ایجنسیاں

(١٠)آرمڈ فورسز

اب تک جن personnel اور اداروں کا تذکرہ کیا گیا ہے، ان کے بارے میں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ یہ پرسنل اور ادارے حکومت نہیں کر رہے بلکہ ان کے ذریعے حکومت کی جارہی ہے۔ حکومت اور اقتدار اس چھوٹے سے گروپ کا ہے جو سرمایہ دارانہ عقلیت کو پورے طور پر قبول کیے ہوئے اور اس عقلیت کی یونیورسلائزیشن کو اپنی زندگی کا مقصد سمجھتا ہے۔ ایسے لوگ ان تمام پرسنل اور اداروں جن کا تذکرہ کیا گیا ہے ان کے اندر بھی پائے جاتے ہیں اور باہر بھی… اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ چھوٹا سا گروپ اپنی حکومت کیسے کرتا ہے؟ یہ اپنی حکومت دو طریقوں سے کرتا ہے:

١۔نمائندگی(Representation)

٢۔نفاذ احکام بذریعہ طاقت (mediation)

1۔پہلے طریقے میں یہ باور کرانے کی کوشش کرائی جاتی ہے ۔ اس پر کوئی نزاع موجود نہیں ہے کہ سرمائے کی بڑھوتری ہی قدر کے تعین کا واحد پیمانہ ہے۔ سب لوگ اس کے قائل ہیں اور یہی اصول ہم کو نمائندگی کا جواز فراہم کر نا ہے کیوں کہ ہم ہی اس مفادِ عامہ کو فروغ دینے والی قوت ہیں اور ہم ان تمام پرسینل اور اداروں کے ذریعہ وہی کررہے ہیں جس کو مقبولیت عامہ حاصل ہے۔ تینوں طرح کی سرمایہ دارانہ ریاستیں چاہے وہ(١)لبرل ہوں (٢)اشتراکی ہوں (٣)قوم پرست ہوں… اس جائز نمائندگی کا دعوی کرتی ہیں۔

2۔mediationکے طریقے میں سرمائے کی عمومی مفاد کی ایک خاص تعبیر غالب اشرافیہ بزور قوت نافذ کرتی ہے۔ چوں کہ سرمایہ داری ایک جاہلیت ہے اور اس جاہلیت سے کسی قدر مطلق خیر کا تصور نہیں کیا جا سکتا اس لیے لامحالہ بیک وقت سرمائے کے مفاد ِ عمومی کی مختلف جہتوں سے مختلف تعبیریں کی جاتی ہیں۔ لیکن چھوٹا سا گروپ جو کہ حکومت کر رہا ہے ، وہ mediationکے ذریعہ یہ باور کراتا ہے کہ سرمایہ دارانہ مفادات جو تصور رکھتا ہے، وہی درست ہے اور اس کے عمومی مفاد کی تعبیر کے تحت مختلف انفرادی سرمایہ دارانہ مفادات کی تعبیروں کی تحدید کی جائے اور سرمائے کی عمومی مفاد کے تحفظ کے لیے اس کے تصور کے مطابق معاشرے اور ریاست کی صورت گری کی جائے۔

یہ دونوں کام بیک وقت بھی کیے جارہے ہوتے ہیں یعنی غالب اشرافیہ کی تعبیر مفاد عمومی کو مسلط بھی کیا جارہا ہوتا ہے اور نمائندگی کے اداروں کے ذریعہ اس مخصوص تعبیر کے حق میں رائے بھی بنائی جا رہی ہوتی ہے۔ نمائندگی جن اداروں (process)کے ذریعہ حاصل کی جاتی ہے’ وہ مندرجہ ذیل ہے۔

١۔انٹرسٹ گروپس……… intrest groups

٢۔ ہیروز کی پرستش……… Heros

٣۔سیاسی پارٹیاں………political parties

٤۔ایڈمنسٹریشن اینڈ کورٹس… Administration and courts

(1)انٹرسٹ گروپس:

انٹرسٹ گروپس وہ ہوتے ہیں جو کسی سرمایہ دارانہ حق کی طلب کی بنیاد پر لوگوں کو جمع کرتے ہیں۔ مثلاً پانی، صفائی وسیوریج کے مسائل، تعلیم، عورتوں پر ظلم وغیرہ وغیرہ… ظاہر ہے کہ جب اس قسم کے سرمایہ دارانہ حقوق کی بنیادپر لوگوں کو مجتمع کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس میں جمع ہونے والوں کی اخلاقی اور مذہبی حالت کی بنیاد پر کوئی تخصیص روا نہیں رکھی جاتی، مثلاً وہ مسلمان ہے یا قادیانی یا کوئی اور ، اسی طرح نمازی وپرہیز گار ہے یا زانی’ شرابی اور بے نمازی… بس ان کا مخصوص سرمایہ دارانہ حق کی طلب پر متفق ہونا ضروری ہوتا ہے۔ گویا ان انٹرسٹ گروپس کے ذریعہ وہ سرمایہ دارانہ اشرافیہ جو حرص وحسد کو یونیورسلائز کرنا چاہتی ہے’ وہ نفوذ کرتی ہے۔ ظاہر ہے کہ سرمایہ دارانہ حقوق کو طلب کر کے سرمایہ دارانہ نظام کو ہی مستحکم کیا جاتا ہے۔ ان کے نتیجے میں غیر سرمایہ دارانہ نظام نہیں برپا کیاجا سکتا۔

(2)  ہیروز:

سائنٹیفک ہیروز ہوں یا میڈیا کے ہیروز ، ان کی امیج بلڈنگ کر کے بھی معاشرہ میں نفوذ کیا جاتا ہے، کیوں کہ اگر یہ لوگ مقبول عام ہوتے ہیں تو سرمایہ دارانہ عقلیت بھی مقبول عام ہوتی ہے۔

(3)سیاسی پارٹیاں:

بنیادی طورپر سیاسی پارٹیاں بھی سرمایہ داری سے خاص چیز ہیں۔ سرمایہ داری سے پہلے جو مختلف گروہ اور طبقات سیاسی عمل میں شامل ہوتے تھے۔ ان میں سیاسی پارٹیوں کی similarities تو تلاش کی جا سکتی ہیں، لیکن جن معنوںمیں اب سیاسی پارٹیاں خصوصاً اپوزیشن پارٹیاں وجود رکھتی ہیں، وہ سرمایہ دارانہ نظام سے پہلے نہیں تھیں۔ مختلف پارٹیاں ایک ہی سیاسی نظام پر بنیادی طورپر متفق ہوتی ہیں۔ اس نظام پر اصولی اتفاق کے بنیاد ان کے اختلافات جزوی اور فروعی ہوتے ہیں۔ یہ پارٹیاںلوگوں کو ایک اجتماعیت فراہم کرتی ہیں۔ لوگ ان کی لیڈر شپ کو ownکرتے ہیں اور اپنا ایک خاص تشخص اور اپنی ایک خاص شناخت ان کے ذریعہ قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس خاص تشخص اور شناخت کے لیے اپنی توانائیاں اور صلاحیتیں صرف کرتے ہیں۔ یہ پارٹیاں سرمایہ دارانہ اشرافیہ کے نفوذ کا اس لیے اہم ترین ذریعہ ہیں۔ ان کی بنیادیںشناخت اور تشخص اصولی طورپر سرمایہ دارانہ نظام کا استحکام ہی ہوتا ہے۔

(4)ایڈمنسٹریشن اور کورٹس:

قانون کا نفاذ اس طریقے سے کیا جاتا ہے کہ وہ قانون غیر جانبدار نظر آئے۔ فیصلے ایسے ہوں کہ وہ مفاد عامہ کو مدنظر رکھتے ہوئے غیر جانبدارانہ فیصلے کیے گئے ہیں تا کہ سرمایہ دارانہ نظام پر ایمان متزلزل نہ ہو اور کسی غیر سرمایہ دارانہ نظام کی جانب جھکاؤ نہ ہو۔

(5)سرمایہ دارانہ تحریکیں:

سرمایہ دارانہ تحریکیں مثلاً قوم پرست، اشتراکی یا انارکسٹ تحریکیں سرمایہ دارانہ اشرافیہ کے نفوذ کا بڑا اہم ذریعہ ثابت ہوئی ہیں، کیوں کہ ان میں بھی غیر سرکاری تنظیموں (NGOS)اور پروفیشنلز ایسوسی ایشنز اور انٹرسٹ گروپس کی طرح سرمایہ دارانہ حقوق کو ہی طلب کیا جاتا ہے۔ اب تحریکوں کے نتیجے میں سرمایہ دارانہ اشرافیہ ہی کی سبقت قائم کی جاتی ہے اور سرمایہ دارانہ عقلیت ہی عمومیت اختیار کرتی ہے۔

قوم پرست اور اشتراکی تحریکیں لبرل سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف بڑی کامیاب تحریکیں رہی ہیں، لیکن انہوں نے بھی لبرل سرمایہ داروں کی جگہ قوم پرست اور اشتراکی سرمایہ داروں کی حاکمیت قائم کی ہے، کوئی غیر سرمایہ دارانہ نظام نہیں قائم کیا۔

  ٢۔ Mediation:۔

جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے کہ Mediation کے ذریعہ سرمایہ کے عمومی مفاد کی ایک خاص تعبیر کو نافذ کیا جاتا ہے۔ Mediationمندرجہ ذیل اداروں اور طریقوں کے ذریعے کی جاتی ہے۔

(ا)فوج و پولیس۔

(٢)کورٹس اور عدلیہ کا نظام۔

(٣)شمولیت (سیاسی مخالفین کو ساتھ ملانا)۔

(٤)اخراج کر دینا(مخالفین کو بے دست وپا کر دینا)۔

(٥)سوشل ویلفیئر۔

(٦)صنعتی تعلقات۔

ایک خاص قسم کے ڈسپلن کو نافذ کرنے کے لیے سب سے اہم ادارے تو پولیس اور فوج ہے۔ اس کے علاوہ کورٹس اور عدلیہ کا نظام ہے۔ یہ اس لیے اہم ہیں کہ سرمایہ دارانہ عقلیت میں راسخ العقیدہ لوگ جو فیصلے کرتے ہیں، اس میں یہ کوشش کی جاتی ہے کہ وہ فیصلے مقبول عام بھی ہوں۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی بہت اہم ہے اور اس بات کو بی ممکن بنایا جاتا ہے ، اگر ان کے خلاف کوئی عمل ہو تو ان کوسزا بھی دی جا سکے، اس کے لیے متذکرہ ادارے بہت اہمیت کے حامل ہیں۔

شمولیت(CO.OPTION): 

اس سے مراد یہ ہے کہ ایسے گروہوں کو ساتھ ملا لیا جائے جو کسی طرح راہ میں رکاوٹ بن سکتے ہوں اور جو سرمایہ دارانہ نظام کے اپوزیشنل گروپ نظر آتے ہوں۔ سرمایہ دارانہ نظام میں” شمولیت ”کی ایک بہترین مثال ڈیمو کریسی کی ہے۔ سوشل ڈیموکریسی کے ذریعہ سوشلسٹ طرزِ فکر کے حاملین کو اس کا قائل کر لیا جاتا ہے کہ وہ سرمایہ دارانہ نظام میں محدود حقوق کی طلب پر اکتفا کر لیں۔ اس میں مزدور نے اپنی جدوجہد اس پر مرکوز کر دی کہ اس نظام یعنی سرمایہ دارانہ نظام میں میرا وہ حصہ مجھے نہیں دیا جارہا ‘ جس کا میںحق دار ہوں۔ اور مزدوروں کی جماعت کو حکومت میں شامل کر لیا جائے۔ اس طرح محدود حقوق فراہم کرکے اورمراعتیں فراہم کر کے بڑی جدوجہد سے ان کو دست کش کرا لیا جاتا ہے۔ co.optionکی اور بھی مثالیں ہو سکتی ہیںمثلاً اسلامی جماعتیں کو بھی اگر سرمایہ دارانہ حکومت میں شامل کر لیا جائے تو وہ سرمایہ دارانہ نظام حکومت کا ایک جواز فراہم کر سکتی ہیں اور اسلامی امارت و خلافت کی جدوجہد سے دست کش ہو سکتی ہیں اور اس بات پر راضی ہوسکتی ہیں کہ محدود مراعتیں حاصل کر لیں اور معمولی اور بے ضرر قسم کے علاقی اسلامی اقدامات پر مطمئن ہو جائیں۔ اس co.optionسے co.optہونے والا گروہ اپنی فطریconsituencyسے دور ہوتا چلا جاتا ہے اور consituencyمیں اپنی legitimacyکھو دیتا ہے۔

اخراج (Exclusion):

سرمایہ دارانہ نظام میں معاشی عمل اور سیاسی عمل اس طرح ترتیب دیا جاتا ہے کہ قوت ان ہاتھوں میں مرتکز ہوتی چلی جاتی ہے جو سرمایہ کی بڑھوتری کے اصول کو بنیادی عقیدہ بنا لیتے ہیں اور جو یہ عقیدہ نہیں رکھتے انہیں اس قابل نہیں رہنے دیا جاتا  کہ وہ مجموعی سیاسی یا معاشی عمل میں کوئی فیصل کردار ادا کرسکیں، مثلاً آزاد کشمیر پاکستانی ریاست میںExcludedایریا ہییا صوفیاء کرام کی معاشرتی اور ریاستی حیثیت کو اس نہج پر پہنچا دیا گیا ہے کہ وہ فیصل کردار ادا نہ کر سکیں۔

آخری چیز سوشل ویلفیئر ہے۔ یعنی رفاہ عامہ کے کاموں پر ہی ساری جدوجہد کو مرکوز کردیا جائے اور عوام کو سیاست علیا کے معاملات سے ہٹا کر مرکزی معاملہ یہی رہ جائے کہ رفاہ عامہ کے کتنے کام ہو رہے ہیں؟ اسی طرح سوشل ویلفیئر سسٹم اور نیشنل انشورنس کا پورا نظام ہے جن کے ذریعہ سرمائے کے مفاد عمومی کی ایک خاص تعبیر کے نفاذ کو ممکن بنایا جاتا ہے اور یہ طریقے ہیں جس سے سرمایہ دارانہ ڈسپلن قائم ہوتا ہے۔

بطور نمائندگی جن اداروں اور طریقہ کار کا تذکرہ ہوا اور بطور Mediationکے جن اداروں اور طریقہ کار کاتذکرہ ہوا ان کو جمہوری حکومتوں میں بھی بروئے کار لایا جا سکتا ہے اور استبدادی (ڈکٹیٹر شپ) حکومتوں میں بھی بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ ذیل میں وہ مختلف ترتیب بیان کی جاتی ہے جومیرے خیال میں مختلف طرز کی حکومتوں میں ممکن ہے۔ نمائندگی کے ادارے اگر جمہوری حکومت ہو تو ان کی مندرجہ ذیل ترتیب ہو سکتی ہے۔

(١) انٹرسٹ گروپس (٢)سیاسی جماعتیں (٣)ہیروز (٤)انتظامیہ اور کورٹس

نمائندگی کے اداروں کی ترتیب استبدادی حکومت میں مندرجہ ذیل طریقے سے ممکن ہے۔

(١)عوامی تحریکیں (٢)ہیروز (٣)انتظامیہ اور کورٹس (٤)انٹرسٹ گروپس

اسی طرح Mediationکے اداروں کی ترتیب جمہوری حکومت میں مندرجہ ذیل ہو سکتی ہے۔

(١)کورٹس اور عدلیہ کا نظام (٢)شمولیت (Mediation ) (٣)سوشل ویلفیئر (٤)اخراج (٥)پولیس اور فوج

 اس کے علاوہ Mediationکے اداروں کی ترتیب استبدادی حکومتوں میں یوں ممکن ہے۔

(١)کورٹس اور عدلیہ کا نظام (٢)پولیس اور فوج (٣)اخراج (٤)شمولیت (٥)سوشل ویلفیئر

اب تک سرمایہ دارانہ ریاست کا ایک عمومی خاکہ مرتب کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اگر ہم کسی جگہ اسلامی نظام کو غالب کرنا چاہتے ہیں تو وہاں سے سرمایہ دارانہ نظام کا کلیتاً انہدام ضروری ہے، کیوں کہ اسلامی نظام اورسرمایہ دارانہ نظام میں اختلاف جزوی نہیں بلکہ اصولی اور بنیادی ہے۔ اب یہ اسلامی نظام کی پیش قدمی اور سرمایہ دارانہ نظام کا کسی مخصوص ملک میں کس طرح ممکن ہو گا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے مخصوص ملک میں سرمایہ داری اور اس کی مخصوص نوعیت کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اگر ہم پاکستان میں ایسی اقدامی حکمت عملی ترتیب دیں اور پیش قدمی کرنا چاہیں تو دینی تحریکوں کو مندرجہ ذیل سوالوں کے جوابات حاصل کرنا ضروری ہے۔

(١)پاکستانی ریاست کی نوعیت کیا ہے؟

(٢)کیا پاکستان ایک قومی لبرل ریاست ہے یا باجگزار ریاست؟ یا دونوں کا مجموعہ ہے؟

(٣)پاکستان میں سرمایہ دارانہ عقلیت غالب کرنے کے لیے کون سے ادارے کلیدی اور کون سے معاونین کی حیثیت رکھتے ہیں؟

(٤)کیا ان کلیدی اور معاونین گروپس میں تعلق مفاہمت کا ہے یا مخاصمت کا؟ اور مخاصمت کی صورت میں اس کی نوعیت کیا ہے؟

(٥)طرزِ حکومت کی ترجیحات اور قوتِ نافذہ کے استعمال کے تناظر میںکیا پاکستان ایک لبرل جمہوری ریاست ہے یا آمرانہ؟

(٦)سرمایہ داری کے استحکام اور فروغ کے لیے پاکستان میںبحیثیت قومی لبرل ریاست یا باجگزار ریاست کیا بنیادی فیصلے ہو رہے ہیں؟

(٧)ان فیصلوں کے صدور اور نفاذ کے لیے کون سے ادارے، پروسیس(process )اور افراد (persnal) اہمیت کی حامل ہیں؟

(٨)کون سے افراد یا کون سی عہدے کی سطح پرکلیدی فیصلے کیے جاتے ہوںاور وہ کیا؟؟؟ اور اسٹرکچرز ہیں جس سے اس کی تنفیذ کو ممکن بنایا جاتا ہے؟

(٩)بیورو کریسی میںفیصلہ کرنے کی اہم ترین سطح کیا ہے اور ان فیصلوں کی تنفیذ کی اہم ترین سطح کیا ہے؟

(١٠)کون سے ادارے اور کون سے عوامل ہیں جن کو کمزور کر کے سرمایہ دارانہ تعقل کو غیر معقول کیا جا سکتا ہے؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *