مغرب اور اسلام کا تصور خیر اور حق

ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری-

                اس باب میں اختصار کے ساتھ مغربی مفکرین کے حوالے سے اس تصورِ حق (Right)اور تصورِ خیر (Good) کی وضاحت پیش کروں گا جس تصورِ حق اور تصورِ خیر پر سرمایہ داری اور جمہوریت قائم ہیں ۔

                میں ان مفکرین کے اساسی تصورات اور فکر پیش کروں گا اس جائزے کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ اسلام کے تصورِ حق و خیر اور مغرب کے تصور ِحق و خیر میں کسی قسم کی کوئی مماثلت نہیں ہے اور دونوں نظام ہائے حق و خیرایک دوسرے کی ضد ہیں۔ لہٰذا ان دونوں کے مابین کسی قسم کا مکالمہ ممکن نہیں ہے۔

                اس وقت کرنے کا کام یہی ہے کہ ان مغربی مفکرین اور فلاسفہ کا اسلامی محاکمہ پیش کریں جن کے نظریات پر مغربی تہذیب اس کا فلسفہ اور اس کی پوری عمارت کھڑی ہوئی ہے۔ لہٰذا علماء اور طالب علموں کی توجہ کے لیے چند عمومی باتیں بڑے بڑے مغربی مفکرین اور فلاسفہ کے حوالے سے مختصراً پیش کی جا رہی ہیں۔

                کسی بھی نظام فکر میں سب سے بنیادی مسئلہ تصور ذات یعنی Self کا مسئلہ ہے۔ میں مغرب کی اصطلاحات ہی استعمال کروں گا ۔ Selfکو Selfہی کہوں گا ذات نہیں کہوں گا اور دوسرے تصورات بھی انہی کی اصطلاح میں بیان کروں گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اولاً مجھے ان کا ترجمہ معلوم نہیں ، دوسرے یہ کہ تصورات (Concepts)کا ترجمہ پیش کرنا ایک نہایت مشکل کام ہے۔ مثلاً حیا کا کوئی انگریزی ترجمہ نہیں کیا جا سکتا یا غیر ت کا کوئی ترجمہ انگریزی میں نہیں کیا جا سکتا ۔ انہی معنوں میں سمجھتا ہوں کہ Selfکا کوئی ترجمہ ممکن نہیں ۔ جیسے Ontology۔ اس کا کوئی ترجمہ ہمارے ہاں بہت مشکل ہے ۔ یہ علمائے کرام ہی کا کام ہے کہ ان مغربی تصورات کا اسلامی محاکمہ کریں اور اسلامی علوم میں ان کی کیا حیثیت ہے، اسے واضح کریں۔

                گفتگو کا محور بیسویں صدی کا فلسفہ ہے ۔ لیکن بیسویں صدی کے فلسفہ میں تصور فرد (Theory of Self)یا تصورِ ذات کو سمجھنے کے لیے چند اجمالی باتیں اٹھارویں اور انیسویں صدی کے نمایاں فلسفیوں کے بارے میں جاننا بھی ضروری ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بیسویں صدی میں مغرب میں کوئی صف اول کا مابعد الطبیعیات دان (Metaphysician) پیدا نہیں ہوا ہے۔ یا کم ازکم میری ناقص رائے میں ایسا ہی ہے۔ مغرب فکری(Intellectually) طور پر بانجھ ہے ۔ بالخصوص الہٰیات اور    مابعد الطبیعیات کے دائرے میں بیسویں صدی میں مغرب میں کوئی بنیاد ی کام نہیں ہواہے ۔ بنیادی طور پر اٹھارویں صدی اورانیسویں صدی کے مفکرین کے کام پر نئی شرحیں لکھی گئی ہیں ۔ یہ بات ما بعد الطبیعیات اور اخلاقیات دونوں شعبوں کے بارے میں بلاخوف کہی جا سکتی ہے۔

                 اٹھارویں صدی میں جس فکر نے عیسائیت کو شکست دی اس کی دو شاخیں تھیں۔

١۔ تحریک تنویر(Enlightenment)  ٢۔ تحریک رومانویت(Romanticism)

                یہ دونوں تحریکیں مغربی تہذیب کی روح رواں ہیں۔ مغربی تہذیب کے بنیادی آدرش انہی تحریکوں سے حاصل ہوتے ہیں اور مغربی تہذیب کے بنیادی تصورات، عقائد و افکار و نظریات فی الحقیقت تحریک تنویر اور تحریک رومانویت ہی سے نکلے ہیں۔

تحریک تنویر کی علمیات:

                یہ دونوں تحریکیں بنیادی طور پر وحی کا انکار کرتی ہیں ۔ انہی معنوں میں یہ عیسائیت کا بھی انکار ہیں ۔ پروٹسٹنٹ(Protestanism) عیسائیت نے اس انکار کا اولین جواز فراہم کیا تھا۔ پروٹسٹنٹ ازم کا بانی لوتھر کفر کے غلبہ کے سلسلہ میں اصل مجرم ہے ۔ عقلِ انسانی کو وحی کی تعبیر اور تفسیر کا واحد ذریعہ قرار دے کر اور اجماع کی حجیت کو رد کر کے اس نے انکار وحی کی تحریکوں کے لیے زمین ہموار کی ۔ اس نے عیسائی تناظر میں وحی کے انکار کی عمومی قبولیت کے لیے بنیادیں فراہم کیں۔ وحی کے انکار سے مراد کیا ہے ؟ وحی کے انکار سے مراد یہ ہے کہ عقل استقرائی(Inductive Reason) اور عقل استخراجی (Deductive Reason)کو استعمال کر کے حقیقت (Ontology)تک رسائی ہو سکتی ہے ۔ عقل وحی اور علم لدنی کے بغیر ان سوالات کا جواب دے سکتی ہے کہ انسان کیا ہے ؟ انسان کی کائنات میں حیثیت کیا ہے ؟ وغیرہ یہ Ontologicalسوالات ہیں ۔ عیسائیت یہ کہتی تھی کہ ان Ontologicalسوالات کا جواب وحی کے بغیر نہیں دیا جا سکتا۔ اسلام بھی یہی کہتا ہے لیکن تحریک تنویر اس بات کی داعی ہے کہ ان سوالات کا شافی و کافی جواب عقل انسانی کے ذریعہ مل سکتا ہے اس کے لیے کسی ما ورائی ذریعہ علم کی ضرورت نہیں ہے ۔ جس طریقہ سے عقل کو استعمال کرتے ہوئے ریاضی اور منطق کے مسائل حل کیے جا سکتے ہیں اسی طریقہ سے عقل کو استعمال کر کے ما بعدالطبیعاتی حقائق اور حقیقت انسان و کائنات کے بارے میں مسائل بھی حل کیے جا سکتے ہیں۔

بنیادی ذریعہ علم عقل ہے:

                یہ تحریک تنویر کی علمیات (Epistemology) ہے ۔ اس علمیات کے مطابق اس قسم کے سوالات کہ تم کون ہو؟ تم کہاں سے آئے ہو؟ تم کہا ں جائو گے ؟ تمہیں کیا کرنا ہے ؟ کائنات کی حیثیت کیا ہے ؟ تخلیق کے عمل کی حیثیت کیا ہے وغیرہ ۔ ان سب سوالات کے جوابات عقل استقرائی اور عقل استخراجی کی مدد سے دئیے جا سکتے ہیں۔

تحریک رومانویت کی علمیات:

                تحریکِ تنویر کے بر عکس تحریکِ رومانویت (Romanticism)یہ قرار دیتی ہے کہ حقیقت تک پہنچنے کا ذریعہ عقل استقرائی اور عقل استخراجی نہیں ہے بلکہ وجدان (Intution)ہے ۔Intuition  لاطینی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ”دیکھنا” ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ تحریکِ تنویر کے بر عکس تحریکِ رومانویت کے نزدیک حقیقت کو براہِ راست’ ‘دیکھا ” جا سکتا ہے اور اس براہِ راست دیکھنے کے ذرائع انسانی جبلتیں ، انسانی خواہشات اور احساسات ہیں ، یہی وجدان ہے اور کچھ نہیں ہے ۔ عقل استقرائی اور عقل استخراجی انسانی جبلتوں ، خواہشات اور احساسات کی آلہئِ کار(Instrument) ہیں۔ تحریکِ رومانویت نے تحریکِ تنویر کے بر عکس انسانی جبلتوں ، خواہشات و احساسات کو بنیادی ذریعہ علم تصور کیا ہے۔

بنیادی ذریعہ علم وجدان ہے:

                غرض تحریک رومانویت کے مطابق بنیادی ذریعہ علم Intuitionہے اور عقل خواہشات کی نوکر ہے (Reason is the Slave of Desire)جیساکہ بینتھم(Bentham) کہتا ہے (گو کہ وہ رومانوی نہیں تھا) کہ عقل تو دراصل خواہشات کی غلام ہے ، وہ تو در اصل Intuitionکی باندی ہے اور اصل میں حقیقت تک رسائی کا ذریعہ (Intuition) ہے ۔ خود انسان کے اند ر وہ جبلتیں ہیں جن کے ذریعہ وہ Ontological Realityتک پہنچ سکتا ہے ۔

روسو کے ذریعے تحریک تنویر اور تحریک رومانویت کا ادغام:

                سیاسی اور معاشرتی نقطہئِ نظر سے اس دوسرے فلسفہ کا سب سے زیادہ اثر ہوا ۔ جس شخص نے تحریکِ تنویر کو اور تحریکِ رومانویت کو باہم ملا دیا وہ رو سو تھا۔ روسو کے ہاں ایک بڑا بنیادی تصور ارادئہ ِ عمومی(General Will) کا ہے ۔ روسو کے خیال میں انسان بنیادی طور پر خیر ہے اور ہمیشہ خیر کا طالب ہوتا ہے ۔ انسانی خواہشات ، جبلتیں ، احساسات فطرتاً پاک ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ انسان اپنے ارادے کے تحت جس چیز کو پسند کرتا ہے وہ عمومی فلاح ہے۔

                انسان خود بخود ، بغیر کسی وحی کے ، بغیر کسی رہنمائی ، بغیر کسی نظام اطاعت کے ، بذات خود اس چیز کا مکلف ہے کہ وہ ارادئہ ِ عمومی کے ذریعہ خیر کا تمنائی ہو۔ ہر فرد کا ارادہ ، ارادئہ ِ عمومی کا اظہار اس لیے ہے کہ ہر فرد بنیادی طور پر خیر ہے ۔ یہی خیال ارادئہ ِ عمومی کا یہی تصور جمہوریت اور سرمایہ داری کی بنیاد فراہم کرتا ہے ۔ جمہوریت اور سرمایہ داری کی بنیاد یہ عقیدہ  ہے کہ   “General Will always wills human welfare”

                ”ارادہ عمومی ہمیشہ انسانی فلاح کا ارادہ کرتا ہے ”

مقصد یہ ہے کہ انسان کا عمومی ارادہ خیر ہے ۔ وہ اس بات پر مجبور بھی ہے اور تمنائی بھی ہے کہ وہ جس چیز کا ارادہ کرے وہ ایسی ہو جس سے سب لوگوں کی بھلائی اور فلاح ہو۔ ارادئہ ِ عمومی فی نفسہ خیر ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانی فی نفسہ خیر ہے ۔

“The Self is essentially good”

            ”انسانی ذات فی نفسہ خیر ہے ”(ترجمہ)

            انسانی Selfفی الواقع خیر کا ادراک کرتا ہے اور ارادہ بھی خیرکا کرتا ہے ۔ تحریک رومانویت کے نزدیک انسانی نفس بنیادی طور پر خیر کا منبع ہے ۔ اس کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ خیر کے ادراک اور خیر پر عمل پیرا ہونے کے لیے وحی کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔

انسان اور خدا میں کوئی فرق نہیں:

            تحریک تنویر میں تو شروع ہی سے یہ تصور مو جود ہے کہ انسان اور خدا میں در اصل بنیادی طور پر کوئی فرق نہیں ہے ۔ اس خیال کو مختلف سطحو ں پر مختلف انداز میں بیان کیا گیا ہے ۔ سب سے زیادہ سارتر کے افکار میں یہ بات واضح ہے۔ عموماً بیسویں صدی میں یہ بات نکھر کر سامنے آتی ہے لیکن شروع سے ہی یہ خیال کہ انسان علم و عمل ، معاشرت و سیاست کسی شعبہ میں بھی دوسرے کا محتاج نہیں ہے۔ آزادی (Freedom)اور خودمختاری(Autonomy)کے تصور کی یہی بنیاد ہے اور یہ دونوں تصورات تحریکِ تنویر اورتحریکِ رومانویت کی مشترکہ میراث ہیں ۔

            مغربی تہذیب میں انسان کے قائم بالذات ہونے کا یہی تصور ہے جو اوپر بیان ہوا۔ اسی لیے ہم مغربی تہذیب کو ایک مکمل اور بد ترین گمراہی سمجھتے ہیں اور اس کے ساتھ کسی بقائے باہمی کے قائل نہیں ہیں۔ ہم اسے مکمل طور پر رد کرتے ہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ مغرب کے پاس ایک تصور حق و خیر ہے اور ہمارے پاس ایک دوسرا تصور حق و خیر اور اس بنیاد پر اسلام اور مغرب میں کوئی مکالمہ ہو سکتا ہے ۔ مغرب سے کسی مکالمے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا اس کی وجہ یہ ہے کہ مغرب کا تصورِ خیر اور تصورحق و خیر صریحاً باطل ہے۔

مغرب کا بنیادی عقیدہ الوہیت انسان:

            مغرب کا بنیادی عقید ہ الوہیت انسان کا عقید ہ ہے ۔ مغرب کا بنیادی کلمہ لا الہ الاالا نسان ہے اور اگر بنیادی کلمہ لا الہ الاالا نسان ہے تو مغرب اور ہمارے درمیان مکالمہ ممکن ہی نہیں ۔ اس بنیادی فرق کے باعث ہمارے اور مغرب کے درمیان تو بعد المشرقین ہے ۔ ہم مغرب کو خالص جہالت تصور کرتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے مغربی تہذیب وحی کا انکار کرتی ہے اور یہ دعویٰ کرتی ہے کہ حقیقت تک وحی الہٰی کے بغیر (عقل کی بنیاد پر، جبلتوں کی بنیاد پر ) رسائی ممکن ہے۔ یہ مغرب کا بنیادی عقیدہ ہے اور اسی عقیدہ کے سبب مغرب، مغرب ہے کسی اور وجہ سے نہیں ہے ۔

             اوپر جو کچھ بیان کیا گیا اس کی تفصیل چند مغربی فلاسفہ کی فکر کے حوالے سے بیان کر نے کی کوشش کروں گا۔ سب سے پہلے کانٹ کے چند اساسی نظریات کے بارے میںعرض کروں گا۔

کانٹ کا مغربی فلسفے میں مقام:

            کانٹ مغربی تہذیب میں بہت ہی بنیادی فلسفی ہے ۔ کانٹ کا مغربی فلسفہ میں جو مقام ہے افلاطون کے بعد شایدہی کسی اور مفکر کا ہو۔

            کانٹ کا بنیادی تصور یہ ہے کہ Selfیا انسانی ذات کے اندر ہی ایسا نظام اور ترتیب(Order) موجود ہے جو انسانی تجربے کو ہیئت (Form)اور ساخت(Structure) فراہم کرتا ہے اور نتیجتاً انسانی تجربہ کو بحیثیت تجربہ کے ممکن بناتا ہے ۔ ذات یا Selfکے اس اندرونی نظام کے بغیر تجربہ ممکن نہیں ہوگا ۔ ہم محض مختلف قسم کے غیر مربوط احساسات کے مجموعہ کے مالک ہوں گے ۔ اسی طرح Selfکا یہ Orderکائنات کو اور اس میں مو جود مختلف اعمال و افعال ، اشیاء کو معانی فراہم کرتا ہے ۔ کائنات کے اپنے اندر کوئی معانی نہیں ہیں  ، جب Selfکے Orderکو کائنات پر مسلط کیا جاتا ہے تو اس کے اندر معانی بھی پیدا ہوتے ہیں اور مختلف احساسات و معطیات باہم مربوط ہو کر تجربہ (Experience) کی شکل بھی اختیار کر تے ہیں۔ الغرض کانٹ کے نزدیک Self کے نظام (Order)کو اگر کائنات پر مسلط کیا جائے توکائنات کو اس طرح سمجھا جا سکتا ہے جیسا کہ اس کو سمجھنا چاہیے ۔ یعنی کائنات کو ایک معقول(Rational) کائنات کے طور پر سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کو Selfکے نظام(Order)کے ذریعے سمجھا جائے ۔ تعقل ، معانی ، ربط و ضبط ، نظام، معیشت کا منبع و مصدر انسانی ذات(Self)ہے ، اس منبع نور کے باہر کائنات میں اندھیرا ہی اندھیر ا ہے ، بے ربطی  ہے۔

  The Self posesses an order which determines the structure of experience,  gives forms & meaning to the world.

اشیاء کا مادی وجود لازمی ہے:

            کانٹ کے مطابق Selfکو ایک ایسا علم حاصل ہے جو تجربہ سے ما ورا ہے۔(a prior Knowledge) ان معنوں میں ما وراء ہے کہ تجربہ کو تجربہ بننے کے لیے اس ما ورائی علم میں شرکت کرنا پڑتی ہے ورنہ تجربہ ، تجربہ نہ بن سکے گااور محض بے ربط احساسات اور معطیات کا ایک مجموعہ(Bundle) رہے گا۔ الغرض کانٹ کے مطابق Selfایک ایسا علم رکھتا ہے جس میں شے (Thing)کے تصورات (Categories)اور اشیاء کے مابین تعلق(Relative) کے متعلق تصورات پہلے سے موجود ہوتے ہیں۔ مثلاً علت اور نتائج(Causation) کے تصورات اشیاء کے درمیان ربط و تعلق کے بارے میں وہ اطلاع دیتے ہیں (اوریہ  اطلاع Selfکے پاس موجود ہے) جس کے ساتھ کائنات کی ہر چیز کو ہم آہنگ ہونا پڑے گا ورنہ وہ علم اور تجربہ نہیں بن سکتا۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ کائنات میں کسی بھی دو یا اس سے زیادہ اشیاء کے درمیان تعلق متصور ہوا ور وہ ان تصورات سے ما وراء ہو جو تصور  Self میں پہلے سے مو جود ہیں ۔ اسی طرح کائنات میں کوئی چیزبھی ان تصورات سے ماوراء نہیں ہو سکتی جو  Self میں پہلے سے موجود ہیں ۔ مثلاً ایک ایسا تصور مکان (Space)ہے ، ایساہی ایک تصور زمان  (Time)ہے ، نیز ایسا ہی ایک تصور مقدار (Quantity)ہے ۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک شے ہو اور وہ زمان اور مکان میں نہ ہو، یا اس کی کوئی مقدار نہ ہو ۔ یہ قطعاً ممکن نہیں ہے ورنہ وہ شے ہمارے احاطہ علم میں ہی نہیں آئے گی اور اس کا ہونا نہ ہونا برابر قرار پائے گا۔

کانٹ اور عرفان ذات:

            الغرض کانٹ نے ایک طرف تو یہ کہا کہ عقلیت کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ Self کے اندر وہ ترتیب اورنظم (Order)مو جود ہے جس کے نتیجے میں اشیاء اور اس کے باہمی ربط و تعلق کو متصور (Conceptualise)کرنے کے لیے ضروری تصورات کا Selfکو پہلے سے علم ہوتا ہے ۔ لیکن اگر یہ سوال اٹھایا جائے Selfخود کیا ہے تو اس کا جواب نہیں دیا جاسکتا۔ کانٹ کی علمیات میں عرفان ذات کا کوئی تصور موجود نہیں ہے ۔ Self جانتا ہے اور جاننے کا ذریعہ ہے لیکن Selfخود کیا ہے یہ کوئی نہیں جان سکتا ہمیں جس چیز پر ایمان لانا چاہیے اور اعتقاد رکھنا چاہیے وہ Selfکی یہ صلاحیت کہ وہ جان سکتا ہے ، علم (Knowledge) تک رسائی حاصل کر سکتا اور اپنے اندر ان تصورات اور اس ترتیب و نظم کوسموئے ہوئے ہے جو علم کو ممکن بنانے کے لیے ضروری ہیں ، اس سب پر ایمان رکھنا ضروری ہے ۔ یہی آزادی (Freedom) پر ایمان ہے ۔ فریڈم یا آزادی کیا ہے؟۔ آزادی Selfکی اس استطاعت (Capacity)کا نام ہے کہ وہ تما م تصورات کو جان سکے جن پر تجربہ اور علم کی بنیاد ہے ۔ لیکن Selfکی اس صلاحیت کو ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایمان اور عقیدے کی بات ہے۔ عقل استخراجی اور عقل استقرائی کسی میں بھی یہ صلاحیت نہیں ہے کہ وہ Selfکی اس صلاحیت کو ثابت کر سکے۔ یہ تو ایمان کی بات ہے ۔ آپ کو اس پر ایمان لانا پڑے گا کہ Selfکے اندر یہ صلاحیت  ہے کہ آپ اس کی بنیاد پر دنیا اور اس کی حقیقت تک رسائی حاصل کر سکیں ۔

عقل کی بنیاد پر زباں و مکان سے ماوراء قوانین ایجاد کیے جاسکتے ہیں:

            Selfکی اس صلاحیت پر ایمان لانے کے بعد ہم ایسے عمومی اصول وضع کر سکتے ہیں اور ایسے قوانین بنا سکتے ہیں جو آفاقی ہوں ۔ ہم عقل استقرائی اور عقل استخراجی کو استعمال کر کے ایسے اصول وضع کر سکتے ہیں جو عمومی ہوں ، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم کو کسی  شریعت کی ضرورت نہیں ہے ۔ مثلاً کسی ایسے قانون کی ضرورت نہیں ہے جس کی دلیل کتاب اللہ سے نکلتی ہو یا انجیل سے نکلتی ہو وغیرہ۔ ہم خود اپنی اپنی عقل کی بنیاد پر ایسے قوانین ایجاد کر سکتے ہیں جو ہر معاشرہ اور ہر ریاست اور ہر نظام میں عمومی طور پر نافذ کیے جا سکتے ہوں اور جس کے نتیجہ میں ایک عادلانہ معاشرہ ، ایک عادلانہ ریاست اور ایک عادلانہ تنظیم ممکن ہو سکے چنانچہ ہمیں کسی کتاب اللہ کی ضرورت نہیں ہے ہمیں کسی شریعت کی ضرورت نہیں ہے ۔ ہمیں کسی ہدایت کی ضرورت نہیں ہے، محض عقل کے استعمال کے ذریعہ ہم وہ قوانین بنا سکتے ہیں جو آفاقی ہوں۔

مثالی معاشرے کا تصور:

            اگر ہم ان آفاقی اصولو ں پر عمل کریں تو ہم ایک ایسا مثالی (Ideal)معاشرہ قائم کر سکتے ہیں۔جیسے کانٹKingdom of Endsکہتا ہے۔ Kingdom of Endsسے مراد وہ ریاست ہے جہاں ہر فرد کا یہ اختیار تسلیم کیا جائے کہ وہ خود مختار (Autonomous)اور قائم بالذات (Self determined)ہے ۔ جہاں ہر شخص اس بات کا تعین کرے کہ وہ کس قسم کی زندگی گذارے گا ۔جہاں ہر شخص کو مقصودبالذات سمجھا جائے ۔ ہر شخص کو مساوی خود مختار ، مساوی طور پرقائم بالذات ہونا ، اور مساوی طور پر مقصود بالذات ہونا تسلیم کیا جائے ۔ یہ تسلیم کیا جائے کہ ہر شخص خیر و شر کا تعین خود کر سکتا ہے ۔ یہی کانٹ کا مثالی اور عادلانہ معاشرہ ہے ۔ یہی اس کے فکر میں جنت ارضی کا تصور ہے ۔ کانٹ نے اس جنت ارضی کا تصور براہ راست عیسائی جنت سماوی (Kingdom of Heaven)کی تر دید اور متبادل کے طور پر پیش کیا تھا۔

             کانٹ کے افکار کے اجمالی جائزے سے ظاہر ہے کہ اس کے افکار جن پر پوری مغربی تہذیب کھڑی ہے اور مغربی فکر و فلسفہ کا انحصار اس پر ہے لیکن یہ تمام افکار مطلقاً طاغوت ہیں۔ اس میں شک نہیں ہے کہ عیسائیت کے ساتھ کانٹ کا ایک نوعیت کا تعلق ہے ۔ یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ ترتیب اور نظم (Order)  Selfکے اندر خدا نے ہی رکھا ہے وغیرہ۔ کانٹ اس کا انکار نہیں کرتا۔ اس کی کچھ تو جیہات ہیں جس کی بنیاد پر کانٹ کو خاص طور پر پروٹیسٹنٹ عیسائی بنیادوں پر جواز مل سکتا ہے ۔ لیکن عملاً جس چیز کی وہ تعلیم دیتا ہے اور جو چیز عام ہوئی ہے وہ یہی خود ارادیت کی تعلیم ہے ۔ اس چیز کی تعلیم ہے کہ قانون بھی آپ خود بناسکتے ہیں اور ماورائے کائنات حقائق کا ادراک آپ خود کر سکتے ہیں۔ و ہ خود عیسائی رہا ہوگا لیکن جس چیز کی اس نے ترویج و اشاعت کی وہ تو خالص کفر تھا اور اسی کفر کی بنیاد پر سرمایہ داری اور جمہوریت قائم ہے ۔ آزادی کا یہ تصور ہی بعد میں سرمائے کی شکل اختیار کرتا ہے اور عالمی گمراہی کے طور پر مقبول ہوتا ہے۔

ہیگل کا تصور ذات …… اجتماعی:

            دوسرا مفکر جو اہم ہے وہ ہیگل ہے ۔ ھیگل اٹھارویں صدی کے اواخر اور انیسویں صدی کے اوائل کا فلسفی ہے ۔ ھیگل کے تصورات بھی ان معنوں میں بہت اہم ہیں کہ ان کا یورپی فکر پر بہت اثر ہوا ہے ۔ ہیگل اور کانٹ میں بنیادی فرق یہ ہے کہ کانٹ کا تصورِ ذات(Self) انفرادی (Individual) ہے جبکہ ھیگل کا تصورِ ذات Self اجتماعی (Communitarian)ہے ۔ ھیگل کے نزدیک زبان کی بنیاد پر قائم تاریخی اجتماعیت (Historical Language Community)کے تناظر اور سیاق و سباق میں انفرادی Self کی تشکیل ہوتی ہے ۔ اس تناظر کے علی الرغم Selfکے کسی تصور کو متصور کرنا محض ایک خام خیالی اور abstractionہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اصل Selfجو قائم اور مو جود ہے وہ اجتماعیت پر مبنی Selfہے اور فرد کا کام اس Self میں شریک ہونا ہے ۔مثلاً جرمن قوم کا Selfاصل میں موجود ہے ، اور یہ Selfجرمن تاریخ، جرمن تہذیب اور جرمن تاریخی تجربہ (Historical Experience) میں اپنااظہار کرتا ہے۔

ہیگل کے یہاں Self کا تیسرا تصور: خدا تاریخ کے ذریعے تخلیق ہو رہا ہے:

            لیکن ہیگل کے یہاں انفرادی اور اجتماعی Selfکے علاوہ Self کا ایک تیسرا تصور بھی ہے جسے وہ ذات مطلق (Absolute Self)کہتا ہے ۔ اسی ذات مطلق (Absolute Self)کو وہ روح کائنات (Geist)بھی کہتا ہے اور دوسرے نام بھی ہیںجن کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ ہیگل نے ذات مطلق کا تصور مذاہب خاص طور پر عیسائیت سے لیا ہے اور اسی لیے بعض لوگ اسے عیسائی مفکر بھی سمجھتے ہیں لیکن ہیگل کے ذات مطلق اور عیسائیت کے تصور خدا میں ایک بہت بنیادی فرق ہے ۔ عیسائیت اور مذاہب کے نزدیک خدا ازل سے اپنی مکمل صورت میں مو جود ہے اور اس نے کائنات کو عدم سے تخلیق کیا ہے۔ خدا زمان و مکان سے ان معنوں میں بالا ہے کہ اس کی ذات و صفات میں کسی قسم کا تغیر نہیں ہے لیکن ھیگل یہ کہتا ہے کہ ذات مطلق کہیں بھی مکمل صورت میں مو جود نہیں ہے ۔ ذات مطلق محض ایک مجرد تصور ہے ۔ لیکن جب یہ ذات مطلق زمان و مکان میں داخل ہوتی ہے تو یہ مجر د تصور ایک عملی شکل (Actualization)حاصل کرتا ہے ۔ تاریخ اس ذات مطلق کی خود تخلیقیت(Self Creation) اور خود تشکیلیت (Self Constitution) کا سفر ہے ۔ جب خود تخلیقیت کے اس عمل کے ذریعہ ذات مطلق اپنے آپ کو مکمل کرے گی تو تاریخ ختم ہو جائے گی۔ اسی کو ھیگل اختتام تاریخ(End of History) کہتاہے ۔ اگر مذہبی زبان میں اس بات کو بیان کریں تو ھیگل کے نزدیک (نعوذ باللہ ثم نعوذ باللہ) خدا تاریخ کے ذریعے اپنے آپ کو خلق کر رہا ہے ، اپنے آپ کو مکمل کر رہا ہے ۔

ہیگل نپولین کو خدا کا اظہار سمجھتا تھا:

            اب ھیگل کے نزدیک ذات مطلق خود تخلیقیت اور خود تشکیلیت کے اس سفر کو زبان کی بنیاد پر قائم تاریخی اجتماعیتوں اور ان تاریخی اجتماعیتوں کے جلو میں ظہور پذیر ہونے والی نابغۂ روزگار شخصیات کے ذریعہ کرتی ہے۔ مثلاً جرمن قوم کی تاریخ ، تہذیب ، ادارے ذات مطلق کی تکمیل سفر کے مختلف لمحات ہیں ۔ اسی طرح مثلاً نپولین کو ھیگل فی الواقع خدا کا اظہار سمجھتا تھا۔ اور ١٨٠٦ء میں جب نپولین نے جرمنی پرحملہ کیا تو ھیگل نے با وجود اس کے کہ وہ جرمن تھا اس کا خیر مقدم کیا خدائی تعظیم کے ساتھ کیا اور اپنی کتاب Phenomenolgy of Selfاس کے نام معنون کی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ھیگل کے نزدیک نپولین ذات مطلق کا اظہار تھا۔ تو انفرادی Selfاور اجتماعی Selfدونوں ذات مطلق کی خود تخلیقیت اور خود تشکیلیت کے عملی آلہئِ کار(Vehicale) ہیں ۔ اسی کو ھیگل عقل کی مکاری[Cunning of Reason] اور تاریخ کی مکاری [Cunning of History] کہتا ہے ۔

تاریخ خیر و شرکا اصل پیمانہ ہے:

            ان دونوں اعمال [Processes]یعنی[Cunning of Reason]اور [Cunning of History]کے ذریعہ تاریخی اجتماعیتیں حق کے اظہار پر مجبور ہیں۔ چنانچہ تاریخی اجتماعیتوں کی تاریخ ، طرز حیا ت ہی خیر و شر ، اخلاقیات کے واحد پیمانے ہیں۔ اخلاقیات وہ نہیں ہے جو انجیل اور قرآن میں لکھی ہے بلکہ اخلاقیات سے مراد یہ ہے کہ تاریخی اجتماعیت نے ارتقائ(Development) کے لیے جو معیارات خیر و شر مقرر کیے ہیں، انہی سے اخلاقی معیارات اور پیمانے تشکیل پاتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کسی زمانے میں قرآن اور انجیل اخلاقیات کے پیمانے فراہم کرتے ہوں کیونکہ وہ اس زمانے کی تاریخی اجتماعیتوں کی اخلاقیات کے اظہارتھے لیکن اب وہ تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں اور اجتماعیتوں نے اخلاقیات کے اظہار کے جو نئے زینے عبو ر کیے ہیں انہوں نے قرآن اور انجیل کو ازکارِ رفتہ شے بنا کر رکھ دیا ہے ۔

تاریخ میں اخلاقی پیمانے بدلتے رہتے ہیں:

            اس کا مطلب یہ ہے کہ تاریخ میں تغیرات کے اظہار کے ساتھ ساتھ اخلاقی پیمانے ، خیر و شر کے معیارات بدلتے رہتے ہیں اور ہر آنے والا وقت پہلے سے بہتر ہے اور اس کے پیمانے پہلے دور کے مقابلے میں فوقیت رکھتے ہیں کیونکہ ہر آنے والے دور میں ذات مطلق اپنی تخلیق اور تکمیل کے اگلے اوربر تر مرحلے میں داخل ہو چکی ہوتی ہے ۔ اسی کا نام ترقی(Progress) اور Developmentہے ۔

خیر و شر کا پیمانہ ترقی ہے:

             اس سے ثابت یہ ہوتا ہے کہ ھیگل کے نزدیک خیر و شر کا جو پیمانہ ہے وہ ترقی (Development) ہی ہے اور جو تاریخی اجتماعیت جتنی زیادہ ترقی کر گئی وہ اسی قدر معیار حق و باطل اور معیار خیر و شر ہوگی اور چونکہ سب سے زیادہ ترقی جس اجتماعیت (Community)نے کی ہے ،اور سب سے زیادہ غلبہ جس نے حاصل کیا ہے وہ مغرب ہے اس لیے مغرب اور اس کی تاریخ اور تہذیب ، ادارتی صف بندی ، آدرشیں ہی حق و باطل کا معیار ہیں ۔ اور چونکہ مغرب کی ترقی کے آگے کسی ترقی کا تصور نہیں ہو سکتا اس لیے مغربی تہذیب ہی بنیاد ی طور پر ذات مطلق اور روح کائنات کا اظہار مکمل ہے۔ اسی لیے مغربی تہذیب کا غلبہ تکمیل ذات مطلق ہے اور اسی لیے اب دائمی ہے اور اس دوام کو کبھی زوال نہیں آئے گا اس لیے ہر تہذیب اور ملت کو مغرب کی تہذیب ، آدرشوں ، اداروں کوخیر مطلق کی حیثیت سے قبول کر لینا چاہیے ۔ ان معنوں میں تاریخ اب ختم ہوگئی ہے۔

ہیگل امریکا کا سب سے بڑا مداح :

            اوراسی لیے سب سے زیادہ توقع اور امید اور سب سے زیادہ مدح سرائی ھیگل کے ہاں امریکہ کی ہے ۔ وہ کہتا ہے اصل میں امریکہ مغربی تہذیب کی روح کا خالص ترین اظہار ہے ۔ حالا نکہ ھیگل کے دور میں امریکہ کی کوئی خاص سیاسی حیثیت نہیں تھی جو آج ہے اس کے باوجود وہ کہتا ہے کہ مغربی تہذیب کے آدرشوں اور افکار کے سب سے زیادہ اظہار اور سب سے زیادہ ترقی کا امکان امریکہ میں ہے۔

تاریخ کے خاتمے کا مطلب کیا ہے؟

            الغرض مغربی تہذیب کا غلبہ دائمی ہے۔ جب مغرب میں یہ کہا جاتا ہے کہ تاریخ کا خاتمہ ہوچکا ہے تو وہ ان معنوں میں کہ اس کے بعد کسی بنیادی تغیر کا امکان ختم ہوگیا ہے۔ اس کے بعد حق کے مزید کسی ادراک کا کوئی امکان نہیں ہے ۔ فی الواقع تحریکِ تنویر نے جو تصورات پیش کیے ہیں بالخصوص آزادی کا تصور، وہ قدر مطلق ہے اور اس قدر مطلق کو آفاقی طور پر مستحکم کرنے کا طریقہ یہی ہے کہ مغربی تہذیب کی عالمگیریت اور آفاقیت کو نہ صرف یہ کہ تسلیم کیا جائے بلکہ اس کو ممکن بھی بنایا جائے اور اس کی راہ میں حائل ہر خطریکو ہر قیمت پر ختم کر دیا جائے۔

            مغرب ایک دنیا تعمیر کررہاہے، یہ دنیا ناقابل تغیر اور ناقابل تردید ہے۔ تاریخ کا اختتام ان معنوں میں ہوچکا ہے کہ مغربی تہذیب نے جن آدرشوں کو پیش کیا ہے انہیں نہ صرف یہ کہ آفاقی حق کے طور پر قبول کرے گی بلکہ اس کے اظہار کا موقع بھی دے گی مغربی تہذیب کا غلبہ ایک نا گزیر حقیقت ہے ۔ تحریک تنویر اورتحریک رومانویت نے جن آفاقی نظریات کو پیش کیا تھا ان کے سامنے بند باندھنا ممکن نہیں ہے ۔

            جنھوں نے ھیگل کو پڑھا ہے وہ جانتے ہیں کہ ھیگل کی رومانوی اور تنویری تعبیریں یکساں طور پر ممکن ہیں ۔ او ر روسو کی طرح ھیگل بھی تہذیب مغرب کے ان دو دھاروں کے ملاپ کا کام کرتا ہے۔

مغرب میں ”خیر” نہیں ”ارادہ” غالب ہے:

            اوپر ہم نے کانٹ اور ھیگل کا جو تصو ر پیش کیا ہے وہ یہ تصور تھا کہ مغربی تہذیب اور اقدار کا غلبہ انسانیت کی فلاح اور خیر کی چیز ہے ۔ لیکن تحریک رومانویت سے ایک اور دوسرا دھارا بھی نکلتا ہے جو مغرب تہذیب کو فلاح و خیر وغیرہ نہیں گردانتا۔ مثلاً شوپنہار کے ہاں تو بالخصوص یہ بنیاد مو جود ہے کہ وہ مغربی تہذیب کے غلبہ کو فی الواقع خیر نہیں تصور کرتا ہے بلکہ کہتا ہے کہ جو چیز غالب (Dominant) ہوئی ہے وہ ارادہ (Will)ہے ۔ جس چیز نے مغرب کے ذریعہ غلبہ حاصل کیا ہے وہ عقل نہیں ہے بلکہ Will ہے  اور ارادہ ایک اندھی قوت (Blind Force)کا نام ہے ۔ اس اندھی قوت نے دنیا کو غم اور دکھ سے بھر دیا ہے ۔ اس قوت اور اس کے غلبہ کو کسی صورت روکا نہیں جا سکتا ہے۔ یہ قنوطیت کا غلبہ مغربی فلسفیوں میں شروع سے چلا آرہا ہے حتیٰ کہ فو کالٹ (Foucault) میں بھی جو بیسویں صدی کا مفکر ہے اور ١٩٨٤ء میں مرا ہے۔ اس کے افکار پر بھی یاسیت و قنوطیت شدت کے ساتھ غالب ہے۔

            مغربی تہذیب میں یہ دونوں دھارے مو جود ہیں ۔ ایک طرف تو پر امید (Optimistic) تصور ہے کہ مغربی تہذیب کا غلبہ خیر و فلاح ہے دوسری طرف قنوطی تصور ہے جو اس کو خیر و فلاح نہیں سمجھتا ہے لیکن مغربی غلبہ کی نا گزیریت پر دونوں یک زبان ہیں۔

            اسی دوسرے دھا رے کا اظہار ایک اورفلسفی کرتا ہے جس کا نام ہے کر کیگارڈ (Kierkegard) ہے۔ اس کے ہاں یہ خیال مو جود ہے کہ انسان جو کچھ پسند کرتا ہے اس کو ہم عقلی بنیادوں پر جواز(Justify) فراہم نہیں کر سکتے ۔ آپ کوئی عقیدہ اختیار کر تے ہیں ، کوئی طرز زندگی پسند کرتے ہیں ، اس کا انتخاب کو آپ نہ عقل کی بنیاد پر نہیں کرتے ہیں کسی چیز کے حق اور نا حق ہونے کا معیار یہ نہیں ہے کہ آپ کیا چنتے ہیں بلکہ وہ اس بات پر منحصر ہے کہ آپ اسے کیسے چنتے ہیں۔ کسی چیز کی اپنی کوئی قدر نہیں ہوتی ہے ، جس اندازمیں آپ اس چیز کو اپناتے ہیں وہ اس میں قدر پیدا کرتی ہے یا اس کو بے قدر بناتی ہے ۔ انگریزی میں ہم اس کو یوں ادا کر سکتے ہیں کہ

It is not important what you choose, but how you chose it.

            ”یہ اہم نہیں ہے کہ تم کیا چنتے ہو بلکہ اہم یہ ہے کہ تم کیسے چنتے ہو ”

            یہ اہم نہیں ہے کہ تم ہندو ہو یا مسلما ن ہو یا لبرل ہو ، کیونکہ یہ تمام طرز ہائے زندگی اور عقائد یکساں طور پر بے قدر (Value less)ہیں ۔ بلکہ جس شدت کے ساتھ آپ کسی طرز زندگی کے ساتھ وابستہ ہوں گے بغیر کسی دلیل کے اسی قدر اس طرز ِزندگی کی قدر ہوگی شدتِ وابستگی کسی چیز میں قدر پیدا کرتی ہے ۔ اس کو انگریزی میں کہیں گے ۔

Choosing passion determines your access to the good.

            اور اس کی معراج یہ ہے کہ جو عقیدہ اور طرزِ زندگی سب سے زیادہ لا یعنی ، مہمل اورعقلی طور پر تضادات کا مجموعہ ہو گا اس کو اگر اس تمام لایعنیت ، اور تضادات عقلی کے با وجود شدت جذبات کے ساتھ یک سو کر قبول کیا جائے تو یہ ایک ایسی زندگی کا اظہار ہوگا جو کہ قدر ِاعلیٰ کی اعلیٰ ترین منزل ہے ۔ کر کیگارڈ کا یہ خیال بیسویں صدی میں نہایت اہم ہو جاتا ہے کیونکہ آج مغربی تہذیب کی    لا یعینت مغربی مفکرین پر اظہرمن الشمس ہے ۔ لیکن اس لا یعنیت کو اسی شدت کے ساتھ گلے لگائے رکھنے کو Authenticityکی معراج سمجھا جا رہا ہے ۔

مارکس کے افکار:

            مارکس کو ہم کسی نہ کسی حد تک اسی تناظر میں دیکھ سکتے ہیں ۔ مارکس پسند و نا پسند اور اختیار کی اس لا یعنیت کو رد کرتا ہے اور کہتا ہے کہ شوپنہاداور کرکیگارڈ کے یہاں پسند و اختیار کی لا یعنیت کا جو خیال مو جو د ہے وہ در اصل ایک خاص معاشی نظام کی بالا دستی کی وجہ سے پیدا ہوا ہے ۔ اگر اس نظام یعنی سرمایہ داری کو کسی نہ کسی صورت سے آپ ختم کر دیں تو اس کے نتیجہ میں لا یعنیت یا جسے وہ اجنبیت (Alienation)کا نام دیتا ہے ختم ہو جائے گی۔

آپ جو چاہیں کریں:

            مارکس کی ایک سے زیادہ تعبیریں ممکن ہیں لیکن اس تفصیل میں یہاں نہیں جائوں گا صرف اہم اہم اور موٹی مو ٹی باتیں عرض کروں گا۔ مارکس کا بنیادی خیال یہ ہے کہ اختیار و پسند کی لا یعنیت سرمایہ داری کا شاخسانہ ہے۔ سرمایہ داری نے پسندو اختیار کو حقیقی (authentic)رہنے ہی نہیں دیا۔

            حقیقی واقعی(authentic) اختیار(Choice)کا مطلب یہ ہے کہ انسان غلام (Slave)نہ رہے بلکہ آقا(Master)بن جائے ۔ آقائی اور خود مختاری کے لیے ضروری ہے کہ آپ طبقاتی جد و جہد کے ذریعہ پر ولتاریوں کی آمریت قائم کریں تاکہ   سرمایہ داری نظام سے اوپر اٹھ کر وہ جنت ارضی حاصل کی جا سکے جسے مارکس کمیونزم کہتا تھا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ جنت ارضی قائم ہو جائے گی اور آپ خود مختار اور آقا بن گئے تو کیا آپ کو اختیار کی لا یعنیت سے رستگاری نصیب ہو گی یا نہیں؟ اب اگر مارکس نے جو کمیونسٹ معاشرے کے خدو خال بیان کیے ہیں ان کا جائزہ لیںآپ دیکھیں گے کہ یہاں بھی اختیار کی  لا یعنیت عود کر آتی ہے ۔ کمیونسٹ سو سائٹی وہ ہے جس میں کسی بھی چیز کی حقیقی قدر نہیں ہے ۔ جس کا جو جی میں آئے کرے۔ یہی مارکس کا تصور ہے کمیونسٹ سوسائٹی کا۔ جب ہرچیز کی قدر برابر ہے (یعنی کہ کوئی قدر نہیں ہے ) اور آپ جو چاہیں کریں تو اختیار کی  لا یعنیت کا عود کر آنا ایک یقینی بات ہے ۔ اس لحاظ سے کانٹ کی Kingdom of Endsاور کمیونسٹ سو سائٹی میں بڑی مماثلت ہے کہ دونوں میں اختیار کی لا یعنیت (absurdity of Choice)اور اختیار کی آفاقیت(Universality of Choice) عود کر آتے ہیں ۔ اختیار کی آفاقیت اور اختیار کی لا یعنیت ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں ۔ جب آپ اس کے لیے    تگ و دو کرتے ہیں کہ آپ جو چاہیں کریں (اختیار کی وسعت) تو کسی چیز میں بھی کوئی حقیقی قدر(Intrinsic Value) باقی نہیں رہتی اور زندگی فی الواقع ایک تماشہ بن جاتی ہے ۔

مارکسی معاشرے میں مقصد زندگی کا تصور کیا ہے؟

            اس کی واضح تصویر مارکس کے کمیونسٹ معاشرے کے تصور میں ہمیں ملتی ہے ۔ کمیونسٹ معاشرے میں مارکس کہتا ہے آپ کی جو مرضی میں آئے گا وہ آپ کر سکیں گے ۔ صبح کو مچھلی پکڑیں ، شام کو گانا گائیں وغیرہ ۔ مطلب یہ ہے کہ وہ اختیار کی لا یعنیت کو ان معنوں میں رد نہیں کرتا اور اسے ایک اچھی چیز کے طور پر قبول کرتا ہے ۔ کہتا ہے کہ انسان کی آزادی ہے کہ جو چاہے کرے۔ اس کی نظر میں زندگی ایک کھیل ہے ۔ جس میں جو دل چاہے آپ کھیلیں اور فی الواقع قدر(Value) کچھ نہیں ہے اور قدر صرف وہ ہے جو آپ چاہیں کہ قدر ہو۔ یہ تصور بعد میں دوسروں کے یہا ں ملتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ عملاً سرمایہ داری اور اشتراکیت جو معاشرہ پیدا کرتے ہیں بالکل ایک جیسے معاشرے ہوتے ہیں ان میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ اسی وجہ سے ایک دوسرے میں ضم ہونا ان کے لیے ممکن ہے۔ اشتراکی ریاست ،سرمایہ دارانہ ریاست ہوجاتی ہے اور سرمایہ دارانہ ریاست اشتراکی ہو سکتی ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بنیادی طور پر ان کے یہاں کوئی خیر کا تصور مو جود ہی نہیں ہے ۔

مابعدالطبیعاتی سوالات کے انکار کا مکتبہ فکر:

            اب چند باتیںPositivistsکے بارے میں ۔ Posiitivistsایک ایسا مکتبہ ئِ فکر ہے جو انیسویں صدی کے اواخر میں ظہور پذیر ہوا اوراس نے سرے سے حقیقت (Ontological) سے متعلق سوالوں کی ضرورت ہی سے انکار کر دیا اس نے کہا یہ بات معلوم کرنے کی کوشش کرنا کہ کائنات کیا ہے اور انسان کیاہے اورحقیقت کیا ہے یہ لا حاصل بات ہے ان حقائق تک رسائی حاصل نہیں کی جا سکتی ۔ اس مکتبہ فکر میں واحد استثناء ہے (یہ بعد میں عرض کروں گا کہ Wiltgenstein نے ایسا نہیں کہا کہ حقائق کے حصول کی کوشش نہیں کرنا چاہیے ) سب سے اعلیٰ مقام Positivistsمیں Wittgenistein کا ہی ہے۔

            Positivists کے مطابق Ontologicalحقائق کے ادراک کی کو شش کرنا فعل عبث ہے اور ہمیں اس سے باز آ جانا چاہیے مثلاً یہ جو Ontologicalحقائق کی بات لوگ کرتے ہیں کہ انسان کیا ہے اور کائنات کیا ہے اور خیر کیا اور حق کیا ہے تمام چیزیں یہ سب کچھ نفسیات کاری ہے ۔ یعنی انسان اپنے نفس کے اندر چند جبلتیں رکھتا ہے جن کی بنیاد پر وہ   فی نفسہ کچھ باتیں کہتا ہے لیکن ان کی کوئی علمی حیثیت نہیں ہے اور علمی حیثیت صرف ان چیز وں کی ہے جن پر ہم منطقی ذرائع سے پہنچتے ہیں یا جو تجربات کے ضمن میں ہم جانتے ہیں۔ماورائی حقائق(Ontological Truth) تک ہم رسائی حاصل نہیں کر سکتے ۔ اس چیز کے انکار کی ایک شکلPhenomnology ہے اور دوسری شکل Hermanuticsکی ہے( Hermanuticsپہلے اور Phenomnologyبعد میں  ) ۔ اس میں ایک رد عمل پیدا ہوا کہ نہیں یہ ممکن ہے کہ —فرض کریں ہم یہ با ت تسلیم کر بھی لیں کہ ماورائی حقائق کی دسترس ہمیں اپنے نفس سے حاصل ہوتی ہے تو ہم ایسی سائنس ایجاد کرسکتے ہیں کہ جس وقت ہم انسانی تجربات کی منظم اندا ز میں[System atically] توجیہہ[Interpret] کرنے کے قابل ہوجائیں گے۔ تو ہم ان تجربات کے اصلی معانی بیان کر سکیں گے۔ اس سائنس کو ہم کہتے ہیں [Hermanutics]اور Habermas کے ہاں یہ تصور مو جود ہے کہ جو کچھ بھی انسانی تصورات ہیں ان کا سائنسی اور منظم اور مرتب تجزیہ حقائق کے ادراک کا ایک صحیح ذریعہ ہو سکتا ہے ۔ اس میں کچھ مفکرین نے بالخصوص Diltheyنے اس خدشے کا اظہار کیا کہ تجربے جو انسان کے تاریخی تناظر سے متعین ہوتے ہیں اورانسان کی تاریخی پوزیشن سے متعین ہوتے ہیں ۔لہٰذا ان تجربات کا تجزیہ اس چیز کا امکان رکھتا ہے کہ حقائق کا مختلف النوع ادراک کیا جائے۔

اضافیت(Relativism) کے مطابق کوئی بھی ادراک آفاقی حقائق کو اجاگر نہیں کرتا بلکہ وہ ایک ایسے سچ کو اجاگر کرتاہے جو صرف اضافی طور پر درست ہوتا ہے ۔ مخصوص تجربات کے تاریخی سیاق و سباق کے حوالے سے صداقت متعین کی جاسکتی ہے ۔ جس کی وجہ سے ہم آفاقی سچائیوں کا ادراک علم التعبیر اور علم توجیہہ کے ذریعے نہیں کر سکتے اور Hermeneutics میں یہ گنجائش مو جود ہے کہ اضافیت دوبارہ کسی نہ کسی شکل میں امکان کے طور پر وجود رکھے ۔مغربی تہذیب کا بنیادی دعویٰ یہ ہے کہ وہ ایسے مصدقہ اصول دریافت کر سکتی ہے کہ جن کی بنیاد پر تمام معاشرے اور تمام ریاستوں کے نظام کو مرتب کریں تو عدل قائم ہو جائے گا۔ مغربی تہذیب کی فلسفیانہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ عدل کا تصور، تصورِ نفس سے اخذ کردہ ہے جب کہ تصورِ نفس ، تصور عقلیت میں مضمر ہے ۔ جس کا پرچار کانٹ ، ہیگل وغیرہ کی فکر میں ملتا ہے ۔ اگر اضافیت کو قبول کر لیا جائے تو مغربی تہذیب کی آفاقیت خطرے میں پڑ جا ئے گی یعنی مغربی تہذیب و ہ اصول تو مرتب کر سکتی ہے جو ان کے اپنے تاریخی اصولوں سے متعین ہوتے ہیں لیکن ایسے اصول وہ نہ تخلیق کرسکتی ہے نہ متعین کرسکتی جو تمام معاشروں اور تمام تاریخوں کے لیے یکساں طور پر محیط ہوں اور ان کی بنیاد پر ان تہذیبوں کو،ان کے تجربات کو جانچا جا سکے ۔ لہٰذا Relativism، مغربی تہذیب کی آفاقیت کے لیے ایک خطرہ ہے ۔ یہ وہی مغربی بالا دستی کی قنوطی (Passimistic)تعبیر ہے جو شوپنہار سے شروع ہوتی ہے اس کی ایک تشریح ہے جو کہ بعد میں جا کر فوکو کے ہاں یا جسے کہتے ہیں Structuralist کے ہاں یا جسے ہم Post Modernتحریک کہتے ہیں اس کے ہاں زیادہ واضح شکل میں نمایاں ہوتی ہے ۔

نطشے اور برگساں: حق کے بجائے غلبہ:

            نطشے اوربرگساں بھی دو اہم فلسفی ہیں ان کے ہاں بھی وہی تسلسل افکار continuation موجود ہے ۔ مغربی تہذیب کی بالا دستی کو آفاقی اصولوں کی بنیاد پر ثابت Justifyکرنا، لیکن اس طریقے سے کہ مغرب کوایک فاتح کی حیثیت سے پیش کیا جائے ۔ نطشے کے ہاں جو بنیادی تصور ملتا ہے ہے وہ یہ ہے کہ ایک قانون ایسا مو جود ہے کہ جو تمام انسانیت کے اوپر لاگو ہے وہ ہے اس اصول کو نطشے (Nietzsle) The Will to Surviveیا Power کا نام دیتا ہے اس سے مراد ہے کہ ہر آدمی، ہر فرد، ہر معاشرہ اس پر مجبور ہے کہ اپنی بقائ(Survival)، کے لیے جد و جہد اور جستجو کرے جو چیز اہم ہے وہ یہ نہیں ہے کہ ہم حق تک رسائی حاصل کریں ۔ یہ ضمنی سوال ہے کہ ہم حق تک کتنی رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔

اصل اہمیت حق کی نہیں غلبہ کی ہے:

            اصل سوال یہ ہے کہ ہمیں غلبہ حاصل ہوتا ہے یا غلبہ حاصل نہیں ہوتا ۔ اصل سوال یہ ہے کہ ہم (Survive) کر سکتے ہیں یا نہیں کرسکتے۔Super Manوہ شخص ہے جو زندگی کو اس طریقے سے گزارتا ہے کہ وہ غالب (Super Dominent) حیثیت اختیار کر لیتا ہے اور وہ اس اخلاقیات (Morality)کو عام کرتا ہے جو غلبہ پانے والے (Master) کی اخلاقیات Morality ہوتی ہے ۔ غلام کی اخلاقیات (Morality) نہیں ہوتی ۔ اصل جو کوشش اور جدو جہد اور تجزیے کا مرکز و محور یہ ہونا چاہیے کہ ہم کس حد تک غالب آسکتے ہیں اور ہم کس حد تک اپنے ارادے کو مسلط کر سکتے ہیں ایک غلا م نسل(Slave Race) پر اور ہم اپنی زندگی کو ایک ادب کے نمونے (Work of art)کی طرح گزار سکتے ہیں زندگی میں جس چیز کی تلاش ہے وہ حسن کی تلاش ہے اور حسن کی تحسین و تعریف ہے ۔ زندگی ادب کا ایک نمونہ ہونی چاہیے۔

اخلاقی سوالات اصل سوالات نہیں:

            اخلاقی سوالات اصل سوالات نہیں ہیں ۔ اصل سوالات تو یہ ہیں کہ ہم کتنے جمالیاتی (Artistic) معاشرے تخلیق کرتے ہیں یا زندگی گزارتے ہیں اور جس کے نتیجے میں ہم ایک نظام کے اندر کتنا زیادہ غلبہ حاصل کرتے ہیں اور کس حد تک ہم اس قابل ہوتے ہیں کہ اپنی شخصیت کو غالب کر سکیں اپنی تہذیب کو غالب کر سکیںایک پورے معاشرے کے اوپر اس کے حساب سے ہم بقائ(Survive) حاصل کریں اس کے سوا حق کی کوئی اصل نہیں۔

خواہشات نفس ہی ”حق” ہے:

            Phenomnolgyکے بارے میں کچھ باتیں الگ سے بھی عرض کرسکتے ہیں لیکن میرے خیال میں صرف اتنی بات کافی ہے ۔ باقی تمام چیز یں حذف کرتا ہوں ۔ صرف اتنی بات جوPhenommolgyکے اندر سے نکلتی ہے کہ انسان کو حق اپنے اندر ہی تلاش کرنا ہے (The Self must find in itself)حق کے تلاش کرنے کی جگہ Selfخود ہے ۔ چنانچہ معروضیت (Objectivity)کا حصول اسی وقت ہوتا ہے جب انسان مکمل داخلی(Totally Subjective) ہوجائے ۔ جس وقت ایک شخص پورے طور پر اپنے آپ کو اپنے نفس کے سپر د کردیتا ہے اور اپنے نفس کی کیفیات کا ادراک کر لیتا ہے تو اس وقت ہی وہ حق کا ادراک کرتا ہے ظاہر ہے کہ یہ نفس کوئی عابد نفس نہیں ہے ۔ وہ نفس نہیں ہے کہ جو ماتحت ہے کسی رب کے بلکہ جو خود ہی رب ہے اور جو خود ہی حق کا خالق ہے خود ہی حق کا مالک ہے اور اس کا ادراک جب آپ پورے طریقے سے کریں گے اسی وقت خود ارادیت کا کوئی مطلب نظر آتا ہے چنانچہ Phenomnenolgyکی یہ تعلیم کہ انسان اسی وقت حق کا ادراک کرتا ہے جس وقت وہ نفس کے تابع ہو جاتا ہے یا نفس کو پورے طریقے سے سمجھتا ہے تو یہ وہی چیز ہے کہ جو Kantکے ہاں کسی نہ کسی شکل میں مو جو د ہے کہ order نفس کے اندر پہلے سے موجود ہے Already Existکرتاہے ۔

فرائیڈ کے یہاں حق کا مقام تحت الشعور ہے:

            اس کے بعد بیسویں صدی کے شروع اور انیسویں صدی کے آخر میں جو فلسفی بہت اہم رہا ہے وہ فرائیڈہے ۔ فرائیڈ کے ہاں یہ تصور کہ نفس کے اندر ہی سے حق کا اداراک نکلتا ہے پورے طریقے سے واضح ہو کر آتا ہے ۔ وہ تصور یہ ہے کہ حق کا اصلی مقام Sub-conciousہے یعنی تحت الشعور ۔ تحت الشعور میں جو قوت غلبہ پاتی ہے جو طاقت غالب آتی ہے اس کو فرائیڈ کہتا ہے Libidoلیکن  Libidoایک تباہ کرنے والی او ر ایک حیوانی خصوصیت ہے ۔ جس وقت آپ اپنے آپ کو نفس کے سپرد کرتے ہیںاور تحت الشعور میں نفس کو تلاش کرتے ہیں تو وہ حق جس کا ادراک کرتے ہیں شیطانی ہے ۔ آپ کی [Idis Impulses] جب آپ کائنات کو دیکھتے ہیں اس کی اصلیت جانتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ یہ کائنات تو شیطانی ہے ۔ یہ کائنات تو جنگلی ہے ، یہ کائنات تو بہیمیت کی غماز ہے ۔ چنانچہ تہذیب کو قائم کرنے کے لیے لازم ہے کہ نفس(ego) Libido , پر غالب آئے ۔ اگرEgo،  Libidoپر حاوی نہیں آئے گا تو تہذیب بر قرار نہیں رہ سکتی چونکہ حقیقت تو یہ ہے کہ آپ ایک حیوان ہیں حقیقت تو یہ ہے کہ آپ کے اندر جو خواہشات اور میلانات ہیں وہ تہذیب کش ہیں و ہ تہذیب کو تباہ کرنے والے ہیں ۔ چنانچہ حق کو جاننا اس چیز کو جا ننا ہے کہ کائنات شیطانی ہے اور انسان کی اپنی ماہیت شیطانی ہے اور تہذیب کا قیام اسی شیطان کے خلاف ایک جدو جہد ہے اور ان معنوں میں وہ کامیاب نہیں ہو سکتی کہ جس وقت آپ اپنی اصلیت کو دبا (Supress) دیتے ہیں ، جس وقت ego،  Libidoکے اوپر حاوی آئے گا تو آپ در اصل اپنی ذات کی نفی کریں گے اور موت کی خواہش آپ کے اوپر حاوی آ جائے گی۔ چنانچہ شو پنہار کے ہاں تصور چلا آرہا ہے کہ بنیادی طور پر Will شیطانی ہے یہ تصور فرائیڈ کے ہاں پوری طرح منعکس ہوتا ہے۔ لہٰذا وہ کہتا ہے کہ ہم نے اپنے نفس کو دیکھا اور ہم نے دیکھا کہ نفس خود ارادیت کے اظہار کا نام ہے اورخود ارادیت تو Libido یعنی] Idish Impulses کا اظہار[ اور وہ خواہشات جو انسان کو حیوان بناتی ہیں کے اظہار کا طریقہ ہے اورتہذیب تو وہ ملمع ہے جس کے اندر وہ چیزیں محصور رہتی ہیں ۔

وٹگنسٹائن حق کو دنیا کے باہر سمجھتا ہے:

            اس کے بعد ہم بیسویں صدی کے ایک اور بہت بڑے فلسفی کا تذکرہ کرتے ہیں جس کا نام ہے Wittgenstein۔ Wittgenstein بھی ایک Positivist ہے ان معنوں میں ہے کہ وہ کہتا ہے کہ عقلی ذرائع سے Ontologicalحقائق کا ادراک نہیں کیا جا سکتا اور بالخصوص Ontological حقائق کو بیان نہیں کیا جا سکتا ۔ لیکن وہ دوسرے Positivistsسے ان معنوں میں بہت مختلف ہے کہ وہ کہتا ہے گوکہ Ontologicalحقائق کاتعقل کی بنیاد پرادراک نہیں کیا جا سکتا اس کا اپنا جملہ یہ ہے  MetaPhysics is unsayable]۔ [Ontological حقائق کو آپ بیان نہیں کر سکتے لیکن اس سے ثابت یہ ہوتا ہے کہ دنیا خود کوئی حقیقت نہیں ہے ۔ دنیا کے اندر نہ حق ہے نہ قدر ہے ۔ اگر کہیں حق ہے اور اگر کہیں قدر ہے تو وہ دنیا کے باہر ہے دنیا کے اندر نہ حق ہے نہ قد ر ہے اور دنیا کے اندر حق تک رسائی کا کوئی ذریعہ نہیں ۔ ایک زمانے میں جب اس نے کتاب لکھی تھی ایسا لگتا تھا کہ جیسے وہ زبان کو حق کے ادراک کا ایک ذریعہ سمجھتاہے اور Languageکو آفاقی حیثیت دیتا ہے ۔ لیکن اس کی اپنی تحریر اس کا انکار کرتی نظر آتی ہے کہ زبان کے تجزیے (Analysis)کے ذریعے حق تک کوئی رسائی ممکن ہے وہ کہتا ہے محض زبان کے کھیل ہیں لوگ محض زبان کے کھیل کھیلتے ہیں جس سے کوئی آفاقی سچ اور حق اخذ نہیں کر سکتے لیکن اس کے با وجود و ہ کہتا یہ ہے کہ آفاقی حقائق کا ادراک بہت اہم ہے اور جو چیز ثابت ہوتی ہے وہ یہ کہ ہم عقل کے ذریعے حق کا ادراک نہیں کر سکتے ۔ یہ کہ عقل سے اوپر اٹھنے کی ضرورت ہے عقل سے اوپر کیسے اٹھا جائے ۔ اس کے بارے میں و ہ خاموش ہے ۔ اس کے بارے میں وہ کچھ نہیں کہتا عقل سے اوپر کیسے اٹھا جائے لیکن وہ MetaPhysical اور Ontological Realities کی اہمیت اور اصلیت سے اور ان کی ضرورت سے انکار نہیں کرتا اور ان معنوں میں وہ دنیا کو ہیچ اور دنیا کو غیر ضروری سمجھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ دنیا میں حق اور خیر مو جود نہیں ہے ۔ اگر حق اور خیر مو جود ہے و ہ کہاں مو جود ہے اور اس تک کیسے رسائی حاصل کی جا سکتی ہے ، اس کا کوئی جواب نہیں دیتا۔ و ہ اس سلسلے میں خاموش رہتا ہے وہ کہتا ہے اس کا کوئی جواب دیا نہیں جا سکتا۔ اور ان معنوں میں اس میں اور Heidegerمیں ۔ جو بیسویں صدی کا ایک اور اہم فلسفی ہے ، بڑی مماثلت ہے ۔

ہائڈیگر اور مابعد الطبیعیاتی سوالات کا جواب:

            Heidegerکہتا ہے کہ انسان محض دنیا میں پھینک دیا گیا ہے He has been thrown in the world. لیکن وہ اس پر مجبور ہے ۔ وہ اپنے آپ کو دنیا میں پاتا ہے اور اسے نہیں معلوم کہ وہ کہاں سے آیا ہے اور کہاں جائے گا اس کی زندگی کی کیا حیثیت ہے کائنات میں اس کا کیا مقام ہے اس کے پاس کوئی جواب مو جود نہیں ہے لیکن و ہ اس بات پہ مجبور ہے کہ وہ ان سوالات کا جواب تلاش کرے ۔ Heidegerکہتا ہے ان سوالات کا کوئی جواب نہیں دیا جا سکتا لیکن اگر آپ کو ایک ایسی زندگی گزارنا ہے جو معنی خیززندگی ہے ، جو Valuableزندگی ہے تو ان سوالات کا جواب آپ کو مستقل تلاش کرتے رہنا چاہیے ۔ اور وہ کہتا ہے کہ مغربی تہذیب کا زوال اسی میں ہے کہ اس نے beingکے سوال کو، Ontologicalسوالات کو جن کا میں پہلے تذکرہ کر چکا ہوں بھولنے کی کوشش کی اس وجہ سے مغربی تہذیب ایک مکینیکل اور ٹیکنالوجیکل تہذیب ہو کر رہ گئی ہے ۔ معنی اور معنویت غائب ہو گئی ہے یعنی اس نے عملاً اور دانستہ طور پر ان Ontologicalسوالات کا جواب دینے سے پہلو تہی کی ہے ۔ ان سوالات کا جواب دینا نا ممکن ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ فرد یا وجود کی حدود متعین ہیں آپ جو کچھ کرتے ہیں و ہ اظہار ہے معاشرتی تعلقات کا جو کچھ ہو رہا ہے وہ تشکیل پاتا ہے۔ “The they”سے۔ یعنی آپ کی روزمرہ کی زندگی Every dayness اس کے مطابق آپ متعین ہوتے ہیں”The They”سے مراد روز مرہ زندگی ہے۔ جو کچھ دن بھر ہوتا رہتا ہے آپ کرتے رہتے ہیں ، چلے جاتے ہیں ، واپس آتے ہیں ۔ کھانا کھاتے ہیں ۔ آپ کا طرز زندگی آپ کو مہلت نہیں دیتا کہ جو کچھ ہوتا رہتا ہے اس کے علاوہ کچھ اور ہونے کی جستجو کرسکیں ۔ چنانچہ آپ کی شخصیت بہت بڑی حد تک اس سے متعین ہوتی ہے کہ the Theyآپ پر کس حد تک غالب آتا ہے ۔

ہائیڈیگر اور Wittegenstein اور ما بعد الطبیعاتی سوالات:

            بامعنی وجود(Authentic Existence) ایک خاص تصور ہے ، “Existence” اس کے مطابق اس وجودیت کو حاصل کرنے کے لیے آپ کو Ontologicalسوالات پہ غور کرنا چاہیے ۔ وہ طرز ِزندگی آپ کو اختیار کرنا چاہیے جو آپ کو The Theyاور Fallennessکی Determinnation سے آزاد کرائے ، یہ Authentic Existence آپ اسی طریقے سے chooseکر سکتے ہیں جب آپ اپنی موت کو سنجیدگی سے لیں۔ Heidegerکہتا ہے کہ آپ جو اکیلا کام صرف اپنے لیے کرتے ہیں ]جہاں آپ کی Existence، مکمل  Realizeہوتی ہے[ وہ آپ کی موت ہے۔ آپ کی موت ہی میں وہ تخلیق ہے جو صرف آپ کرتے ہیں کوئی آپ کے لیے مر نہیں سکتا آپ خود مرتے ہیں ، اپنے لیے مرتے ہیں ۔ چنانچہ Authentic Existenceوہ Existence  ہے جس میں آپ موت کا سنجیدگی کے ساتھ سامنا کرتے ہیں اور موت کا Seriously سامنا کر کے ہی آپ اپنے آپ کو the They سے دنیا داری(Every Dayness) سے نجات دلا سکتے ہیں ۔ لیکن موت کا سنجیدگی سے کیسے سامنا کیا جائے ۔ موت کو بامعنی کیسے بنایا جائے ۔ Heidegerکے پاس کا کوئی جواب نہیں۔ Heideger اس معاملے میں بالکل ویسے ہی خاموش ہے جس طریقے سے Wittengensteinاس بارے میں خاموش ہے کہ Value is out side the world, and how do you access the Value? Truth is out side the world and How do you access the truth?

            اس سوال کا Wittengenstein کے پاس کوئی جواب نہیںاگر فی الواقع Authentic Existenz وہی ہے جو موت کوسنجیدگی سے سامنا کرے تو الہٰی علوم ، علو م لدنی اور معارف کے علاوہ کوئی طریقہ نہیں جس کے ذریعے آپ با مقصد موت کا سامنا کر سکیں۔ Heidegerاور Wittgensteinکے یہاںیہrealizationمو جود ہے کہ مغربی تہذیب نے ان سوالات کوفراموش کر دیا ہے جن کا تعلق مابعد الطبیعاتی حقائق اورموت سے ہے۔ مغربی تہذیب نے وہ تمام راہیں مسدود کردیں ہیں جن کے ذریعے ان سولات کا جواب حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ لیکن Heidegerاور Wittgenstein کوئی نئی راہیں نہیں کھول سکے ۔ اقدار تک کیسے رسائی حاصل کی جائے ، موت کا سامنا کیسے کیا جائے، اس کا جواب Wittgensteinکے پاس ہے نہ Heideger کے پاس۔

زندگی کے معنّٰی کہاں ملیں گے؟

اگر ہم Wittgenstein کی تعلیمات کا خلاصہ عرض کریں تو وہ یہ کہتا ہے کہ معنی کو موت میں تلاش کرنا ہے ۔ معنی کہاں ملیں گے ۔ انسان کو زندگی کی حقیقت کا کہاں ادراک ہوگا؟ موت میں ان معنوں میں Habermasاس کا انکار کرتا ہے وہ کہتا ہے زندگی کے معنی کا ادراک زندگی میں ہوگا ، موت میں نہیں ہوگا۔ معنی زندہ رہنے اور زندگی گزارنے میں حاصل ہوں گے ۔ ]ہیبر ماس بیسویں صدی کااہم فلسفی ہے جو موجودہ دور میں تنویری اقدار کا دفاع پیش کر رہا ہے ۔ موجودہ دور میں اس کی سطح کا کوئی فلسفی موجود نہیں ۔پہلے یہ امریکہ میں تھا اب جرمنی واپس آگیا ہے ۔ یورپین یونین کا Consultant ہے۔[ Habermas کہتا ہے کہ معنی موت میں نہیں ، زندگی میں ہیں اور Selfانسانیت کا حصہ ہے ۔ اور پوری انسانیت میں خصوصیت یہ ہے کہ وہ اسی دنیا میں ایک ساتھ زندگی گزارتے ہیں اور یہ زندگی سب کو مل کر ساتھ گزارنا ہے وہ کہتا ہے کہ اگر نفوس کے درمیان ہونے والا تبادلہ خیال (Inter Subjective communication)صحیح اصولوں کے مطابق مستقل ہوتارہے (یعنی Discourceمیں بھی اور Practicesمیں بھی)، تو اس کے نتیجے میں Experienceکے معنی واضح ہو جائیں گے ۔

ہیبرماس کا فلسفہ کیا ہے؟

ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہیبرماس Hermenueticsاور Phenomenology وغیر ہ سے متثر ہے وہ کہتا ہے کہInter subjective communicationکے ذریعے ہم اپنے تجربات کے ایسے معنی حاصل کر سکتے ہیں جو فی الواقع آفاقی معنی ہوں ہم ایسے حقائق کا ادراک کر سکتے ہیں جو فی الواقع آفاقی حقائق ہوں ۔ اسی دنیا میں ، اسی زندگی کو Shareکر کے اور ایک دوسرے سے بلا روک ٹوک Communicate کر کے ان معنوں کا ادراک کر سکتے ہیں لیکن وہ کہتا ہے کہ دنیا میں فی الواقع ایسا ہوتا نہیں ہے اور وہ کیوں نہیں ہوتا اس کی بہت سی وہ وجوہات بیان کرتا ہے لیکن بنیادی طور پر وہ کہتا ہے کہ سیاسی قوت اس وقت ایسی قوت ہے، جو اس طریقے سے مرتب ہے کہ Inter subjective communicationکو ممکن نہیں ہونے دیتی تو اگر سچی جمہوریت (True Democracy)قائم کی جائے اور سچی جمہوریت سے اس کی مراد یہی ہے کہ Inter subjective communicationکی راہ میں جو رکاوٹیں ہیں (بالخصوص میڈیا نے کھڑی کر رکھیں ہیں مثلاً جو کمیونیکیشن کو distort کرنا وغیرہ) ان کو ختم کر دیا جائے تو ہم Experiencesکا تبادلہ کرکے meaningتک رسائی حاصل کر سکتے ہیں اور meaningتک رسائی حاصل کرنے کے لیے True democracy، قائم کرنا ضروری ہے ۔ ایسی democracyجہاں کمیونیکیشن کوکسی خاص مقصد کے لیے استعمال نہ کیا جا رہا ہو۔ وہاں ہم صحیح معنی تک پہنچ سکتے ہیں ۔

انسان خالق ہے اور خالق کائنات بھی، سارتر کا فلسفہ:

بیسویں صدی کا ایک اور مفکر کہ جس کا Existentialism میں سمجھتا ہوں بہت اہم مقام ہے وہ ہے سارتر۔ سارتر کے مطابق آزادی مطلق ہے اور کوئی بھی ایسے Choices نہیں ہیں کہ جو لازماً انسان کو اختیار کرنے پڑیں ۔ آزادی مطلق ہے اور کوئی قطعی choice موجود نہیں۔ ایسی کوئی بھی چیزیں نہیں جنہیں انسان چننے پر مجبور ہے ۔ بلکہ آزادی absoluteہے ۔ نفس یا ذات یا Self خود کوئی چیز نہیں ہے۔ Selfکو Createکرنا پڑتا ہے یہاں سے بنیادی فرق پید ا ہوتا ہے کہ انسان خالق ہے ۔ The self has to be created۔ Selfخود اپنے آپ کو تخلیق کرتا ہے ۔ اور Selfدنیا کو ویسا بنا سکتا ہے جیسا وہ ہے۔ Selfکے اندر اس کی استطاعت ہے کہ نہ صرف یہ کہ وہ اپنے آپ کو خود تخلیق کرے بلکہ وہ دنیا کو بھی تخلیق کرے۔ وہ دنیا کو جس طریقے سے بھی چاہتا ہے تخلیق کر سکتا ہے اس لیے کہ کوئی بھی Choiceقطعی اور ضروری نہیں ہے۔ آزادی تو مطلق ہے ۔

انسان کا خدا نہ بننا Bad Faith ہے:

چنانچہ انسان خالق ہے اپنے آپ کا بھی اور کائنات کا بھی۔ وہ کائنات کو ویسا ہی بنا سکتا ہے جیسا وہ اس کو بنانا چاہتا ہے ۔ چنانچہ جس چیز کی بنیاد ی طور پر انسان کوشش کرتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ خدا بن جائے۔ Explicity سارتر کے ہاں یہ تصور مو جود ہے ]پوری تاریخ میں بین السطور اور سارتر صاف الفاظ میں کہتا ہے کہ انسان کی اصلی خواہش یہی ہے کہ وہ خدا بن جائے ۔ خدا کن معنوں میں بن جائے؟ ان معنوں میں کہ وہ جوچاہے اسے ممکن بنا دے۔[ اور اگر آپ خدا نہیں بننا چاہتے تو یہی Bad Faithہے۔ Bad faithیہ ہے کہ آپ خدا نہ بننا چاہیں۔ دوسری جگہ وہ کہتا ہے دوسرے کا وجود جہنم ہے(Hell is other people) ۔ دوسرے کا وجود جہنم ہے کا مطلب یہ ہے کہ وہ بھی خدا بننا چاہتے ہیں لہٰذا خدا بننے کا عمل کیا ہے ۔ خدا بننے کا عمل یہ ہے کہ آپ جستجو اور جدو جہد کریں زیادہ سے زیادہ آزادی کے لیے اور تخلیقیت کے لیے اور زیادہ سے زیادہ اس کو ممکن بنانے کے لیے کہ جیسا آپ دنیا کو بنانا چاہتے ہیں اسے ویسا بنا دیں ۔ یا آپ خود جیسا بننا چاہتے ہیں ویسا بن جائیں ۔ لیکن سارتر کا ہی ایک ہم عصر اور اس کا ساتھی Camusکہتا ہے کہ یہ نا ممکن ہے۔ آپ کی تخلیقیت کی ایک حد ہے اور وہ حد کیا ہے ؟ وہ موت ہے ۔ جس وقت آپ مر جاتے ہیں اس وقت کیا واضح ہوتا ہے ۔ اس وقت یہ واضح ہوتا ہے زندگی ایک مہمل چیز ہے ۔ زندگی بے معنی شے ہے ۔ تو فی الواقع زندگی ایک tregedyہے ۔ Tregedyان معنوں میں ہے کہ کوشش آپ اس چیز کی کرتے ہیں جو چیز کبھی ممکن ہو نہیں سکتی ۔ جس چیز کو آپ کبھی تخلیق کر نہیں کر سکتے ۔ وہ ابدیت ہے ۔ آپ بنیادی طور پرخدا بننا چاہتے ہیں تو خدا کی تو یہی ہے خصوصیت ہے کہ نہ اس کی انتہا ہے، نہ ابتدا۔ انسان کی انتہا موت ہے لہٰذا خود تخلیقیت کے لیے انسان کی سعی وجد و جہد اور کائنات کی تخلیقیت کی کوشش فعل عبث ہے اس لیے کہ انسان کی موت یہ ثابت کرتی ہے کہ انسان محدود ہے اور انسان کی تخلیقیت اختتام پذیر ہے۔

فوکالٹ کا فلسفہ۔ آفاقی قوانین تخلیق نہیں کیے جاسکتے:

            ایک دو اور فلسفیوں کا تذکرہ کروں گا لیکن بنیادی طور پر آخری فلسفی جس کا میں تذکرہ کروں گا وہ ہے Foucault ۔ فوکالٹ کے دو استاد تھے اور دونوں ہی structuralist تھے۔ ایک Levi Straussاور دوسرا Althuser۔ جومارکسٹ تھا  materalist Levi Strauss اور anthropologist تھا اور اس کا اثر فوکالٹ پر ہوا۔ حالانکہ فوکالٹ کا مقام Levi Straussاور Althuser سے بلند ہے ۔ فوکالٹ محض Structualist نہیں ہے بلکہ ایک آگے کی چیز ہے اس کی فکر میںزیادہ گہرائی ہے وہ مغربی تہذیب کے زیادہ آدرشوں کو جمع کرتا ہے۔فوکالٹ بیسویں صدی کے دوسرے آخر کابہت اہم فلسفی ہے ۔چنانچہ گفتگو شروع کرتے ہیں اس سوال سے کہ ساختیت (Structuralism) کا بنیادی خیال کیا ہے؟ ۔ ساختیت کا بنیادی خیال یہ ہے کہ انسانی تعلقات کے جو قوانین ہیں ان کا ادراک آپ زبانوں یا ثقافت کے تجزیے کے ذریعے کرسکتے ہیں۔ ثقافت اور زبان کے تجزیے کے ذریعے آپ یہ بھی جان سکتے ہیں کہ انسانوں کے رویوں کو متعین کرنے والے قوانین کون سے ہیں ۔ اسی بنیادی خیال کی تجدید Modify کر کے فوکو نے مغربی تہذیب کا مطالعہ کیا ۔ مغربی تہذیب کے جو کلیدی تصورات ہیں ان کا جائزہ لیا اور ان کی geneologyدریافت کرنے کی کوشش کی ۔ اس نے مغربی تہذیب کا مطالعہ کیا تاکہ وہ معلوم کر سکے کہ مغربی اقدار کی جو تاریخی جڑیں ہیں (Historical Root)وہ کیا ہیں۔ کہاں سے وہ تصورات نکلے ہیں جن تصورات کی بنیاد پر آج مغربی تہذیب اپنی توجیہہ(Justification) پیش کرتی ہے وہ تمام تفصیل بیان کرنے کا اس وقت مو قع نہیں ۔ جو چیز ہمارے لیے ضروری ہے وہ یہ کہ اس علم کے ذریعے سے وہ اس نتیجے تک پہنچا کہ ایسے قوانین جو آفاقی ہوں وہ کسی خاص تہذیب کے مطالعے سے یا کسی خاص Ideologyکو واضح کرنے سے نہیں نکلتے ۔

            مغربی تہذیب کا اس نے جو مطالعہ کیا۔ مغربی تہذیب کاجو اس نے تجزیہ کیا اس نے اس کو اس نتیجے پر پہنچا دیا کہ آفاقی قوانین کو deriveنہیں کیا جا سکتا۔

مغربی تہذیب انسان کی موت کا اعلان کرتی ہے:

            فوکالٹ کہتا ہے کہ ان معنوں میں مغربی تہذیب کا المیہ یہ ہے کہ یہ صرف خدا کی موت کا اعلان نہیں کرتی(جیسے کہ نطشے نے کہا تھا کہ خدا مر گیا) بلکہ یہ تہذیب تو انسان کی موت کا بھی اعلان کرتی ہے ۔ خدا مر گیا ان معنوں میں کہ اب will to powerکے نتیجے میں ہم اپنی بقاء کو ensure کر سکتے ہیں۔ اور ہمیں کسی خدا کی ضرورت نہیں کہ زندگی کیسے بسر کی جائے تاکہ ہمیں ابدی زندگی ملے، نہیں ۔ will to powerکے ذریعے ہم خود Surviveکر سکتے ہیں ۔ فو کو کہتا ہے کہ یہ صرف خدا کی موت نہیں بلکہ انسان کی بھی موت ہے(This is not only the death of God but also the death of man) ۔ انسان کی موت کیا ہے؟ ہم اپنے تجربات کے حوالے سے آفاقی قوانین نہیں شناخت کر سکتے جس کی بنیاد پر ہم کہہ سکیں کہ انسانیت کے زندگی گزارنے کا جو طریقہ ہے وہ یہ طریقہ ہے۔ چنانچہ وہ کہتا ہے کہ علم معاشرتی بنیادوں پر تشکیل کردہ ہے اور علم کو جولوگ معاشرتی بنیادوں پر تشکیل دیتے ہیں ان کا اس کے پیچھے ایک خاص مقصد ہوتا ہے وہ مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ ایک خاص معاشرے کے اندر وہ غالب رہیں۔

مغربی تہذیب کا بنیادی مقصد دنیا پر غلبہ ہے:

فوکالٹ کے یہاں علم اور قوت ایک ہی چیز ہے ۔ وہ علم اور قوت کے درمیان ایک لکیر کھینچتا ہے ۔ جب بھی وہ علم اور قوت لکھتا ہے تو لکھتا ہے قوت علم (Knowlge/Power)۔ علم اور قوت ایک ہی چیز ہے ۔ علم بھی اسی لیے حاصل کیا جاتا ہے ۔ ان معنوں میں وہ Nietzshean ہے چوں کہ اس کے نزدیک بھی اصل چیز بقاء ہے۔ اصل چیز زندہ رہنا ہے ، اصل چیز با لا دستی قائم کرنا ہے حق کی تلاش اصل نہیں ہے ۔ چنانچہ مغربی تہذیب کے بنیادی آدرش ، مغربی تہذیب کی بنیادی اقدار مغربی تہذیب کو غالب کرنے کے سوا کچھ نہیں ۔ فو کو کہتا ہے کہ مغربی فکر کے بنیادی تصورات بنیادی طور پر مغرب کے غلبہ کے ذرائع ہیں اور گو کہ وہ ان اقدار کو حق سمجھتا ہے ۔ یعنی فوکو کے ہاں آزادی کی کوئی نفی نہیں۔ (آزادی وہ واحد تصور ہے جس پر مغرب کا ہر مفکرمتفق ہے) آزادی قدر مشترک ہے جو مغربی تہذیب کی بنیادی خصوصیت ہے وہاں آزادی پر یقین ہے ایمان ہے ۔ آزادی پر ایمان انسان پر ایمان  کے مماثل ہے یوں کہہ سکتے ہیں کہ انسان قائم با لذات ہے ۔ اسی لیے مغربی تہذیب کا بنیادی کلمہ ہے لاالہ الاالانسان ۔ اس کو کہیں زور سے کہا گیا ہے کہیں کم زور سے کہا گیا ہے ۔ اہلِ مغرب کم از کم علمی بنیادوں پرآزادی کی قدر پرمتفق ہیں ۔ فوکو بھی متفق ہے ۔ فوکو کے ہاں اس کی realizationاس کا اقرار کہ مغرب کی اقدار کا فروغ غلبے کا ہی ذریعہ ہے اور ان کی کوئی آفاقی حیثیت نہیں وغیرہ۔ اس کے نتیجے میں وہ یہ فیصلہ نہیں کرتا کہ یہ اقدار رد کیے جائیں ایسا نہیں ہے وہ یہ کہتا ہے کہ انسان اس چیز کی مستقل کوشش کرتا ہے کہ اپنی خود ارادیت کو بر قرار رکھ سکے وہ غلبہ کے خلاف ہمیشہ جد جہد کرتا ہے لیکن اس کو یہ خود ارادیت کس چیز نے بخشی ہے ، سرمایہ داری نے ۔ کیپٹل کوناگزیر inevitableسمجھتا ہے۔ بیسویں صدی کے بڑے مفکرین میں اکثریت ان فلسفیوں کی ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کو آزادی کے حصول کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ فوکو سارتر ہیبرماس کے یہاں سرمایہ دارانہ نظام کو transcendکرنا ان کے ایجنڈا میں کسی نہ کسی شکل میں شامل رہتاہے ۔(حقیقت میں عملاً یہ ناممکن ہے لیکن in principleموجود ہے )۔ فوکو کے ہاں یہ بات بالکل واضح ہے کہ سرمایہ دارانہ داخلیت ہی وہ داخلیت ہے کہ جس نے ہمیں آزادی عطا کی ۔ چنانچہ غلبے کو ختم کرنے کی ہماری جدوجہد دراصل مخصوص غلبہ کو ختم کرنے کی جد و جہد ہے ۔

            یہ جدوجہد سرمائے کی داخلیت کو ختم کرنے کی جد و جہد نہیں ہے ۔ ہم اس پہ مطمئن ہیں کہ ہم capital کے بندے ہیں [God] خدا کے بندے نہیں ہیں۔ اس پر فو کو بالکل مطمئن ہے اور اس کے ہاں کوئی ایسی چیز مو جود نہیں جیسے کہ سارتر کے ہاں مو جود ہے جیسے Camus کے ہاں مو جود ہے۔وہ کہتا ہے کہ ہمیں ہمیشہ تجربے کرتے رہنا چاہیے ۔ تاکہ Dominationکم ہو۔ اور Capitalist Subjectivity،  internalizeہو۔ ہم خو د subject of Capitalنہیں ۔ ہمیں capitalکے subjectبننے کے اوپر مجبور نہ کیا جا سکے ۔ چنانچہ سرمایہ داری میں Struggleکی جگہ مو جود ہے

لیکن یہ جد و جہد ایسی جد و جہد نہیں ہونی چاہیے جس کے نتیجے میں سرمایہ دارانہ subjectivityخطرے میں پڑ جائے ۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے بلکہ struggleایسی ہونی چاہیے جو محض مخصوص dominationکو کم کر سکے ۔ اور capitalist subjectfication جو ہے وہ internalizeہو جائے ۔ انسان خوشی سے سرمائے کی داخلیت کو خود قبول کرلے۔

Derrida کا فلسفہ کیا ہے؟

            آخری آدمی جس کے باے میں کچھ عرض کروں گا وہ Derridaہے اس کی بھی ساختیت (Structuralism)میں اہمیت ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ تمام struggleوغیرہ بے معنی ہے اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ اصل میں subjectتو ہے ہی نہیں ۔ انسان تو مو جود ہی نہیں ۔ صرف تعلقات ہیں ان کے آپ کتنے بھی Analysisکر لیں آپ کو یہ پتا چلتا ہے کہ ایک خاص power structrueکو sustainکرنے والے ہیں لہٰذا آپ تو محض deconstructکر سکتے ہیں ۔ نہ کوئی subject ہے نہ کوئی authorہے کچھ بھی نہیں ہے صرف تعلقات کا ایک تانا بانا ہے ۔ اس کو آپ جب دیکھتے ہیں تو یہ دیکھتے ہیں کہ قوت کیسے مر تکز ہو رہی ہے ۔ آپ کو ہر چیز کی اصل حقیقت کو بیان کر دینا ہے اور وہ کیسے بیان کر سکتے ہیں [through a power of deconstruction]۔ Derrida کی رائے کے نتیجے میں کوئی مثبت خیال اس کے ہاں سے نہیں نکلتا ۔ لیکن مغربی تہذیب کے مختلف آدرشوں کی جو inconsistenciesہیں ان inconsistencies کو بیان کرنے کے لیے Derridaکا جو discourseوہ کسی نہ کسی حد تک اہمیت کا حامل ہے ۔  ہمارے لیے یہ ضروری بات ہے کہ ہم اسلامی الہٰیات اور اسلامی تصورات ontologyکے سوالات کو بنیاد بنا کر اسی طریقے سے کہ جس پر ہمارا اجماع ہے ان مغربی مفکرین کا اسلامی محاکمہ پیش کریں۔ کانٹ ، ہیگل ، مارکس نطشے، فرائڈ ، ونٹگسٹائن ، ہییرماس ، ہائی ڈگر اور فوکو۔ جب ہم یہ کام کرناشروع کریں گے اس وقت ہم مغربی تہذہب کی اصلیت اورروحانیت کا ادراک حاصل کر سکیں گے ۔ مغربی تہذیب ایک باطل تہذیب ہے اور مغربی تہذیب سے کسی مصالحت کا سوال پیدا نہیں ہوتا اس کی وجہ یہ ہے کہ مغربی تہذیب کے اعتقادات  حق، خیر، آخرت کی نفی پر مشتمل ہیں اور یہ خالص کفر ہیں انسان کے بارے میں، کائنات کے بارے میں ۔ تصور خیر کے بارے میں تصور حق کے بارے میں۔ یہ انکار شرک سے بھی آگے کی ایک منزل ہے ۔مغرب اور مذاہب عالم اور خصوصا اسلام کے مابین  بنیادی نوعیت کے علمیاتی اختلافات ہیں لہذا مغرب و مشرق کے درمیان مصالحت و مکالمے کی کوشش ایک غیر فطری کوشش نظر آتی ہے۔