جان لاک (John Locke) 1632-1704))  لبرل سر مایہ داری کے موثر تریں فلسفیوں میں شمار کیا جا تا ہے۔ اس کے اشارات سرمایہ دارانہ علمیات (Epistemology) پر بھی اتنے گہرے ہیں جتنے سرمایہ دارانہ سیاسیات پر لاک کی علمیات اور اسکے سیاسی فلسفہ میں گہرا تعلق ہے(اس خیال کو لاک کے فرانسیسی پیرئوں نے اصرار کے ساتھ پیش کیا ہے اور اس ہی بنیاد پر وہ اور لاک کے امریکی پیرئو سیاسیات کو ایک سائنس (Political Science) گر دانتے ہیں۔

 

لاک کی تجرباتی علمیات

ْ          لاک وحی کو علم کے ایک سر چشمہ کے طور پر قبول کر تا ہے ، لیکن وہ لکھتا ہے ‘وحی (Revelation) کو عقل (Reason) کے پیمانہ پر ہی جانچا جا سکتا ہے’ مختلف النوع ذاتی الہام کو پرکھنے کا واحد پیمانہ وہ شواہد (Proofs) ہیںجو ا ن کے ثبوت کے طور پر پیش کئے جا تے ہیں( لاک کے دور میںکئی عیسائی فرقہ زاتی الہام کی بنیاد پر علمیاتی تعبیرات کی تصدیق کر تے تھے)اس نوعیت کی توجیہات کو لاک Dogma کہتا ہے ۔ Dogma وہ اعتقادات ہیںجن کو ثابت نہیں کیا جا سکتا۔

            لاک عقلیت کی ایک مخصوص تشریح پیش کرتا ہے۔لاک لکھتا ہے’ عقلی مطالعہ کے دو حصہ ہیں، پہلے یہ متعین کرنا کہ ہم کامل وثوق سے کیا جان سکتے ہیں، دوسرے ان مفرضات اور خیالات (Proposition) کی تحقیق جن کو قبول کر کے مثبت نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں، گو کہ ان مفروضات اور خیالات کے حق ہونے کا محض امکان Probability)) موجود ہے اور کامل تحقیق سے ان کا حق ہونا ثابت نہیں کیا جا سکتا، اور کسی چیز کے حق ہونے کا امکان (Probability)  اس با ت سے متعین ہے کہ وہ ہمارے تجربات اور مشاہدات سے کتنی مطابقت رکھتا ہے(بقول لاک تھائی لینڈنے یورپی مہمانوں کی باتوں پر یقین کرنا اس وقت ترک کیا جب ان مہمانوں نے برف (snow)  کا تذکرہ کیا)۔ اس مفروضہ کی بنیاد پر لاک عقیدہ برداشت (Doctorine of Toleration) کی وکالت کرتا ہے۔

             ٹولیریشن(Toleration) (ٹولیریشن کو برداشت نہیں کہاجانا چاہیے یہ ایک سر مایہ دارانہ تصور ہے جس کی لغوی معنویت کا تر جمہ کرنا ناممکن ہے) سے مراد یہ ہے کہ چونکہ بیشتر عملی طور پر کار آمد(Practically useful) معقولیت کو تسلیم کر لینا چاہے اور اپنے امکانی طور پر بمعہ معقول نظریات اور آرا کے حق ہونے پر اصرار کرناعقلیت کے تقاضوں کے خلاف ہے۔ وہ تمام آرا اور نظریات حق ہو سکتے ہیںجن سے مثبت عملی نتائج بر آمد ہونے کا امکان ہو اور ایسی تمام آرا کے اظہار اور ان کے امکانی حق کی گنجائش کو تسلیم کیا جا نا چایئے اور کسی شخص یا گروہ کو ایسی رائے تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کیا جا نا چاہیے جو امکانی طور پر مثبت نتائج پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔

            یہ نظریہ ٹولیریشن (Toleration) ، جن مثبت نتائج کے امکانی بروئے کار آنے کے پیمانہ پر مختلف آرا کو برداشت کرتا ہے وہ بڑھوتری سر مایہ ہی ہے۔چونکہ حزب اللہ اور دیگر  ‘شدّت پسند’ مجاہدین اسلام کی آرا کا بڑھوتری سرمایہ کا امکانی زریعہ بننا تقریباًناممکن ہے۔ لہٰذا یہ آرا بر داشت نہیں کی جا سکتیں اور امریکہ کے سرخ انڈین        Indians  Red  اور افغانستان کے طالبان  نظریہ ٹولیریشن سے باہر اور قتل عام کے مستحق ہیں۔

            لاک نے جس فلسفیانہ مکتبہ فکر کی بنیاد ڈالی اس کو امپیریسزمEmpericism)) کہتے ہیں۔Empericist فکر کے مطابق علم کا اصل ماخذ انسانی مشاہدات اور تجربات ہیںگو کہ منطق (Logic) ، ریاضی (Mathematics) اور وحی (Revelation) بھی علم کے سر چشمہ ہو سکتے ہیںلیکن ان کی فراہم کر دہ معلومات کو تجر بہ اور مشاہدہ کی بنیاد پر ہی تصدیق کی جا سکتی ہے اور اگر یہ ممکن نہیںتو وہ عملاًعلم کے دائرہ سے خارج ہیں (یہ بھی کہا گیا ہے کہ لا ک کی فکر منطق، ریاضی اور وحی تجربات اور مشاہدات کی بنیاد پر مثبت نتائج (یعنی بڑھوتری سرمایہ) حاصل کر نے کے محض ذرائع ہیں)، مشاہدے اور تجر کی بنیاد پر ہی انسانی ذہن میں خیالات (Ideas) متشکل ہو تے ہیںاور کوئی تصورات  فطری  یہ جبلی (Inate Ideas)  نہیں۔

            علم کے حصول کے صرف دو ذرائع ہیں ۔١) حسیات (Sensation) اور  تفکر (Perception) ۔ حواس خمسہ کے ذریعے ہی مشاہدہ ممکن ہے اور مشاہدات کے معنی تفکر سے ہی اخذ کئے جاتے ہیںعلم کسی اور طرح حاصل نہیں کیا جا سکتا۔

            لاک کی مابعد الطبیاتی فکر ان تمام حقائق کی علمیت کا انکار کر تی ہے جن تک حواس خمسہ کی رسائی نہیں۔ لہٰذا اس کی فکر میں عمومیت Genralisablity) )  کی حقیقت محض لغوی(Linguistic) ہے۔ غیر امپیریسٹ (Non Empericist) مابعد الطبیعاتی علمیت عمومیتوں  (Generalization) جو تشریح اور تعبیر پیش کرتی ہے وہ صرف الفاظ Words) ) پر مشتمل ہے اور وجو د صرف انفرادی اشیاء (Particularties)  کا ہو تا ہے وحی کی بنیاد پر حاصل شدہ معلومات کی حیثیت ان الفاظ کی حقیقت کے سوا کچھ اور نہیںجو        ؟؟ مقدت محض میں وارد ہوئے ہیں۔

            لاک کے نظام فکر میں علم کی بنیاد مشاہدہ ہے اور مشاہدہ حسیات سے حاصل ہوتا ہے جس کی تعبیرات تفکر کی بنیاد پر مرتب ہو تی ہیں۔محسوسات کے اپنے علل Cause))        ۔ لاک یہ اس کے بعد آنے والا کوئی بھی امپیریسٹ Empericist)  (  اس سوال کا جواب نہیں دے سکاکہ  ‘ہم کیوں کسی عمل کو مشاہدہ کی بنیاد پر مثبت نتائج پیدا کر نے والا گردانتے ہیں اور کیسے’  مثبت نتائج کا پیمانہ کیا ہے اور کیوں۔

            ان سوالات کو اٹھائے بغیرلا ک کا دعویٰ ہے کہ محسوسات سے حاصل شدہ معلومات سے جو تصوّرات ہم اخذ کر تے ہیںان کی بنیاد ہماری انفرادی ذاتی اغراض ہیں، لاک کے بقول” (ہم) کیا چاہتے ہیں ۔ خوشی (Happiness)  اور صرف خوشی یعنی لذّات (Pleasure)کی انتہا (اور) لذّات کے انتہائی حصول کا ذریعہ آزادی کی جدو جہد ہے”لاک کہتا ہے کہ عقل کا تقاضہ یہ ہے کہ طویل المدت اور احتماعی (Long term and aggregate) لذّات کی انتہا (Maximisation)کو فوری اور انفرادی لذّات کی جستجو کی جدوجہد کو طویل المدّت اور اجتماعی لذات کے انتہائی حصول کی جدوجہد کے ماتحت کر دیا ہے۔ جو صفت فرد کو یہ کرنے پر اکساتی ہے اس کو لاک پروڈیئنس (Prudence)  کہتا ہے(گو کہ پروڈیئنس (Prudence)   کا تصور انجیل میں بھی ہے لیکن عیسائی تصور پروڈیئنس اور سرمایہ دارانہ تصور  پروڈیئنس (Prudence)   بلکل جدا چیزیں ہیں۔)پروڈیئنس (Prudence)   ایک کامیاب سر مایہ دار کی اہم صفت ہے کیونکہ ایک کا میاب سرمایہ دار عقل کے اس فیصلہ پر عمل کرتا ہے کہ طویل المدت اور اجتماعی لذات کی انتہا کے لئے قلیل المدت اور انفرادی لذت کے حصول کی جدوجہدکو لازماً محدود کیا جانا چاہیے۔

            پروڈیئنس (Prudence)  کی تبلیغ لبرل سر مایہ داری کی بنیادی اخلاقی تعلیم ہے۔اس نظام زندگی سے ہر نیکی (virtue) پروڈیئنس (Prudence)   سے ماخوذ ہے(لاک خود نہایت پروڈیئنٹ (Prudent)   تھا اس نے اپنی کتاب مطلق العنان بادشاہتوں     Charles II)  اور  I ( James کے دور میں نہیں چھپوائی ۔ ١٦٨٣ء میں اپنے مربی  Lord Shaftesbury کے ساتھ Hollandبھاگ گیا اور١٦٨٨ء کے انقلاب کی کامیابی کے بعد انگلستاں واپس آکر نئی حکومت کا کاسہ لیس بن گیا) ۔ Weber  نے بعد میں لکھا ہے کہ سرمایہ داری کے ابتدائی دور میں چونکہ سرمایہ کاری اپنی ذاتی بچتوں پر منحصر ہوتی تھی لہٰذا پروڈیئنٹ (Prudent) لوگ( جو طویل مدت فائدہ کے لئے پس انداز کرتے تھے)ہی کامیاب سرمایہ دار بنتے تھے۔ اس کے برعکس لبرل مبلغین عوام کو  Imprudent ہونے کا طعنہ کثرت سے دیتے تھے اور غربت کی بنیادی وجہ Imprudence کو شمار کرتے تھے۔

            لا ک کی رائے میںانفرادی اور اجتماعی لذّات کو انتہا تک لے جانے کی جدوجہدایک دوسرے کی معاون ہیں۔ یہ لبرل سرمایہ داری کا ایک کلیدی عقیدہ ہے۔لیکن Prudent اشخاص اس عقیدہ پر جبر اور اکراہ کے ساتھ عمل پیرا ہو تے ہیںاور سر مایہ دارانہ معاشروںمیں عظیم اکثریت ہمیشہ غیر پروڈینٹ( Imprudent ) افراد پر مشتمل رہی ہے(لاک کی رائے میں Prudent  ہونے کے لئے خدا اور آخرت پر یقین رکھنا بھی ضروری ہے اور سرمایہ دارانہ نظام زندگی میں یہ نا ممکن ہوتاچلاجاتا ہے)۔ لا ک کے خیال میں لوگوںکے پروڈنٹ ہونے کے لئے یہ بھی ضروری کہ ان کے پاس سرمایہ دارانہ ملکیت      property) (Capitalist  ہو۔ وہ لکھتا ہے  ” Where there is no property, there is no justice ”  اور سرمایہ دارانہ نظام میں سرمایہ دارانہ ملکیت کھینچ کھینچ کر نہایت محدود لوگوں کے پا س مرتکز ہو جا تی ہے اور ذاتی ملکیت کا دائرہ کار نہایت محدود ہو جا تا ہے۔

            Imprudent  عوام کا وجود سرمایہ سرمایہ دارانہ ریاست اور معاشرہ میں لازم ہے اور  Imprudent افراد سے اختیارات طلب کر نا سر مایہ دارانہ قانوں Law of Capital))  کا بنیادی مقصد ہے۔ اس ہی کو   Rule of law  (قانون کی حکمرانی) کہتے ہیں اور  Rule of law  ،Rule of Capital    کے علاوہ اور کچھ نہیں۔

 

لاک کے سیاسی نظریات

                             Rule of law  ،Rule of Capital   کامقصد لوگوں کو پروڈینس Prudence) )    کو قبول کرنے پر مجبور کرنا ہے۔ یہی لبرل تصور آزادی لاک کے مطابق ”فطری دور” of  nature) (State میںموجود تھااور لوگ اس بات سے واقف اور اس نظریہ کے قائل تھے کہ ان کو  Prudent ہونا چاہے لیکن کوئی ایسا نظام اور ضابطہ اقتدار موجود نہیں تھا جو لوگوں کو اس بات پر مجبور کرے کہ ان کا عمل Prudentہو اگر کوئی فرد اپنے قلیل المدت ذاتی مفاد کو فروغ دینے کے لئے اجتماعیت کے طویل المدت مفاد کونقصان پہنچائے تو اس کو اس بات سے باز رکھنے والی یا سزا دینے والی کوئی طاقت موجود نہیںتھی اور معاشرے میں جنگ برپا ہونے کا خطرہ ہمیشہ موجود رہتا تھا۔ جنگ کے اس امکان کو ختم کر نے کے لئے ”فطری دور” (State of nature)   سے معاشرتی دور (Civil society)  کی طرف مراجعت نا گزیر ہے یہ مراجعت اس لئے ضروری ہے کہ ”قانون فطرت” (قانون فطرت کا تصور St.Augstine نے چوتھی صدی میںدیا تھا اور سود لینے دینے کو ” قانون فطرت” کے خلاف حرام قرار دیا تھا۔ اس کے بر عکس        نے سود کی توجیہ بھی اس ہی قانون فطرت کی بنیاد پر بیان کی ہے)کی کوئی تنظیمی قوت نہیں ہو تی۔

            لاک کے خیال میںLaw of Nature (قانون فطرت) Law of reason   ہی ہے لیکن لاک اور قروں وسطیٰ کے عیسائی تصور قانون فطرت میں ایک بنیادی فرق ہے وہ یہ کہ عیسائی کہ عیسائی مفکرہی قانون فطرت کو اس عقلیت سے تعبیر کرتے تھے جو رضائے الٰہی کے حصول کا ذریعہ تھی۔ ظاہر ہے کہ لاک کا تصور Law of reason  اس سے مختلف ہے۔ لاک کے مطابق عقل کا تقاضہ Law of Reason / nature  یہ ہے کہ فرد Prudent ہو۔

            ”فطری دور” (State of nature)  میں فر اپنے حقوق کا تحفظ خود کرنے پر مجبور ہے۔ اس مجبوری کوختم کرنے کے لئے ایک ملک کے باشندہ ایک خاص نوعیت کامعاہدہ کرتے ہیںجس کے نتیجہ میںقومی ریاستیں اور حکومتیںوجود میں آتی ہیںیہ معاہدہ عالمی نہیں ہوتااور عالمی سیاسی نظام ”فطری دور” (State of Nature) ہی میں رہتا ہے کیونکہ عالمی سطح پر کوئی مقتدر (Soverign) حکومت نہیں قائم کی جا سکتی۔

            قومی حکومت کے قیام کا بنیادی مقصد لا ک کے مطابق لوگوں کی ملکیت کا تحفظ ہے۔قومی حکومت قوانین(Laws) کے ذریعہ یہ فریضہ انجام دیتی ہے۔ریاستی قوانین  ‘Positive’ Laws))  قوانین فطرت پر مبنی ہیں اور بنیادی ”قانون فطرت یہ ہے کہ ہر شخص کی پراپرٹی محفوظ رہے(پراپرٹی کی جو مخصوص تعریف لاک بیان کرتا ہے وہ بعد میں پیش کی جائیگی)۔اپنی پراپرٹی سے کلی طور پر متمتع ہونا ہر شخص کا فطری حق   Inalianable right) )ہے۔ریاستی قوانین افراد کو ان کی ملکیت سے متمتع کر نے کے لئے وضع کئے جا تے ہیں۔اور گو کہ فطری” قوانین  (Law of nature) سے ان کا تعلق ہوتا ہے(فطری قوانین خدا نے بتائے ہیں،گو کہ وہ کہیں لکھے ہوئے نہیں ) لیکن ان کا ماخذایک معاشرتی معاہدہ (Social contract)  انجیل یا عیسائی Scholistic  تفکرات (Discourses) نہیں۔

            لاک کے مطابق یہ معاشرتی معاہدہ ایک ملک کے تمام شہریوں کے درمیان کیا جا تا ہے اور انہی معاہدہ کرنے والوں میں چند کو حکومت چلانے کا اختیار سونپا جاتا ہے۔حکومت کرنے والے اس معاہدہ کے پابند ہوتے ہیںاور اگروہ اس معاہدے کی خلاف ورزی کریںتو ان کے خلاف بغاوت (Civil War)جائزہے .چونکہ اس معاہدہ کا مقصد”پراپرٹی” سے متمتع ہونا ہوتا ہے لہٰذا جن کے پاس ”پراپرٹی ”نہیں وہ اس معاہدہ میں شریک نہیں ہو سکتے۔پراپرٹی پر گفتگو کرنے کے بعد ہم اس نکتہ کی طرف دوبارہ لوٹیں گے کہ مطلق العنان بادشاہ Absulute Monarch)) بھی اس ریاست کا شہری نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ اس معاہدہ میں شریک نہیں ہو تا بلکہ اپنی ذاتی مرضی کی بنیاد پر قانون سازی کر کے ہر شے کو اپنے تابع کر لیتا ہے۔اس معاشرتی معاہدہ کے تحت عوام اپنے حقوق کے تحفظکا انفرادی حق اپنی ایک نمائندہ حکومت کو سونپ دیتے ہیں(لا ک کے خیال میں عہد نامہ قدیم ( (Old testement  سے ثابت ہو تا ہے کہ یہودیوںنے اس نوعیت کے معاہدہ کی بنیاد پر اپنی حکومت بنائی تھی)۔ حکومت کو یہ اختیار نہیں کہ وہ کسی فرد سے اس کی ملکیت چھیں لے(ٹیکس ( (Tax کی وصولیابی کو جواز کے طور پر لاک یہ دلیل پیش کر تا ہے کہ ایک نمائندہ حکومت میں ٹیکس عوامی اکثریت کی منظوری کے مطابق وصول کئے جاتے ہیںلیکن وہ اکثریت کا یہ حق تسلیم نہیں کرتا کہ وہ کسی فرد کے اثاثے (Estates) سے محروم کر دے۔اثاثے (Estates) لاک کے مطابق پراپرٹی کے صرف ایک جزو ہے)حکومت کو یہ حق بھی نہیں کہ اپنے شہریوں  (Citizens) کو کسی خاص عقیدہ کا پابند ہونے کا پابند ہونے پر مجبور کرے۔

            حکومت کو لازماً سیکولر(Secular) ہونا چاہیے، معاشرتی معاہدہ Social contract))  میں مضمربنیادی عقیدہ یہ ہے کہ ہر شہری (Citizen) کا مقدم مقصد حیات اپنی پراپرٹی سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہونا ہے اور اس مقصد حیات کو حاصل کر نے کے لئے وہ ریاست قائم کر تا ہے لہٰذا ریاست تمام دیگر عقائد کو لغو اور لا یعنی گردانتی ہے۔ تمام دیگر عقائد کو انہی معنوں میں یکساں گردانتی ہے کہ وہ یکساں طور پر لغو اور بے معنیٰ اور نظام عدل اور اقتدار کے قیام اور کارفرمائی سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔یہ نظریہ Toliration لا ک نے نہایت تفصیل کے ساتھ اپنے Letter on Toliration   میں پیش کیا ہے۔

            لا ک نے اپنے تصور ”پراپرٹی ” کو اپنے نظریہ قدر سے اخذ کیا ہے اس نظریہ قدر کو Labour Theory of Value کہتے ہیں۔ اس نظریہ کے مطابق انسان اپنی محنت کو قدرت میں شامل کر کے پراپرٹی حاصل کرتا ہے۔ مثلاً جنگل میں جو سیب اُگ رہے ہیںرہے ہیں وہ کسی کی پر اپرٹی نہیں ۔ جب ادریس اسماعیل ان سیبوںکو چنتا ہے تو وہ ادریس اسماعیل کر پراپرٹی بن جاتے ہیں۔کیوں؟ اس لئے کہ ادریس اسماعیل نے قدرت میں اپنی محنت Labour) ) شامل کر کے ان کو اپنا بنایا ہے خود بہ خود یہ سیب ادریس اسماعیل کے پاس کبھی نہ آتے۔اگر ہوا کا جھکڑ چلنے کی وجہ سے اس کے سر پرتابڑ توڑ گرتے تو ادریس اسماعیل بے ہوش ہوجاتا۔ہر وہ شے جس میں کسی نے اپنی محنت شامل کی ہے اس شخص کی ملکیت ہو جاتی ہے۔لاک ابتداًء ملکیت کی تحدید کا قائل نظر آتا ہے۔وہ کہتا ہے کہ ایک شخص کو اتنے آلوچے (Plums) نہیں اُگانا چاہیے جو وہ اس ۔۔۔۔۔۔۔۔کا استعمال نہ کر سکے اس سے پہلے کہ آلوچے سڑ جائیں۔ لیکن وہ کہتا ہے کہ سونا چاندی کے انبار جمع کرنے کی کوئی حد نہیںکیونکہ سونے اور چاندی کے سڑنے کا کوئی امکان نہیں۔لہٰذازرکے تصوّر کی عمومیت نے ملکیت کی تحدید کو عملاً ختم کر دیا ہے۔جب تک محنت زر میںمتشکل ہوتی رہے ملکیت کے اضافہ کی کوئی حد نہیں۔ لاک کے خیال میںزر کی تخلیق اس ہی معاشرتی معاہدہ کے نتیجہ میں عمل میں آئی ہے جس کے نتیجہ میںحکومت قائم کر کے ”فطری دور” (State of Nature) سے سول سوسائیٹی(Civil society) تک مراجعت ممکن ہوئی۔

            جیساکہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے سول سوسائیٹی کے قیام کا مقصد پراپرٹی کا تحفظ اور فروغ ہے۔پراپرٹی (Property) کی تعریف جو لاک کرتا ہے اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ لاک کی مراد سرمایہ دارنہ ملکیت(Capitalist Property) ہے۔لاک کے مطابق پراپرٹی کے تین اجزاء ہیں۔ (الف)انسانی جان  (Life) (ب)  انسانی آزادی  (Freedom) (ج) انسانی املاک Estates)) جب ان تینوںاشیاء کو مر بوط کر کے سرمایہ کی بڑھوتری کی جستجو کی جاتی ہے تو پراپرٹی کو نمو میسر آتی ہے جہاں اور جس معاشرے میںیہ تینوں ایک دوسرے سے مر بوط نہیں وہاں پراپرٹی فروغ نہیں پاتی۔انفرادی ملکیت کو ہیومن رائیٹ(Human Rights) اور جسمانی محنت Human Labour)) میں شامل ہوکر ہی پراپرٹی یعنی سرمایہ دارانہ ملکیت (Capitalist Property) وجود میں آتی ہے اور فروغ پاتی ہے ۔ انسانی جان کا تحفظ اور شخصی آراء اور اعتقادات میں تنوع کا تحفظ اس بات سے مشروط ہے کہ یہ انسانی جان اور اعتقادات اور املاک، پراپرٹی کی بڑھوتری (Accumulation of Capital) کے لئے وقف ہوں۔یہی وہ معاشرتی معاہدہ (Social Contract)ہے جس کی بنیادپر بقول لاک سول سوسائٹی قائم ہوتی ہے اور عمل کرتی ہے۔

            جو افراد اپنی جان ، اپنی آرا اور اعتقادات اور اپنی ذاتی املاک کو پراپرٹی کی بڑھوتری (Accumulation of Capital)  کے لئے استعمال نہیں کرتے وہ اس معاشرتی معاہدہ(Social Contract)  سے باہر ہیںجیسے کہ امریکہ کے قدیم باشندہ(Red Indians) ان Red Indians کواجتماعی طورپرتین صدیوںتک قتل کرناایک پورے براعظم میںپھیلی ہوئی ان کی املاک کوغضب کرنااوران کی معاشرتی زندگی اورتہذیب کوکچل دینایہ سب لاک کے پیروئوںنے اپنافرض سمجھ کراداکیااورکہاکہ ہم اس پرمجبورہیںکیونکہ بغیراس کے امریکہ میںپراپرٹی فروغ نہیں پاسکتی بغیراس قتل عام اورمنصوبہ بندلوٹ مارکے Capital accumulation ناممکن ہے ۔

            حکومت کامقصدپراپرٹی یا Capital accumulation  کافروغ ہے لاک نے ریاست (لاک عموماًحکومت کالفظ استعمال کرتاہے لیکن اس کاسیاسی ادارتی خاکہ ریاستی ہے )کاجوآئیڈیل) Ideal)خاکہ پیش کیاہے وہ اس کی رائے میںپراپرٹی Capital accumulation کے فروغ کے لئے سب سے بہتر سیاسی ادارتی صف بندی ہے ۔

مجلس آئین واصلاح ورعایت وحقوق

یہ بھی ایک سرمایہ داروںکی ہے جنگ زرگری

            لاک کے مطابق ریاست ان سطح پرمشتمل ہوناچاہئے ۔ا)مقننہ   ب)انتظامیہ اور   ج)عدلیہ ۔ان تینوںاداروںکوایک دوسرے سے آزادہوناچاہئے ۔مقننہ کوبالادست ہوناچاہئے اوراگرانتظامیہ Excecutiveمقننہ Legislativeکی بالادستی کوقبول نہ کرے تواس Excecutiveیعنی حکومت کے خلاف سول وارCivil warنہیںعوامی بغاوت برپاکرناجائزہے ۔جب تک مقننہ کی بالادستیSoverignity) ( عملاتسلیم کی جاتی رہے عوامی بغاوت Civil war جائز نہیں مقننہ لازماپراپرٹی رکھنے والے عوام کی نمائندہ ہوناچاہئے اورپراپرٹی رکھنے والے عوام کواس کاحق ہے کہ گاہے گاہے مقننہ کومنتخب کریںاوران انتخابات کی بنیاد پرہی حکومتیںقائم کی جائیں۔

            یاد رکھئے کہ لاک کے مطابق پراپرٹی محض املاک نہیںبلکہ پراپرٹی میںجان اور آراء  ( Conciense ) بھی شامل ہیںپراپرٹی ان جانوںآراء اوراملاک کوکہتے ہیںجوبڑھوتری سرمایہ کے لئے وقف کی جائیںمقننہ انہی جانوں،آراء اوراملاک کی نمائندہ ہوتی ہے ۔اگرملک میںتمام افراداپنی جانیں،آرااوراملاک سے بڑھوتری سرمایہ کے لئے وقف کردیںتوبالغ رائے دہی کے اصول کی بنیادپرمقننہ وجودمیںآکرکام آسکتی ہیںلاک کے دورمیںانگلستان میں ایسانہ تھا۔لہٰذالاک نے غریب طبقہ The poorاورعورتوںکورائے دہندگان Electorate کی صف سے خارج کرنے کی سفارش کی اسی طرح جب امریکی دستوربنا(لاک کے مرنے کے تقریبا٨٠ سال بعد)توعورتوں،غلاموںاور ریڈانڈین کوجو(دھڑادھڑقتل کئے جارہے تھے)رائے دہندگان ریاست کے شہری شمارنہ کیاگیایہ اس لئے کہ انگلستان کی عورتیںاورغربااورامریکاکے ریڈانڈین غلام اورعورتیںاپنے ہیومن بینگ (Human being)ہونے کاشعورنہیںرکھتے تھے۔اورانہوںنے اپنی جانوں،آراء اوراملاک کوبڑھوتری سرمایہ کاذریعہ بنانے کاکوئی ارادہ ظاہرنہیںکیاتھا۔

            آج ساری دنیا میںبالغ رائے دہی کے اصول کوتسلیم کیاجاتاہے لیکن مستحکم سرمایہ دارانہ حکومتیںصرف ان علاقوںمیںبنائی جاسکتی ہیںجہاںعمومی طورپرجانوں،آراء اوراملاک کوبڑھوتری سرمایہ کے لئے وقف کردیاگیاہے یہ بات یورپ ،امریکہ (شمالی وجنوبی)روس اوربھارت وغیرہ کے بارے میںتعین سے کہی جاسکتی ہے لیکن ایران،لبنان،الجیریااورمصرکے انتخابی تجربات یہ بتاتے ہیںکہ بالغ رائے دہی کے اصول کے بنیادپرسرمایہ دارانہ ریاست کی تسخیر کی جدوجہد کو آگے بڑھانابھی ممکن ہے لہٰذاجہاںبھی استعماری سرمایہ دارانہ قوتوںکے لئے ممکن ہوتاوہ ایسے انتخابات کی بنیادپرقائم ہونے والی حکومتوںکوختم کردیتے ہیںجن  ذریعہ وہ لوگ برسراقتدارلائے ہوںجنہوںنے اپنی جانیں،آراء اوراملاک بڑھوتری سرمایہ کے سپردنہ کی ہو،نہ کرنے کاارادہ رکھتے ہوں۔لیکن استعمار کے لئے ایسی سرمایہ دارانہ مخالف حکومتیںبرطرف کرناہرجگہ ممکن نہیںانہوںنے مصرمیںاورالجزائرمیںیہ کامیابی سے کردیاہے لیکن ایران،لبنان اورغزہ میںیہ نہ کرسکے۔اس سے ثابت ہوتاہے کہ بالغ رائے دہی کی بنیاد پرقائم انتخابی عمل کوسرمایہ دارانہ نظام کی تسخیر کے لئے مخصوص حالات میںاستعمال کیاجاسکتاہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *