ہندو قوم پرستی(Hindu National) دراصل ثقافتی قوم پرستی لبرل نیشنل ازم اور رومینٹک نیشنل ازم کا ملغوبہ ہے جس میں آپ کسی حد تک مذہبی قوم پرستی کو بھی شامل کرسکتے ہیں۔ یعنی ہندو قوم پرستی کے تحت ریاست ایک خاص نسل، گروہ کے حقوق اور سیاسی بقاء کے اظہار کی تاریخی طور پر فطری لحاظ سے وارث ہے۔ لہٰذا ہندو ریاست کا قیام ہندو و قوم کی بقا کے لیے ضروری ہے جہاں وہ اپنی لوک روایات، لوک رسوم و رواج، لوک اعتقادات، لوک داستانوں کا  اظہار کرنے میں آزاد ہوں۔

                ہندو قوم پرستی کا دعویٰ ہے کہ ہندو مشترکہ کلچر اور ہندوستان میں بسنے والی دیگر اقوام اگر ہندو روایات ہندو کلچر اور ہندو تاریخ کو اپنا لیتی ہیں تو وہ بھی ایک خاص درجے میں ہندو قوم کا حصہ ہیں۔

                فی زمانہ ہندو قوم پرستوں نے تمام لبرل اقدار، آزادی رواداری، مساوات، انفرادی حقوق اور قومی شناخت کو اپنالیا ہے اور پر تعیش لذت انگیز زندگی گزارنے کے بھی داعی ہیں لہٰذا ہندو قوم پرستی کوئی پرانی تاریخی چیز نہیں بلکہ جدید سیاسی تاریخ کا حصہ ہے۔ جس کے تحت قومی ریاستیں وجود میں آئیں… آئے اب ہندو توا کے تحت ہندو قوم پرستی کی تفصیل کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ہندو نیشنل ازم کو سمجھنے کے لیے ہندو تواکو سمجھنا ضروری ہے۔ ہندو توا ہندو نیشنل ازم ہی کا دوسرا نام ہے۔

ہندو توا Hindu tiva:

                ہندو سیاست ہندوستان میں ہندو توا کے ساتھ جڑی ہوئی ہے مختلف ہندوسیاسی جماعتوں کے مجموعے کو ہندو توا کہا جاتا ہے ہندو توا مندرجہ ذیل سیاسی ہندو پارٹیوں کے مجموعے کا نام ہے۔

١… بھارتیہ جنتا پارٹی

٢… شیوا سینا

٣… آکھل بھارتیہ ہندو مہاسبھا

٤… بھارتیہ جن سنگھ

٥… رام راج پرشید

٦… وشوا ہندو پرشید

٧… بج رنگ دَل (سکھ پارٹی)

٨… راشٹر یا سوا بام سوک سنگھ

               

                ہندو توا کے ماتحت اوپر بیان کردہ سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں کا ہندو قوم پرستانہ سیاست میں ایک خاص مقام ہے اور تمام سیاست دان ہی لیڈروں کے ارد گرد گھومتی ہے ۔

… بال گنگا دھرتلک

… پنڈت مدن موہن مالوا

… وینائک دامودار ساور کر

… مدھو سادشؤ گول واکر

… کشوا بلی رام ہجوار

… سائما پرشاد مکرجی

… دیند یپال آیا دھپایا

… بال ٹھاکرے وغیرہ

… واجپائی

ہندو توا کی سیاست:

                ہندو تو اپنی سیاست کی بنیاد مذہب پر استوار کرنے کی مخالف ہیں گوکہ وہ ہندو مذہب کی بنیاد آورشوں کی انفرادی زندگی میں بجا آوری پر زور دیتے ہیں، ہندو توا والے مذہب سے زیادہ سیکولرازم پر ایمان رکھتے ہیں۔ اسی لیے وہ مذہب کو ریاستی عمل سے باہر سمجھتے ہیں اور ریاستی سیاست (جمہوریت) میں وہ ہندو نیشنل ازم کو ایک قوت متحرکہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور ہندو نیشنل ازم کو بطور آئیڈیالوجی کے استعمال کرتے ہیں ہندو توائی جدید ہندوستانی ری پبلک کو ہندو راشٹریہ یعنی ہندو ریاست کے علی الرغم سمجھتے ہیں اور ری پبلک آف انڈیا کو ہندو ورثہ اور اس کی خود ساختہ تاریخ کی حفاظت کی امین سمجھتے ہیں… جیسے کہ بھارتیہ جنتا پارتی (بی جے پی) کے لٹریچر اور اس کے سلوگن میں ہندو راشٹریہ یعنی جدید ہندو ریاست کے قیام کو اپنی بنیادی نظریہ قرار دیتے ہیں۔ بی جے پی اسی ہندو راشٹریہ کے دائرے میںبدھ ازم، جین ازم اور سکھ ازم کو بھی بیان کرتے ہیں اور ان مذاہب کے ماننے والوں کو بھی ہندو قرار دیتے ہیں۔ جبکہ بدھ ازم، جین ازم اور سکھ ازم کے پیروکار اپنے آپ کو ہندوؤں سے الگ سمجھتے ہیں۔

                چنانچہ ہندو توا والے اپنی سیاست کووسعت دینے کے لیے مذہب کو اپنی سیاست سے جدا قرار دیتے ہیں۔ اور اپنی جدوجہد کو خالصتاً ہندو نیشنل ازم کا امین سمجھتے ہیں۔ جس کا بنیای مقصد ہندو راشٹریہ  یعنی ہندو ریاست کا قیام ہے۔

ہندو توا کیا ہے؟

                ہندو توا کا نظریہ کوئی پرانی چیز نہیں ہے اس کا ظہور بیس ویں صدی میں ہوا ہندوئوں کی طرف سے جنگ آزادی کا ہیرو جس کا نام وینائک دامودار تھا عوام میں ویر ساور کر  کے نام سے جانا جاتا تھا اس نے انگریز کی اسیری کے دوران جیل میں ایک کتاب لکھی جس کا نام ہندو توا تھا۔ بھاگو اگیتا کو ہندو مذہب میں بائبل کی حیثیت حاصل ہے اسی طرح ہندو توا کی کتاب کو جدید ہندوستان میں ہندو تاریخ، ہندوورثے، ہندو نسل اور ہندو نیشنل ازم پر حروف آخر سمجھا جاتا ہے، یاد رہے ہندو توا کی کتاب مراٹھی زبان میں لکھی گئی، دیر ساور کرکے مطابق ہند تواکا مطلب ہندوستانی ہونا ہے،جس کو وہ ”ہندو پن” Hindunessکہتا ہے۔ Hunduness کا مطلب اور مقصد ہندو رثے اور تہذیب کی حفاظت ہے اور ہندو طرز رہائش یعنی Hindu Way of Life کو اختیار کرنا ہے۔ ساورکرکے مطابق ایک ہندو اپنے ہندو پن کو چھوڑے بغیر کسی غیر ہندو مذہب کا پیروہوسکتا ہے۔ اور اپنی ہندوانہ روش پر قائم رہتے ہوئے دوسرے خدا یا خدائوں کی پرستش بھی کرسکتا ہے گو کہ اس کا یہ عمل ناقص ہوگا لیکن غلط یا قابل اعتراض نہیں گرداناجاسکتا، لہٰذا اسی کثیر جہتی ہماہمی کی بنیاد پر ان ہندو پن والوں کو انسانیت دوست دنیا کو کامیابی کی طرف لے جانے والے اور امن و آشتی کا گہوارا بنانے کے لیے ایک دوسرے کی مدد اور قوت فراہم کرنے والے ہندہ توا  دنیاوی بھلائی اور فلاح کے لیے،  نہ صرف ہندو ازم کی بھلا اور صلح چاہتا ہے بلکہ وہ سکھ ازم، بدھ ازم  اورجین ازم کو بھی وقعت کی نگاہ سے دیکھتا ہے، اسی وجہ سے وہ کہتا ہے کہ ہندو توائی  سب سے بڑھ کر سیکولر اور روادار ہوتا ہے۔

                گاندھی کی شخصیت کی بنا پر ہندو توا کی تحریک نے آزادی کے بعد خاصے عرصے تک قبولیّت عامہ حاصل نہ کی لیکن 1980ء میں اس کو پذیرائی ملنا شروع ہوئی اس دور میں دو بنیادی عوامل نے ہندو توا کو ہندوستان میں عوام میں پذیرائی عطا کی۔ راجیو گاندھی کے دور اقتدار میں پارلیمنٹ میں مسلمانوں کے خلاف سپریم کورٹ کے دیے ہوئے فیصلے کو تبدیل کیا۔

                بابری مسجد کا کیس، بابری مسجد کی شہادت اور اس کے گرد ہونے والی عوامی سیاست نے بی جے پی کو عوام میں قبولیت عطا کی اور اس کو عالمی پذیرائی بھی بخشی۔

ہندو نیشنل ازم کی تاریخ:

                ہندو توا کی اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ ہندو نیشنلزم کا آغاز 8 ویں صدی عیسویں سے ہوتا ہے جب مسلمان حملہ آور ہندوستان آنا شروع ہوئے۔ لہٰذا ہندوئوں نے بنیادی طور پر ان حملہ آوروں سے اپنی ریاست کو بچانے اور دھرم کو محفوظ رکھنے کی جدوجہد شروع کی اس مقصد کے لیے تاریخی طور پر ہندوئوں نے جس اصطلاح کو استعمال کیا جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے اس کو ہندو توائی کشٹیریا، یعنی تحفظ دھرم / تحفظ ریاست کہتے ہیں۔ ہندو توائی کہتے ہیں کہ یہ کشٹیریا بذات خود نیشنلزم ہی ہے، لہٰذا ہندو عوام ہندو دھرم ہندو ریاست کا قیام، ہندو توا یا ہندو نیشنلزم کے ساتھ منسلک ہے، اسی لیے ہر ہندوستانی کو ہندوستانی ریاست کا وفا شعار ہونا ضروری ہے۔ ساور کر اس وفا شعاری کو ہندو راشٹرا یعنی ہندو ریاست کا نام دیتا ہے اور بطور ایک ہندوستانی تمام ہندوستانیوں کو ہندو مذہب کے ساتھ ہندو روایات کے ساتھ ہندو تہذیب و اقدار کے ساتھ ساتھ ہندو ریاست کا پاسبان ہونا ضروری ہے۔اور ان تمام اقدار و روایات کو ریاست کی تعمیر کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔

ہندو راشٹرا کیا ہے:

                ہندو راشٹرا کی تکرار تمام ہی سنگ پری وار پارٹیوں میں ملتی ہے سنگ پری وار پارٹیوں میں سے ایک پارٹی کا نام ہی را شٹریا ہے جس کو RSS کمپنی راشٹریا سوا سوک سنگھ پارٹی ہے۔ (National Votunteer Organization)  RSS اپنے آپ کو ایک وینلٹیئر آرگنائزیشن کہتے ہیں۔ اس کا ایک اور نعرہ سنگھٹ ہندو سمار تھا بھارت یعنی یونائیڈڈ ہندو اور کیپ ایبل انڈیاہے، راشٹر والے روزانہ کھلی جگہوں پر اپنا اجتماع منعقد کرتے ہیں۔ جہاں بچے عورتیں مرد ایک ساتھ جمع ہوکر فوجی طرز کی مشقیں کرتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ سارے بھارت میں روزانہ ان کی اس طرح کے پانچ ہزار اجتماعات ہوتے ہیں۔ وشوا ہند پری شد اس کی ایک سسٹر تنظیم ہے جس کا مقصد ہندوستان سے باہر ہندوئوں کے لیے کام کرنا ہے۔ آر ایس ایس والوں کا دعویٰ ہے کہ ہندوستان نے ساری دنیا کو سیکولرازم، سول لائزیشن علم ہند سر سکھائی، مزید برآں ان کا دعویٰ ہے کہ محمڈن (مسلمان) بھی ہندو ہی ہیں یہ لوگ بھی ہندوستان کے باسی ہیں اور ہوسکتا ہے کہ مستقبل قریب میں ہندوستانی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہم سب مل کر مذہبی تعصب اور مذہبی کٹر پن سے گلو خلاصی حاصل کرلیں اور مذہب کی جگہ ایک ایسی انسانی ریاست کا قیام عمل میں لائیں (ہندو ریاست) جہاں مذہب کا کوئی ریاستی عمل دخل موجود نہ ہو۔

                ہندو قوم ہندوستان میں ہمیشہ سے تھی اور مستقبل میں بھی ہمیشہ رہیں گے اور ہندو ہندوستان میں بحیثیت مسلمان اور عیسائی کی طرح باہر سے حملہ آور نہیں ہوئے، لہٰذا ہندو راشٹرا کا خیال اور قیام سیکولرازم اور جمہوریت سے قطعی متصادم نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ فطری طور پرمتعلق ہے، لہٰذا ہندوتواکی اصطلاح احاطہ کرتی ہے تمام ہندوستانی ثقافت کی بالخصوص ان ہندوستانیوں کا جن کے آباواجداد ہندو تھے، لہٰذا مسلم اور عیسائی ہندوستانی بھی ہندو ہیں جس کے اجداد ہندو تھے۔ لہٰذا عیسائی اور مسلم مذہب سے قطعہ نظر ان کا ورثہ اور ان کی تہذیب  ہندوستانی ہی ہے۔ اسی دائرہ کار میں رہتے ہوئے اکھنڈ بھارت یعنی Complete india کی یہی تفسیر ہے ہندوستان کی تقسیم نے ہندوستان کی منفرد تاریخ، ثقافت، ورثے کو بری طرح متاثر کیا اور یہ تقسیم غیر فطری ہے۔

                ہندو راشٹرا کی وکالت کرنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ ہندو ازم میراث ہے۔ Tolerance یعنی رواداری، مختلف نوع فلاسفی اور اصلاح پسند تحریکات کی اس لیے ہندوتوا والے کہتے ہیں کہ ہم ایک عالمی بھائی چارے عالمی رواداری کے امین ہیں اسی لیے ہندوستان کا ہر فرد ہر طبقہ اور ادارہ ہندوستان میں دائمی طور پر ہندو تہذیب سے جڑا ہوا ہے۔ اسی لیے ہندو کی اصطلاح ایک کُل پر مبنی ہے اور یہ احاطہ کرتی ہے تمام ادیان اور فلسفوں کا جس میں سکھ، جین، بدھ تمام ہی شامل ہیں! آر ایس ایس والے کہتے ہیں کہ راشٹرا کا ترجمہ ہندو قوم درست نہیں ہے بلکہ اس کا درست ترجمہ ہندو ریاست اور ہندو پن ہے۔

وشوا ہندو پری شد:

                یہ آر ایس ایس کی ایک برادر تنظیم ہے۔ VHP کی تنظیم سازی 1967ء ہوئی، اس کے تحت بہت سے آر ایس ایس لیڈروں اور کچھ مذہبی پنڈتوں مل کر ہندو مذہب ہندو روایات اور ہندو بھائی کو از سر نو تعمیر (Revive) کرنے کا کام شروع کیا۔ VHP وہ تنظیم ہے۔ جس نے رام جنم بھومی (بابری مسجد) کا ایشوسارے ہندوستان میں عام کردیا اسی کے بطن سے اکھل بھارتیہ ویدھیار تیا پری شد نے جنم لیا جو اس وقت ہندوستان کی سب سے بڑی طلبہ تنظیم ہے۔ وی ایچ پی مزدوروں اور کسانوں میں بھی کام کرتی ہے۔

بھارتیہ جنتا پارٹی BJP:

                بھارتیہ جنتا پارٹی کو عموماً RSS کا پولیٹیکل ونگ سمجھا جاتا ہے، بی جے پی کا پرانا نام بھارتیہ جن سنگھ ہے جس کا سنگ بنیاد سیامر پرساد مکھرجی نے 1951ء میں رکھی۔ 1980ء میں بدل کر بی جے پی بنی… اٹل بہاری واجپائی اور لال کرشنا ایڈوانی اس کے مشہور لیڈر ہیں، وفاق کی سطح پر بی جے پی نے 1996ء میں حکومت حاصل کی لیکن صرف 13 دن میں ان کی حکومت ختم ہوگئی۔ 1998ء میں بی جے پی نے دوبارہ حکومت سازی کی 2001ء یہ دوبارہ انڈین کانگریس سے شکست کھاگئے۔ صوبہ گجرات، راجھستان ، چاتاس گڑھ، کرنا ٹکا، بی جے پی کے مضبوط گڑھ ہیں۔

                ہندو نیشنلزم میں ہندو دھرم سے زیادہ ہندو بادشاہوں کو بڑی اہمیت حاصل ہے جس میں پرتھوی راج اور سیواجی مہاراج کو اہم مقام حاصل ہے کیوں کہ  ان کا بنیادی مسئلہ ہندو مذہب نہیں بلکہ ہندو ریاست ہے۔ اسی لیے ایک ہندو تنظیم سیو سینا کا نام ہی شیواجی مہاراج نام کے اوپر ہے،(سیوا جی کی ساری جدوجہد ریاست کے حصول کے گرد گھومتی ہے) اس سیاسی پارٹی کا اثر و رسوخ بھارتی صوبے مہاراشٹرا میں بہت زیادہ ہے۔

                ہندو توا کا مرکزی خیال (Central Concept): ہندوتوا کے مطابق برصغیر میں ہمالیہ سے لے کر کوہ ہندو کش تک اکھنڈ بھارت ہے جو کہ ہندوئوں کا ہوم لینڈ ہے۔ ہندو صرف وہ ہے جو انڈیا یعنی بھارت کو اپنا عرف اترا بھومی یعنی  Father  Land سمجھتا ہے بلکہ وہ اس کو اپناپونیہ بھومی Holy land بھی سمجھتا ہے۔ عیسائی اور مسلمان کو باہر سے آئی ہوئی اقوام اور اقلیتیں ہیں انہوں نے ہندوئوں پر بڑے ظلم و ستم ڈھائے ہیں اور بہت سے ہندوئوں کو بزور طاقت مسلمان اور عیسائی بنایا ہے۔ مسلمان اور عیسائیوں کو تاریخی طور پر اس ظلم و زیادتی کو تسلیم کرنا چاہیے، ہندوئوں ہی کی کمزوری کی وجہ سے بیرونی طاقتیں ان پر غالب آئیں۔ لہٰذا مستقبل میں ایسی طاقتوں سے بچائو کے لیے ہندو راشٹرا کا قیام نہایت ضروری ہے۔ نیز ہندو مذہب اور ثقافت کو ریفارم اور ریویو یعنی تجدید نو کرنا ضروری ہے۔ گائے خالصاً ایک ہندوستانی سِمبَل ہے اس کی قربانی کرنے اس کی مذبحة کرنے پر پابندی عائد ہونی چاہیے۔

                ہندو توا ہندو ازم سے مختلف ہے، ہندو توا ایک تاریخ کا نام ہے جو ہندوسوی لائزیشن ، تاریخ، نظریہ، مذہب کا احاطہ کرتی ہے۔ ہندو تِوا ہندو نسل اور انسانیت پر مبنی خیالات کو متحرک کرنے کا نام ہے ، جس سے مراد صرف ہندو پن کا اظہار ہے۔

                ہندوؤں کی تاریخ سندھ کی وادیوں سے شروع ہوئی یہاں انہوں نے ایک خاص تہذیب کی بنیاد رکھی جس کے تحت انہوں نے اپنے آپ کو اپنے ایرانی بھائیوں سے کاٹ کر ایک قومیت کی بنیاد ڈالی جس کا ذکر ”ریگ ویدا” میں ”سیتا سندھوس” کے نام سے ملتا ہے یہ ہی وہ سندھ کی وادی ہے جہاں آرینز نے اپنی قومی اور تہذیبی روایات کو شروع کیا بعد میں یہ ہی سندھوزیادہ شہرت کے ساتھ ہندو کہلائے۔ سنسکرت کا ایس (S) بدل کر ایچ (H) میںتبدیل ہوگیا یعنی ہندو بن گیا اسی طرح سپیتا، ھپتا میں بدل گیا، ہندووں کی جغرافیائی حدود ہمالیہ سے لے کر سیلون تک پھیلی ہوئی ہے، جس کا سرخیل شہزادہ ایودھیا تھا۔ رام چندرا گپتا نے آریان کو اکھٹا کرکے ان کو ایک قومی شکل میں منضبط کیا اور اس مقدس ریاست کی بنیاد ڈالی ہندو توا والے آریا ورتا، برہما ورتا کی اصطلاحوں کو رد کرتے ہیں کیونکہ یہ تقسیم مقدس ریاست کو ویدک بھارت اور جین بھارت میں تقسیم کردیتی ہے۔

                ہندو قوم پیدا ہوئی  دریاوں کے دریا سندھ سندھو دریا نے اپنے پانی سے ہندوؤ ں کے اجداد کی پرورش کی اسی لیے سندھو راشٹرا ہندوؤں کی وہ مملکت قدیم ہے جس کا ذکر ان کی مذہبی کتابوں میں سندھو ساویر کے نام سے ملتا ہے۔ سندھو ساویر بھارت کا رشتہ دار تھا جس نے سندھو کی بقا کے لیے بہت سی جنگیں لڑیں اسی لیے سندھو ان کا قومی ہیرو ہے اور ان کی قدیم پہچان ہے، اسی لیے سندھو سے قدیم اقوام یعنی ایرانی، یہودی، یونانی بھی بخوبی واقف تھے اور اسی نام سے ان کو سیاسی اور جغرافیائی لحاظ سے پکارتے تھے۔ ہندو توا والے بھی ویدک لائنز پر ہی اداروں اور ریاست کا قیام چاہتے ہیں جو کہ لبرل ، سیکولر ، ہیومنسٹ آدرشوں کے ساتھ اور اقدار کے ساتھ منسلک ہو لہٰذا ہندو دھرم کو اس مقصد کے لیے اس کی تجدید نو کرنا ضروری ہے تاکہ ہندوؤں کا حال ان کے ماضی کے ساتھ جڑا رہے اور وہ عزت و توقیر اور رفعت سے اقوام عالم میں ہمکنار ہوسکیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *