ضابطہ

نام کتاب………سرمایہ دارانہ نظام ‘ ایک تنقیدی جائزہ

ادارتی بورڈ………نگرانِ اعلیٰ: ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری

معاونین:………جاوید اقبال تاب، سید محمد یونس قادری

                زاہد صدیق مغل، محمد امین اشعر

مرتب…………مولانا محمد احمد حافظ       

اشاعت (دوم)……مارچ ٢٠٠٩ء              

الاِ ھداء

یہ کتاب ہدیہ ہے مدارس دینیہ کے علماء وطلباء کرام کی خدمت میں جو علومِ نبوت کے وارث اور شریعت اسلامیہ کے امین و محافظ ہیں… جنہیں علمی سطح پر سرمایہ دارانہ فلسفہ و نظام کا چیلنج اسی طرح درپیش ہے جس طرح ہمارے اسلاف کودوسری تیسری صدی ہجری میں یونانی فلسفہ کا چیلنج درپیش تھا… اور جسے بالآخر حجة الاسلام امام غزالی رحمہ اللہ اور شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اور ان کے شاگردوں نے شکست ِ فاش دی۔

یہ کتاب ایک تحفہ ہے کارکنانِ تحریکات اسلامی کے لیے جو تحفظ و غلبۂ دین کے لیے اپنی زندگیوں کو وقف کر چکے ہیں…

یہ کتاب ایک عرض داشت ہے انقلابی فکر رکھنے والے مجاہدینِ اسلام کی خدمت میں جن کے دم قدم سے حق وباطل کے مابین معرکوں کے میدان گرم ہیں…

اس خواہش کے ساتھ کہ:

آج جو فکر ونظر کا معرکہ بپا ہے اور کفرو اسلام کی جنگ کا کٹھن مرحلہ کا آغاز ہو چکا ہے، اس میں عالمی سطح پر مسلط طاغوتی نظامِ سرمایہ داری کی گہری واقفیت حاصل کر کے اسے شکستِ فاش دے سکیں…

تا کہ اللہ کا کلمہ بلند ہو اور خلافتِ اسلامیہ کے قیام کی راہ ہموار ہو سکے۔

اللہ تعالیٰ ہمارے بھائیوں کی دینِ حق کی نصرت کے لیے کی گئی تمام مساعی کو قبولیت عطا فرمائیں(آمین)

پیش لفظ

نحمد ہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم وعلیٰ اٰلہ واتباعہ اجمعین۔ اعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ہُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہ بِالْہُدیٰ وَ دِےْنِ الْحَقِّ لِےُظْہِرَہ عَلَی الَّذِےْنِ کُلِّہ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْن  (الصف)

عالم اسلام مجموعی طور پر جس امتحان سے گذر رہا ہے اس سے کوئی بھی صاحب نظر غافل نہیں، سرمایہ دارانہ نظام و تہذیب نے مسلم معاشروں پر ہمہ جہت یلغار کر رکھی ہے۔ ہماری معاشرت، اقدار، نظریات اور افکار اس یلغار کی لپیٹ میں ہیں۔ فی الوقت مغربی تہذیب اور استعمار کی عسکری یلغار کے علاوہ ایک بڑا چیلنج جو عالم اسلام کو درپیش ہے وہ علم و فکر کا چیلنج ہے، مغرب کی نام نہاد علمیت ہمارے اہل دانش کو مرعوب کئے دے رہی ہے۔ مغرب کے پروپیگنڈے کے زیر اثر انہی افکار کو حق اور سچ جانا جارہا ہے جو امریکا و یورپ سے درآمد شدہ ہیں۔ اس قسم کی صورت حال سے ہمیں ماضی میں بھی سابقہ رہا ہے لیکن ہمارے بیدار مغز اسلاف، اور گہری بصیرت رکھنے والے علماء امت نے لا دین افکار کا قرآن و حدیث کی روشنی میں بھرپور رد کرکے الہامی علوم اور دینی معاشرت کا تحفظ کیا ہے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ، حجة الاسلام امام محمد الغزالی رحمہما اللہ انہی علماء کے سرخیل تھے۔خصوصیت کے ساتھ امام غزالی رحمہ اللہ کا نام اس حوالے سے زیادہ معتبر ہے کہ آپ نے اوّلاً مقاصد الفلاسفہ اور پھر تہافة الفلاسفہ لکھ کر یونانی فلسفہ پر وہ کاری ضرب لگائی کہ ایک عرصے تک یونانی فلسفہ اس زور دار حملے سے جانبر نہ ہوسکا۔

حالیہ دور اس لحاظ سے مختلف ہے کہ پہلے اگریونانی فلسفہ اسلامی معاشرے پر حملہ آور تھا تو اب سرمایہ دارانہ افکار و علوم (جو درحقیقت جاہلیت خالصہ ہیں) نئے سے نئے پیرائے میں اسلامی معاشروں میں داخل ہو کر ہمارے عقائد و نظریات اور معاشرت کو منہدم کر رہے ہیں۔ نسل نو اس فکری یلغار کی وجہ سے اپنے دین کے بارے میں تشکیک کا شکار ہو رہی ہے اور وہ برسر عام دینی اقدار کو فرسودہ و ناقابل عمل قرار دے رہی ہے۔ گو کہ عالمی سطح پر مجاہدین اسلام مغرب کی عسکری یلغار کو مکمل پامردی کے ساتھ چیلنج کر رہے ہیں مگر مغرب کا علمی تفوق بدستور ہماری تعلیم یافتہ نسلوں کو اپنی فسوں کاری میں نگل رہا ہے۔ سرمایہ دارانہ فلسفہ و نظام کے مفاہیم، تعبیریں، علامتیں، آدرشیں، عنوانات اور اصطلاحات ساری دنیا پر چھا گئی ہیں، فکر و تعبیر اور علم و عمل کا ہر پہلو مغربیت میں الجھ کر رہ گیا ہے۔ آج کے دور میں انسانی حقوق، آزادی رائے، آزادی اظہار، آزادی نسواں، گلوبلائزیشن، لبرل ازم، سیکولرازم اور ماڈرن ازم جیسے مغربی افکار ہی مقدس و معتبر ٹھہرائے جا رہے ہیں جو درحقیقت انکار خدا و رسول، انکار وحی اور انسان کی الوہیت پر مبنی ہیں۔ انسانی حقوق، آزادی رائے اور آزادی اظہار کی آڑ میں انسان کو ہی معبود و الٰہ بنادیا گیا ہے۔ اس وقت اہل مغرب کا ایک ہی نعرہ ہے لا الہٰ الا الانسان۔ دوسری طرف استعماری طاقتوں نے انسان کو سرمایہ داری کا سہارا لے کر عبد دینار بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔مادہ پرستی، عیش کوشی، زیادہ سے زیادہ دنیا جمع کرنا اور لذتوں کو حاصل کرنااصل مرکز فکر ونظر بنا دیا گیا ہے۔ اس صورت حال میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان، آخرت پر یقین، جنت دوزخ، قیامت، قبرو حشر، عبادات، ان تمام سے اولاً تو ایمان ختم ہو جاتا ہے یا پھر غیر معمولی انداز میں کمزور پڑ جاتا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ سرمایہ دارانہ علوم کا مطالعہ کرکے قرآن و حدیث اور فقہ و کلام کی روشنی میں انکا محاکمہ کیا جائے۔ اس وقت مغربی تہذیب کے محاکمے کا کام مختلف حلقوں میں جاری ہے۔ مگر ہم بجا طور پر محسوس کرتے ہیں کہ اس قسم کے خالص علمی کام کا صحیح حق علمائِ کرام ہی ادا کرسکتے ہیں کہ وہ مغربی علوم کی اصل حقیقت وماہےّت کو جانیں اور ان کا اسلامی علوم کے تناظر میں جائزہ لیں، ان علوم کو قرآن و حدیث اور فقہ و کلام کے اصولوں پر پرکھیں تاکہ حق اور باطل میں امتیاز ہو جائے اور ہر سطح پر غلبہ دین ممکن ہوسکے۔ ہمارے پیش نظر ہے کہ مدارس دینیہ کے اساتذہ کرام، طلبہ، دینی تحریکات کے کارکنان کے لئے ایک ڈپلومہ کورس کا نصاب تیار کیا جائے جس میں درج ذیل مباحث کا احاطہ کیا گیا ہو:

٭سرمایہ داری کی تاریخی حیثیت کیا ہے؟

٭ سرمایہ داری کی بنیادی اقدار کیا ہیں؟

٭ مسلم معاشروں میں سرمایہ داری مغربی تہذیب کو کس طرح پروان چڑھا رہی

                 ہے؟

                ٭ سرمایہ دارانہ معاشرہ اور ریاست کی ماہیت،

٭ سرمایہ دارانہ نظام کی اسلام کاری کن کن طریقوں سے ہو رہی ہے؟

٭ عالمی سرمایہ دارانہ تنظیم اور امریکا کا کردار،

٭ جمہوریت و دستوریت کا جائزہ،

٭ وہ قابل عمل علمی طریقہ کیا ہے جسے اختیار کرکے سرمایہ داری اور مغربی تہذیب

 کو شکست دی جاسکتی ہے؟

الحمدﷲ! اس حوالے سے محترم جناب ڈاکٹر جاویداکبرانصاری صاحب زیدمجدہم کی زیرنگرانی دو مرتبہ ڈپلومہ کورس کا انعقاد بھی ہوچکا ہے۔ دونوں مرتبہ مدارسِ عربیہ کے علماء وفضلا اور دینی جماعتوں کے کارکنان نے بھرپور انداز میں شرکت کی۔

زیرنظرکتاب بھی اسی سلسلے کی اولین کوشش ہے جس کا نقشِ ثانی آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ نقشِ ثانی کو مزید بہتر انداز میں اور نئے اضافوں کے ساتھ دیا جارہا ہے۔ کتاب کے دو حصے ہیں، پہلے حصے میں عمومی مضامین ہیں جن میں یورپ میں مذہبی معاشروں کے انہدام اور سرمایہ داری کی آمد، سرمایہ دارانہ اقدار، اور سرمایہ دارانہ معیشت پر گفتگو کی گئی ہے، جبکہ دوسرا حصہ بطور خصوصی مطالعہ پیش کیا گیا ہے، اس حصے میں جناب ڈاکٹر جاوید اکبرانصاری زیدمجدہم کا خصوصی مقالہ بعنوان ”عالم اسلام اور مغرب کی کشمکش ایک نئے تناظر میں” شامل ہے، اس مقالے میں ڈاکٹر صاحب نے سرمایہ داری پر نہایت بصیرت افروز نقد کیا ہے اور آخر میں اس خبیث نظام کے انہدام کی حکمت عملی کی طرف اشارات بھی دئیے ہیں جو نہایت قابل توجہ ہیں۔ دوسرا مقالہ جناب علی محمد رضوی صاحب کا ہے جو ”فلسفۂ یونان کا ابطال: امام غزالی کا طریقہ کار” کے عنوان سے شامل ہے۔ دراصل یہ مقالہ انگریزی میں تھا جسے جناب ریحان احمد صاحب نے انگریزی سے اردو قالب میں ڈھالا ہے۔ یہ مقالہ بایں طور خصوصی توجہ کا مستحق ہے کہ ہم اس کے ذریعے جان سکتے ہیں کہ حجة الاسلام حضرت امام غزالی رحمہ اللہ نے یونانی فلسفے پر کاری ضرب لگانے کے لیے کیا طریق کار اختیار کیا اور اس کی روشنی میں ہم کیونکر نہ صرف سرمایہ داری کو شکست فاش دے سکتے ہیں بلکہ علومِ اسلامیہ کے غلبہ ونفاذ کی حکمت عملی بھی مرتب کرسکتے ہیں۔

ہمیں یہ بات کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ حاضر وموجود نظام جوکہ سرمایہ دارانہ نظام ہے کا گہری دیتی بصیرت کے ساتھ تجزیہ ومحاکمہ کرنے کی ضرورت اس سے قبل محسوس نہیں کی گئی۔ اگر کہیں ایسا ہوا بھی تو نہایت سرسری انداز میں۔ مغربی تہذیب کے بعض ظاہری آثار پر گرفت تو کی گئی مگر مغربی تہذیب کس طرح وجود میں آئی، اس تہذیب کو کن ذرائع اور کس علمیت نے پروان چڑھایا اس پر کوئی گفتگو نہیں کی گئی۔ آج الحمدﷲ ہمارے لیے یہ بات آسان ہوگئی ہے کہ ہم مغربی تہذیب جمہوریت ودستوریت اور سرمایہ دارانہ نظام کا نہ صرف محاکمہ کرسکیں بلکہ ان کا باہمی ربط وتعلق واضح کرکے اس پر کلی حیثیت سے شرعی حکم بھی لگا سکیں۔

اس کتاب میں شامل لوازمہ اسی خواہش کے ساتھ پیش کیاجارہا ہے کہ ہم سرمایہ داری کو کماحقہ جان لیں اور پھر شہادت حق کا فریضہ انجام دینے کے لیے کمربستہ ہوجائیں۔

٭٭٭

آخر میں اپنے مہربان بھائیوں کا شکریہ بھی لازم جن کی رائے مشورہ اور معاونت قدم قدم پر شامل حال رہی ہے، جناب جاویداقبال تاب صاحب، جناب سیدمحمدیونس قادری صاحب، جناب ادریس اسماعیل صاحب اور جناب امین اشعر صاحب خصوصی شکریے کے مستحق ہیں۔ خصوصاً جناب جاوید اقبال تاب صاحب کہ انہوںنے نہ صرف کتاب کی نئی ترتیب وتدوین میں معاونت فرمائی بلکہ اس کا پروف پڑھ کر بہت بڑا بوجھ ہلکا کیا، اللہ تعالیٰ ان تمام بھائیوں کو جزائے خیر عطا فرمائے۔

ہمیں نہیں معلوم کہ ہم اپنی پیشکش میں کس حد تک کامیاب ہوسکے ہیں، یقینا اس میں بہت سی کوتاہیاں بھی رہ گئی ہوںگی اس سلسلے میں اہل علم کی آراء کا انتظار رہے گا۔

محمد احمد حافظ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مقدمہ

تحریک اسلامی کے کارکنوں کے لیے

سرمایہ دارانہ نظام سے واقفیت کیوں ضروری ہے؟

موجودہ دور کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ اسلامی نظام اقتدار کلیتاً معطل ہو گیا ہے، جو نظامِ زندگی غالب ہے وہ اسلامی نہیں… اس نظامِ زندگی میں جو فیصلے کیے جاتے ہیں وہ غیر اسلامی علمیت (سائنس اور سوشل سائنس)پر مبنی ہوتے ہیں’ اسلامی علمیت (فقہ، تفسیر، حدیث، کلام اور تصوف)پر مبنی نہیں ہوتے۔ آج سائنس اورسوشل سائنس معتبر علمیت ہے اور اقتدار معاشرہ اور ریاست کی ہر سطح پر انہی خواص کے پاس ہے جو سائنس، سوشل سائنس اور فلسفہ پر اعتقاد رکھتے ہیں اور سائنس سوشل سائنس کی تعلیمات کے مطابق کاروبارِ زندگی چلاتے ہیں۔

سائنس اور سوشل سائنس کو علمی غلبہ سترھویں اور اٹھارویں صدی میں یورپ میں حاصل ہوا۔ سائنس اور سوشل سائنس نے عیسائی علمیت کو شکست دی۔ اس جدید علمیت کی بنیاد کلمہ لا الہٰ الا لا نسان ! ہے۔ سائنسی علمیت کے مطابق زندگی کا مقصد ارادہ ٔ خداوندی کی بجائے ارادۂ انسانی کو کائنات پر غالب کرنا ہے، یعنی انسان خود رب العالمین ، خالق اور قائم بالذات ہے، وہ کسی ماوراء العقل ذات کا محتاج اور عبد نہیں ہے۔ وہ آزاد اور خود مختار ہے… یہ سائنس اور سوشل سائنسز کی کلیدی ایمانیات ہیں۔

سرمایہ دارانہ نظامِ زندی انہی ایمانیات کو عملی جامہ پہنانے کی ایک سعی ہے۔ درحقیقت سرمایہ دارانہ نظامِ شخصیت، معاشرت اور ریاست کی وہ تنظیم ہے جو انسانی آزادی کا حصول ممکن بناتی ہے… کس سے آزادی؟؟

اللہ رب العالمین سے،

انبیاء ورسل سے،

آسمانی ہدایت اور شریعت سے،

ہم کہہ سکتے ہیں کہ سرمایہ داری تمام ابراہیمی مذاہب سے جامع ترین بغاوت کا نام ہے۔

تحریکات اسلامی کے وہ تمام کارکنان اور مجاہدین اسلام جو تحفظ دین اور غلبۂ دین کا فریضہ انجام دے رہے ہیں ان کا کلمہ ہے لا الہٰ الا اللہ… وہ لاالہٰ الا لانسان کے فاسد اور جاہلانہ کلمے پر تعمیر شدہ نظامِ زندگی کو بیخ وبن سے اکھاڑ پھینکنے کا عزم رکھتے ہیں۔ وہ سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کے ساتھ کسی قسم کی مصالحت یا باہمی تعلق کے سرے سے قائل نہیں۔

تمام تحریکاتِ اسلامی خواہ وہ مدارس دینیہ ہوں، خواہ دعوتی ہوں، خواہ انقلابی اور جہادی ہوں، تجدید و احیائے دین کی جدوجہد میں شامل ہیں۔ اسلامی تحریکات اور ماڈرنسٹ (Modernist)تحریکات میں یہی کلیدی فرق ہے۔ ماڈرنسٹ کسی نہ کسی درجے میں لا الہٰ الا لانسان کا قائل ہے، وہ سرمایہ دارانہ اساسی تصورات ”آزادی”، ”مساوات” اور ”ترقی” کی اسلامی تعبیرات کرتا ہے۔ وہ فقہ، کلام، تصوف اور اصول تفسیر کی بنیاد ریاستی اور معاشرتی صف بندی کا قائل نہیں، وہ سائنس اور سوشل سائنسز کو معتبر علمیت گردانتا ہے۔ وہ سرمایہ دارانہ تنظیم معاشرت اور سیاست کو معقول گردانتا ہے۔ وہ اسلامی تاریخ بالخصوص تعلیمات اسلامی اور سلطنتِ اسلامی سے برأت کا اعلان کرتا ہے، وہ کفارِ مغرب کی فکری، معاشرتی اور سیاسی روایات کی بنیاد پر اسلامی دنیا کی تشکیلِ نَو کا پیامبر ہے، وہ سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی میں اسلامیات کوسمونے کی کوشش کر رہا ہے، ہر ماڈرنسٹ دانستہ یا نا دانستہ تجدید و احیائے دین کی تحریکات کا کھلا دشمن ہے۔

تحریکاتِ اسلامی سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کے انہدام کی اقدامی جدوجہد کر رہی ہیں۔ ضروری ہے کہ تحریکات اسلامی کا ہر رکن اس فاسد وباطل اور خبیثِ نظامِ زندگی کی علمیت (جو کہ جاہلیتِ خالصہ ہے) اور علمیت سے واقف ہو۔ اس کتاب میں ہم نے سرمایہ دارانہ نظام کے تاریخی ارتقاء کا خاکہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ یہ کوشش مدارسِ عربیہ کے طلبہ و اساتذہ اور تمام تحریکات اسلامی کے کارکنوں کے مفیدثابت ہو۔        ڈاکٹر جاویداکبرانصاری

باب اوّل

 سرمایہ داری کا تاریخی پس منظر

عیسائیت اور جدید یورپ کی ابتداء

محمد کاشف شیخ

بنی اسرائیل کی قوم کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کی نعمت سے سرفراز کیا اور اس قوم کو دنیا کی امانت کا مقدس فریضہ سونپا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے غیراسلامی افکار وخیالات کو اپنے مذہب میں جگہ دینی شروع کی اور چھوٹی چھوٹی بے اصل ظاہری باتوں میں پڑ کر بڑے بڑے اعلیٰ روحانی مقاصد سے غافل ہوگئے، روحانی ترقی سے زیادہ مذہبی رسوم وشعائر کو اہمیت حاصل ہوئی اور اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہوئے لیکن قانون کا مرتبہ افضل قرار دیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ظہور کے وقت سیاسی لحاظ سے بھی یہودی قوم منتشر ہوچکی تھی۔ بحیرۂ روم کے آس پاس کے ممالک میں ان کی مختلف نوآبادیاں قائم تھیں اور مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک میں بھی کافی تعداد میں موجود تھے بابل کی جلا وطنی کے اختتام پر تھوڑے بہت یہودی فلسطین میں دوبارہ آبسے تھے لیکن جلاوطن افراد کی اکثریت بابل میں مستقل قیام پذیر تھی۔ یروشلم روسی حکومت کا ایک صوبہ تھا جہاں رومیوں کی طرف سے ایک حاکم مقرر تھا۔ مادی اسباب کے لحاظ سے اس امر کا کوئی امکان نہ تھا کہ یہودی پھر کبھی آزادی کی فضا میں سانس لے سکیں گے یا غیرملکی فرماں رواؤں کے ظلم وستم سے نجات حاصل کرسکیں گے۔

ان تمام حالات اور زبوں حالی کا یہودیوں کو شدت سے احساس تھا اس لیے ان کی امیدیں مستقبل پر مرتکز تھیں اور وہ خداوندتعالیٰ کی راست مداخلت کے منتظر رہتے تھے ان کا عقیدہ تھا کہ وہ وقت قریب ہے جب ظالمانہ بیرونی سلطنت کا خاتمہ ہوجائے گا اور خداوند تعالیٰ بنی اسرائیل کو پھر ایک مرتبہ آزادی اور بالادستی کی نعمت سے سرفراز کرے گا۔ اس کے نتیجے میں بنی اسرائیل کو ایک ایسی عالمگیر قوت اور سلطنت حاصل ہوگی جو ہمیشہ قائم رہے گی اور یہ وہی سلطنت ہوگی جس کا وعدہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور دوسرے پیغمبروں سے کیا گیا تھا۔

یہ وہ حالات تھے جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام یروشلم کے قریب ایک مقام بیت اللحم میں پیدا ہوئے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعوت اور اصلاح سے قبل حضرت یحییٰ علیہ السلام نے روحانی پیغام کی اشاعت شروع کی۔ انہوںنے لوگوں کو خبردار کیا کہ مسیح (نجات دہندہ) کی آمد قریب ہے اسی دوران حضرت عیسیٰ علیہ السلام تشریف لائے۔ ان کی تعلیمات بھی وہی تھیں جو کہ بنی اسرائیل کی طرف وقتاً فوقتاً مختلف پیغمبر لائے تھے وہ کوئی نیا دین یا کوئی نئی شریعت نہیں لائے تھے ۔بلکہ بنی اسرائیل کے غیراسلامی افکار وخیالات کو صاف کرکے ان کی صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کی اور ان کی تمام سرگرمیوں کا محور رضائے الٰہی کو بنانے کی کوشش کی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یہودیوں کے بہت سے بگڑے ہوئے اعمال اور اخلاق پر اعتراض کیے اور وہ غیرضروری پابندیاں جو انہوںنے خود اپنے اوپر لگا رکھی تھیں انہیں ان سے آزاد کرانے کی جدوجہد کی۔ لیکن یہ تعلیمات ایسی نہ تھیں جن سے مذہبی طبقات اور سیاسی حکمرانوں کو اطمینان قلب حاصل ہوتا بلکہ انہوںنے ان تعلیمات کو اپنے لیے خطرہ تصور کرتے ہوئے اپنے تئیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نبوت کے ڈیڑھ یا تین سال بعد صلیب دے دی۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی سحرانگیز شخصیت اور لوگوں کے بعض روحانی تجربات نے ان کے دنیا سے اٹھ جانے کے بعد ان کے پیرووں کے اندر اس یقین کو پیدا کیا کہ عیسیٰ علیہ السلام مرنے کے بعد پھر زندہ ہوںگے اور آسمانی بادشاہت کا آغاز کریں گے حالانکہ یہ آسمانی بادشاہت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کی نشان دہی تھی جس کی خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے خبر دی تھی۔ چنانچہ اس غلط فہمی کا شکار ہونے کے بعد یہ لوگ عیسیٰ علیہ السلام کے ظہور ثانی کا انتظار کرنے لگے۔ انہیں جن لوگوں سے بھی بات چیت کا موقع ملتا انہیں آنے والے دور کی برکات سے آگاہ کرنے میں پس وپیش نہ کرتے۔ چونکہ یہ دعوت اپنے وقت کی جامع ترین دعوت تھی اس لیے اسے عام مقبولیت حاصل ہوئی۔ ان مبلغوں کی دعوت کا اثر یہ ہوا کہ مقامی یہودیوں کے ساتھ ساتھ یونانی یہودی بھی اس دعوت سے متاثر ہونے لگے جن کی زبان یونانی تھی اور جن پر یونانی تہذیب اور خیالات کا اثر غالب تھا ان یونانی پیرو ان مسیح نے فلسطین سے باہر بھی اپنے خیالات کی تبلیغ شروع کی اور ایک علیحدہ مذہب کی حیثیت سے عیسائیت کی بنیاد ڈالی۔

عیسائیت کے پھیلاؤ کی دوسری وجہ پال (Paul) تھا اس نے روم میں عیسائیت کی باقاعدہ منظم تبلیغ کی جس کی وجہ سے وہاں عیسائیت کی مقبولیت توقع سے زیادہ ہوئی یہ عیسائی گروہ یہودیوں کی مذہبی اور فقہی پابندیوں کا قائل نہ تھا اور ان کو صرف عبرانی النسل یہودیوں کے قومی شعائر قرار دیتا تھا چنانچہ انہوںنے یہودیت کے رسم ورواج اور مذہبی قوانین کی پابندیوں کو تمام انسانوں کے لیے لازمی قرار نہیں دیا۔ بلکہ مقامی قوانین اور رسم ورواج کو قانونی جواز فراہم کرکے مذہب کو قومی شکل میں تبدیل کردیا۔

قدیم یونانی تاریخ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کو طبیعات، ریاضیات اور علوم وفلسفہ کا یہ وسیع ذخیرہ فراہم کرنے والا ملک بیشتر حصے میں بت پرست اور ستارہ پرست واقع ہو اور صدہا توہمات اور خرافات میں گھرا ہوا تھا اور ہر طرف دیوی دیوتاؤں اور ہیاکل کا جال بچھا ہوا تھا۔

ان حالات میں جب پال کے نظریات کا ٹکراؤ یونانی فکر وخیالات سے ہواتو عیسائیت کے نام پر دین وشرک کا ایک ملغوبہ تیار ہوا۔

امام ابن تیمیہ لکھتے ہیں:

”عیسائیوںنے دو ادیان کو ملا کر ایک دین بنایا۔ ایک انبیاء موحدین کا دین اور ایک مشرکین کا دین۔ ان کے دین میں ایک حصہ تو انبیاء کی تعلیمات کا ہے اور ایک حصہ ان اقوال وافعال کا ہے جو انہوںنے مشرکوں کے دین سے لے کر شامل کیے ہیں اس طرح انہوںنے اقانیم (Trinity) کے الفاظ ایجاد کیے جن کا انبیاء کے کلام میں کوئی ذکر نہیں ملتا اس طرح انہوںنے مجسم اور سایہ دار بتوں کی جگہ وہ بت ایجاد کیے جن کا سایہ نہیں اس طرح آفتاب اور چاند کی طرف نماز پڑھنے، موسم بہار میں روزہ رکھنے کو دین میں داخل کیا تاکہ دین شرعی اور امر طبعی دونوں کو وہ جمع کرلیں۔”

ابتداء میں مسیح کے پیروں کا عقیدہ مسیح کا ظہور ثانی اور آسمانی فرمانروائی تھا اور وہ عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا درجہ نہیں دیتے تھے لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا چلا گیا ان کی امیدیں مایوسیوں میں بدلتی گئیں اور عیسائیوں میں یہ عقیدہ پیدا ہوا کہ عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی موت سے انسانیت کا کفارہ ادا کرکے اس کی روحانی نجات کا راستہ ہموار کردیا اور ان کو ماننے کے ساتھ ہی انسان گناہوں کی آلائش سے پاک ہوکر آسمانی بادشاہت کے دائرے میں داخل ہوجاتا ہے۔

بنی اسرائیل کے ہاں خدا کے لیے باپ کا لفظ بطور استعارہ استعمال ہوتاتھا اور اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ انسان اپنے آپ کو خدا سے قریب سمجھے اور مشکل میں اس سے نصرت کی توقع رکھے لیکن مسیح کی غیرمعمولی شخصیت کے زیراثر ایک نجات دہندہ اور مسیح کے ظہور ثانی، مسیح کے ساتھ یہودیوں نے جو ظالمانہ برتاؤ کیا اس کا ردعمل اور سب سے بڑھ کر یونانی مذہب کے ان تصورات نے کہ دیوتاانسانی جسم میں حلول کرسکتا ہے نے آسمانی باپ کے تصور میں تبدیلی پیدا کی اور یہ عقیدہ پیدا ہوا کہ مسیح واقعتا اللہ کے بیٹے ہیں۔ چونکہ اللہ نے اپنی مقدس روح کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جسم میں داخل کرکے نجات انسانی کے لیے دنیا میں بھیجا۔ اس لیے یہیں سے نظریہ تثلیث نے جنم لیا یعنی باپ، بیٹا اور روح قدس جو تینوں خدائی میں برابر کے شریک ہیں۔ یہ روح قدس کا فلسفہ بھی یونانی تصور (LOGOS) سے عیسائیت میں داخل ہوا۔

عیسائی اعتقادات کے مطابق چونکہ آدم نے گناہ کیا تھا اور اس کی بدولت جنت بدر ہوئے تھے لہٰذا ہر انسان کو آدم علیہ السلام کا گناہ وراثت میں ملتا ہے اور اس کی روح خبیث ہوتی ہے۔ اس لیے اللہ نے اپنے بیٹے عیسیٰ علیہ السلام کو جو خود خدا بھی ہے دنیا میں بھیجا اور انہوںنے صلیب پر جان دے کر سارے انسانوں کے گناہوں کا کفارہ ادا کردیا۔ چنانچہ جو کوئی عیسائیت قبول کرے گا نجات پائے گا۔

امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:

”اس مذہبی سمجھوتے میں عیسائیوں نے حضرت مسیح اور انبیاء کی پیروی نہیں کی بلکہ ایک نیا عقائد نامہ تیار کیا جس کا انبیاء کے کلام میں کوئی سراغ نہیں ملتا نیز حضرت مسیح اور دوسرے انبیاء کے کلام میں کہیں اللہ کے اقانیم کا ذکر نہیں ملتا اور نہ کہیں صفات ثلاثہ کا ثبوت ہے اور نہ کہیں صفت الٰہی کو ابن اللہ یارب کے الفاظ سے تعبیر کیا ہے اور نہ اللہ کی حیات کو روح کہا گیا ہے اور نہ یہ کہا گیا ہے کہ خدا کا ایک فرزند ہے۔

وہ اپنے باپ کے جوہر سے ہے اور وہ بھی اسی طرح خالق ہے جیسے کہ اللہ خالق ہے۔ اسی طرح سے اور وہ دوسرے اقوام جو مختلف اقسام کفرپر مشتمل ہیں کسی پیغمبر سے منقول نہیں۔” اس طرح جو تعلیمات حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ہدایت ونجات کے لیے لائے تھے وہ ان یونانی اور رومی افکار وخیالات اور پاپاؤں کے مفادات کے درمیان گم ہوگئیں۔

اس طرح عیسائیت کے دو نظریات نے یورپ میں لادینی تہذیب کے ارتقاء میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ انسانیت میں خدا کی ذات اور صفات کے حلول کا عقیدہ آگے چل کر انسان پر ستی (HUMANISM) کی بنیاد بنا ہیونزم اس بات کا دعویٰ کرتا ہے کہ انسان خدا کی صفات اپنا کر خدائی اختیارات (Powers) حاصل کرسکتا ہے۔ خدا کوئی ماورائے کائنات ہستی نہیں بلکہ محض چند ایسی صفات کا مجموعہ ہے جو انسان اور کائنات کی دیگر اجسام میںحلول کرسکتا ہے۔ اگر یہ تسلیم کرلیا جائے کہ انسان خدا بن سکتا ہے تو پھر انسان کا یہ اختیار کہ خیر وشر کے معیارات اور زندگی گزارنے کے طریقے خود مروج کرے تسلیم کرنا ناگزیر ہوجاتا ہے۔

یورپی عیسائیوں نے ہیونزم کے اس دعوے کو پہلے جزوی طور پر اور بالآخر کلی طور پر قبول کرلیا Saint Augestine نے خدائی بادشاہت (City of God) کی ناگزیر ہم آہنگی (neccasary coexistance) پر زور دے کر سیکولر ازم کی راہ ہموار کی خدا کی بادشاہت فطری قوانین (Natural Laws) کے ماتحت ہے اور نیت اور عقیدہ کی دنیا پر نافذ ہے انسانی بادشاہت کا تعلق اعمال اور ظواہر سے پہلے ہے اور یہاں انسانی قانونی (Human law) دراصل رومن قانون کی حکمرانی ہے چونکہ ایک مضبوط سلطنت ایک مضبوط کلیسائی نظام کے لیے ناگزیر ہے لہٰذا خدائی بادشاہت اور انسانی بادشاہت لازم وملزوم ہیں اور شہنشاہ (Holy Roman Empirer) کی سیکیولر حکمرانی (Soverignity) کو پوپ کی تصدیق حاصل ہونا چاہیے اس فلسفے کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ خدائی بادشاہت کا دائرہ محدود اور انسانی بادشاہت کا دائرہ کار وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا حتیٰ کہ (Augestine) تقریباً ایک ہزار سال بعد Saint Aequnas نے خدائی بادشاہت کے دائرہ کار کی تجدید کو لادینی عقلیت (Rationality bounded by desire) کی بالادستی کو تسلیم کرکے جواز فراہم کیا۔

سولہویں صدی میں مارٹن لوتھر کی تحریک اصلاح سے پہلے پوپ کی مرکزی حیثیت تھی جو عیسائی دنیا کا روحانی پیشوا تھا اور پوری رومن امپائر اس کے ماتحت تھی بائبل کی تشریح کا حق بھی صرف چرچ کو حاصل تھا اور آخرت سنوارنے کا اگر کوئی سامان کرسکتا تھا تو وہ بھی چرچ ہی تھا۔

دوسرے نمبر پر رومن فرمانروا تھا جو حکومتی معاملات کی دیکھ بھال کرتا تھا اور تیسرے نمبر پر وہ سینکڑوں چھوٹے چھوٹے نواب تھے جو پوری رومن سلطنت میں پھیلے ہوئے تھے یہ وہ پس منظر تھا جس میں لوتھر نے تحریک اصلاح شروع کی۔ یہ تحریک مکمل طور پر مذہبی جذبے سے سرشار ہوکر شروع کی گئی تھی اور اس وقت کسی کے خواب وخیال میں بھی نہ ہوگا کہ یہ تحریک آگے چل کر لبرل ازم کے ارتقاء کا سب سے بڑا سہارا ثابت ہوگی۔ ابتداء میں یہ تحریک ایک سیاسی جدوجہد تھی لیکن اس کے نتیجے میں صدیوں کے تعمیر شدہ سیاسی معاشی اور معاشرتی افکار وخیالات تبدیل ہوکر رہ گئے۔

نیشنلزم:

نیشنلزم کے لیے بنیادی جواز تحریک اصلاح نے فراہم کیا چونکہ یہ تحریک بنیادی طور پر پوپ اور چرچ کے ادارے کے خلاف برپا کی گئی تھی چنانچہ اس کے نتیجے میں ہر فرد کو بائبل کی تشریح کرنے کا اختیار حاصل ہوگیا اس کے علاوہ حکومت کے تیسرے ستون یعنی نواب اتنے طاقتور ہوگئے کہ رومن ریاست اور چرچ دونوں کے لیے خطرہ بن گئے لہٰذا ان دونوں کی مرکزی حیثیت ختم ہوگئی۔ اور مذہب قوموں کے لحاظ سے تقسیم ہوگیا۔ نتیجتاً قومی روایات کو تقدس فراہم ہوا اور مذہبی رسوم اور رواج پامال ہوئے اور پورے یورپ میںآزادی اور مساوات کی لہر دوڑ گئی اور مختلف ریاستوں نے جنم لیا۔

سیکیولر ازم:

تحریک اصلاح کے نتیجے میں آزادی اور مساوات کے جذبے کو عام لوگوں میں پذیرائی حاصل ہوئی۔ آگے چل کر اسی جذبے نے پورے عیسائی معاشرے پر ضرب لگائی ہر چیز کو عقل کے پیمانے پر رکھ کر ناپا اور سمجھا جانے لگا۔ اگر ہر شخص اور گروہ کا یہ حق تسلیم کرلیا جائے کہ وہ خدائی احکامات بائبل کی جو چاہے تشریح کرسکتا ہے تو یہ دراصل اس بات کا اقرار ہے کہ وہ تمام معیارات اور پیمانے جن کی بنیاد پر یہ تشریح کی جارہی ہے یکساں ہیں اور مساوی قدر (Equal Value) رکھتے ہیں۔ آزادی اور مساوات کی بالادستی دراصل تمام خواہشات کی یکساں اہمیت کا اقرار ہیں۔ جب کوئی معاشرتی آزادی اور مساوات کو اپنے اخلاق کی بنیاد قرار دیتا ہے تو وہ دراصل معاشرتی عمل کا مقصد زیادہ سے زیادہ ایسی خواہشات کا حصول قرار دیتا ہے جو یکساں قدر کی گردانی جاتی ہیں۔ اس معاشرہ پر ایسی عقلیت غالب ہوتی ہے کہ خواہشات کے حصول کو مقدم رکھتی ہے۔ اور خواہشات کی اصل قدر کا تعین کرنے سے قاصر ہوتی ہے۔ اسی کو Rationality bounded by desire کہتے ہیں۔ عیسائیت نے اسی قسم کی عقلیت کے یورپ میں غلبہ کی راہ ہموار کی۔ لیکن انسانی تاریخ نے یہ بات ثابت کی کہ عقل سے اقدار کے تعین اور ترتیب میں بہت کم مدد ملتی ہے مثلاً عقل سے ہم اس بات کا فیصلہ نہیں کرسکتے کہ عورتوں اور مردوں کا بے تکلف میل جول مناسب بات ہے یا نہیں یا انسان کو اس دنیا میں لذت حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے یا نہیں۔ مختصراً یہ کہ عقل کو اہداف کے حصول کا ذریعہ تو بنایا جاسکتا ہے لیکن عقل کی بنیاد پر اچھائی یا برائی کے معیارات قائم نہیں کیے جاسکتے۔ عقلیت کی اس کمزوری کا ادراک موجودہ دور کے ابتدائی زمانے میں زیادہ تھا۔ اس دور میں عقلیت اور Reformed عیسائیت نے اس کا علاج سیکولر ازم کو قائم رکھ کر کیا۔

سیکیولرازم نے مجموعی طور پر انسانی زندگی کو دو خانوں میں تقسیم کردیا تھا۔ایک سماجی زندگی اور دوسری ذاتی زندگی سماجی زندگی سے اس نے مذہب کو بالکل علیحدہ کردیاتھا اور اس کی جگہ عقلیت کی بالادستی تسلیم کرلی تھی۔دوسرا حصہ جو انہوںنے ذاتی زندگی کے نام سے رکھا تھا اس میں عقلیت اور ریاستی نظام کو بے دخل کر دیا تھا اور اس کی جگہ مذہب کو دے رکھی تھی۔ اس پورے نظام کے تحت مطلق العنان بادشاہت دو ڈھائی صدیوں تک قائم رہی۔

لبرل ازم:

لبرل ازم سیکیولر ازم کتنا ہی مذہب بیزار نظام سہی پھر بھی اس نے زندگی کے ایک حصے میں مذہب کی گنجائش رکھی تھی۔ لبرل ازم درحقیقت اس سیکیولر تقسیم کار کے خلاف بغاوت بن کر ابھری۔ لبرل ازم نے بھی اپنی بنیاد عیسائیت سے لی۔ چونکہ عیسائی مسیح کی الوہیت کے قائل تھے اسی عقیدے کے مطابق عیسیٰ علیہ السلام بیک وقت خالق ومخلوق، بندہ وخدا، محدود ولامحدود تھے۔ آگے چل کر اسی عقیدے کی بنیاد پر لبرل ازم نے ایک تہذیب کا روپ دھارا جس میں فرد بحیثیت فرد اپنا نظام زندگی خود طے کرنے کی آزادی رکھتا ہے۔ نیکی اور بدی کے معیارات خود متعین کرسکتا ہے کسی اور کو اس بات کا حق نہیں کہ وہ کسی فرد کو کوئی خاص طرززندگی اختیار کرنے پر مجبور کرے یعنی وہ خود خدا بن سکتا ہے دوسرا نجات کا جو تصور عیسائیت میں پایا جاتا ہے اس کے تحت تو عیسیٰ علیہ السلام نے مصلوب ہوکر تمام انسانوں کے گناہ کا کفارہ ادا کردیا۔

چنانچہ ہر فرد کی اخلاقی حیثیت برابر ہوگئی۔ پھر لبرل ازم نے نجات کو ان معنوں میںبھی لیا کہ جب انسان تسخیر کائنات کرے گا تو سارے دکھ درد، رنج والم، مصائب ومشکلات وغیرہ سب مٹ جائیں گے اور دنیا میں انسان کو نجات مل جائے گی اور تسخیر کائنات کا مطلب قانون فطرت پر بھی مکمل قبضہ ہے یعنی دن رات، بارش، ہوا حتیٰ کہ ایک مغربی فلسفی کے مطابق ترقی کا وہ دور بھی آنے والا ہے جب انسان موت پر بھی قابو پالے گا۔

اس پورے عقیدے کو بنیاد بنا کر Kant نے انسانیت کا ایک تصور پیش کیا جو لبرل ازم کے بنیادی تصورات میںنہایت اہم ثابت ہوا۔ Kant  فرد کو بحیثیت فرد اس بات کا مجاز سمجھتا ہے کہ وہ اپنے لیے خود نظام زندگی تجویز کرے اور ہر فرد جو نظام زندگی اپنے لیے منتخب کرتا ہے وہ اتنا ہی قابل قدر ہے جتنا وہ نظام زندگی جو دوسرا کوئی فرد اپنے لیے منتخب کرے مثلاً ایک شخص جو اپنا مقصد یہ ٹھہراتا ہے کہ وہ ایک مربع میل کے علاقے میں موجود گھاس کے پتوں کو گنے گا اور دوسرا شخص اپنا مقصد یہ ٹھہراتا ہے کہ اتنے علاقے میں وہ کوئی منشیات کا کاروبار نہیں ہونے دے گا سوسائٹی کے لیے دونوں کے مقاصد یکساں طو رپر قابل احترام ہے۔

بنیادی طور پر لبرل ازم کا فلسفہ یہ ہے کہ انسان کا جو جی چاہے وہ کرے لیکن اس حد تک کہ جہاں آپ دوسروں کی آزادی میں مخل نہ ہوں یعنی آپ اپنا مکا وہاں تک گھما سکتے ہیں جہاں دوسرے کی ناک شروع ہوتی ہے غرض عیسائیت نے موجودہ لبرل تہذیب کی تعمیر اور ارتقاء میں اہم کردار ادا کیا۔

سول سوسائٹی کا تاریخی پس منظر

علی محمد رضوی

پاکستان میں سول معاشرے کا قیام استعماری حکمت عملی کا اہم حصہ ہے۔ ڈاکٹر محبوب الحق سنٹر کی سالانہ رپورٹ برائے 1999 ء میں اس حکمت عملی کی تفصیل بتائی گئی تھی جس کے ذریعہ پاکستانی معاشرہ کو سول معاشرہ میں تبدیل کیا جاسکتا تھا۔ پاکستان میں سول معاشرہ کے قیام کا مقصد دراصل اسلام کا خاتمہ ہے۔ اسلام کو ختم کرنے کے دو طریقے ہیں:

١۔  اسلام کو یکسررد کردیا جائے۔

ب۔  اسلام کی اس تعبیر کو نہ مانا جائے جس پرامت کا اجماع ہے بلکہ اسلام کی لبرل تعبیر کی جائے جس کے نتیجہ میں اسلام خدا کی منشا اور مرضی کے حصول کا ذریعہ نہ رہ جائے بلکہ افراد، یا قوموں کی خواہشات کے حصول کا ذریعہ بن جائے۔

جدیدیت میں پہلے اجماع کو رد کیا جاتا ہے:

تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ اس سلسلہ میں دوسرا راستہ پہلے استعمال کیا جائے گا جدیدیت کو مقبول بنانے کا طریقہ اجماع کا انکار ہے۔ اس کے نتیجہ میں ایک عرصہ گزرنے کے بعد اس بات کا امکان پیدا ہو جاتا ہے کہ مذہب کو یکسر طورپر ردکیا جاسکے۔ یورپ میں ردعیسائیت کی تحریکوں میں شروع شروع میں یہ ہمت نہیں تھی کہ وہ عیسائیت کا براہ راست انکار کرسکیں۔ ان تحریکوں نے اوّل اوّل جس چیز کا ردکیا وہ عیسائیت نہیں تھی بلکہ عیسائیت کی اجتماعی تعبیر تھی۔ عیسائیت کی اجتماعی تعبیر کو رد کرنے کے لیے عیسائیت کی لبرل تعبیر کی گئی جس کے نتیجہ میں عیسائیت خدا کی مرضی اور منشا معلوم کرنے کا ذریعہ نہ رہی بلکہ افراد اور قوموں کی خواہشات کے حصول کا ذریعہ بن گئی۔

تحریک اصلاح عیسائیت کی لبرل تحریک:

 عیسائیت کی اس لبرل تعبیر کو تحریک اصلاح کا نام دیا گیا ہے۔ عیسائیت کی اس لبرل تعبیر کے نتیجہ میں دو سو سال کے اندر اس بات کے امکانات پیدا ہوگئے کہ عیسائیت کو یکسرردکیا جاسکے۔ تحریک اصلاح کے بانی مارٹن لوتھر نے 16 ویں صدی کے وسط میں عیسائیت کی اجتماعی تعبیر کورد کرنے کی بات شروع کی۔ اس نے اس بات کا دعویٰ کیا کہ انجیل مقدس کو سمجھنے کے لیے کلیسا کا اجماع، روایات اور ادارے ضروری نہیں ہیں بلکہ ہر شخص اور ہر گروہ اور قوم اپنے ضمیر، خواہش اور عقل کے مطابق انجیل مقدس کی تعبیر کرسکتے ہیں۔ اسی کی بدولت یہ ممکن ہوا کہ 19 ویں صدی کے وسط میں یورپی مفکرین خدا کا کھل کرانکار کرسکیں۔ اس کی ایک مثال ”نطشے” کا یہ اعلان ہے کہ نعوذ باللہ ثم نعوذ باللہ خدا مرچکا ہے۔ لوگوں نے کہا ہے اور سچ کہا ہے کہ نطشے اس سلسلہ کا منطقی انجام تھا جس کا آغاز لوتھرنے کیا تھا۔ اسی نطشے کے بارے میں اقبال نے فرمایا ہے

اگر ہوتا وہ مجذوب فرنگی اس زمانے میں

تو اقبال اس کو سمجھاتا مقام کبریا کیا ہے

سول معاشرہ مذہبی معاشرے کے ملبے پر قائم ہوتا ہے:

سول معاشرہ کا تصور مغرب سے ہمارے یہاں آیا ہے۔ یورپ میں مذہبی معاشرے کو تباہ وبرباد کرکے سول معاشرہ قائم کیا گیا۔ ان معنوں میں سول معاشرہ کا تصور مذہبی معاشرہ کی عین ضد ہے۔ سول معاشرہ ایک بے دین معاشرہ ہوتا ہے۔ جس طرح مغربی فکر مذہبیت سے بے دینی کی طرف ایک تدریج کے ساتھ گامزن ہوئی کہ پہلے تو مذہب کا ایک لبرل تصور پیش کیا گیا اور اس کے بعد یہ ممکن ہوسکا کہ خدا کا براہ راست رد کیا جاسکے اسی طرح مذہبی معاشرے سے سول معاشرہ کی طرف سفر ایک تدریج کے ساتھ طے ہوا ہے۔ اسی طرح سول معاشروں کے لیے جو فکری اور فلسفیانہ جواز فراہم کئے گئے ان میں بھی ہمیں تدریج کا یہ عمل کار فرما نظر آتا ہے۔ زیر نظر سلسلہ مضمون میں ہم یورپ میں مذہبی معاشروں کی تباہی اور سول معاشرہ کے مقام اور سول معاشروں کے لیے پیش کیے گئے جوازات کا تاریخی اور فکری جائزہ پیش کریں گے۔ اس جائزہ کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان میں سول معاشرہ کو قائم کرنے کے لیے کی جانے والی مختلف کوششوں کو ان کے صحیح تاریخی تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی جائے۔ اس سلسلہ کے آخری مضمون میں پاکستان میں سول معاشرہ کے قیام کی کوششوں کا جائزہ لیا جائے گا۔ اور ان کے سدباب کے لیے ابتدائی تجاویز کا ایک خاکہ پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

از منہ وسطی کے مذہبی معاشروں کا قیام کے دو اصول:

قرون وسطیٰ کے مذہبی معاشرے جن اصولوں پر قائم تھے وہ بنیادی طورپر دو تھے۔

١۔ حاکمیت کی سند اور جواز مذہبی تھی۔ اس جواز کا ابتدائی خاکہ سینٹ آگسٹائن Saint Augustine نے پیش کیا۔ اس نے اپنی کتاب City of God میں خدا کے شہر اور آدمی کے شہر کی ہم موجودیت کی دلیل پیش کی ۔ خدا کے شہر پر پوپ اور چرچ کی حکمرانی ہوگی جب کہ آدمی کے شہر پر بادشاہ کی حکمرانی ہوگی۔ دنیاوی اور دینی قیادت کی یہ تفریق اس لحاظ سے مذہبی تھی کہ اس تقسیم کا جواز مذہبی تھا اور ایک مذہبی سند نے تجویز کیا تھا۔ اس کا مماثل نظام ہمارے زمانے میں سلطنت سعودیہ کے قیام کے وقت آل شیخ اور آل سعود کے درمیان مذہبی اور دنیوی اقتدار کے درمیان تقسیم کے سلسلہ میں ہوا تھا۔ دونوں میں فرق صرف یہ ہے کہ موخرالذ کر ایک سیاسی معاہدہ ہے جس کا مذہبی جواز کبھی بیان نہیں کیا گیا جب کہ اول الذکر کا مذہبی جواز تفصیلاً فراہم کیا گیا تھا۔ اس نظام کو عموماً سیکولر ازم کی ایک شکل سمجھا گیا ہے لیکن یہ نظام ان معنوں میں سیکولرازم نہیں تھا کہ اس میں زندگی کے کسی شعبہ کو مذہب کی دسترس سے باہر نہیں رکھا گیا تھا۔ مذہبی اور دنیاوی امور کی نظری تفریق اور بعد میں بڑھتی ہوئی عملی تفریق کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ عیسائیت کے پاس اپنا قانون یعنی فقہ نہیں تھی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کورد کرکے دوسری صدی کی عیسائیت نے اپنی موت کا پروانہ اپنے آغاز میں ہی لکھ دیا تھا۔[

عیسائیت کی تباہی کا سبب: علم فقہ سے محرومی:             

 عیسائیت کی تباہی اور گمراہی کی بنیادی وجہ شریعت موسوی کا انکار تھا۔ شروع میں کچھ عرصہ تک عیسائیت کے ایک فرقہ جسے ”ناصریہ” کہا گیا ہے ]قرآن مجید میں انہیں کو نصاریٰ کہا گیا ہے[ شریعت موسوی کو ترک کرنے سے انکار کیے رکھا اور ایک عرصہ تک تعذیب و تضحیک کا شکار رہے۔ لیکن بالآخر اس گروہ کے زیادہ تر افراد کو عیسائی اکثریت نے اپنے اندر جذب کرلیا۔ اس ناصریہ [Nazarenes] فرقہ کی وہ با قیات جنہوں نے عیسائی اکثریت کے اندر ضم ہونے اور شریعت موسوی کو ترک کرنے سے انکار کیا۔ یہ فرقہ عیسائی تاریخ میں [Ebionitrs] کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس چھوٹے سے گروہ نے تقریباً تین سو سال تک استقامت کے جادہ پر اپنے آپ کو گامزن رکھا اور اس دوران عیسائی اکثریت اور یہودیوں کے ظلم و ستم کا یکساں شکار رہے۔ ]دوسروں کے علاوہ ایڈور ڈگبن نے اپنی کتاب The Dicline and Fall of the Roman Empir میں ان دونوں فرقوں کا مختصراً ذکر کیا ہے[۔ بادشاہ جو کچھ بھی کرتے تھے اس کا جواز مذہب میں ہی تلاش کرتے تھے۔ قرون وسطیٰ کے بادشاہ عمومی طورپر یورپ کے مذہبی قائد ”پوپ” کی حکومت کو تسلیم کرتے تھے۔ بادشاہوں کے الو ہی اختیارات کے عقیدے کا تصور عام خیال کے برعکس قرون وسطیٰ کی تہذہب میں موجود نہیں تھا۔ یہ خیال سب سے پہلے تحریک اصلاح نے پیش کیا تھا اور یہ خیال بھی بعد میں موجودہ قوم پرستانہ ریاستوں کی بنیاد بنا۔

چرچ کے مقابلے میں انسان کی خود مختاری : لوتھر کا دعویّٰ:

لوتھر اور پروٹیسٹنٹ تحریک نے ایک طرف تو چرچ کے مقابلہ میں انسان کی خود مختاری کا پر چار کیا لیکن دوسری طرف اس نے دنیاوی حکومتوں اور حکمرانوں کی مکمل تابعداری کے عقیدہ کو فروغ دیا۔ لوتھرکے خیال میں دنیاوی حکومتوں اور قوانین کی پیروی اس لیے ضروری ہے کہ اس کے بغیر نظام دنیوی کا قیام اور تسلسل ناممکن ہوجائے گا۔ کیوں کہ بصورت دیگر:

                “every one would become a judge against the other, no power no authority, no law or order would remain in the world; there would be nothing but murder and bloodshed” [Admonition to peace]

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس دلیل کی بنیاد پر دنیاوی سند کو قبول کرنا لازمی ٹھہرتا ہے اسی سند کی بنیاد پر دینی سند کو قبول کرنا کیوں لازمی نہیں ٹھہرتا؟ ظاہر ہے کہ لوتھرکے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے۔

لوتھر نے دنیا کو دین کی میزان سے خارج کردیا:

کیتھولک چرچ نظری طورپر بھی عملاً بھی دنیاوی سند کا محاسبہ کرنا اپنا فرض منصبی خیال کرتا تھا لیکن لوتھر اس کورد کرتا تھا۔ لوتھرکے خیال میں اس کا فیصلہ کرنا کہ دنیاوی نظام، نظام عدل ہے یا غیر عدل ہے خدا کا کام ہے اور ظاہر ہے کہ خدا زمین پراتر کر اس کا فیصلہ نہیں کیا کرتا اس لیے دنیاوی نظام کو جانچنے کا کوئی پیمانہ اس نظام کے اپنے پیمانوں کے سوا نہیں ہوسکتا ہے۔ لوتھر لکھتا ہے۔

                “What is the justice of the world other than every one does what he owes in his estate, which is the law of his own estate; the law of man or woman, child, servant or maid in the house, the law of the citizen or of the city in the land” [Werke]

پوچھنے والا لوتھر سے یہ پوچھنے کی تمنا کرسکتا ہے کہ اس کی اپنی دلیل ہی کی بنیاد پر کیتھولک چرچ کے نظام کو جانچنے کا پیمانہ پروٹیسٹنٹ تعلیمات نہیں ہوسکتیں سو وہ کس بنیاد پر کیتھولک چرچ کے خلاف اپنی تیشہ زنیوں کو جائز قرار دیتا ہے؟ لیکن اس سوال کے جواب کی توقع لوتھر سے رکھنے والا شاید تہذیبوں کی حرکیات سے بالکل بے خبر ہے۔

بادشاہ اس زمین پر خدا ہے اس کی اطاعت فرض ہے: لوتھر

اسی دلیل کی بنیاد پر لوتھر دنیاوی سند کے خلاف بغاوت کو ناجائز قرار دیتا ہے۔

                “the fact that the authority is wicked and unjust does not excuse tumult and rebellion. For it is everyone who is competent to punish wickedness, but only the wordly authority which wields the authourity” [Admonition to peace]

لیکن خود اس سند کو پر کھنے اور جانچنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کیوں کہ سند کو جانچنے کا پیمانہ خود سند کے اندر ہی مضمر ہے اس کے باہر نہیں ہے۔ سند خود اپنے آپ کو کیوں کر مورد الزام ٹھہرائے گی؟ پھر لو تھر اس دلیل کو صرف دنیاوی سند کے حوالے سے ہی برتتا ہے دینی سند کے لیے اس کی اپنی سند موجود ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوتھر کے خیال میں خدا کی مرضی یہی ہے کہ دنیاوی سند کی ہر حال میں مکمل تابعداری کی جائے۔ بادشاہ کے باغیوں کے لیے نہ اس دنیا میں کوئی رحم ہے نہ آخرت میں ان پر کوئی رحم کیا جائے گا۔

                “Mercy is neither here nor there; we are now speaking of the word of God, whose will is that the king be honoured and rebels ruined, and who is jet surely as merciful as we are… if you desire mercy do not become mixed with rebels, but fear authourity and good” [An open letter on the harsh book against the Peasent]

پروٹسٹنٹ ازم یوروپ میں قوم پرستی کی بنیاد ٹھہرا:

لوتھرنے اس طرح بادشاہوں کے الوہی اختیارات کا تصور پیش کیا اور یہی یورپ میں قوم پرستی کی بنیاد بنا۔ یہ نظریہ جدیدیت کی بنیاد ہے اس کا تعلق نہ تو عیسائیت سے ہے نہ اسلام سے اور نہ ہی مشرق ومغرب کی پرانی تہذیبوں سے ہے۔ یہ صرف لوتھرکا کا رنامہ ہے اور اس پر مارکس سے بہتر تبصرہ کسی نے نہیں کیا ہے۔

لوتھر کی دین دشمنی پر مارکس کا تبصرہ :

                “Luther, without question, defeated servitude through devotion, but only by substituting servitude through conviction. He shattered the faith in autourity, by restoring the authourity of faith… He freed man from external religousity by making religousity the innermost essence of the man” [Introduction to the critique of hegel’s Philosophy of Right].

معاشی اور پیداواری عمل کا مقصد صرف ضرورت پورا کرنا تھا:

لوتھر کے بعد اس کا مقصد بڑھوتری برائے بڑھوتری ہوگیا:

الف۔  مذہبی زندگی کو انسان کی اندرونی زندگی تک محدود کرکے لوتھر نے اسے تاملات اور تفکرات کا بے ضررکھیل بنادیا۔ مذہب کے خارجی مظاہر، اس کے نظام کو منہدم کرنے کے بعد دنیاوی سند کی مطلق العنانیت کا نظریہ ایک منطقی اور واحد موجود حل کے طورپر باقی بچ رہا تھا۔

ب۔  معاشی اور پیداواری عمل کی بنیاد ضرورت تھی۔

زہد و فقر کی معیشت اور سرمایہ دارانہ معیشت کا فرق؟

معاشی عمل میں شرکت اس لیے کی جاتی تھی، اور پیداواری عمل کو اس لیے روبہ عمل لایا جاتا ہے کہ اس کی مدد سے انسان کی ضرورت اور استعمال کی اشیاء پیدا کی جاسکیں اور انہیں بہم پہنچائی جاسکیں۔ معاشی عمل اور پیداواری عمل خود مقصود نہیں تھا بلکہ مقصود حاصل کرنے کا ذریعہ تھا۔ منافع بھی صرف اس حدتک حاصل کیا جاسکتا تھا اور جائز سمجھا جاتا تھا جہاں تک وہ ضروریات کے پورا کرنے کے لیے ضروری ہوتا تھا۔ منافع برائے منافع یا غیر محدود منافع جو بعد میں جاکر بڑھوتری برائے بڑھوتری۔ [Accumulation for The sake of accumulation] شکل اختیار کرتا ہے، قرون وسطیٰ معیشت کے لیے اجنبی تصور تھا۔ جس معیشت کی بنیاد ضرورت اور استعمال کی بنیاد پر رکھی جاتی ہے اس معیشت کو ہم زہد، قناعت اور فقر کی معیشت کہتے ہیں۔ اس کے برعکس جس معیشت کی بنیاد بڑھوتری برائے بڑھوتری کی بنیاد پر رکھی جاتی ہے ایسی معیشت کو ہم سرمایہ دارانہ معیشت کا نام دیتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ معیشت کسی بھی معاشرے میں اس وقت قائم ہوتی ہے جب اس معاشرے میں زہد، قناعت اور فقر ختم ہو جائے اور اس کی جگہ حرص وحسد عام ہو جائے۔ کسی بھی معاشرے میں حرص وحسد کی عمومیت کا نام ہی سرمایہ داری ہے۔ قرون وسطیٰ میں عیسائیت نے معاشرے میں زہد وقناعت اور فقر کو فروغ دینے اور حرص و حسد کو روکنے کے لیے جو نظام تشکیل دیا تھا اس کے تین اہم ستون تھے۔ ]اس مضمون میں ہم انگلستان کو بطور حوالہ لیں گے۔[

١۔ حرص و حسد کو روکنے کے لئے شہروں اور قصبوں میں گلڈز کا نظام :

یہ گلڈز پیشہ ور انجمنوں کے طرز پر بنائی گئی تھیں اور ان کا بنیادی مقصد قیمتوں پر قابو رکھنا تھا۔ یہ گلڈز پیشہ ور لوگوں اور کاروباری حضرات کے درمیان عیسائی معاشی تعلیمات اور کلیسا کے کاروباری قوانین کے عمل کو یقینی بناتی تھیں۔ ان گلڈز کا سربراہ عمومی طورپر کوئی عیسائی بزرگ [Saint] ہوتا تھا۔

برعظیم پاک و ہند اور انگلستان کا جاگیردارانہ نظام: تقابلی مطالعہ:

ب۔  دیہی سطح پر قرون وسطیٰ کا جاگیردانہ نظام تھا۔ عام خیال کے برعکس مجموعی طورپر یہ نظام، نظام عدل تھا اور عیسائی اخلاقی تعلیمات اور کلیسا کے قوانین کا پابند تھا۔ ہمارے ہاں جس جاگیر دارانہ نظام سے لوگ واقف ہیں وہ قرون وسطیٰ کا جاگیردانہ نظام نہیں ہے بلکہ وہ اس جاگیردانہ نظام سے واقف ہیں جو اس عیسائی نظام کے کھنڈرات پر تعمیر ہوا تھا۔ ہمارے ہاں جاگیردارانہ نظام کے بارے میں لوگ علمی حقائق کا بہت کم ادراک رکھتے ہیں۔ جاگیردارانہ نظام کے بارے میں ہمارے ہاں تحریریں عموماً Polemical اور حقائق سے دور ہیں۔ مثلاً عمومی طورپر یہ سمجھا جاتا ہے کہ مغل دور کا نظام جاگیردانہ نظام تھا حالانکہ اس کا دعویٰ وہی شخص کرسکتا ہے جو جاگیردارانہ نظام کے تاریخی تصور سے بالکل نابلد ہو۔ برصغیر پاک وہند میں جاگیردانہ نظام انگریزوں نے اپنے استعماری مقاصد کے حصول کے لیے مسلط کیا تھا اور اسے لبرل اور جدیدی انقلاب سے ماقبل کے عیسائی جاگیرداری نظام سے کوئی نسبت نہیں تھی۔ ]جاگیرداری نظام کی بدلتی ہوئی تاریخی شکلوں کے بارے میں دیکھو  (Helen M.Cam, The Decline and Fall of English Feudalism)

قرون وسطیٰ کے عیسائی جاگیردانہ نظام کی دو اہم خصوصیات تھیں:

١۔  جاگیردار کے لیے زمین بنیادی طورپر منافع کے حصول کا ذریعہ نہیں تھی۔ زمین بنیادی طورپر سیاسی اور معاشرتی ذمہ داریوں کی علامت تھی۔ اور یہ صرف انگلستان تک محدود نہیں تھا بلکہ جہاں جہاں جاگیردانہ نظام موجود رہا ہے وہاں وہاں زمین کو بنیادی طورپر معاشرتی، سیاسی ذمہ داری کی علامت سمجھا گیا ہے۔ زمین کو بنیادی طورپر منافع کا ذریعہ قرار دینا جاگیردانہ نظام کے لیے ایک اجنبی چیز تھی۔ ”بیرانگٹن مور” کے الفاظ میںدنیا کے ہر حصے میں جہاں جاگیرداری نے فروغ پایا ملکیت زمین و جاگیر مجرد ملکیت نہیں تھی بلکہ اس کے ساتھ بے شمار ذمہ داریوں کا بوجھ تھا جس کا شمار ممکن نہیں:

                “In all parts of the world where feudelism grew up, the ownership of land was always burdened with a great variety of obligation to other persons.”

١۔عزت و احترام کا معیار پیسہ و دولت نہیں تھی۔

٢۔ سخاوت، حسن سلوک عدل معیار عزت تھے۔

٢۔  معاشرتی قدر اور عزت کا معیار پیسہ اور دولت نہیں تھی۔ عزت کا معیار عدل کا نفاذ، سخاوت، ماتحت افراد سے بہتر سلوک کرنا وغیرہ سمجھے جاتے تھے۔ معاشرتی اقدار اور ان کے درمیان ترجیحات کا تعین عیسائی تعلیمات کرتی تھیں۔ پیسہ دولت یا دھن اقدار کی ترجیحات کا پیمانہ نہیں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ Tonney کے مطابق جاگیردارانہ نظام میں ”متعدد قطعات زمین کا حاصل ہونا اس کے مقابلے میں کہیں زیادہ اہم تھا کہ ان سے منافع کس قدر حاصل ہوتا تھا۔” اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین کی کثرت معاشرتی اور سیاسی ذمہ داری میں اضافہ کی علامت سمجھی جاتی تھی۔

قرون وسطیٰ کا جاگیردارانہ نظام عدل پر مبنی تھا:

کسان جاگیردار کی زمین پر کام کرتا تھا لیکن اس کے علاوہ اسے زمین کے چھوٹے چھوٹے قطعے میسر ہوتے تھے جہاں نہ صرف وہ کاشت کرتا تھا بلکہ اس کاشت کا تنہاوارث بھی ہوتا تھا۔ ان چھوٹے چھوٹے قطعات پر مشتمل زمین کو مشترک زمین کہا جاتا تھا۔ کسان اس زمین کے قانونی مالک نہیں تھے لیکن وہ اس بات کے حقدار تھے کہ اس پر فصل کاشت کریں، فصل کاشت کرنے کے بعد وہاں اپنے مویشیوں کو چرائیں، اور جلانے کے لیے لکڑیاں کاٹ سکیں وغیرہ۔ تمام بڑے بڑے مؤرخ اس بات پر متفق ہیں کہ قرون وسطیٰ کا جاگیردانہ نظام، نظام عدل تھا۔ کسانوں کو زندگی کی بنیادی ضروریات میسر تھیں اور وہ معاشی طور پر خوشحال تھے۔

عیسائی خانقاہیں غرباء کی مدد گار و معاون تھیں:

ج۔  قرون وسطیٰ کے عیسائی نظام کا تیسرا ستون خانقا ہوں اور چرچوں کا نظام تھا۔ چرچ عیسائیت کی علمیاتی برتری کا محافظ اور فروغ دہندہ تھا۔ وہ اس سارے نظام کانگراں بھی تھا۔ خانقاہی نظام وہ روحانی ماحول قائم رکھنے اور قائم کرنے کا ذمہ دار تھا جس میں زہد و’قناعت پرورش پاتے تھے جب کہ حرص وحسد کا قلع قمع ہوتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ قرون وسطیٰ کے معاشروں میں عمومی طورپر آخرت کودنیا پر ترجیح دی جاتی تھی۔ خانقاہوں نے غریبوں کی امداد کے لیے پورا نظام قائم کیا ہوا تھا جس کے نتیجہ میں بے سہارا اور بے آسرا لوگوں کو مدد فراہم کی جاتی تھی۔ عیسائی بادشاہوں نے اس نظام امداد کو جاری وساری رکھنے کے لیے خانقاہوں کے نام بڑی بڑی جاگیریں وقف کی ہوئی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرون وسطیٰ کے جاگیرداری نظام کو ختم کرنے کے لیے عیسائیت اور چرچ کوشکست دینا انتہائی اہم بلکہ سب سے زیادہ اہم تھا۔ سرمایہ دارانہ علمیت اور سرمایہ دارانہ اقدار کی فتح عیسائی، علمیت اور عیسائی اقدار کی شکست کے بغیر ناممکن تھی۔

یوروپ میں سول معاشرہ  مذہبی معاشرے کے ملبے پر قائم کیا گیا:

یہ تھا قرون وسطیٰ کا مذہبی معاشرہ جس کو تباہ کرکے یورپ میں سول معاشرہ کی بنیاد رکھی گئی۔ اس سے پہلے کہ بالترتیب ہم یہ دیکھیں کہ کس طرح اس مذہبی معاشرے کو بے دین ]سول[ قوتوں نے شکست دی، یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ عیسائیت کو یورپ میں اس تمام نظام عدل کے باوجود کیوں شکست ہوئی؟ اس کی دو بنیادی وجوہات تھیں۔

عیسائیت نے بت پرستی اورجدید فکر سے سمجھوتہ کیا!

١۔  اوّل خود عیسائیت اس کی ذمہ دار تھی۔ اس نے یورپ میں اپنے آپ کو قابل قبول بنانے کے لیے عقائد کے میدان میں بت پرستی اور یورپی فکر سے بنیادی مفاہمت اور سمجھوتا کرلیا۔ اس نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا قرار دے کر مذہب کی بنیادوں کو کفر وشرک سے آلودہ کردیا۔ ظاہر ہے کہ عیسائیت کے تمام اچھے کاموں کے باوجود اس کا شرک اس کے زوال کا سبب بنا۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ صرف اسلام ہی مغرب کی بت پرستانہ تہذیب کا مقابلہ کرسکتا ہے۔ اس لیے مغرب کے مادہ پرستی سے بیزار تمام غیر مسلموں ]بشمول عیسائیوں کے[ کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ اسلام قبول کرلیں۔

ہائیڈیگر کیتھولک عیسائیت سے نفرت اور یونانیت سے محبت کرتا ہے:

روم و یونان کی بت پرستی کے مداح عیسائیت کے قاتل تھے:

ب۔  دوسری وجہ یہ تھی کہ عیسائیت کے غلبہ کے باوجود یورپ میں ایسے لوگ ہمیشہ اچھی خاصی تعداد میں موجود رہے جو عیسائیت کے مقابلے میں یورپ کی پرانی بت پرستانہ تہذیب اور روم ویونان کے عظمت کے دور کی بازیابی کے لیے کوشاں رہے۔ یہ لوگ عیسائیت کو مشرق کا مذہب اور دین کا غاصب سمجھتے تھے۔ یہ لوگ عیسائیت کو روم کی عظیم بت پرست سلطنت کے زوال کا باعث سمجھتے تھے۔ یہ ہمیشہ عیسائیت کو تباہ کرنے کے لیے کوشاں رہے اور بالآخر اس میں کامیاب ہوگئے۔ عیسائیت کے خلاف اس نفرت کا اظہار موجودہ زمانے میں سب سے زیادہ شدت کے ساتھ مشہور جرمن مفکر ”ہائیڈیگر” کے تصورات میں ہوتا ہے جس کی فکر معاصر جدیدی فکر کا اہم ترین  سرچشمہ ہے۔ ”ہائیڈ یگر” کی لاطینیت کی ہرشکل سے نفرت اور اصلی یونانیت کی طرف رجوع کی دعوت اس کی عیسائیت کے خلاف نفرت کے اظہار کی شکل ہے۔ لوتھری تحریک اصلاح کو وہ یونانی عیسائیت کہتا ہے اور اس کا وہ مداح ہے حالانکہ ”ہائیڈ یگر” ایک کیتھولک گھرانے کا چشم وچراغ تھا لیکن وہ کیتھولک عیسائیت سے شدید نفرت کرتا ہے۔ وہ کیتھولک اور لاطینی عیسائیت کو یورپی فکر کی کجی کا ذمہ دار گردانتا ہے۔

انگلستان میں سب سے پہلے مذہبی معاشرے کا خاتمہ ہوا:

اب آئیے اس بات کا مختصراً جائزہ لیں کہ کس طرح مذہبی معاشرہ کو یورپ میں تباہ کیا گیا اور کس طرح اس کی جگہ سول معاشرہ نے لے لی۔ ہم اس سلسلہ میں انگلستان کی مثال کولیں کیونکہ انگلستان میں ہی سب سے پہلے مذہب کو انقلاب عظیم [Glorious revolution]  کی شکل میں 1689 ء کو فیصلہ کن شکست ہوئی اور سب سے پہلے یہیں سول سوسائٹی کا قیام عمل میں آیا۔

عیسائیت کی پہلی شکست علمیاتی میدان میں:

١۔ سب سے پہلے جس میدان میں عیسائیت کوشکست ہوئی وہ علمیاتی میدان تھا۔ عیسائیت کی علمی برتری ختم ہوگئی۔ اس کا فیصلہ کن اظہار ”تحریک اصلاح” کی صورت میں ہوا جس کے ذریعہ ہر فرد اور ہرقوم کو اختیار دے دیا گیا کہ وہ کلیسا کی ہر تعبیر، تشریح اور تفسیر کو رد کرسکے۔ اس کے نتیجہ میں بادشاہوں نے آہستہ آہستہ پاپائے روم کی سلطنت سے نکلنا شروع کردیا جس کے نتیجہ میں عالمگیر عیسائی ریاست تباہ ہونے لگی اور اس کے نتیجہ میں قومی ریاستیں وجود میں آنے لگیں۔ انگلستان نے ہنری ہشتم کی بادشاہت کے دوران روم سے علیحدگی اختیار کی ]گوکہ اس میں ہنری ہشتم کی ذاتی اغراض کا دخل کسی علمیاتی دلیل کے مقابلے میں زیادہ تھا[۔ ہنری ہشتم کے دور میں ہی میں 1536ء سے لے کر 1539ء کے درمیان بڑی بڑی عیسائی خانقا ہیں ختم کردی گئیں اور ان کی جاگیریں بادشاہ نواز جاگیرداروں میں تقسیم کردی گئیں۔ ہنری ہشتم کے جانشینوں نے انگلستان میں تحریک اصلاح کی اس یلغار کو روکنے کی کوشش کی لیکن نا کام رہے۔ عیسائیت کی علمی شکست کا یہ حال تھا کہ جامعہ کیمبرج جو عیسائیت کا گڑھ تھی، تحریک اصلاح کا گڑھ بن چکی اور صرف تین صدیوں کے عرصے میں یہ ممکن ہوسکا کہ اس جامعہ میں رسل اور وٹگنسٹائن نے درس دیئے۔ چودہویں اور پندرہویں صدی میں یہ سوچنا بھی شاید محال تھا۔

٢۔  اس علمیاتی تبدیلی کے نتیجہ میں زہد، قناعت اور فقر کی معاشرتی برتری ختم ہونے لگی اور لوگوں میں حرص و حسد عام ہونا شروع ہوا۔ حرص وحسد کے جواز کے لیے مذہبی جواز اور دلیلیں فراہم کی جانے لگیں۔ جس طبقے میں انگلستان میں سب سے پہلے حرص وحسد عام ہونا شروع ہوا وہ بڑے زمینداروں کا طبقہ تھا جس میں مختصر تعداد میں کچھ چھوٹے زمیندار اور بہت ہی قلیل مقدار میں کچھ کسان بھی شامل تھے۔ زمینداروں میں حرص وحسد عام ہونے کے نتیجہ میں دو تبدیلیاں آئیں:

زیادہ سے زیادہ نفع کمانا مقصد زندگی بن گیا:

١۔  عیسائی معاشرہ میں زمین منافع کے حصول کا ذریعہ نہیں تھی لیکن اس تبدیلی کے نتیجہ میں زیادہ سے زیادہ منافع کمانا ان کا مقصد زندگی بن گیا تھا۔ پرانے نظام میں لوگوں کا بنیادی زرعی مسئلہ یہ تھا کہ وہ کون سے طریقے اپنائے جائیں جس کے نتیجہ میں زمین پر آباد زیادہ سے زیادہ لوگوں کو مدد بہم پہنچائی جاسکے جب کہ نئے نظام میں بنیادی مسئلہ یہ ہوگیا کہ زمین میں سرمایہ کاری کا بہترین طریقہ کیا ہوگا۔ زمین سیاسی وسماجی ذمہ داری کی علامت کے بجائے موجودہ سرمایہ دارانہ انداز میں نجی ملکیت بن گئی جس کو بیچا، خریدا جاسکتا تھا اور اپنے مفادات کے حصول کے لیے استعمال کیا جاسکتا تھا۔

                TOWNEYلکھتا ہے۔

                “In the turbulent days of the fifteenth century land had still a military and social significance apart from its economic value; lords had ridden out at the head of their retainers to convince a bad neighbours with bows and bills and a numerous tenantry had been important than a high pecunniary retrun from the soil”.

لیکن حرص وحسد کے عمومی فروغ کے نتیجے میں دو صدیوں کے اندر یہ تمام تصورات یکسر طورپر تبدیل ہوگئے۔ تبدیلی کے نتائج بھی ”ٹونی” کی زبانی سنئے:

                “[This change] marks the transition from the mediavel conception of land as the basis of political functions and obligations to the modern view of it as an income yielding investment. Landholding tend, in short, to become commercialised:.

ب۔ عزت اور معاشرتی قدر کا معیار عدل نہیں رہا بلکہ دولت اور پیسہ بن گئے۔ ”زاگورن” کے الفاظ میں:

                “The aristocratic order survived but in a new shape, for money more than birth was now its basis. And parliment itself became the instrument of landed capitalists, whig and Tory both, and their connections and allies…” [English revolution.]

جاگیردار سرمایہ داربنے تو کسان بے روز گار ہوگئے:

صحیح معنوں میں جاگیردار سرمایہ دار بن گئے تھے۔ ہمارے یہاں لوگ اسی سرمایہ دارانہ جاگیرداری نظام کو جاگیرداری نظام کی واحد شکل سمجھتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب جاگیردار سرمایہ دار ہوگئے تو عدل کے بجائے ظلم کرنے لگے۔ اور اس ظلم کا سب سے بڑا نتیجہ یہ نکلا کہ قرون وسطیٰ میں جو کھلی زمینیں کاشتکاروں کو کاشت کے لیے اور مویشی چرانے کے لیے اور لکڑیاں اور دوسرا سامان زیست حاصل کرنے کے لیے دے رکھی تھیں وہ ان سرمایہ دار جاگیرداروں نے واپس لینا شروع کردیں جس کے نتیجہ میں لاکھوں کسان بے روزگار ہوگئے اور ان میں سے کچھ تو شہروں کا رخ کرگئے، کچھ ان ہی سرمایہ دار جاگیرداروں کے ہاں مزدورلگ گئے جب کہ بیشتر فقر وفاقہ پر مجبور ہوئے۔ ہزاروں عورتیں عصمت فروشی پر مجبور ہوئیں۔ ایک سو سال کے اندر خود کفیل اور نظام عدل کا بہترین نمونہ انگلستان کے گائوں اور کھاتے پیتے کسان تباہ برباد ہوگئے اب حرص وحسد اور ظلم وستم کا یہ سارا کھیل قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کھیلا گیا تھا۔ سارے عمل کا جواز پارلیمنٹ سے حاصل کیا گیا۔

پارلیمنٹ سرمایہ داری جمہوریت کا گٹھ جوڑ : غرباء کے خلاف:     

 پارلیمنٹ نے ان سرمایہ دار جاگیرداروں کے مفادات اور حقوق کا تحفظ کرنے کے لیے ان غریب کسانوں کو ان کے رزق سے محروم کرنے کے لیے نجی ملکیت کے تحفظ کے نام پر قوانین بنائے اس کی وجہ یہ تھی کہ پارلیمنٹ پر سرمایہ دار جاگیرداروں کا قبضہ تھا۔ پارلیمنٹ اور سرمایہ داری، جمہوریت اور سرمایہ داری کے درمیان گٹھ جوڑ آج تک جاری ہے۔ جو عمل دیہی علاقوں میں ہوا وہی عمل چھوٹے شہروں اور قصبوں میں بھی دہرایا گیا۔ جاگیردار جواب سرمایہ دار بن چکے تھے شہروں میں صنعتیں لگانے لگے۔ انہوں نے شہر کے چھوٹے سرمایہ داروں کو اس سارے عمل میں اپنا شریک بنالیا۔ جاگیردار، سرمایہ داروں اور شہر کے بورژ واطبقے کے گٹھ جوڑ اور اس کے نتیجہ میں کسانوں کی تباہی کے کھنڈرات پر موجودہ جمہوریت کی بنیاد رکھی گئی۔ آہستہ آہستہ دوسرے طبقوں کو بھی اس عمل میں شریک کیا جاتا رہا لیکن اس کا واحد معیار یہی تھا کہ وہ طبقات حرص وحسد کو قبول کر لیں اور بے دینی کے آلہ کاربن جائیں۔ جن طبقات کے بارے میں یہ خیال تھا کہ وہ حرص و حسد کی حکومت قبول نہیں کریں گے انہیں سرے سے ہی تباہ برباد کردیا گیا جیسے کسان، جیسے عیسائی راہب وغیرہ۔

کسانوں سے زمین چھیننے کی تحریک: انکلوژر موومنٹ:

٣۔ کسانوں سے زمینیں چھیننے کی اس تحریک کا نام ”انکلوژر موومنٹ” ہے۔ اس تحریک کی جس واحد ادارے نے مخالفت کی وہ عیسائی بادشاہ تھا۔ وہ عیسائی بادشاہ ان معنوں میں تھا کہ اس کی بادشاہت کا جواز مذہب تھا۔ پارلیمانی قوتوں نے کرامویل کی قیادت میں سرمایہ داری کی راہ میں حائل اس آخری ادارے کو بھی ختم کردیا۔ چارلس اول کو پھانسی دے دی گئی اور عیسائی بادشاہت کو ختم کرکے اس کی جگہ دستوری بادشاہت قائم کردی گئی۔ دستوری بادشاہت میں اصل حکومت پارلیمنٹ کی ہے۔ اور پارلیمنٹ میں حکومت کا جواز عوام ہوتے ہیں مذہب یا خدا نہیں ہوتا۔ یہ اور بات کہ ”عوام” کی تعریف وقت گزرنے کے ساتھ بدلتی رہتی ہے۔ پہلے صرف سرمایہ دار جاگیردار اور ان کے حلیف ”عوام” تھے۔ بعد میں دوسرے طبقے بھی شامل ہوتے گئے۔ ”عوام” میں شامل ہونے کے لیے بس ایک شرط ہے اور وہ یہ کہ آپ سرمایہ داری کے رنگ میں رنگ جائیں۔ آپ حرص و حسد کو اپنا خدامان لیں۔

اس مختصر سے تاریخی جائزے سے سول معاشرے کے قیام کے لیے مندرجہ ذیل شرائط کا پتہ چلتا ہے:

]١[ مذہبی علمیات اور مذہبی اجماع کی شکست وریخت اور اس کے نتیجہ میں غیر مذہبی علمیات اور اجماع کا فروغ۔ ]٢[ حرص وحسد کو معاشی جدوجہد اور نظام کی بنیاد بنا کر ان کا معاشرے میں عام فروغ۔ ]٣[ ایسے اداروں کی تباہی وبربادی ]مثلاً خانقاہ مدرسہ[ جو حرص وحسد اور ان کی علمی برتری کی راہ میں حائل ہیں۔ ]٤[ ایک ایسے نظام حاکمیت کا قیام جس کا جواز مذہب فراہم نہ کرتا ہو بلکہ اس کا جواز ”عوام” فراہم کرتے ہوں۔ دوسرے معنوں میں خدا کی حاکمیت کی جگہ انسان کی حاکمیت کا قیام۔

ان شرائط کے پورا ہونے کے نتیجے میں کسی بھی جگہ مذہبی معاشرہ تباہ ہوتا ہے اور اس کی جگہ سول معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔

سول معاشرہ اور سرمایہ داری

ریحان عزیز

کوئی دن گذرتا ہوگا جو پاکستان کے اخبارات و رسائل میں سول معاشرہ’ روشن خیالی اور وسیع نقطہ نظر جیسے خیالات و نظریات اور ان کے امکانات سے متعلق گفتگو نہ ہوتی ہو۔ بیسویں صدی کے اواخر سے جس کوشش کا شدت سے آغاز ہوا وہ اس صدی میں بھی جاری و ساری ہے ۔ایک جانب اگر ارباب اقتدار ریاستی جبر کے ذریعے عوام کو اس امر پر قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ مسلمانان عالم اور بالخصوص پاکستانی مسلمانوں کے لیے تنگ نظری (شرعی طریقۂ فکر) کو ترک کر دینا بہتر ہے اور بجائے اس کے دنیا میں ترقی و خوشحالی کو مقصود حیات قرار دیتے ہوئے فقط اسی کے لیے کوشش کی جائے اور مذہب کو ایک روایت کے طور پر برقرار رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن جہادی فکر کے تابع کسی نظام کی تبدیلی یا اسلامی انقلاب کی فکر کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا’ دوسری جانب ہمارے دانشور و فلسفی اور اعتدال پسند مفکرین بھی فکری بنیادوں پر مذکورہ نتائج کے حصول کے لیے کوشاں ہیں (اخبارات و رسائل اور فکری و علمی جریدے اس امر کے گواہ ہیں) ۔یقینا یہ تاریخ کا کوئی نیا حادثہ یا واقعہ نہیں ہے کہ انسانوں کی ایک کثیر تعداد جس کے لیے دین و شریعت زندگی میں بنیادی حیثیت کی حامل ہو اور دنیا کے بجائے آخرت کو اہم سمجھتی ہو اسے اس کے برعکس طریق زندگی پر قائل و راضی کر لیا جائے ۔یہ بھی درست ہے کہ یہ تبدیلی چند ماہ و سال کا کام نہیں ہے بلکہ صدیاں صرف ہوتی ہیں تب کہیں جا کر اقوام و تہذیب کے قبلے تبدیل ہوا کرتے ہیں۔

تاریخ اقوام و تہذیب کے اوراق پلٹ کر دیکھئے تو ہمیں عیسائیت کی ایک واضح مثال نظر آتی ہے۔ آپ بخوبی واقف ہیں کہ عیسائیت آج جس حالت میں موجود ہے وہ فقط چند رسوم اور عقائد سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔ سیاست و معیشت کے میدان میں اس کے پاس کچھ علیحدہ بات کہنے کے لیے نہیں ہے سوائے اس کے کہ وہ را ئج و موجودہ افکار کو چند ثانوی وغیر اہم تبدیلیوں کے ساتھ قبول کرتے چلے جائیں۔ عیسائی اقدار کے معاملہ میں بھی نئی تہذیب کی برتری بالکل واضح ہے شرم و حیا’ تقویٰ و احسان’ ایثار و قربانی’ آخرت سے محبت’ دنیا پرستی و امارت کو حقارت کی نگاہ سے دیکھنا اور اس نوع کے دیگر اوصاف تمام معاشروں سے بتدریج فارغ ہوتے چلے گئے، نتیجتاً ایک نئے طرز کے معاشرے وجود میں آگئے جو قرون وسطیٰ کے مذہبی معاشروں کی بالکل ضد تھے جیسا کہ سطور بالا میں عرض کیا جاچکا ہے کہ یہ تبدیلی آناً فاناً نہیں بلکہ صدیوں میں وقوع پذیر ہوئی۔

یورپ میں رد عیسائیت کی تحریکوں میں شروع شروع میں یہ ہمت نہیں تھی کہ وہ عیسائیت کا براہ راست انکار کر سکیں۔ ان تحریکوں نے ابتداً جس چیز کا انکار کیا وہ عیسائیت کی اجتماعی تعبیر تھی اور اس کے علی الرغم ایسی لبرل تعبیر پیش کی گئی جس کے نتیجے میں عیسائیت خدا کی مرضی اور منشا معلوم کرنے کا ذریعہ نہ رہی بلکہ افراد اور اقوام کی خواہشات کے حصول کے ذریعہ بن گئی عیسائیت کی اس لبرل تعلیم کو تحریک اصلاح کا نام دیا گیا۔

تحریک اصلاح جو بظاہر کلیسا کو خرابیوں سے پاک کرنے کی ایک تحریک تھی جس نے عام عیسائی کو کلیسائی پادریوں کے تسلط سے آزاد کرایا تھا لیکن جو صورتحال سامنے آئی وہ کچھ اس نوعیت کی تھی کہ عام فرد کے لیے بھی مذہبی قوانین پر کلام کرنا اور اس کو رد کرنا ممکن ہو گیا۔ لوتھر’ کیلون’ ژونگلی اور دیگر اصلاحی مفکرین نے اس نکتہ کو پیش کیا تھا کہ انجیل مقدس کو سمجھنے کے لیے کلیسا کا اجماع’ روایات اور ادارے ضروری نہیں ہیں بلکہ ہر شخص اور ہر گروہ اور قوم اپنے ضمیر’ خواہش اور عقل کے مطابق انجیل مقدس کی تعبیر کر سکتے ہیں اور پھر یوں ہوا کہ دو سو سال کے اندر اس بات کے امکانات پیدا ہو گئے کہ عیسائیت کا رد کیا جاسکے۔ اس تابوت میں ایک واضح اور بڑی کیل فلسفیوں نے پیوست کر دی۔ ڈیکارٹ جس سے فلسفہ کی ایک نئی کہانی کا آغاز ہوتا ہے اس نے انسان کو عقل پرستی کی راہ سجھائی’ ایک ایسی عقل جو اپنی زندگی کی اقدار خود متعین کرسکتی ہے’ خیر و شر کی حدود کا تعین کرسکتی ہے۔’ در حقیقت عقل نے جس چیز کی جگہ لی وہ  انجیل مقدس تھی جسے وحی الٰہی ہونے کا درجہ حاصل تھا۔ روز مرہ سے لے کر معیشت و سیاست تک جن معاملات میں کلام الٰہی سے مشاورت کا طریقہ رائج تھا اب عقل انسانی نے یہ ذمہ داری خود سنبھال لی۔ چند سو سالوں میں اس کا لازمی نتیجہ بھی سامنے آگیا جب نطشے نے مذہب کی ہر علامت سے بیزاری کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ (نعوذ باﷲ) خدا مر چکا ہے۔

اس واضح اور بڑی مثال سے ہم درج ذیل نتائج برآمد کر سکتے ہیں۔

1۔ سول معاشرہ مذہبی معاشرہ کی ضد ہے۔

2۔ سول معاشرہ کا قیام آناً فاناً نہیں بلکہ بتدریج عمل میں آتا ہے۔

3۔ سول معاشرہ کے قیام کے لیے ابتدا اجماع امت سے انکار کرکے جاتی ہے۔

ہم کوشش کریں گے کہ قرون وسطیٰ کے مذہبی معاشروں کا حال’ ریاستوں کی حاکمیت اور اصلاح پسندی کے ان پر اثرات کا ایک اجمالی خاکہ پیش کردیں۔

قرون وسطیٰ کے مذہبی معاشرے:

اجمال کے ساتھ عرض یہ ہے کہ قرون وسطیٰ کے معاشرے ان اخلاقی اقدار سے متصف تھے جنہیں الہٰیاتی اخلاقیات کہا جاسکتا ہے۔ شرم و حیا ایثار و احسان’ تقویٰ و پرہیزگاری کسی نہ کسی طور پر ان معاشروں میں رائج تھے۔ ایسے افراد کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا جو ان اوصاف کے زیادہ حامل ہوا کرتے تھے۔ اگر غور فرمائیں تو تحریک اصلاح کے جن مفکرین کو مقبولیت حاصل ہوئی وہ بھی اپنی ذاتی زندگی میں گناہوں سے پاک زندگی بسر کرنے کی کوشش کرتے اور عیسائی روایات کے مطابق راہبانہ زندگی کو نہایت سنجیدگی سے اختیار کرتے تھے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جس طرح اسلامی معاشروں میں فقر و سادگی اختیار کرنے والے بزرگوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اسی طرح عیسائی معاشروں میں ایسے افراد نہایت اہمیت کے حامل تھے اور اس نوع کی اقدار نہایت درجہ عمدہ تصور کی جاتی تھیں۔

دیہی سطح پر قرون وسطیٰ کا نظام جاگیردارانہ تھا۔ عام خیال کے برعکس یہ نظام’ نظام عدل تھا اور عیسائی اخلاقی تعلیمات اور کلیسا کے قوانین کا پابند تھا۔ وہ اس جاگیردارانہ نظام سے قطعاً مختلف تھا جس کو آج ہمارے ہاں طعن و تشنیع سے نوازا جاتا ہے۔ اس نظام کی بنیادی طور پر دو اہم خصوصیات تھیں۔

1۔ جاگیردار کے لیے زمین بنیادی طور پر منافع کے حصول کا ذریعہ نہیں تھی  بلکہ سیاسی اور معاشرتی ذمہ داریوں کی علامت تھی۔ زمین کو بنیادی طور پر منافع کا ذریعہ قرار دینا جاگیردارانہ نظام کے لیے ایک اجنبی چیز تھی لہٰذا یہ سمجھنا مشکل نہیں ہونا چاہئے کہ استحصال’ جبر اور ظلم جیسی جتنی اصطلاحیں آج ہم جاگیرداری کے ساتھ منسلک کرتے ہیں وہ اس وقت غیر متعلق تھیں۔ معاشرتی اقدار اور عزت کا معیار پیسہ اور دولت نہیں تھی۔ عزت کا معیار’ عمل کا نفاذ’ سخاوت’ ماتحت افراد سے حسنِ سلوک کرنا وغیرہ سمجھے جاتے تھے۔ معاشرتی اقدار اور ان کے درمیان ترجیحات کا تعین عیسائی تعلیمات کرتی تھیں۔ پیسہ دولت یا دھن اقدار کی ترجیحات کا پیمانہ نہیں تھے۔ ٹونی Twney کے بقول ”جاگیردارانہ نظام میں متعد قطعات زمین کا حاصل ہونا اس کے مقابلہ میں کہیں زیادہ اہم تھا کہ ان سے منافع کس قدر حاصل ہوتا تھا؟ کئی بڑے مورخ اس بات پر متفق ہیں کہ قرون وسطیٰ کا جاگیر درانہ نظام، نظام عدل تھا’ کسانوں کو زندگی کی بنیادی ضروریات میسر تھیں اور وہ معاشی طور پر خوشحال تھے۔

2۔ قرون وسطیٰ کے معاشروں کا ایک اہم ستون  عیسائی خانقاہیں اور چرچوں کا نظام تھا۔ چرچ عیسائیت کی علمی برتری کا محافظ اور فروغ دھندہ تھا۔ وہ اس سارے نظام کا نگراں بھی تھا ۔رہبانیت پر مبنی نظام دور روحانی ماحول قائم رکھنے اور قائم کرنے کا ذمہ دار تھا اس نظام میں زہد و قناعت پرورش پاتے تھے جبکہ حرص و حسد کا قلع قمع ہوتا تھا ،یہی وجہ ہے کہ قرون وسطیٰ کے معاشروں میں عمومی طور پر آخرت کو دنیا پر ترجیح دی جاتی تھی۔ عبادت خانوں میں غریبوں کی امداد کے لیے پورا نظام قائم کیا ہوا تھا جس کے نتیجہ میں بے سہارا اور بے آسرا لوگوں کو مدد فراہم کی جاتی تھی۔ عیسائی بادشاہوں نے اس نظام امداد کو جاری و ساری رکھنے کے لیے عبادت گاہوں کے نام پر بڑی بڑی جاگیریں وقف کی ہوئی تھیں، اس طرح اس معاشرہ میں وہ مخیر حضرات بھی موجود تھے جو خدا ترسی کے جذبہ کے ماتحت دیگر افراد کی مدد کیا کرتے تھے۔ دراصل بات یہ ہے کہ وہاں پیداواری عمل کو اس لیے روبہ عمل لایا جاتا تھا کہ اس کی مدد سے انسان کی ضرورت اور استعمال کی اشیاء پیدا کی جاسکیں اور انہیں بہم پہنچائی جاسکیں خود معاشی عمل بذات مقصود نہیں تھا، منافع برائے منافع یا بڑھوتری برائے بڑھوتری ایک اجنبی تصور تھا جسے سرمایہ دارانہ طرز معیشت نے عام کیا۔

عیسائی طرز حاکمیت:

جو لوگ عیسائیت اور تاریخ عیسائیت سے کسی قدر واقف ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ عیسائی فکر میں اپنی فقہ نہ ہونے کے باعث سیاسی حوالے سے ذاتی احکام نہ ہونے کے برابر ہیں۔ کسی خاص عیسائی ریاست کے قیام (جس طرح دین اسلام میں تصور موجود ہے) کا کوئی تصور موجود نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رومی حکومت میں عیسائی فکر کی شمولیت کو کافی سمجھتے ہوئے اسے عیسائی قرار دے دیا گیا ہاں یہ ضرور ہے کہ اس حاکمیت کی سند اور جواز مذہبی Auttorities بھی دیا کرتی تھیں اس جواز کا ابتدائی خاکہ St. Augstine نے پیش کیا اس نے اپنی کتاب City of God میں خدا اور آدمی کی سلطنت کے درمیان امتیاز اور ہم موجودیت کے تصور کو واضح کیا۔ خدا کے شہر پر پوپ اور چرچ کی حکمرانی ہوگی جبکہ آدمی کے شہر پر بادشاہ کی حکمرانی ہوگی۔ دنیاوی اور دینی قیادت کی یہ تفریق اس لحاظ سے مذہبی تھی کہ اس تقسیم کا جواز مذہبی اور ایک مذہبی سند نے تجویز کیا تھا۔ عام طور پر اسے سیکولرازم کی ابتداء کہا جاتا ہے لیکن یہ یاد رکھنا چاہئے کہ Augstine کے اس نظام میں کسی شعبہ کو مذہب کی دسترس سے باہر نہیں رکھا گیا مزید ،یہ کہ بادشاہ جو کچھ بھی کرتے تھے اس کا جواز مذہب میں ہی تلاش کرتے تھے اور پوپ کی رائے کو برتر گردانتے تھے۔ اس وقت تک بادشاہوں کے الوہی ہونے کا تصوربھی موجود نہیں تھا’ یہ خیال اصلاحی مفکرین نے بعد میں پیش کیا جیسا کہ ہم پیچھے ذکر کر آئے ہیں کہ اصلاح پسندی کی ابتدا کلیسا کی خرابیوں کو تحریک کا مرکز بناتے ہوئے اصلاح کا کام انجام دینا تھا اور نتیجہ اس صورت میں ظاہر ہے کہ ہر فرد کو اس کا اختیار دے دیا گیا کہ وہ کلیسا کی تعبیر’ تشریح اور تفسیر کو رد کرسکے لیکن دوسری جانب اصلاح پسندوں کی تحریروں میں حکومتوں اور حکمرانوں کی مکمل تابعداری کی تعلیمات صاف نظر آتی ہیں۔ لوتھر کے ایک خط میں اس تابعداری کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے جس کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ:

”میں خدا کی مرضی کا اظہار یوں کرتا ہوں کہ بادشاہ کا مکمل احترام کیا جائے اور اس کے باغیوں کو تباہ و برباد کر دیا جائے کیونکہ ان کے لیے دونوں جہانوں میں رحم نہیں ہے اگر تم چاہتے ہو کہ تم پر رحم کیا جائے تو ان باغیوں کے ساتھ مت ملنا اور حاکم سے ڈرتے رہو اور خیر اختیار کرو۔”

مزید یہ ایک اور کلیہ اس بات سے خبردار کرتا ہے کہ ”اگر بادشاہ ظالم اور نا اہل بھی ہو تب بھی تمہیں اس بات کا اختیار نہیں کہ تم اس کے خلاف آواز اٹھائو۔”

اس نوع کی تحریروں نے بادشاہت کا ایک تصور قائم کر دیا جو خدا کی مانند ہے اور ریاست کے لوگ اس کے پابند ہوگئے کہ وہ اپنے بادشاہ کی مرضی کو مقدم جانیں اور اس کی خوشنودی کو ممکن بنائیں۔ اس جدید نظریہ نے یورپ میں قوم پرست فکر کی بنیاد رکھ دی، پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بادشاہوں نے آہستہ آہستہ پاپائے روم کی سلطنت سے نکلنا شروع کر دیا جس کے نتیجہ میں عالمگیر عیسائی ریاست تباہ ہونے لگی اور قومی ریاستیں وجود میں آنے لگیں۔

اس سیاسی تبدیلی کی نشاندہی کے بعد علمی’ معاشی اور معاشرتی تبدیلیوں کا بھی ہم ایک جائزہ لیتے ہیں کہ یہ تبدیلیاں اگر ایک جانب عیسائیت کی شکست تھی تو دوسری جانب سول معاشروں کا آغاز تھا۔

1۔ اگر علمیت اور عقائد کے اعتبار سے جائزہ لیا جائے تو سب سے پہلے عیسائیت میں عقیدہ الوہیت و تجسیم اور مسیح کے ابن اﷲ ہونے کا نظریہ تھا ۔لازمی بات ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی یہ تعلیم قطعی طور پر نہیں تھی، یہ عقیدہ تو پال اور بعد میں آنے والوں نے شامل کیا اور اس کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ جبکہ ایک شخص ابن اﷲ اور مجسم خدا ہوسکتا ہے تو پھر دیگر انسان بھی ان اوصاف سے متصف ہوسکتے ہیں اور ظاہر ہے کہ اگلی منزل انسان کے خود خدا بننے کی ہی ہوسکتی ہے۔ لہٰذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ عیسائیت نے مذہب کی بنیادوں کو کفر و شرک سے آلودہ کرکے خود اپنی تباہی و شکست کی بنیاد رکھ دی۔

2۔دوم یہ کہ عیسائیت کے پاس اپنی کوئی فقہ موجود نہیں تھی ابتداً حضرت موسیٰ کی شریعت کی بھی اتباع کی جاتی تھی لیکن پہلی صدی عیسوی کے وسط میں عیسائی علماء کی ایک معقول تعداد نے موسوی شریعت سے اغماض برتنا شروع کر دیا تھا اور دوسری صدی عیسوی میں اسے بالکل ترک کر دیا گیا حالانکہ رسماً آج بھی New Testaeul کے حوالے یسوع کا یہ قول کثرت سے دہرایا جاتا ہے جس کے مطابق وہ موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کی تنسیخ کے لے نہیں بلکہ اسے پورا کرنے آئے ہیں لہٰذا عیسائیت کے پاس پیش کرنے کے لیے کوئی ٹھوس متبادل نہیں تھا سوائے اس کے کہ چند رسومات و عقائد کو باقی رکھا جائے جو فرد کی اندرونی و داخلی زندگی تک محدود رہیں۔

3۔ ایک اور وجہ یہ تھی کہ یورپ میں عیسائیت کے غلبہ کے باوجود ایک معقول تعداد ایسے لوگوں کی بھی تھی جو قدیم رومی و یونانی تہذیب کی واپسی کے خواہشمند تھے اور عیسائیت کو روم کی عظیم بت پرست سلطنت کے زوال کا باعث سمجھتے تھے۔ بیسیوں صدی کا مشہور فلسفی مارٹن ہائیڈ یگر اس مخاصمت کا عکاس ہے۔ ہائیڈیگر کی لاطینیت کی ہر شکل سے نفرت اور اصلی یونانیت کی طرف رجوع کی دعوت اس کی عیسائیت کے خلاف نفرت کے اظہار کی شکل ہے۔ لوتھری تحریک کو وہ یونانی عیسائیت کہتا ہے اور اس کا وہ مداح ہے اور کیتھولک گھرانے سے تعلق رکھنے کے باوجود کیتھولک عیسائیت سے نفرت کرتا ہے۔ وہ کیتھولک اور لاطینی عیسائیت کو یورپی فکر کی کجی کا ذمہ دار گردانتا ہے۔

4۔ پروٹسٹنٹ تحریک نے پہلی بار دولت کمانے کو احسن سمجھنے اور دنیا پرستی کو جواز فراہم کرنے کی بنیاد رکھی۔ زیادہ منافع کمانا اور دولت کے انبار لگا لینا خدا کی پسندیدگی اور رضا مندی کے مساوی بن گیا آگے چل کر سرمایہ داری کی Legitimacy کے لیے بھی یہی انداز فکر کام آیا۔

معاشرتی و معاشی تبدیلی:

اس سیاسی و علمیاتی تبدیلی کے نتیجہ میں زہد’ قناعت اور فقر کی معاشرتی برتری ختم ہونے لگی۔ لوگوں میں حرص و حسد عام ہونا شروع ہوا۔ زمیندار کے لیے زمین اب فقط سماجی برتری اور ذمہ داری کا نشان نہیں تھی بلکہ منافع کا سبب تھی۔ اب سوچ یہ ہو گئی تھی کہ زمین میں سرمایہ کاری کا بہترین طریقہ کیا ہوگا؟ حرص و حسد کے عمومی فروغ کے نتیجے میں دو صدیوں کے اندر یہ تبدیلی آئی کہ عزت و معاشرتی قدر کا معیار عدل نہیں رہا بلکہ دولت اور پیسہ بن گئے’ وہ معیشت جس کی بنیاد ایثار و احسان پر تھی اب غرض و منافع کی معیشت بن گئی۔ پھر جاگیردانہ نظام کی وہ صورت سامنے آئی جسے آج عام طور پر ظالم و جابر سمجھا جاتا ہے۔ کسانوں سے تمام زمینیں اور مویشی چھین لیے گئے اور انہیں یا تو نکال دیا گیا یا معمولی ملازموں کے طور پر نوکری دے دی۔ جاگیر دار صحیح معنوں میں سرمایہ دار بن گئے اور ایسے قوانین بنائے گئے جن کے نتیجے میں سرمایہ دار جاگیرداروں کے مفادات محفوظ اور عام کسانوں کو زیادہ سے زیادہ مجبور بنا دیا جائے۔ کسانوں سے زمین چھیننے کی اس تحریک کا نام Enclosure Movemeut ہے جس میں نجی ملکیت کے تحفظ کے نام پر قوانین بنائے گئے اور سرمایہ دارای کا ایک فطری رویہ سامنے آیا  پارلیمنٹ نے ایک کام یہ بھی کیا کہ عیسائی بادشاہت کا ادارہ ختم کرکے دستوری ریاست کو قائم کر دیا۔ دستوری ریاست عوام کی مرضی کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے کسی مذہب یا الٰہی احکامات کی پابند نہیں ہوتی۔

اس مقام پر ہم درج ذیل نتائج مرتب کرسکتے ہیں۔

1۔ حرص و حسد کو معاشی جدوجہد اور نظام کی بنیاد بنا کر انکا معاشرے میں عام فروغ سول معاشرے کی بنیادی خصوصیت ہے۔

2۔ ایسے اداروں کا اثر و رسوخ (مثلاً دارالعلوم’ مدرسہ و خانقاہ) ختم کیا جائے جو حرص و حسد اور ان کی علمی برتری کی راہ میں حائل ہیں۔

3۔ ایک ایسے نظام حاکمیت کا قیام جس کا جواز مذہب فراہم نہ کرتا ہو بلکہ اس کا جواز عوام فراہم کرتے ہوں۔

دستوری جمہوری ریاست:

دستوری ریاست کو سمجھنے کے لیے ہم ابتدا اس بنیادی سوال سے کرتے ہیں کہ یہ ہے کیا؟… دستوری ریاست وہ ریاست ہوتی ہے جو بنیادی انسانی حقوق کا اقرار کرتی ہے اور اس کی پاسداری کا حلف اٹھاتی ہے’ اور دستور سے مراد اس کتاب فطرت سے آگاہی ہے جس کی ابتدائی شناخت دور تنویر میں ہوئی اور یہ سمجھ لیا گیا کہ انسان کی اصل حقیقت اس کی زندگی کا مقصد اور اس کی اصل ” خواہش “ہے۔ سیاسیات کا ایک عام طالب علم اس سے واقف ہے کہ دنیا کا پہلا دستور امریکہ میں وجود میں آیا اور اس کے مرتب کرنے والے اس دعویٰ کو بجا سمجھتے تھے کہ امریکی دستور کتاب فطرت پر مبنی ہے اور اسی بنا پر تمام دنیا کو امریکا اور اس کے مفکرین کی آراء کے سامنے سر تسلیم خم کرنا چاہئے۔ دراصل بات یہ ہے کہ دستور نے جس چیز کی جگہ لی وہ کچھ اور نہیں بلکہ کتاب الٰہی یا قوانین الٰہی ہیں۔ تاریخی طور پر عیسائیت کو ابتداً جس طور پر رد کیا گیا وہ مذہب کا رد یا عیسائیت کے تصور خدا کا رد نہ تھا بلکہ جس چیز کا بنیادی طور پر رد کیا وہ کتاب کا رد تھا اور اس بات کا رد تھا کہ کلیسا کو اس تعبیر کا کلی حق حاصل ہے۔ جدیدیت نے ابتدا میں اس بات کا رد نہیں کیا کہ خدا کی مرضی ہی اصل الاصول ہے یہی وجہ ہے کہ جب جان لاک نے عوام کی حکمرانی کے نظریہ کا جواز پیش کیا تو وہ خدا کی مرضی کے اصول ہی کی بنیاد پر کیا۔ اس نے کہا کہ عوام کی حکمرانی اس لیے ہونی چاہئے کہ خدا کی مرضی یہی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ جان لاک کو اس مرضی کا علم کیونکر ہوا؟ تو جواب یہ ہے کہ اس علم کا منبع ایک نئی دریافت شدہ کتاب یا حقیقت ہے جسے کتاب فطرت کہا جاتا ہے۔ اس کتاب تک رسائی عقل کے ذریعے ممکن ہے پہلے چونکہ کلیسا کی وجہ سے گمراہی و جہل کے پردے پڑے تھے لیکن اب صحیح طور پر اس کتاب کا مطالعہ ممکن ہے اور امریکی دستور کے مصنفین وہ ہستیاں تھیں جو اسے ٹھیک ٹھیک پڑھ سکتی تھیں’ اس بنیاد پر انہوں نے دستور کی فوقیت کا دعویٰ کیا۔ یہ بات اچھی طریقہ سے سمجھ لینا چاہئے کہ دستور کے مرتب کرنے میں کسی بھی طرح سے کتاب الٰہی کو سند نہیں سمجھنا چاہئے اور دوسری غلط فہمی جس کا ازالہ ضروری ہے وہ یہ کہ دستور بنانے کے لیے عوام وغیرہ کی مرضی کی ضرورت نہیں ہوا کرتی ہے اور نہ ہی ابتدائی دستور سازوں نے اس قسم کا کوئی دعویٰ کیاتھا مزید یہ کہ اب دنیا میں جس قدر بھی دستور سازی ہوتی ہے اس کی بنیاد وہی دستور اول اور انسانی حقوق کا چارٹر ہے جس کی توثیق کے بغیر اس کا کوئی پہلو وجود میں نہیں آسکتا۔ دستور کا مقصد عوام کی اصل مرضی اور خواہش کا اظہار ہے اور یہ مرضی ریاست میں مختلف طور پر منعکس ہوتی ہے۔ مقننہ’ انتظامیہ اور عدلیہ مساوی طور پر عوام کی مرضی کی نمائندہ ہیں۔ اب سلسلہ یہ ہے کہ دستور ایک طرف تو مقننہ کے اثبات کے ذریعے اکثریت کے حق حکمرانی کو بالکلیہ طور پر تسلیم کرتا ہے تو دوسری طرف تقسیم اختیارات کے تحت مقننہ پر قدغن عائد کرکے یہ بتاتا ہے کہ اکثریت کی حکمرانی کا حقیقی مطلب کیا ہے۔ یہ بات اچھی طریقہ سے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایک جمہوری دستوری ریاست میں اکثریت کی حکمرانی کا مطلب یہ ہے کہ قوت نافذہ اور قانون کی تعبیر و تنفیذ کا کام اس اقلیت کے ہاتھ میں رہے جو ریاست کو سرمایہ داری کے اوصاف سے متمتع کردے، جو وسائل میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کرے۔ بڑھوتری برائے بڑھوتری کے عمل میں طاق ہو۔ اصولی طور پر حکمرانی اکثریت کی ہی ہے لیکن اکثریت کی حکمرانی کا تقاضا ہے کہ ایسی اقلیت کی حکمرانی ہو جو وسائل میں اضافہ کی اہل ہو، یہی وجہ ہے کہ جہاں جہاں بھی جمہوریت مستحکم ہوتی ہے وہاں بیورو کریسی اور ٹینکو کریسی کی حکومت مستحکم ہوتی ہے اور لوگوں کا کام محض اس اقلیت کی حکمرانی پر صاد کرنا رہ جاتا ہے۔ یہی جمہوریت ہے اور بیسیویں صدی میں سرمایہ داری اور اس کی عقلیت کو رائج کرنے کا سب سے معروف ذریعہ بھی یہی ہے۔ جو لوگ جمہوری ریاست کے حوالے سے اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ جمہوریت عوام کی مرضی اور ان کی حقیقی آزادی کو ممکن بناتی ہے تو درست یہ ہے کہ انسان کو خدائے بزرگ و برتر کی جانب سے فقط یہ اختیار ملا ہے کہ وہ چاہے تو اﷲ کی بندگی اختیار کرے اور چاہے تو شیطان کی بندگی اختیار کرے لیکن اﷲ نے انسان کو یہ اختیار نہیں دیا ہے کہ بندگی سے نکل کر مطلق آزادی حاصل کرے۔ لہٰذا یہ واضح ہوا کہ جمہوریت کا مطلب آزادی مطلق نہیں ہے بلکہ اس بات کی آزادی ہے کہ سرمایہ کی گردش اور بڑھوتری برائے بڑھوتری کے عمل پر کوئی قدغن نہ ہو اور تمام اعمال اور اداروں اور اقدار کو اسی بنیاد پر جانچا جائے جو لوگ اس میں معاونت کریں وہ انسان اور مہذب انسان ہیں اور جو اس کے دشمن ہوں انہیں تہس نہس کر دیا جائے۔ یہی آزادی ہے یہی دستور ہے اور یہی جمہوریت اور حقوق انسانی ہیں۔

باب دوم

سرمایہ دارانہ افکار ونظریات

مغربی تہذیب کے اصول و مبادی

ڈاکٹر عبدالوہاب سوری

مغربی تہذیب چند جغرافیائی حد بندیوں کی مرہون منت نہیں بلکہ کچھ خاص عقائد (مابعد الطبیعات)’ اقدار اور نظریات پر مبنی ایک مخصوص ذہنیت کی عکاس ہے۔ کسی بھی تہذیب میں انسان کا ایک خاص تصور اور مقام ہوتا ہے۔ اگر اس تصور انسان کو اپنا لیا جائے تو اس تہذیب کو (انہی) علمی بنیادوں پر رد کرنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ مغرب کی تہذیبی برتری اس کی فکری برتری میں پنہاں ہے۔ کسی بھی تہذیبی غلبہ میں گو کہ عسکری عنصر کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا’ لیکن تاریخ شاہد ہے کہ محض عسکری بنیادوں پر حاصل کردہ غلبہ زیادہ دیر پا نہیں ہوتا ہے۔ کسی تہذیب کا زوال اس کی علمی بنیادوں کی شکست و ریخت کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ مغربی تہذیب کی فکری بنیادوں سے ناآشنائی کا خمیازہ ہم تین صورتوں میں بھگت رہے ہیں۔

1۔ مغربی فکری بنیادوں پر غلبہ اسلام کی کوششوں میں مصروف عمل انتہائی مخلص اور دیندار افراد اپنے مقاصد کے حصول میں شدید ناکامی سے دوچار ہوئے (اور مسلسل ناکام ہوتے جائیں گے۔ کیونکہ شیشم کے درخت سے آموں کے پھل کی توقع عبث ہے۔) اور بتدریج اپنے اسلامی تشخص سے محروم ہوتے چلے گئے۔

2۔ مغربی تہذیب کی فکر سے سطحی واقفیت رکھنے اور اس کی اساسی بنیادوں کو نہ جاننے کے باعث مغربی فکر کو ناقابل شکست تسلیم کر لیا گیا اور معذرت خواہانہ جواز پیش کرکے ہر مغربی خیال اور نظریے کو اسلامیانے (Islamization) کی کوشش کی جاتی رہی۔

3۔ مغربی فکر کی شکست و ریخت سے ناواقفیت کی بنا پر ہم میں سے اکثر دور تنویر کو اسلامی فکر کی ارتقائی شکل قرار دیتے ہیں۔ اور مغرب کی مادی ترقی کو اسلامی فکر کی مرہون منت گردانتے ہیں۔ اس طبقے کے افراد دور حاضر میں بھی اٹھارویں’ انیسویں صدی کی مغربی فکر کا راگ الاپ رہے ہیں اور اس علمی بحران سے بالکل ناآشنا ہیں جس کے باعث مغربی تہذیب اپنی فکری بنیادوں مثلاً اپنے مخصوص تصور انسان’ تصور خیر اور مقصد حیات وغیرہ کو عقلی بنیادوں پر ثابت کرنے کی کوشش سے رجوع کر چکی ہے۔

ان حالات میں ہم ناچیزوں کی رائے میں مغربی تہذیب کو فکری بنیادوں پر اکھاڑ پھینکنے کے امکانات جتنے آج موجود ہیں پہلے کبھی نہ تھے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ غلبۂ اسلام کی کوششوں میں مصروف عمل تمام قوتوں کو’ خواہ وہ عسکری’ معاشرتی’ سماجی اور سیاسی نوعیت کی ہوں یا علمی فکری نوعیت کی’ باہم ایک دوسرے سے مربوط کرکے ایک دھارے میں سمو دیا جائے۔ اور کسی ایک کے کام کو کسی دوسرے کے کام سے برتر ثابت کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔ اور ہر کام کو غلبۂ اسلام کے ہمہ وقتی اور آفاقی کام کا حصہ اور جزولاینفک سمجھا جائے۔

 خاکسار کا مقصد ان فکری بنیادوں کی نشاندہی کرنا ہے’ جو مغربی تہذیب کی علمی اساس قرار دی جاتی ہیں۔ تاکہ ان فکری بنیادوں کو ان کی روح و تاریخیت کے ساتھ جان کر فکر اسلامی کو در پیش خطرات سے بچایا جاسکے۔ اور احیاء اسلام کے عظیم کام میں اس ناچیز کا بھی حصہ شامل ہوجائے۔

عیسائیت کی شکست و ریخت:

مغربی تہذیب کا ارتقاء عیسائیت کی شکست و ریخت کا نتیجہ ہے۔ عیسائیت میں خدا اور بندے کے باہمی تعلق کے لیے احکام موجود تھے’ لیکن بندے کے بندے سے تعلق کے لیے واضح احکام موجود نہ تھے۔ لہٰذا سماجی اور قانونی ڈھانچے کی تشکیل کے لیے جو قوانین مرتب کئے گئے۔ وہ بنیادی طور پر رومی قوانین (جو کہ بنیادی طور پر سیکولر نوعیت کے تھے) سے اخذ کردہ تھے۔ عیسائی فکر کی اسی بنیادی کمزوری کے باعث ریاست اور معاشرہ کے مابین تصادم کا عنصر اپنی ابتداء ہی سے موجود تھا۔ اور آگے چل کر خود مخلص عیسائی مفکر آگسٹین نے City of man کو City of god سے الگ کرکے سیکولر ازم کے لیے مضبوط جواز فراہم کر دیا۔ شادی نہ کرنا’ رہبانیت’ زائد عبادات وغیرہ’ جس کے باعث گرجا سے وبستہ لوگوں (مرد و عورت) کے عام معاشرے سے کٹ جانے کی مذہبی بنیادیں موجود تھیں۔ اس غیر فطری طبقہ بندی کا نتیجہ طبقاتی کشمکش کی صورت میں برآمد ہوا اور عیسائی علماء نے مذہب کی من مانی تعبیر و توضیح کے ذریعے عام فرد کو مذہب سے باغی کر دیا۔ کیتھولک چرچ کی برتری کا نتیجہ پروٹسٹنٹ ازم کی صورت میں برآمد ہوا۔ لوتھر بذات خود ایک پادری تھا۔ اس نے تحریک اصلاح کی بنیاد رکھی’ جس کو بعد میں کیلو ن نے مزید تقویت بخشی۔ پروٹسٹنٹ ازم کے بنیادی نکات مندرجہ ذیل ہیں۔

١۔ ہر عیسائی کو بائبل کی تفسیر کرنے کا مکمل’ یکساں اور مساوی حق حاصل ہے۔

2۔ خدا اور بندے کا باہمی تعلق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دوسری آمد تک ختم ہو

 چکا ہے۔

3۔ کسی کو کسی کے معاشرتی مرتبے کے تعین کا کوئی مذہبی استحقاق حاصل نہیں۔

4۔ لہٰذا دنیوی کامیابی کو اخروی کامیابی کا پیش خیمہ سمجھا جائے۔

ان اصولوں کی بنیاد پر جو اقداری اجزا معاشرتی طور پر ابھر کر سامنے آئے وہ حسب ذیل ہیں:

1۔ آزادی 2(Freedom)۔ مساوات(Equality) 3۔ عقلیت (Rationality)

چونکہ ہر انسان یکساں طور پر عقل رکھتا ہے لہٰذا ہر ایک کو تفسیر انجیل کا مکمل یکساں اور مساوی حق حاصل ہوگا۔ اور اخلاقی و روحانی تربیتی اقدار کا تھوڑا بہت اہتمام جو عیسائیت میں موجود تھا اس کا بھی جنازہ نکل گیا۔ خدا سے تعلق ختم ہوجانے کے باعث معاشرتی مرتبوں کے تعین کی روحانی بنیادی ختم ہوگئیں۔ اور اس کی جگہ مادی جاہ و حشمت قرب الٰہی کی نشانی سمجھا جانے لگا۔ یہی وجہ ہے کہ پروٹسٹنٹ از م میں  پوپ کی قوت بھی بادشاہ کے پاس ہی ہوتی ہے۔ اگر دنیاوی کامیابی ہی اخروی کامیابی کا پیش خیمہ ہے تو سب سے زیادہ کامیاب انسان بادشاہ ہی تو ہوا۔ لہٰذا بادشاہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جو چاہنا چاہے وہ چاہ سکتا ہے کیونکہ وہ اس کا مقدس حق رکھتا ہے اور کسی کو اس حق کے انکار کا کوئی حق حاصل نہیں۔ بادشاہ کا یہی مقدس حق ایک پروٹسٹنٹ ریاست کی ابتدائی شکل میں ریاستی’ سماجی اور قانونی ڈھانچے کی تشکیل نو میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ آگے چل کر یہی مقدس حق کا تصور’ مذہبی لبادے میں چھپے رومی اور یونانی سیکولر نظریات کے باعث ریاست کے مکمل طور سے سیکولرائز ہونے کا باعث بنا۔ اسی مقدس حق کے تصور نے دنیا میں حاکمیت الٰہی کے دروازے بند کر دیے اور مسیحیت محض ایک انفرادی حیثیت میں خدا سے ایک خاص تعلق رکھنے کی حد تک محدود ہو کر رہ گئی۔ بعد میں یہی مقدس حق ایک فرد یعنی بادشاہ سے لے کر تمام شہریوں یعنی سٹیزنز میں یکساں اور مساوی تقسیم کر دیا گیا۔ پہلے حق و باطل’ خیر و شر کے تعین کا مطلق حق صرف ایک فرد یعنی بادشاہ کو حاصل تھا مگر بعد میں یہی حق شہریوں کی رائے کی بنیاد پر جانچا جانے لگا’ جس کی موجودہ شکل جمہوریت کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے۔

جدیدیت کی فلسفیانہ بنیادیں:

گو کہ پروٹسٹنٹ ازم نے فکر جدیدیت کی ٹھوس بنیادیں فراہم کر دی تھیں۔ لیکن اس کے باوجود ہم پروٹسٹنٹ فکر کو جدیدیت سے دو بنیادوں پر ممیز کرسکتے ہیں۔

1۔ پروٹسٹنٹ ازم کا مطلق نصاب انجیل کی صورت میں موجود ہے۔ جبکہ جدیدیت کا کوئی ایسا مطلق اور قطعی نصاب موجود نہیں۔

2۔ پروٹسٹنٹ فکر میں آزادی کا محدود تصور خاص علمی بنیادوں پر ہے۔ جب کہ جدیدیت آزادی کے لامحدود تصور پر یقین رکھتی ہے۔

نصاب مطلق سے مراد یہ ہے کہ پروٹسٹنٹ فکر تفسیر انجیل کا حق ہر عیسائی کو دیتی ہے لیکن کسی بھی مصدقہ تفسیر کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ انجیل ہی سے کی جائے’ لہٰذا کسی نہ کسی طور پر وحی کی حیثیت برقرار رہی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کوئی بھی پروٹسٹنٹ عقائد کا حامل فرد (خالص علمی بنیادوں پر) تفسیر انجیل کی بنیاد پر خدا کا انکار نہیں کرسکتا۔ یا مثال کے طور ر تفسیر انجیل کی بنیاد پر لواطت کو جائز قرار دینا آسان نہیں ہے۔ جبکہ جدیدیت کا چونکہ کوئی نصاب مطلق موجود نہیں ہے لہٰذا فلاح انسانیت کی کوئی بھی تفسیر و تعبیر کی جاسکتی ہے’ اگر کسی جدید مفکر کے کام میں خدا کے وجود کی عقلی دلیل موجود ہے تو کسی دوسرے فلسفی کے کام میں خدا کے انکار کا بھی عقلی جواز موجود ہوتا ہے۔ اس طرح ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پروٹسٹنٹ ازم گو کہ عیسائیت ہی کی بہت جدید شکل ہے لیکن اس کے باوجود اس میں مطلق آزادی کے حصول کے امکانات موجود نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جدیدیت کی تلوار کی کاٹ سے عیسائیت کی یہ پروٹسٹنٹ بھی محفوظ نہ رہ سکی اور جدیدیت ایک لادینی تہذیب کے ارتقاء کا سبب بنی۔

جدیدیت کا بانی:

ڈیکارت (Descart) کو ہم جدیدیت کی فکر کا بانی کہیں تو بے جا نہ ہوگا۔ اس نے جدیدیت کی علمیت کی حدود کا نہ صرف تعین کیابلکہ بچی کھچی مذہبیت کو بھی علمی بنیادوں پر اکھاڑ پھینکا اور ایک نئے اقداری ڈھانچے کے لیے علمی بنیادیں فراہم کیں۔ ڈیکارت نے وجود انسان کے ادراک میں کسی بھی خارجی عامل کے کردار کو کلی طور پر رد کر دیا اور (Self knowledge) کی خالص عقلی دلیل دی اس کے مطابق علمی اور عقلی بنیادوں پر کوئی بھی انسان اپنے علاوہ کسی بھی چیز خواہ وہ خیالات ہوں یا اقدار’ معیارات خیر و شر ہوں یا وحی’ اور چاہے خدا کا وجود غرض کسی بھی چیز کا انکار کرسکتا ہے۔ اکیلی میری (عقل) ذات’ میرا اپنا وجود ہے۔ جس کا ہونا کسی بھی قسم کے شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ ڈیکارت کے نزدیک واحد قائم بذات سچ ”میں سوچتا ہوں، اس لئے میں ہوں” ہی ہے۔ یعنی میں اپنے اسی دنیا میں ہونے کا جواز اپنے اندر رکھتا ہوں نا کہ کسی خالق کائنات کے وجود کی بنیاد پر (میں ہوں)۔ ڈیکارت کے مطابق میری عقل کی ”استطاعت” نہیں” کہ میرے اپنے وجود کے علاوہ کسی بھی دوسری ذات کے وجود کا ماورائے شک جواز پیش کرسکے۔ اس طرح ڈیکارت نے ایک ایسی علمیت کی بنیاد رکھی جو کہ اولاً مابعد الطبیعات (وحی) سے ماورا تھی اور دوم ریب (Doubt)پر قائم تھی۔ یوں تو جدیدیت کی کوئی ایک تعریف موجود نہیں لیکن جدیدیت سے متعلق چند بنیادی نکات مندرجہ ذیل ہیں:

1۔ انسان کائنات کا مرکز و محور ہے۔(Anthropocentricity)

2۔ آزادی بنیادی آئیڈیل ہے۔

3۔ مساوات بنیادی قدر ہے۔ (Equality is value)

4۔ عقلیت بحیثیت معیار۔ (Reason is the criterior)

جدید یت نے  چونکہ علمی بنیادوں پر صرف اور صرف وجود انسانی کو ہر شک و شبہے سے عاری پایا تھا۔ چنانچہ کائنات کو صرف اور صرف انسانی پیمانوں پر پرکھنا ہی علمیت کی میراث قرار پایا۔ اور انسان پرستی (ہیومنزم) کو اقداری ڈھانچے میں کلیدی اور قطعی حیثیت حاصل ہو گئی۔ دوسری تمام جدیدیت پسند مفکرین کے یہاں اس بات پر اجماع نظر آتا ہے کہ انسان آزاد تو ہے ہی’ سوال یہ ہے کہ اس آزادی کے دائرہ کو کس طرح زیادہ سے زیادہ بڑھایا جائے۔ اس طرح آزادی کی بڑھوتری ہی انسانیت کی معراج قرار پائی۔ چونکہ جدیدیت میں انسانی ذات کی اساس اس کی عقلیت میں پنہاں ہے لہٰذا ہر انسان برابر ہے اور عقلیت ہی خیر و شر کے پرکھنے کا واحد ذریعہ ہے۔ عقل کی بنیاد پر قطعی اور آفاقی سچ کا حصول ممکن ہے۔ جب انسان کو ہی تمام خیر و شر کے تعین کا حق حاصل ہے تو ایسی صورت میں خدا پرستی کا کیا سوال؟ حقیقتاً اگر دیکھا جائے تو جدیدیت نے خدا کی جگہ ایک ریشنل (عقل پرست) شخص کو بٹھادیا۔ جدیدت انسان کی الوھیت کی طرف دعوت ہے آزادی زیادہ سے زیادہ حصول اور اس کی مستقل بڑھوتری انسان کی الوہیت کا اظہار ہیں۔ جدیدیت انسان کو خدا اور دنیا میں جنت بنانے کی ایک شعوری اور عملی کوشش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جدیدیت کے کسی بھی مفکر کے کام کو اٹھا کر دیکھیں تو اس میں کہیں بھی کائنات کے دائمی ہونے کی نفی نہیں ملتی۔ اگر اس دنیا کو کبھی فنا نہیں ہونا ہے تو پھر انسان کی زندگی کا مقصد اس کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ دنیا میں اپنے قیام کو طویل اورپرلطف بنانے کی کوشش کرے۔ ماڈرنسٹ علمیت جس کلمہ پر لوگوں کو جمع کر رہی ہے’ وہ انسان پرستی کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ’ لا الہ الا انسان: یعنی نہیں کوئی معبود سوائے انسان کے’ اس صورت میں خدا پرستی کا گمان خارج از امکان ہے۔ حادثاتی طور پر تو جدیدیت پسند معاشرے میں خدا پرستی ممکن ہے مگر اس کی کوئی علمی بنیاد پوری جدید فکر میں کہیں نہیں ملتی۔ مغربی فکر میں انسان پرستی کی بہت سی شکلیں موجود ہیں۔ یہاں پر ہم صرف دو سے بحث کریں گے۔

1۔ لبرل ازم 2۔ کمیونیٹیرینزم

16ویں صدی کے بعد یور پ میں دو ہمہ گیر تحاریک کو فروغ ملا۔ یہ دونوں تحریکیں (اینلائٹمنٹ اور رومانٹسزم) عیسائیت کو مکمل رد کرتی تھیں اور ایک نیاتصور انسان و کائنات اور نیا مقصد حیات پیش کرتی تھیں۔ ان دونوں تحریکوں نے انسانی ترقی کو اس بات پر منحصر قرار دیا کہ انسان کو کتنا آزاد ہونا چاہئے۔ ان دونوں تحاریک نے آزادی کو بنیادی قدر اور ہدف کی حیثیت سے قبول کیا۔ آزادی سے مراد یہ ہے کہ انسان ہر وہ چیز حاصل کرنے کا مکلف ہوجائے جس کی وہ خواہش کرتا ہو اور بحیثیت انسان اس کی اس حیثیت کو تسلیم کیا جائے کہ وہ خیر و شر کے معیارات خود متعین کرنے کا اہل ہے۔

کمیونیٹیرین ازم اور لبرل ازم دراصل اینلائٹمنٹ اور رومانویت کی تحاریک کے جا نشین نظریات ہیں ۔لبرل ازم اور کمیو نیٹر ین ازم میں اہم ترین قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں آزادی کو افضل ترین مقصود کے طور پر تسلیم کرتے ہیں۔ دونوں کا اس بات پر ایمان راسخ ہے کہ کسی بھی معاشرے کے قیام اور وجود کا اہم ترین کلیدی مقصد حصول آزادی ہے۔ آزادی دراصل مقصود بالذات ہے نہ کہ خدا پرستی اور رضائے الٰہی کا حصول۔ دونوں نظریات آزادی سے یہی مراد لیتے ہیں کہ انسان جو چاہے وہ حاصل کرسکے۔ اور حصول لذات کی راہ میں مادی اور معاشرتی قیود یکسر ختم ہوجائیں۔

لبرل ازم کا فروغ سولہویں صدی سے ہونا شروع ہوا اور اس کا غلبہ انقلاب فرانس کے بعد تمام مغرب پر قائم ہوا۔

لبرل ازم کا دعویٰ تھا کہ جب عیسائی قدروں کی معاشرتی گرفت کمزور ہوگی اور معاشرے کی ترتیب عقلی اور سیاسی بنیادوں پر کی جائیگی تو حصول آزادی آسان سے آسان تر ہوتا جا ئے گا اور ہر شخص اپنی انفرادی حیثیت میں اپنے خیر و شر کے معیارات کا تعین کرسکنے کے ساتھ ساتھ اپنی خواہشات باآسانی پورا کرسکے گا۔ کمیونیٹیرینز کے نزدیک افراد خیر وشر کے معیارات کا تعین اپنے اغراض و میلانات کی بنیاد پر کرنے کے مکلف نہیں۔ بلکہ خیر وشر کے معیارات کا تعین نوع انسانی کی مجموعی انسانی دنیاوی اغراض کو سامنے رکھ کر کرنا چاہئے۔ اس طرح ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ لبرل ازم میں فرد اپنی الوہیت کے اظہار کا تنہا مکلف ہے’ جبکہ کمیونیٹیرین ازم کی فکر میں انسان بحیثیت نوع کے کلاس یا قوم و نسل کے اپنی الوہیت کے اظہار کا حق رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قوم پرستی اور سوشل ازم کمیونیٹیرینزم ہی کی اضافیت (Extention) ہیں۔

گو کہ لبرل ازم اور کمیونیٹیرینزم فکر میں آزادی بنیادی قدر ہے اور دونوں ہی فکریں بنیادی طور پر انسان پرست(Humanist) ہیں۔ لیکن لبرل اور کمیونیٹرین آزادی کے مختلف تصورات پر یقین رکھتے ہیں۔ اس فرق کو نہ سمجھنے کی بنیاد پر بہت سی خالص مذہبی تحریکیں سوشل ازم اور قوم پرستی کا شکار ہوتی نظر آتی ہیں۔

آزادی کیا ہے؟

آزادی سے مراد ہے کہ انسان اپنے خیر و شر کے معیارات کے تعین کا نہ صرف خود مجاز بلکہ حقدار ہے اور اس کی انسانیت کا جوہر ہی یہ ہے کہ وہ اپنی آزادانہ متعین کردہ اقدار کو اپنا سکے اور ان کے مطابق اپنی زندگی گزار سکے۔

اس کا بہترین اظہار ہمیں مغربی مفکر کانٹ kant)) کے یہاں ملتا ہے جو انسان کو مقصود بالذات End in Himself)) قرار دیتا ہے وہ ایک جگہ کہتا ہے کوئی بھی کام یہ سوچ کر نہ کرو کہ تم ذریعہ ہو بلکہ ہر کام یہ سوچ کر کرو کہ تم ہر چیز کا مقصد ہو۔

مغربی مفکرین نے  آزادی کی دو اقسام بیان کی ہیں: 1۔ آزادی کا منفی تصور 2۔ آزادی کا مثبت تصور

آزادی کا منفی تصور:

آزادی کا منفی تصور یہ ہے کہ معاشرہ جو ناگزیر پابندیاں لگاتا ہے اس کے باوجود انسان کے پاس ایک ایسا علاقہ بچ رہنا چاہئے جس میں وہ اپنی خدائی کا اظہار کرنے کا موقع رکھتا ہو او راپنے متعین کردہ اصولوں کے مطابق زندگی گزار سکے۔ آزادی کے منفی تصور میں اس بات سے بحث نہیں کی جاتی کہ انسان اس دائرہ کار میں کس قسم کی زندگی گزارے گا؟ بلکہ صرف اس بات پر زور دیتا ہے کہ معاشرتی اور ریاستی جکڑ بندیوں کے درمیان ایک ایسا علاقہ ضرور بچ رہنا چاہئے جس میں انسان جو چاہنا چاہے وہ چاہ سکے اور کر بھی گزرے اور اس معاملے میں کسی کے سامنے جوابدہ نہ ہو۔ وہ اس علاقے میں چاہے کچھ بھی کرے یہ وہ مقدس حق (Divine right) ہے جس کے اندر کوئی مداخلت نہیں کرسکتا۔ یاد رہے کہ اس مقدس حق کی مذہبی بنیاد ہمیں مسیحیت کے پروٹسٹنٹ دھڑے میں واضح طور پر ملتی ہے جس کا ذکر ہم اوپر کر آئے ہیں۔ انفرادی حقوق کا سارا معاملہ اس مقدس حق آزادی کا تحفظ ہے جس میں آزادی فکر و نظر’ حق ملکیت’ اظہار رائے وغیرہ شامل ہیں۔ آزادی کے اس تصور کے نتیجے میں پبلک اور پرائیوٹ زندگی کا فرق پیدا ہوتا ہے۔ یعنی اس تصور کے مطابق فرد اپنی نجی زندگی میں کسی کو بھی مداخلت کا حق نہیں دیتا۔ مقصود یہی ہے کہ فرد کی آزادی زیادہ سے زیادہ ممکنہ حد تک وسیع ہوتی چلے جائے۔ تاکہ اس کی خدائی میں اضافہ ہوسکے۔ منفی تصور آزادی سے اخذ کردہ چند اہم نتائج مندرجہ ذیل ہیں۔

1۔ اس بحث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آزادی درحقیقت کچھ نہیں’یہ صرف وہ علاقہ ہے جہاں انسان جو کچھ چاہے کر گزرے۔ خود آزادی کچھ نہیں ہے۔ اس کی کوئی اصل (Content) نہیں ہے۔ بلکہ اس کی اصل (Content) نفسانیت یا نفسانی خواہشات سے پر ہوتا ہے۔

2۔ آزادی اقدار کی نفی ہے، کیونکہ جب آپ کہیں گے کہ آزادی ایک ایسا علاقہ ہے کہ جہاں آپ جو چاہیں چاہ سکیں اور کر بھی گزریں اور جو آپ کر گزریں وہی حق ہے۔ تو اقدار کی بحث ہی بے معنی ہوجاتی ہے۔ ہر شخص قدر خود متعین کرتا ہے۔ حالانکہ قدر کی تعریف ہی یہ ہے کہ جس کا پیمانہ انسان کی ذات نہیں بلکہ خارجی اور معروضی ہو۔ اگر ہر شے اور خواہش کی قدر یکساں ہے تو فی الحقیقت کسی شے کی کوئی قدر نہیں۔

3۔ آزادی کے منفی تصور سے متصل تصور اقدار کے تعدد یعنی (Plurality of values) کا ہے۔ یعنی میری متعین کردہ قدر کسی بھی متعین کردہ قدر کے برابر ہے۔ اس سے یہ بات واضح طور پر نکلتی ہے کہ ترتیب اقدار ناممکن ہے کیونکہ ہر شخص کی متعین کردہ اقدار یکساں اہمیت کی حامل ہیں۔ اقدار کی فوقیت صرف ارتکاز قوت (کثرت رائے یا کثرت مال) سے قائم کی جاسکتی ہے۔ اور اس فوقیت کا کوئی نظری جواز پیش نہیں کیا جاسکتا اور سب سے اہم مقدس حق کا یہ تصور عیسائیت کی مسخ شدہ شکل سے اخذ کردہ ہے۔

آزادی کا مثبت تصور:

لبرل ازم کے برعکس کمیونیٹیریئن ازم آزادی کا ایک مثبت تصور پیش کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں عقل ہمیں بتاسکتی ہے کہ آزاد ہونے کا کیا طریقہ ہے اس سلسلے میں روسو’ ہیگل اور مارکس نے مثبت آزادی کے مختلف تصورات بیان کیے ہیں اس تصور آزادی کا حصول ایسے معاشرتی نظام میں ممکن ہے جس کے نتیجے میں انسانیت بحیثیت نوع کے خدا بن سکے۔ اس تصور میں آزادی کا اظہار انفرادی حیثیت کی بجائے افراد بحیثیت نوع یا قوم یا کلاس کے اجتماعیت میں کرتے ہیں۔اس تصور آزادی کے حصول کے لیے لازماً فرد کو اپنی انفرادی آزدی اجتماعی آزادی کے حصول کے لیے قربان کرنا پڑتی ہے جس کے باعث اظہار آزادی کے ذریعے انسانیت بحیثیت نوع کے اپنی الوہیت کا ادراک کرنے کے قابل ہوسکتی ہے۔ روسو کے نزدیک ایک معاہدہ عمرانی کے ذریعے ایک ایسے انقلابی معاشرے کے قیام کا امکان موجود ہے جس کے ذریعے آزادی کا حصول ممکن ہے۔ مارکس کے مطابق طبقاتی کشمکش کے ذریعے انسانیت بحیثیت نوع کے خدا بن سکتی ہے۔ کمیونیٹیرئین ازم جس تعقل کو بنیاد بنا کر مثبت آزادی کو متشکل کرنے کا دعویدار ہے وہ بھی خواہشات کی غلام ہے۔ یعنی (Rationality bounded by desires) ہے اور اقدار کی آفاقی اور مستقل ترتیب کرنے سے قاصر ہے۔ اس تصور آزادی کو کمیو نیٹیر ین ازم (Communitarianism) کی مختلف شکلوں (Forums) میں  الگ الگ طرف سے آشکار (Realize) کرنے کی کوشش کی ہے۔ مگر ہم یہاں صرف دو اقسام) (Forms سے بحث کریں گے۔

1۔ اشتراکیت (Socialism)    2۔ قوم پرستی(Nationalism)

اشتراکی نظریہ کے مطابق پرولتاری یعنی مزدور طبقہ واحد آفاقی طبقہ ہے اور اس کے اغراض اور مفادات انسانیت کے اصل اغراص و مقاصد ہیں۔ لہٰذا معیارات خیر و شر کو پرولتاری طبقہ کے اغراض کی بنیاد پر متعین کرنا چاہئے۔ اس طرح نوع انسانی کی مجموعی آزادی میں زیادہ سے زیادہ اضافہ ہوسکتا ہے۔

قوم پرستی جزوی طور پر اس بات کا موقع فراہم کرتی ہے کہ لوگ اپنے اعلیٰ و ارفع جذبات کا اظہار اجتماعیت میں کریں قوم پرستی  کی دو بنیادی اقسام ) (Forms ہیں:

1۔ (Civil grounded nationalism) جس میں تمام افراد کسی خاص مملکت کے شہری ہونے کی بنیاد پر ایک ہی (قوم) اکائی کا حصہ تصور کیے جاتے ہیں اور اس اشتراک عمل کا مقصدقوم کی اجتماعی آزادی کی بڑھوتری اور زیادہ سے زیادہ مادی وسائل و قوت کا ارتکاز ہے۔

2۔ (Ethical / Racial ground nationalism) کے تصور میں تمام افراد ایک نسل سے تعلق رکھنے کی بنیاد پر ایک اکائی کا حصہ تصور کیے جاتے ہیں’ لیکن مقاصد کے حوالے سے دونوں تصور قوم پرستی ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔

قوم پرست نظریے میں بظاہر دنیاوی روحانیت کا عنصر اسلامی انقلابیوں کے لیے خاصا پرکشش ہے۔ چونکہ قوم پرستی بظاہر یہ موقع فراہم کرتی ہے کہ لوگ اپنے انفرادی مفادات پر جان قربان کرنے کو تیار ہوجائیں گے اس لئے قوم پرستی کی بنیاد پر افراد اپنے اعلیٰ و ارفع جذبات کا اظہار کریں لیکن چونکہ قوم پرستی کی جڑ بنیادی طور پر ابلیسیت پر قائم ہے لہٰذا ان جذبوں کا اظہار اپنی قوم کے لیے محبت’ ایثار’ قربانی اور غیر قوموں کے لیے نفرت کی صورت میں نکلتا ہے ان معنوں میں قوم پرستی قلب کی بیماری ہے جس میں افراد کے کسی مجموعے کو اپنا اور کسی دوسرے مجموعے کو غیر تصور کرنے لگتے ہیں اور اپنے افراد یا قوم کے لیے وہ اس پریشانی کا شکار رہتے ہیں کہ ان کی قوم کا جو مقام ہے وہ اسے حاصل نہیں ہے اس لیے قوم کو اس کے اعلیٰ مقام تک صرف ایک چیز پہنچا سکتی ہے اور وہ ہے قوت۔ اس لیے ہر قوم پرست کا مقصد اور ہدف اپنی قوم کے لیے قوت میں اضافہ ہوہتا ہے اور قوت کا یہ اضافہ پیمانہ معیار خیر و شر بن جاتا ہے اور افراد کے اندر اس قسم کے جذبات پروان چڑھتے ہیں کہ وہ چیز حق ہے جو سندھی’ مہا جر’ پٹھان’ پنجابی’ جرمن یا امریکی قوم کی قوت میں اضافہ کا باعث ہو ہر وہ چیز حق ہے جو پاکستان کی قوت میں اضافہ کا باعث ہو اسی خیال کو اگر مزید پھیلا کر دیکھاجائے تو ہر وہ چیز حق ہے جو مسلمانوں کی قوت میں اضافہ کا باعث ہو اور ہر وہ چیز باطل ہوجاتی ہے جو ایک قوم کی قوت میں کمی کا باعث بنے چاہے وہ چیز حق کے مسلمہ اصولوں پر کتنی ہی پوری کیوں نہ اترتی ہو چنانچہ اس طرح اخلاق ایک اضافی چیز بن کر رہ جاتا ہے اور دینی معیارات کی حیثیت ختم ہوجاتی ہے۔ دینی معیارات تو وحی کے ذریعے قائم کئے جاتے ہیں یعنی ان معیارات کوتخلیق کرنے میں انسانی عقل کو کوئی دخل نہیں ہوتا۔ لیکن اب چونکہ قوت کا اضافہ اور کمی خیر و شر کا معیار قرار پاتے ہیں لہٰذا قوم کے افراد وہ معیار خیر و شر وضع کرتے ہیں جو لازماً ان کے خود سے محبت (self love)کا مظہر ہوں۔ اس طرح جو بھی معیارات بنائے جائیں گے وہ بنیادی طور پر نفسانیت ہی کی بنیاد پر ہی بنائے جائیں گے۔ گویا قوم پرست کے دل میں نفس کی پرستش’ لالچ’ حسد اور نفرت ڈیرا ڈال لیتی ہے۔ نفرت کے اس منفی جذبہ اور قوم سے محبت کے حوالے سے قوم پرست یہ بھی سوچتا ہے کہ اگر اس کی لذت کی خواہش قوم کی قوت کے حصول کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہے تو وہ اپنی اس خواہش کو ترک کر دیتا ہے۔ حتیٰ کہ قوت میں اضافے کے لیے اس کی جان بھی چلی جائے تو اس سے دریغ نہیں کرتا ہے ان مقاصد کے حصول غیر پر ظلم کرنا حق سمجھتا ہے کیونکہ اس طرح غیر کی قوت میں کمی واقع ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ تمام قوم پرست تنظیمیں متشدد ہوتی ہیں۔ قوت کی پرستش کرنے والا مسلم قوم پرست دعوت کے فریضے کو سر انجام نہیں دے سکتا۔ کیونکہ دعوت کا مطلب غیر کو اپناناہے اور اگر مطمح نظر غیر سے نفرت ہو تو اس کے خلاف سازش کرنا’ اس سے حسد کرنا جائز ہوا تو لازماً اس کو اسلام کی دعوت موثر طور پر نہیں دی جاسکتی۔ اسی طرح گو کہ ایک مسلم قوم پرست مسلم قوم کی قوت کے حصول کے لے کوشاں ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود ہم کہہ سکتے ہیں کہ قوم پرستی کی کوئی بھی شکل دعوت کے آفاقی ہونے کی نفی کرتی ہے۔ ایک قوم پرست اپنے ملی تشخص کے ادراک کے لیے دوسری قوم کے وجود کو قابل جواز (Legitimate) قرار دیتا ہے اور ہمیشہ اس Paradoxical co-exitance کا شکار رہتا ہے۔ ایک قوم پرست کے پاس کوئی آفاقی دعوت نہیں ہوتی اور اپنے تشخص کی کلچرل’ نسلی اور تاریخی بنیادوں پر متمیز کرنے کے سوا اس کے پاس کوئی اور دوسرا ذریعہ نہیں ہوتا ہے۔ ہماری دعوت کا ہدف لوگوں کو اﷲ کی طرف بلانا اور جہنم سے بچانا ہے مسلمان قوم کی قوت میں اضافہ ہمارا بنیادی مقصد نہیں ہے۔ ہم مسلم قوم پرست نہیں ہیں اگر مسلم قوم پرستی کے نتیجہ میں پاکستانی معیشت سوئیڈن جیسی بن گئی لیکن تمام لوگ جہنم کے حقدار ہوگئے تو یہ صریح ناکامی ہوگی۔ دنیاداری’ جاہ و حشمت اور رضائے الٰہی میں کوئی لازمی تعلق نہیں ہے لہٰذا ایک اسلامی انقلابی کو مسلم قوم پرستی سے محفوظ رکھنا ہمارا فرض ہے۔

دعوت اسلام ایک آفاقی تاریخ میں شامل ہوجانے کا نام ہے’ جو انبیاء علیہم السلام کی دعوت کے نتیجے میں تشکیل پائی ہے۔ لیکن اسلام نہ تو کوئی تاریخی طور پر مخصوص (Historically Specific)کسی خیر / سچ کی طرف لوگوں کو بلا رہا ہے اور نہ ہی اسلام مسلمانوں کی جاہ و حشمت کا قیام چاہتا ہے بلکہ اسلام کا صرف ایک مقصود ہے اور وہ ہے رضائے الٰہی کا حصول۔ دعوت کی بنیاد محبت ہے داعی کا کوئی غیر نہیں ہوتا’ وہ ہر شخص کا خیر خواہ ہوتا ہے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد قریش کے ساتھ جو حسن سلوک کیا وہ ایک انقلابی اور ایک قوم پرست کی قلبی کیفیت کے بنیادی فرق کو واضح کرتا ہے۔ احیائے اسلام کی کوششوں میں مصروف عمل جہادی تحریکوں سے وابستہ پرخلوص نوجوان کارکنوں کو قوم پرستی کی زہر ناکی سے بچانا ہم سب کا اہم ترین فریضہ ہے۔ قوم پرستی میں صرف وہ اقدار فوقیت رکھتی ہیں جو قوت میں اضافے کا باعث ہوں اور ان اقدار کو ناپسند کیا جاتا ہے جو قوت میں کمی کا باعث بنیں اس طرح معاشرے میں وہ افراد ہی بہتر خیال کیے جاتے ہیں جن کی قوت زیادہ ہو اور وہ اپنی قوم کے لیے زیادہ سے زیادہ قوت جمع کرسکیں اس طرح قوم پرستی کے شخصیت پرستی میں مدغم ہوجانے کے امکانات بڑھتے چلے جاتے ہیں اور یہ قومی ہیروز اپنی قوم کو طاقتور بنانے کے لیے مذہب’ اخلاقیات’ انسانی جذبوں اور لطیف رویوں کو روندتا ہوا ناپائیدار قوت کے زیادہ سے زیادہ ارتکاز میں سرگرم عمل ہوجاتا ہے جو یقینا احیائے اسلام کی کوششوں میں مصروف قوتوں کے لیے زہر قاتل  کا کام کرتا ہے۔

تجزیہ:

سب سے پہلی بات جس کا ادراک نہایت ضروری ہے وہ یہ کہ خواہ لبرل ازم ہو یا کمیونیٹرین ازم کی کوئی بھی صورت (قوم پرستی خواہ سوشل ازم) ان کا ہدف ایک ہی ہے’ یعنی حصول آزادی’ گویا ہر فرد کو اس قابل بنانا کہ وہ جو چاہے وہ چاہ سکے اور اسے حاصل بھی کرسکے۔ بظاہر اشتراکیت لبرلزم پر یہ الزام لگاتی ہے کہ افراد کی آزادی کا حصول انفرادی ملکیت اور سرمایہ دارانہ نظام معیشت میں ممکن نہیں۔ لیکن روس میں پچھتر سالہ اشتراکی تجربہ نے ثابت کر دیا کہ وسائل کو قومی ملکیت میں لے کر بھی آزادی کا یہ ہدف حاصل نہ کیا جاسکا۔ روس کے عوام کی ایک بڑی اکثریت نے اشتراکیت سے برأت کا اعلان کرکے اس بات کا ثبوت دیا کہ وہ سرمایہ دارنہ لبرل ازم کو حصول آزادی کا بہتر طریقہ سمجھتے ہیں اور روس میں اس کے احیاء کے لیے بڑے سے بڑی قربانی دینے کو تیار ہیں۔ یہاں سے ہم انسانیت پرستی’ لبرلزم اور سرمایہ داری میں ایک قدر مشترک پاتے ہیں’ اور یہ تینوں نظریات ایک دوسرے کی معاونت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ لہٰذا وہ اسلامی انقلابی نوجوان جوان تینوں نظریات کو (علیحدہ علیحدہ رکھ کر) جاننے کی کوشش کرتے ہیں وہ اس فطری تعلق کو نظر انداز کر بیٹھتے ہیں جو مغربی تہذیب کی اساس کا درجہ رکھتا ہے یعنی ”آزادی”۔

مغربی تہذیب کی بنیاد انسان پرستی پر ہے یعنی انسان خود مقصود ہے اور اس دنیا میں اسکی آمد کا مقصد زیادہ سے زیادہ لذت اور اپنی خواہشات کی تکمیل ہے۔ مغرب اس بات پر یکسو ہے کہ انسان پرستی صرف آزادی کے حصول کے بعد ہی ممکن ہے۔ گویا دنیا میں کامیابی کے لیے آزادی کا حصول لازمی قرار پاتا ہے۔ یہی وہ قدر ہے جسے حاصل کرکے انسان انسان بن جاتا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ آزادی بذات خود کچھ نہیں ہے ۔اس کی ٹھوس ہےّت ((Concrete form سرمایہ ہے اور اس کی مجرد شکل ووٹ ہے، لہٰذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگرچہ کمیونیٹرین ازم (communitarianism )بھی Humanism ہی کی ایک شکل ہے تاہم انسانیت پرستی کے لیے پھلنے پھولنے کے امکانات ایک لبرل معاشرے میں کہیں زیادہ ہیں۔اس لئے کہ ایک لبرل معاشرہ میں سرمائے کی بڑھوتری کے امکانات اشتراکی معاشرے سے کہیں زیادہ ہیں۔ اور سرمایہ کی بڑھوتری دراصل آزادی کی بڑھوتری کا ہی دوسرا نام ہے۔

لبرلزم میں جیسا کہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ فرد بحیثیت فرد کے مقصود ٹھہرتا ہے، اگر انسان اپنی آزادی کا شعور حاصل کرلینے کے بعد اپنی انفرادی آزادی کو کسی شے پر قربان کردے تو لبرل معاشرے کی نگاہ میں وہ انسان ہی نہیں رہتا۔ لہٰذا انسان کی انسانیت اس کی آزادی میں پنہاں ہے۔ اب اس آزادی کے حصول کی دو معاشرتی صورتیں ہیں۔

1۔ افادیت پسندی 2 (Utilitarianism)۔ رالسی نظریہ (Rawlsianism)

افادیت پسندی کے نظریے میں معاشرے کی مجموعی فلاح کے نام پر لبرل اقدار کا تحفظ کیا جاتا ہے انادیت پسند انسان کی آزادی کے قائل ہیں لیکن اس کے نتیجے میں مجموعی فلاح کی بڑھوتری ضروری خیال کرتے ہیں۔ افادیت پسندوں کے مطابق ایک ایسے معاشرے کی تشکیل ممکن ہے جس میں زیادہ سے زیادہ لوگ زیادہ سے زیادہ لذت حاصل کرسکتے ہیں لیکن اس کے نتیجے میں کم لوگوں کی افادیت اور حقوق قربان کیا جانا جائز ہے یعنی اگر کسی عمل کے ذریعے زیادہ لوگوں کو فلاح حاصل ہورہی ہو تو جائز ہے ورنہ ناجائز۔ یعنی ایسے معاشرے میں شراب کے ناجائز ہونے کی صرف ایک صورت ہوسکتی ہے کہ اس سے لوگوں کی صحت خراب ہورہی ہو اور وہ دنیا میں زیادہ لذت کے حصول سے محروم رہے۔

رالسی نظریہ افادیت پسندی کا جزوی رد ہے۔ رالس کے مطابق افادیت پسند معاشرے کو ایک فرد کی حیثیت سے دیکھتا ہے جس کے نتیجے میں افادیت پسندی انسان کی آزادی پر حد لگا کر اسے محض لذات کے حصول کے ذریعہ بنا دیتی ہے جس کے باعث وہ اپنی انسانیت سے محروم ہوجاتا ہے۔ رالس لبرل معاشرے کا جو تصوراتی خاکہ پیش کرتا ہے وہ خود غرض (Self intersted)افراد کا ایسا گروہ ہے جو باہمی رضا مندی سے ایک ایسا سماجی معاہدہ ترتیب دیتاہے جس کی بنیاد عدل کے ان دو اصولوں پر قائم ہے۔

1۔ ہر فرد کو اپنے مفادات کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کے لیے ممکنہ حد تک آزادی مہیا کی جائے۔

2۔ معاشرے کے پسماندہ ترین گروہ کے مفادات کو حتی الوسع فروغ دیا جائے۔

رالس کے مطابق ان مفادات کے حصول چند ابتدائی ”خیر” میں پنہاں ہے اور یہ بنیادی ابتدائی خیر حسب ذیل ہیں:

1۔ دولت 2(Wealth)۔ آمدنی(Income)

3۔ قوت(Power) 4۔ اختیار(Authorty

رالس کے مطابق یہی چار اشیاء قدر مطلق کی حامل ہیں اور ان میں اضافہ دراصل آزادی میں اضافے کا مماثل ہے ۔چونکہ یہ بنیادی آزادی کے اظہار کے لیے نہایت ضروری ہیں اس لئے دوسرے لفظوں میں ایک لبرل معاشرے میں آزادی ان اشیاء کی بڑھوتری کا ہی نام ہے لہٰذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ لبرل یا مغربی تصور آزادی خالص مادی نوعیت کا ہے اور اس تصور کے عام ہونے کا مطلب مذہبیت’ روحانیت’ عقیدۂ آخرت’ احیاء دین اور حصول رضائے الٰہی کی خواہش کی پامالی کے سواکچھ اور نہیں یہی وجہ ہے کہ ہم کہتے ہیں رالس مفادات کا خالص مادہ پرستانہ تصور پیش کرتا ہے جس میں افراد کی آزادی کی بڑھوتری کا انحصار مجموعی قومی پیداوار میں اضافہ پر مبنی ہے۔ لہٰذا قومی پیداوار میں اضافہ ایک ایسا آفاقی ہدف قرار پاتا ہے جس کو قبول کرنے پر ہر شخص کی خود غرضی اسے اکساتی ہے چنانچہ لبرل معاشرہ پیداوار کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینے کی کوشش کرتا ہے اور اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ یہ پیدواری ترقی فروغ خودغرضی کے بغیر ممکن نہیں گو کہ اس خود غرضی کو فروغ دینے کے نتیجے میں دولت قوت وغیرہ کی تقسیم لامحالہ غیر منصفانہ ہوتی ہے۔ چنانچہ ان اسلامی انقلابیوں کو جو بہبود انسانی اور سرمائے کی بڑھوتری اور بنیادی انسانی حقوق کے حصول کو اسلامی انقلاب کی بنیاد سمجھتے ہیں ان کو یہ جان لینا چاہئے کہ ان مقاصد کے حصول کے لیے مغرب اسلامی تحریکوں سے زیادہ راسخ العقیدہ ہے اور ان مقاصد کے حصول کا احیاء اسلام سے کوئی لازمی تعلق (Equal morl status) نہیں۔

رالس اس بات پر زور دیتا ہے کہ معاشرتی غیر مساویانہ تقسیم دولت و قوت افراد کی اخلاقی مساوی حیثیت کی نفی نہیں کرتی گو کہ رالس کے مطابق اخلاقی مساوی حیثیت سے مراد ہے کہ ہر شخص کا یہ حق تسلیم کیا جائے کہ وہ اپنے خیر و شر کے معیارات کا خود تعین کر سکے۔ لیکن اس کے باوجود ایک لبرل معاشرے کے سرمایہ درانہ معاشرے میں تبدیل ہوجانے کے امکانات سو فیصدی ہوتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ لبرل معاشرہ آزادی کے لامحدود تصور پر یقین رکھتا ہے جو کہ پیدوار میں لامحدود اضافہ کے ذریعے ہی ممکن ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پیدوار میں لامحدود اضافہ ممکن نہیں ہے بلکہ اس کی ایک حد ہے جبکہ سرمائے میں اضافہ کی کوئی حد نہیں ہے لہٰذا سرمایہ درانہ عمل کی کوشش ہوتی ہے کہ معاشرے میں موجود افراد کی خواہشات کو زیادہ سے زیادہ بڑھایا جائے اور اس کے حرص و حسد کو مزید بھڑکایا جائے تاکہ وہ اپنی انفرادی آزادی کے حصول کے لیے سرمایہ کی بڑھوتری کے عمل میں شریک ہوجائے۔ لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ لبرل معاشرے لازماً سرمایہ درانہ معیشت کے فروغ کا ذریعہ بنتا ہے۔

حرف آخر:

مغربی تہذیبی بنیاد کے اس مختصر خاکے سے ہم اس بات کی نشاندہی کرنا چاہتے ہیں کہ اشتراکیت اور لبرلزم کا ہدف ایک ہی ہے یعنی زیادہ سے زیادہ آزادی کا حصول اشتراکیت کا دراصل لبرلزم پر اعتراض ہی یہ ہے کہ اس سیاسی’ ریاستی اور معاشی سماجی ڈھانچے میں حصول آزادی ممکن نہیں لیکن روس میں اشتراکیت کی شکست سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ آزادی کے حصول کی خواہش کی تکمیل کے لئے لبرلزم اور سرمایہ داری جو سیاسی اور معاشی نظام وضع کرتے ہیں وہ ایک دوسرے کے ساتھ منسلک اور مربوط ہیں۔

اسلامی نقطۂ نگاہ سے لبرلزم اور کمیونیٹریئینزم دونوں ہی نظام ہائے حیات میں کوئی اقداری فرق نہیں۔ دونوں کا مقصود انسان کو خدا بنانا ہے دونوں خواہشات کو پرکھنے اور ان کو ترتیب دینے کے لیے کوئی پیمانہ نہیں رکھتے دونوں کا مطمح نگاہ صرف حصول دنیا ہے وہ انسان کو خود غرض’ لالچی اور حاسد بناتے ہیں اور فطرت انسانی کو مسخ کرتے ہیں، روحانی ارتقاء کی راہیں مسدود ہوجاتی ہیں۔ اسلامی انقلابیوں کو ان دونوں نظاموں کو مکمل طور پر تباہ کرنے کا عزم کرنا چاہئے۔

الغرض اس مضمون سے ہمارا مقصد یہ واضح کرنا تھا کہ تصورات کو اگر ان کے تاریخی تسلسل سے کاٹ کر دیکھا جائے تو اس بات کا شدید احتمال رہتا ہے کہ ہم ان تصورات کے اندرونی تفرقات کو بالکل نظر انداز کر دیں جو اس تصور کی زہر ناکی کو ہم پر آشکارا کر ڈالنے کی صلاحیت رکھتے ہوں یا پھر ان اندرونی تفریقات میں پھنس کر رہ جائیں گے اور تصور کا مجموعی تاثر ہماری نظروں سے اوجھل ہوجائے گا مغربی تصورات کے اس تاریخی عدم تسلسل یا دوسرے معنوں میں Libral توضیح کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم نے ان غیر اسلامی اقسام) (Forms کے لئے اسلامی بنیادیں فراہم کرنا شروع کر دیں ۔مغربی تصورات مثلاً لبرلزم’ قوم پرستی، انسان پرستی’ اشتراکیت وغیرہ کو اگر ایک خاص تاریخ میں اور خاص تاریخ میں ان کی سیاسی’ سماجی’ معاشی اور ریاستی صف بندی کیں دیکھیں جو ان تصورات کے معنی و مطالب کے ادراک کے لیے ضروری اور نامیاتی طور پر منسلک ہیں تو یہ سمجھ لینا کچھ مشکل نہیں کہ ان تصورات کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔

آزادی، مساوات، فلاح انسانی، عدل و غیرہ کو اسلام کلیتہً رد نہیں کرتا لیکن ان تصورات کے معنی و مطالب اس تاریخیت میں پنہاں ہیں جو انبیاء علیہم السلام کی تاریخ سے منسلک و پیوستہ ہیں۔ یہ بالکل ممکن ہے کہ مغربی تصور برداشت (Tolerance) کو آپ اسلام کے تصور صبر کے مماثل کرلیں اور اس کی حمایت میں قرآن و حدیث کو بھی بطور دلیل پیش کر دیں لیکن یہ ان تصورات کی مجرد تفسیر ہوگی اور ان ہی علمی بنیادوں پر استوار ہوگی جو کہ غالب اکثریت کی عقلیت سے مطابقت رکھتی ہوں اس طرز فکر کا لامحالہ یہ نتیجہ نکلے گا کہ آپ اسلام کو مغربی اقسام) (Forms میں ٹھونستے چلے جائیں گے اور اس کو عین عبادت بھی سمجھتے جائیں گے، اس تناظر میں اگر ہم 1857ء سے لے کر آج تک اپنی جدوجہد پر نگاہ ڈالیں تو ہم پر یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسلامی انقلابی تحریک بھی مغربی تہذیبی اثر سے محفوظ نہیں رہ سکی اور ہم نے بہت سے ایسے اسلامی جواز (اسلامی علمیت کی بنیاد پر) پیش کیے جن کے سہارے میں جمہوریت’ حقوق کی سیاست’ سیکولر ازم’ مقننہ’ آئین وغیرہ جیسے تصورات اسلامی سیاست کا جزو لاینفک متصور ہونے لگے۔ اور ان کو خالص اسلامی تصورات کے یا بعض معنیٰ میں غیر اقداری )  (Value Nutural تصور کر لیا گیا۔ اس بات کا ادراک نہایت ضروری ہے کہ بنیادی طور پر غیر اسلامی اقسام) (Forms کے ذریعے غلبۂ اسلام ممکن نہیں ہوسکتا جس لئے کہ ان اقسام (Forms)کو استعمال کرنے کے نتیجے میںایک خاص قسم کی علمیت’ عقلیت’ تصور کائنات’ تصور انسان تشکیل پاتا ہے، جو کہ لامحالہ اسلامی تصورات سے متصادم ہے۔

سرمایہ دارانہ علمیت

محمد زاہد صدیق مغل

کسی تہذیب کا تصور علم اسکے اہداف و مقاصد کے اظہار کا سب سے بلند ترین درجہ ہوتا ہے۔ در حقیقت تصور علم ہی وہ اساس ہے جہاں کسی تہذیب کے مقاصد علمی و فکری سطح پر متشکل ہوتے ہیں۔ ہر تصور علم ایک تہذیب کے حیات انسانی کی حقیقت کی بابت ما بعد الطبعیاتی ایمانیات کا مرہون منت ہوتا ہے۔ یعنی یہ سوال کہ علم کیا ہے کا جواب مقصد علم کے بغیر دینا نا ممکن ہے اور یہ مقصد لازماً ایک ما بعد الطبعیاتی ایمان پر قا ئم ہوتا ہے ۔ یہی وہ بنیادی بات ہے جس پر غور نہ کر نے کے سبب کئی اہل علم و فکر نے مغربی علوم کو اسلامی تاریخ میں تلاش کرنے نیز انکی اسلام کاری کرنے کی ٹھوکریں کھائی ہیں۔ یہ غلط فہمی کہ مغربی علوم ایک اٹل حقیقت ہیں نیز انکی بنیاد ایسے آفاقی تصورات پر قائم ہے جو انسانیت بحیثیت مجموعی کا مظہر ہیںبھی اسی سوال پر غور نہ کرنے کا نتیجہ ہے۔ اسی طرح ماہیت علم اور ایمانیات کا تعلق نظر انداز کرنے کے نتیجے میں یہ فکری کجی بھی عام ہوئی کہ مسلمانوں کو مغربی علوم کی روشنی میں اسلامی تعلیمات کو پہچاننے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اس مضمون میں ہماری کوشش ہو گی کہ ہم علم بحیثیت مجموعی اور سرمایہ دارانہ (یا سائنسی ) نظریہ علم کی حقیقت وا ضح کریں۔

تر تیب مضمون:  تین اہم سوالات

حقیقت علم کی تفہیم کے ضمن میں تین سوالات کے جوابات اصل اہمیت کے حامل ہیں:

١)   علم کیا ہے ، یعنی اسکی نو عیت و ماہیت (Nature)کیا ہے ؟

٢)  علم کہاں سے آئے گا، یعنی منبع علم  (source of knowledge) کیا ہے؟ منبع علم کی تشخیص کے ساتھ ہی اس سوال کا جواب دینا بھی ضروری ہوجاتا ہے کہ اس منبع علم سے حاصل ہونے والے علم کی صحت و عدم صحت  (validity)  کا معیار کیا ہے ؟

٣)  اس مخصوص منبع علم سے حاصل شدہ معلومات کن شکلوں میں متشکل (embodiement) ہوئیں ، یعنی اس نظریہ علم کا اظہار کن علوم کی شکلوں میں ہوا

سرمایہ دارانہ یا سائنسی علمیت کے ضمن میں ان تینوں سوالات کے جوابات تلاش کرنے کے لئے ایک طویل مضمون در کار ہوگا لہذا خوف طوالت کو ملحوظ خا طر رکھتے ہوئے اس مضمون میں ہم صرف پہلے سوال کا جواب تفصیلی جواب دینے کی کو شش کریں گے۔ اس سوال کا جواب سمجھنے کیلئے تین امور پر روشنی ڈالنا ضروری ہے :

(الف)  علم کی نوعیت و ماہیت کا حقیقت کی بابت ایمانیات سے تعلق پر

(ب)   سرمایہ دارانہ تصور علم کا اسکے تصور حقیقت سے تعلق اور اسکی خصوصیات پر اس مضمون میں ہم درج بالا ترتیب سے اپنے مدعا کو بیان کریں گے ۔

( ١)   ایمانیات اور تصور علم کا باہمی تعلق :

علم سے مراد عام طور پر معلومات کا ایک با مقصد مجموعہ سمجھی جاتی ہے۔ درحقیقت یہ  ‘عالم ‘  (knower)  اور  ‘معلوم ‘  (known)  کے درمیان ایک تعلق کا نام ہے اور ان دونوں کے درمیان اس تعلق کی مقصدیت ہی  ‘مجموعہ معلومات ‘  کے مافیہ  (content) کی ماہیت  (nature) اور درجہ بندی  (hirarchy) کا تعین کرتی ہے۔یعنی کس مجموعہ معلومات پر لفظ علم کا اطلاق کیا جا ئے گا اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ علم حا صل کرنے والے شخص کا مقصد کیا ہے۔ چنانچہ ہر مقصدیت سے نکلنے والا تصور علم اور معلومات کی درجہ بندی یکساں نہیں ہوتی۔ اسی طرح معلومات کے ہر مجموعے پر لفظ علم کا اطلاق نہیں کیا جاتا بلکہ صرف ایک بامقصد معلومات کے مجموعے پر ہی یہ لفظ بولا جاتا ہے، مثلاً کسی پا گل شخص کو بہت سی باتیں معلوم ہوتی ہیں لیکن اسکی ان معلومات کوکسی بھی تصور علم میں  ‘علم ‘  نہیں مانا جاتا ۔ یہ حقیقت کہ علم کی درجہ بندی کا براہ راست تعلق عالم کے مقصد سے ہوتا ہے اس مثال سے سمجھی جاسکتی ہے کہ اگر سائنس ، انجینئرنگ اور سو شل سائنسز کے مختلف مضامین کی ایک فہرست ان علوم کے طلباء کے سامنے درجہ بندی کیلئے پیش کی جائے تو انکی ترتیب میں واضح فرق ہوگا۔ ان طا لب علمو ں کی مرتب کردہ فہرستوں میں علوم کی درجہ بندی کا یہ فرق اس مقصد اور تعلق (relevance) کی وجہ سے پیدا ہوا ہے جس کی خا طر یہ طلباء علم حا صل کرنا چا ہتے ہیں۔ چنا نچہ اگر آپ کسی انجینئرنگ کے طا لب علم سے تاریخ کی اہمیت پر بات کریں تو شاید اسکے نزدیک تاریخ ایک غیر اہم علم کہلائے، لیکن اگر کسی فلسفی کی نظر سے دیکھا جائے تو تاریخ سے زیادہ اہم علم کوئی اور نہ ہوگا ۔ اس مثال میں نو ٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ معلومات کی علمی حیثیت اور اسکی درجہ بندی طے کرنے میں علم حا صل کرنے والے شخص کا مقصد فیصلہ کن اہمیت کا حا مل ہوتا ہے۔ اس بات کو مزید وا ضح کرنے کیلئے ایک اور مثال پر غور کریں۔ آپ اور ہم بچپن سے یہ بات سنتے چلے آئے ہیں کہ  ‘اصل علم تو قرآن و حدیث ہی ہیں’۔ آج کے جدیدیت پسند مفکرین کو یہ بات مبالغہ انگیز ی دکھا ئی دیتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے آیا واقعی یہ مبا لغہ انگیزی ہے یا حقیقت وا قعہ ہے؟ اور اگر حقیقت ہے تو کن معنوں میں یہ بات درست ہے؟ اس سوال کے جواب کیلئے اسلام کے نزدیک انسانی زندگی کے مقصد پر غور کریں۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں یہ بات نہایت وا ضح طریقے سے بیان کی ہے کہ انسانی زندگی کا مقصد دنیا وی زندگی کوپر لطف بنانے کیلئے کائنات کو مسخر کر نے کی سعی کرنا نہیں بلکہ اپنے رب کی عبادت کرنا اور اسکی خوشنودی حا صل کرنا ہے ، نیز یہ کہ انسان کو یہ زندگی اسکے کسی حق کے طور پر نہیں دی گئی کہ جسے وہ جیسے چا ہے ترتیب دے ، بلکہ یہ زندگی اسے آزمائش کیلئے دی گئی ہے۔ جب یہ طے ہو گیا کہ زندگی کا مقصد آزمائش اور حصول رضا ئے الہی ہے، تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ آزمائش جس شے میں ہو رہی ہے اسکا علم کہاں سے حا صل ہو گا دوسرے لفظوں میں رضا ئے الہی حا صل کرنے کے طریقے کا علم کہا ں سے ہو گا؟ کیا ہر شخص آزاد ہے کہ اپنی طرف سے زندگی کا جو بھی مقصد چا ہے بنا لے یا اسکے رب نے اسکی ہدایت کا کوئی انتظام کیا ہے؟ ہر شخص جا نتا ہے کہ اللہ تعا لی نے ہدایت انسانی کے لئے انبیاء و رسل کا سلسلہ جاری فرمایا اور اس ہدایت کے حصول کا آخری اور واحد معتبر ذریعہ قرآن و حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں موجود ہے۔ چنا نچہ یہی وہ وا حد ذریعہ علم ہے جس سے رضا ئے الہی کے حصول کا طریقہ جا نا جا سکتا ہے اور اس ذریعہ علم کو چھوڑ کر اس دنیا میں اور کوئی ایسا ذریعہ نہیں جس سے انسا ن یہ جان سکے کہ میرا رب مجھے کس شے میں آزما نا چا ہتا ہے نیز وہ میرے کن اعمال سے خوش ہو گا اور کون سے اعمال اسکی نا را ضگی کا با عث ہو نگے۔ پس ثا بت ہوا کہ انسانی زندگی کے مقصد  ‘ عبادت رب’  کے معیار پر پورا اترنے والا علم وہی ہے جسے مولوی صاحب  ‘قرآن و حدیث ‘  کہتے ہیںلہذا یہ بات سو فیصد درست ہے کہ  ‘اصل علم تو قرآن و حدیث ہی ہیں’، نیز دیگر عقلی علوم کی درجہ بندی ان علوم کے اس مقصد حیات کے حصول میں معا ونت و عدم معا ونت کے اصول پر طے کی جا ئے گی۔ جو علم اس مقصد حیات کے حصول میں جتنا زیادہ ممد و مددگار ہوگا اسلامی نظریہ علم میں اتنا ہی اہم کہلائے گا، اور جس علم کا تعلق اس مقصد کے ساتھ جتنا کمزور ہو گا وہ علوم کی درجہ بندی میں اتنا ہی نیچے دکھائی دے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی تاریخ میں قرآن و حدیث کے بعد صرف ونحو، فقہ و اصول، کلام و منطق وغیرہ کو خصوصی اہمیت حا صل رہی ہے۔ اس تفصیل سے یہ بات وا ضح ہو جا نی چا ہئے کہ ہر تصور علم (یعنی مجموعہ معلومات کی نوعیت) اور اسکی درجہ بندی چند مابعد الطبعیاتی ایمانیا ت کی مرہون منت ہوتی ہے نیز مقصد حیات کی با بت عقائد بدل جا نے سے تصور علم بھی بدل جا تا ہے۔ چنا نچہ کسی تہذ یب سے نکلنے والے تصور علم اور معلومات کی درجہ بندی کو اس تہذ یب کی ایمانیات سے ما وراء ہو کر سمجھنا نا ممکن ہے اور جو شخص بھی ایسی کوشش کرے گا لازماً غلط نتا ئج تک ہی پہنچے گا۔ ایمانیات اور تصور علم کے تعلق کی اس اصولی بحث کے بعد اب ہم سرمایہ دارانہ تصور علم کی تفصیلات کی طرف آتے ہیں۔

٢)  سا ئنسی علم کی نوعیت اور اسکے تصور حقیقت سے اسکا تعلق

آ ج کی دنیا بالخصوص مغربی دنیا میں جب بھی لفظ علم بولا جا تا ہے تو اس سے مراد عام طور پر  ‘ سائنس و ٹیکنالوجی’  ہی سمجھا جا تا ہے۔ ایک دور ایسا بھی تھا کہ جب موجودہ سائنس و ٹیکنا لو جی نامی کوئی بھی شے علم کے مسمٰی کے طور موجود نہ تھی۔ کچھ لو گوں کا خیا ل ہے کہ سا ئنس و ٹیکنالوجی کا موجودہ علم تمام انسانی تہذیبوں میں تحلیل ہوتا ہوا اپنا تاریخی سفرطے کرکے اس منطقی منزل تک پہنچا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ان کے نزدیک علم ایک مسلسل تاریخی عمل  (Historical progression) کا نام ہے جو کسی قسم کی ایمانیات کا مرہون منت نہیں۔ ہمارے متجددین حضرات اس فکر کو اس وجہ سے اپنا تے ہیں تا کہ موجودہ سائنس کو اسلامی تاریخ کا تسلسل ثا بت کر دکھا ئیں۔ ہو سکتا ہے اس تجزیہ میں ان کے لئے خوشی کا بہت سا سامان ہو ، لیکن حقیقت علم کا یہ تجز یہ کوئی علمی حیثیت نہیں رکھتا۔ سرمایہ دارانہ علم (یعنی سائنس و ٹیکنالوجی وغیرہ) کسی مسلسل تا ریخی عمل کے نتیجے میں نہیں بلکہ انسانی زندگی و کا ئنات کے بارے میں تصور حقیقت کی ایک ایسی تبدیلی سے پیدا ہوا جو تحریک تنویر (enlightenment) کے نتیجے میں عام ہوئی۔

١.٢:  سر مایہ دارانہ تصور حقیقت کی ایمانیات

اس تصور حقیقت نے جن بنیادی ایما نیات اور اقدار کو اپنانے کی طرف دعوت دی وہ المختصر یہ تھے۔

(الف)   آزادی    جس کا معنی یہ ہے کہ ہر شخص اپنی خواہشات کی ترتیب متعین کرنے کا اخلاقی طور پر مستحق ہے، یعنی یہ اسکا حق ہے کہ وہ جو چاہنا چاہے چاہ سکے اور اپنی چاہت حاصل کرنے کا زیادہ سے زیادہ مکلف ہونے کی جدوجہد کرے۔ مختصراً آزادی کا معنی خیرو شر طے کرنے کا حق انسان کو حا صل ہونا ہے ، یعنی انسان کے  ‘حق ‘  کا  ‘خیر و شر’  پر فوقیت رکھنا ہے [prioritization of right over good] (آسان لفظوں میں یہ تصور کہ خیر اور شر کا منبع اور اسکا تعین نفس انسانی سے ہوتا ہے )۔ مغربی انسان خود کو قائم بالذات (self-determined) اور آزاد (autonomous) تصور کرتا ہے، دوسرے لفظوں میں آزادی کا مطلب ہے  ‘عبدیت’   کا رد ، یعنی انسان کی حقیقت عبد ہونا نہیں بلکہ قائم بالذات یعنی خود اپنا خدا ہونا ہے ، کیونکہ انسان کو خیرو شر طے کرنے کا حق دینے کا مطلب اس بات کا انکار ہے کہ وہ عبد ہے اور اسکا مقصد حیات خواہشات کی تکمیل نہیں بلکہ خواہش کی نفی کرکے اپنے نفس کو خدا کی رضا کے آگے جھکا دینا ہے

            ب)    مساوات    جسکا مطلب یہ ہے کہ تمام انسانوں کی خوا ہشات کی ترتیب اور ان سے طے پانے والے تصور ات خیر مساوی اہمیت کے حا مل ہیں اور ان میں اصولاً کسی قسم کی درجہ بندی کرنا نا ممکن ہے، یعنی تمام تصورات خیر و شر اور زندگی گزارنے کے تمام طریقے برابر حیثیت رکھتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں مساوات کا معنی ہے  ‘نظام ہدایت’  کا رد ، یعنی اس بات کا انکار کرنا کہ اللہ تعالی نے انسان کو خیر و شر بتانے کیلئے ہدایت کا کوئی سلسلہ انبیاء کرام کے ذریعے قائم کیا ہے ، نیز انبیاء کرام کی تعلیمات خیر و شر طے کرنے کا کوئی حتمی معیار ہیں ۔ یہ اسلئے کہ نظام ہدایت کا معنی ہی یہ ہے کہ تمام انسانوں کی خواہشات کی ترتیب ہرگز مساوی معاشرتی حیثیت نہیں رکھتیں بلکہ وہ شخص جسکی خواہشات کی ترتیب تعلیمات انبیاء کا مظہر ہیں تمام دوسری ترتیبوں پر فوقیت رکھتی ہے، دوسرے لفظوں میں نظام ہدایت مساوات کا نہیں بلکہ حفظ مراتب کا متقاضی ہے جس میں افراد کی درجہ بندی کا معیار (differentiating factor)تقوی ہوتا ہے نیز اسلامی معاشرے و ریاست کا مقصد جمہوری معاشرے کی طرح ہرفرد کو اپنی اپنی خواہشات کے مطابق زندگی گزارنے کے مساوی مواقع فراہم کرنا نہیں بلکہ انکی خواہشات کو نظام ہدایت کے تابع کرنے کا ماحول پیدا کرنا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی نظریہ ریاست میں citizen(ایسی عوام جو اصولاً حاکم اور فیصلہ کرنے والی ہوتی ہے) اور عوامی نمائندگی(Representation of citizens) کا کوئی تصور ہے ہی نہیں کیونکہ یہاں عوام citizen  نہیں بلکہ رعایا ہوتی ہے اور خلیفہ عوام کا نمائندہ نہیں ہوتا کہ جسکا مقصد عوام کی خواہشات کے مطابق فیصلے کرنا ہو بلکہ وہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نائب ہوتا ہے جسکا مقصد رعایا کی خواہشات کو شریعت کے تابع کرنے کیلئے نظام ہدایت کا نفاذ ہوتا ہے۔ اس کے برعکس آزادی و مساوات کا معنی یہ ہے کہ خیر و شراور اپنی منزل کا تعین انسان خود طے کرے گا اور ہر شخص کا تصور خیرو زندگی گزارنے کا طریقہ مساوی معاشرتی حیثیت رکھتا ہے اور ریاست کا مقصد ایسی معاشرتی صف بندی وجود میں لانا ہوتا ہے جہاں ہر فرد اپنی خواہشات کو ترتیب دینے اورانہیں حاصل کرنے کا زیادہ سے زیادہ مکلف ہوتا چلا جائے

(ج)   ترقی:    جسکا حاصل یہ ہے کہ زندگی میں انسان کا مقصد اپنے ارادے اور خواہشات کی زیا دہ سے زیادہ تکمیل (maximum satisfaction) ہے اور ارادہ انسانی کی یہی منتہا تکمیل ترقی کا جوہر ہے ۔ دوسرے لفظوں میں ترقی کا مطلب ہے  ‘آخرت’  کا اور دنیا کے  ‘دارلامتحان ‘  ہونے کارد اور دنیاوی زندگی کو بذات خود مقصد (End in itself) سمجھنا ہے۔ ترقی درحقیقت وہ طریقہ ہے جسکے ذریعے آزادی اور مساوات کا اظہار ممکن ہوتا ہے، یعنی اگر کوئی معاشرہ آزادی اور مساوات کے اصول پر زندگی گزارنا چاہتا ہے تو وہ واحد طریقہ جسکے نتیجے میں ہر فرد اپنی خواہشات کی ترتیب طے کرنے اور اسے حاصل کرسکنے کا مکلف بن سکتا ہے ترقی یعنی سرمائے میں لامحدود اضافہ کرنے کی جدوجہد ہے ۔

            تصور حیات کی اس تبدیلی کے بدولت ایک ایسے  ‘جدید انسان ‘  کی تخلیق ہوئی جسے ہیومن (Human being)کہتے ہیں ۔ تحریک تنویر سے قبل اس انسان کا کوئی معاشرتی وجود نہ تھاکیونکہ ہر مذہب میں انسان سے مراد عبد (Mankind) ہی سمجھا جاتا تھا جو اپنی پہچان اور وجود خود اپنی ذات سے نہیں بلکہ خدا کے وجود سے حاصل کرتا تھا ، ہاں یہ الگ بات ہے کہ مختلف مذاہب کے ما بین اظہار عبدیت کے معتبر طریقے میں اختلاف موجود تھا۔ فوکالٹ (بیسویں صدی کے مشہور ترین مغربی فلسفیوں میں سے ایک) کا یہ کہنا صد فیصد درست ہے کہ ہیومن تو پیدا ہی سترہویں صدی میں ہوا ہے اس سے پہلے کسی تہذیب اور نظام زندگی میں ہیومن کا تصور موجود ہی نہیں تھا۔ ہیومن (وہ انسان جو خود کو قائم بالذات سمجھتا اور آزادی کا خواہاں ہے ) مغربی نظام زندگی کی روح رواں ہے اور تمام مغربی علوم جس انسان کے رویے سے سے بحث کرتے ہیں وہ یہی ہیومن ہے نہ کہ عبد۔ یہ ایک ایسا انسان تھا جسکی دلچسپی کا محور مذہبی رسوم عبودیت بجا لانے کے بجائے دنیاوی معا ملات سے بے پناہ رغبت تھی، اور جس میں ایک ایسا نیا ولولہ اور جوش تھا جو اسے غیر مشروط آزادی کی طرف مائل کرتا تھا ۔ اس تبدیلی کی تصویر کشی ڈاکٹر ظفر حسن نے اپنی کتاب  ‘سر سید اور حالی کا نظریہ فطرت ‘  میں خوبصورت الفاظ میں کی ہے:

 ”یہ ایک ایسا انسان تھا جو اپنے سے پہلے والے انسان سے ہر قسم کا تعلق منقطع کر دینا چا ہتا تھا…اٹھا رویں صدی کے اوائل میں کہا جا نے لگا کہ بزرگوں نے نئی نسل کو ایک ایسا معا شرتی نظام دیا ہے جو نرا دکھاوا اور دھو کا ہے اور جو ہر برائی کا ذمہ دار ہے … اٹھا رویں صدی کی نسلیں اس نظریے کو کہ انسان کو کوئی الہامی پیغا مات وصول ہوتے ہیں بالکل رد کرکے وحی کا انکار کر دینا چا ہتی تھیں ۔ القصہ مختصر وہ انسانی زندگی کو کسی حال میں بھی مذہبی طرز فکر سے نہ دیکھنا چا ہتی تھیں۔ ان کا گمان یہ تھا کہ وہ ایک نئی چیز کوجنم دیں گی، عقل کی روشنی سے وہ ظلماتی دور کو نیا نور بخشیں گی اور قدرت کے منصوبے کو دریافت کر لیں گی اور اسطرح انسان کا ایک پیدائشی حق یعنی انسانی خوشی اور خوشحالی انسان کے لئے بحال کر دیں گی ”

 ٢.٢:  جدید علم کا مطلب وہ صلاحیت جس سے انسان ہر خواہش کی تکمیل پر قادر ہو:

حیات انسانی کی مقصد یت کے بارے میں یہ گمراہ کن تصورات سترہویں اور اٹھا رویں صدی کی پیداوار ہیںجنکے نتیجے میں علم کا ایک نیا تصور ابھرا۔ اگر اس دنیا میں انسان کا مقصد ارادے اور خو اہشات کی تکمیل ہے تو پھر اس کائنات میں لامحدود خواہشات انسانی کی تکمیل کیلئے ضروری ہے کہ یہا ں کی تمام اشیاء و موجودات اسکے  ارادے کے تابع ہوجائیں، کیونکہ جب تک وہ انسانی ارادے کے تابع نہیں ہو جا تیں، تکمیل خواہشات کا خواب کبھی شر مندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ مثلاً انسان کی ایک خوا ہش یہ بھی ہو سکتی تھی کہ وہ ہوا میں اڑے، لیکن اس کی تکمیل کیلئے ضروری تھا کہ وہ زمین کی اپنی طرف گرانے کی قوت پر قابو پائے۔ اشیاء و موجودات کو اپنے ارادے کے تابع کرنے کیلئے ضروری تھا کہ انسان ایسی معلومات حاصل کرنے کے در پے ہو جو اسے تسخیر کائنات کی راہ سجھا ئے۔ لہذا اس تصور حقیقت (کہ زندگی کا مقصد ارادہ انسانی کی تکمیل ہے ) سے جو تصور علم نکلا اسکے مطا بق علم سے مراد ایسی بات جاننا ہے جس کے ذریعے انسان اس چیز پر قادر ہو جا ئے کہ اسکے ارادے کی تکمیل کیسے ہوسکتی ہے اور وہ علم جو انسان کو یہ بتا تا ہے کہ کائنات پر اسکے ارادے کا تسلط کیسے ممکن ہے اسے  ‘سائنس ‘  کہتے ہیں ۔ لہذا ترقی کا اصل معنی ہے علم کو سائنس کے ہم معنی قرار دینا، یعنی ترقی سے مراد ان معلومات میں اضافہ ہے جو انسانی ارادے کی تکمیل کو ممکن بناتی ہوں ۔ گویا مغربی تہذیب میں ‘ارادے و خواہشات کی تکمیل ‘  ہی معلومات کے مجموعے اور عالم (knower)کے درمیان تعلق کی بنیاد ٹھہر ا۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی تہذیب میں علم وہ چیز جاننا نہیں ہے کہ جس سے انسان اپنے رب کی رضا جان لے، یعنی علم یہ نہیں کہ مجھے وضو یا غسل وغیرہ کرنے کا طریقہ اور مسائل معلوم ہو جائیں بلکہ علم تو یہ ہے کہ میں یہ جان لوں کہ پنکھا کیسے چلتا ہے، بجلی کیسے دوڑتی ہے، جہاز کیسے اڑتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ گویا اب علم رضا ئے الہی کے حصول کا طریقہ جان لینا نہیں، بلکہ تسخیر کا ئنا ت یا با الفاظ دیگر انسانی ارادے کے کائناتی قوتوں پر تسلط قائم کرنے کا طریقہ جان لینے کے ہم معنی بن گیا ۔ دوسرے لفظوں میں یہاں علم اللہ تعالی کی رضا نہیں بلکہ نفس انسانی کی رضا اور اسکی تکمیل کا سامان فراہم کرنے والی معلومات کا نام پڑ گیا۔ تصور علم کی یہ تبدیلی انسانی تاریخ میں اپنی نوعیت کی پہلی تبدیلی تھی جس نے انسان کی کامیابی کو کسی خدا کی اطا عت  (obedience) کے ساتھ نہیں بلکہ لا متناہی خواہشات انسانی کی تکمیل و ارادہ انسانی کے تسلط (dominance) کے ساتھ مشروط کر دیا۔ سائنسی علم کا یہ مقصد اور اسکے پھیلاؤ کیلئے درکار ضروری اسباب کا نقشہ سائنس کے موجدین اور فلاسفہ نے بڑے وا شگاف الفاظ میں بیان کیا تھا۔ مثلاً گلیلیو کا مشہور مقولہ ہے:  Bible shows us the way to heavens, but it does not show the way heavens go  یعنی  ‘ بائبل ہمیں جنت میں جا نے کا راستہ تو بتاتی ہے، مگر یہ نہیں بتاتی کہ یہ کائنات کیسے چلتی ہے’ ۔ مشہور تاریخ دان H.G. Wellsرا جر بیکن جسے جدید سائنس کا بانی سمجھا جاتا ہے کے خیا لات کو کچھ اس طرح خراج تحسین پیش کرتا ہے:

” بیکن کی کتابیں جہالت کے خلاف بغاوت تھیں۔ اس نے اپنے دور کے لوگوں کو بتایا کہ وہ جہالت میں ڈوبے ہوئے  ہیں، اوریہ ایک ایسی بات تھی جسے اس دور میں کہنے کے لئے بہت ہمت درکار تھی۔ قرون وسطی کے لوگ اپنے دور کی ذہانت اورایمانیات کے سچ ہونے کے بارے میں جذباتی حد تک قائل تھے اور انکے خلاف ہر گز کوئی تنقید بر داشت نہ کرتے۔ راجر بیکن کی کتابیںان گھٹا ٹوپ اندھیروں میں روشنی کی کرن تھیں۔ وہ کہتا تھا کہ  ‘ غیر عقلی ایمانیات اور مسلمہ مقتدرہ (Authority) کی پیروی کرنا چھوڑ دو’۔ دنیا پر غور کرو، (حصول علم کے لئے ) تجربہ تجربہ اور تجربہ (پر زور ) ہی اسکا مقصد تھا۔ اسنے جہالت کے چار اسباب بیان کئے:  مسلمہ مقتدرہ کا احترام، اسلاف کے طور طریقوں پر عمل ، ریت و رواج کی پیروی ، اور ہمارے فخریہ مگر نہ سمجھ آنے والے دکھا وے۔ اگر ہم ان چیزوں سے جان چھڑالیں تو پھر سائنسی ایجادات اور مکیینیکل قوت سے بھر پور ایک نئی دنیا انسانیت کو دکھائی دے گی۔ ۔۔(میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ) بحری سفروں کے لئے بغیر ملا حوں کی ایسی مشینیں بنانا ممکن ہے جسے صرف ایک آدمی اس کشتی کی رفتار سے کئی گنا تیز چلا سکتا ہو گا جسے کئی ملا ح مل کر چلاتے ہیں۔ اسی طرح بغیر ڈھور ڈنگر سے چلنے والی ایسی سواریاں بنانا بھی ممکن ہے جو پرانے دور کی تیز ترین سواریوں سے تیز چلتی ہو نگی۔ اور ہوا میں اڑنے والی ایسی مشینیں بنانا بھی ممکن ہے جس میں انسان بیٹھ سکتا ہو اور وہ مشین بالکل پرندوں کی طرح پر ہلاکر چلتی ہو”

بیکن نے یہ تمام تفصیلات اپنی کتاب The New Atlantis میں بیان کی ہیں جس میں اسنے ایک ایسے فرضی جزیرے کی تصویر کشی کی ہے جہاں سائنسی تحقیقات کرنے والا ایک بہت بڑا ادارہ قائم کردیا گیا ہے۔ جہاں کا حاکم آنے جا نے والے لوگوں کو اس جگہ کی سیر کرا تا ہے اور ان سے کہتا ہے  ” ہمارے اس ادارے کا مقصد علل و معلول (cause and effect) و حرکت کائنات کے قوا نین اور انسانی ارادے کی حدود کی توسیع کرنے کے طریقے کا علم حا صل کرنا ہے تاکہ ہر چیز کرنا ممکن ہو سکے ”۔  ( A Short History of the World, by H.G. Wells, p. 200-01،  بحوالہ مریم جمیلہ صا حبہ کی معرکة الا راء کتا ب  Modern Technology and the Dehumanization of Man)۔ اس تصور علم میں فطرت ان معنوں میں انسا ن کی حریف ٹھہری کہ یہ انسانی ارادے کی تکمیل پر حد بندی کرتی ہے اور اسے تسخیر کرکے انسا نی ارادے و خوا ہشات کی تکمیل کیلئے استعمال کرنا ضروری ٹھہرا۔ آج بھی مو جودہ سائنسی علمیت کا یہ جنون ہے کہ انسانی عقل کو استعمال کر کے فطرت کے تمام رازوں سے پردہ اٹھا نا نیز انسانی ارادے کو خود اسکے اپنے سواء ہر بالا تر قوت سے آزاد کرنا عین ممکن ہے ۔ سائنس دانوں کا خیا ل ہے کہ جینیٹکس  (Genetics) کی فیلڈ میں تحقیقات کرکے انسانی خون میں ایسی تبدیلیاں لانا ممکن ہے جس کے بعد اسکے اندر پائے جا نے والے غضب اور حسد جیسے جذبات کو ختم کرکے دنیا کو جنگوں سے نجات دلائی جا سکے گی، اسی طرح سائنس دانوں کو امید ہے کہ موت پر قابو پانا ممکن ہے ، اور نجا نے کیا کچھ اور ۔سائنس کے اس اصل جنون کا اظہار دور جدید کی انگریزی زبان میں بننے والی سائنس فکشن فلموں میں سب سے واضح انداز سے نظر آتا ہے جن کے جملوں ، الفاظ اور مرکزی خیالات میں نت نئے انداز کے ساتھ انسان کی خود اپنا خدا بننے کی خوا ہش جلوہ گر ہوتی ہے۔

  ٣.٢:  سرمایہ دارانہ علم کی خصوصیات  ( طریقہ حصول علم کے اعتبار سے)

سائنس یا سر مایہ دارانہ طریقہ حصول علم میں حتمی بات اور قانون معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہوتا ۔ سائنسی علمیت حقیقت کے ارتقائی تصور پر ایمان رکھتی ہے جسے سمجھا نے کیلئے ہم ارتقائی تصور علم کی چند خصو صیات بیان کرتے ہیں:

(الف)    غیر حتمیت  (uncertainity):   ارتقائی علمیت کا اول اصول یہ ہے کہ حتمی سچ جاننا نا ممکن ہے ، البتہ سائنسی طریقہ علم استعمال کرکے ہم یہ امید کر سکتے ہیں کہ انسانیت ایک حتمی سچ کی طرف بڑھ رہی ہے ۔ اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انسانی کلیات کی مدد سے کسی حتمی سچ کا علم حاصل کرپانا ہی سرے سے ناممکن ہے۔

 (ب)     تردیدیت :    اس تصور علم میں وہی دعوی اور قضیہ علم کہلانے کا مستحق ہے جسے تجربے میں لا کر رد کرنا ممکن ہو ۔ سائنس میں علم کو غیر علم سے ممیز کرنے کا معیار تردیدیت  (falsification) ہے یعنی اگر کسی بات کو تجربے کے ذریعے غلط ثا بت کرنا نا ممکن ہو تو وہ علم کی تعریف پر پوری نہیں اترے گی ۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی تہذیب میں زندگی بعد الموت وغیرہ جیسے حقائق علم نہیں سمجھے جا تے کیونکہ یہ سائنس کی کسوٹی پر پورے نہیں اترتے۔ اس بات کو دوسرے انداز سے یوں سمجھئے کہ ارتقائی علم وہی ہو سکتا ہے جسے غلط ثا بت کرنا ممکن ہو کیونکہ جو بات غلط ثا بت نہیں کی جا سکتی اسمیں ارتقاء کہا ں سے آئے گا ؟

البتہ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ سرمایہ داری اور سائنس کی اپنی ایمانیات کبھی سائنس کے اس معیار پر نہیں جا نچی جا تیں بلکہ انہیں ما ننا تو ایما نیا ت کا حصہ ہے اور جو انہیں نہیں ما نتا وہ ہیو من کہلانے کا مستحق نہیں۔ مثلاً سا ئنس کا یہ مفروضہ کہ علم کا منبع انسان کی ذات ہے (یعنی علم انسان کی ذات سے نکلتا ہے) کسی بھی تجربے ثا بت نہیں کیا جا سکتا (یعنی یہ تردیدیت کے معیار پر پورا نہیں اترتا) لیکن پھر بھی سائنس اسے مفروضے کے طور ما ن کر آگے بڑھتی ہے ۔ گو کہ سائنسی علمیت میں حوادثات عالم کی تشریح اور حقیقت کیلئے کسی ایسی مقصدیت کو تلاش کرنا جسکی نسبت ارادہ انسانی سے باہر مثلاً خدا کی طرف ہو سائنس کے نزدیک ایک لایعنی بات ہے لیکن سائنس یہ نہیں بتا سکتی کہ خود انسانی ذات کی حقیقت کیا ہے بلکہ اسے آزاد اور خود مختا ر فرض کرتی ہے۔ ایسے ہی سائنس کا یہ مفروضہ بھی محض ایمان ہے کہ یہ کائنات کسی خارجی کنٹرول کے بغیر چلنے والا ایک ایسا مکمل قائم بالذات نظام ہے جسکے اندر تبدیلیاں اس کے اندرونی نظام کے تحت آتی ہیں نیز اسکی معنویت سمجھنے کیلئے کسی خدا کی ضرورت نہیں بلکہ اس مشین کو علت و معلول کے چند اصولوں کے ما تحت سمجھنا ممکن ہے ( البتہ سائنس کی دنیا میں ہونے والی تازہ ترین Quantum Mechanics   کی تحقیقات نے سائنس کے اس ایمان کی جڑیں ہلا کر کے رکھ دی ہیں )۔ گویا اگر انسان علت و معلول کے قانون کے ماتحت رونما ہونے والے سلسلے کو دریافت کرلے تو نہ صرف یہ کہ وہ اشیاء کی حقیقت سمجھ سکتا ہے بلکہ اسے قابو میں لاکر ان پر اپنا تسلط قائم کرسکتا ہے۔ سائنس کے نزدیک انسان کا اپنی آزادی کی تکمیل کیلئے کائناتی تسلط قائم کرنا ہی اصل حقیقت اور مقصد انسانی ہے۔

   (ج)    شک نہ کہ ایمان :    سرمایہ دارانہ تصور علم کے مطا بق کسی بات کو حتمی اور آخری سمجھ کر اس پر صمیم قلب سے ایمان لے آنا اور دوسروں کو اسکی دعوت و تبلیغ کرنا غیر علمی طریقہ کہلاتا ہے ۔ ہمیشہ اور ہر بات میں شک کرنا اور کسی چیز کو رد کرنے کی کوشش کرنا ہی اصل علمیت کہلا تی ہے ۔ جو شخص مذہبی حقائق پر ایمان لائے اسپر انتہا پسند ، بنیاد پرست اور دہشت گرد کے لیبل چسپاں کر دئیے جا تے ہیں

(د)    ترقی  (بہتری):    ہر نئے دور کا سچ پچھلے دور کے سچ سے بہتر گردانا جا تا ہے کیونکہ اس میں پچھلے دور کے تصور حقیقت کے اچھے پہلو کو شامل کرلیا جاتا ہے اور کمزور پہلووں کو چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ لہذا ہر آنے والا دور پچھلے دور سے بہتر ٹھرتا ہے ۔ مغربی دنیا میں سپنسر، ہیگل اور مارکس وغیرہ نے انسانی علم کے رفتہ رفتہ ایک خا ص منزل کی طرف بڑھنے کے تصور کی بناء پر تا ریخ کی اپنی اپنی تعبیرات پیش کی ہیں جن سب کا حا صل یہ ہے کہ بنی نو ع انسان بحیثیت مجموعی لا شعوری طور پر ایک ایسے عظیم الشان مقصد کی طرف رواں دواں ہے جہا ں پہنچنا اسکا مقدر ہے، لہذا ہر آنے والا دور پہلے سے بہتر ہے ۔ ان تمام تعبیرات کی حیثیت چند قصوں اور کہا نیوں سے زیادہ اور کچھ نہیں جو ان لوگوں نے اپنے اپنے بندکمروں میں بیٹھ کر گھڑ ی تھیں۔

جدیدیت پسند مسلمانوں کو مولوی کی یہ بات ایک آنکھ نہیں بھاتی کہ ” ہم مسلمانوں کا سب سے اچھا دور تو دور نبوی ، دور صحا بہ  اور سلف صا لحین کا دور تھا جو گزر چکا، لہذا اب آنے والا ہر دور پہلے سے بہتر نہیں بلکہ برا ہو گا جیسا کہ احا دیث مبا رکہ میں بیان کیا گیا ہے”۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ مولوی ہمیں پیچھے کی طرف لے جا نا چا ہتا ہے، اور اسمیں شک بھی کیا ہے کہ مولوی تو یہی چا ہتا ہے کہ دنیا کسی طرح پھر ویسی ہی ہو جائے جیسی آقا ئے دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم اور انکے اصحا ب کے دور میں تھی۔ اسی جرم میں مولوی پر دقیانوسی اور تنگ نظر ہونے کی پھپتی کسی جاتی ہے کہ یہ ہمیشہ یہ طے کرنے کیلئے کہ  ”ہمیں آگے کیا کرنا چا ہئے ”  مستقبل کے بجائے ما ضی کی طرف دیکھنے کو کہتا ہے ، یہ آج کے عمل کو ما ضی کے پیما نوں پر کسنے کی کو شش کر تا ہے، یہ ہدایت حا صل کرنے کیلئے آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی طرف پلٹنا سکھا تا ہے ، یہ تو ترقی کا دشمن ہے اور یہ دنیا کو پھر پتھروں کے دور میں وا پس لے جا نا چاہتا ہے۔

  (ہ)   ایک سے زیادہ حق کا امکان:    اس نظریہ علم میں چونکہ کسی بھی چیز کی با بت مسلمہ اور حتمی علم موجود نہیں ہوتا ، لہذا ایک ہی وقت میں ایک سے زیادہ حق نیز دو مختلف افراد کیلئے دو مختلف حق ہو سکتے ہیں۔ سائنس کی دنیا میں بیک وقت ایک ہی شے کے بارے میں دو مختلف نظریات (theories) کا ہونا معمول کی بات ہے۔

   (و)  تحقیق برائے تحقیق کا نہج :    چنانچہ تحقیق برائے تحقیق کا نام ہی علمی کاوش پڑ گیا، چاہے وہ تحقیق بندروں اور کتوں وغیرہ کے حالات زندگی جمع کرنے کا کام ہی کیوں نہ ہو۔ ہر لغو سے لغو بات جس میں انسانی خواہش کوئی معنی دیکھتی ہو لائق تحقیق ٹھرتی ہے کیونکہ کسی شے کے معنی اللہ تعالی اور اسکے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال کی روشنی میں نہیں بلکہ انسانی خوا ہشات اور ارادے کی تکمیل کے پیمانے پر تول کر متعین کئے جاتے ہیں۔

   (ذ)    ارتقائی تعبیرات کی تلا ش :    دور حا ضر میں موجود ہر معاشرتی و انسانی ادارے و عمل کی وحی سے علی الرغم ایک ارتقائی تعبیر پیش کرنے کی روش عام ہو جا تی ہے اور اس فرضی قیاس آرائی کو ہی علمی کا رنامہ سمجھا جا نے لگتا ہے۔ اس ضمن میں ایک بہت عمدہ مثال یاد آئی۔ ایک مرتبہ ہمارے ایک بزرگ ساتھی (اللہ تعا لی انہیں جنت نصیب فرمائے) نے ایک محفل میں شادی کے مو ضوع پر ہونے والی ہوئی گفتگو میں تمام شرکاء مجلس سے سوال کیا  ‘کیا آپ لوگ جا نتے ہیں کہ شادی کا ادارہ کیسے قائم ہوا؟’  سب نے پو چھا کہ جناب آپ بتا ئیے ۔ تو انہوں نے کہا کہ اولاً تمام انسان بھی جانوروں کی طرح جنسی تعلقات استوار کرتے تھے، یعنی جس مرد و عورت کا جس سے دل چا ہا خوا ہش پوری کرلی۔ ایک عرصے تک معا ملہ یو نہی چلتا رہا، لیکن پھر آہستہ آہستہ انسا نوں میں جذبہ رقا بت نے جو ش مارا، اور لوگوں کو یہ بات بری محسوس ہونے لگی کہ کل تک جو عورت میرے ساتھ تھی آج کسی اور مرد کے ساتھ کیوں ہے؟ اس جذبے کے زیر اثر انسانی معا شروں میں طا قت کے قانون کا راج شروع ہونے لگا یعنی جس نے آگے بڑھ کر پہلے کسی عور ت پر قبضہ جما لیا پس وہ ہمیشہ کیلئے اسکی ہو گئی۔ پھر بچوں کی پیدائش کے بعد بیوی اور بچوں کی دیکھ بھال کے مسائل سامنے آنے لگے جنہیں حل کرنے کیلئے لوگوں نے کئی طرح کے قوانین بنانے شروع کر دئیے۔ مثلاً یہ کہ بچوں کی ذمہ داری اسی پر ہو گی جس نے عورت پر قبضہ جما یاتھا وغیرہ وغیرہ۔ یوں انسانیت لمحہ بہ لمحہ آگے بڑہتی رہی یہا ں تک کہ لوگوں نے مرد و عورت کے جنسی تعلق کی بنیاد شادی کے ادارے کے ساتھ منسلک کردی۔ جب وہ بزرگ تمام کہانی سنا چکے تو میں نے پو چھا کہ یہ کہا نی آپ نے کہاں سے سنی ، تو فرمانے لگے کہ فلاں سوشل سائنس کے جرنل میں فلاں محقق نے یہ مقا لہ لکھا ہے۔ میں نے کہا یہ بتا ئیں کہ اس پوری کہا نی میں انسانی معا شروں کی کردار سازی میں ایک لاکھ چو بیس ہزار سے زائد انبیاء کرام کا کردار کیا رہا؟ کیا انبیاء نے لوگوں کو نہیں بتایا کہ انہیں کیسے زندہ رہنا چا ہئے نیز کیا انکی تعلیمات کا ان پر کوئی اثر نہیں ہو تاتھا ؟ اس کہانی سے تو یہ تصور ابھرتا ہے کہ گویا اول تو انبیا ء نا م کی کوئی ہستی انسانی تا ریخ میں گزری ہی نہیں، اور اگر تھی بھی تو شاید وہ دنیا کی سیر وغیرہ کرنے کیلئے آتے تھے نیز انسانوں اور معا شروں نے اپنی زندگیاں وحی الہی کی روشنی میں نہیں بلکہ اپنے حیوانی جذبا ت کے تحت گزاری تھیں۔ یہ کہانی تو ایسی ہی ہے کہ جیسے کوئی شخص حضور پر نور  ۖ کا نام لئے بغیر یہ کہے کہ مسلمانوں کے معاشروں میں پایا جا نے والا شادی کا تصور در حقیقت اسلام سے قبل عربوں کے معا شرے میں پائے جانے والی جنسی بے راہ روی کی ارتقائی شکل ہے۔ ظاہر بات ہے کہ یہ ایک مضحکہ خیز کہانی ہے، کیونکہ ہر شخص یہ جانتا ہے کہ یہ معا شرتی تبدیلی انسانی جذبات کے محرکات میں ارتقاء کے طور پر نہیں بلکہ ایک نبی کی تعلیمات پر عمل کرنے کے نتیجے میں پیدا ہوئی۔ دوسری بات یہ کہ اگر شادی کے ادارے کا یہ سفر کوئی ارتقائی سفر تھا تو پھر مغرب میں یہ ادارہ ٹوٹ کیسے گیا؟ ارتقاء کا تقاضا تو یہ تھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ ادارہ مضبوط سے مضبوط تر ہو تا چلا جاتا ۔ اصل بات یہ ہے کہ جب کوئی معاشرہ انبیاء کرام کی تعلیمات کو پس پشت ڈال کرزندگی گزارتا ہے تو وہاں زندگی کا اظہار صرف حیوانی سطح پر ہی ہو تا ہے جسکا نظارہ ہم مغربی دنیا کی غلیظ اور پلید معا شرت میں کر سکتے ہیں ۔

یہ محض ایک مثا ل تھی، ورنہ اس طرز کی اور بھی کئی فرضی کہا نیاں ہمارے ہاں مشہور ہیں، مثلاً یہ کہ سب سے پہلے انسانیت پر غاروں اور پتھروں کا دور گزرا کہ جب سب لوگ غاروں میں رہتے تھے، پتے اور جا نوروں کی کھالوں سے اپنے بدن ڈھا نپتے تھے، جنگلوں میں جنگلیوں کی طرز کی زندگی اختیار کئے ہو ئے تھے وغیرہ وغیرہ۔ ان تمام کہانیوں کا اصل مسئلہ یہی ہے کہ یہ سب کی سب انسانی معا شروں کی تشکیل میں وحی اور انبیاء کرام کے کردار کو نظر انداز کرنے کیلئے گھڑی گئی ہیں جسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مغرب میں وحی کو علم نہیں سمجھا جاتا ۔

٤.٢:  سرمایہ دارانہ علم کی منطقی منزل

            ایک نئی شخصیت کا جواز :  سر ما یہ دارانہ جا ہلی تصور علم نے اخلاق رزیلہ سے متصف ایک نئی قسم کی شخصیت کے اظہار کا جواز فراہم کیا جس کے نتیجے میں ایک نئی انفرادیت معا شروں میں مقبول ہوئی۔ سر مایہ دارانہ تصور علم سے پہلے صرف ایسی شخصیت ہی معا شروں میں عزت کی نگا ہ سے دیکھی جاتی تھی جن کی زندگی انبیاء کرام کی تعلیمات اور اسوائے حسنہ کا منہ بولتا ثبوت ہوتی۔ لیکن اس تصور علم نے ایک ایسی شخصیت کے علمی جواز کی بنیادیں فراہم کیں جو انبیاء کرام کی تعلیمات سے کوسوں دور اور اخلاق رزیلہ سے متصف ہونے کے با وجود بھی معا شرے میں ایک با عزت علمی مقام پر فائز ہوسکتی تھی۔ اس ضمن آئن سٹائن کی مثال نہا یت وا ضح ہے جسے سائنس کی دنیا میں ایک امام کی سی حیثیت حاصل ہے لیکن اسکی زندگی زنا و بدکاری کی غلاظت سے لت پت تھی (آئن سٹائن کے نجی معاملات زندگی ان خطوط سے واضح ہوتے ہیں جو اسکی پوتی نے چھاپے ہیں)۔ ایسے ہی با وجود اسکے کہ کانٹ اغلام باز تھااسے مغربی فلسفے میں بلند ترین مقام حا صل ہے ۔ اگر آپ مغربی علم کے کسی دلدادہ شخص کو یہ مثال دیں تو وہ کہے گا کہ اسکے اخلاق کو مت دیکھو بلکہ اہم چیز اسکا سائنسی کارنا مہ ہے۔ گویا مذہبی اخلاقیات اب علم کے معنوں میں شا مل ہی نہیں رہیں۔ سرمایہ دارانہ تصور علم میں ایسی معلومات کو علم سمجھا جا تا ہے جو سرمایہ دارانہ اخلاقیات یعنی حرص و حسد کی غماز ی کرتی ہوں (١سکی تفصیل آگے آرہی ہے)۔ آج علم کا تصور اس حد تک گر چکا ہے کہ اگر ایک ڈاکٹر ، وکیل، ایم بی اے وغیرہ خاتون ننگے سر اور نیم برہنہ حالت میں ٹی وی پر بیٹھ کر انٹرویو دے رہی ہو تو اسکے علمی کارناموں کا تعارف اس شان سے کرایا جاتا ہے گویا وہ کتنی بڑی عالمہ ہے۔ اسکے مقابلے میں گاؤں میں رہنے والی خاتون جسکی حیا اسے نا محرم کے سامنے جانے سے روکتی ہو اسے جاہل ، ان پڑھ اور گنوار کہا جاتا ہے۔ سرمایہ دارانہ تصور علم نے مادہ پرستا نہ سوچ اور دنیا داری کے رجحا نات کو تقویت بخشی اور رہی سہی عیسائی اخلاقیات کا جنازہ مارٹن لوتھراور کیلوین جیسے مفکرین کے خیالات سے برآمد ہونے والی پروٹسٹنٹ ازم نے نکال دیا۔ اس فرقے نے عیسائی عوام میں یہ خیالات عام کئے کہ بائبل کی تشریح ہر شخض خود کر سکتا ہے، انسان اور خدا کے درمیان تعلق فرد کا نجی معاملہ ہے جس کی صحت و عدم صحت پرکسی دوسرے فرد (مثلاً پوپ) کو حکم لگانے یا فتوی دینے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے ، چونکہ خدا اور بندے کا تعلق نجی اور اندرونی احساسات پر مبنی ہے لہذا ہر شخص کو حق حاصل ہے کہ عبادت کرنے کا جو بھی طریقہ اختیار کرنا چاہے کرلے، دنیا کی کامیابی آخرت کی کا میابی کا پیش خیمہ ہے ، اصل عبادت چرچ جانا یا ذکر و ازکار کرنا نہیں بلکہ دنیا کے کام زیادہ انہماک سے کرنا ہے نیز فطرت کا مطا لعہ بھی اتنا ہی اہم ہے کہ جتنا بائبل کا۔ در حقیقت جدیدیت کی کامیابی کی ا صل وجہ مادہ پرست فلسفیوں کے افکار سے زیادہ وہ مذہبی عناصر تھے جنہوں نے اصلاح مذہب کے نام پر مذ ہبی تعلیمات کو مسخ کرکے جدیدیت کی مذہبی توجیہات بیان کیں ۔ یہی وجہ ہے کہ کارل مارکس اورمیکس ویبر جدیدیت کی کامیابی کواصلاح مذہب کی تحریک  (Reformation) کا نتیجہ قرار دیتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ اگر اصلاح مذہب کی تحریک کا میاب نہ ہوتی تو جدیدیت یورپ میں شکست کھا جاتی کیونکہ مذہبی آزادی کی روش ہی وہ راستہ ہے جو آگے چل کر نفس پرستی اور دنیا کی محبت جیسے جذبات دلوں میں راسخ کرنے کا باعث بنتی ہے۔

مذہبی ایمانیات کا انکار :  ادراک حقیقت کے اس ارتقائی تصور کا دوسرا منطقی نتیجہ بالاخر پس جدیدیت  (post-modernism) کی شکل میں ظاہر ہوا جس نے حق کے وجود ہی کا انکار کر ڈالا۔ جدیدیت نے ادراک حقیقت کے لئے سائنسی طریقے پر اعتماد کرنے کی دعوت تو دی لیکن ساتھ ہی اس نے یہ بھی کہا کہ حقیقت کا حتمی ادراک ممکن ہی نہیں۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب کسی حتمی حقیقت تک پہنچنا ممکن ہی نہیں تو اسے تلاش کیوں کیا جا ئے؟ نیز جب حقیقت معلوم ہی نہیں تو یہ کیسے طے ہو گا کہ جس سائنسی طریقے پر ہم عمل پیرا ہیں و ہ ہمیں حقیقت کے قریب کر رہا ہے یا دور ؟ یعنی جب منزل کا ملنا ہی نا ممکن ٹھرا تو اس بات کی کیا اہمیت باقی رہ جاتی ہے کہ  ‘کس طرح’   دوڑا جائے ؟ یہی وہ سوالات ہیں کہ جن کا جدیدی مفکرین کے پاس کوئی جواب تھا ، نہ ہے اور نہ کبھی ہو سکتا ہے۔ اس فکر نے کسی حتمی حقیقت  (absolute truth) کے وجود ہی کا انکار ڈالا، یعنی حقیقت ایک اضافی (relative) شے بن گئی جو ہر فرد، معا شرے اور زمانے کے لئے مختلف ہو سکتی ہے۔ ان مفکرین کے نزدیک زندگی بعد الموت وغیرہ کے سوالات کالعدم اور لا یعنی ٹھرے یعنی جب مرنے کے بعد زندگی ہے ہی نہیں تو اسکے بارے میں سوچنا بے کار کی بات ہے۔ انکے نزدیک اصل مسئلہ تو اس وجود انسانی کا ہے جو اس دنیا میں اسے حا صل ہے ، اس وجود سے پہلے انسا ن نہ تو کہیں تھا اور نہ ہی اس کے بعد وہ کہیں اور جا نے والا ہے۔ اس فکر کے نتیجے میں پس جدیدیت کے نزدیک دنیا وی زندگی کی حقیقت اور معنویت محض کھیل تما شہ اور مزے کرنا ہے، وٹنگسٹائن کی فکر کا نچوڑ یہ ہے Life is a game, and maturity is to play it seriously  یعنی زندگی ایک کھیل ہے اور عقلمندی یہ ہے کہ اسے سنجیدگی سے کھیلا جائے۔ بیسویں صدی کے وسط میں جب یہ فکر یورپ میں عام ہوئی تو نو جوانوں میں خود کشیاں کرنے ، سب کچھ چھوڑ کر جنگلوں جا بسنے اور ہیروئن اور بھنگ استعمال کرکے مست رہنے کے رجحا نات پروان چڑھے ۔ وٹنگسٹائن جیسے بڑے فلسفی نے با لآخر تنگ آکر خود کشی کی۔ یہ نت نئے فیشن کی بھر مار اور راک موسیقی کا پھیلاؤ اسی زمانے کی پیداوار ہے ، الغرض ہر ایسا کام کیا جانے لگا جسے لوگ عجیب سمجھتے تھے اور ہر ایسے کام میں معنی تلاش کئے گئے جنہیں لوگ عام طور پر بے معنی گردانتے تھے ۔ ظاہر سی بات ہے کہ اگر زندگی بے معنی ہے تو پھر کسی خا ص طریقے سے ہی زندگی گزارنے میں معنی کیوں تلاش کئے جا ئیں، ہر طریقہ مساوی طور پر بے معنی ہے لہذا سب کا اظہار کرنا چا ہئے۔ آخر کسی خاص طریقے کے ساتھ ہی گا نا کیوں گا یا جا ئے، ہر اس طریقے سے گا نا گاؤ جسے لوگ عام طور پر غیر عقلی  (senseless) سمجھتے ہیں۔ یہ اسی فکر کا نتیجہ ہے کہ آئے دن سر اور دا ڑھی کے بالوں کے نئے نئے انداز نظر آ تے ہیں، کبھی پینٹ کے پائنچے پھاڑ لئے جا تے ہیں کبھی اسے الٹا کر کے پہنا جا تا ہے، کبھی مرد کانوں میں با لیاں لٹکا ئے گھومتے دکھا ئی دیتے ہیں، اور عورتوں کے فیشن کی بھر مار وغیرہ وغیرہ، اور جب ان سے پو چھا جا ئے کہ بھائی یہ کیا کر رہے ہو تو جواب ملتا ہے  ‘فیشن’۔ فیشن کا مطلب ہی بے معنی کاموں میں معنی تلاش کرنا ہے، آزای کا خواہاں شخص معنویت  ‘فرق’  (difference) میں تلاش کرتا ہے یعنی آزاد انفرادیت کا اظہار فرق کے طریقے سے ہوتا ہے ، جبکہ عبدیت کا اظہار فرق میں نہیں بلکہ یکسانیت (similarity) میں ہوتا ہے یعنی میری ذات جس قدر آقائے دو جہاںۖ کی ذات والا میں فنا ہوگی اتنی ہی زیادہ معنی خیز ہوگی۔  یہی وجہ ہے کہ آج بھی مولوی اور صوفی وہی حلیہ اپناتا ہے جو چودہ سو برس قبل کانقشہ پیش کرسکے۔ زندگی بعد الموت اور اسکی اصل حقیقت کے انکار کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ان مفکرین کے ہاتھ زندگی بعد الموت کے خلاف کوئی ایسی قاطع دلیل آ گئی ہے جسے رد کرنا نا ممکن ہو، بلکہ یہ حقائق حصول علم کے ان ممکنہ ذرائع کی گرفت سے ہی باہر ہیں جن پر وہ ایمان رکھتے ہیں (یعنی حواس خمسہ اور عقل انسانی ) ۔ اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ اس دنیا میں ادراک حقیقت کا ذریعہ اگر کوئی ہے تو وہ وحی یعنی انبیاء کرام کی تعلیمات ہیں جنکی حیثیت خبر صا دق کی ہے اور جنہیں کسی اور ذریعہ علم سے پرکھا (judge) نہیں جا سکتا ہے کیونکہ یہی اصل میزان ہیں۔

پس جدیدیت کے ان افکار ات کو ان معنوں میں علمی سطح پر برتری حاصل ہوئی ہے کہ جدیدیت کے حامی مفکرین مثلاً ہیبر ماس وغیرہ کے پاس ان کے جواب میں مغربی تہذیب کے آفاقی نیز عقلی طور پر برترہونے کی کوئی دلیل موجود نہیں رہی۔ البتہ ابھی اس فکر کا اظہار سیاسی سطح پر نہیں ہوا ، لیکن یا د رہے کہ فکر پہلے کتا بوں میں لکھی جاتی ہے اور پھر وہ معاشرے اور ریاست میں نفوذ کرتی ہے ۔ آخر لوگ ایک دن میں ہی تو enlightenedنہیں ہوئے تھے بلکہ کئی صدیوں کی خونی تاریخ کے بعد ہی جدیدیت معا شروں پر غالب آئی۔ بدقسمتی سے ہمارے مسلم مفکرین  (جو کئی صدیاں پیچھے کی سوچتے ہیں) جدیدیت کیلئے اسلامی علمیت سے دلائل فراہم کرنے کی فکر میں کوشاں ہیں : کبھی اجتہاد کے نام پر نصوص شریعت میں تبدیلی کی بات کرتے ہیں ، کبھی اسلام کی نئی تعبیر کی بات کرتے ہیں ، کبھی اجماعی مسائل امت سے انحراف کی دعوت دیتے ہیں ، کبھی مغربی افکار و تصورات کی حقیقت سمجھے بغیر ہی انہیں اسلام میں تلاش اور انکا اسلامی جواز فراہم کرتے ہیں ، اور سب سے بڑھ کر عوام کو مذہب سے برگشتہ کرنے کیلئے مولوی کو طعن و تشنیع کا نشا نہ بناتے ہیں تاکہ عوام کا رابطہ علما سے کٹ جائے اور جدیدیت کی راہ ہموار ہو سکے۔ خوب سمجھ لینا چا ہئے کہ مساجد و مدارس اور علمائے کرام کے وقار کا تحفظ درحقیقت جدیدیت کے خلاف جنگ میں اسلام کی زندگی اور بقا کا مسئلہ ہے، اگر ہم اس محاذ پر ہار گئے تو پھر جدیدیت کے سیلاب کے آگے بندھ باندھنے والا کوئی منفرد گروہ باقی نہیں رہے گا ۔

 ٥.٢:  سرمایہ دارانہ علم کی تشکیل

سرمایہ دارانہ علم در حقیقت  (anthopocentric approach) یعنی  ‘حوادثات عالم اور انسانی زندگی اور معا شروں میں رو نما ہونے والی تبدیلیوں کی تشریح و تعبیر میں انسانی نقطہ نگاہ سے غور کرنے ‘  کے رویے کا نام ہے ۔ دوسرے لفظوں میں وحی سے حا صل ہونے والے علم کی روشنی میں اس کائنات اور انسانی معاشروں کو سمجھنے کی کو شش کرنا سرمایہ دارانہ تصور علم میں معتبر علم نہیں کہلاتا۔ سائنسی علوم کے ماہرین جب بھی انسانی رویوں کے اخلاقی و غیر اخلاقی اظہار اور معا شروں و ریاست کی صحیح اور غلط تشکیل و ترتیب کے اصول وضع کرتے ہیں تو اسکے لئے وہ ہر گز وحی کی طرف رجوع نہیں کرتے، بلکہ وہ آزادی، مساوات اور ترقی کے مجموعی خا کے کو سامنے رکھ کر ان سوالات پر غور کرتے ہیں۔

تنویری علم سائنس کی دو شاخوں کی صورت میں متشکل ہو کر آج ہما رے سامنے موجود ہے:  (١)  طبعی سائنسز اور  (٢)  معاشرتی سائنسز  (natural and social sciences)۔ پہلے کا دائرہ کار انسانی ارادے کے کا ئناتی قوتوں پر تسلط کے امکانات کو بڑ ھا نا جبکہ دوسرے کا مطلوب ایک ایسے معیاری معا شرے اور ریاست کی ترتیب و تنظیم کا لائحہ عمل وضع کرنا ہے جہا ں افراد کو زیادہ سے زیادہ آزادی اور سرمائے کی بڑہوتری کے مواقع میسر آسکیں۔ اس بات کی مثال یوں سمجھی جا سکتی ہے جیسے اسلامی علمیت علم الفقہ، کلام اور تصوف وغیرہ کی صورت میں متشکل ہوکر سا منے آئی ہے۔ یعنی جیسے علم اصول فقہ اور فقہ کا مقصد قرآن و سنت میں وارد شدہ نصوص سے وہ اصول اخذ کرنا ہے جنکی روشنی میں یہ طے کیا جا سکے کہ ان گنت انسانی اعمال و افعال سے رضا ئے الہی کے حصول کا درست طریقہ کیا ہے (یعنی ان اعمال کا شرعی حکم بیان کیا جا سکے ) نیز یہ معلوم کیا جا سکے کہ افراد کے تعلقات کو کن ضروری بندشوں کا پا بند بنا کر معاشرے کو احکامات الہی کے تابع کیا جاسکتا ہے ۔ بالکل اسی طرح سوشل سائنسز کا مقصد ایک طرف سرمایہ دارانہ شخصیت ، معا شرے و ریاست کی علمی توجیہہ پیش کرنا ہے اور دوسری طرف یہ افراد کے تعلقات میں آزادی کی ان لازمی حد ود کا تعین کرنے کے اصول وضع کرتی ہیں جنکے نتیجے میں سرمایہ دارانہ معا شرتی و ریاستی صف بندی وجود میں آسکے ۔ تنویری مفکرین کا یقین تھا کہ جس طرح فطرت میں ایسے قوانین ہیں جو اشیاء پر عائد ہوتے ہیں بالکل اسی طرح انسانی معا شروں میں بھی ایسے قوانین فطرت ہیں جن کے تحت معا شرے قائم رہتے ہیں لہذا معا شروں اور انسانی تعلقات کی تفہیم کے لئے بھی سائنسی تجربے اور مشاہدے کا طریقہ استعمال کرنا ضروری ہے ۔ سو شل سائنسز کا مقصد ایک ایسے نئے  دستور، ایک ایسے نئے قانون، ایک ایسے نئے معا شرتی نظام کا قیا م ہے جسے الہامی اور آسمانی قانون سے کوئی واسطہ یا رابطہ نہ ہو۔ ایک ایسا نیا سیاسی ڈھانچہ جس میں کوئی رعایا  (subjects) نہ ہو بلکہ سب شہری  (citizens) ہوں۔

 ٦.٢:  سرمایہ دارانہ علمی اخلاقیات:  ‘خریدو فروخت’ (Buying and Selling)  کی ذہنیت کا عموم

لیوتارڈ ایک نامی گرامی پس جدیدی فلسفی ہے جس نے سائنسی علمیت کی حقیقت  ‘خرید وفروخت’  کے معنی خیز الفاظ میں بیان کی ہے ۔ اس بات کی تفہیم کیلئے خواہشات اور سرمائے کے تعلق کو سمجھنا ضروری ہے۔ تسخیر کائنات اور لامحدود خواہشات کی تکمیل کو مقصد علم ٹھرانا درحقیقت سرمائے کی بڑھوتری (accumulation of capital) کو اپنا مقصود بنانا ہے، کیونکہ ہر خواہش کی تکمیل سرمائے ہی کی مرہون منت ہے۔ یعنی اگر کوئی فرد یا معاشرہ آزادی کا خواہاں ہے تو اسکا مطلب صرف یہ ہے کہ وہ درحقیقت سرمائے میں اضافے کا خواہاں ہے کیونکہ زیادہ سے زیادہ خواہشات کی تکمیل بغیر سرمائے کے ناممکن العمل ہے۔ مثلاً ایک شخض یہ چاہتا ہے کہ اس کے پاس عالی شان بنگلہ ہوجس میں دنیا بھر کی پر تعیش اشیاء الٹ دی گئی ہوں، نئے ماڈل کی گاڑی ہو، کئی عدد پلاٹ اور کئی کمپنیوں کے شئیرز اسکی ملکیت ہوں جن سے حاصل ہونے والے نفع سے وہ مزید کاروبار کر سکتا ہووغیرہ وغیرہ ، تو ظاہر بات ہے کہ یہ تمام خواہشات بغیر سرمائے کے عملی شکل اختیار نہیں کر سکتیں۔چنانچہ معاشیات کا مضمون اس بات کو باور کراتا ہے کہ ایک فرد اپنی انفرادیت (یاآزادی) کا اظہار عمل صرف (Consumption)کے ذریعے کرتا ہے یعنی وہ جتنی زیادہ تعداد میں اشیاء کو اپنے استعمال میں لا کر صرف (Consume)کرتا ہے اتنی ہی زیاد ہ خواہشات کی تسکین کر سکتا ہے۔ اورایک صارف (Consumer) زیادہ سے زیادہ خواہشات کی تسکین تبھی کر سکتا ہے جب اسکے پاس زیادہ سے زیاد ہ اشیاء خریدنے کیلئے آمدنی (Income) ہو۔اسی طرح معاشیات کا مضمون یہ بھی کہتا ہے کہ انسان کی خواہشات لامحدود (Infinite)ہونی چاہئیں ،مگر چونکہ ان خواہشات کو پورا کرنے کے ذرائع لامحدود نہیں ہیں، لہذا زیادہ سے زیادہ خواہشات کی تکمیل کیلئے ضروری ہے کہ فرد اپنے ذرائع کو اپنے وجود کی ممکنہ حد تک بڑھانے کی کوشش میں لگارہے(ذرائع میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کرنے کی اسی خواہش کو ماہرین معاشیات عقلیت (Rationality) کا معیار کہتے ہیں ، یعنی عقلمند شخص (Rational agent)وہی ہے جو سرمائے میں لامحدود اضافے کی خواہش رکھتا ہو )۔ آزادی کا مطلب ہی سرمائے کی بڑہوتری ہے اس کا کوئی دوسرا مطلب نہیں، جو شخص آزادی کا خواہاں ہے وہ لازماً اپنے ارادے سے اقدار کی وہی ترتیب متعین کرے گا جس کے نتیجے میں اس کی آزادی میںاضافہ ہو کیونکہ سرمایہ ہی وہ شے ہے جو ممکن بناتا ہے کہ انسان جو کچھ بھی چاہے حاصل کر سکے۔ سرمائے کی بڑھوتری ہی وہ کسوٹی ہے جس پر ہیومنز کی ہر خواہش اور خواہشات کی تمام ترتیبوں کو جانچا جاتا ہے اور انکی تقابلی قدر (Exchange value)اسی قدر محض کے مطابق متعین ہوتی ہے۔ سرمایہ دارانہ ذہنیت (rationality) ہرفعل کو خود ارادیت اور خود غرضیت کے پیمانے پر تول کر اس کی تقابلی قدر متعین کرتی ہے۔ جب للہیت، محبت، طہارت، تقوی، آخرت کا خوف، عفت، حیا، غیرت، ایثار، شوق شہادت کو اس پیمانے پر تولا جاتا ہے تو یہ بالکل بے وقعت اور بے قدر دکھائی دیتی ہیں۔ ایک سول سوسائٹی یا سرمایہ دارانہ معاشرے میں ا ن اوصاف حمیدہ کے پنپنے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ۔ اس معاشرے کے نظام تعلیم کا مقصد تسخیر کائنات اور تمام فطری قوتوں کو ہیومن کے ارادے کے مطیع بنانے کو بطور مقصد کے قبول کرنے کی ایمانیا ت کو مستحکم بنانا ہوتا ہے  (مزید تفصیل کیلئے دیکھئے :  ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری ، ساحل اگست ٢٠٠٦:  ص  ٣٨) ۔

            اس بحث سے واضح ہوا کہ سرمایہ دارانہ علم کا مقصد سرمائے کی بڑھوتری برائے بڑھوتری ہوتا ہے۔ سرمائے کی بڑھوتری کا یہ عمل اسی وقت ظہور پزیر ہوتا ہے جب علم بذات خود نفع خوری (profit-maximization) کے نظم (Discipline) کا پابند اور اسکے تابع ہوجائے ، یعنی علم تعمیر کیا جائے  ‘بیچنے’  کیلئے اور اسے ‘خریدا ‘  جائے صرف (consumption)کرنے کیلئے [knowledge is produced for sale, and purchased for consumption]۔ دوسرے لفظوں میں تکمیل خواہشات کی ذہنیت علم کو خریدوفروخت میں تبدیل کردیتی ہے اور خرید و فروخت کی یہ ذہنیت ہی سرمایہ دارانہ علمیت کی اصل شکل (essence) ہے۔ چنانچہ سرمایہ دارانہ معاشروں میں سائنس و ٹیکنالوجی کی ایجادات سے لیکر سوشل و بزنس سائنسز کی تحقیقات تک خرید وفروخت کے اسی عمل کے اظہار کا ذریعہ ہوتی ہیں۔ مثلاً جب ایک یونیورسٹی میں کمپیوٹر یا بزنس سائنس کا طالب علم چار سال کی محنت شاقہ کے بعد اپنے تعلیمی کیرئیر کے آخری سال میں اپنا تحقیقی کام (Research project) کرنے لگتا ہے تو اسکے اساتذہ اسکے پلے یہ ہدایت نامہ باندھتے ہیں:  ‘بیٹا ایسا کام کرو جسکی کوئی مارکیٹ میں مانگ  (Market value) ہو ، فضول کاموں میں وقت برباد مت کرو’۔ درحقیقت یہی نصیحت تمام تر علم اور ٹیکنالوجی کا نقطہ آغاز و انتہا ہوتا ہے۔ تعلیم، تحقیق اور کنسلٹنسی (consultancy) کے تمام تر ادارے اسی اصول پر اور ایسا ہی علم تعمیر کرتے ہیں جسے زیادہ متوقع منافع و آمدنی کے ساتھ کمپنیوں کو بیچنا ممکن ہو، اور کمپنیاں ایسے ہی علم کو خریدتی ہیں جسے وہ اپنے پیداواری عمل میں استعمال کرکے مزید اشیاء بیچ کر زیادہ سے زیادہ منافع کما سکیں۔ خرید و فروخت کا یہ علم جب معاشروں میں پروان چڑھتا ہے تو معاشرے  ‘مارکیٹ ‘  میں تبدیل ہوجاتے ہیںجہاں تعلقات کی بنیاد محبت، صلہ رحمی، تعاون اور مذہب نہیں بلکہ  ‘اغراض ‘  اور اشیاء اور خدمات کی لین دین (Exchange of goods and services)  بن جاتی ہیں۔ ظاہر سی با ت ہے کہ کسی شے کے لین دین میں ایک شخص ڈیمانڈر (Demander) اور دو سرا سپلائیر (Supplier) ہواکرتا ہے،اورسرمایہ دارانہ معاشرے میں طلب اور رسد  (Demand and Supply) کا اصول ہی درحقیقت ہر رشتے اور تعلق کی اصل روح ہوتا ہے۔ایسا نہیں ہے کہ تعلق کی یہ نوعیت صرف موچی، درزی، کسان ،مزدور ،سرمایہ دار وغیرہ کے درمیان ہی بننے والے تعلقات میں ہوتی ہے،بلکہ ایک سرمایہ دارانہ معاشرے میں ہر تعلق (چاہے میاں بیوی کا ہو یا ماں باپ کا)کی روح آہستہ آہستہ بس طلب اور رسد  (Demand and Supply)  پر منتج ہو جاتی ہے کیونکہ اس معاشر ے کے تمام افراد ماں باپ، بھائی بہن، استاد شاگرد یا پیر مرید نہیںبلکہ پروفیشنل (professionals) ہوتے ہیں۔ مثلاً ایک مذہبی معاشرے میں استاد کا تعلق اپنے شاگرد سے باپ اور مربی کا ہوتا ہے،اس کے مقابلے میں مارکیٹ (یا سول)سوسائٹی میں یہ تعلق ڈیمانڈر اور سپلائیر (Demander and Supplier) کا ہوتا ہے یعنی استاد محض زر کی ایک مخصوص مقدار کے عوض ایک خاص قسم کی خدمت مہیا کرنے والا جبکہ طالب علم اس خدمت کا ڈیمانڈر ہوتا ہے اور بس۔ ہر وہ تعلق جسکی بنیاد ڈیمانڈ اور سپلائی کی روح پر استوار نہ ہو سرمایہ دارانہ معاشرے میں لایعنی، مہمل، بے قدرو قیمت اور غیر عقلی (irrational)ہوتا ہے۔ سرمایہ دارانہ معیار عقلیت کے مطابق عقل مندی (Rationality)اسی کا نام ہے کہ آپ تعلقات ذاتی اغراض کی بنیاد پر قائم کریں۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ کسی معاشرے میں سائنسی (بشمول طبعی و عمرانی) علوم عام ہوں اور افراد میں ذاتی اغراض اور حرص و حسد نیز دیگر اخلاق رزیلہ پروان نہ چڑھیں۔ یہ تعلق بالکل ایسا ہی ہے جیسے مذہبی علوم کا مقصد افراد میں زھد، تقوی ، عزیمت ، عشق رسول ۖ وفنا جیسی صفات عام کرنا ہے۔ سرمایہ دارانہ علوم کی بالا دستی کا مطلب در حقیقت افراد کی ذہنیت اور معاشروں کو خرید وفروخت کے نظم میں شامل اور تابع کرنے کا دوسرا نام ہے۔ ایسے علوم (مثلاًمذہبی علم) جو خریدوفروخت کی کسوٹی پر پورا نہ اترتے ہوں یعنی جنہیں خریدنے اور بیچنے کے نتیجے میں سرمائے کی بڑہوتری کے مواقع کم ہوںانکے پنپنے کے مواقع بھی اتنے ہی کم ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اسی بات کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ ایسے معاشرے (مثلاًمذہبی معاشرے) جہاں علم کے معنی خرید وفروخت نہ ہوں وہاں سرمایہ دارانہ علوم ہر گز ترقی حاصل نہیں کرسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمیں  ‘اعتدال پسند’  اور enlightened  ہونے کا سبق دیا جا رہا ہے کیونکہ اس کے بغیر سائنسی علوم کا فروغ اور ترقی ہرگزممکن نہیں۔

نتائج:  نوٹ کرنے کی اہم باتیں

اس ساری بحث کو سمیٹتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ علم سے مراد وہ مجموعہ معلومات ہے :

٭  جو ارادہ انسانی و خواہشات کی تکمیل (self-determination) کو ممکن بناتا ہو، اسے سائنس کہتے ہیں

٭   جو وحی کے علم ہونے کے انکارپر مبنی ہے لہذا یہ جہالت خالصہ ہے

٭   جسکا مقصدانسان کے تمتع اور تصرف فی الارض میں لا محدود اضافہ ہے

٭   جو اس مادہ پرستانہ تصور حیات کو بطور مقصد حیات قبول کرنے کی ذہنیت عام کرتا ہے

٭   اس کے پھیلاؤ کے نتیجے میں افراد میں بہت سے اخلاق رزیلہ پھیلتے ہیں:

ـ   خود غرضی  (اپنے مقصد کیلئے دوسروں سے تعلقات قائم کرنا)

ـ   حرص  (زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرنے کی خواہش)

ـ   حسد  (دوسروں سے زیادہ دولت کی خواہش)

ـ   طول امل  (دنیا کی بے پناہ محبت ، طویل العمری کی خواہش اور موت سے کراہیت)

ـ  غضب  (ہر شے کو قابو اور زیر کرنے کی خواہش )

ـ   لذت پرستی  (خواہشات نفسانی کی کثرت )

ـ   عبادات کو حقیر جاننا، ضیاع اوقات، گنا ہ کے کاموں کو تفریح سمجھنا، کلام لغو (جو فحش گوئی، کھیل تماشوں، فلموں ، ٹھٹھے بازی اور جنس مخالف کے موضوعات سے پر ہوتا ہے) وغیرہ کے اوصاف کا پیدا ہوجا نا ایک فطری عمل ہے۔

٭  جس میں کوئی حتمی حق نہیں ہوتا (سوائے اس کے کہ انسان قائم بالذات ہے)

 یہ فکر اور تصوربدا ہتاً لغو اور عقلاً با طل ہے اسی لئے فکری سطح پر سرمایہ دارانہ علمیت ایک دم توڑتی ہوئی فکر ہے ، لہذا ہمیں چاہئے کہ ہم اسکی ماہیت و مقاصد کی سمجھ بوجھ حاصل کرکے اسکا محا کمہ کرنے کی کوشش کریں نہ یہ کہ اس کی حما یت میں امت مسلمہ کے چودہ سو سالہ اجماع کا انکار کرکے اس جاہلی علمیت کے لئے دلائل فراہم کر دیں ۔ ہمارے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ اگر مسلما نوں نے جدیدی علمیت کے افکار و نظریات کے خدوخال پر اپنے معاشروں اور ریاست کو تشکیل دیا تو وہ لازماً ایک قوم پرست مسلم سرمایہ دارانہ ریاست ہی بنا پا ئیں گے جس کے نتیجے میں اس ملک کے مسلمانوں کو تو شا ید کوئی مادی فوائد مل جائیں لیکن اسلام کو ہر گز بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔

سرمایہ دارانہ نظام کی اساسی اقدار

آزادی، مساوات اور عدل

علی محمد رضوی

کسی بھی تہذیب کا انحصار اس کے اقداری نظام پر ہوتا ہے۔ لہٰذا کسی تہذیب کی ماہیت اس کے اصول کو سمجھنے کے لیے اس کے بنیادی اقدار کا سمجھنا اور جاننا لازمی ہے۔ یہ زمانہ جس میں ہم رہ رہے ہیں مغربی تہذیب کے غلبہ کا زمانہ ہے۔ لہٰذا اس بات کی ضرورت ہے کہ ان اقدار کو سمجھا جائے جس پر مغربی تہذیب قائم ہے تاکہ وہ سامان مہیاکیا جاسکے جس کی بنیاد پر ہم اپنے معاشرے اور تہذیب کو مغربی تہذیب سے بچانے کی کوشش کرسکیں اور ان اقدار کو فروغ حاصل ہو جو ہماری تہذیب کا جزولاینفک ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مغربی تہذیب آخر ہے کیا؟ اور اس کی بنیادی قدریں کیا ہیں۔ مختصر طور پر یہ کہاجاسکتا ہے کہ مغربی تہذیب انسان پرست (Humanist) تہذیب ہے جس کا محورو مرکز انسان اور صرف انسان ہے اور جس کی تمام تر جولانیوں کا حاصل اس دنیا میں انسان کی خدائی کا قیام ہے۔ مغربی تہذیب کے مطالعہ سے جو بات سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ اس تہذیب کی بنیادی قدر آزادی ہے۔ یہی تہذیب مغرب کی اساس اور بنیاد ہے۔ دراصل آزادی نام ہے اس بات کا کہ انسان خیروشر کے معیارات کے تعین کا نہ صرف مجاز بلکہ حق دار ہے اور اس کی انسانیت کا جوہر ہی یہ ہے کہ وہ اپنے آزادانہ متعین کردہ اقدار کو اپنا سکے اور ان کے مطابق اپنی زندگی گزار سکے۔اس کا بہترین اظہار ہمیں مغربی مفکر کانٹ کے یہاں ملتاہے جو انسان کو End in himslef یا مقصود بالذات قرار دیتا ہے وہ ایک جگہ کہتا ہے کہ تم کوئی بھی کام یہ سوچ کر نہ کرو کہ تم ذریعہ ہو بلکہ ہر کام یہ سوچ کر کرو کہ تم ہر چیز کا مقصود ہو۔

مغربی مفکرین نے آزادی کی دو اقسام بیان کی ہیں۔

(١) آزادی کا منفی تصور (Negative Freedom )

(٢) آزادی کا مثبت تصور (Postive Freedom)

آزادی کا منفی تصور:

آزادی کا منفی تصور یہ ہے کہ معاشرہ جو ناگزیر پابندیاں لگاتا ہے اس کے باوجود انسان کے پاس ایک ایسا علاقہ بچ رہنا چاہیے جس میں وہ اپنی خدائی کا اظہار کرسکے اور اپنے متعین کردہ اصولوں کے مطابق زندگی گزار سکے۔ آزادی کے منفی تصور میں اس بات سے بحث نہیں ہوتی ہے کہ انسان اس دائرہ کار میںکس قسم کی زندگی گزارے گا (شراب پیئے گا، نماز پڑھے گا، زنا کرے گا وغیرہ) بلکہ صرف منفی طور پر یہ تصور کار فرما ہوتا ہے کہ تمام ناگزیر معاشرتی جکڑ بندیوں کے درمیان ایک ایسا علاقہ ضرور ہونا چاہیے جس میں انسان جو چاہے وہ کر گزرے اور کسی دوسرے کے سامنے وہ اس معاملے میں جواب دہ نہیں ہوتا ۔ وہ اس علاقہ میں چاہے کچھ بھی کرے یہ اس کا وہ مقدس حق ہے۔ جس کے اندر کوئی دوسرا مداخلت نہیںکرسکتا۔ اس تصور کے رو سے انسان کی ذاتی زندگی میں آزادی اس کی نفسیاتی خواہشات پر ہر قسم کی قدغن سے آزادی ہے۔ انفرادی حقوق کا سارا معاملہ اس مقدس آزادی کا تحفظ ہے جس میں آزادی فکر ونظر، حق ملکیت، اظہار رائے وغیرہ کا حق شامل ہے۔ عیسائی برلن کے الفاظ ہیں:

”ان معنوں میں آزاد ہونے کا مطلب دوسروں کی کسی قسم کی مداخلت سے آزادی ہے۔ دوسروں کی مداخلت سے آزادی کا یہ علاقہ جتنا وسیع ہو گااس قدر میں زیادہ آزاد ہوںگا۔”

”یہ بہت ضروری ہے کہ کم از کم ایک ایسا علاقہ ضرور ہو جس میں کسی کو کسی بھی حالت میں مداخلت کا حق نہ ہو۔”

اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان خدا ہے وہ اچھائی اور برائی کے پیمانوں کا خالق ہے۔ لبرلزم کے تمام دھڑے اس بات پر متفق ہیں کہ انسانی اختیار کا کوئی نہ کوئی دائرہ معاشرتی جکڑبندیوں سے آزاد ہو جہاں وہ اپنی خدائی کو روبہ عمل لاسکے۔ ریاست ومعاشرے کا فرض ہے کہ وہ اس دائرے کو زیادہ سے زیادہ وسعت دیں۔

برلن کے الفاظ میں:

”اکیلی آزادی جو آزادی کہلانے کی مستحق ہے وہ یہ ہے کہ انسان کو اپنے طریقے کے مطابق اپنے اہداف حاصل کرنے کا اختیار ہو۔”

وہ مزید کہتا ہے کہ:

”آزادی کا یہ تصور اس منفی ہدف پر مشتمل ہے کہ انسان کے مخصوص دائرہ اختیار میں ہر قسم کی مداخلت کا قلع قمع کیا جاسکے۔”

آزادی کے اس تصور کے نتیجہ میں پبلک اور پرائیویٹ لائف کا فرق پیدا ہوتا ہے۔ آزادی کے منفی پہلو سے مراد یہ ہے کہ انسان کی نجی زندگی میں کسی کو بھی مداخلت کا حق حاصل نہیں ہے۔ مقصود یہ ہے کہ انسان کی آزادی زیادہ سے زیادہ ممکنہ حد تک وسیع ہوتی چلی جائے تاکہ وہ اس کی خدائی میں اضافہ ہوسکے۔

منفی آزادی کے نتائج:

منفی آزادی سے جو وسیع نتائج اخلاق، معاشرت اور ریاست کے حوالے سے پیدا ہوتے ہیں ان پر سیرحاصل بحث کا تو یہ موقع نہیں ہے لیکن چند اشارات ناگزیر ہیں۔

١۔ اس بحث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آزادی درحقیقت کچھ نہیں ہے۔ یہ صرف ایک خالی علاقہ ہے جہاں انسان جو کچھ چاہے وہ کرگزرے۔ خود آزادی کچھ نہیں ہے۔ اس کا کوئی Content نہیں ہے بلکہ اس کا Contentنفسانیت سے پر ہوتا ہے۔

٢۔ آزادی اقدار کی نفی ہے۔ کیونکہ جب آپ کہیں گے کہ آزادی ایک ایسا علاقہ ہے جہاں آپ جو چاہیں کر گزریں اور جو آپ کریں وہی حق ہے تو اقدار کی بحث بے معنی ہوجاتی ہے۔ ہر شخص قدر خود متعین کرتاہے حالانکہ قدر کی تعریف ہی یہ ہے کہ جس کا پیمانہ انسان کی ذات نہیں بلکہ خارجی اور معروضی ہو۔ اگر ہر شے اور خواہش کی قدر یکساں ہے تو فی الحقیقت کسی شے کی کوئی قدر نہیں۔

٣۔ آزادی کے منفی تصور سے متصل تصور اقدار کے تعدّد یعنی Plurality of Values کا ہے۔ یعنی میری متعین کردہ قدر اور آپ کی متعین کردہ قدر برابر ہے۔

اسی سے یہ بات نکلتی ہے کہ ترتیب اقدار ناممکن ہے کیوںکہ ہر شخص کی متعین کردہ اقدار یکساں اہمیت کی حامل ہیں۔ اقدار کی فوقیت صرف ارتکاز قوت (کثرت رائے یا کثرت مال) سے قائم کی جاسکتی ہے اور اس فوقیت کا کوئی نظری جواز پیش نہیں کیا جاسکتا۔

آزادی کا مثبت پہلو:

لبرلزم کے پاس آزادی کا کوئی مثبت معاشرتی تصور موجود نہیں ہے بلکہ وہ منفی آزادیوں کے مجموعہ ہی کو معاشرتی اور مثبت تصور گردانتے ہیں اور ان کے خیال میں معاشرہ کا فرض ہی یہ ہے کہ منفی آزادی کے مجموعہ کی زیادہ سے زیادہ بڑھوتری کے لیے تگ ودو کرے۔

لبرلزم کے برعکس کمیونییٹرین آزادی کا ایک مثبت تصور پیش کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں عقل ہمیں بتا سکتی ہے کہ آزاد ہونے کا کیا طریقہ ہے۔ اس سلسلہ میں روسو، ہیگل اور مارکس نے مثبت آزادی کے مختلف تصورات بیان کیے ہیں۔ لیکن چونکہ ہم بنیادی طو رپر لبرل سوچ کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں اس لیے ہم تفصیل میں نہیں جائیں گے۔ اتنا سمجھ لینا کافی ہے کہ کمیونیٹیرینزم مثبت آزادی (Positive Freedom) سے وہ معاشرتی نظام مراد لیتے ہیں جس کے قیام کے نتیجہ میں انسانیت بحیثیت نوع کے خدا بن سکے۔ روسو کے مطابق خدا بن جانے کا یہ عمل (Social Contract) کے ذریعہ ایک انقلابی معاشرہ کے قیام کے ذریعہ حاصل ہوسکتا ہے اور مارکس کے خیال میں انسانیت طبقاتی کشمکش کے ذریعہ بحیثیت نوع خدا بن سکتی ہے۔ خدا بننے کی آرزو تمام خواہشات کی تکمیل کے سو ا کچھ نہیں چنانچہ کمیونیٹرنزم جس تعقل کو بنیاد بناکر Positive Freedom کو متشکل کرنے کا دعویٰ دار ہے وہ بھی خواہشات کی غلام ہے۔ وہ بھی Rationality bounded by desire ہے اور اقدار کی آفاقی اور مستقل ترتیب کرنے سے قاصر ہے لینن نے اس بات کا اقرار کئی جگہ کیا ہے وہ کہتا ہے کہ سرمایہ داری کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے جن اخلاقیات کو اپنانا چاہیے وہ ان اخلاقیات سے بالکل مختلف ہیں جو اشتراکی معاشرہ کی تعمیر کے دور میں مستحسن قرار دی جانے چاہیں یعنی کوئی مستقل اقدار موجود نہیں۔ لبرل مفکرین آزادی کے مثبت تصور کو رد کرتے ہیں اور آزادی کے حصول کا صحیح طریقہ منفی آزادی کے فروغ کو ہی گردانتے ہیں۔ ان کے نزدیک مثبت آزادی کی جستجو لاحاصل بلکہ خطرناک ہے کیونکہ اس سے فاشزم کے لیے راہ ہموار ہوتی ہے۔

لبرل مفکرین کے نزدیک آزاد معاشرہ میں:

(١) قوت مطلق نہیں ہوتی بلکہ حقوق مطلق ہوتے ہیں۔

(٢) فرد کی زندگی کے اردگرد ایسی غیرمصنوعی سرحدیں ہیں جو مقدس ہیں اور جنہیں کسی قیمت پر پامال نہیں کیا جاسکتا ہے۔

یعنی اصل مقصود ”منفی آزادی” ہے اور مثبت یا معاشرتی آزادی اس کے تحفظ کا ذریعہ ہے اور لبرل مفکرین کے یہاں مثبت سیاسی حقوق، سیاسی عمل میں شرکت، وغیرہ کا واحد مقصد ”منفی آزادی” کا تحفظ ہوتاہے ان مفکرین کے نزدیک انسانیت کی مجموعی آزادی کا تصور لغو اور صرف تخیل کی کرشمہ سازی ہے۔

مساوات:

لبرلزم کا تصور مساوات اس کے تصور آزادی کا ساختہ پر داختہ ہے۔ ہر انسان کے متعین کردہ اہداف دوسرے انسان کے متعین کردہ اہداف کے برابر قدر وقیمت رکھتے ہیں۔

اس تصور کے مطابق ترتیب اقدار ناممکن ہوجاتی ہے۔ معاشرتی قدر وقیمت انسان کے اعمال اور اخلاص سے متعین نہیں ہوتی بلکہ مادی ترقی معاشرتی قدر وقیمت کا واحد معیار رہ جاتی ہے۔

رالس (Rawls) نے اس سلسلہ میں ایک عمدہ مثال دی ہے وہ کہتاہے کہ ایک شخص اگر متعین رقبہ میں ہیروئن کو ختم کرنے کا ہدف طے کرتا ہے اور دوسرا شخص اسی رقبہ میں گھاس کی پتیوں کو گننے کا ہدف مقرر کرتا ہے تو لبرلزم کے نزدیک یہ دونوں اہداف یکساں معاشرتی اہمیت اور قدر وقیمت رکھتے ہیں۔

معاشرہ کو دو طرح سے معاشرتی ادارتی حیثیت دی جاتی ہے۔ (١) قانونی طو رپر  (٢) سیاسی طور پر۔

سیاسی طو رپر ہر شخص کا ووٹ برابر ہے چاہے وہ نمازی ہے یا زانی یا شرابی۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ قانونی اعتبار سے ہر شخص کی آزادی کو تسلیم کیا جاتا ہے کہ اس میں مداخلت نہ کی جاسکے اور اس کی نجی حیثیت برقرار رہ سکے۔

اسلام مساوات کے اس تصور کو رد کرتا ہے۔ تمام اقدار کی یکساں اہمیت نہیں ہے بلکہ خدا کی قائم کردہ مطلق ترتیب ہے کہ جس میں ردوبدل نہیں کیا جاسکتا۔ جو شخص تقویٰ میں، محبت رسول میں بڑھا ہو اہے وہی افضل ہے۔ کوئی شرابی وزانی نہ تو نمازی کے برابر ہوسکتا ہے نہ اس کے ووٹ کی قدروقیمت نمازی کے ووٹ کے برابر ہوسکتی ہے۔ قرآن میں ارشاد ہے:

”جو جانتا ہے جو نہیں جانتا وہ کس طرح برابر ہوسکتے ہیں۔”

عدل:

ایک لبرل معاشرہ میں عدل کا تصور یہ ہے۔

(١) ہر فرد کو اس کا حق ہوکہ وہ اپنی ذاتی اور معاشرتی اہداف کو آزادانہ طور پر (Autonomously)مقرر کرے۔

(٢) تمام اہداف کو مساویانہ معاشرتی قدر حاصل ہو ان میں کوئی ترجیحی ترتیب جائز نہیں۔

(٣) لیکن چونکہ اس ترجیحی ترتیب کے بغیر زندگی کا کاروبار نہیں چلایا جاسکتا لہٰذا اہداف میں ترتیب کا حق صرف مستقل تبدیل ہوئی اکثریتی رائے کو سونپا جاسکتا ہے۔

(٤) اس کے باوجود اکثریت کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ کسی فرد کا بنیادی فطری حق منسوخ کردے۔ فطری حق یہ ہے۔

”ہر فرد کے ساتھ مساویانہ قانونی اور اخلاقی برتاؤ کیاجائے گا خواہ اس کے عقائد،کردار، شخصیت اور میلانات کچھ بھی ہوں۔”

لبرل تصور عدل سراسر ظلم ہے کیونکہ

(١) اس تصور کے مطابق فرد کو خدا کا مقام دیا جاتا ہے فرد کا یہ بنیادی حق ہے کہ وہ اپنی تمام نفسانی خواہشات کے حصول کے لیے جدوجہد کرے۔ خیر وشر کا بنیادی معیار نفسانی خواہشات ہیں۔

(٢) چونکہ تمام نفسانی خواہشات یکساں طور پر قدر رکھتی ہے لہٰذا اصولاً ان کو کوئی ترجیحی ترتیب نہیں دی جاسکتی عملاً چونکہ یہ ترتیب ناگزیر ہے لہٰذا اس کا حق اکثریت کو دیا جاتا ہے۔ لیکن اکثریت کو یہ حق نہیں ہے کہ فرد کے خدا ہونے کے بنیادی مفروضہ کو رد کرے۔

(٣) لبرلزم فطرت انسانی کے ادراک کا واحد ذریعہ صرف طبعی علوم (Physical Scinices) کو گردانتا ہے۔ لبرلزم کا تصور عین جہالت ہے۔ چونکہ لبرلزم کے مطابق علم کی بنیاد ایمان نہیں بلکہ ریب (doubt) ہے۔ جیسا کہ کارل پاپر(Popper) نے کہا ”صرف وہ حق ہے جس کو جھٹلایا جاسکتا ہے۔” لبرل ”علم” کے حصول کا واحد مقصد تسخیر کائنات ہے۔

(٤) جیسا کہ لبرل فلسفی خود اقرار کرتے ہیں طبعی ”علوم” کسی ضابطۂ حیات یا نظام اخلاق کی نشاندہی نہیں کرتے وہ ”value neutral” ہیں۔ لبرلزم کا بنیادی المیہ یہ ہے کہ فرد کی پرستش کے باوجود وہ فرد کی داخلی زندگی اور اس کی داخلی کیفیات کا کوئی ادراک نہیں رکھتا۔ اس کا ”علم” صرف ہیئت (form) اور تعلقات (Structures) تک رسائی رکھتا ہے۔ عرفان ذات سے قاصر ہے۔ اس کی دنیا بے نور (disenchanted) ہے چونکہ لبرلزم دل کی دنیا تاریک کردیتا ہے لہٰذا وہ خدا کی موت (god is dead) کا قائل ہے۔

(٥) لبرلزم فرد کی شخصیت کو مسخ کردیتا ہے۔ وہ محبت اور عبدیت کی نفی کرکے خودغرضی کو معاشرتی اور شخصی عمل کا واحد محرک تسلیم کرتا ہے۔ لبرل معاشرہ کا نمایندہ فرد خود غرض، سفاک، مفاد پرست اور متکبر ہوتا ہے۔ اس کی تمام تر دلچسپی اس دنیا کے مادی مفادا ت پر مرکوز ہوتی ہے۔ وہ تکاثر کے مرض میںمبتلا ہوتا ہے اور محبت اور خیرخواہی کی بنیاد پر شخصی تعلقات استوار کرنے سے بتدریج قاصر ہوتا ہے۔

(٦) لبرل معاشرہ اعتماد (Trust) سے خالی ہوتا ہے وہ خیر کی کوئی مستقل تعریف کرنے سے قاصر ہے لہٰذا اشخاص کو سماجی وحدتوں میںجوڑنے کے بجائے توڑتا ہے۔ تمام بنیادی سماجی ادارے لبرل معاشرہ میں شکست ریخت کا شکار ہوتے ہیں۔ لبرل معاشرہ خاندان پر ضرب کاری لگاتا ہے۔مرد اور زن کے تعلق کی بنیاد محبت کی بجائے شہوت قرار پاتی ہے اور ہر لبرل معاشرہ لازماً جنسی بے راہ روی کو فروغ دیتا ہے۔ اخلاقی تنزل کی بدترین مثالیں لبرل معاشرہ ہی فراہم کرتی ہے۔

ظاہر ہے اسلام لبرل اقدار، تصورات معاشرت اور نظام سیاست کی مکمل نفی کرتا ہے۔ ایک لبرل جمہوری ریاست میں اسلام کے پنپنے کے مواقع بتدریج معدوم ہوجاتے ہیں خواہ وہ ریاست دستوری ہو یا فلاحی ان دونوں قسم کی لبرل ریاستوں کے خلاف انقلابی جدوجہد ناگزیر ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دستوری اور فلاحی ریاستوں کو مسمار کرنے کی ایک مربوط اور جامع اسلامی انقلابی حکمت عملی مرتب کی جائے۔

آزادی اور مساوات کے تصورات کی اصل نوعیت کا ادراک عام ہو اور ان اقدار کو ”اسلامیانے اور اسلامی جمہوریت اور لبرلزم کا ایک مغلوبہ بنانے کی تمام کوششیں ترک کی جائیں۔”

انسانی حقوق… سرمایہ داری کا مذہبی صحیفہ

محمد احمد حافظ

دورِ حاضر میں تحریکاتِ اسلامی کے کارکنان کے لیے ”انسانی حقوق” کا موضوع نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ انسانی حقوق کا چارٹر جسے یو این او کے ذریعہ تمام ممبر ممالک پر یکساں طور پر لاگو کیا گیا ہے، عمومی طور پر اسے ایک ایسا ”خیر” اور ”حق” تصور کیا جاتا ہے جو فلاح انسانی کا ضامن، امن وسلامتی کا علمبردار اور شرفِ انسانی کا پیکر ہے۔ ہمارے بہت سے اہلِ علم اور عام پڑھے لکھے حضرات بھی ایک قدم مزید آگے بڑھ کر ”انسانی حقوق” کے چارٹر کو اسلامی تعلیمات خصوصاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبۂ حجة الوداع سے ماخوذ سمجھتے ہیں۔ ہمارے ہاں اس سلسلے میں ایک مقبولِ عام جملہ اکثر دہرایا جاتا ہے کہ: ”اسلام ہی وہ مذہب ہے جس نے سب سے پہلے انسانی حقوق عطا فرمائے…” بادی النظر میں یہ جملہ ممکن ہے اپنے اندر کسی قسم کی پیچیدگی نہ رکھتا ہو مگر جب ہم اس چارٹر کو مغربی فکر کے تناظر میں دیکھتے ہیںتو یہ جملہ اسی طرح نظر آتا ہے جیسے کہا جائے کہ ”اسلام ہی وہ مذہب ہے جس نے سب سے پہلے ہندو مت کی بنیادیں فراہم کیں…!!” کیا کوئی ہوش مند مسلمان یہ جملہ کہہ کر اپنے ایمان سے دست بردار ہونے کے لیے تیار ہو گا؟ ظاہر کہ نہیں!

فلسفہ انسانی حقوق کا مختصر خلاصہ:

قبل اس کے ہم آگے بڑھیں، خلاصے کے طور پر ”حقوق انسانی” کی اصل فکر کو چند سطور میں بیان کردیں… سترھویں صدی عیسوی میں جب جدید یورپ کی ابتدا ہوئی تو اس دور میں جو فکر ابھر کر سامنے آئی اسے سرمایہ دارانہ انفرادیت سے تعبیر کیا گیا۔ سرمایہ دارانہ انفرادیت یہ ہے کہ انسان کسی کا عبد نہیں بلکہ وہ آزاد (Free) ہے۔ آزاد ان معنوں میں کہ وہ جوچاہنا چاہے’ چاہ سکے اور جس چیز کی خواہش اس کا نفس کرے اسے حاصل کر سکے۔ خواہشات بے پناہ ہیں اور انسان کو خواہشات کی تکمیل کے لیے بنیادی طور پر جس چیز کی ضرورت ہے وہ ”سرمایہ ” ہے سرمایہ ہی وہ بنیادی عنصر ہے جس کے ذریعے تمتع فی الارض کے زیادہ سے زیادہ امکانات وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ انفرادیت مابعد الموت سے بحث نہیں کرتی۔ اس کے نزدیک موت اختتامِ زندگی ہے۔ چناں چہ سرمایہ دارانہ عقلیت میں جس طرح مابعد الموت کی بحث نہیں، اسی طرح ما قبلِ پیدائش کا سوال بھی خارج از بحث ہے۔ مغربی فکر کے جتنے بھی کلاسیکل مفکرین ہیں، ان کے نزدیک انسان اسی معنی میں قائم بالذات اور اپنا خالق خود (Existent by itself)ہے۔ اس فکر کا مقدمہ پانچ صدی قبل مسیح کی یونانی فکر میں بھی ملتاہے جس میں یونانی مفکر پروتاغورس کہتا ہے:

”انسان کائنات کی تمام اشیاء کا پیمانہ ہے”

یعنی وہ اس کائنات میں مقصود بالذات ہستی ہے اور وہ کائنات کی ہر شے کو اپنی مرضی (Decision)اور منشاء (will)کے تابع کرنے کاحق رکھتا ہے۔ یہاں پہنچ کر ہم دیکھتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ تصور انفرادیت ”الوہیت انسانی” کا مظہر ہے، اور اسی تناظر میں تہذیب مغرب کا کلمہ… ”لا الہٰ الا الانسان ”ہے۔

انسانی حقوق کو ”خیر” سمجھنے کا مغالطہ کیوں؟

اصطلاح ”انسانی حقوق” ہیومن رائٹس کا ترجمہ ہے۔ ”ہیومن ” کا مغربی فلسفہ و فکر میں خاص مقام اور اس کا معنٰی و مطلب ہے اور ظاہر ہے کہ ”ہیومن” کا ترجمہ ”انسان” کر کے اسے نہیں سمجھا جا سکتا۔ ”ہیومن ” مغربی فکر میں ایک خاص مفہوم کا فرد ہے جس کے معنی و مطلب کو جاننے کے لیے ہمیں لازماً مغربی فلاسفہ کے افکار کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔ جب ہم ہیومن کی کنہ اور مغربی فکر میں اس کی وجہِ وجود کو جان لیں گے تو ہمارے لیے انسانی حقوق کے چارٹر کا تجزیہ و محاکمہ کرنا آسان رہے گا۔

انسانی حقوق کا تاریخی پس منظر:

جدید یورپ کی ابتدا عیسائیت کی شکست وریخت سے ہوئی۔ عیسائی پادری مارٹن لوتھر وہ شخص تھا جس نے اپنے ہی مذہب پر کاری ضرب لگائی اور لوگوں کو عیسائیت کے خلاف وہ بنیادیں فراہم کر دیں، جن کے سہارے انہیں مذہب سے راہِ فرار ڈھونڈنے میں آسانی ہوگئی۔ انہی بنیادوں پر بعد کے فلسفیوں نے عیسائی علمیت کو رد کیا اور ہیومن ازم (انسان پرستی) کا آغاز ہوا۔ مغربی مفکرین نے مذہب کی زندگی کے ہر شعبے اور ہر سطح سے خارج کر کے انسان ہی کو ہر شے کی میزان ٹھہرایا۔ انسان کو اللہ کا بندہ ہونے کی بجائے ایک ایسے آزاد فرد کے طور پر باور کرایا جو خیر وشر کی تعیین اور تحدید میں بذاتِ خود ایک پیمانہ ہے۔ یہ فرد ہر طرح کے شک وشبہے سے بالاتر قرار پایا۔ مغربی فلسفیوں (ڈیکارٹ، کانٹ، میکس، نطشے، روسو وغیرہ)کے نزدیک کائنات کو صرف اور صرف انسانی پیمانوں پر پرکھنا ہی علمیت کی میراث ہے۔ یوں انسان پرستی (ہیومن ازم)کو اقداری ڈھانچے میں کلیدی اور قطعی حیثیت حاصل ہوئی۔

ہیومن ازم کیا ہے؟

انسان کوکائنات کا محور و مرکزقرار دینا ہی ہیومن ازم ہے۔ انسائیکلوپیڈیا آف فلاسفی کے مطابق:

Humanism is that philosphical and literary movement originated in italy in the second half of the fourteenth century and diffused into other countries of Europe coming o constite one of the factors of the factors of modern culture.

ترجمہ:ہیومنزم وہ فلسفیانہ اور ادبی تحریک ہے جو چودھویں صدی کے نصف ثانی تک میں اٹلی میں پیدا ہوئی اور وہاں سے یورپ کے دوسرے ممالک میں پھیل گئی جو بالآخر جدید ثقافت کی تشکیل کے اسباب میںسے ایک سبب بنی۔

اس کی حقیقتوں سے بحث کرتے ہوئے درج کیا گیا:

Hunasim is also any philosphy which recogonizes the blue or drignity of man and makes him the measure of all things of some how takes human nature,its limits, or its interest as its theme.

ترجمہ: ہیومنزم ہر اس فلاسفی کو بھی کہتے ہیں جو انسانی قدر یا عزت کو تسلیم کرے اور اسے” تمام چیزوں کا میزان” قرار دے یا جو صرف انسانی طبیعت کو اپنی فکر کی حد یا دائرہ کار کی حیثیت سے لے۔

[Encyclopaedia of philosphy the macmillon company and the free press N.York]

ہیومن ازم کی تحریک اپنی اصل کے اعتبار سے وحی الٰہی اور ہدایت ربانی کی ضد تھی۔ اس تحریک کا مقصد عیسائی معاشرے میں تصور الٰہ، تصور رسول اور تصور آخرت کو ختم کر دینا تھا، چناں چہ اس تحریک نے عیسائیوں کو ہر اس ہدایت کے انکار کی طرف ابھارا جو ربانی یا آسمانی ہو اور ہر اس ظابطے سے بغاوت پر آمادہ کیا جس کی بنیاد ہدایتِ الٰہی تھی۔ اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انسائیکلوپیڈیا آف ریلجن اینڈ ایتھکس میں بیان کیا گیا:

Hunasim in philosophy is opposed to nauralism and absolutism; it desuganates the philosophical attitude which regards the interpretation of human experience as the primary concern of human knowledge for this purpose.

ترجمہ: فلسفہ میں ہیومن ازم ہر طرح کی فطریت (ربانیت) اور کلیت کی ضد ہے۔ یہ ایک ایسا فلسفیانہ رجحان دیتا ہے جو انسانی تجربوں کی تشریحات کو ہر طرح کے فلسفہ کا اولین مرکز توجہ دے اور اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ اس کام کے لیے انسانی علم کافی ہے۔

[Encyclopedia of religion and ethics edinbery, T&T clarh, 1937]

ہیومن ازم کی فکری بنیادیں:

کسی بھی نظام میں سب سے بنیادی مسئلہ تصور ذات (self)کا ہوتا ہے۔ مثلاً آپ ایک عالمِ دین سے پوچھیں کہ انسان ذاتی طورپر کیا ہے؟ اور اس کا بنیادی وظیفہ کیا ہے؟تو وہ ربانی عالم دین آپ کو بتائیں گے کہ انسان دراصل اللہ کا بندہ ہے اور اس کا بنیادی وظیفہ اللہ تعالیٰ کی بندگی ہے۔ مگر یہی سوال جب آپ کسی مغربی فرد سے کریں گے تو وہ آپ کو جواب دے گا کہ انسان کے اندر وہ جبلتیں اور خصائص موجود ہیںجن کی بنیاد پر وہ خود اپنی زندگی کو استوار کر سکتا ہے۔ اسے کسی ماورائی ذات کی پرستش کرنے ، اس سے ہدایت حاصل کرنے اور اس کی پیروی کرنے کی ضرورت نہیں۔

مغربی فکر میں انسان ہی کائنات کا میزان ٹھہرایا گیا ہے۔ چناں چہ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ کسی بھی خارجی قدر، وحی اور ہدایتِ الٰہی کا انکار کر دے۔ وہ کائنات میں کارفرما عقائد ، نظریات اور افکار وخیالات کو اپنی عقل کی میزان میں پرکھ کر فیصلہ کرے کہ وہ ریزن ایبل (Reason able) ہیں کہ نہیں؟ یہ ریشنل ازم یا عقلیت پرستی ہے۔

ریشنل ازم لاطینی لفظRatio سے مشتق ہے، جس کا معنی ہے عقل یا Reason انسائیلو پیڈیاآف فلاسفی کی روح ان فلاسفروں سے مربوط ہے جو سترھویں اور اٹھارویں صدی میں یورپ میں پیدا ہوئے۔ ان مغربی فلاسفروں کے مطابق عقل کی بنیاد پر قطعی اور آفاقی سچ کا حصول ممکن ہے۔ چناں چہ جب انسان ہی تمام خیروشر کا تعین کر سکتا ہے تو ایسی صورت میں خدا پرستی کا کیا سوال؟

مشہورفلسفی ڈیکارٹ، ]١٥٩٦ئ۔١٦٥٠ئ[ وہ شخص ہے جس نے جدید فلسفہ کی بنیاد رکھی اور عیسائیت کو شکست دی، اس نے انسانی ادراکات میں کسی بھی خارجی عامل کو ردّ کر دیا اور سیلف نالج کی خالص عقلی دلیل دی۔ اس کے پیش کردہ فلسفے کے مطابق:

”علمی اور عقلی بنیادوں پر کوئی بھی انسان اپنے سوا کسی بھی چیز کو خواہ وہ خیالات ہوں یا اقدار’ معیارات خیروشر ہوں یا وحی اور چاہے خدا کا وجود، غرض کسی بھی چیز کا انکار کر سکتا ہے۔ اکیلی میری ذات میرا وجود ہے، جس کا ہونا کسی بھی قسم کے شک وشبہے سے بالاتر ہے۔”

ڈیکارٹ کے نزدیک واحد سچ:… ”میں سوچتا ہوں ‘ اس لیے میں ہوں۔”

[Ithink there for I,m]

یعنی میں اپنے اس دنیا میں ہونے کا جواز اپنے اندر رکھتا ہوں۔ میرا وجود کسی خارجی ذریعے، حقیقت مطلق یا خالقِ کائنات کا مرہون منت نہیں… ڈیکارٹ کے مطابق میری عقل کی استطاعت نہیں کہ میں اپنے وجود کے سوا کسی بھی دوسری ذات کے وجود کا ماورائے شک جواز پیش کر سکوں۔

اس طرح ڈیکارٹ نے ایک ایسی علمیت (جہالت) کی بنیاد رکھی جو کہ اولاً مابعد الطبیعات (وحی)سے ماورا تھی… وہ (Doubt)پر قائم تھی۔ ڈیکارٹ کے پیش کردہ تصور انسانی یا تصور ذات کو بعد کے مفکرین نے آگے بڑھایا۔

روسو کا خیال ہے کہ انسان بنیادی طور پر خیر ہے۔ وہ ہمیشہ خیر کا طالب ہوتا ہے۔(یہاں خیر سے مراد وہ خیر نہیں جسے ہمارا دین خیر کہتا ہے بلکہ روسو کے مزعومہ انسان کا خیر اس کی” خواہشِ نفس” ہے۔) وہ کہتا ہے کہ انسانی خواہشات ، جبلتیں اور احساسات فطرتاً پاک ہیں، یہی وجہ ہے کہ انسان اپنے ارادے کے تحت جس چیز کو پسند کرتا ہے وہ عمومی فلاح ہے، اس کے خیال میں:

The self is essentially good

”انسان فی نفسہ خیر ہے”

چوں کہ مغرب کا فرد خود اپنی عقل سے اس بات کا فیصلہ کرتا ہے کہ کیا چیز خیر ہے اور کیا نہیں’ اس لیے اس کے ہاں وہ بات بھی خیر میں شامل ہے جو ہمارے ہاں بدی تصور کی جاتی ہے۔ مثلا جھوٹ بولنا، ماں باپ کی نافرمانی، زنا، اور دیگر فواحش و منکرات جنہیں ہم رذائل میں شمار کرتے ہیں۔ ہیومن کے نزدیک وہ خیر ہی ہے۔

کانٹ انسانی ذات کے بارے میں کہتا ہے کہ:

selfکے اندر وہ ترتیب اور نظم orderموجود ہے جس کے نتیجے میں اشیاء اور ان کے باہمی تعلق کو واضح کر سکے۔ کانٹ Kindom of endsمیں ایک ایسی ریاست کا قائل ہے جہاںہر فرد کا یہ اختیار تسلیم کیا جائے کہ وہ خود مختار[Automomous]اور قائم بالذات [self determind]ہے۔ جہاں ہر شخص اس بات کاتعین کرے کہ وہ کس قسم کی زندگی گزارے گا۔ جہاں یہ تسلیم کیا جائے کہ ہر شخص خیر وشر کا تعین خود کر سکتا ہے۔

ہیگل کے خیال میں اجتماعیتوں (معاشروں)کی تاریخ اور طرزِ حیات ہی خیر وشر کے پیمانہ ہیں۔ اخلاقیات وہ نہیں جو انجیل اور قرآن میں لکھی ہیں بلکہ اخلاقیات سے مراد یہ ہے کہ تاریخی اجتماعیت نے ارتقاء (Evolution) کے لیے جو معیارات خیروشر مقرر کیے ہیں انہی سے اخلاقی معیارات اور پیمانے تشکیل پاتے ہیں۔ ہر آنے والا وقت پہلے سے بہتر ہے اور اس کے پیمانے پہلے دور کے مقابلے میں فوقیت رکھتے ہیں۔ اسی کا نام ارتقاء اور ترقی ہے۔ چوں کہ سب سے زیادہ ترقی جس اجتماعیت نے کی ہے اور سب سے زیادہ جس نے غلبہ حاصل کیا ہے وہ مغرب ہے، اس لیے مغرب کی تاریخ، اس کی تہذیب، ادارتی صف بندی اور آدرشیں ہی حق وباطل کا معیار ہیں اور چوں کہ مغرب کی اس ترقی کے آگے کسی ترقی کا تصور نہیں ہو سکتا اس لیے مغربی تہذیب ہی بنیادی طور پر ذاتِ مطلق اور روحِ کائنات کا مکمل اظہار ہے۔

سارتر جو مغرب کا بہت اہم مفکر ہے، اس کے افکارکا خلاصہ یہ ہے کہ ذات( self ) کے اندر اس بات کی استطاعت ہے کہ وہ جیسا بننا چاہے بن سکے، وہ اپنی تخلیق خود کر سکتا ہے اور دنیا کو بھی جیسا بنانا چاہے بنا سکتا ہے۔ انسان بنیادی طور پر کوشش کرتا ہے کہ وہ خد ابن جائے، اگر وہ خدا نہیں بننا چاہتا تو یہ Bad faith ہے۔

سارترنے جو بات کہی ہے کم وبیش مغرب کے تمام فلسفی یہی بات کہتے ہیں، ان کے نزدیک انسان ہی الوہیت کا مظہر ہے۔ مثلاً J. H.Homesاپنی کتاب(A struggling God)میں کہتا ہے کہ ”خدا انسان ہے اور انسان خدا ہے، دونوں سے مراد وہ زندگی ہے جو محبت کے لیے مصروفِ کشمکش ہے۔”

ایمز کہتا ہے کہ… خدا کا مخصوص اور قابل رسائی تصور اسی صورت میں پیدا ہو سکتا ہے کہ اسے انسانوں کا وہ اجتماعی ضمیر سمجھ لیا جائے جو معاشرے مین کارفرما اور اس طرح معاشرتی اداروں میں برنگ مجاز جلوہ گر نظر آتا ہے”

فیور باخ خدا کے وجود ہی کا منکر ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ خدا صرف انسان کے دل میں ہوتا ہے اس سے باہر اس کا کہیں وجو دنہیں۔

کامٹ کا کہنا ہے کہ… ”انسانیت خدا ہے”

مفکرین کے ایک گروہ کا خیال ہے کہ خدانے کائنات کو بنایا اب اس کے بعد وہ اس مشینری کے چلانے میں دخل نہیں دیتا، یہ مشین انسان کے سپرد کر دی گئی ہے، لہٰذا کائنات میں الوہیاتی منصب اب خود انسان کو مل چکا ہے۔

مغربی مفکرین کی ان تعریفات کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کے ہاںکسی اَن دیکھی ہستی کا وجود خدا کی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ ان کے ہاں انسان ہی ان تمام طاقتوں کا مظہر ہے، جنہیں کوئی بھی مذہب ان دیکھی ہستی کے ساتھ وابستہ تصور کرتا ہے۔ مغرب کا ”سپر مین” انہی خدائی طاقتوں کا مظہر ہے۔

]مغرب مذہب اور خدا کو کس طرح خیرباد کہہ چکا ہے اس کا اظہار ڈنمارک کے بدبخت شاتمِ رسول ”فلیمنگ روز” نے ان الفاظ میں کیا تھا:

”ہم میں اور مسلمانوں میں فکری اور ثقافتی یا تہذیبی طورپر فرق یہ ہے کہ ہم نے تو خدا، رسول اور کتاب کا حوالہ اپنے ذہنوں سے اتار دیا ہے، ہم کوئی فیصلہ کرتے وقت یہ نہیں دیکھتے کہ بائبل میں کیا لکھا ہے؟ کوئی قانون طے کرتے وقت یہ نہیں دیکھتے کہ خد اکیا کہتا ہے؟ کوئی بات کہتے وقت عیسیٰ کا حوالہ نہیں دیتے کہ اس بارے میں انہوں نے کیا کہا تھا، ہم آزاد ذہن سے فیصلہ کرتے ہیں”[

اس مخصوص تصور علم اور تصور انسان کو ہیومن بینگ (Human Being)سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس وقت مغرب میں جتنے بھی علوم پائے جاتے ہیں’ خواہ سائنس ہو یا سوشل سائنس ‘ ان میں یہی فکر اساسی طور پرکارفرما ہے۔

مغربی مفکرین کے مطابق جب انسان ہی کائنات کا محور ومرکز ہے اور وہ اشیاء کی حقیقتوںکو بغیر کسی خارجی علم کی مددکے خود پہچان سکتا ہے اور اپنی مرضی کے مطابق اپنی زندگی استوار کر سکتا ہے تو اس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ وہ خواہش نفس کامطیع ہے۔ انسانی خواہشات کا بنیادی عنصر لذات سے زیادہ سے زیادہ متمتع ہونا ہے، لذّات سے بہرہ ور ہونے کے لیے، تمتع فی الدنیا کے لیے ”سرمایہ” اساسی حیثیت رکھتا ہے۔ چناں چہ فرد کا سرمائے کی بڑھوتری برائے بڑھوتری کے عمل میں شریک ہونا لازمی امر ٹھہرتا ہے۔ یہ بات اس وقت تک ممکن نہیں جب تک انسان اول درجے کا حریص اور حاسد نہ ہو۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا سرمائے کی بڑھوتری حرص وحسد کو عمومی فروغ دیئے بغیر ممکن ہے؟… تاریخ اس کا انکار کرتی ہے۔ سرمایہ دارانہ معاشرے بدترین سطح کی حد تک حریص اور حاسد ہوتے ہیں۔ ہم آئے روز دیکھتے ہیں خصوصاً مغرب میں تویہ معمول کی بات ہے کہ سرمائے کے حصول کے لیے اخلاقی اور معاشرتی قدر میں کوئی معٰنی نہیں رکھتیں۔ حرص اور حسد دیگر کئی اخلاقی بیماریوں اور کمزوریوں کا مجموعہ ہیں۔ حریص اور حاسد انسان خود غرض، سفاک، قاتل، انتہائی درجے کا فریبی اور مکار، اور نہ جانے کیاکچھ ہو سکتا ہے!! جو شخص خود کو ”فری” خیال کرتا ہو اور اللہ تعالیٰ کی نگہ بانی مین اور عبدیت میں رہنے کے لیے تیار نہ ہو، وہ دراصل نفس و شیطان کا بندہ ہوتا ہے… اسی معٰنی میں ہیومن بینگ شیطنت کے مساوی ہے۔ یہی ہیومن رائٹس(Human Rights) کا علمیاتی پس منظر ہے۔

انسانی حقوق کا چارٹر کن لوگوں نے مرتب کیا؟

پچھلی سطور میں مغرب کا جو تصورِ انسان ذکر کیا گیا اور مغربی مفکرین کے افکار کا خلاصہ پیش کیا گیا، انسانی حقوق کا چارٹر انہی تصوراتِ انسان سے ماخوذ ہے۔

تاریخی طور پر دیکھا جائے تو١٧٧٦ء میں امریکا کا اعلانِ آزادی سامنے آیا۔ ١٧٨٨ء میں امریکی دستور ”بل آف رائٹ” مرتب ہوا۔ امریکی دستور کا مأخذ فیڈرلسٹ پیپرز ہیں۔ فیڈرلسٹ پیپرز وہ مضامین تھے جو دستور کی حمایت میں امریکا کے پہلے وزیرِ خزانہ الیگزینڈر ہملٹن، امریکا کے پہلے چیف جسٹس جان جے اور امریکی صدر جیمس میڈسن نے امریکی اخباروں میں لکھے تھے۔

یہ تمام مضامین مغرب کے ملحد مفکرین کے تصوراتِ انسان ہی کی روشنی میں لکھے گئے تھے۔

اقوامِ متحدہ کا منظور کردہ انسانی حقوق کا منشور اسی امریکی دستور کا چربہ ہے۔ اس منشور کی منصفہ اس وقت کے امریکی صدر کی بیوی ایلینا روز ویلٹ تھی۔ اقوام ِ متحدہ کے ذریعہ تمام ممبر ممالک کو اس بات کا پابند کیا گیا کہ وہ انسانی حقوق کے اس منشور کو عالمی اور ناقابلِ چیلنج قانون تسلیم کرتے ہوئے اس پر دستخط کریں۔ چناں چہ مسلم ممالک بھی یو این او کے رکن ہونے کی حیثیت سے اس کفر مطلق اور اللہ تعالیٰ سے بغاوت پر مبنی منشور پر دستخط کرتے ہیں، وہ پابند ہوتے ہیں کہ اپنے ممالک کے دستور و قانون کو انسانی حقوق کے چارٹر سے ہٹ کر عمل میں نہیں لائیںگے۔

ہیومن رائٹس چارٹر کے بعض اہم مشمولات:

٭ہر انسان آزاد پیدا ہوا ہے اور اس آزاد حیثیت میں ہر فرد دوسرے فرد کے مساوی ہے۔

٭ ہر انسان کو زندگی گزارنے اور معاشرت کو تعمیر کرنے کے لیے جو بنیادی وسائل دیے گئے ہیں، وہ دو ہیں: (١)عقل (٢)ضمیر

عقل کی بنیاد پر انسان طبعی معاشرت کی تعمیر کرتاہے تو ضمیر کی بنیاد پر اپنی اخلاقی معاشرت کی تعمیر کرتا ہے۔

٭ہر شخص کو ضمیر اور مذہب کی آزادی ہے۔ اسی طرح مذہب کو تبدیل کرنے’ اپنے عقائد کا انفرادی یا اجتماعی طور پر اظہار کرنے کی آزادی ہے۔(چاہے وہ فرد اسلام کو چھوڑ کر عیسائی ہونا چاہے یا یہودی عیسائیت قبول کر لے)۔

٭ہر شخص کو اپنے خیالات کی تبلیغ کا حق حاصل ہے۔

٭ہر شخص کو (خواہ مرد ہو یاعورت)ایک دوسرے کے ساتھ آزادانہ طور پر ملنے اور اپنی انجمنیں قائم کرنے کا حق حاصل ہے۔

٭ہر انسان کو یہ حق ہے کہ وہ کسی بھی میڈیا کے لیے جس قسم کی معلومات جہاں سے چاہے حاصل کر سکتا ہے۔

٭مردوعورت (بلا تفریق مذہب وملت) شادی کرنے کے بعد اسے فسخ کرنے کا اختیا ررکھتے ہیں۔

٭تمام بچے خواہ شادی سے پہلے ہوں یا بعد میں’ معاشرتی تحفظ میں یکساں طورپر مستفید ہو سکتے ہیں۔

٭ انسانی حقوق کے چارٹر کے مطابق غیر انسانی اور وحشی سزاؤں(مراد اسلامی سزائیں) کو کالعدم قرار دے دیا گیا ہے۔

٭انسانی حقوق کے اس چارٹر میں غلام ، لونڈی بنانے رکھنے اور ان کی خرید وفروخت کو ناجائز قرار دیا گیا ہے۔

٭ہر شخص کو اپنے ملک کی حکومت میں براہِ راست یا آزادانہ طور پر منتخب کیے ہوئے نمائندوں کے ذریعے حصہ لینے کا اختیار حاصل ہے۔ عوام کی مرضی حکومت کے اقتدار کی بنیا ہو گی۔

٭تعلیم کا مقصد، انسانی شخصیت کی پوری نشوونما ہو گا اور وہ انسانی اور بنیادی آزادیوں کے احترام میں اضافہ کرنے کا ذریعہ ہو گی۔

یہ چند نکات ہم نے بطور نمونہ پیش کر دیے ہیں ورنہ حقوق کی فہرست بہت طویل ہے جس میں ہمہ قسم کی آزادیوں کی لمبی تفصیل ہے۔

انسانی حقوق کا مقصد خدا سے بغاوت ہے:

انسانی حقوق کی اس بحث میں ہم دیکھتے ہیں کہ حقوق کے ضمن میں تمام فلاسفہ مغرب کا اصل زور آزادی (Freedom)پر ہے۔ فری ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انسان ہر طرح سے آزاد ہے۔ وہ کسی ان دیکھی ہستی کا عبد نہیں، اس کی عقل اس کے لیے واحد اتھارٹی ہے، اس کی عقل ہی فیصلہ کرے گی کہ شر کیا ہے اور خیر کیا ہے؟ … کسی خارجی ذریعے کو یا خارج از عقل ہستی کو خیر وشر کے تعین کا حق حاصل نہیں ہے۔اس معنٰی میں تمام انسان مساوی ہیں کہ ہر فرد اپنی عقلیت کی بنیاد پر اپنی زندگی کی تعمیر کر سکتا ہے۔ وہ آج مسلمان ہے تو کل عیسائی ہو سکتا ہے، اگر مذہب اس کی خواہشات کی تکمیل میں سدِّ راہ ہو تو وہ لا مذہب بھی ہو سکتا ہے۔ خواہشات لامحدود ہوتی ہیں اور ان کی تکمیل کے لیے سرمایہ وہ بنیادی عنصر ہے جو خواہشات کی تکمیل میں معاون ہو سکتا ہے، لہٰذا سرمائے کی بڑھوتری برائے بڑھوتری اس کی ایک ناگزیر ضرورت بن جاتی ہے اوریہ بڑھوتری حرص وحسد کی عمومیت کے بغیر ممکن نہیں۔

اوپر ذکر کردہ فکر کا پیکر ہی ”نیومین” ہے۔ سترھویں صدی عیسوی کے فلسفے کے نتیجے میں خلق جدیدکے نتیجے میں (New Man)کا ظہور ہوا تھا، کیوں کہ اس سے قبل کا انسان عہد ظلمات (Dark ages)کا آدمی تھا۔ تحریک تنویر (Enlightenment)کے نتیجے میں انسان نے گویا اپنا اصل مقام پہچانا تھا۔ چناں چہ اب وہ روشن خیال، لبرل ، آزادی و مساوات پر اور جمہوریت پر یقین رکھنے والا انسان تھا۔ اب وہ خیرو شر کے تعین کے لیے کسی خارجی ذریعے کا محتاج نہیں تھا، بلکہ اس کی عقل ہی اس کے تمام امورِ زندگی کے لیے میزان تھی۔ جو چیز ریزن ایبل نہیں تھی، وہ ردّی کی ٹوکری کے برابر بھی نہیں تھی۔

نطشے نے کہا تھا ‘ خدا مر گیا ہے۔ فوکالٹ نے کہا کہ انسان بھی مر گیا ہے۔ یہ مرنے والا انسان وہی تھا جو عہدِ ظلمات مین جی رہا تھا۔ مشل فوکو نے کہا تھا کہ انسان تو اٹھارویں صدی میںپیدا ہوا ہے۔ اس لیے حضور! یہ بات جانئے کہ اہلِ مغرب کے نزدیک وہ فرد انسان ہی نہیں جو آزادی، مساوات، جمہوریت پر یقین نہیں رکھتااور جو اب بھی وحی پر یقین رکھتا ہے، رسولوں کی رسالت پر، آخرت پر اور قیامت پر یقین رکھتا ہے۔

انسانی حقوق کے نفاذ کے لیے استعماری جبر:

یو این ڈی پی کی ہیومن ڈیولپمنٹ رپورٹ 2000ء میں ہیومن رائٹس کے فروغ کے لیے تین اہم خطوط متعین کیے گئے۔ UNDPکی رپورٹ میں جن ترجیحات کا تعین کیا گیا وہ حسبِ ذیل تھیں:

١۔تیسری دنیا کے ممالک بین الاقوامی قوانین کی ملکی قوانین پر بالادستی تسلیم کر لیں جو ہیومن رائٹس سے متعلق سول لبرٹیز کو عالمی سطح پر نافذ کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔

٢۔قومی ریاستوں کا دستوری ڈھانچہ ان بین الاقوامی قوانین اور عدالتی تنظیموں کے ماتحت کر دیا جائے، جو سرمایہ دارنہ نظام کی عالمگیریت کے تحفظ کے لیے وضع کیے گئے ہیں۔

٣۔معاشرتی سطح پر اغراض کی بنیاد پر ایسی گروہ بندیاں قائم کی جائیں جو حقوق کی سیا ست کو فروغ دیں اور قومی ریاستوں کے عالمی سرمایہ کے ماتحت ہو جانے کے عمل کی تائید کریں اور اس کا جواز عوامی سطح پر پیش کریں۔

اسی رپورٹ کے آغاز میں اس وقت کے یو این او کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان نے اپنی خواہش ظاہر کی کہ جو ملک بھی حقوق انسانی کے ماورا قانون سازی کرے اس کے خلاف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل فوجی کاروائی کرے۔ کوفی عنان نے لکھا تھا:

”کسی حکومت کو حق نہیں کہ وہ قومی خودمختاری کو آڑ بنا کر ہیومن رائٹس سے انکار کر ے۔ سوڈان اور افغانستان کے مظلوم عوام کا حق ہے کہ ہم ان پر ہونے والے ظلم کو ختم کریں اور ان ممالک کو ترقی کی راہ پر لائیں۔ ہم ان ممالک میں فوجی مداخلت کریں کیوں کہ یہ مداخلت ہیومن رائٹس کے عالمگیر طور پر تسلیم شدہ اصولوں کے مطابق ہوگی۔”

(UNDP. Human Development Report 2000 P 31)

مندرجہ بالا تصریحات کے بعد آپ سمجھ سکتے ہیں کہ حقوق انسانی کا منشور عالمی سطح پر تسلیم شدہ واحد ”الحق” ہے، جسے تسلیم کیا جانا اور ریاستی معاملات کو انسانی حقوق کے مطابق استوار کرنا لازم ہے۔ جو ریاستیں انسانی حقوق کے طے شدہ منشور کے علی الرغم ”الحق” کو رائج کرنے کی کوشش کریں ان پر فوج کشی ضروری ہے۔

مثلاً افغانستان میں طالبان عالی شان نے شریعت اسلامیہ کا نفاذ کیا اور افغانستان کو امارت اسلامی قرار دیا تو امریکا نے نیٹو افواج کے ہمراہ افغانستان پر حملہ کردیا۔ تب بش نے کہا تھا کہ وہ افغانستان کے باشندوں کو آزادی دلانے اور جمہوریت رائج کرنے آیا ہے۔ یہ آزادی وہی تھی جس کا دعویٰ ہیومن رائٹس میں کی گیا ہے اور جمہوریت کو شریعت کے متبادل جگہ دی گئی ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیمیں:

منشور انسانی حقوق کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی کیا جا سکتا ہے کہ استعماری ریاستوں کی سرپرستی میں سینکڑوں این جی اوز دنیا کے مختلف خطوں اور ممالک میں کام کرتی ہیں اور قومی معاشروں میں اس بات کا جائزہ لیتی ہیںکہ حکومتیں، ریاستی ادارے، سیاسی جماعتیں انسانی حقوق کی پاس داری کر رہی ہیں کہ نہیں؟ یہ غیر ریاستی تنظیمیں منشور انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر رپورٹیں شایع کرتی ہیں، احتجاجی مظاہرے ترتیب دیتی ہیں، مختلف ذرائع سے حکومتوں پر دباؤ ڈالتی ہیں تا کہ منشور انسانی حقوق کی مکمل پاس داری ہو سکے۔ ان تنظیموں کے طریق کار، اہداف، حکمت عملی سے یہ بات بخوبی سمجھی جا سکتی ہے کہ ان کا کوئی تعلق معاشرتی وحدت، مذہب کی بالا دستی، شرعی قوانین کی پاس داری سے نہیں ہو تا۔بلکہ یہ سرمایہ داری کو مستحکم کرنے کا سبب ہوتی ہیں۔ یہ این جی اوز جب صاف پانی کی فراہمی کو اپنا ایشو بناتی ہیں تو بین السطور ان کا اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ منرل واٹر کی بوتلیں خرید کر پانی پئیں تا کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے سرمائے میں اضافہ ہو سکے۔ یہ این جی اوز جب کسی بیماری کو ایشو بناتی ہیں تو اس کا ذکر اس طور پر کیا جاتا ہے کہ لوگ شدید خوف زدہ ہو جائیں تا کہ اس بیماری کی ادویات کی فروخت میں اضافہ ہو سکے، اسی طرح یہ تنظیمیں انصاف کی فراہمی کو ایشو بناتی ہیںتو عمومی طور پر ایسے زنا کار جوڑوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے جو اپنے مذہب، والدین اور معاشرے سے بغاوت کر کے سرمایہ داری کی محافظ عدالتوں کا رخ کرتے ہیں۔ مذہب دشمنی ان کی سرشت میں ہوتی ہے، اسی لیے یہ مختاراں مائی کے لیے تو جان ودل سے تگ ودو کرتی ہیںمگر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے لیے کبھی کلمۂ حق کہنے کے لیے تیار نہیںہوتیں۔ یہ این جی اوز جب غیر اسلامی فرقوں کے تحفظ کی بات کرتی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مسلم معاشروں میں ارتداد کی کھلی اجازت ہونی چاہیے… کوئی مسلمان قادیانی ہونا چاہے یا عیسائی یا لبرل بننا چاہے تو اس میںمذہب کو مزاحم نہیں ہونا چاہیے۔

خلاصۂ کلام:

انسانی حقوق کا چارٹر اور اس کے پس منظرمین کار فرما پورا فلسفۂ مغرب کسی خیر کا منبع نہیں بلکہ شروفساد کا محور ہے۔ اصولاً حقوقِ انسانی:

٭کتاب اللہ کا ردّ ہیں۔٭ربوبیّت کا انکار ہیں۔

٭سرمایہ داری کو مستحکم کرنے کے بنیادی اصول ہیں۔٭انسان کو خدا بنانے کاذریعہ ہیں۔

جن معاشروں میں انسانی حقوق کوپریکٹس کیا جاتا ہے تو ہم دیکھتے ہیںکہ وہ معاشرے حریص وحاسد، سفاکی کی حد تک خودغرض، شہوت پرست، قاتل اور غاصب ہو جاتے ہیں۔ ہر فرد محض اپنی ذات میں سمٹ جاتاہے اور معاشرتی اکائیاں مثلاً خاندان وغیرہ بکھر جاتی ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ہم بلا کسی تامل کے انسانی حقوق کے چارٹر کو اسی طرح کفرِ خالص تسلیم کرتے ہیں جس طرح  سکھون کی گرنتھ، ہندؤوں کی وید کو… اللہ تعالیٰ نے شرک کو ظلم عظیم قرار فرمایا ہے اور مشرک کو کسی صورت معاف نہ فرمانے کا اعلان کیا ہے۔ مشرک وہ ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات میں اس کے غیر کو شریک ٹھہرائے، یعنی وہ اللہ تعالیٰ کی الوہیت کا قائل ہوتا ہے مگر شرک کی آلودگی کے ساتھ جب کہ انسانی حقوق کے فلسفے میں معاملہ جدا ہے، یہاں اللہ تعالیٰ کی ذاتِ واجب الوجود کا ہی سرے سے انکار کیا جاتا ہے۔

انسانی حقوق کے عقیدہ کو ہم چند نکات میں بیان کرنا چاہیں تو حسبِ ذیل ہوں گے۔

(١)انسان کائنات کا اصل محور ومرکز ہے۔

(٢)علم و ادراک کا بنیادی ذریعہ عقل ہے… پھر تجربہ ومشاہدہ۔

(٣)آزادی اور مساوات اساسی قدر ہے۔

(٤)مادی ترقی لازمی عمل ہے۔

جمہوریت اور سرمایہ داری کا باہمی تعلق

تعارف:

اس مضمون میں ہم نے جمہوری نظام اس کی مابعد الطبیعات، اخلاقیات، اداروں اور ان کے باہمی تعلق کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ آغاز یونان سے کیا گیا ہے جو مغربی تہذیب کا اولین گہوارہ تھا۔ بتایا گیا ہے کہ یونانی مفکرین (افلاطون، ارسطو) جمہوریت کو کن بنیادوں پر رد کرتے تھے۔ ان کے بعد کلاسیکی مفکرین کا ذکر ہے جس میں ہم نے (جان اسٹوراٹ مل اور روسو) کے حوالے سے گفتگو  کی ہے اور بتایا ہے کہ یہ مفکرین کن بنیادوں پر جمہوریت کا اثبات کرتے ہیں۔ بنیادی جمہوری اداروں (رائے دہندگی، نمایندگی، بیوروکریسی) وغیرہ کا تجزیہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ یہ ادارے انسان کے نفس میں کس قسم کے تغیر کا باعث بنتے ہیں۔ جمہوری عمل اور کلاسیکی مفکرین کے نظریہ میں تضاد کو واضح کرتے ہوئے، اثباتی سیاسی مفکرین کے فکر کا جائزہ لیا ہے۔ آخر میں ایک عمومی اسلامی تنقید پر یہ بحث ختم ہوئی ہے۔

جمہوریت اور یونان:

جمہوریت کے بارے میں ہمیں مغربی تہذیب میں سب سے پہلی بحث یونانیوں کے یہاں ملتی ہے۔ یونانی مفکرین افلاطون وارسطو جمہوریت کے خلاف تھے۔ وہ جمہوریت کو جن بنیادوں پر رد کرتے تھے وہ یہ تھیں کہ جمہوری آورشیں ان مستقل اقدار سے لگا نہیں کھاتیں جو انہوںنے اپنے فلسفوں میں متعین کی تھیں۔ اس کو ایک مثال سے سمجھ سکتے ہیں مثلاً افلاطون نے نظریہ امثال (Theory of forms) کے ذریعے یہ بتایا ہے کہ عالم بالا میں ایسی اشیاء اور حقائق پائے جاتے ہیں (جن کو وہ Formکہتا ہے) جو غیرمتبدل اور اصل الحقائق ہیں اور دنیا میں ہمیں نظر آنے والی اشیاء ان اصل حقائق کا مدہم ساعکس ہیں۔ یہ اصل حقائق ہیں جن تک رسائی حاصل کرکے فلسفی فطرت کی تہہ تک پہنچتا ہے اورجہل کے پردے ہٹ جاتے ہیں، وہ حقائق اشیاء کو جس طرح سے کہ وہ ہیں دیکھ سکتاہے۔ ان اصل حقائق تک ہر شخص نہیں پہنچ سکتا ہے بلکہ جو افراد ایک خاص قسم کی صلاحیت کو پروان چڑھا سکتے ہیں اور ایک خاص قسم کی صلاحیت بہم پہنچا سکتے ہیں وہی ان حقائق تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔ افلاطون کی اس مابعدالطبیعات اور نظریہ علم کا اس کے نظریہ اخلاق پر گہرا اور لازمی اثر پڑا۔ مثلاً عدل کیا ہے؟ اس کے جاننے کے لیے ہمیں عدل کی (Form) جو عالم بالا میں موجود ہے اور جو مکمل اور غیرمتبدل ہے اس تک رسائی حاصل کرنا ہوگی اور اسی کے مطابق پھر ہم یہ فیصلہ کرسکیں گے کہ اس دنیا میں پائی جانے والی اشیاء یا ہونے والے عمل میں عدل کا عنصر کتنا ہے اب ظاہر ہے کہ یہ کام ہر کس وناکس کے بس کا نہیں ہے بلکہ فلسفی ہی یہ کام انجام دے سکتا ہے اسی لیے افلاطون اپنی ریاست کی زمام کار فلسفیوں کے ہاتھ میں تھما نے کی بات کرتا ہے جو انسانیت کو غیرمتبدل اور کلی اقدار کے مطابق گامزن منزل کریں گے۔ اسی سے ہم کچھ اس کا اندازہ کرسکتے ہیں کہ افلاطون جمہوریت کو کن بنیادوں پر رد کرتا ہے۔ چونکہ جمہوریت عام آدمی کے اقتدار کا نام ہے اور وہ اصل حقائق تک رسائی نہیں رکھتا بلکہ اکثر اپنی خواہشات کی بنیاد پر فیصلے کرتا ہے اس لیے لازماً جمہوریت میں اخلاقیات اور اقدار کا زوال ہے اور بالآخر وہ تباہ ہو کر رہ جاتی ہیں اسی طرح چونکہ حکمران ہر دم بدلتی عوامی رائے کے سامنے بے بس ہوتے ہیں اور اس کو اپنے فیصلے میں جگہ دینے کے پابند ہوتے ہیں اس لیے آہستہ آہستہ وہ بھی اقدار کی جگہ ذاتی اور عوامی خواہشات کو جگہ دینا شروع کردیتے ہیں اور یوں سیاست جادہ حق سے ہٹ جاتی ہے۔

ارسطو جمہوریت کو رد کرنے کی مندرجہ ذیل وجوہات بیان کرتا ہے۔

١۔ ارسطو کے خیال میں اکثریت قطعی فیصلے کے معاملے میں گومگو رہتی ہے اس لیے عدل اجتماعی کا قیام ناممکن ہوجاتا ہے۔

٢۔ سیاسی طور پر جمہوریت عدم استحکام کو جنم دیتی ہے

٣۔ جمہوریت کے نتیجہ میں اخلاقی اقدار زوال پذیر ہوجاتی ہیں۔

٤۔ اکثریت پرستی اور عمومی بے راہ روی کو فروغ ہوتاہے

٥۔ چند افراد کا اقتدار پر قابض ہونا۔

٦۔ حقیر لذات کی جستجو کو فروغ ملتا ہے۔

٧۔ حقیقی اخلاقی اور اجتماعی مقاصد فوت ہوجاتے ہیں۔

اس مختصر سے جائزے سے یہ بات سامنے آجاتی ہے کہ یونانی مفکرین اخلاقی اور اقداری بنیادوں پر جمہوریت کو رد کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں جمہوریت کے نتیجے میں جو کردار فروغ پاتا ہے وہ وہ کردار ہے جو کردار مطلوب نہیں ہے، یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ ان مفکرین کے یہاںمستقل اور غیرمتغیر آورشوں کا اثبات ہے جو ان کی مابعدالطبیعات نظریہ علم اور اخلاقیات سے متعین ہوتی ہے۔ جمہوریت کو اس بحث میں اس اہم نکتہ کو ایک اہم موڑ پر پھر اٹھائیں گے۔

کلاسیکی مفکرین:

جمہوریت کے ضمن میں یونانی مفکرین کے بعد ان مفکرین کا تذکرہ آتا ہے جنہیں ہم کلاسیکی مفکرین کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ جن میں سے ہم روسو اور مل کولیں گے۔ یہ کلاسیکی مفکرین یونانی مفکرین کے ساتھ ایک لحاظ سے مماثلت رکھتے ہیں اور ایک لحاظ سے ان کی رائے یونانی مفکرین کے بالکل برعکس ہے۔ مماثلت اس امر میں ہے کہ یونانی اور کلاسیکی مفکرین جمہوریت پر بحث اور گفتگو کو اخلاقی، اقداری مباحث کے سیاق وسباق میں کرتے ہیں جبکہ اختلاف اس امر میں ہے کہ یونانی کہتے تھے کہ جمہوریت جو کردار پیدا کرتی ہے اس میں مطلوب خصوصیات عنقاہوتی ہیں، جبکہ کلاسیکی مفکرین کہتے ہیں کہ جمہوریت کے ذریعہ سے مطلوب اقداری تبدیلیاں اور مطلوب کردار پیدا ہوسکتا ہے۔

سیاسی تصورات کی بنیاد انسان کے نفس کے بارے میں تصورات اور معاشرے کے بارے میں تصورات نیز مقصد زندگی کے بارے میں تصورات ہوتے ہیں۔ کسی بھی مفکر کے سیاسی نظریہ کو سمجھنے کے لیے اس کے تصور انسان اور معاشرہ کو سمجھنا نہایت ضروری ہے۔

روسو کے نزدیک انسان بنیادی طور پر خیر کی طرف مائل ہے اور اگر وہ اپنے دل کی صاف وشفاف روشنی کا اتباع کرے تو وہ جادہ حق سے ہٹ نہیں سکتا۔ روسو کی ”فطری حالت” جو اس کے ideal فر دکی تصویر ہے، میںانسان اپنے آپ سے محبت کرتا ہے اور اس کی سب سے بڑی ذمہ داری خود اس کی اپنی ذات ہے، وہ جبلت اور فطری روشنی کی رہنمائی میں چلتا ہے، عقل ودلیل سے اسے کوئی خاص غرض نہیں ہے بلکہ وہ دل اور جبلت سے رہنمائی لیتا ہے اور اس کی تصویر Enlightenment کے Sophisticated شخص کی نہیں ہے بلکہ وہ سادہ اور جنگلی (Noblesarage)  ٹائپ کا شخص ہے۔ اب ہوتا یہ ہے کہ تہذیب وتمدن اور علم وعقل کی فراوانی اس شخص کو Corrupt کردیتی ہے اور وہ اپنی اس سادگی اور جبلی زندگی سے کوسوں دور ہوجاتا ہے۔ روسو کہتا ہے کہ اب اس فطری حالت کو جوں کا توں دوبارہ حاصل کرنا تو ناممکن ہے لیکن اس کی جتنی بھی زیادہ سے زیادہ مشابہت حاصل کرنے کے امکانات ہیں وہ بروئے کار لانے چاہئیں۔ روسو اس کا جو طریقہ بتاتا ہے وہ مغربی طرز فکر میں رومانوی تحریک کے نام سے جانا جاتا ہے جس کے مطابق انسان کو اپنی آزادی کے حصول اور حالت فطری کی صاف وشفاف زندگی کی ممکنہ مطابقت کے لیے اپنے آپ کو ایک برتر ہستی جس کو وہ ارادہ اجتماعی کہتا ہے میں ضم کردینا چاہیے۔ اسی انضمام کے نتیجہ میں وہ اپنی اصلی شخصیت کو کسی نہ کسی حد تک دوبارہ پاسکتا ہے ور اسی صورت میں حقیقی معنوں میں آزاد اور اپنی ہستی کا تشکیل کنندہ قرار پاسکتا ہے۔ روسو کے ارادہ اجتماعی کی مندرجہ ذیل خصوصیات سامنے آتی ہیں۔

١۔ یہ ارادہ اجتماعی مستقل ہے۔

٢۔ یہ ارادہ اجتماعی غیرمتبدل ہے۔

٣۔ یہ ارادہ خالص ہے۔

٤۔ لوگ چاہیں یا نہ چاہیں اس کی حیثیت میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔

٥۔ اس ارادہ اجتماعی کے اتباع کے نتیجہ میں انسان اپنی اصل فطرت کے قریب ہوجاتا ہے اور حقیقی معنوں میں آزاد اور اپنی تقدیر کو آپ متعین کرنے والا بن سکتا ہے۔ (بحیثیت انسان)

روسو کے مطابق معاشرہ کی تنظیم کی بنیاد معاہدہ عمرانی ہے۔ معاہدہ عمرانی میں داخل ہونے کا مقصد ارادہ اجتماعی کی آگاہی اور اس کا اتباع اور اس کے نتیجہ میں انسان کا بحیثیت انسان آزاد ہوتا ہے۔ روسو چھوٹی ریاستوں میں ارادہ اجتماعی کے اظہار کا ذریعہ جمہوریت کو بتاتا ہے اور وہ اس کا ideal بھی ہے۔ وہ ارادہ اجتماعی اور اکثریت کی رائے میں فرق کرتا ہے۔ وہ ایک مثال قانون ساز کا قائل نظرآتا ہے جو لوگوں کو اس بات پر آمادہ کرسکے کہ ارادہ اجتماعی اس وقت کیاہے۔ اس سلسلہ میں وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مثال بھی دیتا ہے۔ لیکن روسو جمہوریت کو ارادہ اجتماعی کے اظہار کا ناگزیز طریقہ نہیں بتاتا ہے اور وہ اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ بادشاہت اور طبقہ علیا کی حکومت کے ذریعہ بھی اجتماعی ارادہ کا اظہار ہوسکتا ہے لیکن اس کا آئیڈیل بہرحال جمہوریت ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ جمہوریت کے بغیر بالآخر ریاست چل نہ سکے گی اور عوام انتشار اور تفرقہ کا شکار ہوجائیں گے۔ اس مختصر تجزیے کے مطابق مندرجہ ذیل نتیجہ نکلتا ہے۔

١۔ روسو انسان کی علیحدگی، الوہیت اور آزادی کا قائل ہے۔

٢۔ حقیقی آزادی کا حصول ارادہ اجتماعی کے اتباع سے ممکن ہے۔

٣۔ ارادہ اجتماعی کا اظہار مثالی مقنن پر ہوتا ہے جمہوریت میں مثالی مقنن کی نشوونما کے زیادہ مواقع ہوتے ہیں۔

جان اسٹوراٹ مل برطانیہ کی مشہور سیاسی، معاشی، فلسفیانہ تحریک ”افادیت” (utilitarianism) سے تعلق رکھتا ہے جس نے افادی نقطہ نظر کو ایک خاص نوع سے ترقی دی اور اس کو حقوق کے خاص تصورات کے ساتھ منسلک کیا نیز انسان کا ایک خاص تصور پیش کیا ہے۔

مل کے تصور انسان کی بحث کا سراغ افادی فلسفہ کی مشہور بحث کے ساتھ منسلک ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ افادیت (utilitarianism) انسان کا ہدف ”لذت” کے زیاہ سے زیادہ حصول کو قرار دیتی ہے۔ اب اس فلسفہ کی اندرونی منطق کے مطابق مختلف قسم کی لذات میں جو فرق کیا جاسکتا ہے کہ وہ مقدار اور شدت کے لحاظ سے ہی ہوسکتا ہے۔ یعنی اس فلسفہ کے مطابق دو مختلف لذتوں میں کیفیت کے اعتبار سے فرق نہیں ہوتا یا نہیں کیا جاسکتا۔ یہ کلاسیکی افادی نقطہ نظر ہے جس کے حامی بینتھم اور جیمس مل ہیں۔

جان اسٹورات مل نے جو اسی سلسلہ فلسفہ سے تعلق رکھتا ہے اس بات کو محسوس کیا کہ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ لذات کے درمیان کیفیاتی فرق پایاجاتا ہے۔ مثلاً موسیقی سے حاصل شدہ لذت کو شراب سے حاصل کردہ لذت کے مقابلے میں مغرب میں عام طور پر کیفیت میں ارفع سمجھا جاتا ہے۔ لیکن جان مل نے مختلف لذات میں جو کیفیاتی فرق کیا اس کی کلاسیکی افادی نقطہ نظر سے توجیہ پیش نہیں کی جاسکتی اس لیے مل کو اس توجیہ کے لیے دوسرے ذرائع سے رجوع کرنا پڑا۔ اور اس میں خاص طو رپر اس کا تصور انسان شامل ہے، گوکہ اس کی کتابوں میں اس کا واضح اظہار اور اقرار نہیں ملتا کہ اس نے لذات میں کیفیاتی فرق کے لیے افادی نقطہ نظر سے ہٹ کر کوئی کسوٹی قائم کی ہے۔

آئیے اس تمہید کے بعد یہ دیکھیں کہ جان اسٹوراٹ مل کا تصورانسان کیا ہے۔ اس بات کی دلیل کے لیے جان مِل نے لذت کے درمیان کیفیتی فرق کے لیے افادی نقطہ نظر کے علاوہ اور کسی کسوٹی کو اپنا لیا ہے اس کا مشہور جملہ کافی ہے۔ جس میں وہ کہتا ہے کہ :

”غیرمطمئن انسان مطمئن سور سے بہتر ہے اور یہ کہ غیرمطمئن سقراط مطمئن ابلہ سے بہتر ہے۔ اسی طرح وہ بینھتم پر تنقید کرتے ہوئے اس کے ناقص تصور انسان کی طرف توجہ مبذول کرواتا ہے۔

جان مل کا تصور انسان ارسطو سے ماخوذ ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ”انسان کا مقصود یہ ہے کہ اس کی مختلف قوتوں اور استعداد کی مجموعی اور ہم آہنگانہ ترقی ہوسکے۔” اس کی مختلف تحریروں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ انسانی فطرت کی ترقی اور اس کی اصلاح کو بہت اہمیت دیتا ہے اور فرد کی انفرادیت پر وہ خاص توجہ مبذول کرواتا ہے۔ مندرجہ بالا ارشارات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مل کا تصور انسان انفرادیت کے اثبات اور اس کی قوتوں کی ہم آہنگانہ تربیت وترقی کو محیط ہے۔

اس کے بعد مل کے معاشرتی تصورات پر نظر ڈالنی چاہیے۔ افادی فلسفہ میں جیسا کہ معلوم ہو کہ معاہدہ عمرانی کا انکار کیا جاتا ہے اور معاشرے کی بنیاد افادیت کے نقطہ نظر پر رکھی جاتی ہے۔ کلاسیکی افادی فلسفہ میں صرف افادیت ہی معاشرے کی بنیاد ہے پر نیز کلاسیکی افادی فلسفہ حقوق کی بحث کو فضولیات کہہ کر رد کردیتا ہے۔ لیکن جان مل نے کلاسیکی افادی فلسفہ میں جو اہم اضافے کیے ہیں اس میں انفرادی آزادی اور حقوق پر بطور خاص زور دینا شامل ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اگر ہم انفرادی آزادی اور حقوق کو تحفظ فراہم نہیں کریں گے تو افادیت (Utility) کا ضامن نظام بالآخر محفوظ نہیں رہ سکے گا اور تہس نہس ہوجائے گا۔ جب افادیت کا محافظ نظام ہی تہس نہس ہوجائے گا تو مفاد عامہ کا تذکرہ چہ معنی دارد؟ جان مل نے اپنی کتابوں ”آزادی” اور ”افادیت” میں اس بحث کو خاص طور پر لیا ہے اور اہم نکات کی وضاحت کی ہے۔ اس کے خیالیہ مفاد عامہ کا تقاضہ ہے کہ فرد کو زیادہ سے زیادہ آزادی دی جائے چاہیے اکثریت کو فرد کے بارے میں فیصلے کرنے کا کوئی حق نہیں، اس لیے اسے اپنے نظریات خیروشر کسی شخص پر تھوپنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے وہ آزادی نامی کتاب میںلکھتا ہے:

”معاشرہ کو فرد کی آزادی میں اس وقت تک مداخلت نہیں کرنی چاہیے جب تک کسی فرد یا معاشرہ کے مفادات کو لامحدود اور معین خطرہ لاحق نہ ہو۔”

آزادی کے بارے میں مل کی یہ بحث مل کے حکومت کے بارے میں نقطہ نظر کو متعین کرنے اورسمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ مل جمہوریت کو بہترین طرز حکومت قرار دیتا ہے۔ لیکن وہ سمجھتا ہے کہ ہر معاشرے کے لیے جمہوریت قابل عمل طرز حکومت نہیں ہے بلکہ وہ معاشروں کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔

مہذب معاشرے اور غیرمہذب معاشرے۔ مہذب معاشرے وہ معاشرے ہیں جو آزادی اور حقوق کے تصورات کو قبول کرکے ان اقدار کو اپنی تہذیب وثقافت کا حصہ بنا لیتے ہیں جبکہ غیرمہذب معاشرے وہ معاشرے ہیں جو مغربی تہذیب وثقافت وآزادی ومساوات سے ناآشنا اور معاند ہیں۔ ایسے معاشروں میں جمہوریت اس وقت تک قابل عمل نہیں جب تک تعلیم اور دیگر ذرائع سے ان معاشروں کو مہذب معاشروں کی سطح پر نہ پہنچادیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ خود جمہوری عمل میں شرکت کے نتیجہ میں جمہوری اقدار کو فروغ حاصل ہوتا ہے جن میں سے کچھ یہ ہیں:

١۔ شہری اوصاف کا فروغ۔

٢۔ اپنی ذاتی زندگی کو پبلک زندگی کے ماتحت لانا۔

٣۔ ہر انسان اپنا حکمراں خود ہوگا۔

ان اوصاف کے فروغ کے لیے مندرجہ ذیل چیزیں ضروری ہیں۔

١۔ سیاسی تربیت

٢۔ مساوات

مل نے اس بات پر باربار زور دیا ہے کہ جدید معاشرہ مساوات کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا۔ مل یہ بھی کہتاہے کہ جمہوریت راست (Direct Participatory democerey) صرف چھوٹے قصبوں اور شہروں کے لیے ہی قابل عمل ہے اس لیے بڑے علاقوں میں نمایندگی (represention) کی بنیاد پر جمہوری عمل کو چلایا جائے گا۔

لیکن جمہوریت کے بارے میں ان خیالات کے ساتھ وہ اس بارے میں خدشات بھی رکھتا ہے مثلاً اکثریت کی آمریت کے خطرہ کے سدباب کے لیے اور اقلیت کے مفادات کے تحفظ کے لیے تناسب نمایندگی کا تصور دیتا ہے اور اس کے ساتھ وہ تعلیم کی اہمیت پر خاص طور پر زور دیتا ہے جس کے ذریعہ انفرادی آزادی کے تصور کو ہر فرد کے ذہن میں راسخ کردیاجا ئے اور اس سلسلہ میں مذہب، نسل اور دوسرے تعصبات کو راہ نہ دی جائے۔

اس کے ساتھ ساتھ مل فلاح عامہ کے تصور اور فلاحی ریاست کے تصور کو بطور خاص جگہ دیتا ہے اور اس سلسلہ میں ریاست کے محدود کنٹرول کو بھی جائز قرار دیتا ہے۔ دراصل مل کے نزدیک آزادی کا مفہوم صرف بیرونی موانع سے آزادی حاصل کرنا نہیں ہے بلکہ اس نے آزادی کو اس حیثیت سے بھی اہم سمجھا کہ وہ انسان کی بحیثیت انسان ہم آہنگانہ ترقی کے لیے بھی ضروری اور لازمی ہے اور یہ مفاد عامہ کا تقاضا بھی ہے۔ اس لیے یہ نتیجہ نکالنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ مل کے نزدیک یہ معاشرے کا فرض ہے کہ وہ انسان کی زیادہ سے زیادہ ترقی کی راہ میں حائل تمام رکاوٹوں کو دور کرے۔

اس تمام بحث سے مندرجہ ذیل نتائج نکالے جاسکتے ہیں۔

روسو اور مل کے نظریات کی تشریح سے بات یہ واضح ہوجاتی ہے کہ جمہوریت محض ایک سیاسی آلہ (Pcolitical Instrument) نہیں بلکہ ایک مکمل نظام زندگی کے نفاذ کا طریقہ ہے۔ یہ نظام لبرلزم ہے اور تاریخ نے ثابت کردیا کہ جمہوریت کے ذریعہ صرف ایک لبرل معاشرہ اور لبرل ریاست ہی قائم ہوسکتی ہے۔ کوئی دوسرا نظام جمہوریت کی بنیاد پر نہ قائم کیا جاسکتا ہے اور نہ قائم رکھا جاسکتا ہے۔

لبرلزم ایک مکمل تہذیب ہے۔ اس کا بنیادی عقیدہ انسان پرستی ہے۔ اس عقیدہ کے فروغ کے لیے وہ جس اخلاقیات کی تعلیم دیتی ہے اس کے مرکزی اقدار آزادی اور مساوات ہیں۔ وہ ایسا انسانی کردار تعمیر کرنا چاہتی ہے جو اپنی خواہشات کی تکمیل کو ذات کی ارتقاء کا واحد ذریعہ سمجھتا ہے۔ لبرلزم کا قائل فرد اپنے آپ کو دنیا میں تنہا سمجھتا ہے اور اپنی خواہشات کو جانچنے کے لیے خود کو خیر اور شر کے پیمانے وضع کرنے کا مکلف سمجھتا ہے وہ ہر دوسرے انسان کی یہی حیثیت تسلیم کرتا ہے کہ وہ بھی اپنے خیر اور شر کے پیمانے پر متعین کرے اور اپنی خواہشات کی جس طرح چاہے تسکین حاصل کرے۔ لبرل معاشرہ ایسے تنہا اور خودکفیل افراد کا مجموعہ ہیں جن کا مقصد زیادہ سے زیادہ خواہشات کا حصول ہے،  لبرل معاشرہ تمام خواہشات کی یکساں اہمیت اور قدر کا اصولاً اقرار کرتا ہے لہٰذا خواہشات کی ترجیحی ترتیب محض کثرت رائے پر منحصر ہوتی ہے لبرل معاشرہ حلال اور حرام کے کسی مستقل پیمانہ کو اصولاً قبول نہیں کرسکتا۔

جمہوریت وہ ذریعہ ہے جس سے ایسے افراد تنہا رکھے جاتے ہیں جو:

١۔ خود غرض ہوں۔ اپنے آپ کو یکا وتنہا محسوس کریں۔

٢۔ اپنے آپ کو اس بات کا مکلف سمجھیں کہ معیار خیروشر خود متعین کرسکتے ہیں اور کسی دوسرے کو ان کے لیے یہ معیارات متعین کرنے کا حق نہیں۔

٣۔ تمام انسانوں کو تنہا اور خیر اور شر متعین کرنے کا مکلف سمجھیں۔

٤۔ نفس کی پرستش کے قائل ہوں اور تمام خواہشات کی تکمیل کو اسی نفس پرستی کاذریعہ سمجھیں۔

٥۔ان چاروں نکات کو اختصار سے بیان کرنا ہوتو کہاجاسکتا ہے کہ لبرل شخصیت آزادی کو اہم ترین گرداننے والی شخصیت ہوتی ہے۔

ایسی شخصیت کی تعمیر کے لیے جمہوری نظام میں جو ادارتی صف بندی کی جاتی ہے اس کی ذیل میں گفتگو کی گئی ہے۔

جمہوریت کے ادارے:

اب ہم جمہوریت کے اداروں پر گفتگو کریں گے اور تجزیہ کے ذریعے ان کے عمل کی وضاحت کرکے ان کی روح کو واضح کرنے کی کوشش کریں گے۔

رائے دہندگی:

جمہوریت کا بہت اہم ادارہ ہے جو جمہوری مابعدالطبیعات اور اخلاقیات کا عکاس ہے۔ رائے دہندگی کا تعلق انسان کی حاکمیت سے اور اس کی آزادی سے ہے۔ ہر انسان اپنی تقدیر بنانے، اپنے فیصلے کرنے میں خودمختار تصور کیا جاتا ہے۔ کیونکہ معاشرہ کی تشکیل کے لیے مختلف الخیال آزاد اور خودمختار افراد کے درمیان رہن سہن کا قابل عمل فارمولا تشکیل دینا ہوتا ہے اس لیے ہر حاکم اور خودمختار فرد کی رائے مانگی جاتی ہے اور اکثریت کے مطابق فیصلے کیے جاتے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ اقلیت کے مفادات کے تحفظ کے لیے حقوق کا سارا معاملہ موجود ہے۔ جب انسان حق رائے دہی کا استعمال کرتا ہے تو وہ چاہتا ہے کہ اس حق کی اس طرح استعمال کیا جائے جس سے اس کے مفادات کا زیادہ سے زیادہ تحفظ ہوسکے۔ اس سارے عمل کے مندرجہ ذیل نتائج نکلتے ہیں:

١۔ ہر شخص شروع سے ہی الگ اورتنہا تصور کیا جاتا ہے اور وہ اپنے آپ کو اسی لحاظ سے دیکھنے لگتا ہے۔

٢۔ وہ اپنے مفادات کے تحفظ کو اولین اہمیت دینے لگتا ہے اور جس طرح یہ عمل بڑھتا چلا جاتا ہے وہ شخص اپنے مفادات کو زیادہ اہمیت دیتا چلا جاتا ہے۔

٣۔ حق رائے دہی کا یہ بھی نتیجہ نکلتا ہے کہ اجتماع کی بناء محبت کے بجائے اغراض بن جاتی ہیں جس شخص کے اغراض میرے اغراض سے متصادم ہیںوہ میرا حریف اور جس شخص کے اغراض میرے اغراض سے لگا کھاتے ہیں وہ میرا حلیف ہے۔

٤۔ معاملات کے فیصلے کرتے وقت ہر شخص کی رائے کو برابر کی اہمیت دی جاتی ہے جس کے نتیجہ میں شرابی، زانی، نمازی ایک ہی اہمیت کے حامل قرار پاتے ہیں اور معاشرتی برتری کا واحد معیار مادی مفادات کے حصول میں کامیابی قرار پاتا ہے۔

نمایندگی کا تصور:

یونان میں جمہوریت کا تصور ہر فرد کی براہ راست شرکت پر مبنی تھا لیکن جوں جوں ریاستیں وسیع ہوتی گئیں براہ راست شرکت کا عمل ناممکن ہوتا چلا گیا۔ اس مشکل کا حل یہ نکالا گیا کہ رائے دہندگان اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے چند افراد کو چنیں جو ایک معین مدت کے بعد رائے دہندگان سے اپنی کارکردگی کا سر  ٹیفکیٹ حاصل کرسکیں۔ اس ادارہ سے جو نتائج برآمد ہوتے ہیں وہ یہ ہیں:

١۔ رائے دہندگان نمائندگان کو اپنی اغراض کی بنیاد پر منتخب کرتے ہیں۔

٢۔ نمایندگان بھی رائے دہندگان کی اغراض کو ہوا دیتے ہیں تاکہ انہیں زیادہ سے زیادہ رائے دہندگان کا اعتماد حاصل ہوسکے۔

٣۔ کیونکہ رائے دہندگان اور نمایندگان کے تعلق کی واحد بنیاد غرض ہوتی ہے اس لیے معاشرے میں وہ لوگ اوپر آنے لگے جو زیادہ مکار، زیادہ چالاک اور حرام خوری میں زیادہ طاق ہوتے ہیں۔

٤۔ اس کا یہ نتیجہ نکلا کہ صلاح اور تقویٰ کی معاشرتی اہمیت معدوم ہوتی چلی گئی اور صالحین اور متقین کا معاشرہ میں مقام بہت کم ہوگیا کیونکہ نمائندگان قانون ساز بھی تھے اس لیے قانون سازی کا کام معاشرہ کے بدترین افراد کے ذمہ ہوگیا وہ کام جو خدا نے اپنے لیے مختص کیا ہوا ہے۔

بیوروکریسی ٹینکوکریسی:

کیونکہ رائے دہندگی اور نمایندگی کے نتیجہ میں غرض ہی عمل کا محرک بن جاتی ہے اس لیے اقداری بحثیں غیرمتعلق ہوجاتی ہیں۔ اس طرح معاشرہ میں وہ لوگ بالادست ہوتے چلے جاتے ہیں جو اغراض کے حصول کو زیادہ سے زیادہ بہتر طریقہ پر انجام دے سکتے ہیں،ظاہر ہے اس کے نتیجہ میں بیوروکریسی اور ٹینکوکریسی مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی جاتی ہے۔

معاشرتی تفاوت:

غرض کی اولیت پر اجماع قائم ہونے کے نتیجہ میں سیاست پتی کا شکارہوجاتی ہے اقداری بحثوں کا سلسلہ کم سے کم ہوجاتا ہے اور ان مسائل سے دلچسپی صرف قیادت (elite) تک محدود ہوکر رہ جاتی ہے اور یہی تہذیب جمہوریت اور آزادی کا شعور رکھتے ہیں جبکہ عوام آزادی وغیرہ سے اغراض کے حصول کے علاوہ کوئی تعلق نہیں رکھ پاتے اور زیادہ سے زیادہ فوائد کا حصول اور نفس پرستی ہی معاشرے کے بڑے حصہ پر غالب آجاتی ہے۔

مقتدرین (Elite) اور عوام کے نقطۂ نگاہ میں یہ فرق ہوتا ہے کہ مقتدرین آزادی کے حصول اور استحکام کے عمومی تقاضوں سے باخبر ہوتے ہیں وہ نظام میں مجموعی طور پر خودغرضی کو عام کرنے کے لیے معاشرتی حکمت عملی تشکیل کرتے ہیں۔ عوام کو صرف اپنے ذاتی اغراض کے حصول سے دلچسپی ہوتی ہے۔ خودغرض معاشرہ کی تعمیر واستحکام سے وابستگی نہیں ہوتی۔ اس قسم کے معاشرہ کی بقا کے لیے عوام عموماً ذاتی قربانی کم کردیتے ہیں۔

ان چاروں اداروں کے نتیجہ میں جس قسم کی شخصیت تعمیر ہوتی ہے وہ خودغرض شخصیت ہوتی ہے جس کو اپنے مادی نفع کے علاوہ کسی چیز سے غرض نہیں ہوتی۔ وہ بڑے بڑے اقداری مسائل کو گٹر اور سڑک اور گیس پائپ لائن کے نذر کرنے کو ایک تحسین آمیز رویہ خیال کرنے لگتے ہیں اور ایک ایسی شخصیت وجود میں آتی ہے جو اپنی نفس پرستی سے باہر نہیں نکل پاتی۔

اس قسم کے خودغرض اشخاص محبت کرنے کے اہل نہیں رہتے۔ اس بات کا سب سے بڑا ثبوت ہر جمہوری اور لبرل معاشرہ میں خاندانی نظام کی لامحالہ شکست وریخت ہے۔ خاندان محبت کا گہوارا ہے۔ یہاںتمام تعلقات ایثار، خودفراموشی اور احسان کی بنیاد پر قائم رکھے جاتے ہیں۔ جب لوگ خودغرض ہوجاتے ہیں اور انفرادی آزادی کو تحفظ اور فروغ دینے لگتے ہیں تو وہ ماں، بیوی، بچوں اور بزرگوں کو حق نہیں دے سکتے کہ ان کی انفرادی آزاد زندگی میں دخل اندازی کریں اور نہ ان کے لیے قربانیاں دینے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ خاندانی نظام کے تباہ ہونے کا سب سے المناک اثر عورت پر پڑتا ہے وہ اپنی نسوانیت سے محروم (Defeminise) ہوجاتی ہے اور مرد بن کر نوکری کرتی ہے اس کا کوئی ولی نہیں رہتا۔ وہ اپنے ”حقوق” مانگتی ہے اور معاشرہ ان ”حقوق” کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ عورت گھر سے باہر آجائے تو تربیت کا وہ پورا نظام مسمار ہوجاتا ہے، جس پر دین اسلام کی عمارت قائم ہے یہی وجہ ہے کہ کوئی جمہوری معاشرہ اسلامی اقدار کو فروغ نہیں دے سکتا۔ اسلام محبت کو عام کرتا ہے اور جمہوریت غرض کو۔ یہ دو ایسے اقداری نظام ہیں جو لازماً ایک دوسرے کی نفی کرتے ہیں۔

جمہوری عمل اور نظریہ میں تضاد:

جمہوری نظریہ کے بعد اور چار اہم جمہوری اداروں کی تشکیل اور عمل کا سرسری جائزہ لینے کے بعد ہمیں اس بات کو سمجھنے لینے میں کوئی دقت پیش نہیں آنی چاہیے وہ کہ جمہوری نظریہ کے دعوؤں اور جمہوری عمل کے نتائج میں زمین وآسمان کا فرق ہے جس کو ہم ذیل میں مختصر اور تقابلاً واضح کرنے کی کوشش کریں گے۔

١۔ جمہوری نظریے کا دعویٰ تھا کہ ہر انسان معیار خیروشر کے تعین میں ایک اہم کردار ادا کرے گا لیکن حقیقتاً لوگ صرف اپنی اغراض کے حصول میں لگے رہے اور دیگر اہم معاملات مقتدرین کے لیے چھوڑ دئیے گئے جیسے جیسے جمہوری عمل بڑھتا گیا بیوروکریسی میں اضافہ اور عوام کی اقداری معاملات سے لاتعلقی بڑھتی گئی۔ جس کے نتیجہ میں سیاست انتظام (administration) سے بدل گئی۔

٢۔ جمہوری نظریہ کا یہ دعویٰ تھا کہ انسان پبلک عمل میں شریک ہوگا اور شہری اوصاف کو فروغ ملے گا اور لیکن عملاً یہ ہوا کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کی زندگی پرائیویٹ ہوتی چلی گئی اور صرف چند خاص لوگ (یعنی قیادت) منتخب ہوکر پبلک لائف میں دلچسپی لیتے ہیں۔

٣۔ سیاست دو حصوں میں تقسیم ہوجاتی ہے۔

١۔ اعلیٰ سیاست

٢۔ ادنیٰ سیاست

اعلیٰ سیاست مسلسل سیاست کا نام ہے۔ عوام اعلیٰ سیاست سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں اور صرف اس اعلیٰ سیاست کو ایک محدود عرصے بعد جواز فراہم کرنے کا کام کرتے ہیںجبکہ جمہوری نظریہ کے مطابق جمہوری عمل میں شرکت میں اضافہ ہونا چاہیے تھا۔

اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ تمام اہم مسائل۔ مثلاً دستور کی تشریح، قومی نظریہ کا فروغ، خارجہ پالیسی، ملکیت کے نظام کی تشکیلوغیرہ  صرف مقتدرین کے لیے دلچسپی کا باعث رہ جاتے ہیں اور ان معاملات میںمقتدرین جو فیصلہ کرتے ہیں عوام کو ان سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔

٤۔ جوں جوں جمہوری عمل فروغ پاتا ہے۔ سیاست ادنیٰ مسائل کی طرف مرکوز ہوتی چلی جاتی ہے اور سیاست سے بڑے بڑے ایشوز خارج ہوتے چلے جاتے ہیں۔ سیاست اغراض کے حصول کا ذریعہ بن جاتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جمہوری معاشرتی ثقافتی طور پر کم مایہ معاشرے قرار پاتے ہیں۔

٥۔صرف قیادت ثقافتی زندگی میں شرکت کی اہل رہ جاتی ہے۔ صرف قیادت ثقافت اور تہذیب کے لیے قربانی دینے کا جذبہ رکھتی ہے عوام میں یہ قابلیت کم سے کم چلی جاتی ہے۔

اس کے باوجود کہ قیادت elite میں شامل ہونے کے مواقع زیادہ سے زیادہ ہیں۔ قیادت elite کا حجم کم ہوتا چلا جاتا ہے۔

جس کی وجہ یہ ہے کہ لبرل اور جمہوری معاشرہ میں ترقی کے لیے جس اعلیٰ درجہ کی سفاکی خودغرضی مطلب پرستی اور مادی یکسوئی کی ضرورت ہے وہ انسان کی فطری میلانات سے متصادم ہے۔ ایسے افراد جو مکمل بہیمیت اور سفاکی کی اختیار کرکے اپنی فطرت کو مکمل طو رپر مسخ کردیں لازماً بہت تھوڑے ہوتے ہیں۔

عوام نظام کی حمایت صرف افادی نقطۂ نظر سے کرتے ہیں صرف قیادت elite نظام کی سچی وفادار ہوتی ہے۔

اثباتی سیاسی مفکرین:

کلاسکی جمہوری نظریہ اور عمل کی اس دوئی نے مختلف زمانہ کے سیاسی فلسفیوں کو پریشان رکھا کچھ کلاسکی جمہوری فلسفیوں نے کہاکہ تعلیم کے عام ہونے کے ساتھ یہ رجحان ختم ہوجائے گا۔ کچھ نے اسی قسم کے اور ٹوٹکے بتانے کی کوشش کی لیکن عمل نے یہ ثابت کیا کہ اس دوئی سے کوئی مفر نہیں اور یہ خلیج پاٹنے کے برعکس وسیع سے وسیع تر ہوتی چلی جارہی ہے۔

اس سلسلہ میں کلاسک جمہوری طرز عمل کے برعکس ایک دوسرا طرز عمل ہے جسے ہم اثباتی سیاسی مفکرین کا طرزعمل کہتے ہیں۔ اثباتی سیاسی مفکرین کلاسکی جمہوری مفکرین کی آورشوں اور غیرمتبدل اقدار کی باتوں کو لغوقرار دے کر رد کردئیے ہیں اور یہ اعلان کرتے ہیں کہ کلیات کی جستجو عبث ہے۔ ہم صرف جزئیات کو جان سکتے ہیں اور انہیں تک اپنے آپ کو محدود کرتے ہیں۔ وہ کیا چاہنا چاہیے کی بحث کو مکمل طور پر حذف کر دیتے ہیں اور صرف انسان کیا چاہتا ہے تک اپنے آپ کو محدود کرلیتے ہیں اس طرح وہ کلاسیکی جمہوری نظریہ کو رد کرکے اپنے آپ کو اس تضاد سے بچاتے ہیں جو نظریہ اور عمل میں پیدا ہوگیا تھا۔ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ انسان مطلبی، خودغرض، لالچی، اپنی اغراض میں گم ہے اور اسے اقدار سے کوئی غرض نہیں، پبلک لائف سے اکثریت کو کوئی لینا دینا نہیں وغیرہ۔ بیوروکریسی اور ٹیکنوکریسی کا فروغ ایک فطری چیز ہے۔

کلاسیکی اور موجودہ دور کے جمہوری مفکرین میں یہ فرق ہے کہ موخر الذکر کرنے جمہوریت کو ایک ایسے کردار کی تعمیر کا ذریعہ سمجھنا ترک کردیا ہے جو Slef Inteasted ہو Selfish نہ ہو اور اہل ہوکہ معاشرہ کے مجموعی اغراض کا تعین کرسکے۔ موجودہ جمہوری مفکرین اقرار کرتے ہیں کہ عوام میں یہ صفات جمہوری عمل کے ذریعہ پیدا نہیں کی جاسکتیں اور عوام لازماً selfish ہی رہیں گے۔ مقتدرین Self interested بنائے جاسکتے ہیں لیکن یہ فریضہ سیاسی عمل انجام نہیں دے سکتا بلکہ اس کے لیے ایک خاص تہذیبی کاوش کی ضرورت ہے جو مقتدرین میں خواہشاتی عقلیت (ratonality bounded by desire ) اور تسخیر کائنات کی لگن کو فروغ دے۔

تجزیہ:

جمہوری ادارے (رائے دہندگی، نمایندگی، بیوروکریسی اور معاشرتی تفاوت) جیسا کہ ہم نے تفصیل سے دیکھا ہے، ایک خاص قسم کی شخصیت کو پروان چڑھاتے ہیںاس شخصیت کے بنیادی خدوخال غرض مندی، نفس پرستی اور نفس پروری ہیں۔جمہوری اداروں کی ساخت اور خاص قسم کی شخصیت کا یہ تعلق اگر واضح ہوچکا ہے تو ہمیں اسے سمجھنا چاہیے کہ کون سے ادارے لازماً اس شخصیت کی تعمیر کرتے ہیں۔ کون سے کلی طور پر اور کون سے جزوی طور پر، جو ادارے کلی طور پر یا جزوی طور پر اس شخصیت کو تعمیر کرتے ہیں۔ ان کو ہمیں یاتو رد کرنا ہوگا یااگر وہ وقتی طور پر جدوجہد کے لیے ناگزیر ہیں تو ان کے اثرات کو زائل کرنے کے طریقے سوچنے ہوںگے۔

ہم جس شخصیت کی تعمیر کرنا چاہتے ہیں اس کا بنیادی محرک محبت ہے۔ خدا سے محبت جو عبادت ہے بندوں سے محبت جو رفاقت ہے اور کائنات سے محبت جو خلافت ہے۔ یہ ایک ایسی شخصیت ہے جو غرض کی غلام نہیں ہے بلکہ شہادت کی جستجوئے مسلسل کے ذریعہ فنا کا مقام حاصل کرنے کی متمنی ہے تاکہ وہ اللہ سے راضی ہوجائے اور اللہ ان سے راضی ہوجائے۔ ہماری سیاسی جدوجہد کا مقصد غرض یا نفرت نہیں ہے بلکہ محبت کی جستجو اور اس کو عام کرنا ہے تاکہ لوگ جہنم سے بچ سکیں اور جنت کو حاصل کرسکیں۔ ہماری جمہوریت پر تنقید یہ ہے کہ وہ انسان کے باطن کو مسخ کرتی ہے وہ حقیقت اور نفس کے درمیان پردہ ڈالتی ہے انسان کو نفس اور غرض کا بندہ بناتی ہے اور جبکہ ہم اسے خدائے واحد وقہار اور قیوم کا بندہ بنانا چاہتے ہیں۔ بحیثیت اسلامی انقلابی ہم اس باطل نظام کو تہ وبالا اور نیست ونابود کرنا چاہتے ہیں ہم اس میں کسی اصلاح کے قائل نہیں ہیں۔ ہم اس شجر خبیثہ کو بیخ بن سے اکھاڑنا چاہتے ہیں۔

یہ لازماً ایک تدریجی عمل ہے۔ اس وقت ہم میں یہ قوت نہیں کہ جمہوری عمل کو اس طرح رد کریں کہ وہ کمزور ہو اور اسلامی انقلابی معاشرتی قوت میں اضافہ ہو۔ جمہوری عمل کو کمزور کرنے کے لیے ہمیں اس بات کی کوشش کرنا پڑے گی کہ جمہوری نظام کی ان اجزائے ترکیبی کی نشاندہی کریں کہ جو یا تو اسلامی شخصیت کے فروغ میں حائل نہ ہوں یا جو معاشرتی نقصان ان ادروں کے کام سے رونما ہواس کا دوسرے طریقوں سے سدباب کیا جاسکے۔ اس نوعیت کے اداروں کو اسلامی انقلابی جدوجہد میں اس طرح ضم کرنے کی سعی کرنی چاہیے کہ جمہوری نظام کلیتاً کمزور پڑے اور بالآخر منتشر اور نابود ہوجائے۔

باب سوم

 سرمایہ دارانہ معیشت

سرمایہ دارانہ معیشت

ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری

سرمایہ داری کی نظریاتی اور تاریخی بنیادیں:

سرمایہ دارانہ نظام یورپ کی پیداوار ہے۔ یورپ میں سلطنت روم کے انحطاط کے بعد جاگیردارانہ نظام قائم تھا اور اس نظام کو کلیسا کی بھرپور حمایت اور تعاون حاصل تھا۔ اس نظام میں اقدار کی وقعت کا تعین مذہبی پیمانوں کی بناء پر کیا جاتا تھا کلیسا اس عمل کو عیسائی اقدار کے حصار میں رکھنے کی کوشش کرتا تھا۔ دنیا پر مبنی دولت کے اضافہ اور ارتکاز قوت کو بری نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور حرص وحسد کو مذہبی قبولیت اور جواز کبھی فراہم نہیں کیا گیا اور معاشرتی اقدار پر ہمیشہ مذہبی رنگ ہی غالب رہا۔ اخروی کامیابی کو دنیاوی ترقی کے مقابلہ پر ہمیشہ فوقیت حاصل رہی۔ لیکن عیسائیت کے پاس اپنا کوئی قانونی نظام نہ تھا اس لیے روما کے قوانین ہی کو City of man کی عمل داری کے لیے قبول کیا جاتا تھا اور اس کی اپنی اقدار ان قوانین میں بہت مشکل سے منعکس (Reflect) ہوتی تھیں۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا خود کلیسا بھی ان اخلاقیات کی پابندی نہ کرسکا۔ معاشی میدان میں بڑے پیمانے پر کرپشن میں کلیسائی ادارے ملوث ہوئے اور ١٠٠٠عیسوی تک پاپائے روم مغربی یورپ کا سب سے بڑا زمیندار بن گیا۔ ان حالات میں عیسائی اقدار پر سے عوام کا اعتماد اٹھنے لگا وہ حدود وقیود ٹوٹنے لگیں جنہوںنے دنیا پرستی، حرص اور حسد کی ترقی کو محدود کردیا تھا۔

پندرہویں صدی کے بعد سے پروٹسٹنٹ (Protestent Movement) تحاریک نے دنیا پرستی کو مذہبی جواز فراہم کرنا شروع کیا۔ یہ تحاریک انفرادیت کا پرچار کرتی تھیں اور کیتھولک چرچ کے اس دعوے کی نفی کرتی تھیں کہ بندے اور خدا کے درمیان وسیلہ کی ضرورت ہے۔ پروٹسٹنٹ پادریوں کا دعویٰ تھا کہ ہر شخص خود انجیل کی تفسیر کرسکتا ہے۔ پھر مذہبی نظام میں وہ بادشاہ کی برتری کے قائل تھے اور کہتے تھے کہ یہ خدا نے بادشاہ کو حاکمیت مطلق بخشی ہے۔ اس نظریہ کو Divine rights of King کہا جاتا ہے۔ بادشاہ کو ملکی معاملات میں خیر وشر متعین کرنے کا حق بلاشرکت غیرے حاصل ہے اور کوئی اس حق کے استعمال پر حد لگانے کا مجاز نہیں۔

چونکہ بادشاہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو معاشرے میں عموماً سب سے زیادہ قوت اور دولت کے حریص اور حاسد ہوتے تھے لہٰذا منطقی طو رپر بادشاہوں کی بالادستی قبول کرکے پروٹسٹنٹوں نے حرص اور حسد کو مذہبی جواز فراہم کیا۔ وہ احتکار اور ارتکاز دولت کو خدائی نظام تصور کرنے لگے اور خیرات اور صدقہ کی جگہ بخل اور بچت کی تحسین کرنے لگے۔ دنیوی ترقی کو نہ صرف فرض قرار دیا گیا بلکہ دنیوی ترقی اخروی انعام کا مظہر اور پرتو سمجھی جانے لگی۔ سترہویں صدی تک مغربی اور شمالی ریاستوں میں مضبوط قومی ریاستوں کی تعمیر کا عمل زور پکڑ گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ فلسفہ تنویر (Enlightenmaent Philosphy) کے بیشتر مباحث اور نتائج کو مذہبی رہنماؤں نے قبول کرلیا۔ خواہشاتی عقلیت  Rationality bounded by desre کی بالادستی کو عیسائی حلقوں میں مستحکم کرنے کا کام ST. Thamas Acquanas کے وقت سے فروغ پا رہا تھا اور سترھویں صدی تک کی تحریک نے اس رجحان کو بالکل ہی غالب کردیا اور اس کے بعد کیتھولک اور پروٹسٹنٹ مفکر دونوں دنیاداری حرص اور حسد کی معاشرتی تقویم کو جواز فراہم کرنے لگے اور مذہبی حلقوں میں مخالف آوازیں تقریباً معدوم ہوگئیں۔ حرص اور حسد کو مذہبی جواز فراہم کرنے میں پروٹسٹنٹ مفکرین کے فطری حلیف یورپی یہودی تھے۔ ان کے یہاں دنیا پرستی مذہبیت پر ایک ہزار سال قبل غالب آچکی تھی اور وہ کیتھولک چرچ کو اپنا سب سے بڑا حریف سمجھتے تھے۔ بادشاہوں کی معاشرتی بالادستی یہودیوں کے پیسوں پر ہی قائم ہوئی اور فطری طور پر نئے معاشرتی سیکولر علوم۔ بالخصوص معاشیات اور عمرانیات پر یہودی فکر کی گہری چھاپ لگی۔

سرمایہ داری کا ارتقائ:

سرمایہ داری اس معاشرتی نظام کا نام ہے جہاں حرص اور حسد غالب معاشرتی اور انفرادی اقدار کی حیثیت حاصل کرلیتی ہیں۔ تاریخی طور پر حرص اور حسد کا عام ہونا تین مراحل سے گزرا ہے۔ سب سے پہلے دور میں حرص اور حسد صرف چند تجارتی اور صنعتی مراکز میں عام ہوتے ہیں۔ اس دور میں سرمایہ دار ریاستی جبر کو استعمال کرکے بڑے پیمانے پر لوٹ مار کے ذریعہ دیگر تمام علاقوں سے وسائل ودولت حاصل کرتے ہیں۔ اس لوٹ مار اور استحصال کی دو شکلیں ہوتی ہیں۔ قومی ریاستوں کے زرعی علاقوں میں کسانوں کی زمینیں چھینیں جاتی ہے اور زرعی پیداوار کو ارزاں سے ارزاں بنایا جاتا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر ایک ایسا نظام قائم کیا جاتا ہے جس کے نتیجہ میں دوردراز ممالک کے وسائل پر قبضہ ہو۔ اور وہاں سے دولت کھینچ کھینچ کر سرمایہ دارانہ مراکز میں جمع ہوجائے۔ سولہویں صدی سے انیس ویں صدی تک یورپی اقوام نے جس سفّاکی اور شقی القلبی سے تمام عالم اسلام میںلوٹ مار اور قتل وغارت کا بازار گرم رکھا، اس کی تاریخ انسانی میں کوئی نظیر نہیںملتی۔ دو براعظموں کی قدیم آبادی کو یکسر نیست ونابود کر دیا گیا۔ اس عرصہ میں تقریباً سترلاکھ سرخ سیاہ فام باشندے (Red Indians) امریکا میں اور ستر لاکھ ابورجینز آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں قتل کیے گئے۔ افریقہ کو مکمل طور پر تباہ کردیا گیا۔ محتاط اندازوں کے مطابق بیس لاکھ کے قریب افریقی صرف امریکا کے غلام بردار جہازوں میں مر گئے۔ ہندوستان، چین اور انڈونیشیا کی دولت کا ٦٠ سے ٨٥ فیصد تک یورپ منتقل کیا گیا۔

لامحالہ اس بہیمانہ سفاکی کا اثر یورپی اخلاق پر پڑاکیونکہ لوٹ مار اور قتل وغارت گری تقریباً تین صدیوں تک منظم طور پر جاری رہی اور یہی بہیمیت مغربی تہذیب کی اصل بنیاد ہے۔ اسی بنیاد پر قومی سرمایہ دارانہ فلاحی ریاست (Welfare State) نے جنم لیا۔ یہ سرمایہ داری کا دوسرا دور ہے اور اس دور میں سرمایہ داری چند مراکز سے نکل کر پورے ملک پر چھا جاتی ہے۔ اس ملک کا ایک عام شہری خودغرض، حاسد اور حریص بن جاتا ہے اور اپنی ذاتی خواہشات کی تکمیل ہی مقدم ترین معاشرتی ہدف بن جاتا ہے۔ سرمایہ دارانہ ریاست حقوق کی سیاست کو جمہوریت کے ذریعے عام کرکے خودغرضی، حسد اور حرص کو تحفظ بھی دیتی ہے اور فروغ بھی۔

سرمایہ داری کا تیسرا مرحلہ وہ ہے جب حرص اور حسد پوری انسانیت پر غالب آجائے اور ایک ایسا بین الاقوامی نظام قائم کیا جاسکے جو مکمل طو رپر سرمایہ دارانہ اقدار، ترجیحات اور ضابطوں کا عکاس ہو یہ دور ابھی تک تاریخِ انسانی میں نہیں آیا۔

سرمایہ دارانہ نظام:

سرمایہ دارانہ نظام کا قیام اور استحکام اس بات پر منحصر ہے کہ حرص اور حسد عام ہو۔ ہرآدمی حریص ہو وہ زیادہ سے زیادہ مال جمع کرنے کی خواہش رکھتا ہو۔ اس کو Accumulation کہتے ہیں۔ ساتھ ساتھ وہ دوسرے شخص کو اپنا حریف سمجھے اور اس سے سبقت لے جانے کے لیے Compete کرے۔  Accumu Lation اور Competetionحرص اور حسد کو فروغ دینے کے ذریعہ ہیں۔ سرمایہ دارانہ اخلاقیات انہی بنیادوں پر قائم ہیں۔ معاشی تھیوری اس مفروضہ پر قائم ہے کہ ہر شخص فطرتاً خود غرض ہے اور زیادہ سے زیادہ حصول لذت اس کی فطرت کا تقاضا ہے۔ دور حاضر کا مغربی سیاسی فلسفہ خودغرضی اور نفس پرستی کو بنیادی انسانی اوصاف حمیدہ تصور کرتا ہے اس کے مطابق انسان نہ صرف خودغرض اور لذت پرست ہے بلکہ اس کو ایسا ہی ہونا چاہیے۔ انسان کو صرف اپنی انفرادی حیثیت میں نہیں بلکہ بنی نوع آدم کے ایک رکن کی حیثیت سے خودغرضی اور لذت پرستی کو بحیثیت اقدار کے قبول کرنا چاہیے۔ اگر انسانیت یا قوم کی مجموعی لذت میں اضافہ کرنے کے لیے انفرادی لذت کو قربانی دینا پڑے تو فرد کو یہ قربانی بخوشی دینا چاہیے۔ کیونکہ فرد کے اغراض کا حصول نوع کے اغراض کے حصول پر منحصر ہے۔ جب فرد اس نوعیت کی قربانی دیتا ہے تو اپنی فطری خودغرضی اور لذت پرستی کا منطقی تقاضا پورا کرتا ہے، اسی کو Rationality bounded by desire کہتے ہیں۔ سرمایہ داری وہ نظام ہے جس میں خود غرضی اور لذت پرستی اعلیٰ ترین اقدار کے طور پر قبول کی جاتی ہیں، ہر فرد احتکار اور مسابقت کو مقدم ترین اوصاف تصور کرتا ہے۔

Accumulation صرف یا لاگت اور حاصل ریونیو کا فرق ہے۔ یعنی

C۔ R = A …صرف۔ حاصل= جمع

سرمایہ دارانہ عمل حاصل کو بڑھانے اور صرف کو کم کرنے کا عمل ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں اشیاء کی قدر صرف ان کی قیمت متعین کرتی ہے۔ سرمایہ دارانہ معیشت میں قیمت کا تعین ایک پیچیدہ عمل ہوتا ہے۔ فرض کیجیے ہم گیہوں کی قیمت متعین کرنا چاہتے ہیں تو ان کی قیمت کا تعین ان اشیاء کی قیمتوں سے ہوگا جن کو استعمال کرکے گیہوں پیدا کیا گیا۔ مثلاً زمین کا لگان یعنی لگان۔ اجرت = گیہوں کی قیمت

چنانچہ اس شے (گیہوں) کی قیمت کے تعین میں تین اشیاء کے مالک شریک ہوتے ہیں۔

١۔ گیہوں کا مالک (تاجر)

٢۔ زمین کا مالک (زمیندار)

٣۔ محنت کا مالک (مزدور)

ہر شے کے مالک کی کوشش سرمایہ دارانہ نظام میں یہ ہوتی ہے کہ جس شے کو وہ خریدے گا اس کی قیمت کم سے کم ادا کرے اور جس چیز کو وہ فروخت کر رہا ہے اس کی قیمت زیادہ سے زیادہ وصول کرے۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ وہ خود غرض اور لذت پرست ہوتا ہے۔ احتکار اور مسابقت کا اسیر ہوتا ہے۔ جن معاشروں میں حرص اور حسد عام نہیں ہوتے وہاں قیمت کا تعین اس قسم کی رسہ کشی سے نہیںہوتا۔ وہاں شے بنانے والے وہ قیمت چاہتے ہیں جو ان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہو گویا جتنی محنت صرف ہوگی اتنی ہی اجرت طلب کی جائے گی۔ جتنا لگان زمین کی پیداواری لاگت برقرار رکھنے اور زمیندار کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہوگا وہ لگان قبول کرلیا جائے۔ اس قسم کے معاشرہ میں عادلانہ اجرت (Just wage) اور عادلانہ قیمت (Just price ) کا تصور معنی رکھتا ہے گویا عدل کا قیام ضرورتوں اور خواہشات کے محدود ہونے پر ہوتا ہے۔ جب خواہشات لامحدود ہوجاتی ہیں تو نہ عدل ممکن رہتا ہے اور نہ قیمتوں کا تعین کسی معروضی Objective پیمانہ کی بنیاد پر کیا جاسکتا ہے۔

سرمایہ دارانہ معاشرہ میں خواہشات بے لگام ہوجاتی ہیں کیونکہ ہر فرد خود غرض اور لذت پرست ہوجاتا ہے ہر شخص کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ جو کچھ خرید رہا ہے اس کی کم سے کم قیمت دے اور جو فروخت کر رہا ہے اس کی زیادہ سے زیادہ قیمت وصول کرے قیمتیں گویا قوت کی بنیاد متعین ہوتی ہے۔ بازار میں جس کی قوت سب سے زیادہ ہوگی وہ اپنی چیز کی سب سے زیادہ قیمت وصول کرتا ہے۔ قیمتوں کے تعین کا کوئی مستقل Objective پیمانہ باقی نہیں رہ جاتا۔ قیمتوں کا تعین Subjectively ہوتا ہے اس بات کو جدید معاشی نظریہ پوری طرح قبول کرتا ہے لیکن معاشی تھیوری (Economic heory) یہ دھوکا دینے کی کوشش کرتی ہے کہ قیمتوں کا تعین صارف (Consumer) کی خواہشات کی بنیاد پر ہوتا ہے اور سرمایہ دارانہ معیشت میں صارف (Sovereign) ہے۔ یہ بات بالکل غلط ہے۔ سرمایہ دارانہ معاشرہ میں اصل قوت ان کمپنیوں کے پاس ہوتی ہے جو Accumalation میں سب سے زیادہ کامیاب ہوتی ہیں۔ یہی کمپنیاں اشیاء کی طلب کا تعین کرتی ہیں، اس عمل کو Demand Management کہا جاتا ہے اور اس میں ریاست ان کمپنیوں کی مدد کرتی ہے اور انہی کی پالیسیاں اشیاء کی پیداواری مقدار اور ان کی قیمت پر فیصلہ کن طور پر اثرانداز ہوتی ہیں۔

یہ بات اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ سرمایہ دارانہ معیشت میں قیمتوں کا تعین قوت کے ٹکراؤ سے ہوتا ہے۔ قوت ان کمپنیوں کے ہاتھوں میں مرتکز ہوتی ہے جو سب سے کامیاب Accumulatir ہوتی ہے  Accumulation ایسی اشیاء اور خدمتوں (services) کی پیداوار اور تقسیم Exchangeکا نتیجہ ہے جو صرف کی جاسکیں۔ لیکن اشیاء یا خدمتیں Accumalate نہیں کی جاسکتیں۔ ان کا مقصد وجود ہی صرف ہوجاتا ہے Accumulate صرف سرمایہ کو کیا جاتا ہے۔ سرمایہ (Capital) وہ زر (Money) ہے جو اشیاء اور خدمتوں کی پیداوار اور تقسیم کے چکر سے صرف اس لیے گزرتا ہے تاکہ اپنی مقدار مسلسل بڑھاتا رہے۔ سرمایہ کی کوئی اساسی صفت یا حقیقت نہیں ہوتی وہ مقدار محض (Pure.quantity) ہوتا ہے (جیسے دوسری شیطانی قوتوں کی حقیقت نہیں ہوتی وہ محض وسوسہ ہوتی ہیں) جیسے جیسے:

(١) اشیاء کی انواع (Range of production)(٢) اشیاء کا صرف(٣) اشیاء کی تقسیم

تیز ہوگی زر کی گردش تیز ہوگی اور سرمایہ کے احتکار (Accumulation) مواقع زیادہ ہوںگے۔ زر کی گردش کو تیز کرکے Accumulation کے عمل کو وسعت دی جاتی ہے۔ زر کی گردش کو تیز کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سرمایہ نظام میں پھنسا نہ رہے وہ ایک ایسا سیال مادہ بن جائے جو برق رفتاری سے مسلسل حرکت کرتا رہے۔ ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ معیشتوں میں سرمایہ کی سا لیت (Liquidity and Flecibllity) بہت بڑھ جاتی ہے۔ زر کے بازار اور سرمایہ کے بازار پیداواری نظام سے کہیں زیادہ تیز رفتار Integerated ہوتے ہیں اور ان کا اور پیداواری نظام کا تعلق کمزور ہوتا جاتا ہے۔ مثلاً ١٩٧٣ء کے بعد سے یورپ اور امریکا ایک ایسی طویل المدت کساد بازاری سے دوچار ہیں جس کے نتیجہ میں پیدوار میں اضافہ کی شرح ١٩٥٠ء اور ١٩٦٠ء کی دہائیوں کے مقابلے میں آدھی سے بھی کم ہوکر رہ گئی ہے۔ اس کے برعکس سرمائے کے بازار میں حصص کی قیمتیں عموماً تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہیں۔ مثلاً EBE100 کا انڈکس ١٩٧٣ء سے لے کر ١٩٩٢ء کے اختتام تک ساڑھے تین گناہ بڑھ گیا) اور بارہا ایسا ہوا کہ پیداوار میں کمی کے باوجود طویل مدت تک حصص کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا رہا۔

لیکن سرمایہ کا بازار پیداواری نظام سے اپنا پیچھا نہیں چھڑا سکتا کیونکہ پیداواری نظام ہی تقسیمی نظام (Distributive System کو ممکن بناتا ہے اگر پیداوار اور اس کی تقسیم کی رفتار مستقلاً منجمد ہوجائے تو Accumulation ناممکن ہوجائے جیسا کہ بعد میں زیادہ تفصیل کے ساتھ سامنے آئے گا کہ سرمایہ دارانہ نظام کا ایک بنیادی تضاد یہ ہے۔

(١) Accumulation صرف، پیدوار اور تقسیم (Distribution) میں کمی کر دیتا ہے۔

(٢) Accuumulation صرف ،پیداوار اور تقسیم کے عمل کی بنیاد پر ممکن ہوتا ہے۔

(٣) لیکن پیداواری نظام سرمایہ کو مشینری، زمین، بلڈنگ وغیرہ کی شکل میں منجمد اور قید کرلیتا ہے اور اس سیالت میں کمی کردیتا ہے۔

لہٰذا سرمایہ ہمیشہ پیداواری نظام سے دوری کی تلاش میں رہتا ہے۔ یہ دوری مکمل کبھی نہیں ہوسکتی کیونکہ Accumulation کی بنیاد پیداواراور اس کی تقسیم میں اضافہ پر ہے لیکن جتنی یہ دوری بڑھتی ہے سرمایہ کی گردش کی رفتار اتنی ہی تیز ہوجاتی ہے تاریخی طور پر سرمایہ نے پیداواری نظام سے دوری کی دو شکلیں اختیار کی ہیں۔

١۔ استعماریت(Impercelism  ):

جب کوئی پیداواری نظام Mature ہوجاتا ہے تو وہاں شرح منافع گھٹ جاتی ہے بڑھوتری کے ساتھ ساتھ سرمایہ کی گردش کے مواقع بھی کم ہوجاتھے تھے۔ لہٰذا زیادہ منافع اور سیالیت Liquidity کی تلاش میں سرمایہ پرانے مراکز چھوڑ دیتا تھا۔ مثلاً انیسویں صدی میںبرطانوی سرمایہ دارانہ معیشت جرمنی اور جاپان میں مستحکم ہوئی یہ ممالک برطانیہ اور امریکا کے لیے خطرہ بن گئے۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں جرمنی اور جاپان کو تباہ کیا گیا۔ یہ بات ہم کو سرمایہ دارانہ معیشت اور ریاستی قوت کے نظام کے تعلق کے بارے میں ایک اہم اشارہ دیتی ہے جس پر ہم سرمایہ داری کے تضادات والے سیکشن میں گفتگو کریں گے لیکن یہاں اتنی بات سمجھ لینا کافی ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کی برتری قائم رکھنے کے لیے ریاستی جبر کااستعمال ناگریز ہے۔ ایشیا اور افریقہ میں استعماری نظام نے وہ نظام جبرفراہم کیا ہے جس سے ان ممالک کا معاشی استحصال ماضی میں بھی کیا اور آج بھی ریاستی جبر کی بنیاد پر یہ استحصال جاری ہے۔

٢۔ زر کے بازار اور سرمایہ کے بازار کا قیام

سرمایہ پیداواری نظام سے آزاد کرانے کے لیے زر کا بازار قائم کیا گیا۔ زر کے بازار کا قیام اس بات پر منحصر تھا کہ زر کی قدر کسی شے کی بنیاد پر نہیں بلکہ سرمایہ داروں اور ان کی ریاست کی قوت کے استعمال کے ذریعہ کی جائے۔ چنانچہ پہلے زر کا تعلق سونے اور چاندی سے محدود کیا گیا اور ١٩٧١ء کے بعد سے یہ تعلق بالکل ختم کردیا گیا اور اب دنیا کے ہر ملک کے سکے کی قدر حکومتوں اور سرمایہ داروں کی قوت کی رسہ کشی کے نتیجہ میں مقرر ہوتی ہے۔ کسی کرنسی کی کوئی متعین اور مستحکم قدر نہیں۔ تمام سکوں کی قدر مستقل قوت کے استعمال کے ذریعہ ہر آن بدلتی رہتی ہے یہی Foreign exchange market کا کام ہے۔

زر کے بازار کے فروغ میں بنیادی کام بینکوں نے انجام دیا۔ سرمایہ دارانہ نظام میں بینکوں کو خود سرمایہ پیدا کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں بخل عام ہوتا ہے اور لوگ اپنی بچت کو محفوظ رکھتے ہیں اس کا صرف قلیل حصہ استعمال میں لاتے ہیں بینکاری کا نظام اس بات کا اندازہ لگاتا ہے کہ بچت میں سے ایک متعین مدت میں کتنا خرچ ہوگا۔ مثلاً یہ شرح پچیس فیصد ہے تو ایک بینک ان سو روپوں میں سے جو اس کے پاس رکھوائے گئے صرف پچیس روپیہ محفوظ رکھتا ہے اور ٧٥ روپے کسی کو قرضہ دیتا ہے۔ یہ ٧٥ روپے کسی دوسرے بینک میں جمع ہوتے ہیں اور وہ بینک ٧٥ روپوں کا ٢٥ فیصد محفوظ رکھ کر ٥٦ روپے ٢٥ پیسہ قرضہ دے دیتا ہے اب یہ اس کا بھی بھی ٢٥ فیصد محفوظ کرلیا جاتا ہے اور ٤٢ روپے ١٩ پیسہ کا قرضہ دیا جاتا ہے لہٰذا ١٠٠ روپے کی بچت قرضہ کی مقدار …٧٥+ ٢٥.٥٦+١٩.٤٢= ٤٤.١٧٣

صرف تیسرے چکر تک ہوجاتی ہے۔ اگر آپ پورا حساب کریں تو دیکھیں گے کہ بینکاری کا نظام ١٠٠ روپے کی بچت کی بنیاد پر ٤٠٠ روپے کا قرضہ ٢٥ فیصد کے محفوظات رکھتے ہوئے دیتا ہے۔ یہ چار سو روپے بینکاری نظام کی پیداوار ہیں اور چونکہ ان کے پیچھے کوئی اصل قدر مثلاً سونا چاندی وغیرہ نہیں ہوتی اس لیے اس پیداوار کی صرف شرح بچت ہی حد متعین کرتی ہے۔

سرمایہ دارانہ معیشت میں زر کی قیمت سود ہے۔ سود کا تعین دیگر تمام قیمتوں کی طرح قوت کی رسہ کشی سے ہوتا ہے۔ بچت کرنے والے سود کو بڑھانے اور قرضہ لینے والے سود کو گھٹانے کی مسلسل جدوجہد کرتے ہیں چونکہ اشیاء کی پیداوار اور ان کی تقسیم زر کے استعمال کے بغیر ناممکن ہے اور چونکہ زر کی قدر اور قیمت کا تعین بینکاری نظام کرتا ہے لہٰذا سود ربو ٰا الفضل کی شکل میں ہر شے اور ہر خدمت کی قیمت میں داخل ہوجاتا ہے۔ بینکاری نظام کو یکسر ختم کیے بغیر ربو ٰا الفضل سے نجات ممکن نہیں جیسے جیسے بینکاری کا نظام وسعت پاتا ہے ویسے ویسے حرام خوری عام ہوتی ہے اور فرد سرمایہ دارانہ معیشت میں ضم ہونے پر مجبور ہوجاتا ہے۔

فرد کی اس مجبوری میں اضافہ سرمایہ کا بازار بھی کرتا ہے۔ سرمایہ وہ زر ہے جو اپنی مقدار میں اضافہ کی خاطر مستقل پیداواری اور تقسیمی (Distributive ) چکر سے گزرتا رہتا ہے۔ سرمایہ جوائنٹ اسٹاک کمپنیوں اور ان کے حصص کی شکل میں تجسیم (Subjtctivity) اختیار کرتا ہے۔ جوائنٹ اسٹاک کمپنیاں شخصی ملکیت کو ختم کرنے کا ذریعہ ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام میں شخصی ملکیت بتدریج ختم ہوجاتی ہے۔ جوائنٹ اسٹاک کمپنیاں پورے پیداواری اور تقسیمی نظام پر حاوی ہوتی ہیں۔ انہی کی آپس کی قوت کی رسہ کشی کے نتیجے میں بیشتر اشیاء اور خدمتوں کی قیمتیں اور پیداواری مقدار مقر رہوتی ہیں۔ ایک جوائنٹ اسٹاک کمپنی کے لاکھوں قانونی مالک ہوتے ہیں۔ لیکن یہ ملکیت محض افسانوی (Fictional) حیثیت کی ہوتی ہے۔ کمپنی کو چلانے والے اور اس کی پالیسی متعین کرنے والے اس کے قانونی مالک نہیں بلکہ اس مینجمنٹ کے ارکان ہوتے ہیں جن کے پاس عملاً کمپنی کے ایک فیصد حصص بھی نہیں ہوتے۔ کمپنی کی کامیابی اس بات پر منحصر ہوتی ہے کہ مینجمنٹ سرمایہ کے احتکار (Accumulation ) میں کتنا اضافہ کرتی ہے۔ اس اضافہ کی رفتار کو تیز کرنے کے لیے لازم ہے کہ مینجمنٹ کمپنی کے ہر کارکن کو زیادہ سے زیادہ خودغرض، دنیا پرست، سفاک اور ظالم بنائے یہی سرمایہ دارانہ عقلیت (Rationality of Capitalist) کا فطری تقاضا ہے۔ جب سرمایہ کا بازار وسعت حاصل کرتا ہے۔ تو جوائنٹ اسٹاک کمپنیاں معیشت پر غالب آجاتی ہیں۔ شخصی ملکیت ختم ہوجاتی ہے اور سرمایہ دارانہ عقلیت نفس انسانی کو مسخ کرکے رکھ دیتی ہے۔ لذت پرستی، خود غرضی اور استحصال ایک وبا کی طرح تمام انسانیت کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔

سرمایہ دارانہ معاشرہ کی بنیادی خصوصیات:

جیسا کہ بارہا عرض کیا جاچکا ہے کہ سرمایہ داری کی اصل روح خودغرضی اور لذت پرستی ہے جب حرص اور حسد عام ہوجاتے ہیں اور خواہشاتی عقلیت (Rationalty bounded by desire) معاشرے پر غالب آجاتی ہے تو سرمایہ دارانہ ادارے مستحکم ہوجاتے ہیں۔ یہ ادارے ہر فرد کو ایک بے بس اور لاچار شے بنا کر رکھ دیتے ہیں۔ ہر شخص اس بات پر مجبور ہوتا ہے کہ خواہشاتی عقلیت کو اپنے عمل کی بنیاد بنائے۔ وہ جتنا خودغرض، حریص، حاسد اور سفاک ہوگا معاشرہ میں اس کا مقام اتنا ہی بلند ہوگا۔ اگر وہ حرص، حسد اور دنیا طلبی سے دامن بچانے کی کوشش کرے گا تو اس کی زندگی جہنم بن جائے گی۔ اس کا کاروبار چوپٹ ہوجائے گا۔ وہ نوکری سے نکال دیا جائے گا۔ اس کے ماں، باپ، بیوی بچے اس کو حقارت کی نظر سے دیکھیں گے۔

حقیقت یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں ہر شخص خواہشاتی عقلیت کا پیمانہ اور معیارات قبول کرنے پر مجبور ہے، سرمایہ داری وہ نظام جبر ہے جس میں ذاتی ملکیت کو ختم کرکے ہر شخص کو سرمایہ کا مزدور بنا دیا جاتا ہے۔ سرمایہ وہ زر ہے جو مستقل اپنی مقدار میں اضافہ کی غرض سے پیداواری نظام سے گزر رہا ہے اور جو جوائنٹ اسٹاک کمپنیوں کی شکل میں تقسیم ہو رہا ہے۔ سرمایہ ہر شخص کا اصل مالک بن جاتا ہے اور سرمایہ کا کوئی مالک نہیں ہوتا۔ اس کے صرف منیجر ہوتے ہیں جن کی بقا صرف اس پر منحصر ہوتی ہے کہ وہ سرمایہ دارانہ عقلیت کے تقاضوں کے کتنے پابند ہیں۔

سرمایہ دارانہ معاشرہ میں ہر شخص مزدور ہوتا ہے اور سرمایہ کی مسلسل خدمت پر مجبور ہوتا ہے۔ سرمایہ دارانہ معاشرہ میں طبقات ختم ہوجاتے ہیں اور بھرپور (Mature) سرمایہ دارانہ معاشرہ میں طبقاتی کشمکش ناممکن ہوجاتی ہے۔ چونکہ ہر شخص اپنی محنت کو ایک شے (Objectified) کی شکل میں سرمایہ کی خدمت میں پیش کرنے پر مجبور ہے اور چونکہ سرمایہ جوائنٹ اسٹاک کمپنی کے ہیولے میں تجسیم ہوچکا ہے لہٰذا معاشرہ یک رنگ ہوجاتا ہے۔ ترقی کامعیار صرف سرمایہ دارانہ عقلیت کی پیروی بن جاتی ہے اور غریب سے غریب شخص اعلیٰ سے اعلیٰ مقام تک پہنچ سکتا ہے بشرطیکہ وہ سرمایہ دارانہ عقلیت کو مکمل طور پر اپنانے کی اہلیت رکھتا ہے اور سرمایہ دارانہ اہداف کا حصول اپنی زندگی کا سب سے اہم مقصد سمجھتا ہے۔ سرمایہ دارانہ عقلیت میں مذہبی، نسلی، لسانی اور طبقاتی امتیازات کو رد کیا جاتا ہے اور سرمایہ دارانہ معاشرت میں اس بات کی کوشش کی جاتی ہے کہ ہر شخص کو سرمایہ کی خدمت کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ اور یکساں مواقع فراہم کیے جائیں۔ سیاسی فلسفہ میں اس نظریہ کو (Equality of opportunity) کہاجاتا ہے یعنی یکساں مواقع سب کے لیے اور فلاحی ریاست کا قیام اسی  (Equality of opportunity)کو حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔

سرمایہ دارانہ ریاست سرمایہ دارانہ معاشرت کی پشت پناہی کرتی ہے۔ یہ آزادی اور مساوات کی اقدار کو عام کرتی ہے اور ہر شخص کو ایک ایسا یکا اور تنہا فرد گردانتی ہے جس کی خواہشات کی تکمیل ہر دوسرے کی خواہشات کی تکمیل کا انحصار صرف اس بات پر ہے کہ فرد کتنے وسائل حاصل کرتا ہے اور وسائل کا حصول صرف سرمایہ دارانہ عقلیت کے پیمانوں کو قبول کرنے اور ان پر عمل کرنے کا نتیجہ ہے لہٰذا جو سیاسی نظام سرمایہ دارانہ معاشرت کو تقویت دیتا ہے وہ انسان کو خودغرض، حریص، حاسد اور سفاک بنانے میں فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے۔ جتنا جتنا آزادی اور مساوات کو بحیثیت معاشرتی اقدار کے قبول کرلیا جائے گا اور جوں جوں سیاسی عمل حقوق کے حصول کے محور کے گرد مرتکز ہوگا سرمایہ دارانہ معیشت اتنی ہی زیادہ استحکام اور تقویت حاصل کرے گی اور فلاحی ریاست باآسانی بنیادی سرمایہ دارانہ اداروں۔ زر کے بازار، سرمایہ کے بازار، جوائنٹ اسٹاک کمپنیوں، ذاتی ملکیت کا خاتمہ اور نظام اجرت کی عمومیت کو تحفظ دے سکے گی۔ جمہوری فلاحی ریاست وہ فطری سیاسی خول ہے جس میں سرمایہ دارانہ معیشت پنپتی ہے اور جس میں نفس پرستی، خود غرضی، حسد اور حرص فروغ پاتی ہیں۔

لیکن جو لوگ جمہوری ریاست اور سرمایہ دارانہ معیشت کو رائج کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ فطرت انسانی سے جنگ کرتے ہیں۔ فطرتاً انسان خودغرض، حاسد، حریص اور سفاک نہیں ہے۔ انسان کی سب سے بڑی فطری ضرورت یہ ہے کہ وہ محبت کرے اور اس سے محبت کی جائے۔ محبت فنائے ذات کی متقاضی ہے نفس پرستی اور لذت پرستی کی نہیں محبت کرنے والا شخص ایثار، انفاق اور احسان کی صفات کو اپنانے کی کوشش کرتا ہے اوروہ حرص، حسد، دنیا طلبی اور سفاکی کو عیب جانتاہے۔ سرمایہ دارانہ عقلیت کی نفی فطرت انسانی خود کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے بھرپور Mature سرمایہ دارانہ معاشرہ میں  بھی اس عقلیت کے تقاضوں کو بہت کم افراد پورا کر پاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام لاتعداد تضادات کا شکار ہے اور خود اپنی تباہی کے سامان پیدا کرتا ہے۔ ذیل میں ہم ان تضادات کو مختصر بیان کریں گے۔

سرمایہ داری  کے تضادات:

سرمایہ دارانہ نظام کی ترقی کا انحصار اس بات پر ہے کہ احتکار کی رفتار میں مسلسل اضافہ ہو لیکن احتکار کی بنیاد نظام پیداوار ہے لہٰذا احتکار(Accumaulation) کی رفتار میں مسلسل اضافہ ناممکن ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پیداوار میں اضافہ خواہشات میں اضافہ کے تابع ہے۔ اگر خواہشات میں خاطرخواہ اضافہ نہ ہو تو پیداوار بیکار ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زراعت بالخصوص کئی دہائیوں سے زائد از ضرورت پیداوار (Over Production) کا شکار ہے اور ہر سال لاکھوں ٹن اجناس تباہ کی جاتی ہے۔ ضرورت سے زیادہ پیداوار کئی صنعتی شعبوں میں بھی پھیل جاتی ہے۔

لہٰذا سرمایہ دارانہ پیداواری نظام ضرورتوں اور خواہشات کو بڑھانے کی سعی کرتا ہے۔ سب سے زیادہ منافع بخش وہ صنعتیں ہوجاتی ہیں جو خواہشات کو ابھارنے کے لیے اشیاء پید اکریں مثلاً تفریحی صنعتیں معلوماتی اور مواصلاتی صنعتیں اشتہاری صنعتیں وغیرہ۔ جولوگ ان صنعتوں سے وابستگی نہیں رکھتے وہ سرمایہ دارانہ ترقی میںحصہ لینے سے قاصر رہیں اور سرمایہ دارانہ نظام ان افراد کو اپنے اندر جذب کرنے کا کوئی مؤثر طریقہ نہیں رکھتا۔ یہ سرمایہ دارانہ تعلق کی ایک بہت بڑی کمزوری ہے کہ فلاحی ریاست کے قیام کے باوجود سرمایہ دارانہ مراکز تک میں کروڑوں افراد سرمایہ دارانہ معیشت میں شمولیت نہیں اختیار کر پاتے۔ بے روز گاری عام ہوجاتی ہے ریاست کے وسائل محدود ہوجاتے ہیں اور فلاحی ریاست کے دائرہ کو مجبوراً کم کرنا پڑتا ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پیداواری نظام بازار زر اور سرمایہ کے بازاروں کی رفتار ترقی کا ساتھ نہیں دے پاتے اور سرمایہ دارانہ معاشی ڈھانچہ غیرمتوازن ہوتا چلا جاتا ہے Finacialمارکیٹ کی ارتقاء کے لیے جن اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے وہ ان پالیسیوں سے متصادم ہوتے ہیں جو پیداواری معیشت کی ترقی اور استحکام کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔

سرمایہ دارانہ عقلیت کی بنیادی کمزوری یہ ہے کہ وہ احتکار کا مقصد بیان نہیں کرپاتی۔ کارخانہ میں کام کرنے والا مزدور فطرتاً اس نظام جبر کے خلاف بغاوت کرتا ہے جس کا مقصد محض احتکار ہے۔ ریاست کا شہری جمہوری عمل سے لاتعلق ہوجاتا ہے کیونکہ یہ عمل ایک ایسا یکا اور تنہا فرد بنانا چاہتا ہے جو آزادی اور مساوی حقوق کے حصول اور فروغ کے ذریعہ اپنی تنہا اور خودمختاری کا طالب ہے لیکن انسان نہ تنہا ہے نہ خود مختار، فطرتاً اس کی نظر میں آزادی اور مساوی حقوق کوئی وقعت نہیں رکھتے، یہی وجہ ہے کہ الہامی ادیان نے مساوات کو کبھی بھی اقداری اہمیت نہیں دی۔

انسان آزادی اور خودمختاری نہیں چاہتا بلکہ وہ محبت کرنا چاہتا ہے۔ خدا سے محبت اور بندوں سے محبت۔ معاشرہ کی بنیادیں محبت فراہم کرتی ہے۔ چونکہ سرمایہ داری اور لبرلزم آزادی اور مساوی حقوق کی پرستش کرتے ہیں لہٰذا وہ کسی معاشرہ کی تعمیر کی بنیاد فراہم نہیں کرسکتے۔ تاریخی طور پر سرمایہ داری ور لبرلزم نے معاشرتی تعمیر کے لیے قوم پرستی کا سہارا لیا ہے۔ افراد اپنی قوم کے لیے ایثار اور اخلاص کا مظاہر کرتے ہیں لیکن قومی ریاستیں کسی اعلیٰ اور واضح مقصد کے لیے قائم نہیں ہوتیں۔ ان کا مقصد وجود محض ارتکاز قوتر اور نفس پرستی کو فروغ دینا ہوتا ہے۔ وہ نفرت کو عام کرتی ہیں محبت کو نہیں یہی وجہ ہے کہ سرمایہ داری ہمیشہ استحصالی جنگ کو فروغ دیتی ہے اور سرمایہ دارانہ نظام میں ہمیشہ اقوام برسرپیکار رہتی ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام ہمیشہ اخلی بحران اور بین الاقوامی جنگ کے خطرات سے گھرا رہتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سرمایہ داری فطرت انسانی کے خلاف جنگ ہے اور وہ حرص، حسد، لذت پرستی اور سفاکی جیسے منفی جذبات کو فروغ دیتا ہے جو سکون قلب کو تباہ کرکے انسان کو جہنم کے دہانے تک پہنچا دیتے ہیں۔

سرمایہ دار نظام اور اسلامی انقلابی حکمت عملی:

سرمایہ داری اسلام کی ضد ہے۔ اسلام سراپا محبت ہے۔ سرمایہ داری حرص وحسد کی تجسیم ہے۔ افسو س اس بات کا ہے کہ اسلامی معاشیات دانوں نے سرمایہ دارانہ اداروں کو اسلامیانے کی کوشش کی، اسلامی انقلابی سب سے پہلے سرمایہ دارانہ عقلت کو یکسر رد کرتے ہیں۔ وہ اس بات کا انکار کرتے ہیں کہ انسان فطرتاً حریص، حاسد، خود غرض اور لذت پرست ہے وہ محبت، انفاق، صبر، توکل، فقر، زہد اور احسان کو فطری انسانی صفات شمار کرتے ہیں اور ان کو فروغ دینے کی کوشش کرتے ہین اور اپنی معاشرتی حکمت عملی انہی صفات کو عام کرنے کی بنیاد پر مروج کرتے ہیں۔

یہ حکمت عملی سرمایہ دارانہ نظام کو مکمل طور پر تباہ کرنا چاہتی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں جزوی اصلاح کی خواہش مند نہیں۔ اس حکمت عملی کو بروئے کار لانے کے لیے تین سطحوں پر کام اشد ضروری ہے۔

(١) ان بازاروں اور پیشوں میں حلال رزق فراہم کرنے کی کوشش کرنا چاہیے جو قدیم اسلامی روایت برقرار رکھے ہوئے ہیں اور جن کا زر کے بازار اور سرمایہ کے بازار سے بالواسطہ تعلق نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلامی جماعتیں مساجد کو بنیاد بنا کر ایسی معاشی صف بندی کریں جس کے نتیجے میں عام آدمی کے لیے حلال رزق کے وافر مواقع مہیا ہوں۔ اسلامی جماعتوں کو اس کام کو اس طرح ترتیب دینا چاہیے کہ حرص اور حسد کی بیماریاں اس میں شریک افراد کو متاثر نہ کرسکیں۔ اس وجہ سے لازم ہے کہ معاشی صف بندی کا کام انفرادی نہ ہو اور سماجی رفاہی تنظیموں کے سپرد نہ کیا جائے۔ یہ خالص دینی کام ہے جس کو مساجد پر مرتکز ہونا چاہیے اور جس کی ذمہ داری اسلامی جماعتوں کو اٹھانا چاہیے یہ ضروری ہے کہ اس کام میں ایسے اداروں سے کوئی مدد نہ لی جائے جو زر کے بازار اور سرمایہ کے بازار سے متعلق ہیں۔ (مثلاً اسلامک بینکس، مضاربہ کمپنیاں، لیزنگ ایجنسیاں وغیرہ) ان احتیاطوں کے بغیر للہیت کو فروغ نہیں دیا جاسکتا وار اس قسم کا کام بہت جلدخودغرضی، حرص اور حسد کا شکار ہوجاتا ہے۔

(٢) اللہ کے فضل وکرم سے آج پاکستان کے ہر بڑے صنعتی اور مالیاتی اداروں میں اسلامی مزدور یونینیں موجود ہیں۔ ہمارے جیالے یونینسٹ تحریک اسلامی کا ہر اول دستہ ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو آگے بڑھ کر سرمایہ داری کے مضبوط ترین مورچوں پر قبضہ کریں گے وار ان پر اسلام کا سبز ہلالی پرچم بلند کریںگے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ ظلم اور استحصال کے عینی شاہد ہیں اور سرمایہ دارانہ مکاری کا مدت دراز سے نہایت نامساعد حالات میں دلیرانہ مقابلہ کر رہے ہیں۔ ضروت اس بات کی ہے کہ ہماری مزدور تنظیمیں حقوق کی سیاست کو شرح صدر کے ساتھ رد کریں۔ سرمایہ دارانہ نظام میں مزدوروں کے حقوق کے تحفظ سے سرمایہ داری مستحکم ہوتی ہے۔ اسلامی مزدور تنظیموں کو تمام سرکاری اور غیرسرکاری جوائنٹ اسٹاک کمپنیوں کی مینجمنٹ میں شمولیت کی سعی کرنی چاہیے تاکہ یہ کمپنیاں اسلامی مقاصد کو پیش نظر رکھ کر اپنی پالیسیاں بنائیں۔ زر کے بازار اور سرمایہ کے بازار سے ان کا تعلق کم ہو اور کالے دھندوں اور کرپشن سے دست کش ہوں اور مزدوروں کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ جوائنٹ اسٹاک کمپنیوں کا حقیقت میں کوئی ملک نہیں اور مزدور کو مینجمنٹ کے اہداف اور حکمت عملی متعین کرنے کا پورا پورا حق ہے۔ یہ صورت سرکاری کمپنیوں کی بھی ہے۔

(٣) سرمایہ داری کی قومی سطح پر ضرب کاری اسلامی ریاست ہی لگائے گی اس ضمن میں سب سے پہلی بات جس کو سمجھ لینا چاہیے وہ یہ ہے کہ اسلامی انقلابیوں کو آزاد معیشت کو عام کرنے اور نج کاری کی پالیسی کی بھرپور مخالفت کرنی چاہیے۔ آزاد معیشت کی پالیسیاں قومی ریاست کو کمزور کرکے بین الاقوامی سرمایہ کا تسلط ملکی معیشت پر قائم کرنا چاہتی ہیں اور صرف ملک اور قوم کے غدار ہی ان پالیسیوں کے حامی ہوسکتے ہیں (سوائے ان بھائیوں کے جو ان پالیسیوں کی اصلیت سے ناواقف ہوں) اگر بین الاقوامی سرمایہ کا تسلط ملکی معیشت میںپوری طرح ضم ہوگیا تو یہاں اسلامی ریاست کا قیام ناممکن ہوجائے گا۔ اسلامی ریاست استعماری نظام سے تعلقات منقطع کرے گی تاکہ اس نظام کے خلاف مؤثر جہاد ممکن ہو۔ اسلامی ریاست کو لازماً سود کے بازار اور سٹہ کے بازار کو یکسر ختم کرنا ہوگا اور سرمایہ دارانہ تصور ملکیت کو رد کرکے شخصی ملکیت کی اسلامی خطوط پر احیاء کی کوشش کرنا ہوگی۔ یہ ایک طویل المدت کام ہے جو مزدور یونینوں اور عوامی معاشی اداروں کی مدد سے کیا جاسکتا ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جہاد وقت کی اہم ترین ضرورتوں میں سے ایک ہے۔ اس جہاد میں پہلا مرحلہ تطہیر نفس کا آتا ہے۔ ہم نے یہاں اقدار خبیثہ حسد، حرص، خودغرضی، سفاکی کا بیان کیا جو سرمایہ داری کی روح ہیں۔

سرمایہ دارانہ مارکیٹ

محمد یونس قادری

سرمایہ کیا ہے؟

سرمایہ میں اور دولت میں فرق ہے۔ سرمایہ کا تعلق آزادی سے ہے جبکہ دولت کا تعلق جائز اور ناجائز، حرام و حلال سے ہے۔ سرمایہ نفس کی وہ خواہش ہے کہ سرمایہ زیادہ سے زیادہ حاصل ہو’ سرمایہ دراصل بڑھوتری برائے بڑھوتری ہے۔ یہ تکاثر ہے۔ سرمایہ نفس کی خواہش کہ دنیا کا حریص ہو اور اس کے حصول کے لئے آپس میں حسد کرے۔ سرمایہ آزادی کا دوسرا نام ہے۔ سرمائے میں آزادی کامطلب ہے کہ حلال و حرام اور جائزہ و ناجائز کی تمیز نہ رکھی جائے۔ آزادی کن کو حاصل ہوتی ہے ان کو جن کے پاس سرمایہ زیادہ ہو۔ جب آپ آزادی کے حصول کے لئے کوشاںہوتے ہیں تو آپ اپنی خواہشات کی اتباع اس دنیا میں کرنا چاہتے ہیں اور اس کے حصول کے لئے عملی طور پر جس خواہش کے لئے کارفرما ہوتے ہیں اورجس مقصد کے لئے انفرادی اور اجتماعی زندگی کو پروان چڑھاتے ہیں وہ سرمائے کا حصول ہے۔ سرمائے کی خواہش کے بغیر آزادی کی خواہش ناممکن ہے۔ اس لئے مغربی تصور آزادی کی عملی تعبیر سرمائے کی خواہش ہے۔ ایک آزاد شخص یا گروہ جس چیز کا طالب ہوتا ہے وہ سرمایہ ہے اس کی زندگی کا مقصد سرمایہ ہی ہوتا ہے کہ اس کے ذریعے ہی وہ آزادی کو ممکن بنا سکتا ہے۔

سرمائے اور دولت میں فرق:

سرمایہ جیسا کہ دیکھا گیا ہے کہ خواہش کا نام ہے یہ وہ خواہش ہے جو خود اپنی تلاش میں سرگرداں ہوتی ہے۔ وہ سرمایہ جو کہ متشکل ہو کسی بھی اجزا میں وہ دولت بن جاتی ہے۔ یہ دولت جو کہ سرمائے کی بڑھوتری کے نتیجے میں حاصل ہوگی یہ حرام دولت اور سودی دولت ہوگی۔ اس کے برعکس اگر حلال طریقہ اور ذرائع سے حاصل ہو  تو وہ دولت حلال دولت ہوگی۔

مارکیٹ کیا ہے؟

مارکیٹ وہ جگہ ہے جہاں پر سرمائے کے طلب گار آزادی کے حصول کے لئے اکٹھے ہوتے ہیں اسی لئے مارکیٹ کا تعلق سرمائے سے ہے۔ اس کی خصوصیت میں ہم تفصیل سے دیکھیں گے کہ مارکیٹ پورے معاشرے کو کس طرح اپنے تابع کرلیتی ہے۔ مارکیٹ کا تعلق اس خاص قسم کے معاشرے سے ہے اور اس میں نشوونما پانے والے اداروں سے ہے۔

مارکیٹ اور بازار میں فرق:

ہم جس اصطلاح کو عام طور پر مارکیٹ کے مماثل سمجھتے ہیں وہ بازار ہے۔ بازار اور مارکیٹ میں بنیادی فرق ہے ۔بازار کا تعلق سرمایہ داری سے نہیں ہے بلکہ ماقبل سرمایہ داری بھی اسکا وجود تھا۔ بازار وہ ادارہ ہے جس کا تعلق مخصوص تہذیب’ اخلاقیات اور مذاہب سے ہے۔ بازار معاشروں کی تعمیر نہیں کرتا بلکہ بازار پہلے سے قائم معاشرتی قدروں کے تابع ہوتا ہے۔ بازار مارکیٹ کے مقابلے میں معاشرتوں کا ایک بہت قلیل حصہ ہوتا ہے۔ جبکہ مارکیٹ پورے معاشرے کے اندر غالب قدر ہوتی ہے اور وہ ہی معاشرتی قدروں کو متعین کرتی ہے۔ اسلامی معاشروں میں بازار ہوتے ہیں۔ جن میں حرام و حلال کی تمیز ہوتی ہے۔ اسلامی مارکیٹ کبھی نہیں ہوسکتی کیونکہ مارکیٹ کے معیارات سرمایہ داری سے متعلق ہیں۔ اسلامی مارکیٹ ایک غلط عقیدہ ہے۔ اب ہم مارکیٹ کے خواص کا جائزہ لیں گے کہ مارکیٹ کن خواص رویوں کو پروان چڑھاتی ہے۔

مارکیٹ کی خصوصیت:

مارکیٹ کی خصوصیت:

1۔ مارکیٹ کا غلبہ

مارکیٹ پورے معاشرے کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے مارکیٹ جہاں پر آزادی کو فروغ حاصل ہوتا ہے وہ اس کے رجحان کو پورے  معاشرے پر غالب کردیتی ہے۔ اور معاشرتی قدریں کسی اور بنیاد پر نہیں طے ہوتیں بلکہ وہ مارکیٹ کے نافذ کردہ اقدار پر استوار ہوتی ہیں۔ مارکیٹ برخلاف بازار کے صرف معاشی ادارتی صف بندی نہیں کرتی بلکہ معاشرے کے ہر پہلو کو اپنے تابع کرلیتی ہے ایک مذہبی معاشرہ جس کی بنیاد محبت اور بھائی چارہ پر استوار ہوتی ہے۔ مارکیٹ ان اقدار کی جگہ غرض’ حرص و حسد کو پروان چڑھاتی ہے۔ ان بنیادوں پر جو معاشرہ استوار ہوتا ہے اس کو سول معاشرہ (Civil Society) کہتے ہیں ۔مارکیٹ جس معاشرے کو جنم دیتی ہے وہ سول معاشرہ ہوتا ہے سول معاشرے میں پورا معاشرہ دراصل مارکیٹ بن جاتا ہے جہاں پر تعلقات کی بنیاد معاہدوں پر رکھی جاتی ہے۔ ایسے معاشرے میں خاندانی رشتے ناتے ٹوٹ جاتے ہیں اس لئے کہ خاندان کی بنیاد غرض اور معاہدہ نہیں ہوتی بلکہ اس کی بنیاد محبت و ایثار ہوتی ہے۔ ماں باپ، بہن بھائی، بیوی شوہر یہ تمام رشتے جب غرض کی بنیاد پر قائم ہوتے ہیں تو خاندانی نظام تباہ ہوجاتا ہے جیسا کہ مغربی ممالک میں ہورہا ہے اور ہر اس ملک میں ہوتا ہے جہاں سرمایہ داری کو فروغ ملتا ہے۔

2۔ مارکیٹ میں ہر خواہش مساوی اور جائز ہوتی ہے مگر ترتیب سے نہیں ہوتی

مارکیٹ میں آزادی کے فروغ کا مطلب یہ ہوا کہ آپ آزاد ہیں جو چاہنا چاہیں چاہ سکیں۔ اس طرح مارکیٹ میں ہر شخص مساوی ہے وہ چاہے نماز پڑھے یا شراب پیے یا بیچے، دونوں عمل اس لئے جائز ہیں کہ انہیں آپ نے آزادانہ خواہش کی اتباع کرتے ہوئے کیا ہے۔ جب ہر خواہش جائز اور مساوی ہوئی تو  پھر کسی خواہش کو کسی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں ہے۔ آپ خواہشات کی کوئی بھی ترتیب رکھ سکتے ہیں۔ مگر عملی طور پر آپ ہر اس خواہش کو اولیت دیتے ہیں جو کہ سرمائے کے ارتکاز میں معاون و مددگار ہو۔ مثلاً آپ اپنا تمام وقت تفریحات میں نہیں گزار سکتے کہ اس کی بنیاد پر آپ کو سرمائے میں بڑھوتری کے مواقع کم ملیں گے اس لئے آپ پابند ہیں کہ آپ کاروبار دفتر اور تعلیم پر بھی اپنا وقت صرف کریں۔ مارکیٹ میں آپ سرمائے کے غلام ہو کر اس خواہش کو کرنے کے پابند ہیں جو کہ آپ کے سرمائے میں اضافہ کرے۔

3۔ مارکیٹ نجی ملکیت کو ختم کردیتی ہے۔

سرمایہ داری یہ دھوکہ دیتی ہے کہ وہ نجی ملکیت کو پروان چڑھاتی ہے۔ یہ تصور ایک دھوکہ اور فریب ہے۔ نجکاری اور نجی ملکیت میں فرق ہے۔ اس فرق کو واضح کرنے کے لئے ضروری ہے کہ مارکیٹ کے اداروں کا جائزہ لیا جائے جو کہ نجکاری کے عمل کو پروان چڑھاتے ہیں۔ سرمایہ داری ایک فنانشل مارکیٹ کو پروان چڑھاتی ہے کارپوریشن اس فنانشل مارکیٹ کی روح رواں ہوتی ہے۔ سرمایہ داری میں جب بھی کوئی شے یا خدمات مارکیٹ میں آتی ہیں توہ وہ کارپوریشن کے تحت پیداوار یا خدمات انجام دیتا ہے۔ کارپوریشن کے بغیر مارکیٹ تک رسائی نہیں ہوتی۔ کارپوریشن میں یا تو ملازمین ہوتے ہیں یا اس کے شیئر ہولڈرز۔

شیئر ہولڈرز وہ ہوتے ہیں جو اس کمپنی کے مالک تصور کیے جاتے ہیں ان کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے کہ جو بھی اسٹاک مارکیٹ سے اس کمپنی کے شیئرز خرید لے وہ شیئر ہولڈر کہلائے گا۔ ان کے علاوہ ملازمین میں ایک مینیجر اور دوسرے دیگر عملہ یا مزدور شامل ہیں اس کارپوریشن کو چلانے کی تمام ذمہ داری مینیجرز پر ہوتی ہے۔ و ہی دیگر ملازمین رکھتے اور نکالتے ہیں اور وہی فیصلہ کرتے ہیں۔ شیئر ہولڈر کا کمپنی کے معاملات میں کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ زیادہ تر بچارے شیئر ہولڈرز کو کمپنی کے بارے میں بھی علم نہیں ہوتا کہ یہ کہاں ہے اور کام کیسے انجام دیتی ہے۔

مینیجرز جو تمام کمپنی کو چلانے کا مجاز ہوتا ہے وہ فیصلے ان بنیادوں پر کرتا ہے کہ کمپنی کے منافع/ سرمائے میں اضافہ ہوا، گر وہ ایسا نہیں کرتا تو پھر وہ بھی  ملازمت سے برخاست کر دیا جاتا ہے۔ شیئر ہولڈرز، مینیجرز اور مزدور تمام کے تمام اسی جستجو میں ہوتے ہیں کہ سرمائے کو کس طرح بڑھائیں۔ حلال اور حرام کی تمیز کے بغیر اصل مقصد کارپوریشن کے منافع محض کو بڑھانا ہوتا ہے اس طرح ملکیت نہ تو شیئر ہولڈرز کی ہوئی نہ ہی مینیجرز کی اور نہ ہی مزدوروں کی تو پھر مارکیٹ میں ملکیت کس کی ہوتی ہے؟ دراصل مارکیٹ میں ہر شخص ایک ہی کا غلام’ بندہ ہوتا وہ سرمایہ ہے اسی لئے ملکیت بھی سرمائے کی ہوئی۔ کارپوریشن جو کہ سرمائے کی ایجنٹ ہوتی ہے۔ وہ ایک نئی قسم کی شخصیت کو قائم کرتی ہے جس کو شخص قانونی (Corporate Porsonality) کہتے ہیں۔ یہ ایسا شخص قانونی ہے جو قلاش تو ہوسکتا ہے مر نہیں سکتا ذاتی ملکیت میں کسی شخص کی ملکیت ہوتی ہے وہ اگر مرجائے تو ملکیت تقسیم ہوجاتی ہے ۔سرمایہ دارانہ تصور ملکیت میں یہ ناممکن ہے۔ اس طرح ذاتی ملکیت کا خاتمہ کارپوریشن کے ذریعہ ہوتا ہے۔

4۔ مارکیٹ میں ہر شخص مزدور بن جاتا ہے:

جب ملکیت ختم ہوجاتی ہے تو پھر ہر شخص ملازم بن جاتا ہے اور کارپوریشن میں ہر شخص ملازم ہوتا ہے یعنی ہر شخص اجرت کمانے والا بن جاتا ہے۔ سرمایہ داری میں ہر شخص مزدور بن جاتا ہے اور اپنی خدمات کو بیچتا ہے جس کے عوض اس کو اجرت ملتی ہے جب سب لوگ مزدور بن گئے تو وہ غلام بن گئے اس کے جس نے اس کے وقت کو خریدا۔ وہ اس وقت کے اندر آپ سے جو چاہے کروائے آپ اس کے پابند ہیں۔

5۔ اصل بازار سود اور سٹے کا بازار ہوتا ہے:

مارکیٹ دو طرح کی ہوتی ہے ایک فنانشل مارکیٹ اور دوسری اشیاء کی مارکیٹ: فنانشل مارکیٹ وہ مارکیٹ ہے جہاں سود اور سٹہ کے بل بوتے پر زر اور اسٹاک کی خرید و فروخت ہوتی ہے اور اشیاء کی مارکیٹ میں اشیاء کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔ مارکیٹ میں فوقیت چونکہ سرمائے کی بڑھوتری کو حاصل ہوتی ہے اس لئے سرمایہ خود اپنی تلاش میں سرگرداں فنانشل مارکیٹ کو اپنا محور اور مرکز بناتا ہے۔ اس لئے کہ زر اور اسٹاک دونوں ہر لمحے بغیر پیداوار کے عمل میں شریک ہوئے تیزی سے سود اور سٹہ کی بنیاد پر بڑھتے ہیں۔ پیداوار جو کہ سرمایہ دار کی مجبوری ہوتی ہے اس کے لئے بھی اس کو سودی قرضے اور اسٹاک مارکیٹ کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ جتنا مارکیٹ کا رجحان غالب ہوگا اتنا ہی سود اور سٹہ کا بازار پیداواری عمل پر غالب آجائے گا اور فنانشل مارکیٹ کی فوقیت پیداواری مارکیٹ کے اوپر ہوتی جائے گی۔ جیسا کہ کسی بھی ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک میں دیکھ سکتے ہیں۔ فنانشل مارکیٹ پیداوار کی مارکیٹ سے کئی گنا بڑھی ہوئی ہوتی ہے۔

6۔سود اور سٹے کے بازار کا غلبہ:

جب فنانشل مارکیٹ کا غلبہ ہوگا تو اس کا مطلب ہی یہ ہوگا کہ سود اور سٹے کے تحت ہی مارکیٹ میں قدر طے ہوگی۔ فنانشل مارکیٹ جو کہ زر اور سرمائے کی مارکیٹ کا مرکب ہے۔ زر کی مارکیٹ میں زر کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔ اور زر کی قدر و قیمت سود ہوتی ہے۔ اور سرمائے کی مارکیٹ میں شیئرز کی خرید و فروخت ہوتی ہے اور یہ خرید و فروخت سٹہ کی بنیاد پر ہوتی ہے اس طرح سود اور سٹہ کا غلبہ پورے معاشرے پر ہوتا ہے کہ مارکیٹ کا رجحان پورے معاشرے کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔

سرمایہ داری میں ہر شے کی قدر قیمت سے متعین ہوتی ہے وہ شے زیادہ قابل قدر ہوگی جس کی زیادہ قیمت ہوگی۔ شے کسی بھی جگہ ہو اس کی قدر فنانشل مارکیٹ میں طے ہوگی اور اس طرح ہر شے کی قدر سود اور سٹے کی بنیاد پر متعین ہوتی ہے۔

یہ تو مارکیٹ کے چند خواص تھے اب ہم ماکیٹ کی تاریخ کو دو ادوار میں بانٹ کر دیکھتے ہیں ایک دور کو فورڈ ازم اور دوسرے دور کو پس فورڈ ازم کہتے ہیں۔

فورڈ ازم کا دور 1933 سے 1980 تک کا دور

یہ سرمایہ کاری کا ابتدائی دور ہے یہ دور دونوں جنگ عظیم اور یورپ کے اندر عظیم کساد بازاری 1930 کے بعد کا دور ہے۔ اس دور کا عروج 1945 جنگ عظیم دوئم کے بعد ہوا۔ سرمایہ داری جیسا کہ ہم نے دیکھا اس کا تعلق مغربی ثقافت سے ہے۔ مغربی ثقافت کے عروج کے ساتھ ہی سرمایہ داری کو عروج حاصل ہوا اس سے پہلے نہ ہی مارکیٹ کا تصور تھا اور نہ ہی سول معاشرہ تھا۔ تاریخ کے اس مطالعہ میں ہم دیکھیں گے کہ کس طرح سرمایہ داری اپنے اندر سے پھوٹنے والے چیلنجز کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی ساخت میں تبدیلیاں کرتی ہے۔ اس کے علاوہ یہاں پر یہ بھی دیکھیں گے کہ سرمایہ داری خود جن اقدار کے اوپر پرورش پاتی ہے ان اقدار کو امر بیل کی طرح خود اپنے ہاتھوں برباد کرکے نئے ادارے اور اقدار قائم کرتی ہے۔ اس طرح سرمایہ داری خود اپنی بربادی (Self distruction) کا سامان کرتی ہے۔ اور پس فورڈ ازم اس کی شکست اور بربادی کا ہی دور ہے۔

فورڈ ازم کے دور میں اس کو جس سب سے بڑے چیلنج کا سامنا تھا وہ اشتراکیت تھا۔ اور اشتراکیت میں بھی مزدور اجتماعیت سے اس کو اصل خطرہ تھا۔ جیسا کہ ہم نے اوپر دیکھا کہ سرمایہ داری ہی کی وجہ سے مزدور اجتماعیت پیدا ہوئی اشتراکیت جو کہ مغربی ثقافت سے ہی نکلنے والا شجر تھا۔ وہ اس بات کا قائل تھا کہ آزادی کا حصول اس وقت ممکن ہے جب مزدوروں کو کارپوریشن کے منافع میں برابر کا حصہ ملے۔ وہ سرمایہ دار کو مزدورں کے حق میں ڈاکہ ڈالنے والا تصور کرتا ہے۔ جس کی تفصیل  آگے ملاحظہ کریں گے۔

اس دور میں عیسائی اجتماعیت کی جگہ جن دو اجتماعیتوں کو سرمایہ داری نے مارکیٹ کے فروغ کے لیے استعمال کیا ایک مزدور اجتماعیت اور دوسری قومی اجتماعیت (Nationalism) تھی۔

پس فورڈ ازم 1980 کے بعد کا دور

پس فورڈ ازم کا دور سرمائے کی مکمل آزادی کا دور ہے اس دور کی خصوصیت یہ ہے کہ اس نے اپنی قائم کردہ دو اجتماعیتوں کو خود اپنے ہاتھوں ختم کر دیا۔ ایک مزدور اجتماعیت جو کسی نہ کسی صورت میں سوشل ڈیموکریٹ کی صورت میں موجود تھی وہ مکمل ختم ہو گئی اور دوسرا بریٹن وڈ سسٹم ناکام ہو گیا اور سرمایہ ریاست کے تابع ہونے کے بجائے ریاست سرمائے کے تابع ہو گئی۔

مزدور اجتماعیت:

یورپ میں سوشلزم کے بڑھتے ہوئے اثرات کو زائل کرنے کے لیے جو اجتماعیت قائم ہوئی اس کو سوشل ڈیمو کریٹ کہتے ہیں۔

یہ ایک سیاسی صف بندی تھی جو مزدوروں کو یہ باور کروانے میں کامیاب ہو گئی کہ سرمایہ داری تمہارے لیے خطرہ نہیں ہے۔ تم سرمایہ داری میں رہتے ہوئے اجتماعی سودے بازی کے ذریعے اپنے حقوق حاصل کرسکتے ہو۔ اس طرح اس تحریک کے نتیجے میں مزدور نے اپنی بقا سرمایہ داری میں جانی اور سرمایہ داری میں شمولیت کے نتیجے میں مزدور اجتماعیتیں سیاسی طور پر کمزور ہو گئیں۔ سرمایہ داری نے اس دور میں اپنا دوسرا حلیف بنایا جوکہ ریاست تھی اس دور میں ریاست کی ذمہ داری تھی کہ وہ سرمائے کی پشت پناہ ہو۔ سرمایہ کی بڑھوتری’ برطانیہ جرمنی جاپان کے اندر ہوتی اور سرمایہ جاپانی’ برطانوی سرمایہ کہلاتا۔ سرمائے کے پیچھے ایک سرمایہ دارانہ ریاست ہوتی جو کہ سرمایہ کا دفا ع کرتی۔

فورڈ ازم کے دور میں مزدور اجتماعیتیں سوشل ڈیموکریٹ کی وجہ سے باقی رہیں بس ان کی حیثیت تبدیل ہو گئی ان کی حکومت میں شرکت کے نتیجے میں مزدور انقلابی عمل سے دور ہو گئے اور وہ مکمل طور پر سرمایہ داری میں شریک ہو گئے ایسی حکمت عملی کے نتیجے میں اشتراکیت کو مغرب میں شکست ہوئی۔ اشتراکیت مزدور اجتماعیتوں کو متحرک ہونے اور قربانی دینے پر آمادہ نہ کرسکی اس لیے یہ تحریکیں پر امن اور بے جان ہو کر رہ گئیں۔

ریاست کی سطح پر جو نظام قائم تھا اس کو برٹین ووڈ نظام کہتے ہیں۔ اس میں مالیاتی نظام کو چلانے کے لیے ایک بین الاقوامی ادارہ قائم کیا گیا جس کو آئی ایم ایف کہتے ہیں اس ادارہ کی ذمہ داری تھی کہ وہ ممبر ممالک کو اس مالیاتی نظام کے تابع کریں جس کے نتیجے میں سرمایہ ان ممالک میں پروان چڑھ سکے۔ مگر جب سرمایہ ریاست میں پروان چڑھنے لگا تو پھر وہ آزاد نہ رہا اور وہ مقید ہو گیا ریاست کی چار دیواری میں۔ ریاست اس سرمائے کو ایسے استعمال کرتی جس سے ریاست کو فائدہ ہو نہ کہ سرمایۂ محض میں اضافہ ہو۔ سرمایہ چونکہ کسی کا پابند نہیں ہے تو 1980 تک ریاست اور مزدوروں کے ساتھ مجبوری کے تحت رہا مگر یہ مجبوری سوشلزم اور قوم پرستی کی کمزوری کے نتیجے میں رفع ہو گئی اور 1980 کے بعد کا پس فورڈ ازم دور اس کی مکمل آزادی کا دور ہے۔

مزدور اجتماعیت کا خاتمہ:

مزدور اجتماعیت جو کہ اجتماعی سودے بازی کے ذریعہ اپنا حق سرمایہ دار سے لیتی تھی۔ اس پس فورڈ ازم کے دور میں وہ اس سرمایہ دارانہ نظام میں شامل ہو گئی اور اجتماعی سودے بازی کی جگہ ہر مزدور انفرادی طور پر اپنی اپنی اجرت کمپنی میں طے کرنے لگا جس کو مکمل معیاری مینجمنٹ یا انسانی ذرائع کی مینجمنٹ کہتے ہیں۔ اس میں ہر کمپنی خود اپنے مزدور کو منظم کرتی ہے۔ مزدور بذات خود سرمایہ بن جاتا ہے اسے آپ انسانی سرمایہ کہتے ہیں انسانی سرمایہ کا مطلب یہ ہے کہ مشین اور زمین کی طرح انسان بھی سرمایہ ہے۔

ان نظریات کی پذیرائی کے نتیجے میں مزدور اپنے آپ کو سرمائے میں ضم کر لیتا ہے اور ہر شخص کا ذاتی فائدہ اس میں ہوتا ہے کہ سرمائے میں اضافہ ہوتا رہے دونوں مزدور اور آجر سرمائے کے خادم اور غلام بن جاتے ہیں اور اس طرح اجتماعی سودے بازی اور اجتماعی حقوق وغیرہ بالکل لاحاصل ہوجاتے ہیں۔ مارکیٹ  ریاست کی سطح سے بلند ہو جاتی ہے۔ اور کارپوریشن کے اثرات ریاستی پالیسیوں پر بڑھتے جاتے ہیں۔ نجکاری کے نام پر سرمائے کی حاکمیت ہر ادارے پر قائم ہوجاتی ہے۔ ریاست ان منصوبوں کی توثیق کرتی ہے جس سے سرمائے میں اضافہ ممکن ہو تمام ریاستیں ماسوائے ریاست ہائے متحدہ امریکا کے سرمائے کی باجگزار اور محکوم ریاستیں بن جاتی ہیں۔ یہ دور ایک طرح ریاستوں کی کمزوری کا دور ہے سرمائے کی آخری اجتماعیت ریاست کے کمزور ہونے کے ساتھ سرمایہ کوئی دوسری ایسی اجتماعیت قائم کرنے سے قاصر رہی جس کے ذریعہ وہ اپنا دفاع  کرسکے۔ کارپوریشن جو کہ خود اجتماعیت کو ختم کرتی ہیں سرمائے کے دفاع  سے قاصر ہیں۔ اس لیے سرمایہ داری اپنے آ پ کو خود تباہی سے دو چار کررہی ہے۔ان تاریخی حقائق سے ہم بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اگر ہم نے اپنے آپ کو سرمائے (مارکیٹ) کے سپرد کردیا تو پھر ہم بھی سرمائے کے مطیع اور بندے بن جائیں گے اور تباہی و بربادی ہمارا مقدر بن جائے گی۔اس لیے ہمیں کوشش کرنی ہوگی کہ ہم مارکیٹ کی جگہ اسلامی بازار کو فروغ دیں ۔ زر اور اسٹاک کی مارکیٹ سے ناتا توڑ کر اپنے لیے ایک جداگانہ مالیاتی نظام کو کھڑا کریں جو کہ مکمل طور پر اسلامی تعلیمات کے زیر اثر ہو۔

معاشیات اور سرمایہ داری

سید محمد یونس قادری

سوشل سائنسز کی طرح معاشیات کا تعلق بھی سرمایہ داری کی علمیت سے ہے۔ اسی تناظر میں ہم سب سے پہلے معاشی نظریات کو پرکھیں گے اور ان کے مختلف ادوار کا جائزہ لیں گے نیز اس سے پھوٹنے والے اداروں پر نظر ڈالیں گے ۔آخر میں سرمایہ داری کے سائے میں پروان چڑھنے والی اسلامی معیشت کا تنقیدی جائزہ بھی لیں گے۔

جدید معاشیات کی بنیاد  بحیثیت سوشل سائنس کی علمیت کے اٹھارویں صدی میں رکھی گئی۔ اس کا سہرا مشہور معیشت دان ایڈم اسمتھ کے سر ہے۔ ایڈم اسمتھ جو کہ دور تنویر کا ایک مفکر ہے اس نے لاک اور ہیوم جو دور تنویر کے بہت اہم فلسفی ہیں سے متاثر ہو کر معاشیات پر اہم تصانیف مرتب کیں۔ جس میں “The theory of moral sentiment”, “Inquiry into the nature causes of wealth of nation” قابل ذکر ہیں۔ دور تنویر کے اس ابتدائی دور کو معاشیات کلاسیکل دور تصور کرتی ہے اس کا دورانہ 1729-1930 تک کا ہے۔ اس دور کے دیگر مشہور مفکرین میں ڈیوڈ ریکارڈو (1772-1823) جس نے نظریہ پیداوار’ نظریہ قدر پر قابل ذکر کام کیا۔مالتھیوس نے رکارڈو کے نظریہ پیداوار کو مدنظر رکھ کر آبادی کو مسئلہ بناتے ہوئے نظریات پیش کیے بینتھم اور جون اسٹیورڈ ملز نے افادے کے نظریات کے ذریعے تسکین اور لذت پسندی کو معیشت کی بنیاد بنایا۔ الفرڈ مارشل (1842-1924) نے افادہ کو بنیاد بنا کر طلب اور رسد کے نظریات کی داغ بیل ڈالی۔ کلاسیکل دور میں ایک تبدیلی رونما ہوئی جب اولالذکر مفکرین جوکہ لبرل نظریات کے حامل ہیں ان کے نظریات پر اشتراکیت اور کمیونزم کے نظریات نے بڑے گہرے اثرات مرتب کیے۔ ان نظریات پر علمی کام کا سہرا کارل مارکس (1818-83) کے سر ہے ۔کارل مارکس نے اینجلز کے ساتھ مل کر 1840 میں کمیونزم کا دستور بھی لکھا اور 1867 میں اس نے اشتراکیت پر مشہور زمانہ کتاب” ڈاس کیپٹل ”تحریر کی۔ اس کے نظریات کا مکمل جائزہ اگلے ابواب میں آئے گا۔

انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے ابتداء میں روبن سن (1898-1971) نے معاشیات کی جامع تعریف کی اور معاشیات کو سائنسی علوم گردان کر اس بات پر ایمان مستحکم کیا کہ اصل مقصد حیات زیادہ سے زیادہ خواہشات کا حصول ہے اور ان کے حصول کے ذرائع کو بڑھانا اصل میں مقصود معاشیات ہے۔

کلاسیکل دور جو کہ 1730 سے 1930 تک جاری رہا ان مفکرین میں کارل مارکس کو نکال کر معاشیات کو لبرل سرمایہ داری کا حصہ تصور کرتے ہیں۔ یہ مفکرین دور تنویر کے نظریات ہی کے مطیع تھے۔ اس دور میں معاشیات کو بحیثیت مغربی افکار اور علم کی اس سطح پر مرتب کیا کہ لوگوں کا ایمان مغربی افکار پر مستحکم ہوجائے اور وہ فردکی سطح پر معاشرتی سطح پر اور ریاستی سطح پر سرمایہ دارانہ عقلیت پر ہی ایمان لے آئیں جس میں اوپر دیے گئے تمام مفکرین کافی حد تک کامیاب رہے۔ اس دور میں مغربی عوام کا ایمان عیسائیت سے ختم ہو کر تنویری افکار پر ہو گیا۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ فرد کی معاشرتی اور ریاستی سطح پر معاشیات کا مضمون کیا نظریات پیش کرتا ہے۔

فرد کی سطح:

جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ مغربی تنویری مفکرین اس بات پر ایمان لے آئے تھے کہ فرد انفرادی طور پر لذات کا پیروکار ہے اور وہ اپنی خواہشات کو زیادہ سے زیادہ پورا کرنا چاہتا ہے معاشیات میں جو مفروضات اور نظریات اس کو حق ثابت کرتے ہیں وہ درج ذیل ہیں۔

تعقل (Rationality):

یہ عقلی تقاضہ ہے کہ ہر شخص اپنی خواہشات کی اتباع کرے۔ اس مفروضے کو مد نظر رکھتے ہوئے معاشیات میں جو نظریات قائم کیے ہیں ان کو صارف کا رویہ یا نظریات کہتے ہیں۔ اس نظریہ کو سب سے پہلے ایڈم اسمتھ اور بعد میں تفصیل کے ساتھ بینتھم اور ملز نے نظریہ افادہ میں بیان کیا۔ بینتھم لذات کی بڑھوتری اور تکالیف میں کمی (Maximization Of Pleasure And Minimization Of Pain) کو بنیادی مقصد حیات تصور کرتا ہے ۔ملز نے تسکین کی مقدار پر زور دیا کہ کون سا عمل زیادہ تسکیل دیتا ہے اور کونسا کم۔ نظریہ طلب و رسد کو الفرڈ مارشل اور ملز نے اسی نظریہ افادے کے ذریعہ وضع کیا ہے اس کے مطابق ہر شخص اپنی لذات کو زیادہ سے زیادہ پورا کرنا چاہتا ہے مگر اس کی خواہشات میں وہ مسائل رکاوٹ ہیں جن کی وجہ سے فرد اپنی خواہشات پوری نہیں کرسکتا ہے۔ آپ اچھے سے اچھا مکان’ گاڑی اور پر تعیش چیزیں لینا چاہتے ہیں مگر آپ کے پاس اس کی قوت خرید نہیں ہے یعنی آمدن اور قیمت وہ دو بنیادی رکاوٹیں ہیں جو آپ کی خواہشات کے آڑے آتی ہیں۔ قیمت جتنی کم ہوگی اتنی آ پ زیادہ اشیاء کو طلب کرسکتے ہیں اس کے برخلاف کم۔ اس طرح سے اس نے  نظریہ طلب کو ثابت کیا، کہ قیمتوں اور طلب میں منفی رجحان ہے۔ نظریہ طلب نظریہ افادہ سے نکلا ہے۔ یہ کوئی آفاقی قانون نہیں ہے۔ نظریہ طلب ان معاشروں میں کبھی کارفرما نہیں ہوگا جہاں پر آپکا مطمع نظر لذات میں اضافہ نہ ہو۔ آپ حرام شے کو کبھی بھی استعمال نہیں کریں گے چاہئے آپ کو اس کی کتنی ہی خواہش کیوں نہ ہو اور وہ کتنی سستی کیوں نہ ہو۔ اس کی طرح ایک اسلامی ریاست حرام و حلال کی تمیز کرے گی نہ کہ خواہشات کو پروان چڑھائے گی۔ ان نظریات کو ماننے اور تسلیم کرنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ عقل اور نفس کو حلال و حرام کے متعین کرنے کا حقدار تسلیم کرتے ہیں اور وحی اور الہام سے انکار کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ معاشیات میں دوسرا نظریہ رسد سے متعلق ہے یہ نظریہ سرمایہ داری کے اس تصور کا آئینہ دار ہے کہ بحیثیت سرمایہ دار آپ کا مقصد زیادہ سے زیادہ سرمائے کی بڑھوتری ہے اور یہ اس وقت ممکن ہے جب ہر سرمایہ دار اس مقصد سے پیداواری عمل میں شامل ہو اور منافع محض میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کر سکے۔ ہر پیداوار کنندہ منافع خور منافع میںاسی صورت زیادہ سے زیادہ اضافہ کرے گاجب کہ قیمت فروخت زیادہ ہو یا پیداواری لاگت کم سے کم ہو۔ یعنی سرمایہ دار رسد اس وقت زیادہ کرے گا جب قیمتیں زیادہ ہوں یا لاگت کم ہو اس کے برخلاف رسد کم کرے گا اس کو قانون رسد سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس طرح اگر دیکھا جائے تو قانون طلب و رسد کا تعلق قیمت سے ہوا۔ وہ مقام جہاں پر طلب کرنے والے صارف اور رسد کرنے والے پیدوار کنندہ ملتے ہیں اس کو مارکیٹ کہتے ہیں۔ اس مارکیٹ میں اشیاء و خدمات کی قدر متعین ہوتی ہے۔ قدر کو متعین کرنے میں ریکارڈو اور کنیز اس بات پر اتفاق کرتے تھے کہ قدر کو متعین کیا جاتا ہے مزدوری کی بنیاد پر۔ وہ شے جو کہ زیادہ مزدور لگا کر پیدا ہو زیادہ قدر یا قیمت والی ہے اس کے مقابلے میں جو کم مزدوری سے بنائی جائے۔ مگر نیو کلاسکیل مفکرین ملز مارشل اس نظریہ کو رد کرتے ہیں ان کے نزدیک قدر یا قیمت معین ہوتی ہے طلب و رسد کی رسہ کشی کے نتیجے میں، طلب کرنے والا کم قیمت پر زیادہ اشیاء لینا چاہتا ہے اور رسد کرنے والا کم قیمت پر کم رسد کرنا چاہتا ہے’ مارکیٹ میں قیمتیں وہاں طے ہوںگی جہاں پر طلب اور رسد یکساں ہوں اس جگہ مارکیٹ توازن کی حالت میں ہوگی۔ اس نظریے کے تحت جو قیمت طے ہوگی اس کو مارکیٹ قیمت کہتے ہیں ان قیمتوں میں منصفانہ قیمتوں کا کوئی وجود نہیں ہے کہ چاہے کوئی شے کتنی ہی سستی کیوں نہ پیدا کی جائے اس کی قیمت کا تعلق طلب و رسد پر ہے اگر پیداوارکنندہ اشیاء کی رسد کو کم کر دیں تو قیمتیں بڑھ جائیں گی اور اگر طلب کو بڑھا دیا جائے تو بھی قیمتوں میں اضافہ ہوگا یہی وجہ ہے کہ سرمایہ دارانہ معیشت میں عادلانہ قیمتوں کے موجود نہ ہونے سے قیمتوں میں اضافہ ہی ہوتا ہے کہ اصل طاقت کا سرچشمہ سرمایہ داری میں سرمایہ دار ہوتا ہے ۔قیمتیں طلب و رسد کی بنیاد پر طے نہیں ہوتیں بلکہ سرمایہ دار  قیمتیں خود متعین کرتا ہے جو کہ بڑھتی رہتی ہیں، اس کی وجہ سے افراط قیمت(Inflation) ہمیشہ سے سرمایہ دارانہ ممالک میں ایک مسئلہ رہتا ہے۔

معاشرہ:

ان نظریات کو ماننے کی وجہ سے جو اجتماعیت قائم ہوگی اس میں حرص و حسد’ خود غرضی کوٹ کوٹ کر بھری ہوگی ۔معاشیات کے نظریات ایک ایسے معاشرے کی داغ بیل ڈالیں گے جہاں درج بالا خصوصیات کو تقویت ملے گی اور جیسا کہ مارکیٹ کے باب میں دیکھا کہ اس کے نتیجے میں پورا معاشرہ مارکیٹ کے تابع ہو کر سول معاشرہ تعمیر کرے گا۔

ریاست:

ریاست سے متعلق کلاسیکل مفکرین کا خیال ہے (ماسوائے مارکس کے) ریاست کو معاشی معاملات میں عدم مداخلت کرنی چاہئے۔ مارکیٹ کے پورے معاشرے اور معیشت میں غلبے کے نتیجے میں فنانشل مارکیٹ کا غلبہ ہوگا جہاں سود اور سٹہ کی بازی گری ہوگی جب بھی معیشت عدم استحکام کا شکار ہوگی تو وہ خودبخود استحکام پر آجائے گی جس میں کلیدی کردار فنانشل مارکیٹ ادا کرے گی۔ کلاسیکل معیشت دان لبرل افکار سے متاثر ہو کر مارکیٹ کی آزادی کے قائل ہیں او رحکومت کی عدم مداخلت کو معیشت کے استحکام کے لیے لازمی قرار دیتے ہیں۔

کینزین معیشت:

1930 اور جنگ عظیم دوئم کے بعد جیسا کہ مارکیٹ میں دیکھا مغربی معاشروں میں تبدیلی آئی اور کلاسیکل نظریات کو ایک شدید جھٹکا لگا۔ 1930 میں مغربی ممالک کو عظیم کساد بازاری کا سامنا کرنا پڑا۔ معیشت عدم استحکام کا شکار رہی اور استحکام خودبخود قائم نہ ہوسکا۔ سرمایہ داری اپنے زوال کے قریب تھی کہ لارڈ کینز نے معیشت سے متعلق انقلابی تصورات پیش کیے جن کی روشنی میں سرمایہ داری کو ایک نئی زندگی ملی۔ اسی لئے کینز کو سرمایہ داری کا دیوتا تصور کیا جاتا ہے جیسے کنیز نے ثابت کیا کہ 1930 کی کساد بازار ی سے نکالنے کے لیے ریاست کو مالیاتی پالیسی مستحکم کرنی ہوگی۔ معیشت میں سٹہ بازی تخمینہ گوئی کی وجہ سے بے روزگاری اور پیدوار میں کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کساد بازاری سے نکالنے کے لیے سرمایہ دارانہ ریاست کی ضرورت ہے۔ 1930 سے 1970 کی دہائی تک سرمایہ دارانہ ریاست ہی سرمائے کے ارتکاز کو ممکن بناتی تھی اور جیسا کہ مارکیٹ میں دیکھا کہ سرمایہ ریاستی سرمایہ کہلاتا ہے جیسے برطانوی سرمایہ جرمن سرمایہ وغیرہ۔ فرد سے متعلق اور معاشرے سے متعلق کینزین کلاسیکل نظریات کا ہی حامل تھا۔ مگر وہ برخلاف لبرل سرمایہ داروں کے سرمائے کو مرتکز کرنے کے لیے ریاست کی ضرورت کو اہمیت دیتا تھا۔ عالمی سرمائے کو مرتکز کرنے کے لیے عالمی زر کو قابو میں کرنے کے لیے عالمی ادارے کے قیام کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔ کنیز کے ہی مشورے پر بریٹن ووڈ کانفرنس میں آئی ایم ایف کے منصوبے کو عملی جامہ پہنایا گیا۔ آئی ایم ایف کا مقصد ممبر ممالک کو زر مبادلہ کے ذخائر میں کمی کو پورا کرنا ہے تاکہ شرح مبادلہ کو استحکام حاصل ہو۔ اس وقت تک شرح مبادلہ کا تعین کرنا ہر ملک کے مرکزی بینک ہی کی ذمہ داری تھی وہ اپنی معاشی صورتحال کے پیش نظر رکھتے ہوئے شرح مبادلہ متعین کرتاتھا۔ بریٹن ووڈ سسٹم کی کوشش تھی کہ زر مبادلہ کے تعین میں آئی ایم ایف کردار ادا کرے اور اس کے لیے ایس ڈی آر محفوظات کا اجراء کیا جو کہ سونے کے مبادلے کی جگہ استعمال ہوں گے۔

نیو کلاسیکل نظریات:

کینزین معیشت کا یہ دور1960ء  کے بعد سرمایہ دارانہ معیشت کو استحکام دینے سے قاصر رہا بریٹن ووڈ سسٹم تباہی سے دوچار ہوا اور اس کی جگہ جس نظام معیشت نے لی اس کو نیو کلاسیکل سسٹم کہتے ہیں۔ یہ دور پس فورڈ ازم کے ساتھ کا دور ہے اور اب تک جاری ہے اس کے مفکرین میں فریڈمین’ لوکاس اور سارجنٹ ہیں۔ نیو کلاسیکل مفکرین کلاسیکل معیشت دانوں کی طرح اس بات کے قائل تھے کہ معیشت میں حکومتی عدم مداخلت ضروری ہے۔ اس دور میں سرمایہ ریاست کی سطح سے بلند ہو کر آزاد ہوجاتا ہے اور کارپوریشن کی بالادستی قائم ہوجاتی ہے  چناچہ یہ دور معیشت کی آزادی کا دور ہے۔ اس دور میں فنانشل مارکیٹ مملکتوں کی حدود کو پار کرکے اپنے منافع محض کے لیے کام کرتی ہیں۔ سرمائے کی محافظ ریاستیں’ عیسائیت کی طرح اس دور میں کمزور کر دی جاتی ہیں سرمایہ داری اپنی اس خصوصیت کو برقرار رکھتی ہے کہ جس کے بل بوتے پر وہ مستحکم ہوتی ہے اس ہی ادارے کو آخر کار ہضم کرجاتی ہے۔ پہلے عیسائیت جس نے سرمایہ داری کو جلا بخشی اس کو مغربی معاشرے سے بے دخل کر دیا۔ اس کے بعد مغربی ریاستوں نے اس کو سہارا دیا نیو کلاسیکل دور میں اس کو بھی تباہ کیا جارہا ہے۔ ریاستوں کی جگہ سرمایہ داری اب کسی اجتماعیت کو قائم کرنے سے قاصر ہے جو کہ اس کا دفاع کرسکے۔ کارپوریشن تو انفرادیت کو جنم دیتی ہیں اس لیے یہ دور سرمایہ داری کی پسپائی کا دور ہے چنانچہ مملکت کو سرمائے پر بالادست کیا جائے گا بلکہ کا ر پوریشن کو آزاد چھوڑ دیا جائے گا کہ وہ سرمائے کو سیال کر کے جہاں منافع زیا دہ ہو وہاں لے جائے ۔ریاست کی عدم موجو د گی میں سرمائے کو ایک محافظ کی ضرورت ہو گی وہ محا فظ عالمی سرمایہ دارانہ ریاست امریکہ کو تصور کیا گیا ۔اس کو تفصیل کے ساتھ ”عالمی سرمایہ دارانہ تنظیم اور امریکا” میں دیکھیں گے۔

فرد کی سطح پر نیو کلاسیکل جس نظریہ کو پروان چڑھاتی ہے کہ فرد کی آزادی ہی ہے مگر فرد کی تعقل اس کو کسی تجربہ سے یا کسی مشاہدے سے حاصل نہیں ہوتی جس کا قائل کینز تھا اس کو Adaptive expectation) کہتے ہیں۔نیو کلاسیکل حضرات چوں کہ انسان کو خدا تصور کرتے ہیں اس لیے جو بھی فیصلہ یہ انسان کرے گا وہ درست ہوگا اس کو Rational expectation کہتے ہیں۔نیو کلاسیکل جس قسم کی سرمایہ داری کے فروغ کی خواہاں ہے اس میں فرد آزاد ہے۔ معاشرہ سول معاشرہ اور معاشی معاملات کارپوریشن کے زیر اثر آزاد ہیں۔ اس دور میں تینوں فرد معاشرہ اور ریاست مکمل طور پر سرمائے کے غلام ہیں۔

یہ تو سرمایہ داری سے معاشیات کا تعلق تھا۔ معاشیات اپنے مختلف ادوار میں سرمایہ داری کے تحفظ کے لیے مختلف نظریات پیش کرتا ہے کبھی عیسائیت’ کبھی ریاست کبھی کارپوریشن اور امریکا کا سہارا لیتا ہے معاشیات اسی لئے کوئی غیر اقداری مضمون نہیں ہے بلکہ یہ سرمایہ داری کے فروغ کا علم ہے ،اس تناظر میں اب ہم اسلامی بینکاری کو فروغ دینے والے معیشت دانوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ اس مغالطے کی وجہ سے کس طرح سرمایہ داری کو فروغ دے  رہے ہیں۔

اسلامی معاشیات:

دو طرح کی سرمایہ داری کا تذکرہ ہم اس کتاب میں کر رہے ہیں ایک لبرل سرمایہ داری اور دوسری ریاستی سرمایہ داری یہاں میں ایک اور قسم کی سرمایہ داری کا ذکر کروں گا اس کو اسلامی سرمایہ داری کہتے ہیں جس کو عام طور پر اسلامی معاشیات کا نام دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ ہم نے اوپر دیکھا کہ سرمایہ داری مختلف ادوار میں کبھی مذہب کا سہارا لیتی ہے کبھی قوموں کا سہارا لیتی ہے اور آخر میں ان سے اپنا کام نکالنے کے بعد اپنے ہدف آزادی کے حصول کے بعد ان اجتماعیتوں سے جان چھڑاتی ہے۔ سرمایہ داری نے جس طرح اپنے مغربی معاشرے میں اپنے ابتدائی دور میں پروٹسٹنٹ عیسائیت کا سہارا لیا اسی طرح وہ اسلامی معاشروں میں اسلام کا سہارا بھی لینا چاہتی ہے۔ اس کے لیے اس نے اسلامی معیشت اور اسلامی بینکاری کو فروغ دیا ہے۔

اسلامی معیشت کی ابتداء بیسیویں صدی کے اواخر میں رکھی گئی ،اس کا سہرا سعودی عرب کے فرماں روا شاہ فیصل اور پاکستان کے سابق صدر جنرل ضیاء الحق کے سر ہے۔ اسلامی معیشت دان سرمایہ داری کے اصولوں کو غیر اقداری تصور کرکے ان میں اسلامی اصولوں کو خاص کر بلا سودی فنانشنل سسٹم کی پیوند کاری کرتے ہیں۔ جیسا کہ ہم نے مارکیٹ میں دیکھا کہ سود تو سرمایہ دارانہ نظام کی رگ و پے میں سرائیت کر رہا ہے اس کا خاتمہ جب ہی ممکن ہے جب سرمایہ دارانہ نظام کو مجموعی طور پر تباہ کیا جائے۔ ابھی ہم نے اس باب میں تفصیل سے دیکھا کہ معاشیات کا تعلق دور تنویر کے افکار سے ہے۔ اسی معنی میں معاشیات ایک خاص علمیت ہے کہ اس کا مقصد سرمایہ داری کا غلبہ ہے۔ اسلامی معیشت دانوں کی اصلی غلطی یہ ہے کہ وہ سرمایہ داری کو باطل نظام تصور نہیں کرتے، بلکہ اسکو ایک معاشی نظریہ تصور کرتے ہیں، اور نہ ہی اسلام کو کوئی نظام تصور کرتے ہیں۔ وہ اسلام کو برتنے کا طریقہ تصور کرتے ہیں اسی لئے کسی بھی نظام میں اس کی پیوند کاری کو جائز تصور کرتے ہیں۔

اسلامی معیشت دان جیسا کہ ہم نے معیشت میں دیکھا اس کے اصولوں پر جو کہ فرد، معاشرے اور ریاست کی سطح پر ہیں سے بالکل سہو نظر کرتے ہیں۔ وہ سرمائے کو دولت تصور کرتے ہیں اور نج کاری کو نجی ملکیت سے تعبیر کرتے ہیں جبکہ ہم نے مارکیٹ میں دیکھا کہ سرمایہ داری تو نجی ملکیت کو فروغ نہیں دیتی بلکہ نج کاری کا مقصد نجی ملکیت کو ختم کرکے کارپوریشن کومکمل اختیارات دینا ہے۔ جس کی تفصیل ہم دیکھ چکے ہیں۔

اسلامی معیشت دان معاشی اصولوں کو غیر اقداری تصور کرتے ہیں اسی لئے وہ فرد کو حریص و حاسد تصور کرتے ہیںا ور پیداوار کنندہ کے منافع کے زیادہ سے زیادہ حصول کو جائز تصور کرتے ہیں۔ تمام معاشی نظریات کو حق تصور کرکے ان کے لیے اسلامی جواز فراہم کرتے ہیں مثلاً قیمتوں کے تعین  میں طلب و رسد کے نظریات کو عین اسلامی ارو مارکیٹ کے قدر کے متعین کرنے کا اسلامی پیمانہ تصور کرتے ہیں۔ وہ سرمایہ داری کو ایک معاشی نظریہ تصور کرتے ہیں اور اس میں رہتے ہوئے سرمایہ داری کا فروغ چاہتے ہیں۔

معاشیات کے اصولوں کو من و عن تسلیم کرنے کا مقصد یہ ہوگا کہ ہم سرمایہ دارانہ اصول کو حق بجانب تصور کرتے ہیں کہ ہماری زندگی کا مقصد زیادہ سے زیادہ تسکین کا حصول ہے۔ تو اس صورت میں  جو شخصیت پروان چڑھے گی وہ کبھی بھی تقویٰ اور پرہیزگاری کا پیکر نہیں ہوگی اور جو معاشرہ تعمیر ہوگا وہ سول معاشرہ ہوگا نہ کہ اسلامی معاشرہ جو ریاست ہوگی وہ جمہوری  ہوگی نہ کہ اسلامی ۔

اسلامی معیشت  کے حوالے سے نظریات پر کام تو کم ہوا ہے البتہ جو کام اسلامی معیشت دانوں نے سب سے زیادہ اور پر زور طریقہ سے کیا ہے وہ اسلامی بینکاری پر ہے۔ اسلامی بینکاری جس کی ابتداء مصر میں جمال عبدالناصر نے ناصر سوشل بینک قائم کرکے کی اور سعودی عرب میں پرنس محمد الفیصل نے دارالمال کی صورت میں رکھی۔ ان دونوں اداروں کا تاریخی پس منظر یہ ہے کہ مصر میں اخوان المسلمون کی اسلامی تحریک کے سیاسی غلبے کو ختم کرنے کے لیے اور عرب دنیا میں اسلامی تحریکات کو کچلنے کے لیے دارلمال کی بنیاد رکھی گئی۔ اسلامی بینکاری کو 1980 کی دہائی میں عوامی پذیرائی حاصل نہ رہی اور اسلامی بینکاری مسلمان سرمایہ داروں تک ہی محدود رہی اور اس میں علماء کرام کی شرکت نہ ہونے کی وجہ سے اس کو مقبولیت حاصل نہ ہوسکی ۔

1976 میں شریعت کے ماہرین علماء کرام اور بینکاروں کے درمیان معاہدہ ہوا جس کے نتیجے میں مصر میں فیصل اسلامک بینک کا قیام عمل میں آیا 1990 کی دہائی کے وسط سے عام علماء کرام کو بینکوں نے اپنا شریعہ ایڈوائزر بنایا اور ایک شریعہ ایڈوائزری بورڈ تشکیل دیا گیا۔ اس طرح عام مسلمانوں کا اعتبار اسلامی بینکاری پر قائم ہوا اور اس کے بعد سے مسلم ممالک میں اسلامی بینکاری کا جال بچھ گیا۔ 21ویں صدی کی ابتداء میں جب مالیاتی نظام کی نجکاری کی گئی اور پاکستان میں خاص کر نجی بینکاری کو اور بیرونی بینکاری کو کام کرنے کی اجازت ملی تو اس کے ساتھ نجی اسلامی بینکوں کا قیام عمل میں آیا جس میں قابل ذکر المیزان بینک ہے۔ اس کے علاوہ تقریباً ہر بڑے بیرونی اور پاکستانی بینک نے اسلامی ونڈو بھی قائم کی جس میں سٹی بینک’ اے بی ایم ایمبرو بینک قابل ذکر ہیں۔

اسلامی بینکاری کی درج ذیل خصوصیات ہیں۔

1۔ اسلامی بینک مالیاتی اداروں کو غیر جانبدار ادارے تصور کرکے اس میں اسلامی تمویلی آلات کی پیوند کاری کرتا ہے۔ سود کی جگہ مرابحہ’ اجارے کو زیادہ تر استعمال کرتے ہیں اور محدود پیمانے پر مشارکت اور مضاربہ کو استعمال کرتے ہیں ا س طرح سود کو اسلامی جواز فراہم کیا جاتا ہے خود اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ میں صراحت کے ساتھ درج ہے کہ مرابحہ، اجارہ اور دیگر کرائے اور خرید و فروخت کے ذرائع سود کو پچھلے دروازے سے داخل کرنے کا ذریعہ ہے اس لئے ان ذرائع کا استعمال نہایت مجبوری میں اور محدود پیمانے پر کیا جائے جبکہ اسلامی بینکاری میں 80 فیصد سے زیادہ مرابحہ اور اجارہ پایا جاتا ہے۔

2۔ بینک ایک ثالث ہے جس کا کام زر کو ایک ضرورت مند سے دوسرے ضرورت مند کو فراہم کرنا ہے۔ بینک بحیثیت ثالث جب بھی زر کے تبادلے اور زر کی تجارت کا منافع لے گا وہ منافع سود کے سوا کچھ نہیں  ہوگا اسی لئے اسلامی نظریاتی کونسل نے جو سفارشات مرتب کیں اس میں نجی بینکاری کا کوئی ذکر نہیں ہے۔

3۔ اسلامی بینکاری  میں شریعہ ایڈوائزرز کو سرمایہ دار بطور ایجنٹ استعمال کر رہے ہیں۔ اس میں جو فتویٰ دیے جاتے ہیں وہ کل نظام پر نہیں دئیے بلکہ جزو پر دیتے ہیں اسلامی تمویلی ذرائع کے استعمال پر فتویٰ ہونا چاہئے اسی لئے ان کی مرتب شدہ شرائط صرف کاغذ پر ایگریمنٹ تک محدود رہتی ہیں اور عملی طور پر سودی بینکاری اور اسلامی بینکاری میں بالکل فرق نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں سود خور سرمایہ داروں کو دہرا فائدہ ہے ایک اسلامی بینک کم شرح پر قرضہ فراہم کرتا ہے اور اپنے کھاتے داروں کو کم شرح پر منافع / سود دیتا ہے۔

4۔ منظر کیف لکھتے ہیں کہ ان شریعہ ایڈوائزر کے ذریعہ سرمایہ دار درج ذیل فائدہ اٹھاتے ہیں۔

1۔ شریعت کو جدید خطوط پر استوار کیا جارہا ہے ادھر مالیاتی اور تمویلی میدان میں اسلامی اسکالرز پیدا ہورہے ہیںا س فیلڈ میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں دی جارہی ہیں۔

2۔فقہ سے متعلق فیصلوں اور آراء کو جدید بنایا جارہا ہے جس کا مقصد سود کو جائز کرنا اور اسلامی سرمایہ داری کا فروغ ممکن بنانا ہے۔

3 ۔ علماء کرام کے طرز زندگی کو پرتعیش بنانے کا ذریعہ ہے بڑی بڑی تنخواہیں فائیو اسٹار ہوٹل میں قیام وغیرہ’ سفر بڑے بڑے سرمایہ داروں اور ان کے ایجنٹوں سے براہ راست ملاقاتیں

4۔ علماء کرام کو بینکاری سے منسلک کرکے سرمایہ داری اور سودی نظام کی اسلام کاری کی جارہی۔

5۔ علماء کرائم کو سرمایہ داروں کا مشیر بنا کر ان کی وقعت’ قدر و منزلت عام مسلمانوں میں کم کی جارہی ہے۔

مسلم معیشت دان اور بینکار دونوں سرمایہ داری کے فروغ میں براہ راست اور بلا واسطہ شریک ہیں۔ اور سرمایہ داری کو اسلامی جواز پہنایا جارہا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اچھی طرح سمجھیں کہ معاشیات سرمایہ داری کی ایک علمیت ہے اس کے ذریعے  سرمایہ دارنہ نظام کو معاشرہ میں غالب کیا جارہا ہے۔ اس سرمایہ دارانہ معاشرے میں معاشیات ایک غالب قدر ہو جاتی ہے جس کے ذریعے سرمائے کی بڑھوتری برائے بڑھوتری کو مقصد حیات بنایا جاتا ہے اور پورا معاشرہ سرمائے کے گرد گردش کرتا ہے۔ اسلامی معاشرے میں معاش تابع ہوتا ہے اسلامی نظام کے اور وہ قدر متعین نہیں کرتا بلکہ اسلامی اقدار کے تابع ہو کر زندگی میں اس کی اہمیت کم ہوتی ہے۔ نہ ہی فرد معاشرے اور ریاست میں اسکو کلیدی حیثیت حاصل ہوتی ہے جبکہ سرمایہ دارانہ معاشرے میں افراد معاشرے اور ریاست میں معاشیات کو کلیدی مقام حاصل ہوتا ہے۔

تکملہ:

اسلامی معیشت دان سرمایہ داری کو معاشیات تک محدود کرتے ہیں جو کہ ایک غلط نظریہ ہے۔سرمایہ داری کا دائرہ کار پورے معاشرے پر محیط ہے۔ دوسرا مغالطہ یہ  ہے کہ سرمایہ داری نجی ملکیت کو فروغ دیتی ہے جبکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ سرمایہ داری سرمائے کی ملکیت کو فروغ دے کر ہر فرد کو سرمائے کا غلام بنادیتی ہے۔ سرما یہ داری کا تعلق مغربی اقدار سے ہے جس میں معاشیات بطور علم کے اس نظام کو فروغ دینے کا ضامن ہوتا ہے۔

اشتراکیت یا ریاستی سرمایہ داری

جاوید اقبال

اشتراکیت کے علم برادر بڑی فنی مہارت سے یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ نظام ایک خاص نوعیت کی معاشی ہیئت ہے جس میں معاشرے کے کمزور اور مفلوک الحال طبقات کو سرمایہ داروں کی لوٹ کھسوٹ سے بچانے کا انتظام کیا جاتا ہے۔ لوگ محض اشتراکیوں کے پروپیگنڈے سے مسحور ہو کر یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ یہ نظام سرمایہ دارانہ نظام سے مختلف کوئی نظام ہے حالانکہ اگر گہری نظر سے اس کا مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت خودبخود منکشف ہوجائے گی کہ اشتراکیت سرمایہ داری سے الگ کوئی نظام نہیں اور نہ یہ اس کے خلاف کوئی ردعمل ہے بلکہ دراصل یہ اشتراکیت سرمایہ دارانہ مقاصد اور اہداف کو حاصل کرنے کا محض ایک دوسرا طریقہ ہے۔

ہر چند کہ اشتراکیت ایک دم توڑتی ہوئی قوت ہے اور ہمارا اصل مقابلہ لبرل سرمایہ دارانہ نظام سے ہے جو کہ استعمار کی شکل میں اس وقت غالب ہے لیکن اشتراکی سرمایہ داری سے بھی امت مسلمہ کو خطرات ہیں جن کا ادراک کرنا اشد ضروری ہے خصوصاً اس پس منظر میں کہ اشتراکیت نے برصغیر میں خصوصاً اور دیگر مسلم ممالک میں عموماً اسلامی فکر کو بہت متاثر کیا ہے۔ امت مسلمہ کو اپنے وجود کو قائم رکھنے کے لیے اور غلبہ دین کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم ان دونوں باطل نظریات کو شرح صدر کیساتھ بالکلیہ رد کردیں۔

اشتراکی سرمایہ داری کی اساسی بنیادیں:

جیسا کہ ہم تمہید میں بیان کر چکے ہیں کہ تاریخی طور پر سرمایہ دارانہ نظام کی دو شکلیں ہیں۔

1۔ لبرل سرمایہ داری

2۔ اشتراکی سرمایہ داری

یہ بات ہم اس لیے کہتے ہیں کہ دونوں کے بنیادی ماخذات اور اساسی تصورات میں کوئی فرق نہیں ہے’ دونوں کے مابعد الطبیعاتی تصورات اور منہج میں کوئی اصولی فرق نہیں ہے اور اصولاً دونوں کے اہداف بالکل یکساں ہیں۔

اشتراکی سرمایہ داری اور لبرل سرمایہ داری دونوں تحریک تنویر کی پیداوار ہیں جو دراصل مغربی تہذیب کی روح رواں تحریک ہے یہ تحریک خدا سے بغاوت کی تحریک تھی۔ اس تحریک نے کہا کہ انسان قائم بالذات’ خود مختار ہستی ہے۔ وہ ان معنوں میں آزاد ہے کہ اسے وحی اور ہدایت کی ضرورت نہیں ہے وہ اپنی عقل کو استعمال کرکے حق کی جو چاہے تشریح بھی کرسکتا اور حق کی تعمیر بھی کرسکتا ہے، گویا تحریک تنویر کی بنیادی دعوت ”آزادی” کی دعوت ہے۔ فرد ان معنوں میں آزاد ہے کہ وہ جو چاہنا چاہے چاہے اس پر کوئی خارجی قدغن نہ لگائی جائے بس اس بات کا خیال رکھا جائے کہ وہ جو اپنے لیے چاہتا ہے سب کے لئے چاہ سکتا ہے یا نہیں یعنی اپنی چاہت کو سب کے لیے آفاقی کرسکتا ہے یا نہیں مثلاً فرد اگر اپنی ذہنی کسوٹی پر اس بات کو رکھے کہ وہ زنا چاہتا ہے اور اس بات میں کوئی حرج نہیں سمجھتا کہ زنا عام ہو تو پھر یہ ایک پسندیدہ قدر کہلائے گی گویا بنیادی دعویٰ یہ تھا کہ ہر وہ خواہش جو نفس انسانی کے اندر پرورش پاتی ہے اگر اس خواہش کو آفاقی بنایا جاسکتا ہے اور اس کی بنیاد پر ہم ایسے اصول مرتب کرسکیں کہ تمام انسانوں  کے لیے یہ ممکن ہوسکتا ہو کہ وہ اپنی اپنی خواہش کو پورا کرسکیں تو یہ کہنا درست نہیں کہ اسے یہ خواہش نہیں رکھنا چاہئے۔ المختصر ہر فرد اپنے لیے پیمانہ معیار خیر و شر چن سکتا ہے بس وہ کسی دوسرے کی تشریح خیر و شر میں رکاوٹ نہ بنے اس لیے تحریک تنویر کو ”آزادی” کے ساتھ ”مساوات” کو بھی اساسی قدر کے طور پر اپنانا پڑا۔

آزادی اور مساوات لبرلزم کی دو بنیادی اقدار ہیں اور ان دونوں اقدار کو اشتراکیت نے من و عن قبول کیا ہے۔ اگر ہم کسی اشتراکی سے سوال کریں کہ نظام زندگی کو مرتب کرنے کے اصول کیا ہیں تو وہ ایک لبرل کی طرح جواب دے گا کہ آزادی اور مساوات اساسی اصول ہیں۔ یہ آزادی اور مساوات بنیادی طور پر عبدیت کی رد ہیں قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ اﷲ نے جنوں اور انسانوں کو محض اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے اور سورة یٰسین میں ہے۔

”نہ بندگی کرنا شیطان کی وہ تمہارا کھلا دشمن ہے اور یہ کہ بندگی کرو اﷲ کی کہ یہ سیدھا راستہ ہے” اور اسی وصف عبدیت کی بنیاد پر معاشرے میں اس کا درجہ متعین ہوتا ہے۔ اسلام میں بنائے فضیلت تقویٰ ہے یعنی اﷲ تعالیٰ کے نزدیک بزرگی کا حامل وہ شخص ہے جو اس سے ڈرنے والا ہے جو اس کے اوامر پر عمل کرنے والا اور اس کی منہیات سے اجتناب کرنے والا ہے ۔خشیت کا یہ وصف جس انسان کے اندر جس قدر بڑھا ہوا ہوگا اس نسبت سے وہ شرافت و بزرگی کا اہل قرار پائے گا۔

اس لئے اسلام کے علاوہ بھی تمام الہامی مذاہب آزادی اور مساوات کو رد کرتے ہیں اور عبدیت اور ہدایت پر زور دیتے ہیں۔ اسلام میں اس دنیا کے لئے اور اخروی دنیا کے لیے بھی ہدایت کا پورا نظام موجود ہے جو ہم تک انبیائ’ صحابہ’ تابعین’ تبع تابعین’ علماء اسلام اور صوفیائے عظام کے ذریعے پہنچا ہے اس لیے جس طرح ہم عبدیت پر اصرار کرتے ہیں اسی طرح اس نظام ہدایت پر بھی اصرار کرتے ہیں اور لبرل سرمایہ داری’ اشتراکی سرمایہ داری کی جو اقدار اس کی نفی کرتی ہیں ان کو بالکلیہ رد کرتے ہیں آزادی اور مساوات کی انہی اساسی قدروں کی وجہ سے ہم لبرل سرمایہ داری اور اشتراکی سرمایہ داری دونوں کو کفر کہتے ہیں اس لیے کہ یہ عبدیت سے انکار اور خدا سے بغاوت پر زور دیتے ہیں، تمام تر فروعی اختلافات کے باوجود جڑاور بنیاد دونوں کی ایک ہی ہے اس لیے دونوں معاشروں کا جائزہ لیں تو افراد میں یکساں قلبی کیفیات پروان چڑھتی ہیں جتنا باغی او ررذیل ایک فرد لبرل سرمایہ داری میں ہوتا ہے’ اتنا ہی اشتراکی سرمایہ داری میں بھی ہوتا ہے۔

لبرل سرمایہ داری اور اشتراکی سرمایہ داری میں فروعی اختلاف:

اساسی اقدار کی مماثلت بیان کرنے کے بعد ہم اس سوال کی جانب آتے ہیں کہ ان دونوں میں اختلاف کیا ہے اور کس بنیاد پر ان دونوں کی راہیں جدا جدا محسوس ہوتی ہیں …..اشتراکیت کا لبرل سرمایہ داری پر محض یہ اعتراض ہے کہ سرمایہ درانہ نظام میں آزادی اور مساوات کا حصول ممکن نہیں ہے ۔لبرل سرمایہ داری جس آزادی اور مساوات کا دعویٰ کرتی ہے وہ سرمایہ دارانہ معاشرے میں قائم نہیں ہوسکتے اور اس کی وجہ لبرل سرمایہ داری کی ایک علمیاتی غلطی ہے اور وہ غلطی یہ ہے کہ لبرل سرمایہ داری میں سمجھا جاتا ہے کہ فرد بحیثیت فرد خیر کی تشریح کر سکتا ہے جبکہ اشتراکی مفکرین کا دعویٰ ہے کہ خیر کی تشریح فرد نہیں کرتا بلکہ انسانیت بحیثیت مجموعی کرسکتی ہے اور کسی فرد کا یہ فیصلہ کہ حق کیا ہے اور کیا نہیں ہے آفاقی نہیں بنایا جاسکتا ۔حق کی وہ تعبیر آفاقی بنی ہے جو عملاً کسی تاریخ کے اندر تعمیر کی جاتی ہے’ حق کی تلاش اگر کرنی ہے تو انسان کی تاریخ کے اندر دیکھو’ تاریخ جیسے جیسے آگے بڑھتی گئی ہے انسان ترقی کرتا گیا ہے تاریخ کے اندر وہ نظام موجود ہے جس کے اندر باطل خیالات و تصورات خودبخود ختم ہوتے چلے گئے ہیں اور وہ تصورات جو کہ حق اور خیر ہیں ان کو غلبہ اور عروج حاصل ہوا ہے لہٰذا تاریخی تسلسل ہی وہ ذریعہ ہے جس کے نتیجے میں حق کی اصلی تعبیر ہوتی چلی آئی ہے اس لیے فرد کو تشریح خیر کے ضمن میں مرکزی حیثیت دینے کے بجائے ہمیں انسانیت کے ایک گروہ کی جدوجہد کے مطالعے کی ضرورت ہے جو تاریخی عمل کے نتیجے میں غالب آتا ہے اس لئے ہمیں حق اور خیر کی تشریح جاننے کے لیے یہ دیکھنا پڑے گا کہ تسلسل تاریخ انسانیت کیا ہے اور وہ کون سے رجحانات ہیں جن کی وجہ سے ایک خاص طرز زندگی غالب آیا ہے۔

مارکس کا مادی نظریہ تاریخ اور طبقاتی نزاع:

مارکس نے ایک خاص تعبیر تاریخ پیشکی ہے جسے جدی مادیت (Dialectical Materialism) یا مادی تصور تاریخ کہا جاتا ہے اور اس نظریہ تاریخ سے وہ اپنا طبقاتی نزاع (Class Struggle) کا نظریہ بھی بیان کرتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ حق کی تعمیر و تشریح کا اصلی ذریعہ ایک طبقہ اور کلاس ہے’ وہ فرد نہیں ہے اور حق کی تعمیر و تشریح طبقات کی باہمی کشمکش کے ذریعہ ہوتی ہے۔ بنیادی عمل جو تاریخ میں انسان تسخیر کائنات یا کائنات میں اپنی مرضی مسلط کرنے کے لے یا قدرت پر اپنے اقتدار کی توسیع کے لیے کرتا ہے مارکس کے بقول وہ پیداواری عمل ہے اس کے بقول ذرائع پیداوار کی نوعیت ہی وہ اصل بنیاد ہے جس پر انسان کے اخلاقی اور مذہبی معتقدات اور اس کے تمدن اور علو م و فنون کی بالائی عمارت تعمیر ہوتی ہے ۔پیدائش دولت کے مختلف طریقے ہی کسی دور کی ذہنی’ سماجی اور سیاسی زندگی کا ہیولیٰ تیار کرتے ہیں انسانیت کے ارتقاء کی اس کے نزدیک صورت یہ ہے کہ پہلے معاشی پیداوار کے طریقوں میں تبدیلی ہوتی ہے اس کا براہ راست اثر اسباب زندگی کی تقسیم اور ملکیتی تعلقات پر پڑتا ہے اور اس سے زندگی کی مادی قدریں از خود بدل جاتی ہیں اور اس طرح ایک نیا نظام وجود میں آتا ہے۔ اب دونوں نظاموں میں جذلی عمل اور کشمکش شروع ہوتی ہے اور بالآخر وہ مصالحت پر آمادہ ہوجاتے ہیں اور اس کے بعد دونوں مل کر ایک ایسے نظام کی بنیاد رکھتے ہیں جس میں تمام صالح اجزاء شامل ہوتے ہیں ظاہر ہے کہ ایسا نظام پہلے نظاموں سے بہتر ہوتا ہے اور اسی طریقے سے انسانیت کا ارتقاء ہورہا ہے اس نظریہ تاریخ کے مطابق دنیا کی ساری صداقتیں اضافی قرار پاتی ہیں۔ یعنی ہر صداقت جس دور کے معاشی حالات سے وجود پذیر ہوتی ہے’ اس دور کے ختم ہوجانے پر ساقط الاعتبار ہوجاتی ہے اگر کسی چیز کا وجود کسی دور کے معاشی تقاضوں کے لیے ناگزیر ہے تو وہ مستحسن اور پسندیدہ ہے لیکن یہی چیز اگر معاشی تقاضوں کے بدل جانے سے بے کار ہوجائے تو وہ باطل ہوجاتی ہے ایسی کوئی صداقت نہیں اور نہ ہوسکتی ہے جو ہر زمانے کے لیے یکساں طور پر صحیح اور ابدی ہونے کی دعویدار ہو۔ المختصر اوزار پیداوار اور طرائق پیداوار کے بدل جانے سے تعلقات پیداوار بدلتے چلے جاتے ہیں اور ان میں ارتقاء ہوتا چلا جاتا ہے اور دیگر ساری تبدیلیاں انہی کے مرہون منت ہوتی ہیں۔

تاریخ کی اس مادی تعبیر ہی سے طبقاتی نزاع کے تصور نے جنم لیا۔ مارکس کے نزدیک ہر معاشی نظام جب ترقی کی ایک خاص منزل پر پہنچ جاتا ہے تو اس کے اندر سے ہی بعض نئی پیداواری قوتیں نمودار ہوجاتی ہیں جو اپنے زمانے کے حالات پیداوار سے متصادم ہوجاتی ہیں۔ نئی قوتیں اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ مروجہ نظام میں جس طبقاتی تقسیم پر مبنی ہے اسے بدل کر طبقوں کی از سر نو تقسیم عمل میں لائی جائے اور پرانا ملکیتی نظام بھی تبدیل کردیا جائے۔ یہ مطالبہ ان طبقوں پر بہت شاق گزرتا ہے جنہوں نے مروجہ معاشی تنظیم اور طبقاتی تقسیم میں دوسرے طبقوں سے زیادہ قوت و اقتدار حاصل کرلیا ہے۔ وہ اپنے مفادات کی پوری طاقت کے ساتھ حفاظت کرتے ہیں اس لیے جب کسی معاشی تنظیم میں نئی پیداواری قوتیں ابھر کر مروجہ طبقاتی تقسیم کی بنیادوں کو متزلزل کر دیتی ہیں تو یہ طبقے انہیں ختم کرنے کے لیے پورا زور لگاتے ہیں۔ پسے ہوئے طبقے جب نئی پیداواری قوتوں کو آتے ہوئے دیکھتے ہیں تو بڑی گرم جوشی سے ان کا استقبال کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس سے استحصال کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اس سے ایک کشمکش جنم لیتی ہے ۔مارکس کے نزدیک انسانیت کے تمام اہم فیصلے جو زندگی اور اس کی قدروں کو بدلنے والے ہو ںاس کشمکش کا نتیجہ سے طے پاتے ہیں۔ مارکس اور اینجلز نے اپنے اشتمالی منشور کا آغاز اسی حوالے سے کیا ہے۔:

”انسان نے آج تک جتنے معاشرے قائم کیے ہیں ان سب کی تاریخ طبقاتی نزاع کی تاریخ ہے’ غلام اور آقا’ امراء و جمہور’ سرمایہ دار اور مزدور مختصر یہ کہ ظالم و مظلوم ہمیشہ سے ایک دوسرے کے مخالف اور باہم برسرپیکار رہے ہیں۔”

سرمایہ دارانہ نظام پر مارکس کی تنقید:

سرمایہ دارانہ نظام پر مارکس کی تنقید بیان کرنے کے لیے یہ بہتر ہوگا کہ مارکس کی چند اصلاحات کو مختصراً سمجھنے کی کوشش کی جائے۔

1۔ سرمایہ: (Captial)

جب اشیاء خرید و فروخت کے لیے بنائی جائیں تو ان پر خرچ آنے والی رقم سرمایہ کہلاتی ہے کیوںکہ یہ رقم اس لیے خرچ کی جارہی ہے کہاکہ اس سے بننے والی اشیاء کی فروخت سے مزید رقم کمائی جائے۔

2۔ جنس: (Commdity)

فطرت کے عطا کردہ مادہ پر جب اس لیے محنت کی جائے کہ اسے تجارت کے لیے بیچا جاسکے تو پیدا کی جانے والی چیز کو جنس کہتے ہیں۔

3۔ قدر استعمال: (Use value)

قدر استعمال کسی جنس کی صفت یا خصوصیت کا نام ہے مثلاً اناج کی قدر استعمال کھانے سے معلوم ہوتی ہے۔

4۔ قدر اصل: (Intrinsic value)

استعمال کی جانے والی جس شے پر نظر ڈالیے وہ اس معیاری سماجی ضروری محنت کا اظہار کرتی ہے جو اس جنس کے بنانے میں صرف ہوتی ہے ہر جنس کے بنانے میں سماجی ضروری محنت کا معیار جدا جدا ہوتا ہے جو اس جنس کی ”قدر اصل” کہلاتا ہے۔

5۔ معیاری سماجی ضروری محنت

 (Socially necessarly labour)

اس میں دو مختلف اجناس کی کیفیت یا قسم مدنظر نہیں ہوتی بلکہ یہ دیکھاجاتا ہے کہ ان اجناس میں استعمالی قدر پیدا کرنے کے لیے کس قدر وقت اور اوسط محنت صرف ہوئی ہے۔

6۔قدر تبادلہ: (Exchang value)

نسبت تبادلہ میں اجناس کی قدر کم یابی یا فراوانی یعنی رسد اور طلب کے ماتحت قرار پاتی ہے۔

7۔ قدر زائد: (Surpluss value)

مارکس کا یہ کلیدی تصور ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک مزدور دو گھنٹے کی سماجی ضروری محنت سے وہ سب اجناس پیدا کرلیتا ہے جن سے مزدور اپنی محنت کرنے کی طاقت حاصل کرسکتا ہے مگر سرمایہ دار استحصال کے ذریعہ اس سے آٹھ گھنٹے کی بے معاوضہ محنت لیتا ہے اس غیر ادا شدہ اجرت کا نام قدر زائد ہے۔

ان اصطلاحات کی مختصر وضاحت کے بعد ہم سرمایہ دارانہ نظام پر مارکس کی تنقید بیان کریں گے جو دراصل اس کے مادی تعبیر تاریخ سے ماخوذ ہے۔

مارکس کہتا ہے کہ ایک شخص جو براہ راست اپنی ضرورت کی تسکین کے لیے کوئی چیز بناتا ہے بلاشبہ استعمالی قدر کی چیز تو بناتا ہے’ لیکن تجارتی جنس پیدا کرنے کے لیے اسے دوسروں کی استعمالی قدر کی چیز یعنی سماجی استعمالی قدر کی شے بنانی چاہئے ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا کہ معاشرہ کے مختلف افراد ایسی چیزیں پیدا کریں تو ان تجارتی چیزوں کے باہم مبادلے کے لیے شرح کیسے متعین ہو؟ یعنی جدا جدا تجارتی چیزوں کے باہم مبادلے کے لیے شرح کیسے متعین ہو یا جدا جدا تجارتی چیزوں کی قدر کا تعین کیسے کیا جائے اس کا جواب بقول مارکس کے یہی ہوسکتا ہے کہ چوں کہ یہ تمام اشیاء متفرق ہونے کے باوجود محنت کی پیداوار ہیں اس لیے ان کی قدر اور شرح کے تعین کے لیے اس محنت کے وقت اور اس کی مقدار سے کیا جائے گا جو ان کی اس مادی شکل میں پنہاں ہے مثلا ً مختلف بڑھئی اگرچہ مختلف وقت میں ایک ٹیبل تیار کرتے ہیں مگر اوسطاً 24 گھنٹوں میں ایک ٹیبل تیار کرلیتے ہیں۔ یہی 24 گھنٹے کی محنت معیاری سماجی ضروری محنت ہے اور ہر وہ چیز جس کی پیداوار میں اتنی ہی سماجی ضروری محنت صرف ہوتی ہے اس کا تبادلہ اس ٹیبل سے ممکن ہوسکے گا۔

اب یہ دیکھا جائے کہ سرمایہ دارانہ معاشرے میں محنت کا استحصال کیسے ہورہا ہے چونکہ مزدور ذرائع پیداوار سے محروم ہے اور ان کا ارتکاز چند ہاتھوں میں ہے اس لئے مزدور اپنی محنت بیچنے پر مجبور ہے جوکہ درحقیقت چیزوں میں قدر اصل پیدا کرتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مزدور اپنی محنت کی یہ طاقت یا کام کرنے کی صلاحیت کس شرح پر بیچے؟ مارکس کے بقول مزدور کی محنت کی طاقت برابر ہے ان تمام چیزوں کے جو اس کے اور اس کی بیوی بچوں کے زندہ رہنے کے لیے ضروری ہے۔ مزدور چار گھنٹے کی محنت سے یہ اجرت حاصل کرسکتا ہے لیکن سرمایہ دار استحصال کے ذریعہ مزید چار گھنٹے کی محنت بھی اس سے بے معاوضہ لیتا ہے اور اس سے قدر زائد پیدا کرتا ہے جو کہ سب سرمایہ دار کی جیب میں چلی جاتی ہے اور اسی کے ارتکاز سے سرمایہ دار مزید استحصال کے قابل ہوجاتا ہے چونکہ مزدور کو اس کا کوئی حصہ نہیں ملتا اس لیے اس نظام میں پیداوار سے اس کی مغائرت (alienation) بڑھتی چلی جاتی ہے جس سے لامحدود پیداواری ترقی ممکن نہیں رہتی۔

اس لامحدود پیداواری ترقی کو ناممکن بنانے کے لیے سرمایہ دارانہ نظام نے ”مارکیٹ” کا طریقہ اختیار کر رکھا ہے مارکیٹ مارکس کے بقول وہ نظام ہے جس میں عوام کو مجبور و بے کس بنا دیا جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں قوت اور دولت مرتکز ہوتی چلی جاتی ہے اس ارتکاز کی وجہ سے وہ لامحدود پیداواری ترقی حاصل نہیں کرسکتے جو نئے نئے آلات و ذرائع یعنی ٹیکنالوجی کی وسعت کی وجہ سے ممکن ہورہی ہے اس لیے کہ سرمایہ دار طبقہ اس کی راہ میں رکاوٹ ہے اس کو ختم کرنے کے لیے ہمیں ایک انقلاب کی ضرورت ہے اور وہ انقلاب یہ ہے کہ ذرائع پیداوار پر مزدور کا قبضہ ہوجائے اور اس قبضے کے نتیجے میں وہ ایسا معاشرہ قائم کرسکیں گے جس کے اندر تعلقات پیداوار ذرائع پیداوار سے دوبارہ ہم آہنگ ہوجائیں ، ان کے ہم آہنگ ہوجانے سے لامحدود ترقی ہوگی’ جب مارکیٹ کا خاتمہ ہوجائے گا تو دراصل اس سرمایہ دارانہ نظم ملکیت کا خاتمہ ہوجائے گا جس کے نتیجے میں معاشی بڑھوتری سرمایہ دارانہ مسابقت کے نتیجے میں ہوتی ہے اور اس کی جگہ ایسی معیشت قائم ہوگی جس میں تمام سرمایہ ریاست کے ہاتھوں میں مرتکز ہوجاتا ہے۔

لبرل سرمایہ داری اور اشتراکی سرمایہ داری دونوں ہی ذاتی ملکیت کو رد کرتی ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام میں ملکیت کارپوریشنز کے ہاتھوں میں ہوتی ہے جبکہ اشتراکی سرمایہ درای میں یہ ریاست کے ہاتھوں میں ہوتی ہے اس لئے اشتراکیت کو ہم ریاستی سرمایہ داری کہتے ہیں۔ سرمایہ درانہ نظام میں کارپوریشن وہ شخص قانونی جس کا وجود بڑھوتری سرمائے سے مربوط ہے اس کا وجود اس بات پر منحصر ہے کہ وہ بڑھوتری سرمائے کے عمل کو جاری و ساری رکھے، اسی طرح اشتراکی سرمایہ داری میں ملکیت کا جو فاعل اور ایجنٹ ہے وہ ریاست ہے جس کا فرض ہے کہ وہ سرمائے کی بڑھوتری کا ذریعہ بنے۔

گویا اشتراکیت کا اعتراض سرمایہ دارانہ نظام پر یہ نہیں ہے کہ اس نظام میں کچھ ایسے اہداف ہیں جن کو اشتراکیت رد کرتی ہے بلکہ محض یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں وہ اہداف حاصل نہیں ہوتے جن کا لبرل سرمایہ داری وعدہ کرتی ہے۔ وہ سرمایہ دارانہ نظم ملکیت کو محض اس لیے ختم کرنا چاہتی ہے تاکہ آزادی اور مساوات کے وہ اہداف حاصل کرسکیں جن پر دونوں بالکلیہ متفق ہیں۔ یہ صرف اس وقت حاصل ہوسکتے ہیں جب سرمایہ دارانہ جمہوریت کی جگہ مزدوروں کی ڈکٹیٹر شپ قائم ہوجائے اور یہی ڈکٹیڑ شپ اصل جمہوریت ہے اس لیے کہ مزدور ہی وہ طبقہ ہیں جو تاریخی عمل کی حقیقت کو پہچان گیا ہے اور مزدور طبقہ وہ فاعل ہے جس کے اندر روح انسانیت حلول کر گئی ۔ جب سب لوگ اس طبقے کے ممبر بن جائیں گے اور کارپوریشن کی ملکیت ختم ہوجائے گی تو سب لوگ مل کر انسانی معاشرت کو ترقی کی انتہا پر پہنچا دیں گے اور اس وقت ہر ایک کے لیے ممکن ہوجائے گا کہ وہ ”خدا بن جائے”۔ مارکس سوشلزم کے بعد کمیونزم کی تشریح بالکل یہی کرتا ہے کہ وہ ایسا معاشرہ ہوگا جہاں فرد جو چاہے گا کرسکے گا’ وہ لامحدود قوت کا مالک ہو گا’ اس معاشرت کے اندر نہ کوئی طبقہ ہوگا’ نہ خاندان’ نہ ریاست اور نہ کوئی دوسری اجتماعیت ہوگی تمام اجتماعیتیں کمیونسٹ سوسائٹی کے اندر منہدم ہوجائیں گی اور لوگ مساوی آزاد فرد کی حیثیت سے زندہ رہیں گے، چونکہ انہوں نے تاریخی عمل کی حقیقت کو پہچانا اس لئے وہ سب مساوی طور پر خدا ہوں گے اور جس بھی طرز زندگی کو اپنے لیے پسند کریں گے وہ اپناسکیں گے۔ اس تفصیل سے یہ بات اچھی طرح عیاں ہوگئی کہ طرائق کے فرق کے ساتھ دونوں حصول آزادی اور حصول مساوات پر بالکل متفق ہیں۔

اچھی طرح یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ جس وقت ہم اسلام کی کسوٹی پر اشتراکی طرز زندگی یا لبرل فکر کو جانچتے ہیں تو ہم ان کو باکلیہ رد کرتے ہیں کیونکہ دونوںکی بنیادی دعوت کفر’ الحاد اور خدا سے بغاوت کی طرف ہے اور ضمناً مان بھی لیا جائے کہ ان کے اندر کوئی ایسی خصوصیت موجود ہے جس کی کوئی مماثلت کسی اسلامی تصور خیر سے کی جاسکتی ہے تو پھر بھی اس نظام زندگی کے اندر یہ ممکن نہیں ہے کہ فرد کا رجحان آزادی اور مساوات کے علاوہ کسی اور طرف ہو۔

ہم دونوں کو بحیثیت ایک نظام کے رد کرتے ہیں اور ہم بحیثیت ایک نظام کے اسلام کے غلبے کے دعوے دار ہیں۔ ہمیں ان باطل نظاموں میں کوئی جائے پناہ تلاش نہیں کرنا ہے بلکہ دونوں کو تہس نہس کرنے کی کوشش کرنی ہے ۔انہی معنوں میں ہم انقلابی ہیں اور انقلاب کا مطلب یہ ہے کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی معاشرت اور نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرز زندگی کی طرف لوٹ کر جانا چاہتے ہیں اور ہم ہر سنت پر عمل کرنا چاہتے ہیں جس کی تعلیم ہم تک صحابہ’ تابعین’ تبع تابعین’ علماء اور صوفیاء سے پہنچی ہے لہٰذا جب ہم انقلاب کی بات کرتے ہیں تو ہمارا مطلب شریعت کے نفاذ کے سوا کچھ نہیں ہو تا ۔ شریعت کے نفاذ کا مطلب ہے عبدیت اور ہدایت اور جہاں دعویٰ ہی آزادی اور مساوات کا ہو وہاں عدل (شریعت) کے وجود کا پھر کیا سوال پیدا ہوتا ہے اس لیے ہم ان دونوں نظاموں کا بحیثیت کل مطالعہ کریں اور ان کو اصولاً رد کردیں اور اشتراکیت یا لبرل ازم کو غلبہ دین کے ذریعے کے طور پر قبول کرنے کی غلطی میں نہ گرفتار ہوجائیں یہ نہ سمجھیں کہ کوئی اشتراکی یا لبرل عمل اسلامی طرز زندگی کے اندر سمویا جاسکتا ہے اور اس کے نتیجے میں عبدیت اور ہدایت کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔

جو شخص جس حد تک اشتراکی یا لبرل فکر سے متاثر ہوا وہ اس حد تک حقوق کا طالب ہوگا’ آزادی کا خواہش مند ہوگا’ مساوات کا علمبردار ہوگا اور عبدیت و ہدایت اس کی زندگی میں اجنبی سے اجنبی تر ہوتی چلی جائیں گے لہٰذا ہمارے لیے کوئی جواز نہیں ہے کہ ہم لبرل یا اشتراکیت کے کسی اصول’ کسی فرع’ کسی عمل’ کسی حکم کو نظام اسلامی میں شامل کرنے کی جدوجہد کریں۔

اشتراکی سرمایہ داری کے مختلف خطرات اور ان کی نوعیت:

اشتراکیت کی ابتداء انیسیویں صدی کی ابتداء میں ہوئی اور آج تک کسی نہ کسی شکل میں یہ موجود ہے اشتراکی جدوجہد دو دھاروں میں تقسیم ہے ایک وہ جدوجہد جس کا تذکرہ کیا جاچکا ہے جس میں سرمایہ درانہ لبرل ریاستی نظام کو ختم کرنے کی جدوجہد کی جاتی ہے اور اس میں عموماً کمیونسٹ پارٹی اس بات کی کوشش کرتی ہے کہ مزدور تنظیموں میں اثر و نفوذ حاصل کرے اور ان کو استعمال کرکے اپنے آپ کو مزدور طبقے کے نمائندہ کے طور پر منوا لے۔ یہی جدوجہد چین اور روس میں کی گئی اس کے نتیجے میں ٹریڈ یونینز کے ذریعہ مزدوروں کو منظم کیا گیا اور ان یونینز میں کمیونسٹ پارٹی کی قیادت کو مسلط کیا گیا اور ایک ایسا انقلاب برپا کیا گیا جس کے نتیجے میں روس’ چین او دیگر مشرقی یورپین ممالک میں سرمایہ درانہ لبرل معیشت’ نظام ملکیت اور نظام ریاست کو ختم کر دیا گیا اور کمیونسٹ پارٹیوں نے دعویٰ کیا کہ ہم حقیقی نمایندے ہیں مزدوروں کے اور مزدور حقیقی نمایندہ ہیں انسانیت کے اس لئے ہم انسانیت کی پارٹی ہیں ان معنوں میں ہم حق کی جو تعبیر کرتے ہیں وہی اس کی اصل تعبیر ہے اور اس تعبیر کو بروئے کار لاکر انسان کی خدائی اس کائنات پر مسلط کی جاسکتی ہے۔

یہی دعویٰ قوم پرستوں نے دوسرے طریقے سے کیا کہ تاریخ انسانی میں ترقی کا جو فاعل ہے وہ طبقہ نہیں بلکہ قوم ہے تمام قوم پرست جماعتیں یہ کہتی ہیں کہ ہماری قوم تاریخ میں ماسٹر اور بہترین قوم ہے مثلاً ہٹلر نے اور خود ہمارے ملک میں الطاف حسین نے یہ دعویٰ کیا ہے۔ ان معنوں میں قوم پرست دعوت اشتراکیت سے بہت قریب ہے کہ وہ ہیگل کی اس فکر کی شاخ ہے جس نے دعویٰ کیا کہ حق کا ادراک اجتماعیت کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔ لیکن سرمایہ دارانہ اہداف آزادی اور مساوات کے لیے اشتراکیت طبقے کو اور قوم پرستی قوم کو بنیادی فاعل مانتی ہے’ گویا قوم پرستی بھی انہی معنوں میں اسلام سے متصادم ہے جس معنوں میں اشتراکیت اور لبرلزم اسلام سے متصادم ہیں ان تینوں نظریوں میں کوئی اساسی اور بنیادی فرق نہیں ہے اس لیے کسی ایک نظریے کو کسی دوسرے نظریے سے تبدیل کردینا انقلاب نہیں بلکہ سرمایہ داری کو فروغ دینا ہے اگر انقلاب یہ ہے کہ عبدیت کو رائج اور ہدایت کو فروغ حاصل ہو تو تینوں نظریوں کو رد کرنا ہوگا۔

اشتراکیت کی ایک شکل تو وہ ہے جس میں مزدوروں کی سیادت و قیادت کو انسانیت کی فلاح متصور کیا جائے اس کے علاوہ اشتراکی سرمایہ داری کی دوسری شکل جس نے خصوصاً دوسری جنگ عظیم کے بعد تقویت حاصل کی وہ سوشل ڈیمو کریسی ہے۔ سوشل ڈیمو کریسی کا ذکر اس لیے کیا جارہا ہے کہ اس فکر نے بہت ساری اسلامی تحاریک کو متاثر کیا ہے یہاں تک کہ آپ بعض اسلامی جماعتوں کا معاشی منشور اور سوشل ڈیمو کریٹک پارٹی کا منشور دیکھیں تو ان میںبہت زیادہ مماثلت نظر آئے گی مثلاً حقوق کی تشریح اسلامی جماعتیں بھی وہی کرتی ہیں جو عموماً سوشل ڈیمو کریٹک جماعتیں کرتی ہیں تقریباً تمام اسلامی جماعتیں اسلامی ریاست کو ایک ویلفیئر اسٹیٹ کہتی ہیں جو کہ خالصتاً سوشل ڈیمو کریٹک تصور ہے اس لیے یہ ہمارے لیے بڑا خطرہ ہے۔

سوشل ڈیمو کریٹک پارٹی کا دعویٰ ہے کہ ہم لبرل پارلیمانی نظام اور لبرل مارکیٹ کو استعمال کرکے مزدوروں کی بالادستی قائم کرسکتے ہیں ہم جمہوری عمل ہی سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ لوگوں کے فلاحی حقوق پر زور دیا جائے یعنی محض انسانی حقوق کافی نہیں ہیں بلکہ کچھ معاشرتی آزادیاں بھی تسلیم کی جائیں اور یہ معاشرتی حقوق’ انسانی حقوق کے لیے ضروری ہیں اس کے نتیجے میں ایک ویلفیئر ریاست قائم ہوجائے گی۔

1999ء کے بعد پوری دنیا میں ایک تحریک برپا ہے جسے رد عالمگیریت کہتے ہیں یہ انہی معاشرتی حقوق کی تحریک ہے یہ تحریک دعویٰ کرتی ہے کہ انسانوں کو یہ حق حاصل ہے کہ ان کی آمدنی محفوظ ہو’ ان کو ملازمت کا حق حاصل ہو’ ان کو حق حاصل ہو کہ وہ ترقی کے عمل میں برابر کے شریک ہوں’ اس کے تحت بڑے بڑے مظاہرے مغربی دنیا میں ہو چکے ہیں’ بعض جگہ مسلمانوں نے بھی اس کا ساتھ دیا ہے۔ بادی النظر میں یہ تحریک بھی سرمایہ داری کے خلاف نظر آتی ہے لیکن درحقیقت اس کو سرمایہ دارانہ نظام کی حقانیت پر کسی قسم کا شک و شبہ نہیں ہے اور اس کے بھی بعینہ وہی اہداف ہیں جو اہداف کمیونزم’ لبرلزم’ نیشنلزم کے ہیں لہٰذا اینٹی گلوبلائزیشن یا سوشل ڈیموکریٹ کے ساتھ مل کر معاشرتی حقوق کی جدوجہد کرنا’ اسلامی انقلاب کی بیخ کنی کرنا ہے’ اگر ہماری دعوت بنیادی طور پر دنیا میں جنت بنانے کی دعوت ہوجائے تو اس سے دو بڑے نقصانات ہوتے ہیں۔

1۔ ہم اس چیز کا جواز پیش کرتے ہیں کہ دنیاوی فوائد کو اخروی فوائد پر برتری دینا جائز ہے اور ہماری سیاسی جدوجہد بالخصوص جہاد کی طرف نہیں ہوتی بلکہ ایک ایسی معاشرت کے قیام کی طرف ہوتی ہے جس میں آسائشوں کا فروغ اور دنیاوی ترقی ایک ہدف کے طور پر قبول کر لی جاتی ہے۔

2۔ انقلاب اسلامی کا وقوع پذیر ہونا دنیا کی تمام طاقتوں کو ایک چیلنج ہے اور آج کل ریاست اسلامی کہیں بھی قائم ہو تو اس پر ہر طرف سے ابتلا اور مصائب کا ایک سیلاب امڈ کر آئے گا (طالبان کی حکومت سے واضح ہے) اور اگر ہم لوگوں کو دنیا طلبی کی طرف دعوت دیتے رہے اور ان سے وعدے کرتے رہے کہ اسلامی حکومت قائم ہوجانے سے مادی برکات کا نزول شروع ہوجائے’ تمہارے تمام معاشرتی حقوق تسلیم کر لیے جائیں گے’ سب لوگوں کو ملازمتیں ملیں گی’ غربت کا خاتمہ ہوجائے گا’ آسائشوں کی فراوانی ہوگی تو جس وقت اسلامی ریاست کو ہزاروں خطرات سے دوچار ہونا پڑے گا تو لوگ کس بنیاد پر قربانی’ جدوجہد اور جستجو کے لیے تیار ہوں گے اگر دعوت سوشل ڈیمو کریٹک حقوق کی طرف ہوگی تو عملاً جہاد کرنا’ طاغوتی طاقتوں کا مقابلہ کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا چلاجائے گا اور ہمارے لیے کوئی چارہ کار نہیں رہے گا کہ ہم سرمایہ دارانہ نظام کے اندر اسلامی طرز زندگی کو محفوظ کرنے پر اکتفا کریں اور انقلاب کے دعوے سے سہو نظر کرنے پر مجبور ہوجائیں گے لہٰذا سوشل ڈیمو کریسی اور اینٹی گلوبلائزیشن کا معاشرتی حقوق کی طرف دعوت دینے والا طریقہ غلبہ دین کا طریقہ نہیں۔ ہمارے ملک میں خصوصاً لبرلزم اور سوشل ڈیموکریسی کے خطرات بہت شدید ہیں۔ ہمارا کام  یہ ہے کہ اس کو بحیثیت کل کے پہچانیں اور بالکلیہ رد کردیں۔ ہمیں چاہئے کہ حقوق کی سیاست کو رد کردیں خواہ وہ انسانی حقوق ہو یا معاشرتی حقوق اور غلبہ دین اور جہاد کی طرف لوگوں کو بلائیں اور جو عظیم الشان مثال طالبان عالیشان نے قائم کی اس کے احیاء کی طرف لوگوں کو بلائیں اور ان شاء اﷲ کوئی وجہ نہیں کہ لوگ جوق در جوق اسلامی تحریکوں کے ساتھ شامل نہ ہوجائیں۔

باب چہارم

سائنس اور سرمایہ داری

وحی یا سائنس

 سیدذیشان ارشد

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ یہ ایک اٹل حقیقت اور ایسا سچ ہے جسے اﷲ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے پسند کیا اور مکمل کیا (سورة المائدہ آیت نمبر٣: آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کردیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا۔ مودودی)

 سورہ المائدہ۔ آیت٣ آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل کر دیا اور میں نے تم پر اپنا انعام)۔ اسلامی علمیت کی بنیاد وحی خالص ہے جو اﷲ تعالیٰ نے اپنے محبوب پیغمبروں پر نازل فرمائی۔ انسان بحیثیت عبد کے اﷲ تعالیٰ کی راہنمائی کا محتاج رہا ہے اور رہے گا۔ انسان کے کسی بھی کلیہ میں (چاہے وہ حس ہو’ عقل یا وجدان) اتنی سکت و صلاحیت نہیں کہ وہ محض اپنے بل بوتے پر ”الحق” تک رسائی حاصل کرسکے۔ لہٰذا اسلام میں علم کا اصل ماخذ صرف وحی ہے اور انسان کی تمام کلیات (بشمول عقل و حواس) کا درجہ وحی کے ماتحت ہے۔

موجودہ دور میں سائنس اور سائنسی علوم کا بہت دور دورہ ہے۔ عام مسلمان تو عام ، سائنسی ترقی نے کئی ایک بزرگان دین کو بھی مرعوب کر دیا ہے۔ ایک سطحی نگاہ سے دیکھنے والے مسلمان کو بظاہر سائنس کی تباہ کاریاں اور برائیاں تو نظر آجاتی ہیں لیکن پھر بھی مجموعی طور پر دیکھنے والوں کو یہ قابل قبول ہی معلوم ہوتی ہے اور بھلا کیونکر معلوم نہ ہو آخر اسی کی وجہ سے مغربی تہذیب نے بے تحاشہ مادی ترقی کی اور موجودہ دور میں دنیا کی زمام کار سنبھالی ہوئی ہے۔ اکثر لوگوں کے خیال میں مسلمانوں کے زوال اور انحطاط کی وجہ بھی انہی سائنسی علوم میں ترقی نہ کرنا ہے۔ درج ذیل مضمون میں ہماری یہ کوشش ہوگی کہ ہم سائنس کی حقیقت کو واضح کرنے کی کوشش کریں۔

جدید سائنس: ایک علمیت

جدید سائنس کی ابتداء کو پرنیکس’ گلیلیو’ اور نیوٹن جیسے سائنس دانوں سے ہوتی ہے لیکن یہ تمام سائنس دان اور ان کے نظریات اچانک کسی دن معجزے کے طور پر پیدا نہیں ہوئے بلکہ ان کے پیچھے یورپ کا مخصوص تاریخی عمل کار فرما رہا ہے۔ قرون وسطیٰ کے یورپ میں عیسائی علمیت غالب تھی۔ لوگ علم اور راہنمائی کے لیے کلیسا اور پادریوں کی طرف رجوع کرتے تھے۔ عیسائیت کی ابتدا تو الہامی پیغام سے ہوئی تھی لیکن جلد ہی اس میں بڑے پیمانے پر تحریفات ہوئیں۔ جو عیسائیت پہلی صدی عیسوی کے بعد رائج ہوئی وہ اصل میں سینٹ پال کے نظریات تھے۔ بعد میں چوتھی صدی میں سینٹ آگسٹائین اور پھر تیرھویں صدی عیسوی میں سینٹ تھامس اکویناس کی اصولی تحریفات نے عیسائی علمیت میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں کو جواز فراہم کیا۔ ان تبدیلیوں کا محرک وہ قدیم یونانی فلسفے کے نظریات تھے جو اس وقت کی مقدس رومی سلطنت میں زور پکڑتے جارہے تھے۔ عیسائی علمیت کی اصولی تبدیلیوں کے نتیجے میں یہ بات قابل قبول ہوگئی کہ سچ تک رسائی کے لیے وحی کے علاوہ بھی ذرائع ہوسکتے ہیں۔ مثلاً اکثر پادریوں کے خیال میں افلاطون اور ارسطو وحی کے بجائے اپنی عقل اور حواس کی مدد سے سچ تک پہنچے تھے اور اس اصولی تبدیلی کی رخصت کو استعمال کرکے قدیم یونانی فلسفے کی کئی خرافات عیسائی مذہب میں شامل کر لی گئیں۔

مسخ شدہ عیسائی افکار اور کلیسا کی زیادتیوں کے باعث عیسائیت کمزور سے کمزور تر ہوتی چلی گئی۔ لوگ عام راہنمائی اور علم کے لیے عیسائیت کو چھوڑ کر اپنی عقل اور حواس پر زیادہ بھروسہ کرنے لگے۔ عیسائیت کی شکل میں مذہب ایک دھوکا اور کلیسا زندگی کی دشمن قرار پائی۔ اس موقع پر عیسائیت کے حامیوں نے تحریک اصلاح  (Reformation) کی صورت میں اور روایت کے حامیوں نے روایت پسندی (Conservativism) کی صورت میں حالات کو سنبھالنے کی کوشش کی لیکن ناکامی مقدر بنی۔ جو تحریک کامیاب ہوئی اس کا نام تھا نشاة ثانیہ (Renaissance) جس نے آگے چل کر تحریک تنویر (Enlightenment) اور پھر جدید سائنس کی شکل اختیار کی۔ نشاة ثانیہ کا بنیادی نظریہ انسانیت کی مذہب سے آزادی اور دنیاوی زندگی کا بھرپور اثبات تھا۔ یہیں سے مغربی تہذیب میں انسان پرستی کی ابتداء ہوتی ہے۔ تحریک تنویر کی ایک خاص صفت اس کا انسان کی سمجھ پر اعتماد اس کی تمام کلیات کا اثبات تھا۔ اٹھارویں صدی کے مشہور فلسفی کانٹ نے اس سوال کے جواب میں تنویریت کیا ہے؟ کہا کہ تنویریت انسانیت کا حدِبلوغیت کو پار کرنا ہے جب انسان اپنی تمام خود ساختہ پابندیوں اور جکڑ بندیوں کو اتار پھینکے۔ سوائے اپنی ذات کے کسی اور کی مدد اور محتاجی اختیار نہ کرے۔ اپنی سمجھ اور فیصلوں کے لیے صرف اپنے اوپر اور اپنی صلاحیتوں پر اعتماد کرے۔ اس موقع پر تحریک تنویر کی جو علمیت قرار پائی وہ تھی جدید سائنس اور سائنٹفک میتھڈ۔

عیسائیت اور سائنس:

سائنس کی تاریخ میں کوپر نیکس کے نظام شمسی سے متعلق نظریے کو انقلاب کی حیثیت حاصل ہے۔ جدید سائنس سے پہلے عیسائیت ”زمین مرکزِ کائنات” کے نظریے کی قائل تھی۔ اس نظریے کے مطابق دنیا کائنات کا مرکز ہے۔ سورج اور باقی تمام سیارے اس کے گرد چکر لگاتے ہیں۔ گو کہ یہ نظریہ اصل میں ارسطو کا تھا لیکن عیسائی پادریوں نے یونانی فلسفے سے مرعوبیت کی بناء پر اسے عیسائی عقائد کا حصہ بنا لیا تھا۔ ان کے خیال میں اس نظریے سے انسان کے خداوند کریم کے مقرب ہونے اور عیسائیت کے حق ہونے کی دلیل ملتی تھی۔ کوپر نیکس نے جب سائنسی اصولوں کے تحت ”سورج مرکز کائنات” کا نظریہ پیش کیا تو اس سے عوام کے درمیان عیسائیت کی ساکھ کو زبردست جھٹکا لگا۔ اس نظریے کے تحت نظام شمسی میں سورج کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور زمین اس کے گرد چکر لگاتی ہے۔ گلیلیو کی ایجاد کردہ دوربین نے اس نظریے کو مزید حسّی شواہد فراہم کیے۔ اس واقعہ کو سائنس کی جیت اور مذہب کی ہار سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اس واقعہ کے بعد لوگوں کا عیسائی مذہب کے ذریعۂ علم ہونے پر سے اعتماد اٹھ گیا اور یورپ کی عوام علم اور راہنمائی کے لیے سائنسی علوم اور سائنس دانوں کی طرف دیکھنے لگے۔

جدید سائنس اور اس کے اغراض و مقاصد:

سائنس اور اس سے متعلقہ علوم کا مقصد فطرت کے خزانوں کی کھوج لگانا اور انسانیت کے علم میں اضافہ کرنا کہا جاتا ہے۔ لیکن معلومات کے اس اضافہ کو اسی وقت درست گردانا جائے گا جب اس کے حصول کے لیے سائنٹفک میتھڈ استعمال کیا گیا ہو۔ کسی بھی علم کو صرف اسی وقت سائنس کا درجہ حاصل ہوتا ہے جب اس میں سائنٹیفک میتھڈ کو مستقل حیثیت حاصل ہوجائے۔ جدید سائنس کے ابتدائی دور میں سائنسدانوں کی زیادہ تر توجہ کا مرکز نیچرل سائنس یعنی طبیعات’ کیمیاء حیاتیات اور ریاضی رہے۔ ان علوم کی مدد سے انسان مادے اور اشیاء کی خصوصایت کو جاننے اور پھر ان سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہونے کی کوشش کرتا رہا۔ اس طریقہ سائنس کا مکمل دارومدار انسانی سمجھ اور صلاحیتوں پر تھا۔ اس میں کہیں بھی خدا کی محتاجی یا راہنمائی کی ضرورت محسوس نہ کی گئی۔ تحریک تنویر کے فلسفیوں (خصوصاً کانٹ) کو نیوٹن کا یہ سائنسی طریقہ بہت پسند آیا اور انہوں نے اس طریقہ کو باقی معاشی’ معاشرتی اور سیاسی علوم میں رائج کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ آہستہ آہستہ ان کی یہ کوشش کامیاب ہوئی جس کا ثبوت موجود دور میں تقریباً تمام علوم کے ساتھ لفظ ”سائنس” کا اضافہ ہے مثلاً پولیٹیکل سائنس’ مینجمنٹ سائنس وغیرہ اور ان علوم میں کہیں بھی وحی یا خدا کی مدد کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔

جدید سائنس کے مندرجہ ذیل اغراض و مقاصد بتائے جاتے ہیں

1۔ دنیا و کائنات کے مظاہر کی تفتیش اور ان کو انسانی عقل کے مطابق سمجھنا۔

2۔ ان مظاہر کے اسباب و علل بیان کرنا۔

3۔ ان مظاہر کی ٹھیک پیشن گوئی کرنا۔

4۔ ان مظاہر کو قابوکرکے ان پر اختیار حاصل کرنا۔

مختصراً یہ کہ سائنسی علمیت انسان کے حصول علم کی ایک ایسی کاوش کا نام ہے جس کا مکمل دارومدار انسانی عقل’ حواس اور سمجھ بوجھ پر ہے اور جس کا مقصد انسان کو دنیا اور کائنات کے مظاہر پر زیادہ سے زیادہ اختیار دلانا ہے تاکہ وہ ان سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہوسکے۔

سائنس کا ارتقائی نظریہ سچائی:

اسلامی علمیت اور سائنسی علمیت کا ایک اور بڑا واضح فرق ان دونوں کا نظریہ سچائی  ہے۔ اسلام میں ”الحق” ایک ہے جو ہر زمان و مکان کے لیے ایک اٹل حقیقت ہے’ جبکہ سائنس ارتقائی نظریہ سچ کی قائل ہے۔ سائنسی علوم میں کوئی اٹل سچ یا سچائی نہیں ہوتی بلکہ ہر زمانے کے سائنسدان اپنے زمانے کی معلومات کی بنیاد پر مختلف نظریات کو سچ قرار دیتے ہیں۔ یہ نظریات اس وقت تک سچائی کے مرتبے پر فائز رہتے ہیں جب تک یا تو یہ غلط ثابت نہیں کر دیے جاتے یا ان سے بہتر کوئی نظریہ پیش نہیں کر دیا جاتا۔ سائنس کی دنیا میں نہ صرف ہر زمانے میں الگ سچ ممکن ہے بلکہ ایک زمانے میں کئی سچ بھی ممکن ہیں۔ اس بکھری ہوئی کیفیت کو یکجا کرنے کے لیے سائنسی دنیا میں تحقیقی اشاعتوں کا ایک نظام رائج ہے۔ ایک سائنسدان کے کام کو جانچنے کے لیے یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس نے کتنے تحقیقی مقالے شائع کیے ہیں اور اس کے کام کو کتنے تحقیقی مقالے حوالے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اسی بنیاد پر ہر نیا زمانہ’ پچھلے زمانے سے بہتر سمجھا جاتا ہے کیونکہ ہر نئے زمانے میں اور زیادہ معلومات جمع کر لی جاتی ہے۔ سائنس میں ترقی سے مراد محض اور زیادہ سے زیادہ ایسی دنیاوی معلومات کا جمع ہوجانا ہے جس سے انسان اور بھی زیادہ کائنات پر تصرف حاصل کرسکے جبکہ اسلام کے مطابق بہترین زمانہ آقائے دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کا زمانہ تھا اس کے بعد صحابہ رضی اﷲ عنہم’ پھر تابعین اور پھر تبع تابعین ہر گزرتے زمانے کے ساتھ دین داری کے رجحان میں کمی اور مسلمانوں میں مجموعی طور پر خوف خدا سے دوری بڑھ رہی ہے اور کیونکہ شریعت میں علم کا تعلق تقویٰ اور پرہیز گاری سے ہے لہٰذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسلامی لحاظ سے موجودہ دور میں علم کم سے کم ہوتا جارہا ہے۔

سائنٹفک میتھڈ (یعنی سائنسی طریقہ کار):

جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا کہ سائنسی طریقہ کار میں کسی بھی معلومات کو حتمی اور آخری حقیقت نہیں سمجھا جاتا بلکہ اس میں مستقل تحقیقات اور تبدیلیاں جاری رہتی ہیں۔ اس طریقے کو تجرباتی طریقہ کار بھی کہا جاتا ہے اس میں سائنسدان مشاہدے’ تجربے اور عقلی دلائل کی مدد سے مظاہر کی تفتیش اور پھر اس سے علم بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کیونکہ اس طریقہ کار میں ضروری نہیں کہ نتائج پہلے سے معلوم ہوں لہٰذا نتائج کے معتبر ہونے کا تعلق نتیجے سے نہیں بلکہ طریقہ کار سے ہوتا ہے تجرباتی طریقہ سائنس کے نتائج اتنے ہی زیادہ معتبر سمجھے جائیں گے جتنا زیادہ سائنسی طریقۂ مشاہدہ اور عقلی دلائل استعمال کیے گئے ہوں گے اس بات کو ریاضی کے سوال کی مثال سے سمجھا جاسکتا ہے جس میں سوال سے صحیح جواب تک پہنچنے کے لیے ریاضی کے تصدیق شدہ اصولوں کو استعمال کرنے کی پابندی ہوتی ہے سوال کا جواب پہلے سے معلوم نہیں ہوتا لیکن اسے حل کرنے کے دوران تصدیق شدہ اصولوں کی پابندی کے طریقہ یعنی میتھڈ کی وجہ سے جواب معتبر ہوجاتا ہے نیوٹن نے اپنی کتاب Principia Mathematica میں سائنس (Natural Philosophy)  کے ریاضی اصول بڑی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔

مختصراً یہ کہ سائنٹفک میتھڈ کی آخری حد انسانی مشاہدہ’ عقل اور سمجھ ہے۔ مشاہدے کی تفصیل حواس خمسہ اور اس کی حدود وہ تمام آلات جو ان حواس کا تسلسل’ مددگار و معاون تصور کیے جاتے ہیں مثلاً دور بین اور خردبین انسان کی قوت بینائی کی صلاحیت میں بے تحاشا اضافہ کرتے ہیں۔

عقلیت کا تعلق استقرائی اور استخراجی طریقہ دلیل سے ہے استقرائی وہ طریقہ دلیل ہے جس میں انسان جزوی مشاہدے اور حادثوں سے کلی اصول اخذ کرتا ہے جبکہ استخراجی طریقہ دلیل اس کا الٹ یعنی کلی اصول سے جزیات کا استخراج ہے۔جبکہ سائنٹفک میتھڈ میں انسانی سمجھ سے مراد پہلے ادوار کی وہ تمام معلومات اور تجربوں کا مجموعہ ہے جو اس سائنسی طریقہ مشاہدے اور عقلیت سے جمع کیا گیا ہو۔ سائنسی تحقیق میں Literature review  سے مراد یہی سمجھ ہے۔ سائنسی میتھڈ کی ایک اور خصوصیت اس کا متعین خصوصی حالات میں ہر بار ایک ہی جیسے نتائج پر پہنچنا ہے۔ ان متعین خصوصی حالات کی مدد سے کوئی بھی سائنس دان کسی بھی تحقیقی تجربے کو دہرا سکتا ہے۔

یہ سائنسی طریقہ کار موجودہ دور کے اکثر علوم میں تحقیقی طریقہ کار کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ تحقیقی طریقہ کار عددی  (Quantitatine) یا تاثراتی (Quali tative) ہوسکتا ہے۔  عددی ہونے کی صورت میں معلومات میں اضافے یا تصدیق کے لیے شماریات استعمال کی جاتی ہے جبکہ تاثراتی ہونے کی صورت میں رائے’ تصورات اور تنقیدوں کی مدد لی جاتی ہے۔

پس جدیدیت اور سائنس:

تحریک تنویراور جدیدیت کے مفکرین سائنس اور سائنسی طریقہ کار کو معلومات حاصل کرنے کا بہترین آفاقی طریقہ سمجھتے تھے’ لیکن پس جدیدیت کے مفکر سائنس اور سائنٹفک میتھڈ کی اس آفاقی حیثیت کو تسلیم نہیں کرتے بلکہ اسے تاریخ کا اتفاق سمجھتے ہیں کہ اسے ایک علمی حیثیت حاصل ہوگئی۔ جدیدیت کی سائنس کسی مخصوص سچ کی قائل تو نہ تھی بلکہ (کسی ممکنہ) سچ کی جانب بڑھنے والے طریقے (یعنی سائنٹفک میتھڈ) کی قائل تھی لیکن پس جدیدیت کیونکہ کسی سچ کو ممکن ہی نہیں سمجھتی لہٰذا وہ کسی مخصوص طریقہ کار کے بہتر ہونے کی بھی قائل نہیں۔ پس جدیدیت کے نکتہ نظر سے سائنس’ ٹیکنالوجی یا کسی بھی مضمون میں امتیازی حیثیت متعین کرنا نہ تو ممکن ہے اور نہ ضروری۔ مختصراً یہ کہ موجودہ دور میں پس جدیدیت نہ تو سائنس کو رد کرتی ہے اور نہ ٹیکنالوجی کو بلکہ وہ تو صرف سائنس کو کوئی امتیازی حیثیت دینے کی انکاری ہے۔

اوپر دی ہوئی تاریخ’ تفصیل اور دلائل سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ لفظ سائنس سے مراد ایک ایسی علمیت ہے جس کا دراومدار صرف اور صرف انسانی سمجھ اور عقل پر ہے۔ سائنسی علمیت کو وحی سے کوئی سروکار نہیں۔ جدید یورپ نے اسے عیسائیت سے بغاوت کرنے اور بے دین مغربی تہذیب کی بنیاد رکھنے کے لیے استعمال کیا۔ اس کا مقصد کائنات کو تسخیر کرکے اس سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہونا ہے۔ بعض مسلمان قرآن کریم میں سائنس تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا پھر شرعی احکام کی حمایت کے لیے سائنسی دلیل دینے کی کوشش کرتے ہیں یہ دونوں ہی رویے سائنس کی حقیقت کو نہ پہنچاننے کے باعث اورمرعوبیت کا نتیجہ ہیں۔ یہ وہی راہ ہے جس پر عیسائیت یونانی فلسفے کی آمیزش کے بعد چلی اور بل آخر شکست سے دو چار ہوئی ۔ گلیلیو کا مشہور قول ہے

“Bible tells us the way to go to Heaven and not the way the Heavens go” (Galileo)

ترجمہ: بائبل ہمیں جنت کے راستے کی راہنمائی تو کرتی ہے لیکن کائنات میں کارفرما اصول نہیں بتاتی۔

لہٰذا جسے آخرت کی فکر ہو اور جو اﷲ کی رضا حاصل کرنا چاہتا ہو اس کے لیے تو ذریعہ علم صرف وحی ہے باقی جو دنیا سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہونا چاہتا ہے اس کے لیے ذریعہ معلومات سائنس ہے۔

ٹیکنو سائنس … ایک تجزیہ

سید ذیشان ارشد

آج ہم ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں ذہنوں پر سائنسی علمیت کا غلبہ اور روزمرہ زندگی میں مکمل طور پر ٹیکنالوجی پر انحصار ہے ایک عام آدمی کا ٹیکنالوجی کے بغیر زندگی کو تصور کرنا ممکن نہیں۔ ایسے ماحول میں مسلمانوں کا ٹیکنالوجی سے مرعوب ہوجانا ، سائنس اور ٹیکنالوجی کے تاریخی تصورات سے ناآشنائی کے باعث ان پر کوئی حتمی اسلامی رائے کا نہ رکھ پانا ایک فطری امر ہے۔ درج ذیل مضمون میں ہماری یہ کوشش ہوگی کہ

اول: سائنس اور ٹیکنالوجی کے تاریخی فرق کو واضح کریں

دوم: ٹیکنالوجی اور اقدار کے تعلق کو واضح کریں

سوم: موجودہ دور کی ٹیکنالوجی یعنی ٹینکو سائنس کی تفصیل اوربنیادی قدر بیان کریں۔

امید ہے کہ ان تصورات کے واضح ہوجانے کے بعد اہل ایمان کے لیے موجودہ دور میں ٹیکنالوجی کے چیلنجز / خطرات کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔

سائنس اور ٹیکنالوجی کا تاریخی فرق:

جیسے کہ ہم نے پچھلے مضمون میں دیکھا کہ جدید سائنس کی ابتداء جدیدیت کے سائنسدانوں سے ہوتی ہے۔ جدید سائنس کو وحی کی متبادل علمیت تصور کیا جاتا ہے اور انسانی کلیات پر مبنی اس ذریعہ معلومات کا دارومدار سائنٹفک میتھڈ پر ہے۔ اس مخصوص سائنٹفک میتھڈ پر مبنی سائنس کی تاریخ کی اس سے پہلے کوئی مثال موجود نہیں۔ البتہ اس کی کچھ حصوں کی جڑیں قدیم یونانی فلسفے میں تلاش کی جاسکتی ہیں۔ جبکہ دوسری جانب لفظ ٹیکنالوجی کا ماخذ ٹیکنیک یعنی تدبیر ہے۔ اور انسانی تاریخ میں متعدد روزمرہ مسائل کے لیے مختلف معاشروں سے کئی تدابیر ثابت ہیں۔ مثلاً ہر تہذیب نے اپنے طور پر گھر’ برتن’ ہتھیار اور اوزار بنانے کے فن سیکھے اور سیکھائے اور تدابیر اختیار کیں یہی بات تن ڈھانپنے کے لیے کپڑے اور جوتوں کے بارے میں کہی جاسکتی ہے۔ مختصراً یہ بیماری اور مختلف طرح کے مسائل ہوں یا بیماری’ ہر زمانے اور تہذیب کے لوگوں نے ان سے نمٹنے کے لیے کوئی نہ کوئی تدبیر ضرور اختیار کی۔ جو تدابیر سہل اور فائدہ مند تھیں وہ مقبول عام ہوئیں جبکہ اکثر آہستہ آہستہ ناپید ہوگئیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے معاملات’ مسائل کے حل اور مشاغل کے فروغ کے لیے اختیار کی گئی تدابیر اس زمانے کی ٹیکنالوجی قرار پائی۔ مثال کے طور پر قدیم مصری تہذیب میں اہرام مصر بنانے اور مردہ جسم کو حنوط کرنے کی ٹیکنالوجی تو تھی لیکن جدید سائنس نہ تھی۔ اہرام بنانا اور لاشوں کو حنوط کرنا قدیم مصر کی روایات کا حصہ تھا لہٰذا ان مشاغل کو بہتر طور پر انجام دینے کے لیے مختلف تدابیر اختیار کی گئیں۔ اسی طرح موئن جو دڑو اور ہڑپہ شہری ثقافتیں تھیں’ لہٰذا ان تہذیبوں کی civil tecnology  خاص ترقی یافتہ تھیں مثلاً ان جگہوں پر نکاسی آب کا بہترین نظام تھا لیکن یہاں بھی جدید سائنس جیسی کسی علمیت کا پتہ نہیں ملتا۔

قدیم یونان میں لفظ ٹیکنی سے مراد ایک فن پارہ (یعنی آرٹ کا نمونہ) تھی۔ چونکہ حسن پرستی قدیم یونان کی بنیاد ی قدر تھی لہٰذا یونان کی تہذیب اور teconolgy artifart  میں خوبصورتی کو بنیادی حیثیت حاصل تھی۔ مثال کے طور پر قدیم یونان میں ستون اصل میں اس لیے ترچھے بنائے جاتے تھے کہ وہ دیکھنے والے کو سیدھے معلوم ہوں۔ اس معاشرے میں ٹیکنالوجی کا تعلق آرٹ سے تھا نہ کہ کسی سائنس نما علمیت سے۔

قدیم تہذیبوں کے بعد قرون وسطیٰ کے یورپ میں رومیوں نے بھی بھرپور تدبیریں کیں۔ یہ قوم اپنی عسکری فتوحات اور جنگی چالوں کی وجہ سے مشہور تھی۔ انہوں نے یونان کو فتح کرنے کے بعد یورپ کے ایک بڑے حصے پر تقریباً ہزار سال تک حکومت کی۔ رومیوں کی قابل ذکر ٹیکنالوجی یعنی تدابیر میں فوجوں کی نقل و حرکت کے لیے پکی سڑکوں کی تعمیر’ حکومت کے کونوں کونوں تک ترسیل اطلاع کا انتظام’ بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے پکے گھروں کی تعمیر’ شہروں میں پانی کا انتظام اور گرم حمام وغیرہ ہیں۔ رومیوں کی اکثر تدابیر آسان اور عوامی تھیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ مستفید ہوسکیں۔

اوپر کی مثالوں سے جو بات واضح ہوتی ہے وہ اول تو یہ کہ سائنس اور ٹیکنالوجی ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزم نہیں جیسے کہ ہمیں آج کل کی دنیا میں نظر آتا ہے۔ بلکہ تاریخ میں جدید سائنس کے بغیر بھی ٹیکنالوجی کسی نہ کسی صورت میں موجود رہی ہے۔ دوسری خاص بات یہ کہ ٹیکنالوجی یا تدبیر قدر سے آزاد نہیں ہوتی بلکہ اس معاشرے کی بنیاداور ایمانیات اس ٹیکنالوجی یا تدبیر میں پنہاں ہوتی ہیں۔

موجودہ دور کی ٹیکنالوجی: ٹیکنو سائنس(Tecnoscience)

ایک عام صارف کے لیے موجودہ دور میں سائنس اور ٹیکنالوجی میں فرق کرنا ممکن نہیں۔ جدید پیداواری اشیاء (مصنوعات ہوں یا خدمات) سائنس اور ٹیکنالوجی کا مرکب نظر آتی ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام میںپنپنے والے اس سائنس اور ٹیکنالوجی کے مخصوص مرکب کو اکثر مغربی مفکرین (مثلاً برونو لاٹور) ٹیکنو سائنس کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ ٹیکنوسائنس محض ایک تدبیر نہیں بلکہ سرمائے کی بڑھوتری کے لیے’ جدید سائنسی طرز فکر پر مبنی اور سرمایہ دارانہ اداروں کی تحقیقی مد میں مالی معاونت سے بنائی جانے والی تدبیر کا نام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کی ٹیکنالوجی انسان کی ضروریات سے زیادہ انسان کی خواہشات کی تکمیل میں مصروف نظر آتی ہے۔ مثلاً ایک سادہ اور مضبوط موٹر کار شہری زندگی میں سواری کی ضرورت تو ہوسکتی ہے لیکن روز بروز بدلتے ہوئے دلکش ماڈل اور ڈیزائن کے کیا معنی؟ اسی طرح ٹیلی فون بڑھتے ہوئے فاصلوں اور رابطوں کو کم کرنے کی ضرورت تو ہے لیکن ان کے بڑھتے چڑھتے ماڈل اور خصوصیات محض منافع بڑھانے کی ترکیبیں ہیں۔

موجودہ دور کی ٹیکنالوجی (یعنی ٹیکنو سائنس) کا دارومدار سرمایہ دارانہ نظم اور جدید سائنس پر ہے اور یہ سرمائے کی بڑہوتری کے لیے ایک موثر آلہ کار ہے۔ بیسویں صدی کے پہلے نصف میں بنائی جانے والی بیشتر ٹیکنالوجی ملکوں کی جنگی اور دفاعی ضرورتوں کا نتیجہ تھیں۔ امریکا’ روس اور یورپی ممالک نے جنگ عظم اول اور دوئم کے دور میں بے تحاشہ ایجادیں بھی کیں اور انہیں موثر طور پر استعمال بھی کیا۔ بعد میں سرد جنگوں کے دوران مختلف ترقی یافتہ ملکوں کے دفاعی اداروں اور سرمایہ کار کارپوریشن نے اس عمل کو جاری رکھا۔ ان میں چند قابل ذکر نام امریکی خلائی تحقیق کا ادارہ NASA  اور امریکا ہی کا محکمہ دفاع ہے۔ موجدہ دور میں ٹیکنو سائنس تحقیق کثیر سرمائے کی مدد کے بغیر ممکن نہیں۔ یہ سرمایہ یا تو کوئی حکومتی ادارہ اپنی دفاعی یا جنگی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے فراہم کرے گا یا پھر کوئی ایسی بین الاقوامی سرمایہ کار کمپنی جسے اپنے منافع کی بڑھوتری کے لیے کسی ٹیکنیکی جدت کی ضرورت ہو۔ اس کثیر سرمائے سے جدید ٹیکنیکی آلات سے لیس سائنسی تجربہ گاہیں اور اعلیٰ تعلیمی ادارے قائم کیے جاتے ہیں۔ اور پھر یہاں دنیا کے بہترین دماغ جمع کیے جاتے ہیں جو ایسی تحقیق کرسکیں جس کے نتیجے میں سرمائے کو مزید فروغ حاصل ہو یا سرمائے کو فروغ دینے والی ریاست کا دفاع ہوسکے۔ مختصر یہ کہ سرمایہ دارانہ نظم میں سرمائے کی بڑھوتری کے مخصوص مقصد کی خاطر جدید سائنس کے تسخیر کائنات والے اصول کے تحت تدبیر کا نام ٹیکنو سائنس ہے۔

نظریہ اور عمل

جدید دور کے معاشرے میں نظریہ اور عمل کی بحث بہت اہم ہے۔ روایتی طور پر اس بحث میں دو انتہائی متضاد نکتہ نظر پائے جاتے ہیں۔ ایک طرف مفکرین کا خیال ہے کہ نظریہ’ عقائد یا خیالات کی بنیاد پر معاشرے میں عمل اور عملی طریقے رائج ہوتے ہیں جبکہ تاریخی مادیت کے حامیوں کے مطابق معاشرے کے عمل اور رائج عملی طریقوں سے لوگوں کے نظریات اور عقائد نشوونما پاتے ہیں۔ ایسی صورت میں علم کا منبع مادی دنیا قرار پاتی ہے۔ اس کے برخلاف ایک اسلامی معاشرے میں مسلمان دین کا علم حاصل کرتے ہیں اور علماء کی مدد سے انفرادی اور اجتماعی زندگی میں رائج کرتے ہیں لیکن موجودہ مسلمان معاشروں میں ایسی صورت بالکل بھی نہیں نظر آتی۔ آج کا مسلمان زیادہ تر دنیا کمانے کا علم حاصل کرنا چاہتا ہے اور دین کی معلومات ناظرہ قرآن مجید اور نماز کی دعائوں تک محدود ہے۔ اس قدر کمزور علمی بنیادوں کے ساتھ جب ایک عام مسلمان کا ٹیکنو سائنس سے سامنا ہوہتا ہے تو وہ اس کی بنیادی قدر بڑھوتری برائے بڑھوتری میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اس کی زندگی کا مقصد عبادت کم اور تصرف فی الارض زیادہ ہوجاتا ہے۔ اس کی شناخت عبد کے بجائے ایک اچھے صارف کی ہوجاتی ہے لہٰذا موجودہ دور میں سرمایہ داری اور ٹیکنو سائنس کے طاغوت سے دفاع کے لیے دین کا علم اور معرفتِ الٰہی لازمی ہیں۔

باب پنجم

سرمایہ دارانہ تنظیم اقتدار

لبرل سرما یہ دارانہ ریا ست

 حقیقت …ما ہیت

ڈاکٹر جاوید انصاری

دور ِحاضر میں جو ریاستی نظم دنیا پر مسلط ہے وہ سرمایہ دارانہ نظم اقتدار ہے اور اسکے استحکام اور توسیع سے اسلامی انفرادیت، معاشرت او رریاست شدید خطرات سے دوچار ہے کیونکہ سرمایہ دارانہ اقتدار کی موجودگی میں مذہبی اقدار تادیر قائم رکھنا نہایت مشکل امر ہے۔ مغرب میں عیسائی اقدار کی تباہی اس کا واضح تاریخی ثبوت ہے۔ نفس مضمون یعنی سرمایہ دارانہ ریاست کی حقیقت و ماہیت بیان کرنے سے قبل ہم چند اصولی تمہیدی نکات پیش کرنا چاہتے ہیں جن سے ریاستی معاملات پر انقلابی نقطہ نظر اختیار کرنے کی اہمیت واضح ہوگی۔

اولاً :  خلافت یعنی شریعت محمدی کی پابند حکومت کے قیام کے بغیر نہ تو اسلام کو قوت اور غلبہ حاصل ہوسکتا ہے اور نہ ہی طاغوتی نظام کا خاتمہ ممکن ہے۔ شریعت کا مسلمہ اصول ہے کہ واجب کا مقدمہ بھی واجب ہوتا ہے ، لہٰذا ریاست اسلامیہ کے قیام کیلئے جو ذرائع ناگزیر ہیں ان کے حصول کی کوشش کرنا مسلمانوں پر واجب ہے

ثانیاً :   ١٨٥٧ کے جہاد میں ناکامی اور خلافت عثمانیہ کے سقوط کے بعد سے لے کر اب تک سرمایہ دارانہ استعمار کے جواب میں احیائے اسلام کیلئے بے شمار تحریکات برپا ہوئیں جن کے کام کو تقسیم کار کے اعتبار سے چارسطحوں پر رکھا جاسکتا ہے:

١۔   مدرسین اور مزکی:

  ان کا بنیادی ہدف اسلامی علوم کا تحفظ اور اسلامی انفرادیت و تشخص کا فروغ ہے۔ ان کے بنیادی ادارے مسجد، مدرسہ اور خانقاہ ہیں

٢۔  مبلغین اور مصلحین:

  ان کا بنیادی مقصد اسلامی معاشرت کا استحکام و فروغ ہے اور جو دینی تہذیبی روایات کے تحفظ و فروغ اور حلال کاروبار کے پھیلاؤ میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ اس ضمن میں سب سے نمایاں کام تبلیغی جماعت اور دعوت اسلامی کا ہے جو صحیح معنی میں عوامی اسلامی تحریکات ہیں

٣۔  انقلابی :

ان کا نقطہ ماسکہ ریاست کی اسلامی نہج پر اصلاح و قیام ہے اور یہ  رائج شدہ نظام زندگی میں مکمل تبدیلی کے خواہاں ہیں۔

٤۔  مجاہدین:

  ان کا مرکزی نکتہ بھی تعمیر و غلبہ اسلامی ریاست ہے اور یہ استعماراور اس کے ایجنٹوں سے عسکری سطح پر بر سر پیکار ہیں اور طاغوتی طاقتوں کے پھیلاؤ کے مدمقابل مزاحمت پیدا کرکے اسلامی ریاستوں کے قیام کے مواقع فراہم کررہے ہیں۔ اس کی سب سے واضح مثال طالبان عالیشان ہیں

اول الذکر دو تحریکات دفاع امت جبکہ موخر الذکر دونوں غلبہ دین کی تحریکات ہیں۔ یہ تمام راسخ العقیدہ دینی گروہ پورے اخلاص کے ساتھ اپنے اپنے کام میں ہمہ تن مصروف ہیں۔ البتہ انکے کاموں میں ایک بنیادی کمزوری یہ ہے کہ یہ تینوں کام اس معنی میں جدا جدا ہوگئے ہیںکہ تطہیر نفس اور اصلاح معاشرے کاکام وہ علماء وصوفیا ء اور جماعتیں کررہی ہیں جو تعمیر ریاست کے کام سے لاتعلق ہیں، اسی طرح تعمیر ریاست اور جہاد کا کام وہ جماعتیں کررہی ہیں جن کے پاس بالعموم تطہیر قلب کا کوئی واضح ضابطہ موجود نہیں ہے۔ نتیجتاً تطہیر قلب کا کام محض تبلیغ و تطہیر اور ریاست کا کام محض قتال یا جمہوری عمل بن کر رہ گیا ہے۔ تقریباً ہر اسلامی گروہ اور جماعت اپنے کام کو دوسرے اسلامی گروہ کے کام کا متبادل  (substitute)  اور اس سے اعلی و ارفع سمجھتی ہے جبکہ حقیقتاً انکے درمیان تعلق ایک دوسرے کے تکملے   (complementarity)  کا ہے اور ان تینوں میں سے کسی دینی کام کو دوسرے دینی کام پر کوئی اقداری فوقیت حاصل نہیں۔ اصل ضرورت کسی نئے دینی کام کو شروع کرنے یا ایک دینی کام کو چھوڑ کر کسی دوسری دینی جماعت میں ضم ہوجانے یا کوئی ایسی نئی دینی جماعت بنانے کی نہیں جو سب کام کرے کیونکہ الحمد للہ مختلف انفرادی دینی جماعتوں کا کام ملکر مطلوبہ مجموعی دینی کام کی کفایت کرتا ہے، اصل ضرورت موجودہ دینی تحریکات کے کام میں ارتباط پیدا  (relate) کرنے کی ہے۔ ہر دینی گروہ اس بات کو لازم پکڑے کہ اپنے کارکنان کو دوسری دینی تحریکات کا قدر دان بنائے اور ان کے ساتھ اشتراک عمل کرنے پر رغبت دلائے۔ جب تک اسلامی گروہوں میں اشتراک عمل کا یہ طرز فکر عام نہ ہوگا، دوسرے گروہ کے دینی کام کو برابر اہمیت نہ دی جائے گی اور مجموعی کام کو ایک دوسرے کے ساتھ مربوط نہیں کیا جائے گا انقلابی جدوجہد کا سہ جہتی (three dimensional) کام ادھورا ہی رہے گا۔

 ثالثا: ان تحریکات کی جدوجہد بالعموم سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے مرتب ہوتی ہے اور ان کے پاس ریاست کے اندر ریاست (state within the state) قائم کرنے کا کوئی لائحہ عمل موجود نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر جاری و ساری کام کے باوجود اسلامی قوت یکجا نہیں ہورہی اور ان غیر مجتمع انفرادی دینی کاموں کے نتیجے میں غلبہ دین کے امکانات سامنے نہیں آتے اور نہ ہی تحفظ دین کا کام کما حقہ ہوپاتا ہے کیونکہ ہم ہمیشہ دفاع اور رد عمل کی پوزیشن ہی میں رہتے ہیں۔ موجودہ ریاستی ڈھانچے کے حوالے سے اسلامی تحریکات کے رویوں میں دو طرح کی خامیاں ہیں، ایک وہ جوتحفظ امت کی تحریکات کو لاحق ہیں اور دوم وہ جن کا شکار غلبہ دین کی تحریکات ہیں:

(الف) اصلاح انفرادیت و معاشرہ کی تحریکات اصولاً تحفظ اسلام کی تحریکا ت ہیں جن کامقصد سرمایہ دارانہ نظم اجتماعی کے اندر ایک ایسے دائرے کی تلاش رہی ہے جہاں اسلامیت کی حفاظت و بقا ممکن ہو سکے۔ ان تحریکات نے اس مفروضے کی بنیاد پر خود کو ریاستی معاملات سے علیحدہ رکھا ہے کہ نظام اقتدار سے غیر جانبداری کا رویہ ممکن ہے جبکہ یہ مفروضہ درست نہیں۔ ریاست سے غیرجانبداری ناممکن الوقوع شے ہے کیونکہ ریاست تو بالفعل  ‘موجود ہے’  اور وہ احکام کے صدور کے ذریعے فرد اور معاشرے پر اثر انداز ہوتی رہتی ہے۔ چنانچہ اقتدار کے معاملے میں لاتعلقی یا غیر جانب دار رویے کی کوئی حقیقت نہیں، یا تو آپ کسی نظام اقتدار کے خلاف ہوتے ہیں یا اسکے حق میں ان کے درمیان کوئی راستہ موجود نہیں۔ ہماری سب سے بڑی عوامی تحریکات یعنی دعوت اسلامی اور تبلیغی جماعت ریاستی مسائل سے نہ صرف یہ کہ صرف نظر کرتی ہیں بلکہ انہیں گندگی سمجھتی ہیں۔ یہ جماعتیں اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ وہ غیر سیاسی جماعتیں ہیں حالانکہ ان کی اس بات کا مطلب اسکے سوا اور کچھ نہیں کہ انہوں نے باطل نظام اقتدار کی سیادت اور اس سے مصالحت قبول کرلی ہے۔ اقتدار سے لاتعلقی کے امکان کی اس غلط فہمی کا نتیجہ یہ ہے کہ اسلام پر عمل کرنے کا دائرہ دن بہ دن چھوٹا ہوتا چلا جا رہا ہے اور سرمایہ داری پر مبنی نظام اقتدار ہم پر غالب آتا جارہا ہے۔ کسی منکر کو ہوتے دیکھ کر خاموش رہنے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ منکر کے معاملے میں نیوٹرل ہیں، بلکہ اسکا مطلب یہ ہے کہ آپ اسکی بالادستی قبول کرتے ہیں اور منکر کے ساتھ یہ مفاہمت اسکی تقویت اور فروغ کا باعث بنتا ہے۔ لہذا اقتدار (نہ کہ محض حکومت) اور غلبے کے مسئلے پر تمام دینی کام کو مربوط کرنے کی سخت ضرورت ہے کہ اگر یہ نہ کیا گیا تو انفرادی اصلاح تو ہوجائے گی لیکن اسکے نتیجے میں کافر اقتدار کو نقصان نہیں پہنچے گا اور بالآخر اصلاح نفوس بھی مشکل ہوتا چلا جائے گا کیونکہ اصلاح کتنی ممکن ہے اسکا انحصار واقعیت  (facticity)  کی ان معاشرتی و ریاستی جکڑ بندیوں پر ہوتا ہے جن سے ایک فرد دوچار ہوتا ہے۔ اسلامی انفرادیت کے فروغ کیلئے ایسی ترتیب اقتدار چاہئے جو واقعیت کو بدل دے اور اسلامی انفرادیت کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کردے۔ مصلحانہ جدوجہد کرنے والی تحریکات کا یہ مفروضہ غلط ہے کہ اسلامی انفرادیت کا سیاسی اظہار اور ترتیب اقتدار خودبخود رونما ہو جاتا ہے۔ ظاہر ہے جب اسلامی علمیت کے تحفظ کیلئے شعوری طور پر ادارتی صف بندی عمل میں لانا لازم ہے محض افراد کو اسکی اہمیت بتلا دینے سے کام نہیں چلتا تو اسلامی اقتدار کے قیام کیلئے مطلوبہ صف بندی سے صرف نظر کیسے کیا جاسکتا ہے اور اسکا ظہور خود بخود کیسے ہوجائے گا؟ افسوس کی بات ہے کہ ہمارے مدارس میں بھی ریاست و سلطنت کی نظریاتی بحثیں بالکل معدوم ہو گئی ہیں اور متقدمین میں سے کسی مسلم سیاسی مفکر کی کوئی کتاب ہمارے درس نظامی میں شامل نہیں

(ب) انقلابیوں کا اصل کام یہی ہے کہ وہ سارے دینی کام کو اس طرح مجتمع کریں کہ اسلامی اقتدار قائم ہو سکے۔ مگر جن تحریکات نے غلبہ دین کو اپنی جدوجہد کا بنیادی مرکز بنایا انہوں نے یا تو انقلاب کو جمہوری سیاست کا ہم معنی سمجھ لیا یا پھر احتجاجی و مطالباتی سیاست۔ یاد رہنا چاہئے کہ ہماری جدوجہد کا مقصد موجودہ نظام اقتدار کے اندر شمولیت نہیں بلکہ ایک متبادل نظام زندگی اور اقتدار قائم کرنا ہے جہاں عوام یا کسی فرد کے بجائے  ‘اہل الرائے ‘  کا اقتدار قائم ہو جن کی مرضی و مشورے سے ہی ریاست کے امور طے پائیں ۔ جن تحریکات نے جمہوری سیاست کو اصل مقصود بنا رکھا ہے انہیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ انقلابی (state within the state) سعی کے بغیر اقتدار نہیں بلکہ حکومتیں تبدیل ہوا کرتی ہیں کیونکہ قانون کے اندر رہ کر کی جانے والی جدوجہد توloyal disobedience   (تابعدارانہ مخلص نا فرمانی ) ہوتی ہے جسکے نتیجے میں نظام اقتدار تبدیل نہیں ہوتے۔ نظام باطل کے قانونی دائرے میں رہتے ہوئے اقتدار تبدیل کرنے کی خواہش رکھنا  self-defeating  (تضاد پر مبنی ) اصول ہے کیونکہ ہر نظام اقتدار کے قوانین اسکے اپنے استحکام کیلئے بنائے جاتے ہیں نہ کہ اسے ڈھادینے کے لئے۔ disobedience  Loyal   کے ذریعے اقتدار تبدیل کرنے کی غلط فہمی اس لئے پیدا ہوئی کہ ہم نے قانون کو  ‘غیر اقداری’  (value-neutral) سمجھ لیا ہے حالانکہ ہر قانون ایک مخصوص انفرادیت و معاشرت نافذ کرنے کیلئے وضع کیا جاتا ہے اور یہی حال ہیومن رائٹس پر مبنی دستوری قانون کا بھی ہے جس کامقصد سرمایہ دارانہ شخصیت (ہیومن) ، معاشرت (سول سوسائٹی) اور ریاست (ریپبلک) کا قیام و فروغ ہے۔ جو تحریکات خود کو اصولاً اور عملاً انقلابی کہتی بھی ہیں انکے پاس بھی انقلابی عمل کا کوئی واضح لائحہ عمل موجود نہیں۔ انکے انقلاب کا تصور بس یہ ہے کہ بہت سے لوگوں کو کسی دعوت کے تحت منظم کرکے حکومت وقت سے بھڑ جاؤ یا اس سے چند مطالبات تسلیم کرالو۔ ظاہر ہے یہ تصور غلط ہے کیونکہ انقلابی عمل کا مطلب ہوتا ہے قوت نافذہ کو موجودہ افراد اور اداروں سے چھین کر متبادل افراد اور ادارتی صف بندی کے تحت مربوط اور مجتمع کرنا۔ انقلابی تحریکات اس قسم کی سعی پر کوئی توجہ نہیں دیتیں کیونکہ وہ حکومت اور ریاست کے فرق کو سمجھ نہ سکیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ بہت سی انقلابی تحریکات ریاستی قوت کے متبادل ادارے قائم کرنے کو ناجائز گردانتی ہیں گویا وہ ریاست کے اندر یاست قائم کئے بغیر انقلاب لانے کا خواب دیکھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اصلاحی جماعتوں کی مانند انقلابی جماعتیں بھی تحریک لال مسجد کی انقلابی حکمت عملی کو غلط قرار دیتی رہیں۔ یاد رکھنا چاہئے کہ تاریخ میں کوئی انقلاب محض دعوت و تبلیغ کے زور پر نہیں آیا بلکہ اسکے لئے لازماً قوت کو غالب نظام اقتدار کے خلاف جمع کرنا پڑتا ہے۔ اگر سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں محض حکومتی افراد تبدیل ہوجائیں مگر اقتدار کا مرکز موجودہ ادارے ہی رہیں تو اس جدوجہد سے کوئی بامعنی تبدیلی نہیں ہوپاتی۔ وہ لوگ جو انقلابی عمل کی حقیقت اور حکومت و ریاست کے فرق کو نہیں پہچانتے وہ مجاہدین کی جدوجہد کو سمجھنے سے سرے قاصر ہیں، وہ کبھی انہیں غم و غصے کا اظہار کہتے ہیں اور کبھی شدت پسندانہ رویے پر مبنی رد عمل۔ ایسے لوگ مجاہدین کی جدوجہد کو عالمی قوانین کی پاسداری کرنے کے حوالے سے شرع کی تعلیمات کے تناظر میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں …فیا للعجب

رابعاً: یہ سمجھ لینا چاہئے کہ دور حاضر میں قائم اکثر و بیشتر مسلم ریاستیں کافرانہ نظم اجتماعی پر قائم ہیں گو انہیں چلانے والے مسلمان ہیں، اور ان ریاستوں کا خلافت ہونا تو کجا سلطنت اسلامیہ کے درجے سے بھی دور کا واسطہ نہیں کیونکہ یہ تمام ریاستیں قومی ہیں جہاں حاکمیت کی بنیاد عوامی نمائندگی ہے، جہاں علوم شریعہ کے بجائے سائنسز کی بالادستی ہے، جہاں شرع کے بجائے دستوری قانون نافذ ہے وغیرہ ۔ انقلابیوں کا بنیادی مقدمہ یہی ہے کہ تحفظ اور غلبہ اسلامی کا کام اسی وجہ سے انتشار کا شکار ہے کہ وہ اسلامی ریاست جو تسلسل کے ساتھ سلطان عبد الحمیدثانی  کے دور تک قائم تھی اور جس نے تمام دینی کام کو سمیٹ رکھا تھا اب مفقود ہوگئی ہے۔ سلطان اسی معنی میں ظل اللہ تھا کہ اسکی برکت سے تمام دینی کام مربوط تھے اور اقتدار کی کنجیاں علماء اور صوفیاء کے ہاتھوں میں محفوظ تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ مجدد الف ثا نی رحمہ اللہ اورشاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے مغل سلطنت کے استحکام کی کوششیں کیں (ماسواء اکبر کی حکومت کہ اس نے دینِ الٰہی کو فروغ دینے کی کوشش کی)۔ لہذا ضروری ہے کہ ہم یہ سمجھیں کہ باطل نظام اقتدار کے اندر غلبہ دین کی کوشش بار آور نہیں ہوسکتی اور اسلامی ریاست قائم کرنا ضروری ہے۔

درج بالا جدوجہد مرتب کرنے کیلئے یہ سمجھنا لازم ہے کہ جس ریاستی نظم سے ہمارا مقابلہ ہے اسکی نوعیت کیا ہے اور یہ ریاست کس طرح کام کرتی ہے کیونکہ ان اصولی مباحث کو سمجھنے کے بعد ہی ہم یہ سوال اٹھا سکیں گے کہ کس طرح اسلامی ریاست قائم اور مستحکم کرنے کی جدوجہد کی جاسکتی ہے۔ اس مضمون میں پیش کردہ لبرل سرمایہ دارانہ ریاست کا عمومی خاکہ دو سوالات کے جوابا ت دینے کی کوشش کرتا ہے،  اولاً سرمایہ دارانہ اقتدار کس کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور دوم یہ اقتدار کیسے قائم رکھا جاتا ہے۔ زیر نظر مضمون سے یہ بات بھی واضح ہوگی کہ حکومت اور ریاست (نظام اقتدار) میں بہت فرق ہوتا ہے کہ حکومت محض ریاست کا ایک جزو ہے۔

ریاستی سطح پر سرمایہ دارانہ اقتدار کس طرح تشکیل پاتا ہے؟

فرماں روائی اور عملداری کس کی ہوتی ہے

معاشرہ رضا کارانہ (voluntary)صف بندی سے تشکیل پاتا ہے یعنی افراد اپنی مرضی سے تعلقات استوار کرتے ہیں۔ اس کے برعکس ریاست نظام اقتدار کا نام ہے یعنی ایک جبری صف بندی کی تشکیل کی جاتی ہے۔ اب سب سے بنیادی سوال یہی ہے کہ لبرل سرمایہ دارانہ ریاست میں اصل اقتدار کس کو حاصل ہو تا ہے ۔ لبرل سرمایہ دارانہ ریاست میں اصل اقتدار ان کو حاصل ہوتا ہے جو ”سرمایہ دارانہ عقلیت پر ایمان رکھتے ہیںاور ان کو مؤید ہوتے ہیں۔” سرمایہ دارانہ عقلیت یہ ہے کہ انسان کو تمتع فی الارض کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کیے جائیں۔ انسان کو اپنی خواہشات کی تکمیل کے زیادہ سے زیادہ مساوی مواقع ملیں، تو جو لوگ سرمایہ دارانہ لبرل ریاست میں صاحب اقتدار ہوتے ہیں، وہ اسی سرمایہ دارانہ عقلیت کے بارے میں راسخ العقیدہ ہوتے ہیں۔

فرماں روائی اور عملداری کیسے کی جاتی ہے

اب بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سرمایہ دارانہ عقلیت پرایمان رکھنے والوں کا اقتدار کیسے قائم ہوتا ہے اور کیسے مستحکم ہوتا ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے کہ جب پورا معاشرہ سرمایہ درانہ تعقل کو اصل عقلیت کے طور پر قبول کرلے۔ سرمایہ دارانہ عقلیت کی بنیاد پر ہی تمام یا زیادہ سے زیادہ فیصلے ہوں، گویا اقتدار کو مستحکم کیا جاتا ہے سرمایہ دارانہ عقلیت کو یونیورسلائز یعنی آفاقی بنا کر۔ جس قدر اس سرمایہ دارانہ عقلیت کی توسیع ہو گی، جس قدر سرمایہ دارانہ عقلیت کو معاشرہ میں قبولیت عامہ حاصل ہوتی جائے گی، جتنا سرمایہ دارانہ عقلیت پر ایمان رکھنے والے اور سرمایہ دارانہ عقلیت کے داعی اس میں کامیاب ہوں گے، اتنا ہی ان کا اقتدار مستحکم ہوگا۔

 ریاستی اقتدار:

ہم نے کہا کہ معاشرہ کے برعکس کہ جہاں تعلقات رضاکارانہ بنیادوں پر استوار ہوتے ہیں ریاست ایک نظامِ اقتدار کا نام ہے جس کے پاس اپنے فیصلوں کے نفاذ کے لیے ایک مخصوص علاقے اور اس کی آبادی کے لیے قوتِ نافذہ بھی موجود ہوتی ہے گویا سرمایہ دارانہ عقلیت پر ایمان رکھنے والوں کے پاس محض تحکم نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنے فیصلو ں کے نفاذ کے لیے ریاست کی قوت کو بھی استعمال کرتے ہیں۔

سرمایہ دارانہ لبرل ریاست میں دو مختلف طریقوں سے نظامِ اقتدار مرتب کیا جاتا ہے یعنی اس کے دو مختلف ڈھانچے ہوتے ہیں:

١۔جمہوری طریقہ

٢۔لبرل ڈکٹیٹر شپ یا آمریت

بظاہر ان دونوں طرزِ اقتدار کی ترتیب وتنظیم مختلف ہوتی ہے لیکن عملاً ان دونوں کے نتیجے میں سرمایہ دارانہ عقلیت ہی غالب آتی ہے ، یعنی یہ دو قالب ہیں لیکن ان دونوں کی روح ”سرمایہ دارانہ عقلیت” ہی ہے۔ ان دونوں طرزِ اقتدار کو استعمال کر کے سرمایہ دارانہ عقلیت ہی کو آفاقی بنایا جاتا ہے اور ان بظاہر دو مختلف طرز اقتدار میں فیصلے سرمایہ دارانہ عقلیت کی بنیاد پر ہی کیے جاتے ہیں اور اسی کو مقبول عام بنائے جانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

پاکستان کے تناظر میںدینی جماعتوں کی توجہ”سرمایہ دارانہ عقلیت ” کی مرکزی بحث کی بجائے اس کے قالب یعنی آمریت اور جمہوریت پر مرکوز ہو جاتی ہے۔ پاکستان میں دینی جماعتیں سمجھتی ہیں کہ ان کو جمہوری طرز کی حکومت میں اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کی زیادہ آزادی میسر آتی ہے(گو کہ ان پر یہ بھی الزام عائد کیا جاتا ہے کہ ان کو زیادہ فائدہ آمریت کی حکومتوں نے پہنچایا ہے) لیکن ان کو یہ سمجھنا چاہیے کہ جمہوریت یا آمریت میں ”روح” ایک ہی کارفرما ہے، اور ان کے متبادل کی بجائے انہی دونوں میں گنجائشیں تلاش کرنے سے ان دونوں سسٹم ہی کو استحکام حاصل ہوتا ہے۔ گنجائش تلاش کرنے سے یہ دونوں سسٹم کمزور نہیں ہوتے یا ان کو پیچھے نہیں دھکیلا جا سکتا۔

فرماں روائی کا طریقۂ عمل اور اس کے دومختلف تصورات:

فرماں روائی کے طریقۂ عمل (Governance process)سے مرادہے کہ کس طریقے سے احکام صادر کیے جارہے ہیں او رکس طریقے سے احکام نافذ کیے جارہے ہی؟ یعنی نظامِ اقتدار کو مرتب کرنے کے لیے ضروری ہے کہ محض احکام دیے نہ جارہے ہوں بلکہ ان کو نافذ کرنے کے لیے بھی پوری حکمت عملی اور مشینری موجود ہو، گویا گورننگ پروسیس سے مراد سرمایہ دارانہ عقلیت کی آفاقیت اور اس کے غلبے کو ممکن بنانے کا مخصوص طریقۂ عمل ہے۔

اس سلسلے میں دو مختلف تصورات پائے جاتے ہیں:

٭  ایک تصور تویہ ہے کہ ہر فرد فطرتاً یہی چاہتا ہے کہ تمتع الارض اور خواہشات کو پورا کرنے کے زیادہ سے زیادہ مواقع میسر آئیں، یعنی معاشرہ اس بات پر راضی ہے اور بدا ہتاً معاشرے کے ہر فرد کی یہی خواہش ہے کہ سرمایہ دارانہ عقلیت پر ہی زندگی کے ہر شعبہ کے ہر دائرہ کار میں فیصلے کیے جائیں اور سرمایہ دارانہ عقلیت ہی کو غلبہ حاصل ہو۔ یہی وہ نقطۂ نگاہ ہے جو انیسویں صدی کے اندر Scotish enlightenment والوں میں کانٹ کی فکر میں ملتا ہے کہ فطرت ِ انسانی کا تقاضہ ہی یہ ہے کہ اس کی تمام خواہشات کی تسکین ہو۔ لہٰذا اسٹیٹ کو سوسائٹی پر تسلط کی ضرورت نہیں بلکہ ریاست معاشرے کے مختلف افراد جو خواہشات رکھتے ہیں انھی کو پورا اور نافذ کرنے کا معقول ترین طریقہ وضع کرتی ہے، گویا سرمایہ دارانہ لبرل ریاست سرمایہ دارانہ معاشرے کی خواہشات کو پورا کرنے کا ”ذریعہ” ہوتی ہے، لہٰذا اصولاً و نظراً اس کے تابع ہوتی ہے۔

٭  دوسرا تصور یہ ہے کہ معاشرہ کے افراد نہیںجانتے کہ انہیں کیا چاہنا چاہیے۔ وہ عقلیت اصلیہ یعنی سرمایہ دارانہ عقلیت کے تقاضوں سے ناواقف ہوتے ہیں، لہٰذا ایک ایسے گروہ کی ضرورت ہے جو اصلی عقلیت کی نمائندہ ہو ، یہی گروہ پوری انسانیت کا نمائندہ گروہ ہے۔ اس گروہ کی ذمہ داری ہے کہ آمریت قائم کرکے لوگوں کو مجبور کریں کہ اس اصلی عقلیت (سرمایہ دارانہ عقلیت) کے مطابق تمام فیصلے کئے جائیں، گویا ریاست محض معاشرے کے تابع نہیں ہے بلکہ اس کو معاشرے پر غالب ہونا چاہیے اور اس کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ عقلیت اصلیہ کو معاشرتی سطح پراور انفرادی سطح پر نافذکرنے کے لیے نظام اقتدار کھڑا کرے۔ اب یہ گروہ کون سا ہے اس کے بارے میں اختلاف ہو سکتا ہے(وہ مزدوروں کی آمریت یامخصوص طبقہ یا قوم ہو سکتی ہے)

واضح رہے کہ یہ دونوں تصورات و نظریات ریاست کے اندر خواہشاتِ نفسانیہ کی زیادہ سے زیادہ تکمیل کی جدوجہد ہی کرتے ہیں۔ ان کا طریقہ مختلف ہے۔ ایک طریقے میں ریاست معاشرہ کے ماتحت ہے اور ریاست پورا کررہی ہے ان خواہشات کو جو معاشرے کی dynamicمیں خودبخود ابھر کر سامنے آرہی ہیں اور ریاست ان کی ترتیب، تقدیم اورتاخیر کا ایک ذریعہ ہے، دوسرا طریقہ میں ریاست کو معاشرے پر غلبہ حاصل ہوتا ہے اور وہ یہ فیصلہ کرتی ہے کہ کیا چاہنا چاہیے اور اس کے حصول کا بہترین طریقہ کیا ہے؟

سرمایہ دارانہ عقلیت کے نفاذ کے لیے تین بنیادی فرائض:

سرمایہ دارانہ عقلیت کے حاملین سرمایہ دارانہ نظام اقتدار کو معاشرتی سطح پر مرتب کرنے کی جو کوشش کرتے ہیں، اس کے لیے انہیں تین بنیادی فرائض ادا رکرنے پڑتے ہیں۔

١۔مارکیٹ کے اندر واحد پیمانہ تعین قدر سرمائے کا عمل بن جائے۔

٢۔سرمائے کی بڑھوتری کا تعقل پورے معاشرے پر حاوی ہوجائے اور زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہ رہے جو سرمایہ دارانہ عقلیت سے ماورا ہو۔

٣۔ نمبر1اور نمبر2کو قبولیت عامہ اور جوازِ عمومی حاصل ہو جائے۔

سرمایہ دارانہ عقلیت کو غالب کرنے کے لیے ضروری ہے کہ زندگی کے ہر دائرہ کار میں تمام اعمال کو اس واحد عمل کے اردگرد مجتمع کر دیا جائے، یعنی سرمائے کی بڑھوتری مستقل تیز ہوتی چلی جائے اور سرمائے کی بڑھوتری محض خود اپنا جواز ہو۔ ہر معاشرتی یا انفرادی عمل کا مقصدِ اولین (Ultimate end)یہی ہو،کیوں کہ سرمایہ ہی ”آزادی” کی مجسم شکل ہے۔

یہ عمل پہلے مارکیٹ کی سطح پر ہوتا ہے۔جہاں اس کو واحد معقول پیمانہ خیروشر کے طور پر قبول کر لیا جاتا ہے اور کسی بھی عمل کو صرف اسی بنیاد پر جانچا جاتا ہے کہ اس مخصوص عمل کے نتیجے میں سرمایہ کی بڑھوتری کی رفتار میںتیزی آرہی ہے یا کمی ہورہی ہے ۔ یعنی فر د کے مخصوص عمل کے نتیجے میں سرمایہ کی بڑھوتری کی رفتار پر کیا فرق پڑ رہا ہے۔ اگر زیدکی مخصوص نوکری کے نتیجے میں سرمائے کی بڑھوتری کی رفتار میں اس سے کم اضافہ ہوتا ہے جتنا ایک اسٹاک بروکر کی کاوش کے نتیجے میں ہوتا ہے تو معقول بات اور جائز یہی ہے کہ زید کی تنخواہ اسٹاک بروکر کے مقابلے میں کم ہو کیوں کہ سرمائے کی بڑھوتری کے عمل کو آگے بڑھانے میں زید کا حصہ (Contribution)اس سے کم ہے جو اسٹاک بروکر کا ہے۔ گویا مارکیٹ کی سطح پر جو معقول پیمانہ خیروشر مسلط ہو جاتا ہے اور جسے قبول کیا جاتا ہے اور اس کے نتیجے میںایک فرد کو تمتع الارض کی اجازت دی جاتی ہے وہ اس سے ہم آہنگ ہوتی ہے کہ وہ سرمائے کی بڑھوتری کے عمل کو کتنا مہمیز دیتا ہے۔

معاشرے کے اندر مارکیٹ ایک دائرہ کار ہے۔ مارکیٹ کے باہر بھی فرد بہت سے تعلقات کو تشکیل دیتا ہے اور یہ ضروری نہیں کہ وہ ان تعلقات کی تشکیل بھی سرمایہ دارانہ عقلیت یا بڑھوتری سرمائے کی بنیاد پر کرے، مثلاً خاندانی تعلقات عموماً ایثار ومحبت کی بنیاد پر تشکیل پاتے ہیںلیکن سرمایہ دارانہ اشرافیہ اور سرمایہ دارانہ عقلیت میں راسخ العقیدہ لوگوں کی کوشش ہوتی ہے کہ بڑھوتری سرمایہ جو واحد معقول پیمانے کے طور پر مارکیٹ میں تسلیم کر لیا گیا ہے یہ صرف مارکیٹ تک محدود نہ رہے بلکہ یونیورسلائز ہو جائے، خاندان بھی مارکیٹ کا حصہ ہوجائیں، افراد رشتۂ ازواج میں منسلک ہوتے ہوئے ایمانداری، نسب وشرافت، خاندان اور کفو کو اہمیت نہ دیں بلکہ کیرئیر یا پیسہ کو مدّ نظر رکھیں۔ بچوں کی تربیت کرتے ہوئے بھی سرمایہ دارانہ تعقل کو نظر اندازنہ کریں ۔ برادریاں’ قبیلے ‘ قوم اور حتیٰ کہ مذہبی ادارے بھی مارکیٹ کے اس تعقل کا حصہ بن جائیں۔ فرد صرف مارکیٹ کے عمل میں سرمائے کا ایجنٹ نہ ہو بلکہ زندگی کا ہر رول نبھاتے ہوئے وہ سرمائے کا ایجنٹ ہو، اس کو (Capitalist socialisation)کہتے ہیںاور جہاں اس قسم کی سرمایہ دارانہ انفرادیت مکمل طور پر یونیورسلائز ہو جاتی ہے، اس عمل کو سرمایہ دارانہ معاشرتی عمل یعنی Capitalist Socialization  کہتے ہیں۔ یہ وہ عمل ہے جسکے نتیجے میں معاشرہ سرمایہ دارانہ خطوط پر استوار ہوتا ہے۔

تیسرا فرض یہی ہوتا ہے ۔یہ دونوں طرح کے فرائض محض زبردستی نافذ نہ کیے جار ہے ہوں بلکہ ان کو مقبولیت عامہ اور جواز عمومی حاصل ہو۔ عام آدمی کے لیے یہی معقول پیمانہ خیروشر اور پیمانہ عمل بن جائے، اور جب فرد کا ہر عمل بڑھوتریٔ سرمائے کے تحت آجائے تو ضرور خود اپنے دل میں یہ محسوس کرے گا کہ میں کامیاب ہوگیاہوں، اور زندگی کے ہر شعبے کے اندر سرمائے کی بڑھوتری کو مہمیز دینے کی بنیاد کے اوپر اپنی مرضی سے اپنے اعمال کا تعین کرے۔ کسی معاشرے میں کس قدر سرمایہ دارانہ جبر کی ضرورت ہے اس بات کا انحصار اس بات پر ہے کہ افراد کتنے سرمایہ دار ہوچکے ہیں۔

فرماں روائی اور عملداری کو کن افراد کے ذریعے ممکن بنایاجاتاہے

سرمایہ دارانہ عقلیت کوئی فطری چیز نہیں ہے بلکہ انتہائی غیر فطری چیز ہے، اس لیے سرمایہ دارانہ تعقل کو پورے نظامِ زندگی پر غالب کرنے کے لیے خصوصی کوشش کی جاتی ہے۔ اس میں مخصوص افراد اور اداروں کی اہمیت ہوتی ہے، پہلے ہم ان افراد کا تذکرہ کرتے ہیں جو سرمایہ دارانہ عقلیت کو قبولیتِ عامہ دلوانے اور سرمایہ دارانہ عقلیت کو غلبہ دلانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

(١)دانشور  (Intelletuals)

یہ وہ فرد ہے جو قدیم مذہبی علمیت اور قیادت کا فطری مخالف ہے۔ مذہبی علمیت کی بنیاد یہ ہوتی ہے کہ ہر عمل کی انجام دہی سے پہلے اللہ تعالیٰ کی رضامندی و مرضی تلاش کی جائے۔ احکامات کا استنباط اس طرح کیا جائے کہ اللہ کی مرضی ومنشاء سے قریب تر ہو نا ممکن ہوسکے اور اللہ تعالیٰ کی مرضی کی اطاعت ممکن ہوسکے۔ اس کے برعکس دانشور کا ظہور اٹھارویں صدی میں ہوا اور یہ مذہبی علمیت کے برعکس دوسری علمیت کا علم بردار ہوتا ہے۔ یہ مذہبی علمیت سے علی الرغم ادراک حقیقت کا قائل ہوتا ہے، یہ انسان کی آزاد ی اور مساوات کا قائل ہوتا ہے اور ان راہوں کی نشاندہی کرتا ہے جس کے نتیجے میں انسانیت زیادہ سے زیادہ مساوی آزادی حاصل کر کے اپنی خواہشات (نفسانیہ) کو حاصل کر سکتا ہے۔

(٢)کلچرل ہیروز

اس ریاستی نظام میں چوں کہ تمتع فی الارض اور نفسانی خواہشات عمل کے تعین کی بنیاد بنتی ہیں لہٰذا ایسے لوگوں کو پروجیکٹ کرنے کی بہت ضرورت ہوتی ہے جو اس کام میں کامیاب ہو جائیں، عموماً یہ تین قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔

٭اسپورٹس مین

لبرل نظام مین کھیلوں (لہو ولعب) کی خاص اہمیت ہے ، لوکل سطح سے لے کر ملکی اور بین الاقوامی کھیلوں کے مقابلوں کا ایک مستقل سلسلہ لبرل ریاستوں کے تعاون سے جاری رہتا ہے اور مختلف قسم کے کھیل کھیلنے والوں کو ہیروز کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

٭سائنسدان:(سائنسز سے وابستہ افراد میں فزیکل اور سوشل سائنسز سے وابستہ افراد)

یہ وہ افرادہیں جنہوں نے کائنات کی طبعی قوتوں پر انسان کا غلبہ اور اختیار بڑھا دیا ہے اور اس اختیار کو بڑھانے کا مقصد تمتع فی الارض ہے۔ ایک زمانے میں یہ فزیکل سائنسدان ہوتے تھے، مگر آج کل میڈیسن اور بائیو ٹکنالوجی سے وابستہ افراد کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔

ان تین قسم کے لوگوں کو یہ مواقع فراہم کیے جاتے ہیں کہ یہ معاشرے کے رول ماڈل بن جائیں۔ لوگ ان کلچرل ہیروز کو بزرگان دین کی جگہ رکھنے لگیں ۔ علماء اور صوفیاء کو بے وقوف سمجھنے لگیں اور اصلی عوامی لیڈر شپ کا منصب ان تین طرح کے لوگوں کے پاس آ جائے۔ اصلی عوامی لیڈر شپ عموماً سیاسی نہیں ہوتی بلکہ اصلی عوامی لیڈر شپ ان کلچرل ہیروز کے ذریعے پیدا کی جاتی ہے۔ ان کلچرل ہیروز کے ”فین” اپنی زندگی میں ان کا طرزِ زندگی اپنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

٭  تیسرے گروہ کا ذکر غائب ہے

(٣)  ٹیکنو کریٹ اور بیورو کریٹ

ٹیکنوکریسی اور بیورو کریسی بھی سرمایہ دارانہ ریاستوںکے انتظام سے متعلق خاص چیز ہے۔ یہ ایسی اشرافیہ ہوتی ہے جو سرمایہ داری کے مجموعی مفادات کی بنیاد پرانفرادی سرمایہ دارانہ عمل کی تحدید اور ترتیب کرتی ہے۔ اس کا اپنا مفاد اس میں پنہاں ہوتا ہے کہ سرمایہ داری کے مجموعی مفادات کتنے حاصل ہو رہے ہیں؟ ان کو سرمائے کے مجموعی مفادات کے نمائندوں کے طور پر قبول کیا جاتا ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام کا ایک مستقل مسئلہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں کوئی عمومی ایجنٹ پیدا نہیں ہوتا۔ مارکیٹ کا جو طریقہ اورنظم قائم ہے اس میں ہر کمپنی اپنے مفادات کی نگرانی اور تحفظ کے لیے سرگرم عمل ہوتی ہے۔ اس کو صرف اس بات سے غرض ہوتی ہے کہ اس کا منافع زیادہ سے زیادہ ہو جائے۔ اس لیے اس نظم میں عمومی سرمائے کے تحفظ کے نمائندے نہیں ہوتے۔ مثلاً جو ا س بات پر نظر رکھ سکیںکہ کوئی مخصوص کمپنی اپنا منافع زیادہ سے زیادہ کرنے کے لیے کوئی ایسا کام تو نہیں کر رہی جس سے مجموعی بڑھوتری سرمایہ کو روکا جارہا ہے۔ تو ٹکنو کریسی اور بیوروکریسی یہ بتاتی ہے کہ تمتع فی الارض کا بہترین طریقہ کیا ہے اور ان سے امید کی جاتی ہے کہ وہ اپنے مفادات سے اوپر اٹھ کر مجموعی سرمایہ کے ایجنٹوں کا رول ادا کریں گے۔ ان کی وفاداریاں اور  غیر جانبداریاں (impartiality) سرمایہ دارانہ نظام سے وابستہ ہوتی ہے۔ اس کے لیے انہیں مخصوص امتحانی نظام سے گزار کر سامنے لایا جاتا ہے اور عمومی نمائندوں کے برعکس ان کی حیثیت ایک مستقل نوعیت کی ہوتی ہے۔ قانون سازی میں بھی یہ اہم رول ادا کرتے ہیں۔ یہ کسی بھی سرمایہ دارانہ نظریے پرایمان رکھنے والے ہو سکتے ہیں۔ چاہے لبرل ہوں یا مسلم قوم پرست یا کمیونسٹ … سرمایہ دارانہ نظام کا تقاضہ ہے کہ ایسا گروہ مستقل تیار ہوتا رہے اور یہ نظریاتی گروہ برسر اقتدار بھی ہو اور اس کا اقتدار مقبول عام بھی ہو۔

(٤)آرمڈ فورسز (armed forces):

اس کی زیادہ تفصیل کی ضرورت نہیں… یہ سرمایہ داری کو لاحق خطرے کے وقت سامنے آتے ہیں اور سرمایہ داری کا آخری دفاع یہی لوگ کرتے ہیں۔ ہر ملک کی عموماً اپنی آرمی، پولیس اور ریزرفورسزو وغیرہ ہوتی ہیں۔

(٥)استعماری ایجنٹ (imperial oversights agents):

یہ وہ مقامی افراد ہوتے ہیںجن کا فکری تناظر ، جن کے مفادات اور وفاداریاں ایمپائر کے ساتھ ہوتی ہیں۔ چوں کہ سرمایہ دارانہ نظام ایک عالمی نظام ہوگیا ہے اور سرمایہ داری کی جو اصل قوت نافذہ ہے’ امریکہ ہے۔ اس قوت نافذہ کی ایک ضرورت یہ ہوتی ہے کہ براہِ راست اپنے افراد کی بجائے وہ ایسے مقامی افراد کے ذریعے حکومت کے کاموں میں دخیل ہو جن کی بنیادی وفاداریاں امریکن ایمپائر کے ساتھ ہوں۔ وہ بودوباش تو مقامی لوگوں کا سا رکھیںلیکن تمام تر طرزِ زندگی ایمپائر کی سی ہو، گویا یہ ایمپائر کے غیر مقامی شہری (non national citizen)ہوتے ہیں۔ انگریزوں کی حکومت نے جب محسوس کیا کہ ان کی حکومت کو مقبولیت حاصل نہیں ہے تو انہوں نے مختلف طریقوں خصوصاً ایجوکیشن سسٹم کے ذریعے ایسے لوگ تیار کیے اور صرف ہندوستان میں نہیں بلکہ پوری تیسری دنیا کے اندر ایسے لوگوں کی پوری نسل تیار کی گئی جو فطرتاً ایمپائر ہی کے لوگ ہوں۔ یہ لوگ کلیدی مقامات پر فائز کیے جاتے ہیں۔

حاملین اقتدار ادارے

ہم ان افراد کا تذکرہ کر چکے ہیںجو سرمایہ دارانہ عقلیت کو قبولیت عامہ اور غلبہ دلانے میں اہم کردار اد ا کرتے ہیں اب ان اداروں کا تذکرہ ہے جن کے ذریعے یہ افراد اقتدار کی ترتیب عمل میں لاتے ہیں۔

(ا)کارپوریشن

کارپوریشن کے اندر نظامِ اقتدار سرمایہ داری اپنی کامل ترین شکل میں ہوتا ہے۔ جہاں ایک فرد سرمایہ دارانہ بندھنوں میں ایسے جکڑا ہوتا ہے کہ بڑھوتری سرمایہ  کا ایجنٹ بننے کے سوا اور کچھ ممکن نہیں ہوتا۔ کارپوریشن کے اندر جو ترتیب نظم ہوتی ہے اس کے نتیجے میں معاش کے پورے عمل پر جس طرح سرمایہ دارانہ عقلیت غالب آتی ہے اور کہیں غالب نہیں آتی۔ سرمایہ دارانہ نظام میں کارپوریشن کے ذریعے ذاتی ملکیت کو ختم کر کے سرمائے کی ملکیت قائم کی جاتی ہے۔ سرمایہ دارانہ تعقل کے لیے انسان کے جاگتے اوقات میں انسان کو خاص قسم کے ڈسپلن میں سمو دیا جاتا ہے اور اس کے ان اوقات میں اسے سرمائے کا خادم بنا دیا جاتا ہے۔ کارپوریشن وہ شخص قانونی ہے جس کا اکیلا وظیفہ یہ ہے کہ سرمائے کی بڑھوتری کے پیمانے پر اپنے تمام اعمال کو مرتب کرے۔ کارپوریشن کو چلانے والے منیجر ہوتے ہیں، جو عملاً بڑھوتری سرمایہ کی مشین ہوتے ہیں وہ اپنے ماتحت ملازمین کو بھی اس واحد پیمانے پر پرکھتے ہیں کہ وہ بڑھوتری سرمائے کا باعث بن رہے ہیں کہ نہیں… ایک معیشت میں جس قدر کارپوریشن کا عمل دخل بڑھتاہے اتنی ہی ذاتی ملکیت کم ہو جاتی ہے۔

(ب)بینک اور مالی ادارے

کارپوریشن کے علاوہ دوسرا ذریعہ بینک اور فنانشل ادارے ہیں۔ یہ بھی خالصتاً سرمایہ دارانہ ادارے ہیں۔ ان کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ سرمائے کی بڑھوتری کی بنیاد پر قدر کے تعین کا ایسا نظام نافذ اور قائم کریں کہ زر کی مارکیٹ اور اسٹاک مارکیٹ (capital market)سسٹم آف (production) یعنی پیداواری عمل کے نظام پر حکم لگانے کی پوزیشن میں آجائے۔ اس کے لیے بنک یہ فریضہ انجام دیتے ہیں کہ لوگوں کی بچتوں کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں تاکہ لوگ اپنے فاضل سرمائے کو خود استعمال نہ کریں بلکہ بینک میں اکاؤنٹ کھول لیں اور بینک اس رقم کو سرکل آف کیپٹل (circle of capital)میں شامل کر دیں۔ انہی اداروں کے ذریعے سرمایہ داری کو یونیورسلائز کرنے میں مدد ملتی ہے۔

(ج)فنانشل ریگولیشن (زری اصلاحات)

سرمایہ دارانہ نظام میں مختلف کمپنیاں اپنے اپنے منافع کو بڑھانے کے لیے مسلسل مسابقت کرتی ہیں۔ اس لیے ایک ریگولیٹری اتھارٹی کی ضرورت ہوتی ہے جو یہ نظر رکھتی ہے کہ اس مسابقت کے نتیجے میں سرمایہ دارانہ نظام بحیثیت مجموعی کسی نظاماتی بحران سے دوچار نہ ہو۔ یہ ریگولیٹری اتھارٹی اس نظاماتی بحران سے بچانے کے لیے پیسہ کی رفتارِ پیداوار میں کمی یا زیادتی کا فیصلہ کرتی ہے۔ بظاہر تو یہ خاص حکومت کا کام لگتا ہے ، لیکن اب صرف اسٹیٹ بینک یہ کام نہیں کرتا بلکہ عالمی مالیاتی اور زری ادارے بھی اس میں دخل اندازی کرتی ہیں اور پرائیوٹ سیکٹر میں بھی ایسی ویٹنگ ایجنسیاں آ گئی ہیں مثلاً جے پی مورگن وغیرہ جن کا اس سلسلے میں اہم کردار ہوتا ہے۔

(د)لیبر یونینز

کبھی کبھار یہ بھی ہوتا ہے کہ ٹریڈ یونینز بھی سرمایہ دارانہ عقلیت کو غالب کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ انفرادی طور پر تو کارپوریشن کے اندر ہیومن ریسورس مینجمنٹ کے ذریعے یہ کام کیا ہی جارہا ہے، لیکن اجتماعی طور پر مزدوروں کو سرمایہ دارانہ عقلیت سے بہرہ ور کرنے کا کام مزدور یونینز کرتی ہیں۔ وہ مزدور قوتوں کو اس مقصد کے گرد منظم کرتی ہیں کہ سرمایہ دارانہ عقلیت کے فروغ کے نتیجے میں جو فوائد حاصل ہو رہے ہیں ‘ ان میں اپنا حصہ طلب کریں اور مزدور بھی اجتماعی طورپر سرمایہ کی بڑھوتری کے عمل کو مہمیز دینے میں اپنا کردار ادا کریں اور ان کے مفادات بڑھوتری سرمایہ کے اہداف سے زیادہ سے زیادہ ہم آہنگ ہو سکیں۔

(ذ)انتظامیہ (مقامی اورقومی )

کسی بھی ملک کے معاملات چلانے کے لیے انہیں مختلف شعبو ں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے مثلاً داخلہ امور، خارجہ امور، دفاعی امور، تعلیمی امور، معاشی امور… اور ان سب امور کو چلانے کے لیے ہر ملک میں انتظامیہ کا ادارہ ہوتا ہے، جس کی تنظیم مقامی سے لے کر قومی سطح تک موجود ہوتی ہے۔ انتظامیہ کے ادارے کا کام محض قانون کا نفاذ نہیں ہوتا بلکہ وہ قانون سازی میںبھی نمایاں طور پر حصہ لیتی ہے۔ اکثر قوانین کے مسودے انتظامیہ ہی تیار کرتی ہے۔ عملاً انتظامیہ ہی مقننہ کی رہنمائی کرتی ہے اور اس پر حاوی ہوتی ہے اور اس کو سرمایہ دارانہ ڈگر سے نہیں ہٹنے دیتی۔

(ط)میڈیا

جس میں اخبارات ورسائل، ریڈیو، ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ وغیرہ شامل ہیں۔ سرمایہ دارانہ دائرہ اقتدار کو وسیع کرنے کا اہم ادارہ ہے۔ میڈیا کے سب شعبے یعنی انٹر ٹینمنٹ، ایڈورٹائزنگ ور انفارمیشن پہنچانے کا عمل سرمایہ دارانہ نظام اقتدار کے استحکام کا باعث بنتے ہیں۔ انٹر ٹینمنٹ انڈسٹری سے وابستہ لوگوں کو رول ماڈل اور ہیرو بنایا جاتا ہے۔ ایڈورٹائزنگ کے ذریعے سرمایہ دارانہ کارپوریشن کی مال کی طلب پیدا کر کے اس کی کھپت ممکن بنائی جاتی ہے اور انفارمیشن پہنچانے کے عمل کو بھی مختلف طریقوں (لائسنسنگ پر کنٹرول) کے ذریعے ریگولیٹ کیا جاتا ہے۔ میڈیا کا وسیع نیٹ ورک سرمایہ دارانہ ریاست کے ماتحت ہی ہوتا ہے۔

(ز)کورٹس (عدالتیں)

عدلیہ بنیادی طورپر لبرل دستور کی محافظ ہوتی ہے۔ یہ لبرل دستور کی بنیاد پر شہریوں کے دو فریقوں یا سٹیزن اور مملکت اور اس کے مختلف اداروں کے درمیان متنازعہ امور کے فیصلے کرتی ہے۔ ان معنوں میں کورٹس کا بنیادی فریضہ روزمرہ معاملات کی دستور سے ہم آہنگ تشریح و توضیح کرنا اور مخصوص معاملات پر اس کا اطلاق کرنا ہے۔ دستور جیسا کہ ہم جانتے ہیں ‘ ایسی آزادیوں اور حقوق کے مجموعے کا نام ہے جو فرد کو سرمائے کی بڑھوتری کے فرض کو پورا کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ ان میں سب سے اہم سرمایہ دارانہ ملکیت کا تحفظ اور آزادی کا تحفظ ہے۔

(س)پولیس

پولیس کا محکمہ کا سرمایہ دارانہ اشرافیہ اور عدلیہ سے مخصوص نوعیت کا تعلق ہوتا ہے۔ بنیادی طورپر سرمایہ دارانہ عدل کی بنیاد پر جو فیصلے کیے جاتے ہیں، ان فیصلوں کا نفاذ پولیس کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ سرمایہ دارانہ معاشرہ اور ریاست جس مخصوص نہج پر استوار ہوتے ہیں اس مخصوص نہج سے انحراف کرنے والوں پر پولیس نظر رکھتی ہے۔ بعض اوقات سرمایہ دارانہ اشرافیہ اپنے مخالفین کو کچلنے کا کام بھی پولیس سے لیتے ہیں۔

(ش)آرمڈ فورسز

سرمایہ دارانہ ریاستیں اصولاً نیشن اسٹیٹ ہوتی ہیں اور اصولاً ایک نیشن اسٹیٹ کو اقتدار اعلیٰ حاصل ہوتا ہے، یعنی نہ تو اندرون ملک میں کوئی فرد یا گروہ ریاست کے دائرہ اختیار سے باہر ہو سکتاہے اورنہ کوئی بیرونی طاقت یا گروہ اس نیشن اسٹیٹ کی مرضی کے بغیر اس کے حاصل کردہ اختیار کو چیلنج کر سکتی ہے۔ اقتدار اعلیٰ کے اس تحفظ کے لیے بنیادی طورپر فوج کا ادارہ ہوتا ہے۔ سرمایہ دارانہ لبرل ریاست کا آخری دفاع آرمڈ فورسز ہی کرتی ہیں۔

(ص)مقننہ  (legislature)

مقننہ عموماً دو ایوانوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ ایوانِ زیریںعوام کی نمائندہ سمجھی جاتی ہے اور ایوانِ بالا میں مخصوص طبقوں یا علاقوں کو نمائندگی دی جاتی ہے۔ انتخاب کی غرض سے تمام ملک کو مختلف حلقوں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے اور ہرحلقے سے ممبران کی مقررہ تعداد ایک متعینہ مدت کے لیے ایوانِ زیریں میں نمائندگی حاصل کرتی ہے۔ اصولی طورپر مقننہ کا اولین فرض؟؟؟…؟؟؟ اور عوام کے نمائندے معاشرہ کے بدلتے ہوئے حالات اور وقت کے تقاضوں کے مطابق قانون بناتے ہیں۔ قوانین میں ردوبدل کرنا یا ان کی تنسیخ کرنا بھی مقننہ کا کام ہوتا ہے اور تمام ارکان کی بحث ومباحثہ اور اظہارِ خیال کے بعد مقننہ کو اختیار ہوتا ہے کہ کثرتِ رائے سے پیش کیے جانے والے بل کو منظور یا مسترد کردے، لیکن فی الواقع جدید دور میں یہ محسوس کیا جاتا ہے کہ مقننہ کا کردار مسلسل کم ہورہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ تو وہی ہے کہ سرمایہ دارانہ لبرل ریاستوں کو عالمی سرمایہ دارانہ استعماری ریاست اپنی مرضی کے قوانین بنانے پر مجبور کرتی ہے اور عموماً یہ کام ٹکنو کریسی کرتی ہے۔ مقامی ٹکنو کریسی بھی صرف وہ اقدامات بروئے کار لاتی ہے جو عالمی سرمایہ دارانہ قوانین سے ہم آہنگ ہوں، جب مقننہ کا بنیادی فریضہ ہی ادا نہ ہوتو گویا یہ کمزور ترین ادارہ بن کر رہ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی چند جزوی وجوہات ایسی ہیں کہ مقننہ کا کردار کم سے کم ہوتا جارہا ہے، مثلاً ہر انفرادی ممبر اپنی پارٹی کی طرف سے پیش کیے گئے بل پر عموماً توثیق ہی کرتا ہے، چناں چہ اس عمل سے اس کی عدم دلچسپی بڑھتی جاتی ہے۔ مقننہ کے اندر متعلقہ شعبے کے ماہرین مثلاً دفاعی، معاشی، تعلیمی، معاشرتی ماہرین کم ہوتے ہیں، اس لیے وہ اس شعبہ سے متعلق قانون سازی کی سکت ہی اپنے اندر نہیں پاتے۔ لہٰذا صرف پاکستان کی مثال ہی نہیں بلکہ یورپ اور امریکہ ہر جگہ اب پارلیمنٹ یا مقننہ کا کوئی رول نہیں رہ گیا۔ پارلیمنٹ تو محض کھیل تماشہ ہے کیوں کہ حکومتوں میں تبدیلیوں کے نتیجے میں پالیسیوں کے اندر کسی قسم کی تبدیلی نہیں آتی۔

(ض)عالمی ریٹنگ ایجنسیاں اور نگراں ایجنسیاں

اب بین الاقوامی سطح پر ایسے ادارے وجود میں آچکے ہیں جو ملکی سطح پر اہم ترین امور پر مکمل دخیل ہو چکے ہیں، مثلاً آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، یونائیٹڈ نیشن کے مختلف ادارے۔ انہوں نے قومی اداروں سے مخصوص نوعیت کا تعلق استوار کر لیا ہے۔ آئی ایم ایف کے پاس صرف یہ سکت نہیں ہے کہ وہ ہماری معاشی پالیسی کے بارے میں فیصلہ کرے بلکہ وہ اپنے فیصلے کے نفاذ کا ایک خاص میکنزم بھی رکھتا ہے۔ اسی طرح اب پرائیوٹ سیکٹر کی ریٹنگ ایجنسیوں کا ظہور بھی ہورہا ہے۔ یہ ایجنسیاں سرمایہ دارانہ اصولوں کی بنیاد پر ملکوں کی کارکردگی کو مسلسل جانچتی رہتی ہیں اور ان کی جانچ کا اثر کسی ملک میں ہونے والی بیرونی اور اندرونی سرمای کاری پر پڑتا ہے۔

(ط)تعلیمی نظام:

سرمایہ دارانہ علمیت اس وقت غالب آتی ہے جب مذہبی علمیت پر سے لوگوں پر اعتبار اٹھ جاتا ہے۔ یہ عمل مغرب کے اندر اٹھارویں صدی میں پروان چڑھا۔ کلیسا جو کہ قدیم مذہبی علمیت کا علمبردار تھا’ اس کو دورِ تنویر کے مفکرین نے شکست دے دی۔ دورِ تنویر کی فکر کی بنیاد پر جن علوم کا ظہور ہوا اسے فزیکل سائنس اور سوشل سائنسز کہا جاتا ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام کی ٹیکنالوجی اور سرمایہ دارانہ عقلیت کو جواز فراہم کرنے والے علوم ہیں۔ ان کی بنیاد پر مغرب کا پورا نظام تعلیم تشکیل پایا۔ تیسری دنیا پر استعماری طاقتوں کے غلبے کے بعد وہاں بھی یہی تعلیمی نظام مستحکم ہوا۔ اب اسکول کی تعلیم سے لے کر اعلیٰ تعلیم کا مکمل نظام ہے جسے لوگوں نے برضاورغبت قبول کر لیا ہے اور مذہبی علوم کی بجائے اس تعلیمی نظام میں پڑھائے جانے والے علوم کو فوقیت اور ترجیح دی جاتی ہے۔ تعلیمی نظام کے ان اداروں کے ذریعے سرمایہ دارانہ عقلیت کو جواز عمومی اور قبولیت عامہ فراہم کی جارہی ہے۔

اب تک جن حاملینِ اقتدار اداروں یا process کا ذکر کیا گیا ہے، اس میں اہمیت کے لحاظ سے کوئی ترتیب قائم نہیں کی گئی بلکہ ان کا محض تعارف اور خاکہ پیش کر دیا گیا۔ چوں کہ لبرل ریاست دو مختلف دائر ہ کار میں تقسیم ہو جاتی ہے، یعنی جمہوری طرز حکومت اور Authoritarian طرزِ حکومت… جمہوری طرزِ حکومت میں ان اداروں کی تقدیم اور ترتیب اس سے مختلف ہوتی ہے جو آمریت میں ہوتی ہے۔ ذیل میں جمہوری طرزِ حکومت کی ممکنہ ترجیعی ترتیب کی فہرست دی جاتی ہے۔

١۔بینک اور فنانشل ادارے

٢۔فنانشل ریگولیشن

٣۔انٹلیکچوئل

٤۔استعماری ایجنٹ

٥۔میڈیا

٦۔عدالتیں

٧۔بین الاقوامی نگراں ایجنسیاں اور عالمی ریٹنگ ایجنسیاں

٨۔مقننہ

٩۔پولیس

١٠۔آرمڈ فورسز

١١۔ٹریڈ یونین

جب کہ آمریت یا Authoritarianاسٹیٹ میں ممکنہ ترجیعی ترتیب ذیل کے مطابق ہو سکتی ہے۔

(ا)پولیس

(٢)مقننہ

(٣)استعماری ایجنٹ

(٤)عدالتیں

(٥)میڈیا

(٦)انٹلیکچوئل

(٧)بینک اور فنانشل ادارے

(٨)فنانشل ریگولیشن

(٩)بین الاقوامی نگراں ایجنسیاں

(١٠)آرمڈ فورسز

اب تک جن persnolاور اداروں کا تذکرہ کیا گیا ہے، ان کے بارے میں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ یہ پرسنل اور ادارے حکومت نہیں کر رہے بلکہ ان کے ذریعے حکومت کی جارہی ہے۔ حکومت اور اقتدار اس چھوٹے سے گروپ کا ہے جو سرمایہ دارانہ عقلیت کو پورے طور پر قبول کیے ہوئے اور اس عقلیت کی یونیورسلائزیشن کو اپنی زندگی کا مقصد سمجھتا ہے۔ ایسے لوگ ان تمام پرسنل اور اداروں جن کا تذکرہ کیا گیا ہے ان کے اندر بھی پائے جاتے ہیں اور باہر بھی… اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ چھوٹا سا گروپ اپنی حکومت کیسے کرتا ہے؟ یہ اپنی حکومت دو طریقوں سے کرتا ہے:

١۔نمائندگی(Representation)

٢۔نفاذ احکام بذریعہ طاقت (mediation)

1۔پہلے طریقے میں یہ باور کرانے کی کوشش کرائی جاتی ہے کہ اس پر کوئی نزاع موجود نہیں ہے کہ سرمائے کی بڑھوتری ہی قدر کے تعین کا واحد پیمانہ ہے۔ سب لوگ اس کے قائل ہیں اور یہی اصول ہم کو نمائندگی کا جواز فراہم کر نا ہے کیوں کہ ہم ہی اس مفادِ عامہ کو فروغ دینے والی قوت ہیں اور ہم ان تمام پرسینل اور اداروں کے ذریعہ وہی کررہے ہیں جس کو مقبولیت عامہ حاصل ہے۔ تینوں طرح کی سرمایہ دارانہ ریاستیں چاہے وہ(١)لبرل ہوں (٢)اشتراکی ہوں (٣)قوم پرست ہوں… اس جائز نمائندگی کا دعوی کرتی ہیں۔

2۔mediationکے طریقے میں سرمائے کے عمومی مفاد کی ایک خاص تعبیر غالب اشرافیہ بزور قوت نافذ کرتی ہے۔ چوں کہ سرمایہ داری ایک جاہلیت ہے اور اس جاہلیت سے کسی قدر مطلق اور خیر کا تصور نہیں کیا جا سکتا اس لیے لامحالہ بیک وقت سرمائے کے مفاد ِ عمومی کی مختلف جہتوں سے مختلف تعبیریں کی جاتی ہیں۔ لیکن چھوٹا سا گروپ جو کہ حکومت کر رہا ہے ، وہ mediationکے ذریعہ یہ باور کراتا ہے کہ سرمایہ دارانہ مفادات جو تصور رکھتا ہے، وہی درست ہے اور اس کے عمومی مفاد کی تعبیر کے تحت مختلف انفرادی سرمایہ دارانہ مفادات کی تعبیروں کی تحدید کی جائے اور سرمائے کے عمومی مفاد کے تحفظ کے لیے اس کے تصور کے مطابق معاشرے اور ریاست کی صورت گری کی جائے۔

یہ دونوں کام بیک وقت بھی کیے جارہے ہوتے ہیں یعنی غالب اشرافیہ کی تعبیر مفاد عمومی کو مسلط بھی کیا جارہا ہوتا ہے اور نمائندگی کے اداروں کے ذریعہ اس مخصوص تعبیر کے حق میں رائے بھی بنائی جا رہی ہوتی ہے۔ نمائندگی جن اداروں (process)کے ذریعہ حاصل کی جاتی ہے وہ مندرجہ ذیل ہے:

١۔انٹرسٹ گروپس……… intrest groups

٢۔ ہیروز کی پرستش……… Heros

٣۔سیاسی پارٹیاں………political parties

٤۔ایڈمنسٹریشن اینڈ کورٹس… Administration and courts

(1)انٹرسٹ گروپس

انٹرسٹ گروپس وہ ہوتے ہیں جو کسی سرمایہ دارانہ حق کی طلب کی بنیاد پر لوگوں کو جمع کرتے ہیں۔ مثلاً پانی، صفائی وسیوریج کے مسائل، تعلیم، عورتوں پر ظلم وغیرہ وغیرہ… ظاہر ہے کہ جب اس قسم کے سرمایہ دارانہ حقوق کی بنیادپر لوگوں کو مجتمع کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس میں جمع ہونے والوں کی اخلاقی اور مذہبی حالت کی بنیاد پر کوئی تخصیص روا نہیں رکھی جاتی، مثلاً وہ مسلمان ہے یا قادیانی یا کوئی اور ، اسی طرح نمازی وپرہیز گار ہے یا زانی’ شرابی اور بے نمازی… بس ان کا مخصوص سرمایہ دارانہ حق کی طلب پر متفق ہونا ضروری ہوتا ہے۔ گویا ان انٹرسٹ گروپس کے ذریعہ وہ سرمایہ دارانہ اشرافیہ جو حرص وحسد کو یونیورسلائز کرنا چاہتی ہے’ وہ نفوذ کرتی ہے۔ ظاہر ہے کہ سرمایہ دارانہ حقوق کو طلب کر کے سرمایہ دارانہ نظام کو ہی مستحکم کیا جاتا ہے۔ ان کے نتیجے میں غیر سرمایہ دارانہ نظام نہیں برپا کیاجا سکتا۔

(2)  ہیروز

سائنٹیفک ہیروز ہوں یا میڈیا کے ہیروز ، ان کی امیج بلڈنگ کر کے بھی معاشرہ میں نفوذ کیا جاتا ہے، کیوں کہ اگر یہ لوگ مقبول عام ہوتے ہیں تو سرمایہ دارانہ عقلیت بھی مقبول عام ہوتی ہے۔

(3)سیاسی پارٹیاں

بنیادی طورپر سیاسی پارٹیاں بھی سرمایہ داری سے خاص چیز ہیں۔ سرمایہ داری سے پہلے جو مختلف گروہ اور طبقات سیاسی عمل میں شامل ہوتے تھے ان میں سیاسی پارٹیوں کی similiartiesتو تلاش کی جا سکتی ہیں، لیکن جن معنوںمیں اب سیاسی پارٹیاں خصوصاً اپوزیشن پارٹیاں وجود رکھتی ہیں، وہ سرمایہ دارانہ نظام سے پہلے نہیں تھیں۔ مختلف پارٹیاں ایک ہی سیاسی نظام پر بنیادی طورپر متفق ہوتی ہیں۔ اس نظام پر اصولی اتفاق کے بعد ان کے اختلافات جزوی اور فروعی ہوتے ہیں۔ یہ پارٹیاںلوگوں کو ایک اجتماعیت فراہم کرتی ہیں۔ لوگ ان کی لیڈر شپ کو اپناتے ہیں اور اپنا ایک خاص تشخص اور اپنی ایک خاص شناخت ان کے ذریعہ قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس خاص تشخص اور شناخت کے لیے اپنی توانائیاں اور صلاحیتیں صرف کرتے ہیں۔ یہ پارٹیاں سرمایہ دارانہ اشرافیہ کے نفوذ کا اس لیے اہم ترین ذریعہ ہیںکہ ان کی بنیادیںشناخت اور تشخص اصولی طورپر سرمایہ دارانہ نظام کا استحکام ہی ہوتا ہے۔

(4)  ایڈمنسٹریشن اور کورٹس

قانون کا نفاذ اس طریقے سے کیا جاتا ہے کہ وہ قانون غیر جانبدار نظر آئے۔ فیصلے ایسے ہوں کہ وہ مفاد عامہ کو مدنظر رکھتے ہوئے غیر جانبدارانہ فیصلے کیے گئے ہیں تا کہ سرمایہ دارانہ نظام پر ایمان متزلزل نہ ہو اور کسی غیر سرمایہ دارانہ نظام کی جانب جھکاؤ نہ ہو۔

(5)سرمایہ دارانہ تحریکیں

سرمایہ دارانہ تحریکیں مثلاً قوم پرست، اشتراکی یا انارکسٹ تحریکیں سرمایہ دارانہ اشرافیہ کے نفوذ کا بڑا اہم ذریعہ ثابت ہوئی ہیں، کیوں کہ ان میں بھی غیر سرکاری تنظیموں (NGOS)اور پروفیشنلز ایسوسی ایشنز اور انٹرسٹ گروپس کی طرح سرمایہ دارانہ حقوق کو ہی طلب کیا جاتا ہے۔ اب تحریکوں کے نتیجے میں سرمایہ دارانہ اشرافیہ ہی کی سبقت قائم کی جاتی ہے اور سرمایہ دارانہ عقلیت ہی عمومیت اختیار کرتی ہے۔

قوم پرست اور اشتراکی تحریکیں لبرل سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف بڑی کامیاب تحریکیں رہی ہیں، لیکن انہوں نے بھی لبرل سرمایہ داروں کی جگہ قوم پرست اور اشتراکی سرمایہ داروں کی حاکمیت قائم کی ہے، کوئی غیر سرمایہ دارانہ نظام نہیں قائم کیا۔

  ٢۔ Mediation:۔

جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے کہ Mediation کے ذریعہ سرمایہ کے عمومی مفاد کی ایک خاص تعبیر کو نافذ کیا جاتا ہے۔ Mediationمندرجہ ذیل اداروں اور طریقوں کے ذریعے کی جاتی ہے۔

(ا)فوج و پولیس۔

(٢)کورٹس اور عدلیہ کا نظام۔

(٣)شمولیت (سیاسی مخالفین کو ساتھ ملانا)۔

(٤)اخراج کر دینا(مخالفین کو بے دست وپا کر دینا)۔

(٥)سوشل ویلفیئر۔

(٦)صنعتی تعلقات۔

ایک خاص قسم کے ڈسپلن کو نافذ کرنے کے لیے سب سے اہم ادارے تو پولیس اور فوج ہیں۔ اس کے علاوہ کورٹس اور عدلیہ کا نظام ہے۔ یہ اس لیے اہم ہیں کہ سرمایہ دارانہ عقلیت میں راسخ العقیدہ لوگ جو فیصلے کرتے ہیں اس میں یہ کوشش کی جاتی ہے کہ وہ فیصلے مقبول عام بھی ہوں۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی بہت اہم ہے اور اس بات کو بھی ممکن بنایا جاتا ہے کہ اگر ان کے خلاف کوئی عمل ہو تو ان کوسزا بھی دی جا سکے، اس کے لیے متذکرہ ادارے بہت اہمیت کے حامل ہیں۔

شمولیت  (CO-OPTION)

اس سے مراد یہ ہے کہ ایسے گروہوں کو ساتھ ملا لیا جائے جو کسی طرح راہ میں رکاوٹ بن سکتے ہوں اور جو سرمایہ دارانہ نظام کے اپوزیشنل گروپ نظر آتے ہوں۔ سرمایہ دارانہ نظام میں” شمولیت ”کی ایک بہترین مثال ڈیمو کریسی کی ہے۔ سوشل ڈیموکریسی کے ذریعہ سوشلسٹ طرزِ فکر کے حاملین کو اس کا قائل کر لیا جاتا ہے کہ وہ سرمایہ دارانہ نظام میں محدود حقوق کی طلب پر اکتفا کر لیں۔ اس میں مزدور نے اپنی جدوجہد اس پر مرکوز کر دی کہ اس نظام یعنی سرمایہ دارانہ نظام میں میرا وہ حصہ مجھے نہیں دیا جارہا  جس کا میںحق دار ہوں۔ اور مزدوروں کی جماعت کو حکومت میں شامل کر لیا جائے۔ اس طرح محدود حقوق فراہم کرکے اورمراعتیںفراہم کر کے بڑی جدوجہد سے ان کو دست کش کرا لیا جاتا ہے۔ co.optionکی اور بھی مثالیں ہو سکتی ہیںمثلاً اسلامی جماعتوں کو بھی اگر سرمایہ دارانہ حکومت میں شامل کر لیا جائے تو وہ سرمایہ دارانہ نظام حکومت کا ایک جواز فراہم کر سکتی ہیں اور اسلامی امارت و خلافت کی جدوجہد سے دست کش ہو سکتی ہیں اور اس بات پر راضی ہوسکتی ہیں کہ محدود مراعتیں حاصل کر لیں اور معمولی اور بے ضرر قسم کے علاقی اسلامی اقدامات پر مطمئن ہو جائیں۔ اس co.optionسے co.optہونے والا گروہ اپنی فطریconsituencyسے دور ہوتا چلا جاتا ہے اور consituencyمیں اپنی legitimacyکھو دیتا ہے۔

اخراج (Exclusion)

سرمایہ دارانہ نظام میں معاشی عمل اور سیاسی عمل اس طرح ترتیب دیا جاتا ہے کہ قوت ان ہاتھوں میں مرتکز ہوتی چلی جاتی ہے جو سرمایہ کی بڑھوتری کے اصول کو بنیادی عقیدہ بنا لیتے ہیں اور جو یہ عقیدہ نہیں رکھتے انہیں اس قابل نہیں رہنے دیا جاتا کہ وہ مجموعی سیاسی یا معاشی عمل میں کوئی فیصل کردار ادا کرسکیں، مثلاً آزاد کشمیر پاکستانی ریاست میںExcludedایریا ہے یا صوفیاء کرام کی معاشرتی اور ریاستی حیثیت کو اس نہج پر پہنچا دیا گیا ہے کہ وہ فیصل کردار ادا نہ کر سکیں۔

سوشل ویلفئیر

آخری چیز سوشل ویلفیئر ہے۔ یعنی رفاہ عامہ کے کاموں پر ہی ساری جدوجہد کو مرکوز کردیا جائے اور عوام کو سیاست علیا کے معاملات سے ہٹا کر مرکزی معاملہ یہی رہ جائے کہ رفاہ عامہ کے کتنے کام ہو رہے ہیں؟ اسی طرح سوشل ویلفیئر سسٹم اور نیشنل انشورنس کا پورا نظام ہے جن کے ذریعہ سرمائے کے مفاد عمومی کی ایک خاص تعبیر کے نفاذ کو ممکن بنایا جاتا ہے اور یہ طریقے ہیں جس سے سرمایہ دارانہ ڈسپلن قائم ہوتا ہے۔

بطور نمائندگی جن اداروں اور طریقہ کار کا تذکرہ ہوا اور بطور Mediationکے جن اداروں اور طریقہ کار کاتذکرہ ہوا ان کو جمہوری حکومتوں میں بھی بروئے کار لایا جا سکتا ہے اور استبدادی (ڈکٹیٹر شپ) حکومتوں میں بھی بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ ذیل میں وہ مختلف ترتیب بیان کی جاتی ہے جومیرے خیال میں مختلف طرز کی حکومتوں میں ممکن ہے۔ نمائندگی کے ادارے اگر جمہوری حکومت میں ہو ں تو ان کی مندرجہ ذیل ترتیب ہو سکتی ہے:

(١) انٹرسٹ گروپس (٢)سیاسی جماعتیں (٣)ہیروز (٤)انتظامیہ اور کورٹس

نمائندگی کے اداروں کی ترتیب استبدادی حکومت میں مندرجہ ذیل طریقے سے ممکن ہے۔

(١)عوامی تحریکیں (٢)ہیروز (٣)انتظامیہ اور کورٹس (٤)انٹرسٹ گروپس

اسی طرح Mediationکے اداروں کی ترتیب جمہوری حکومت میں مندرجہ ذیل ہو سکتی ہے۔

(١)کورٹس اور عدلیہ کا نظام (٢)شمولیت (Mediation ) (٣)سوشل ویلفیئر (٤)اخراج (٥)پولیس اور فوج

 اس کے علاوہ Mediationکے اداروں کی ترتیب استبدادی حکومتوں میں یوں ممکن ہے۔

(١)کورٹس اور عدلیہ کا نظام (٢)پولیس اور فوج (٣)اخراج (٤)شمولیت (٥)سوشل ویلفیئر

اب تک سرمایہ دارانہ ریاست کا ایک عمومی خاکہ مرتب کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اگر ہم کسی جگہ اسلامی نظام کو غالب کرنا چاہتے ہیں تو وہاں سے سرمایہ دارانہ نظام کا کلیتاً انہدام ضروری ہے، کیوں کہ اسلامی نظام اورسرمایہ دارانہ نظام میں اختلاف جزوی نہیں بلکہ اصولی اور بنیادی ہے۔ اب یہ اسلامی نظام کی پیش قدمی اور سرمایہ دارانہ نظام کا کسی مخصوص ملک سے اخراج کس طرح ممکن ہو گا اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے مخصوص ملک میں سرمایہ داری اور اس کی مخصوص نوعیت کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اگر ہم پاکستان میں ایسی اقدامی حکمت عملی ترتیب دیں اور پیش قدمی کرنا چاہیں تو دینی تحریکوں کو مندرجہ ذیل سوالوں کے جوابات حاصل کرنا ضروری ہے۔

(١)پاکستانی ریاست کی نوعیت کیا ہے؟

(٢)کیا پاکستان ایک قومی لبرل ریاست ہے یا باجگزار ریاست؟ یا دونوں کا مجموعہ ہے؟

(٣)پاکستان میں سرمایہ دارانہ عقلیت غالب کرنے کے لیے کون سے ادارے کلیدی اور کون سے معاونین کی حیثیت رکھتے ہیں؟

(٤)کیا ان کلیدی اور معاونین گروپس میں تعلق مفاہمت کا ہے یا مخاصمت کا؟ اور مخاصمت کی صورت میں اس کی نوعیت کیا ہے؟

(٥)طرزِ حکومت کی ترجیحات اور قوتِ نافذہ کے استعمال کے تناظر میںکیا پاکستان ایک لبرل جمہوری ریاست ہے یا آمرانہ؟

(٦)سرمایہ داری کے استحکام اور فروغ کے لیے پاکستان میںبحیثیت قومی لبرل ریاست یا باجگزار ریاست کیا بنیادی فیصلے ہو رہے ہیں؟

(٧)ان فیصلوں کے صدور اور نفاذ کے لیے کون سے ادارے، پروسیس(process )اور افراداہمیت کے حامل ہیں؟

(٨)کون سے افراد یا کون سے عہدے کی سطح پرکلیدی فیصلے کیے جاتے ہوںاور وہ کیااسٹرکچرز ہیں جن سے ان کی تنفیذ کو ممکن بنایا جاتا ہے؟

(٩)بیورو کریسی میںفیصلہ کرنے کی اہم ترین سطح کیا ہے اور ان فیصلوں کی تنفیذ کی اہم ترین سطح کیا ہے؟

(١٠)کون سے ادارے اور کون سے عوامل ہیں جن کو کمزور کر کے سرمایہ دارانہ تعقل کو غیر معقول کیا جا سکتا ہے؟

عالمی سرمایہ دارانہ تنظیم اور امریکہ

ادریس اسمٰعیل

مغربی تہذیب پوری دنیا پر اپنا تسلط قائم رکھنے کی جدوجہد میں مصروف عمل ہے چنانچہ اس تہذیب سے واقفیت ہمارے لیے غلبہ اسلام کی جدوجہد میں بالکل بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ مغربی تہذیب سے واقفیت کے ضمن میں بنیادی چیز جو ہمارے پیش نظر رہنی چاہئے وہ یہ کہ جو نظام عملی طور پر مغرب میں غالب ہے وہ سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام اپنی منہج میں ایک فکر اور نظریہ ہے جس کی بنیاد پر ایک سرمایہ دارانہ شخصیت کا قیام اور اس کا فروغ بھی ہوتا ہے اور اسی کے ساتھ ساتھ یہ تہذیب اس نظام کو قائم و دائم رکھنے کے لیے سیاسی صف بندی بھی فراہم کرتا ہے۔ ان مختلف سطحوں پر قوت کو مرتکز کرنے کے لیے سرمایہ درانہ نظام اداروں کا ایک ہمہ گیر ڈھانچہ کھڑا کرتا ہے جو اس نظام کو شخصی’ معاشرتی اور ریاستی سطح پر قوت فراہم کرتا ہے۔ لہٰذا اس نظام کو کہ جس کا بنیادی کلمہ ”لا الہ الا الانسان” ہے تباہ کرنے کے لئے اس نظام کی’ اس فکر اور اس کے اداروں کی اور اس کی پشتی بانی کرنے والی ریاست امریکہ کے بارے میں بھرپور تفہیم کی ضرورت ہے۔

سرمایہ درانہ نظام کے بارے میں سب سے پہلی بات یہ سمجھنی چاہئے کہ یہ نظام جس طرح کی فکر و شخصیت’ معاشرہ اور ادارے کی تشکیل کرتے ہیں وہ فطری نہیں بلکہ حادثاتی ہیں۔ یعنی تاریخ کے ایک خاص دور میں لوگوں نے الہامی تہذیب کو رد کرکے انسان کو خدا بنانے کا project اختیار کیا۔ دنیا پرستی اور انسان پرستی کی فکر تحریک تنویر کی بنیاد بنی جس نے مذہب کو (خواہ اس کی حیثیت کتنی ہی کمزور کیوں نہ تھی) اپنے انفرادی’ معاشرتی اور ریاستی دائروں سے باہر کر دیا اور زندگی کے تمام فیصلوں اور تمام شعبوں کی بنیاد تکاثر پر رکھی۔

چونکہ سرمایہ دارانہ نظام فطری نہیں بلکہ حادثاتی ہے اس لئے اس نظام کو قائم و دائم رکھنے کے لئے ایک زبردست ریاستی جبر کی ضرورت ہوتی ہے۔ اٹھارویں، انیسویں اور بیسویں صدی کے وسط تک یہ ریاستی جبر یورپی استعمار کی شکل میں متحرک نظر آتا ہے۔ اگر ہم برصغیر کے تناظر میں انگریزی استعمار کا مختصراً جائزہ لیں تو ہمیں وہ دور مسلمانوں کی شکست کا نظر آتا ہے۔ مجاہدین اور علماء کی بڑی تعداد میں شہادت کے باوجود بھی ہم اس استعمار کو تہذیبی شکست نہ دے سکے۔ مسلمانوں نے کافروں سے نفرت کا بھرپور اظہار تو کیا لیکن ہم نے انگریزی استعمار کو تاتاریوں کے غلبے کی طرح دیکھا۔ چونکہ ہندوستان ایک بڑا اور الگ تھلگ Isolated  ملک تھا اور یہاں کے رہنے والوں کو کبھی مغربی تہذیب سے واسطہ نہیں پڑا تھا اس لئے انگریزی استعمار کے غلبے کو ہم نے محض ایک عسکری غلبے کے طور پر دیکھا اور اس کے علوم اور تہذیبی پہلو سے صرف نظر کیا چنانچہ مغربی استعمار سے جہاد کے باوجود مغربی علوم اور افکار کی ہیبت ان کی حقانیت اور مرعوبیت دل میں بیٹھ گئی۔ مغربی علوم و فکر سے ناواقفیت کی وجہ سے ہم اسلام اور کفر میں فرق کو واضح نہ کرسکے نتیجتاً ١٨٥٧ء کے جہاد سے ١٩٢٠ میں شیخ الہند حضرت محمود الحسن اسیر مالٹا کی وفات تک ایک طویل جدوجہد تھی کہ جس کی قیادت علمائ’ مجاہدین اور تحریکی لوگوں کے ہاتھوں میں رہی لیکن ١٩٢٠ کے بعد قیادت سیکولر لوگوں کے ہاتھوں میں چلی گئی۔ جدوجہد کا رنگ جمہوری ہو گیا۔ مغربی علوم’ افکار اور اداروں کو مسلمان فطری سمجھنے لگے اور غلبہ دین کی بجائے الگ الگ قوم اور ملک کی جدوجہد شروع ہو گئی۔

١٩٨٠ کی دہائی میں جہاد افغانستان نے مسلمانوں کے اندر غلبہ اسلام کو ایک ممکن حصول جدوجہد بنادیا چنانچہ آج سرمایہ دارانہ نظام کی پشتی بانی کا کام جو استعمار کر رہا ہے اس کو اچھی طرح سمجھ کر اور پھر حکمت عملی تیار کرکے ہی ہم ان خطرات سے بچ سکتے ہیں جن کا شکار ہم انگریزی استعمار کے وقت ہوئے تھے۔

آج کا استعمار پہلے کے مقابلے میں کمزور ہے:

آج کا استعمار پچھلی صدی کے استعمار کے مقابلے میں بہت سی کمزوریاں رکھتا ہے جس کا سمجھنا بہت ضروری ہے۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ آج خود مغرب میں اس کے بنیادی نظریات و افکار پر سے ایمان متزلزل ہورہا ہے۔ آج خود مغرب اپنے نظریات کی عقلی دلیل دینے سے قاصر ہے۔  پس جدیدیت  (Post Modernity) اس کی واضح مثال ہے جو ان افکار اور نظریات کو اختیار کرنے کی وجہ ان نظریات کا مغربی تاریخ اور روایات کا حصہ ہونا قرار دیتا ہے۔ ظاہر ہے کہ مغرب کی یہ پوزیشن انگریزی استعمار کے دور کے مقابلے میں بہت کمزور ہے کہ جس وقت مغرب کو اپنے علوم اور نظریات کے آفاقی ہونے کا یقین تھا اور اس کے لیے ان کے پاس عقلی دلائل کی بہتات تھی۔

دوسری بنیادی بات یہ ہے کہ عملی طور پر سرمایہ دارانہ نظام عالمی(Global) ہو گیا ہے۔ پچھلی صدی میں سرمایہ قومی ریاستوں میں مرتکز ہوتا تھا یعنی جاپانی سرمایہ’ انگریزی سرمایہ’ فرنچ سرمایہ وغیرہ اس لئے سرمائے کی بڑھوتری کے لئے قومی ریاستوں کا نظام چلتا رہا۔ لیکن اب سرمایہ عالمی ہو گیا ہے اور عالمگیریت   (Globalization) کا مطلب بھی یہی ہے کہ سرمایہ Global ہو گیا ہے اب وہ ریاستوں کے کنٹرول میں نہیں رہا بلکہ اب سرمایہ مرتکز ہوتا ہے بین الاقوامی کارپوریشن اور مالیاتی اداروں  (Multi National Corporations and Financial Institutions) وغیرہ میں چونکہ سرمایہ Global ہو گیا ہے اس لئے اس نظام کو Global سطح پر جاری اور نافذ رکھنے کے لئے ایک عالمی ریاست) (Global State کی ضرورت ہے۔ لیکن سرمایہ دارانہ نظام کی ایک بڑی کمزوری یہ ہے کہ اس کا سیاسی نظام جمہوری ہے اور جمہوریت کے نتیجے میں کوئی Global State قائم کرنے سے مغرب قاصر ہے۔ چنانچہ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے جو ریاست وجود میں آئی وہ امریکہ ہے۔

سرمایہ درانہ نظام کے بارے میں تیسری بنیادی بات اس کی عدم مساوات کی خصوصیت ہے۔ اصولاً سرمایہ داری مساوات کا دعویٰ کرتی ہے لیکن عملاً چونکہ مارکیٹ کی سطح پر سرمایہ مختلف مقدار میں ہوتا ہے اس لئے معاہدات (Contract)  برابری کی سطح پر نہیں ہوتے۔ سرمایہ مسلسل ارتکاز کے عمل سے گزرتا رہتا ہے اس لئے مارکیٹ میں عدم مساوات میں مستقل اضافہ ہوتا رہتا ہے مارکیٹ کے اس رحجان (Frustration) کو پورا کرنے کی اور عدم مساوات کو جواز فراہم کرنے کے لئے ریاست کی سطح پر جمہوریت ایک کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ ریاستی سطح پر جمہوری نظام اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ مارکیٹ کی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام آپ کے ساتھ جو ناانصافی کرتا ہے اس کی تلافی ریاست کی سطح پر آپ کا ووٹ کرتا ہے۔ ریاست کی سطح پر آپ کا ووٹ بش’ پرویز یا بل گیٹس کے برابر ہے اور ریاستی سطح پر تمام لوگ برابر ہیں۔ اسی کا نام ہیتی مساوات (Formal equaily) ہے اس لئے ہئیتی مساوات کو وسعت اور فروغ دینا سرمایہ دارانہ نظام کی بقا کے لئے ناگزیر ضرورت رہتی ہے۔

سرمایہ دارانہ ریاست اپنی توسیع کے لئے دو طریقے اختیار کرتی ہے پہلا اور بنیادی طریقہ جبر و استبداد کا ہے اور دوسرا برضاء و رغبت کاہے۔ جہاں تک قوت و جبر کا تعلق ہے امریکی ریاست کا وجود ہی ڈیڑھ کروڑ سرخ ھندی  (Red Indian) کے دو صدیوں کے منظم نسل کشی پر قائم ہوا۔ ان کی زمینیں چھینی گئیں ان میں مختلف اقسام کی بیماریاں پھیلائی گئیں، یہی رویہ امریکی ریاست اسرائیل کا ہے جو وہ فلسطین کے ساتھ کر رہا ہے یہی تاریخ سرخ ھندیوں کے بعد سے آج تک جاری ہے۔ کیوبا’ کوریا’ میکسیکو’ ویتنام’ چین’ سوڈان’ لبنان’ بوسنیا’ افغانستان عراق غرض ایک طویل سلسلہ ہے جو صرف سرمایہ دارانہ نظام کی مکمل بربادی پر ہی رک سکتا ہے۔

ریاستی جبر کا خاص تعلق سرمایہ دارانہ نظام جہاں قائم ہوگا وہاں افراد’ معاشرہ’ ادارے اور ریاست میں سفاکی’ ظلم’ بربریت ایک لازمی صفت کے طور پر کام کرے گی اس کی شکل ریاست کے اند اور ریاست کے باہر مختلف ہوگی۔

سرمایہ دارانہ ریاست کی بنیادی اقدار حقوق انسانی’ رواداری اور برداشت کا نظریہ، جمہوریت، Freedom (آزادی) کو اگر کوئی معاشرہ یا ریاست برضا و رغبت اختیار کرلیتی ہے اور اس ریاست میں ضمیر کی آزادی کا حق اور سرمایہ درانہ ملکیت کا حق عوام کو دیا جاتا ہے’ نتیجتاً ایک دستوری ریاست وجود میں آجاتی ہے اور زندگی سرمایہ دارانہ خطوط پر مرتب ہوجاتی ہے تو پھر اس ریاست کو دوستی کا درجہ دیا جاسکتا ہے اور اگر یہ اقدار برضا و رغبت قبول نہ کئے جائیں تو پھر جبر و قوت کا استعمال ناگزیر ہوجاتا ہے خواہ وہ ریاست افغانستان و عراق ہو یا شمالی کوریا۔

مغرب کے حوالے سے مغالطہ آمیز گفتگو

اس لئے امریکی جبر و قوت کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمیں سب سے پہلے اس قوت کے پیچھے کار فرما نظریات اور ان اصطلاحات کو سمجھنا ہوگا جنہیں مغرب نافذ کرنا چاہتا ہے آج بھی ہمارے مفکرین کا اعتراض مغرب پر یہ ہوتا ہے کہ امریکہ حقوق انسانی اور آزادی کی بات کرتا ہے بہت اچھی بات ہے لیکن خود اس پر عمل نہیں کرتا۔ اس اعتراض کو کرنے سے پہلے ہمیں اپنے دینی اصطلاحات نماز’ تقویٰ’ صبر’ نیکی ‘ گناہ وغیرہ کو دیکھنا ہوگا جس طرح اسلامی اصطلاحات کی کسی قادیانی یا پرویزی تفسیر کو ہم نہیں مان سکتے خواہ وہ کتنی ہی نیک نیتی سے کی گئی ہو بالکل اسی طرح مغربی اصطلاحات کی اسلامی تفسیر سوائے اپنے آپ کو خوش فہمی میں مبتلا کرنے کے اور کوئی حیثیت نہیں رکھی چنانچہ مغربی اصلاحات کو مغرب ہی کی تفسیر کے مطابق سمجھنا اور اس کا اسلامی محاکمہ کرنے کی ضرورت ہے۔

اس سلسلے میں اگر ہم رواداری کو لیں تو رواداری کے معنی یہ ہیں کہ Public سطح پر یعنی معاشرتی اور ریاستی سطح پر تو سرمایہ درانہ نظام ہی چلے گا ہاں (Private) ذاتی سطح پر آپ کی جو مرضی آئے آپ چاہ سکتے ہیں۔ ذاتی سطح پر آپ اسلام چاہیں یا عیسائیت’ نماز پڑھیں یا شراب پئیں۔ زنا کریں یا اس سے نفرت کریں آپ کو کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا ہے ہاں معاشرتی یا ریاستی سطح پر قوت یا قانون کے ذریعہ اس کا اظہار کرنے کی قطعاً گنجائش نہیں ہے ریاستی اور معاشرتی سطح پر قدر بڑھوتری برائے بڑھوتری ہی ہوگی یہی Toleration یا رواداری ہے۔

امریکی دستور اور حقوق انسانی کا منشور کتاب اللہ کارد ہے

امریکا کی خاص حیثیت سرمایہ دارانہ نظام میں یہی ہے کہ امریکا وہ پہلی اور واحد ریاست ہے جس کے قیام کا مقصد حقوق انسانی اور رواداری کو قائم کرنا ہے اس کے علاوہ امریکی قومیت کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ امریکہ کا اعلان آزادی Decleration of Independace جو 1776 میں ہوا’ Fedralist Papers (وہ بنیادی مسودہ جس کی بنیاد پر امریکی دستور بنا) اور امریکی دستور تینوں اسی فلسفے کی غماز ہیں۔ امریکی ریاست سرمائے کے لئے تعمیر شدہ دستوری ریاست ہے اور اس کے بعد جتنے بھی دساتیر بنے وہ سب امریکی دستور ہی کی تفسیر و تعبیر ہیں خود UNO کا Decleration Of Human rights (چارٹر آف انسانی حقوق) امریکی صدر روز ویلٹ کی بیوی نے لکھا ہے جو امریکی دستور ہی سے ماخوذ ہے۔ اسی دستور نے امریکا میں انجیل کی جگہ لی اور اسی دستور نے اسلامی دنیا میں قرآن کو بے دخل کیا۔ جس طرح مغرب نے کتاب اﷲ کو رد کرکے کوئی اور کتاب اﷲ نہیں رکھی بلکہ دستور کو بنیاد بنایا۔ بالکل اسی طرح مسلمان بھی دستور کی حیثیت کو تبدیل نہیں کرسکتے خواہ وہ کتنا ہی اسلامی دستور بنالیں۔

اس لئے امریکی ریاست کی ابتداء دستور بننے کے بعد کی ہے اس سے قبل کی تاریخ کو وہ رد کرتے ہیں بالکل اسی طرح جس طرح نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت اور ہجرت کو ہم اپنی تاریخ شمار کرتے ہیں۔

دستوری ریاست کو جاننے کے بعد امریکی ریاست کی دو متضاد حیثیتیوں کو جاننا بھی ضروری ہے پہلی حیثیت سرمائے کی عالمی ریاست کی ہے اور دوسری حیثیت قومی جمہوری ریاست کی ہے۔

امریکا: عالمی سرمایہ داری کا محافظ

امریکا کی عالمی سرمایہ درانہ نظام کے محافظ کی حیثیت سے کچھ خصوصی فرائض ہیں جن کا تعلق سرمائے کے عالمی مفاد سے متعلق ہے لیکن ان فرائض کو ادا کرنے کے لئے امریکی ریاست کو امریکی عوام سے مسلسل صاد لینی پڑتی ہے۔ عوام الناس کا محرک اغراض ہوتی ہے اس لئے ریاست کو سرمائے کے عالمی مفاد کا خیال اس طریقہ سے رکھنا پڑتا ہے کہ جس سے امریکی عوام کے مفادات متاثر نہ ہو۔ امریکی عوام اور ریاست کے درمیان مختلف اختلافات کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہئے مثلاًافغانستان اور عراق کی جنگ کو عالمی سرمائے کے تحفظ کے لئے ناگزیر سمجھا گیا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ قومی نقصانات کے پیش نظر عوامی حلقوں میں جنگ کی مخالفت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ یہ رویہ بھی امریکا کی محدودیت پر دلیل ہے کہ چونکہ عملاً Global State کی حیثیت میں بڑا تضاد ہے اس لئے آج یہ فیصلہ کرنا کہ سرمایہ داری کے فروغ اور اس کے تحفظ کے لئے کون سا قدم زیادہ بہتر ہے امریکہ کے لئے بہت مشکل ہے سرمایہ دارانہ ممالک کے درمیان پالیسیوں کا اختلاف بھی اسی تناظر میں دیکھنا چاہئے۔

سرمایہ دار ریاستوں کی اہم کمزوری

سرمایہ دارانہ ریاست کی ایک اہم کمزوری اس کے نظریے کے لئے قربانی دینے کی صلاحیت ہے اسی کے دو اجزاء ہیں پہلا جز خود مغرب کی عددی قوت ہے جو کہ وقت کے ساتھ ساتھ اپنے نظریات (انسان پرستی’ جمہوریت اور انسانی حقوق پر عمل پیرا ہونے کے نتیجے میں اس معاشرے میں روبہ زوال ہے۔ عورتیں بچے پیدا کرنے اور ان کی پرورش سے انکاری ہیں چنانچہ سرمایہ درانہ ریاستیں عددی طور پر خودکشی کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہیں دوسرا جز دنیا پرستی اور موت کا خوف ہے ان دو وجوہات سے اپنے نظریے کے لئے قربانی دینے کی صلاحیت ان ریاستوں میں تیزی سے کم ہورہی ہے عراق کی شکست اس بات کا بین ثبوت ہے کہ مغرب کوئی ایسی لڑائی لڑنے سے قاصر ہے جو وہ کم مدت اور کم قربانی سے جیت نہ سکے۔چنانچہ اس کمی کو دور کرنے کے لئے روبوٹ ک تیاری’ Space War Program انسانی کلوننگ اور اعضاء کی کلوننگ پر زبردست تحقیق جاری ہے۔ لیکن ان تمام کوششوں کے باوجود جس نوعیت کی الوالعزمی استعماریت کی بالادستی کو قائم رکھنے کے لئے چاہئے وہ امریکہ کے بس کی بات نہیں۔اس کمی کو دور کرنے کی سیاسی کوشش Bureaucratization of high politics یعنی اعلیٰ سیاست کو بیورو کریسی کے حوالے کردینا ہے۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد اقوام متحدہ کے ماتحت ایسے ادارے قائم کئے گئے ہیں جن کی نوعیت Technical  Agency  کی ہے۔ جو فیصلے ریاستیں سیاسی اجتماع کی بنیاد پر کرتی ہیں فنی ادارے یہ فیصلے سرمایہ دارانہ فنی بنیادوں پر کرتے ہیں اور ان فیصلوں کو ایک عقلانہ فیصلے کے طور پر پوری دنیا کے ممالک میں نافذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں یہ ایک مستقل عمل ہے جو بڑی تیزی سے غیر سرمایہ درانہ ممالک میں بڑھ رہا ہے چنانچہ مغرب کے جمہوری عمل کے غیر سرمایہ دارانہ ممالک میں پھیلائو کی راہ میں ایک رکاوٹ اور عام طور پر جمہوری عمل سے لوگوں کی غیر وابستگی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پہلے جو فیصلے سیاسی جماعتیں پارلیمنٹ کے اندر بحث و مباحثے کرتی تھیں اب وہ تمام فیصلے یہ Technical Agencies  کرتی ہیں اور اس بات کی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ جب ترقی یا سرمائے کی بڑھوتری برائے بڑھوتری ہی ریاستی عمل کا مقصد ہے تو یہ مسئلہ کوئی سیاسی نہیں بلکہ فنی مسئلہ ہے اور کسی خاص ملک میں ترقی کیسے ہوگی اسکا جواب Techinical  ماہرین دیں گے۔ اس کا جواب World Bank` IMF` WTO اور دیگر Technical ا دارے دیں گے۔

اس عمل کے نتیجے میں آہستہ آہستہ سیاسی اور مذہبی ایشوز غیر سیاسی اور  Technical بنیادوں پر طے کئے جاتے ہیں اور یہ عمل بڑھ کر تمام شعبوں پر حاوی ہوجاتا ہے چنانچہ دفاع’ صحت اور پاپولیشن’ ماحول (Environment) وسائل کا استعمال’ سمندری قوانین’ معدنیات کے قوانین غرض سرمایہ درانہ اداروں اور ان کے قوانین کا ایک سیلاب ہے جو ہر طرح کے قومی اور مذہبی اقدار کو تہس نہس کردیتا ہے اس لئے ان اداروں اور قوانین کو الگ الگ نہیں دیکھنا چاہئے بلکہ ان کی اچھائی اور برائی پر گفتگو کرنے کی بجائے ان کو سرمایہ درانہ نظام کے ایک جز کے طور پر دیکھنا چاہئے کہ یہ قوانین اور ادارے کس طرح سرمایہ درانہ نظام کو مضبوط کرنے کا انتظام کرتی ہے۔

سرمایہ درانہ نظام کو جو عالمی سطح پر تنظیم فراہم کرتی ہے وہ UNO ہے مگر  قوانین کے نفاذ کے لئے جو  ریاست قوت فراہم کرتی ہے وہ امریکا ہے  Iso  9000-9002  International  Accountancy Bodiesماحول ، کوالٹی  ، تجارت کے معیارات’ غرض یہ تمام معیارات اور قوانین امریکی جبر کے نتیجے میں نافذ ہوتے ہیں اور یہ بھی ایک متضاد صورتحال ہے کہ سرمایہ تمام ریاستوں کو کمزور کرتا ہے لیکن امریکی ریاست کی قوت میں اضافہ اس کی ناگزیر ضرورت ہے۔ چنانچہ اس بات کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جب تک امریکی قوت کو بے دخل نہیں کیا جائے گا اور اس کی شان و شوکت کو توڑا نہیں جائے گا سرمایہ دارانہ نظام کو ختم کرنا ممکن نہیں لہٰذا سرمایہ درانہ نظام اور مغربی تہذیب سے مقابلہ دراصل امریکہ سے مقابلہ ہے۔

اس لئے امریکہ سے ہماری دشمنی کسی نسلی تعصب یا امریکی عوام سے نفرت کی بنیاد پر نہیں بلکہ عالمی سرمایہ درانہ نظام کے پشتی بان کی حیثیت سے ہے اور اگر وہ سرمایہ درانہ نظام کی پشت پناہی چھوڑ کر اسلام قبول کرلے تو وہ اسی طرح ہمارے بھائی ہوں گے جس طرح قریش مکہ کی حیثیت اسلام قبول کرلینے کے بعد تھی۔

سرمایہ دارانہ نظام کو تباہ کرنے کی حکمت عملی

جہاں تک سرمایہ دراانہ نظام اور امریکہ سے مقابلہ کی حکمت عملی کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں یہ بات اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ نظام کسی جز کا نام نہیں بلکہ یہ ایک ہمہ گیر تہذیب کی حیثیت رکھتا ہے جس کی علمیت’ اس کے ادارے اور اس کی عسکری قوت ایک اکائی کی حیثیت سے پوری دنیا پر غلبے کے لئے کوشاں ہے چنانچہ ایک لا الہ الا انسان کا عقیدہ رکھنے والی تہذیب سے مصالحت’ مکالمے اور افہام و تفہیم کی حکمت عملی کا سوائے اسلام کو ایک شکست خورہ تہذیب بنانے کے کوئی دوسرا نتیجہ نہیں نکل سکتا۔ ایسے معذرت خواہانہ انداز رکھنے والے مسلم مفکرین دراصل سرمایہ درانہ نظام کے بارے میں غلط فہمیوں کا شکار ہیں ایک توہ وہ مغرب کی عسکری طاقت سے خوفزدہ ہیں اور دوسرا وہ سرمایہ درانہ نظام کو دو حصوں میں تقسیم کرکے دیکھتے ہیں۔

اس نظام کے مطابق ایک حصہ خبیث ہے جس کا تعلق زنا ‘ شراب’ بے حیائی’ جرائم اور ظلم وغیرہ سے ہے جبکہ دوسرا حصہ جو کہ قابل رشک اور قابل تقلید ہے وہ علوم و فنون (سائنس و ٹیکنالوجی وغیرہ) حقوق انسانی’ قانون کی حکمرانی’ دولت کی فراوانی وغیرہ ہے چنانچہ مغربی تہذیب کی علمیت اور اس کے اقدار کو سمجھنا اور جو خباثت اس علمیت اور اقدار پر عمل کرنے کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں اس کو اسی تہذیب کے ایک جز کی حیثیت سے پہچاننا اور اس کے اقدار اور اداروں کو اقداری) (Value looded سمجھ کر اسے بالکلیہ رد کرنا ہی سرمایہ داری سے مقابلہ کرنا ہے۔

آج کے دور میں طالبان اور عرب مجاہدین نے جس عسکری جدوجہد کی بنیاد ڈالی ہے اسی جدوجہد کو معاشرتی’ معاشی’ سیاسی اور علمی بنیادوں پر منظم کرنے کی ضرورت ہے۔

آج جبکہ مغرب خود اپنی آفاقیت کے دعوے سے دستبردار ہوچکا ہے اور اس کے اقدار خود اس کے گڑھ میں متزلل ہورہے ہیں۔ اسلامی علوم اور اقدار کی آفاقیت پر اصرار کرنا ناگزیر ہوچکا ہے چنانچہ مغربی استعمار کو فنا کرکے اسلامی تہذیب کے غلبے کی جدوجہد کو ممکن بنانے کے لئے درج ذیل  بنیادی سوالات کا جواب تلاش کرنا ہے۔

(١) علوم کی سطح پر مغربی سرمایہ دارانہ علوم کا امام غزالی کے طریقے کار کے مطابق تہافہ کس طرح ممکن ہے؟

(٢) معاشرتی سطح پر خاندان’ برادرباں اور قبائل’ محلہ اور بازار’ مساجد اور مدارس اور دیگر معاشرتی اداروں کو کن خطوط پر منظم کریں تاکہ یہ ادارے نہ صرف عام مسلمانوں کو دنیا پرستی ترک کرکے آخرت کی طرف راغب کرنے کا کام کریں بلکہ کافر ریاست کے خلاف اسلام کے مضبوط قلعے ثابت ہوں۔

(٣) معاشی طور پر کیا پالیسیاں بنانی چاہیں کہ سرمایہ درانہ نظام کے Globalization کے نتیجے میں جو حلال کاروبار مشکل سے مشکل ہوتا جارہا ہے اس حلال کاروبار کو وسعت دے کر زیادہ سے زیادہ افراد کو اس میں شامل کیا جائے تاکہ ہماری جدوجہد اور ہمارا پیسہ سرمایہ درانہ نظام اور اس کے اداروں میں ضم نہ ہوجائے بلکہ اس نظام کو اس کے اداروں سمیت دیس نکالا دیا جائے۔

(٤) سیاست کو کن خطوط پر منظم کیا جائے تاکہ قوت تھانوں’ بیورو کریسی’ پارلیمنٹ اور فوج سے منتقل ہو کر علماء اور مجاہدین کے ہاتھوں میں آجائے۔

باب ششم

خصوصی مطالعہ

عالم اسلام اور مغرب کی کشمکش

نئے تناظر میں دینی تحریکوں کے کام میں تطبیق کی ضرورت

ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری

کیا واقعتا نظام بدل رہا ہے؟

            آج ہم جس دور سے گزر رہے ہیں اس کو تاریخی اعتبار سے نظامی تبدیلی [Systemic Transition] کا دور کہا جاسکتا ہے۔ ایسے ادوار پہلے بھی گزر چکے ہیں مثلاً سلطنتِ روم کے زوال کا دور ]دوسری سے چوتھی صدی عیسوی کا دور[ سلطنتِ عثمانیہ کے انحطاط ]اٹھارویں اور انیسویں صدی کا دور[ مسیحی یورپ کے انتشار کا دور ]پندرہویں اور سولہویں صدی[ وغیرہ۔ ان ادوار کی اہم ترین خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ ان میں ایک نظامِ زندگی آہستہ آہستہ معطل ہوتا جاتا ہے اور اس کی جگہ ایک یا کئی اور نظامِ ہائے زندگی کے اثر و نفوذ میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ ہم دورِ حاضر کے تناظر میں اس عمل کا جائزہ لیں گے لیکن پہلے نظامِ زندگی کے تصور کو واضح کرنے کی ضرورت ہے۔

١۔ نظامِ زندگی کیا ہے؟

            انسانی زندگی ایک مربوط عمل ہے۔ انسان کی سوچ، عمل اور تعلقات میں گہرا ربط ہے۔ عمل اور تعلقات سوچ کے اظہار کا ذریعہ ہیں۔ سوچ کی بنیاد احساس ہے۔ ہر شخص اپنے عمل کا خود ذمہ دار ان معنوں میں ہے کہ وہ لامحالہ اپنی انفرادی حیثیت میں یہ فیصلہ کرتا ہے کہ خیر اور شر کیا ہیں۔ اس دنیا میں اس کا مقام کیا ہے؟ اس کی زندگی کا مقصد کیا ہے؟ اور ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے اس کو کیسے اعمال و افعال اختیار اور کیسے تعلقات استوار کرنے چاہئیں؟ اسی بنیادی انفرادی ذمہ داری کا نتیجہ ہے کہ ہر شخص اپنی انفرادی موت سے دو چار ہوتا ہے اور اس کو انفرادی طور پر اپنی قبر میں اپنے اعمال کا جواب دینا ہوتا ہے۔

ہم مسلمان ہیں یا آزاد ہیں؟

            اپنی انفرادیت کے تعین کے لیے ہر شخص اس سوال کا جواب دینے پر مجبور ہے کہ ”میں کون ہوں؟” آج کل کے زمانہ میں اس سوال کے دو جوابات مقبول ہیں: ]١[ میں مسلمان ہوں ]٢[ میں آزاد ہوں۔

            ان میں سے جو جواب بھی دیا جائے وہ چند قبل از احساس اور قبل از فکر پر مبنی مفروضات پر منحصر ہوتا ہے۔ اسی چیز کو ”ایمان” کہتے ہیں۔ ایمان دلیل اور وجدان پر منحصر نہیں۔ دلیل اور وجدان ایمان پر منحصر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت نظام الدین اولیا رحمت اللہ علیہ کسی شخص کے ایمان لانے کو معجزہ کہا کرتے تھے۔ ]آپ کے دستِ مبارک پر ہزاروں لوگ ایمان لائے۔ کوئی شخص اپنے احساسات یا اپنی سوچ کی بناء پر ایمان نہیں لاتا۔ یہی وجہ ہے کہ نہایت عظیم مفکر اور روحانی پیشوا مثلاً ارسطو، گاندھی، ووکانندا، کانٹ، آئن انسٹائن وغیرہ ایمان نہیں لائے۔ ایمان کی دولت صرف اللہ تعالیٰ کے رحم و کرم کے نتیجے میں ملتی ہے۔ گاندھی تو ایمان نہ لائے لیکن ان پڑھ مرہٹہ لیٹرے ٹانٹیا گوپی کو خود سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے عالمِ خواب میں کلمہ پڑھوایا اور ٹانٹیا گوپی تقی الدین بن گئے اور شہادت سے قبل ان کی دنیا بدل گئی۔

احساس اور تفکرات کے اظہار کی دو سطحیں:

            احساس اور فکر کی بنیاد ایمان پر ہوتی ہے۔ اسی چیز کو ہم، صوفی تصورِ حال سے تعبیر کرتے ہیں۔ ہر فرد اپنے حال کے مطابق اپنے مقام کا تعین کرتا ہے جو شخص اسلام پر ایمان لایا اس کے احساسات اور افکار اسی کے ایمان کا پر تو ہیں اعمال اپنے احساس اور تفکرات کا اظہار ہیں اور یہ اظہار دو سطحوں پر ہوتا ہے۔

            ]١[ معاشرہ کی سطح پر ]٢[ ریاست کی سطح پر

اقدار بدلنے سے ادارے بھی بدل جاتے ہیں:

            معاشرہ اس اجتماع کو کہتے ہیں جو افراد بغیر جبر و اکراہ اپنی انفرادیت کے اظہار کے لیے قائم کرتے ہیں۔ چونکہ انفرادیت کا تعین مختلف ہے۔ کچھ لوگ مسلمان ہیں اور کچھ لوگ کافر۔ لہٰذا معاشرے بھی مختلف النوع ہوتے ہیں۔ معاشرہ رضاکارانہ [Voluntary] صف بندی سے وقوع پذیر ہوتا ہے یعنی معاشرہ میں مختلف ادارے وجود میں آتے ہیں مثلاً خاندان، مسجد، بازار، محلہ، قبیلہ، برادریاں، مدرسہ، مدینہ، نظامِ شفع وغیرہ۔ ان اداروں کے قیام کی بنیاد تاریخی روایات کا تسلسل ہے۔ ہر ادارہ معاشرتی تسلسل کا مظہر ہوتا ہے۔ وہ انہی اقدار کی غمازی کرتا ہے جو قدیم زمانے سے معتبر تسلیم کیے جاتے ہیں، لیکن جیسے جیسے ان اقدار میں تبدیلی آتی ہے معاشرتی ادارتی تنظیم بھی تغیر پذیر ہو تی ہے۔ مثلاً مسلم معاشرہ میں خانقاہی نظام تقریباً مکمل طور پر معطل ہوگیا ہے اور بالخصوص بازار کی زندگی پر خانقاہ کا اثر تقریباً ختم ہوگیا۔ خانقاہ کی جگہ Chambers of Commerce نے لے لی ہے۔ اسی طرح یورپی معاشرہ میں خاندان کا ادارہ ناپید ہوتا جا رہا ہے اور اس کی جگہ [Cohabitation] نے لے لی ہے۔

اقدار میں تبدیلی کی مثالیں:

            اس نوعیت کی تبدیلیاں جبر کی بنیاد پر وقوع پذیر نہیں ہوتیں۔ کراچی اور لاہور کے تاجروں نے بہ رضا وہ رغبت بغیر کسی جبر کے خانقا ہوں سے اپنے قدیم تعلقات آہستہ آہستہ منقطع کیے ہیں۔ نیویارک کا نوجوان زنا کو نکاح پر ترجیح دیتا ہے کوئی اس کو زنا کرنے پر مجبور نہیں کرتا۔ معاشرتی تغیر  [Social Change] کے عمل کی بنیاد اقدار کی تبدیلی ہے جبر نہیں ہے۔

ریاست کو جبر یا معاشرتی رضا سے ملنے والے اختیارات:

            لیکن معاشرہ کو ایک نظامِ جبر کی ضرورت ہے، اس نظامِ جبر کوریاست کہتے ہیں۔ ریاست معاشرتی اقدار کی بنیاد پر جائز و ناجائز حلال اور حرام کے ان تصورات اور پیمانوں کو نافذ العمل بناتی ہے جن کو معاشرتی سطح پر مقبولیت حاصل ہے، یا جن کو معاشرہ برداشت کرنے پر آمادہ ہے۔ ریاست محض نظامِ جبر نہیں بلکہ اقتدار کا وہ نظامِ جبر ہے جس کو عام مقبولیت یا عام برداشت حاصل ہو۔

            ریاست مقبول معاشرتی اقدار کو نافذ العمل بنانے کے لیے جبری صف بندی عمل میں لاتی ہے۔ یہ جبری ادارے مثلاً عدلیہ محصولاتی تنظیم، شہری انتظامیہ، محتسب، فوج۔ اس قوت کا اظہار اور ترتیب ہیں جو معاشرہ اپنے مقتدرین کو سونپنے پر راضی ہوتا ہے۔ اس معاشرتی رضا کی دو نوعیتیں ہوسکتی ہیں۔ ایک یہ کہ مقتدرین ریاستی نظام کے ذریعے ان اقدار کو نافذ کرنے کی کوشش کریں جو معاشرے کا ایک عام باشندہ فی الواقع پسند کرتا ہو، مثلاً ایک عام امریکی آزادی اور ترقی کو اقدار کے طور پر قبول کرتا ہے اور امریکی ریاست ان کو نافذ العمل بنانے کے لیے ملک میں اور ملک سے باہر۔ مثلاً عراق اور افغانستان میں جو جبر کرتی ہے ایک عام امریکی اس کا حمایتی ہے اور اس حمایت کا اظہار انتخابات میں بش کو منتخب کر کے کرتا ہے۔

عوامی رضا کی شکل برداشت بھی ہے:

            عوامی رضا کی دوسری شکل برداشت ہے۔ جب برصغیر میں انگریزی ریاستی نظام قائم ہوا تو جن اقدار کا وہ غماز تھا ان کو ہندوستانی معاشرہ میں قبولیت عام حاصل نہ تھی، لیکن ان اقدار اور ان پر قائم نظامِ اقتدار کو اکھاڑ پھینکنے کے لیے عوام خاطر خواہ قربانیاں دینے پر راضی نہ تھے، لہٰذا جہادِ ١٨٥٧ء اور حضرت شیخ المشائخ امداد اللہ مہاجر مکی رحمت اللہ علیہ اور حضرت شیخ الہند رحمت اللہ علیہ کی تحریکات جہاد ناکام ہوئیں اور علمائے دیو بند اور بریلی کا عوام نے ساتھ نہ دیا۔ مسلم عوام اور خواص انگریزی اقدار اور انگریزی اقتدار کو برداشت کرنے پر راضی ہوگئے۔ سرسید کامیاب ہوگئے اور پاکستان جدید مغربی اقدار، اقتدار و روایات کی وارث ریاست کے طور پر معرض وجود میں آیا۔

انسانی حیات تین سطحوں پر ہوتی ہے:

            اس گفتگو سے واضح ہوتا ہے کہ انسانی حیات تین سطحوں پر ہوتی ہے:

            ]١[ انفرادی سطح پر جہاں فرد اپنی ایمانیات کا تعین کرتا ہے اور ان ایمانیات کی بنیاد پر اپنے حال اور مقام کا تعین کرتا ہے۔ ]٢[ معاشرتی سطح پر جہاں ان اقدار کے فروغ کے لیے جن کو افراد نے غیر اکراہی طور پر اختیار کیے ہیں، غیر اکراہی یا رضاکارانہ voluntory صف بندی کہی جاتی ہے۔ ]٣[ ریاستی سطح پر جہاں جبری مقبول عام یا عام طور پر برداشت کیے جانے والے، اقدار کو قانون اور قوت کے ذریعہ نافذ العمل بنایا جاتا ہے۔

نظام زندگی تین سطحوں کے ارتباط کا نام ہے:

            ان تینوں سطحوں کے ارتباط کو ”نظامِ زندگی” کہتے ہیں۔ ”نظامِ زندگی” کا تصور حضرت شاہ ولی اللہ رحمت اللہ علیہ کی تصنیف ”حجة اللہ بالغہ” اور حضور رحمت اللہ علیہ کی دوسری تصانیف میں پیش کیا گیا ہے۔ بیسویں صدی میں اسی تصور کو مولانا مودودی رحمتہ علیہ نے اپنی دو کتابوں میں واضح کیا ہے۔ ”اسلامی نظامِ حیات” اور ”اسلامی تہذیب اور اس کے اصول و مبادی” ”نظامِ حیات” سے مراد وہ مجموعہ ہے جسے ”تہذیب” بھی کہا جاسکتا ہے۔ ہر تہذیب ایک مخصوص انفرادیت، ایک مخصوص معاشرت اور ایک مخصوص ریاست کو فروغ دیتی ہے۔ مولانا مودودی نے تعلیم دی ہے کہ ہمیں انفرادیت، معاشرت اور ریاست کو الگ الگ نظاموں کے طور پر تصور نہیں کرنا چاہیے۔ ایک خاص انفرادیت کا ایک مخصوص معاشرت اور مخصوص ریاست ہی میں پنپنا آسان ہوسکتا ہے۔ غیر مسلم معاشرہ اور غیر مسلم ریاست میں اسلامی شخصیت کا پروان چڑھنا مشکل ہوتا ہے۔

اسلامی جدوجہد کی تین سطحیں:

            یہ درست ہے کہ اسلامی جدوجہد تین سطحوں پر منتج ہے:

            ]١[ تزکیہ ]انفرادیت کی سطح پر[ ]٢[ تبلیغ اور نصیحہ ]معاشرت کی سطح پر[ ]٣[ جہاد اور خلافت ]ریاست کی سطح  پر[۔

            لیکن تحفظ دین اور غلبہ دین کی تحاریک کو دانستہ ان تینوں سطحوں پر کئے جانے والے کام کو مربوط کرنے کی سعی کرنا چاہیے۔ اس کے بغیر اسلامی انفرادیت اسلامی معاشرت اور اسلامی ریاست تقویت حاصل نہیں کرسکتیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں گوکہ، چشتی صوفیائے کرام کا دائرہ عمل انفرادی اصلاح رہا، لیکن انھوں نے پٹھان فرمانروائوں اور سیدنا عالمگیر رحمت اللہ کی تحریکات کی بھرپور معاونت فرمائی۔

اسلامی تحریکوں کے کام میں تطبیق کی ضرورت:

            لہٰذا تحفظ اور غلبہ دین کی تحاریک کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے مجموعی کام کو اس طرح مربوط کریں کہ اسلامی نظامِ زندگی ___ (نہ کہ صرف اسلامی انفرادیت، صرف اسلامی معاشرت یا صرف اسلامی ریاست) ___ فروغ پائے۔ یہ درست ہے کہ ہر جماعت اپنے ہی ذمہ کا کام کرے گی، لیکن وہ اس کام کو دوسری جماعتوں کے کام سے مربوط اور منطبق کرنے کی دانستہ سعی بھی لازم پکڑے گی۔ اگر عمارت کا فرش بنانے والے مزدوروں نے عمارت کی دیواریں کھڑی کرنے والے مزدوروں کی ضروریات کا خیال نہ رکھا تو اسلامی نظام زندگی کی عظیم الشان عمارت کس طرح کھڑی کی جاسکے گی۔

٢۔ مغربی نظامِ زندگی… سرمایہ داری:

            جب ہم اسلامی نظامِ زندگی کے تحفظ اور غلبہ کی کوشش کرتے ہیں تو ہمیں لازماً زمانی اور مکانی تناظر کو خاطر میں لانا پڑتا ہے۔ اسلامی نظامِ زندگی کا تحفظ اور غلبہ دورِ حاضر کے غالب اور محفوظ نظامِ زندگی کی تسخیر اور انتشار کے بغیر ممکن نہیں۔ آج جو نظامِ زندگی غالب اور محفوظ ہے وہ سرمایہ داری ہے۔ اس نظامِ زندگی کو سید قطب شہید رحمت اللہ علیہ نے ”جاہلیت خالصہ” کہا ہے۔ مغربی نظامِ زندگی کے غلبہ کے نتیجہ میں اسلامی انفرادیت، اسلامی معاشرت اور اسلامی ریاست لازماً برباد اور منتشر ہوجاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کے اندر اسلامی انفرادیت، معاشرت اور اقتدار کو فروغ پانے کی کوئی گنجائش نہیں۔ لہٰذا اس نظام زندگی کے مقتدرین یا ان کے وکیلوں سے مصالحت یا مکالمہ لازماً اسلامی نظامِ زندگی کے انتشار کا ذریعہ ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام کی تین سطحیں:

            اب ہم سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کی تینوں سطحوں کا جائزہ لیں گے۔

سرمایہ دارانہ انفرادیت: سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کو ”مغربی” کہنا صرف ان معنوں میں درست ہے کہ آج یورپ اور امریکہ نے اس نظامِ زندگی کو اپنایا ہوا ہے۔ چودہویں صدی عیسوی تک مغرب میں سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کو نہ تحفظ حاصل تھا نہ غلبہ۔ پندرہویں اور سولہویں صدی میں بھی سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی یورپ کے چند ساحلی شہروں میں جڑ پکڑ سکا تھا۔ سولہویں صدی تک سرمایہ دارانہ مخالف تحریکیں یورپ میں عام تھیں اور اسی صدی کے نصف میں [oliver Cromwell] نے ایک خالص مذہبی ریاست انگلستان میں قائم کی۔ سرمایہ دارانہ نظام کے تحفظ اور غلبہ کے دو تاریخی سنگِ میل ہیں۔ انقلاب امریکہ ]١٧٧٦ئ[ اور انقلاب فرانس ]١٧٨٩ئ[ انگلستان کا ”شاندار انقلاب” [Glovious revolution] ]١٦٨٨ئ[ ان دونوں کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔

سرمایہ دارانہ شخصیت کا عروج:

            سرمایہ دارانہ شخصیت کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کے عروج کی وجوہات کو بیان کیا جائے۔

چوتھی صدی عیسوی سے پندرہویں صدی عیسوی تک:یورپ پر کیتھولک عیسائیت کو معاشرتی اور انفرادی غلبہ حاصل تھا۔ یورپی انفرادیت اور معاشرت عیسائی اقدار کی غماز تھی، لیکن یہ انفرادیت اور معاشرت ایک ایسے ریاستی نظام سے مربوط تھی جس کے خدوخال میکیاویلی (Machiavelli )نے اپنی کتابوں میں تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ یورپی فرمانروا کسی عیسائی شریعت کے پابند تھے اور وہ عیسائی انفرادیت اور معاشرت کے غلبہ کے ہزار سالہ دور میں خالصتاً دنیا پرستانہ [Secular] سیاست کرتے رہے اور اس سیکولر سیاست کا جواز چوتھی صدی میں عیسائیت کے سب سے بڑے عالم سینٹ آگسٹائن Saint Augestine نے City of Man اور City of God میں بیان کر دیا تھا۔ Augestine کے بعد عیسائی علمیت پر ارسطو اور افلاطون کی فکر بتدریج غالب آتی چلی گئی اور اس علمیاتی غلبہ نے عیسائی روحانیت کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا۔ عیسائی فکر کو کبھی کوئی امام غزالی نصیب نہ ہوا اور قرون وسطی کی عیسائیت علمیت [Scholasticism] اعتزال ہی کی ایک شکل تھی۔

امام غزالی کی اہمیت و افادیت:

            ]ہمارے بزرگوں نے ایسے خواب بیان فرمائے ہیں جن میں انھوں نے دیکھا کہ حضور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم امام غزالی رحمت اللہ علیہ کو حضرت عیسیٰ اور حضرت موسیٰ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں اور فرما رہے ہیں ”کیا آپ کی امت میں اس جیسا عالم پیدا ہوا” سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کی مشہور حدیث ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اگر ایمان ثریا سے اوپر بھی چلا جائے تو ایک فارسی اس کو واپس لے آئے گا۔ بہت سے محدثین کی رائے کہ اس حدیث میں حضور سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کا اشارہ حضرت امام غزالی رحمت اللہ کی طرف ہے[

            عیسائی فکر نے ١٨ اور ١٩ ویں صدی سے قصداً اسلامی فکر کو حقیر اور بے وقعت جانا۔ امام غزالی رحمتہ اللہ کی فکر کو حقیر اور بے وقعت جانا۔ امام غزالی رحمتہ اللہ کی فکر طاہرہ کے مقابلہ میں معتزلہ دہریوں مثلاً ابن رشد، فارابی، ابن سینا کے افکارِ فاسدہ کو بنیاد بنا کر ارسطو اور جدید افلاطونیت [Neo Platonism] کے احیاء کی راہ ہموار کی۔ صلیبی جنگوں کے دور میں فکرِ اسلامی سے عیسائی نفرت اپنے عروج کو پہنچ گئی اور فکرِ اسلامی سے نفرت کر کے عیسائیت نے اپنی مکمل بربادی کا سامان اپنے ہاتھوں تیار کرلیا۔

نیو افلاطونیت اور سیکولرازم نے عیسائیت کو تباہ کر دیا:

            نیو افلاطونیت اور سیکولر ازم کو اپنا کر عیسائی نظامِ زندگی کئی بنیادی تضادات کا شکار ہوگیا۔ عیسائیت جس اخلاقیات کا پرچار کرتی تھی خود چرچ کے اندر ]یعنی مفروضہ City of God میں[ ان کا وجود ناپید ہوتا چلا گیا۔ پوپ پادری اور چرچ کے دوسرے اہل کار بدترین جرائم کے مرتکب ہونے لگے۔ روحانی تربیت کے نظام [Monastaries] کو چرچ کی بیورو کریسی سے باضابطہ طور پر الگ کر دیا گیا اور اس تفریق کے نتیجے میں پوپ خود ایک سیکولر بادشاہ کی حیثیت اختیار کرگیا۔ معاشرہ میں چرچ کے بیوروکریسی کا نفوذ ریاستی بیورو کریسی کے نفوذ کے مماثل ہوتا چلا گیااور یہ دونوں بیوروکریسیاں اس حد تک خلط ملط ہوگئی کہ عوام [laity] کے لیے ان میں فرق کرنا دشوار بلکہ عملاً ناممکن ہوگیا۔

عیسائیت کو نفاق نے ختم کر دیا:

            جو چیز عیسائی نظامِ زندگی کو لے ڈوبی وہ نفاق تھا۔ روحانی اور اخلاقی تعلیمات اور معیارات انجیل اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیماتِ مبارکہ سے ہی ماخوذ تھیں لیکن معاشی، معاشرتی، سیاسی اور تمدنی عمل کا ان تعلیمات سے تعلق بتدریج منقطع ہوگیا۔ لہٰذا افلاطونی فلسفہ اس تضاد کا منطقی جواز اور توجیہہ بیان کرتا تھا اور یہی عیسائی علمیت تھی۔

            ان حالات میں اخلاقِ فاسدہ کا فروغ پانا ناگزیر تھا۔ شہوت رانی، ہوس پرستی، معاشی ظلم، احتکار، لوٹ مار، خدا بے زاری عام ہوگئے۔ تیرہویں صدی سے یورپ نے اپنے قبل از عیسائی نظامِ ہائے زندگی Paganism اور Hellenism کی طرف عمومی مراجعت شروع کر دی۔ عیسائی تعلیمات کی اصولی فوقیت اور عیسائی بیوروکریسی کے نظامِ اقتدار کو چیلنج کے بعد چیلنج کا سامنا کرنا پڑا۔ یورپ جو Pagan اور Hellenistic ]یونانی[ نظامِ زندگی عملاً گزار رہا تھا اس کی علمی اور اصولی فوقیت قائم کرنے کی جدوجہد کرنے لگا۔

عیسائیت کی اندرونی کشمکش: نو آبادیات کا قیام

پندرہویں صدی سے یورپی اخلاقی زوال کی رفتار میں برق رفتاری سے ترقی ہوئی۔ اس کے بعد یورپ دو عظیم الشان فسادوں کا شکار ہوگیا۔ ایک طرف کیتھولک اور غیر کیتھولک عیسائیت میں خانہ جنگی شروع ہوگئی جو تقریباً دو سو سال جاری رہی اور جس میں یورپی کلیدی ممالک فرانس، اٹلی، جرمنی، ولندیز اور اسپین ملوث ہوئے۔ دوسری طرف فرانس، اسپین، پرتگال، ولندیز اور برطانیہ نے عالمی استعماریت کی بنیاد ڈالی۔ مذہبی اور استعماری جنگوں میں مغربی یورپ کے تقریباً ہر گھرانے کے افراد شریک ہوئے۔ ان جنگوں میں وحشت، بہیمیت اور سفاکیت کی انتہا کر دی گئی۔ کروڑوں غیر یورپیوں کو قتل کیا گیا۔ پورے پورے براعظم لوٹ لیے گئے اور وہاں صدیوں سے آباد نسلوں کو کلیتاً تہہ تیغ کر دیا گیا اور برطانوی فرانسیسی، اسپینی اور پرتگالی ان کی دولت اور ان کے ملکوں پر قابض ہوگئے۔ یورپ میں لوٹی ہوئی دولت کے انبار لگ گئے اور قتل و غارت، ظلم اور استبدادِ، جنسی بے راہ روی، لوٹ مار، دھوکہ اور فریب یورپ میں رائج نظامِ زندگی کا حصہ بن گئے۔ اس اخلاقی تغیر کی کئی تصویریں شیکسپیئر کے ڈراموں میں پیش کی گئی ہیں۔

عیسائیت استعماریت کی تاریخی حلیف رہی ہے: آج بھی ہے

            اس لوٹ مار، جنسی بے راہ روی، قتل و غارت، ظلم اور استبداد کے فروغ میں عیسائیت ہر جگہ یورپ میں امریکہ میں مشرق بعید میں حکومت کے دستِ راست کے طور پر کام کرتی رہی۔ اس نے ہر اس جرم کا مذہبی جواز فراہم کیا جس کے ذریعے یورپی حکمرانوں نے دولت لوٹنے، قتل عام کرنے اور سفاکیت کو فروغ دینے کے لیے کیا۔ ہر استعماری لشکر کا مذہبی پیش رو کسی نہ کسی چرچ کا نمائندہ ہی ہوتا تھا اور بالکل جس طرح Evangilical پادری امریکی فوجوں کی عراقی اور افغان کارروائیوں کا جواز پیش کر رہے ہیں اسی طرح کیتھولک اور پروٹسٹنٹ پادریوں نے استعماری مہمات کی پشت پناہی کی۔

انقلاب امریکہ و فرانس نے عیسائیت کو بے دخل کر دیا:

            ١٨ ویں صدی کی ابتدا تک عیسائی نظامِ زندگی معطل ہوگیا تھا۔ عیسائی بیورو کریسی کا اقتدار سیکیولر ریاستی نظام کا حصہ بن گیا تھا لیکن جیسے جیسے عیسائی بیورو کریسی کی معاشرتی گرفت کمزور پڑ رہی تھی۔ ویسے ویسے حکومتیں ان کو غیر ضروری تصور کرنے لگیں۔ جیسا اوپر عرض کرچکا ہوں عیسائی نظامِ زندگی کو مکمل طور پر غیر معقول اور غیر مقبول بنانا دو انقلابوں کا کارنامہ ہے۔ انقلاب امریکہ اور انقلاب فرانس ان دو انقلابوں کے ذریعہ یورپ نے جس نظام زندگی کو اصولاً عملاً رائج کیا، اس کو سرمایہ داری کہتے ہیں۔

مذہب سرمایہ داری ایک نظام زندگی ہے:

سرمایہ داری اسلام میں ضم نہیں ہوسکتی:

            سرمایہ داری ان معنوں میں ایک نظام زندگی ہے کہ اس کا اپنا ایک مخصوص تصور انفرادیت، ایک مخصوص تصورِ معاشرت اور ایک مخصوص تصورِ اقتدارریاست ہے اور یہ تینوں تصورات باہم مربوط ہیں۔ غیر سرمایہ دارانہ شخصیت سرمایہ دارانہ معاشرہ میں پنپ نہیں سکتی۔ سرمایہ دارانہ ریاست غیر سرمایہ دارانہ معاشرت کا وجود برداشت نہیں کرسکتی۔ سرمایہ داری ایک نظامِ زندگی سے کسی دوسرے نظامِ زندگی کا حصہ نہیں بن سکتی۔ وہ دوسرے نظامِ زندگی کو تباہ کر کے ہی قائم کی جاسکتی ہے۔ اگر کسی ملک میں اسلامی انقلاب آئے تو اسے سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی، سرمایہ دارانہ انفرادیت، سرمایہ دارانہ معاشرت، سرمایہ دارانہ نظامِ اقتدار اور ریاست کو تباہ کرنا ہوگا۔ سرمایہ دارانہ انفرادیت، معاشرت اور ریاست کو اسلامی نظامِ زندگی میں ضم نہیں کیا جاسکتا۔

سرمایہ دارانیہ علمیت کیا ہے؟

            سرمایہ دارانہ شخصیت، معاشرت اور ریاست کے تصورات سرمایہ دارانہ علمیت سے ماخوذ ہیں۔ جیسا کہ عرض کرچکا ہوں کہ یہ علمیت Peter Abelard کے وقت سے یورپ میں فروغ پا رہی تھی۔ اس فکر کے غلبہ میں ١٧ویں صدی بہت اہم ہے جب وہ چیز وجود میں آئی جس کو ہم Science کہتے ہیں۔ ١٨ویں صدی میں اسی Science نے ایک ایسے فلسفہ کو جنم دیا جس نے ان تمام نیوپلوٹونک [neo platonic] تصورات انفرادیت، معاشرت اور ریاست کو مہمل ثابت کر دیا ہے جو عیسائی نظامِ زندگی کے اصل الاصول کے طور پر قبول کیے جاتے تھے۔

سرمایہ داری کو تحریک تنویر اور کانٹ نے پروان چڑھایا:

            اس فلسفہ کو جس تحریک نے پروان چڑھایا وہ تحریک تنویر [Enlightenment] کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس تحریک کا سب سے اہم مفکر Emanuel Kant تھا اور Kant کے کردار میں وہ تمام تضادات پائے جاتے ہیں جن کی سرمایہ دارانہ انفرادیت غماز ہوتی ہے۔ Kant اپنے آپ کو عیسائی سمجھتا تھا اور اس کے خیال میںاس نے علمیت کو فروغ دینے کے لیے جدوجہد کی ہے لیکن وہ اغلام باز [Homosexual] بھی تھا اور اس کی ذاتی زندگی نہایت نجس اور غلیظ تھی۔ اس نوعیت کے تضادات ہمیں مغرب کے ہر بڑے فکری رہنما اور ہر بڑے فلسفی، مفکر، سیاست داں کی زندگی میں ملیں گے۔ گو کہ سرمایہ داری عیسائی نظامِ زندگی کو رد کرچکی ہے لیکن عیسائی تہذیبی ورثہ سے اپنا دامن نہ چھڑا سکی اور اس تہذیبی ورثہ کا اہم ترین جزو منافقت ہے۔ امریکہ کہتا ہے کہ وہ امن کے حصول کے قیام کی خاطر افغانستان اور عراق میں لاکھوں انسانوں کو مستقل قتل کیے جا رہا ہے اور امریکی عوام کی غالب اکثریت سمجھتی ہے کہ واقعی ایسا ہی ہے۔

سرمایہ دارانہ تصور انفرادیت کیا ہے؟

            اب میں سرمایہ دارانہ تصورِ انفرادیت کی خصوصیات بیان کروں گا۔ یہ تصویر Kant کے فکر سے ماخوذ ہے۔

٣۔ سرمایہ دارانہ تصورِ انفرادیت: تحریک تنویر کا اہم ترین اور کلیدی تصور “Humanity” ہے۔ “Humanity” کا ترجمہ ”انسانیت” کرنا غلط ہے۔ ”انسانیت” کا درست انگریزی ترجمہ “Mankind” ہے۔ یہی لفظ انسانی اجتماعیت کے لیے انگریزی زبان میں ١٨ ویں صدی سے قبل رائج تھا۔ “Humanity” کا تصور ”انسانیت” کے تصور کی رد ہے۔

            صہیب ایک انسان ہے وہ خود انسان نہیں بنا۔ اللہ اس بات پر مجبور نہ تھا کہ صہیب کو انسان بنائے۔ وہ چاہتا تو صہیب کو فرشتہ یا جن، یا جانور یا درخت یا پتھر بنا سکتا تھا۔ صہیب کا انسان ہونا ایک حادثہ [Contergency] ہے۔ صہیب کی اصلیت Essense اس کی عبدیت ہے۔ وہ کچھ بھی ہوتا جن یا فرشتہ یا جانور یا درخت۔ یا گھاس کا ایک تنکہ۔ ہرحال میں مخلوق اور عبد ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ میں اصلاً مسلم ہوں اور صرف حادثاتی طور پر اور ضمناً انسان ہوں۔ میری انسانیت میری اسلامیت کے اظہار کا ذریعہ ہے۔ اس کے علاوہ میری انسانیت اور کچھ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب غیر مسلم انسانوں سے مخاطب ہوتا ہوں تو انھیں اسلام کی دعوت میں دے سکتا ہوں، کسی ماورائے اسلام ”انسانی مفاد کے تناظر میں ان سے مکالمہ نہیں کرسکتا۔ یہ بات مولانا مودودینے اپنی کتاب ”رسالہ دینیات” میں خوب اچھی طرح تعلیم فرما دی ہے۔ ”تجدید و احیائے دین” میں مولانا ”تجدد” اور ”تجدید” میں فرق بیان فرماتے ہوئے بھی اسی نکتہ پر زور دیتے ہیں۔

Human عبدیت کارد ہے:

            humanity انسانیت کے تصور کا ان معنوں میں رد ہے کہ human being عبدیت اور تخلیقیت کا اصولاً اور عملاً رد ہے۔ Kant کے مطابق human being کا بنیادی وصف اور اس کی اصل “autonomy” یعنی خود ارادیت اور خود تخلیقیت ہے۔ انسان اپنے رب کے ارادے کا مطیع ہوتا ہے۔ ]قالوابلیٰ[ human being خود اپنا رب ہوتا ہے ]انا ربکم الاعلیٰ[۔ وہ جو چاہتا ہے کر گزر کرتا ہے۔ humanity کی بنیادی قدر آزادی ہے human being معیارات خیر و شر خود متعین کرتا ہے۔ کوئی عمل فی نفسہ اچھا یا برا نہیں ہوتا۔ نہ human being کے ارادے کے علاوہ کوئی ایسا پیمانہ ہے جس کے سامنے کسی عمل یا کسی شے کو پیش کر کے اس عمل یا فعل کی قدر [value] کو متعین کیا جاسکے۔ قدر کا تعین صرف انسانی ارادہ ہی کرسکتا ہے۔

جو عمل عالمگیر ہوسکتا ہے وہ حق ہے:

            Kant کے مطابق خیر و شر کے تعین کے لیے human being کو ایک سوال کا جواب دینا چاہیے۔ کیا یہ عمل [Universalise] کیا جاسکتا ہے؟ یعنی کیا میں جو چیز پسند کرتا ہوں وہ تمام human being کو پسند کرنے کی اجازت دینے پر تیار ہوں۔ اگر میں زنا کی عمومی اجازت دینے کے لیے تیار ہوں مگر چوری کی عمومی اجازت دینے کے لیے تیار نہ ہوں تو زنا univeralisablity پر پورا اترا اور چوری پوری نہیں اتری لہٰذا میں زنا کو اختیار کرسکتا ہوں اور چوری کو اختیار نہیں کرسکتا۔

نظریہ افادیت: لذت پرستی کا عروج

            نظریہ افادیت [Utilitarianism] نے قدر کے تعین کا ایک پیمانہ بھی پیش کیا ہے اور وہ ہے شدت لذت [Intensity of Pleasure] مثلاً اگر Hang زنا کرنے سے زیادہ اور کتاب پڑھنے سے کم لذت حاصل کرتا ہے تو وہ زنا کو بدرجہ کتاب زیادہ قدر دے گا لیکن Barry کا یہ حق تسلیم کرے گا کہ وہ کتاب پڑھنے سے حاصل شدہ لذت کو زنا سے حاصل شدہ لذت کے مقابلہ میں زیادہ قدر دے۔

            قدر کے ان دونوں تصورات میں human being آزاد ہے کہ وہ قدر کو اپنے ارادہ کے مطابق متعین کرے، لیکن قدر کا تعین اس طریقہ سے کیا جائے گا کہ ہر human beingکو قدر کا تعین اپنے ارادہ کے مطابق کرنے کا اختیار حاصل ہو۔

ہر قدر مساوی حیثیت کی حامل ہے:

            لہٰذا Humanist تصورِ انفرادیت کی دوسری ]ذیلی[ قدر مساوات [Equality] ہے۔ ہر فرد کو اپنے ارادہ کے مطابق قدر کے تعین کا مساوی حق حاصل ہے۔ Kant اور نظریہ افادیت کے مفکر ]مثلاً Mill, Bentham, Hume اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ہر فرد کے تعین قدر کی ترتیب کو مساوی گردانا جائے۔ کسی کے اقداری ترجیحات کی ترتیب کو کسی دوسرے کی ترتیب پر فوقیت نہ دی جائے خود ارادیت اور خود تخلیقیت [autonomy] کا ہر human being یکساں مکلف ہے اور سرمایہ دارانہ شخصیت کی تعمیر کے لیے صرف آزادی کافی نہیں مساوی آزادی کو [equal freedom] تسلیم کیا جانا ضروری ہے۔

پروگریس سرمایہ دارانہ نظام کی تیسری اہم قدر [Value]:

            اس مساوی آزادی کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ human being اپنے ارادہ کو غیر human اشیاء پر مسلط کر کے اس کو اپنے ارادہ کا تابع کرے ]ان غیر human موجودات میں غیر human انسان اور فطری قوتیں دونوں شامل ہیں۔[ human ارادے کے اس کائناتی تسلط کو progress یا ترقی کہتے ہیں۔ progress سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کی تیسری قدر ہے۔ Progress کا ذریعہ سرمایہ کی بڑھوتری ہے۔ حضرت مولانا محمد مارماڈیوک پکتھال رحمة علیہ نے سرمایہ کو تکاثر کے مماثل کہا ہے اور تکاثر کے انگریزی معنی “rivalry in Wordly Increase” بیان فرمائے ہیں۔ سرمایہ میں بڑھوتری آزادی کے فروغ کی عملی شکل ہے۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ جب ایک شخص اپنے human ہونے کو تسلیم کرتا ہے تو وہ سرمایہ کی بڑھوتری کو اپنی زندگی کے اولین مقصد کے طور پر قبول کرتا ہے کیونکہ آزادی کا مطلب ہی سرمایہ کی بڑھوتری ہے اس کاکوئی دوسرا مطلب نہیں، جو شخص آزادی کا خواہاں ہے وہ لازماً اپنے ارادہ سے اقدار کی وہ ترتیب متعین کرے گا جس کے نتیجے میں اس کی آزادی میں اضافہ ہو۔

اصل قدر ارادہ انسانی ہے: نفس الٰہ ہے

            سرمایہ ہی وہ شے ہے جو ممکن بناتا ہے کہ انسان جو کچھ بھی چاہے حاصل کرسکے۔ مسجد بنانا چاہے تو مسجد بنائے، شراب خانہ بنانا چاہے تو شراب خانہ بنائے، چاند پر جانا چاہے تو چاند پر جائے، کسی چیز کی کوئی اصلی [intrinsic] قدر نہیں۔ ہر چیز اپنی قدر صرف اور صرف human خواہش اور ارادہ سے حاصل کرتی ہے۔ لہٰذا قدرِ اصل [Intrinsic Value] صرف ارادہِ انسانی کی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قدر صرف اس کی ہے کہ انسان جو چاہنا چاہے وہ حاصل کرسکے اور تمام اعمال اور اشیاء کی قدر اس امر سے متعین ہوتی ہے کہ Human اس کو دوسرے اعمال اور اشیاء کے مقابلہ میں کتنی شدت سے پسند یا نا پسند کرتا ہے۔ سرمایہ دارانہ علمیت میں قدرِ مطلق صرف human being کے ارادے محض [Preference for preference itself] یعنی کہ سرمایہ کی ہے کیونکہ سرمایہ ہی ارادہ محض کا اظہار ہے۔ سرمایہ ہی یہ ممکن بناتا ہے کہ Human جو چاہنا چاہے اس کے حصول کی جستجو کرے۔ لہٰذا ارادہ محض [preference for preference itself] کے سوا کسی چیز یا فعل کی کوئی قدرِ اصل [absolute and intrinsic value] نہیں ہر فعل اور عمل کی قدر محض تقابلی ہے، یعنی Exchange Value۔ قدرِ محض [absloute value] اور تقابلی قدر [Exchange Value] کے تعلق کو میں اگلے حصے میں بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔

اصلی قدر  ارادہ انسانی  سرمایہ  سرمایہ دارانہ عقلیت :

قدرِ اصل صرف ارادہ انسانی کے اظہار یعنی سرمایہ کی ہے۔ لہٰذا سرمایہ دار عقلیت [rationality] کا تقاضا ہے کہ ہر human being اپنی خواہشات کو اس طرح مرتب کرے کہ ان کے حصول [realisation] کی جدوجہد قدرِ اصل یعنی سرمایہ کی بڑھوتری کے فروغ میں ممد اور معاون ہو۔ خواہشات کی ہر وہ ترتیب جو human being کو سرمایہ کی بڑھوتری کے عمل کا آلہ کار [Instrument] نہیں بناتی، عقلیت کے خلاف ہے irrational ہے۔ جیسا کہ حضرت حجة الاسلام امام غزالی رحمة اللہ نے تہافة الفلاسفہ میں تحریر فرمایا ہے، عقلیت کے کئی جاہلانہ تصورات ہیں۔ سرمایہ دارانہ عقلیت rationality۔ وہ جاہلانہ عقلیت ہے جو huaman being کے ارادہ محض ]یعنی سرمایہ کی بڑھوتری[ کو اصل الاصول اور مقصد اصل [end in itself] کے طور پر فرض [presume] کرتی ہے اور ہر عمل اور شے کی خود اس ذلیل اور فاسد اور باطل اور لغو مقصدِ اصل ]یعنی سرمایہ کی بڑھوتری[ کے حصول کے ذریعہ کی حیثیت کی بنیاد پر متعین کرتی ہے۔ اس بحث کی سہل ترین تشریح مولانا مودودی کی کتاب ”عقل کا فیصلہ” میں دیکھی جاسکتی ہے۔

زندگی کا مقصد سرمایہ کی بڑھوتری کے سوا کچھ نہیں ہے:

            اس گفتگو سے واضح ہوتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کا اصل الاصول [end in itself] سرمایہ کی بڑھوتری ہے۔ سرمایہ کی بڑھوتری وہ کسوٹی ہے جس پر Human being کی ہر خواہش اور خواہشات کی تمام ترتیبوں کو جانچا جاتا ہے اور ان کی تقابلی قدر [exchange value] اس قدر محض [Intrinisc Value] کے مطابق متعین کی جاتی ہے۔ ہر وہ خواہش جو سرمایہ کی بڑھوتری کا ذریعہ نہیں بنتی۔ اس کی تقابلی قدر [Exchang Value] صفر یا منفی ہوتی ہے۔ مثلاً صہیب کی خواہش یہ ہے کہ میں جنت میں جا ئوں تو اگر وہ جنت میں جانے کے لیے کیے گئے اعمال اور سرمایہ کی بڑھوتری کے لیے کیے گئے اعمال میں کوئی تضاد نہیں دیکھتا تو اس کے جنت میں جانے کے لیے کیے گئے اعمال کی مثبت [positive] تقابلی قدر متعین کی جائے گی۔ مثلاً صہیب میزان بینک کا آفیسر سرحد کی حکومت کا وزیر ہے اور سرمایہ دارانہ نظام زندگی کو شریعت کے مقبول طریقوں میں فروغ دینا چاہتا ہے تو سرمایہ دارانہ عقلیت اس کے ان اعمال کو مثبت تقابلی قدر [exchange value] کی حیثیت دے گی۔ ہوسکتا ہے کہ یہ قدر Standared Chartered Bank کے افسر اور شیر پائو پی پی پی کے وزیر کے اعمال کے مقابلہ میں کم ہو۔ لیکن ہوگی پھر بھی مثبت کیونکہ صہیب بھی پی پی پی کے وزیر اور SCB کے کارندے کی طرح سرمایہ کی بڑھوتری کو ممکن بنا رہا ہے۔

            صہیب تبلیغی جماعت اور دعوة اسلامی کا کارکن ہے وہ سمجھتا ہے کہ جنت میں داخلہ کے لیے ضروری ہے کہ زندگی کے ایک حصہ کو سرمایہ دارانہ عقلیت سے مطلقاً پاک کرلیا جائے۔ وہ زندگی کے اس حصہ میں human being نہیں بلکہ انسان کی حیثیت سے زندہ رہتا ہے لیکن زندگی کے اس ظاہر حصہ کا پر تو اپنی باقی زندگی پر نہیں پڑنے دیتا۔ وہ سرمایہ دارانہ کاروبار کرتا ہے۔ مسلم لیگ میں شامل ہے، مشاعرہ منعقد کرتا ہے، اس صورت میں سرمایہ دارانہ عقلیت صہیب کے جنت میں جانے والے اعمال کو برداشت [tolorate] کرنے پر تیار ہوسکتی ہے۔ وہ ان اعمال کو سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کے فروغ اور استحکام کے لیے بے ضرر تصور کرسکتی ہے اور ان کی تقابلی قدر [exchange value] صفر متعین کرسکتا ہے۔

            صہیب ایک انقلابی یا مجاہد ہے۔ وہ جنت میں جانے کے لیے اس بات کو ضروری سمجھتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے۔ وہ سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے بھی اس کو تباہ و برباد کرنے کی مسلسل کوشش کرتا ہے۔ کاروبار کرتا ہے تو غیر سرمایہ دارانہ اصولوں پر، سیاست کرتا ہے تو انقلابی یا جہادی۔ اس کی علمی اور ادبی کاوشیں سرمایہ دارانہ عقلیت کو جہالت ثابت کرنے کی سعی ہوتی ہیں۔ ان حالات میں سرمایہ دارانہ عقلیت صہیب کے جنت میں جانے والے اعمال کو منفی [negative] تقابلی قدر [exchange value] متعین کرے گی۔ وہ ان عمال کو برداشت کرنے پر تیار نہ ہوگی۔ اس کی نظر میںصہیب ایک دہشت گرد ہے جس کو جلد از جلد قتل کر دینا چاہیے۔ صہیب کو قتل کرنا اس لیے ضروری ہے کہ سرمایہ دارانہ عقلیت کے پاس کوئی ایسی دلیل نہیں جس سے وہ صہیب کو جہاد یا انقلاب ترک کرنے پر راضی کرسکے۔

سرمایہ دارانہ طرز زندگی کو رد کرنے کی اجازت نہیں:

            اس مثال سے یہ بات واضح ہو جانا چاہیے کہ ”تحریک تنویر کا یہ دعوی کہ سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی میں فرد کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جو چاہنا چاہے وہ چاہ سکے، ایک جھوٹا دعویٰ ہے فرد کو سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کو رد کرنے کا حق نہیں۔ ہر فرد اپنی انسانیت [Man Kind] ترک کر کے human being بننے پر مجبور ہے۔ سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی میں سرمایہ دارانہ عقلیت ان تمام خواہشات ]یعنی عبدیت[ کی ”تحدید اور تنسیخ کرتی ہے جو انسانیت کے اظہار کا ذریعہ ہوسکتیں ہیں۔ اس بات کو مزید واضح کرنے کے لیے ہیومن رائٹس [Human rights] کے نظریات کو سمجھنا ضروری ہے۔

سرمایہ داری میں کس کی زندگی محفوظ ہے؟

            سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی ہر human being کو تین بنیادی حقوق تفویض کرتا ہے۔

            حقِ زندگی ہر human being کا حق ہے کہ وہ اپنی جان کو سرمایہ کی بڑھوتری کا ذریعہ بنائے۔ جیسا کہ ١٧ویں صدی کے مشہور فلسفی جان لاک [John Locke] نے بیان کیا، سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی میں انسانی جسم، سرمایہ کی بڑھوتری کا ایک آلہ ہے ]جس نظریہ کے تحت یہ رائے دی اس کو Labour theory of value کہتے ہیں اور ہم اس طرف پھر رجوع کریں گے[ جب تک ایک human being اپنی زندگی کو سرمایہ کی بڑھوتری کے لیے آلہ کے طور پر استعمال کرتا ہے، اس کی جان محفوظ ہے جو انسان زندگی کو سرمایہ کی بڑھوتری کے آلہ کے طور پر استعمال کرنے پر تیار نہیں، ان کی جان محفوظ نہیں اور اگر وہ سرمایہ دارانہ نظام کے لیے خطرہ بن جائیں تو ان کا قتل کرنا واجب ہے۔ ١٦ سے ٢٠ ویں صدی تک امریکہ میں نو کروڑ سرخ ہندی نسل در نسل قتل کیے گئے اور John Locke نے صدیوں پر محیط منظم نسلی کشی اور قتل عام کو اسی بنیاد پر جائز قرار دیا تھا کہ ریڈ انڈین اپنی جان کو سرمایہ کی بڑھوتری میں کھپانے پر آمادہ نہیں۔ جارج واشنگٹن [George Washington] نے ریڈ انڈینوں کو بھیڑئے اور ابراہام لنکن [Abraham Lincon] نے ان کو سور اور سانپ کہا۔ حضرت عتبہ بن نوفل رضی اللہ عنہ تعالیٰ کے ایک قول کے مطابق امریکہ کے قدیم باشندہ حضرت یونس علیہ السلام کے امتی تھے۔ آج لاک، واشنگٹن اور لنکن کی دلیلیں جارج بش عراقی اور افغانی مسلمانوں کے قتل عام کے جواز میں پیش کر رہا ہے۔

ہر شخص اپنی خواہشات کو جس طرح چاہے مرتب کرے:

            دوسرا ہیومن رائٹس [human rights] اظہار آزادی ضمیر [Right of consciousness] کا ہے۔ ہر human being کو حق ہے کہ وہ اپنی خواہشات کو جس طرح مرتب کرے اور خواہشات کی تمام انفرادی ترتیبوں کو سرمایہ کی بڑھوتری کی قدر مطلق [Absolute Value] پر تولے جانے کے حق پر راضی ہو۔ کسی انسان کو یہ حق نہیں کہ وہ خواہشات کی ایسی ترتیب مرتب کرے جو سرمایہ کی بڑھوتری کی قدر مطلق ہونے کی حیثیت کی نفی کرے اور سرمایہ کی بڑھوتری کی جگہ کسی دوسری قدر مطلق کا تصور پیش کرے۔ اس human rights کو نظریۂ برداشت [tolerance] کے طور پر بھی بیان کیا گیا ہے۔ نظریہ برداشت [tolerance] کے مطابق :

٭          قدر مطلق صرف سرمایہ کی بڑھوتری کو حاصل ہے۔

٭          ہر خواہش کی تقابلی قدر [relative value] اس قدر مطلق کی کسوٹی پر متعین کی جائے گی۔

٭          ہر اس خواہش اور ترجیح کو برداشت کیا جائے گا جو بڑھوتری سرمایہ کے اصل الاصول کی نفی نہیں کرتیں۔

٭          ایسی کسی ترتیب خواہشات کو برداشت نہیں کیا جائے گا جو سرمایہ کی بڑھوتری کے  قدر مطلق ہونے کو چیلنج کرتی ہو۔ اگر صہیب ہندو ہوجائے تو اس کو برداشت کیا جائے گا لیکن اگر وہ انقلابی یا مجاہد بن جائے تو اس کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔

سرمایہ داری انفرادی ملکیت ختم کر دیتی ہے:

            تیسرا ہیومن رائٹ حق ملکیت ہے۔ جیسا کہ ہم آگے چل کے دیکھیں گے۔ سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی ذاتی ملکیت کو ختم کر دیتا ہے اور کارپوریٹ [corporate] ملکیت کو رائج کرتا ہے۔ کاپوریشن human being کی وہ شکل ہے جو سرمایہ دارانہ نظام زندگی میں قانوناً قائم کی جاتی ہے۔ اس شکل میں Human Being اپنے آپ کو بڑھوتری سرمایہ کے مقصد کے لیے کلیتاً وقف کر دیتا ہے۔ Copration کا مقصدِ وجود بڑھوتری سرمایہ کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا، ہر Human Being کو حق ہے کہ وہ اپنی جان ]بحیثیت ملازم Employee اور اپنا مال بحیثیت حصص دار [shareholder] کارپوریشن کے سپرد کرے اور سرمایہ کی بڑھوتری کے عمل میں اپنی ذات کو گم کر دے۔ کسی انسان کو یہ حق نہیں کہ وہ اپنی دولت کو اس طرح استعمال کرے کہ وہ سرمایہ کی بڑھوتری کے عمل کی معاشرتی بالادستی کو چیلنج کرے۔ غیر کاپوریٹ ملکیت اس حد تک برداشت کی جاسکتی ہے کہ وہ سرمایہ کی بڑھوتری میں رکاوٹ نہ ہو۔ کوئی ایسی معاشی تنظیم جو سرمایہ کی بڑھوتری کی بالادستی کو چیلنج کرے برداشت نہیں کی جاسکتی۔ اسلامی بینک سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ بنائے جاسکتے ہیں۔ ایک مکمل اسلامی نظامِ معیشت کے قیام کی اجازت کبھی نہیں دی جاسکتی۔

خلاصہ: سرمایہ دارانہ انفرادیت کی مندرجہ ذیل خصوصیات ہیں:

٭          سرمایہ دارانہ نظام زندگی آدمی کو Human being بنا دیتا ہے۔ Human being انسانیت کی ضد ہے۔

٭          human being ایک شیطانی [demonic] وجود ہے۔ وہ خود ارادیت اور خود تخلیقیت کا دعوی کرتا ہے اور اپنے وجود کو شہوت، غضب، حرص اور حسد کے سپرد کر دیتا ہے۔

٭          نظامِ سرمایہ داری کی کلیدی اقدار آزادی مساوات اور ترقی ہیں۔

٭          ان اقدار کے فروغ کا ذریعہ سرمایہ کی بڑھوتری ہے۔

٭          سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی میں سرمایہ کی بڑھوتری اصل الاصول اور قدرِ مطلق کی حیثیت رکھتی ہے اور اس کو ایک ایسی کسوٹی کے طور پر قبول کیا جاتا ہے جس پر تمام اشیاء اور اعمال کو پرکھ کر ان کی تقابلی قدر متعین کی جاتی ہے۔

زندگی ضمیر املاک کو سرمایہ کے سپرد کرنے کے تین اہم طریقے:

٭          انسان کو humen being بنانے کے لیے فرد کو تین حقوق او فرائض تفویض کیے گئے ہیں:

            ١۔ حقِ زندگی ]جان کو سرمایہ کے سپرد کرنا[

            ٢۔ حق ضمیر ]ایمان اور عقائد کو سرمایہ کے سپرد کرنا[

            ٣۔ حق ملکیت ]مال کو سرمایہ کے سپرد کرنا[

٭          جو لوگ ان حقوق و فرائض کو قبول نہیں کرتے ان کو سرمایہ دارانہ نظام زندگی میں نہ زندہ رہنے کا حق ہے نہ اعتقاد اور اس کے اظہار کا نہ مال کے تصرف کا۔ صرف ایسے عقائد اعمال اور ترجیحات برداشت کیے جاسکتے ہیں جو بڑھوتری سرمایہ کی آفاقی بالادستی اور اس کے اصل الاصول ہونے کی حیثیت کو چیلنج نہ کریں۔

            سرمایہ دارانہ نظام زندگی اور سرمایہ دارانہ انفرادیت کی جو تفصیل میں نے ابھی تک بیان کی وہ لبرل اور کنزرویٹیو مفکرین اور قائدین کی فکر سے ماخوذ ہے۔ اشتراکی اور قوم پرست مفکرین نے بھی سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کی ایک تشریح پیش کی ہے۔

اشتراکی قوم پرست سرمایہ دارانہ اقدار کے حامی ہیں:

            اشتراکی اور قوم پرست سرمایہ داری کے مفکر بھی تحریک تنویر کے وارث ہیں۔ ان میں سب سے اہم نام Hegal, Marx اور Neitzshe کے ہیں۔ یہ تینوں بھی الوہیتِ آدم کے قائل ہیں اور انسان کو human بنانا ان کا مشن ہے۔ یہ بھی آزادی، مساوات اور ترقی کو اقدار کے طور پر قبول کرتے ہیں اور بڑھوتری سرمایہ کو ان مقاصد کے حصول کے ایک ناگزیر اور لازمی ذریعہ سمجھتے ہیں۔

الوہیت انسانیت کے طریقے:

قوم پرست اور اشتراکی سرمایہ داری کے فلاسفر ہیگل مارکس اور نطشے humanity کو بحیثیتِ نوع الوہیت کا مکلف سمجھتے ہیں۔ لبرل مفکرین کے برخلاف یہ فلاسفہ کہتے ہیں کہ Human being انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی وجود کا اظہار ہے۔ Human being اپنی الوہیت کا اظہار تاریخی عمل میں کشمکش کے ذریعہ کرتی ہے۔ قوم پرست مثلاً نطشے کہتا ہے کہ یہ کشمکش مختلف اقوام کے درمیان ہوتی ہے۔ اشتراکی سرمایہ داری کے وکیل مثلاً مارکس اس کشمکش کو طبقاتی سمجھتے ہیں۔ دونوں قسم کے مفکرین کی رائے ہے کہ اس تاریخی کشمکش میں جو قوم یا طبقہ [class] غالب آتا ہے وہی human being کا اصل نمائندہ [representative] ہوتا ہے اور وہی اپنے ارادہ کے نفاذ کے ذریعہ الوہیت human being کا اظہار کرتا ہے۔ چنانچہ پوری human نسل کا فرض ہے کہ وہ اس غالب قوم یا طبقہ کی اطاعت کرے۔ یہی غالب قوم یا طبقہ خیر اور شر کی تعبیر اور تنفیذ کا حق دار ہے اور تمام human انفرادتیوں کو اسی غالب قومی یا طبقاتی انفرادیت میں ضم ہوجانا چاہیے۔ یہ غالب قومی یا طبقاتی انفرادیت۔ ان تمام خصوصیات کی حامل ہوتی ہے جو لبرل مفکرین شخصی انفرادیت کے ضمن میں بیان کرتے ہیں۔ اس غالب قوم یا طبقہ کا مقصد وجود آزادی اور ترقی کا حصول ہوتا ہے۔ یہ غالب قوم یا طبقہ آزادی اور قوت کے اضافے کی تگ و دو میں انتہا درجہ کا حریص اور حاسد ہوتا ہے اور اپنی آزادی اور ترقی کے لیے سرمایہ کی بڑھوتری ہی کو اصل ذریعہ سمجھتا ہے۔ وہ اپنی آزادی اور ترقی کے لیے لوٹ مار، قتل و غارت اور بدترین سفاکیت اور بہیمیت کو نہ صرف جائز بلکہ فرض عین گردانتا ہے کیونکہ اسی قتل و غارت، لوٹ مار اور دھوکہ اور فریب کے ذریعہ ہی اس کی آزادی اور ترقی ممکن ہوتی ہے اور اس طبقہ اور قوم کا غلبہ ہی الوہیت ہیومن بینگ [human being] کا اظہار ہے حق صرف وہ ہے جو اس اظہار کو ممکن بناسکے۔

اشتراکی استبداد کا انجام بدترین اخلاقیات کا عروج:

            قوم پرست اور اشتراکی سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کا نظام اقتدار [state] لبرل نظام اقتدار سے مختلف ہوتا ہے ]اس کی تفصیل بعد میں عرض کروں گا[ اس نظامِ اقتدار میں غالب قوم یا طبقہ کی نمائندگی ایک رہبر ]ہٹلر، اسٹالن[ یا ایک پارٹی ]نازی یا کمیونسٹ[ کرتی ہے۔ اس فرد یا جماعت کا حق ہے کہ وہ خیر اور شر کی تعبیر و تشریح کرے جو اس کی آزادی اور ترقی کے لیے سب سے زیادہ فائدہ مند ہو اور اس غالب فرد یا جماعت کا فائدہ ہی پوری قوم اور طبقہ کا فائدہ تصور کیا جاتا ہے۔ دیگر افراد کا فرض ہے کہ وہ اپنی انفرادیت، غالب پارٹی یا رہنما کی انفرادیت میں ضم کر دیں اس عمل میں مہمیز دینے کے لیے چین میں ١٩٦٦ء میں مشہور ثقافتی انقلاب [Cultural Revolution] برپا کیا گیا اور نازی جرمن اور سویت یونین کی ثقافتی، پالیسی سوپرمین [Superman]، نیومین [New man]، سوویٹ مین [Souvait man] کو وجود میں لانے کی کوشش کرتی رہی۔ لیکن تاریخ نے ثابت کر دیا جب سرمایہ کی بڑھوتری مقصد وجود کے طور پر اجتماعی سطح پر قبول کیا جاتا ہے تو بیشتر افراد کی زندگی فاسد اور رذیل رجحانات سے ملوث ہوجاتی ہے جس کا اظہار نظام اقتدار اور غالب قائد یا پارٹی کرتی ہے۔ لہٰذا قوم پرست یا اشتراکی انفرادیت کو عام آدمی ہیجانی ادوار کے علاوہ کبھی بھی قبول نہ کرسکا اور غالب قیادت کی پالیسیوں کے نتیجہ میں ایک آدمی کی زندگی میں ہوس، حرص، شہوت رانی، دنیا پرستی، خود غرضی اور سفاکیت نے فروغ پایا اور اس کو اشتراکی اور قوم پرست نظام اقتدار کے فروغ اور استحکام کے لیے ریاستی استبداد کے ذریعہ مسلسل مجبور کرنا پڑا۔ جیسے جیسے ریاستی استبدادی گرفت ڈھیلی پڑی عام آدمی نے اشتراکی نظام سے چھٹکارا حاصل کر کے بدترین اخلاقی رزائل کو اپنا لیا۔ لوٹ مار، جھوٹ، دھوکہ اور فریب جنسی بے راہ روی اور فحاشی کا جو سیلاب آج مشرقی یورپ، روس اور چین کے ساحلی شہروں میں آیا ہوا ہے اس کی مثال تو یورپ اور امریکہ کے غلیظ ترین معاشرہ میں بھی نہیں ملتی۔

            اس سے ثابت ہوا کہ اشتراکی یا قوم پرست انفرادیت کوئی علیحدہ چیز نہیں سرمایہ دارانہ انفرادیت وہ انفرادیت ہے جو:

٭          الوہیت human being کی طالب ہے۔

٭          جس کے احساسات اور خواہشات پر حرص اور حسد شہوت اور غضب حاوی ہوجاتے ہیں۔

٭          اور جو اپنی عقل کو ان ہی رذائل کے اظہار کے لیے بذریعہ بڑھوتری سرمایہ استعمال کرتی ہے۔

            یہ انفرادیت شخصی بھی ہوسکتی ہے اور اجتماعی ] قومی طبقاتی[ بھی دونوں صورتوں میں اس انفرادیت کو پنپنے کے لیے سرمایہ دارانہ معاشرت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب میں سرمایہ دارانہ معاشرت کی بنیادی خصوصیات بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔

سرمایہ دارانہ معاشرت:

            معاشرہ نظامِ زندگی کے اس شعبہ کو کہتے ہیں جہاں افراد بہ رضا و رغبت اور بلا اکراہ و جبر دوسرے افراد سے اپنے تعلقات استوار کرتے ہیں۔ معاشرتی تنظیم اس بات پر منحصر ہے کہ جو افراد یہ معاشرہ بنا اور چلا رہے ہیں ان کے میلانات و رجحانات اور خواہشات کیا ہیں اور وہ دوسرے لوگوں سے تعلقات استوار کر کے کن مقاصد کا حصول چاہتے ہیں۔ جیسا کہ ہم نے اوپر دیکھا سرمایہ دارانہ انفرادیت ]خواہ شخصی خواہ اجتماعی[ سرمایہ کی بڑھوتری کے ذریعہ آزادی اور ترقی ]یعنی تسخیر کائنات[ چاہتی ہے۔ وہ حرص اور حسد اور شہوت اور غضب سے مغلوب ہوتی ہے۔ وہ کسی دوسرے کو اپنی خدائی میں شریک کرنے کو گوارا تو کرسکتی ہے بشرطیکہ یہ دوسرا اسی جیسی خصوصیات کا حامل ہو[ اور اصولاً مساوات کا قائل ہونے پر مجبور ہے۔ ]اس مجبوری کی توجیہہ Hobbes نے سب سے واضح الفاظ میں بیان کی ہے اور سارتر Sartre کا یہ مشہور جملہ:

            “Hell is other people” اس میں مجبوری کا اظہار ہے[ لیکن عملاً وہ مسابقت [competition] اور نمائندگی کے ذریعے اس مساوات کی مستقل تحدید کرتا رہتا ہے۔

سرمایہ دارانہ معاشرہ اور کنٹریکٹ:

            سرمایہ دارانہ انفرادیتیں جس بنیاد پر غیر جبری [voluntary] روابط قائم ہوتے ہیں وہ غرض [interest] ہے۔ ہر فرد ]شخصی یا اجتماعی[ ان روابط کے ذریعے دوسرے افراد کو اپنی آزادی بڑھوتری سرمایہ کا ذریعہ بناتا ہے۔ روابط کے وہ نظام جو سرمایہ دارانہ انفرادیت میں بڑھوتری سرمایہ اور فروغِ آزادی اور ترقی کے لیے قائم کرتی ہیں اس نظامِ کو سرمایہ دارانہ معاشرت کہتے ہیں۔ ان روابط کو متشکل کرنے کے لیے جو قانونی ذرائع استوار کیے جاتے ہیں ان کو کانٹریکٹ [Contract] کہتے ہیں سب سے بنیادی معاہدہ وہ ہے جس کو روسو [Rousseau] نے معاہدہ عمرانی [Social Contract] کہا تھا۔ اس معاہدہ کے ذریعے ایک ایسی ریاست وجود میں آتی ہے جس کا مقصد وجود سرمایہ کی بڑھوتری اور فروغ آزادی ہوتا ہے۔ ]یہی سرمایہ دارانہ ریاست یا Constitutional Republic ہے جس کی تفصیل میں انشاء اللہ اگلے حصے میں بیان کروں گا۔ اسی ریاست کی پشت پناہی اور قانونی اور عسکری تحفظ کے بل بوتے پر مارکیٹ [Market] وجود میں آتے ہیں۔

مارکیٹ سرمایہ داری کا بنیادی ادارہ ہے:

            مارکیٹ سرمایہ دارانہ معاشرت کا بنیادی ادارہ ہے۔ مارکیٹ بازار نہیں ہے کیونکہ مارکیٹ ذاتی ملکیت کو ختم کر کے سرمایہ دارانہ ملکیت [Corporate property] کو وجود میں لاتا ہے اور اس کی سماجی بالادستی کو مستحکم کرتا ہے۔ کارپوریشن وہ شخصیتِ قانونی ہے جس کا واحد مقصد وجود سرمائے کی بڑھوتری [Maximisation of Shareholder’s value] ہے۔ کارپوریشن کو ایک ایسی انتظامیہ چلاتی اور قابو کرتی ہے جو سرمایہ کی بڑھوتری میں اضافہ کرنے کی مہارت رکھتی ہے۔ انتظامیہ میں شامل افراد کارپوریشن کے مالک نہیں ہوتے۔ کارپوریشن کی ]فرضی[ ملکیت لاتعداد حصص کنندگان کے پاس ہوتی ہے جو عملاً کمپنی کے معاملات میں دخل اندازی اور اس کی کاروباری حکمت عملی کی ترویج میں حصہ لینے کے قابل نہیں ہوتے۔ ان کا مطالبہ کارپوریشن کی انتظامیہ سے صرف یہ ہوتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ منافع کمایا جائے۔ انتظامیہ اس بات پر مجبور ہے کہ وہ صرف ایسی حکمتِ عملی اپنائے جس کے بروئے کار لانے سے سرمایہ کی بڑھوتری کی رفتار تیز سے تیز ہو اور  Value Share holder  کی زیادہ سے زیادہ [Maximize] ہو۔ اگر مینجمنٹ ایسی حکمتِ عملی اختیار نہیں کرتی ہے تو کارپوریشن دیوالیہ ہوجائے گی یا کسی دوسری مینجمنٹ کا اس پر قبضہ جما لینے بذریعہ [takeover-merger] کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے۔ حقیقتاً نہ شیئر ہولڈر کارپوریشن کا مالک ہوتا ہے نہ مینجمنٹ اس کا مالک ہوتا ہے۔ کارپوریشن کا اصل مالک صرف سرمایہ۔ یعنی حرص اور حسد ہے۔ سرمایہ مینجمنٹ اور حصص کنندگان کو اس بات پر مجبور کر دیتا ہے کہ وہ صرف ایسی حکمت عملی اپنائیں جس کے نتیجہ میں حرص و حسد پورے معاشرہ کو اپنی گرفت میں جکڑلیں۔

مارکیٹ بازار کھا جاتا ہے کارپوریٹ ملکیت ذاتی ملکیت ختم کر دیتی ہے:

            مارکیٹ کے ذریعہ لوگوں کی دولت کھینچ کھینچ کر کارپوریشنوں کی مینجمنٹ کے ہاتھوں میں مرتکز ہوجاتی ہے اور وہ اس دولت کو سرمایہ کی بڑھوتری کے عمل کو مہمیز دینے کے لیے استعمال کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ جیسے جیسے کارپوریشنوں کی بالادستی اور انتظامی فوقیت مستحکم ہوتی ہے ذاتی کاروبار اور بازار کا دائرہ کار محدود سے محدود ہوتا چلا جاتا ہے۔ مارکیٹ بازار کو کھا جاتا ہے اور کارپوریٹ ملکیت ذاتی ملکیت کو برباد کردیتی ہے۔ ہر شخص سرمائے کا فرد بننے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ اجرتوں کا نظام معاشرتی تسلط حاصل کرلیتا ہے۔ ٩٩ فیصد افراد کی آمدنی کا ذریعہ اجرت بن جاتی ہے۔ آدمی اپنی دولت خود استعمال کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ جیسے جیسے کارپوریشنیں معاشی عمل پر حاوی ہوتی ہیں اور جیسے جیسے مارکیٹ کا دائرہ کار وسیع ہوتا جاتا ہے آدمی اپنی دولت کو خود استعمال کر کے روزی کمانے کے قابل نہیں رہتا۔ ہر شخص بینک میں اکائونٹ کھولتا ہے، یا حصص اور بانڈ خریدتا ہے، یوں اس کی دولت اس کے تصرف سے آزاد ہو ہو کر کارپوریشن کی مینجمنٹ کے پاس پہنچ جاتی ہے اور کارپوریشن کا مینجمنٹ اس دولت کو بڑھوتری سرمایہ کو مہمیز دینے کے لیے استعمال کرنے پر مجبور ہے۔

زر کا بازار اور سرمایہ کی مارکیٹ: دو اہم ادارے

            سرمایہ کی بڑھوتری اور ارتکاز کو فروغ دینے کے لیے دو منفرد بازار ١٩ویں صدی میں قائم کیے گئے۔ ایک زر کی مارکیٹ [money markt]اور دوسرا سرمایہ کا مارکیٹ [Capital Market]۔ ٢٠ویں صدی سے قبل پوری اسلامی تاریخ میں حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے حضرت سلطان المعظم خلیفہ عبدالحمید ثانی کے انتقال تک[ اس گھنائونے کاروبار کا کہیں وجود نہ تھا۔ زر کے مارکیٹ اور سرمایہ کے مارکیٹ کے دو بنیادی وظائف ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ بچت کرنے والے [Saver] کی دولت کو کاروبار میں لگانے والے [invester] سے جدا کر دے۔ بچت تو عوام کریں لیکن اس بچائی ہوئی دولت کا استعمال صرف وہ مینجمنٹ کرے جو اس دولت کو صرف اور صرف سرمایہ کی بڑھوتری کے عمل کو مہمیز دینے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے اور اس پر مجبور بھی ہے۔ یوں سرمایہ کا لامحدود ارتکاز ممکن ہوتا ہے۔ چونکہ سرمایہ محض حرص اور حسد ہے اور اس کے علاوہ اس کی کوئی منجمد [concerete] حیثیت نہیں لہٰذا اس کی بڑھوتری [accumalation] کی بھی کوئی حیثیت نہیں۔ آپ کسی منجمد شے ]مثلاً سیب یا زمین یا مشینری[ اور کسی ایسی خدمت ]مثلاً دنداں سازی، مکانوں کو خرید و فروخت کا کاروبار یا فوجی خدمات[ جن کے نتیجہ میں کوئی جسمانی ضرورت پوری ہو لامتناہی بڑھوتری [Accumalation for the sake of accumulation] کا ذریعہ نہیں بن سکتی۔ مثلاً دندان سازی کے کاروبار کی حد دنیا بھر میں دانتوں کی تعداد متعین کرتی ہے۔ سیبوں کو لامتناہی مقدار میں جمع نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وہ کبھی نہ کبھی ضرور سڑ جائیں گے۔ فوجی خدمات کو اس حد سے زیادہ جمع کرنا بے معنی ہے جب وہ تمام عالم کو فتح کرنے کے لیے کافی ہوجائیں۔

سرمایہ دارانہ زر کیا ہے؟

            لہٰذا سرمایہ، یعنی حرص اور حسد کی لامتناہی بڑھوتری [accumalation for the sake of accumulation] کو بروئے کار لانے کے لیے ایک ایسی شے کی ضرورت ہے جس کی

٭          اپنی کوئی منجمد ماہیت نہ ہو

٭          جس کے ارتکاز اور اجتماع کی کوئی فطری حد نہ ہو۔

            یہ شے سرمایہ دارانہ زر ہے سرمایہ دارانہ زر کے پیچھے کوئی منجمد شے مثلاً سونا، چاندی، دھات وغیرہ نہیں۔ سرمایہ دارانہ ریاست اور سرمایہ دارانہ نظامِ بینکاری جتنا چاہے اور جب چاہے سرمایہ دارانہ زر بنا سکتا ہے۔ سرمایہ دارانہ زر کے اعتبار کی اجراء ضمانت صرف اور صرف سرمایہ دارانہ ریاست کی حاکمیت [Soverignity] فراہم کرتی ہے۔ سونا یا چاندی کے ڈھیر یہ ضمانت فراہم نہیں کرتے۔ سرمایہ دارانہ زر کے اجراء اور گردش کا مقصد صرف اور صرف سرمایہ کی بڑھوتری ہوتا ہے۔ سرمایہ دارانہ زر کی مقدار صرف سرمایہ کی بڑھوتری کے زمانی اور مکانی امکانات کرتے ہیں اور چونکہ سرمایہ یعنی حرص و حسد کی بڑھوتری کے کوئی اصولی حدود نہیں لہٰذا سرمایہ دارانہ زر بھی لامحدود بڑھوتری کا معمول [agent] ہے۔ دوسری جنگ عظیم ]بالخصوص Bretton woods کے مالیاتی نظام کے انہدام[ کے بعد سرمایہ دارانہ زر کا تعلق سونے سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے منقطع کر دیا گیا۔ ١٩٧٩ء کے بعد سے سرمایہ دارانہ زر کا تعلق کاغذ سے بھی بتدریج منقطع کیا جا رہا ہے اور سرمایہ دارانہ نظام کے حکام چاہتے ہیں کہ وہ وقت جلد آئے جب سرمایہ دارانہ زر صرف اور صرف کمپیوٹر کی یادداشت مقدارِ محض [Pure Quantity] کی اعدادی [Numerical] شکل اختیار کرلے۔

ہر شے اور عمل کی قدر زر کا بازار متعین کرتا ہے:

            سرمایہ کی لامتناہی بڑھوتری سرمایہ دارانہ بازار زر کا بازار اور سرمایہ کا بازار ممکن بناتے ہیں۔ ان بازاروں کا دوسرا اہم فریضہ یہ ہے کہ یہ ہر شے اور عمل کی قدر متعین کرتے ہیں۔ جیسا کہ میں نے اوپر عرض کیا سرمایہ دارانہ نظام زندگی کی قدرِ مطلق [absolute value] یہ ہے کہ وہ human being کے کائناتی اختیار کو لامحدود بنا دے۔ ]انسان کو خدا بنا دے[ یہ قدرِ مطلق سرمایہ دارانہ معاشرہ میں سرمایہ کی لامتناہی بڑھوتری، حرص اور حسد کے لامحدود فروغ کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ سرمایہ دارانہ معاشرہ کی ضرورت ہے کہ وہ ہرشے اور ہر عمل کی تقابلی قدر [Relative value] اسی پیمانہ کی بنیاد پر متعین کرے، قدر کے تعین کا یہ کام سرمایہ دارانہ بازار انجام دیتے ہیں۔ سرمایہ کے بازار [capital market] میں حصص اور تمسکات [bonds] کی خرید و فروخت کا کاروبار ہر لمحہ جاری و ساری رہتا ہے۔ ہر شیئر اور بانڈ کی قیمت اس بات پر منحصر ہوتی ہے کہ وہ کتنا منافع دیتا ہے۔ تصور کیجیے کہ حصص کے بازار میں دو کمپنیاں ہیں کمپنی الف جائے نماز بناتی ہے اور کمپنی ب فحش فلمیں بناتی ہے۔ جب بازار میں ان کمپنیوں کے حصص کی قیمتیں متعین کی جائیں گی تو اس چیز کو نظر انداز کیا جائے گا کہ کمپنی الف اور کمپنی ب کا کاروبار کیا ہے؟ سوال صرف یہ اٹھایا جائے گا کہ کونسی کمپنی زیادہ منافع کمانے کے قابل ہے۔۔ کونسی کمپنی زیادہ ڈیویڈنڈ [Divident] دے گی۔ اگر جائے نماز بنانے کا کاروبار زیادہ منافع بخش ہونے کی توقع ہے تو اس کے حصص کی قیمت فحش فلمیں بنانے والی کمپنی کے حصص کی قیمت کے مقابلے میں زیادہ ہوگی۔ اگر فحش فلمیں بنانے کا کاروبار زیادہ منافع بخش ہے تو اس کمپنی کے حصص کی قیمت جائے نماز بنانے والی کمپنی کے حصص کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے بڑھے گی۔ جس کمپنی کے حصص کی قیمت زیادہ ہوگی پیسہ اس ہی کی طرف کھنچ کے آئے گا۔ اگر جائے نماز بنانے والی کمپنی کے حصص کی قیمت گرے گی تو اس کی مینجمنٹ اس بات پر مجبور ہوگی کہ وہ جائے نماز بنانا چھوڑ دے ورنہ کمپنی دیوالیہ ہوجائے گی۔ فحش فلمیں بنانے والی کمپنی اس کو خرید لے گی اور فحش تصاویر کے ذریعے اس کاروبار کو فروغ دینے کے مزید ممکنہ طریقے تلاش کرے گی۔ طلب و رسد کے کافرانہ قانون کے تحت یہ طرز عمل فطری قرار دیا جاتا ہے۔

شیئر بانڈ خریدنے والا اس کے مالک اور اس کے استعمال سے لاعلم رہتا ہے:

            جب ایک عام خریدار شیئر یا بانڈ خریدتا ہے تو اس کو یہ بالکل علم نہیں ہوسکتا ہے کہ اس پیسے سے کیا کام کیا جائے گا۔ اول تو ٩٥ فیصد حصص اور بانڈ کی ملکیت ہی نامعلوم ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ وہ کس شخص کی ملکیت والے حصص یا بانڈ خرید رہا ہے۔ دوسرے جو حصص یا بانڈ تازہ اجراء [New Issue] والے ہوتے ہیں ان کو خریدنے والے عملاً اس بات کو متعین کرنے سے قاصر ہیں کہ اس پیسہ سے حصص یا بانڈ جاری کرنے والی کمپنی یا حکومت کیا کرے گی۔ یہی بات واضح کرتی ہے کہ سرمایہ دارانہ ملکیت ذاتی ملکیت نہیں۔ اس نظام میں ذاتی ملکیت محض ایک قانونی دھوکہ [legal Fiction] ہے۔ ایک عام فرد اس بات پر مجبور ہے کہ اپنی تمام بچتیں بینکوں یا کارپوریشنوں کے ذریعہ سرمایہ کے حوالے کر دے اور صرف اس بات سے غرض رکھے کہ بچت کی اس سپردگی کے نتیجہ میں اس کو کتناسود مل رہاہے۔ کتنا ڈیویڈنٹ مل رہاہے کتنا capital gain ہورہا ہے۔ سرمایہ منجمد نہیں۔ وہ ہردم اپنی بڑھوتری کے لیے اشیا اور خدمتوں کے درمیان گردش کرتا ہے۔ سرمایہ حر ص اور حسد ہے ۔ حرص اور حسد انسانی زندگی میں پوری طرح سرائیت کرنے کی متقاضی ہے جب تک معاشرے کا ہر فرد تاجر، مزدور، منیجر، حصص کنندگان ، بینک کا ڈیپازیٹر اپنے آپ کو سرمایہ کے حوالے نہ کردے شیطنت یعنی humanism کو غلبہ عمومی حاصل نہیں ہوسکتا۔ سرمایہ دارانہ معاشرت اسی ہی  شیطنت humanism کے عام غلبہ کی غماز ہے۔

سول سوسائٹی کا مطلب مذہبی معاشرہ کا خاتمہ ہے:

            سرمایہ دارانہ معاشرت مارکیٹ پر مسلط ہو جانے کا مسلسل عمل ہے ۔ سرمایہ دارانہ معاشرہ میں مارکیٹ زندگی کے ہر شعبہ کو مسخر کر لیتی ہے۔ سرمایہ دارانہ معاشرت کا بنیادی غیر معاشی تعلق سرمایہ دارانہ معاشرت کا غلبہ اور استحکام اور زنا اور آزاد شہوت رانی کا عام ہوجانا ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔ سرمایہ دارانہ معاشرت غلاظت، نجاست اور پلیدگی کی نچلی ترین سطح ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک human یعنی شیطانی معاشرہ ہوتاہے۔ اس معاشرہ کو civil society کہتے ہیں۔ یہ سول سوسائٹی لازماً مذہبی سوسائٹی کے انہدام کے ذریعہ قائم ہوتی ہے۔

سول سوسائٹی میں مذہبی اقدار لغو ہوتی ہیں:

            جان اسٹیورٹ مل [John Steart Mill] نے حق زنا کو ایک human right کے طور پر پیش کیا ہے۔ سول سوسائٹی تمام مذہبی اقدار و اعمال کو لغو اورلایعنی ثابت کرتی ہے۔ سول سوسائٹی میںجو ذہنیت کارفرما ہوتی ہے۔ وہ عقلیت ہے۔ اس ذہنیت کو rationality کہتے ہیں اور اس کا اظہار سائنس اور فلسفہ کے ذریعہ ہوتاہے۔ rationality ہر فعل کو خود ارادیت، خود تخلیقیت اور خود غرضیت کے پیمانے پر تول کر اس کی تقابلی قدر متعین کرتی ہے۔ اس پیمانے پر تو لاجائے تو للہیت محبت، طہارت، عفت، تقویٰ، غیرت، ایثار، اور شہادت بالکل بے وقعت اور بے قدر نظر آتی ہیں۔ سول سوسائٹی میںان اوصاف کے پنپنے کی کوئی گنجائش نہیں سول سوسائٹی ان اوصاف کے فروغ پانے کو مشکل سے مشکل بنادیتی ہے۔ اس کا نظامِ تعلیم تسخیر کائنات اورتمام فطری قوتوں کو humanکے ارادہ کے مطیع بنانے کو مقصد کے طور پر قبول کرنے کی ایمانیات کو مستحکم کرتاہے۔ سرمایہ دارانہ نظامِ تعلیم انسان کو زیادہ سے زیادہ خود غرض ، سفاک لذت پرست ، ہوسناک اور خدا کا باغی بناتاہے۔ سرمایہ دارانہ تصورِ عدل خود غرضیت اورخود ارادیت [liberty] کے مساوی [equal] فروغ کو تصور کیا جاتا ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں خود غرضیت اور لذت پرستی کافروغ مقصد وجود ہو اور جس کا پیمانۂ عدل ہی خود ارادیت کے مساوی مواقع فراہم کرتا ہو وہاں شیطان ہر فرد کے دل اور دماغ پر قابض نہ ہوگا تواور کیا ہوگا۔

انفرادیت کا اظہار صرف صارف کی حیثیت سے ہوتا ہے:

            سول سوسائٹی کا ایک عام باشندہ اپنی انفرادیت کا اظہار عمل تصرف [Consumption] کے ذریعہ کرتاہے۔ human اختیار کے لا محدودہونے کا اظہار عملاً اشیائے صرف کے درمیان لا محدود اختیار کے ذریعہ ہی کیا جاتا ہے۔ مثلاً امریکہ میں آپ ٦ لاکھ قسم کے صابنوں میں سے کوئی بھی خرید سکتے۔ کئی ہزار ٹی وی چینلز میں سے کوئی بھی دیکھ سکتے۔ سینکڑوں طریقوں سے جنسی آسودگی حاصل کرسکتے ہیں۔لیکن کوئی بھی صابن خریدیں ، کوئی چینل دیکھیں کسی بھی طریقہ سے جنسی آسودگی حاصل کریں مقصد آپ کاحصول لذت اور اپنے ارادہ کی تکمیل ہے۔ حصول لذت اور ارادہ کی تکمیل کے سوا سرمایہ دارانہ معاشرہ اظہار ذات کے ہر دوسرے طریقہ کو نا ممکن بنا دیتا ہے کیونکہ حصول لذت اور تکمیل ارادے کے ذریعے ہی سرمایہ کی بڑھوتری کا نظامِ بالادستی قائم کرتا ہے۔ حرص اور ہوس، ، لذت پرستی اور خود پرستی ہی سے فروغ پاتی ہیں۔ ان کو فروغ دینے کے دوسرے کوئی ذرائع موجود نہیں۔

جہاں سرمایہ داری ہے وہاں گناہگاروں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے:

            اس سے ثابت ہوا کہ سرمایہ دارانہ عقلیت [epistimology] اور سرمایہ دارانہ عمل [Practice] معاشی حدود تک محدودنہیں رہ سکتے۔ دنیا میں آج کوئی ایسا ملک موجود نہیں جہاں سرمایہ دارانہ معیشت  ترقی کررہی ہو۔ لیکن خاندان تباہ نہ ہورہے ہوں۔ زنا عام نہ ہورہا ہو۔ادب اور ثقافت ، دھوکہ ، غلیظ ترین اور فحش ترین رحجانات کی عکاسی نہ کررہا ہو۔ استبداد اور جعل سازی اور ظلم عام نہ ہو ۔مارکیٹ contract کے تمام اعمال بھی مساوی آزادی [equal freedom] کا اظہار ہیں اور سول سوسائٹی اسی غلاظت، سفاکیت اورنجاست کا مرکب ہے۔

سرمایہ داری کا فطری نتیجہ زنا کاری ہے جو آبادی ختم کر رہی ہے:

            سرمایہ دارانہ معاشرت انسانیت کے رذیل ترین رحجانات کا اظہار سرمایہ دارانہ معاشرتیں اجتماعی خود کشی کررہی ہیں۔ زنا کا معاشرتی غلبہ لامحالہ انسانی نسل کی کی تحدید پر منتج ہوتا ہے۔ جن ممالک میں سرمایہ دارانہ معاشرت نے فروغ پایا  ان کی آبادی ١٩٠٠ میں دنیا کی آبادی کا ١٤ فی صد تھی۔ ٢٠٠٠ میں یہ شرح گر کر ١٣ فی صد رہ گئی اور اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق ٢٠٥٠ء میںیہ شرح ٤ فی صد رہ جائے گی۔ انہی اندازوں کے مطابق اگر موجودہ معاشرتی رحجانات برقرار رہے تو چند صدیوں میں جرمنی، جاپان ، فرانس اور اٹلی کی قومیں مکمل طور پر مٹ جائے گی۔ جن ایشیائی ممالک نے سرمایہ دارانہ معاشرت کو اپنا یا ہے  ۔بالخصوص چین ، ہندوستان ، جنوبی کوریا اور تائیوان۔وہاں بھی قومی آبادی گھٹنا شروع ہوگئی ہے۔

جبر و ترغیب: سرمایہ داروں کے دو ہتھکنڈے

            مردوزن کے فطری دائرہ کار اور نظامِ تعلقات کو تباہ کرکے انسان کو شیطان human بنانے کا جو عمل سرمایہ دارانہ نظام زندگی نے رائج کیا ہے۔اس کو جاری رکھنا ایک مشکل کام ہے۔ سرمایہ دارانہ انفرادیت اور معاشرت کو قائم رکھنے اورفروغ دینے کے لیے ترغیب کی بھی ضرورت پڑتی ہے اورجبرکی ۔ جبر اور ترغیب کومنظم کرنے کے لیے جو ادارے بنائے گئے ہیں ان کے مجموعے کوسرمایہ دارانہ ریاست کہتے ہیں۔ اسی ریاستی نظام نے سرمایہ دارانہ انفرادیت اور معاشرت کو جنم دیا اور آج بھی سرمایہ دارانہ انفرادیت اور معاشرت کے استحکام اور پیدائش کے لیے سرمایہ دارانہ ریاست پر اس معاشرت کا انحصار ناگزیر ہے اب میں سرمایہ دارانہ ریاستی نظام کی اہمیت خصوصیات بیان کروں گا۔

سرمایہ دارانہ ریاست

            ریاست اس نظام ِ اقتدار کو کہتے ہیں جس کو معاشرتی مقبولیت یا برداشت حاصل ہو ]اس کی تفصیل میں پہلے عرض کرچکا ہوں[ سرمایہ دارانہ ریاست اس نظامِ اقتدار کو کہتے ہیں جس کی مندرجہ ذیل خصوصیات ہوں۔

٭          اس کا مقصدِ وجود سرمایہ کی بڑھوتری ہو۔

٭          اس مقصد کے حصول کے لیے وہ سرمایہ دارانہ شخصیت اور سرمایہ دارانہ معاشرت کو قائم اور مستحکم کرتی ہو۔

٭          حقوق اور فرائض کے اس نظام کو نافذ العمل بناتی ہو جس کے نتیجہ میں سرمایہ دارانہ شخصیت اور سرمایہ دارانہ معاشرت فروغ پائے۔

سرمایہ دارانہ مفکر مذہب کا اخراج چاہتے تھے:

            سرمایہ دارانہ ریاست کی چند مبہم تصویریں میکیاویلی(Machiavelli) کی تحریروں میں ملتی ہے لیکن اس کی وضاحت سترھویں اور اٹھارویں صدی کے تنویری فکر سے متاثر مفکرین بالخصوص لاک( Locke) رؤسو ( (Roussoeau مونٹیکو(Monteque) اور جیفرس( Jefforson) نے پیش کیں۔ ان تمام مفکرین کا نکتہ اتفاق یہ تھا کہ مذہب کو سیاسی عمل سے خارج کرنا چاہتے تھے۔Lockeاس مذہبی ریاست کا شدید مخالف تھا جو (Cromwell) نے ١٧ ویں صدی کے وسط میں انگلستان میں قائم کی، روسو اور مونٹیسکیو کیتھولک چرچ کے کھلے دشمن تھے، جیفرسن امریکہ میں ایک سیکیولر سرمایہ دارانہ وفاقی [federal] نظامِ اقتدار قائم کرنے کا خواہاں تھا یہ سب ریپبلیکن [republican] تھے اور اس لحاظ سے ان کی فکرکا افلاطون کی سیاسی فکر سے خاص تعلق تھا۔ افلاطون نے بھی سیاسی فلسفہ پر جو کتاب مرتب کی اس کا نام Republic رکھا اور اس کی نگاہ میں ریپبلیکن نظام اس سیاسی تنظیم کو کہا جاسکتا ہے جہاں خیر اور شر کے پیمانے اور ان کو نافذ کرنے والا نظامِ اقتدار انسانی فکر نے جرح اور تعدیل کے ذریعے مروج کیا ہو۔ ارسطو سمجھتا تھا کہ بحث اور جرح اور تعدیل کے ذریعے زندگی گزارنے کا بہترین طریقہ دریافت کیا جاسکتاہے اور وہ نظام ِ اقدار قائم کیا جاسکتا ہے جو تمام انسانیت کے مفاد میں ہو اور جو سب کو عدل مہیا کرنے کے قابل ہو۔

مرضی رب انسان کے ارادہ عمومی کا نام ہے:

            اٹھارویں صدی کے تنویری سیاسی فلسفہ میں بھی بنیادی سوال یہی ہے کہ وہ نظامِ اقدار کونساہے جو سب کے مفاد میں ہو؟ عیسائیت انسان کا مفاد رضائے الٰہی کے حصول میں دیکھتی تھی اور جیسا کہ میں نے اوپر عرض کیا تحریک تنویر کے مفکرین اس کو قطعاً اور کلیتاً رد کرتے تھے۔ human being فطرتاً آزاد ہے۔روسو نے کہا “Man is born free” اور سیاسی عمل کا مقصد ان زنجیروں [chains] کو توڑدینا ہے جن میں کیتھولک چرچ نے اس کو جکڑ رکھا ہے۔ لاک [Lock] نے کہا کہ بائبل کسی واضح سیاسی تعلیمات کی نشاندہی نہیں کرتی لہٰذا مرضی رب human beingsکے ارادہ عمومی [general will] کے ہم معنی ہے۔

سٹیزن خیر و شر کے پیمانے خود بنا سکتا ہے:

            تنویری سیاسیات ]اس کوآج Political Science کہا جاتاہے اور political science کی اولین باضابطہ تشریح امریکہ کے دستور سازوں کی تصنیف Federalist Papers میں ملتی ہے[ کا کلیدی تصور ارادہ عمومی [general will] ہے ۔ روسو نے کہا کہ اس جنرل وِل کے اظہار کا ذریعہ وہ معاہدہ عمرانی [social contract] ہے جس کے ذریعہhuman being ایسی حکومت بناتے ہیں جو آزادی [liberty] کی منتہا بڑھوتری [maximisation] کو اپنے مقصد وجود کے طور پر قبول کرتی ہے۔ اس حکومت کا اساسی عقیدہLiberty کی maximisation ہے اور اس عقیدہ کا اظہار ان human rights کو مقدس[sacrosanct] اور غیر مقبول مان کرکیا جاتا ہے جو سرمایہ دارانہ انفرادیت معاشرے اور نظامِ اقتدار کو قائم کرنے اور فروغ دینے کے لیے ضروری ہیں ۔ یہhuman right ہر سرمایہ دارانہ ریاست کے دستور کا مقدمہ ہوتے ہیں اور یہ دستور صحیفہ مقدس ]انجیل ، توریت ، قرآن ، ویدا [کا عملی بدل ہے۔ دستور humanity کی لا محدود اور دائمی حاکمیت [sovergnity] کا اعلان کرتا ہے۔ human being کو سٹیزن بناتا ہے۔ اور سٹیزن وہ ہے جو اس بات پر ایمان لائے کہ وہ خیر و شرکی جو بھی تعبیر کرنا چاہے کرنے کا حق رکھتا ہے۔ سوائے اس تعبیر کے کہ خیرو شر کی کسی ایسی تعبیر کو قبول کیا جائے جو بجائے خود سٹیزن کے اس حق ہی کی نفی کرتی ہے۔

انسان کو Human بنانا کیوں ضروری ہے؟

یونان اور مغرب میں بنیادی فرق:

            قدیم یونانی تصورِ جمہوریت اور تنویری  تصور جمہوریت ]اس کو لاک Representative governmentکہتا ہے[ میں ایک بنیادی فرق ہے۔ یونانی سیاسی مفکرین فلسفہ human rights سے آشنانہ تھے Athensکے Citizens کا یہ حق تسلیم کیا جاتا تھا کہ وہ اپنی اور اپنے ماتحتوں کی آزادی سلب کریں اور ان کی ریپبلک آزادی کی لا محدود بڑھوتری [maximisation of liberty] کو اپنا مقصدِ وجود تسلیم نہیں کرتی تھی۔ انہی معنوں میں ایتھنز کی ریپبلک سرمایہ دارانہ ریپبلک نہ تھی اس کے برعکس ١٨ ویں صدی میں قائم ہونے والی امریکی اور فرانسیسی ریپبلکوں نے اپنے دساتیر کے ذریعہ سرمایہ داری کو اپنے مقصدِ وجود کے طور پر قبو ل کیا۔ انہی معنوں میں امریکی اور یورپی ریاستیں سرمایہ دارانہ ریپبلک ہیں دستوری ریاستوں میں کسی سٹیزن کو یہ حق نہیں کہ وہ آزادی کی لا متناہی بڑھوتری[maximisation of liberty] کے سوا کسی اور مقصد کو ریاست کے مقصد وجود کے طور پر نافذ کرنے کی کوشش کرے اس بات کو واضح کرنے کے لیے رو سو نے ارادہ اجتماعی [will of all] کو ارادہ عمومی [general will] سے ممیز کیا ہے۔ ارادہ اجتماعی اکثر یتی رائے ہے اور وہ بدلتی رہتی ہے۔ارادہ عمومی [general will] غیر متبدل ہے وہ صرف اور صرف آزادی کی لا محدود بڑھوتری کا دوسرا نام ہے۔ ارداہ اجتماعی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ آزادی کی لامتناہی بڑھوتری کے مختلف طریقہ پسند کرے لیکن اس کو یہ حق نہیں کہ وہ آزادی کی لا محدود بڑھوتری کے سوا کسی اور مقصد کو نظام اقتدار کے مقصد وجود کے طور پر اپنائے ۔ روسو اورلاک سے لیکر دورِ حاضرکے تنویری سیاسی فلاسفہ ]مثلاً Rawls،  Habermasاسی بات پر اصرار کرتے ہیں کہ اگر ارادہ اجتماعی ارادہ عمومی ]آزادی کی لا محدود بڑھوتری[ کی نفی کرے تودستوری ریاست کا فرض ہے کہ وہ ایسے ارادہ اجتماعی کو فسخ اورساقط کرے تنویری مفکرین ہمیشہ ارادہ اجتماعی کے غیر سرمایہ دارانہ اظہار سے خائف رہے ہیں۔ سرمایہ دارانہ ریاستوں نے جن معاشروں میں نشو ونما حاصل کی ہے ان میں بیشتر میں کم از کم بیسویں صدی کی ابتدا تک انسانوں کی اکثریت اور human being کی ایک قلیل اقلیت تھی جو معاشرتی وسائل پر قابض تھی انسانوں کو human بنائے بغیر ارادہ اجتماعی  اور ارادۂ عمومی میں تطبیق پیدا کرنا ممکن نہ تھا۔ رائے دہندگان کے دائرہ کو اسی رفتار سے وسعت دی جاسکتی تھی جس رفتار سے ا نسان humanبن رہے تھے۔لاک اور جیفرسن نے اس عمل کو تیز کرنے کے لیے دو حکمت عملیاں مروج کیں۔

Human Being کا وجود سرمایہ داری میں کیوں ضروری ہے؟

            لاک نے کہا کہ سرمایہ دارانہ ریاست کو نمائندہ حکومت [Representative government] ہونا چاہیے۔ ایتھینز میں ہر سٹیزن ریاستی فیصلہ میں شامل ہونے کا مجاز تھا۔ لاک نے کہا کہ یہ اصول قابل عمل نہیں۔ سٹیزن کو اپنا نمایندہ منتخب کرنے کا حق ہے اور حکومتی فیصلوں کا حق صرف نمائندگان کو ہے۔ چونکہ سرمایہ دار تنظیم میںمعاشرہ اور معیشت کے ذریعہ وسائل human beingکے پاس جمع ہوتے ہیں لہذا ان کا نمایندہ منتخب ہونے کا امکان بہت زیادہ ہوتا ہے۔ ایوان نمایندگان میں بہت کم انسان پہنچ پاتے ہیں اور عموماً معاشرہ میں اکثریت میں ہونے کے باوجود انسانوں کی نمایندگی سرمایہ دارانہ  مقننہ اداروں میں human being ہی کرتے ہیں۔

            جیفرسن [Jefforson]نے کہا کہ یہ پیش بندی کافی نہیں سرمایہ دارانہ نظامِ اقتدار کو انسانیت سے محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس نظامِ اقتدار کو تین حصوں میں تقسیم کردیا جائے۔ مقننہ [Legslitive]انتظامیہ [executive]  اور عدلیہ [judicrary]۔ نمایندگی کو صرف مقننہ کے ایوانِ زیریں تک محدود رکھا جائے۔ صرف وہی شخص عدلیہ اور انتظامیہ کا کار پرداز بن سکتا ہے جو سرمایہ دارانہ علمیت کوپورے طور پر اپنی انفرادیت میں سمو چکا ہو۔عدلیہ اور انتظامیہ کے ہی human کا ر پرداز مقننہ کے فیصلوں کی عملی تشریح اور نفاذ کے ذمہ دار ہوں۔weberنے بھی سرمایہ دارانہ نظامِ اقتدار انتظامیہ بالخصوص beaurocracy کی بالادستی کو ضروری سمجھا ہے۔

سوشل ڈیموکریسی انسان کو Human بنانے کی تحریک:

            انیسویں صدی کے وسط سے یورپ اور امریکہ میںانسانوںکو human بنانے کے لیے عوامی تحریکیں برپا ہوئیں۔ ان میں سب سے اہم تحریک وہ ہے جس کو ہم سوشل ڈیموکریٹ[social democrat] تحریک کہتے ہیں۔ یہ تحریک سرمایہ دارانہ نظام میں مزدوروں کو حقوق دلانے کی تحریک تھی۔ سرمایہ دارانہ نظام میںحقوق کے طلب گار کے لیے ضروری ہے کہ وہ پہلے human بنے۔ انسانوں کا تو کوئی حق سرمایہ دارانہ نظام قبول نہیںکرتا۔ یہی وجہ ہے کہ لاک اور جیفرسن کروڑوں سرخ ہندیوں[Red Indians] کے قتل عام کے پر زور حامی تھے اور یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے عوام کی بڑی اکثریت دورِ حاضرمیں لاکھوں افغانیوں اور عراقیوں کے قتلِ عام کو ضروری سمجھتی ہے کیوں کہ اس مستقل قتل عام کے بغیر وہاں دستوری سرمایہ دارانہ ریاست قائم نہیں کی جاسکتی۔

            سوشل ڈیموکریٹک تحریک کے فلاسفہ ]مثلاً Mill، Weiser، TH. Green وغیرہ [نے کہا کہ مزدور humanبننا چاہتے ہیں۔ ان کو سرمایہ دارانہ ریاستی نظام میں ضم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ human beings کے تصور میں توسیع کرکے مزدوروں کے اجتماعی حقوق [collective rights] کو تسلیم کیا جائے۔ہر مزدور کا حق کہ اس کی آمدنی [basic income] اتنی ہو کہ وہ human rights سے مستفید ہوسکے ۔سرمایہ دارانہ ملکیت میں شمولیت حاصل کرسکے۔ سرمایہ دارانہ تعلیم پاسکے۔ سرمایہ دارانہ سیاسی اور سماجی شعور حاصل کرسکے۔ سرمایہ دارانہ زندگی گزار سکے۔ مزدوروں کی یونینیں مزدوروں کو human بنانے کا اہم ذریعہ ثابت ہوئیں اور چونکہ سرمایہ دارانہ نظام میں ہر فرد کسی نہ کسی معنوں میں سرمایہ کا غلام اور مزدور ہوتا ہے لہٰذا یونینوں نے سرمایہ دارانہ نظام اقتدار کو مناسب human beingایسے افرادجو اجتماعی طور پر ارادہ عمومی یعنی آزادی کی لا متناہی بڑھوتری کو ریاست کے واحد مقصدِ وجود کے طور پر قبول کریں[ فراہم کرنے میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔

کمیونسٹ تحریک نے انسان کو شیطان بنا دیا؟

            دوسری تحریک جس نے عام انسانوں کو human ]شیطان[ بنایا وہ کمیونسٹ [communist] تحریک تھی، اس تحریک کا بنیادی دعویٰ تھا کہ human  صرف مزدور ہی ہیں۔ اور مزدوروں کا طبقاتی شعور ارادہ عمومی [general will]کی تشریح اور اظہار کا واحد ذریعہ ہے۔ لہٰذا سرمایہ دارانہ معاشرہ میں مزدوروں کی ڈکٹیٹر شپ [Dictatorship of the Prolitariat] قائم ہونی چاہیے۔لیکن یہ ڈکٹیٹر شپ Peoples Republicہوگی جس میں مزدور طبقہ اپنی نمایندہ حکومت قائم کرلے گا اور مزدوروں کے نمایندے تمام فیصلے ادارہ عمومی کے اظہار کے لیے کریں گے۔پیپلزریپبلک [People’s Re Public]سرمایہ دارانہ نظام اقتدار کی وہ ترتیب ہے جہاں مزدوروں کے طبقاتی شعور کو [class conciousness]ارادہ عمومی کے اظہار کا واحد ذریعہ سمجھا جاتا ہے اور جہاں مزدوروں کی نمایندہ جماعت یعنی کمیونسٹ پارٹی اس اظہار کا اجارہ دارانہ حق رکھتی ہے۔ اس نظامِ اقتدار اور لبرل سرمایہ دارانہ  نظامِ اقتدار میں مماثلت یہ ہے کہ دونوں ارادہ عمومی ]آزادی کی لا متناہی بڑھوتری کو ریاست کا واحد مقصد وجود تصور کرتے ہیں۔[ لیکن دونوں میںاس اظہار کے جائز [legitimate] نمایندگان مختلف ہیں۔

قوم پرستی کی خطرناک ترین تحریک:

            انسانوں کوhuman بنانے کی ایک اور تحریک جو بہت با اثر ثابت ہوئی ہے وہ قوم پرست [nationalist] تحریک ہے۔ اس تحریک کا دعوی ہے کہ ارادہ عمومی آزادی کی غیر محدود بڑھوتری کا صحیح اظہار صرف ایک برتر قومیت ہی کرسکتی ہے۔ human صرف اسی برتر قوم کے افرادہی ہیں اور صرف اس برتر قوم کے قومی مفاد کو فروغ دے کرہی آزادی سرمایہ کی لا متنا ہی بڑھوتری کوممکن بنایا جاسکتاہے۔لہٰذا ایک ایسا نظام اقتدار مروج کرنا چاہیے جس میں قومی مفاد کے لا متناہی فروغ کو ریاست کے مقصد وجو د کے طور پر قبول کیا جائے اور یہی آزادی کی لا متناہی بڑھوتری کو ممکن بنانے کا واحدذریعہ ہے۔ قوم پرست تحریکات ایک عام انسان میں قومی شعور[National conciousness] پیدا کرکے اس کو human بناتی ہیں۔

سرمایہ داریت اور قوم پرستی کا تعلق:

            سرمایہ دارانہ ریاست، خواہ لبرل ، خواہ سوشل ڈیموکریٹ ، خواہ کمیونسٹ ، خواہ قوم پرست، خواہ ان سب کا امتزاج[ سرمایہ دارانہ معیشت اور معاشرت کے قیام استحکام اور فروغ کے لیے ضروری ہے کیوں کہ سرمایہ دارانہ ریاست ہی انسانوں کو human بنانے اور human رکھنے کی حقیقی ذمہ دار ہے۔ ١٩ویں صدی میں سرمایہ دارانہ ریاستیں قومی تھیں وہ اپنی ریاستی حدود میں ہی سرمایہ دارانہ ذہنیت کو فروغ دینے اور سرمایہ دارانہ ملکیت کو مستحکم کرنے کی ذمہ داری قبول کرتی تھیں۔لہٰذا سرمایہ دارانہ مارکیٹوںکا دائرہ کار قومی  یا قومی استعماری علاقوں تک محدود ہوتا تھا۔ برطانوی سرمایہ برطانوی ریاست اور برطانوی استعماری نظام کے حدود میں مرتکز تھا اور یہیں اپنے آپ کومحفوظ تصورکرتا تھا۔غیر ممالک میں بھی برطانوی کارپوریشنیں اپنے تحفظ کے لیے برطانوی ریاست کی طرف ہی دیکھتی تھیں۔

عالمی سرمایہ کے تحفظ کے لیے عالمی ریاست کی ضرورت:

            ١٩٧٠ء کی دہائی سے سرمایہ دارانہ مارکیٹ کی قومی تشکیل میں بتدریج دراڑیں پڑرہی ہیں اور سرمایہ دارانہ مارکیٹ بالخصوص Financial Market قومی نہیں رہی بلکہ بتدریج عالمی ہوتی جارہی ہے۔ لہٰذا سرمایہ دارانہ بازاروں کو ایک ایسی عالمی ریاست کی ضرورت ہے جو

٭          انسانو ںکو مسلسل قتل کرتی رہے۔ انسانوں کو بے بس لاچار اور مجبور بناتی رہے۔ انسانوں کی دولت اور وسائل پر قبضہ کرتی رہے۔

٭          انسانوں کو human ]شیطان[ بناتی رہی تاکہ ارادہ اجتماعی ارادہ عمومی آزادی سرمایہ کی لامتناہی بڑھوتری کا ذریعہ بن جائے۔

امریکہ:

دنیا کی سب سے زیادہ مقروض ریاست:

١٩٩٠ء میں سوویت یونین کے انہدام کے بعد امریکہ کو وہ عالمی عسکری بالادستی حاصل ہوگئی ہے۔ جس کو کوئی سرمایہ دارانہ ریاست چیلنج کرنے کی پوزیشن میںنہیں لہٰذا تمام سرمایہ دارانہ مارکیٹ امریکہ سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ ان کو تحفظ فراہم کرے اور ان کے کاروبار کو فروغ دے دوسری جنگ عظیم کے بعد قائم ہونے والی تمام امریکی حکومتوں نے عالمی سرمایہ کہ تحفظ اور فروغ کی ذمہ داری قبو ل کی ہے۔اور اب اس کے لیے ناممکن ہوگیا ہے کہ وہ اس ذمہ داری سے پیچھا چھڑائے کیوں کہ وہ دنیا کی سب سے زیادہ مقروض ریاست بن گئی ہے اور امریکی معاشی استحکام کا دارومدار  چینی ، جاپانی ، کورین اور یورپی سرمایہ کاری پر مسلسل بڑھتا چلا جارہا ہے۔

امریکی عالمی سرمایہ دارانہ مارکیٹ کے فروغ اور تحفظ کی ذمہ دار ہے لیکن اس کے لیے یہ ایک مشکل کام ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں سب سے پہلی وجہ تو یہ ہے کہ اپنی تاریخ اور اپنی ساخت کے اعتبار سے امریکہ ایک قومی ریاست ہے اس کا وجو دکروڑوں ریڈ انڈینوں کے قتلِ عام کے نتیجہ میں ممکن ہوسکا۔ یورپ سے آئی ہوئی جن قوموں نے تین صدیوں پر محیط قتل عام ، لوٹ ماراور جبر و استبداد کو برپاکیا وہ تاریخ انسانی کی سب سے زیادہ ظالم ، سفاک، مکار، خود غرض، ذلیل اور درندہ صفت قومیں تھیںاور بیسویں اور اکیسویں صدی میں امریکی استعمار کی خود غرضی، ظلم پرستی ، سفاکیت ، دہشت گردی میں مستقل اضافہ ہوتا چلا گیا ہے۔ امریکہ کے حاکم جو اپنی قوم کے سب سے زیادہ ظالم، مکار ہیں اپنی اور انتہائی درجہ کی خود غرض قوم سے اپنی پالیسیوں کی تصدیق حاصل کرتے ہیں ۔ عالمی سرمایہ دارانہ بڑھوتری کے تحفظ کے فروغ کے لیے اگر امریکی حکام ایسے فیصلے کریں جو امریکی عوام اپنے مفاد کے خلاف سمجھیں تو ان فیصلوں کی تصدیق کروانا ایک مشکل کام بن جاتا ہے۔

سرمایہ داری چین و ہندوستان میں کیوں؟

اس بات کو ایک مثال سے سمجھانے کی کوشش کرو ںگا۔ اس وقت سرمایہ دارانہ بڑھوتری کی رفتار کو مہمیز دینے کے لیے ضروری ہے کہ زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری چین اور ہندوستان میں کی جائے۔ ان ممالک کی آبادی فرداً فرداً امریکہ سے پانچ گنا زیادہ ہے۔ ان ممالک کے سرمایہ دار اور ان کے کارندے امریکیوں سے بازی لے گئے ہیں۔ خود امریکہ میں بزنس، انجینئرنگ اور قانون کے شعبوں میں بہترین طالب علم عموماً چینی، ہندوستانی اور کورین ہوتے ہیں پھر چین اور ہندوستان میں سرمایہ داروں کو ہر سطح پر جو اجرتیں دینی پڑتی ہیں اور دیگر اخراجات [cost of production]ا برداشت کرنا ہوتے ہیں۔ وہ امریکہ یورپ، اور جاپان کے مقابلہ میں بہت کم ہیں۔ چینی اورہندوستانی معاشرتی ڈھانچہ ، امریکی سول سوسائٹی [Civil Society] کے مقابلہ میں کہیںزیادہ مستحکم اور منظم ہے اور وہاں ابھرتی ہوئی عوامی قوتیں مثلا ً B.J.Pعالمی سرمایہ کی فطری حلیف ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے تحفظ اور سرمایہ دارانہ بڑھوتری کی رفتار کو تیزکرنے کے لیے ضروری ہے کہ عالمی سرمایہ امریکہ کے تیزی سے بوڑھے ہوتے ہوئے معاشرہ اورانحطاط کی طرف مائل ریاستی نظام پر اپنا انحصار کم کرے اور چین اور ہندوستان کی معاشرتوں اور ریاستوں سے اپنی وابستگیاں استوار کرے۔ اگر امریکی ریاست فی الواقع عالمی سرمایہ  کی پشت پناہ اور فروغ دینے والی ریاست ہے تو عالمی سرمایہ داری اس امر میں حق بجانب ہے کہ وہ امریکی ریاست سے مطالبہ کرے کہ امریکی ریاست عالمی سرمایہ کی چین اور ہندوستان کی طرف منتقلی کو تحفظ اورفروغ دے گو کہ اس کا لازمی نتیجہ امریکی معیشت اور امریکہ کی ریاستی قوت کا زوال ہوگا۔

بہت سے مبصرین کا خیال ہے کہ کلنٹن [clinton]انتظامیہ عالمی سرمایہ کے اس مطالبہ کو بہت حد تک قبول کرتی تھی۔ اس نے کوشش کی کہ عالمی سیاسی اور معاشی نظام کو عالمگیریت اور مقامیت کے خطوط پر فروغ دیے۔ امریکی ریاست اپنی عالمگیری [global] ذمہ داریوں سے بتدریج بری ہوجائے اور یہ ذمہ داریاں ایسے عالمگیراداروں کی طرف منتقل کردے جو عالمی سرمایہ دارانہ نظام کو ایسے اصولوں کے مطابق چلا ئیں جو عالمی سطح پر سرمایہ کی بڑھوتری کو زیادہ سے زیادہ تیز کرنے کے لیے ضروری ہوں۔

معاشی اور انسانی قتل عام کے جدید طریقے:

اس دور میں سیاسی سطح پرجن گلوبل یا پیرا گلوبل[Para global]اداروں کو فروغ دیا گیا ان میں نیٹو اوراقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل [security Council] اوراس کے پیس کیپنگ مشن [UN Peace Keeping Mission] ہیں۔ کلنٹن [Clinton] نے کئی لاکھ عراقی بچے، صومالی اور سوڈانی عوام اور روانڈہ اور برنڈی[Rawanda and Burundi] کے باشندے قتل کیے لیکن اس قتل عام کو Natoاور اقوام ِمتحدہ کے پیس کیپنگ مشنوں نے منظم کیا اسی طرح یورپی، امریکی اورجاپانی لوٹ ماراور معاشی استحصال کو منظم کرنے کے لیے WTO، IMF،NAFTA، Asian Development bankاور Islamic Development bank وغیرہ کو استعمال کیا گیا۔ کاروبار اور دیگر لین دین کے معاملات کو گلوبل بنانے کے لیے [International Accounting Standards]IAS، [International Standard Organisations] ISOاور Rating Agencies وغیرہ کو استعمال کیا گیا۔

Evangilical چرچ کی تاریخ کیا ہے؟

بش نے عالمگیریت کے اس عمل کو رد کرنے کی کوشش کی ہے۔بش اورNew Conservatives کے پیچھے جو عوامی قوت اور تحریک ہے وہ عیسائی بنیاد پرستی Christian Fundementalistکہی جاتی ہے لیکن عملاً یہ ایک خاص عیسائی فرقہ ایوینجیلیکل [evangilicals] کا احیاء ہے۔Evanglicalsامریکہ کی بجرنگ دل ہے یہ وہی فرقہ ہے جس کے پادری ان دستوں کی قیادت کرتے تھے جو نہتے ریڈ انڈین بستیوں  پرحملہ آور ہوتے تھے۔ جب ریڈانڈین مردوں کے زندہ جسموں سے ان کی کھال اتاری جاتی تھی جب ریڈ انڈین عورتوںکو اجتماعی زنا کاشکار کیاجاتا تھا۔جب ریڈ انڈین بچوں کو آگ میں بھونا جاتا تھایہ Evangilicalپادری حضرت عیسیٰ ]علیہ السلام[ کو بھینٹ دینے کی رسوم منعقد کرتے اور بائبل کی تلاوت کرتے تھے۔آج ان Evangilicals کے Evangilicalجانشین عراق اور افغانستان  میں یہی کچھ کررہے ہیں۔

Evangilicalاتنے ہی عیسائی ہیںجتنے بجرنگ دلی ہندو ہیں اورجتنے zionist یہودی ہیں۔ Evangilicals کا عیسائیت سے صرف ایک منفی علامتی [negative symbolic]تعلق ہے۔ ان Evangilicals نے عیسائی تعلیمات کو امریکی دستوریت [constitutionalism] اور امریکی قوم پرستی کے تناظر میں مکمل طور پر اسی طرح مسخ کرکے رکھ دیا جیسے zionists نے یہودیت کو برباد کیا ہے۔

تمام عالمی ادارے واحد عالمی استعمار کے آلہ کار بن جائیں:

صدربش ان اس کی انتظامیہ انہی Evangilicals کی آلہ کار ہے۔ وہ امریکی قومیت کو ہر قیمت پر قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ بش دیگر استعماری قوتوں ]فرانس، جرمنی، برطانیہ، جاپان[ سے مشاورت کے قائل نہیں وہ WOT، IMF، Nato، ورلڈ بنک اور Asian Development Bank کا کوئی غیر جانبدار اور آزادانہ کردار برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ یہ تمام ادارے امریکی خارجہ پالیسی کو نافذ کرنے والے آلہ کار بن جائیں۔ بش اور ان کی انتظامیہ اس بات پر اصرار کرتی ہے کہ عالمی سرمایہ دارانہ مفاد کا تحفظ اور فروغ امریکہ کے نظاماتی [systemic]تسلط کو ابدی طور پر قائم رکھنے ہی کے ہم معانی ہے۔ امریکی قوم پرستی کی اٹھتی ہوئی عوامی لہر اس رائے کی تائید کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے مبصرین کہتے ہیں کہ ١١ ستمبر ٢٠٠١ء کے بعد عالمگیریت  و مقامیت [Globalisation and Localisation] کا دور گزر چکا اور اب ہم ایک ایسے دور میں داخل ہوچکے ہیں جو روما [Roman] سلطنت کے زوال کے دور کے مماثل ہے۔

کیا ہونے والا ہے کچھ نہیں کہا جاسکتا:

کیا یہ دور ماضی کے طورپر ]روم کی طرح[امریکہ کی تباہی پر ختم ہوگا۔ کیا چین ٢١ ویں صدی کی وسط میں امریکہ کی جگہ لے کر سرمایہ داری کو تحفظ اور فروغ دینے والی عالمی ریاست بن جائے گی کیا امریکہ کی جگہ استعماری ریاستوں کاایک ایسا اتحاد لے گا جس میں یورپ، چین، جاپان ، ہندوستان، روس اور عظیم اسرائیل شامل ہوں یا عالمی سر مایہ دارانہ نظام خود شکست و ریخت کا شکار ہوجائے گا۔ ان سوالات کاحتمی جواب نہیں دیا جاسکتا لیکن مندرجہ ذیل باتیں ذہن نشین کرنا ضروری ہیں:

انسان کو Human بنانے کے طریقے:

٭          سرمایہ دارانہ انفرادیت اور سرمایہ دارانہ معاشرت اپنے وجود ، بقا اور فروغ کے لیے ایک سرمایہ دارانہ ریاست ]سرمایہ دارانہ تنظیم قوت اور اقتدار[پر انحصار کرنے پر مجبور ہیں۔

٭          سرمایہ دارانہ ریاست مقامی بھی ہوسکتی ہے ]١٤ صدی کا فلارنس آج کاسنگا پور ، ہانگ کانگ[ قومی بھی ہوسکتی ہیں اورعالمگیر [global] بھی۔

٭          ہرسرمایہ دارانہ ریاست اپنے دائرہ اختیار خواہ ، مقامی، خواہ قومی،خواہ عالمگیری[ میں جبر اور ترغیب کے ذریعہ سرمایہ کی لامتناہی  بڑھوتری کو انفرادی اور معاشرتی وجہ وجود[raison d’etra] —–کے طور پر جواز فراہم کرنے کی ذمہ دار ہے۔

٭          سرمایہ کی بڑھوتری یعنی آزادی کو وجہ الوجود کے طور پر قبول کرنا humanity ]شیطنت[ کا بنیادی عقیدہ ہے۔ سرمایہ دارنہ ریاست وہ ریپبلک ہے جوکتاب الہٰی اور سنتِ انبیا کی جگہ ایک ایسے دستور کو نا فذ العمل بناتی ہے جس کا کلیدی مقدمہ ہیومن رائٹس [human rights]۔سرمایہ دارانہ تصورملکیت [Property]، سرمایہ دارانہ تصوروجود[Life] اورسرمایہ دارنہ تصور ضمیر برداشت[conciousness and toleration] فراہم کرتے ہیں۔غیر لبرل سرمایہ دار ریاستوں، قوم پرست اور اشتراکی ریاستوں میں یہ human right فرد کو حاصل نہیں ہوتے بلکہ اس نمائندہ اجتماعیت [Collective] کو حاصل ہوتے ہیں جو human rights کے اصل مفاد کے مکلف تصور کی جاتی ہے۔

٭          اس دستور کے ماتحت سرمایہ کی حاکمیت ریاستی اداروں کے ذریعہ منظم کی جاتی ہے۔ عدلیہ اور انتظامیہ سرمایہ دارانہ حاکمیت کے بلواسطہ مظہر ہوتے ہیں۔ مقننہ میں سرمایہ کی حاکمیت کو مستحکم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ارادہ اجتماعی ارادہ عمومی کے مماثل ہو اور دونوںہی سرمایہ کی بڑھوتری کو وجہ وجود ]انفرادی اور اجتماعی[ کی تصدیق کرتی ہوں۔ اگریہ مماثلت موجود ہے توسرمایہ دارانہ دساتیر جمہوریت کے لیے گنجائش پیدا کرتے ہیں اگر ایسا نہیں تو دستور کے اور دیگر ریاستی ضوابط کے ذریعہ جمہوریت کی تحدید ناگزیر ہوجاتی ہے۔

٭          رائے عامہ کو ارادہ عمومی ]سرمایہ کی لا متناہی بڑھوتری کی فرضیت[سے مماثل کرنے کے لیے ریاست اور مارکیٹ دونوںسرمایہ دارانہ  تعلیمی اور تشریحی نظام کومنظم اور مستحکم کرتی ہے۔

٭          سرمایہ دارانہ ریاست کافرض ہے کہ غیر سرمایہ دارانہ انفرادیت اورمعاشرت کو بذریعہ جبر و ترغیب ختم کیا جائے۔ استعماریت [imperialism]اس فریضہ کی ادائیگی کی واضح ترین شکل ہے۔

٭          استعماریت اس حقیقت کا عملی اظہار ہے کہ ہیومن رائٹس کی فراہمی اور آزادی ، مساوات اور ترقی کے عمل کو ہیومن [humans]کے لیے جاری رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ غیر ہیومن انسانوں کو مستقلاً قتل کیا جاتارہے۔ان کے ممالک کو بربادکیا جاتا رہے۔ ان کے اموال کو چھینا جائے۔ تاریخی طورپر انسانوںکی عظیم اکثریت کو جبر کے ذریعہ ہی human بنایا گیا ہے عموماً دلیلوں سے قائل ہوکر انسان human نہیں بنتے ۔

مستقبل کی حکمت عملی

            اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اسلام کی پندرہویںصدی دین کے احیا اورتجدید کی صدی ثابت ہورہی ہے۔صدی کاآغاز جہادِ افغانستان کے انعقاد اور ایران اورسوڈان جیسی اسلامی ریاستوں کے قیام سے ہوا جو آ ج تک اپنا وجو قائم رکھے ہوئے ہیں۔چیچنیا میں بھی ایک اسلامی حکومت قائم ہوئی اور طالبانِ عالیشان نے تو امارتِ اسلامیہ کے ذریعے حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حضرت عمر ابن عبدالعزیز کے مبارک ادوار کی یادتازہ کردی۔ ریاستوں کے سقوط کے بعدہر جگہ ایک ایسا جہاد برپا کردیا گیا جس نے دشمن کے دانت کھٹے کردیے اور آج عراق اور افغانستان میں شکست عالمی استعمار کا مقدر بن گئی ہے۔

            جہادی تحریکوں کے ساتھ ساتھ انقلابی جماعتیں بھی برسرپیکار ہیں۔ تقریباً ہرمسلم ملک میںایسی اسلامی جماعتیں موجودہیں۔جو رائج شدہ نظام کو اصولاً بالکلیہ ردکرتی ہیں اورجو اس پورے نظام کو اکھاڑ پھینک کر اسلامی نظامِ زندگی کو قائم کرنا اپنا مقصد وجودگردانتی ہیں ان جماعتوں کی عوامی مقبولیت میںایسا اضافہ رونما ہواہے جس سے استعمار خائف ہوگیاہے اور بالخصوص عرب دنیا میں واضح ہوگیا کہ جمہوری عمل کے ذریعہ اسلامی جماعتوں کو شکست دینا ایک مشکل بلکہ شایدناممکن کام ہے۔

            شمال مغربی افریقہ اوروسطی ایشیا میں صوفیا کی تحاریک کا احیا ہوا ہے اور برعظیم پاک و ہند اورکسی حد تک ترکی میں عوامی دعوتی کام نے فروغ پایا ہے۔تبلیغی جماعت اوردعوة اسلامی کے بلا مبالغہ کروڑوںمخاطبین ہیں اور صوفیا اور مبلغین کی کوششوں کے نتیجہ میں اسلام یورپ او رامریکہ میں سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا مذہب بن گیا ہے۔اور ان ممالک میں اور ہندوستان میں ہر سال ایک لاکھ سے زیادہ افرادمشرف بہ اسلام ہوتے ہیں۔

            علوم اسلامی کا احیا ہوا ہے اور بیشتر مسلم معاشروں میں علمائے کرام اور صوفیا ئے عظام کی عزت و وقعت میںاضافہ ہواہے۔ مدارس اور خانقاہیں اور زاویے، عرب دنیا اور وسط ایشیا میں، ہدایت اوررہنمائی کا سرچشمہ بن گئے ہیں مدارس نے ایران میں عوامی اقتدار کومرتب کرنے کا کام بخوبی انجام دیاہے اور سیاسی عمل پر اپنے غلبہ کوخوب مستحکم کرلیاہے۔

تمام مذاہب تہذیبیں مغرب سے شکست کھا گئیں

صرف اسلام واحد قوت ہے جو مقابلہ پر ہے

            حقیقت یہ ہے کہ دشمن آج جتنا اسلام سے خوف زدہ ہے خلافتِ عثمانیہ کے عروج کے دور کے بعد سے اب تک کبھی نہ تھا۔ اس خوف کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مسلم دنیا پر تقریباً دو سو سال حکومت کرنے کے باوجود مغرب اسلامی علمیت اور اسلامی انفرادیت کو مسخر کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے۔یہ علمائے کرام اور صوفیائے عظام کا وہ عظیم الشان کارنامہ ہے جس نے آج کی اسلامی پیش رفت کو ممکن بنایا ہے۔ تنویری علمیت [Enlightened epistomology]نے اسلام کے سوا دنیا کے ہر مذہب کی علمیاتی بنیادوں کو اکھاڑ پھینکا ۔ عیسائیت نیو افلاطونیت [Neoplatonism]کا نٹ کے ریشنل ازم [Rationalism] اور ہیوم کی تجربیت [empericism] شکار ہوگئی۔ بدھ علمیت اورچینی روایات اور رومی قدامت پرستی کسی کو ہیگل اور مارکس کے تصورات [Dilectical Idealism, Historical Materialism]نے مسخر کرلیا قدیم ہندواور یہودی فکر کو نطشے اوردیگروجودی مفکرین[Existentialists] کے فلسفہ نے برباد کر ڈالا اور وہ قوم پرستی اورسوشل ڈیموکریسی کا شکار ہوگئیں۔ صرف اسلامی فکری رحجانات اور روایات اور رسوم تنویری علمیاتی یلغار کے آگے مضبوط بند باندھے رہی اورحضرت حجة الاسلام امام غزالی قدس سرہ نے یونانی فکری اثاثے کو منتشر کرنے کے لیے جوطریقہ methodology وضع فرمایا تھا اتنا مضبوط اورمستحکم ثابت ہوا کہ دورِ حاضر کی ابلیسی علمیت اس طریقہ [Method]  میںایک چھوٹی سی دراڑ بھی پیدا نہ کرسکی۔

اسلامی علمیت کو کس نے محفوظ رکھا؟

            اسلامی علمیت ، رسوم اور روایات کادفاع کرنے والا پورے عالمِ اسلام میں صرف وہ عالم اور صوفی تھے جن کو استعمار نے تمام مادی وسائل سے محروم کردیا تھا۔ ان کو سولی پہ لٹکایا گیا۔ بدترین تعدیب کا نشانہ بنایا گیا۔ ان کی املاک چھینی گئی۔ انہوں نے اپنے فاقہ سے مرنے والے بچوں کے جسد خاکی دفنائے۔ انہوں نے معاشرتی حقارت اور ذلت برداشت کی لیکن اسلام کی علمیت ، روایات اور رسوم سے سرمو  انحراف گوارا نہ کیا۔ استعماری غلبہ کے تاریک ترین دورمیں علمااور  صوفیا وہ تابندہ ستارہ بن گئے جنھوں نے امت مسلمہ کوتنویری فکر کی تاریکیوں میں گم ہونے سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بچالیا۔ اس دورمیں علماء اور صوفیا کے کردار کے بارے میں شاعرِاسلام حضرت حفیظ جالندھری نے یوں بیان فرمایا ہے

وہ مرد حق تھا کتنے صاف و سادہ تھے اصول اس کے

وہ کہتا تھا خدا ایک ہے محمدۖ ہیں رسول اس کے

وہ کہتا تھا تھا محمدۖ سے محبت اصل ایماں ہے

بنائے وحدت ملت ہے پشتیبان ایماں ہے

نظر ڈالی نہ تھی کبھی اسباب و زینت پر

خدا رحمت کرے اس پاک بازو پاک طینت پر

عمل تھا تابع فرمان قرآن شریف اس کا

رہا وقفِ ریاضت عمر بھی جسم نحیف اس کا

وہ قائل تھا فقط اسلام ہی کی بادشاہی کا

دیا کرتاتھا درس اطفال کو علم الہٰی کا

کیا تھا خدمت ملت کا رستہ اختیار اس نے

اسی دامن میں بسایا گلشن کنج ہزار اس نے

مرے حبّ رسول اللہ کی بنیاد ہے مسجد

خدا آباد رکھے آج بھی آباد ہے مسجد

مغرب کے فلسفی اپنی شکست کا اعتراف کرتے ہیں:

            ابلیسی علمیت اور سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کے علم بردارخوب جانتے ہیں کہ علمائے اسلام اور صوفیائے عظام کے اس عظیم الشان تاریخی کا رنامہ نے اسلام کوان کے لیے ایک ایسا خطرہ بنادیاہے جس سے مقابلہ کرنا ان کے لیے روز بہ روز مشکل سے مشکل ترہوتا جارہا ہے۔ آج تنویری علمیت بڑے اندرونی انتشارسے دوچارہے۔ اپنے کلیدی مسلمات پریقین قائم رکھنے کے لیے اس کے پاس دلیل مفقود اورخود اس کے چوٹی کے مفکرین  Zizeb, Derrida Focault, Delueze Rorty اور یہاں تک کہ Kantکے فکر کے سب سے زیادہ راسخ  العقیدہ فلسفی Jorgen  Habermas اس بات کا اقرار کررہے ہیں کہ مغربی فلسفہ ماڈرن ازم مسلمات کو …

٭ثابت کرنے کے لیے تنویری فکرکے پاس مضبوط دلائل موجودنہیں۔

٭ان مسلمات کوقبول کرکے جو نظام زندگی قائم ہوتاہے یعنی سرمایہ دارانہ نظام زندگی، اس میں ان اہداف کا

    حصول نا ممکن ہے جو ان مفروضات کو قبول کرنے والا اختیار کرنے پر مجبور ہے۔

٭لہٰذا سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی ان معنوں میں مہمل اورلغو ہے کہ اس کا تصور قدر مطلق محض قدر کی نفی ہے۔

    آزادی معنویت کی لاوجودیت کا دوسرا نام اور آزادی کے حصول کی جدوجہد یعنی ترقی[Progress]

     ایک فعل عبث ہے۔

٭لہٰذا سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی سے صرف وہ شخص یا گروہ مطمیٔن ہوسکتا ہے جو زندگی کا مثبت معنوی تصور نہ

    رکھتا ہوبلکہ زندگی کو محض کھیل تماشہ لہو و لعب تصور کرتا ہو یا اس کو اپنے کسی منفی جذبہ حرص اور حسدکی تسکین کا

    ذریعہ تصور کرتاہو۔

            ہم سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کو ابلیسی اس لیے کہتے ہیں کہ شیطان بھی صرف آدم سے انتقام

    لینے کے لیے جی رہا ہے اورخوب جانتا ہے کہ آخرت میں اس کا کیا انجام ہوگا۔

تحریک تنویر کے تمام دعوے غلط ثابت ہوئے:

سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کی تباہی اوراس کا انتشار ان معنوں میں ناگزیر اور یقینی ہے کہ تحریک تنویر Enlightenment نے جو کلیدی مسلمات پیش کیے وہ لغو ثابت ہوئے ہیں ان معنی میں کہ ان مفروضات کی بنیاد پر جن مقاصد کو جواز ملتا ہے یعنی آزادی اورترقی وہ اصولاً اور اور عملاً ناقابلِ حصول ہیں اور جو انسان بھی سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی گزارنے پر ]یعنی انسان کے human بننے پر[ راضی ہوجاتا ہے وہ محض اپنے منفی جذبات ]بالخصوص حرص اور حسد، شہوت اور غضب [ کی تسکین کے سوا کچھ نہیںپاتا۔چونکہ یہ جذبات منفی ہیں لہٰذا ان کی وقتی اورواقعاتی[incidental] تسکین سے کبھی مطمئن نہیں ہوسکتا۔حرص و حسد، شہوت و غصب کی آگ ہمیشہ اونچی سے اونچی بھڑکتی رہتی ہے۔ جو شخص اپنے آپ کو اس آگ کے سپرد کردیتاہے وہ ہرگھڑی جلتا مرتا رہتاہے۔اس کی انتہا وہ اجتماعی خودکشی ہے جو آج یورپ اور امریکہ کررہے ہیں اور جو ان کی تقلید میں کل چین اور ہندوستان کریں گے۔

سرمایہ داری کو درپیش خطرات:

            اس دائمی[Intrinsic] خطرہ کے علاوہ بھی سرمایہ دارانہ نظام زندگی کو بہت سے خطرات درپیش ہیں۔سرمایہ داری کی تاریخ بحرانوں کشمکش اور جنگ و جدل کی تاریخ ہے سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کے پاس قدرِ مطلق [absolute value] کا کوئی مثبت تصورموجود نہیں لہذا اس کے پاس کوئی ایسے اصول موجودنہیںجو ایک مثبت تصورِ عدل کو متعین کرسکیں۔ہربحران اور ہر کشمکش اور ہر تصادم میں فیصل کردار فریقین کی تقابلی قوت ہی ہوتی ہے اورجو فیصلہ بھی ہووہ دیرپا ثابت نہیں ہوسکتا کیوں کہ توازن، قوت میں تبدیلی کے ساتھ سرمایہ دارانہ عدل کے تقاضے بھی بدل جاتے ہیں کل تک سرمایہ دارانہ رہنما عالمگیریت و مقامیت[Globalisation and localisation] کا راگ الاپ رہے تھے اور بین الاقوامی سطح پر ایسے قوانین اور ضوابط نافذ کرنے کی کوششیں ہورہی تھیں جو عالمی سرمایہ دارانہ مشاورت اور مصالحت کے غماز ہوں۔ آج گلوبلائیزیشن ایک داستانِ پارینہ بنتی جارہی ہے اور عالمی ادارے امریکی مفادات کی بالادستی کے تحفظ کو جواز فراہم کررہے ہیں۔ کیا چین اورہندوستان امریکہ کی نظاماتی بالادستی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قبول کرلیںگے۔کیا Democratic Party امریکہ میں بر سر اقتدار آکر globalisation کی طرف رجوع کرے گی۔ کیا سرمایہ دارانہ ریاست اور مارکیٹ میں جو توازنِ اختیار اورتقسیم کار[division of labour] آج موجود ہے وہ متزلزل نہ ہوجائے گا ان سوالات کے کوئی حتمی جواب اس لیے نہیں دیے جاسکتے کہ سرمایہ دارانہ تصور عدل کوئی ایسا پیمانہ فراہم نہیںکرتا جس کی بنیادپر طے کیا جاسکے کہ سرمایہ کی بڑھوتری کو تیز کرنے کے لیے

٭مارکیٹ  اور ریاست میں کونسا تقسیم کار موزوں ترین ہے۔

٭کونسی آراء [Speculative Forces] تقابلی قدرکو سرمایہ کی بڑھوتری کے لیے سب سے زیادہ

   موزوں طریقہ پر متعین کرتی ہیں۔

٭سرمایہ عمومی [Capital in general]کا جائز اورموزوںترین نمایندہ کون ہے۔ ریاست؟ حصص

   کنندگان [Share holder]؟ فنڈ منیجر؟ [Speculator]

٭بین الاقوامی تنظیم اقتدار کی کونسی حیثیت[structure]سرمایہ کی لا متناہی بڑھوتری کے لیے سب سے

   موزوں ہے ۔ یک قبطیت [unipolarity]  علاقائیت [Regionalism]۔ عالمگیریت Globalisatio

٭سرمایہ دارانہ ارادہ عمومی[general will] کی ترتیب اور تفویض میں میڈیا [Media] اورریاست کا

     دائرہ کار کیا ہونا چاہیے۔ وغیرہ

            چوںکہ ان سوالات کے جوابات کسی متعین  تصورسرمایہ دارانہ عدل کی بنیاد پر نہیںدیے جاسکتے لہٰذا عملاً ان کے جوابات تصادم قوت کے ذریعہ ہی دیے جاتے ہیں اورتصادم قوت سرمایہ دارانہ نظام ِ زندگی کو بحران[crises] سے دوچار کرسکتاہے۔

سرمایہ دارانہ نظام کی قبولیت کہاں کہاں ہے؟

            لیکن کیاوہ اجتماعی خود کشی جو ہر سرمایہ دارانہ معاشرہ اور ریاست کررہی ہے اور بحرانوں کا وہ سلسلہ جس سے سرمایہ داری وقتاً فوقتاً دوچار ہوتی رہتی ہے سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کو لازماً تباہ کردے گی؟ میری رائے میں مسلمانوں کی موجودہ نسل کی زندگیوں کے دوران اس کا امکان موجود نہیں۔ سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کی اساس روحانی پراگندگی اوراخلاقی رذائل فراہم کرتے ہیں۔ سرمایہ داری بحیثیت ایک نظامِ زندگی یورپ میںغالب اس وقت آیاجب ان ممالک کی آبادی کی ایک بہت بڑی تعداد عیسائی روحانی تعلیمات سے لا تعلق ہوچکی تھی اور رذائل اخلاق کو عمومی مقبولیت حاصل ہوچکی تھی۔ ہر وہ شخص جو human ہے جو نہ صرف حرص اورحسد ، شہوت و غضب کواپنائے ہوئے ہے بلکہ ان اخلاقی رذائل کواپنا حق اور فرض گردانتا ہے جو نہ صرف وحی سے اخذ شدہ روحانی حقائق کو ردکرتاہے بلکہ اس تردیدکی بنیاد پر ہی اپنی جاہلی علمیت تعمیر کرتاہے۔ ہرایسا شخص فطرتاً سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کواپنی ذات کے لیے اپنے معاشرہ کے لیے اور اپنے ریاستی نظام کے لیے منتخب کرتا ہے۔ یہ بات بلا خوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ یورپ ، امریکہ اور جاپان میں عوام کی بہت بڑی اکثریت human ہے وہ روحانی پراگندگی کا شکا رہے اور اخلاق رذیلہ کو اخلاق حسنہ تصور کرتی ہے۔ ہندوستان میں غلبہ انہی کو حاصل ہے جو سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کو پسند کرتے ہیں لیکن اکثریت ان لوگوںکی ہے جو سرمایہ دارانہ معاشرت اور نظام اقتدار کو محض برداشت کرتے ہیں۔ اس کوپسند نہیں کرتے بلکہ اس کے کچھ مظاہر سے اعلان برأت بھی کرتے ہیں۔ پاکستان میں بھی حالات اس سے زیادہ مختلف نہیں ۔ دونوں ممالک میں علما کی جدوجہد کے نتیجہ میں اس  بات کا کچھ نہ کچھ یقین پیدا ہوا ہے کہ اسلام ایک متبادل نظام حیات ہے اوراس کے غلبہ اورتحفظ کے لیے رائج شدہ نظام زندگی سے، تصادم کے امکانات کو رد نہیں کیا جاسکتا ۔

            اس گفتگو سے مندرجہ ذیل نتائج برآمد ہوتے ہیں:

٭سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی اپنے اندرونی تضادات[inherent contradiction] کی وجہ سے

    نیست اور نابود نہ ہوگا ۔

٭اس نظام کی تسخیر کے لیے ان لوگوںکا معاشرتی اور ریاستی اقتدار میں آنا ضروری ہے جوروحانی پراگندگی

    سے محفوظ ہوںاخلاق رذیلہ اورسرمایہ دارانہ عقلیت اورعلمیت کو رد کرتے ہوں۔

٭جن معاشروں اور ریاستوںمیں سرمایہ داری کے مخالفین کو غلبہ حاصل ہو وہاں کے باشندے اس اقتدار کو قبول کرنے یا کم از کم برداشت کرنے پر راضی ہوں۔

میری رائے میں ہمیںاپنے اہداف اور طریقہ کار اس تناظر میں متعین کرنا چاہیے۔

ہماراہدف سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کا مکمل انہدام اور اسلامی نظامِ زندگی کا تحفظ اورعالمی غلبہ ہے۔ یہ ایک طویل المدت جدوجہدہے۔ نظام ہائے زندگی کا انہدام کئی صدیوں پر محیط عملی جدو جہد سے ممکن ہے۔ رومن تہذیب کا انہدام تقریباً ڈھائی  صدیوں پرمحیط ہے اگر سرمایہ دارانہ نظام زندگی کے انحطاط کی شروعات ٢٠ ویں صدی کے آغاز سے تصور کی جائیں ]جیسا کہ oswald spangla کا خیال ہے ،تو غالب امکان یہی ہے کہ ابھی یہ عمل خاصی دیرجاری رہے گا اور عین ممکن ہے کہ مغرب کا زوال سرمایہ دارانہ نظام زندگی کا انہدام  ثابت نہ ہو بلکہ سرمایہ دارنہ نظامِ زندگی کے خلاف فیصل معرکے چین یا ہندوستان میں لڑے جائیں۔

سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کے انہدام اور تحفظ اور غلبہ اسلام کی جدوجہد لازماً تین سطحوں پر مرتب کرنے کی ضرورت ہے انفرادیت کی سطح پر معاشرت کی سطح پر اورریاست پر۔ ہر سطح پر سرمایہ دارانہ علمیت[epistimology] اور عملیت[praxis] کو منہدم کرنے کی ضرورت ہے اس کام کو احسن طریقہ سے انجام دینے کے لیے ہمیںدوباتوں کا خاص خیال رکھنا ہوگا۔ ایک طرح سے دیکھا جائے تو یہ وہ دودنیاوی کمزوریاں ہیں جنھوں نے مستقبل قریب میں تحفظ اورغلبۂ دین کی جدوجہد کو قدرِبے اثراوراس کے دائرۂ کار کو محدود کردیاہے۔

پہلی اور اہم ترین کمزوری: سرمایہ داری سے عدم واقفیت :

پہلی کمزوری یہ ہے کہ مجاہدین انقلابی مدافعین، مبلغین علما اور صوفیا سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کا وقیع اورجامع ادراک نہیں رکھتے۔ اسلامی مفکرین اور قائدین کی رائے یہ ہے کہ ہماری جدوجہد عیسائیت ، یہودیت ، امریکہ یامغرب کے خلاف ہے۔ اور وہ مکمل نظام حیات جس میں یہودیت ، عیسائیت ، امریکہ اور مغرب پیوست ہیں۔ ہمارے فکرو عمل کا ہدف نہیں یہ درست ہے کہ یہودیت اور عیسائیت ہی کی خاکستر سے سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی برآمدہوا۔ اور عیسائیت اور یہودیت ہی سرمایہ دارانہ تصورات کے ماخذ ہیں اگر عیسائیت حضرت عیسی علیہ السلام کو خدا کا بیٹا نہ بناتی تو الوہیت انسانی یا شیطینت [human being] کا تصور پیدا نہ ہوسکتا تھا۔ اور عیسائیت اور یہودیت ہی سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کی تاریخی اور معاشرتی میراث فراہم کرتی ہیں لیکن سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی عیسائی اور یہودی تعلیمات سے انحراف بھی ہے اور یہ نظام زندگی یہودیت اور عیسائیت سے کچھ منتخب تعلیمات اوراعمال کو لے کر بہت سی دوسری روایات اور تعلیمات سے منسلک کرتا ہے اور ایک نیا علمیاتی اور عملیاتی منہج تعمیر کرتا ہے جس کی عیسائیت اور یہودیت محض ایک شق ہو کر رہ جاتی ہیں۔

معتزلہ: مغرب: سرمایہ داری

            یہ بھی درست ہے کہ مغرب ہی سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کا مرکز ہے اورامریکہ ہی اس کی سب سے پشت پناہ ریاست ہے لیکن مغرب اور سرمایہ داری کا یہ تعلق وقتی اور حادثاتی ہے لازمی اور منطقی نہیں۔ اگر معتزلہ کی فکر نویں اور دسویں صدی عیسویں میں مسلم دنیا میں غالب آجاتی تو اس کا بہت امکان تھا کہ سرمایہ دارانہ نظام عرب دنیا میں پروان چڑھتا۔ معتزلہ کے پیرو اسلامی معیشت دان آج اسی چیز کا ماتم کرتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام نے کیوں مسلم دنیا میںجڑ نہ پکڑی اور متکلمین فقہا اور صوفیا کی فکرنے امام غزالی کی قیادت میںکیوں معتزلہ کو شکست دی۔

سرمایہ داری کامرکز مغرب سے مشرق منتقل ہوسکتا ہے:

            اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ امریکہ اور یورپی ممالک کا زوال ہو لیکن سرمایہ دارانہ نظام کا مرکز چین یا مشرقی ایشیا کے دیگر ممالک منتقل ہوجائے۔ ان حالا ت میں یہ ممالک اسلام کے تمدنی اور سیاسی حریف اور دشمن کے طور پر ابھریں گے اورمغرب کی مرتی ہوئی قوموںکی قوت ختم ہوجائے گی لہٰذا ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ ہمارا جہاد کسی قوم کے خلاف نہیں بلکہ ایک نظامِ زندگی کے خلاف ہے وہ نظامِ زندگی سرمایہ داری ہے۔ اس کاایک مذہب ہے ]جس کو آج سائنس اور فلسفہ کہا جاتا ہے[۔ اس کی معیشت مارکیٹ یا پلان ہے اس کی سیاست ریپبلک اور دستورہے اس کی معاشرت سول سوسائٹی ہے اور یہ تمام مظاہر ہیں اس انفرادیت کے جس کو ہیومن بینگ [human being]کہتے ہیں۔ ہم سائنس اور فلسفہ، مارکیٹ اور پلان، ریپبلک اور دستور، سول سوسائٹی اور ہیومن بینگ [human being] کو منہدم کرنے کے لیے جہاد کررہے ہیں تاکہ علوم دین، بازار اور تجارت ، خلافت ِ الہیہٰ ، مدنیت اور انسانیت کا غلبہ۔ وہ انسانیت جس کی ہستی خداکے حضور عبادت کے ذریعہ معنویت اور معرفت حاصل کرتی ہو۔ اسی چیز کو[being with God] کہا جاتا ہے اور یہ human being کی واضح اور حتمی تردید ہے۔

            اس جہاد کوجاری رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ پوری امت مسلمہ کی حمایت اورقوت اس کے لیے مہیا [mobilize]کی جائے۔ اس سے پہلے کہ اس حکمت عملی کے خطوط پر گفتگو کرو ںجس کو اپنا کرہم ا س ہدف کو حاصل کرسکتے ہیںضروری ہے کہ مسلم معاشرہ کی موجودہ حالت کے بارے میں میرے جو تاثرات ہیںوہ عرض کروں ۔

            مسلمانوں کی مجموعی آبادی تقریباً ڈیڑھ ارب ہے ]٢٠٠٥ء کے اعداد و شمار کے مطابق[ اور ٢ئ٢ فی صد سالانہ کے اعتبار سے بڑھ رہی ہے۔ یہ دنیا میں سب سے تیزی سے بڑھنے والی آبادی اور اس میں ٣٠ سال سے کم عمر افراد کی تعداد تقریباً دو تہائی ہے جوکہ لا طینی امریکہ کے southern cone کے برابر اور دنیا کے دیگر تمام ملکوںمیں جوانوں کی مجموعی آبادی کے تناسب سے زیادہ ہے۔ مسلم اکثریتی علاقوں میں ایک ارب سے زیادہ مسلمان رہتے ہیں جبکہ مسلمانوں کی سب سے بڑی اجتماعیت ہندوستان میںہے جہاں ہماری تعداد کم از کم ٢٥ کروڑ ہے۔ چین ،روس اوریورپ میں تقریباً ١٠ کروڑ مسلمان آباد ہیں جن میں سے نصف سے زیادہ آبادی چین میں ہے۔دو اسلامی ریاستیں قائم ہیںایران اورسوڈان امارت اسلامیہ افغانستان اور چیچنیا کا ماضی قریب میں سقوط عمل میں آیا ہے۔ فلسطین کے چند محدود اضلاع میں یہودی تسلط کے زیر سایہ ایک اسلامی جماعت کو حکومت قائم کرنے کا موقع ملاہے۔

سرمایہ داری سے عالم اسلام میں عدم واقفیت:

            سرمایہ دارانہ انفرادیت، معاشرت اور ریاستی نظام کی گرفت مسلم دنیا پر مستحکم اور مضبوط ہے اوراس نظام ِ زندگی کے خلاف منظم اور مربوط جدوجہدنہ ہونے کے برابرہے۔عوام الناس کی بہت بڑی اکثریت سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کو بحیثیت مجموعی قبول کرنے یا برداشت کرنے پر آمادہ ہے اور سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کے خلاف عوامی جدوجہد کے امکانات مفقود ہیں۔ جاہلانہ علمیت بلخصوص سائنس اورسوشل سائنسز کی گرفت مسلم ذہن پر مضبوط ہوتی جارہی ہے اور معاشرہ میں بہت سی ایسی چیزوں کو برداشت کیا جارہا  ہے جو پہلے معیوب سمجھی جاتی تھی اس میں سب سے خطرناک رحجان عورتوں کی پبلک لائف میں شرکت ہے۔ برصغیر پاک وہند میں صوفیاکی تحاریک اس قدرکم زور پڑگئی ہیں کہ عوامی روحانیت کو فروغ دینا ان کے لیے ممکن نہیںرہاہے۔ یہی وجہ ہے کہ غیر مسلم سیکیولر حکومتوں اور استعماری ذرائع سے چلنے والی فحاشی پھیلانے والی اور حقوق کی سیاست کو عام کرنے والی NGOsکا معاشرتی اثر بڑھ گیاہے۔ کئی مسلم اکثریتی ممالک میں غیر مسلم اقلیتوںکو ، بالخصوص آغاخانیوں ، عیسائیوں، قبطیوںاور ہندوؤں کو ]انڈونیشیامیں[ معاشروں کو سیکولرائز کرنے کی ذمہ داری استعمار اور اس کے مقامی ایجنٹوںنے سونپ دی ہے۔

مسلم دنیا عالمی سرمایہ داری میں ضم نہیں ہوسکی:

            اس سب کے باوجود مسلم دنیا کو عالمی سرمایہ دارانہ نظام میں ضم کرناایک مشکل کام بن گیا ہے۔ اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں ایک یہ کہ آج کے دور میں سرمایہ دارانہ جاہلی علمیت شکست و ریخت کا شکار ہے۔ اس کے کلیدی مفروضات اوراس کی عقلیت[Rationality] لغو بے معنی مہمل اورتضادکا مجموعہ ثابت ہوئی۔ اس نے جو معاشرتی دعوے کیے تھے وہ نہ صرف یہ کہ حاصل نہ ہوئے بلکہ یہ ثابت ہوگیا کہ ان کا حاصل کرنا ممکن ہی نہیں۔ جن اقوام نے اس جاہلانہ علمیت کو قبول کیا وہ آج اجتماعی خود کشی کررہی ہیں۔ جن ممالک میں یہ جاہلانہ علمیت فروغ پارہی ہے۔بالخصوص چین اور ہندوستان وہاں کی فکری اشرافیہ خوب جانتی ہے کہ ان ممالک کا انجام کیا ہوگا یہاں بھی آزادی اورترقی کے حصول کے لیے اجتماعی خود کشی کا عمل شروع ہوگیا ہے۔ آبادی میں اضافے کی رفتار تیزی سے گررہی ہے۔ عورتیں بچہ پیدا کرنے اور پرورش کے بوجھ اٹھانے کو تیار نہیں۔ نسوانیت اور مردانگی تباہ ہورہی ہیںاور انسانیت human being کے قالب میں ڈھل کر سسک کر دم توڑرہی ہے۔

چین اور ہندوستان کا المیہ:

چین اور ہندوستان کاالمیہ وہی ہے جوقرونِ وسطیٰ کے یورپ کا المیہ تھا۔ ان ممالک میں سرمایہ دارانہ جاہلی علمیت کا موثر مقابلہ کرنے والی کوئی علمی روایت موجود نہیں۔ یورپ ،چین اور ہندوستان کی مذہبی علمیت نے انبیاء کی تعلیمات کو مسخ کردیا تھا اور نتیجتاً جب ان تہذیبوں کا سابقہ خالص علمی جاہلیت ]فلسفہ اور سائنس[ سے پڑا تواس جاہلیت خالصہ کے فروغ کے لیے تمدنی میدان پہلے ہی سے زرخیز تھا۔ لہٰذا ان ممالک میںجاہلیت خالصہ کی مخالفت جزوی ہوگئی ان ممالک نے جاہلیت خالصہ اورسرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کی ایک تعبیر اورتشریح کورد کیا لیکن اسی نظامِ زندگی کی دوسری تشریح کو اپنالیا۔ مثلاً چینی کمیونسٹ نے مائو [Mao] کی فکر کا سہارا لے کر لبرل ازم کو رد کیا لیکن اشتراکیت [Socialism] کی بنیادپر مقبولیت عام حاصل کی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے یہی مقام قوم پرستی کو دیا چینی کمیونزم اور ہندوتوا قوم پرستی جو قدیم چینی اور ہندو علمی اور تمدنی روایات شامل کی گئی وہ جاہلانہ علمیت میں ضم ہوکر رہ گئیں۔ تاریخی عمل نے ثابت کردیاہے کہ چینی کمیونزم اور ہندو توا قوم پرستی کے غلبہ کے نتیجہ میں لائوتسی [Laotse] اور کنفیوشسس [Confucious] اور بھگوت گیتااور ویدوںکی تعلیمات کا احیاء نہ ہوا بلکہ ہندوستان اور چین کوسرمایہ دارانہ انفرادیت ، معاشرت اور ریاستی نظام نے مسخرکرلیا ۔

مسلم معاشرے سرمایہ داری میں تحلیل کیوں نہ ہوئے؟

مسلم انفرادیت ، معاشرت اور نظام اقتدار کو سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی میں ضم کرنے کی کوشش کی متوقع ناکامی کی دوسری بنیادی وجہ ہے کہ اسلامی علمی اور روحانی روایات آج بھی اسی طرح محفوظ ہیں جیسے استعمار کے غلبہ سے قبل تھیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ جیسا عالم کسی دوسری امت کو نصیب نہ ہوا اور اس بات کا اظہار خود سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے رویائے صادق میں فرمایا ہے۔ حضرت حجة الاسلام نے اسلامی روحانیت و علمیت کو ایک ایسے مربوط نظام فکر میں سمودیا جوناقابل تسخیر ہے اورجس کو بنیاد بنا کر سرمایہ دارانہ جاہلی علمیت کو مسخر کیا جاسکتاہے۔ استعمار اور جاہلی علمیت کے اقتداری عروج کے دورمیں علمائے کرام اور صوفیائے عظام نے اس عظیم علمی اور روحانی ورثے کو کوڑے کھا کھا کر اورفاقہ پر فاقہ کرکر کے جاہلانہ عقلیت کے مغربی علم برداروں اور ان کے مقامی کاسہ لیسوں کو ایسی عبرت ناک شکست فاش  دی جسکی تاریخ میں کوئی دوسری نظیر نہیں ملتی۔

انیسویں صدی کے علمائے کرام اور صوفیا عظام کا یہ عدیم المثال کارنامہ وہ بنیاد فراہم کرتا ہے جس پر ہم سرمایہ دارانہ نظام زندگی کو منہدم کرنے کی حکمت عملی مرتب کرسکتے ہیں۔ اسلامی انفرادیت، معاشرت اور نظامِ اقتدار وہ ہتھیار ہیں جن سے عالمی سطح اوردنیا کے ہر گوشہ میں سرمایہ دارانہ جاہلی عقلیت اور سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کوبے دخل کیا جاسکتاہے۔ ان ہتھیاروں کو استعمال کرنے والے نہ کسی بقائے باہمی قائل ہیں نہ کسی تہذیبو ںکے تصادم کے وہ اسلام کے سوا کسی تہذیب کے وجود کے قائل نہیں۔اسلام کے سوا دنیا میں جونظام زندگی بھی موجود ہے وہ جاہلیت خالصہ پر مبنی ہے اورعقل اور انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ ہر جاہلانہ نظام زندگی کو جتنی جلد ممکن ہو تباہ کردیاجائے۔ اسلام کا حق ہے کہ وہ دنیا کے ہر گوشہ میں غالب آئے۔مسلم دنیا میں’ یورپ اورامریکہ میں’ چین اورہندوستان میںلا طینی امریکہ اور افریقہ اسود میں اورمسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اس غلبہ کے لیے قیامت تک مسلسل جدوجہد کرتے رہیں۔

جدوجہد برپا کرنے والے گروہ:

اب میں اس جدوجہد کو جاری رکھنے کی حکمت عملی کے چند پہلوں کے بارے میں کچھ گزارشات پیش کروں گا۔

تحفظِ  دین اور غلبہ دین کی جدوجہد برپا اور منظم کرنے والے چار ممتاز گروہ ہیں۔

٭مدرسین اور مزکی

٭مبلغین اور مصلحین

٭انقلابی

٭مجاہدین

مدرسین اور مُزکیوں کا بنیادی ہدف اسلامی انفرادیت کا فروغ ہے۔ ان کا سب سے اہم ادارہ مدرسہ ہے۔ جس نے بیشتر مسلم ممالک میں خانقاہ کا نعم البدل پیش کیا ہے۔ مدارس کے فروغ کے نتیجہ میں مساجد کا سماجی دائرہ کار وسیع ہوا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کے زعما مدار س اورمسجد کے پھیلنے اور ان کے دائرہ کا ر میں آنے والی وسعت سے خائف ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ مدارس کو  جاہلی علمیاتی نظام کے ماتحت کردیا جائے اور مسجد کو حکومت اورغیرا سلامی سماجی اور معاشی تنظیموں کے ماتحت کیا جائے۔ روحانی تربیت کے اداروں کو بدعات کے عام کرنے کے ذرائع کے طورپر استعمال کرنے کی منظم کوشش کی جارہی ہے۔

            مبلغین اور مصلحین ان گروہوں پر مشتمل ہیں جو دینی تہذیبی روایات کے تحفظ اورفروغ اور حلال کاروبار کے پھیلاؤ میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ پاکستان میں ان میں سب سے اہم تبلیغی جماعت  اور دعوت اسلامی ہیںاور بلاشبہ ان دونو ںجماعتوں کا عوامی اثر اوررابطہ دیگر تمام اسلامی صف بندیوں کے مقابلہ میںزیادہ مستحکم اور توانا ہے۔بہت سے بازاروں میں اسلامی تجارتی صف بندی بھی کسی نہ کسی شکل میں پائی جاتی ہے اوربرادریوں کا نظام حلال رزق اور اسلامی تجارتی نظام کے فروغ کے لیے ایک اہم کردار ادا کررہاہے۔بھٹو کے دورتک فکر اسلامی مزدور یونین مزدوروں کی اسلامی صف بندی کے ضمن میں یہی رول ادا کرتی تھیں لیکن یہ یونینیں ختم ہوگئی ہیں۔

            مصلحین اور مبلغین میں اسلامی سیاسی جماعتیں بھی شامل ہیں۔ یہ تحفظ دین کی جدوجہد کو تقویت پہنچاتی ہیں اور شہری صوبائی اور مرکزی حکومتی اداروں میں شمولیت کے ذریعہ اسلامی اقدار اورروایات کا دفاع کرتی ہیں۔

            سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کے زعما مصلحین کے ان گروہوں کو منتشر کرنے کے لیے مختلف حکمت عملیاں اختیار کرتے ہیں۔ عوامی مبلغین میں سیاسی عمل سے منافرت پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور ان میں سیکولر  رحجانات کو فروغ دیا جاتا ہے۔ اسلامی کاروباری صف بندی کو Financialمارکیٹ میں ضم کرنے کی سعی جاری ہے اور اس عمل کو اسلامی بینکاری کے ذریعے فروغ دیا جارہاہے اسلامی سیاسی جماعتوں کو لبرل جمہوری روایات اصول اور ترجیحات کو قبول کرنے پرآمادہ کیا جا رہا ہے۔

            انقلابی گروہ وہ ہیں جو رائج شدہ نظام زندگی میں مکمل تبدیلی کے خواہاںہیں یہ لوگ مولانا مودودی اور سید قطب علیہ رحمہ کی فکرکے وارثین ہیں اور ان کی بنیادی سعی غلبہ دین کے لیے ہے۔

            اخوان اور اخوان سے نکلی ہوئی انقلابی اسلامی جماعتوں کی عوامی مقبولیت عرب دنیا میںبڑھ رہی ہے اور موجودہ استبدادی حکومتوں خواہ وہ بادشاہتیں ہوں خواہ آمریت کے متبادل قیادت کے طور پر اسلامی انقلابی جماعتیںہی ابھر رہی ہیں۔

اسلامی انقلابی جماعتوں کو قوم پرست بنانے کی کوشش:

            سرمایہ دارانہ استعمار کی کوشش ہے کہ اسلامی انقلابی جماعتوں کو جمہوری نظام میں ضم کرکے ان کو بنیادی طورپر مسلم قوم پرست بنادے ۔ قومی ترقی اور آزادی ان جماعتوں کے اصل سیاسی اہداف بن جائیں اور یہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام میں اس طرح ضم ہوں جیسے چین اور ہندوستان ضم ہوچکے ہیں لیکن اپنے مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے امریکہ اور یورپ کم از کم فی الوقت مسلم قوم پرست حکومتوں کووہ  مراعات دینے پرآسانی سے تیارنہ ہوگا جو وہ چین اور ہندوستان کو دینے پر آمادہ ہے ظاہرہے مسلم قوم پرستی کو اپنانے کے بعد ان ریاستوںمیں علماء کی قیادت زیادہ دنوں تک قائم نہ رہ سکے گی اور اسلامی انقلاب فیصلہ کن شکست کھا جائے گا لہٰذا ان کو مسلم قوم پرست ایجنڈہ کو کلیتاً اپنانے پرراضی کرنا آسان نہیں۔

             افغان مجاہدین نے جو ریاست قائم کی وہ ایک قومی ریاست نہیں ایک آفاقی جہادی ریاست تھی اس ریاست نے اپنا وجود جہاد کو عالمی سطح پر جاری رکھنے کے لیے قربان کردیا۔ سقوط افغانستان تاریخ اسلام کا ایک سنگ میل ثابت ہوا ہے بالخصوص ان معنوںمیں کہ اس نے جہاد کو ایک عالمگیر تحریک کے طور پر برپا کردیا۔ خلافت عثمانیہ کے دور کے بعد سے جہادِ افغانستان تک کے دور میں جہاد نے قومی جنگوں War of National Liberation کی شکل اختیار کرلی تھی۔ یہWars of national Librationلازماً دفاعی نوعیت کی ہوتی تھیں اور ان کا مقصد کسی مسلم علاقہ کو استعمارسے آزاد کرانا ہوتا تھا ان کی قیادت خواہ اسلامی عناصر کے ہاتھ میں ہو خواہ قوم پرست ہاتھوںمیں بنیادی طورپر ایک قومی ریاست کے قیام کے لیے جنگ کرتی تھی اور جہاد کا اختتام ایک مسلم قومی ریاست کے طور پرہوتا تھا۔ چوں کہ جہاد کا مقصد کسی مسلم قوم کی آزادی ہوتاتھا لہٰذا فطرتاً اس ریاست میں ایک قوم پرست قیادت ہی برسر اقتدار آتی اور اس کی پہلی ترجیح قومی جدوجہد کے اسلامی تشخص کو ختم کرکے اسلامی عناصر کو ریاستی نظام اقتدار سے بے دخل کرنا ہوتا تھا۔ اس عمل کی سب سے واضح مثالیں الجیریا اور انڈونیشیا کی تحریک آزادی پیش کرتی ہیں۔

            جہادِ افغانستان ]اور غالباً جہادِ چیچنیا اور داغستان[ war of national librations نہ تھی ۔ طالبان نے جو ریاست فتح کی وہ فوراً عالمگیر اسلامی جہاد کا بیس کیمپ بن گئی اس میں کسی قوم پرست قیادت کا ابھر کر سامنے آنا ممکن ہی نہ تھا لہٰذا قوم پرست قیادت] شمالی اتحاد[ امریکی استعمار کی باج گزار بننے پر مجبور ہوگئی اور سقوط امارةِ اسلامیہ کے بعد امریکہ کی باج گزار ریاست اس کی کٹھ پتلی قوم پرست نے قائم کی قومی اسلامی ریاستوں ، ایران اور سوڈان میں قوم پرست قیادت ریاستی تنظیم اقتدار سے کبھی بھی پوری طرح بے دخل نہیں ہوئی کیوں کہ قومی اسلامی ریاستیں عالمی سرمایہ دارانہ نظام سے پیوست رہتی ہیں۔ ان قومی اسلامی ریاستوں کے ساتھ عالمی سرمایہ پُر امن بقائے باہمی [peaceful coexistence]کی بنیاد پر معاملہ کرسکتا ہے چناںچہ سوڈان کو کسی حد تک برداشت کرنا امریکہ کی افریقیائی سٹرٹیجک [stratigic] حکمت عملی کا حصہ ہے اورایران نے امریکی کمپنیوں کو توانائی کے شعبہ تک میں سرمایہ کاری کی اجازت دینے سے گریز نہیں کیا۔ اپنی معاشی اورریاستی تنظیم میں بھی ان دونوں قومی اسلامی ریاستوں نے سرمایہ دارانہ صف بندی کو رد نہیںکیا۔ اس میں جزوی ترمیم پراکتفا کیا اورعالمی سرمایہ دارانہ نظام سے ان کے تعلق کا سب سے واضح اظہار اس بات سے ہوتا ہے کہ ایران اور سوڈان سرمایہ داری سے کامل قطع تعلق نہ کرسکے۔ لہٰذا دونوں اپنے آپ کو ری پبلک [republic] کہتی ہیں۔

            قومی اسلامی ریاستیں سرمایہ دارانہ نظام کے لیے وقتی ، علاقائی اور حادثاتی چیلنج اور خطرہ پیش کرتی ہیں لیکن بنیادی [foundational]اور نظاماتی [systemic]خطرہ پیش نہیں کرتیں۔ ان کو تباہ کرنا سرمایہ داری کے لیے ضروری [necessary]نہیں کیوں کہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام سے ان کی وابستگیاں مستحکم کرنے کا امکان ہمیشہ موجودرہتا ہے۔

            لیکن عالمگیر جہادی اسلامی ریاستوں سے اس نوعیت کی پرامن بقائے باہمی پر عمل کرنا ممکن نہیں ۔سرمایہ دارانہ نظام ان کے وجود کو برداشت نہیں کرسکتا سرمایہ دارانہ نظام عالمی جہادی اسلامی ریاستوں کو تباہ کرنے پر مجبور ہے کیوں کہ اس کی جاہلانہ عقلیت کوئی ایسی دلیل فراہم کرنے سے قاصرہے جو ان مفروضات کی اصلاح کرسکے جن پر یہ اسلامی آفاقی جہادی ترتیبِ اقتدار قائم ہوتا ہے۔ یہ بات آج کا سب سے نمایاں ماڈرنسٹ فلسفی Jorgen Habermes خوب جانتا ہے اور٢٠٠١ء کے بعد سے تواتر کے ساتھ اس کا اظہار کررہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ حزب اللہ کی جدوجہد اور ایران کے مؤقف کی حمایت میں امریکہ اور مغربی ممالک سے بھرپور آوازیں اٹھتی ہیں لیکن چیچنیا اور افغان مجاہدین کے حق میں پورے مغرب سے ایک آواز بھی بلند نہیں ہوتی، یہ وہ واضح فرق ہے جو قومی اسلامی ریاستوں اور خالص جہادی آفاقی ریاستوں میں موجود ہے۔

            جہاد افغانستان کے تسلسل نے یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جہاد جاری رکھنے کے لیے آفاقی جہادی ریاست کا وجودضروری نہیں سقوط امارة اسلامیہ کے بعد بھی مجاہدین جہاد عالمی سطح پر جاری رکھے ہوئے ہے اور اس جہاد کو جاری رکھنا مجاہدین کی امتیازی ذمہ داری ہے اسی ذمہ داری کو قبول کرکے مجاہدین نے اپنے آپ کو دیگراسلامی صف بندیوں ]مدرسین ، مبلغین ، مصلحین اورانقلابیوں[ سے ممیزکیا اورممتاز کرتے ہیں۔

            اب میں پاکستانی معاشرتی ریاستی تناظر میں ان امور پر گفتگو کروں گا جو سرمایہ داری کے خلاف اس جہادکو جاری رکھنے کے لیے اہم ہیں۔

            سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ پاکستانی معاشرتی نظام میں مجاہدین کا وجود نہایت محدود ہے اور ریاستی نظام میں تو وہ سرے سے کوئی وجودہی نہیں رکھتے۔جن علاقوںمیں ان کو عوامی اور قبائلی اقتداری تعاون حاصل ہیں وہ پاکستانی معاشرتی اور ریاستی نظام سے صرف واجبی طورپر منسلک ہیں۔ مجاہدین کی معاشرتی اورریاستی تنہائی کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ ایم ایم اے کی سرحد کی حکومت وانا[WANA]میں جاری فوج کشی کی مزاحمت پر نہ خودآمادہ ہوئی نہ اس پر اس فوج کشی کی مزاحمت کرنے کے لیے کوئی عوامی دباؤپڑا۔

            مجاہدین کی دوسری بڑی کمزوری یہ ہے کہ بیشترمجاہدین کی صف بندیاں پاکستانی فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں پر انحصار کرتی رہی ہیں۔ یہ انحصار ان تنظیموں میں توبہت زیادہ ہے جو جہاد کشمیر میں متحرک ہیں جہاد کشمیر تو خالصتاً  ایک War of National Liberation ہے اور اسے سرمایہ داری کے خلاف برپا عالمی اسلامی جہاد سے منسلک کرنا کم از کم اتنا ہی مشکل کام ہے جتنا عراقی مزاحمت کو اورفلسطینی انتفاضہ کو اس فرق کے ساتھ کہ عراق اورفلسطین میں مجاہدین کی ریاستی اور معاشرتی قوت کشمیر کے مقابلہ میں بہت زیادہ ہے۔ افغانستان میں بھی طالبان نے سقوط کابل کے بعدجو نظام اقتدار مشرقی اور وسطی صوبوں میںقائم کیاہے اس کو ایجنسیوں نے penetrate کرنا شرو ع کردیا ہے۔

            ان حالات کے تناظرمیں یہ بات کہنا ناگزیر ہے کہ مجاہدین کی سب سے بڑی ضرورت مسلمانان عالم کی طرف سے اعانت اورحمایت ہے اس حمایت کے بغیر مجاہدین دنیا میں کہیں بھی ایک مستحکم عالمی جہادی ریاست قائم نہیں کرسکتے اور نہ مجاہدین کا اثر چندمحدود علاقوں سے نکل سکتا ہے۔

            جیسا کہ میں پہلے عرض کرچکا ہوں جمہوریت اور سرمایہ داری کا ربط حادثاتی[contingent] ہے ضروری نہیں ہے ]یہ بات کم از کم قلیل مدت کے لیے اعتماد سے کہی جاسکتی ہے، یہ ممکن ہے کہ جمہوری عمل ]بشمول عمل انتخاب[ ایک ایسا ارادہ کل [will of all]ترتیب دے جوارادہ عمومی  [general will] کی تحدید اورتردید کرے۔ اسی امکان کو مسترد کرنے کے لیے دستور اورہیومن راٹس [human rights] کی تقدیم کو جمہوری عمل کے لیے ضروری سمجھاجاتا ہے اورجہاں بھی ارادہ کل [will of all] ارادہ عمومی [general will ]کی نفی کرے وہاں سرمایہ ارادہ کل کے اس اظہار کی تردید کی کوشش کرتاہے۔ لیکن ارادہ کل کے اس قسم کے فیصلوں کو مسترد کرنے میں وہ ہمیشہ کامیاب نہیں ہوتا۔ مثلا ً وہ ١٩٩٠ء کے الجزائر کے انتخابات کے نتائج کو مسترد کرنے میں جزواً اور ترکی کے ١٩٩٩ء کے انتخابات کے نتائج کو مسترد کرنے میں کامیاب ہوگیا ]مختلف طریقوں سے[ لیکن ایران کے ٢٠٠٥ء کے انتخابات کے اسی نوعیت کے نتائج کومسترد نہ کرسکا اور ٢٠٠٦ء کے فلسطینی انتخابات کو ردکرنے میں کامیاب ہوگا یا نہیں یہ بات غیر یقینی ہے لیکن سرمایہ داری کی تاریخ اس بات کی شہادت ضرور دیتی ہے کہ اگر جمہوری عمل جاری رہے اور ہیومن رائٹس کی تقدیم کو طویل مدت تک چیلنج نہ کیا جائے تو ارادہ اجتماعی [will of all] ارادہ عمومی [general will] یعنی سرمایہ کی بڑھوتری کے مطابق ہوجاتاہے۔ لہٰذا انقلابی جماعتیں اگر انتخابات یا دوسرے جمہوری طریقوں کے ذریعہ برسرِ اقتدار آئیں تووہ اقتدار کے جمہوری عمل کومعطل یا محدود کرنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔اگر وہ ایسا نہ کریں تو جمہوری عمل وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انقلابی عمل کو معطل کردیتاہے اسلامی جماعتوں کا جمہوری عمل میں شامل ہونا صرف اس صورت میں غلبۂ دین کے لیے مفید ہوسکتاہے جب اس شمولیت کے نتیجہ میںدستوریت ]یعنی نظامِ اقتدار میں ہیومن رائٹس کی فوقیت[کو کمزور کرنے کے لیے اس شمولیت کو استعمال کیا جائے ظاہر ہے کہ سرمایہ دارانہ جماعتوں ۔خواہ لبرل خواہ قوم پرست خواہ سوشل ڈیموکریٹ کے ساتھ الائنس قائم کرکے یہ ہدف حاصل نہیں ہوسکتا اور ایسے الائنس میں شمولیت کے نتیجہ میں اسلامی جماعتیں اپنا اسلامی تشخص کھو بیٹھتی ہیں سرمایہ دارنہ نظام اقتدار کے ذمہ داروں میں ان کا شمار ہونے لگتاہے اور اس نظام کے ساتھ ان کی وابستگیاں وفاداریاں اور مفادات منسلک ہوجاتے ہیں اور سرمایہ دارانہ مخالف ادارتی صف بندی ان کے لیے نا ممکن ہوجاتی ہے۔

            جمہوری عمل میں شرکت کا اصل مقصد سرمایہ دارانہ مخالف ریاستی اور معاشرتی اقدامات کا تحفظ ہے۔پاکستان کا تجربہ یہ ہے کہ حکومت میں شمولیت کے نتیجہ میںیہ مقصد حاصل نہیں ہوتا۔مثلاً سرحد اور بلوچستان کی صوبائی حکومتوں اور کراچی کی شہری انتظامیہ نے ٢٠٠٢ء تا ٢٠٠٦ء کوئی بھی ایسے اقدامات نہ کیے جس کے نتیجہ میں شہری یا صوبائی سطح پر سرمایہ دارانہ مخالف اسلامی ادارتی صف بندی ممکن ہوتی۔اس کے برعکس اسلامی جماعتوں کے کارکن سرمایہ دارانہ تعمیری پروجیکٹس کے کار فرما  اور منتظم بن گئے اور بہت سے سرمایہ دارانہ گروہوں اور افرادنے اسلامی جماعتوںکو اپنے مقاصد کو فروغ دینے کے لیے استعمال کیا۔ اس سے اسلامی جماعتوں کا تشخص بری طرح مجروح ہوا اور شہری اور صوبائی سطح پرنہ اسلامی انفرادیت نے فروغ پایا نہ اسلامی معاشرت اور ریاستی اداری صف بندی نے۔

            پاکستان کے موجودہ حالات میںکوئی بھی اسلامی جماعت وہ معاشرتی قوت نہیں رکھتی جو سرمایہ دارانہ ریاستی نظام کو انقلابی ادارتی صف بندی کا آلہ کار بنانے کے لیے ضروری ہے۔ معاشرتی انقلابی صف بندی کے بغیر نظام اقتدارمیں شمولیت لازماً مضر ثابت ہوتی ہے۔لہٰذا کم از کم مستقبل قریب میں اسلامی سیاسی جدوجہد کا مقصدنظام اقتدار میںشمولیت نہیں ہونا چاہیے ۔ بلکہ اس کا مقصدایسی سیاسی قوت کی فراہمی  ہونا چاہیے جو سیکولر حکومت پر دباؤ ڈال کر اس کو غیر اسلامی اقدمات سے باز رکھنے اور اسلامی معاشرتی ادارتی صف بندی کو گوارا اوربرداشت کرنے پر مجبور کردے اس حکمت کو سیاست کے اندر ریاستی نظام تعمیر کرنے کی حکمت ِ عملی[Building a state within a state]کہتے ہیںاور یہ حکمت عملی کامیابی کے ساتھ ایرانی علما نے مصدق کے زوال کے بعد سے ١٩٧٨ء تک اپنائی ۔ اس حکمت عملی کی بنیاد اسلامی اتحاد فراہم کرنا ہے۔ پاکستان میں اس اتحاد کی بنیاد متحدہ مجلس عمل کے قیام کے نتیجہ میں ظہور پذیر ہوچکا ہے۔ اس اتحاد میں تمام اسلامی مکاتیب فکرشیعہ بریلوی، دیوبندی،اوراہل حدیث ۔ اور بیشتراسلامی سیاسی جماعتیں شامل ہیں۔ یہ بات بلا خوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ آج اتحاد دنیائے اسلام کی ایک نہایت اہم ضرورت سے اوراس اتحادکے عدم وجودکی بنا پر امریکہ بہت فائدہ اٹھا رہا ہے۔ اگر شیعہ سنی اتحاد ہوتا۔ تو ٢٠٠٢ء میں طالبان کی پسپائی نا ممکن تھی کیوں کہ حکومت ایران طالبان کو کبھی بھی اس طرح تنہانہ چھوڑتی جس طرح ایک دھمکی پر افغانستان کے قدیم حلیف نے اسے تنہا چھوڑ دیا تھا اور عراق میں بھی امریکہ طویل عرصے تک قیام نہ کرسکتا اگر شیعہ اورسنی جہادی قوتیں متحدنہ ہوئیں تو اس اتحادکے بغیر ایران کا جوہری اسلحہ اور تنصیبات کا تحفظ بھی بہت مشکل ہے۔ پاکستان میںجتنا ضروری شیعہ سنی اتحادہے اس سے کچھ کم ضروری بریلوی ، دیو بندی اتحادنہیں۔ علوم اسلامی اور روایات  اور رسوم اسلامی کے تحفظ کے لئے دیوبندی اور بریلوی مکاتیبِ فکر نے پچھلے ڈیڑھ سو سال میں جو گراں قدر خدمات انجام دی ہیںوہ فطرتاً ایک دوسرے کو تقویت پہنچانے والی complement کرنے والی ہیں۔ ان کے اختلافات فروعی ہیں اور ان اختلافات کو برطانوی استعمارنے  باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت فروغ دیا۔ حقیقتاً بریلوی اور دیو بندی علما اور ان کی عوامی جماعتیں بالخصوص تبلیغی جماعت اوردعوت اسلامی پاکستانی معاشرہ میں ایک دوسرے کی فطری حلیف ہیں۔

            جہاد اسلامی کو جاری رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان کے مسلم عوام جہاد کی بھر پور اعانت پرآمادہ ہوں اس چیزکو ممکن بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں جتنا بھی کام تحفظ دین اور غلبہ دین کے لیے ہورہا ہے وہ ایک لڑی میں پرودیاجائے اور فکر اور حکمت عملی کی تطبیق کے ذریعہ مختلف اسلامی جماعتوں اورگروہوں میںمسابقت اور رفاقت کی فضا قائم کی جائے اورہر گروہ کو احساس دلایا جائے کہ دیگرتمام اسلامی جماعتیں اور گروہ اس کے فطری حلیف اور معاون ہیںفکراور عمل کے اس ارتباط کو قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ فروعی اختلافات سے صرف نظر کیا جائے اور ایک دوسرے کے عقائد اوراعمال کو شک کی نظر سے دیکھنا چھوڑ دیا جائے۔ بغیر اس کے ہم نہ تو مجاہدین کی جدوجہدکی عوامی مقبولیت کو منظم کرسکتے ہیں اور نہ استعمار کے ایجنٹوں کو معاشرہ اور ریاست کی سطح پر تنہا اور بے اثر کر سکتے ہیں۔

            دوسرے مسلم ممالک کی طرح پاکستان میں بھی مجاہدین کی جدوجہد کو عوامی سطح پر قدرکی نگاہ سے دیکھا جاتاہے لیکن مجاہدین کی یہ عوامی اعانت دووجوہات سے بے اثرثابت ہوتی ہے۔ سب سے بڑی وجہ تو مختلف اسلامی گروہوں کے آپس کے شکوک اور شبہات ہیںانہی شکوک اورشبہات نے فرقہ واریت کو فروغ دیا ہے مسلمان آپس کی لڑائی ہی کو جہادسمجھنے لگے ہیں دوسری وجہ یہ ہے کہ جب اسلامی گروہ آپس ہی میں دست و گریباں ہوں گے تو وہ لازماً اس سے قاصررہیںگے کہ ایک مربوط اور دور رس حکمت عملی تفویض کرسکیں۔ جو کچھ کام دفاع اور غلبہ دین کے ضمن میں ریاست اور معاشرہ کی سطح پر ہورہاہے لیکن اس کو ایک لڑی میں پرونے ایک نظاماتی ہیئت [structure] میں سمونے کا کوئی انتظام نہیں لہٰذا نظام کی سطح پر مسلمانان پاکستان کی قوت نہ مجتمع ہو پاتی ہے اور نہ ایک فصیل قوت کے طورپر سامنے آتی ہے۔

            ضروری ہے کہ تحفظ اور غلبہ دین کے کام کرنے والا ہر گروہ اس بات کواچھی طرح سمجھے کہ اسلام ایک مکمل مربوط آفاقی اور عالمگیری نظام حیات ہے اور جو کام بھی کوئی ایک اسلامی گروہ کررہا ہے اس کا تعلق دیگر تمام اسلامی گروہوں کے کام سے مربوط ہے تفہیم اور تفسیر کتاب مقدسہ کا کام پھیل نہیںسکتا اورمحفوظ تک نہیں رہ سکتا اگرمسلمانوں کی اجتماعی سیاسی قوت مضمحل ہوجائے جہاد جاری رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اسلامی رسوم و رواج فروغ پائیں اور صوفیائے عظام معاشرہ کو اسلامی روحانیت سے سرشار کریں۔ مدرسین ، مزکی ، مبلغین ، مصلحین ، انقلابی اور مجاہدین یہ سب ایک دوسرے کے فطری حلیف اور ایک دوسرے کے پشتبان ہیں ۔ کا یہی مفہوم ہے تمام اسلامی کام کی تطبیق کے ضروری ہے کہ ہر اسلامی تنظیم کا کارکن دو باتیں اچھی طرح سمجھ لے ۔

            پہلی بات تویہ کہ اسلام ایک مکمل اور مربوط نظام زندگی ہے تحفظ و غلبہ دین کی یہ جدوجہد کوئی ختم ہونے والی چیز نہیں یہ حضرت عیسی علیہ السلام کے ورود کے وقت تک مسلسل جاری رہے گی اوراس کی کامیابی کا لازمی مطلب یہ نہیں کہ کوئی اسلامی ریاست لازماً قائم ہوجائے یا اگر قائم ہوجائے تو قیامت تک کے لئے باقی بھی رہے جدوجہد کے نتیجے میں ریاست قائم بھی ہوتی ہے تحلیل بھی ہوتی ہے۔ جدوجہد کو مادی مظہر قیام ریاست سے مشروط و محدود کرنا اسلامی انقلابی جدوجہد کو محدود کرنے کے ساتھ ساتھ اسے مادی اظہار سے لازماً منسلک کرنے کے مترادف ہے۔ کوئی مکمل اسلامی معاشرت یا معیشت وجودمیں آجائے یا تمام مسلمان متقی اورمومن بن جائیں ہم دنیا کے سامنے کوئی ماڈل پیش کرنے کے مکلف نہیں۔ ایک ایسے آئیڈیل معاشرہ یا ماڈل ریاست جس میں گناہ کرنا ناممکن ہو۔ تمام لوگ سکوں سے رہیں۔ تمام مسائل حل ہوجائیں۔ اورترقی و آزادی بام عروج کو پہنچ جائے۔ افراد کی للہیت بڑھتی گھٹتی رہے گی معاشرتی پاکیزگی اور پراگندگی میںاضافہ اورکمی ہوتی رہے گی اسلامی ریاستیں خواہ قومی خواہ آفاقی اور جہادی ہوںبنتی اور ٹوٹتی رہیں گی۔ تحفظ دین اور غلبہ دین میں کامیابی کا یہ مطلب نہیں کہ دین مکمل طور پر دنیا میں ہمیشہ کے لیے غالب آجائے حقیقت یہ ہے کہ تحفظ اور غلبہ دین کی جدوجہد کے ہر مرحلہ میں  مسلمانوں کو مشکلات برداشت کرنی پڑیں گی۔ الآم اورمصائب کا سامنا کرنا پڑے گا اورآزمائشوں سے مسلسل گزرتا رہنا پڑے گا۔خیر القرون اور پہلی ہجری صدی ہمیں یہی سبق سکھاتی ہے۔

اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ تحریک تحفظ اور غلبہ دین کے نتیجے میں کامیابی کے مادی اظہار ریاست اور غلبہ و شوکت و فتح کے آثار کا ہر جگہ ظاہر ہونا ضروری نہیں، ہر جگہ اسلامی ریاستوں کا قیام بھی اس جدوجہد کا لازمی نتیجہ نہیں، لیکن اس جدوجہد پر ایمان و یقین اور اس میں مسلسل شرکت و تعاون اصل کامیابی و کامرانی اور اصل روح جہاد ہے۔ اگر اس روح کو کامیابی کے مادی مظاہر ریاست کے قیام وغیرہ سے مشروط کر دیا جائے تو یہ جدوجہد کم زور ہوجائے گی۔ مجاہد کامیا ب اس وقت ہوتا ہے جب وہ اپنے رب کے حضور پیش ہوتا ہے اس کو اللہ کی رضا حاصل ہوتی ہے اور جنت میں داخلہ کا پروانہ ملتا ہے اسی چیز کو قرآن نے فوزالعظیم سے تعبیر کیا ہے اورشہادت اس کی سب سے واضح علامت ہے۔ ہروہ کارکن ہمیشہ ہمیشہ  کے لیے کامیاب  ہے جس نے تحفظ اور غلبہ دین کی تگ ودو میں اپنی پوری زندگی گزاری اور ”اسی دامن میں بسایا گلشن کنج مزار اس نے”

            ہم دنیا میں جنت بنانے کی دعوت نہیں دیتے یا سرمایہ داری اوراس کے مذاہب لبرل ازم قوم پرستی سوشلزم کی دعوت نہیں دیتے بلکہ جنت میں جانے کے لیے جدو جہد کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ غلبہ دین کے نتیجے میں جوریاست قائم ہوتی ہے وہ ایک جہادی ریاست ہوتی ہے کوئی ویلفیئر اسٹیٹ [welfare state] نہیں ہوتی اوراس کے قائم ہوتے ہی کفار اس کو نیست اور نابود کرنے کے درپے ہوجاتے ہیں۔

دوسری بات جو تحریک تحفظ اور غلبہ دین کے ہر کارکن کو اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے وہ یہ کہ وہ جس نظام کو اکھاڑ پھینکنے کی کوشش کررہاہے وہ آج کے دور میں زندگی کے ہر شعبہ پرغلبہ رکھتاہے۔تبلیغی جماعت اور دعوة اسلامی سرمایہ دارانہ انفرادیت کے خلا ف جدوجہد کررہے ہیں۔ مدارس اوراسلامی ٹریڈ یونینیں سرمایہ دارانہ معاشرت اورمعیشت کے خلاف مصروف عمل ہیں ایم ایم اے کی جماعتیں سرمایہ دارانہ نظام اقتدار ریاست کے خلاف بر سر پیکارہیں اگر تبلیغی جماعت اسلامی انفرادیت کی جدوجہد میںسرمایہ دارانہ معاشرت اور سرمایہ دارانہ نظام اقتدار سے اعانت حاصل کرسکے اور اسی معاشرت اورریاستی نظام کا حصہ بن جائیں تووہ اسلامی کردار کی تعمیر کے کام کو مستحکم بنیاد پر قائم نہ کرسکے گی اسی طرح اگر جماعت اسلامی اسلامی ریاست کے قیام کی جدوجہد میں سرمایہ دارانہ معاشرتی صف بندی میںاپنا مقام بنانے کی کوشش کرے یا سرمایہ دارانہ علمیت کو قبول کرلے تو وہ اپنے سیاسی مقاصد کو ناقابل حصول بنادے گی۔

            لہٰذا ضروری ہے کہ ہر جماعت اورگروہ اپنے منتخب دائرہ کار کوسرمایہ دارانہ نظام میں سموئے جانے سے محفوظ رکھے۔ یہ ایک نہایت مشکل کام ہے اور گوکہ تحفظ کی طرف پیش رفت کسی نہ کسی حد تک اتحاد اسلامی سے حاصل ہوسکتی ہے لیکن اصل ضرورت ایک ایسی علمیت کی ہے جو سرمایہ داری پر بحیثیت ایک نظام زندگی حکم لگانے کی اہلیت رکھتی ہو اور جس کی بنیادپرایک ایسا علم الکلام تعمیر ہوسکتا ہے جو نظاماتی سطح [Systemic] پر سرمایہ دارانہ فکر اور عمل کی نامعقولیت ثابت کردے۔ حقیقت یہ ہے کہ برعظیم پاک و ہند میں خواجہ گان چشتیہ اور حضرت مولانا عبدالحق محدث دہلوی  کے ادوار کے بعد سے غیر اسلامی نظام ہائے زندگی پر محاکمہ اور ان کی علمی اور روحانی تسخیر پر سے توجہ ہٹ گئی اور اقتدار بالعموم اسلامی ریاستوں کے پاس رہا اس لیے علمی توجہ نظاماتی سطح سے ہٹ کر انفرادی سطح پر مرکوز ہوگئی۔ نظامِ تعلیم نظام معاشرت و معیشت اور نظام اقتدار چوں کہ اسلامی خطوط پرمروج تھا لہذا توجہ کا مرکز اس نظام کے اصول اور روح نہ رہی۔ فتاوےّٰ انفرادی اعمال پر نہ کہ نظاماتی خصائص پر مرکوزہوگئے اور ١٦ ویں صدی کے وسط سے لے کر آج تک برعظیم میں جو علم کلام مرتب ہوا اسکا اصل موضوع اسلامی نظام زندگی میں بدعات اور معاصی کا ورود تھا اس علم الکلام علم فقہ کے مخاطب مسلمان تھے اور وہ مسائل جو کہ کسی غیر اسلامی نظام زندگی کے ظہور اور غلبہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ اس فکر کا موضو ع نہیں تھے۔

            مغل سلطنت کی تباہی کے بعد حالات یکسر تبدیل ہوگئے ہیں اور برعظیم میںسرمایہ دارانہ نظام زندگی کو غلبہ حاصل ہوگیا اوراسلامی نظام زندگی کا غلبہ ریاستی سطح پر مطلقاً اور معاشرتی سطح پر جزو ا معطل ہوگیا ہے۔ ]اور یہی کیفیت بیشتر مسلم دنیا میں ہے[ لہٰذا ایک ایسے فقہ اور علم الکلام کی تدوین کی اشد ضرورت ہے جو نظام [System] پرحکم صادر کرے اور سرمایہ دارانہ علمیت کی اصلی اوراصولی نا معقولیت واضح کرے یہ کام اس بات کا متقاضی ہے کہ علما اورصوفیا فکر غزالی کے احیا کو تمام علمی اور روحانی کام کا مرکز اور محور بنالیں یہ بات افسوس سے کہنا پڑتی ہے کہ ہمارے مدارس میںحضرت حجتہ الاسلام رحم الہہ کی فکر اور تصانیف کووہ اہمیت حاصل نہیں جو ان کاحق ہے۔ تاریخ اسلام میں حضرت حجتہ الاسلام  کا فکری اور روحانی کارنامہ منفرد اور یکتا ہے اور یہ بات بلا خوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام زندگی اوراس کی جاہلانہ علمیت کا اسلامی محاکمہ امام غزالی کے فکرکے احیا کے بغیر نا ممکن ہے۔

فلسفہ یونان کا ابطال: امام غزالی کا طریقہ کار

مغربی فلسفے کو غزالی بنیادوں پر مسترد کر دیا جائے

تحریر (انگریزی) علی محمد رضوی

ترجمہ: ریحان احمد

تعارف:

اس مقالے کو ضابطِ تحریر میں لانے کا مقصد ان اصولوں کی تفہیم کی کوشش ہے جو مغربی فلسفہ اور بالخصوص یونانی مابعد الطبیعات کی تنقید سے متعلق امام غزالی کی تحریروں میں نظر آتے ہیں۔ اس مطالعاتی جائزہ کو ہم کئی حصوں میں منقسم کرکے دیکھ سکتے ہیں مثال کے طور پر

١) اس تناظر سے مکمل واقفیت حاصل کی جائے جس کے تحت امام غزالی یونانی فلسفہ کی بنیادوں پر کاری ضرب لگاتے ہیں کیوں کہ اس سے ہمیں امام غزالی کی تنقید کے بنیادی محرکات کو جاننے میں بھی مدد ملے گی۔

٢) اس دور میں مختلف افکار و نظریات اور عقائد و اعمال کی جانب سے درپیش مختلف النوع خطرات کا تجزیہ اور ان کا سدباب۔ اس ضمن میں آپ کے اصول و تفریقات اہم ہیں۔

٣) فلسفہ و منطق کے وہ عمومی اصول جو استدلال کے دوران امام نے استعمال کیے اور ان کی کس طرح توجیہہ بیان کی۔

٤) پھر وہ خاص اصول جو یونانی مابعد الطبیعات کی رد تشکیلیت کے سیاق میں امام نے نہایت عمدگی سے استعمال کیے۔

امام غزالی کے فکری کام کی اہمیت:

ذہن میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امام غزالی کی منہاج کا مطالعہ کیوں ضروری ہے اس سوال کے جواب کے لیے مشہور مستشرق منٹگمری Watt کا تبصرہ قابل غور ہے۔

”مشرق و مغرب امام غزالی کے فکری مقام کی بلندی کے اس درجہ قائل ہیں کہ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد امام کو سب سے بڑا مسلمان گردانتے ہیں اور آپ بجا طور پر اس مقام کے مستحق بھی ہیں آپ کی شخصیت کی بلندی کے بیان میں جہاں دیگر پہلوئوں کو پیش کیا جاسکتا ہے وہاں یہ دو بالخصوص قابل ذکر ہیں فلسفۂ یونانی کے ساتھ مجادلہ عظیم کے دوران آپ فکر اسلامی کی رہنمائی کے فرائض انجام دے رہے تھے اور یقینا اسلامی فکر اس پیکار سے نہ صرف یہ کہ فاتح بن کر نکلی بلکہ فکری سطح پر اسے مزید استحکام بھی ملا اور مغرب نواز افلاطونیت کی فکر پر ایسی کاری ضرب لگی کہ جس سے وہ پھر سنبھل نہ سکی۔ آپ کا دوسرا کارنامہ یہ تھا کہ آپ نے شریعت اور طریقت کے درمیان خلیج کو پاٹنے میں نہایت اہم کردار ادا کیا اور دونوں گروہوں کے راہنما قریب سے قریب تر ہوتے چلے گئے حالانکہ علمائے شریعت اور پیران طریقت دونوں اب بھی اپنے اپنے افکار و اقدار کو ہی برتر تصور کرتے تھے لیکن دونوں فریقین ایک دوسرے کے مقام کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نظر آتے تھے علمائے شریعت صوفیاء کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے جب کہ دوسری جانب صوفیاء شرعی پابندیوں کے معاملے میں زیادہ محتاط رہنے لگے۔” [intro pp.14-15]

آج اسلام کو مغربی فکر کی جانب سے ویسی ہی صورتحال درپیش ہے جو کسی زمانے میں یونانی فلسفہ کے ساتھ تھی اور آج اس کڑے دور میں مغربی علوم کے احیاء کی اسی قدر ضرورت ہے جیسا کہ امام غزالی کے وقت میں تھی اور اگر آج اہل اسلام اس موجودہ نازک صورتحال سے کامیابی سے نکلنے کے خواہش مند ہیں تو انہیں امام غزالی کی فکر کا غائر مطالعہ کرنا ہوگا۔ [ibid P.15]

مغربی فکر کی جانب اب تک مسلمانوں کے بالعموم دو طرح کے رویے سامنے آئے ہیں’ ایک صورتحال یہ نظر آتی ہے کہ علماء کی اکثریت اور ان کے پیروکاروں نے مغربی فکر سے ہمیشہ دامن بچانے کی کوشش کی ہے تاکہ اسلامی فکر کو مغربی فکر کے اثرات سے محفوظ رکھا جائے’ دوسری طرف معاملہ یہ ہے کہ جدیدیت پسندوں کا ایک ایسا گروہ سامنے آیا ہے جس نے صراحتاً اس امر کی کوشش کی یا تو ہر دو افکار کے درمیان تطابق و تفاہم کے رشتہ کو سامنے لایا جائے یا پھر اسلامی فکر کی مغربی حیثیت کو مغربی اصول تنقید اور مغربی منہاج کی مدد سے جانچا جائے۔

مغربی فکر کے ساتھ جدال کی اس کیفیت کے دوران جس شے کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے وہ غیر اسلامی افکار کا غزالی کے منہاج فکر کی روشنی میں جائزہ لینا ارو اس کا محاکمہ کرنا ہے۔ آج امام غزالی کی فکر کی طرف رجوع کرنے کا مقصد و غایت بھی یہی ہے کہ مغربی فکر و عقائد کو سمجھنے کے لیے قدیم اسلامی اصول تنقید کو ترویج دی جائے۔

جدوجہد امام غزالی کی غایت و تناظر:

امام غزالی کی عظیم کاوش کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس تناظر سے واقفیت حاصل کی جائے جس میں مغربی فکر کے محاکمہ کی ضرورت کا احساس دوچند ہو۔ صورت حال کچھ یوں تھی کہ اسلامی سلطنت کی توسیع کے دوران رومی’ یونانی تہذیب سے ٹکرائو وہ پہلا ٹکرائو تھا جب مسلمانان عرب انسانوں کے ایک ایسے گروہ سے برسرپیکار ہوئے جو ان تہذیبوں کے مقابلے میں تصور حق کے لیے متبادل فکری دلائل رکھتے تھے اس سے قبل تک جن اقوام سے مسلمانوں کا واسطہ پڑا تھا ان میں ایک کفار تھے جو اپنے عقائد کے لیے کسی قسم کی علمی بنیاد نہیں رکھتے تھے یا یہود و نصاریٰ کے گروہ تھے جو اسلام کے مماثل علمیت کے قائل تھے۔

ہر چند کہ یہ ٹکرائو امام غزالی کے زمانے سے دو صدی قبل سے جاری تھا لیکن آپ کے عہد میں اس تہذیبی ٹکرائو سے برآمد ہونے والے علمی و فکری مسائل نے امت مسلمہ کے لیے ایک فتنہ کی حیثیت اختیار کر لی تھی اور علماء میں ایک ایسا گروہ پیدا ہو گیا تھا جو اپنے تدبر و تعقل کی بنیاد پر خود کو برتر تصور کرنے لگا تھا اس کے علاوہ وحی کو حق و صداقت کا منبع سمجھنے کی بجائے عقل و خرد کو صداقت کے حصول کا ذریعہ سمجھ رہے تھے۔ وحی کے لیے ان کا حقارت آمیز رویہ ان کے اسلامی طریقوں اور علامات کی دستبرداری سے ظاہر ہوتا تھا۔ امت کو درپیش اس نازک و پرفتن صورتحال کو امام غزالی یوں بیان فرماتے ہیں:

”انہوں نے وہ تمام پابندیوں ترک کر دی ہیں جو اسلام اپنے پیروکاروں پر عائد کرتا ہے۔ وہ دین کے ان احکام کی ہنسی اڑاتے ہیں جن میں طرائق بندگی اور حلال و حرام کے قوانین بیان کیے گئے ہیں۔ وہ الہامی و شرعی قوانین کے بارے میں غیر سنجیدہ رویہ اپناتے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ شریعت مطہرہ کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں کو مطلق بجا نہیں سمجھتے بلکہ عقائد و ایمان کو مختلف النوع قیاسات کی کسوٹی پر پرکھنے لگے ہیں۔ ان کی مثال دراصل ان لوگوں کی ہے جو خدا کے راستے سے بھٹک جاتے ہیں اور شیطان کی راہ پر چل نکلتے ہیں اور جو آخرت کی زندگی پر ایمان نہیں رکھتے۔”

امام اس نازک صورتحال کو بخوبی سمجھ رہے تھے کہ بیرونی فکر کس طرح عام مسلمانوں کے عقائد و اعمال پر اثر انداز ہو رہی ہے اور وہ اس حقیقت سے بھی واقف تھے کہ علمی معیارات میں یہ تبدل و تغیر، جو عقل و خرد کی صورت میں سامنے آیا تھا۔ بالخصوص کفریہ عقائد کے فروغ کے ضمن میں راہ ہموار کرنے کا کام انجام دے رہا ہے۔

آج ہم جس دور میں رہ رہے ہیں وہاں سقراط’ بقراط’ افلاطون و ارسطو وغیرہ کو علمی شخصیات کے طور پر غیر معمولی اہمیت دی جاتی ہے اور ان فلاسفہ کے مقلدین مبالغہ کی حد تک انہیں مافوق الفطرت تدبر کے حامل افراد کے طور پر پیش کرتے ہیں اور ان عظیم عقلی صلاحیتوں کے بل پر جو اصول دریافت کیے گئے ہیں وہ کسی بھی قسم کی لغزش سے پاک اور ناقابل تغیر تصور کرتے ہیں اس کے علاوہ ریاضیاتی’ منطق’ طبیعاتی اور مابعد الطبیعاتی علوم کو بھی نہایت مکمل و جامع حیثیت میں پیش کیا ہے اور اس کے پس پشت و ہ عظیم ترین عقلی صلاحیتیں ہی تھیں جن کی بنیاد پر استخراجی طریقہ کار کے ذریعہ کائنات کے پوشیدہ حقائق کو دریافت کیا گیا اور تدبر و تعقل کی ایسی غیر معمولی صلاحیتوں کی بناء پر انہوں نے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا کہ مذہبی احکام محض بے بنیاد مفروضوں اور غیر اہم حقائق سے متعلق بیانات کا مجموعہ ہیں اور انہیں کسی بھی قسم کی برتری کا حامل قرار نہیں دیا جاسکتا۔

درج بالا سطور اس لحاظ سے نہایت اہم ہیں کہ ہمیں ان وجوہات و اسباب کے بارے میں پتہ چلتا ہے جو امت مسلمہ میں کفریہ عقائد کی ترویج کا سبب بن رہے تھے ان اسباب کو نمبر وار یوں پیش کیا جاسکتا ہے۔

١۔ ذہنی و علمی برتری کے سبب فلاسفہ کو ہر ذی نفس بشمول انبیاء کرام سے بھی برتر سمجھنا۔

٢۔ فلاسفہ کے دریافت کردہ اصولوں کو غیر مشکوک اور بدیہی تصور کرنا۔

٣۔ استخراجی طریقۂ کار کو ایسی منہاجیات کے طور پر تصور کرنا جس کے ذریعے بدیہی اصولوں سے نتائج اخذ کئے جاسکتے ہیں۔

٤۔ نتیجتاً یونانی مابعد الطبیعات منطق اور طبعی علوم کی برتری پر یقین۔

٥۔ درج بالا عوامل مذہبی احکام و تعلیمات کی تحقیر و تذلیل کا سبب بنتے ہیں۔

درج بالا نکات کا مجموعی اثر یہ ہوا کہ ان فلاسفہ کے مقلدین کے اندر ایک تکبر پیدا ہوگیا جس نے یونانی فلاسفہ’ ان کی منہاجیات’ علمیات میں تکبر پیدا کیا۔ جس کا مربوط اور مبسوط محاکمہ کرنے کے لیے امام غزالی نے تہافة الفلاسفہ جیسی کتاب تصنیف کی۔ آپ خود اس مقصد کو یوں بیان فرماتے ہیں۔

”خرد سے عاری ان افراد کو جب میں نے اس فکر کو اپناتے ہوئے دیکھا تو یہ فیصلہ کر لیا کہ قدیم فلاسفہ کی فکر کے رد کے لیے ایک کتاب لکھنی چاہئے جو ان کے عقائد کی بے ربطی اور ان کے مابعد الطبیعاتی نظریات کی کجی کو واضح کر دے گی اور ان کی فکر کے کمزور ترین گوشوں کو اس طور پر عیاں کر دے گی کہ کچھ لوگوں کے لیے تفریح طبع کا سبب بنے گی تو کچھ لوگوں کی عقائد کی درستگی بھی۔ …اشارہ عقائد کے ان حصوں کی جانب ہے جن کی بنیاد پر وہ اپنے تئیں خود کو دوسروں سے ممتاز و برتر تصور کرتے ہیں۔

امام غزالی کا نظریہ علم اور مختلف علوم کی تقسیم:

علم کیا ہے اور اس کا حصول کن مقاصد کے تحت کیا جانا چاہئے؟ یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جنہیں امام غزالی کی فکر میں مرکزی حیثیت حاصل ہے اس کے علاوہ تنقید کے عمومی مقصد کو سمجھنے کے لیے بھی یہ سوالات نہایت اہم ہیں امام غزالی ابتداً علم اور حصول علم کی غایت سے متعلق کچھ ایسے تصورات و نظریات کو بیان فرماتے ہیں کہ جن کی بنیاد پر آپ نے مغربی فکر کی تنقید مرتب کی ہے۔

آپ کی نظر میں حصول علم کا مقصد (اس سے تصور علم کو بھی واضح طور پر سمجھا جاسکتا ہے) دو طرح سے بیان کیا جاسکتا ہے (١) معاد’ (٢) معاش۔ ان ہر دو مقاصد میں ایک نوع کا گہرا تعلق موجود ہے کہ معاد کا فروغ حلال رزق کے حصول کے بغیر ممکن نہیں لہٰذا مطمح نظر معاد کا حصول ہونا چاہئے اور معاش کے حصول میں سرگرمی فقط اس وقت تک مستحسن ہے جب تک وہ معاد کے حصول میں معاون ثابت ہو۔ اسی طرح وہ تمام علوم جو معاد کے حصول کے لیے وضع کیے گئے ہیں یقینی طور پر علم کے دائرے میں آتے ہیں اور کسی بھی طرح اس کے حصول کی راہ میں رکاوٹ بنتے۔ لہٰذا اصل علم معاد کا علم ہے امام غزالی طالبان صداقت و علم کی توجہ خاص طور پر اس نکتہ کی جانب مبذول کراتے ہوئے فرماتے ہیں :

”حصول علم کے لیے اس قدر شدید طلب رکھنے والے میرے دوست تم جو خود کو یہ احساس دلا رہے ہو کہ طلب علم کی راہ میں کس قدر صادق’ پرجوش اور مستقل مزاج ہو کیا تم نے اس امر پر غور کیا ہے کہ اس جستجوئے علم کے پس پشت کیا مقصد کارفرما ہے؟ اگر تمہارا مقصد اپنی ذات کا نفع اور اپنے ہم جماعتوں میں ممتاز حیثیت کا حصول ہے تاکہ لوگوں کی توجہ حاصل کرکے دنیاوی نعمتیں سمیٹ لو تو جان لو کہ تم اپنے دین کے لیے بے فائدہ و بے کار ہو تم خود کو تباہ و برباد کر رہے ہو تم نے ابدی زندگی کو اس عارضی آرام و سکون پر قربان کر دیا ہے اور خوب سمجھ لو کہ یہ سودا خسارے کا سودا ہے اس بے سود تجارت میں کچھ نفع نہیں اور تمہارا استاذ جو تمہیں اس گمراہی میں پختہ کار کرتا ہے وہ بھی اس خسارے میں برابر کا شریک ہے اس کی مثال اس شخص کی ہے جو ایک مسافر کو تلوار فروخت کرتا ہے۔ …… دوسری جانب اگر جویائے علم و صداقت کے ضمن میں تم یہ نیت رکھتے ہو کہ فقط بڑائی ظاہر کرنے کے لیے کچھ الفاظ نہ سیکھیں جائیں بلکہ صحیح راہنمائی حاصل کی جائے تو خوش ہوجاؤ کہ یہی درست راہ ہے۔ [TBG p.86]

سطور بالا سے یہ حقیقت بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ حصول علم کا مقصد ذات باری تعالیٰ کی خوشنودی اور علم دراصل خشیتِ الٰہی کا احساس ہے۔ یہاں علم اور معلومات کے درمیان بھی ہمیں واضح فرق دکھائی دیتا ہے کہ فقط کچھ حقائق جان لینے کا نام علم نہیں ہے بلکہ الفاظ کا ایسا مجموعہ ہے جو رضائے الٰہی کے حصول میں ممد و معاون ثابت ہو اور خوف خدا پیدا کرے، امام غزالی کے مطابق علم کہلائے جانے کا مستحق ہوگا۔

اس گفتگو کی روشنی میں ہم علوم کو بہ اعتبار درجات درج ذیل اقسام میں تقسیم کر سکتے ہیں:

١) ایسے علوم جو کلی طور پر راست معاد سے متعلق ہیں مثلاً قرآن و حدیث کے علوم

٢) وہ علوم جو معاد کے لیے ضروری ہیں ان کے جاننے کا مقصد فقط ان علوم کو جاننا نہیں ہوتا بلکہ معاد کا حصول ہوتا ہے اور اگر ان کو صرف ان کا علم حاصل کے لیے حاصل کیا جائے تو یہ علوم مضر ثابت ہوتے ہیں۔ مثلاً عربی شاعری کی تعلیم قرآن کریم کی تفہیم میں کارآمد ثابت ہوتی ہے۔

٣) ایسے تمام علوم جن کا معاد سے کسی طور پر واسطہ نہیں ہے جنہیں کلیتاً رد کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ صراط مستقیم کے بجائے گمراہی و ضلالت کی طرف لے جاتے ہیں’ یہ شیطانی علوم ہیں جس کا حاصل کرنا خسارہ ہی خسارہ ہے امام غزالی نے اس سیاق میں یونانی مابعد الطبیعات کا خاص طور پر ذکر کیا ہے۔

٤) ایسے علوم شامل ہیں جو کلیتاً نہیں بلکہ آلاتی طور ر معاد کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہوتے ہیں جن کو بحیثیت مجموعی رد نہیں کیا جاتا بلکہ ان کو شیطانی علوم کی معاونت کی وجہ سے رد کیا جاتا ہے اس ضمن میں یونانی منطق کو مثال کے طور پر سمجھا جاسکتا ہے۔

٥) ایسے تمام علوم جو معاد کے حصول کی راہ میں نہ تو کسی بھی طرح سود مند ثابت ہوتے ہیں اور نہ ہی وہ ضرر رساں قرار دیے جاسکتے ہیں۔ ان کا رد کیا جانا نبی اکرم کے اس قول سے ثابت ہوتا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ مومن کے ایمان کا حسن یہ ہے کہ وہ فضول و بے کار افعال سے الفت نہیں رکھتا۔ مثال کے طور پر وہ علوم پیش کئے جاسکتے ہیں جنہیں ہم آلاتی علوم کہتے ہیں اور جو معاونت کا کام سر انجام دیتے ہیں۔

درج بالا تقسیم کے حوالے سے کلیت اور آلائیت کے بارے میں دو رائے ہوسکتی ہیں لیکن بنیادی درجہ بندی وہی رہتی ہے۔

امام غزالی کی یونانی علوم پر تنقید:

علم کی یہ تعریف و مفہوم اس درجہ بندی اور عمومی اصولوں کے سیاق کو سامنے رکھتے ہوئے امام غزالی مختلف یونانی علوم کا نہایت بسیط محاکمہ پیش کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اسلامی علمیاتی تناظر میں ان کا صحیح مقام بھی مرتب فرماتے ہیں۔ زیریں سطور میں مختلف یونانی علوم پر امام کی تنقید کو مختصر طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

منطق:

امام غزالی کی رائے میں منطق ایک آلاتی علم ہے اس میں استدلال کے مختلف طریقوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور مباحث کے ایسے اصول سکھائے جاتے ہیں جنہیں ہر دو فریق میں سے کوئی بھی اپنی مطلب برآری کے لیے استعمال کرتا ہے۔ یہ اندازِ استدلال اور اصول جو کسی بھی استدلال کو مضبوط اور قوی بنانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں دراصل صرف قضایا کی ساخت سے گفتگو کرتے ہیں انہیں قضایا کے معنی و مفہوم سے کچھ بحث نہیں ہوا کرتی۔ اسلام منطق کو بطور آلہ علم رد نہیں کرتا اور نہ ہی اسے رد کرنے کی کوئی ضرورت ہے ۔

یہ تن تنہا آپ کی ذات والاصفات ہی کا کارنامہ تھا کہ آپ نے اس وقت کی موجود منطقی باریکیوں کو نہ صرف یہ کہ مکمل طور پر سمجھا بلکہ ان کی مدد سے غیر اسلامی عقائد میں موجود بے ربطی اور کجی کو بھی واضح کر دیا۔ امام اس صورتحال کو یوں بیان فرماتے ہیں: ”جہاں تک اس تنازعے کا تعلق ہے کہ منطقی اصولوں و ضابطوں کے بغیر کوئی بحث مکمل نہیں ہوتی ان کا یہ موقف بالکل درست ہے لیکن یہ بھی اچھے طریقے سے سمجھ لینا چاہئے کہ منطق ان کی اجارہ داری نہیں ہے۔ بنیادی طور پر یہ وہی شے ہے جسے ہم فن علم الکلام میں کتاب تحقیق نظری کے نام سے موسوم کرتے ہیں فلاسفہ نے اسی کا نام تبدیل کرکے منطق رکھ دیا ہے اور اس کے بارے میں ایسا تصور قائم کر دیا ہے کہ عوام اس کے نام سے ہی مرعوب ہوجاتے ہیںا ور یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ یہ علم کی کوئی ایسی شاخ ہے جس سے متکلمین کلی طور پر ناواقف ہیں اور صرف فلاسفہ ہی منطقی موشگافیوں اور پیچیدگیوں کو سمجھنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔” [Tp.10]

امام غزالی علم منطق کے منفی پہلوئوں سے اجتناب برتنے کی بارہا تلقین کرتے ہیں اور اس سے متعلق خوش فہمیوں کا بھی نہایت عمدگی سے پردہ چاک کرتے ہیں کہ اس سلسلے میں سب سے پہلے تو ان حدود کو سمجھنا چاہئے جن میں منطقی اصول اپنی جادوگری دکھا سکتے ہیں۔ نکتہ یہ ہے کہ منطق صرف دو قضایا کے درمیان تعلق کی نوعیت کو مکمل یقین کے ساتھ بیان کرنے کی اہلیت رکھتی ہے جس کو اقتباساً یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ یہ ان قضایا کے معنی و مفہوم سے متعلق بھی قطعیت کے ساتھ رائے دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

امام فرماتے ہیں ”ایک عام معارف جس میں عموماً طالبان منطق گھرے ہوئے پائے گئے ہیں کہ وہ اس علم کی بنیاد پر کچھ ایسے معیارات وضع کرلیتے ہیں جن پر پورا اترنے والے قضایا کو بھی صحیح و درست تصور کیا جاتا ہے اور جب وہ انہی معیارات کے ساتھ مذہبی احکام کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ مذہبی احکام ان معیارات پر پورے نہیں اترتے لیکن وہ اپنے طے کردہ معیارات کے ضمن میں یہ ضرر تسلیم کرتے ہیں کہ ان میں مزید غور و فکر کی گنجائش ہے اور اس کی ضرورت بھی ہے کہ مذہبی بیانات بدیہی حیثیت کے حامل نہیں ہوا کرتے لہٰذا ان کا ثبات و انکار بھی کرنا ممکن نہیں ہے سوائے اس صورت کے کہ اس کو استدلال کی صورتوں کے تبدل کے حوالے سے نہ جانچا جائے بلکہ ان عقائد و نظریات کے حوالے سے پرکھا جائے جو ہر دو مخالف صورتوں میں پائے جاتے ہیں جو منطق کی بجائے مابعد الطبیعات اور اس جیسے دیگر علوم کا میدان ہے۔ چنانچہ وہی لوگ اس مغالطہ میں گھرتے ہیں جو ساخت اور مفہوم کے اس فرق کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور یہ تسلیم کرلیتے ہیں کہ ”کفریہ عقائد جن کا فلاسفہ اپنی فکر میں اظہار کرتے ہیں۔ منطق کے اصول و معیارات پر پورے اترتے ہیں اور اس طرح وہ ان عقائد کی برتری پر بھی ایمان لے آتے ہیں۔

امام بڑی صراحت کے ساتھ اس حقیقت کو واضح کرتے ہیں کہ منطق کا کوئی بھی اصول چاہے وہ قیاس کی مادی صحت جانچنے سے متعلق ہو یا اس کی صفوی صحت سے بحث کرتا ہو یا مفروضہ ہی کیوں نہ ہو جو منطق کی عمارت کے نہایت اہم ستون ہیں کسی بھی نوعیت کی تکنیک مابعد الطبیعاتی علوم کی بحث میں ان کی معاونت کرنے کی اہل نہیں ہے۔ [Tp.10]

ریاضی:

ریاضی ایک آلاتی علم ہے جو دیگر مقاصد کے حصول میں معاونت کا کام کرتا ہے اور کئی علوم میں اس کی ضرورت نہایت اہم ہے مثلاً میراث سے متعلق مسائل کی تفہیم کے سلسلے میں علم ریاضی مفید ہے یا نماز کے اوقات معلوم کرنے کے لیے بھی اس علم کو استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن اس سے قطع نظر دو خطرات ایسے شدید و مہلک ہیں کہ جنہیں علم ریاضی کے سیاق میں بالخصوص اور دیگر علوم میں بالعموم سمجھنا چاہئے۔

١۔ پہلا خطرہ یہ ہے کہ علم الحساب کی قطعیت اور اظہار بیان کی ندرت کو دیکھ کر عوام یہ خیال کرتے ہیں کہ ان کے تمام علوم ریاضی سے مشابہہ صحت کے حامل ہیں جس خدشہ کو مکمل سنجیدگی کے ساتھ محسوس کیا جانا چاہئے وہ یہ کہ اس کائنات سے متعلق وہ حقائق جن کے بارے میں مختلف آراء موجود رہی ہیں اور بہت سے اذہان بھٹک کر گمراہ ہو گئے۔

تہذیبوں کے درمیان تصادم اور تاریخ کے اوراق کے مطالعہ کرنے والے طالب علم کو درپیش علمی مسائل کے حل کے لیے امام غزالی ایسا کلیہ پیش کرتے ہیں کہ جس سے تشفی بخش جوابات کی تلاش میں بہت مدد ملے گی ”ایک ایسا شخص جو کسی فن میں مہارت حاصل کرتا ہے اور اس میں نام پیدا کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ہر فن میں اسی قابلیت کا حامل ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ایک شخص جو قانون و الہٰیات کا نہایت عمدہ عالم ہے اور اس کی باریکیوں کو بہت عمدگی سے سمجھتا ہے تو وہ فن طب کے اصولوں سے بھی واقف ہوگا یا فلسفہ و دیگر عقلی علوم سے ناواقف شخص قواعد (گرامر) کے اصولوں سے بھی نابلد ہوگا۔ ہر علم کے کچھ ایسے ماہرین ہمیشہ موجود ہوتے ہیں جو کہ ایک فن میں ماہر ہوتے ہیں مگر دوسرے فن کے لیے مطلق جاہل ہوتے ہیں۔”

سطور زیریں میں امام غزالی علم ریاضی اور دیگر علوم کے مابین تفریق نہایت وضاحت کے ساتھ فرماتے ہیں:

”ریاضی کے بنیادی اصول اپنی ماہیت میں اظہاری ہیں جب کہ الٰہیات (مابعد الطبیعات) کی بنیاد قیاسات پر ہے جو اہل علم ان علوم کا غائر مطالعہ کرچکے ہیں وہ اس نکتہ سے بخوبی واقف ہیں۔” اسلام اور سائنس کے درمیان تعلق کو سمجھنے کے لیے یہ نکتہ اہم ہے کہ اسلام اور سائنس کے درمیان بنیادی طور پر کوئی مخاصمت نہیں ہے لیکن مسائل وہاں جنم لیتے ہیں جب سائنس اپنی تحدیدات نظر انداز کرتے ہوئے مابعد الطبیعات و الہٰیاتی مباحث کو اپنے عمومی اظہاری طریقوں کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کرتی ہے، اس کے علاوہ سائنسی فکر اس بات کا بھی تقاضا کرتی ہے کہ زندگی کے اسرار و رموز کلی طور پر سمجھنے میں اس کی رائے کو مقتدر و محترم سمجھا جائے اور اس طرح علماء دین کی رائے کو سائنسی فکر کے تابع کر دیا جائے۔ لیکن امام کا قول اس قضیہ کو یوں مٹاتا ہے کہ کسی ایک فن میں مہارت تامہ رکھنے والا شخص دوسرے فن میں اسی مقام و مرتبہ کا حامل نہیں ہوسکتا یعنی مابعد الطبیعاتی اور الٰہیاتی مباحث میں سائنس کی رائے کسی طور پر اہم و برتر متصور نہیں ہوسکتی لیکن ایسے افراد جو ان ہر دو فکری مقامات میں فرق نہیں کرسکتے وہ مابعد الطبیعات و الہٰیاتی معاملات میں سائنس کو اس کی دیگر مخصوص شعبوں میں برتری کے سبب مقتدر و محترم تسلیم کرلیتے ہیں اور اس رویہ کی بدولت صراط مستقیم سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں علم ریاضی کے حصول کے بارے میں امام کی قطعی رائے یہ ہے کہ

”وہ طلباء جو ریاضیاتی علوم کا نہایت دلجمعی کے ساتھ مطالعہ کرتے ہیں انہیں اس سے روک دینا چاہئے چاہے وہ اسے مذہبی معاملات کی تفہیم میں بھی کیوں نہ استعمال کریں لیکن چونکہ یہ فلسفیانہ علوم کی بنیاد ہے اس طرح طالب علم فلاسفہ کی فکری بدعقیدگیوں اور انتشار ذہنی کا شکار ہوسکتا ہے اور آہستہ آہستہ اس کا ذہن خشیت الٰہی کے تصور سے خالی ہوجاتا ہے۔

ریاضی اور سائنس کے حوالے سے دوسرا خطرہ افراد کا وہ گروہ ہے جو یہ سمجھتا ہیں کہ ”فلاسفہ کے دریافت کردہ ہر علم کے رد کے ذریعے ہی مذہب کا دفاع ممکن ہے اور اس طرح وہ ان کے تمام علوم کا انکار کرتے ہیں اور خود کو جہالت کی عمیق گہرائیوں میں لا پھینکتے ہیں۔ یہ رویہ مذہب اسلام کے لیے کسی بھی طرح سے سود مند قرار نہیں دیا جاسکتا کیوںکہ اس سے یہ باطل تصور نکلتا ہے کہ اسلام کی بنیاد حقائق سے انکار پر ہے جب کہ درحقیقت ایسا نہیں ہے۔ امام فرماتے ہیں ”وہ شخص اسلام کا شدید ترین دشمن ہے جو یہ یقین رکھتا ہے کہ اسلامی تعلیمات کا دفاع ریاضیاتی علوم کے انکار کے ذریعے ہی ممکن ہے اور یوں سمجھتا ہے کہ ان علوم کے مقابلے میں الہامی تعلیمات تہی دامن ہیں اور یا پھر یہ کہ مذہبی صداقتوں کے مقابلے میں یہ علوم طفلان شیر خوار ہیں۔”

فطری علوم Natural Sciences:

امام فطری علوم کو علم طب کے مماثل سمجھتے ہیں کہ جس طرح طب میں انسانی جسم سے متعلق تحقیق و جستجو کی جاتی ہے اسی طرح اس میں بھی کائنات کے اسرار کو سمجھنے کی کوشش ہے اور اسلام طبی علوم کو رد نہیں کرتا لہٰذا فطری علوم کا رد بھی اسلام کے لیے لازم نہیں ہے لیکن ان علوم کے اس تصور کو پسندیدہ نہیں سمجھتے جو یونانی فکر کے بطن بطون سے نکلتی ہے اور اس امر کی وضاحت کرتے ہیں کہ فطرت پسندی کا نظریہ ان علوم کا استخراج نہیں ہے بلکہ یہ ایک مابعد الطبیعاتی تصور ہے جو ان علوم کی تفہیم میں استعمال کیا جاتا ہے لہٰذا اس تصور کی اصلاح کی ضرورت ہے کہ فطرت آپ اپنی مالک نہیں ہے بلکہ ایک مخلوق و واسطے کے طور پر اپنے افعال انجام دے رہی ہے۔ چاند سورج’ ستارے و سیارے سب اس کی تابع ہیں کوئی شے ایسی نہیں ہے جو آپ اپنی مرضی کی مالک اور بدیہی طور پر وجود رکھتی ہو۔

المختصر کسی بھی سائنسی نظام فکر کے پس پشت مابعد الطبعیاتی تناظر کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور انہیں نہ صرف یہ کہ تعدیلی اہمیت کا نہ سمجھا جائے بلکہ یہ بھی اچھے طریقے سے جان لینا چاہئے کہ کسی بھی سائنسی نظام میں موجود عمومی حقائق کو ان سے جدا کرکے بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ لہٰذا اسلام فطری علوم کی حیثیت پر کار فرما یونانی فکر کو تو تنقید کا نشانہ بناتا ہے لیکن تجرباتی حقائق کو بسر و چشم قبول کرتا ہے۔

سیاسیات و اخلاقیات:

ہر چند کہ سیاسیات و اخلاقیات سے متعلق امام غزالی نے مفصل گفتگو نہیں کی ہے لیکن یہاں ہم عمیق منہاجیات کی غرض سے نکات کا مختصر جائزہ پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔ سیاسیات کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ”فلاسفہ کی سیاسی فکر عموماً اس الہامی پیغام سے مستعار شدہ ہے جو انبیاء کرام بنی نوع انسان کی بھلائی کے لیے لے کر آئے اور اس کے علاوہ اولیاء کرام کے افکار سے بھی خوشہ چینی کی ہے” اخلاقیات کے علم کے متعلق بھی کم و بیش آپ کی یہی رائے ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہر دو علوم میں آپ نے ایسے اضافے بھی کیے ہیں جن کا اطلاق علم سیاست پر بھی ہوتا ہے ان فلاسفہ نے اپنے فضول کام کو چمکانے کے لیے ان تعلیمات کو اپنی طویل و بے مقصد بحثوں میں خلط ملط کرکے رکھ دیا ہے۔

مابعد الطبعیات:

یونانی فکر کے محاکمہ و تنقید کا اصل مقصد درحقیقت یونانی مابعد الطبیعاتی عقائد کا بطلان ہی ہے جو امام غزالی مابعد البطعیاتی قضایا کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں اول قسم میں وہ مباحث شامل ہیں جن میں الفاظ کے معنی و مفہوم پر بحث کی جاتی ہے مثال کے طور پر لفظ ”جوہر” کو خدائے واحد کی ذات کے طور پر موسوم کیا جاتا ہے اور اگر وجود حقیقی کے معنی و مفہوم پر اتفاق ممکن ہوجائے تو لفظ جوہر کے مفہوم کو اس سیاق میں اشتقاقی نقطۂ نظر سے جانچنا ہوگا اور اگر اس نقطۂ نگاہ سے لفظ جوہر کے اس استعمال کا جواز مل جائے تب بھی یہ سوال تشنہ ہی رہے گا کہ آیا مذہبی فکر اس استعمال کو سند بخشتی ہے یا نہیںا ور یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ درپیش تنازعہ کی لفظی اور غیر لفظی حیثیت جاننے کے لیے نہ صرف یہ کہ الفاظ کے عمومی استعمال کو سمجھا جائے بلکہ ان الفاظ کے عمومی معانی پر بھی اتفاق پیدا کیا جائے کیونکہ یہ ضروری نہیں کہ افرد کے درمیان الفاظ کا یکساں استعمال ان کے معانی کے یکسانیت پر بھی دلالت کرتا ہو۔

تیسری قسم میں وہ فلسفیانہ نظریات شامل ہیں جو مذہب کے بنیادی اصولوں سے متخاصم ہیں مثلاً: زمانے کے اندر تخلیق کائنات کا مذہبی تصور، خالق کائنات کے وجود کی صفات سے متعلق عقائد، قیامت میں اجسام کا دوبارہ اٹھایا جانا۔ ان تمام عقائد کا فلاسفہ نے صریحاً انکار کیا ہے۔

دوسری قسم میں ایسی چیزیں شامل ہیں جن پر فلاسفہ یقین رکھتے ہیں اور وہ مذہب کے کسی بھی اصول سے متخاصم نہیں ہیں۔

وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ خدا فقط کلیات کا علم رکھتا ہے اور جزئیات سے اسے کچھ مطلب نہیں ہے امام نے اسے صریح کفر قرار دیا ہے۔ تہافتہ الفلاسفہ میں امام غزالی نے تیسری قسم میں شامل قضایا سے بھرپور بحث کی ہے اور ان قضایا پر مشتمل نظام کی کجی و کمزوریوں کو بالکل واضح کر دیا ہے۔

٦۔ Mode of Critique تنقید کے مختلف مناظر:

امام غزالی نے مغربی فکر پر جو بھرپور تنقید کی ہے اس کو ہم مختلف سطحوں پر سمجھ سکتے ہیں۔

١۔ داخلی ٢۔ خارجی ٣۔ اقل حقوق ٤۔ لازمی

داخلی تنقید کے باب میں تنقید کرنے والا اس مخصوص تناظر میں گفتگو کرتا ہے جس میں وہ رہتا بستا ہے اور اس کے مخاطب وہی لوگ ہوا کرتے ہیں جس معاشرہ میں وہ زندگی بسر کرتا ہے اور وہاں کی رائج شدہ اقدار برتتا ہے لیکن علمی و فکری برتری کے سبب و ہ ترویج شدہ نظریات میں نہ صرف یہ کہ کسی بھی قسم کی خرابی کو جان لیتا ہے بلکہ یہ اس کے سدباب کی بھی کوشش کرتا ہے اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ کہنا صحیح ہوگا کہ غزالی کی تنقید داخلی تنقید نہیں ہے کیوں کہ فلسفہ کا محاکمہ پیش کرتے وقت آپ کی تمام تر وفاداریاں اسلامی فکر سے منسلک ہیں اور آپ اسلامی علمیت کی برتری کے بھی غیر متزلزل طور پر قائل ہیں آپ کی محاکماتی تحریروں کا اصل مقصد یونانی فلسفہ کی بنیادوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا اور اس کی علمی برتری کے حوالے سے پھیلے ہوئے غلط العام تصورات کی بیخ کنی ہے تاہم آپ علمی تحقیق کے اس انداز سے بھی بخوبی واقف ہیں کہ کسی بھی تنقید کو موثر بنانے کے لیے خود اس کے درون میں کمزوریاں تلاش کی جاتی ہیں اور جس فکر کو تنقید کا ہدف بنایا جائے اس سے مکمل واقفیت و آگہی حاصل کی جائے وگر نہ بھرپور و جامع تنقید ممکن نہیں ہوگی۔ آپ فرماتے ہیں:

”میری رائے یہ ہے کہ ایک شخص کسی بھی علم پر تنقید کا کوئی حق نہیں رکھتا جب تک وہ نہ صرف یہ کہ ان علوم کا اس قدر ماہر نہ ہوجائے کہ جس طرح خود اس علم کے ماہرین سے جس گہرائی کے ساتھ سمجھتے ہیں بلکہ وہ ان گوشوں پر بھی نگاہ ڈالنے کی اہلیت رکھتا ہو جو ان ماہرین کی نظر سے اوجھل رہے ہیں اس وقت اس کی تنقید کو اس علم کے حوالے سے اہمیت دی جائے گی۔”

امام کے نقطہ نظر سے ”کسی نظام فکر کی مکمل تفہیم اور اس کی گہرائی و گیرائی کو سمجھے بغیر اس کی تردید کرنا عبث و بے فائدہ فعل ہے۔ اس نکتہ کو سامنے رکھ کر غور کیا جائے تو امام غزالی کی فکر اپنے پیش رو متکلمین سے جدا نظر آتی ہے کیوں کہ متکلمین کا عموی رویہ یہی رہا کہ وہ بنیادی فلسفیانہ فکر کو رد کرنے کے بجائے عالم اسلام میں موجود علمی بدعات پیدا کرنے والوں کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے یونانی فلسفہ سے متعلق ان کا مبلغ علم اس قدر سطحی اور چند منتشر قسم کے قیاسات پر مشتمل تھا کہ اپنی تحریروں میں ان کا فلاسفہ سے کسی قسم کا مناظرہ موجود نہیں تھا۔ مبہم اور منتشر خیالات کے علاوہ انکے دلائل اس قدر بکھرے ہوئے تھے کہ ایک عام فراست کا شخص ان سے دھوکہ نہیں کھا سکتا تھا۔ یہ متکلمین یونانی فلسفہ کو ہدف تنقید بنانے کی بجائے ان لوگوں کے نظریات سے بحث کر رہے تھے جو آہستہ آہستہ اہل اسلام میں در آئے تھے اور شریعت اسلام کی صورت مسخ کرنے کی کوشش کر رہے تھے، اس ضمن میں وہ یونانی فلسفہ سے مستعار شدہ تصورات اور تکنیک سے بھی مدد لے رہے تھے۔ یونانی فکر سے بحیثیت مجموعی ناواقفیت کی بنا پر ان متکلمین کا انداز تنقید خارجی و آلاتی تھا۔

جب علم الکلام ایک باقاعدہ علم کی صورت میں ظہور پذیر ہوا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی وسعت میں اضافہ ہوتا چلا گیا تو متکلمین نے شریعت کے دفاع کے لیے اپنی کوششیں تیز کر دیں اور جواہر و حوادث بشمول انکی ماہیت و خصوصیت سے متعلق مقاصد میں مشغول ہوگئے لیکن وہ ان مسائل پر بھرپور و جامع طریقے سے غور و فکرنہ  کرسکے جس کے نتیجے میں وہ مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہو سکے جو انسانی فکر کو گمراہیوں سے مکمل طور پر نجات دلاسکتے۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ متکلمین کا مخاطب وہ گروہ تھا جو اسلام کے بنیادی نظریات و عقائد پر ایمان رکھتا تھا لیکن کچھ اصولوں کی تشریحات میں وہ معروف سے اختلاف کیا کرتے تھے اور بیرونی فکر کے استدلال کو اصولیات دین کے سمجھنے میں استعمال کو مستحسن سمجھتے تھے۔ یہاںا گر دور حاضر کی کیفیت پر نگاہ دوڑائی جائے تو آج بھی ایک گروہ اسی نوعیت کی کوشش و کاوش میں مصروف عمل ہے یعنی آج کی غالب سائنسی فکر کے پیش کردہ حقائق کو درست تسلیم کرتے ہوئے اسلامی عقائد کو ان کی مدد سے صحیح ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں یہ نکتہ ہمیں سمجھنا چاہئے کہ اس قسم کے استدلال فقط ان لوگوں کو قائل کرسکتے ہیں جو پہلے ہی اسلامی فکر کی برتری کے قائل ہیں لیکن سائنسی علوم کے تربیت یافتہ افراد کے لیے اس قسم کے استدلال ناقابل قبول ہوا کرتے ہیں۔ کسی بھی نظام کی مکمل تنقید کے لیے جس طرح کی تفہیم کی ضرورت ہوتی ہے وہ علم الکلام میں شاذ ہی نظر آتی ہے علم الکلام کے مباحث زیادہ تر شریعت اسلامی کے دفاع سے متعلق ہیں کہ بیرونی فکر سے متاثر افراد کی نت نئی اختراعات کو استدلال کے ذریعے غلط اور غیر مربوط ثابت کیا جائے اور تضادات سے بھرپور ان کی فکر کے منفی اثرات و نتائج کو بھی واضح کیا جائے۔ اس قسم کے طریقۂ کار مخالفین کے اس گروہ کے لیے تو کارآمد ہوسکتے ہیں جو اﷲ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں، لیکن وہ جو عقل و خرد کی برتری کے قائل ہیں ان کے لیے یہ بے فائدہ و لاحاصل ہے اس فکر کے حامل افراد کے درست طریقہ یہ ہے کہ مخالف کی فکر کے بنیادی اصولوں کو جہاں تک ممکن ہو سکے اس کی مکمل گہرائی و گیرائی کے ساتھ تفہیم حاصل کی جائے اور اس نظام فکر کی بنیاد میں موجود التباسات و تسامحات کو واضح کیا جائے تاکہ خود اس کے بطن بطون سے اس کی تباہی جنم لے۔ جس بات کا ادراک بہت کم کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ پہلے سے تسلیم شدہ دلائل سے تسلیم کروانا بے کار محض ہے۔ سائنس کے افرد کے لیے دوسرے قسم کے دلائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ امام کلام کے اثرات کو رد نہیں کر رہے مگر ان کے خیال میں یہ اسی طرح ہے جیسا کہ دوائیں مرض کی نوعیت میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ بدلتی جاتی ہیں۔

ان کی زیادہ تر منہاجیات ان اصولوں پر مبنی ہے کہ اپنے مخالفوں پر تضادات کو واضح کرنا اور جو منطقی نتائج وہ تسلیم کرچکے ہیں کے حوالے سے تنقید کرنا۔” [A1 p 28]

یہ طرز عمل ان مخالفین کے لیے ہے جو اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول کی حاکمیت کو تسلیم کرتے ہیں مگر ان مخالفین کے خلاف جو کچھ بھی تسلیم نہیں کرتے یہ طریقہ تنقید لاحاصل ہے اس طرح مخالفین کے لیے ضروری ہے کہ مخالف کے طریقہ کار کو ممکنہ حد تک داخل کیا جائے اس حد تک کہ اپنا ضابطہ اخلاق متاثر نہ ہو اور اس نظام کی بے ربطگی کو ظاہر کرنے کی کوشش کی جائے اس طرح وہ اندرونی طور پر ہی تباہ ہوجائیں گے۔

کسی بھی فکری نظام میں موجود ربط کو دو طرح سے سمجھا جاسکتا ہے۔

١۔ منطقی ربط ٢۔ مجموعی نظام کا ربط

منطقی ربط کسی نظام کے (صوری) اندرونی ربط سے متعلق ہوتا ہے۔ اس نوع کی تنقید (جس کا مقصد کسی نظام میں موجود صوری ربط کی صحت کو جانچتے ہیں) کو اقتل کل تنقید کے نام سے موسوم کیا جاسکتا ہے جس کو ہم آگے چل کر تفصیل سے بیان کریں گے جب کہ انتظامی ربط سے مراد کسی نظام کے اندرونی ربط کو مکمل طور پر ساختی اور وجودی طور پر سمجھنا ہے جب امام غزالی فلاسفہ مغرب کے افکار کی اندرونی بے ربطگیوں کی جانب اشارہ کرتے ہیں تو اس کا مقصد فقط فلسفیانہ عقائد و نظریات میں موجود کمزوریوں کی نشاندہی نہیں بلکہ وہ اس مخصوص علمیت کے تضادات کو بھی بڑی صراحت کے ساتھ واضح کرتے چلے جاتے ہیں جس میں عقل مخفی کو خود مکتفی اور واحد راہنما کے طور پر تصور کیا جاتا ہے بایں وجہ امام غزالی کے رد و اعترضات کو جز کی شکل میں نہیں بلکہ کل کے طور پر سمجھنا چاہئے اور اسی بنیاد پر امام غزالی کی تنقیدی فکر ایک خاص مقام کے حامل ہے کہ یہ کسی نظام کے خارجی و داخلی ہر دو پہلوئوں سے مکمل طور پر بحث کرتی ہے اس کی وضاحت یوں سمجھ لیجئے کہ جس طرح متکلمین نے غیر اسلامی فکر پر تنقید مرتب کرتے ہوئے ہمیشہ اسلامی علمیت کی برتری کو جزو ایمان سمجھا اور اسکو محور و مرکز بناتے ہوئے باطل فکر کو ہدف تنقید بنایا اس انداز فکر کو بیرونی تنقید کا عنوان دیا جاسکتا ہے جب کہ دوسری جانب خارجی تنقید کے ضمن میں اس نظریہ کی مکمل طور پر تفہیم حاصل کی جاسکتی ہے جس پر تنقید کا مقصد یہ ہوتا کہ اس استدلال کی غلطی و کجی کو خود اس کے دروں سے واضح کی جائے۔

ہر چند کہ امام غزالی کی یونانی تنقیدی فکر مکمل طور پر مربوط حیثیت کی حامل ہے لیکن اس کو کئی حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔

ہر چند کہ امام غزالی کی یونانی فکر پر تنقید کئی سطحوں پر مبنی ہے لیکن اس سے اس کی مربوط حیثیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس فکر کو کئی حصوں میں تقسیم کرکے دیکھا جاسکتا ہے۔ اول یہ ثابت کرنا کہ فلاسفہ جن تصورات کو بدیہی و غیر مشکوک تصور کرتے ہیں وہ بدیہی نہیں ہیں۔ دوسرے مرحلے میں امام غزالی کچھ اپنے متبادل نظریات پیش کرتے ہیں جنہیں فلاسفہ کے تصورات کی مانند بدیہی قرار دیا جاسکتا ہے اور اس طرح اس بنیادی دعویٰ کی حیثیت کو کمزور کر دیتے ہیں کہ ان کی فکر کی بنیاد عقل کی مدد سے حاصل کردہ بدیہی قضایا پر ہے۔ امام غزالی فلاسفہ کے تحقیق کائنات کے نظریہ کو غیر منطقی اور لایعنی تصور کرنے سے یوں بحث کرتے ہیں۔

”آپ حضرات کو یہ کیوں کر علم ہواکہ کسی بھی وقوعہ کی ابتداء ارداہ الٰہی کو قرار دینا غیر منطقی و محال ہے؟ آیا اس کے پس پشت کوئی ناقابل تردید بدیہی عقلی دلیل ہے یا کوئی اور نظریاتی بنیاد ہے اور کیا آپ کے اس بیان میں کوئی حد اوسط موجود ہے یا نہیں؟ اگر معاملہ یہ ہے کہ اس بیان میں حد اوسط موجود ہے اور آپ استخراجی طریقہ کار کے عامل ہیں تو آپ کو یہ بتانا پڑے گا کہ وہ حد کیا ہے اور اگر آپ اسے بدیہی قرار دیتے ہیں تو آپ کے مخالف اس کو کیوں تسلیم نہیں کرتے؟ جب کہ وہ لوگ جو کائنات کو حادثہ تصور کرتے ہیں ایک خاصی بڑی تعداد میں موجود ہیں لہٰذا فلاسفہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ منطق کے اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے کائنات کی ابتداء کو ارادہ الٰہی کے تابع ہونے کو محال قرار دیں۔

درج بالا استدلال کی مدد سے نہ صرف فلاسفہ کے عقائد و نظریات کے غیر حقیقی پن کا اندازہ ہوتا ہے بلکہ ان کے استدلال میں ربط کا بھی پتا چلتا ہے کہ یہ فلاسفہ ریاضی اور منطق کے اظہاریوں سے متعلق یکساں رائے کا اظہار کرتے ہیں لیکن مذہبی اور مابعد البطیعاتی عقائد کا معاملہ آتا ہے تو نزاع کی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے۔ اس سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ اگر صداقت تک رسائی کے لیے عقل ہی واحد راہنما اور راہ بر ہوتی تو اس کے مقلدین کے درمیان یہ تفرقات جنم نہ لیتے۔ امام فرماتے ہیں

”’ان فلاسفہ کے ہاں کوئی شے مستقل وغیر متغیر نہیں ہے۔ ان کے تمام بیانات اندازوں اور قیاسات پر مبنی ہوا کرتے ہیں اور ان کا واسطہ نہ تو مذہبی عقائد سے ہوتا ہے اور نہ ہی ان کو تجربی طور پر ثابت کیا جاسکتا ہے۔ وہ ریاضیاتی اور منطقی علوم کی مدد سے مابعد الطبیعاتی نظریات اخذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اگر ریاضیاتی علوم کی مانند ان کے مابعد الطبیعاتی عقائد و نظریات بھی قطعی و مستند ہوتے تو ان کے درمیان اختلاف کی کوئی صورت نہ ابھرتی”۔

سطور بالا میں واضح طور پر امام غزالی اس نکتہ کو بیان فرماتے ہیں کہ اگر یہ مابعد الطبعیاتی عقائد غیر مشکوک’ واضح اور قطعی ہوتے تو ان میں اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ فلاسفہ اپنے استدلال کو مستحکم کرنے کے لیے ان خود ساختہ عقلی اصولوں پر انحصار نہیں کرسکتے اور اس سے ایک نتیجہ یہ بھی برآمد ہوتا ہے کہ ان مسائل کی نوعیت ایسی نہیں ہے کہ جنہیں کسی نوع کے واقعاتی یا تاریخی شواہد کی مدد سے حل کیا جاسکے۔ اسی طرح یہ دلیل بھی ثابت کرتی ہے کہ اختلاف منطقی’ تضاد سے نہیں ابھرتا اور نہ یہ ابھرسکتا ہے اور ثبوت کی ذمہ داری فلاسفہ پر ہے جو مابعد الطبیعاتی عقائد کو واضح اور عقلی اصولوں کے مطابق ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔

ہمارا تعلق منطق اور حقیقی عمل سے ہے اور ان فلاسفہ کے برخلاف غیر منطقی عقلی شواہد اور بدیہی تصورات کے وجود کو صحیح تصور نہیں کرتے۔

امام غزالی کے پس پشت کارفرما مقصد یہ ہے کہ عقل کے خود مکتفی و راہنمائے واحد کے نظریہ کے بودے پن کو ثابت کیا جائے اور یہی آپ کی فکر کا نہایت اہم نکتہ ہے۔ مابعد الطبیعاتی عقائد سے متعلق بیانات اپنی نوعیت میں ترکیبی ہوتے ہیں جن کے لیے حد اوسط کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ حد اوسط اپنے موضوع موجود معلومات سے بڑھ کر فراہم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ استخراجی طریقہ کار کے درست ہونے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ بنیادی قضا یا بدیہی و غیر مشکوک ہوں جب کہ امام یہ ثابت کرچکے ہیں کہ مابعد الطبیعاتی عقائد کا اظہار کرنے کے والے بیانات کے لیے یہ شرط ضروری نہیں۔ اگر بنیادی قضا یا بدیہی وغیر مشکوک نہیں ہیں تو اس سے کوئی لازمی نتیجہ برآمد نہیں ہوسکتا۔ دوم نتیجہ کی لزومی حیثیت ثابت کرنے کے لیے حد اوسط کا ہونا ضروری ہے جب کہ مابعد الطبیعاتی بیانات کی نوعیت تحلیلی کی بجائے ترکیبی ہوتی ہے لہٰذا ان بیانات میں حد اوسط کا ہونا ممکن نہیں۔ اب اگر تحلیل و تجزیہ کی مدد سے حد اوسط کو نہیں سمجھا جاسکتا تو کچھ ایسے ذرائع ضرور ہونے چاہییں جن کی مدد سے حد اوسط تک رسائی ممکن ہو اس ضمن میں یونانی فلاسفہ کا خیال تھا کہ عقل میں بذات خود وجدانی و انکشافی صلاحیت موجود ہے جس کی مدد سے وہ علم میں خاطر خواہ اضافہ کو ممکن بناتی ہے اور اسی صلاحیت کی بدولت بدیہی و قطعی قضایا بھی وضع کیے جاتے ہیں۔ مغربی فلاسفہ کے غیر منطقی لزومیت کے خود مکتفی ہونے کے نظریہ پر یقین کی بنیاد یہی ہے جس کو امام غزالی بالخصوص ہدف تنقید بناتے ہیں۔

عقلی لزومیت کے اس نظریہ کے بودے پن کو ثابت کرنے کے لیے امام ایک اور طریق استدلال کا سہارا لیتے ہیں جسے دلائل تضمین کے نام سے موسوم کیا جاسکتا ہے۔ اس طریق استدلال میں امام ایک دوسرے استدلال جسے فلاسفہ یونان بدیہی تصور کرتے ہیں ‘ کو غلط اور لغو ثابت کرتے ہیں اور اسی کی بنیاد پر ابتدائی استدلال کو بھی مہمل قرار دیتے ہیں اور یہ نکتہ نکالتے ہیں کہ عقلی لزومیت کا نظریہ اس قدر بدیہی و قطعی نہیں ہے کیوں کہ اگر کسی ایک استدلال کو مشکوک ثابت کر دیا جائے تو منطقی عقلی لزومیت اور خود وجودیت کا مکمل نظریہ مشتبہ و غیرہ بدیہی قرار پاتا ہے لہٰذا جب وہ کائنات کی ابدیت کے نظریے سے بحث کرتے اور اس میں شامل عقلی لزومیت اور خود مکتفی کو اس کے اجزاء کے طور پر لیتے ہیں تو اس کے ساتھ ہی وہ افلاطون کے پیش کردہ روح کی ابدیت کے نظریہ کو بھی شامل بحث کرلیتے ہیں جسے وہ اسی انداز میں بدیہی و قطعی سمجھتا ہے۔ امام غزالی افلاطون کے عقیدے کو یوں بیان کرتے ہیں۔

”افلاطون کا خیال تھا کہ روح ابدی ہے اور جب اجسام میں جاتی ہے تو یہ تقسیم ہوجاتی ہے اور اجسام سے نکل کر واپس اپنی اصل کی طرف لوٹ جاتی ہے”۔ امام اس عقیدے کو دلائل تضمین کی مدد سے تجزیہ کرتے اور یہ ثابت کرتے ہیں کہ یہ بدیہی نہیں ہے۔

‘اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ عقیدہ اس درجہ قابل مذمت ہے کہ اسے فوری رد کرنا چاہئے۔ سوال یہ ہے کہ کیا زید کی روح عمر کی روح کے مماثل ہے؟ اگر اسے مماثل قرار دیا جائے تو یہ نہایت لغو بات ہوگی۔ زید و عمر دونوں اپنے وجود سے بخوبی واقف ہیں لہٰذا وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ دونوں آپس میں یکساں خصوصیات کے حامل نہیں۔ اگر ارواح اپنی نوعیت میں مماثل ہوتیں تو وہ یقینا وقوفی حیثیت میں بھی یکساں تصور کی جاتیں جو ارواح کی لازمی و ضروری صفات ہیں۔ لیکن اگر یہ کہا جائے کہ زید کی روح عمر کی روح سے اپنی نوعیت میں مختلف ہے اور دونوں ارواح کے دو مختلف اجسام میں منقسم ہونے کے نتیجہ میں ایک دوہریت وجود میں آتی ہے ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ اس جوہر کی تقسیم’ جسے روح کے نام سے موسوم کرتے ہیں اور جس کو کسی ماہیت یا مقدار کی اکائیوں میں نہیں سمجھا جاسکتا’ قطعی ناممکن و محال ہے۔ پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ روح جو اکائی کی شکل میں ہے اسے ہزاروں حصوں میں تقسیم کر دیا جائے اور پھر دوبارہ اسی سابقہ اکائی میں واپس آجائیں۔ اس نوعیت کا عمل فقط ان اشیاء کے ساتھ ممکن ہوتا ہے جو کسی مقدار اور ماہیت کی حامل ہوں۔ مثال کے طور پر سمندر کے پانی کو دریائوں وغیرہ میں تقسیم کیا جاسکتا ہے اور ان کا دوبارہ سمند کی صورت بن جانا بھی ممکن ہے لیکن ایک غیر مقداری بے ماہیتی شے کو کس طرح منقسم کیا جاسکتا ہے؟

ایک ایسا استدلال جس کی علمی حیثیت کو قطعی و غیر مشکوک سمجھا جاتا تھا اس کی کمزوری کو مکمل طور پر واضح کر دیا۔ اس کے بعد آپ اس  استدلال کی جانب اشارہ کرتے ہیں جو اصل موضوع بحث ہے۔ اس تمام استدلال کا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ کائنات کی بذریعہ ارادہ الٰہی کی تخلقی کے نظریے کو اپنے مخالفین کے لیے نہیں چھوڑ سکتے تھے جب کہ وہ ایسی کوئی چیز دلیل کے برعکس ثابت نہ کردیں مگر جب یہی دعویٰ ان کے فلاسفہ نے اپنے عقیدے کو جھٹلاتے ہوئے کیا تو ان کے لیے اس تنقید پر خاموشی اختیار کرنا ممکن نہیں رہا۔ اور یہ ایک ناقابل فرار حالت تھی۔

امام غزالی نے اسی طریقہ استدلال کے ساتھ کام لیتے ہوئے فلاسفہ کے انکار تخلیق کائنات بذریعہ وحی الٰہی کے نظریہ سے بحث کی ہے۔ ‘فلاسفہ کا بیان ہے کہ اگر کائنات کی تخلیق ارادہ الٰہی کے ماتحت ہوتی ہے تو یہ اب کیوں ہوا اور اس سے پہلے کیوں نہ ہوا؟’

آپ جواباً یوں بحث کرتے ہیں ‘ایسا کیوں کر ہوا کہ شمال و جنوب میں دو نقاط کو قطبین تصور کر لیا گیا؟ کیا وجہ ہے کہ دائرة البروج کا رہگزر کسی اور دو نقاط سے نہیں ہو ااس طرح تو دائرة البروج کے مخالف نقاط کو بھی قطبین قرار دیا جانا چاہئے تھے؟ بہشت کی ماہیت و جسامت میں بھی کوئی نہ کوئی حکمت پوشیدہ ہوسکتی ہے لیکن ایک قطب کو کسی بھی دوسرے مقام سے کیوں کر ممیز کیا جاسکتا ہے؟ یا وہ کیا وجہ تھی جس کی بنا پر کسی مخصوص نقطہ کو دیگر تمام نقاط کے مقابلے میں ایک قطب کے طور پر منتخب کر لیا گیا؟ کیا تمام نقاط مشابہہ نہیں ہیں جیسا کہ ایک دائرہ کے تمام اجزاء مساوی ہوتے ہیں؟ فلاسفہ اس مسئلہ کو کسی صورت میں بھی حل نہیں کرسکتے’ اس تمام گفتگو سے یہ حقیقت عیاں ہوجاتی ہے کہ فلاسفہ کا عقلی لزوم اور خود وجودیت پر ایمان اور اساس کی بنیاد پر تمام عقائد کی پرکھ فکر کی گمراہی کے سوا کچھ نہیں ہے اور خود یہ فلاسفہ اس درجہ اہلیت کے لائق نہیں کہ وہ فطرت اور مظاہر فطرت کی اپنی واقعاتی تشریح کے دفاع میں مضبوط و مستحکم استدلال پیش کرسکیں۔ اس کے علاوہ اس داخلی سقم کی بھی آگہی ملتی ہے کہ دوسروں کے عقائد و نظریات پرکھنے کے لیے جن براہین سے کام لیا جاتا ہے خود اپنے افکار کے سلسلے میں ان سے صرف نظر کیا جاتا ہے۔

امام غزالی نے اپنی تنقیدی فکر میں جس استدلال سے کام لیا ہے اسے متکلمین از منہ وسطی کے دانشوروں اور مناظرہ کے فن میں اساتذہ کا درجہ رکھنے والوں کے ہاں ‘الجواب الالزامی’ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے لیکن یونانی مابعد الطبیعات کے ضمن میں اس طریقہ استدلال کو امام غزالی کی بدولت ایک نیا عروج حاصل ہوا۔ اس انداز تنقید میں ایک جانب تو یہ داخلی تنقید مرتب کی جاتی ہے اور مخالف عقیدہ کی صحت کو پرکھا جاتا ہے دوسری جانب اپنے عقائد و نظریات کو مخالف کے اصولوں کی نذر نہیں کرتے اور ان پر پختہ ایمان رکھتے ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو اس سے ایک منفی سا تاثر ابھرتا ہے کہ یہ انداز فکر مخالف کو تو سوالات سے کٹہرے میں لاکھڑا کرتا ہے جب کہ خود پر کسی نوع کا اعتراض وارد نہیں ہونے دیتا اور اس کی علت یہ ہے کہ ابتدائی طور پر مدمقابل کو خود اپنے وضع کردہ معیارات کے مطابق اپنے دعووں کو ثابت کرنے کی دعوت دی جاتی ہے اور اس میں کسی خارجی معیار کو شامل نہیں کیا جاتا لیکن خود اپنے نظریات کو ان کے معیارات کے مطابق جانچنے کی اجازت نہیں دیتے کیوں کہ اس سے ماقبل وہ ان معیارات پر دلائل کی مدد سے اپنے شک و شبہ کا اظہار کرتے ہیں اور انہیں مہمل و بے معنی ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اس طرح یہ ممکن نہیں رہتا کہ ان معیارات کی بنیاد پر ان کے عقائد و نظریات کو پرکھا جائے۔

اس مقصد کے لیے مختلف سطحوں پر مختلف دلائل کی ضرورت پڑتی ہے جس کا تفصیلی بیان اوپر آچکا ہے یہاں اس کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے۔

١۔ اس بنیادی دعویٰ کو رد کرنا کہ مابعد الطبیعاتی عقائد اور دیگر تنازعوں کی بنیاد پر کسی قسم کی قطعیت پر ہے اور جواب میں ایسی مثالیں پیش کرنا جس کی مدد سے ان کے متبادل دعووں کو بھی مذکورہ دعووں کی طرح قطعیت کا حامل قرار دیا جائے۔

٢۔ مخالف کے عقائد و نظریات میں موجود تاریخی و واقعاتی اغلاط کو واضح کرنا۔

٣۔ مخالف کے عقائد و نظریات میں موجود منطقی تضادات واضح کرنا۔

٤۔ ان نکات کی مدد سے عقل کعد مکتفی کے نظریہ کے ابہام کو واضح کرنا۔ اس ضمن میں اوپر بحث کیے گئے دلائل تضمین کو بھی شامل استدلال کی گیا ہے۔

خارجی تنقید:

خارجی تنقید سے مراد خود آپ اپنے وجود سے جدا دیگر افکار کو پرکھنا و جانچنا ہے۔ بیرونی فکر کی صحت کو اس طرح بھی پرکھا جاسکتا ہے کہ اس کے اندرونی ربط کو دیکھا جائے کہ وہ اپنے ذروں میں کس قدر مربوط و منضبط ہیں اس کے علاوہ خود ان کے وضع کردہ معیارات کی بنیاد پر بھی ان کے افکار کی صحت میں آزمائش کی جاسکتی ہے جیسا کہ عقل کی فضیلتوں کی تنقید کے بیان میں امام غزالی کے ہاں دیکھا جاسکتا ہے۔

داخلی و خارجی ہر دو تنقیدات کا یہ امتزاج اسی صورت میں ممکن ہے جب کہ عقل کی موثر فضیلتوں کو درست طور پر سمجھا جائے اور اس اشتراک کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ دیگر عقائد و نظریات کو کمزور و غیر مستحکم ثابت کر دیا جائے اور اس سطح پر ہمیں ہر قسم کے تیر و تفنگ سے کام لینا پڑے گا لہٰذا اس امر کی ہر ممکن کوشش کی جائیگی کہ حالت جنگ کی نوعیت کو درست طور پر سمجھتے ہوئے ہر طرح کی تنقید کو ایک کل میں سمو کر مخالف کی پوزیشن کو کمزور کیا جائے۔ درحقیقت ہم آج ایک خاص طور کی حالت جنگ میں ہیں جو عقائد و نظریات کی برتری کی جدوجہ ہے، جس میں ہر سو فریقین مصروف عمل ہیںا ور اپنے دفاع کو مضبوط بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ایسا ماحول یا فضا تخلیق کی جائے جو ہمارے حق میں ممد و معاون ثابت ہو اور مخالف افکار کے لیے غیر معاونت کا سبب بنے۔ لیکن یہ بھی یاد رہے کہ اس فضا کے سازگار ہونے میں ماہ و سال نہیں صدیاں لگ سکتی ہیں۔ یہ ایک طویل المیعاد علمی و تہذیبی جنگ ہے اور کسی بھی جنگ کی مانند اس میں بھی کبھی اقدامی حالت ہوگی تو کبھی پسپائی کی حکمت عملی اختیار کرنا پڑے گی’ کبھی شب خون مارنا پڑے گا تو کبھی دبک کر بیٹھ جانے میں عافیت ہوگی۔ غرض ہر طرح کی تدبیر سے کام لینا ہوگا۔ آپ فرماتے ہیں:

‘یہ خوب جان لو کہ ہماری جدوجہد کا مقصد ان لوگوں کے خلاف کاروائی کرنا ہے جو فلاسفہ یونان پر غیر متزلزل ایمان رکھتے ہیں اور ان کی فکر کو کسی بھی نوع کے اشتباہ سے مبرا و منزہ سمجھتے ہیں لہٰذا ضروری ہے کہ یونانی فکر میں موجود تضادات و اغلاط کو مکمل طور پر عیاں کیا جائے اوراسی مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے میں یہ سمجھتا ہوں کہ اپنی فکر کے بجائے ان عقائد و نظریات پر حملہ آور ہوا جائے’

یہاں اس نکتہ کو مکمل اہمیت کے ساتھ محسوس کیا جانا چاہئے کہ داخلی و اندرونی تنقید کے دوران امام غزالی نے اپنے اعتقادات کی حیثیت کو ہمیشہ برتر محسوس کیا اور آپ کی فکر کے مکمل مطالعہ میں یہ بات واضح طور پر نظر آتی ہے کہ وہ کسی قسم کی مصالحت آمیز فکر کے قائل نہیں لیکن آپ اس کے قائل ضرور ہیں کہ ایک مضبوط و مستحکم تنقید مرتب کرنے کے لیے یونانی فلسفہ کے بنیادی اصولوں کے حوالے سے مکمل ادراک حاصل کیا جائے خود اس فکر کے اندر سے تنقید کے لیے کمزور گوشے تلاش کئے جائیں۔ مزید برآں یہ کہ آپ کسی بھی نوع کی معروضیت یا تجریدیت کے بھی قائل نہیں ہیں۔ آپ کی تمام تر گفتگو اسلامی علمیت و صداقت کی برتری کے حوالے سے متشرح ہے جب کہ یونانی علوم و فلسفہ کو آپ کفریہ عقائد کا مجموعہ تصور کرتے ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ یہ بنیاد تصور کیے بغیر مغربی تہذیب کا کسی قسم کا اسلامی محاکمہ سرے سے ممکن ہی نہیں۔ اصولی طور پر یوں کہہ لیجئے کہ اندرونی تنقید کو خارجی تنقید کے تناظر میں ہی سمجھاجانا چاہئے۔

امام غزالی واضح طور پر یہاں فرماتے ہیں کہ عقلی بنیادوں پر صداقت کا حصول ممکن نہیں ہے بلکہ فقط وحی الٰہی اور رحمت خداوندی وہ کنجی ہیں جن کی بدولت انسان راہ حق پاسکتا ہے۔ کسی فرد کا کفریہ عقائد سے تائب ہو کر اسلام قبول کرلینا خداوند تعالیٰ کی عطا سے ہی ممکن ہے اس میں کسی منطقی استدلال اور عقلی موشاگافیوں کو کچھ دخل نہیں ہے۔ اندرونی تنقید کے باب میں یہ باور رکھنا چاہئے کہ آپ عقل کی خود مکتفی حیثیت کے قائل نہیں ہیں اس کے برعکس خارجی تنقید کو خاص اہمیت دیتے ہیں کہ جس کے تحت اندرونی تنقید اپنا تاثر قائم کرتی ہے یہی وجہ ہے کہ داخلی تنقید کی نوعیت منفی ہوا کرتی ہے جب کہ اس کے اثبات کو خارجی و بیرونی تنقید کے باب میں سمجھا جاسکتا ہے۔ امام مثبت کے طور پر اس فیصلہ کن دلیل کو رد کرتے ہیں۔

مطلق سچائی تک پہنچنے کے لیے کوئی عقلی میدان موجود نہیں ہے’ مطلق سچائی کا انحصار مکمل طور پر رحمت خداوندی اور رہنمائی پر ہے۔ یہاں تک کہ ان کے کام کا بے جا طور پر کارتیسی نظریاتی سے موازانہ کیا گیا ہے۔ امام واضح طور پر کہتے ہیں کہ کسی شخص یا گروہ میں تبدیلی (یونانی عقیدہ سے اسلام میں) کا انحصار رحمت خداوندی پر ہے نہ کہ محض دلیل کی خود انحصاریت پر۔ امام غزالی کی داخلی تنقید دلیل کی خود انحصاریت پر دلالت نہیں کرتی بلکہ یہ مستقل طور پر خارجی تنقید کے ضمن میں دیے گئے مواد کی تصدیق کرتی ہے۔ لہٰذا اندرونی تنقید خارجی تنقید کی دلالت کی حد تک منفی ہے۔

اب امام غزالی کی سطور کا جائزہ لیجئے

”یہ امر طے شدہ ہے کہ مطلق صداقت تک رسائی کسی دلیل یا عقل کی بدولت نہیں بلکہ خدا کی اس رحمت کی بدولت ہوا کرتی ہے جسے وہ راہ راست پر رکھنا چاہتا ہے اس کے دل میں اپنا نور داخل کردیتا ہے اور یہ نور خداوندی کا ایک جزو لازم ہے جب نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم سے کسی نے جب شرع کے معنی دریافت کیے اور اس آیت کے حوالے سے مطلب پوچھا کہ ‘جب خدا کسی کو راہ راست پر لانا چاہتا ہے تو اس کے سینے کو اسلام یعنی خدا کی محبت کے لیے کھول دیتا ہے’ تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ‘یہ وہ نور عظیم ہے جسے خدا دل میں داخل کردیتا ہے’ پوچھا گیا ‘اس کی نشانی کیا ہے؟” فرمایا ”ایسا شخص گمراہی کے اندھیروں سے نکل کر فکر آخرت کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے” اس نور خداوندی کے متعلق آپ کا ارشاد ہے ‘خدا نے مخلوق کو تاریکی میں تخلیق کیا اور پھر ان میں اپنا نور پھونکا’ اسی نور خداوندی کی بدولت ہی اشیاء کی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کرنا چاہئے اور یہ نور متعین عرصہ میں رحمت خداوندی کی جانب پھوٹتا ہے اس کے قرب و دیار کے لیے یقینا کوشش کرنا چاہئے۔ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے کہ ‘آج اس دور میں رب کائنات کی رحمتوں کا دریا عروج پر ہے لہٰذا زیادہ سے زیادہ خود کو سیراب کرنے کی کوشش کرو’

کوئی اندرونی تنقید اسلامی عقائد و شعائر کو تسلیم کیے بغیر حق تک رسائی حاصل نہیں کرسکتی اور تمام دیگر نظریات کو اسلامی علمیت کی بنیاد پر ہی جانچا پرکھا جائے اور یہ فقط خارجی تنقید کے ضمن میں ہی ممکن ہوتا ہے کہ دیگر عقائد کی مکمل تفہیم اور ان پر تنقید اسلامی فکر کو معیار سمجھتے ہوئے کی جائے۔

یہاں تہافہ کا ایک اور پہلو سامنے آتا ہے جو خالص اسلامی علمیت کے ساتھ ہی مخصوص ہے کہ اپنے عقائد کو ترک کیے بغیر خارجی تنقید مختلف نظام ہائے فکر پر ان کے بطن بطون سے تنقید مرتب کی جائے اس طرح داخلی و خارجی ہر دو انداز تنقید کے منفرد امتزاج دیکھنے میں آتا ہے۔

اسلام یک آفاقی پیغام کا حامل مذہب ہے جس کی ترویج اشاعت کے لیے ابتدائے کائنات ہر قوم و نسل میں انبیاء کا ظہور ہوا لہٰذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ انسانوں کا گروہ جس قدر بھی صراط مستقیم سے کیوں نہ ہٹ جائے ان کے قلوب میں حق کی روشنی کی کوئی نہ کوئی کرن ضرور موجود ہوگی۔ جسے کوشش و کاوش سے مزید روشن کیا جاسکتا ہے۔ دنیا کا ہر علم اپنے دور میں خیر کاکوئی نہ کوئی پہلو ضرور پوشیدہ رکھے ہوئے ہے جو دراصل کسی نہ کسی طور پر انبیاء کی تعلیم کا استخراج ہے جنہوں نے خدا اور آخرت پر یقین کو ہمیشہ مرکزی حیثیت دی اور دور حاضر کے علوم (چاہے قدیم ہوں یا جدید) کسی حد تک ان عقائد سے متعلق نظر آتے ہیں۔

ایسے افراد جو ان بنیادی اصولوں سے منکر ہیں انہیں مکمل طور پر گمراہ سمجھنا چاہئے اور ان کے علمی مقام کو اہمیت دینے کی بھی چنداں ضرورت نہیں اور نہ ہی ان کی گفتگو پر دھیان دیا جائے۔ یہ لوگ درحقیقت شیاطین کے بہکاووں میں آکر گمراہی و جہالت کی اتھاہ گہرائیوں میں گرچکے ہیں۔ ایک باشعور و فہیم شخص یقینا غلط العام تصورات سے فوری چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کرے گا جنہیں گمراہی و ضلالت کا شکار ان قوموں کو حکمت و دانش کا شاہکار سمجھا جاتا ہے۔

اس سیاق میں امام غزالی کی فکر کا ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ یونانی فلسفہ میں موجود ان عناصر کو سمجھا جائے جو صداقت کے حصول اور کذب سے برأت کے اظہار میں معاونت کا سبب بنتے ہیں اس مقصد کے تحت آپ ہر دو ادوار کے یونانی فلسفہ کے نظریات کے درمیان امتیاز کرتے ہیں تو دوسری جانب یونانی فکر و فلسفہ کے مختلف مکاتب کے درمیان تفریق کرتے ہیں۔ اول جز کے بارے میں آپ فرماتے ہیں:

‘یہ کتاب (تہافہ) اس امر کی وضاحت کرتی ہے کہ یہ قدیم فلاسفہ کے وہ مقلدین جنہیں دھریے تصور کیا جاتا ہے وہ دراصل اس الزام کے مستحق نہیں ہیں۔ انہوں نے مذہبی قوانین کا کبھی انکار نہیں کیا۔ اس کے برعکس وہ نہ صرف وجود باری تعالیٰ کے قائل ہیں بلکہ انبیاء کرام پر بھی یقین رکھتے ہیں ہاں یہ ضرور ہے کہ کچھ معاملات میں وہ التباس کا شکار ہو کر صراط مستقیم سے بھٹک گئے اور دوسروں کے لیے بھی گمراہی کا سبب بنے۔ ہم اس تصنیف میں ان کی غلطی کو واضح کرنا چاہتے ہیں کہ جن کی بناء پر وہ باطل کا آلۂ کار بن گئے۔

آپ یونانی فلسفہ کو ان کی فکر کے اعتبار سے تین مکاتب میں تقسیم کرتے ہیں

١۔ مادیت پسند ٢۔ فطرت پسند ٣۔ مذہب پسند

ان مکاتب فکر سے متعلق امام کی رائے کو مختصر طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

١ آپ مادیت پسند کو فلاسفہ کا وہ گروہ تصور کرتے ہیں جو کائنات کی ابدیت کے قائل ہیں کہ یہ ازل سے موجود ہے۔ یہ گروہ خالق کائنات کا بھی منکر ہے۔ امام غزالی اس فکر کے حامل افراد کو کافر و زندیق کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔

٢ دوسرے گروہ میں وہ حکماء شامل ہیں جو عالم فطرت سے متعلق تحقیقات میں دلچسپی لیتے رہتے ہیں اور حیوانات کے اعضاء جسمانی کی جراحت کے علم کے بارے میں ان کی کاوشیں قابل ذکر ہیں لیکن حیرت انگیز امر یہ ہے کہ تخلیق کے عمل میں گہری تفہیم اور عجائبات عالم پر اس قدر شدید غور و فکر کے بعد بھی انہیں یہ احساس نہ ہوا کہ اس عالم آب و گل کے پس پشت اک عظیم ہستی کارفرما ہے جو علیم و خبیر ہے اور جس نے اس تمام کائنات کو خلق کیا ہے۔ اس کے بجائے وہ فطرت کو خود مکتفی اور ماننداز خدا سمجھنے لگے۔ وہ ذات باری تعالیٰ کے انکاری نہیں تھے بلکہ وہ یقین رکھتے تھے کہ خدا کائنات کی تخلیق کے بعد کائنات سے ایک معنوں میں لاتعلق ہو گیا ہے اور اب وہ قوانین فطرت یا انسانی زندگی میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کرتا۔ ان کا یہ تصور خدا بعد کے اٹھارویں اور انیسویں صدی کے فطرتیت پسندوں کے گھڑی ساز خدا کے نظریہ کے مماثل نظر آتا ہے۔ آپ ان کے عقائد کے بارے میں فرماتے ہیں:

‘یہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ موت روح کو آتی ہے اور وہ دوبارہ زندگی کی طرف نہیں لوٹتی اس کے علاوہ دوزخ’ بہشت کی ابدی زندگی’ اجسام کے دوبارہ اٹھائے جانے اور پھر ان کے بھی مماثل نہیں’ یعنی آخرت فرمانبرداروں کے لیے جزا اور گناہ گاروں کے لیے عذاب کا عقیدہ ان کے لیے درست نہیں ہے۔’

امام غزالی ان لوگوں کا شمار بھی کافروں میں کرتے ہیں کہ یہ خدا اور اس کی صفات کے تو قائل ہیں لیکن روز آخرت پر ایمان نہیں رکھتے۔

٣ تیسرے گروہ میں سقراط’ افلاطون اور ارسطو کے نام قابل ذکر ہیں۔ امام کی رائے میں خدا پرستوں کے اس گروہ نے مادیت پسندوں اور فطرت پرستوں کے نظریات پر اس درجہ کڑی تنقید کی کہ مزید کچھ کہنے کی گنجائش معلوم نہیں ہوتی اور قرآن میں ایک جگہ ارشاد ہے کہ:

”خدا نے ان کی آپس کی لڑائی میں ایمان رکھنے والوں کو بخش دیا” … تہافة الفلاسفہ میں اسی قسم کے کلمات معتزلہ اور دیگر گروہوں کے بارے میں بھی موجود ہیں۔ چنانچہ امام فرماتے ہیں:

”ان فرقوں کے بارے میں میرا نظریہ کچھ اس نوعیت کا رہا ہے کہ ہم تمام تر اختلافات کے باوجود فلاسفہ کے مقابلے میں باہم متفق و متحد ہیں جب کہ اختلاف عموماً فقط معاملات کی تشریح کے حوالے سے ہی ہے لیکن فلاسفہ کے مذہبی عقائد پر اعتراضات کے جواب میں ہم اپنے مشترکہ دشمن کے خلاف ایک ہیں اور ہمیں اس مقصد کی خاطر اپنے ذاتی تنازعات کو لازمی طور پر پس پشت ڈالنا ہوگا۔” [tp.8]

یہ سطور اس لحاظ سے نہایت اہم ہیں کہ ہمیں امام غزالی کے طریقۂ کار کے بارے میں پتہ چلتا ہے کہ امام اسلام کے دشمنوں کے خلاف جن قوتوں سے اشتراک و اتحاد کو ممکن قرار دیتے ہیں ان کے عقائد میں خدا اور روز آخرت پر ایمان ضرور شامل ہونا چاہئے اور یہی وہ معیار ہے کہ جو اہل اسلام کے ساتھ اشتراک عمل کی بنیاد بنتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی یاد رہے کہ حق و صداقت کا تنہا و واحد معیار اسلام ہے اور دیگر قوتوں کے ساتھ کسی نوعیت کا عارضی اتحاد فقط مقصد کے حصول تک محدود رہنا چاہئے اور مستقل نوعیت کے اشتراک سے گریزاں ہی رہنا چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ مادیت پسندوں اور فطرت پسندوں کے مقابلے میں ان الٰہ پرستوں کو ترجیح دینے کے باوجود آپ انہیں کافر قرار دینے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے اور اس کے علاوہ افلاطون و ارسطو کے مسلم مقلدین مثال کے طور پر ابن سینا’ فارابی وغیرہ کو بھی ان کے افکار کی بدولت مسلمان تصور نہیں کرتے۔

اگرچہ امام تینوں گروہوں کے افکار کو مسترد کردیتے ہیں لیکن الٰہ پرستوں کے معاملے میں آپ عارضی نوعیت کی مصالحت کو ممکن سمجھتے ہیں کیوں کہ یہ گروہ بھی خدا اور روز آخرت پر یقین رکھتا ہے لیکن اس سے بڑھ کر کسی طرح کا اشتراک عمل ممکن نہیں۔

اس سے قطع نظر کہ یونانی الٰہ پرستوں کے حوالے سے امام کا تجزیہ تاریخی طور پر درست ہو یا نہ ہو اہمیت ان اصولوں کی ہے جن کی بنیاد پر وہ مختلف عقائد و نظریات کے درمیان امتیاز کرتے ہیں۔ ان کے نام نہاد الٰہ پرستوں کے خلاف امام غزالی کی فکر کو Watt  نے مختصراً یوں بیان کیا ہے” ”الغزالی کی اصل کامیابی افلاطونی دلیل پر طرز فکر کی تعمیر اور پھر اس کا استعمال کرنا تھا اور پھر اسلامی الٰہیات کی از سر نو تعمیر تاکہ نئی افلاطونی تعلیمات کو اسلام سے ہم آہنگ کرسکے اور ان کے تمام دوسرے فلاسفہ کی کمزوریوں کو واضح کرسکے۔ یونانی فلسفیانہ طریق استدلال کا اسلامی عقائد کے ساتھ اشتراک’ العشری’ تک تقریباً مکمل ہو چکا تھا اگرچہ اس پر مزید کام غزالی کے بعد لوگوں پر چھوڑ دیا گیا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ غزالی نے ان نو افلاطونی فکر سے بہت کچھ سیکھا مگر یہ الزامات کہ انہوں نے بعض ان بنیادی فلسفوں سے استفادہ کیا ہے جس کی انہوں نے ابتداء میں تردید کی تھی’ قابل تردید ہیں۔ یہ الزامات ان افکار کی بنیاد پر لگائے گئے ہیں جو غلط طور پر غزالی سے منسلک کیے جاتے ہیں۔

درج بالا سطور سے ایک بنیادی اصول یہ سامنے آتا ہے کہ جس طرح ہر دور میں ہر جگہ خدا کے نیک بندے پائے جاتے ہیں اور دنیا کبھی ان سے خالی نہیں رہی یہ کائنات کے قائم و دائم رہنے کی علت ہے اور انہی کی وجہ سے دنیا پر خدا کی رحمت نازل ہوتی ہے اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ صداقت کو کہیں بھی تلاش کیا جاسکتا ہے یہاں تک کہ بدعقیدوں اور فلاسفہ کے افکار کو سچ اور جھوٹ کو علیحدہ کیا جاسکتا ہے۔ تنقید نگار کا کام اس جوہری کی طرح سے ہو جو اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ کرتے ہوئے کھرا اور کھوٹا علیحدہ کرلیتا ہے۔

لازمی تنقید کے باب میں استدلال کا طریقہ کار کچھ یوں ہوتا ہے کہ اس میں شہادت سے مدد لی جاتی ہے اب چاہے وہ شہادت تاریخی ہو یا واقعاتی ہم اس انداز تنقید کو کسی فکر کے واقعاتی سقم کو جانچنے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور اگر وہ واقعاتی سقم اس فکر میں بنیادی حیثیت کے حامل ہیں تو پھر ان کو مشکوک طور پر صحیح ثابت کرنے سے اس فکر کی مقام و اہمیت کم ہوجائے گی۔ جہاں تک امام غزالی کے تنقید سے متعلق اصولوں کاتعلق ہے۔ تو اس لازمی تنقید کو تین زاویوں سے دیکھا جاسکتا ہے اول امام نہایت قطعیت کے ساتھ یہ واضح کرتے ہیں کہ اسلام عقائد و اعمال میں سے کچھ بھی ان نام نہاد دنیاوی عقائد سے متصادم نہیں ہے۔

منطقی تنقید کسی بھی نظریے کے منطقی ربط سے منسلک ہوتی ہے۔ نظریے کا اندرونی ربط اس کی حقانیت کی دلالت کرتا ہے جب اس کی بے ربطگی اس کو جھوٹا ثابت کرتی ہے۔ تہافہ میں امام منطقی طریقہ استدلال کو استعمال کرتے ہیں یونانی فکر و فلسفہ کی بنیادی بے ربطگی کو ظاہر کیا ہے۔

امام کے خیال میں عقلی سطح ہی کسی مقام کی منطقی لزومیت ثابت کرنے کے لیے کافی ہے لہٰذا تہافہ میں اپنے جوابی دلائل میں انہوں نے بار بار اپنے مخالفین سے سوال کیا ہے کہ وہ امام کے پیش کردہ قیاسی متبادل کے متضاد خیالات میں کسی بھی قسم کا خود تضاد تلاش کریں وہ کہتے ہیں کہ عقلی بنیاد پر فلاسفہ اپنا دفاع نہیں کرسکتے۔ امام غزالی بار بار یہ سوال کرتے ہیں کہ:

”کیا چیز ہمیں ان چیزوں پر یقین رکھنے سے دور رکھتی ہے نیز اس میں کیا تضادات پائے جاتے ہیں۔” [Tp.16]

امام قانون تضاد کو یونانی فلسفہ کے اندر موجود بے ربطگی کو ظاہر کرنے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔

”آپ کہتے ہیں کہ زحل کی گردش سورج کی گردش سے تیس گنا کم ہے اور دونوں یکساں طور پر لامحدود ہیں۔ پھر کس طرح محدود اور لامحدود کے دو مقام ایک ہی چیز اور وقت کے لیے ہوسکتے ہیں۔ کیا یہ چیز کسی فرد کو مایوس کن خود تضادی کا شکار نہیں کردے گی۔ ان فلاسفہ کے بارے میں اس دلیل کو ناکافی سمجھتے ہوئے امام نے ان فلاسفہ کی خود تضادی اور بودے پن کو مزید واضح کیا ہے۔

دوسری طرف امام غزالی نے یونانی فلاسفہ اور یونانی علوم کے حاصل کردہ تاریخی حقائق کے درمیان تنائو کی طرف اشارہ کیا ہے۔ انہوں نے یونانی فلاسفہ کے ابدیت کے نظریہ اور یونانی طبیعات اور فلکیات کے کائناتی اشیاء کی خاص تعداد میں گردش کے نظریہ پر بھی نکتہ چینی کی۔ وہ کہتے ہیں کہ آپ اپنے مخالفین کو کس طرح رد کرسکتے ہیں جب وہ کہتے ہوں کہ دنیا کی ابدیت ناممکن ہے۔

لازمی تنقید کے ضمن میں امام غزالی اسلام اور یونانی فلاسفہ کے اس بنیادی اختلاف پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کے اختلافات مابعد الطبیعیاتی یا محض اعداد و شمار کے نہیں ہیں جن کو حقائق کی بنیاد پر حل کر لیا جائے۔ امام فرماتے ہیں ”ایک مذہبی آدمی اور فلسفی کے درمیان تنازع محض دنیا کے فانی یا غیر فانی ہونے پر نہیں ہے اگر دنیا کی ابتداء کے وقت کا تنازع حل ہوجائے تو دنیا کے گول’ چوکور یا شش پہلو یا ہشت پہلو ہونے پر اور زمین کی تہوں پر اختلافات ہوجائیں گے۔ اس طرح حقائق کی تحقیق مابعد الطبیعیاتی سے متعلق نہیں ہے۔ ہمارے دلچسپی کا موضوع یہ ہے کہ دنیا خدا کے تخلیقی عمل کا نتیجہ ہے خواہ یہ عمل کسی طرح بھی انجام پایا ہو۔ امام کہتے ہیں:

”کوئی یہ سوال کرسکتا ہے کہ کائنات کی گردش جفت یا طاق ہے اگر آپ اسے جفت اور طاق دونوں کہیں گے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ نہ تو جفت ہے اور نہ طاق’ یہ بے ہنگم بات ہے۔ اگر آپ اسے جفت کہیں تو محض ایک کا اضافہ اسے طاق بنا دے گا اور اگر آپ طاق کہیں گے تو ایک کا اضافہ اسے جفت بنا دے گا ایسا کیسے ممکن ہے کہ ایک چیز جو لامحدود ہے محض ایک عدد کے اضافہ سے جفت سے طاق بن جائے یعنی آپ کو یہ بات ماننی پڑے گی کہ عدد نہ تو جفت ہے نہ ہی طاق”۔ یہ خود تضادی کی ایک شاندار مثال ہے۔

د) لازمی تنقید میں ہم ساختی دلیل استعمال کرتے ہیں جو کہ تاریخی یا حقیقی طور پر ظاہر ہوتی ہے۔ اس طریقہ تنقید کو ہم کسی نظریے کے حقیقی نقائص کو تلاش کرنے میں استعمال کرتے ہیں۔ امام کے اصول تنقید کے حوالے سے ہم لازمی تنقید کو تین حوالوں سے دیکھ سکتے ہیں۔ سب سے پہلے امام غزالی غیر مبہم انداز میں واضح کرتے ہیں کہ اسلام میں کوئی عمل متضاد یا مبہم نہیں ہے۔ تہافہ کے تمہیدی باب میں امام اس بات کو کلی طور پر رد کرتے ہیں کہ بعض احادیث حقیقت سے متصادم ہیں’ ان احادیث کے بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ حدیث میں یہ ناجائز اضافے ہیں’ ہمیں اس کے مصنف کو جھوٹا سمجھتے ہوئے اس کی ملامت کرنی چاہئے۔ رسول کے الفاظ صرف وہی ہیں جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ اگر یہ اضافے اصل میں تو ان کی وضاحت کی ضرورت ہے نہ کہ ان کو حقائق برخلاف ثابت کرنے کی۔

حرف آخر:

تنقید کی پوری حکمت عملی کی تلخیص اس طرح کی جاسکتی ہے۔

٭ گمراہ اقلیت کو ان کے داخلی خیالات کی بے ربطگی واضح کرکے مسترد کیا جائے اور یہ کام لازمی خارجیت کو محفوظ رکھتے ہوئے ایک حد تک نفوذ کے ذریعے ممکن ہے۔

٭ داخلی تنقید اسلام کی حقانیت کے ایک واضح پیکر میں مضبوط عقیدے کی صورت میں لکھی گئی ہے۔

٭ یکسانیات کو نمایاں کرکے اﷲ اور آخرت کے بنیادی تصور کے لیے راہ ہموار کی جاسکتی ہے۔

بلاشبہ یہ تنقید اس تمام مثبت کام پر ایک ابتدائی جائزے کی حیثیت رکھتی ہے اور اس مقالے میں وسعت نہیں کہ وہ اس تمام کام کو سمیٹ سکے۔

امام غزالی رحمہ اللہ کے منہج کے مطابق

 سرمایہ دارانہ نظام پر تنقید

مولانا سید محبوب الحسن

امام غزالی کے کام کا تعارف:

امام غزالی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں اور نہ ہی ان کا کام کسی سے ڈھکا چھپا ہے لیکن اس مضمون کا مقصد امام غزالی کے ان اصولوں کو اجاگر کرنا ہے جو انہوں نے یونانی فکر کے انہدام کیلئے بالعموم اور یونانی مابعد الطیعات (ایمانیات) کے انہدام کیلئے بالخصوص استعمال کیے اور یونانی فکر کو شکست فاش دی۔ اس کے بعد امام غزالی نے احیاء علوم الدین لکھی اور علوم اسلامیہ کو ایک بار پھر زندگی دی۔ اس مضمومن کو ہم نے پانچ حصوں میں منقسم کیا ہے جو کہ درج ذیل ہیں۔

١) ۔امام غزالی کے کام کی اہمیت۔

٢)۔ امام غزالی کے کام کا پس منظر۔

٣)۔ یونانی فکر’ ایمان’ اعمال سے پیدا ہونے والے نتیجے اور ان کا تجزیہ امام غزالی کی نظر میں

٤)۔ عمومی اصول تنقید

٥)۔ خصوصی اصول تنقید

امام غزالی کے کام کی اہمیت:

مسلمانوں کا بالعموم مغرب کی فکر کے بارے میں رویہ دو طرح کا ہے بعض علماء نے مغربی فکر سے بالکل کنارہ کشی اختیار کی ہے اور اپنے علوم کو مغربی فکر کے اثر سے محفوظ رکھا ہے جبکہ دوسری طرف جدیدیت کے حامی علماء جنہوں نے یا تو اس امر کی سعی کی ہے کہ اسلامی فکر اور مغربی فکر میں مطابقت ظاہر کی جاسکے یا اسلامی فکر کی اہمیت و افادیت کو مغربی طریقہ کار اور اصولوں پر کار بند رہ کر اجاگر کیا جائے۔

یہاں یہ بات ملحوظ خاطر رہنی چاہئے کہ اسلام اور کفر کا یہ پہلا فکری معرکہ نہیں ہے بلکہ اس سے قبل یونانی تہذیب کے ساتھ مسلمان برسرپیکار رہے اور وہاں امام غزالی رحمہ اﷲ ہمارے رہنما تھے جن کی رہنمائی میں ہم نے یونانی تہذیب کو شکست دی اور اسلام فاتح رہا۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم امام غزالی کے ان اصولوں کا مطالعہ کرکے مغربی فکر کے خلاف استعمال کریں۔ مغربی فکر دراصل یونانی فکر کی طرح ہی ایک خالص کفر ہے اور اسلام کے متبادل ایک نظام حیات پیش کرتی ہے جوصرف اﷲ سے بغاوت کا دوسرا نام ہے۔

امام غزالی کے طریقہ کار سے ہی ہم مغربی فکر کو اسلامی اصولوں کے مطابق جانچ سکتے ہیں اور اس کا تجزیہ کرسکتے ہیں۔ کیونکہ اس نوعیت کا کام صرف امام غزالی ہی نے فرمایا ہے۔ امام غزالی کے اصول تنقید مغربی فکر کے تجزیہ و پڑتال کیلئے ہمارے لیے مددگار ہوں گے۔

(٢) امام غزالی کے کام کا پس منظر

اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے نتیجے میں جب اسلام ان علاقوں میں پہنچا جہاں رومی و یونانی تہذیب کا اثر و رسوخ تھا تو وہاں کے لوگوں کے پاس اسلام کے متبادل ایک علمیت پہلے سے موجد تھی جس کا یہ دعویٰ تھا کہ وہ حق (الحق) کو کماحقہ جانتی ہے اور یہ علمیت کی بنیاد وحی سے بے نیاز تھی بلکہ وحی سے بالاتر تھی اور وہ عقل تھی۔ یہاں یہ بات واضح ہونی چاہئے یہاں عقل سے مراد کچھ اصول جو کہ آپ کے دماغ میں وقت تولد موجود ہوتے ہیں یا آپ تجربہ سے حاصل کرتے ہیںا ور اس عقل کا مقام دماغ ہے نہ کہ دل۔

اگرچہ یہ تصادم امام کی پیدائش سے قبل واقع ہو چکا تھا لیکن اس نے امام کے دور میں انتہائی گھنائونی شکل اختیار کر لی تھی جو امت مسلمہ کو نقصان پہنچا رہی تھی۔ امت مسلمہ میں ایک گروہ پیدا ہو چکا تھا جو وحی کو حق و باطل میں تفریق کرنے کا اہل نہیں سمجھتا تھا بلکہ وحی کی جگہ پر عقل کو رکھتے تھے کہ عقل دراصل حق و باطل کا فرق واضح کرے گی۔ اس علمی معیار کے تبدیل ہونے کے نتیجے میں عقائد اسلامیہ سے کنارہ کشی ہو گئی۔ امام نے اس علمی معیار کی تبدیلی سے پیدا ہونے والی عقائدی اور اخلاقی تبدیلیاں جو کہ ایک فرد میں پیدا ہورہی تھی بھانپ لیا اور اس کا واحد قصور وار عقل کو وحی پر ترجیح کو قرار دیا۔

اس بے راہ روی کے درج ذیل اسباب تھے۔

١) ۔فلسفیوں کو انکی عقل کی وجہ سے انبیاء سے بھی بڑھ کر مقام دینا

٢)۔ فلسفیوں کے اخذ کردہ ناقابل تشکیک (یہ محض فلسفیوں کا دعویٰ ہے) اصولوں پر ایمان لانا

٣)۔ استخراجی طریقہ کار پر اس طرح کا غیر متذبذب ایمان کہ یہ طریقہ کار چند ناقابل تشکیک اصولوں کی روشنی میں کسی حق کو سامنے لائے گا۔

مندرجہ بالا ایمانیات دراصل اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ لوگوں نے یونانی مابعد الطبیعات’ منطق اور طبعی علوم کو قابل ترجیح سمجھا ہے۔ جو بالآخر اسلامی قوانین اور تعلیمات کارد ہی تھا۔ ان ایمانیات کا بالعموم نتیجہ یہ نکلا کہ ان لوگوں کے دل میں یونانی فکر و فلسفہ کا رعب اوور دبدبہ قائم ہو گیا۔ امام غزالی کا یونانی فکر و فلسفہ کی تنقید کا بنیادی مقصد اسی رعب اور دبدبہ کو ختم کرنا تھا۔

امام غزالی کا نظریہ علم اور مختلف علوم کی درجہ بندی:

علم کیاہے اور اس کا مقصد کیا ہے؟ ان سوالوں کا جواب تنقید کے عمومی مقصد کیلئے ضروری ہے امام غزالی نے اسی علم کے نظریہ اور اس کے مقصد کی بنا پر ہی دراصل یونانی علوم پر تنقید کی ہے۔

امام کے ہاں علم کا بنیادی مقصد معاد ہے۔ علوم کی جانچ پڑتال صرف اس معیار پر کی جائیگی کہ وہ کس قدر معاد میں معاون ہیں۔ لہٰذا علم صرف علم برائے معاد ہے اور دوسری اسناد کی حیثیت اس مقصد کے حصول کیلئے آلاتی ہوگی لہٰذا علم صرف رضا الٰہی اور خوشنودی رب ہے نہ کہ کچھ اور۔ اس معیار علم پر ہم علوم کی درج ذیل درجہ بندی کر سکتے ہیں۔

(١) وہ علوم جو براہ راست معاد سے متعلق ہیں جیسے قرآن و حدیث

(٢) وہ علوم جو براہ راست تو معاد سے متعلق نہ ہوں لیکن آلاتی طور پر معاد کے لیے معاون و مددگار ہوں جیسے عربی ادب قرآن و حدیث کی تفہیم کیلئے لیکن اگر ان علوم کا جاننا بذات خود ہو تو یہ علوم نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں۔

(٣) وہ علوم جو براہ راست معاد کیخلاف ہوں جیسے یونانی مابعد الطبیعات تو ان کو بذات خود رد کیا جائیگا۔

(٤) وہ علوم جو براہ راست تو معاد کیخلاف نہ ہوں لیکن معاد کیخلاف بھی آلہ کے طور پر کام کریںجیسے منطق یونانی

(٥) وہ علوم جو معاد کے لیے نیوٹرل ہوں نہ نقصان وہ نہ فائدہ مند’ انکا حصول بھی قابل تردید ہے

امام غزالی کی یونانی علوم پر تنقید:

امام غزالی نے علم کی تعریف اور مختلف علوم کی درجہ بندی کی بنا پر ہی یونانی علوم پر تنقید قائم کی اور ان کی اسلامی علمیت کے تناظر میں جو مقام ہے اسے واضح کیا۔ درج ذیل میں کچھ علوم پر امام کی کی گئی تنقید کو اجمالاً بیان کیا جاتا ہے۔

طبعی علوم (سائنس):

امام غزالی طبعی علوم کو طب کی طرح سمجھتے ہیں طب کا بنیادی مقصد انسانی جسم کا مطالعہ اور اس میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں کا مطالعہ ہے جس کا مقصد انسان کو صحت سے ہمکنار کرنا ہے لہٰذا یہ اسلام کے کس اصول شریعت کے خلاف نہیں ہے لیکن امام غزالی نیچرل ازم کو بہت شدومد سے رد کرتے ہیں جوکہ مفروضہ کے طور پر یوناینوں نے قائم کی ہے۔ حالانکہ نیچرل ازم ان علوم سے نہیں نکلتا یہ تو صرف یونانیوں کی ایمانیات کی بنا پر ہے۔ یہ مفروضہ اس بات پر ایمان سے دفع ہوجائیگا کہ فطرت دراصل خدا کی ملکیت میں ہے اور اس کے احکام میں تابع ہے اور وہ اسے جیسے چاہتا ہے استعمال کرتا ہے سورج چاند ستارے سب اس کے تابع ہیں کوئی بھی خود سے نہ تو پیدا ہوسکتا ہے اور نہ ہی کچھ کرسکتا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ کسی بھی علم کو اس کی مابعد اطبیعات یا ایمانیات سے قطع کرکے نہیں دیکھنا چاہئے اور نہ ہی اسے لا اقداری (Value Natural) سمجھنا چاہئے۔ اسلام اس طرح کی خاص ایمانیات کو رد کرتا ہے لیکن حقائق سے انکار بھی نہیں کرتا۔

منطق:

منطق دراصل ایک آلاتی علم ہے جس کے ذریعے سے آپ دلائل کی کوالٹی اور اس کی قوت کو بڑھا سکتے ہیں لیکن یہ بذات خود یا اس کا مافیہ کچھ نہیں ہے یہ کسی بھی جانب سے استعمال کی جاسکتی ہے۔ منطق دراصل چند اصولوں پر مبنی ہے جو دلائل کی داخلی مطابقت کو قائم رکھنے کیلئے استعمال کی جاسکتی ہے’ لہٰذا امام غزالی کے نزدیک منطق کو بطور آلہ کوئی بھی استعمال کرسکتا ہے وہ فلسفی بھی ہوسکتا ہے اور ایک مسلمان بھی کیونکہ بطور آلہ منطق اسلامی علمیت سے کسی طور بھی برعکس نہیں ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ امام غزالی منطق کے منفی اثرات سے بھی متنبہ کرتے ہیں مثال کے طور پر منطق کی تکنیک کے استعمال کے بعد اس دلیل کی ساخت کو بہتر ہو سکتی ہے لیکن مقدمات سے اخذ کردہ نتیجہ کی حقانیت کا اس تکنیک سے کوئی تعلق نہیں ہے وہ نتیجہ حق بھی ہوسکتا ہے باطل بھی ہوسکتا ہے اس بات کا انحصار ان قضایا پر ہے جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے اور قضایا کی حقانیت بھی قابل بحث ہے لہٰذا ساخت اور مافیہ کا فرق واضح رہنا چاہئے منطق صرف ساخت سے بحث کرتی ہے نہ کہ مافیہ سے۔

ریاضی:

ریاضی بھی ایک آلاتی علم ہے جو کئی دوسرے علم میں معاون و مددگار ہوتی ہے جو کہ معاد کے لیے ضروری ہیں۔ جیسے وراثت میں حصص کی تقسیم’ نمازوں کے اوقات وغیرہ وغیرہ۔ لیکن امام دو بڑے خطرات سے متنبہ کرتے ہیں جو کہ دوسرے علوم سے بھی متعلق ہوسکتے ہیں یہ دو خطرات ہمیں عمومی اصول بھی فراہم کرتے ہیں جس کی روشنی میں ہم بیسیویں صدی میں پیدا ہونے والے مسئلہ یعنی اسلام اور سائنس سے بھی بہتر طور پر نبرد آزما ہوسکتے ہیں۔

پہلا خطرہ یہ ہے کہ ریاضی کی وضاحت مدلل اور بیّن ہونا عام لوگوں میں یہ مغالطہ پیدا کردیتا ہے کہ یہ دوسرے علوم میں بھی نہ صرف ممکن ہیں بلکہ ہونی چاہئے اس مغالطہ نے دنیا کے کئی بڑے ذہنوںکو بھی متاثر کیا۔ اس مغالطہ کیخلاف امام غزالی ایک اصول پیش کرتے ہیں کہ اگر کوئی شخص ایک علم میں ماہر ہے تو یہ ضرورت نہیں ہے کہ یہ مہارت اسے تمام علوم میں بھی ہوگی جیسے ایک شخص طب میں ماہر ہے تو وہ ریاضی’ فلکیات سے ناواقف ہوسکتا ہے۔ لہٰذا امام کہتے ہیں کہ ریاضی کی ابتدائی دلائل واضح میں لکلیل مابعد الطبیعات صرف مفروضات پر قائم ہے یہ بات اہل علم پر واضح ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جو اسلام اور سائنس کے تعلق کو واضح کرے گا۔ اسلام اور سائنس میں کوئی تضاد نہیں اس وقت تک جب تک سائنس کا تجربہ کے ذریعے اشباء کے ثابت کرنے کا تعلق ہے۔ مخاصمت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب سائنس اپنی حدود سے تجاوز کرکے تجربہ سے ثابت کرنے کا معیار اسلام میں قائم کرنا چاہتی ہے حالانکہ دونوں کی نوعیت میں بہت واضح فرق ہے اور سائنسدان اپنی اتھارٹی کو پوری زندگی میں قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے یہ امر بھی غیر معقول ہے کہ سائنس دان کی اتھارٹی مابعد الطبیعات اور مذہب میں قبول کی جاسکے۔

دوسرا خطرہ اس خیال کی متخل سے ہے کہ جو علوم فلاسفہ سے نسبت رکھتے ہیں ان کو رد کردینا چاہئے اور اس طرح وہ اسلام کی خدمت کر رہے ہیں حالانکہ یہ اسلام کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔

اعتقاد:

امام نے چار طرح کی تنقید کی ہے (١) داخلی (٢) خارجی (٣) منطقی (٤) جوہری

داخلی:

اس طرح کی تنقید میں آپ اس میدان یا تناظر کے اصولوں کو مان کر ان اصولوں پر دلائل کو پرکھتے ہیں اور ان دلائل میں جہاں نقص ہوتا ہے یا جہاں کمزوری ہوتی ہے اسے اجاگر کیا جاتا ہے۔ امام غزالی کی تنقید بالکلیہ داخلی نہ تھی کیونکہ امام غزالی کے نزدیک علمیت صرف اسلام ہی ہے اور یونانی فکر وادی بنات نے آپ کے عقائد پر اثر انداز نہ ہوسکے لیکن اس کے ساتھ ساتھ امام غزالی اس بات کی ضرورت سمجھتے ہیں کہ جس پر آپ تنقید کرنا چاہتے ہیں اس کے بارے میں آپ مکمل علم رکھیں اسے مکمل جانیں اور نہ صرف مکمل جانیں بلکہ اس علم کے ماہرین سے بھی اچھی طرح واقف ہوں یہ بات طے ہے کہ امام غزالی یونانی فکر و فلسفہ کو یونانی مفکرین سے بھی زیادہ بہتر جانتے تھے۔

امام غزالی کا یہ کام متکلمین کے کام سے ہر چند مختلف تھا کیونکہ متکلمین کا بنیادی مقصد مسلمانوں کے اندر سے کچھ ایسے عقائد جو کہ اسلام کے خلاف تھے کا سدباب کرنا تھا اور اصلاح کرنی تھی۔ متکلمین کے مخاطب مسلمان ہی تھے جو کہ مسلمانوں کے بنیادی عقائد پر ایمان لاتے تھے لیکن ان کی تعبیر مختلف کرتے تھے جبکہ امام غزالی کے مخاطبین مسلمان نہ تھے بلکہ کفار تھے یعنی یونانی فلسفی جن کا ایمان دراصل کفر تھا ان پر تنقید کے لئے یہ ضروری بات ہے کہ آپ پہلے ان کی تکنیک اور ایمان سے ان سے زیادہ واقف ہوں اور پھر ایسی تکنیک ہی کو غیر معقول اور غیر منطقی ثابت کریں ان کی بنیاد کو انہی کے ہتھیار سے متزلزل اور متذبذب کردیں اور اس کی بیخ کنی کریں۔

نظامی مطابقت (System Coherence) دراصل ایک نظام کی بحیثیت کل کے ایسی مطابقت ہے جس میں ہر ہر جز اپنی ساخت اور مافیہ کے اعتبار سے ایک دوسرے کے ساتھ مطابقت رکھے۔ داخلی تنقید میں ہم یہی نظامی مطابقت کے دعویٰ کو غلط ثابت کرتے ہیں۔ امام غزالی جب داخلی غیر مطابقت کو واضح کرتے ہیں تو وہ صرف یونانی فلسفیانہ نظریات و قضایا کو ہی نہیں بلکہ اس پوری علمیت کے تضاد کو واضح کرتے ہیں جس کی بنیاد پر ان کے مطابق قائم بالذات عقل پر ہے امام غزالی نے ہر اس علمیت جس کی بنیاد قائم بالذات عقل ہے کی داخلی غیر مطابقت کو واضح کیا ہے لہٰذا یہ بات ضروری ہے امام کی تنقید ایک کل کے طور پر دیکھا جائے نہ کہ علیحدہ علیحدہ اعتراضات جو کہ آپ نے یونانی فکر و فلسفہ پر کیے تھے۔ امام غزالی نے یونانی فکر پر جو تنقید کی وہ متکلمین کی طرح خارجی تھی جیسا کہ انکا ایمان اسلامی علمیت کی Superiorty پر تھا لیکن متکلمین سے مختلف اس لحاظ سے تھی کہ وہ ان کی علمی معیار سے اچھی طرح واقف تھے اور یہ ضروری بھی تھا کہ ان کے معیار علم یعنی عقل کی نوعیت بھی کچھ اس طرح کی ہے کہ اس کو اندر ہی سے تباہ کیا جاسکتا ہے وہ کوئی قائم بالذات حقیقت نہیں ہے۔

پہلے مرحلے میں امام غزالی نے فلاسفہ کے دعوی جات کو جن کے بارے میں فلاسفہ کا دعویٰ تھا کہ وہ وہبی ہیں کو ثابت کیا کہ وہ وہبی نہیں ہیں اور دوسرے مرحلہ پر امام غزالی نے فلاسفہ کے سامنے انہی کے معیار کے مطابق پہلے دعویٰ کے متبادل دعویٰ پیش کیا جو کہ وہبی تھا (اس طرح امام غزالی نے ان کے اپنے ہی دعویٰ کا انہی کے معیارات کے مطابق ان کی زبان میں غیر وہبی کا ثابت کیا۔ اس طرح وہ اپنے ہی دعویٰ میں کمزور ہو گئے۔

(٢) خارجی تنقید:

جب ہم اپنے ہی میدان (اسلام) میں رہ کر کسی دوسرے (جیسے یونانی) میدان پر تنقید کرتے ہیں تو دراصل یہ خارجی تنقید ہے جس میں ہم اپنے معیارات علمیت کی بنا پر دوسرے میدان کے ایمانیات و عقائد پر تنقید کرتے ہیں امام غزالی نے داخلی اور خارجی تنقید کو اس طرح ملایا کہ دشمن کی پوزیشن کو متزلزل کردیا اور اس کی بیخ کنی کردی جس طرح ایک جنگ میں دشمن کے خلاف مختلف محاذ سے ہر قسم کے ہتھیار استعمال کرکے دشمن کو شکست دی جاتی ہے بالکل اسی طرح امام غزالی نے داخلی اور خارجی تنقید کو اس طرح استعمال کیا کہ دشمن اپنے ہی ہتھیار سے شکست کھائے اور اسے ہماری پوزیشن پر نکتہ چینی کی عقلی طور پر اجازت نہ ملے۔ امام غزالی نے یونانی فکر و مابعد الطبیعات پر داخلی تنقید خارجی تنقید کے (Paralew) میں رہ کی کی ہے۔

(٣) منطقی تنقید:

جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ اس میں ہم کسی میدان علم و نظریہ کی جانچ اس کی منطقی مطابقت کے حوالے سے کرتے ہیں اگر منطقی مطابقت ہے تو درست ورنہ وہ نظام غلط ہے۔ امام غزالی نے اس قسم کو اپنی پوری تہافہ میں استعمال کیا ہے اور یونانی فکر میں منطقی عدم مطابقت ثابت کی ہے۔ پورے تہافہ میں امام نے بارہا یونانی مفکرین کو چیلنج کیا کہ ان کے نظریات کے اندر منطقی مطابقت موجود نہیں ہے اور اس کے متبادل نظریات پیش کرکے اس کے اندر منطقی عدم مطابقت تلاش کرنے کا کھلا چیلنج دیا جس سے یونانیوں کی پوزیشن کھل گئی۔

(٤) جوہری تنقید:

تنقید کی اس قسم میں ہم دلائل کیلئے طبعی یا تاریخی حقائق کو بطور دلیل کے پیش کرتے ہیں پہلے مرحلہ پر امام نے اسلام کی پیشن گوئیاں اور اس کے اصول و اعمال کو تاریخ اور طبعی حقائق سے درست ثابت کیا جبکہ دوسرے مرحلے میں یونانی نظریات کو تاریخی اور طبعی طور پر غلط ثابت کیا اور تیسرے مرحلے پر امام نے فرمایا کہ اسلام اور یونانی افکار کا حل طبعاً یا تاریخی حقائق پر نہیں بلکہ یہ مابعد اطبیعات نوعیت کے ہیں لہٰذا انہیں اسی حوالے سے حل کیا جاسکتا ہے۔

اس مضمون کو لکھنے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ امام غزالی نے یونانی فکر کی بیخ کنی کیلئے اسلامی اصولوں کو استعمال کیا اور اس فکر کو ہمیشہ کیلئے اسلام میں اجنبی بنا دیا۔ امام غزالی نے جو اسلامی اصول یونانی فکر کیخلاف استعمال کیے وہ آج بھی مغربی فکر کیخلاف استعمال کیے جاسکتے ہیں اور ان سے وہی فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے جو امام غزالی نے اسلام کیلئے کیا۔ اﷲ تعالیٰ امام غزالی کی یا ان کی روشنی میں قرآن و سنت کی اتباع میں نئی اصول وضع کیے جاسکتے ہیں۔

اس خدمت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ہمیں ان کی اتباع میں مغربی فکر کی بیخ کنی کی توفیق نصیب فرمائے آمین۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *