ڈاکٹر جاوید انصاری-

پہلی ضرورت جمہوری ریاست کے وجود کی یہ ہے کہ انسان جبر کے بغیر خود بخود فطرتاً آزادی کی بڑھوتری کو مقصدِ زندگی کے طور پر قبول نہیں کرتا چنانچہ ہر دستور میں بالخصوص امریکی دستور میں جس چیز کو مقدس گائے کے طور پر رکھا گیا ہے اور جس کو جمہوری عمل سے ما وراء کی حیثیت دی گئی ہے وہ ہیں حقوقِ انسانی(Haqooq e Insani) ۔

حقوقِ انسانی(Human Rights) کیا ہیں ؟

حقوقِ انسانی در اصل وہ ذرائع ہیں جن کے بغیر سرمائے کی بڑھوتری کے فرض کو فرد ادا نہیں کر سکتا۔

حقوق انسانی کو جمہوری عمل کے اگر ماتحت کر دیں تو اس کا امکان بھی مو جود ہے کہ حقوق انسانی کو رد کر دیا جائے۔ امریکی دستور جس وقت بننے لگا تو بالخصوص و ہ مفکرین جنہوں نے فیڈرلسٹ پیپر ز لکھے تھے ، ھمیلٹن اور میڈے سن وغیرہ انہوں نے کہا کہ بنیادی مسئلہ یہی مسئلہ ہے کہ ایک اقلیت کے اوپر ایک اکثریت ایسے قانون مسلط نہ کردے جو حقوق انسانی کے فروغ کو ملک میں ممکن نہ بنائیں ۔ چنانچہ امریکی دستور کے اندر اور اس کے بعد جتنے دساتیر لکھے گئے ہیں سب کے اندر جو بنیادی اعتقاد ہے وہ بنیادی اعتقاد حقوق انسانی کا ہے۔ گویا حقوق انسانی ایک ایسا عقیدہ ہے جس پر ایمان لانا ضروری ہے اور اکثریت کو بھی اس بات کا حق حاصل نہیں کہ وہ حقوق انسانی کو رد کرے۔ ان حقوق کو ماننا، تسلیم کرنا اور اس کے لیے سہولتیں مہیا کرنا ہر ایک کا فرض ہے اور جو اس فرض کی راہ میں حائل ہوا کسی قیمت پر برداشت نہ کیا جائے۔

حقوق انسانی، پختہ مذہبی عقیدہ:

 حقوق انسانی کے منشور کو سرمایہ دارانہ نظام کے تحت پختہ مذہبی عقیدے کی حیثیت حاصل ہے جس کا انکار ممکن نہیں۔ حقوقِ انسانی دستور کا دیباچہ ہیں جس کے نتیجے میں فر د کو اس بات کا مکلف بنایا جاتا ہے کہ وہ چند چیزوں کے معاملے میں خود مختار ہے مثلاً یہ کہ وہ اپنی زندگی کیسے گزارے گا کیا رائے رکھے گا؟ وہ رائے کا اظہار کس طریقے سے کرے گااور سب سے اہم یہ کہ وہ سرمایہ دارانہ ملکیت کا تابع بنا دیا جاتا ہے ۔ سرمایہ دارانہ ملکیت (Capitalist Property)اور اس کے جتنے بھی مضمرات ہیں حقوق انسانی کی تفصیل کے ضمن میں بیان کیے جاتے ہیں لہٰذا شخصیت کو اس طریقے سے تعمیر کرناکہ وہ آزادی کو زندگی کا مقصدِ اولیٰ تصور کرے اور آزادی کو حاصل کرنے کے لیے اس جبر کو قبول کرے جو حقوق انسانی کو ادارتی شکل(Institutionalize) دینے کے لیے کسی معاشرے میں ضروری ہوتے ہیں یہ سرمایہ دارانہ جمہوری ریاست کا فرض اولین ہے اور اس فرض اولین کو ادا کرنے کے لیے فلسفہ حقوق انسانی کو سرمایہ دارانہ اور لبر ل دستور کے دل کی حیثیت دے دی گئی ہے ۔ چنانچہ ہر جمہوری نظام کے اندر ریاست کا اولین فریضہ یہ کہ وہ بنیادی حقوق کو دیگر تمام حقوق سے بالا تر تصور کرے۔ اس لیے آج آپ جانتے ہیں استعمار اس بات کا داعی ہے کہ ہراس ملک میں جہاں اس کے مرتب کردہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے ہر اس ملک میں جہاں اس کے مروج کردہ بنیادی حقوق کی نفی ہو رہی ہے وہاں وہ عسکری مداخلت کرے اور اقوام متحدہ کی امن فورسز اوراقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اب تقریباً اپنا یہ کردار امریکہ سے اور دیگر قوتوں سے منوا لیا ہے کہ فی الواقع بنیادی حقوق جو ہیں وہ عالمگیر قانون ہیں(Universal Law) اور بنیادی حقوق کیا ہیں ؟جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ سرمایے کی بڑھوتری کی فرضیت کو ادا کرنے کے لیے جن وسائل کی ضرورت انفرادی طور پر ہوتی ہے وہ بنیادی حقوق ہیں ان کو عالمی قانون کے طور پر نافذ کرنا اور عالمی قانون کی حیثیت سے تسلیم کرانا جمہوری ریاست کا اولین فرض ہے۔

حقوق انسانی سے بالاتر کوئی شے نہیں:

                اگر جمہوری عمل کے نتیجے میں اس چیز کا خطرہ پیدا ہو کہ بنیادی حقوق سے بالا تر کسی قانون کو بحیثیت ایک نافذ قانون کے مان لیا جائے تو جمہوری عمل کو معطل کر دیا جاتا ہے ۔مثلاً ہمارے سامنے سب سے اہم مثال الجیریا کی ہے الجیریا میںفی الواقع ایسی صورت پیدا ہو گئی تھی جس کے نتیجے میں انتخابات کے ذریعے اس بات کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا کہ ایک ایسی حکومت قائم ہو گی جو شریعت کو بنیادی حقوق اور دیگر قوانین سے بالا تر حیثیت دے گی۔ لہٰذا فرانس اور امریکہ کی مدد سے ان انتخابات کو کالعد م قرار دے دیا گیا۔ تو یہ کوئی حادثاتی بات نہیں خود مغربی مفکرین کے ہاں بالخصوص اس وقت مغرب کا سب سے بڑا  سیاسی مفکر جان رالس ہے اس کی کئی کتابیں ہیں اس کی مشہور کتاب ہے جو1995ء میں چھپی جس کا نام ہے سیاسی لبرل ازم (Political Liberalism)۔ وہ اس کتاب میں کہتا ہے کہ اگرحقوق انسانی کو معطل کرنے کی تحریکیں اٹھیں تو آپ ان کو ایسے ہی تصور کریں جیسے وبا ہوتی ہے ، طاعون یا جیسے کوئی اور وبا ہوتی ہے ۔  اسے ایک وبا کے طور پر تصور کریں اور بالکل جس طریقے سے وبا کو ختم کرنے کے لیے ہر عمل جائز ہے اسی طریقے سے ان تحریکوں کو بھی ختم کرنا جائز ہے۔ (دیکھیے پولیٹیکل لبرلزم،ص٦٤۔ شائع کردہ بلیک ول پبلشرز آکسفورڈ) تو الجیریا میں جو کچھ ہوا وہ کوئی حادثاتی نہیں تھا ۔ سرمایہ دارانہ عقلیت اسی عمل کی متقاضی ہے ۔افغانستان کو بھی اسی لیے تباہ کیا گیا کہ اس نے دستوری اور جمہوری ریاست کا ڈھانچہ قبول نہیں کیا اور ایک متوازی ریاست بننے کی کوشش کی۔

اجتماعی حقوق کی جگہ حقوق انسانی:

                سرمایہ دارانہ نظام کو ایک ایسی اجتماعیت (Collectivity)کی ضرورت تھی جو سرمائے کے فروغ کو بھی ممکن بنائے اور اس کے ساتھ ساتھ سرمایہ داری سے متصادم تمام اجتماعیتوں کو ختم کرے لیکن Post-Fordism میں مزدور طبقے کی اجتماعیت بھی سرمایہ داری کے لیے ناقابلِ برداشت ہو چکی ہے لہٰذا اس کا انہدام بھی سرمائے کے عمومی تحفظ کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے Post-Fordism میں اجتماعی حقوق Collective Rightsکی بجائے حقوقِ انسانی  (Human Rights)کی جد و جہد ضروری سمجھی گئی ۔Human Rightsکا فروغ سرمایہ داری کے عمومی تحفظ کی ضمانت ہے  لہٰذا Human Rightsکی اصلیت کو سمجھنا ہمارے لیے بہت ضروری ہے۔

انسانی حقوق سرمایہ کی بڑھوتری کا ذریعہ ہیں:

                Human Rightsمحض سرمایے کی بڑھوتری کو ممکن بنانے کے ذرائع ہیں ۔ جیسے کسی نے کہا Human Rights are the observers of the duty to accumulate the capital.سرمایہ دارانہ معاشرے میں فرض کیا ہے؟۔ سرمایے کی بڑھوتری۔ یہ فرض ہے۔ اس فرض کو اداکرنے کے لیے کچھ حقوق دیے گئے ہیں بالکل جس طریقے سے اللہ تعالیٰ اگر ہمیں ارادہ عطانہ کرتے تو ہم نماز ادا نہیں کر سکتے تھے یا فرض کریں جانوروں کی طرح ہم ہوتے تو ہمارے لیے نماز ممکن نہیں تھی۔ اسی طریقے سے سرمائے کی بڑھوتری کو ممکن بنانے کے لیے بھی کچھ ذرائع کی ضرورت تھی Human Rightsوہ ذرائع ہیں جو انسان کو یکسو کر دیتے ہیں اس بات پر کہ زندگی کا مقصد صرف سرمائے کی بڑھوتری ہے۔ Post-Fordismکا بنیادی وظیفہ یا Post-Fordismکی بنیادی ایمانیات بنیادی حقوق Human Rightsہیں جس چیز کو وہ فروغ دینا چاہتی ہے وہ Human Rightsہیں ۔ جس وقت کسی معاشرے میں Human Rights عام ہو جائیں تو ہر شخص اس بات پر مطمئن ہو جائے گا کہ اجتماعیت collectivityکوئی فیصلہ بھی کیوں نہ کرے وہ تو بحیثیت ایک فر د کے اپنے آپ کو سرمائے کی بڑھوتری کی نذر کر چکا ہے اور Human Rightsوہی Rightsہیں جن کے ذریعے سرمائے کی بڑھوتری کو ممکن بنایا جاتا ہے ۔ اگر Human Rightsایک سو سائٹی میں مو جود نہ ہوں تو ظاہر ہے کہ وہ سرمائے کی بڑھوتری کے قابل نہیں رہتی۔Human Rightsوہ حقوق ہیں یا Human Rights وہ ذرائع ہیں جو اس فرضیت کی ادائیگی کو ممکن بناتے ہیں جسے ہم سرمائے کی بڑھوتری کہتے ہیں ۔ چنانچہPost-Fordismسوسائٹی میں اجتماعی حقوق collective Rightsکی جگہ بنیادی حقوق Human Rightsلے لیتے ہیں۔

بنیادی حقوق ایک خاص تاریخ کی تخلیق ہیں:

جس کا مقصد محض سرمائے کی بڑھوتری ہے۔

                کسی بھی تصور (Concept) کو تاریخ سے سہونظر کر کے اس کی مجرد حیثیت میں لے لینا نہایت خطرناک بات ہے۔ بنیادی حقوق Human Rightsکی تاریخ سے واقف ہوئے بغیر Human Rightsکے اوپر کچھ کہنا یا لکھنا یا ہیومن رائٹس کی دوسری تعبیر پیش کرنا یہ ہیومن رائٹس کی حقیقت اور اصلیت سے دانستہ سہو نظر کرنا ہے ۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم مغربی اصطلاحات کی تاریخ اور فلسفے سے واقفیت کے بغیر ان اصطلاحات کے غلط اردو تراجم کی بنیاد پر مغرب کا اسلامی محاکمہ کرتے ہیں۔ ہیومن رائٹس کی آپ کوئی بھی تعریف بیان کریں تاریخ میں ہیومن رائٹس وہی ہیں جو مغرب نے قائم کیے اور ہیومن رائٹس وہی ہیں جو ہر فرد کو سرمایے کی بڑھوتری کو ممکن بنانے کے وسائل فراہم کرنے کے لئے عطا کئے گئے۔ اگر ہیومن رائٹس کے لئے وسائل مو جو نہ ہوں تو سرمائے کی بڑھوتری ممکن نہیں ہو سکتی اسی لیے کسی بھی ایسے تصور کو جو غیر اسلامی تاریخ سے نکلا ہے اسلامی جامہ پہنانے کی کوشش ایک نہایت خطرناک بات ہے ۔ اس کا فلسفہ اور اس کے اعتقادات دوسرے ہیں لہٰذا اسلامی جمہوریت ، اسلامی انسانی حقوق ، اسلامی ویلفیئر اسٹیٹ یہ تمام چیزیں در اصل اسلام کو مغربی تہذیب میں ضم کرنے کے ذرائع ہیں او ر اسلام کی انفرادیت کو مجروح کرنے کا باعث بن سکتے ہیں۔ ایسا کرنے والوں  کی نیت اور اخلاص میں کوئی شک کرنا درست نہیں مگر اس کا سبب محض لاعلمی ہے لہٰذا ان اہم معاملات کی طرف علماء کرام اور صوفیائے عظام کو خاص طور پر متوجہ کرنا چاہیے کہ مغربی تاریخ سے اور بالخصوص مغربی Intelectual Historyسے ، مغربی فکری تاریخ سے خوب اچھی طرح واقف ہوں تاکہ مغربی فلسفے کی اسلام کاری کی کوشش کو ناممکن بنایا جا سکے ۔ انسانی حقوق کے حوالے سے عالم اسلام کو زبردست خطرہ درپیش ہے۔ انسانی حقوق کو اسلامی جواز فراہم کیا جا رہا ہے۔ انسانی حقو ق کی تاریخی حقیقت اور انسانی حقوق کی تاریخی حیثیت سے واقف ہوئے بغیر اس خطرے کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا ۔یہ بات اچھے طریقے سے سمجھ لینا چاہیے۔ کہ اس وقت سرمایہ داری کی مزاحمت مغرب میں اس وجہ سے کمزور نہیں پڑی کہ یہ کوئی Technologicalضرورت ہے یعنی سرمایہ کی بالا دستی اور عالمگیریت کی کوئی دوسری اجتماعیت (Collectivity) بالخصوص مزدوروں کی اجتماعیت  (Collectivity)نہیں کر سکتی اس کی کوئی ٹیکنالوجیکل بنیاد نہیں حقیقت تو یہ ہے کہ نئی ٹیکنالوجی کارکنوں کے شعبے کو زیادہ طاقتور بنادیتی ہے اور ایک شعبہ کو دوسرے شعبے کے مقابلے میں کھڑا کرتی ہے اس ٹیکنالوجی کے نتیجے میں یہ نہیں ہوتا کہ قوت مزدوروں سے نکل کر مینجرز کے ہاتھ میں چلی جاتی ہے بلکہ ہوتا یہ ہے کہ ایک کارکنوں کے ایک گروہ کے ہاتھ سے نکل کر دوسرے گروپ آف ورکرز کے ہاتھ میں چلی جاتی ہے لیکن دوسرا گروپ اپنے آپ کو انتظامیہ کا حصہ سمجھتا ہے اور جس وجہ سے اس وقت سرمایہ داری کی مزاحمت (Resistance)مغربی دنیا میں موجود نہیں ہے اور جس وجہ سے سوشل ڈیموکریٹک جماعتیں کنزرویٹو جماعتوں کے پروگرام ہی پیش کر رہی ہیں۔

پوسٹ فورڈازم کا مذہب انسانی حقوق اور سرمایہ کی غلامی:

                اس طرز عمل کے باعث مغرب بالخصوص یورپ میں مزدوروں کی اجتماعیت (Collectivity)، نہ صرف منتشر ہوگئی ہے بلکہ ختم ہو گئی ہے اور مزدور اس بات پر راضی ہوگئے ہیں کہ وہ Human Rightsکو براہِ راست حاصل کرسکیں، اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ Fordismاور Post-Fordismمیں بنیادی طور پر اعتقادی فرق مو جو د ہے ۔ اعتقادی فرق سے مرادیہ ہے کہ پہلے مزدور طبقہ یہ سمجھتا تھا کہ  Collective Rights کے بغیر وہ سرمایہ کاری کے عمل سے پورے کے پورے طور پر مستفید نہیں ہو سکتا Post-Fordismدور میں مزدور طبقہ اپنے آپ کو بحیثیت ایک اجتماعیت کے تسلیم نہیں کرتا بلکہ وہ کہتا ہے کہ Human Rightsکا طریقہ کار Discourse ہی عالمی طریقہ کار یونیورسل discourseہے ہر آدمی سرمایہ دارانہ معاشرے کا حصہ ہے اورہر آدمی کی زندگی کا مقصد سرمائے کی بڑھوتری اور  فروغ ہے اور ہر آدمی اگر صحیح جدو جہد اور جستجو کرے گا تو اس کو سرمائے کی بڑھوتری کا فائدہ پہنچے گا یہ چیز Human Rightsکو ممکن بناتی ہے۔ Fordismسے Post-Fordismمیں تبدیلی کسی تیکنیکی بنیاد پر نہیں ہوئی بلکہ یہ عمل اعتقادی تبدیلی کی وجہ سے ممکن ہوا۔ سرمایہ داری کی اس کامیابی کے باعث سرمایے نے ہر آدمی کو براہِ راست سرمایہ کاری کے عمل میں شریک کر دیا ہر شخص سرمایے کا خادم ہے اور موجودہ Post-Fordism کے نظمِ سرمایہ داری میں طبقات موجو د نہیں، کوئی سرمایہ دار نہیں ،کوئی مزدور نہیں ،ہر شخض سرمایے کا خادم ہے، غلام ہے، سرمایہ کی خدمت ہی اصل بندگی ہے اور ہیومن رائٹس اس کا مذہب ہے۔

مغرب میں مذہب کی جگہ انسانی حقوق نے لے لی:

سرمایہ کی پرستش اصل مذہب ہے:

                سرمایہ دارانہ معاشرے میں مذہب کی جگہ جس چیز نے لی ہے وہ ہیومن رائٹس ہیں ۔ ہیومن رائٹس پرسب کا اعتماد ہے اور سب اس پر یقین رکھتے ہیں کہ اگر کسی طریقے سے فلاح حاصل کرنا ہے تو سرمائے کی بڑھوتری میں حصہ لینا ہے لہٰذا کسی نہ کسی طریقے سے سرمائے کی بڑھوتری کے عمل میں شریک ہوں ۔ ان معنوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جو عمل سترہویں صدی میں جب یورپ کے اندر خدا کا بند ہ (Subject of God) تھا۔ خدا کا بندہ سرمائے کے بندے میں تبدیل ہو گیا۔(Subject of God has been transformed into subject of capital. Subject of God has become the subject of Capital.) یہ پورا عمل Post-Fordismکی وجہ سے ممکن ہوسکا ۔ Post-Fordismکے باعث مغربی تہذیب میں اب ایک عام آدمی کی حیثیت Subjectivity سرمایہ خود متعین determine کرتا ہے ۔مغرب کا آدمی پہلے خدا کی پرستش کرتا تھا اس کے بعد وہ قوم کی پرستش کرتا تھا اب وہ نہ خدا کی پرستش کرتا ہے نہ قوم کی پرستش کرتا ہے وہ سرمائے کی پرستش کرتا ہے۔ مختصر طور پر اس پورے تاریخی عمل کو ہم بیان کریں تو تین جملوں میں اسے سمویا جاسکتا ہے کہ

“Subject of God has been transformed into the subject through the displacement of christanity by collective rights and through the displacement of collective rights by human rights.”

اصل رب، حق، خیر صرف سرمایہ ہے:

                سرمایہ داری نے پہلے عیسائی تصورِ خیرو حق کو اجتماعی تصورِ خیر اور اجتماعی تصور ِحق سے تبدیل کیا یہ عمل سوشلز م اور سوشل ڈیموکریسی نے کیا اوراس کے بعد اجتماعی تصورِ حق کو انسانی حقوق Human Rights کے ذریعے تصورِ حق میں تبدیل کیا گیا اور یہ کام Post-Fordismکے اندر ممکن ہوا۔ یہ جو اجتماعیتوں (Collectivities)  کا اختتام ہے یہ خود سرمائے کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ ہے ۔اس لیے کہ جب معاشرے کو اس طریقے سے آپ منتشر کر دیتے ہیں کہ معاشرے میں خاندان برادری، قبیلہ، مذہب کی بنیاد پر صدیوں سے قائم اجتماعیتیں ریزہ ریزہ کر دی جائیں اور ہر شخص کو تنہا کر کے سرمایے کا خادم بنا دیا جائے تو سیاسی عمل مہمل ہوجاتا ہے اس لیے کہ اگر ہم سب کے سب اس بات پر متفق ہیں کہ زندگی کا اکیلا کام سرمائے کی خدمت ہے تو یہ محض تکنیکی کام رہ جاتا ہے کہ یہ معلوم کیا جائے کہ سرمائے کی خدمت کس طریقے سے کی جائے سیاسی اختلاف کی گنجائش سرے سے ختم ہو جاتی ہے اور مسئلہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام نے اپنی جو تو جیہہ بیان کی ہے وہ آزادی ہی کے تناظر میں بیان کی ہے جس کے نتیجے میں انسان سرمایہ کا بندہ حق اور خیر سرمایہ [Capital] کے مترادف بن جاتے ہیں۔ چنانچہ سیاسی اختلاف کا ختم ہو جانا جمہوریت کے ختم ہو جانے کے سوا کوئی دوسری چیز نہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جمہوریت کے بارے میں کوئی ولولہ(Enthusias)  اس وقت سرمایہ دارانہ معاشروں میں تقریباً ناممکن ہو کر رہ گیا ہے۔ امریکہ کے گزشتہ صدارتی انتخابات میں پچاس فی صد سے کم رائے دہنندگان نے حصہ لیا۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد سے ۔ (یعنی نکسن کے انتخابات کے بعد سے) جمہوریت سے برت کا عمل پورے مغرب میں عام ہے ۔ اسے کہتے ہیں شہریت سے علیحدگی کا عمل(Withdrawal from Citizenship)۔

کیا ویلفیئر اسٹیٹ کا قیام ممکن ہے:

                مغربی معاشروں میں زندگی کے بے معنی ہونے کا تصور اس سیاسی بے زاری اور سیاسی عمل سے لا تعلقی کا ایک اظہار بھی ہے۔ یہاں تو صرف اس بات کا ادراک کرنا ہے کہ یہ جو اجتماعیتوں کا ختم ہو جانا Post-Fordismکی بنیادی کمزوری ہے ۔ اور اس بنیادی کمزوری سے اس طریقے سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا کہ انہی اجتماعیتوں [Collectives] کو دوبارہ قائم کیا جائے جن کو Post-Fordismنے ختم کیا ہے جو لوگ جمہوریت کو ذریعہ تبدیلی سمجھتے ہیں بنیادی طور پر Collective Rightsکی بنیاد پر وہ اجتماعیتوں کو قائم کرنا چاہتے ہیں جن کو سرمایہ داری نے خودختم کیا ہے جس اجتماعیت کو ہمیں قائم کرنا ہے وہ اجتماعیت وہ ہے جو سرمایہ دارانہ حقوق کا انکار کرے چاہے وہ collective Rights ہوںچاہے وہ Human Rightsہوں ۔ سرمایہ داری کا انکار اور سرمایہ دارانہ حقوق کا انکار ایک ہی چیز کے دو نام ہیں تو اگر فی الواقع Post-Fordismدور میں سرمایہ دارانہ نظام کو Transcendکرنا ہے ۔ سرمایہ دارانہ نظام کو عبور کرنا ہے تو ایک ایسی اجتماعیت کو قائم کرنا ہو گا جو سرمایہ دارانہ حقوق کو رد کرے ۔ اس کے بر عکس اگر آپ ویلفیئر رائٹس کی بنیاد پر سرمایہ دارنہ نظام کو قائم کریں گے تو آپ صرف ویلفیئر اسٹیٹ قائم کر کے Post-Fordismسے Fordismکی طرف رجوع کرنے کی کوشش کریں گے جو فی العمل نا ممکن ہے ۔ سرمایے کے بین الاقوامی ارتکاز کے باعث جسTransition کی کوشش کر رہے ہیںوہ سرے سے ممکن ہی نہیں۔ اگر فرض کیجیے ممکن ہو بھی جائے تو وہ سرمایہ داری کی ہی تجدید ہے ، سر ما یہ داری کا ہی احیاء ہے اگر فی الواقع آپ اجتماعی حقوق کی بنیاد پر ایک نئی اجتماعیت Collectivity کے قیام کی کوشش کرتے ہیں اور اس میں کامیاب ہو تے ہیں تب بھی وہ محض سرمایہ داری کا احیاء ہے ۔ لہٰذا سرمایہ داری کو عبور کرنا اورسرمایے کی بڑھوتری کو مقصد حیات کے طور پر رد کرنا ہے تو آپ کو لازماً ایک ایسی اجتماعیت پیدا کرنا ہے جو سرمایہ داری کو رد کرے اور سرمایہ دارانہ حقوق کو رد کرے ۔ ظاہر ہے ہمارے اور آپ کے ملک میں وہ اکیلی اجتماعیت اسلام کی اجتماعیت ہے جس کے اندر سرمائے کی بڑھوتری کو زندگی کا مقصد بنانے کا سرے سے کوئی تصور مو جود نہیں ہے۔مجھ جیسے جاہل اوربے عمل آدمی کو تو یہی معلوم ہے کہ ہم خدا کی عبادت کرتے ہیں سرمائے کی عبادت نہیں کرتے اور سرمائے کی عبادت کو خدا کی عبادت کا ذریعہ بھی نہیں سمجھتے ،میں تو یہی سمجھا ہوں۔ ہر وہ عمل جس کے نتیجے میں سرمائے کی عبادت کو جائز کیا جاتا ہے وہ در اصل اسلام کو کمزور کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *