مغربی تہذیب اپنی بنیادی قدر یعنی آزادی کے حصول کے لیے دو دھاروں میں بنتی نظر آتی ہے۔

1۔ Enlightenment
2۔ Romanticism

Enlightenment کی تحریک اس بات کی داعی ہے کہ آزادی کے نفس میں خود یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ آزادی حاصل کرلے اور عقل کے ذریعہ وہ اپنے لیے آزاد طرز زندگی متعین کرسکتا ہے۔ جبکہ Romanticism کے معتقدین اس بات کے قائل ہیں کہ انسان اپنی شخصیت کو کسی بڑی ہستی میں ضم کرکے حقیقی آزادی حاصل کرسکتا ہے۔ فرد بحیثیت فرد آزادی حاصل نہیں کرسکتا یہ بڑی ہستی کوئی قوم فرد نسل طبقہ وغیرہ ہے نیز یہ کہ عقل کے بجائے (Passions) خواہش انسان کی صحیح رہنمائی کرسکتی ہے اور افراد کو اجتماعی مفاد کی طرف لے جاتی ہے۔
اسی Romantic Movement کے ماننے والے روسو کو اپنا پیشوا اور امام تسلیم کرتے ہیں۔
روسو کی حیثیت ایک فلسفی سے زیادہ ایک معاشرتی ماہر کی ہے۔ روسو کی ہر تحریر میں ہمیں فطرت اور تمدن کا تضاد نظر آتا ہے اور وہ ہر جگہ فطرت کی جڑ ہے جو ایک متمدن انسان کو وحشی سے ممتاز کرے۔ ہمیں روسو کے اس فطرت اور تمدن کے تضاد اور پھر اس میں فطرت کی حمایت کے پیچھے جو جذبہ نظر آتا ہے وہ ہے ”آزادی”۔ یہ جذبہ یا نظریہ روسو کی ہر تحریر کی انفرادی زندگی پر بحث کر رہا ہو یا فلسفہ پر ہر جگہ وہ فرد کی آزادی کو معتبر قرار دیتا ہے۔ انسان آزاد پیدا ہوتا لیکن جدھر دیکھو وہ پایہ زنجیر ہے۔
روسو کا Ideal انسان ایک فطری انسان ہے فطری حالت(State of Nature ) ہے۔ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ فطری انسان اور فطری حالت ہے۔
(1) روسو کا فطری انسان وہ ہے جو جنگلوں میں تھا اور کائنات کی تسخیر سے لاتعلق تھا یہ انسان اختیار آزادی رکھتا ہے۔
(2) وہ تمام انسانوں سے ہمدردی رکھتا ہے۔
(3) وہ کوئی Socioal being نہیں ہے بلکہ پرجذبات وخواہشات کا غلبہ ہے یعنی اس لحاظ سے انسان Self Interested ہے۔ اسی لیے اپنی تحریروں میں انسان کے خود سے دلچسپی رکھنے کو اہمیت دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ انسان کے اندر بنیادی محرک اپنا بچاؤ ہے اور اسی کی سب سے پہلی ذمہ داری اپنے مفادات کا تحفظ ہے اور اس کے تمام احساسات کا پہلا مرکز اس کی اپنی فلاح ہے۔
روسو اپنے فلسفہ میں انسانی جبلت یا نفس کو کسی چیز کے صحیح یا غلط ہونے کی کسوٹی قرار دیتا ہے۔ اور یہ کہتا ہے کہ انسان Sociol being نہیں ہے بلکہ اس کے تعلق پہ خواہشات واغراض کا غلبہ ہے اسی لیے اسے Romanticism کا بانی کہا جاتا ہے۔
آزادی کا حصول:
جیسا کہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ روسو کے خیال میں حقیقی آزادی انفرادی آزادی کو کسی بڑی ہستی میں ضم کرنے سے ملتی ہے اور روسو کے یہاں آزادی کا حصول اپنی خواہش کو ارادہ اجتماعی یعنی General Will میں ضم کرکے ممکن ہے۔
Gen.Will:
Gen.Willدراصل وہ Will ہے جو تمام افراد کے لیے قابل قبول ہو جس کو Universallise کیا جاسکے۔ یعنی Gen.Willتمام انسانوں کے لیے مفید سمجھتا ہے۔ (Perticular Wills) کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ یہ ممکن ہے کہ ایک فرد کی Perticular Willsجنرل Will  سے مختلف ہو لیکن حقیقی آزادی کے لیے اسے چاہیے کہ وہ اپنی انفرادی خواہش کو Gen.Willکے ماتحت کردے اور ماتحت کرنے کی جو شکل ہے وہ یہ ہے کہ ہر فرد Gen.Willکے تعین کے عمل میں شرکت کرے۔ جیسا کہ پہلے گزرا ہے کہ روسو کے خیال کے مطابق فطرت میں تعقل خواہشات Bounded ہے اس لیے Gen.Willہمیشہ ایک ہی ہوگی یا ہمیشہ صحیح ہوگی یعنی Gen.Will وہی ہوتی ہے جو اسے ہونا چاہیے اور تاریخی عمل کے ذریعہ یہ ممکن ہے کہ Pert-Will جنرلWill ہی ہوجائے۔ اس کے خیال میں حکومت کا کام Gen.Willکو Execute کروانا ہے۔ یعنی ارادہ اجتماعی کا نفاذ ہوتا ہے۔ اس کے خیال میں ہر شہری ارادہ اجتماعی کی فرمانبرداری کرکے اس میں اپنا حصہ ادا کرسکتا ہے اور اس کے ستھ ہی وہ مخالف اپنی الگ Particular Will جو Gen.Willسے مختلف بھی رکھ سکتا ہے۔ لیکن کسی فرد کو ارادہ اجتماعی کی نافرمانی کی اجازت نہیں اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اسے Gen.Will کی اطاعت پر مجبور کیا جائے گا۔ لیکن وہ اس زبردستی اطاعت کروانے کو اس فرد کو زبردستی آزادی دلوانا قرار دیتا ہے۔ گویا روسو ارادہ اجتماعی کی پابندی کو فرد کی اصل دم بھرنے کے باوجود اسی زبردستی اطاعت کو ”Forced to be free” زبردستی آزادی لانے سے جواز فراہم کرتا ہے۔
Gen.Will کا حصول:
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ Gen.Willکس طرح معلوم ہوا۔ اس کے لیے روسو ایک Ideal Spectator کا تصور پیش کرتا ہے جو کہ خودشہری نہ ہو بلکہ باہر کا فرد ہو اور طے کرے کہ Gen.Willکیا ہے۔ جس طرح وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مثال پیش کرتا ہے کہ وہ بنی اسرائیل کے لیے ایک Ideal Spectator تھے جنہوںنے قوم کو بتایا کہ تمہارا اجتماعی مفاد کس میں ہے۔ Gen.Will کے تعین میں Ideal Spectator کے تصور کا مظہر ہمیں نپولین میں ملتا ہے جس نے اس بات کا دعویٰ کیا کہ قوم کا اجتماعی مفاد اس کی اطاعت میں ہے۔
روسو کے مطابق یہ Gen.Willلوگوں کی خواہشات سے جتنی نزدیک ہوگی اتنی ہی عادلانہ ہوگی اور اس نے یہ بھی کہا ہے کہ لوگوں کی آواز خدا کی آواز ہے۔ لہٰذا Gen.Willکے عمل کے نتیجہ میں معاشرہ قائم ہوگا وہ غیرعادل نہیں ہوگا۔
عدل یہ ہے کہ Gen.Willکے تحت Particular Will کردی جائے آزادی کے بعد دوسرا محرک مساوات ہے جسے روسو کے فلسفہ میں اہمیت حاصل ہے۔ رسل کے خیال میں روسو کی فکر کا ہدف ”آزادی” ہے لیکن مساوات دراصل وہ چیز ہے جسے روسو سب سے زیادہ قیمتی جانتا ہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ یہ روسو کا تضاد ہے۔ یعنی ایسا ممکن نہیں ہے کہ لوگ Gen.Will کی فرمانبرداری کریں اور اب سب کو مساوات حاصل ہو۔ لازماً اس موقع پر کسی ایک Conciousness کو دوسرے پر ترجیح دینے پڑے گی اور مساوات ممکن نہ ہوگا۔
سوشل کنٹریکٹ:
روسو معاشرتی تنظیم کی بنیاد معاہدہ عمرانی (سوشل کنٹریکٹ) پر رکھتا ہے۔ اس کے خیال میںانسان Stete of nature تمدن کی وجہ سے کھو چکا ہے۔ یعنی ذاتی ملکیت شادی وغیرہ کی وجہ سے۔ اب وہ ایک مفروضہ پیش کرتا ہے کہ افراد ایک ایسے نکتے پر پہنچ گئے ہیں جہاں State of nature کے بقاء میں وسائل سے زیادہ رکاوٹیں ہیں لہٰذا وہ لازماً ایک تنظیم بنائیں گے لیکن مسئلہ محض ایک تنظیم کے قائم کرنے کا نہیں ہے جو ہررکن کے مفاد کا تحفظ کرے بلکہ مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس تنظیم میں شامل ہو کر ہر فرد اپنی افرادی آزادی بھی قائم رکھے اور پہلے کی طرح آزاد ہو۔ Socoal Contoract اسی مسئلہ کا حل پیش کرتا ہے۔
روسو کے الفاظ میں معاہدہ عمرانی کو ہم میں سے ہر ایک مشترکہ طور پر اپنی ذاتی اور قوتوں کو Gen.Willکے حوالے کرتا ہے او اس کے عوض ہم میں سے ہرفرد کل کا جزولاینفک بن جاتا ہے۔
مغرب کی جدید ریاست کی تشکیل میں اس نظریہ کا بڑا ہاتھ ہے۔ ایسے معاہدہ کے تحت بننے والی حکومت Gen.Willکا نفاذ کرائے گی اور روسو کے خیال میں اس کی بنیاد قانون فطرت پر ہوگی۔ کیونکہ لوگوں نے اسی تعقل کی بنیاد پر یہ معاہدہ کیا ہے جو فطری انسان کا تعقل ہے یعنی خواہشات عقلیت یا Rationality bonded by desire ایسی ریاست میں آزادی اور مساوات کا دور دورہ ہوگا اور نظام سیاسی کسی اور قانون کا پابند نہ ہوگا۔ اگرچہ روسو ریاست کی ظاہری شکل پر زیادہ زور نہیں دیتا۔ اس کے خیال میں جمہوریت صرف چھوٹی ریاستوں City States کے لیے موزوں ہے جبکہ بڑی ریاستوں کے لیے بادشاہت کے ذریعہ Gen.Willمعلوم کی جاسکتی ہے اور Middle States کے لیے Aristocracy تجویز کرتا ہے لیکن اس کی فکر میں مجموعی طور پر جمہوریت کے لیے بھی نرم گوشہ ملتا ہے کیونکہ اس کا خیال ہے کہ جمہوریت کے بغیر وہاں کے عوام Prustrate ہوجاتے ہیں۔
روسو کی پیش کردہ آزادی لبرل ازم کی بنیاد فراہم کرتی ہے۔ وہ یہی الفاظ لکھتا ہے کہ آزادی کی لازمی شرط ہے ”پابندی” لیکن وہ پابندی جو خود اپنی خوشی سے ہو۔ (ایک فرد وہاں تک آزاد ہے جہاں تک دوسرے کی آزادی میں مخل نہ ہو۔)

Sovereign Gen.Will

ہے اور

لبرل ازم کے ارتقاء میں روسو کا بڑا حصہ ہے۔ روسو نے اپنے نظریات سے مغرب کو وہ بنیادیں فراہم کیں جن پر چل کر آج وہ اب لبرل ازم پر پہنچا ہے اور اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کانٹ جو کہ جدید فلسفہ کا امام مانا جاتا ہے اپنے تمام سیاسی اور عمرانی نظریوں کے لیے خود اپنے قول کے مطابق روسو کا رہین منت ہے اور روسو کے اس فلسفہ کا انقلاب فرانس پر گہرا اثر ہو اہے۔ سوشل کنٹریکٹ وہ کتاب تھی جو انقلاب کے لیڈروں کے لیے Bible کی حیثیت رکھتی تھی اور وہ انقلاب جس نے دنیا میں پہلی مرتبہ جمہوری یا لبرل حکومت قائم کی کی روسو کے فلسفہ کی بنیادیں لیے ہوئے ہے۔
ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ مغربی تہذیب ایک وحدت ہے مغرب کے تہذیبی افکار میں اختلاف ظاہری سطحی اور فروعی ہے جبکہ بنیادی امور یعنی آزادی، مساوات وغیرہ میں مغرب کے تمام مفکرین متفق ہیں یہ وہ بنیادی قدریں ہیں جنہیں مغرب شک وشبہ سے بالاتر سمجھتا ہے۔ اور بحیثیت اسلامی انقلابی کے ہمیں اس چیز کا اچھی طرح ادراک ہونا ضروری ہے تاکہ ہم ظاہری اختلاف میں الجھ کر نہ رہ جائیں۔ اس کی بہترین مثال یہ دو اہم عصر مفکرین ہیں جن کا انقلاب فرانس میں کلیدی کردار ہے یعنی روسو اور والٹیر دونوں کے مزاج وآہنگ میں بڑا فرق ہے۔ ایک عقل پر زور دیتا ہے اور دوسرا جذبات پر، ایک تہذیب وتمدن کا خاص مداح ہے دوسرا دشمن ایک ذاتی ملکیت کا زبردست موکل ہے دوسرا اسے ملامت کرتا ہے۔ لیکن دیکھئے کہ بنیادی قدروں پر دونوں کا کتنا ایمان ہے۔
روسو اپنی مشہور کتاب سوشل کنٹریکٹ کا آغاز ان الفاظ سے کرتا ہے کہ ”انسان آزاد پیدا ہوا ہے لیکن جدھر دیکھو وہ پابہ بجولاں ہے” اپنے آخری دنوں میں ایک نوجوان کو نصیحت کرتے ہوئے والیٹرا سے کہتا ہے کہ تم اپنے آپ کو خدا اور آزادی کے لیے وقف کردو اس کے جنازے کی کارپر یہ جملہ درج تھے کہ
He gave human mind the great impulse. He prepared us for freedom.
انقلاب روس:
روسو کی فکر کا فرانس پر بڑا گہرا اثر پڑا یہ بات بڑے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ والیٹر اور روسو انقلاب فرانس کے اہم ترین مفکرین تھے۔
انقلاب فرانس 1789ء میں رونما ہوا۔ یہ Rowrboun خاندان کی صدیوں پرانی بادشاہت کے خلاف کامیاب بغاوت تھی۔ انقلاب نے بادشاہت اور عیسائیت دونوں کو یکسر رد کیا اور جو سیاسی اور معاشی نظام قائم کیا اس کا مقصد آزادی، مساوات اور اخوت کا قیام تھا۔ لیپولین کی بالادستی حاصل کرنے تک جو نظام قائم ہوا، اس کو عوامی دہشت (Mass terror) سے تعبیر کرنا مناسب نہ ہوگا اس نظام میں پیرس اور چند دوسرے شہروں میں مصلح اور مقبول عاوم سیاسی دھڑوں کے ہاتھوں میں اقتدار منتقل ہوتا رہا اور ان کا مقصد ان تمام اداروں کو تحلیل کرنا تھا جن کا تعلق بادشاہت یا چرچ سے تھا۔ آزادی اور مساوات کو پوجنے والوں نے اپنے مخالفین کے ساتھ بدترین مظالم روا رکھے اور ایک دھائی کے اندراندر عوام انقلابی قیادت کے تمام دھڑوں سے سخت بدظن ہوگئے اس کا سب سے اہم اظہار وہ پے درپے شکستیں تھیں جو 1790ء کے دھائی میں فرانسیسی فوج کو برداشت کرنی پڑیں اور ان شکستوں سے فائدہ اٹھا کر نپولین نے اپنا تسلط قائم کیا نپولین کو عوامی مقبولیت اسی لیے حاصل ہوئی کہ ان ذات استحکام اور اعتماد کی علامت بن گئی اور اس کے اردگرد جمع اس افراتفری اور طوائف الملوکی کا سدباب کرنا ممکن سمجھنے لگے جو انقلابیوں کی قیادت کے سبب ملک میں پھیل گئی تھی۔ نپولین نے اپنے خاندان کے بادشاہت قائم کردی اور انقلابیوں کا خاتمہ کیا۔
لیکن انقلاب فرانس کے دورس نتائج نکلے جمہوریت اور قوم پرستی یورپ میں مقبول عام ہوگئے اور مطلق العنان بادشاہت اور عیسائیت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا، آزادی اور مساوات مقبول عام اقدار ہوگئے اور ایک ایسا معاشرہ قائم ہوا جہاں تمام خواہشات کو یکساں اہمیت کا تصور کیا جانے لگا۔ خواہشات کی تکمیل عمل کی کسوٹی قرار پایا اور حقوق کے حصول جدوجہد سیاست کا محور بن گئی۔ اس ماحول میں مذاہب کی اخلاقی بالادستی زیادہ دیر قائم نہ رہ سکی کیونکہ خواہشات کی تسکین ان قیود سے آزاد ہوگئی اور مذاہب نے صدیوں سے لگائی ہوئی تھیں۔ ایک جمہوری نظام میں عوام کے اخلاق لامحالہ تباہ ہوجاتے ہیں کیونکہ ایک جمہوری نظام کا قیام اس مفروضہ پر ہوتا ہے کہ تمام خواہشات کی یکساں اور مساوی قدر ہے (اسی لیے ہر شخص کا ووٹ ہوتا ہے) مذہب کی تعلیمات کو پس پشت ڈال کر جو General Will تعمیر کیا جاتا ہے وہ محض زیادہ سے زیادہ خواہشات کے حصول کی نشان دہی کرتا ہے۔ اس General کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جس سیاسی

روسو اور انقلابِ فرانس
مغربی تہذیب اپنی بنیادی قدر یعنی آزادی کے حصول کے لیے دو دھاروں میں بنتی نظر آتی ہے۔
1۔ Enlightenment
2۔ Romanticism
Enlightenment کی تحریک اس بات کی داعی ہے کہ آزادی کے نفس میں خود یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ آزادی حاصل کرلے اور عقل کے ذریعہ وہ اپنے لیے آزاد طرز زندگی متعین کرسکتا ہے۔ جبکہ Romanticism کے معتقدین اس بات کے قائل ہیں کہ انسان اپنی شخصیت کو کسی بڑی ہستی میں ضم کرکے حقیقی آزادی حاصل کرسکتا ہے۔ فرد بحیثیت فرد آزادی حاصل نہیں کرسکتا یہ بڑی ہستی کوئی قوم فرد نسل طبقہ وغیرہ ہے نیز یہ کہ عقل کے بجائے (Passions) خواہش انسان کی صحیح رہنمائی کرسکتی ہے اور افراد کو اجتماعی مفاد کی طرف لے جاتی ہے۔
اسی Romantic Movement کے ماننے والے روسو کو اپنا پیشوا اور امام تسلیم کرتے ہیں۔
روسو کی حیثیت ایک فلسفی سے زیادہ ایک معاشرتی ماہر کی ہے۔ روسو کی ہر تحریر میں ہمیں فطرت اور تمدن کا تضاد نظر آتا ہے اور وہ ہر جگہ فطرت کی جڑ ہے جو ایک متمدن انسان کو وحشی سے ممتاز کرے۔ ہمیں روسو کے اس فطرت اور تمدن کے تضاد اور پھر اس میں فطرت کی حمایت کے پیچھے جو جذبہ نظر آتا ہے وہ ہے ”آزادی”۔ یہ جذبہ یا نظریہ روسو کی ہر تحریر کی انفرادی زندگی پر بحث کر رہا ہو یا فلسفہ پر ہر جگہ وہ فرد کی آزادی کو معتبر قرار دیتا ہے۔ انسان آزاد پیدا ہوتا لیکن جدھر دیکھو وہ پایہ زنجیر ہے۔
روسو کا Ideal انسان ایک فطری انسان ہے فطری حالت(State of Nature ) ہے۔ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ فطری انسان اور فطری حالت ہے۔
(1) روسو کا فطری انسان وہ ہے جو جنگلوں میں تھا اور کائنات کی تسخیر سے لاتعلق تھا یہ انسان اختیار آزادی رکھتا ہے۔
(2) وہ تمام انسانوں سے ہمدردی رکھتا ہے۔
(3) وہ کوئی Socioal being نہیں ہے بلکہ پرجذبات وخواہشات کا غلبہ ہے یعنی اس لحاظ سے انسان Self Interested ہے۔ اسی لیے اپنی تحریروں میں انسان کے خود سے دلچسپی رکھنے کو اہمیت دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ انسان کے اندر بنیادی محرک اپنا بچاؤ ہے اور اسی کی سب سے پہلی ذمہ داری اپنے مفادات کا تحفظ ہے اور اس کے تمام احساسات کا پہلا مرکز اس کی اپنی فلاح ہے۔
روسو اپنے فلسفہ میں انسانی جبلت یا نفس کو کسی چیز کے صحیح یا غلط ہونے کی کسوٹی قرار دیتا ہے۔ اور یہ کہتا ہے کہ انسان Sociol being نہیں ہے بلکہ اس کے تعلق پہ خواہشات واغراض کا غلبہ ہے اسی لیے اسے Romanticism کا بانی کہا جاتا ہے۔
آزادی کا حصول:
جیسا کہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ روسو کے خیال میں حقیقی آزادی انفرادی آزادی کو کسی بڑی ہستی میں ضم کرنے سے ملتی ہے اور روسو کے یہاں آزادی کا حصول اپنی خواہش کو ارادہ اجتماعی یعنی General Will میں ضم کرکے ممکن ہے۔
Gen.Will:
Gen.Willدراصل وہ Will ہے جو تمام افراد کے لیے قابل قبول ہو جس کو Universallise کیا جاسکے۔ یعنی Gen.Willتمام انسانوں کے لیے مفید سمجھتا ہے۔ (Perticular Wills) کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ یہ ممکن ہے کہ ایک فرد کی Perticular Willsجنرل Will  سے مختلف ہو لیکن حقیقی آزادی کے لیے اسے چاہیے کہ وہ اپنی انفرادی خواہش کو Gen.Willکے ماتحت کردے اور ماتحت کرنے کی جو شکل ہے وہ یہ ہے کہ ہر فرد Gen.Willکے تعین کے عمل میں شرکت کرے۔ جیسا کہ پہلے گزرا ہے کہ روسو کے خیال کے مطابق فطرت میں تعقل خواہشات Bounded ہے اس لیے Gen.Willہمیشہ ایک ہی ہوگی یا ہمیشہ صحیح ہوگی یعنی Gen.Will وہی ہوتی ہے جو اسے ہونا چاہیے اور تاریخی عمل کے ذریعہ یہ ممکن ہے کہ Pert-Will جنرلWill ہی ہوجائے۔ اس کے خیال میں Sovereign Gen.Will ہے اور حکومت کا کام Gen.Willکو Execute کروانا ہے۔ یعنی ارادہ اجتماعی کا نفاذ ہوتا ہے۔ اس کے خیال میں ہر شہری ارادہ اجتماعی کی فرمانبرداری کرکے اس میں اپنا حصہ ادا کرسکتا ہے اور اس کے ستھ ہی وہ مخالف اپنی الگ Particular Will جو Gen.Willسے مختلف بھی رکھ سکتا ہے۔ لیکن کسی فرد کو ارادہ اجتماعی کی نافرمانی کی اجازت نہیں اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اسے Gen.Will کی اطاعت پر مجبور کیا جائے گا۔ لیکن وہ اس زبردستی اطاعت کروانے کو اس فرد کو زبردستی آزادی دلوانا قرار دیتا ہے۔ گویا روسو ارادہ اجتماعی کی پابندی کو فرد کی اصل دم بھرنے کے باوجود اسی زبردستی اطاعت کو ”Forced to be free” زبردستی آزادی لانے سے جواز فراہم کرتا ہے۔
Gen.Will کا حصول:
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ Gen.Willکس طرح معلوم ہوا۔ اس کے لیے روسو ایک Ideal Spectator کا تصور پیش کرتا ہے جو کہ خودشہری نہ ہو بلکہ باہر کا فرد ہو اور طے کرے کہ Gen.Willکیا ہے۔ جس طرح وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مثال پیش کرتا ہے کہ وہ بنی اسرائیل کے لیے ایک Ideal Spectator تھے جنہوںنے قوم کو بتایا کہ تمہارا اجتماعی مفاد کس میں ہے۔ Gen.Will کے تعین میں Ideal Spectator کے تصور کا مظہر ہمیں نپولین میں ملتا ہے جس نے اس بات کا دعویٰ کیا کہ قوم کا اجتماعی مفاد اس کی اطاعت میں ہے۔
روسو کے مطابق یہ Gen.Willلوگوں کی خواہشات سے جتنی نزدیک ہوگی اتنی ہی عادلانہ ہوگی اور اس نے یہ بھی کہا ہے کہ لوگوں کی آواز خدا کی آواز ہے۔ لہٰذا Gen.Willکے عمل کے نتیجہ میں معاشرہ قائم ہوگا وہ غیرعادل نہیں ہوگا۔
عدل یہ ہے کہ Gen.Willکے تحت Particular Will کردی جائے آزادی کے بعد دوسرا محرک مساوات ہے جسے روسو کے فلسفہ میں اہمیت حاصل ہے۔ رسل کے خیال میں روسو کی فکر کا ہدف ”آزادی” ہے لیکن مساوات دراصل وہ چیز ہے جسے روسو سب سے زیادہ قیمتی جانتا ہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ یہ روسو کا تضاد ہے۔ یعنی ایسا ممکن نہیں ہے کہ لوگ Gen.Will کی فرمانبرداری کریں اور اب سب کو مساوات حاصل ہو۔ لازماً اس موقع پر کسی ایک Conciousness کو دوسرے پر ترجیح دینے پڑے گی اور مساوات ممکن نہ ہوگا۔
سوشل کنٹریکٹ:
روسو معاشرتی تنظیم کی بنیاد معاہدہ عمرانی (سوشل کنٹریکٹ) پر رکھتا ہے۔ اس کے خیال میںانسان Stete of nature تمدن کی وجہ سے کھو چکا ہے۔ یعنی ذاتی ملکیت شادی وغیرہ کی وجہ سے۔ اب وہ ایک مفروضہ پیش کرتا ہے کہ افراد ایک ایسے نکتے پر پہنچ گئے ہیں جہاں State of nature کے بقاء میں وسائل سے زیادہ رکاوٹیں ہیں لہٰذا وہ لازماً ایک تنظیم بنائیں گے لیکن مسئلہ محض ایک تنظیم کے قائم کرنے کا نہیں ہے جو ہررکن کے مفاد کا تحفظ کرے بلکہ مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس تنظیم میں شامل ہو کر ہر فرد اپنی افرادی آزادی بھی قائم رکھے اور پہلے کی طرح آزاد ہو۔ Socoal Contoract اسی مسئلہ کا حل پیش کرتا ہے۔
روسو کے الفاظ میں معاہدہ عمرانی کو ہم میں سے ہر ایک مشترکہ طور پر اپنی ذاتی اور قوتوں کو Gen.Willکے حوالے کرتا ہے او اس کے عوض ہم میں سے ہرفرد کل کا جزولاینفک بن جاتا ہے۔
مغرب کی جدید ریاست کی تشکیل میں اس نظریہ کا بڑا ہاتھ ہے۔ ایسے معاہدہ کے تحت بننے والی حکومت Gen.Willکا نفاذ کرائے گی اور روسو کے خیال میں اس کی بنیاد قانون فطرت پر ہوگی۔ کیونکہ لوگوں نے اسی تعقل کی بنیاد پر یہ معاہدہ کیا ہے جو فطری انسان کا تعقل ہے یعنی خواہشات عقلیت یا Rationality bonded by desire ایسی ریاست میں آزادی اور مساوات کا دور دورہ ہوگا اور نظام سیاسی کسی اور قانون کا پابند نہ ہوگا۔ اگرچہ روسو ریاست کی ظاہری شکل پر زیادہ زور نہیں دیتا۔ اس کے خیال میں جمہوریت صرف چھوٹی ریاستوں City States کے لیے موزوں ہے جبکہ بڑی ریاستوں کے لیے بادشاہت کے ذریعہ Gen.Willمعلوم کی جاسکتی ہے اور Middle States کے لیے Aristocracy تجویز کرتا ہے لیکن اس کی فکر میں مجموعی طور پر جمہوریت کے لیے بھی نرم گوشہ ملتا ہے کیونکہ اس کا خیال ہے کہ جمہوریت کے بغیر وہاں کے عوام Prustrate ہوجاتے ہیں۔
روسو کی پیش کردہ آزادی لبرل ازم کی بنیاد فراہم کرتی ہے۔ وہ یہی الفاظ لکھتا ہے کہ آزادی کی لازمی شرط ہے ”پابندی” لیکن وہ پابندی جو خود اپنی خوشی سے ہو۔ (ایک فرد وہاں تک آزاد ہے جہاں تک دوسرے کی آزادی میں مخل نہ ہو۔)
لبرل ازم کے ارتقاء میں روسو کا بڑا حصہ ہے۔ روسو نے اپنے نظریات سے مغرب کو وہ بنیادیں فراہم کیں جن پر چل کر آج وہ اب لبرل ازم پر پہنچا ہے اور اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کانٹ جو کہ جدید فلسفہ کا امام مانا جاتا ہے اپنے تمام سیاسی اور عمرانی نظریوں کے لیے خود اپنے قول کے مطابق روسو کا رہین منت ہے اور روسو کے اس فلسفہ کا انقلاب فرانس پر گہرا اثر ہو اہے۔ سوشل کنٹریکٹ وہ کتاب تھی جو انقلاب کے لیڈروں کے لیے Bible کی حیثیت رکھتی تھی اور وہ انقلاب جس نے دنیا میں پہلی مرتبہ جمہوری یا لبرل حکومت قائم کی کی روسو کے فلسفہ کی بنیادیں لیے ہوئے ہے۔
ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ مغربی تہذیب ایک وحدت ہے مغرب کے تہذیبی افکار میں اختلاف ظاہری سطحی اور فروعی ہے جبکہ بنیادی امور یعنی آزادی، مساوات وغیرہ میں مغرب کے تمام مفکرین متفق ہیں یہ وہ بنیادی قدریں ہیں جنہیں مغرب شک وشبہ سے بالاتر سمجھتا ہے۔ اور بحیثیت اسلامی انقلابی کے ہمیں اس چیز کا اچھی طرح ادراک ہونا ضروری ہے تاکہ ہم ظاہری اختلاف میں الجھ کر نہ رہ جائیں۔ اس کی بہترین مثال یہ دو اہم عصر مفکرین ہیں جن کا انقلاب فرانس میں کلیدی کردار ہے یعنی روسو اور والٹیر دونوں کے مزاج وآہنگ میں بڑا فرق ہے۔ ایک عقل پر زور دیتا ہے اور دوسرا جذبات پر، ایک تہذیب وتمدن کا خاص مداح ہے دوسرا دشمن ایک ذاتی ملکیت کا زبردست موکل ہے دوسرا اسے ملامت کرتا ہے۔ لیکن دیکھئے کہ بنیادی قدروں پر دونوں کا کتنا ایمان ہے۔
روسو اپنی مشہور کتاب سوشل کنٹریکٹ کا آغاز ان الفاظ سے کرتا ہے کہ ”انسان آزاد پیدا ہوا ہے لیکن جدھر دیکھو وہ پابہ بجولاں ہے” اپنے آخری دنوں میں ایک نوجوان کو نصیحت کرتے ہوئے والیٹرا سے کہتا ہے کہ تم اپنے آپ کو خدا اور آزادی کے لیے وقف کردو اس کے جنازے کی کارپر یہ جملہ درج تھے کہ
He gave human mind the great impulse. He prepared us for freedom.
انقلاب روس:
روسو کی فکر کا فرانس پر بڑا گہرا اثر پڑا یہ بات بڑے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ والیٹر اور روسو انقلاب فرانس کے اہم ترین مفکرین تھے۔
انقلاب فرانس 1789ء میں رونما ہوا۔ یہ Rowrboun خاندان کی صدیوں پرانی بادشاہت کے خلاف کامیاب بغاوت تھی۔ انقلاب نے بادشاہت اور عیسائیت دونوں کو یکسر رد کیا اور جو سیاسی اور معاشی نظام قائم کیا اس کا مقصد آزادی، مساوات اور اخوت کا قیام تھا۔ لیپولین کی بالادستی حاصل کرنے تک جو نظام قائم ہوا، اس کو عوامی دہشت (Mass terror) سے تعبیر کرنا مناسب نہ ہوگا اس نظام میں پیرس اور چند دوسرے شہروں میں مصلح اور مقبول عاوم سیاسی دھڑوں کے ہاتھوں میں اقتدار منتقل ہوتا رہا اور ان کا مقصد ان تمام اداروں کو تحلیل کرنا تھا جن کا تعلق بادشاہت یا چرچ سے تھا۔ آزادی اور مساوات کو پوجنے والوں نے اپنے مخالفین کے ساتھ بدترین مظالم روا رکھے اور ایک دھائی کے اندراندر عوام انقلابی قیادت کے تمام دھڑوں سے سخت بدظن ہوگئے اس کا سب سے اہم اظہار وہ پے درپے شکستیں تھیں جو 1790ء کے دھائی میں فرانسیسی فوج کو برداشت کرنی پڑیں اور ان شکستوں سے فائدہ اٹھا کر نپولین نے اپنا تسلط قائم کیا نپولین کو عوامی مقبولیت اسی لیے حاصل ہوئی کہ ان ذات استحکام اور اعتماد کی علامت بن گئی اور اس کے اردگرد جمع اس افراتفری اور طوائف الملوکی کا سدباب کرنا ممکن سمجھنے لگے جو انقلابیوں کی قیادت کے سبب ملک میں پھیل گئی تھی۔ نپولین نے اپنے خاندان کے بادشاہت قائم کردی اور انقلابیوں کا خاتمہ کیا۔
لیکن انقلاب فرانس کے دورس نتائج نکلے جمہوریت اور قوم پرستی یورپ میں مقبول عام ہوگئے اور مطلق العنان بادشاہت اور عیسائیت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا، آزادی اور مساوات مقبول عام اقدار ہوگئے اور ایک ایسا معاشرہ قائم ہوا جہاں تمام خواہشات کو یکساں اہمیت کا تصور کیا جانے لگا۔ خواہشات کی تکمیل عمل کی کسوٹی قرار پایا اور حقوق کے حصول جدوجہد سیاست کا محور بن گئی۔ اس ماحول میں مذاہب کی اخلاقی بالادستی زیادہ دیر قائم نہ رہ سکی کیونکہ خواہشات کی تسکین ان قیود سے آزاد ہوگئی اور مذاہب نے صدیوں سے لگائی ہوئی تھیں۔ ایک جمہوری نظام میں عوام کے اخلاق لامحالہ تباہ ہوجاتے ہیں کیونکہ ایک جمہوری نظام کا قیام اس مفروضہ پر ہوتا ہے کہ تمام خواہشات کی یکساں اور مساوی قدر ہے (اسی لیے ہر شخص کا ووٹ ہوتا ہے) مذہب کی تعلیمات کو پس پشت ڈال کر جو General Will تعمیر کیا جاتا ہے وہ محض زیادہ سے زیادہ خواہشات کے حصول کی نشان دہی کرتا ہے۔ اس General Will کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جس سیاسی شکل کی تعمیر ہوتی ہے وہ ایک قوم پرست ریاست ہوتی ہے تاریخ نے ثابت کردیا کہ قوم پرستی کے سایہ میں بھیانک ترین اخلاقی جرائم کیے جاتے ہیں اور انسانیت پر مظالم ڈھائے جاتے ہیں۔ جمہوریت اور قوم پرستی خدا اور الٰہی نظام سے بغاوت کی دو شکلیں ہیں اور جیسے کے آیندہ مضامین میں واضح کیا جائے گا کہ ان دونوں نظریات کو اسلام کلیتاً رد کرتا ہے۔