ریحان عزیز-

تاریخ اقوام و تہذیب کے اوراق پلٹ کر دیکھئے تو ہمیں عیسائیت کی ایک واضح مثال نظر آتی ہے۔ آپ بخوبی واقف ہیں کہ عیسائیت آج جس حالت میں موجود ہے وہ فقط چند رسوم اور عقائد سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔ سیاست و معیشت کے میدان میں اس کے پاس کچھ علیحدہ بات کہنے کے لیے نہیں ہے سوائے اس کے کہ وہ را ئج و موجودہ افکار کو چند ثانوی وغیر اہم تبدیلیوں کے ساتھ قبول کرتے چلے جائیں۔ عیسائی اقدار کے معاملہ میں بھی نئی تہذیب کی برتری بالکل واضح ہے شرم و حیا’ تقویٰ و احسان’ ایثار و قربانی’ آخرت سے محبت’ دنیا پرستی و امارت کو حقارت کی نگاہ سے دیکھنا اور اس نوع کے دیگر اوصاف تمام معاشروں سے بتدریج فارغ ہوتے چلے گئے، نتیجتاً ایک نئے طرز کے معاشرے وجود میں آگئے جو قرون وسطیٰ کے مذہبی معاشروں کی بالکل ضد تھے جیسا کہ سطور بالا میں عرض کیا جاچکا ہے کہ یہ تبدیلی آناً فاناً نہیں بلکہ صدیوں میں وقوع پذیر ہوئی۔

یورپ میں رد عیسائیت کی تحریکوں میں شروع شروع میں یہ ہمت نہیں تھی کہ وہ عیسائیت کا براہ راست انکار کر سکیں۔ ان تحریکوں نے ابتداً جس چیز کا انکار کیا وہ عیسائیت کی اجتماعی تعبیر تھی اور اس کے علی الرغم ایسی لبرل تعبیر پیش کی گئی جس کے نتیجے میں عیسائیت خدا کی مرضی اور منشا معلوم کرنے کا ذریعہ نہ رہی بلکہ افراد اور اقوام کی خواہشات کے حصول کے ذریعہ بن گئی عیسائیت کی اس لبرل تعلیم کو تحریک اصلاح کا نام دیا گیا۔

تحریک اصلاح جو بظاہر کلیسا کو خرابیوں سے پاک کرنے کی ایک تحریک تھی جس نے عام عیسائی کو کلیسائی پادریوں کے تسلط سے آزاد کرایا تھا لیکن جو صورتحال سامنے آئی وہ کچھ اس نوعیت کی تھی کہ عام فرد کے لیے بھی مذہبی قوانین پر کلام کرنا اور اس کو رد کرنا ممکن ہو گیا۔ لوتھر’ کیلون’ ژونگلی اور دیگر اصلاحی مفکرین نے اس نکتہ کو پیش کیا تھا کہ انجیل مقدس کو سمجھنے کے لیے کلیسا کا اجماع’ روایات اور ادارے ضروری نہیں ہیں بلکہ ہر شخص اور ہر گروہ اور قوم اپنے ضمیر’ خواہش اور عقل کے مطابق انجیل مقدس کی تعبیر کر سکتے ہیں اور پھر یوں ہوا کہ دو سو سال کے اندر اس بات کے امکانات پیدا ہو گئے کہ عیسائیت کا رد کیا جاسکے۔ اس تابوت میں ایک واضح اور بڑی کیل فلسفیوں نے پیوست کر دی۔ ڈیکارٹ جس سے فلسفہ کی ایک نئی کہانی کا آغاز ہوتا ہے اس نے انسان کو عقل پرستی کی راہ سجھائی’ ایک ایسی عقل جو اپنی زندگی کی اقدار خود متعین کرسکتی ہے’ خیر و شر کی حدود کا تعین کرسکتی ہے۔’ در حقیقت عقل نے جس چیز کی جگہ لی وہ  انجیل مقدس تھی جسے وحی الٰہی ہونے کا درجہ حاصل تھا۔ روز مرہ سے لے کر معیشت و سیاست تک جن معاملات میں کلام الٰہی سے مشاورت کا طریقہ رائج تھا اب عقل انسانی نے یہ ذمہ داری خود سنبھال لی۔ چند سو سالوں میں اس کا لازمی نتیجہ بھی سامنے آگیا جب نطشے نے مذہب کی ہر علامت سے بیزاری کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ (نعوذ باﷲ) خدا مر چکا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *