ہم آج جس دور سے گزر رہے ہیں یہ سرمایہ دارانہ نظام زندگی کے زوال کا دور(The downfall of Capitalism ) ہے سرمایہ دارانہ نظام زندگی اس انفرادیت، معاشرت اور ریاست کو کہتے ہیں، جہاں حرص و حسد کے عقلیت کا غلبہ ہو۔ سرمایہ دار ہر وہ شخص ہے جو اپنے عمل کی توجیہ فروغ تصرف فی الارض میں گردانتا ہے۔ سرمایہ دار کے لیے دولت مند ہونا ضروری نہیں، حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ دولت مند تھے لیکن وہ سرمایہ دار نہ تھے، اسی طرح سیٹھ ولی بھائی چھوٹانی (تحریک خلافت کی انتظامی کمیٹی کے صدر ١٩١٩ء ۔ ١٩٢٣ئ) بھی دولت مند تھے لیکن وہ سرمایہ دار نہ تھے۔ سرمایہ دولت کا ظالمانہ استعمال ہے۔ جب دولت کے استعمال کا مقصد اس کی مقدار میں مسلسل اضافہ بن جاتا ہے تو دولت سرمایہ بنادی جاتی ہے۔ انہی معنوں میں سرمایہ حرص و حسد کی تجسیم (Concrete Form) ہے۔ اور سرمایہ دار حرص و حسد کا بندہ ہوتا ہے۔ وہ اس بات پر ایمان لے آتا ہے کہ دولت کا درست استعمال اس کی مقدار میں مسلسل اضافہ ہی ہے۔ ہر وہ مزدور، کسان اور مفلس شخص جو اس سرمایہ دارانہ عقلیت کو قبول کرتا ہے ایک سرمایہ دار ہے۔ کیوں کہ اس نے اپنے نفس کو حرص و حسد کے شیطانوں کے سپرد کردیا ہے۔ سرمایہ دارانہ معاشرت، معاشرہ کی اس تنظیم کو کہتے ہیں جہاں سرمایہ (یعنی حرص و حسد) کی عقلیت کی بنیاد پر اجتماعی فیصلے کیے جاتے ہیں۔ ہر معاشرتی ادارہ سرمایہ دارانہ مارکیٹ (Market) کے تعاقل کے ماتحت ہوتا چلا جاتا ہے۔ خاندان اپنے بچوں کو تعلیم اس لیے دلواتے ہیں تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ سرمایہ جمع کرنے کے قابل ہوسکیں۔ تمام اعمال کی قدر کا تعین زر کا بازار (Money Market) اور سرمایہ کار بازار (Capital Market) کرتا ہے۔   Sermaya dari ka zawal

سرمایہ دارانہ معاشرت کو سول سوسائٹی (Civil Society) کہتے ہیں۔ یہ مذہبی معاشرت کی ان معنوں میں رَد ہے کہ اعمال کی اقدار کا تعین (Determination) مذہبی نصوص اور احکام کی بنیاد پر نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس بنیاد پر کیا جاتا ہے کہ وہ سرمایہ دارانہ بڑھوتری میں کتنا اضافہ کرتا ہے۔ سرمایہ دارانہ معاشرہ میں قدر (Value) کی غالب کی شکل قیمت (Price) کی ہوتی ہے۔
سرمایہ دارانہ ریاست (Republic) ہوتی ہے۔ یہاں اس عمومی اصول کو قبول کیا جاتا ہے کہ صرف وہ اجتماعی چیز جائز ہے جو Citizen کے تصرف فی الارض کو فروغ دینے کے لیے آلۂ کار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ اس کو Rousseau نے General will کہا تھا اور کہا تھا کہ اکثریت کی رائے دہی (General All) اس کی تردید کرنے کی کبھی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ آج Citizen کی الوہیّت کے فروغ کے اس اصول کو Human Rights سے متعلق وہ دفعات فراہم کرتی ہیں جو ہر ریپبلیکن دستور کی Preambles میں لازماً شامل کی جاتی ہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام زندگی کے غلبہ کی ابتدا پندرہویں اور سولہویں صدی میں ہوئی جب چند یورپی شہری ریاستوں میں یہ نظام غالب آگیا۔ یورپی اقوام کے استعمار اور ریاستی دہشت گردی (بالخصوص امریکا میں جہاں دو صدیوں میں آٹھ کروڑ مقامی باشندے Red Indians قتل کیے گئے) اس نظام زندگی نے ترقی کی اور انیسویں صدی کے آخر تک تقریباً پوری دنیا پر اس نظام نے ریاستی غلبہ حاصل کرلیا۔ (انفرادیت اور معاشرت کی سطح پر اس نظام کو کبھی عالمی غلبہ حاصل نہیں ہوا) بیسویں صدی اس نظام کے زوال کی پہلی صدی ہے اور موجودہ دور میں یہ نظام مختلف النوع بحرانوں سے دوچار ہے۔
عرفان ذات کے ضمن سب سے اہم بحران عقلیت کا ہے وہ عقلیت جو سرمایہ دارانہ غلبہ کے دور میں فروغ پائی، آج مہمل ثابت کردی گئی ہے۔ جس فکری تحریک نے یہ کام کیا اس کو پوسٹ ماڈرن ازم (Post Modernism) کہتے ہیں اور اس کے کلیدی مفکرینFoucault, Derrida, Deluze, Lyotard,Rerty ہیں۔ ان مفکرین نے ثابت کردیا کہ سرمایہ دارانہ کلیدی تصورات بالخصوص آزادی (Freedom) اور ترقی (Progress) مہمل اور ناقابل حصول ہیں۔ انفرادیت لازماً انتشار (Fragmentation) کا شکار ہوتی ہے۔ اور اعمال کی معنویت کی جستجو محض لغتی کھیل (Language Game) ہے۔ کسی انفرادی یا معاشرتی عمل میں عقیدہ کی کوئی توجیہ بیان نہیں کی جاسکتی اور سرمایہ دارانہ انفرادیت لازماً تحلیل (Deconstruction) کا شکار ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام نے معاشرتی اداروں کا سہارا لے کر اپنی جو معاشرتی صف بندی کی تھی وہ سب ان انحطاط پذیر ہے سرمایہ دارانہ مارکیٹ کی اجارہ داری کا شکار ہے۔ اور مسابقتی عمل Distort ہوگیا ہے۔ اس کے نتیجے میں سرمایہ دارانہ Market کی کارکردگی سے Efficient اور Equitable نتائج برآمد نہیں ہوتے قیمت کے تعین کا کوئی معروضی (Objective) پیمانہ موجود نہیں۔ لہٰذا (Financial) اور کموڈیٹی (Commodity) بازاروں کی کارکردگی میں عدم استحکام (Disequilibrium) دائمی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ اور دو ہزار سات (2007)سے شروع ہونے والا بحران کسی صورت سے قابو میں آتا نظر نہیں آرہا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ غلبہ کے دور میں جو واحد اجتماعیت قائم ہوئی تھی وہ تھی طبقہ (Class) کی اجتماعیت بیشتر سرمایہ دارانہ معاشروں میں مزدور سرمایہ دارانہ خطوط پر منظم ہوگئے تھے۔ اور مزدوروں کی طبقاتی تنظیمیں (Trade Unions and Social Democratic Parties)سرمایہ دارانہ عدل کے فروغ کے لیے جدوجہد کرتی تھیں اس جدوجہد کی نظاماتی اہمیت کا ادراک سب سے واضح طور پر Keynes اور Boltow کی فکر میں ملتا ہے آج سرمایہ دارانہ عمل کے فروغ کے نتیجے میں یہ طبقاتی تنظیمیں سرمایہ دارانہ ریاست سے اس طرح منسلک ہوگئی ہیں کہ سرمایہ دارانہ عدل کی جدوجہد ناممکن ہوگئی ہے۔ اور یہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب یورپ امریکا میں آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ طالب علم، بے روزگار، پینشن یافتہ افراد، سرمایہ دارانہ پیداواری اور تجارتی عمل سے بے دخل کردیے گئے ہیں۔
مزدور تحریک کی جگہ ان New Social Movements مثلا حقوق نسوان کی تحریک، اغلام بازوں کی تحریک (جس کا سب سے بڑا پشت پناہ آج صدر اوباما ہے) ماحولیاتی تحریک نے لے لی ہے جو محض کھیل تماشا ہے اور سرمایہ داری کی ترتیب نو کی ضمن میں کوئی اہم کردار ادا نہیں کرسکتی۔
سرمایہ دارانہ ریاستی انحطاط کا سب سے اہم مظہر جمہوری نظام کی شکست و ریخت ہے۔ میڈیا پر سرمایہ دارانہ غلبہ کے نتیجہ میں آراء کی تشکیل کا عمل عوامی نہیں رہا۔ لوگوں کی رائے میڈیا ساز (Media Crafted) ہوگئی ہے۔ اور جمہوری عمل تفریح (Entertainment) کا ذریعہ بن گیا ہے۔ نمایندگی (Representation) صرف سرمایہ کی ہے۔ یورپ میں کئی دہائیوں سے انتخابات میں ووٹرز کی شرکت مستقل گِر رہی ہے اور ١٩٤٦ء کے بعد سے کسی امریکی صدر کو عوام کے اکثریت کے ووٹوں سے منتخب نہیں کیا گیا۔ کوئی ووٹ کیوں دے جب کہ میڈیا کئی ہفتے پہلے ہی انتخاب کا نتیجہ بتادیتا ہے کہ یہی وجہ ہے کہ آج کوئی یورپی سیاسی فلسفی جمہوریت کے حق میں دلیلیں دیتا ہوا نظر نہیں آتا۔ Habermas جو آج کل سرمایہ دارانہ علمیت کا سب سے بڑا وکیل ہے نوحا کناں ہے کہ مکالمتی عمل (Communicative Action) اتنا Distort ہوگیا ہے کہ Dialogue جمہوریت ناپید ہوتی جارہی ہے۔  (Alian Badiave) کہتا ہے کہ آج جمہوری عمل وہ زنجیر ہے جس سے عوام کے گھوڑے کو سرمایہ دارای کے اصطبل میں باندھا جاتا ہے۔
سرمایہ دارانہ سرخیل ریاستیں پیہم عسکری شکستیں کھارہی ہیں۔ امریکا ذلیل ہوکر عراق سے بھاگ گیا اور مزید ذلیل ہوکر افغانستان سے بھاگنے کی تیاری کررہا ہے۔ لاطینی امریکا میں بلویا، اکواڈور، وینزویلا اور کیوبا اس کی سیاسی گرفت کو تاراج کرچکے ہیں۔ آج چند سو اوغر (Ughar) مجاہدین نے گانزو صوبے کے ایک بڑے علاقے سے چینی استعمار کو بے دخل کردیا گیا ہے۔ اور سنکیانگ نے بھی پیش رفت حوصلہ افزا ہے ان حالات میں چین کسی دوسرے ملک میں عسکری کارروائی کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔
سرمایہ دارانہ نظام کے مسلسل اور ہمہ پہلو زوال سے آج انکار ممکن نہیں لیکن سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کے متبادل کے خدوخال ابھی واضح نہیں ان معنوں میں ہم ایسے دور میں رہ رہے ہیں جس کی تیسری اور چوتھی صدی عیسوی میں مماثلت ہے۔ اس دور میں رومی انفرادیت معاشرت اور سلطنت تحلیل ہورہی تھی لیکن یہ واضح نہیں تھا کہ نظام زندگی کی ترتیب نو کن خطوط پر ہوگی۔ اس دور میں رومی نظام زندگی کا اختتام Chronic حیثیت اختیار کر گیا تھا آج کی New Political Sociology موجودہ دورکو Liminal اور Transitional گردانتی ہے۔ Baudrillard اقرار کرتا ہے کہ سرمایہ دارانہ اقلیت کی گرفت انفرادیت، معاشرت اور ریاست کمزور پڑتی جارہی ہے اور غیر سرمایہ دارانہ انفرادیت معاشرت اور ریاست قائم ہورہی ہے۔ سرمایہ دارانہ عقلیت کا دائرہ اختیار محدود ہورہا ہے۔ اور سرمایہ دارانہ انفرادیت معاشرت اور ریاست کے اندر سے غیر سرمایہ دارانہ انفرادیت، معاشرت اور ریاست اُبھر رہی ہے۔ Daluze کہتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام زندگی Implode ہورہا ہے لیکن کیا یہImplosion ہے یہ محض ایک Complexification ہے۔
دیکھیے اس بحر کی تہہ سے اُچھلتا ہے کیا
گنبد ِ نیلو فری رنگ بدلتا ہے کیا

Decline of Capitalism
اسلامی رویثنزم:(Islamic Revisionism)
مسلم دنیا پر سرمایہ دارانہ نظام زندگی بزور شمشیر مسلط کیا گیا اور ہمارا ابتدائی رد عمل عسکری جدوجہد ہی کا تھا۔ برصغیر میں اس عسکری جدوجہد کے انتشار کے بعد جمعیت علماء ہند ١٩٢٠ء میں قائم ہوئی، اور اس کے بعد سے علماء کے سواد اعظم نے سرمایہ دارانہ نظام زندگی کے بارے میں ایک مصالحانہ رویہ اختیار کیا اس رویہ کے دو اظہار تھے ایک رویہ برأت اور انخلا کا تھا۔ علماء اور صوفیاء نے ایسے دائرہ عمل تلاش کیے جہاں اسلامی انفرادیت اور معاشرت فروغ پاسکے اور اسلامی علمیت کا تحفظ کیا جاسکے، اس ضمن میں سب اہم اجتہاد مدارس کا ملک گیر قیام اور انصرام تھا اور یہ کارنامہ علماء بریلی اور علماء دیو بند نے بخوبی انجام دیا۔ دوسرا رویہ دُخول (Penetration) کا تھا اور اس کا اظہار تحریک خلافت اور جمعیت علماء ہند کے دستوری جدوجہد ہے۔ اس رویہ کےتحت سرمایہ دارانہ نظام حیات کے اُصول اور ترتیب میں وہ گنجائش تلاشکی گئی جس کے ذریعہ اسلامی انفرادیت، معاشرت اور اقتدار کو مستحکم کیا جاسکے۔ اس رویہ کو Islamic Revisionism کہا جاسکتا ہے۔
Islamic Revisionistرویہ سرمایہ داری کو ایک نظام زندگی تسلیم نہیں کرتا (وہ اسلام کو بھی ایک نظام نہیں گردانتا) بلکہ جدا جدا سرمایہ دارانہ اعمال کو نصوص صحیحہ کی بنیاد پر پرکھتا ہے اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ ان اعمال میں کس نوعیت کی ترمیم اور تبدیلی کے ذریعہ ان کو تعلیمات شرعیہ کے مطابق بنایا جاسکتا ہے۔
واضح رہے کہ Islamic Revisionist اور Islamic Modernist میں بنیادی فرق ہے۔ Islamic Modernist مثلاً علامہ اقبال کی تشکیل جدید الٰہیات اسلامی (Reconstruction of Religious Thought in Islam) احکام شریعت کو سرمایہ دارانہ عقلیت کے پیمانہ پر جانچتے ہیں اور ان احکامات میں ترمیم کرکے ان کو سرمایہ دارانہ عقلیت کے مطابق بناتے ہیں۔ یہ Islamic Revisionism کے بالکل برعکس عمل ہے۔ Islamic Revisionismاسلام کی سرمایہ کاری ہے۔ Islamic Modernism اور Islamic Revisionism میں مماثلث یہ ہے کہ دونوں رویے سرمایہ دارانہ نظام زندگی سے کسی تصادم کو ضروری نہیں سمجھتے بلکہ اس سے مصالحت کے قائل ہیں۔ ابتداً تصادم سے گریز کا یہ رویہ سیاسی میدان میں ظاہر ہوا اور جمہوریت اور دستوریت کی اسلامی کاری پر Islamic Revisionistجماعتوں نے پورا زور صرف کیا ١٩٧٠ء کے بعد سے سعودی عرب کی سرپرستی میں سرمایہ دارانہ معیشت کی اسلامی کاری کی مہم جاری ہے اور اس مہم کی حکومتی سرپرستی کے نتیجے میں پوری دنیا میں اسلامی بینک اور اسلامی سرمایہ دارانہ ادارے قائم ہوگئے ہیں۔
زاہد صدیق مغل صاحب کے ان مضامین میں اسلامی جمہوریت اور اسلامی بینکاری کے ان تجربات کا علمی بنیادوں پر جائزہ لیا گیا ہے۔ آپ کا بنیادی استدلال یہ ہے کہ اس طریقہ سے اسلامی انفرادیت، معاشرت اور اسلامی نظام اقتدار استوار نہیں ہوتا بلکہ عملاً Islamic Revisionism اور Islamic Modernism سے ایک ہی نتیجہ ہی برآمد ہوتا ہے اور وہ ہے سرمایہ دارانہ نظام زندگی میں اسلامی شخصیت، معاشرت اور اقتدار کا مغلوب ادغامSubordinate Subsumption)۔ اسلامی بینکاری اور اسلامی جمہوریت کو فروغ دے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کی طرف مراجعت ناممکن ہے کیوں کہ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور اور سلطان معظم خلیفہ عبدالحمید کے ثانی کے دور تک قائم رہنے والی ایک ہزار سالہ اسلامی معاشرت اور ریاست میں نہ کوئی اسلامی بینک موجود تھا اور نہ اسلامی مقننہ۔ Islamic Revisionismحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کی طرف مراجعت اور غلبہ دین کو ناممکن سمجھتی ہے۔ وہ جہاد سے پہلو تہی برتتی اور سرمایہ دارانہ استعمار کے ہاتھوں ہم نے جو انیسویں صدی میں شکست کھائی اس کو دائمی تصور کرتی ہے وہ سرمایہ دارانہ نظام کے انہدام کے قائل نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظام میں شمولیت کے ذریعہ اس سے مستفید ہورہی ہے۔ اس کے اکابرین کو اندازا نہیں کہ امت کے تشخص کو اس رویہ کے اختیار کرنے سے کتنا عظیم نقصان ہورہا ہے۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ مسلم زعماء سرمایہ دارانہ نظاماتی زوال سے واقف نہیں۔ وہ انیسویں صدی کے باسی ہیں۔ جب سرمایہ دارانہ نظام ماڈرن تھا اور اس کی موثر مخالفت مشکل نظر آتی تھی اس کے باوجود مجاہدین اسلام نے جہاد سے پہلو تہی اختیار نہیں کی۔ آج جب سرمایہ دارانہ
نظام زندگی شکست و ریخت کا شکار ہے اور مجاہدین اسلام نے پے در پے شکستوں سے دوچار کیا ہے تو ایک مصالحتی حکمت عملی کم ہمتی اور نادانش مندی کے علاوہ اور کیا ہے؟ عملاً اسلامی بینک اور اسلامی جمہوریت کے داعی مجاہدین کے مخالف اور سرمایہ دارانہ غلبہ اور استحکام کے آلہ کار ہیں یہ ادارے غلبہ دین کی راہ میں اہم رکاوٹیں ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی نظام زندگی کی تسخیر بنیادی طور پر جہاد و قتال کی کامیابی پر منحصر ہے۔ محض کسی علمی دعوتی یا روحانی پیش رفت سے یہ کام انجام نہیں دیا جاسکتا۔ اگر Virgoths, Hums, Vandul اور Vibengs رومی سلطنت کو پے در پے شکستوں سے ہم کنار نہیں کرتے تو نئے نظام اقتدار کے قیام کے لیے گنجائش فراہم نہ ہوتی اور عیسائی نظام حیات کا غلبہ ناممکن تھا۔ یہ بات تفصیل کے ساتھ Osuald Spengles نے اپنے مکالات میں ثابت کی ہے۔ یورپی عوام کی اکثریت نے عیسائی نظام زندگی رومن اقتدار کے خاتمے کے تقریبا ڈیڑھ سو سال بعد اختیار کیا۔
یہ بات اچھی طرح سمجھ لینے کی ہے اگر سرمایہ دارانہ نظام زندگی کو پے در پے عسکری شکستیں نہ دی گئیں اور پیہم علاقائی فتوحات کے ذریعے اس کے نظام اقتدار کو بے دخل اور منتشر نہ کیا گیا تو ہم اسلام کاری کے عمل سے کبھی آگے نہ بڑھ سکے گے۔ تمام علمی، روحانی اور دعوتی کام سرمایہ دارانہ نظام زندگی میں سموتا چلا جائے گا۔ اور غلبۂ دین کی جدوجہد تو درکنار اس کا تصور بھی معدوم ہوجائے گا۔
نظام زندگی علمی اور روحانی پیش رفت کے لیے ذریعے غالب نہیں آتے۔ وہ جہاد اور قتال کے ذریعے غالب آتے ہیں۔ کیوں کہ جہاد و قتال وہ مفتوحہ علاقہ جات فراہم کرتے ہیں جہاں نیا غالب نظام زندگی بتدریج مرتب کیا جاسکے۔ یہ ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کی سنت ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے لے کر سلطان معظم خلیفہ عبدالحمید ثانی کے دور تک اسلامی ریاستیں مسلسل جہاد کرتی رہیں اور انہیں عسکری فتوحات نے ترتیب فقہ اور کلام، اُصول اور تصوف کے مواقع فراہم کیے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سرایا اور غزاوات کا آغاز سن ایک ہجری میں شروع کردیا تھا۔ اسلامی علوم کی تدوین کئی سو سال بعد ممکن ہوسکی۔
جہاد کی اس ناگزیر اولیت کے شعور و احساس نے امام عالی مقام سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہ کو یزید کے خلاف خروج عمومی برپا کرنے کے لیے تیار کیا۔ امام عالی مقام رضی اللہ عنہ اچھی طرح سمجھ چکے تھے کہ ایک سیکولر مملکت قائم اور مستحکم ہوگئی تو ایرانی اور بازنطینی نظام زندگی بے دخل نہ کیا جاسکے گا۔ اور اسلامی نظام زندگی کا تحفظ اور غلبہ ناممکن ہوجائے گا۔ لہٰذا
باندھ کر سر سے کفن ہاتھ میں لے کر تلوار
ساتھ میں اپنے لیے صرف بہتّر انصار
دشت پُر ہول میں گھر بار لُوٹا کر اپنا
عصمتِ دیں کے لیے سر بھی کٹاکر اپنا
اپنے کردار میں قرآن کے معنی ٹھہرے
دین کے جن کا نبی بانی ثانی ٹھہرے
امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کی عظیم الشان کامیابی اس سے عیاں ہے کہ اسلامی سلطنتیں ایک ہزار سال تک قائم رہی اور کبھی بھی سیکولر مملکتیں نہ بنیں، ان میں علوم اسلامی کا غلبہ رہا۔ شریعت نافذ رہی اور سلطان ظل اللہ کی حیثیت رکھتا تھا۔
امام عالی مقام رضی اللہ عنہ خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے سچے پیروکار اور مرید تھے۔ (اپنے ایک صاحب زادے کا نام بھی ابو بکر رکھا) سیدنا ابو بکر نے بھی جہاد اور قتال کی اولیت کو تسلیم کیا خلیفہ بنتے ہی جیشہ اسامہ رضی اللہ عنہ روانہ فرمایا اور اپنے مبارک دورِ حکومت میں مستقل جہاد کرتے رہے۔ ضرورت اس بات کی ہے ملک کی تمام اسلامی قوتیں جہاد کی ضرورت اور اولیت کو تسلیم کرکے ملک میں جاری تمام روحانی، علمی، اصلاحی اور دعوتی کام کو عملِ جہاد سے مربوط اور منسلک کریں۔
سرمایہ دارانہ نظام اپنے دورِ انحطاط(Downfall/Decline) میں کب کا داخل ہوچکا ہے۔ اور مدت سے شکست و ریخت کا شکار ہے۔ آج اسلام کاری کی بھلا کیا ضرورت ہے۔ آج اسلامی قوتوں کو مجاہدین اسلام کی عسکری پیش رفت کے نتیجے میں جو مواقع میسر نظر آرہے ہیں، ان سے فائدہ اٹھاکر تحفظ دین اور غلبہ دین کے ایک تطبیقی حکمت عملی مرتب کرنا چاہیے۔