برصغیر کی قوم پرست تحریک نے ایک مسلم شناخت بھی تعمیر کی ہے۔ انیسویں صدی کے آخر تک مسلمانانِ ہند کو ”قوم” ہونے کا شعور نہ تھا نہ کبھی انہوں نے اپنے سرمایادارانہ حقوق کیلئے سیاسی جدوجہد کی تھی۔قوم پرستی بالکل اجنبی تصور تھا۔ اکبر نے کہا تھا۔

ع دیکھئے قوم کہتے ہیں جسے

چند لڑکے تھے مشن اسکول کے

مسلم قوم پرستی کا پہلا ہندوستانی مبلغ سرسید احمد خان تھا۔ اس نے انگریزی تعلیم کو فروغ دے کر مسلمانوں کو باور کرایا کہ ہندو ان کا استحصال کررہے ہیں۔ چناں چہ مسلمانوں کو اپنے (سرمایادارنہ ) حقوق کے حصول کیلئے انگریزی نظامِ اقتدار میں شمولیت کرنی چاہئے۔ اسی فکر کی بنیاد پر آل انڈیا مسلم لیگ نے تحریک پاکستان برپا کی اور پاکستان اپنے قیام کے ٦٥ سالہ دور میں ایک خالص سرمایادارنہ ریاست کے طور پر روبہ عمل رہا ہے۔ آج مسلم قوم پرستی ایک کمزور نظریہ ہے، کیوں کہ مسلم قوم پرستی لازماً اسلامی تشخص کو مجروح کرتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلم قوم پرستوں کی جدوجہد سرمایادارنہ حقوق کے حصول کی طرف ہوتی ہے اور ظاہر ہے کہ جو شخص سرمایادارنہ نظام میں شمولیت کا طلب گار ہے وہ اسلامی طرزِ حیات سے لازماً بتدریج دور ہوتا چلاجاتا ہے۔ تحریک پاکستان کے دوران مسلم قوم پرستی کی سب سے بھرپور اسلامی تنقید مولانا مودودی نے مرتب کی تھی لیکن قیام پاکستان کے بعد جماعت اسلامی عملاً ایک مسلم قوم پرست جماعت بن گئی۔ اور اس فعل نے اس کے دینی اور سیاسی تشخص کو بری طرح مجروح کیاہے۔ کسی حد تک یہی بات جمعیت علمائے اسلام اور جماعتہ الدعوة کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے۔

 

”قوم” اور ”امت” میں فرق:

 اسلام جس سیاسی اجتماعیت کا قائل ہے وہ ”امت ” ہے قوم نہیں!۔۔ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کے ساتھ تعلق، خواہ وہ کسی بھی خطے، رنگ اور زبان یا قبیلے سے تعلق رکھتا ہو دوسرے مسلمان کے ساتھ اخوت، بھائی چارے ہمدردی اور دل سوزی کا علاقہ رکھتا ہے۔ وہ کسی سے محبت اسلئے نہیں کرتا کہ وہ اس کے قبیلے سے تعلق رکھتا ہے بلکہ کلمے کی بنیاد پر محبت رکھتا ، اسی طرح اگر وہ کسی سے نفرت کرتا ہے تو اس کی نفرت کی بنیاد کلمہ اور قرآن ہے نہ قوم زبان یا علاقائی حیثیت، یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں جابجا مسلمانوں کو بطور امت پکارا گیا ہے ۔ چناچہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:

وکذلک جعلنا کم امة وسطا

ولتکن منکم امة یدعون الی الخیر

ان ھذہ امتکم امتہ واحدة

امت جو ریاست تشکیل دیتی ہے وہ قومی نہیں ہوتی، ہر مسلمان اس کی رعیت میں شامل ہونے کا حق رکھتا ہے۔ یہ بات بلاخوف تردید تمام اسلامی ریاستوں ۔۔خلافت راشدہ، خلافت امویہ،خلافت عباسیہ ، سلجوق بادشاہتوں، خلافت عثمانیہ سلطنت مغلیہ وغیرہ کے بارے میں کہی جاسکتی ہے۔ کوئی بھی اسلامی ریاست قومی ریاست نہیں تھی ، وہاں اقتدار عوام کے کسی گروہ کے پاس نہیں تھا۔ بلکہ سلطان ظلِ اللہ تھا۔ اورتمام فیصلے شارع علیہ السلام کے احکام کی تعمیل میں صادر کیئے جاتے تھے۔ اسلامی ریاست کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں نمائندگی کا کوئی نظام نہیں ہوتا۔ نہ ہی مقننہ کا کوئی ادارہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم کسی قوم کے اقتداری حقوق کے قائل نہیں ہیں۔عوام اور خواص کے کسی گروہ یا فرد کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ نظامِ اقتدار اپنی مرضی سے مرتب کرے۔ حکم اللہ نے اپنے لئے مخصوص کیا ہے۔ْ اسی نے حکم دیا ہے کہ صرف اس کے احکام کی تعمیل کی جائے۔

الالہ الخلق والامرا

ان الحکم الاللہ

وماامرو الا لیعبدو للہ

اسلامی ریاست سرمایادارانہ قومی حقوق کے فروغ کا ذریعہ نہیں۔ لہٰذا  ہم ہر قوم پرست تحریک بہ شمول مسلم قوم پرست تحریکات ، کی نظریاتی اور عملی مخالفت کرتے ہیں معٰذا ہم دوسری جانب قوموں کے سماجی اور ثقافتی تشخص کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔ اقوام عالم کے بارے میں صرف وہی تصور ہمیں قابل قبول ہے جسے قرآن حکیم نے بیان کیا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے۔

یاایہاالناس انا خلقنکم من ذکر وانثٰی وجعلنا کم شعوبا وقبائل لتعارفوا۔ان اکرمکم عندللہ اتقکم

”اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہیں گروہ اور قبائل بنایا ہے تاکہ تم آپس میں پہچانے جاؤ۔ مگر درحقیقت تم میں وہی معزز ہے جو زیادہ پرہیز گار ہے”(الحجرات) یعنی قبیلوں اور قوموں کا اختلاف محض ایک دوسرے کے تعارف کیلئے ہے ایک دوسرے کے ساتھ تفاخر، آپس کی عداوت اور فساد فی الارض کیلئے نہیںہے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک معزز وہی ہے جو متقی ہے خواہ وہ عربی ہو یا عجمی، وہ افریقی ہو یا شامی، لیکن اگر وہ متقی نہیں ہے تو وہ اپنے آپ کو کتنا ہی اعلیٰ ذات کا بتائے معزز نہیں ہوسکتا۔ قومیں،قبائل اور شعوب کی ترقی یافتہ شکلیں ہیں ۔ قوموں کے لسانی اور معاشرتی تشخص کے تحفظ اور فروغ کو احیاء اسلام کا مؤثر ذریعہ بنایا جاسکتا ہے۔ صوفیا کے اس عظیم الشان کارنامے سے مستفید ہوسکتے ہیں ، اس کیلئے ضروری ہے کہ مقبولِ عام رسوم وروایات کو شریعتِ مطہرہ کے دائرہ کار میں مرتب کیا جائے اور عوام کے دینی جذبات اور عقیدت کے اظہار کیلئے ایسے طرائق وضع کیئے جائیں جو شرع کی تعلیمات سے متصادم نہ ہوں۔ اور عوام کی قومی ثقافتی روایات کے ہم آہنگ ہوں۔

                اسلامی تحریکا ت کی حالیہ معاشرتی کمزوری کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ کسی اسلامی جماعت نے ایک اقدامی ثقافتی حکمت عملی مرتب نہ کی۔ پنجابی، سندھی، بلوچ زبانوں اور روایات کے فروغ کیلئے ہم نے کوئی اسلامی منصوبہ مرتب نہ کیا اور دشمن نے ہماری اس کمزوری سے فائدہ اٹھاکر قومی تشخص کے اظہار کو سیکولرازم کے فروغ کا ذریعہ بنالیا ہے۔ آج پنجابی، سندھی زبانوں میں جوادب تصنیف کیا جارہا ہے۔ وہ بالعموم اسلام دشمن ادب ہے۔ ۔۔کیا کسی اسلامی جماعت کے پاس پنجابی، سندھی، بلوچی زبان اور ثقافت کو فروغ دینے کا کوئی منصوبہ ہے؟!

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *