دورِ حاضر کی اسلامی فکر کی یہ ایک عمومی کمزوری ہے کہ وہ عقائد اور نظریات میں فرق نہیں کرپاتی اور نظریات میں اختلاف کی بنیادپر عقائد میں اختلاف کا قلم لگاتی ہے۔ عقائد سے مراد ایمانیات ہیں۔ اسلامی ایمانیات میں ایمان با للہ ،ایمان بالرسالت،قبر ،حشر،قیامت،جنت دوزخ وغیرہ شامل ہیں۔ ان عقائد پر ایمان لانا مسلمان ہونے کے لیے لازم ہے، ہر وہ گروہ جومتذکرہ بالا عقائد پر ایمان نہیں رکھتا کافر ہے اور اس کو کافر کہنا درست ہے۔
نظریات سے مراد وہ تصورات (Theories) ہیں جو عقائد کے اظہار کے لیے ضروری سمجھے جاتے ہیں۔ مثلاً دیو بندی اور بریلوی مکتب فکر میں عقائد اسلامی کے فروغ کے لیے پیرومرید میں جس نوعیت کا رشتہ قائم کیا جانا چاہیے یہ ان رسوم و رواج کی ادائیگی کے بارے میں جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ثابت نہیں لیکن جن کا شرع مطہرہ کے احکام سے تصادم نہیں، اختلاف ہے۔ یہ ایک نظریاتی اختلاف ہے، اعتقادی اختلاف نہیں اور اس نظریاتی اختلاف کی بنیاد پر کسی گروہ کو یا اس کے افراد کو دائرہ اسلام سے خارج قرار نہیں دیا جاسکتا۔
پچھلے مضامین میں ہم نے سرمایہ دارانہ نظام زندگی کے مختلف نظریات، قوم پرستی، سوشلزم لبرل ازم، سوشل ڈیمو کریسی اور انارکزم، کی تفصیل بیان کی ہے۔ یہ سب سرمایہ دارانہ نظریات اس لیے ہیں (اور جدا جدا نظام ہائے زندگی نہیں) کیوں کہ ان کے ماننے والوں کے عقائد ایک ہیں۔ وہ سب سرمایہ دارانہ عقائد پر ایمان لاتے ہیں۔ اب ہم سرمایہ دارانہ عقائد کی تفصیل پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔
سرمایہ دارانہ عقائد:
سرمایہ دار انہ نظام زندگی کے تین بنیادی عقائد ہیں جن پر ہم جدا جدا گفتگو کریں گے،وہ یہ عقائد ہیں:
١۔آزادی (Freedom)
٢۔مساوات (Equality)
٣۔ترقی (Progress)
جو شخص ان پر ایمان لے آتا ہے وہ ایک سرمایہ دار ہے اور سرمایہ دارانہ نظام زندگی اختیار کرتا ہے۔ ہر وہ مزدور جو آزادی، مساوات اور ترقی پر ایمان لے آئے اپنی تمام تر مفلوک الحالی

کے باوجود ایک سرمایہ دارانہ طرزِ زندگی اختیار کرتا ہے اور ہم اس کو سرمایہ دار کہنے میں حق بجانب ہیں۔ اس کے برعکس حضرت سیدنا عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ اور حضرت عبدالرحمن ابن عوف رضی اللہ عنہ اپنی تمام تر دولت مندی کے باوجود سرمایہ دار نہ تھے کیوں کہ وہ آزادی، مساوات اور ترقی پر ایمان نہیں لائے تھے۔ جب ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں تو ہم آزادی، مساوات اور ترقی کے وہ مطالب قبول کرتے ہیں جو تاریخ میں رائج ہیں۔
آزادی کیا ہے؟
یہاں اچھی سمجھ لینا چاہیے کہ ہم آزادی پر بحیثیت ایک نظری اصطلاح کے گفتگو کررہے ہیں۔ نظری اصطلاحات کے معنی لغوی نہیں ہوتے۔ آزادی کے لغوی معنی یہ ہیں کہ آپ کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اس معاملہ میں مجبور نہیں ہیں مثلاً جانور حرکت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ اس معنی میں آزاد ہیں لیکن وہ کلام (بمعنی گفتگو نہیں کرسکتے ان معنوں میں وہ مجبور ہیں)لغوی اعتبار سے آزادی ایک صفت اور صلاحیت ہے جیسے سانس لینے کی صلاحیت ہے کھانا کھانے کی صلاحیت ہے۔ اگر انسان کو یہ صلاحیت نہ دی جاتی تو خیر و شر میں تمیز کرنے کے قابل نہ بن سکتا اور وہ خلیفہ فی الارض کا فریضہ انجام نہیں دے سکتا۔ لیکن نہ سانس لینے کی صلاحیت کا فروغ نہ طبعی آزادی کا فروغ ایک مسلمان کا مقصدِ حیات ہوسکتا ہے۔ مقصدِ زندگی تو اس طبعی آزادی کو اللہ کے احکام کے تابع کردینا ہے اور اس اطاعتِ الٰہی کو عبادت کہتے ہیں۔ عبادت بھی ایک نظریاتی تصور ہے اور اس کے معنی لغت سے نہیں، بلکہ اسلامی کلامی اور فقہی تشریحات سے اخذ کیے جاتے ہیں۔
آزادی بحیثیت ایک نظریہ کے اٹھارویں صدی عیسویں کے یورپ میں ایجاد ہوئی اور اس تصور کی ایجاد کا سہرا دو اشخاص کے سر ہے۔ فرانسیسی سائنس دان ڈیکارٹ (Descartes) اور جرمن فلسفی کانٹ (Kant)ان کے خیال کے تحت انسان کا وجود اس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ سوچ سکتا ہے۔ ڈیکارٹ کا مشہور جملہ ہے I think therefore I am (میں سوچ سکتا ہوں لہٰذا میں موجود ہوں) کانٹ نے کہا کہ انسان کے ذہن کی ساخت اس نوعیت کی ہے کہ حواس خمسہ سے حاصل کی ہوئی اطلاعات کو صحیح تصورات (Concepts) کی شکل میںمرتب کرسکتی ہے۔ اور چوں کہ تمام انسانوں کے ذہن کی ساخت یکساں ہے لہٰذا ہر فرد ایک ہی نوع کے تصورات حواسِ خمسہ سے حاصل شدہ معلومات کی بنیاد پر مرتب کرتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *